نام تو بابے کا فضل تھا مگر سب بابا پھجا کہتے تھے۔ وسط ایشیائی سٹائل کی داڑھی تھی۔ سائڈوں سے کم اور لمبائی میں نسبتاً زیادہ۔ افطار کے وقت سے کافی دیر پہلے ہی ہم سب بچے مسجد کے اردگرد جمع ہونا شروع ہو جاتے تھے‘ کچھ سامنے گلی میں کچھ مسجد کے صحن میں کچھ ساتھ والے مکانوں کی چھتوں پر۔ پھر لمحہ لمحہ اشتیاق بڑھنے لگتا۔ نظریں بابے پر ہوتیں اور اس ڈرم پر جو مسجد کے صحن کے کونے میں تھا۔ مسجد کے ساتھ والی گلی مسجد کا صحن اور اردگرد کی چھتیں بچوں سے بھر جاتیں۔ بابا دونوں ہاتھوں میں لکڑی کے دو ڈنڈا نما ٹکڑے لیے کھڑا ہوتا پھر نہ جانے اسے کہاں سے اشارہ ملتا یا کون بتاتا کہ وقت ہو گیا ہے وہ لکڑی کے دونوں ٹکڑوں سے ڈرم کو بجانا شروع کر دیتا یہی وہ لمحہ ہوتا جب ہم بچوں پر عالم بے خودی طاری ہو جاتا۔ ایک جا دو ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ ہم پلکیں جھپکنا اور شاید سانس لینابھی بھول جاتے۔ ڈرم بجنے کا موسیقی سے دور دور کا کوئی تعلق واسطہ نہ تھا مگر ہم مسحور ہو جاتے۔ یہ ایک بہت بڑی انٹرٹینمنٹ تھی۔ ڈرم کافی دیر بجتا رہتا۔ ہم ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے۔ پھر بابا یہ تماشا بند کر دیتا وہ خود ہمیشہ ڈرم بجانے کے بعد روزہ کھولتا۔
ان دنوں ہمارے قصبے میں گھروں میں افطار دعوتوں کا رواج کم تھا‘ نہ ہونے کے برابر۔ مگر اس کی ایک اور صورت تھی ہر گھر سے دوسرے گھر میں افطار کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور بھیجا جاتا۔ پکوڑے یا پلائو‘ قورمہ یا زردہ‘ پھل یا شربت‘ گلیوں میں آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ سرپوشوں سے ڈھکے ٹرے گھروں کے درمیان گھومتے رہتے۔
ریفریجریٹر تھے نہ ایئر کنڈیشنر‘ برف خرید کر لانا ایک الگ سرگرمی ہوتی۔ برف والا برف کی چٹانوں کو پٹ سن کی بوریوں میں لپیٹ کر محفوظ رکھتا اس کے پاس ایک خوفناک سوا ہوتا جسے وہ برف کے بڑے ٹکڑے کے کلیجے میں مارتا اور بڑا ٹکڑا چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا اس کے اردگرد گاہکوں کا ہجوم ہوتا قطار بندی کا اس وقت بھی رواج نہ تھا خوش قسمت گاہکوں کو دھکم پیل میں آگے جانے کا موقع ملتا‘ ہم بچے اندر اندر ہی سے آگے بڑھ کر اس کے پاس جا پہنچتے اور جب تک ہمیں برف نہ دیتا ہم مسلسل کہتے رہتے کہ اتنے کی برف چاہیے!
یہ عجیب بات ہے کہ پلٹ کر دیکھیں تو سردیوں کے روزے یاد نہیں آتے۔ گرمیوں کے سخت شدید گرمیوں کے روزے یاد آتے ہیں۔ دوپہر کو گلیوں میں ہو کا عالم ہوتا‘ جیسے قصبہ نہیں کھنڈر ہے‘ ظہر کی نماز کے لیے قیلولہ سے اٹھے ہوئے نمازی سر اور گردنیں ڈھانپ کر مسجد کا رخ کرتے پھر عصر کے بعد چہل پہل شروع ہوتی!
بہت سے رمضان موسم گرما کی تعطیلات میں آئے۔ یہ تعطیلات ہم اپنے گائوں میں گزارتے‘ وہی ہمارا ہل سٹیشن تھا۔ قصبے میں جہاں والد صاحب ملازمت کرتے تھے‘ بجلی کی سہولت میسر تھی مگر گائوں میں وہ بھی نہ تھی۔ دن بھر لوگ مسجد میں کوزے بھر بھر کر نہاتے اور بچوں کو پانی ضائع کرنے پر ڈانٹتے۔ مسجد کی ٹینکی میں پانی والا چمڑے کی مشک سے پانی ڈالتا‘ پانی والے کو ’’خادم‘‘ کہا جاتا تھا۔ ایک وقت میں وہ کنوئیں سے دو مشکیں اپنے گدھے پر لاد کر لاتا۔ کنواں گائوں سے کچھ فاصلے پر تھا۔شام کے بعد وہ ٹوکرا اٹھائے گھر گھر دروازے دروازے روٹی مانگتا کچھ مخیر گھرانے اسے ساتھ سالن بھی دیتے۔ کئی دفعہ وہ پانی ٹینکی میں ڈالتا تو ہم بچے اسے غور سے دیکھتے - چمڑے کی ڈوری سے مشک کا منہ کس کر بندھا ہوتا۔ اس ڈوری کو وہ کھولتا۔ بہت سے بل نکالتا پھر مشک کا منہ ٹینکی کے دہانے میں ڈال کر مشک کو پیچھے سے اوپر کرتا پانی ٹینکی میں منتقل ہو جاتا۔ پھر وہ اگلے پھیرے کے لیے کنوئیں کا رخ کرتا۔ اب جب مشکیں خالی ہوتیں تو اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر وہ خود گدھے پر سوار ہو جاتا یوں کہ دونوں پائوں ایک طرف ہوتے۔ کچھ مخصوص گھروں میں بھی وہ پانی ڈالتا۔ یہ وہ گھر ہوتے جن کی عورتیں کنوئیں سے گھڑے بھر کر خود نہ لاتیں ان میں ہمارا گھر بھی شامل تھا۔ دادی جان پردہ تو نہیں کرتی تھیں مگر گھڑے سر پر رکھ کر پانی کبھی نہ لائیں۔ ہاں کپڑے دھونے کے لیے گائوں سے باہر واقع تالابوں میں جنہیں وہاں ’’بنھ‘‘ کہا جاتا تھا خود جاتیں۔ ان کے سر پر میلے کپڑوں کا گٹھٹر ہوتا ایک ملازمہ ٹائپ لڑکی کڑاہی‘ ایلومینیم کی پرات اور صابن اٹھائے ساتھ ہوتی ہم بچوں کے لیے یہ پکنک کا موقع ہوتا جتنی دیر خواتین کپڑے دھوتیں ہم کھیلتے۔ محبوب ترین کھیل گیلی ریت سے مکان بنانا ہوتا پائوں کے اوپر گیلی ریت جماتے۔ پھر آہستہ سے پائوں پیچھے کھینچ لیتے۔ لیجیے مکان تیار ہو جاتا۔ پھر ہمیں مائیں دادیاں آوازیں دیتیں۔ نہلائے جاتے جھاڑیوں پر ٹنگے کپڑے اتنی دیر میں سوکھ چکے ہوتے وہ پہنائے جاتے۔ واپسی کا منظر سخت اداس کرنے والا ہوتا۔ جن چولہوں پر کپڑے دھونے کے لیے پانی گرم کیا گیا تھا ان کی راکھ ٹھنڈی ہو کر رو رہی ہوتی۔ گیلی ریت کے گھروندے ہمیں بلا رہے ہوتے کہ ٹھہر جائو ابھی اور بھی کھیلو‘ مگر ہم واپس گائوں کا رخ کرتے!
سخت گرمیوں کے روزوں میں گائوں میں پتلی نمکین لسی افطار کا بہترین مشروب ہوتا یہ کثیر مقدار میں پی جاتی۔ بعض دفعہ لسی میں بکری کے دودھ کی تازہ دھار ڈالی جاتی۔ ہمارے علاقے میں اسے ’’تریڑ‘‘کہتے تھے۔ نہ جانے وسطی پنجاب میں کیا کہتے تھے۔ مگر یہ وہاں بھی ضرور پی جاتی ہو گی! افطار کے بعد مرد مسجد کا رخ کرتے۔ نماز پڑھ کر آتے تو کھانا کھاتے۔ مرد چارپائیوں پر بیٹھ کر اور خواتین پیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھاتیں۔ کئی بار دیکھا کہ مسجد میں افطار کا وقت ہوا تو بابوں نے اپنی اپنی جیب سے نمک کے ٹکڑے نکالے۔ انہیں چاٹ کر افطار کیا پھر نماز پڑھی اور گھر آ کر کھایا پیا۔ کیا لوگ تھے۔لوہے کی طرح مضبوط ۔ چٹانوں کی طرح سخت! گرمی کی شکایت نہ پیاس کا واویلا۔ روزہ رکھ کر کڑکتی چلچلاتی دھوپ میں ہل چلاتے۔ گندم کاٹتے‘ مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے تالابوں جوہڑوں کنوئوں کو لے جاتے۔ سروں پر ایندھن کے پہاڑ جتنے گٹھڑ اٹھا کر واپس گائوں لاتے۔ یہی نہیں ایک دوسرے کے کام بھی آتے۔ مزدور اور لیبر نام کی مخلوق ان دنوں ابھی وجود میں نہیں آئی تھی۔ مکان کی تعمیر ہوتی یا کھلیان میں ’’گاہ‘‘ کا موقع ہوتا‘ شادی کا سماں ہوتا یا کسی کے ہاں موت واقع ہو جاتی سب وہاں کام کرتے جس کا کام ہوتا وہ صرف کھانے کی میزبانی کرتا۔ موت والے گھر میں قبر کی کھدائی سے لے کر تدفین تک‘ باہر سے آنے والے سوگواروں کی مہمانی سے لے کر انہیں رخصت کرنے تک سارا کام گائوں والے کرتے۔صاحب واقعہ کو اس موقع پر کسی تردد میں نہ ڈالا جاتا۔ بعد میں وہ اخراجات پر اٹھی رقم ادا کر دیتا۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا کہ اخراجات بتاتے وقت ایک پیسے کی کیا‘ ایک دھیلے کی بھی غلط بیانی ہوتی۔
آج اس گئے گزرے افراتفری اور نفسا نفسی کے زمانے میں بھی میرے گائوں میں یہ رواج پتھر کی لکیر کی طرح ہے کہ جہاں موت کی خبر ملی وہاں اسی لمحے کام روک دیا جاتا ہے۔ ٹریکٹر بند کر دیا جاتا ہے‘ مکان کی تعمیر رک جاتی ہے۔تھریشر خاموش ہو جاتا ہے۔ تدفین تک کوئی کام نہیں ہوتا۔ موت والا گھر شیعہ ہے یا سنیّ‘ سب وہاں جمع ہوتے ہیں سب کام کرتے ہیں عمر رسیدہ حضرات کام تقسیم کرتے ہیں‘ جوان سر جھکا کر احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ جنازے پر شیعہ سنی سب حاضر ہوتے ہیں۔باہر سے آنے والے سوگواروں کو کھانا کھلائے بغیر جانے نہیں دیا جاتا۔ گائوں والے دیوار بن کر واپسی کا راستہ مسدود کر دیتے ہیں۔ اب تو دنیا ہی اور ہے۔ ایک اصطلاح نکلی ہے’’افطار ڈنر‘‘ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ درجنوں آئٹم آپ افطار میں تناول فرمائیں پھر مشروبات نوش جان کریں۔ چائے بھی پئیں اور دس منٹ بعد پھر ڈنر کریں!! فارسی کا شعر ہے ؎
گرچہ خدا گفت کلوا واشربو ا
لیک نہ گفتست کُلوا تا گُلو
کہ مانا اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ کھائو پیو مگر یہ کہاں فرمایا کہ گلے تک اپنے آپ کو بھر لو!!
No comments:
Post a Comment