یہ روایات زبان زدِ خاص و عام ہیں! کون مسلمان ان سے واقف نہیں؟
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران حضرت عمر فاروقؓ نے ’’ابوالحسن‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ یہ ان کی کنیت تھی اور نام کے بجائے کنیت سے مخاطب کرنا احترام و عزت کی علامت تھا مگر حیدرِ کرارؓ نے اسے پسند نہیں کیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ مخاطب کر کے فریق ثانی کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے!
اور اس روایت سے بھی کون آگاہ نہیں کہ جب خلیفہ وقت قاضی کی عدالت میں داخل ہوئے تو قاضی احتراماً کھڑا ہو گیا۔ فرمایا یہ پہلی ناانصافی ہے جو تم نے روا رکھی!
عدالتوں پر ایسے اعتراضات کرنے سے کسی پر توہین عدالت کا الزام نہیں لگا۔ کوئی آسمان نہیں گرا!ریاست کا کوئی ستون منہدم نہیں ہوا۔ عدلیہ کے وقار میں رمق بھر کمی اس سے نہیں آئی!
حمزہ شہباز اور عائشہ احد ملک کو قاضی القضاۃ نے اپنے چیمبر میں بلا کر ان دونوں کے درمیان معاہدہ کرایا!
کیوں؟
کیا حمزہ شہباز اور عائشہ احد ملک ان ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں سے برتر ہیں جن کے ازدواجی معاملات پر مشتمل مقدمے سالہا سال سے عدالتوں میں پڑے ہیں؟ آخر ان میں ایسی خاص بات کیا تھی کہ ایک مصروف ‘ انتہائی مصروف‘ قاضی القضاۃ نے پورا ایک گھنٹہ ان کے معاملات کو ’’سلجھانے‘‘ میں صرف کیا! ایک طرف قاضی القضاۃ کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ وہ اتوار کو بھی مقدمے سنتے ہیں وہ بارہ بارہ گھنٹے مسلسل مسند عدالت میں بیٹھتے ہیں دوسری طرف کروڑوں پاکستانیوں میں سے وہ ایک صاحب اور صاحبہ کو چنتے ہیں اور اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ عدالت عام میں مقدمہ سننے اور فیصلہ کرنے کے بجائے انہیں اپنے حجلہ خاص میں بلا کر‘ ذاتی مداخلت سے صلح کراتے ہیں!
وہ حمزہ شہباز کو عدالت میں تجویز پیش کرتے ہیں کہ اگر تم نے شادی کی تھی تو طلاق دینے کا حق استعمال کرو! حمزہ کہتے ہیں کہ شادی ہوئی ہی نہیں! اس پر قاضی القضاۃ کہتے ہیں کہ اگر ثابت ہو گیا کہ بغیر شادی کے اکٹھے رہتے رہے تو یہ ایک بڑی خجالت ہو گی! اتنی فکر!! اتنی دلگیری!!
قاضی القضاۃ صرف ایک مرد یا صرف ایک عورت کے قاضی نہیں! وہ پوری قوم کی عدلیہ کے سربراہ ہیں۔ ان کے نزدیک ہر پاکستانی مرد اور ہر پاکستانی عورت اتنی ہی اہم اور خاص ہونی چاہیے جتنی عائشہ احد ملک اور حمزہ شہباز ہیں! کیا قوم کے ہر بیٹے اور ہر بیٹی کے باہمی ازدواجی معاملات اپنے چیمبر میں انہیں بلا کر اور بٹھا کر حل کرائیں گے؟ کیا وہ ہر پاکستانی کو خجالت
(Major Embarrassment)
سے بچانے کے لیے اتنی ہی تشویش کا اظہار فرمائیں گے؟ اتنا وقت نکالیں گے؟
یہ ایک سیدھا سادا مقدمہ تھا اس قبیل کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں مقدمے عدالتوں میں پڑے ہیں۔ دونوں میں سے ایک ضرور مجرم تھا! اگر نکاح نہیں ہوا اور عائشہ احد منکوحہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور کر رہی ہیں تو وہ ایک مجرم ہیں! انہیں اس دروغ گوئی کی سزا ملنی چاہیے! انہوں نے ایک شریف شخص پر شادی کر کے مکرنے کا الزام لگایا! یہ کوئی معمولی جرم نہیں! یہ کسی کی زندگی خراب کرنے اور اسے خاندان میں‘ اپنے بیوی بچوں کی نگاہ میں رسوا کرنے والی بات ہے۔ سوسائٹی میں اس کی شہرت کو داغدار کرنے والا معاملہ ہے! اگر عورت مجرم ہے اور نکاح نہیں ہوا تو قاضی القضاۃ اس واشگاف جرم پر سزا کیوں نہیں سناتے؟ چیمبر میں بلا کر سزا سے بچا کیوں رہے ہیں؟ اور اگر فی الواقع نکاح ہوا تھا اور خاتون کے پاس‘ جیسا کہ وہ دعویٰ کرتی ہیں گواہ موجود ہیں ‘ تو پھر حمزہ مجرم ہیں وہ ایک شرعی نکاح سے انکار کر رہے ہیں اور ایک خاتون کو معاشرے میں ناگفتنی مسائل سے دوچار کر رہے ہیں! خاتون کا دعویٰ ہے کہ اس پر تشدد کیا گیا۔ اسے تھانوں میں بلایا گیا‘ اس پر مقدمے دائر کیے گئے اگر یہ سب سچ ہے تو چیمبر میں بلانے سے یہ سارے جرائم کس طرح دھل کر کالعدم ہو گئے؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر آپ کا تعلق ایک طاقت ور‘ زبردست خانوادے سے ہے تو آپ نکاح کر کے مکر جائیے منکوحہ کو ڈرائیے دھمکائیے اس پر تشدد کیجیے کرائیے‘ پھر جب وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے تو آپ سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو‘ عدالت عظمیٰ آپ کو عدالت سے الگ ‘ اپنے چیمبر میں بلا کر کلین چٹ دے دے اور معاہدہ کرا دے! کسی جرم کی سزا نہ ملے! کیا اس سے ایک مثال ایک نظیر نہ قائم ہو گی کہ ایسا کر کے بچا سکتا ہے؟
پاکستانی عدالت عظمیٰ کے سربراہ ایک طرف پانی جیسے مسئلے کو حل کرانے میں رات دن ایک کر رہے ہیں۔ ایڑیاں رگڑتے مریضوں کی دلجوئی کے لیے قیمتی وقت نکال کر ہسپتالوں کے معائنے کر رہے ہیں دوسری طرف وہ ایک میاں بیوی یا مبینہ میاں بیوی کو اتنا وقت دے رہے ہیں اس قدر اہمیت دے رہے ہیں کہ معاہدے کی خوش خبری قوم کو بنفس نفیس دے رہے ہیں! خود اعلان کرتے ہیں!! دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے بجائے قاضی القضاۃ فیصلہ سناتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف کوئی بیان نہیں دیں گے اور یہ کہ معاہدے کی تفصیلات اور شرائط کو پبلک نہیں کریں گے؟ کیا قوم کو اس معاہدے کی تفصیلات جاننے کا کوئی حق نہیں؟ آخر اس معاہدے میں ایسی کون سی خفیہ شقیں ہیں کہ ان کے ظاہر ہونے سے قوم کو یا ملک کو یا دفاع کو خطرہ پیش آئے گا؟
اُس بچی کا باپ آخر کون ہے جس کے بارے میں عائشہ احد ملک کا دعویٰ ہے کہ وہ حمزہ شہباز کی بیٹی ہے؟ اس خفیہ معاہدے کا اثر اس بچی پر کیا پڑے گا؟ یہ سوال بھی ابھی تک موجود ہے کہ کیا نکاح ہوا تھا؟ یا عائشہ ملک کا دعویٰ جھوٹ اور بلیک میلنگ پر مبنی ہے؟ کیا کوڑے کرکٹ کو قالین کے نیچے چھپانے سے صفائی ہو جائے گی؟ اور معاملات کو جس طرح چھپا کر مسئلے کو وقتی طور پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیا اس سے اصل حقیقت پر ہمیشہ کے لیے پردہ پڑا رہے گا؟اور کیا بچی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے سے سارا معاملہ واضح نہیں ہو جائے گا۔؟
کب تک اس ملک میں انصاف کے پیمانے بڑوں کے لیے الگ اور عامیوں کے لیے الگ ہوں گے؟ کب تک ہر پاکستانی کو حمزہ شہباز اور عائشہ احد جتنی اہمیت نہیں دی جائے گی؟ ان سینکڑوں ہزاروں جوڑوں کی قاضی القضاۃ کے چیمبر میں حاضر ہونے کی باری کب آئے گی جن کے ازدواجی معاملات اسی نوعیت کے ہیں؟ اگر عائشہ احد سچی ہیں تو حمزہ شہباز کی صداقت اور امانت کتنے پانی میں ہے؟وہ الیکشن لڑنے لگے ہیں ! کل وہ صوبے کے حکمران اعلیٰ بن سکتے ہیں یا وفاق کا کوئی اعلیٰ عہدہ سنبھالیں گے ایک شخص جو اپنی مبینہ بیوی اور مبینہ بیٹی کے ساتھ معاملات درست طور پر طے نہیں کر سکتا‘ وہ حکمرانی کے فرائض انصاف سے کیسے سرانجام دے گا؟ اور اگر عائشہ احد جھوٹی اور بلیک میلر ہے تو پھر کیا یہ ایک نظیر قائم نہیں ہو جائے گی کہ آپ خاتون ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی بااثر اور امیر کبیر کی بیوی ہونے کا اعلان کر دیں!
سابق چیف جسٹس عمران خان کی ایک مبینہ بیٹی کا معاملہ لے کر آنے والے ہیں۔ کیا عمران خان بھی اس نظیر سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ کیا انہیں اور سابق چیف جسٹس کو بھی چیمبر میں بلا کر قاضی القضاۃ یہ طے کرائیں گے کہ پبلک میں معاملے پر کوئی رائے زنی نہ کی جائے؟ اور یہ کہ معاہدہ خفیہ رہے گا؟ کیا خصوصی چیمبروں کے دروازے صرف حمزہ شہبازوں عائشہ احدوں اور عمران خانوں ہی کے لیے کھلتے رہیں گے؟ عام پاکستانیوں کے لیے نہیں؟
No comments:
Post a Comment