نواز شریف نے احتساب عدالت میں جو کچھ کیا وہ ہمارے قومی مائنڈ سیٹ کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔
ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ حج کرو گے تو ایسے ہو جائو گے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے نکلا ہوا معصوم ہوتا ہے۔ لیلۃ القدر ہاتھ آئی تو وارے نیارے ہو جائیں گے! اتنی بار یہ پڑھ لو تو جنت پکی ہے۔
یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کے تحت ٹخنے ننگے رکھنے والے حاجی صاحبان کھانے پینے کی اشیا میں دل کھول کر ملاوٹ کرتے ہیں۔ پھر سال بہ سال عمرہ کرتے ہیں۔ پاک صاف ہو کر واپس آتے ہیں اور نئی ملاوٹ نئی فریب دہی، نئی بے ایمانی پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ غالباً معروف اینکر اقرار حسین کا پروگرام تھا۔ اس نے گاڑیوں میں ڈالے جانے والے جعلی آئل تیار کرنے اور بیچنے والوں کو جا لیا۔ ماشاء اللہ، دیکھنے میں اکثر مجرم متشرع اور پارسا تھے۔ قارئین سے ایک بار پہلے بھی یہ واقعہ شیئر کیا ہے کہ ایک نوجوان ٹیکس افسر نے کسی کمپنی کے رجسٹروں پر چھاپا مارا۔ ڈائریکٹروں میں سے ایک اُس کے سامنے پیش ہوا۔ بیٹھا، مسلسل وظیفہ کر رہا تھا۔ اذان سنائی دی تو جیسے اُسے کرنٹ لگا، اٹھا اور مسجد کی طرف بھاگا نہیں تو تیز تیز قدموں سے ضرور چلا۔ واپس آیا تو افسر نے پوچھا، آپ وظیفہ بھی کر رہے ہیں، تکبیر اولیٰ کے لیے مسجد کی طرف بھی دوڑے۔ باوضو بھی تھے۔ مگر آپ نے رجسٹروں میں جھوٹ کے انبار لگائے ہوئے ہیں۔ دھوکہ دے رہے ہیں۔ پارسا ڈائریکٹر ایک ہونق گائودی کی طرح منہ کھول کر اسے دیکھنے لگا۔ کیا عجب ڈائریکٹر صاحب صدق دل سے اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ دنیا کا خانہ الگ ہے۔ مذہب کا الگ! تو پھر اُس ڈاکو سے کیا گلہ جو پہاڑی پر جائے نماز بچھا کر نوافل ادا کر رہا تھا۔ قافلہ گزرتا تو نیچے اتر کر اسے لوٹتا، دو تین مزاحمت کرنے والے مسافروں کو پھڑکاتا، پھر اوپر جا کر نوافل شروع کر دیتا۔ کسی نے اس دو عملی کا سبب پوچھا تو کہنے لگا یہ ہمارا دین ہے وہ ہماری دنیا ہے۔ یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کے تحت کاریں اٹھوانے والے، علاقہ غیر میں(یا سابقہ علاقہ غیر میں!) کاروں کے اصل مالکان کے ساتھ ’’حساب کتاب‘‘ باقاعدہ نماز پڑھ کر کرتے ہیں۔
یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کے تحت بڑے میاں صاحب کے داماد کمرۂ عدالت میں اکثر تسبیح پڑھتے دیکھے گئے اور ٹھیک یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کے تحت خود نواز شریف صاحب نے پرسوں کمرۂ عدالت میں موجود تمام وکیلوں، صحافیوں اور اہلکاروں کو ’’مجموعۂ وظائف‘‘ کے نسخے ہدیہ کیے۔
عراقی نے مولوی صاحب سے پوچھا احرام کی حالت میں مچھر مجھ سے مارا گیا، کیا کروں؟ مولوی نے حیرت کا اظہار کیا کہ نواسۂ رسولؐ اور اُن کے مقدس خانوادے کو شہید کرتے وقت کوئی مسئلہ نہ یاد آیا، اب مچھر کی فکر لگی ہے۔ میاں صاحب نے قومی خزانے کے ساتھ، جو ان کے پاس خدا کی طرف سے قوم کی امانت تھی، کیا کیا کھلواڑ نہ کیا! کروڑوں روپے ایک ایک باتھ روم پر!! جاتی امرا جانے کے لیے شاہراہیں! محلات کے گرد چار دیواریاں! قومی ایئر لائن کے جہازوں کو یوں استعمال کیا جیسے جہاز نہ ہوں وراثت میں ملے ہوئے رکشے ہوں! قوم کے خزانے پر بوجھ ڈالتے ہوئے بی ایم ڈبلیو کی لمبی لمبی قطاریں، فرائض منصبی سے مکمل پہلو تہی، مجرمانہ غفلت، کسی اجلاس کی صدارت نہ کسی فائل کو پڑھنے اور کچھ لکھنے کی تکلیف، دوروں پر دورے، چھینک آنے پر بھی لندن میں چیک اپ، قومی اسمبلی، سینیٹ، کابینہ، سب جائیں بھاڑ میں۔ منی لانڈرنگ، بیرون ملک جائیدادوں کے انبار، باز پرس ہوتو آدھا قصور مرحوم والد کا اور باقی بیٹوں کا، خود پاک صاف پوتر اور تقسیم مجموعۂ وظائف کی۔ یقیناً لوگ عش عش کر اٹھیں گے کہ میاں صاحب کتنے نیک ہیں۔ شورش کاشمیری نے اسی ضمن میں ایک مرثیہ نما نظم کہی تھی!
اے مری قوم! ترے حسنِ کمالات کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا
سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولادِ پیمبر کا تماشا دیکھا
جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں
جس نے لختِ دلِ حیدر کو تڑپتا دیکھا
قلبِ اسلام میں صدمات کے خنجر گھونپے
کربلا میں کفِ قاتل کا تماشا دیکھا
اے مری قوم! ترے حسنِ کمالات کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشہ دیکھا
یہ کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے! ایک مریض کو دیکھنے، برطانیہ کا اُس وقت کا وزیر اعظم ہسپتال آیا اور مریض کے کمرے میں چلا گیا۔ اوپر سے بڑا ڈاکٹر آ گیا۔ اُس نے وزیر اعظم سے بات تک نہ کی۔ ہسپتال کے جو اہلکار کمرے میں موجود تھے، ان سے پوچھا یہ ملاقاتی کس کی اجازت سے آیا ہے؟ کیا یہاں آنا ممنوع نہیں ہے؟ وزیر اعظم نے اُس ڈاکٹر کو تھپڑ نہیں مارا۔ نہیں پوچھا کہ یہ گستاخ کون ہے! نہیں کہا کہ میں وزیر اعظم ہوں! خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔ آپ نے چند دن پہلے یہ خبر ضرور پڑھی ہو گی کہ ایک وفاقی وزیر نے پولیس کے ایک سپاہی کے چہرے پر تھپڑ رسید کیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اُس نے روکنے کی کوشش کی تھی۔ پرویز مشرف کے زمانے کے مرحوم وزیر دفاع نے اوکاڑہ میں سی ایس ایس پاس سینئر پولیس افسر کو تھپڑ مارا۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف لیڈر کے صاحبزادے نے کچہری میں ڈیوٹی پر مامور پولیس مین کی دھنائی کی۔ قائدِ اعظم ثانی کے محافظوں نے قائد اعظم ثانی کے ایک شیدائی کو جس طرح زدوکوب کیا اس کا منظر تو ایک دنیا نے دیکھا! سبحان اللہ! کیا جمہوریت ہے اور کیا جمہوریت کا حسن ہے۔ ووٹ کو عزت دو! ووٹر کو رسوا اور ذلیل کرو! ڈیوٹی سرانجام دینے والے سرکاری اہلکاروں کے چہروں پر تھپڑ مارو۔
مجموعۂ وظائف! اور تسبیح! اور تسبیح خوانیاں! اور وظیفے! اور چلّے! اور دیگیں! اور ننگے ٹخنے! اور ماتھوں پر محراب! اور عمرے اور حج! اور زیارات!
تو کیا بار بار یہ نہیں بتایا گیا کہ روزِ جزا کا مالک اپنے حقوق معاف فرما دے گا، بندوں کے حقوق معاف نہیں فرمائے گا۔ بندوں کے حقوق بندے خود معاف کریں گے۔ نوسو چوہے کھا کر حج کر کے نوسو خون معاف ہو جائیں تو پھر حشر اٹھانے اور حساب کتاب کرنے کی کیا منطق ہے۔ پھر خطاب کے بیٹے کو اس کتے کی موت سے خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت تھی جو فرات کے کنارے مر جاتا۔ چند کوس چل کر عمرہ کر لیتے۔ مجموعۂ وظائف بانٹ دیتے۔ تسبیح خوانی کر لیتے! نہیں ! حضور! آپ کو بتانا ہو گا کہ کتنی بار سرکاری خزانے پر اپنا اور خاندان بھر کا بوجھ لاد کر چیک اپ کے لیے ولایت گئے اور کتنے مریض آپ کی حکومت میں آپ کی غفلت سے مرے؟ آپ کو وہاں بتانا ہو گا کہ بلاول، حمزہ اور مریم کے پروٹوکول کا خرچ کس نے اٹھایا تھا اور راستے خلقِ خدا کے کیوں بند کیے تھے؟ وہاں یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ جنرل مشرف کی وجہ سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے! جنرل مشرف وہاں اپنا حساب الگ دے رہا ہوگا۔ تھپڑ کھانے والے پولیس کے سپاہیوں کے گناہ، تھپڑ مارنے والے وزیروں اور سیاست دانوں کے تھیلوں میں ٹھونسے جائیں گے اور ان تھیلوں سے نیکیاں نکال نکال کر تھپڑ کھانے والوں کی پوٹلیوں میں باندھی جائیں گی! بس تھوڑا انتظار فرما لیجیے!
پانچ سالہ سیاہی کا باب ختم ہوا! چراغ حسن حسرت نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اپنے افسر سے کہا تھا ؎
جرمنی بھی ختم اس کے ساتھ جاپانی بھی ختم
تیری کرنیلی بھی ختم اور میری کپتانی بھی ختم
مگر کہیں وہ حال تو نہیں ہو گا
کٹی ہیں درد کی راتیں مگر کٹی ہیں کہاں
سحر ہوئی مگر آنکھیں ابھی کھلی ہیں کہاں
لسانی تحریکوں کے پیاروں کی
لگتا ہے لاٹریاں نکل رہی ہیں۔ ہوش کا یہ عالم کے معروف خواجہ سرا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور بھاگتے بھاگتے پانی کے حوض میں گر رہے ہیں! مگر یہاں ع
کس نمی پرسد کہ بھیا! کیستی!
ہاں! لومڑیوں کو ضرور پکڑیں گے۔ لومڑی بھاگی جا رہی تھی لوگوں نے پوچھا، کیا ہوا کہنے لگی اونٹوں کو پکڑ رہے ہیں! لوگوں نے تعجب سے کہا احمق! تم اونٹ نہیں ہو! لومڑی نے جواب کیا دیا! حکمت کے موتی رول دیئے، کہنے لگی
’’اگرحسودان بہ غرض گویند شتراست و
گرفتار آیم کرا غمِ تخلیصِ من دارد
تاتفتیش حالِ من کند و تا تریاق از عراق آوردہ شود،
مارگزیدہ مردہ شود‘‘
’’اگر حاسد اپنی غرض سے دعویٰ کر دیں کہ یہ اونٹ ہے اور میں گرفتار کر لی جائوں تو میری رہائی کی کسے پرواہ ہو گی اور کون تحقیق کرتا پھرے گا۔ یوں بھی عراق سے تریاق آنے تک سانپ کا کاٹا ہوا تو مر ہی جائے گا‘‘
یہ اور بات کہ لومڑی کو پکڑ کر جنگل کا بادشاہ بنا دیں!
No comments:
Post a Comment