Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, June 07, 2018

آخری عشرے کی دعا


‎اے وہ جس نے جگنو میں روشنی کا دیا نصب کیا۔

‎جس نے اندھیری رات کے اوپر قندیلوں سے بھرے لاکھوں کروڑوں جھاڑ فانوس لٹکائے۔

‎جس نے درختوں کے چھوٹے چھوٹے پتوں کو شعور دیا کہ چھائوں بنیں، جس طرح کیڑے ریشم بنتے ہیں۔

‎اے وہ جس نے بے بضاعت مکھیوں کو شہد بنانے کا کام سکھایا۔ وہ شہد جس میں اینٹی بیاٹک ہیں جس میں شفا ہے اور جسے تو نے دنیا میں ہر شخص کو، اس کے مذہب سے قطع نظر مہیا کیا ہے۔

‎اے وہ جس نے چیونٹیوں کو قطار میں چلنا سکھایا اور خراب موسم کے لیے راشن سٹور کرنے کی منصوبہ بندی بتائی۔

‎اے قدرتوں اور طاقتوں کے مالک، ہماری مشکل بھی آسان کردے۔

‎اے وہ جس کی حمد و ثنا میں عظیم المرتبت فرشتے رات دن رطب اللسان ہیں، ہمارے حال پر رحم کر۔

‎اے خلاق عالم! تونے ہمیں کھانے کے لیے پیٹ بھر کردیا، ہمارے شکم بھرے ہوئے ہیں، ہمارے ریستوران گاہکوں سے چھلک رہے ہیں۔ ہماری افطار پارٹیوں کی میزیں مرلوں کے حساب سے لمبی چوڑی ہیں۔ ہمارے مخیر صاحبان دل نے ناداروں کے لیے شہر شہر قریہ قریہ کوچہ کوچہ دسترخوان بچھا رکھے ہیں جہاں مزدوروں سے لے کر سفید پوشوں تک سب بیٹھ کربھوک مٹاتے ہیں۔

‎اے کائنات کے مالک! مغفرت کے اس عشرے کے دوران ہم پر رحم فرما اور ہماری وہ بیماری دور کر جس میں ہم مبتلا ہیں اور خطرناک ترین پہلو اس مرض کا یہ ہے کہ ہم اس مرض سے بالکل بے نیاز ہیں۔ ہماری حالت اس شخص کی ہے جس کے جسم میں سرطان آخری سٹیج پر ہے اور وہ مرغن غذائیں اڑا رہا ہے، مستقبل کے منصوبے تعمیر کر رہا ہے، زمینیں خرید کر نقشے بنوارہا ہے جبکہ اجل کا لٹھ مار اس کے سر پر کاری ضرب لگانے والا ہے۔

‎ اے بن باپ کے عیسیٰ کو پیدا کرنے والے، اے موسیٰ کو اس کی ماں سے دودھ پلوانے کا انتظام کرنے والے، ہماری یہ بیماری منافقت کہلاتی ہے۔ اس کی ساری علامات ہم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اس کی مکروہ ترین علامت جھوٹ ہے جس میں ہمارے بچے، ہمارے بڑے، ہماری عورتیں، ہمارے مرد، ہمارے بوڑھے، ہمارے رہنما سب مبتلا ہیں، ہم بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ہمارا مزدور، ہمارا ٹھیکیدار، ہمارا کروڑ پتی، ہمارا سیاستدان، ہمارا استاد سب صبح سے شام تک جھوٹ بولتے ہیں۔

‎ہمارا تاجر اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ وہ کاشتکار سے جھوٹ بولتا ہے، خام مال بہم پہنچانے والے سے جھوٹ بولتا ہے، بجلی کے محکمے سے جھوٹ بولتا ہے، مزدور سے جھوٹ بولتا ہے، ٹیکس لینے والے سے جھوٹ بولتا ہے اور آخر میں گاہک سے جھوٹ بولتا ہے۔ اے دنیا کے صادق ترین اور امین ترین حضرت محمد مصطفی ؐ کے پروردگار! ہمارے تاجر کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ وہ مذہب کو اپنی فروخت بڑھانے کے لیے خوب استعمال کرتا ہے۔ دکان کا یا صنعت کا یا کاروبار کا نام کبھی حرمین رکھتا ہے کبھی مدینہ، کبھی مکہ کبھی باہر درود پاک لکھواتا ہے کبھی اوپر ماشاء اللہ کا بورڈ لگواتا ہے جبکہ تولتا کم ہے، ماپتا کم ہے، مال نقص والا بیچتا ہے، خریدا ہوا مال واپس کرتا ہے نہ تبدیل۔ جھوٹ بول کر گاہک کو نچاتا ہے۔

‎اے قوموں کے نجات دہندہ خدائے برتر و قدوس! ہمیں ان گندم نما جو فروشوں سے نجات دلا جن کا ظاہر متشرع ہے اور باطن کراہیت سے لبریز۔ جو ان تاجروں سے بھی بدتر ہیں جو دین کو مال بیچنے اور نفع بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اس لیے کہ یہ منافقین مذہب کوسیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا طرز زندگی پجارو اور ہیلی کاپٹر والا ہے۔ ان کے جلو میں گاڑیوں کے کارواں ہیں مگر ان کے مواعظ میں سادگی اور صبر کی تلقین ہے۔ ان کی پارٹیوں کے وزیر تنخواہ پوری لیتے ہیں اور خلق خدا کی دستگیری کے لیے ہفتے میں ایک بار مشکل سے دفتر میں آتے ہیں۔ زرد رنگ کے رومالوں کو کاندھوں پر لٹکانے والے ان منافقین سے اگر کوئی سائل، کوئی شہری، کوئی زخم خوردہ، ان کے ظالم وزیر کی شکایت کرے تو نوکیلے دانت نکال کر مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ وزیر صاحب کی کہیں کوئی ڈیل ہو گئی ہو گی۔ 
‎اے بہشت کو مقدس خوشبوئوں سے بھر دینے والے خدا! ہمیں ان عبائوں، قبائوں اور پگڑیوں سے نجات دلا کہ ان کے اندر سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے ہیں۔ ہمارا دماغ پھٹنے کو ہے، ہمیں ان کھلتی ہوئی باچھوں سے بچا جنہیں دیکھ کر عفریت یاد آتے ہیں۔

‎ہمیں ان مذہب فروشوں سے رہائی دلا جو عطیات تو مذہبی تعلیم پھیلانے کے حوالے سے لیتے ہیں مگر ان عطیات کو اپنے اور اپنے خانوادوں کے شاہانہ معیار زندگی پر کسی حساب کسی کتاب کسی آڈٹ کسی ڈر کے بغیر باپ کے چھوڑے ہوئے ترکے کی طرح استعمال کرتے ہیں۔

‎اے شگوفے اور کلی سے تتلی کو رزق فراہم کرنے والے حی و قیوم! ہمیں ان منافقین سے نجات دلا جو عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے جذبات کی آگ سے کھیلتے ہیں۔ جھوٹے حوالے گھڑتے ہیں۔ اپنے پاس سے عبارتیں بنا کر دوسروں کے نام لگاتے ہیں۔ جن کی ذاتی زندگی تعفن کی سڑانڈ سے گل سڑ رہی ہے جو نوشگفتہ کونپلوں کو خواہش اولاد پر پہلو میں بٹھاتے ہیں، جو اپنی بیٹیوں کی ہم عمر لڑکیوں کو شادی کے جھانسے دیتے ہیں، جن میں فحش گوئی سے لے کر شاہد بازی تک ہر برائی موجود ہے مگر چہروں پر نقاب اور ہیں۔ عبائوں کے رنگ دودھ کی 
طرح سفید ہیں۔ عماموں کے شملے آسمانوں سے آنکھ ملاتے ہیں۔

‎ہم پر رحم کر اے خدا! ہمیں ان ظالموں سے نجات دے۔ ہمیں ایسے مذہبی رہنما عطا فرما جو روکھی سوکھی کھا کر ہمیں درس ہدایت دیں تاکہ اس درس ہدایت میں تاثیر ہو۔ تاثیر صرف تو پیدا کرتا ہے اے دلوں کے مالک! اے دل پھیرنے والے خدا! یا مقلب القلوب! ہمارے رہنمائوں کے دل پھیر دے ورنہ زمین کے اس بوجھ کو زمین کے اندر لے جا۔

‎اے قہار و جبار! تیرے پیغمبر کا فرمان ہے: ’’منافق کی تین علامات ہیں بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرتا ہے، امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرتا ہے۔‘‘ ہم سب، بلا استثنا منافق ہیں۔ سمندر پار وہ جو تیرے اور تیرے نبیؐ کے نام لیوا نہیں، وہ جھوٹ بولتے ہیں نہ وعدہ خلافی کرتے ہیں نہ امانت میں خیانت کرتے ہیں۔ وہ نادانستہ تیرے پیغمبرؐ کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں اور کامران و ظفریاب ہیں۔ جبکہ ہم پوری دنیا میں جھوٹے، وعدہ خلاف اور دغا باز مشہور ہیں۔ یہ اور بات کہ منافقین کا اصرار ہے کہ ہم نیک ہیں اور یہ کہ کرۂ ارض پر ہم سے زیادہ پوتر کوئی نہیں۔

‎اے باغوں میں صبا کے خوشگوار جھکورے چلانے و الے رب ذوالجلال! تیرا فیصلہ ہے کہ جیسے عوام ہیں، ویسے ہی حکمران ہوں گے۔ ہماری منافقت کا یہ حال ہے کہ ہم ہر حکمران، ہر سیاست دان ہر سیاسی جماعت پر تنقید کرتے ہیں مگر ہم عوام اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ ہم اپنی گلی گندی رکھتے ہیں۔ مکان بناتے وقت دوسرے کی زمین ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غریب رشتہ داروں سے تکبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ امیر رشتہ داروں کی خوشامد کرتے ہیں۔ دفتروں سے غیر حاضر رہ کر تنخواہیں پوری وصول کرتے ہیں، قرض لے کر مقررہ تاریخ پر ادا نہیں کرتے۔ برتنے کی عام شے پڑوسیوں سے مانگ کر واپس نہیں کرتے، یہاں تک پڑوسی کو یاد دلانا پڑتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو جھوٹ، دغا بازی، جعلی رسید سازی، فریب دہی، بجلی چوری سکھاتے ہیں۔ ہم اتنے پست ہیں کہ اپنے گھر کا کوڑا رات کو دوسرے کے دروازے کے سامنے ڈال دیتے ہیں۔

‎اے اللہ! ہم پر رحم کر، ہمیں منافقت سے نجات دلا، ہمیں اس سرطان سے شفا دے۔ منافق کو دیدار نصیب ہوگا نہ سایہ نہ شفاعت۔ ہم چوبیس گھنٹے اس رسولؐ کی نافرمانی کر رہے ہیں جس کا نام چوبیس گھنٹے لیتے ہیں۔ رحم! اے خدا رحم! رحم!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com