Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, March 31, 2022

مایوسی مت پھیلائیے!


پاکستانی سیاست کے حوالے سے جو بیانیے اِس وقت چل رہے ہیں ان میں ایک بیانیہ عجیب و غریب ہے۔ یہ بیانیہ، جو تین اجزا پر مشتمل ہے، کچھ اس قبیل کا ہے:
1۔ پاکستان میں جسے جمہوریت کہا جاتا ہے، یہ محض ڈھکوسلا ہے۔ یہ پتلی تماشا ہے۔ یہاں منڈی لگتی ہے۔ بازار سجتا ہے۔ بھاؤ تاؤ ہوتا ہے۔ خرید و فروخت ہوتی ہے۔ یہ جمہوریت نہیں، گند ہے‘ غلاظت ہے۔ یہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ہزار سال بعد بھی یہی صورت حال ہو گی۔
2۔ سب سیاستدان مارشل لا کی پیداوار ہیں۔ مارشل لا کی گود میں پل کر جوان ہوئے۔ بھٹو صاحب ایوب خان کے ساتھ تھے۔ نواز شریف کو جنرل جیلانی نے دریافت کیا اور ضیاالحق نے پروان چڑھایا۔ عمران خان نے جنرل مشرف کا ساتھ دیا تھا۔
3۔ سیاسی پارٹیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان میں خاندانی اجارہ داریاں ہیں۔ ایک ایک پارٹی پر ایک ایک خاندان قابض ہے۔ موروثی گدیاں ہیں۔ ان پارٹیوں کے اندر الیکشن نہیں ہوتے، محض نامزدگیاں ہوتی ہیں۔
مجموعی طور پر یہ بیانیہ، کم و بیش، حقیقت پر مبنی ہے۔ تھوڑا بہت مبالغہ یا لفاظی اس سے منہا کر دیں تو جو باقی بچتا ہے، وہ درست ہے۔ مگر یہ بیانیہ پیش کرنے والے حضرات یہ نہیں بتاتے کہ اس کا حل کیا ہے؟ دوسرے لفظوں میں وہ مندرجہ ذیل سوالات کا کوئی جواب نہیں دیتے۔ واضح ہو کہ یہ سوالات انہی کے، اوپر بیان کیے گئے، بیانیے سے پیدا ہوتے ہیں۔
(1) جمہوریت ہمارے ہاں ڈھکوسلا ہے اور گند، تو پھر کیا کیا جائے؟ کیا مستقل مارشل لا لگا کر ہمیشہ کے لیے اس گندی جمہوریت سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے؟ یا بائیس‘ تئیس کروڑ افراد ہجرت کر کے اُن ملکوں کو چلے جائیں جہاں جمہوریت ڈھکوسلا نہیں بلکہ اصل جمہوریت ہے؟
(2) ہاں! ہمارے سیاست دان مارشل لا کی پیداوار ہیں۔ تو اس میں قصور مارشل لا کا ہے یا سیاست دانوں کا؟ پیدائش تو روکی نہیں جا سکتی خواہ مارشل لا کا عہد ہو یا بادشاہت ہو یا جمہوریت! جن کے ذہن اور افتاد طبع سیاسی تھی انہیں سیاست تو کرنی تھی۔ اگر مارشل لا کے زمانے میں نہ کرتے تو کہاں کرتے؟ اور کب کرتے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے قیام پاکستان سے پہلے پیدا ہونے والوں کو یہ طعنہ دیا جائے کہ تم عہدِ غلامی کی پیداوار ہو۔ تو کیا وہ اپنی پیدائش کو ملتوی کر دیتے؟
(3) مانا کہ ہماری سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کا قبضہ ہے تو اس بیماری کا علاج کیا ہے؟ یہ بتائیے کہ کیا کرنا چاہیے؟
معاملہ یہ ہے کہ یہ ہمارا ملک ہے۔ ہم نے یہاں رہنا ہے۔ جیسے بھی حالات ہیں، ان میں ہی گزر بسر کرنا ہے۔ جو صورت احوال اوپر درج کیے گئے بیانیہ والے حضرات چاہتے ہیں یعنی منڈی نہ لگے اور پارٹیوں کے اندر الیکشن ہوں تو اس کے لیے ہمیں کام کرنا ہو گا۔ بے شمار عوامل ہیں جو حقیقی جمہوریت لانے کے لیے لازم ہیں۔ خواندگی اور تعلیم کا عامل ہے۔ برادری کا اثر و رسوخ کم کرنا ہو گا۔ سیاسی عمل میں غیر سیاسی اداروں کی مداخلت کو ختم کرنا ہو گا۔ اگر ابھی تک جمہوریت لولی لنگڑی ہے تو اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا جمہوریت کو تسلسل کے ساتھ پھولنے پھلنے کا موقع ملا؟ کیا انتخابات مسلسل ہوتے رہے؟ دس سال جنرل ایوب خان نے جمہوریت کے آگے بند باندھے رکھا۔ ضیاالحق کے نوّے دن سالہا سال تک پھیل گئے۔ پھر ایک پوری دہائی پرویز مشرف کی نذر ہو گئی۔ یہ تیس پینتیس برس جمہوری عمل کو مل جاتے تو آج صورت حال یہ نہ ہوتی۔ ہمارے جو دوست موجودہ جمہوریت کی صرف مذمت کرتے ہیں انہیں اس صورت حال کا حل بھی بتانا چاہیے۔ صرف مایوسی پھیلانا اور ایک بھیانک تصویر دکھا کر عوام کو بد دل کرنا قوم و ملک کی کوئی خدمت نہیں۔ جمہوری عمل، جیسا بھی ہے، جاری رہنا چاہیے! جوں جوں وقت گزرے گا، جمہوری عمل پختہ سے پختہ تر ہوتا جائے گا۔ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب شخصیات کے بجائے نظریات کی سیاست ہو گی اور سیاسی جماعتوں کے اندر بھی انتخابات کا عمل شروع ہو جائے گا۔
المیہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم نے حکومت سنبھالنے سے پہلے ہمیشہ نظریات کی بات کی۔ مغرب کے جمہوری ملکوں کی مثالیں دیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد تمام عہد و پیمان بھول گئے اور اُسی طرح حکومت بنائی اور اُسی طرح حکومت کی جس طرح ان کے پیشرو کرتے تھے۔ ان کے حامی نظریات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے صرف شخصیت پرستی کر رہے ہیں ۔ مثلاً جب انہیں پنجاب میں کی جانے والی کرپشن کی کہانیاں سنائی جاتیں تو جواب میں کہتے ہیں کہ وزیر اعظم اس کے ذمہ دار نہیں۔ کچھ اور باتیں جو زبان زد خا ص و عام ہیں اور کسی خاص طرف اشارہ کرتی ہیں ان کی ذمہ داری سے بھی وزیر اعظم کو مبرّا قرار دیا جاتا ہے۔ جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ جن کی مذمت کرتے تھے انہیں ساتھ کیوں ملا لیا‘ تو جواب دیا جاتا ہے کہ ایسا نہ کرتے تو حکومت نہ بنا پاتے۔ گویا مقصد صرف اور صرف حکومت میں آنا تھا۔ وزیر اعظم کے بہت سے حامی یہ بھی کہتے ہیں کہ بہت کچھ غلط ہو رہا ہے مگر خان صاحب کا متبادل کون ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو جمہوریت کی روح کے ہی خلاف ہے۔ جمہوری عمل خود ہی متبادل پیش کر دیتا ہے۔ انتخابات سے پہلے کسی کو متبادل بنا کر کیوں پیش کیا جائے؟ جمہوری عمل کے نتیجے میں جو بھی کامیاب ہو گا حکومت بنائے گا۔
ہم پاکستانی یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حکومت فرد واحد نہیں چلاتا بلکہ ادارے چلاتے ہیں۔ ان اداروں کے قوانین کوئی وزیر اعظم یا صدر تبدیل نہیں کر سکتا۔ ضابطوں اور قوانین کو آرڈیننسوں کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنا جمہوریت دشمنی ہے۔ پچھلی حکومت کی طرح موجودہ حکومت نے بھی پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی۔ وزیر اعظم کا پارلیمنٹ میں آنا باقاعدہ ایک خبر ہوتی ہے۔ افسوس! تحریک انصاف کے حامی ان حقائق کو اہمیت دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔
یہ جماعت تبدیلی کا نعرہ لے کر اٹھی تھی۔ حیران کن حقیقت یہ ہے کہ جب تحریک انصاف کے کسی غلط کام پر تنقید کی جاتی ہے تو جواب میں اس کا جواز یہ کہہ کر پیش کیا جاتا ہے کہ فلاں حکمران نے بھی تو یہی کیا تھا اور فلاں جماعت کی حکومت میں بھی تو ایسا ہی ہوتا رہا۔ ایسے دلائل سن کر حیرت ہوتی ہے کہ پھر تبدیلی کا نعرہ کہاں گیا؟ شخصیت پرستی بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے اور کیسے کیسے طریقوں سے منطق اور عقل کو شرمندہ کرتی ہے۔
پارلیمانی جمہوریت میں حکومتوں کا تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد تبدیل ہونا بھی عام سی بات ہے۔ برطانوی وزرائے اعظم کو دیکھ لیجیے۔ تھریسا مے تین سال وزیر اعظم رہیں۔ گورڈن براؤن تین سال سے بھی کم۔ ہیرلڈ ولسن دو سال ایک ماہ۔ ڈگلس ہوم ایک سال سے بھی کم۔ اینتھونی ایڈن پونے دو سال! مزید مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ وہاں کوئی اعتراض نہیں کرتا اور یہ نہیں کہتا کہ میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ادارے مضبوط ہیں۔ کرپشن ناقابل برداشت ہے۔ ایک شخص کے آنے جانے سے قیامت نہیں آتی۔ ہمیں یہی نصب العین سامنے رکھنا چاہیے۔ تب تک جیسی جمہوریت بھی ہے، اسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔ اگر ہم اس کی مذمت کرتے رہے تو ایسا نہ ہو کہ اس سے بھی محروم ہو جائیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Tuesday, March 29, 2022

اُڑنا فقیر کا ہوا میں

اس نے اعلان کیا کہ وہ فلاں تاریخ کو فلاں وقت پر ہوا میں اُڑ کر دکھائے گا۔
جس دن سے وہ بستی میں آیا تھا اس نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ نوجوان اور خواتین خاص طور پر اس کے حلقۂ ارادت میں کثیر تعداد میں شامل ہونے لگیں۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو وہ گفتگو اچھی کرتا تھا۔ لچھے دار اور دلچسپ۔ دوسرے‘ وعدے اور دعوے بہت کرتا تھا۔ اس نے لوگوں کو یقین دلایا کہ بستی کی حالت بدل دے گا۔ اس نے کہاکہ اس کی زنبیل میں کئی عجائبات ہیں۔ دعویٰ کیا کہ جب چاہے گدڑی میں سے حیران کُن چیزیں نکال کر دکھا سکتا ہے۔ بستی میں ایک درجن کے قریب دکانیں تھیں۔اس نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی آمدنی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ دُگنی تو ضرور ہو جائے گی۔گلیاں پکی ہو جائیں گی۔ چوراہوں پر سگنل لگائے جائیں گے۔ تعلیمی ادارے مفت کام کریں گے۔ برقی روشنی عام ہو گی۔ وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ایک پُر اسرار فضا بھی اس کے ارد گرد موجود تھی۔ اس نے اپنا ڈیرہ بستی سے ہٹ کر کھیتوں کے درمیان بنایا۔ باہر سے یہ ایک جھونپڑی لگتی تھی۔ کسی کو اس کے اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ جب وہ بستی میں نکلتا ہے تو اس دوران جس نے بھی کوئی بات کرنی ہو‘ اس سے کر سکتا ہے۔
ایک دن بستی میں آیا تو اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ اسے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔اس کا نام ماہر بتایا گیا۔ اس نے بستی والوں کو بتایا کہ ماہر کو وہ کسی دوسرے ملک سے صرف بستی کے فائدے کے لیے لایا ہے۔ اب دکانداروں کے معاملات ماہر کے اختیار میں ہوں گے۔ بستی کا واحد بینک بھی ماہر کے سپرد کر دیا گیا۔ بستی کے کچھ لوگوں نے ماہر کی تنخواہ کا پتا کیا تو حیرت سے ان کے منہ کھل گئے۔ یہ بہت زیادہ تھی؛ تاہم بستی کے مکینوں کی اکثریت نے اس پہلو کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ اس نے ماہر کے لیے ایک شاندار گھر بنوایا جہاں ماہر اور اس کے اہلِ خانہ بہت ٹھاٹھ سے رہنے لگے۔ کچھ لوگوں نے سرگوشیوں میں ایک دوسرے کو بتایا کہ یہ ماہر پہلے کسی اور بستی میں اسی قسم کے کام پر مامور کیا گیا تھا۔ اُس بستی کے حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ بہت سے لوگ اس خرابی کا ذمہ دار ماہر کو گردانتے تھے۔ تاہم ماہر ایک بھاری تنخواہ پر ایک عالی شان گھر میں رہتا رہا۔
آہستہ آہستہ بستی کے معاملات بگڑنا شروع ہو گئے۔ دکانداروں کے مالی حالات تشویشناک ہو گئے۔ انہوں نے اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھا دیں۔آٹا‘ چینی‘ دالیں‘ گھی‘ گوشت سبزیاں سب مہنگی ہو گئیں۔ بستی کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگیں۔ پکی گلیاں جگہ جگہ سے اُکھڑنے لگیں۔ پانی کا نکاس نہ ہونے کے برابر ہو گیا۔ اس اثنا میں اس نے ایک اور کام کیا۔ اس نے عجیب و غریب قسم کے کچھ افراد کو اپنا ترجمان مقرر کیا اور بستی والوں کو ہدایت کی کہ جو کچھ یہ ترجمان کہیں‘ اس پر یقین لانا ہو گا۔ ترجمانوں نے ایک تواتر کے ساتھ‘ رات دن‘ صبح شام‘ بستی کے باشندوں کو یقین دلانا شروع کر دیا کہ بستی کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ ترقی ہو رہی ہے۔ ایسے بے مثال کام جو اس بستی کے لیے کیے جارہے ہیں‘ کہیں اور نہیں ہو رہے۔ جب لوگ آگے سے مہنگائی کا رونا روتے اور پٹرول کی قیمت کا بتاتے تو یہ ترجمان انہیں یقین دلاتے کہ دوسری بستیوں میں مہنگائی اس سے بھی زیادہ ہے اور یہ کہ اس بستی میں تو گرانی نہیں بلکہ ارزانی ہے۔
بستی کے کچھ جہاندیدہ‘ باراں دیدہ‘ تجربہ کار لوگ جان چکے تھے کہ بستی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہو رہا۔انہیں صاف نظر آرہا تھا کہ مالی معاملات جس ماہر کے سپرد کئے گئے ہیں وہ بستی کا نہیں کسی اور کا وفا دار ہے اور بستی ایک خوفناک مالی بحران کی چادر میں لپیٹی جا رہی ہے۔ ان تجربہ کار لوگوں نے بستی کے مکینوں کو بتانا شروع کر دیا کہ اس نام نہاد فقیر کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے دامن ہر گز اجلے نہیں۔ یہ مال اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایک عجیب بات یہ بھی تھی کہ جن لوگوں کو یہ فقیر بد عنوان کہتا تھا اب ان کے ساتھ اس کا گہرا یارانہ تھا اور یہی اس کے مشیر تھے۔ ان تجربہ کار لوگوں کے شور مچانے پر بستی کے کچھ لوگ تو بات سمجھ گئے مگر‘ جیساکہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے‘ لوگ تقسیم ہو گئے۔ کچھ فقیر کے خلاف ہو گئے تو کچھ اس کے حق میں ! یوں بستی کے بیچوں بیچ دراڑ پڑ گئی۔ فقیر کے حامیوں کی دلیل عجیب و غریب تھی کہ وہ خود تو اچھا انسان ہے‘ صاف شفاف اور دیانت دار‘ بس اس کے مشیر اور مددگار خراب ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ مشیر اور مددگارکچھ تو اس کے پرانے دوست ہیں اور کچھ اس کا اپنا انتخاب ! آخر ان کی ذمہ داری اسی پر تو ہے۔ اس کا کوئی جواب اس کے حمایتیوں کے پاس نہیں تھا۔ اس کے اکثر حمایتی دلیل سے زیادہ شور و غوغا اور طعن و تشنیع کو بروئے کار لاتے تھے۔ کچھ تو باقاعدہ دشنام طرازی پر اتر آتے۔
ایک کام فقیر نے کمال کاکیا۔ اسے معلوم تھا کہ بستی کے لوگ مذہب سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں۔ اس نے مذہب کا خوب خوب استعمال کیا۔ اسلامی تاریخ سے واقعات سناتا۔ اسلامی اصطلاحات کا اطلاق اپنے سیٹ اپ پر کھلم کھلا کرتا۔ یوں مذہبی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کو اپنے پیچھے لگانے میں وہ کامیاب ہو گیا۔ اسے لوگوں کی نفسیات کا بخوبی علم تھا اور ان کی اس نفسیاتی کمزوری سے اچھی طرح واقف تھا؛ چنانچہ اپنی ہر تقریر میں وہ اسلامی تعلیمات پر زور دیتا اور اسلامی اصطلاحات کو بہت چابکدستی کے ساتھ استعمال کرتا۔
مگر ہر ملمع آخر میں بے نقاب ہو کر رہتا ہے۔ برگشتہ ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا۔ اب اس نے ترپ کا آخری پتہ کھیلا اور اعلان کیا کہ فلاں دن وہ سب لوگوں کو ہوا میں اُڑ کر دکھائے گا۔ یوں وہ انہیں یقین دلائے گا کہ وہ مافوق الفطرت طاقت کا مالک ہے اور یہ کہ وہی ان کی بستی کے حق میں سب سے زیادہ اچھا ہے۔ اس کے حامیوں نے وسیع پیمانے پر تشہیر کی اور لوگوں کو اس دن زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہونے کے لیے قائل کیا۔ اخباروں میں اشتہار چھپوائے گئے۔ اس دن کو مذہبی حوالے سے خوب خوب اجاگر کیا گیا۔ اس دن واقعی اس کے حامیوں کی کثیر تعداد جمع تھی۔ یہ بلا مبالغہ ایک جم غفیر تھا۔ وہ ایک مشینی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا۔حاضرین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ فلک شگاف نعروں نے اس کا استقبال کیا۔ پُر جوش نغموں کی لے نے عوام کو سرور میں مبتلا کر دیا۔ وہ قریبی بلڈنگ کی پر چڑھا۔ اس نے کندھوں پر خوبصورت پر باندھے ہوئے تھے جو بہت مضبوط دکھائی دے رہے تھے۔ پھر اس نے ہوا میں زقند بھری۔ دیکھنے والوں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ دھڑام سے نیچے زمین پر گر پڑا۔ پر ٹوٹ چکے تھے۔ پھر شور مچ گیا۔ افرا تفری کا عالم تھا۔ ترجمان اپنے اپنے بریف کیس اٹھائے ہوائی اڈے کی طرف بھاگ رہے تھے۔ ماہر سب سے آگے تھا
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Monday, March 28, 2022

ہمیں آج بھی اُس کوّے کی ضرورت ہے…


تین سطروں پر مشتمل منیر نیازی کی ایک نظم کئی کتابوں پر بھاری ہے:
بندے نئیں سن، جانور سن
روٹیاں کھائی جاندے سن
تے رَولا پائی جاندے سن
پنجابی کی اس نظم کا ترجمہ یوں ہے:
انسان نہیں، یہ جانور تھے
روٹیاں کھائے جا رہے تھے
اور شور مچائے جا رہے تھے
جہاں تک یاد پڑتا ہے، اس نظم کا عنوان ریستوران ہے‘ مگر اس کا عنوان ہونا چاہیے شادی ہال۔ ہمارے شادی ہال مویشیوں کے باڑے سے بدتر منظر پیش کرتے ہیں۔ پہلے تو بیٹھتے وقت باقاعدہ جنگی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے کہ ایسی جگہ بیٹھا جائے جہاں سے کھانا کُھلنے کے بعد حملہ کرنے میں پہل ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ کھانا نہیں کُھلتا، مویشی کُھلتے ہیں۔ پورے ہال میں ایک افراتفری کا سماں ہوتا ہے۔ سات ماہ پہلے کچھ وڈیو کلپ وائرل ہوئے جو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ ایک بڑے شہر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ، جو ایک ٹاپ کے پروفیشن سے تعلق رکھتے تھے، کھانے پر ٹوٹ پڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ ایک مارکی تھی جہاں اس پروفیشن کے الیکشن منعقد ہوئے تھے۔ خدا کی پناہ! چمچے پڑے ہوئے تھے مگر ہر شخص پلیٹ ڈونگے سے براہ راست بھر رہا تھا۔ بے پناہ شور تھا۔ اس کالم نگار نے اس تنظیم کے سربراہ سے بات کی تو ان کے علم ہی میں یہ کلپ نہیں تھے۔ معلوم نہیں انہوں نے بعد میں دیکھے یا دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی مگر دیکھ بھی لیں تو کیا کر سکیں گے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ صدیوں کی بھوک ہے ۔ جاتے جاتے جائے گی۔ مگر ٹھہریے ! کروڑوں کے خرچ سے پیش کیے گئے ان کھانوں پر بھکاری یا قلاش تو مدعو ہی نہیں کیے جاتے! سب کھاتے پیتے لوگ بلائے جاتے ہیں۔ آداب کا تعلق غربت یا امارت سے نہیں ہوتا، ایک قوم کی مجموعی اخلاقی حالت سے ہوتا ہے۔ جس طرح باتھ روم اور بیت الخلا کسی قوم کے اطوار کو جانچنے کا ذریعہ ہیں، جس طرح ٹریفک بتاتی ہے کہ یہ قوم کتنی مہذب ہے، اسی طرح کھانا کھانے کا عمل بھی ایک آئینہ ہے جس میں اس قوم کا رویّہ، سبھاؤ اور برتاؤ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک فائیو سٹار ہوٹل میں صبح کا ناشتہ کرتے ہو ئے دیکھا کہ غیر ملکی مہمان جوس کا گلاس لے کر اپنی میز کی طرف جا رہے تھے مگر ہمارے بھائی وہیں پر کھڑے ہو کر دو دو تین تین گلاس غٹاغٹ پیے جا رہے تھے اور وہاں سے ہِل نہیں رہے تھے۔
شادی ہالوں میں اس بھاگ دوڑ، افراتفری اور نفسا نفسی کی ایک وجہ پکوانوں کی کثرت ہے۔ اندازہ لگائیے۔ بریانی، چکن قورمہ، مٹن قورمہ، چکن روسٹ، پالک، نہاری،کوفتے، کئی طرح کے کباب، مچھلی، ساتھ ہی چینی کھانے، اور نہ جانے کیا کچھ ! ارے بھائی! مقصد تو یہ تھا کہ بچے یا بچی کی شادی پر کچھ مخلص دوست احباب، اعزّہ و اقارب آئیں۔ مل بیٹھیں۔ بچی کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں یا دُلہا کی آئندہ زندگی خوشگوار ہونے کی نیک تمنا کریں۔ چونکہ کھانے کا وقت بھی ہو گا اس لیے کھانا بھی کھا لیں‘ مگر یہاں تو دُلہا دلہن کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ پس منظر سے لے کر پیش منظر تک کھانا ہی کھانا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ایک سالن ڈال کر اس کے ساتھ نان یا روٹی کھا لی جائے۔ جتنے بھی پکوان ہیں سب کھانے ضروری ہیں جیسے زندگی میں پہلی بار دیکھے ہوں۔ پلیٹوں پر کھانوں کے پہاڑ ہیں۔ پسینہ آرہا ہے۔ ایک ہاتھ میں کولڈ ڈرنک کی بوتل پکڑے ہیں۔ دنیا و ما فیہا سے بے خبر، گوشت کھائے جا رہے ہیں۔ کئی کئی بار پلیٹ بھری جا رہی ہے۔ بہت زمانہ گزرا، اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں کوئی ادبی تقریب تھی۔ کھانا کُھلا تو حسب معمول کُشتوں کے پُشتے لگ گئے۔ ہال کے ایک کونے میں سراج منیر مرحوم پلیٹ پکڑے کھانا کھا رہے تھے۔ پلیٹ میں صرف سلاد تھا۔ پوچھا: کچھ لا دوں؟ کہنے لگے: نہیں یار! ایسے مواقع پر بس پیٹ بھر لینا کافی ہوتا ہے اور میرا پیٹ سلاد سے بھر گیا ہے۔
کئی ملکوں میں دعوتیں کھانے کے مواقع ملے۔ سرکاری بھی، نجی بھی! تین یا زیادہ سے زیادہ چار ڈشیں ہوتی ہیں۔ سلاد۔ پھر ایک مرکزی (Main) ڈش جیسے مرغی یا مچھلی۔ بعد میں ایک قسم کا میٹھا۔ کبھی پوچھ بھی لیتے ہیں کہ چاکلیٹ یا کیک میں سے کیا پسند کریں گے؟ ہماری دعوتوں میں پکوانوں کی جو کثیر تعداد ہوتی ہے، معاف کیجیے اسے فرنگی زبان میں Vulgarity کہتے ہیں یعنی اوچھا پن، نا شائستگی بلکہ گنوار پن! کئی حکومتی کوششوں کے باوجود ون ڈش کا رواج جڑ نہیں پکڑ پایا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومتی عمائدین خود ہی اس قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہیں! سعدی نے کہا تھا کہ کھانا اس لیے ہے کہ زندہ رہا جائے، زندگی کا مقصد یہ نہیں کہ کھاتے رہیں! ہمارے شادی ہالوں میں تین چیزیں کبھی نظر نہیں آتیں۔ سبزی، دال اور شائستگی!
یہ سب تو تمہید تھی۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو جو کچھ پتوکی کے قصبے میں ہوا، اس پر تعجب کیسا! شادی ہال میں پاپڑ بیچنے والا آ گیا۔ اس سے پاپڑ خریدتے ہوئے جھگڑا ہوا یا اس پر جیب تراشی کا الزام لگا۔ جو بھی وجہ بنی، اس پر براتیوں نے تشدد کیا۔ مکے اور ٹھوکریں ماریں۔ یہاں تک کہ اس کی سانس کی ڈوری کٹ گئی۔ وہ ایک بے جان لاش میں تبدیل ہو گیا‘ مگر اصل المیہ یہ نہیں! اصل المیہ یہ ہے کہ اس کی لاش شادی ہال میں سب کے سامنے پڑی رہی۔ آنکھیں کُھلی تھیں۔ منہ بھی کُھلا تھا‘ اور لوگ اس لاش کی موجودگی میں کھانا اس شد و مد سے اور اس سرگرمی اور قوّت سے کھاتے رہے جیسے مقابلہ ہو کہ لاش کی موجودگی میں جو سب سے زیادہ کھاناکھائے گا اسے پہلا انعام ملے گا۔ یہ خبر ملکی میڈیا میں تو آئی، اسے غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں نے بھی نشر کیا۔ گویا ہماری انسانیت پر واہ واہ پوری دنیا میں ہو رہی ہے!
اب تک تو ہمارا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ ہم ہجوم گردی کے لیے مشہور تھے۔ کئی اپنے ہم وطنوں کو زندہ جلانے اور پیٹ پیٹ کر ختم کرنے کے بعد ہم نے ایک غیر ملکی کو بھی مار مار کر ہلاک کیا اور پوری دنیا میں شہرت پائی‘ مگر بقول منو بھائی مرحوم، ابھی قیامت نہیں آئی تھی! ہم نے قیامت برپا کرنے کی کوشش میں یہ کارنامہ بھی سرانجام دے دیا۔ ہم نے ایک انسان کو قتل کیا۔ پھر مقتول کی موجودگی میں دعوت اڑائی۔ اب ایک کسر باقی رہ گئی ہے۔ اگلا تماشا یہ ہونا چاہیے کہ بندے کو ہلاک کریں، اس کے بعد اس کی لاش کے اُوپر بیٹھ کر کھانا کھائیں یا اس کی لاش کو میز کے طور پر استعمال کریں۔ اس پر کھانا رکھیں اور تناول فرمائیں!
اور اس میں صرف پتوکی اور اہل پتوکی کو قصور وار نہ ٹھہرائیے۔ پتوکی کوئی جزیرہ نہیں۔ ہمارا ہی قصبہ ہے۔ سچ کڑوا ہے مگر پھر بھی سچ ہے۔ ہم سبھی ایسے ہیں! شادی کی تقریب میں پورے معاشرے کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات بھی ہوتے ہیں، کم تعلیم یافتہ بھی، تاجر بھی ہوتے ہیں، سرکاری ملازم بھی، امرا بھی ہوتے ہیں اور مڈل کلاس کے نمائندے بھی! مذہب سے بے نیاز بھی ہوتے ہیں اور مذہبی لوگ بھی ہوتے ہیں۔ جو ہوا وہ ہمارے پورے معاشرے کی، ہمارے پورے ملک کی، ہماری پوری قوم کی تصویر دکھا رہا ہے! ہمیں آج بھی اُس کوّے کی ضرورت ہے جس نے ہمیں مردے کو دفن کرنا سکھایا تھا!

بشکریہ روزنامہ دنیا 

Thursday, March 24, 2022

ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں!


اس موضوع پر لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس لیے کہ میں اس خیالِ خام میں تھا کہ یہ مسئلہ نا خواندہ اور نیم تعلیم یافتہ لوگوں کا ہے اور نا خواندہ اور نیم تعلیم یافتہ لوگ وہ دیوار ہیں جن سے سر ٹکرانے کا کوئی فائدہ نہیں‘ مگر دو دن پہلے جو دھچکا لگا‘ اس کے بعد غلط فہمی دور ہو گئی۔ اس دھچکے کی جو تفصیل نیچے درج ہے اس میں کوئی مبالغہ ہے نہ تخیلاتی افسانہ طرازی!
ریحان میرے بیٹوں کی طرح ہے۔ اس کی اہلیہ میری بیٹی کی کلاس فیلو رہی ہے اور اس کی گہری دوست ہے۔ ان کی پہلی بیٹی پانچ سال کی ہے۔ چند ماہ پیشتر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسری بیٹی سے نوازا۔ بیٹی کی پیدائش وفاقی دارالحکومت کے ایک نجی، جدید قسم کے ہسپتال میں ہوئی۔ ریحان کو پہلا دھچکہ اُس وقت لگا جب ہسپتال کی نرس اس کے پاس آئی اور بہت آہستہ، مری ہوئی آواز میں بتایا کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ ڈر رہی ہے۔ ریحان نے مسکراتے ہوئے الحمدللہ کہا تو نرس کی جان میں جان آئی۔ پھر جب ریحان نے مٹھائی منگوا کر پورے ہسپتال میں بانٹی تو وہی نرس اس کے پاس دوبارہ آئی اور مبارک دی۔ پھر اس نے خود ہی بتایا کہ جب وہ بیٹی کی پیدائش کی خبر دینے آئی تھی تو ڈر رہی تھی کیونکہ بہت سے لوگ بیٹی کی پیدائش کی خبر دینے والی نرس کو نہ صرف بُرا بھلا کہتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو نوزائیدہ بچی کی دادی نرس کو چانٹا بھی رسید کر دیتی ہے۔
یہ محض آغاز تھا۔ دوسری بیٹی کی پیدائش پر ریحان کے دوستوں میں سے شاید ہی کسی نے مبارک باد دی ہو۔ کچھ نے اسے تسلی دینے کی بھی کوشش کی کہ کوئی بات نہیں، اگلی بار بیٹا ہو گا۔ مٹھائی لے لی۔ کھا بھی لی۔ مگر مبارک نہ دی! وہ یہ سب سُن سُن کر، اور دیکھ دیکھ کر، حیران ہو رہا تھا مگر جو کچھ اس کمپنی میں ہوا جہاں وہ کام کر رہا تھا، سب سے زیادہ حیران کُن تھا۔ ریحان ایک ایسی جدید ترین کمپنی میں کام کر رہا ہے جہاں سب ملازم، کیا افسر اور کیا غیر افسر، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ سائنس دان ہیں یا انجینئر یا کمپیوٹر کے ماہرین ہیں۔ کچھ ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں بڑے بڑے افسر ہیں۔ یہ لوگ دنیا بھر کے ملکوں میں دورے کرتے ہیں‘ مگر ریحان کی دوسری بیٹی کی پیدائش پر ان کا ردِّ عمل جہالت اور جاہلیت دونوں سے عبارت تھا۔ اسے کسی نے مبارک نہ دی۔ کسی نے مسرت کا اظہار نہ کیا۔ اس نے دفتر میں بھی مٹھائیاں بانٹیں جو اس کے رفقائے کار نے یوں لیں جیسے سوگ کا موقع ہو۔ ریحان یہ سب کچھ مجھے بتا رہا تھا اور مجھ پر حیرت کے دروازے کُھل رہے تھے۔ اس دلخراش داستان کا آخری حصہ بہت ہی عجیب تھا۔ ایک بہت سینئر صاحب نے‘ جو گریڈ اکیس کے یا بائیس کے افسر ہیں اور سائنس دان ہیں، ریحان سے باقاعدہ اظہارِ افسوس کیا۔ انہوں نے بڑا ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اسے کچھ وظیفے اور ورد بتائے جن کے پڑھنے سے اگلی بار وہ بیٹی سے بچ جائے گا اور اس کے ہاں بیٹا ہو گا۔ اگر ریحان کی ملازمت کا مسئلہ نہ ہوتا تو یہ کالم نویس ان صاحب کو مل کر ضرور انہیں مبارک دیتا اور ان کے سائنس کے علم اور ان کے مذہبی رجحان پر واہ واہ کرنے کے بعد انہیں کچھ سناتا۔ یعنی جس پروردگار نے خود یہ فرمایا (مفہوم) اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے‘ اس خوشخبری کی برائی کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، آیا اسے ذلت قبول کر کے رہنے دے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے، دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں (سورۃ النحل) آپ اسی خدا کے حضور پڑھنے کے لیے بیٹی نہ پیدا ہونے کی دعائیں اور وظیفے بتا رہے ہیں! واہ کیا بات ہے آپ کی! اور یہ سب کچھ کسی گاؤں یا قصبے میں نہیں ہوا، وفاقی دارالحکومت میں ہوا ہے!
اس مملکت خداداد میں اکثریت اس حق میں نہیں کہ بیٹیاں پیدا ہوں! ان میں ان پڑھ بھی شامل ہیں، نیم خواندہ بھی! اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی! سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی! اور ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ اہل مذہب کی کچھ نمائندگی بھی اس دُختر دشمن طبقے میں موجود ہے۔ بیٹیوں کے چاہنے والے یقینا تعداد میں کم ہیں! وراثت کی بات کر کے دیکھ لیجیے۔ جب بیٹی کو وراثت میں حصہ دینے کی بات ہو تو عبائیں، دستاریں، ہیٹ اور کوٹ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ عورتیں اس میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر بھی سب سے پہلے دادی کا چہرہ سیاہ پڑتا ہے۔ آئے دن خبریں چھپتی ہیں کہ بیٹی کی پیدائش پر اس کی ماں کو ہسپتال ہی میں طلاق دے دی گئی۔ عورتوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ مرد دوسری شادی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ کر بھی لیتا ہے۔ یہ بھی طے کر لیا جاتا ہے کہ نقص عورت ہی میں ہے۔ مرد کے لیے اپنا طبی معائنہ کرانا بھی عزت‘ بے عزتی کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ میانوالی میں کچھ دن پہلے ایک شخص نے اپنی سات دن کی بیٹی کو پانچ فائر کر کے ہلاک کر دیا۔ گزشتہ سال داؤد خیل میں تین بیٹیوں کو ان کے باپ نے قتل کر دیا تھا کیونکہ اسے بیٹے کی خواہش تھی۔
جو کچھ چند روز پہلے مانسہرہ میں ہوا‘ اس سے ہمارے معاشرے کا ایک اور پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ مانسہرہ کی اسسٹنٹ کمشنر ایک خاتون ہیں جو، ظاہر ہے، مقابلے کا امتحان پاس کر کے اس منصب پر فائز ہوئی ہیں۔ تین مردوں نے اس کی گاڑی کو روکا، پھر اسے نیچے اتارنے کی کوشش کی۔ اس کشمکش میں خاتون افسر زخمی ہوئیں اور ان کا ڈرائیور اور گارڈ بھی۔ حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ حملے کی وجہ انہوں نے پولیس کو یہ بتائی کہ وہ اپنے علاقے میں ایک عورت کو بطور اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر نہیں برداشت کر سکتے! یہ خاتون، ماروی ملک شیر، اُن پانچ بہنوں میں سے ایک ہے جو سب سی ایس ایس کر کے سول سروس کے مختلف شعبوں میں تعینات ہوئی ہیں۔ گزشتہ سال جب پانچویں بہن مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہوئی تو میڈیا پر ان بہنوں کی کامیابی ایک نمایاں خبر بن کر مشہور ہوئی۔ یہ بہنیں ہری پور سے تعلق رکھنے والے واپڈا کے ایک ریٹائرڈ افسر، جناب رفیق اعوان، کی بیٹیاں ہیں۔ رفیق صاحب نے میڈیا کو بتایا تھا کہ جب وہ پانچویں بیٹی کی پیدائش پر ہسپتال پہنچے تو ان کے رشتے دار صدمے کی شدت سے رو رہے تھے۔ اب وہی رشتے دار مبارکیں دے رہے ہیں۔ ان پانچ بہنوں نے کاغذ سے کشتی نہیں سمندر بنا دیا!
بظاہر نظر نہیں آرہا کہ یہ عورت دشمن ذہنیت ختم ہو گی۔ اکیسویں صدی عیسوی کی تیسری دہائی شروع ہو چکی۔ ہم وہیں ہیں جہاں تھے! ایک طرف بھارت ہے جہاں ہر سال ہزاروں عورتوں کو جہیز کم لانے پر مار دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان ہے جہاں عورت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا پوری دنیا میں چرچا ہے! درمیان میں ہم ہیں جو دونوں سے متاثر ہیں!
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Tuesday, March 22, 2022

الاٹمنٹ کا انوکھا کاروبار

اس سرکاری قبرستان میں کئی بار جانا ہوا۔ کچھ قریبی اعزہ وہاں میرے بھی مدفون ہیں۔ سرکاری کارندے قبرستان میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ پرائیویٹ مزدور ہاتھوں میں درانتیاں لیے گھومتے رہتے ہیں۔ آپ جس قبر پر رکیں گے فوراً دو تین افراد وہاں پہنچ جائیں گے۔ قبر کی دیکھ بھال کا ماہانہ معاوضہ طے کرینگے۔ یہ وفاقی دارالحکومت کا قبرستان ہے۔ قبروں کی دیکھ بھال سرکاری افراد کیوں نہیں کرتے؟ نہیں معلوم! ہو سکتا ہے وہ بااثر لوگوں کے گھروں میں ڈیوٹی دے رہے ہوں۔
اُس دن میں وہاں شام کے بعد پہنچا۔ آسمان پر گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اندھیرا معمول سے زیادہ تھا۔ خال خال کوئی انسان نظر آتا تھا جو کسی قبر کی پائنتی پر کھڑا، ہاتھ اٹھائے، دعا مانگ رہا تھا۔ قبرستان کے ایک سرے پر ایک عزیز کی قبر تھی۔ فاتحہ پڑھ کر دوسرے عزیز کی قبر کا رخ کیا جو دوسرے کنارے پر تھی۔ پورا قبرستان عبور کرنا تھا۔ قبروں کے درمیان کچی پکی روشوں پر چلتا ایک موڑ مڑا تو سامنے، کچھ دور، دو سائے نظر آئے۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے دو آدمی کھڑے ہوں۔ نزدیک پہنچا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ٹانگیں کانپنے لگیں۔ دل کی دھڑکن پہلے تیز ہوئی پھر جیسے دل ڈوبنے لگا۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ فاصلہ بھی اتنا کم تھا کہ اشتباہ کی گنجائش نہ تھی۔ یہ دو انسانی ڈھانچے تھے جو آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ ہڈیوں کے ڈھانچے! اس سے پہلے کہ ان میں سے کسی کی نظر مجھ پر پڑ جاتی اور مجھے کچھ ہو جاتا، میں ایک درخت کی اوٹ میں ہو گیا۔ یہ درخت دو قبروں کے درمیان تھا۔ یہ محض حسنِ اتفاق تھا کہ ان کی گفتگو یہاں سے سنی جا سکتی تھی۔ میں درخت کے پیچھے دبک کر بیٹھ گیا۔ دونوں ڈھانچے کسی بات پر بحث کر رہے تھے۔ ایک بار ذرا آگے ہو کر دیکھا تو ایک ڈھانچا، جو بات کر رہا تھا، بہت ڈراؤنا لگ رہا تھا۔ ہونٹ غائب تھے۔ بتیسی پوری نظر آرہی تھی۔ بات کرتا تھا تو بتیسی ہلتی تھی۔ یوں وہ زیادہ ہولناک لگتا تھا۔ ڈر کے بارے میں پھر پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر ان کی بحث سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ جھگڑا اس سرکاری قبرستان میں قبریں ریزرو کرانے کے متعلق تھا۔ ایک ڈھانچے نے اونچی آواز میں بات کی تو دوسرے نے کہا ''آواز نیچی رکھو! اب تمہیں کوئی برتری حاصل نہیں۔ آج ہم دونوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ میں نائب قاصد تھا یعنی چپڑاسی اور تم وزیر تھے یا سینیٹر یا گریڈ بائیس کے افسر! جب ہم دونوں زندہ تھے تو میں حقیر تھا اور تم بااثر۔ تم نے اس وفاقی دارالحکومت کو طبقاتی تقسیم کی بد ترین مثال بنا دیا تھا۔ ہزاروں نائب قاصدوں، ڈرائیوروں اور خاکروبوں کے لیے چند سو کوارٹر! جنہیں تم حقارت سے ''اے ٹائپ کوارٹر‘‘ کہتے تھے۔ ایک کمرہ! ایک غسل خانہ اور کھانا پکانے کے لیے ایک چھپر! کتنوں کو تو یہ بھی نہ الاٹ ہوا۔دوسری طرف تم لوگوں کے لیے بڑے بڑے محلات! وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں! تمہارے بازار الگ تھے۔ تمہارے بچوں کے سکول الگ تھے۔ تمہاری ہر شے ہم سے مختلف تھی اور برتر! ہمارے بچوں کو ہماری طرح نائب قاصد کی نوکریاں ملتی تھیں۔ تمہارے بچے انگلستان اور امریکہ جاتے تھے۔ یہ سب کچھ تو دارالحکومت میں ہو رہا تھا مگر ستم کی انتہا یہ ہوئی کہ تم نے قبرستان میں بھی یہ مکروہ طبقاتی تقسیم جاری رکھی۔ تمہاری بیوی مری اور دفن ہوئی تو تم نے ساتھ والی قبر کی جگہ اپنے لیے ریزرو کرا لی۔ اس لیے کہ تم بااثر تھے۔ میرا باپ مرا تو میں نے کوشش کی کہ اس کے پاؤں کی طرف جو جگہ ہے اسے اپنی قبر کے لیے مختص کرا لوں مگر میری کون سنتا تھا۔ متعلقہ افسر کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ رُول اجازت نہیں دیتا۔ تمہارے لیے، اور تم جیسے دوسرے گردن بلندوں کے لیے رُول اجازت دیتا تھا۔ میں اپنے لیے قبر ریزرو نہ کرا سکا۔ تم نے کرا لی۔ گویا پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا مکروہ کاروبار تم قبرستان میں بھی لے آئے۔ تمہارا اور تمہاری کلاس کے دوسرے افراد کا بس چلتا تو اپنے لیے اور اپنی بیگمات کے لیے تین تین چار چار قبریں فی کس کے حساب سے الاٹ کراتے۔ پھر ان پر اہرام یا بڑے بڑے قبّے بنواتے۔ کتبوں پر عہدوں کے نام لکھواتے۔ پھر ان پر گارڈ آف آنر کا انتظام کراتے۔ فل ٹائم پہریدار، ڈرائیور اور خاکروب تعینات کراتے۔ ایک پی اے بھی قبر پر بٹھا دیتے۔
میں نے معاملہ تقدیر پر چھوڑ دیا۔ یہ تو مجھے مرنے کے بعد معلوم ہوا کہ قبر، بیوی یا باپ کی قبر کے پاس رکھوانے کا کوئی فائدہ نہیں! حساب تو اپنے اعمال کا ہونا ہے۔ اور یہ تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ساتھ یا پاؤں کی طرف، یا سر کی طرف کس کی قبر ہے اور کون لیٹا ہوا ہے۔ میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ تم سے پوچھوں کہ بیوی کی قبر کے پاس دفن ہو کر تمہیں کیا حاصل ہوا؟ کئی دن سے فرشتے کی منت کر رہا تھا کہ مجھے باہر نکلنے دو کہ تجھ تکبر مآب سے بات کروں۔ آخر آج اس نے اجازت دی‘ اور ساتھ ہی تمہاری قبر کا پتہ دیا اور یہ بھی کہا کہ کھینچ کر تمہیں تمہاری قبر سے باہر نکالوں۔ تم کیا سمجھتے تھے کہ تدفین کے بعد بھی تمہاری افسری اور تمہاری وزارت اور تمہاری چوہدراہٹ اور تمہاری کھڑپینچی جاری رہے گی؟ بتاؤ! بیوی کی بغل میں دفن ہو کر تم کیا اس سے باتیں کرتے ہو؟ یا کیا وہ ہر ہفتے تمہارا کفن دھو کر استری کرتی ہے؟ یا سرِ شام اس کے ساتھ قبرستان میں سیر کرتے ہو جیسے مرنے سے پہلے کرتے تھے اور تمہارا کُتا بھی ساتھ ہوتا تھا۔ احمق انسان! آج ہم دونوں ہڈیوں کا ڈھانچا ہیں! تمہاری قبر پر جو قیمتی سنگ مرمر لگا ہے اس کا تمہیں کیا فائدہ ہے؟ ہم دونوں ایک جیسے ہیں۔ دونوں کی کھوپڑیاں عبرت ناک ہیں۔ دونوں کی جہاں آنکھیں تھیں وہاں گہرے گڑھے ہیں۔ چہرے کا گوشت، دونوں کا، حشرات الارض چٹ کر چکے! صرف بتیسی ہے جو اٹکی ہوئی ہے۔ پھیپھڑے ہیں اور ننگی پسلیاں! بازؤوں اور ٹانگوں کی جگہ لمبی لمبی ہڈیاں ہیں۔ آج میں نادار ہوں نہ تم ثروت مند! میں محتاج ہوں نہ تم غنی! تو پھر تم نے اور تمہارے جیسے دوسرے بے وقوف امرا نے اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے لیے اور اپنے رشتہ داروں کے لیے قبریں کیوں ریزرو کرائیں؟
دوسرا ڈھانچا، چپ چاپ، سر جھکائے سب کچھ سنتا رہا۔ چوں تک نہ کی۔ کر بھی نہیں سکتا تھا۔ اتنے میں فرشتے کی پاٹ دار آواز آئی کہ ملاقات کا وقت ختم ہو چکا۔ دونوں ڈھانچے اپنی اپنی قبروں میں واپس جائیں۔ ان کے جانے کے بعد میں اٹھا مگر سچی بات یہ ہے کہ میری ٹانگیں لرز رہی تھیں!
پس نوشت! ایک تازہ خبر کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے دونوں قبرستانوں میں بااثر افراد نے اپنے لیے اپنی پسند کی جگہوں پر قبریں ریزرو کرائی ہوئی ہیں۔ جو قبرستان دس سال پہلے بند ہو چکا، اس میں یہ عوامی نمائندے اور نوکر شاہی کے ریٹائرڈ ارکان اب بھی چار سو پچاس قبریں ریزرو کرا کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ رہا دوسرا قبرستان تو اس میں ریزرو قبروں کی تعداد دو ہزار سات سو ہے۔ اس کے باوجود کہ پیشگی ریزرویشن منع ہے بلکہ بند ہے، قبریں ریزرو کی گئی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Monday, March 21, 2022

دھمکیاں یا نرم گفتاری؟

1‘عجلت سے کسی حال میں کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر حکمران کوئی خبر سنے یا اسے کوئی دشواری پیش آئے تو تدبر اور نرمی اور سوجھ بوجھ سے کام لینا ضروری ہے۔ حکمران کو ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ کسی فریق کو یہ معلوم نہ ہونے پائے کہ بادشاہ کا میلان اور رجحان کدھر کا ہے یعنی کس فریق کی طرف ہے۔ بُرا حکمران وہ ہوتا ہے جو معاملات میں عجلت برتتا ہے اور معاملات کی کوئی خاص پروا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شکایت لے کر آئے تو جب تک تمہیں اصل حقیقت کا علم نہ ہو جائے، کچھ مت کہو یعنی کسی نتیجے پر نہ پہنچو۔ مشورہ ہمیشہ ایسے اشخاص سے کرنا چاہیے جو مدبّر، ذی عقل، دور اندیش ہوں۔ دانا لوگوں میں مراتب کا فرق ہوتا ہے۔ بعض زیادہ جانتے ہیں بعض کم۔ تدبیر اور مشورہ کے لیے عقلمند اور دانا اور جہاندیدہ اشخاص کو منتخب کرنا چاہیے۔ عقلا کا قول ہے کہ ایک آدمی کی قوت اس کی عقل ہے۔ تمام دنیا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنی نوع انسان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر عاقل اور خرد مند کوئی نہ تھا۔ آپ وہ تھے کہ اپنی دانشِ نورانی کے فیض سے ابد اور ازل کے رازوں سے باخبر تھے لیکن کیا اس مرتبے‘ عظمت اور جلال و کمال اور معجزات نے پیغمبر اعظم کو مشورہ سے بے نیاز کر دیا تھا؟ ہرگز نہیں! پیغمبر اعظم کو بھی حکم دیا گیا کہ کسی اہم مسئلے کا سامنا ہو تو اپنے رفقا اور اصحاب سے مشورہ فرمائیں۔ یہ مشورہ لینے کا مشورہ اسے دیا جا رہا ہے جس سے زیادہ مشورہ سے بے نیاز بھلا کون ہو سکتا ہے؟ اس سے لازمی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر حکمران کو کوئی مہم درپیش ہو تو اسے سن رسیدہ اور مخلص اشخاص سے مشورہ کرنا چاہیے۔
2 ‘ اپنے دشمن کی زیادہ مذمت نہ کر۔ اس سے غافل بھی نہ رہ۔ بالخصوص ایسے دشمن سے جو گھر کا بھیدی ہو کیونکہ تیرے ذاتی معاملات میں جو علم اس کو حاصل ہے وہ بیگانے کو نہیں۔ کوشش کر کہ تیرے دشمنوں کی نسبت تیرے دوستوں کی تعداد ہمیشہ دگنی تگنی ہو۔ انسان کے کثیر دوست اور کم دشمن ہونے چاہئیں۔ غصہ دبانا واجب سمجھ۔ دوست ہو کہ دشمن، بات آہستہ اور مٹھاس کے ساتھ کر کیونکہ شیریں گفتاری جادو کا دوسرا نام ہے۔ گھٹیا بات سن کر کسی کو دھمکی نہ دے۔ ایسے نہ کہہ اس طرح کر دوں گا‘ اپنے سے کمتر شخص کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کر۔ ہر بات کو گرہ دے کر نہ بیٹھ جا اور ہر سچ جھوٹ پر لوگوں کو سزا نہ دے ڈال!
3‘ سکندر سے کسی نے پوچھا کہ تو نے شرق و غرب کی سلطنتوں کو کیسے فتح کر لیا کہ تم سے پہلے جو بادشاہ تھے ان کے پاس خزانے، عمریں، ملک اور افواج تم سے زیادہ تھیں مگر ایسی فتوحات انہیں میسّر نہ آئیں! سکندر نے جواب دیا کہ جو ملک بھی میں نے فتح کیا اس کے عوام کو تکلیف نہ پہنچائی اور ماضی کے حکمرانوں کے اچھے کاموں کو نہ مٹایا اور ان کے نام ہمیشہ اچھے طریقے سے لیے۔
اوپر دیا گیا پہلا پیرا گراف سیاست نامہ طوسی سے ہے جو نظام الملک طوسی کی مشہور عالم تصنیف ہے۔ نظام الملک گیارھویں صدی عیسوی میں سلجوق حکمرانوں کے وزیر اعظم تھے۔ یہ کتاب انہوں نے حکمرانوں کو حکومت کا فن سکھانے کے لیے لکھی تھی۔ ہمارے پاس اس کا جو نسخہ موجود ہے اس میں لکھا ہے کہ یہ کتاب برطانوی عہد کے دوران سول سروس کے کورس میں شامل تھی۔ دوسرا پیرا گراف قابوس نامہ سے ہے۔ ایرانی حکمران امیر کیکاؤس نے یہ کتاب اپنے بیٹے کے لیے لکھی تھی۔ معروف بیوروکریٹ میاں محمد افضل نے ادق فارسی سے اس کا ترجمہ اردو میں کیا ہے۔ تیسرا پیرا گراف گلستان سعدی کے باب اوّل در سیرتِ بادشاہان سے ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گلستانِ سعدی دنیا بھر میں مشہور ہے اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بہترین رہنما! ان تینوں پیروں کا ماحصل کیا ہے؟ یہ کہ حکمران کو نرم گفتار ہونا چاہیے۔ اسے اپنی زبان پر کنٹرول کرنا چاہیے۔ دوستوں کی تعداد بڑھانی چاہیے۔ کم تو بالکل نہیں کرنی چاہیے۔ خاص طور پر ایسی دھمکیاں بالکل نہیں دینی چاہئیں کہ یہ کردوں گا وہ کر دوں گا۔ لازم ہے کہ اس کے وزرا اور عمائدین بھی نرم گفتار ہوں۔ مشورہ تجربہ کار لوگوں سے لینا چاہیے۔ ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی اجلاسوں میں حکمران لکھی ہوئی تقریریں کرتے ہیں جو سوچ سمجھ کر تیار کی جاتی ہیں۔
ہماری حکومت میں اس کے بالکل بر عکس ہو رہا ہے۔ گورنر سندھ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد سے بچ گئے تو آپ کو چھوڑیں گے نہیں، چُن چُن کر ماریں گے۔ اٹھارہ مارچ کو جو اجلاس وزیر اعظم کی زیر صدارت حکومتی ترجمانوں کا ہوا اس میں وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ بِکنے والے اور بَکنے والے واپس آ جائیں۔ یہ انداز گفتگو، جلد یا بدیر، ناکامی کا منہ دکھاتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم اگر اپنے مخالفین کا ہر روز، ہر تقریر میں، ہر موقع پر، بار بار، نام نہ لیتے، دھمکیاں نہ دیتے تو ان کا امیج آج مختلف ہوتا۔ عدالتیں اپنا کام کرتیں۔ نیب اپنے راستے پر چلتی۔ ایف آئی اے میں مداخلت نہ ہوتی! یوں یہ تاثر عام نہ ہوتا کہ تمام مقدمات کی پشت پر وزیر اعظم خود ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے ارد گرد کوئی ایسا زیرک اور دانا مشیر نہ تھا جو انہیں منتقم مزاجی سے بچانے کی کوشش کرتا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے بلکہ ناقابل یقین کہ کبھی انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ چھوڑوں گا نہیں، اور کبھی امریکہ میں یہ اعلان کیا کہ جا کر فلاں کے زندان سے ایئر کنڈیشنر اتروا دوں گا۔ کبھی تواتر سے اعلان کیا کہ فلاں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔
کاش! پارٹی کے اندر اور حکومت کے اندر کوئی ایسا نظام ہوتا جس میں غیر مقبولیت کے اسباب تلاش کیے جاتے، پھر ان پر غور کیا جاتا۔ پھر ایسی پالیسیاں تشکیل دی جاتیں جو حکومت کی مقبولیت کے گراف کو مزید گرنے سے روکتیں۔ وزیر اعظم کے ارد گرد جو افراد پوزیشنیں سنبھالے ہیں‘ ان میں مخلص شاید کوئی نہیں اور اگر کوئی ہے تو وہ بے بس ہے۔ ان کے قریبی حلقے میں جو صاحبان نمایاں حیثیت رکھتے ہیں وہ پارٹیاں بدلنے کے لیے مشہور ہیں۔ انہی میں سے ایک صاحب نے ایک معروف صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ حقیقت پسند ہیں نہ کہ نظریاتی! ایسے لوگ ہر صاحبِ اقتدار کے سامنے وہی رائے دیتے ہیں جو وہ سننا چاہتا ہے۔ پھر جب وہ رخصت ہو جاتا ہے تو یہی مہارت نئے حکمران کو شیشے میں اتارنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ حکمران بدلتے رہتے ہیں۔ خوش رکھنے والے وہی رہتے ہیں۔ بد قسمتی سے کوئی حکمران یہ نہیں سوچتا کہ یہ لوگ جو اپنے پہلے محسنوں سے منہ موڑ چکے ہیں کل میرے وفادار کیسے رہیں گے؟ آپ جب دوسری پارٹیوں کے ارکان کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ ملاتے ہیں تو کیوں نہیں سوچتے کہ کل اقتدار کا سنگھاسن ذرا بھی ڈولا تو انہیں کوئی اور لے جائے گا! احمد فراز یاد آ گئے۔
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا

Thursday, March 17, 2022

…………کوئی مار ہے یا بد دعا!


آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟
آپ اس لیے ہنس رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ووٹ ڈالنے کے بجائے حزب اقتدار ڈی چوک پر دس لاکھ افراد اکٹھے کرنا چاہتی ہے۔ آپ اس لیے ہنس رہے ہیں کہ ایک وفاقی وزیر صاحب نے چیلنج کیا ہے کہ کس مائی کے لعل میں کلیجہ ہے کہ 10 لاکھ کے مجمع سے گزر کر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالے۔ آپ کا موقف یہ ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد پیش کی جا رہی ہے تو یہ ایک جمہوری عمل ہے۔ آپ اس لیے ہنس رہے ہیں کہ مغرب میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے وزیر اعظم جب مغرب کو دوسرے ملکوں سے زیادہ جانتے ہیں تو مسئلہ پارلیمنٹ کے اندر حل کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے باہر کیوں حل کرنا چاہتے ہیں؟
مجھے آپ کے ہنسنے پر اعتراض ہے! اس لیے کہ آپ امریکہ یا فرانس یا سوئٹزرلینڈ میں نہیں پیدا ہوئے۔ آپ اسی پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہیں کے جم پل ہیں۔ یہیں بڑے ہوئے ہیں۔ آپ عمران خان اور ان کی پارٹی سے کیوں توقع کر رہے ہیں کہ وہ امریکیوں والا یا انگریزوں والا یا فرانسیسیوں یا جرمنوں والا رویہ اپنائیں؟ کیا وہ پاکستانی نہیں؟ کیا پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا آیا؟ کیا یہاں کسی نے کبھی ہار مانی ہے؟ سرحد کے اُس طرف راہول گاندھی نے پانچ ریاستوں میں کانگرس کی شکست فوراً تسلیم کر لی ہے اور عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکا دیا ہے! مگر یہ پاکستان ہے! یہاں اگر کوئی شکست تسلیم کر لے تو کرشمے سے کم نہیں! تو پھر تحریک انصاف کیوں قانون کے سامنے سر جھکا دے؟ اگر اسے یہ امکان نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی تو جان بوجھ کر کیوں ایسا ہونے دے؟ حزب اقتدار بھی اتنی ہی پاکستانی ہے جتنے ہم سب پاکستانی ہیں!
آپ اب یہ دلیل دیں گے کہ خان صاحب دوسروں سے مختلف تھے! یا کم از کم ان کا دعویٰ یہی تھا۔ وہ ہمیں امریکہ، یورپ، جاپان اور جنوبی کوریا کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ آپ یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ بھی مغربی ممالک کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اعلان کریں گے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اپوزیشن کا جمہوری حق ہے اور یہ کہ اگر تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو میں اقتدار چھوڑ دوں گا‘ مگر آپ کی یہ دلیل نہ صرف کمزور ہے بلکہ بودی بھی ہے! آپ بھول گئے کہ تحریک انصاف والے بھی پاکستانی ہیں اور پاکستانی صرف دعوے کرتے ہیں، دعووں پر عمل نہیں کرتے!
آپ روزمرہ کی زندگی دیکھ لیجیے۔ کیا ہمارے ہاں غلطی تسلیم کرنے کا رواج ہے؟ ہمارے بھائی کا کسی سے جھگڑا ہو جائے تو کیا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حق پر کون ہے؟ ہم تو ہر صورت میں بھائی کا ساتھ دیتے ہیں بے شک اس کی غلطی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اُسی قبائلی مائنڈ سیٹ میں گرفتار ہیں جس میں جاہلانہ دور کے عرب محصور تھے جو اپنے قبیلے کے رکن کی ہر حال میں حمایت کرتے تھے اور جنگ کرتے تھے۔ ہمارا یہ رویہ خاندان سے نکل کر اداروں تک پہنچ گیا ہے۔ ہم نے اداروں کو قبیلے سمجھ لیا ہے۔ قبیلے کا ایک رکن غلطی کرتا ہے تو ہم اندھادھند اس کی حمایت کرتے ہیں۔ دکاندار جرم کرتا ہے۔ پولیس آکر اسے گرفتار کرتی ہے تو پورا بازار اس کی حمایت میں بند کردیا جاتا ہے۔ تاجروں کی انجمن حکومت کو بلیک میل کرتی ہے۔ کیا آپ کو یاد نہیں جب قانون کے محافظوں نے ہسپتال پر حملہ کیا تھا؟ یہاں ججوں کو تھپڑ مارے جاتے ہیں۔ عدالتیں مقفل کر دی جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کا تازہ ترین قبائلی کارنامہ ملاحظہ کیجیے۔ ایک بہت بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر حضرات احتجاج کر رہے تھے اور اپنا احتجاج ہسپتال کے مختلف شعبوں میں دکھا رہے تھے۔ عین اُس وقت ہسپتال کے ایک شعبے میں یونیسیف کا غیر ملکی وفد موجود تھا۔ ڈاکٹروں نے نہ صرف ان کے سامنے احتجاج کیا بلکہ ہسپتال کے کہنے کے مطابق شیشے اور دروازے بھی توڑے۔ وفد اُٹھ کر چلا گیا۔ انتظامیہ نے انکوائری کمیٹی تشکیل دی اور احتجاج کے ذمہ دار ڈاکٹروں کو کہا کہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوں۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ ڈاکٹروں کو‘ جنہیں ہم ملک کی کریم کہتے ہیں‘ کیا کرنا چاہیے تھا؟ ظاہر ہے انہیں کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کرنا چاہیے تھا اور تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ وہ پورے ملک کے لیے شرمندگی کا باعث بنے‘ مگر نہیں! اس اعلیٰ تعلیم یافتہ گروہ نے قبائلی طرز اختیار کیا۔ ہڑتال کر دی۔ او پی ڈی کے شعبے بند کر دیے اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ کوئی ڈاکٹر کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہو گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ غلطی ماننے کا کلچر یہاں مفقود ہے۔ یہ ہے وہ دروازہ جو لاقانونیت کی طرف کھلتا ہے۔ ہم لاقانونیت کی اُس انتہا تک پہنچ گئے ہیں جہاں حکومت خود للکار رہی ہے کہ کس کا کلیجہ ہے کہ ہمارے خلاف ووٹ ڈالے!
قواعد و ضوابط کی کتاب میں سب کچھ درج ہے۔ تحریک عدم اعتماد کس طرح پیش ہو گی۔ ووٹنگ کا کیا طریق کار ہو گا؟ اس کے بعد کا لائحۂ عمل کیا ہو گا؟ مگر ہم ہر کام کرتے ہیں سوائے اس کے جو قانون کی کتاب میں لکھا ہے! میں، آپ، ہم سب اس حمام میں ننگے ہیں! کوئی مار ہے جو ہم پر پڑ رہی ہے۔ کوئی بد دعا ہے جو ہمیں قانون پر نہیں چلنے دیتی۔ میڈیکل میں داخلے کے لیے جتنے نمبر درکار ہیں‘ ہمارے بچے کے نمبر اس سے کم ہیں‘ مگر ہم اس قانون کو پاؤں کے نیچے روند کر ہر حال میں بچے کو میڈیکل میں داخل کرانا چاہتے ہیں۔ مکان کا نقشہ منظور ہو چکا ہے۔ ہم نقشے کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پھر جب جرمانہ ہوتا ہے تو سفارش ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں کتنے ہی مشہور پلازے خلاف قانون بنے۔ عدالوں میں شہرت ہوئی۔ کہیں زمین زیادہ گھیر لی گئی۔ کہیں منزلیں زیادہ تعمیر کر لی گئیں۔ امتحان کی تاریخ مقرر ہے، ہم احتجاج کریں گے کہ اسے آگے کیا جائے! سرکاری دفتروں پر نظر ڈالیے۔ سنیچر اور اتوار کی چھٹی ہے‘ مگر جمعہ کے دن دوپہر سے پہلے آدھے دفاتر خالی ہو جائیں گے۔ پھر یہ حضرات پیر کے دن دوپہر کے بعد نظر آئیں گے۔ آپ ہفتے میں چار چھٹیاں دے کر دیکھ لیجیے۔ یہی کچھ ہو گا۔ وقفہ برائے نماز کے بورڈ پر وقفہ شروع ہونے کا وقت درج ہو گا، وقفہ ختم کب ہو گا؟ اس کا ذکر نہیں ہو گا۔ قانون کی کتاب میں لکھا ہے کہ فٹ پاتھ سرکاری ملکیت ہے۔ اسے خالی رہنا چاہیے تا کہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو، مگر ہم اپنی دکان کا آدھا مال فٹ پاتھ پر رکھیں گے بلکہ سڑک کا کچھ حصہ بھی قابو کر لیں گے۔ ہماری کوئی تقریب وقت پر نہیں شروع ہوتی کیونکہ جو وقت دعوت نامے پر لکھا ہے ہم نے اس کی خلاف ورزی کرنی ہے۔ ہماری نفسیات میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ ہر حال میں قانون کو تاراج کرنا ہے۔ اس نفسیات کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک قانون کے آگے سر جھکانے کا کلچر عام نہیں ہو گا ہم ڈی چوک پر حکومتی جلسوں اور حزب اختلاف کے احتجاجی جلوسوں کے درمیان پِستے رہیں گے! ہم دنیا میں اپنی تضحیک اور تذلیل کا باعث بنتے رہیں گے!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, March 15, 2022

مگر یہ معاملات کس کے سامنے رکھے جائیں ؟؟

پرسوں کے جلسۂ عام میں وزیر اعظم صاحب نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ مغرب کو اپوزیشن سے زیادہ جانتے ہیں۔ اور یہ کہ وہاں رکن پارلیمنٹ کا ضمیر خریدنے کی کسی میں ہمت نہیں۔
ہمارے وزیر اعظم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ماضی اور حال کے تمام مشاہیر میں پہلے شخص ہیں جو مغرب کو دوسروں سے زیادہ جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ دعویٰ کسی نے نہیں کیا۔گاندھی اور نہرو‘ دونوں نے تعلیم انگلستان میں حاصل کی۔ مولانا محمد علی جوہر آکسفورڈ میں پڑھتے رہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ اتنی شستہ اور رواں انگریزی کہاں سے سیکھی؟کہنے لگے: ایک چھوٹے سے گاؤں سے! پوچھنے والے نے حیران ہو کر گاؤں کا نام پوچھا تو کہا :آکسفورڈ! قابلیت ایسی تھی کہ دی ٹائمز‘دی آبزرور اور دی مانچسٹر گارڈین میں ان کے مضامین چھپتے تھے۔ پھر انگریزی ہفت روزہ ''کامریڈ‘‘ نکالا۔ پہلی عالمی جنگ چھڑ چکی تھی۔ انگریز ترکوں کے خلاف تھے۔ مولانا نے کامریڈ میں وہ مضمون لکھا جو آج بھی شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ اس کا عنوان''The Choice of the Turks‘‘تھا۔چالیس گھنٹے لکھتے رہے۔ کمرے سے نہیں نکلے۔ سگریٹ اور قہوے کے علاوہ کچھ نہ کھایا‘ پیا۔ مضمون چھپا تو انگریز سرکار نے مولانا کو گرفتار کر لیا۔اخبار بند کر دیا گیا اور پرچہ ضبط ہو گیا۔ علامہ اقبال انگلستان میں بھی پڑھے‘ جرمنی میں بھی۔ جرمن زبان بھی آتی تھی۔ انگریز دانشوروں اور مستشرقین سے ذاتی روابط تھے۔ قائد اعظم نے بھی لندن میں تعلیم حاصل کی۔ کئی سال وہاں قانون کی پریکٹس کی۔ وہاں کے حکومتی طبقات سے تعلقات بھی تھے۔ ان سب میں سے کسی نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مغرب کو دوسروں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔ وزیر اعظم کا قیام برطانیہ میں کھیلوں کے حوالے سے رہا۔ کیا سیاست دانوں سے‘ سیاسی پارٹیوں سے‘ اہلِ دانش و علم سے بھی ان کے روابط رہے؟ اس بارے میں اطلاعات عنقا ہیں۔
ان کایہ کہنا کہ رکنِ پارلیمنٹ کا ضمیر خریدنے کی کسی میں ہمت نہیں‘ بالکل درست ہے؛ تاہم بہت سے اور بھی امور ہیں جو مغرب میں نہیں ہوتے۔ کیا مغرب میں حکمران اپنے گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر‘ سرکاری خرچ پر‘ ہیلی کاپٹر کے ذریعے آتے ہیں ؟ کیا مغرب میں سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات اسی طرح ہوتے ہیں جیسے تحریک انصاف کے اندر ہوئے ؟ تسنیم نورانی کیوں پارٹی چھوڑ کر چلے گئے؟ کیا مغرب میں سیاسی جماعتوں کے قائدین پچیس‘ پچیس سال پارٹی کی قیادت کرتے ہیں ؟ وہ بھی بغیر الیکشن کے ؟ کیا مغرب میں ذاتی احباب کو بڑے بڑے سرکاری مناصب تفویض کیے جاتے ہیں ؟کیا مغرب میں ایسا ہوتا ہے کہ پولیس کے ضلعی سربراہ کو وزیر اعلیٰ کے دفتر طلب کیا جائے مگر سوال جواب اس سے‘ وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں کوئی غیر سرکاری شخصیت کرے ؟ کیا مغرب میں یہ ممکن ہے کہ حکمران ایک بہت بڑے صوبے کی سربراہی ایک نسبتاً گمنام شخصیت کو سونپ دے اور سب جانتے ہوں کہ حکمران کی اس گمنام شخصیت سے کوئی واقفیت نہیں تھی ؟ کیا مغرب میں یہ ممکن ہے کہ سرکاری خرچ پر بننے والے ہسپتال کا نام وزیر اعلیٰ کے والد کے نام پر رکھ دیا جائے اور وزیر اعظم اس غلط بخشی پر سکوت کرے؟ کیا مغرب میں ایسا ہوتا ہے کہ چینی راتوں رات پچپن سے ایک سو بیس پر چلی جائے اور کسی ذمہ دار کو پکڑا نہ جائے ؟ کیا مغرب میں ایسا ممکن ہے کہ اسامی مشتہر کی جائے‘ چھ سو امیدواروں میں سے اٹھارہ چنے جائیں‘ ان کے انٹر ویو لیے جائیں مگر تعیناتی ایک گورنر کے سیکرٹری کی ہو جائے جس نے اس اسامی کے لیے درخواست دی تھی نہ انٹر ویو؟ کیا جنابِ وزیر اعظم نے اس کا نوٹس لیا کیونکہ یہ سارا معاملہ کسی صوبے کا نہ تھا‘ وفاق کا تھا! کیا مغرب میں یہ ممکن ہے کہ عام آدمی کے گھر‘ پلازے‘ دکانیں گرا دی جائیں مگر حکمران کا گھر‘ جو اُسی نوعیت کا ہو‘ Regulariseکر کے بچا لیا جائے ؟ کیا مغرب میں ایسا ہوتا ہے کہ جن عناصر کے بارے میں پہلے انتہائی بُری رائے سر عام دی جائے‘ انہی کو بعد میں بہت بڑے اور حساس مناصب پر فائز کر دیا جائے؟ کیا مغرب میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑے سرکاری‘ کلیدی‘ ذمہ دار‘ عہدے پر فائز شخص کہے کہ میں خود کُش بمبار بن کر تباہی پھیلانا چاہتا ہوں اور برملا یہ بھی کہے کہ یہ میری سوچ ہے اور قانون اس کا نوٹس نہ لے اور حکومت ایسے شخص کو بدستور اس بڑے اور کلیدی منصب پر بٹھائے رکھے ؟
جنابِ وزیر اعظم مغرب کو دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔ انہیں یقینایہ معلوم ہو گا کہ مغرب کی پوری تاریخ میں کسی وزیر نے ایسی ہولناک خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ قوم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ کابینہ کے ارکان سترہ سے زیادہ نہیں ہوں گے ! حقیقت میں ان کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے۔ آج تک اس کی توجیہ پیش کی گئی نہ قوم سے معذرت کی گئی! کیا مغرب میں یہی ہوتا ہے؟ ببانگ دہل وعدہ کیا گیا تھا کہ بجلی کے ہر بل پر پینتیس روپے پی ٹی وی کے جو لیے جاتے ہیں‘ ختم کیے جائیں گے۔ یہ ناروا ٹیکس آج تک ختم نہیں ہوا! کیا ایسی عہد شکنی‘ وہ بھی اس بلند سطح پر‘ مغرب میں ممکن ہے ؟ جنوبی پنجاب کے صوبے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ساڑھے تین سال میں یہ صوبہ نہیں بنا۔ کچھ افسر‘ اشک شوئی کے لیے‘ لگائے گئے مگر طاقت کا مرکز لاہور ہی ہے ! کیا مغرب میں وعدوں کے ساتھ یہی حشر ہوتا ہے؟
اس حکومت نے ڈاکٹر عشرت حسین کو سول سروسز اصلاحات کے لیے مشیر تعینات کیا۔ سب نے نشاندہی کی کہ یہ صاحب‘ یہی چورن پہلی حکومتوں کو بیچ چکے ہیں اور اس چورن کا کوئی فائدہ آج تک نہیں دیکھا گیا۔ مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی! یہ صاحب تین سال تک سرکاری مہمان بن کر براجمان رہے! قوم کو نہیں معلوم یہ کتنے میں پڑے۔ پھر انہیں اس لیے فارغ کر دیا گیا کہ ابھی تک حاصل حصول ان کی تعیناتی سے کچھ نہیں ہوا تھا۔ قوم کو آج تک نہیں معلوم کہ انہوں نے تین سال کے عرصہ میں کون سی اصلاحات پیش کیں یانافذ کیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ کل کی‘ روزنامہ دنیا کی خبر کے مطابق‘ وفاقی حکومت نے سول سروس اصلاحات کے لیے صوبائی حکومتوں سے تجاویز طلب کی ہیں! اس ضمن میں معاون خصوصی برائے اسٹیبلشمنٹ نے صوبوں کو مراسلے لکھے ہیں اوراصلاحات لانے کے ضمن میں قوانین میں ترامیم کی تجاویز بھی مانگی ہیں! اللہ اکبر ! سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ! حیرت ہے اور بے پناہ حیرت ! اگر سول سروس اصلاحات کے لیے تجاویز اب مانگی جا رہی ہیں تو عشرت حسین تین سال تک کابینہ کے اجلاسوں میں وزیر اعظم کو جنّوں پریوں کی کہانیاں سناتے رہے ؟ انہوں نے کیا ڈِلیور کیا؟ ان کا کوئی حساب کتاب! کوئی سزا؟ کوئی سرزنش؟ حکومت کا کوئی اعتراف کہ ان کی تعیناتی غلط تھی ؟ جناب وزیر اعظم مغرب کو بہتر جانتے ہیں ! کیا مغرب میں ایسا ہوتا ہے ؟
یہ سب تو مشتے نمونہ از خروارے ہے ! پوری دیگ ایسے ہی چاولوں سے بھری ہے ! قومی جسد پورا زخموں سے چُور ہے ! عہد شکنی اور ناروا اقدامات کا مکمل بیان ہو تو صفحوں کے صفحے سیاہ ہو جائیں! مگر یہ معاملات کس کے سامنے رکھے جائیں ؟
اسیرو! کچھ نہ ہو گا شور و شر سے
لپٹ کر سو رہو زنجیرِ در سے

بشکریہ روزنامہ دنیا 

Monday, March 14, 2022

کاغذ سے کشتی بنائی یا سمندر؟؟

آسٹریلیا سے بھارت جانا ہو تو بھارتی ایئر لائن کا ہوائی جہاز، براہ راست، کہیں رُکے بغیر، آسٹریلیا سے بھارت جاتا ہے۔ یہ بارہ تیرہ گھنٹے کی مسافت ہے۔ اگر آسٹریلیا سے پاکستان جانا ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔ آپ ہوائی اڈے پر جا کر، اطلاعات والوں سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان ایئر لائن کا جہاز پاکستان کے لیے کس وقت اُڑتا ہے؟ اطلاعات والا آپ کو غور سے دیکھتا ہے‘ پھر مسکراتا ہے‘ پھر اچانک اس کے چہرے پر کرب کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے‘ وہ رو پڑے گا۔ پھر وہ اپنے آپ کو مجتمع کرتا ہے‘ اور جوابی سوال داغتا ہے کہ کیا پاکستان کی کوئی ایئر لائن ہے؟ آپ فخر سے بتاتے ہیں کہ ہے! بالکل ہے! یہ پاکستانی ایئر لائن ہی تو تھی جس نے فلاں‘ فلاں اور فلاں ایئر لائنوں کو اُڑنا سکھایا۔ یہ ایئر لائنیں آج دنیا کی چوٹی کی ایئر لائنوں میں شمار ہوتی ہیں۔ اب کے اطلاعات والے کے چہرے پر آپ کے لیے رحم کے جذبات ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: یہ بات مجھے ہر پاکستانی بتاتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ پاکستان کی ایئر لائن، ان بڑی بڑی ایئر لائنوں کو اُڑنا سکھانے کے بعد خود اُڑنا کیوں بھول گئی ہے؟
غیرتِ ملّی کی یہ مناسب خوراک کھانے کے بعد اب آپ کے پاس پاکستان جانے کے لیے آپشن کیا کیا ہیں؟ آپ کے پاس صرف ایک آپشن ہے کہ مشرق وسطیٰ کی تین ایئر لائنوں میں سے کسی ایک پر سفر کریں۔ یہ پندرہ گھنٹے کی نان سٹاپ پرواز ہو گی! پندرہ گھنٹوں کے بعد جہاز آپ کو دبئی یا قطر کے ہوائی اڈے پر اُگل دے گا جہاں، اکثر و بیشتر حالات میں، پاکستان روانہ ہونے سے پہلے آپ کو بارہ سے پندرہ گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ ایئر لائنیں اتنے طویل انتظار کے لیے آپ کو ہوٹل میں ایک کمرہ دیتی ہیں۔ دبئی میں یہ ہوٹل ایئر پورٹ کی حدود سے باہر ہوتا ہے اس لیے ٹرانزٹ ویزہ کی ضرورت پڑتی ہے، اگر آپ پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کے ہیں تو پاسپورٹ، ٹکٹ اور ہوٹل کی بُکنگ دیکھ کر فوراً ویزہ دے دیا جاتا ہے۔ اگر آپ کا پاسپورٹ پاکستان کا ہے تو ایک بار پھر آپ کے مزے ہی مزے ہیں۔ ٹرانزٹ ویزہ نہیں ملے گا۔ قسمت اچھی ہے تو ہوٹل تبدیل کر کے، ہوائی اڈے کی حدود کے اندر کمرے کا بندوبست کر دیا جائے گا‘ ورنہ یہ بارہ پندرہ گھنٹے آپ ایئر پورٹ پر چلتے پھرتے گزاریں گے۔ خوب خوار ہوں گے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ اس طویل درماندگی، بیچارگی اور خستگی سے آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ دل میں پلنے والے حب الوطنی کے پودے کو نمکین پانی ملے گا۔ چونتیس پینتیس گھنٹوں کے بعد آپ پاکستان پہنچیں گے تو جو حالت ہو گی اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ سننے اور برتنے میں بہت فرق ہے۔ دوسری طرف وہ بھارتی جو آپ کے ساتھ ہی آسٹریلیا سے چلا تھا، آپ سے اٹھارہ بیس گھنٹے پہلے گھر پہنچ چکا ہے۔
کورونا کے حملہ آور ہونے سے پہلے پاکستانیوں کو آسٹریلیا جانے کے لیے تھائی ایئر لائن زیادہ راس آتی تھی۔ کم وقت میں پہنچا دیتی تھی۔ مگر وبا کی وجہ سے اس کا کاروبار متاثر ہوا ہے اور اب کم از کم پاکستان کا پھیرا نہیں لگا رہی۔ جن دنوں تھائی ایئر لائن سے سفر کرتے تھے، تو بنکاک کا ایئر پورٹ دیکھ کر پیٹ میں مروڑ اٹھتے تھے کہ چھوٹے چھوٹے دو دو بالشت کے تھائی کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم کہاں ہیں! ہر پانچ منٹ کے بعد جہاز اتر رہا ہوتا یا روانہ ہو رہا ہوتا۔ ہوٹلوں سے لے کر بازاروں تک ہر شے ایئر پورٹ کے اندر! ہزاروں مسافر آ رہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ کروڑوں کی روزانہ آمدنی! جہازوں سے بھی اور بازاروں سے بھی! سنگا پور اور ملائیشیا‘ دونوں پاکستان سے پیچھے تھے مگر کوالالمپور اور سنگا پور کے ہوائی اڈے حیران اور پریشان کرتے ہیں! اب آمد و رفت دبئی کے راستے ہے تو دبئی کا ایئر پورٹ ہم پاکستانیوں کو بے بسی اور شکست خوردگی کا احساس دلاتا ہے! پانچ سے زیادہ تو صرف ایمیریٹس ایئر لائن کے اپنے فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس لاؤنج یعنی مہمان خانے ہیں۔ دوسری ایئر لائنوں کے اس کے علاوہ ہیں۔ عام مسافروں کو سہولت بہم پہنچانے والے لاؤنج الگ موجود ہیں۔ ایئر پورٹ کے اندر بازار ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ریستورانوں کا جال بچھا ہے۔ ایئر پورٹ کی حدود کے اندر میٹرو ٹرینیں چل رہی ہیں۔ سارا نظام خود کار ہے۔ لفٹیں جدید ترین ہیں۔ کورونا کی وبا سے پہلے ایمیریٹس کی فی ہفتہ پروازیں تین ہزار تھیں۔ اس کا مطلب ہے ہر چوبیس گھنٹوں میں چار سو اٹھائیس پروازیں‘ یعنی ایک گھنٹے میں اٹھارہ جہازوں کا آنا جانا۔ گویا ہر تین اعشاریہ تین منٹ کے بعد ایک پرواز آرہی ہے یا جا رہی ہے۔ تراسی ملکوں کے ایک سو ستاون شہروں میں اس کے جہازوں کا آنا جانا تھا۔ اب کورونا کا زور کم ہوا ہے تو یہ انتہائی تیز رفتاری سے دوبارہ اپنے اہداف پورے کر رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی دو دوسری معروف ایئر لائنیں اتحاد اور قطر ایئر لائنیں بھی ایمیریٹس کے مقابلے کی ہیں۔
ان ملکوں کے لوگ، سب کے سب، ہمارے جیسے ہیں۔ وہی دو کان! دو آنکھیں اور ایک سر! یہ سفید فام یعنی مغرب سے بھی نہیں ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ قیام پاکستان سے پہلے کے ترقی یافتہ ہیں۔ یہ سب ہم سے پیچھے تھے۔ جس زمانے میں ہماری قومی ایئر لائن کا پرچم دنیا بھر کی فضاؤں پر ہر طرف لہرا رہا تھا، یہ ممالک زمین پر رینگ رہے تھے۔ پھر ہمیں کیا مار پڑی؟ اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔ نااہلی، نالائقی، بددیانتی، سفارش، اقربا پروری اور سب سے بڑھ کر سیاسی مداخلت! معاملے کا عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سارے اسباب آج بھی موجود ہیں۔ کوئی سبق سیکھنے کے لیے ہم تیار نہیں! قواعد و ضوابط کی دھجیاں ہر لمحے اڑائی جا رہی ہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کی تعیناتی میں جو کچھ ہوا وہ ہماری تیرہ بختی کی زندہ اور تازہ ترین مثال ہے!
اور کہتے ہم کیا ہیں؟ یہ کہ فلاں ملک نے ہمارے خلاف سازش کی تا کہ کراچی دنیا بھر کی پروازوں کا مرکز (HUB) نہ بن سکے۔ سازشی تھیوری ہمیں بہت راس آتی ہے! اس لیے کہ اس تھیوری میں آئینہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ یہ تو دیکھنا ہی نہیں‘ نہ سوچنا ہے کہ سنگا پور، ملائیشیا، قطر، یو اے ای، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ نے محنت کس قدر کی! سسٹم بنائے! پھر سسٹم نافذ کیے اور نفاذ کے راستے میں نااہلی، نالائقی، کرپشن، سفارش ، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت کی ہر دیوار کو گرا دیا! ان ایئر لائنوں کا کوئی جہاز کسی وزیر، بادشاہ یا سپیکر کے لیے اپنی پرواز ایک سیکنڈ بھی مؤخّر نہیں کرتا۔ ملازمتیں میرٹ اور صرف میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ اتنے افسر، بشمول سربراہ، فلاں ادارے سے لے لو‘ اور اتنے فلاں ادارے سے لے لو! ان ایئر لائنوں کو کوئی ادارہ، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اپنی چراگاہ نہیں بنا سکتا۔ کوئی سیاسی جماعت ان ایئر لائنوں پر اپنی زین نہیں لاد سکتی! بقول عباس تابش
مجھے بھی اوروں کی طرح کاغذ ملا تھا لیکن
میں اس سے کشتی نہیں، سمندر بنا رہا تھا
دوسروں نے سمندر بنا ڈالے! ہم نے بنی ہوئی کشتی بھی توڑ ڈالی!

بشکریہ روزنامہ دنیا 

Thursday, March 10, 2022

آخری دن تھا کئی دن کی ملاقاتوں کا


سفر ملک کے اندر کا ہو یا سمندر پار کا، وطن سے روانگی ہو یا واپسی، سفر سے پہلے ایک عجیب دل گرفتگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک ڈپریشن سا، ایک اضطراب سا! جیسے اُس شخص کی کیفیت ہوتی ہے جسے معلوم ہو کہ اب سانپ کے کاٹنے کا موسم آ گیا ہے! یہ عجیب بات ہے کہ ساری زندگی سفر میں گزری مگر اس اضطراب سے چھٹکارا نہ ملا۔ ایسا بھی نہیں کہ سفر سے بچنے کی خواہش ہو جیسا کہ منیر نیازی کی خواہش تھی:
بہت قیام کی خواہش سفر میں آتی ہے
طلسمِ شامِ غریباں رہائی دیتا نہیں
یہ بھی معلوم ہے کہ سفر زندگی کی علامت ہے۔ جس دن پوٹلی ہاتھ نے چھوڑ دی اور گٹھڑی سر سے اتر گئی، زندگی سے یہ اورنگِ ہمہ رنگ اور نغمہ و آہنگ رخصت ہو جائے گا۔ سفر پوست ہے اور جو باقی بچتا ہے استخواں ہے۔ سفر باہر کا ہو یا ذات کے اندر کا، ضروری ہے۔ ہجر اور ہجرتیں انسانی زندگی کا وہ حصہ ہیں جس سے گریز ممکن نہیں۔ جس نے گریز کیا، وہ زندگی ہی میں زرد، پژمردہ گھاس کی صورت بیٹھ گیا۔
سفر سے پہلے کی یہ اضطرابی کیفیت کیا کم ہے کہ اس پر مستزاد وہ کرب ہے جو فراق کا پیش خیمہ ہے۔ جیسے جیسے روانگی کا دن قریب آتا ہے، تیمور کے آنسو زیادہ گرنے لگتے ہیں۔ 'میں آپ کو مِس کروں گا‘ یہ کہہ کر اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ اپنے باپ سے پوچھ رہا تھا کہ ہم پاکستان کب جائیں گے؟ اور کتنے دن رہیں گے؟ اس نے بتایا کہ اتنے ہفتے! اس پر روتے ہوئے کہنے لگا: کیا ہم زیادہ نہیں رہ سکتے؟ زینب اب تو بڑی ہو گئی ہے۔ چھوٹی تھی تو وہ بھی یہی کچھ کرتی تھی۔ جاتے ہوئے رونا! ہم آرہے ہوں تب بھی رونا۔ اب بڑی ہو گئی ہے تو روتی تو نہیں، یہ ضد ضرور کرتی ہے اور ہر بار کرتی ہے کہ آج نہ جائیں، دو دن اور رُک جائیں۔ ہمارے ہاں آئی ہوئی ہو تو کہے گی اماں اور بابا سے کہیں کہ میں ان کے ساتھ واپس نہیں جانے کی! ایک ہفتہ اور رہوں گی!
زندگی کے مختلف ادوار ہیں! ہر دور کے اپنے تقاضے ہیں! ہر دورکی اپنی دلکشی، اپنی دل آویزی اور اپنا چارم ہے۔ جب ہم بچے تھے تو ہماری ساری کائنات دادا دادی اور نانا نانی تھے۔ عید اس لیے اچھی لگتی تھی کہ گاؤں جائیں گے تو اُن سے ملیں گے۔ سکول سے واپس، گھر میں داخل ہوتے تھے اور اگر ان بڑوں میں سے کوئی آیا ہوا ہوتا تو بستہ اور تختی ایک طرف پھینکتے اور دوڑ کر لپٹ جاتے۔ شباب کا اپنا افسوں تھا۔ اپنے بچے بڑے ہو رہے تھے تو زندگی کی جدوجہد بھی عروج پر تھی۔ صبح کا پتہ چلتا تھا نہ شام کا۔ ذمہ داریاں تھیں اور مالی مسائل! وہ جو کسی نے کہا تھا:
میں نے اپنی زیست کی مشعل دونوں طرف سے جلائی ہے۔
تو جوانی کے اختتام اور ادھیڑ عمر کے آغاز کا مطلب ہے کہ آپ اُس مشعل کی طرح ہیں جو دونوں طرف سے جل رہی ہے۔ بچوں کی تعلیم، شادیاں، ریٹائرمنٹ کے بعد نان و نمک کی فکر! پھر ہمارا نظام ایسا ہے کہ ایک پوری عمر چاہیے سر پر چھت تعمیر کرنے کے لیے۔ ملازم پیشہ مرد یا عورت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بنا لے تو غنیمت ہے۔ کچھ جنازے تو کرائے کے مکانوں ہی سے اٹھ جاتے ہیں۔
اس ساری مشقت کے بعد آپ بڑھاپے میں وارد ہوتے ہیں۔ زندگی کے اس دور کا اپنا چارم ہے۔ یہ ایک اچھوتی ہی فرحت ہے، ایک الگ ہی کشش ہے اور نرالی ہی جاذبیت اور لُطف ہے۔ آپ کو آپ کا پروردگار کھیلنے کے لیے کھلونے دیتا ہے۔ ایسے کھلونے جو آپ کی ساری زندگی کی مشقت کا تلخ ذائقہ زائل کر دیتے ہیں۔ یہ سانسوں کی جدوجہد کا ثمر ہے جسے خوش بخت ہی کھا پاتے ہیں۔ یہ آپ کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں! آپ تو ان سے لطف اندوز ہوتے ہی ہیں، یہ سوچیے کہ آپ اُن کے لیے کیا ہیں؟ آپ ان کے لیے ایک سہانے خواب سے کم نہیں! صرف ان بچوں کا دل ہی جانتا ہے کہ یہ آپ کو دیکھ کر، آپ کے ساتھ رہ کر، آپ کے ساتھ کھیل کر، آپ کے ساتھ لیٹ کر، آپ سے کہانیاں سن کر کس قدر خوش ہوتے ہیں۔ یہ ان کی عمر کا وہ حصہ ہے جس میں زندگی ان کے لیے اُڑتے ہوئے رنگین بادلوں، خوبصورت پرندوں اور کہانیوں میں جگمگاتی پریوں کے سوا کچھ نہیں۔ دادا دادی، نانا نانی، ان کے لیے، انہی رنگین بادلوں، خوبصورت پرندوں اور جگمگاتی پریوں کی طرح ہیں۔ ایک خواب کی مانند! ان کی فرمائشیں پوری کرتے ہیں۔ انہیں سیر کراتے ہیں۔ انہیں امی اور ابو کی ڈانٹ سے بچاتے ہیں۔ میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ میری نواسی کو ڈانٹا نہ کرو۔ اس پر اس نے ایک طنزیہ ہنسی ہنس کر کہا: ابّو! یہ آپ کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کو یاد نہیں آپ ہمیں کتنا ڈانٹتے تھے؟ جواب دیا کہ ہاں! ڈانٹتا تھا کیونکہ تب میں باپ تھا۔ تب آپ کے دادا ابو مجھے ڈانٹنے سے منع کرتے تھے۔ اب میں نانا ہوں‘ اور نانا کا یہی کام ہے۔ زندگی میں ہمارے رول بدلتے رہتے ہیں! ہماری حالتوں کی طرح! ہمارے بچپن اور شباب کی تصویریں دیکھ کر بچے ہم سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ پھر جب جان لیتے ہیں کہ یہ کون ہے تو حیران ہوتے ہیں۔ کہاں بچپن اور جوانی اور کہاں پیٹ نکلا ہوا اور بال اُڑے ہوئے۔
کہنے کو خدوخال نظر آشنا سے ہیں
ہے کون آئنے کے مقابل؟ کہا نہ جائے
حالتیں بدلتی ہیں تو ساتھ ہی رول بھی بدل جاتے ہیں۔
روانگی سے ایک دن پہلے بازار گیا اور بچوں کی پسندیدہ چیزیں لے کر آیا! پھل، کیک اور کھلونے! پاکستان میں روانگی کا دن ہو یا آمد ہو تو بچے آسانی سے سکول سے چھٹی کر لیتے ہیں‘ مگر یہ ولایت ہے! یہاں کوئی تصور ہی نہیں کہ دادا دادی واپس جارہے تھے اس لیے کل نہیں آیا۔ صبح بچے سکول گئے۔ حمزہ بھی! جو اب دس سال کا ہے اور بھاگ بھاگ کر دادا ابو کے کام کرتا ہے اور دادا کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور مجھے سلیم احمد کا شعر یاد آگیا:
آخری دن تھا کئی دن کی ملاقاتوں کا
آج کی شام تو وہ شخص اکیلا ہوتا
بینک گیا۔ انہیں کچھ کرنسی نوٹ دیے کہ ان کے بدلے میں سِکّے دیں۔ میرے علاوہ کوئی کلائنٹ اُس وقت بینک میں نہیں تھا۔ بینک کلرک میری طرح ہی غیر سفید فام تھی۔ پوچھنے لگی: آپ انڈیا سے ہیں؟ کہا: نہیں! پاکستان سے! کہنے لگی: میں دہلی سے ہوں۔ پھر اس نے پوچھا: انکل اتنے سکّوں کا کیا کریں گے؟ کیا بتاتا! بس مسکرا دیا۔ چار چار پانچ پانچ ڈالر مختلف جگہوں پر رکھ جاؤں گا۔ لائبریری کی کسی کتاب میں، کسی دراز میں، اپنے کسی کوٹ کی جیب میں، پھر ہر ہفتے، ہر دس دن بعد حمزہ، تیمور اور زہرہ کو فون پر بتاؤں گا کہ پاکٹ منی کہاں رکھی ہے۔ یہ ان کے لیے سرپرائز ہوگا۔ پاکٹ منی تو انہیں ملتی ہے مگر وہ روٹین کی ہے۔ یہ اس کے علاوہ ہو گی۔ اس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں جزیروں کی طرح ہیں۔ ہم سمندر میں بہہ رہے ہیں۔ بہے جا رہے ہیں۔ بہاؤ کے ساتھ! خوشی کا کوئی جزیرہ راستے میں آ جائے تو کچھ لمحے اچھے گزر جائیں! ورنہ پھر ہم اور وہی بہاؤ!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, March 08, 2022

کی جس سے بات ‘ اس نے شکایت ضرور کی


ملک اکرم اور چوہدری نصیر کی تیس سالہ دوستی ختم ہو چکی ہے !
کوئی جائداد کا جھگڑا نہیں تھا۔ کھیتوں کے درمیان کوئی مشترکہ پگڈنڈی نہیں تھی۔ ایک کے صحن میں دوسرے کی چھت کا پرنالہ پانی نہیں گراتا تھا۔ کوئی رشتہ مانگنے یا انکار کرنے کا مسئلہ نہیں تھا۔ کوئی افسر ماتحت یا کرایہ دار اور مالک مکان کا قصہ نہیں تھا۔ پلاٹ پر راتوں رات قبضہ کرنے کا ایشو بھی نہیں تھا۔ ہوا یہ تھا کہ تیس سالہ پرانے دوست آپس میں سیاسی بحث کر رہے تھے‘ایک مسلم لیگ نون کا حامی تھا‘ دوسرا تحریک انصاف کا ! بحث بڑھتے بڑھتے جھگڑے میں تبدیل ہونے لگی۔ ایک للکارا کہ تم نے میاں صاحب کے بارے میں اس طرح کی بات کیوں کی؟ دوسرا چیخا کہ خان صاحب کے متعلق ایسی ویسی غلط بات کی تو چھوڑوں گا نہیں۔ مناظرہ مجادلے کی صورت اختیار کر گیا۔ معاملہ گالی گلوچ تک پہنچ گیا۔ قریب تھا کہ دونوں ایک دوسرے کا گریبان پکڑتے ‘ محفل میں موجود ایک صاحب نے دونوں کو بٹھا یا مگر ملک اکرم اٹھ کر چلا گیا۔ جاتے ہوئے کہہ گیا کہ اس شخص سے کبھی بات نہیں کرے گا۔ وہ دن اور آج کا دن ‘ دونوں میں قطع کلامی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھگڑے کا علم میاں صاحب کو ہے نہ خان صاحب کو۔ جس نے میاں صاحب کی محبت میں تیس سالہ دوستی کا گلا گھونٹ دیا وہ میاں صاحب سے ملاقات تو کیا‘ بات تک نہیں کر سکتا۔ میاں صاحب کی قیام گاہ کے نزدیک بھی اسے کوئی پھٹکنے نہ دے! جو خان صاحب کی حمایت میں تیس سالہ پرانے دوست کو چھوڑ رہا تھا اسے خان صاحب جانتے تک نہیں! امکان کم ہی ہے کہ وہ انہیں مل بھی پائے یا ہاتھ ملا سکے۔
یہ کسی گاؤں کی بات نہیں۔ گاؤں میں تو خیر ‘ پوری برادری ہی سے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں ! یہ حکایت تو شہر کی ہے۔ اور یہ ایک گھر کی نہیں ‘ کئی گھروں کی سرگزشت ہے۔ ہم لوگوں میں دو بیماریاں عام ہیں‘ ایک تو سیاست پر گفتگو ضرور کرنی ہے۔ ہر شخص تجزیہ کار ہے ‘ اپنے خیال میں اتھارٹی ہے اور اس کاکہا حرفِ آخر ہے۔ کسی رشتہ دار کے ہاں جائیں یا کسی دوست کے ساتھ کسی ریستوران میں چائے کی پیالی پینے بیٹھ جائیں ‘ شادی کی کوئی تقریب ہو یا کہیں کوئی دعوت ہو‘ سیاست پر گفتگو ضرور ہو گی۔ یہ گفتگو کچھ ہی دیر میں دھواں دھار بحث میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے‘ گلے کی رگیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ایسی بحثوں کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔کوئی فریق بھی اپنا موقف تبدیل نہیں کرتا۔موقف‘ دلیل کی بنیاد پر ‘ وہاں تبدیل ہوتے ہیں جہاں شخصیات پر نہیں‘ نظریات پر گفتگو ہو۔ جہاں ذاتی وفاداریوں کا معاملہ ہو‘وہاں کوئی دلیل کام نہیں کرتی۔
چند روز پہلے پوری دنیا نے وہ وڈیو کلپ دیکھا ہے جس میں مریم نواز اپنی ایک پرستار خاتون سے بیزاری کا اظہار کر رہی ہیں اور اشارہ کر رہی ہیں کہ اسے پرے کیا جائے۔ اس پرستار خاتون نے بھی نہ جانے کتنے لوگوں سے مریم نواز کی خاطر بحث کی ہو گی‘ جھگڑا کیا ہو گا اور اپنے احباب اور رشتہ داروں کو ناراض کیا ہو گا۔ لوگ فیس بک پر ایک دوسرے کو بلاک کر دیتے ہیں یعنی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں رہتے۔کن کی خاطر ؟ جو انہیں اپنے ساتھ چلنے تک نہیں دیتے۔جو نزدیک تک نہیں آنے دیتے۔جنہیں ذاتی پہریدار پیٹ ڈالتے ہیں
تم بھلا کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
وجہ اس اندھی وابستگی کی شاید یہ ہے کہ غلامی ہماری سرشت میں اس طرح داخل ہو چکی ہے کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہی۔ آٹھ سو سال بادشاہوں اور شہزادوں کی خاطر جانیں قربان کرتے رہے۔تغلقوں‘ خلجیوں ‘ لودھیوں‘ سوریوں اور مغلوں کے لیے جنگیں لڑتے رہے‘ خون بہاتے رہے‘ ہاتھ باندھ کر درباروں میں کھڑے رہے ‘ فرش چومتے رہے‘ سجدے تک کیے۔ دوسروں کا تخت و تاج بچانے کے لیے خاندان تک لٹاتے رہے۔رہی سہی کسر انگریزوں نے پوری کرا دی۔ یس سر کا کلچر ایسا ہماری رگوں میں اترا کہ جان ہی نہیں چھوڑ رہا۔ ہم نے دستاریں اور اچکنیں پہنیں اور ان کے چوبدار ‘ بٹلر اور ویٹر بن گئے۔ بادشاہ جیسے بھی تھے ‘۔ رنگ‘ نسل اور زبان ان کی وہی تھی جو ہماری تھی۔ انگریز تو ہمارے رنگ اور ہماری نسل تک سے نفرت کرتے تھے۔مگر ان کے لیے ہم اپنے لوگوں کی بٹالینوں کی بٹالینیں موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔ اپنوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر تمغے‘ خطابات اور جائدادیں انعام میں حاصل کرتے رہے۔ یہ بادشاہ پرستی اور انگریز پرستی ہمارے مزاج کا حصہ بن گئی؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیّت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
اب ہمارے بادشاہ اور ہمارے صاحب بہادر کون ہیں ؟ زرداری‘ شریف‘ چوہدری اور خان! اب ہم ان کے لیے قتل نہیں کرتے نہ ہوتے ہیں مگر ان کی خاطر اپنے احباب‘ اعزّہ و اقارب یہاں تک کہ خونی رشتہ داروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ تعلق تک توڑ دیتے ہیں۔ اکبر بچہ تھا۔ بیرم خان جیسا مدبر‘ منتظم اور سپہ سالار اور کئی دوسرے سفید ریش عمائدین اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے۔ آج بھی وہی حال ہے۔ جن سیاست دانوں کی ساری عمریں سیاست کے خارزاروں میں ننگے پاؤں چلتے گزریں اور جن کے سر اور بھویں سفید ہیں ‘ وہ کل کے بچوں کی موروثی امارت کے ماتحت ہیں۔
سیاست کے بعد جس موضوع پر سب سے زیادہ بحثیں ہوتی ہیں‘ وہ مذہب بلکہ مسلک ہے۔ ادائیں ہماری ان بحثوں میں بھی وہی ہیں‘ پہلے گفتگو‘ پھر بحث‘ پھر مجادلہ! آخر میں تلخی‘ رنجیدگی اور تعلقات کی کشیدگی !
ان کج بحثیوں کی ایک بڑی وجہ وہ حشر ہے جو یوٹیوب پر برپا ہے۔ یوں لگتا ہے کفار کی اس ایجاد کو مالِ غنیمت کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔اختلافی مسائل جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں‘ انہی کو موضوع بنا یا جاتا ہے۔ اشتعال پھیلایا جاتا ہے۔ چیلنج دیے جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تمام مسالک کے ثقہ علما فرقہ واریت کے خلاف ہیں اور ہمیشہ اتحاد و اتفاق کی تلقین کرتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ یہاں نیم عالم بہت ہیں۔ پھر‘ عوام کا ایک اچھا خاصا حصہ چسکے لینے کی خاطر فرقہ وارانہ تقریریں سننا پسند کرتا ہے اور اسے تفریح سمجھ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر تو کھلی چھٹی ہے ہی‘ الیکٹرانک میڈیا پر بھی کچھ حضرات ایسی بحثیں کراتے پھرتے ہیں جو ازحد افسوسناک ہے۔ اس سے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ متعلقہ اداروں کو فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز مواد پر گرفت کرنی چاہیے اور ایسا مواد پھیلانے والوں کا محاسبہ کر نا چاہیے مگر لگتا ہے متعلقہ اداروں کی ترجیحات اور ہیں۔ سوشل میڈیا پر آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ لاحاصل مسائل پھیلا کر ملکی اتحاد میں شگاف ڈالے جائیں۔
آخر ایسا کون سا طریقہ ہے کہ ہم بحث کرتے وقت تہذیب کے دائرے میں رہیں۔ آواز اونچی نہ کریں‘ ذاتی حملے نہ کریں ‘ بحث کو جھگڑے تک نہ لے جائیں اور سماجی تعلقات کو متاثر نہ ہونے دیں۔ آخر مہذب قوموں میں بھی تو بحث کرنے کا رواج ہے۔ مذہب یوں بھی مخلوق اور خالق کے درمیان رشتہ قائم کرتا ہے۔ کیا اس پر بحث ضروری ہے ؟——————بشکریہ روزنامہ دنیا 

Monday, March 07, 2022

فلیش بیک


یہ ایک اور ہی دنیا تھی۔ بالکل الگ۔بالکل مختلف!
سرِشام سرگرمیاں شروع ہو جاتیں۔ادھر ہانڈی کے لیے مسالا الگ کُوٹا جا رہا ہوتا۔پیکٹوں میں بند مسالے بازار سے لانے کا تب کوئی تصور تھانہ بازار میں ہوتے تھے۔آج تو اچاری چکن سے لے کر نہاری تک ہر سالن کے مسالے الگ الگ بِک رہے ہیں۔ تب ہلدی‘ سرخ مرچ‘ نمک‘کا ملغوبہ روز کا روز تیار کیا جاتا۔ نمک اُن دنوں چٹانوں کی صورت گھر وں میں لایا جاتا تھا۔توڑ کر‘ پیسا جاتا۔ دوسری طرف‘ صحن میں‘ لالٹینوں کے شیشے صاف ہو رہے ہوتے۔ ہر لالٹین میں تیل چیک کیا جاتا۔ صحن میں پانی چھڑکا جاتا۔ کمروں کے اندر سے چارپائیاں لاکر رکھی جاتیں۔ ان پر دریاں یا چادریں بچھائی جاتیں۔ تکیے رکھے جاتے۔ چھت پر سونا ہوتا تو وہاں چارپائیاں بچھتیں۔ ان پر مچھر دانیاں تانی جاتیں۔ مچھروں کو بھگانے کے لیے صحن کے ایک کونے میں گوبر سلگایا جاتا جس کا دھواں آنکھوں میں بھی پڑتا۔ رات کو آسمان پر تارے نظر آتے۔ کہکشاں دکھائی دیتی۔ دُبِّ اکبر ( سات ستاروں کے جھرمٹ ) کا نظارہ کیا جاتا۔ ٹھنڈی ہوا چل پڑتی تو وارے نیارے ہو جاتے۔
آج کے بچوں کی قسمت دیکھیے۔ آسمان‘ رات کو تو کیا‘ دن کو بھی کبھی نہیں دیکھا۔ کمروں میں پیدا ہوتے ہیں۔ کمروں ہی میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ پنکھے اور ایئر کنڈیشنر کے ساتھ گرمیاں اور ہیٹر کے ساتھ سردیاں گزرتی ہیں۔ گرمیوں میں پیڑوں کی چھاؤں نصیب میں ہے نہ سردیوں میں سنہری میٹھی دھوپ ! وٹامین ڈی کی کمی مصنوعی گولیوں اور ٹیکوں سے پوری کی جاتی ہے۔ طرزِ تعمیر ایسا آیا کہ صحن غائب ہو گئے۔ جن کے مکان بڑے ہیں‘ انہوں نے صحن کو گھر سے باہر نکال کر اس کا نام لان رکھ دیا۔ کتنے ہی ہیں جن کو ہفتوں اس لان میں بیٹھنا تک نہیں نصیب ہوتا‘ سونا تو دور کی بات ہے۔ جن کے گھر چھوٹے ہیں وہ اس نام نہاد لان سے بھی محروم ہیں۔ پانچ یا سات مرلے کے مکان میں لان کہاں سے آئے گا۔ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے کی کیا۔جس تیزی سے دیہاتی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی (urbanisation) ہو رہی ہے‘ اس میں ہر کسی کو بڑا گھر مل بھی نہیں سکتا۔ گاؤں میں جن کے بڑے بڑے مکان تھے‘ اور کنال کنال کے صحن تھے‘ وہ شہر میں آکر گنجان گلیوں محلوں میں چھوٹا سا گھر بنا پاتے ہیں۔ جُوع الارض(land- hunger)نئی نئی صورتوں میں سامنے آرہی ہے۔ ایک زمانہ تھا وفاقی دارالحکومت میں سخت پابندی تھی کہ مکان کا کَوَرڈ ایریا ( یعنی جس پر چھت ہو) مکان کے کُل رقبے کا صرف ستر فیصد ہو گا۔ باقی لان ہو گا۔ اُس زمانے میں جو مکان بنے وہ اگر بارہ مرلے( 40x80)کے بھی تھے تو لان اچھا خاصا نکل آتا تھا۔ پھر قانون بدل گیا۔ اب نوّے فیصد ایریا پر چھت ڈالی جا رہی ہے۔ یوں پانچ سو گز والے گھر میں بھی نام نہاد لان سکڑ کر ماچس کی ڈبیا سے کچھ ہی بڑا رہ گیا ہے۔ اوپر سے معاشی دباؤ! تہہ خانے میں کرایہ دار‘ اوپر کی منزل پر بھی کرایہ دار۔ درمیان میں صاحبِ خانہ خود۔ گلیاں کوچے پارکنگ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ مستقبل میں شاید شہروں میں چار چار منزلیں اور دو دو تہہ خانے بنانے پڑیں۔ ملک کے کچھ حصے ایسے ہیں جہاں اب بھی ایک کنبے میں اوسطاً دس دس‘ بارہ بارہ بچے پیدا ہو رہے ہیں۔کہتے تو ہم یہ ہیں کہ آبادی بائیس کروڑ ہے مگر پچیس سے کم کسی صورت نہیں۔ ہماری مردم شماری نقائص اور کمزوریوں سے اٹی ہوئی ہے۔ بہت سے علاقے ناقابلِ رسائی ہیں۔ رسم و رواج کے گنجلک مسائل الگ ہیں۔ خواتین کی تعداد بتانا پسند نہیں کیا جاتا۔ تعداد بتائی جائے تو غلط بتائی جاتی ہے۔ کچھ تو مرنے مارنے پر آجاتے ہیں۔ جو نکتہ ہم سمجھ نہیں پا رہے‘ یہ ہے کہ درست مردم شماری کا تعلق تعلیم سے ہے۔ ناخواندہ گھرانوں کی درست مردم شماری ناممکن نہیں تو ازحد مشکل ضرور ہے۔ مردم شماری کی ٹیموں کا کام آسان نہیں۔ بہت کم معاوضہ! اور دھکے بے شمار !
ایندھن اکٹھا کرنا ایک اور سرگرمی تھی۔ خاص طور پر سردیاں آنے سے پہلے۔ مغربی پنجاب کی سطح مرتفع کا رہن سہن وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب سے مختلف ہے۔ پہاڑیوں اور ٹیلوں سے اَٹا ہوا یہ علاقہ آج بھی ایک مشکل اور بامشقت طرزِ زندگی سے گزر رہا ہے۔ جب ملازم اور گاؤں کے دوسرے لوگ ایندھن اکٹھا کرنے ان پہاڑیوں اور ٹیلوں کا رُخ کرتے تو ہم بچے بھی ساتھ ہو لیتے۔ ہمارے لیے یہ ایک تفریح تھی۔ درخت کاٹے جاتے۔ خود رو جنگلی جھاڑیاں اکٹھی کی جاتیں۔ ساتھ ساتھ شکار بھی کھیلا جاتا۔ آج کل شکار بالائی طبقے کی عیاشی بن کر رہ گیا ہے مگر ہماری نسل جب بچپن اور لڑکپن سے گزر رہی تھی تو مغربی پنجاب میں شکار عام تھا۔ پھر کچھ خاص افراد نے ان علاقوں کو شکار کے نام پر خوب تاخت و تاراج کیا۔ ہرن تو ختم ہی کر ڈالے۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔
سردیوں کا اپنا رنگ تھا۔ آج کل تو شاید گاؤں کے بچے بھی اُس رنگ سے پوری طرح آشنا نہ ہوں۔ اب تو گلیاں بھی پکی ہو گئی ہیں اور صحن بھی۔ پانی کی ٹونٹیاں بھی ہیں‘ برقی روشنی بھی اور ٹیلی فون بھی۔ گاؤں میں بیٹھے ہوئے لڑکے لڑکیاں انٹرنیٹ تک بھی دسترس رکھتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال تھا کہ چھٹیاں گاؤں میں گزارتے تھے تو دنیا سے کٹے ہوئے۔ جو بھی شہر جا رہا ہوتا‘یا نزدیکی قصبے میں‘ تو ایک ہی فرمائش ہوتی تھی کہ انگریزی کا اخبار لیتے آئیں۔ اُس وقت ( کراچی کو چھوڑ کر ) ایک ہی انگریزی اخبار تھا‘پاکستان ٹائمز۔
سردیاں آتیں تو رسوئی سب کی پسندیدہ جگہ قرار پاتی۔ دھویں کے باوجود وہاں کی حرارت اچھی لگتی۔ وہیں چٹائی یا دری بچھا کر کھانا کھایا جاتا۔خوابگاہ میں دہکتے کوئلوں سے بھری انگیٹھی رکھی جاتی۔جب سب بستروں اور رضائیوں میں مقیم ہو جاتے تو لالٹین بجھا دی جاتی یا بہت مدہم کر دی جاتی۔ جن راتوں کو چاند عروج پر ہوتا‘ وہ راتیں غضب کی ہوتیں۔ آدھی رات کو اندھیرے کمرے سے باہر نکلتے تو صحن بقعۂ نور بنا ہوتا۔ دم بخود رہ جاتے۔ ہر طرف چاندنی رقص کر رہی ہوتی۔ ساتھ‘ زمین سے آسمان تک‘ ایک بسیط خامشی ہوتی۔درخت ساکن ہوتے۔میری چارپائی‘ عام طور پر‘ کھڑکی کے ساتھ ہوتی۔ جب بھی باہر نکلتا‘ شکیب جلالی کا یہ شعر ضرور یاد آتا ؎
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں
تب حویلیاں آباد تھیں۔کمرے سامان سے بھرے ہوئے تھے۔ گندم سے بھری بوریاں فرش سے چھت تک تھیں۔مال مویشی تھے۔ گھوڑے تھے۔ کھیت کھلیان تھے۔ نئی فصل اترتی تو بھنگڑے ڈالے جاتے۔ پکوان پکتے۔شادیوں پر رقص ہوتے۔لڈیاں ڈالی جاتیں۔ اونٹوں پر سرخ کجاوے ہوتے جن میں مستورات کو بٹھایا جاتا۔ پھر دادا گئے۔ دادی رخصت ہوئیں۔ ننھیال والے گاؤں سے نانی نے رختِ سفر باندھا۔ پھر نانا اپنی عزیز ترین گھوڑی کو چھوڑ کر چل دیے۔ کچھ عرصہ بعد زمانے نے ایک اور صفحہ پلٹا۔ ماموں بھی گئے۔ والدین بھی داغِ مفارقت دے گئے۔زمانہ گیا اور زمانے والے بھی ! پنکھوں‘ ایئر کنڈیشنروں‘ ڈرائنگ روموں والے قید خانے رہ گئے۔ یا وہ زینیں جن پر بزرگ سواری کرتے تھے اور لڑکپن میں ہم بھی !
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Thursday, March 03, 2022

2) یوکرین … اصل کہانی


آج یوکرین میں ماتم کی ایک نہیں، دو صفیں بچھی ہیں۔ ایک صف موجودہ جنگ اور اس کی لائی ہوئی تباہی کی اور دوسری اُس پچھتاوے کی جو ایٹمی ہتھیار روس کو دے دینے کے نتیجے میں اس ملک کے ہر باشندے کو اندر سے کھائے جا رہا ہے۔ یوکرین کفِ افسوس مل رہا ہے۔ اس لیے کہ اس نے امریکہ اور برطانیہ کی گارنٹی پر یقین کیا اور ایٹمی ہتھیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یوکرین کے سابق وزیر دفاع، اینڈری ظہورُد نیوک نے جو کچھ کہا، بہت سے ملکوں کے لیے عبرت کا سبق ہے۔ ہم نے اپنی قابلیت خود ضائع کر دی‘ اب جب بھی ہمیں کوئی کہے گا کہ اس کاغذ پر دستخط کرو، ہم کہیں گے بہت شکریہ! ہم بھگت چکے ہیں۔ چھوٹے ملکوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایٹمی حملے کی روک تھام (Detterrent) سے محروم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی موت کے پروانے پر خود دستخط کر دیے جائیں۔
لیبیا ایک اور مثال ہے کہ مغربی ممالک کس طرح جھوٹ بولتے ہیں اور کس بے حیائی اور بے شرمی سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ 2003 میں معمر قذافی نے یک طرفہ اعلان کیا کہ لیبیا اپنا ایٹمی پروگرام اور کیمیائی ہتھیاروں کا سلسلہ ختم کر رہا ہے تاکہ مغرب سے تعلقات نارمل ہو جائیں۔
مغرب نے بظاہر اسے خوش آمدید کہا اور تعلقات بڑھائے‘ مگر 2011 میں عرب بہار آ گئی۔ قذافی نے دیکھا کہ اسے خوش آمدید کہنے والے اس کے مخالفین کو مسلح کر رہے ہیں۔ قذافی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار چکا تھا۔ اس کی موت پر اسی مغرب نے خوشیاں منائیں۔ سب سے زیادہ قابلِ غور بیان شمالی کوریا نے اس موقع پر دیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ شمالی کوریا نے مغربی ملکوں کی ہزار کوششوں کے باوجود اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم نہیں کیا۔ جب لیبیا پر بمباری ہو رہی تھی، عین اس وقت شمالی کوریا نے کہا کہ لیبیا کا بحران بین الاقوامی برادری کو ایک سنگین سبق دے رہا ہے‘ ہتھیاروں سے ہاتھ دھونے والے معاہدے کا مطلب ہے کہ آپ کو غیرمسلح کیا جا رہا ہے تاکہ آپ پر حملہ کیا جائے۔ گویا تباہی کے تین مرحلے ہیں۔ تین یقینی مرحلے! پہلا مرحلہ یہ ہے کہ حفاظت کی گارنٹی دے کر ہتھیار لے لو۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وعدہ توڑ دو۔ تیسرا اور آخری مرحلہ یہ ہے کہ حملہ کر دو اور اس بے وقوف ملک کو اپنا باجگزار بنا لو!
2015 میں پوتن نے پہلی بار سابق سوویت یونین کی حدود سے باہر اپنی جارحیت دکھائی۔ شام کے آمر بشارالاسد کی مدد کو آکر اس نے اپنے ہتھیار اور اپنی عسکری قابلیت آزمائی۔ روسی جہازوں نے شام کے ہسپتالوں، سکولوں اور بازاروں پر اندھا دھند بمباری کی۔ گزشتہ سات سال سے شام عملاً روس کی ذیلی ریاست بنا ہوا ہے۔ پہلے جارجیا، پھر کریمیا، اور پھر شام میں کامیاب مداخلت کے بعد روس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ روس جانتا ہے کہ امریکہ ابھی اُن زخموں کو چاٹ رہا ہے جو اس نے افغانستان میں کھائے۔ یورپ اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ چین کے ساتھ روس کا براہ راست مقابلہ نہیں۔ یوں اس کے لیے میدان کھلا ہے۔ یوکرین کے معاملے میں امریکہ نے جس طرح بزدلی ( یا منافقت) دکھائی اس کے بعد روس کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ یوکرین پر فوج کشی، روس کی آخری فوج کشی نہیں۔ الزام تو اردوان پر لگتا ہے کہ وہ عہدِ عثمانیہ واپس لانا چاہتا ہے مگر مغرب کو یہ نہیں نظر آرہا کہ پوتن کا روس ایک بار پھر سوویت یونین کا ماڈل اپنانے کی تیاری میں ہے۔
پاکستان کے جو حلقے اس کے نیوکلیئر پروگرام کی مخالفت کرتے ہیں اور اسکے ایٹمی پروگرام پر معترض رہتے ہیں، کیا یوکرین کا انجام دیکھ کر بھی اپنے موقف پر قائم رہیں گے؟ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا کوئی علاج نہیں۔ ورنہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان کے دامن میں ایٹمی حملے کی روک تھام کے اسباب (detterrence) نہ ہوتے تو بھارت نے اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا تھا جو آج روس یوکرین سے کر رہا ہے۔ یہ جو ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو تو اس سے یہی مراد ہے۔ جب معلوم ہو کہ مد مقابل کی تلوار اٹھے گی تو اپنی تلوار کو پھینک دینا خود کشی ہی نہیں، پرلے درجے کی حماقت بھی ہے۔ یوکرین کا حشر دیکھ کر چھوٹے ملک آئندہ اپنے پاؤں پر کم ہی کلہاڑی ماریں گے۔
یوکرین پر واضح جارحیت کے بعد دنیا میں یک قطبی (unipolar) نظام کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ نے پوری دنیا کی چوہدراہٹ کا تاج اپنے سر پر رکھ لیا تھا۔ اس کا کوئی مد مقابل نہیں رہا تھا۔ روس پر وہ وقت بہت برا تھا۔ اس کی حالت وہی ہو گئی تھی جو آج کل جنوبی افریقہ کی ہے۔ گلی کوچوں میں لوٹ مار ہونے لگی تھی۔ چھروں سے پیٹ پھاڑے جا رہے تھے۔ بدامنی کا دور دورہ تھا۔ پوتن آیا تو اس نے حالات کو بدلنے کی ٹھانی۔ آج روس ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ یوں کہ امریکہ سمیت کوئی بھی اس کا راستہ روکنے کی ہمت نہیں کررہا۔ دنیا پھر دو قطبی (Bipolar) نظام میں بٹ گئی ہے۔ امریکہ کی اجارہ داری شکست کھا چکی! کل کو اگر روس جارجیا پر یا قازقستان پر یا کسی اور ملک پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ کا رد عمل ویسا ہی بزدلانہ اور کھوکھلا ہو گا جو یوکرین نے آزمایا ہے۔ اب دوسرے ملکوں پر پوتن کو سوویت یونین جیسا قبضہ نہیں چاہیے، اسے صرف ذیلی ریاستیں در کار ہیں جو اس کے اشارۂ ابرو پر ناچیں۔ جیسے بیلاروس ناچا ہے۔ روس کی برّی فوج بیلا روس کے راستے یوکرین میں داخل ہوئی۔ بیلا روس انکار کرتا تو اس کا حشر وہی ہونا تھا جو یوکرین کا ہوا۔ سچ یہ ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں پر بھی روس کا اثر بہت زیادہ ہے۔ کسی میں ہمت نہیں کہ روس کی خواہشات کے آگے بند باندھے۔ امریکہ کی مونچھ جو سوا نو بجا رہی تھی‘ اب ساڑھے چھ بجا رہی ہے۔
اگر امریکہ اور برطانیہ یوکرین جیسے ملک کو دھوکہ دے سکتے ہیں تو ایشیائی اور افریقی ممالک کس کھیت کی مولی ہیں؟ یوکرین تو امریکہ اور برطانیہ کا ہم مذہب ہے! ہم رنگ بھی! طرز زندگی بھی ایک جیسا ہے۔ وہی تہذیب! وہی فلسفۂ زندگی ! زرد فام، سیاہ فام اور گندمی رنگ رکھنے والے، جو غیر عیسائی بھی ہیں، امریکہ پر کیسے اعتبار کر سکتے ہیں؟ کوئی مانے یا نہ مانے، پہلی بات اور آخری بات ایک ہی ہے! اپنا بازو مضبوط ہونا چاہیے! جو دوسروں پر تکیہ کرے گا، مارا جائے گا۔ امریکہ مشرق وسطیٰ کے کچھ ملکوں کا اگر سرپرست (بظاہر دوست) بنا ہوا ہے تو ان ملکوں کی خارجہ اور اقتصادی پالیسیاں بھی امریکہ کی مرضی سے تشکیل پاتی ہیں۔ ایک بار پھر شمالی کوریا یاد آرہا ہے۔ آمریت ہے یا وہاں فسطائیت، یہ ایک اور معاملہ ہے۔ ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام، اسے بچائے جا رہا ہے۔ ورنہ نقشہ دیکھیے تو اس کا سائز ذرا سا ہے! ایک چھوٹی سی مچھلی! اور ویل جتنا یوکرین خون میں لت پت پڑا سسک رہا ہے! کراہ رہا ہے! جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت رہا ہے۔ اس میں عبرت کا سامان ہے مگر اُن کے لیے جو آنکھیں رکھتے ہیں! ہاں جو اندھے ہیں، انہیں سورج بھی کچھ نہیں دکھا سکتا! ہماری کیا حیثیت ہے! (ختم)

Tuesday, March 01, 2022

یوکرین… اصل کہانی


اپنی حفاظت کا ان سب کو بہت خیال ہے!
یہ اپنے گرد ایک حصار کھینچ لیتے ہیں۔ پھر چاہے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے، خون کے دریا ہی کیوں نہ بہانے پڑیں، ایٹمی دستوں کو الرٹ ہی کیوں نہ کرنا پڑے، اِس حصار کے اندر کسی مخالف کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔
کیوبا میں یہی کچھ تو ہوا تھا۔ یہ 1962 کی بات ہے۔ سوویت یونین اور مغرب کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی۔ امریکہ نے اٹلی اور ترکی میں میزائل نصب کر دیے۔ یہ ایک لحاظ سے سوویت یونین کے گرد کھینچے گئے حصار کے اندر گھسنے والی بات تھی۔ ترکی کی سرحد مشرق میں آمینیا اور جارجیا سے ملتی تھی جو سوویت یونین کا حصہ تھے۔ شمال میں بحر اسود تھا جس کے پار سوویت یونین تھا۔ جواب میں خروشچیف نے کیوبا میں میزائل لگانے کا فیصلہ کیا اور انفرا سٹرکچر تعمیر کرانے کا آغاز بھی کردیا۔ یاد رہے کہ کیوبا اور امریکی ریاست فلوریڈا کے درمیان صرف سو میل کا فاصلہ ہے۔ جان ایف کینیڈی امریکی صدر تھا۔ اس کی سکیورٹی کمیٹی نے مشورہ دیا کہ کیوبا پر حملہ کر دیا جائے تاہم کینیڈی نے سمندری محاصرہ کرنے کا حکم دیا تا کہ کوئی بحری جہاز تنصیبات لے کر کیوبا میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ ساتھ ہی امریکہ نے دھمکی دی کہ نصب شدہ میزائل کیوبا سے ہٹا لیے جائیں۔ ایٹمی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا۔ پھر مذاکرات ہوئے۔ کیوبا سے میزائل ہٹا لیے گئے۔ ساتھ ہی خفیہ معاہدہ ہوا کہ ترکی سے امریکی میزائل بھی ہٹا لیے جائیں گے۔ یوں خطرہ ٹلا‘ مگر دونوں طاقتوں نے اپنے اپنے حصار میں گھسنے کی اجازت نہ دی۔
آپ کو گریٹ گیم کا قصہ یاد ہے؟ آخر کیا تھی گریٹ گیم؟ یہی حصار کھینچے جانے کا معاملہ تھا۔ ہندوستان پر انگریز حکمرانی کر رہے تھے۔ اُدھر سے زارِ روس نے دھڑادھڑ ترکستانی ریاستوں کو ہڑپ کرنا شروع کیا۔ تاشقند، بخارا، سمرقند، خجند سب کو فتح کر لیا۔ تب انگریزوں نے حصار کھینچ لیا۔ افغانستان کو درمیان میں بفر سٹیٹ قرار دیا اور سوویت یونین اور برطانوی ہند کے درمیان طے ہوگیا کہ دونوں طاقتیں افغانستان کو عبور کر کے ایک دوسرے سے براہ راست متصادم نہیں ہوں گی۔ زار کا دور ختم ہوا تو سوویت یونین نے یہی پالیسی جاری رکھی۔ کون سا ظلم ہے جو وسطی ایشیا میں روسیوں نے روا نہیں رکھا۔ رسم الخط بدلا۔ لباس تک بدل دیا۔ مساجد‘ مدارس سب ختم کر دیے۔ لوگ گھروں میں چھپ کر بھی نماز پڑھنے سے ڈرتے تھے۔ فرغانہ وادی کی ایک مسجد میں نمازی سجدے میں تھے تو روسی جرنیل ان کی گردنوں پر پاؤں رکھتا، گزرتا گیا۔ آزادی کی تحریک کو، جس کا نام بَسماچی تحریک تھا، کچل کر رکھ دیا۔ روسی لاکھوں کی تعداد میں لا کر آباد کیے یہاں تک کہ آبادی کا تناسب ہی بدل گیا۔ صرف تاشقند شہر میں روسی چالیس فی صد ہو گئے۔ کاٹن کی پیداوار زبردستی بڑھائی یہاں تک کہ دریا خشک ہو گئے۔ ارال جھیل سُوکھ گئی اور اس کا نام بحری جہازوں کا قبرستان پڑ گیا۔ ترکستان کو ریاستوں میں اس طرح بانٹا کہ اندرونی ہم آہنگی پیدا ہی نہ ہونے پائے۔ تاجکستان کی زبان فارسی ہے مگر فارسی بولنے والے شہر (سمرقند اور بخارا) ازبکستان میں شامل کر دیے۔ ہمیشہ کوشش کی کہ ان ریاستوں میں حکمران ان افراد کو مقرر کیا جائے جن کی بیویاں روسی ہیں۔ دوسری طرف انگریزوں نے افغانستان کو اپنے دائرۂ اثر میں رکھنے کے لیے تین جنگیں لڑیں۔ افغان حکمرانوں کو چین سے کبھی نہ بیٹھنے دیا۔ ہر حکمران کے خلاف سازشوں کے جال پھیلائے۔
اپنی حفاظت کا انہیں بہت خیال رہتا ہے۔ دوسروں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ جو ملک ان کی زمین سے جتنا دور ہو، اُس پر چڑھ دوڑنے میں اتنی ہی بے تابی دکھاتے ہیں۔ ویت نام کو بھنبھوڑ کر، ادھیڑ کر، رکھ دیا۔ مدتوں اس میمنے کے جسم سے خون بہتا رہا۔ صدی کا سب سے بڑا جھوٹ بولا کہ عراق کے پاس تباہ کُن ہتھیار ہیں جب کہ خود جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ عراق کو اس طرح تقسیم کیا کہ آج کُرد، عرب، شیعہ، سُنی سب آپس میں برسر پیکار ہیں۔ عراقی عوام امن کو ترس گئے ہیں۔ صومالیہ تک ان کی چیرہ دستیاں بکھری پڑی ہیں۔ ہزاروں میل دور، فلپائن میں امریکہ بہادر نصف صدی آلتی پالتی مارے بیٹھا رہا۔
خود قسم قسم کے ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ کوئی اور ملک ایٹمی طاقت بنے تو ان کے پیٹ میں اس قدر مروڑ اٹھتے ہیں کہ درد کی شدت سے ان کے چہرے مکروہ شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ 1991 میں جب سوویت یونین کا انہدام ہوا تو روس کے علاوہ سوویت یونین کی تین سابقہ ریاستوں کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے: قزاقستان، بیلاروس اور یوکرین۔ ان کے استعمال کے کوڈ ماسکو کے پاس تھے مگر پھر بھی ہتھیار ماسکو کے قبضے میں نہیں تھے۔ یوکرین دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت تھی۔ یہ تینوں ریاستیں، عالمی چوہدریوں کے نزدیک کمی کمین تھیں چنانچہ انہیں شیشے میں اتارا گیا۔ ہنگری کے شہر بوڈاپست میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ ان تینوں کمی کمین ملکوں کو کہا گیا کہ اپنے اپنے ایٹمی ہتھیار اپنے علاقے کے چوہدری (روس) کے حوالے کر دو۔ رہا تمہاری حفاظت کا مسئلہ تو ہم (امریکہ، روس، برطانیہ) تمہاری حفاظت کی گارنٹی دیتے ہیں۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا مگر ان تینوں ملکوں کو کرنا پڑا کیونکہ انکار کی صورت میں بھی ان پر دباؤ پڑتا۔ اقتصادی پابندیاں لگتیں اور ان کا جینا دوبھر کر دیا جاتا۔ تینوں نے ہتھیار روس کو منتقل کر دیے۔ اس معاہدے کو بوڈاپست میمورنڈم کا نام دیا گیا۔
2014 میں اس معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے روس نے جزیرہ نمائے کریمیا پر حملہ کرکے اسے یوکرین سے چھین لیا۔ یوکرین نے چوہدریوں کو گارنٹی یاد دلائی؛ چنانچہ اس ضمن میں پیرس میں اجلاس ہوا جس میں بوڈاپست معاہدے کے شرکا کو بلایا گیا۔ روس اس معاہدے کو کتنی اہمیت دے رہا تھا؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پیرس میں موجود ہونے کے باوجود روسی وزیر خارجہ نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ روس کی عجیب و غریب منطق تھی کہ معاہدہ یوکرین کی جس حکومت سے ہوا تھا، یہ وہ حکومت نہیں حالانکہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ معاہدے حکومتوں کے درمیان نہیں ہوتے بلکہ ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ یوں روس نے بوڈاپست میمورنڈم کو عملی طور پر ختم کر دیا۔
روس کریمیا کو ہڑپ کر گیا۔ یوکرین کی تو خیر کیا مجال تھی کہ مزاحمت کرتا مگر عبرت کا مقام یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ نیٹو کے سپریم کمانڈر نے‘ جو امریکی جرنیل تھا، محض تشویش کا اظہار کیا۔ کچھ اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں۔ کچھ مذمتی بیانات جاری کیے گئے اور اللہ اللہ خیر سلّا! یہ تھی گارنٹی جس کا لولی پپ یوکرین کو دیا گیا تھا۔ روس اتنا بڑا اور طاقتور ملک ہے کہ اقتصادی پابندیاں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ ایران جیسا ملک بھی ان پابندیوں کے باوجود قائم اور سلامت ہے؛ چنانچہ یہ پابندیاں یوکرین کی اشک شوئی کے علاوہ کچھ نہیں تھیں۔ آج جب روس چڑھ دوڑا ہے تو یوکرین کے عوام کیا کہہ رہے ہیں اور کیا محسوس کر رہے ہیں؟ اس سارے معاملے میں پاکستان کے لیے کیا سبق ہے؟ اس کے اثرات عالمی سیاست پر کیا پڑیں گے؟ ان سوالوں کے جواب اگلی نشست میں عرض کروں گا۔
 

powered by worldwanders.com