اس موضوع پر لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس لیے کہ میں اس خیالِ خام میں تھا کہ یہ مسئلہ نا خواندہ اور نیم تعلیم یافتہ لوگوں کا ہے اور نا خواندہ اور نیم تعلیم یافتہ لوگ وہ دیوار ہیں جن سے سر ٹکرانے کا کوئی فائدہ نہیں‘ مگر دو دن پہلے جو دھچکا لگا‘ اس کے بعد غلط فہمی دور ہو گئی۔ اس دھچکے کی جو تفصیل نیچے درج ہے اس میں کوئی مبالغہ ہے نہ تخیلاتی افسانہ طرازی!
ریحان میرے بیٹوں کی طرح ہے۔ اس کی اہلیہ میری بیٹی کی کلاس فیلو رہی ہے اور اس کی گہری دوست ہے۔ ان کی پہلی بیٹی پانچ سال کی ہے۔ چند ماہ پیشتر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسری بیٹی سے نوازا۔ بیٹی کی پیدائش وفاقی دارالحکومت کے ایک نجی، جدید قسم کے ہسپتال میں ہوئی۔ ریحان کو پہلا دھچکہ اُس وقت لگا جب ہسپتال کی نرس اس کے پاس آئی اور بہت آہستہ، مری ہوئی آواز میں بتایا کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ ڈر رہی ہے۔ ریحان نے مسکراتے ہوئے الحمدللہ کہا تو نرس کی جان میں جان آئی۔ پھر جب ریحان نے مٹھائی منگوا کر پورے ہسپتال میں بانٹی تو وہی نرس اس کے پاس دوبارہ آئی اور مبارک دی۔ پھر اس نے خود ہی بتایا کہ جب وہ بیٹی کی پیدائش کی خبر دینے آئی تھی تو ڈر رہی تھی کیونکہ بہت سے لوگ بیٹی کی پیدائش کی خبر دینے والی نرس کو نہ صرف بُرا بھلا کہتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو نوزائیدہ بچی کی دادی نرس کو چانٹا بھی رسید کر دیتی ہے۔
یہ محض آغاز تھا۔ دوسری بیٹی کی پیدائش پر ریحان کے دوستوں میں سے شاید ہی کسی نے مبارک باد دی ہو۔ کچھ نے اسے تسلی دینے کی بھی کوشش کی کہ کوئی بات نہیں، اگلی بار بیٹا ہو گا۔ مٹھائی لے لی۔ کھا بھی لی۔ مگر مبارک نہ دی! وہ یہ سب سُن سُن کر، اور دیکھ دیکھ کر، حیران ہو رہا تھا مگر جو کچھ اس کمپنی میں ہوا جہاں وہ کام کر رہا تھا، سب سے زیادہ حیران کُن تھا۔ ریحان ایک ایسی جدید ترین کمپنی میں کام کر رہا ہے جہاں سب ملازم، کیا افسر اور کیا غیر افسر، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ سائنس دان ہیں یا انجینئر یا کمپیوٹر کے ماہرین ہیں۔ کچھ ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں بڑے بڑے افسر ہیں۔ یہ لوگ دنیا بھر کے ملکوں میں دورے کرتے ہیں‘ مگر ریحان کی دوسری بیٹی کی پیدائش پر ان کا ردِّ عمل جہالت اور جاہلیت دونوں سے عبارت تھا۔ اسے کسی نے مبارک نہ دی۔ کسی نے مسرت کا اظہار نہ کیا۔ اس نے دفتر میں بھی مٹھائیاں بانٹیں جو اس کے رفقائے کار نے یوں لیں جیسے سوگ کا موقع ہو۔ ریحان یہ سب کچھ مجھے بتا رہا تھا اور مجھ پر حیرت کے دروازے کُھل رہے تھے۔ اس دلخراش داستان کا آخری حصہ بہت ہی عجیب تھا۔ ایک بہت سینئر صاحب نے‘ جو گریڈ اکیس کے یا بائیس کے افسر ہیں اور سائنس دان ہیں، ریحان سے باقاعدہ اظہارِ افسوس کیا۔ انہوں نے بڑا ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اسے کچھ وظیفے اور ورد بتائے جن کے پڑھنے سے اگلی بار وہ بیٹی سے بچ جائے گا اور اس کے ہاں بیٹا ہو گا۔ اگر ریحان کی ملازمت کا مسئلہ نہ ہوتا تو یہ کالم نویس ان صاحب کو مل کر ضرور انہیں مبارک دیتا اور ان کے سائنس کے علم اور ان کے مذہبی رجحان پر واہ واہ کرنے کے بعد انہیں کچھ سناتا۔ یعنی جس پروردگار نے خود یہ فرمایا (مفہوم) اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے‘ اس خوشخبری کی برائی کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، آیا اسے ذلت قبول کر کے رہنے دے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے، دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں (سورۃ النحل) آپ اسی خدا کے حضور پڑھنے کے لیے بیٹی نہ پیدا ہونے کی دعائیں اور وظیفے بتا رہے ہیں! واہ کیا بات ہے آپ کی! اور یہ سب کچھ کسی گاؤں یا قصبے میں نہیں ہوا، وفاقی دارالحکومت میں ہوا ہے!
اس مملکت خداداد میں اکثریت اس حق میں نہیں کہ بیٹیاں پیدا ہوں! ان میں ان پڑھ بھی شامل ہیں، نیم خواندہ بھی! اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی! سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی! اور ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ اہل مذہب کی کچھ نمائندگی بھی اس دُختر دشمن طبقے میں موجود ہے۔ بیٹیوں کے چاہنے والے یقینا تعداد میں کم ہیں! وراثت کی بات کر کے دیکھ لیجیے۔ جب بیٹی کو وراثت میں حصہ دینے کی بات ہو تو عبائیں، دستاریں، ہیٹ اور کوٹ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ عورتیں اس میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر بھی سب سے پہلے دادی کا چہرہ سیاہ پڑتا ہے۔ آئے دن خبریں چھپتی ہیں کہ بیٹی کی پیدائش پر اس کی ماں کو ہسپتال ہی میں طلاق دے دی گئی۔ عورتوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ مرد دوسری شادی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ کر بھی لیتا ہے۔ یہ بھی طے کر لیا جاتا ہے کہ نقص عورت ہی میں ہے۔ مرد کے لیے اپنا طبی معائنہ کرانا بھی عزت‘ بے عزتی کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ میانوالی میں کچھ دن پہلے ایک شخص نے اپنی سات دن کی بیٹی کو پانچ فائر کر کے ہلاک کر دیا۔ گزشتہ سال داؤد خیل میں تین بیٹیوں کو ان کے باپ نے قتل کر دیا تھا کیونکہ اسے بیٹے کی خواہش تھی۔
جو کچھ چند روز پہلے مانسہرہ میں ہوا‘ اس سے ہمارے معاشرے کا ایک اور پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ مانسہرہ کی اسسٹنٹ کمشنر ایک خاتون ہیں جو، ظاہر ہے، مقابلے کا امتحان پاس کر کے اس منصب پر فائز ہوئی ہیں۔ تین مردوں نے اس کی گاڑی کو روکا، پھر اسے نیچے اتارنے کی کوشش کی۔ اس کشمکش میں خاتون افسر زخمی ہوئیں اور ان کا ڈرائیور اور گارڈ بھی۔ حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ حملے کی وجہ انہوں نے پولیس کو یہ بتائی کہ وہ اپنے علاقے میں ایک عورت کو بطور اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر نہیں برداشت کر سکتے! یہ خاتون، ماروی ملک شیر، اُن پانچ بہنوں میں سے ایک ہے جو سب سی ایس ایس کر کے سول سروس کے مختلف شعبوں میں تعینات ہوئی ہیں۔ گزشتہ سال جب پانچویں بہن مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہوئی تو میڈیا پر ان بہنوں کی کامیابی ایک نمایاں خبر بن کر مشہور ہوئی۔ یہ بہنیں ہری پور سے تعلق رکھنے والے واپڈا کے ایک ریٹائرڈ افسر، جناب رفیق اعوان، کی بیٹیاں ہیں۔ رفیق صاحب نے میڈیا کو بتایا تھا کہ جب وہ پانچویں بیٹی کی پیدائش پر ہسپتال پہنچے تو ان کے رشتے دار صدمے کی شدت سے رو رہے تھے۔ اب وہی رشتے دار مبارکیں دے رہے ہیں۔ ان پانچ بہنوں نے کاغذ سے کشتی نہیں سمندر بنا دیا!
بظاہر نظر نہیں آرہا کہ یہ عورت دشمن ذہنیت ختم ہو گی۔ اکیسویں صدی عیسوی کی تیسری دہائی شروع ہو چکی۔ ہم وہیں ہیں جہاں تھے! ایک طرف بھارت ہے جہاں ہر سال ہزاروں عورتوں کو جہیز کم لانے پر مار دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان ہے جہاں عورت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا پوری دنیا میں چرچا ہے! درمیان میں ہم ہیں جو دونوں سے متاثر ہیں!
بشکریہ روزنامہ دنیا
No comments:
Post a Comment