Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, December 31, 2016

2016ء کا آخری سورج


ہم گزشتہ برس 31 دسمبر کو آنکھوں پر امید کے خنک برگ ہائے سبز باندھ کر سوئے تھے کہ 2016ء کا نیا سورج ہماری دستگیری کرے گا مگر اے آج غروب ہونے والے 2016ء کے آخری سورج ! تو نے ہماری کوئی امید بر نہ آنے دی۔ ہم نے آنکھیں کھولیں تو دھند نے روشنی کو اسی طرح نرغے میں لے رکھا تھا‘ جیسے سالہا سال سے‘ عشروں سے‘ صدیوں سے لے رکھا ہے۔
ہم نے ہر نئے سال سے توقعات وابستہ کیں۔ ہم نے نجومیوں سے پوچھا۔ فال نکلوائی‘ زائچے بنوائے‘ دست شناسوں کی خدمت میں پہنچے ؎
مرا ہاتھ دیکھ برہمنا! مرا یار مجھ سے ملے گا کب
ترے منہ سے نکلے خدا کرے اسی سال میں اسی ماہ میں
کاہنوں سے پوچھا‘ سادھوئوں کے پاس گئے ؎
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
مگر بخت جیسا سیاہ تھا ویسا ہی رہا ؎
یک فالِ خوب راست نہ شد برزبانِ ما
شومیٔ چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط
اُلّو کی نحوست کا علاج ہو سکا نہ ہی ہما ہمارے سر پر بیٹھا! ہم نے دوسروں کو پھلتے پھولتے دیکھا پھر اپنے آپ پر نظر ڈالی‘ پھر سر بہ زانو ہو کر روئے ؎
میں دیکھتا ہوں شتر سواروں کے قافلے کو
پھر آسماں کو پھر اپنا اسباب دیکھتا ہوں
ہم رونے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں!
2016ء میں ہم نے کیا دیکھا؟ پاناما لیکس!
یہ بلا جو ہم پر مسلّط ہوئی‘ کسی اور ملک میں نہ گئی۔ ایران میں نہ بھارت میں! وہی سورج بھارت پر چمکا تو ایسے قوم پرست لیڈر پیدا کیے جو ملک سے باہر سرمایہ کاری کا سوچ بھی نہیں سکتے‘ وہی سورج ہمارے حصّے میں آیا تو خاندانوں کے خاندان امیر سے امیر تر کرتا گیا۔ پاناما لیکس میں مودی کا نام تھا نہ واجپائی کا‘ نہ من موہن سنگھ کا! کسی بھارتی لیڈر نے سرے محل خریدا نہ دبئی میں ڈیرہ بنایا۔ وہی سورج! جس کی کرنیں دوسروں پر اترتی ہیں تو ضیا پاشیوں سے دھرتی کو سونا بنا دیتی ہیں۔ اُسی سورج کی کرنیں ہماری جھولی میں گرتی ہیں تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے‘ پلکیں چبھنے لگتی ہیں۔ پپوٹے من من کے ہو جاتے ہیں۔
2016ء میں بھی ہماری ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفکوں میں شمار ہوئی۔ حکمرانوں کی ٹریفک الگ رہی! عوام کی الگ! حکمران نکلیں تو شاہراہوں پر چیونٹی بھی نہیںچل سکتی۔ حکمرانوں کو معلوم ہی نہیں کہ سبز اشارا کیا ہے اور لال بتی کس چُڑیل کا نام ہے! رہے عوام! تو وہ مرتے رہے۔ مرتے ہی رہے۔ ڈمپروں کے نیچے آ کر کچلے جاتے رہے۔ ٹریکٹر ٹرالیاں ان کی چھوٹی سستی کاروں کو پیستی رہیں۔2016ء میں بھی بے شمار لوگوں نے سوچا کہ اقوامِ متحدہ سے اپیل کریں کہ وہ ٹریفک کا نظام آ کر سنبھالے!
2016ء کے دوران بھی حکومت ڈاکوئوں‘ چوروں اور اغوا کاروں ہی کی حمایتی رہی! ڈاکوئوں کی سرکوبی حکومت کی ترجیحات میں کہیں نہ تھی۔ چوریاں اسی طرح ہوتی رہیں۔ گاڑیاں اٹھائی جاتی رہیں۔ جس ملک کے حکمران امن و امان کو اپنی ذمہ داری نہ سمجھیں اس ملک میں سورج جس سال کا بھی ہو‘ تاریکی ہی پھیلاتا ہے۔ 2016ء ہی نے دیکھا کہ راولپنڈی میں ایک سابق ایم این اے نے تھانے پر لشکر کشی کی! انقلاب‘ بلکہ خونیں انقلاب کا نعرہ لگانے والے صوبائی حکمرانِ اعلیٰ نے اس طرف دیکھا بھی نہیں! مسخرہ پن کی بدتر مثال اور کیا ہو گی!
2016ء کے دوران ٹیکس کا پھیلائو اتنا ہی رہا جتنا پچھلے سالوں میں تھا۔ ''مُلّا تاجر‘‘ اتحاد اسی طرح پھلتا پھولتا رہا۔ پادری کم از کم جنت میں داخلے کا کاغذی پروانہ تو دیتے تھے‘ ہمارے مُلّا‘ ٹیکس چوروں سے بھتہ لے کر‘ جسے چندہ کہتے ہیں‘ زبانی وعدوں ہی پر ٹرخاتے رہے۔ دوائوں اور غذائوں میں ہلاکت آمیز ملاوٹ‘ فروخت کرتے وقت شے کا نقص نہ بتانا‘ ناروا منافع خوری‘ وعدہ کر کے مال نہ پہنچانا‘خریدی ہوئی شے واپس یا تبدیل نہ کرنا‘ متشرع تاجروں نے بھی یہ سارے اعمال جاری رکھے بالکل اسی طرح جیسے غیر متشرع تاجر کرتے رہے!
2016ء میں بھی کسی واعظ نے نہ بتایا کہ حج کرنے سے کیا حقوق العباد بھی معاف ہو جاتے ہیں؟؟ کسی نے اگر دوسرے کا مال دبایا ہوا ہے‘ اُس کا حق مارا ہوا ہے‘ یتیم کا سرمایہ ہڑپ کیا ہوا ہے‘ صلہ رحمی کو انا کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے‘ لائف سیونگ ادویات میں ملاوٹ کر رہا ہے تو کیا یہ سارے جرائم حج اور عمرہ کرنے سے اور ہر سال کرنے سے دُھل جائیں گے؟
2016ء کا سال! آہ! 2016ء بھی عورتوں کے لیے تبدیلی کی کوئی نوید نہ لایا۔ بیٹیوں کو جنم دینے پر وہ پٹتی رہیں۔ جائیدادوں سے انہیں محروم ہی رکھا جاتا رہا‘ مرد کے مقابلے میں وہ کم تر ہی رہیں۔ ان پڑھ خلقت کو اور تعلیم یافتہ جہلا کو کسی نے نہ بتایا کہ عرب معاشرے میں تب بھی عورت اپنی شادی کا پیغام مرد کو خود بھجواتی تھی اور آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔ 2016ء نے بھی دستار پوش عبائوں کو اور تھری پیس سوٹوں میں ملبوس روشن خیالوں کو اس معاملے میں یکساں طور پر جاہلیت کا پیرو کار پایا۔
اور بچّے؟ 2016ء میں بھی ان کی کثیر تعداد ریستورانوں میں تسلے‘ دیگیں اور پتیلے مانجھتی رہی۔ ورکشاپوں میں کالے میلے کپڑوں کے ساتھ استاد کے ظلم سہتی رہی‘ بدلحاظی اور درندگی کا نشانہ بنتی رہی۔ کروڑوں بچے اس سال بھی سکولوں سے باہر رہے۔ اس سال بھی ہمارے حکمران سرکاری سکولوں سے بے نیاز رہے۔ پورے سال کے دوران کتنے حکمران‘ کتنے سرکاری سکولوں کی حالت زار دیکھنے آئے؟
مدارس میں لاکھوں فرش نشیں بچے اس سال بھی اصلاحات سے محروم رہے۔ اُن کے نام پر لی جانے والی رقوم کم ہی ان پر صرف ہوئیں۔ سوائے بڑے شہروں کے چند مدارس کے‘ باقی کی زبوں حالی وہی رہی۔ اکثر مدارس میں اور یتیم خانوں میں کم ہی فرق رہا۔ حکومت اور عوام دونوں بُھولے رہے کہ مدارس میں صدقات و خیرات پر پلنے والے نونہال بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے فیشن ایبل تعلیمی اداروں میں لنچ بکسوں‘ چاکلیٹوں اور برگروں پر پرورش پانے والے بچے! مدارس میں پڑھانے والے ہزاروں اہلِ علم اس سال بھی بنیادی حقوق سے محروم ہی رہے۔ پنشن نہ جی پی فنڈ‘ علاج معالجہ کی سہولیات نہ رہائش! بس قوتِ لایموت ہے جس پر گزر بسر ہے ؎
گُھٹ گُھٹ کے جہاں میں رہے جب میرؔ سے مرتے
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم
اس سال بھی مذہب کو سیاست کا تڑکا لگانے والے علمائِ سُو نے علمائِ حق کو مایوس کیا ۔ وہ جو دال روٹی اور چٹنی کھا کر قال اللہ اور قال الرسول پڑھاتے رہے اور پی آر اور میڈیا سے بے نیاز رہے۔ وہ اس سال بھی گندم نما جو فروشوں سے پناہ ہی مانگتے رہے!
عدلیہ اس سال بھی ان لاکھوں قیدیوں سے بے نیاز رہی جو بے گناہ ہیں۔ 2016ء نے تو یہ بھی دیکھا کہ جن کی رہائی کے پروانے جاری ہوئے وہ پھانسی پا چکے تھے یا کال کوٹھریوں میں سسک سسک کر‘ ایڑیاں رگڑ کر‘ مر چکے تھے! عدلیہ کو توفیق نہ ہوئی کہ اس ظلم کی تفتیش کرتی! آخر کوئی تو ذمہ دار تھا جس نے بے گناہ شہری کو جیل میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ آخر کوئی منحوس شیطان تو پھانسی پانے والوں کی ناجائز موت کا ذمہ دار ہو گا۔ 2016ء نے بھی تھانوں، عدالتوں، کچہریوں میں عوام کو رُلتے‘ خاک پھانکتے ‘ زمینیں بیچ کر وکیلوں کے تنور نما پیٹوں کو بھرتے دیکھا۔
فرشتوں نے اُوپر سے اس سال بھی دیکھا کہ انصاف اس دھرتی پر ناپید ہے۔ کچہریوں تحصیلوں تھانوں پٹوارخانوں میں رشوتیں عام ہیں۔ شرفا راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں کہ ان کے دشمنوں کو بھی تھانوں کچہریوں تحصیلوں اور پٹوار خانوں سے سابقہ نہ پڑے!
غروب ہونے والے سورج! ہمیں معلوم ہے نئے سال کے پہلے طلوع میں ہمارے لیے وہی کچھ ہو گا جو ہر سال ظاہر ہوتا رہا!
خواب !کبھی نہ پورے ہونے والے خواب!

Friday, December 30, 2016

ہمارے نام پر حج اور عُمرے کون کر رہا ہے؟

یہ ایک تشویشناک صورتِ حال ہے حد سے زیادہ تشویشناک!
سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ دس سال کے دوران حج اور عمرہ میں سرِفہرست رہنے والے ملکوں کی فہرست جاری کی ہے۔ اس کے مطابق مصر پہلے اور پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ انڈونیشیا تیسرے‘ ترکی چوتھے‘ ایران پانچویں‘ بھارت چھٹے‘ اردن ساتویں‘ الجزائر آٹھویں اور ملاایشیا نویں نمبر پر ہے۔
انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ اس کی آبادی 25کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ حج اور عمرہ کی فہرست میں پاکستان کا نمبر اس سے اوپر ہے!
اسی ملک پاکستان کے بارے میں‘ جو حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے میں پورے عالم اسلام میں دوسرے نمبر پر ہے‘ جی ہاں! اس ملک کی سب سے بڑی عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ بچوں کو خالص دودھ نہیں دیا جا رہا۔ فوڈ اتھارٹی کے حکام نے دو دن پہلے تسلیم کیا ہے کہ کمپنیوں اور شیر فروشوں کا دودھ انسانوں کے پینے کے قابل نہیں۔ اس میں کیمیکل‘ یوریا اور گنے کا رس ملایا جا رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل فوڈ نے عدالت کو بتایا کہ حلیب کے دودھ سے ’’فارمالین‘‘ نکلا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ’’فارمالین‘‘ تو مردہ جسم کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ کھلا دودھ تو کھلا دودھ ہے‘ڈبوں میں بند دودھ میں بھی ڈی ٹرجنٹ پائوڈر اور دیگر کیمیائی مادے ملائے جا رہے ہیں۔
تشویش سے بچنے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ دودھ میں یوریا‘ گنے کا رس اور فارمالین ملانے والے لوگ‘ وہ نہیں جو حج اور عمرہ کرتے ہیں۔ آخر حج اور عمرہ کرنے والے لوگ معصوم بچوں کو قتل کیوں کریں گے۔
امریکہ کے معروف معتبر اخبار وال سٹریٹ جرنل نے دو دن پیشتر‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں شراب نوشی سے مرنے والوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان اس میدان میں کہاں کھڑا ہے۔ پاکستان میں نشہ بازوں کا علاج کرنے والے قدیم ترین مرکز ولنگ ویز
(Willing Ways)
کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے 
‘ جو ایک مسلمان ڈاکٹر ہے بتایا ہے کہ تقریباً دو کروڑ پاکستانی باقاعدگی سے شراب نوشی کرتے ہیں۔ ان شراب نوشوں میں تمام مذہبی طبقات اور تمام انکم گروپ شامل ہیں۔ یعنی کیا امیر اور کیا غریب‘ اور کیا مذہبی اور کیا غیر مذہبی‘ سب ان دو کروڑ میں شامل ہیں۔
یاد آیا کہ اورنگزیب عالمگیر کے عہد کے ضمن میں کہا جاتا ہے کہ حکومت کے عمائدین اور کارندوں میں شراب نوشی اس قدر عام تھی کہ صرف دو افراد شراب نہیں پیتے تھے۔ ایک دربار کے شیخ الاسلام اور دوسرے بادشاہ خود۔ اور حقیقت یہ تھی کہ شیخ الاسلام بھی پی لیتے تھے۔ صرف بادشاہ نہیں پیتا تھا!
تشویش سے بچنے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ یہ دو کروڑ افراد وہ نہیں جو حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
کیا آپ کبھی کوئی زرعی زمین یا پلاٹ یا مکان فروخت کرنے یا خریدنے کے سلسلے میں کسی کچہری میں گئے ہیں؟ اس عمل کو انتقال کہتے ہیں۔ یعنی جائیداد یا زرعی زمین فروخت کرنے والے کے نام سے‘ خریدنے والے کے نام منتقل ہو جاتی ہے۔ اس کام کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے۔ بچنے کی صرف ایک صورت ہے کہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر آپ کا ذاتی طور پر جاننے والا ہو اور وہ اپنے دفتر میں آپ کو بٹھا کر یہ کام اپنی نگرانی میں‘ اپنے خصوصی حکم کے تحت کرائے۔ آپ خود سوچیے‘ کتنے سائل‘ اس سطح کے افسروں تک ایسی رسائی رکھتے ہوں گے؟ انتقال کا یہ کام ہر ضلع‘ ہر تحصیل میں ہفتے کے چھ دن اور مہینے کے 24دن ہو رہا ہے۔ اس کالم نگار کا بیٹا چند سال قبل بیرونِ ملک منتقل ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اپنا مکان باپ کے نام منتقل کرا دے تاکہ ٹیکس اور دیگر امور کے لیے اسے بار بار آنا نہ پڑے۔ کالم نگار سے دارالحکومت کی کچہری نے پچیس ہزار روپے طلب کئے۔ کالم نگار نے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر تک رسائی حاصل کی اور رشوت دینے سے بچ گیا۔ سرکاری فیس ڈیڑھ یا دو ہزار روپے تھی!
2006ء میں اس کالم نگار نے ایک سرکاری ادارے (ہائوسنگ فائونڈیشن) کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ ایک سال گزر گیا مگر تاریخ نہ ملی۔ کالم نگار کا بھانجا‘ وہیں وکالت کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ پانچ سو روپے دے کر اس نے تاریخ حاصل کی۔ کالم نگار نے بھانجے کو ڈانٹا اور تنبیہ کی کہ تاریخ لینے کے لیے آئندہ رشوت نہ دے۔ اس پر اس نے ہنس کر کہا کہ ماماجی! پھر تو تاریخ نہیں ملے گی۔
ان سب امور میں کتنے لوگ ملوث ہوں گے؟ پاکستان میں کل کتنے اضلاع اور تحصیلیں ہیں جہاں کچہریوں میں انتقال کا کام ہو رہا ہے؟ پنجاب کے اضلاع36ہیں‘ سندھ کے 29‘ بلوچستان کے 32‘ کے پی کے 26‘ آزاد جموں و کشمیر کے 10‘ اور گلگت بلتستان کے دس۔ کل اضلاع 143ہوئے ۔ کسی ضلع میں تین تو کسی میں چار تحصیلیں ہیں۔ ہم ہر ایک میں تین ہی شمار کرتے ہیں۔ یوں اضلاع اور تحصیلوں کی کچہریوں کی کل تعداد 572ہوئی۔ اب ان میں سات قبائلی ایجنسیاں شامل کیجیے۔ یوں کل تعداد 579ہوئی۔ یعنی تقریباً پونے چھ سو کچہریوں میں ہر روز‘ ہر سائل سے رشوت لی جاتی ہے۔ اب ان عدالتوں کا اندازہ لگائیے جہاں تاریخ لینے کے لیے‘ فیصلے کی نقل لینے کے لیے اور کئی دیگر امور کے مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔
تشویش سے بچنے کے لیے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ سب حرام خور‘ وہ نہیں جو حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور جن کے طفیل اس مبارک عمل میں ہمارے پیارے وطن کا نام پچپن مسلمان ملکوں میں دوسرے نمبر پر ہے!
ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ملاوٹ‘ جعل سازی‘ ٹیکس چوری‘ ذخیرہ اندوزی اور کم ماپ تول میں ہمارا ملک بدنام ہے۔ دودھ کو چھوڑیے‘ جعلی ادویات کی ہزاروں فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ خالی کیپسول فروخت کرنے والوں سے اعداد و شمار لیجیے تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔خالص آٹا‘ خالص شہد‘ خالص گھی‘ خالص مرچیں‘ خالص بیسن قصّۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ چائے کی پتی میں چنوں کا بُورا شامل ہے۔ میک اپ کے سامان سے لے کر سر دھونے والے شیمپو تک بازار جعل سازی سے اٹے پڑے ہیں۔ ٹیکس آبادی کا آٹھ فیصد سے کم حصہ دے رہا ہے۔ حساب کتاب کے رجسٹر دو دو رکھے جاتے ہیں۔ ایک دکھانے کے لیے‘ ایک اصل۔ گاڑیوں میں استعمال ہونے والا آئل جعلی بن رہا ہے۔ مرغیوں کی خوراک میں حرام مردہ جانوروں کے گلے سڑے اعضا شامل کیے جا رہے ہیں۔ گدھوں‘ کتوں‘ کووں کا گوشت انسانوں کو عام کھلایا جا رہا ہے۔ لاکھوں گاڑیاں‘ موٹر سائیکل چوری ہو رہے ہیں۔ صرف دارالحکومت سے تین گاڑیاں اوسطاً روزانہ اٹھائی جا رہی ہیں اور یہ ہندسہ بھی ڈیڑھ سال پہلے کا ہے۔ تاجر‘ ڈاکٹر اور مالدار افراد اغوا ہو رہے ہیں اور خطیر رقمیں دے کر چھوٹ رہے ہیں۔ دوسروں کی زمینوں پر ناجائز قبضے دن رات ہو رہے ہیں۔ دکانداروں سے ٹیکس کے محکمے‘ لیبر کے محکمے اور کئی دیگر محکمے باقاعدگی سے منتھلی لے رہے ہیں۔
تشویش سے بچنے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ یہ سب لوگ‘ وہ نہیں جو حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں!
تو پھر تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کے نام پر حج اور عمرہ کرنے والے لوگ کون ہیں؟

Monday, December 26, 2016

ہم سو سال پیچھے جا رہے ہیں

یہ جنوبی اٹلی کا شہر نیپلز تھا‘ اطالوی اسے ناپولی کہتے ہیں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے‘ ہم تیسری دنیا کے مختلف ملکوں سے بلائے ہوئے افسر شاہی کے پیادوں کو یہاں چھ ماہ گزارنے تھے اور ادارہ برائے ترقیاتی اقتصادیات (انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامکس) میں پڑھ کر اپنا معاشیات کا علم دوبالا کرنا تھا! ’’طلبہ‘‘ میں ہم دو پاکستانی تھے‘ دو بنگالی‘ کچھ ترکی سے تھے اور برما سے‘ اور کچھ انڈونیشیا، سوڈان اور اردن سے۔ افریقی ممالک کی نمائندگی بھی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی بولنے والے ملکوں سے بھی بیورو کریٹ اس گروہ میں شامل تھے۔ وہیں یہ دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بہنیں ہیں، شاید پنجابی اور اردو کی طرح۔ اطالوی اساتذہ کے لیکچر سمجھنے کے لیے ہم ترجمہ کے محتاج تھے مگر ہسپانوی زبان جاننے والے براہ راست سمجھ لیتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے امتحانی پرچوں میں جوابات ہسپانوی میں لکھتے تھے اور اطالوی استاد ان پرچوں کو براہ راست جانچ سکتے تھے۔
پہلا دن تعارف میں گزرا۔ دوسرے دن ہمیں ہدایات دی گئیں۔ ایک ہدایت عجیب تھی: ’’اگر اٹلی میں کسی جگہ آپ کھو جائیں‘ آپ کا پاسپورٹ گم ہو جائے‘ آپ کے پاس پیسے بھی نہ ہوں‘ تو آپ کو گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں! آپ نے وہاں لوگوں کو صرف یہ بتانا ہے کہ آپ پروفیسر ہیں‘‘۔
ہم پاکستانی اور بنگالی اس پر ششدر رہ گئے۔ بات سمجھ میں آنے والی نہیں تھی۔ ہم تو اس ملک سے آئے تھے جہاں یہ لطیفہ یا واقعہ روز سننے میں آتا تھا کہ گاڑی چلانے والے سے لال بتی کراس ہو گئی۔ پولیس نے پوچھا‘ سر آپ سی ایس ایس کے افسر ہیں یا فوجی افسر ہیں یا ایم این اے ہیں یا بینکار ہیں؟ کیا ہیں؟ گاڑی والے نے جواب دیا میں استاد ہوں۔ اس پر پولیس والے کا چہرہ دمک اٹھا۔ اس نے حقارت سے کہا اچھا تو ماسٹُر ہو۔ اب تو تمہارا چالان ضرور ہو گا۔
ہماری حیرت اور اچنبھا دیکھ کر ہدایات دینے والا مسکرایا۔ یا تو وہ جنوبی ایشیا میں رہ کر آیا تھا یا اسے ہمارے حالات کا علم تھا۔ کہنے لگا : ’’حیران ہونے کی کوئی بات نہیں‘ یہاں پروفیسر کا وہی رعب‘ دبدبہ اور وہی عزت و تکریم ہے جو تمہارے ہاں ڈپٹی کمشنر کی ہے‘‘۔
چند ہفتوں بعد اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا‘ بارسلونا سے واپس اٹلی آ رہا تھا۔ ٹرین کے ڈبے میں مَیں تھا اور ایک ہسپانوی جوڑا۔ خاتون نے باتوں باتوں میں حدود اربعہ پوچھا۔ میں نے کہا پروفیسر ہوں۔ اس کا میاں‘ جو باہر پلیٹ فارم پر کھڑا تھا‘ واپس آیا تو خاتون نے پرجوش انداز میں بتایا کہ یہ صاحب پروفیسر ہیں۔ پورا راستہ میاں بیوی دیکھ بھال کرتے رہے‘ مودب ہو کر‘ پوری فرماں برداری کے ساتھ!
قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ انگریزی عہد میں ڈپٹی کمشنر کے پاس پچاس سے زیادہ خدمت گار ہوتے تھے۔ چھت سے لٹکا‘ کپڑے کا پنکھا ہلانے والے نوکر کی‘ شدید گرمی میں‘ آنکھ لگ جاتی تو ڈی سی اس کی پسلیوں میں بوٹ کی ٹھوکر مارتا۔ بعض دفعہ ضرب ایسی ہوتی کہ موت واقع ہو جاتی۔ اس جُرم پر دو روپے جرمانہ ہوتا!
زمانے نے کروٹیں بدلیں‘ تقسیم ہوئی۔ چالیس سال گزرے۔ پھر صدی نئی آئی۔ پرویز مشرف کا عہد تھا۔ اس نے کمال کا کام یہ کیا کہ ڈپٹی کمشنر کو چلتا کیا اور ضلعی حکومتوں کا ڈول ڈالا۔ فائدے سامراج کے بھی ہوتے ہیں اور آمریت کے بھی! بچھو اور اژدھا بھی قدرت نے فائدے کے بغیر نہیں پیدا کئے۔ ڈی سی کا ادارہ اپنا وقت پورا کر چکا تھا۔ اس تبدیلی کو ہر ایک نے سراہا سوائے نوکر شاہی کے اُن چند ارکان کے‘ جو ڈی سی لگے ہوئے تھے یا جنہوں نے لگنا تھا!
سرکاری ملازم ڈی سی ہو یا کمشنر‘ یا پٹواری یا تحصیلدار، اس کی اوّلین ترجیح اپنی تعیناتی اور ترقی ہوتی ہے۔ وہ باس کو ہر حال میں خوش رکھتا ہے۔ پھر‘ ڈی سی کو اُس ضلع میں مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد پلٹنا بھی نہیں ہوتا۔ 
مقامی حکومت کا نمائندہ‘ ضلع ناظم یا چیئرمین یا جو بھی کہلائے، جتنا بھی برا ہو‘ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے وہیں جینا ہے وہیں مرنا ہے‘ کل پھر ووٹ بھی لینے ہیں‘ مخالفین کا بھی سامنا کرنا ہے چنانچہ اسے کام بھی کرنا پڑتا ہے اور انصاف بھی!
اب جب مقامی حکومتوں کی مصیبت موجودہ حکمرانوں کے سر پر مسلّط ہو ہی گئی ہے‘ تو انہیں بے بس کرنے کے لیے اور اپنے چنگل میں جکڑنے کے لیے‘ پنجاب حکومت نے ڈی سی کے عہدے کو ازسرِ نو پورے طمطراق سے زندہ کیا ہے۔ صوبائی وزیراعلیٰ نے بابائے قوم کے یوم پیدائش سے دو دن پہلے ایک قانون منظور کیا ہے جس کی رُو سے ڈپٹی کمشنر اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ واپس آ رہا ہے۔
بظاہر اسے کام ’’نگرانی اور کوآرڈی نیشن‘‘ کا دیا جا رہا ہے مگر وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں، تُم مجھے کھڑا ہونے کی جگہ دو‘ بیٹھنے کی میں خود بنا لوں گا۔ ’’نگرانی اور کوآرڈی نیشن‘‘ کو کس طرح مکمل اقتدار میں بدلنا ہے‘ یہ نوکر شاہی کے گماشتوں کو بتانے اور سکھانے کی ضرورت نہیں۔ ایک افسر نے کیا خوب کمنٹ دیا ہے: ’’یہ قانون ڈپٹی کمشنر کے اُس ادارے کو بحال کر رہا ہے جسے جنرل مشرف نے ختم کیا تھا۔ وقت کے ساتھ اس کی طاقت میں اضافہ ہو گا‘‘۔
ایک اور سرکاری ذریعے کی رائے دیکھیے: ’’وہ تمام غیر تحریری اختیارات جو ڈپٹی کمشنر کے کسی زمانے میں ہوتے تھے‘ اس قانون سے زندہ ہو جائیں گے‘‘۔
یہ قانون کیا ہے؟ بلدیاتی اداروں کے لیے پوست کا وہ پیالہ ہے جو مغل حکمران اپنے مخالفین کو ہر روز پلاتے تھے، جب تک کہ وہ ختم نہ ہو جائیں۔ کون سی ضلعی حکومت؟ اور کہاں کا چیئرمین؟ ضلع میں رونما ہونے والی ہر حکومتی کارروائی کا مرکز ڈپٹی کمشنر ہو گا۔ وہ تمام صوبائی ملازمین کی نگرانی کرے گا! تعلیم کا محکمہ ہو یا نہروں کا‘ یا مالیے یا لگان کا‘ یا انجینئرنگ کا‘ سب کا مُنہ ’’طرف ڈپٹی کمشنر کے‘‘ ہو گا۔ وہ بلدیاتی نمائندے کو گھاس کیسے ڈالے گا؟ جبکہ اُس کے پاس انتظامی اختیارات ہوں گے۔ وہ مختلف محکموں کے خلاف ایکشن کی ’’سفارش‘‘ کر سکے گا۔ ضلع ناظم کے تمام اختیارات ڈپٹی کمشنر کی جھولی میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ عوامی شکایات بھی وہی سنے گا۔ سزائیں بھی وہی تجویز کرے گا! اور تفتیشی انکوائریاں بھی وہی آغاز کرے گا۔
یہ قانون کہتا ہے کہ لوکل کونسلیں، ڈپٹی کمشنر کی مدد کرنے کی پابند ہوں گی اور صوبائی محکموں کی جو اُس ضلع میں واقع ہیں‘ کارکردگی کا جائزہ بھی ڈپٹی کمشنر لے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ منتخب چیئرمین کیا کام کرے گا؟قانون تو یہ پاس ہونا چاہیے تھا کہ ڈپٹی کمشنر مقامی حکومت کی مدد کرے گا! تمام صوبائی محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لینا منتخب چیئرمین کا کام ہونا چاہیے تھا۔ مرکزی کردار‘ ضلعی سرگرمیوں کا‘ بلدیاتی ادارے کے سربراہ کو سونپنا چاہیے تھا!
دنیا جست بھر کر کہاں جا پہنچی ہے۔ ہم ابھی لارڈ کرزن اور وارن ہیسٹگز کے زمانے کے ڈپٹی کمشنر کے نیچے رہنا چاہتے ہیں! پھر اس قانون کی ٹائمنگ ملاحظہ فرمائیے! دو دن پہلے ضلعی کونسلوں کے سربراہ منتخب ہوئے اور ساتھ ہی یہ خوشخبری انہیں دی جا رہی ہے کہ تُم یہ نہ سمجھو‘ تمہیں اختیارات دیئے جا رہے ہیں۔ حکومت ڈپٹی کمشنر کی ہو گی اور وہ لاہور کا نمائندہ ہو گا!
قوم کو مقامی حکومتوں کا دودھ دیا گیا ہے مگر مینگنیاں ڈال کر!!

Saturday, December 24, 2016

کیا کلاس ہے!!

ساری پڑھائی، اعلیٰ تعلیم، ساری تھیوریاں‘ سب بیکار ثابت ہوئیں۔ تربیت، ماحول، آئی کیو، سب خرافات ہیں۔ صحیح وہی نکلا جو بزرگ کہا کرتے تھے اور ہم اسے خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ الاسکا سے لے کر جنوبی افریقہ تک اور اٹلانٹک کے مشرقی کنارے سے لے کر بحرالکاہل کے مغربی گھاٹ تک جدید ترین یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا علمِ نفسیات، گھاس کے تنکے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ کہاں کی نفسیات؟ کون سی تھیوریاں؟ بان کی چارپائیوں پر، کڑھے ہوئے تکیوں سے ٹیک لگائے، درختوں کی چھاؤں تلے بابے‘ چاچے‘ مامے جو کہتے تھے، ٹھیک کہتے تھے۔
یہی تو فردوسی نے بادشاہ کے بارے میں کہا تھا۔ تجربہ کہتا ہے، مشاہدہ تصدیق کرتا ہے، تاریخ گواہی دیتی ہے کہ فردوسی نے سچ کہا تھا۔ درختوں کی چھاؤں تلے، بان کی چارپائیوں پر، کڑھے ہوئے تکیوں سے ٹیک لگا کر دانش کے موتی بکھیرنے والے چاچے ‘مامے‘ بابے فردوسی سے کیا کم تھے!    ؎
اگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تا بہ زانو بُدی
بادشاہ اگر ملکہ کا بیٹا ہوتا تو میں آج گھٹنوں تک سونے چاندی میں کھڑا ہوتا۔
وگر شاہ راشاہ بودی پدر
بسر بر نہادی مرا تاجِ زر
بادشاہ اگر خاندانی بادشاہ ہوتا تو آج میرے سر پر سونے کا تاج رکھتا۔
فردوسی تفصیل سے بتاتا ہے کہ اصل، اصل ہوتا ہے اور عکس، عکس! اگر کسی درخت کی سرشت ہی کڑوی ہے تو اسے بے شک باغِ بہشت میں لگا دیجیے، اُسے جوئے خُلد سے پانی دیجیے، اس کی جڑوں میں شہد انڈیلیے، پھل کڑوا ہی دے گا! ناپاک زادہ سے اچھی اُمید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے یہ سوچنا کہ سیاہ فام حبشی، دھونے سے سفید ہو جائے گا۔
1936ء میں جب بمبئی کے علاقے مالا بار میں قائدِاعظم کی کوٹھی تعمیر ہوئی تو اُس وقت اُس پر دو لاکھ روپے لگے تھے‘ یعنی آج کے کروڑوں ڈالر! بہترین لباس پہننے والے قائدِاعظم کے پاس چار چار گاڑیاں تھیں۔ اُس زمانے میں پندرہ سو ماہوار کی ملازمت ٹھکرائی کہ اتنا تو میں ایک دن میں کماؤں گا اور پھر ایسا کر کے دکھایا۔
اور لیاقت علی خان؟ تین سو گاؤں ان کی ملکیت میں شامل تھے۔ ان میں ساٹھ گاؤں کرنال کے علاقے میں تھے۔ زمینداری مشرقی پنجاب سے لے کر یوپی تک پھیلی ہوئی تھی۔ دہلی میں پاکستانی سفیر آج بھی لیاقت علی خان کی عطا کردہ کوٹھی میں رہائش رکھتا ہے۔ 
عقل مند بتاتے تھے کہ غریب امیر ہو جائے تو پچاس برس تک غربت اُس کے نہاں خانۂ دل سے نہیں نکلتی اور گردشِ زمانہ امیر کو قلاش کر دے تو خوئے امارت اس کے طور اطوار اور اخلاق و کردار سے برسوں نہیں جاتی! بھُوکے کو کھانا ملے تو بڑے بڑے نوالے ڈالتا ہے اور چبائے بغیر نکلتا ہے۔ سروے کر کے دیکھ لیجیے، جو لوگ اپنے ملازموں سے نرمی سے پیش آتے ہیں اور ان کی غربتِ نفس کا خیال رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر وہ ہیں جو بچپن سے ملازموں کے عادی ہیں۔ ایسے ہی گھرانوں کے بچے اپنے ڈرائیوروں‘ باورچیوں اور چوکیداروں کو نام لے کر نہیں بلاتے۔
امارت کی خُو کیا ہے، جو باقی رہتی ہے؟ قناعت ہے اور سیر چشمی! بھوک آنکھ میں نہ ہو تو اسے سیر چشمی کہتے ہیں۔ طارق نعیم کاشعر ہے ‘  ؎
یوں ہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی، شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے
قائداعظم کے اختیار میں کیا نہیں تھا؟ ملک کے سربراہ تھے۔ چاہتے تو گاڑیوں، جہازوں، کارخانوں کے مالک بن جاتے۔ مگر حالت یہ تھی کہ جورابیں مہنگی قرار دے کر واپس کرا دیں۔ کابینہ کے اجلاس میں بیت المال سے چائے تک نہ پینے دی۔ فاطمہ جناح کچن کا پورا حساب رکھتی تھیں۔ آخری ایام میں جب خیر اندیشوں نے ان کا پسندیدہ باورچی لاہور سے منگوایا تا کہ بیماری کے دوران خوراک تسلی بخش ہو، تو باورچی واپس بھجوا دیا۔ جس طرح چھان بین کر کے سرکاری جہاز خریدا، ساری تفصیل پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
لیاقت علی خان کے پاس پاکستان میں اپنا گھر نہیں تھا۔ پروا بھی نہیں تھی۔ ان کی شہادت کے بعد کابینہ نے بیوہ کے لیے سرکاری رہائش گاہ کی منظوری دی۔ کرنال کے نواب اور ملک کے وزیراعظم کا سازو سامان کیا تھا، چند کپڑے، چند کتابیں‘ کچھ سگریٹ لائٹر! اور بینک میں 47 ہزار روپے! 
پھر وقت نے کروٹ لی! اب ان کا حال دیکھیے، جن کے پاس کچھ بھی نہ تھا! اقتدار ملا تو کتنے بڑے بڑے نوالے منہ میں ٹھونسے اور چبائے بغیر نگلے! ایک جماعت نے تو حد ہی کر دی۔ مڈل کلاس کا نام اتنا بد نام کیا ہے کہ قیامت تک عوام مڈل کلاس کے سحر میں نہیں آئیں گے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ مڈل کلاس تھی ہی نہیں! خدا کے بندو! یہ تو لوئر کلاس کی بھی لوئر تھی! زیریں ترین! اُس سے بھی زیادہ زیریں!
اتنے بڑے بڑے نوالے!
اتنی غیر یقینی کیفیت!
اتنے لمبے ہاتھ!
کسی کے اہلِ خانہ لاس اینجلز کے گراں ترین سیکٹر میں رہائش پذیر ہیں۔
کسی کے پٹرول پمپ شکاگو سے ہیوسٹن تک پھیلے ہوئے ہیں۔ 
اور اس ریاست کے اندر ریاست 
(State within state)
 کادارالحکومت لندن ہے۔ 
جائیدادیں ہیں اور سمندر پار ہوائی جہازوں کے پھیرے!
پاناما لیکس کو اورسرے محل کو کیا روئیں! جدہ کے کارخانوں، پیرس کے قدیم محلات اور نیویارک کے پینٹ ہاؤس کا کیا ذکر کریں، نام نہاد مڈل کلاس پارٹی کے رہنماؤں کے بچوں کی شادیاں دبئی میں منعقد ہو رہی ہیں۔ پام دبئی کے اساطیر اٹلانٹک ہوٹل سے لے کر دبئی کریک کے شیرٹن ہوٹل تک جنوبی پاکستان کی مڈل کلاس کی داستانیں تاریخ کے صفحے پر اپنا وجود ثبت کر رہی ہیں۔ دبئی کے کرِیک اور پام وہ علاقے ہیں جہاں دنیا کے بہترین اور گراں ترین ہوٹل اور ریستوران واقع ہیں!
کوئی ہے جو ان کے اثاثے پوچھے؟ پَھرولے؟ اور تفتیش کرے؟ وہ تو عمر فاروق اعظمؓ تھے جن کے گورنر نے کہا تھا کہ یہ مال بیت المال کا ہے اور یہ تحائف مجھے ملے ہیں۔ امیر المومنین نے وہ بھی بیت المال میں ڈال لیے اور پوچھا: تم گورنر نہ ہوتے تو پھر بھی تمہیں لوگ دیتے؟ اب اس اسلام کے قلعے میں کوئی نہیں جو پوچھے کہ میاں! گیارہ سال گورنر رہے۔ اس سے پہلے کے اثاثے کیا تھے اور ’’سیاست‘‘ میں آنے کے بعد کتنے ہوئے؟
یہ ایک نیا ٹرینڈ ہے کہ شادیاں دبئی میں منعقد ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ نودولتیے پن کی انتہا ہے! اس سے پہلے سیاست میں آکر غریب غربا نودولتیے بنتے تھے تو جائدادیں محلات اور کارخانے تو بناتے تھے، بچوں کی شادیاں ملک کے اندر ہی کرتے تھے۔ ہاں! نودولتیا پن ڈشوں کی تعداد، جہیز اور شان و شوکت کے دیگر مظاہر سے پوری طرح جھلکتا تھا۔
اور یاد رکھیے! یہ آغاز ہے۔ اس کے بعد جو مقابلہ نو دولتیوں میں ہو گا اسے دنیا دیکھے گی۔ تماشائی کچھ محفوظ ہوں گے‘ کچھ کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفار پڑھیں گے۔ وہ تیرہ تالی کھیلی جائے گی کہ غربت سے امارت میں داخل ہونے والے، ملک کے اندر فائیو اور سیون سٹار ہوٹلوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے!
پھر اُن افراد کی دولت کا اندازہ لگائیے جو چہار دانگِ عالم سے، اُڑن کھٹولوں میں بیٹھ کر، دبئی کے ان پرستانوں میں اُتریں گے اور دُلہا دُلہن کو یا ان کے ماں باپ کو لفافے دیں گے۔ 
سبحان اللہ! کیا کلاس ہے! شادیاں منعقد کرنے والے اور ان میں شرکت کرنے والے!
نودولتیوں کا نو دولتیوں سے مقابلہ ہے!  ع
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

Friday, December 23, 2016

خواہ مخواہ

خیر بخش گاؤں سے شہر وارد ہوا تو اجنبی تھا۔ مکمل اجنبی! دور کے ایک عزیز نے، جو آسودہ حال تھا، پناہ دی۔ نوکری مل گئی تو آسودہ حال عزیز نے اسے ایک کمرہ مستقل دے دیا۔ اس کے عوض خیر بخش اس کے بچوں کو پڑھا دیتا تھا۔
یہ انتظام بخیر و خوبی چلتا رہا؛ تاہم کچھ عرصہ بعد خیربخش نے محسوس کیا کہ میزبان کے طور اطوار، طرزِ معاشرت اور عادات و خصائل درست نہیں اور اصلاح کے قابل ہیں۔ خیر بخش دیر سے آتا تو دروازہ بند پاتا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ دروازہ رات بھر کھلا رہے۔ پھر اس نے مطالبہ کیا کہ بچوں کو فلاں سکول سے اُٹھا کر فلاں میں ڈالا جائے۔ پھر ڈرائنگ روم کو خواب گاہ میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا پھر اس نے ایک فہرست باورچی کے حوالے کی کہ کھانا اس کے مطابق پکایا جائے۔ پھر اس نے کہا کہ اس کا مطالعہ متاثر ہوتا ہے اس لیے ٹیلی ویژن لاؤنج سے ہٹا کر، اوپر کی منزل پر رکھا جائے۔
میزبان کچھ عرصہ تو طرح دیتا رہا۔ پھر ایک دن اس نے خیر بخش کو بٹھا کر اس سے بات کی۔ اس نے پوچھا کہ کیا میں نے تمہاری طرف نائی بھیجا تھا کہ آکر یہاں قیام کرو؟ تم بے گھر تھے اور بے یارومددگار‘ میں نے تمہیں پناہ دی۔ اب تمہیں ہر شے میں کیڑے نظر آنے لگے ہیں۔ میں اپنا طرزِ زندگی تمہارے کہنے پر نہیں بدل سکتا۔ تم مہربانی کرو، دو دن کے اندر اندر اپنا بندوبست کرو اور کمرہ خالی کرو‘ ورنہ پولیس آکر خود نمٹ لے گی!
آپ کا کیا خیال ہے کہ میزبان کا یہ اقدام ناروا ہے؟ یقیناً نہیں! خیر بخش اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا الگ گھر لے ورنہ جس طرح میزبان چاہتا ہے، اُس طرح رہے!
اب اس مثال کو تارکینِ وطن پر منطبق کیجیے۔ آئے دن عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ پڑھ کر ہنسی آتی ہے اور سُن کر رحم آتا ہے۔ میزبانوں پر بھی اور مہمانوں پر بھی! پنجابی کا محاورہ ہے‘ تو کون ہے؟ میں خواہ مخواہ ہوں! تارکینِ وطن یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ جاپان‘ آسٹریلیا گئے تو صفر سے شروع کیا۔ ایک دوست بتاتے ہیں، چالیس سال پہلے بارسلونا پہنچے تو کئی ہفتے لال مرچ کی چٹنی سے روٹی کھائی۔ پھر وہاں روزگار ملا۔ شہریت ملی۔ جائداد بنائی۔ دو بھائیوں کو بلایا۔ پھر یورپی یونین کی برکت سے انگلستان کی شہریت ملی۔ اب ایک بھائی برمنگھم میں ہے اور دوسرا لندن کے مضافات میں! عالی شان رہائش گاہیں ہیں۔ سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ بچے قابلِ رشک روزگار سے نفع حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ چالیس چالیس سال سے مشرق وسطیٰ میں کام کر رہے ہیں ان کے پاس شہریت تو دور کی بات ہے، ایک دکان تک ان کے نام نہیں! جوانیاں صرف کر دیں‘ توانائیاں لگا دیں، مگر اجنبی کے اجنبی رہے!
تاہم مغربی ملکوں میں چند تارکینِ وطن ایسے بھی ہیں جو مسلمانوں کی پوری کمیونٹی کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ (یہاں یہ وضاحت مناسب ہو گی کہ مغربی ملکوں سے مراد وہ ممالک بھی ہیں جو مغرب میں نہیں، مشرق میں واقع ہیں جیسے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، مگر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی حوالوں سے یہ مغربی دنیا ہی کا حصہ ہیں) ان تارکینِ وطن کے مطالبات اُسی قبیل کے ہیں جو بھائی خبر بخش کیا کرتا تھا۔ چند اللہ کے بندے اور بندیاں تو ایسی ہیں جو اپنی ذاتی خواہشات کو اسلام کا تقاضا بتاتی ہیں۔ گزشتہ برس ایک ٹیکسی ڈرائیور نے امریکہ میں اصرار کیا کہ شلوار قمیض ہی پہنے گا کیوں کہ یہ اس کے مذہب کا حصہ ہے! جج نے اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ جج اتنا بے خبر نہیں ہو سکتا کہ اسے یہ بھی نہ معلوم ہو کہ اس لباس کا اسلام سے یا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس نے یہی سوچا ہو گا کہ ان لوگوں کو اِسی جھمیلے میں رہنے دو! اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں شیطان اپنے مشیروں کو یہی ہدایت دیتا ہے کہ مسلمانوں کو اُس گرداب سے نکلنے نہ دو جس میں وہ غوطے کھا رہے ہیں؎
ابنِ مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جدا یا عین ذات 
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں
یہ الٰہیّات کے ترشے ہوئے لات و منات
تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات 
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے 
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
امریکی جج نے ابلیس کی ہدایت پر پورا پورا عمل کیا اور پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کی یہ ’’دلیل‘‘ مان لی کہ شلوار قمیض، اسلامی تعلیمات کا جزوِ لاینفک ہے! ماہِ رواں میں آسٹریلیا کی ایک عدالت میں ایک خاتون نے اپنا مقدمہ خود ہی خراب کر لیا۔ مُعطیہ زاہد نے نیو ساؤتھ ویلز کی ریاست میں پولیس کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ اس کا موقف تھا کہ پولیس نے گھر کی تلاشی لیتے وقت اس کے ساتھ بدسلوکی کا ارتکاب کیا ہے۔ جج نے ثبوت سننے یا دیکھنے کے لیے اسے عدالت میں طلب کیا۔ معطیہ نے پورا چہرہ نقاب سے ڈھانپا ہوا تھا۔ جج نے تقاضا کیا کہ وہ چہرے سے نقاب ہٹا کر گواہی دے۔ جج کی دلیل یہ تھی کہ وہ چہرے کے تاثرات دیکھے بغیر نہیں جانچ سکتا کہ گواہی کتنے پانی میں ہے۔ جج کا بیان جامع تھا… ’’مجھے معلوم ہے کہ حرکات و سکنات اور چہرہ واحد ذریعہ نہیں جس سے گواہی جانچی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے یہ سہولت میسر ہی نہ ہو‘‘۔ دوسری طرف معطیہ کے وکیل کا بیان تھا کہ ’’مجھے کہا گیا ہے کہ میری موکلہ مسلمان ہے اور چہرے سے پردہ ہٹانا اس کے مذہب کے خلاف ہے۔‘‘
عدالت نے معطیہ کو کئی متبادل حل تجویز کیے۔ ایک یہ کہ پبلک کو عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ کسی الگ کمرے میں عدالت منتقل کی جا سکتی ہے۔ تیسرا یہ کہ خاتون ویڈیو کے ذریعے گواہی دے دے مگر معطیہ نے سارے متبادل نامنظور کر دیے۔
اس کے بعد مسئلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ یوں سمجھیے کہ شروع ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان ملکوں میں خواندگی سو فیصد ہے۔ ہماری طرح نہیں کہ اسی فیصد آبادی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ خبر سارے اخبارات میں چھپی۔ آن لائن، جو قارئین کمنٹ دیتے ہیں وہ بہت عبرت ناک ہیں۔ چند گھنٹوں میں سینکڑوں کمنٹ انٹرنیٹ پر آ جاتے ہیں۔ اکثر کا کہنا یہ تھا کہ آپ یہاں کیوں رہ رہی ہیں؟ یہاں رہنا ہے تو یہاں کے طور طریقے اپنائیے۔ کچھ نے لکھا کہ ان کا بس چلتا تو موصوفہ کو پہلے جہاز میں، جو میسر ہوتا، بٹھا کر، واپس ان کے وطن بھیج دیتے۔
نومبر میں اٹلی میں ایک خاتون کو چہرے سے نقاب نہ ہٹانے پر تیس ہزار یورو جرمانہ ہوا۔ یوتھ پارلیمنٹ کا اجلاس تھا۔ اس میں خاتون کا بیٹا بھی شرکت کر رہا تھا۔ میئر نے اصرار کیا کہ خاتون کی شناخت ضروری ہے۔ خاتون نے انکار کر دیا۔
جرمنی نے حال ہی میں تقریباً بارہ لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ ان مہاجرین کے لیے ایران نے دروازے کھولے نہ سعودی عرب نے نہ کسی اور مسلمان ملک نے! دائیں بازو کے قوم پرستوں نے جرمن چانسلر مرکل کی بھرپور مخالفت کی‘ مگر خاتون چانسلر ڈٹی رہی اور مہاجرین کے لیے جرمنی کے دروازے کھول دیے۔ ساتھ ہی اس نے احسان بھی جتا دیا، ’’ہمارے بچوں کو تاریخ بتائے گی کہ مکّہ ان مہاجرین کو زیادہ نزدیک پڑتا تھا مگر پناہ جرمنی نے دی۔ کسی بھی امیر مسلمان ریاست کو توفیق نہ ہوئی۔‘‘
مرکل کی پارٹی نے اسے چوتھی بار چانسلر کا انتخاب لڑنے کے لیے نامزد کیا ہے۔ اب مرکل کی ترجیحات میں سرِ فہرست انتخاب جیتنا ہے؛ چنانچہ اس نے عندیہ دیا ہے کہ جرمنی میں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگانا ہو گی! اس اعلان سے وہ اُن طبقات کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہے جو مہاجرین کو اجازت دینے کی مخالفت کر رہے تھے۔ 
سوال یہ نہیں ہے کہ چہرہ ڈھانپنا فرض ہے یا مستحب۔ سوال یہ بھی نہیں کہ چہرہ کھلا رکھنا حرام ہے یا مکروہ یا جائز! سوال مسلمانوں کی عزتِ نفس کا ہے۔ ہمارا موقف یہ بھی نہیں کہ جرمنی کی چانسلر، یا آسٹریلیا کا جج یا اطالوی قصبے کا میئر حق بجانب ہیں! انفرادی آزادی خود یورپی تہذیب کی بنیاد ہے‘ مگر انگریزی میں محاورہ ہے کہ دستِ سوال دراز کرنا ہو تو نخرے کیسے؟ اگر مقامی قوانین آپ کے طرزِ زندگی سے مناسبت نہیں رکھتے تو آپ تماشا بننے کے بجائے، اپنے ملک ہی میں کیوں نہیں رہتے؟ ضرور آپ نے مقامی لوگوں سے یہ کہلوانا ہے کہ جاؤ، اپنے گھروں کو جاؤ جہاں اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہو۔ ہم نے کیا تمہیں یہاں رہنے کی دعوت دی تھی؟
سعودی عرب میں ہر عورت کو عبایا پہننا ہوتا ہے۔ اگر وہ غیر مسلم ہے تب بھی! عبایا ہو بھی سیاہ رنگ کا! اب اگر کوئی خاتون نہیں پہننا چاہتی تو سعودی شرطہ یا سعودی عدالت یہی تو کہے گی کہ سعودی عرب سے نکل جاؤ۔ اور رہنا ہے تو ہمارے رسم و رواج، ہمارے قوانین، ہمارے اسلوبِ معاشرے کی پابندی کرو!
تان اُسی محاورے پر ٹوٹتی ہے۔ تم کون ہو؟ میں خواہ مخواہ ہوں!

Wednesday, December 21, 2016

تمہارے منہ میں خاک

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آج اقوامِ عالم میں ہماری امتیازی حیثیت کا اصل سبب کیا ہے؟
یہ کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں؟ ہاں! یہ ہمارے امتیاز کا سبب تو ہے مگر صرف عالمِ اسلام میں! فرانس‘ چین‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ روس کیوں متاثر ہوں؟ وہ تو خود ایٹمی طاقتیں ہیں اور ہم سے کہیں پہلے یہ میدان مار چکی ہیں!
ہماری مسلّح افواج؟ ہمیں ان پہ فخر ہے اور اقوام عالمِ میں ہماری عزت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے مگر نہیں! اصل سبب یہ نہیں!
اصل سبب جمہوریت کے لیے ہماری وہ خدمات‘ وہ قربانیاں اور وہ جدوجہد ہے جس کا عشرِ عشیر بھی مغربی جمہوری ملکوں کو نصیب نہیں ہوا۔ 
یہ سچ ہے کہ برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا جیسے ملکوں میں کبھی مارشل لا نہیں لگا۔ وہاں کی پارلیمانی روایات مضبوط ہیں۔ امریکیوں نے سول وار کا پل صراط تک پار کیا اور جمہوریت کو بچا لیا۔ مگر جو خدمات پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں نے جمہوریت کے لیے سرانجام دی ہیں‘ ان پر مغربی دنیا رشک تو کر سکتی ہے‘ ان کی مثال پیش کرنے سے معذور ہے! 
جمہوریت کی خاطر جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو سیاست دان اس کے ساتھ ہو گئے۔ پھر اقتدار اپنے جانشین جنرل یحییٰ خان کو سونپ کر صدر ایوب نے جمہوریت ایک بار پھر بچا لی!
ذوالفقار علی بھٹو کی قربانیاں بھی جمہوریت بچانے کے لیے جنرل ایوب خان سے کچھ کم نہیں! مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ انتخابات جیت چکی تھی۔ اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا تھا‘ مگر چودہ فروری 1971ء کو بھٹو صاحب نے یہ اعلان کرکے کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے‘ جمہوریت کو بچا لیا۔ جمہوریت کے لیے دوسرا بڑا کارنامہ انہوں نے 28 فروری 1971ء کو لاہور میں سرانجام دیا جب متنبہ کیا کہ جو اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کرے گا‘ ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے‘ اور جسے جانے کا شوق ہو‘ وہ یکطرفہ ٹکٹ خرید کر جائے۔ چودہ مارچ 1971ء کو کراچی میں بھٹو صاحب نے جمہوریت کے گلے میں سونے کی ایک اور دمکتی ہوئی مالا ڈالی اور کہا کہ تم مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی ہو اور ہم یعنی پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی ہیں۔ اسی اجلاس میں انہوں نے الگ الگ انتقالِ اقتدار کا تصور پیش کیا۔ پھر آرمی ایکشن ہوا۔ ڈھاکہ سے بھٹو صاحب واپس پہنچے تو کہا ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔
اتفاق سے ایسا ہوا کہ بھٹو صاحب کی کوششوں کے ’’باوجود‘‘ پاکستان تو نہ بچ سکا ہاں جمہوریت بچ گئی۔ جمہوریت کی خاطر بھٹو صاحب نے میرٹ کو قتل کر کے جنرل ضیاء الحق کو آرمی کا سربراہ بنایا۔ جب جنرل صاحب نے اس احسان کا بدلہ اتارتے ہوئے انہیں تختہ دار پر لٹکایا تو جمہوریت کی خدمت کرتے ہوئے ان کی جماعت نے احتجاج ہی نہ کیا! سوائے چند گنے چنے افراد کے جو کوڑے کھاتے رہے۔
سیاست دان سارے کے سارے جمہوریت کی خاطر ضیاء الحق کے ساتھ مل گئے۔ جاوید ہاشمی سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک‘ سب ضیاء الحق کے شانہ بشانہ جمہوریت کے لیے خدمات سرانجام دیتے رہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو جمہوریت بچ جانے کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ کوئی آنکھ نہ روئی۔ کوئی احتجاج نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کا ایک حصہ پیٹریاٹ بن کر جمہوریت کی خدمت کرنے لگ گیا۔ قاف لیگ جنرل صاحب کی دستِ راست بن گئی۔ ایم ایم اے نے تن من دھن سے سپہ سالار کی خدمت کی۔
جمہوریت کی خاطر بے نظیر بھٹو نے نیویارک میں بیش بہا پینٹ ہائوس نما اپارٹمنٹ لیا پھر اچھے شگون
 (FENG-SHUI)
 کی خاطر اس میں تبدیلیاں کیں‘ مگر ہوا وہی جو قدرت کو منظور تھا۔ موت سے چھٹکارا نہ مل سکا۔ جمہوریت کے لیے بی بی شہید نے دبئی میں ایک ایسا محل خریدا جس کی مثال الف لیلہ اور امیر حمزہ کی داستانوں میں بھی نہ ملے۔ فانوس جیسے کہکشائیں‘ فرنیچر جیسے آسمان سے بن کر اترا‘ دالان اور برآمدے جنہیں چاند سے دیکھیں تو ستارے لگیں۔ جمہوریت کی مزید خدمات سرانجام دینے کے لیے بی بی شہید یہ محل یہیں چھوڑ گئیں۔ 
جمہوریت کی خاطر محترمہ ماروی میمن سے لے کر جناب زاہد حامد تک اور جناب امیر مقام سے لے کر جناب دانیال عزیز تک سب جنرل پرویز مشرف کے دربار میں تعینات رہے اور رات دن جمہوریت کی خدمت کرتے رہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ پرویز مشرف صاحب کا دورِ حکومت تمام ہو گیا۔ ادھر مصیبت یہ آن پڑی کہ جمہوریت کی خدمت ابھی ادھوری تھی؛ چنانچہ اس خدمت کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے یہ خاتون اور یہ حضرات اب مسلم لیگ نون میں ہیں! مجبوری کیا کیا کام کراتی ہے! جناب پرویز الٰہی بڑے چوہدری صاحب‘ جناب مشاہد حسین بھی اقتدار کی صعوبتیں جھیلتے رہے اور جمہوریت کی نیلم پری کی خاطر ایثار اور قربانی کے لازوال مظاہرے کرتے رہے!
ہمارے وزیراعظم اور ان کا سارا خاندان جمہوریت کی خدمت میں دن رات ایک کر رہے ہیں۔ دُخترِِ نیک اختر منتخب شدہ ہیں نہ کسی سرکاری عہدے پر تعینات مگر جمہوریت کی خدمت میں سب سے آگے ہیں‘ یہ جمہوریت ہی تھی جسے بچانے کے لیے جناب وزیرِ اعظم نے علاج لندن سے کرایا۔ کئی ہفتے عملاً‘ دارالحکومت لندن ہی رہا۔ پھر خصوصی جہاز پر واپس تشریف لائے۔ پاناما لیکس کا مسئلہ اٹھا تو جمہوریت کی خاطر وزیرِ اعظم کے ساتھی ڈٹ گئے۔ چھوٹے بھائی جمہوریت کو بچانے کے لیے بیسیوں بار برطانیہ‘ چین اور ترکی گئے‘ اور جاتے ہی رہتے ہیں! بھتیجا یوں تو ایم این اے ہے مگر جمہوریت کی خاطر صوبے کا نظم و نسق چلا رہا ہے۔ لاہور کو چونکہ جمہوریت کی زیادہ ضرورت ہے اس لیے اس کا بجٹ بھی بقیہ صوبے سے زیادہ ہے!
جمہوریت کو بچانے میں جناب وزیرِ اعظم کے اتحادی ان سے پیچھے نہیں! شانہ بشانہ چل رہے ہیں‘ مولانا شیرانی ملک کو پانچ حصوں میں تقسیم ہوتا دیکھ رہے ہیں‘ یہ خواب انہیں یوں نظر آیا کہ اس طرح ایک نہیں‘ پانچ اسلامی نظریاتی کونسلیں ہاتھ آ جائیں گی۔ ایک کو وہ سنبھال لیں گے۔ دوسری چار کو اُن کے متعلقین! اگر مسلم لیگ نون‘ مولانا شیرانی کی اتحادی نہ ہوتی تو ضرور کہتی ’’تمہارے منہ میں خاک‘‘ مگر جمہوریت کی خاطر مسلم لیگ نون ساری کی ساری خاموش ہے اور مولانا کو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ جہاں سے معقول مشاہرہ اور ڈھیروں ڈھیر مراعات‘ گاڑیاں اور جہازوں کے ٹکٹ رات دن بٹور رہے ہیں‘ اس ملک کو توڑنے کے خواب تو نہ دیکھیں۔ جانور بھی اُس تھالی میں چھید نہیں کرتا جس میں کھا رہا ہوتا ہے۔ بڑے مولانا صاحب جمہوریت کی خاطر‘ قبائلی علاقوں کو کے پی میں ضم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون‘ خاموش ہے! 
مگر جمہوریت کی خاطر‘ سب سے بڑی قربانی وزیر اعظم اور ان کے ساتھی‘ محمود خان اچکزئی کی پرورش اور کفالت کے ذریعے کر رہے ہیں۔ کل اس شخص نے بقائمی ہوش و حواس یہ درفنطنی چھوڑی کہ افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دے کر‘ ان کے لیے بارڈر سے لے کر اٹک اور میانوالی تک الگ صوبہ بنایا جائے جس کا نام افغانیہ رکھا جائے۔ محمود خان اچکزئی نے یہ فریاد بھی کہ ’’افغان وطن خطرناک بحرانوں سے دوچار ہے‘‘۔
جمہوریت کی خاطر میاں محمد نوازشریف وزیراعظم پاکستان نے اِس مطالبے کا بُرا نہیں منایا۔ ورنہ ان کا اشارۂ ابرو ہوتا تو جناب طلال چوہدری‘ جناب دانیال عزیز اور جناب سعد رفیق محمود اچکزئی کی درفنطنی کے پرخچے اڑا کر رکھ دیتے۔ خاموشی نیم رضا! یعنی یہی سمجھنا چاہیے کہ مسلم لیگ نون کو اچکزئی کے اِس مطالبے پر کوئی اعتراض نہیں ہے! ورنہ اتنا تو کہہ ہی سکتے تھے کہ باقی پنجاب کو تو چھوڑو‘ صرف لاہور ہی سے ’’افغان‘‘ قوم کے افراد نکال کر کچلاک لے جائو۔ مسلم لیگ نون کو چاہیے کہ سینیٹر میر حاصل بزنجو کے اس بیان کی تردید جاری کرے جس میں بزنجو نے افغان مہاجرین کو شہریت دینے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو کسی صورت بلوچستان میں قبول نہیں کیا جائے گا! مسلم لیگ نون کو بزنجو صاحب کے بیان کی فوراً مذمت کرنی چاہیے‘ ورنہ خدانخواستہ محمود خان اچکزئی مسلم لیگ نون سے ناراض ہو گیا تو کیا بنے گا! بلکہ افغان مہاجرین کو رائے ونڈ میں آباد ہونے کی بھی پیشکش کر دی جائے۔
تاہم جناب آصف زرداری کی خدمات جمہوریت کے لیے نمایاں ترین ہیں۔ ٹین پرسنٹ کا خطاب انہیں نہیں اصل میں جمہوریت کو ملا تھا۔ سرے محل سے لے کر پیرس کے نواح میں صدیوں پرانے محل تک‘ نیویارک اور دبئی میں طویل قیام‘ یہ سب ان کی خدمات ہی تو ہیں جو جمہوریت کے لیے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی تو فقط دو جانباز ہیں جو منظر عام پر آ گئے ورنہ بیسیوں گمنام مجاہد رات دن جمہوریت کی خدمت‘ جناب زرداری کی لیڈر شپ تلے‘ سرانجام دے رہے ہیں۔
اور اب وہ بقول بلاول‘ وطن واپس آ رہے ہیں تو صرف جمہوریت کی خاطر آ رہے ہیں!
واہ! جمہوریت! تو کتنی خوش بخت ہے!

Monday, December 19, 2016

چَھلنی

ایک سو تیس سے زیادہ بچے بزدل دُشمن کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان کی استانیوں نے انہیں بچاتے ہوئے جانیں قربان کر دیں۔ اس دن پشاور میں قیامت کا سماں تھا۔ بنو عباس کی خلافت کو زوال آیا تو سعدی نے مرثیہ کہا تھا:
آسمان را حق بود گر خون بگرید بر زمین
بر زوالِِ ملکِ مستعصم امیرالمومنین !
آسمان کو حق پہنچتا ہے کہ زمین پر خون کے آنسو بہائے۔ اُس دن پشاور میں جو کچھ ہوا تھا‘ اس پر آسمان اور زمین لہو روئے تھے۔
مگر اُسی شام ایک بچے بلال نے ٹیلی ویژن کی ایک اینکر کو وہ بات کہی‘ جسے آسمان نے سنا تو اس کے رواں آنسو تھم گئے، زمین نے سنا تو تھرتھراہٹ ختم کر کے اپنی جگہ ٹھہر گئی۔ بلال نے اُس دن دہشت گردوں کی قسمت پر ہلاکت کی مُہر ثبت کر دی اور دو فقروں کی ایسی زبانی دستاویز جاری کی جس میں اس ملک کی سلامتی کی گارنٹی تھی!
حوصلہ اُس شام بجھا بجھا تھا۔ زمین پشاور کی خون سے سُرخ تھی‘ فضا مائوں کی سسکیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ابھی تو بارہ گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے۔ پختہ عمر کے لوگوں کی بھی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ کلیجے مُنہ کو آ رہے تھے۔ خوف تھا کہ ہڈیوں کے گودے میں جگہ بنا رہا تھا۔ اُسی دن تو قتل عام برپا ہوا تھا۔ ٹھیک اُسی دن‘ شام کو بلال نے کہا کہ دہشت گرد ہمیں ہرا نہیں سکتے۔ اگر کل صبح سکول کھل جائے تو میں کل ہی واپس سکول جائوں گا۔ میں آگے بڑھوں گا، آرمی میں جائوں گا اور دہشت گردوں سے اپنے دوستوں کا بدلہ لوں گا!
مُہر ثبت ہو چکی! لوحِ محفوظ پر اس ملک کی سلامتی مقدر ہو چکی! یہ فقرے دہشت گردوں کی موت کا پروانہ تھے۔ ساتوں لعین ڈھیر تو پہلے ہی ہو چکے تھے۔ اُن کے ماسٹر مائنڈ بھی بعد میں کیفرکردار کو پہنچ گئے۔ مگر دہشت گردوں کی اصل موت‘ بلال جیسے بچے کا وہ عزم تھا جو اس نے اُسی شام ہوا میں اچھالا۔ یہی عزم ہے جو پاکستان کے آسمان پر سورج بن کر دن کو چمکتا ہے اور ستاروں کی صورتِ رات بھر اس سر زمین پر چاندی جیسی کرنیں اتارتا ہے!
قدرت سب سے بڑی منصف ہے اور تاریخ غضب کی چھلنی ہے۔ قدرت اُس قوم کو آزمائش میں تو اتارتی ہے جس میں بلال جیسے بچے ہوں مگر آزمائش اس قوم کو صیقل کرتی ہے! تاریخ کی چھلنی میں سے وہ حکمران نیچے گر جاتے ہیں جو ایسے بچوں کی قربانیوں کو دولت جمع کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تاریخ کی چھلنی سے نیچے گر جانے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ابد تک کی لعنت اور پھٹکار! چند سکّوں اور چند ریشمی عبائوں کی خاطر میر جعفر اور میر صادق نے قوم کو دھوکہ دیا۔ آج تک پھٹکار پڑ رہی ہے۔ کیا عجب مسلسل نیچے دھنستے جا رہے ہوں! جب تک تاریخ لکھی جاتی رہے گی‘ جب تک تاریخ پڑھی جاتی رہے گی‘ سرّے محل اور پاناما لیکس چھلنی سے نیچے گرتے رہیں گے۔ چھلنی میں باقی کون رہ جائے گا؟ بلال جیسے بیٹے‘ جو یہ نہیں کہتے میں بڑا ہو کر ٹین پرسنٹ بنوں گا۔ جو اس فولادی عزم کا اظہار نہیں کرتے کہ میں بڑا ہو کر اتنی فیکٹریاں لگائوں گا، جدہ میں اتنے کارخانے قائم کروں گا اور لندن میں اتنے مکان خریدوں گا۔ وہ کہتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ سکول صبح کھل جائے تو صبح ہی واپس جائوں گا، بڑا ہو کر فوج میں جائوں گا اور اپنے شہید دوستوں کا بدلہ لوں گا! 
بلال بچہ ہے مگر دودھ پیتا بچہ نہیں! اس بچے کو معلوم ہے کہ آرمی میں جانے کا کیا مطلب ہے؟ آرمی میں جانے کا مطلب ہے بھاری بوٹ‘ سر پر لوہے کا خود! اور ہاتھ میں بندوق! راتوں کی مشقیں اور دن کے خوفناک تربیتی مراحل۔ گھنے جنگل‘ بلند پہاڑ‘ گہری کھائیاں‘ چٹانوں کے خون منجمد کر دینے والے خطرناک کنارے‘ دشمن کی گولیاں! مٹی کے بستروں پر مشتمل مورچے‘ آگ‘ خون‘ دھول‘ دھماکے اور شہادت! مگر عزم دیکھیے! ابھی چند گھنٹے پہلے اس کے ساتھی اُس کی آنکھوں کے سامنے گولیاں کھا کر زمین پر گرے اور ابھی اُس نے اعلان کیا کہ وہ ڈرنے والا نہیں‘ وہ بدلہ لے گا!
اس ملک کی بھی کیا قسمت ہے! کوئی نشے میں دُھت‘ طبلہ بجاتے ہوئے کہتا ہے‘ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘ اور کوئی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے‘ میں ڈرتا نہیں! کوئی عرب بادشاہ کے بخشے ہوئے درہم و دینار سے اپنا کشکول بھرتا ہے اور کہتا ہے سب سے پہلے پاکستان! اور کوئی اس درہم و دینار پر تُھوک کر‘ جان ہتھیلی پر رکھتا ہے‘ رُوح آسمان کی طرف بھیجتا ہے اور اپنا لاشہ سخت کھردری زمین پر گرا کر کہتا ہے۔۔۔۔ سب سے پہلے پاکستان! 
آرمی اور دہشت گرد، دونوں مسلح ہیں۔ دونوں موت کے مسافر! مگر فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ آرمی کا جوان‘ خواہ سپاہی ہے یا افسر‘ بھاگتا ہے نہ چھپتا ہے۔ سینے پر گولی کھاتا ہے۔ دہشت گرد سینے پر گولی نہیں کھاتا۔ کھا ہی نہیں سکتا! دہشت گردی کا لغت میں ایک ہی معنی ہے۔۔۔ بزدلی! حد درجہ بزدلی! وہ مار کر چُھپتا ہے‘ چُھپ کر مارتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کو موت کے مُنہ میں ڈال کر‘ کسی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر‘ گم ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت بھی گمنام ہوتی ہے۔ اس کی قبر کا مقام بھی متنازعہ ہوتا ہے۔ دہشت گرد موت کے لیے لڑتا ہے۔ آرمی کا جوان زندگی کے لیے لڑتا ہے۔ دہشت گرد لوگوں کو ہلاک کرنا چاہتا ہے‘ آرمی کا جوان لوگوں کو بچانا چاہتا ہے!
اُس پروردگار کی قسم! جس نے اِس مظلوم قوم کو بلال جیسے بچے عطا کیے‘ اس ملک کے مقدر میں روشنی ہے۔ صرف روشنی! چاندنی سے دُھلی ہوئی روشنی! سورج کی کرنوں سے بُنی ہوئی روشنی! اندھیرا چَھٹ کر رہے گا! اُفق روشن ہوں گے! باغ مخملیں سبزہ زاروں سے آراستہ ہوں گے۔ پرندے اُڈاریاں ماریں گے۔ کُنج پھولوں سے بھر جائیں گے۔ اس سرزمین پر وہ وقت ضرور آئے گا جب پانی افراط سے ہو گا اور میٹھا ہو گا! جب زمین سونا اگائے گی! جب فیکٹریوں سے بھوک نہیں‘ زندگی پیدا ہو گی! جب حکمران خود سودا سلف خریدیں گے‘ جب ہماری اسمبلیوں میں‘ ایک ایک پیسے کا حساب لینے والے ارکان بیٹھے ہوں گے۔ لوٹ مار ہمیشہ نہیں چل سکتی! ملک باقی رہے گا۔ ملک لوٹنے والے چھلنی میں سے نیچے گر جائیں گے‘ تاریخ کے گھٹا ٹوپ اندھے اندھیرے میں اُتر جائیں گے۔
یہ ملک صرف ڈاکٹر عاصم اور ایان علی نہیں پیدا کر رہا! یہاں صرف گلو بٹ نہیں پیدا ہوتے۔ یہاں صرف وہ دکاندار نہیں جو اپنی ہر صبح کا آغاز مرغیوں کی قیمت مقرر کرنے اور دودھ بیچ کر منافع کمانے سے کرتے ہیں۔ یہاں صرف وہ حکمران نہیں پیدا ہو رہے جن کی سوچ کی بلندی قیمتی گھڑی سے اُوپر نہیں جا سکتی۔ یہاں صرف ٹانگوں کے ساتھ بم باندھنے والے ’’سیاست دان‘‘ نہیں پیدا ہو رہے۔ اس قوم میں بلال جیسے آہنی انسان بھی پیدا ہو رہے ہیں! اس ملک کی سرحدوں پر مورچے خالی نہیں‘ آباد ہیں! افغان سرحد سے گولی آتی ہے تو گولی بھیجنے والے کو مارنے والے موجود ہیں! یہ ملک چند مراعات یافتہ اجنبیوں کا نہیں! اسی سرزمین پر جینے اور اسی سرزمین پر مرنے والوں کا حق ہے۔ 
مراعات یافتہ اجنبی! ہاں، مراعات یافتہ بھی اور اجنبی بھی! چودہ سال حکومت پاکستان کے خزانے سے گورنری کی تنخواہ لینے والا برطانوی شہریت کا مالک عشرت العباد بیٹے کی شادی کہاں کر رہا ہے؟ کراچی میں؟ نہیں‘ دبئی میں! مبیّنہ طور پر یہ شادی ’’اساطیر اٹلانٹس دی پام‘‘ دبئی میں 22 دسمبر 2016ء کو ہو رہی ہے۔ یہ مراعات یافتہ اجنبی‘ یہ غیر ملکی‘ کلائیو اور کرزن کی طرح یہاں صرف حکومت کرنے آتے ہیں۔ اس کے بعد یہ دبئی‘ لندن، جدہ اور نیویارک میں پائے جاتے ہیں!
تیرہ دسمبر کو وزیراعظم پاکستان نے پشین کا دورہ کرنا تھا۔ اُسی دوپہر کو پشین ریسٹ ہائوس میں وزیراعظم کے لیے ظہرانے کا پروگرام تھا۔ مبینہ طور پر کوئٹہ کے فائیو سٹار ہوٹل کی طرف سے ظہرانے کا جو خرچ بتایا گیا وہ پانچ ہزار پانچ سو روپے فی کس تھا۔ کل خرچ چونتیس لاکھ پچیس ہزار روپے بتایا گیا۔ اس میں روشنیوں، دیگر انتظامات‘ سٹاف کے رات کو وہاں رہنے کے اخراجات بھی شامل تھے۔ عین آخری وقت موسم کی خرابی کے سبب وزیراعظم کا دورہ منسوخ ہو گیا۔ ہماری اطلاع کے مطابق یہ بل‘ بلوچستان حکومت کی طرف سے ہوٹل کو ادا کرنا پڑا کیونکہ ہوٹل کو کیا معلوم تھا کہ دورہ منسوخ ہو جائے گا۔ اس پر قیاس کیجئے کہ جہاں بھی سواری جاتی ہے کتنا خرچ ہوتا ہے۔ ہر ظہرانے پر‘ ہر عشائیے پر‘ جہاں ٹھہرنا ہوتا ہے وہاں کی آرائش و تزئین پر!
مگر وہ سامنے دیکھیے‘ غور سے دیکھیے‘ سیاہ اندھیرے میں‘ دور‘ اُفق پر روشنی کی ایک نازک سی کرن شگاف ڈال رہی ہے! یہ شگاف بڑا ہو گا، اندھیرا چھٹ جائے گا۔ قائداعظمؒ جیسے حکمران ضرور لوٹیں گے جن سے کابینہ کے اجلاس کے لیے چائے کا پوچھا گیا تھا تو جواب دیا تھا‘ گھر سے پی کر آئیں‘ قومی خزانہ وزیروں کے لیے نہیں! 
قُدرت کے مضبوط ہاتھ چَھلنی کو ہلائے جا رہے ہیں! اس چھلنی سے کوئی نہیں بچے گا!

Saturday, December 17, 2016

زَمسِتاں

دارالحکومت میں زَمسِتاں کا ورود ہوتا ہے تو زخم ہرے ہو جاتے ہیں!
کیا شہر تھا۔ باغوں اور پارکوں سے چھلکتا۔ تب جنرل ضیاء الحق کی داد و دہش شروع نہیں ہوئی تھی اور ہر اُس شخص کو پلاٹ نہیں دیے جا رہے تھے جو کچھ عرصہ اردن میں رہا ہو۔ گرین ایریا محفوظ تھا۔ دکانیں کھوکھوں میں نہیں بدلی تھیں۔ مارکیٹوں کا پارکنگ ایریا ہڑپ نہیں ہوا تھا۔ زَمسِتاں میں پتے جھڑتے‘ مگر سُرخ پتوں والے درخت خزاں میں بھی بہار دکھاتے رہتے۔ ہری خنک دھوپ میں سُرخ پتوں سے لدے درخت عجیب مسحور کن منظر پیش کرتے۔ خیاباں خیاباں خوبصورتی‘ رہنے والوں کو جُھک کر سلام کرتی۔ پھر ادبار ملک پر چھایا تو دارالحکومت کیسے بچتا۔ پراپرٹی ڈیلروں‘ ٹھیکیداروں اور نفع خوروں نے اس دیدہ زیب شہر کو محلّوں میں تبدیل کر دیا۔ ایک ایک انچ پر کھوکھے‘ دکانیں‘ ہوٹل‘ پلازے بنے۔ اہلِ مذہب بھی پیچھے نہ رہے۔ گندے نالوں پر راتوں رات مسجدیں بنا لی گئیں۔ صحن میں نماز پڑھتے وقت بدبو کے بھبکے ناک سے ٹکرانے لگے مگر وہ جو انگریز محاورہ دے گئے کہ 
! Who Cares!
 تو پروا کون کرے!
شعرا نے سرما کا کیسے کیسے استقبال کیا۔ غالبؔ کے زمانے میں عیدِ قرباں‘ سرما کے جلو میں آئی تو اس نے کہا   ؎
عیدِ اضحی سرِ آغازِ زمستان آمد
وقتِ آراستنِ حجرہ و ایوان آمد
کہ عید قرباں‘ جاڑوں کے شروع میں پڑ رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ کیا فقیروں کے حجرے اور کیا امیروں کے محلّات‘ سب کو سجا دیا جائے۔
ناصر کاظمی کو اور ہی غم کھائے جا رہا تھا   ؎
پھر جاڑے کی رُت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات
شاعروں کے لیے جاڑے کی لمبی راتیں عذاب ہو جاتی ہیں۔ نیند نہ روشنی! جب کُھلے آسمان تلے سوتے تھے‘ تب فائدہ تھا کہ ستارے گن لیتے تھے۔ 
غالب ہی نے کہا تھا    ؎
یہ شغلِ انتظارِ مہ وشان درخلوتِ شب ہا
سرِ تارِ نظر شد رشتۂ تسبیح کوکب ہا
کہ راتوں کی تنہائی میں‘ زہرہ وشوں کا انتظار کیا اور اتنا کیا کہ نظر کا تار وہ دھاگہ (تاگا) بن گیا جس سے ستارے تسبیح میں پرو دیئے گئے تھے۔
سرما کی ان طویل راتوں کو کوئی کس مصرف میں لاتا ہے اور کوئی کس میں! جسم کے لہو کو چراغوں کی طرح جلانے والے طالب علم‘ سوچتے دانشور‘ لکھتے ادیب اور عبادت کرنے والے زاہد اور عابد کہ رات بھیگتی ہے تو قبولیت کے دروازے آسمانوں پر وا ہونے لگتے ہیں   ؎
ایک آواز کہ ہے کوئی خریدار کہیں
ایک بازار یہاں آخرِ شب لگتا ہے
رہے غفلت کی نیند سونے والے تو لمبی راتیں ان کے لیے بھی نعمت سے کم نہیں کچھ لوگ سو جائیں تو ثواب حاصل کرتے ہیں اس لیے کہ اس دوران دنیا ان کے شر سے محفوظ رہتی ہے۔ فتنہ خفتہ بہ! فتنہ خوابیدہ ہی اچھا لگتا ہے!
مگر سرما کا اصل لطف اُس ہلکی نرم مخملیں دھوپ میں ہوتا ہے جو کسی باغ‘ کسی کنجِ چمن یا کسی پارک میں اپنے اوپر گزاری جائے  ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
کتنی اداسی اور کتنی امید ہوتی ہے اس سبز دھوپ میں! کہاں وہ کڑکتی دھوپ جو یہی سورج جون جولائی کی دوپہروں میں کوڑوں کی طرح برساتا ہے اور کہاں یہ لطافت بھری دھوپ جو ماتھوں کو چومتی اور سروں پر ہاتھ رکھتی ہے! کیا قدرت ہے خدا کی جو سورج کو کبھی سخت اور کبھی نرم کرتی ہے‘ منیر نیازی نے کہا تھا   ؎
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
نصف کرۂ زمین پر تپش ہے تو دوسرے نصف پر ٹھنڈک۔ ہم جب لحافوں میں دبکے ہوتے ہیں‘ تو چلی‘ برازیل‘ ارجنٹینا‘ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا میں پنکھے اور ایئرکنڈیشنر چل رہے ہوتے ہیں۔ سمندروں کے ساحل چھلک اٹھتے ہیں۔ خلقت ٹوٹ پڑتی ہے۔ زہرہ وشوں‘ دلبروں‘ سیم تنوں اور گل رخوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے ہیں یہاں تک کہ حیرت زدہ شاعر پکار اٹھتا ہے   ؎
سنہری ریت ہے ساحل کی یا تختِ رواں ہے
علاقے زلف و لب کے آ رہے ہیں جا رہے ہیں
مگر ایسے ایسے جزیرے بھی یہاں موجود ہیں جنہیں سرما کی آمد کا احساس ہوتا ہے نہ تابستانی کا پتہ چلتا ہے۔ ان جزیروں میں ایک اور ہی دنیا بستی ہے۔ سخت گرمیوں میں یہاں کے مکین کمبل اوڑھ کر سوتے ہیں اور برف باری کے دنوں میں مہین‘ جھلملاتے پیرہن زیب تن کرتے ہیں۔ ایوانِ وزیراعظم اور ایوانِ صدر جزیرے ہی تو ہیں۔ چیف منسٹروں اور گورنروں کے محلاّت پر موسم کہاں اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان جزیروں کے باسی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے گزرتے ہیں‘ نہ ہی گیس کا پریشر کم ہوتا ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ سردیوں میں پہنا جانے والا شلوار قمیض کا جوڑا کتنے میں ملتا ہے اور پنکھے اور اے سی کے بغیر جون کی رات کیسے کاٹی جاتی ہے۔ مچھر اور کھٹمل ان قصر ہائے اقتدار میں پائے ہی نہیں جاتے۔ سردیوں میں خشک میووں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ کرۂ ارض کے دورافتادہ گوشوں میں پیدا ہونے والے پھل یہاں بہتات سے پائے جاتے ہیں‘ کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا کہ اِن محلات کے باورچی خانوں میں کچھ نہ کچھ پک نہ رہا ہو۔ سمندری خوراک سے لے کر پہاڑوں میں پائے جانے والے طیور کے گوشت تک‘ سب کچھ ہر وقت میسر ہے۔ یہاں یو پی ایس کا غم ہے نہ بل کا خطرہ! ہیٹر کی جالی میلی ہوتی ہے نہ ٹیوب لائٹ کا سٹارٹر خراب ہوتا ہے۔ یہاں رہنے والوں کو چوری کا کھٹکا بھی نہیں ہوتا‘ یہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر پورچ میں کھڑی گاڑی کو چیک کرتے ہیں نہ لگے ہوئے تالوں کو کھینچ کھینچ کر تسلی کرتے ہیں‘ مرمت ایسا لفظ ہے جو ان ایوانوں میں مکمل اجنبی ہے۔ اس لیے کہ آلات کے خراب ہونے کی نوبت آئے تو تب مرمت کا مرحلہ پیش آتا ہے۔ یہاں تو چیز ابھی تقریباً نئی ہوتی ہے کہ اُسے ہٹا کر اس کی جگہ نیا سامان رکھ دیا جاتا ہے۔ کبھی کوئی پوچھے کہ ان ایوانوں میں کتنے نئے لحاف‘ نئے پلنگ پوش‘ نئی کراکری‘ نئی کٹلری‘ نئے ایئرکنڈیشنر اور نیا فرنیچر ہر مالی سال میں خریدا جاتا ہے کبھی کوئی سوال کرے کہ ’’پرانا‘‘ کہاں جاتا ہے؟ لکھنؤ کے بانکے نواب اور کمخواب میں لپٹے مغل شہزادے‘ ہمارے اِن ایوانوں میں رہنے والوں کے سامنے فقیر لگیں گے!
مگر ایوانوں میں بھی دن گزر کر رات بن رہا ہے اور جھونپڑیوں میں بھی۔ قلوپطرہ بچی نہ روس کی مردم خور ملکہ! وہ نازک طبع بادشاہ بھی قبرستانوں میں جا پہنچے جن کے ریشمی گدے کے نیچے کاغذ رکھ جاتا تو صبح تک بے چینی رہتی اور ’’ناہموار‘‘ گدا سونے نہ دیتا! شاہ جہان شکار کے لیے نکلتا تو ایک لاکھ افراد ہمراہ ہوتے۔ نہ جانے اس کا مقبرہ کس شہر میں ہے؟ کشمیر جاتے ہوئے بھمبر کے پاس ہاتھی روک لیے جاتے۔ اس کے بعد سامان قُلی اٹھاتے۔ مغل بادشاہ کا سامان اٹھانے کے لیے پانچ ہزار قُلی مامور ہوتے مگر آج وہ سب کہاں ہیں؟ قطب الدین ایبک انارکلی کی ایک گمنام گلی میں محوِ خواب ہے۔ اورنگزیب عالم گیر گولکنڈہ میں زیرِخاک ہے۔ شیرشاہ سہسرام میں اور ہمایوں دلی میں سو رہا ہے۔ دربار بچے نہ خرگاہیں! اسپ تازی نہ کجاووں لدے اونٹ! کوئی ان ایوانوں کے بے نیاز مکینوں کو بتائے کہ بہت جلد وہ مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو کے بیڑوں سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ چار کہار ہوں گے اور ڈولی سیدھی قبرستان جا رہی ہو گی!
محل کے سامنے تندور تھا۔ فقیر نے پھٹی ہوئی چادر لپیٹ کر رات تندور کی ہر لحظہ کم ہوتی تپش میں گزاری۔ وہی رات‘ سامنے محل میں‘ بادشاہ اور اس کے اہلِ خانہ نے انگیٹھیوں کے درمیان زرلفت کے کمبلوں میں بسر کی۔ صبح کو فقیر‘ چادر جھاڑتا ہوا اٹھا اور نعرہ لگایا۔ شبِ تنور گزشت و شبِ سمور گزشت!
تنور والی رات بھی کٹ گئی اور محل کی رات بھی ختم ہو گئی! 
ہے کوئی عبرت پکڑنے والا؟

Friday, December 16, 2016

خوبصورت بہت ہو تم لیکن…

آج سے ٹھیک 45سال پہلے‘ اسی تاریخ کو ‘ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی نے ڈھاکہ میں شکست کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔
45سال کا عرصہ بہت زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں۔ اس میں پانچ سال مزید جمع کریں تو نصف صدی بن جاتی ہے۔ قوموں کی تاریخ میں کبھی تو سینکڑوں سال چپ چاپ ایک ہی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ بھارت کے اچھوتوں کو دیکھیے۔ صدیوں سے کوئی تغیر ہے نہ ارتعاش۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی ان کی جیسی تھی‘ ویسی ہی ہے۔ کبھی چند برس صدیوں کو مات کر جاتے ہیں۔ علائوالدین خلجی کا عہد نکال دیں تو 1208ء سے لے کر 1857ء تک کے 649 برس‘ شیر شاہ سوری کے پانچ برسوں کے مقابلے میں ہیچ نظر آتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے اور دوسری جنگِ عظیم کی ابتدا کے دوران اکیس برس کا عرصہ ہے۔ ان اکیس برسوں میں کیا نہیں ہوا۔ روس میں لینن کا ستر سالہ اشتراکیت کا تجربہ شروع ہوا۔ ہٹلر نے یورپ کی پوری زمین پر نئی مٹی بچھا دی۔ صدیوں سے چلی آتی قوی ہیکل سلطنت عثمانیہ کا مینار زمین بوس ہو گیا۔ انہیں اکیس برسوں کے دوران مسلم وسط ایشیا چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر اپنے لباس اور اپنے رسم الخط سے محروم ہو گیا۔
سوال یہ ہے کہ 16 دسمبر 1971ء سے لے کر 16 دسمبر 2016ء تک کے 45 برسوں میں ہم نے کیا سیکھا۔ افسوس! صد افسوس! ہم نے کچھ نہیں سیکھا‘ سوائے اس کے کہ اپنے گریبان میں نہیں جھانکنا اور اپنی ہر ناکامی کا الزام دوسروں پر دھرنا ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ بنی اسرائیل کے جن وقتوں کا تذکرہ کلامِ مجید میں کیا گیا ہے‘ ان وقتوں میں بنی اسرائیل پر‘ دوسری طاقتوں نے بے پناہ مظالم ڈھائے مگر کلامِ پاک میں سارا زور ان غلطیوں پر ہے جو بنی اسرائیل سے سرزد ہوئیں اور ہوتی ہی رہیں۔ اس لیے کہ کوئی بیرونی طاقت کبھی ظفر یاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اندر کا کھوکھلا پن اس کا استقبال نہ کرے۔
ہم یہ رونا تو روتے ہیں کہ بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں مقامی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ہم مکتی باہنی کا تذکرہ تو کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ الیکشن کے بعد ہم نے جیتی ہوئی پارٹی کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا تھا‘ بلکہ اسمبلی کا اجلاس تک نہیں ہونے دیا۔ دھمکیاں دی گئیں کہ جو ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔1971ء کے واقعات کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے‘ ربع صدی کے عوامل ہیں۔ بدقسمتی سے ان سارے عوامل کا غیر جانب دارانہ اور عقل پر مبنی تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ مگر ہمارے ایسا نہ کرنے سے ان عوامل کی اہمیت کم نہیں ہوتی!
شیخ مجیب الرحمن نے 1966ء اور 1969ء کے درمیان جیل میں اپنی خود نوشت لکھنا شروع کی مگر 1955ء تک کے واقعات سے آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ ناتمام خود نوشت 2010ء کے لگ بھگ شائع ہوئی۔
اب اس کا اردو ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔ اس میں سے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ کاش ہم میں اتنی ہمت اور جرأت پیدا ہو جائے کہ ہم دوسروں کا نقطہ ٔ نظر‘ ٹھنڈے دل و دماغ سے سُن سکیں!
’’مشرقی پاکستان کی سیاست اور مغربی پاکستان کی سیاست میں بہت فرق ہے۔ وہاں بڑے بڑے تاجر‘ زمیندار اور نواب وقت گزاری کے لیے سیاست کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ملک کے مشرقی بازو میں متوسط طبقہ سیاست میں زیادہ سرگرم ہے۔ چونکہ مغربی پاکستان میں متوسط طبقہ مضبوط نہیں ہے اس لیے یہ لوگ ملکی معاملات پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ عوام انہی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں جو جاگیردار اور ان کے مذہبی رہنما انہیں بتاتے ہیں۔ اس کے برعکس چونکہ کسان تحریک کا آغاز بہت عرصہ پہلے بنگال ہی سے ہوا تھا اس لیے اس صوبے کے عوام مغربی پاکستان کے عوام کے مقابلے میں سیاسی معاملات سے زیادہ باخبر ہیں۔ مزید برآں بنگالیوں نے تحریکِ پاکستان میں بھی زیادہ سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ عرصۂ دراز سے بنگال میں دیہات کی سطح پر حکومتیں قائم تھیں اور عوام کو یونین بورڈ‘ لوکل بورڈ اور ڈسٹرکٹ بورڈ کا تجربہ تھا۔ ان سب چیزوں کی وجہ سے ہی وہ سیاسی معاملات سے زیادہ باخبر تھے۔ وہ صحیح اور غلط میں بہت بہتر طریقے سے تمیز کر سکتے تھے اور یہ بات انہوں نے بھر پور طریقے سے 1946ء میں مطالبہ پاکستان پر ہونے والے عام انتخابات میں ثابت بھی کر دکھائی تھی‘‘۔
ایک اور اقتباس:
’’پاکستان کو ایک جمہوری ملک ہونا چاہیے تھا۔ یہاں تمام عقائد کے ماننے والوں کونسل اور مذہب سے قطعِ نظر مساوی حقوق ملنے چاہئیں تھے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی آج پاکستان کو ایک مذہبی ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور مذہب کے نام پر اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے ملکی سیاست میں زہر گھول رہے تھے۔ معاشی و سماجی اصلاحات کے منصوبے بنانے کے بجائے مسلم لیگ کے رہنما ہم آواز ہو کر صرف ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے’’اسلام‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں عوام کی خوشحالی کی کوئی پروا نہیں جب کہ قیامِ پاکستان کا مقصد ہی یہ تھا! اسی کے لیے متوسط طبقے نے کسانوں اور مزدوروں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بڑی بڑی قربانیاں دیں تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ مسلم لیگ اور اس کے حامی ظالموں اور جاگیرداروں کا ساتھ دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ حکومت کی لگامیں انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں‘‘۔
’’اس کے برعکس مشرقی پاکستان کی معیشت سے کمایا جانے والا زرِمبادلہ اب مغربی پاکستان میں صنعتیں اور کارخانے لگانے میں استعمال ہو رہا تھا۔ سرمایہ داروں کا ایک گروہ سامنے آیا جو عوام کا استحصال کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے درپے تھا۔ یہ لوگ راتوں رات کروڑ پتی بن گئے۔ ان میں سے بیشتر کراچی میں بیٹھے بیٹھے درآمد برآمد کے لائسنس فروخت کر کے صنعت کاروں کے طور پر معروف ہو گئے۔ یہ بھی مسلم لیگ حکومت ہی کا کارنامہ تھا۔ خواجہ ناظم الدین کی انتظامیہ پر کمزور گرفت کے باعث ہی وہ لوگ زیادہ منافع کمانے اور ترقی کرنے کے قابل ہو گئے تھے‘‘۔
یہ اقتباسات بتاتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں شروع ہی سے احساسِ محرومی تھا جو حقائق پر مبنی تھا۔ پھر ایوب خان کا دس سالہ اقتدار اور پھر جنرل یحییٰ خان کی جانشینی نے مشرقی پاکستانیوں کو یقین دلا دیا کہ جرنیل شاہی میں وہ کبھی مغربی پاکستان کے ہم پلّہ نہیں ہو سکتے۔
تاریخ کا انصاف دیکھیے کہ ہم نے کل ایک صوبے میں کامیاب ہونے والی جماعت کو پورے پاکستان پر حکومت کرنے کی اجازت نہیں دی‘ یہاں تک کہ وہ صوبہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مطابق لڑ بھڑ کر الگ ہو گیا۔ آج45برس بعد‘ بچے کھچے پاکستان پر ایک صوبہ نہیں‘ ایک صوبے کے صرف چار اضلاع لاہور‘ سیالکوٹ‘ فیصل آباد اور گوجرانوالہ حکومت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے اردگرد کون ہیں؟ اسحاق ڈار‘ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ عابد شیر علی‘ خرم دستگیر ‘ احسن اقبال استثنا صرف چوہدری نثار علی خان کو حاصل ہے۔(گزشتہ کالم میں اس کے متعلق مفصل لکھا جا چکا ہے) کوتاہ نظری کی انتہا دیکھیے کہ مسلم لیگ نون کا چیئرمین بھی پنجاب سے ہے۔ وہی سینیٹ میں قائدِ حزبِ اقتدار بھی ہیں۔ سپیکر نیشنل اسمبلی اور چیئرمین سینٹ بھی دونوں پنجابی ہیں۔ کیا آپ کے ذہن میں سندھ یا پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسی وفاقی وزیر کا نام آ رہا ہے؟ ہیں! دو تین یقیناً ہیں۔ مگر وسطی پنجاب کے وزرا کے سامنے ان کی حیثیت وہی ہے جو آندھی کے مقابلے میں مشتِ خاک کی ہوتی ہے!
آپ نے ایسے ماں باپ ضرور دیکھے ہوں گے جو بچوں کی باہمی لڑائی میں ہمیشہ اپنے بچوں کا دفاع کرتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے کرتے ہیں۔ ان بچوں کی نفسیات کبھی صحت مند نہیں ہو سکتیں! یہ عملی زندگی میں بھی اسی زعم میں رہتے ہیں کہ غلط صرف دوسرا فریق ہے۔ ہمارا حال بھی وہی ہے‘ معصوم کوئی بھی نہیں۔ غلطیاں بنگالیوں سے بھی ہوئیں۔ انہیں اب یہ فائدہ ہے کہ ان کا ملک لسانی اور نسلی حوالے سے ایک اکائی ہے۔ ہمارا حال مختلف ہے۔ ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق نہ سیکھا اور اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی نہ کی تو مستقبل میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
چھوٹے صوبوں میں اٹھنے والی ہر لہر کو کندھے اچکا کر مسترد کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا! کچھ حاصل ہو گا تو صرف زیاں! یہ چھوٹے صوبے چیخ چیخ کر پنجاب کو کہہ رہے ہیں    ؎
خوبصورت بہت ہو تم لیکن
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو

Wednesday, December 14, 2016

وسوسے

کیا آپ نے کبھی کیرم بورڈ کھیلا ہے؟
اگر کھیلا نہیں تو دوسروں کو کھیلتے دیکھا تو ہو گا۔ اس میں دو فریق ہوتے ہیں۔ کھیلنے والے دو بھی ہو سکتے ہیں اور چار بھی۔ چار ہوں تو دو ساتھی ایک طرف اور دو ساتھی فریق مخالف میں ہوتے ہیں۔ ایک گوٹیاں سفید دوسرے کی سیاہ رنگ کی ہوتی ہیں۔ اپنی گوٹیوں کو پاکٹ میں ڈال کر‘ ان کی تعداد کم کرنا ہوتی ہے۔ جس کی گوٹیاں پہلے ختم ہو جائیں اور وہ سرخ رنگ کی ملکہ کو بھی ہتھیا لے‘ وہ جیت جاتا ہے۔
چار دوست ایک بار کیرم بورڈ کھیل رہے تھے‘ دو کی گوٹیاں سفید رنگ کی تھیں۔یوں ہوا کہ ایک کے ساتھی نے ایک بار فریقِ مخالف کی گوٹی پاکٹ میں ڈال دی۔ دوسری بار بھی اس نے ایسا ہی کیا‘ یا اُس نے ایسا ہو گیا‘ اس نے سیاہ رنگ کی گوٹی پاکٹ کر ڈالی۔ جب تیسری بار بھی اس سے ایسا ہی کیا تو اس کے ساتھی نے کھیل روک دیا اور اپنے ساتھی سے پوچھا۔ یار‘ اصل بات بتائو‘ تم کس کے ساتھ ہو؟
کیرم بورڈ کی ایک بازی چند دن پہلے امرتسر میں کھیلی گئی۔ 
ایک طرف مودی تھے۔ ان کے ساتھ ایرانی فریق بنے ہوئے تھے۔ اشرف غنی بھی مودی کے پہلو میں بیٹھے تھے    ؎
بدھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں
اک گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
دوسری طرف ہمارے مشیرِ خارجہ تھے۔ حالاتِ حاضرہ کا طالب علم حیرت سے پوچھتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ تھے؟ وہ اپنی کوئی گوٹی پاکٹ نہ کر سکے۔ اس لیے کہ جب مودی نے تقریر میں پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کیے تو نکتۂ اعتراض پر مشیر خارجہ نہ اُٹھے۔ انہیں درمیان میں بولنا چاہیے تھا۔پھر جب اشرف غنی نے اپنے مربی کی گود میں بیٹھ کر اچھل اچھل کر پاکستان پر حملے کیے‘ طالبان کی امداد کا الزام لگایا اور پانچ سو ملین ڈالر کی پاکستانی امداد پاکستان کے منہ پر ماری تب بھی مشیر خارجہ خاموش رہے۔ صرف یہی نہیں‘ اس کے بعد افغان صدر سے ملاقات بھی کی۔ کانفرنس میں ان کی نشست بھی ان کے مرتبہ سے کہیں نیچے تھی۔ انہیں رہنمائوں کے برابر نہیں‘ ایک صحافی کے ساتھ بٹھایا گیا تھا۔
ایک پاکستانی سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا‘ اور ایسا مسلسل کیوں ہو رہا ہے؟ جب بھارتی وزیر اعظم نے پچھلے دنوں دھمکی دی کہ پاکستان کو ایک ایک بوند کے لیے ترسایا جائے گا‘ تو لازم تھا کہ اس کے مقابلے میں ہمارے وزیر اعظم‘ اس دھمکی کا جواب دیتے مگر وزیر اعظم خاموش رہے!
اس سے ذہن میں وسوسے اٹھتے ہیں۔ خیالات جنم لیتے ہیں۔ خدا بھلا کر ے گیتوں کا ورنہ’’وات‘‘ جیسا سرائیکی کا لفظ کب کا ختم ہو گیا ہوتا۔
چن کتھاں گزاری ایٔ رات وے
مینڈا جی دلیلاں دے وات وے
یہاں دلیلوں سے مراد وسوسے ہیں اور وات منہ کو کہتے ہیں یعنی دل وسوسوں کے منہ میں جا رہا ہے‘ کہیں وسوسے اسے کھا ہی نہ جائیں۔
بھارت کے مقابلے میں ہمارا معذرت خواہانہ رویہ‘ ان کی دھمکیوں کے مقابلے میں ہمارے حکمرانوں کی خاموشی‘ آخر سبب کیا ہے؟ کہیں ہمیں دھوکہ تو نہیں دیا جا رہا؟ کہیں ہم فروخت تو نہیں کیے جا رہے ہیں؟ دل ‘ حالات دیکھتا ہے تو اپنی دلیلیں‘ خود تعمیر کرتا ہے۔ وسوسوں کی مُہین چادر خود بُنتا ہے۔ وہ کسی رو رعایت کسی مصلحت کا پابند نہیں۔
پھر مشیر خارجہ کا یہ کہنا کہ کل بھوشن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں‘ صرف سٹیٹ منٹ ہے‘ کیا معنی رکھتا ہے؟ آخر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ کون سی سفارتی یا مملکتی مجبوری تھی؟ کیا یہ جرم کافی نہیں کہ وہ ایک فرضی نام سے ہماری سرزمین میں موجود تھا؟ کیا وہ یہاں رامائن کا سبق پڑھنے آیا تھا یا یہاں اس کی پھوپھی تھی جسے ملنے آیا ہوا تھا؟
رہی یہ بات کہ بھارتی وزیر داخلہ کی کل والی گیدڑ بھبکی کا جواب ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دیا تو اس سے وسوسے دور نہیں ہوتے اس لیے کہ سب جانتے ہیں چوہدری نثار علی حکمِ حاکم کی تعمیل کرنے والے بندے ہی نہیں‘ وہ جو کچھ کرتے ہیں یا کہتے ہیں‘ اپنی سوچ کے مطابق کرتے ہیں۔یس، سر یس سر کہنے والے ہوتے تو مدتوں وزیر اعظم سے قطع کلامیاں نہ ہوتیں۔ ایک بار پھر اس حقیقت کی نشان دہی کرنا نامناسب نہ ہو گا کہ حکومت میں وہ واحد اہم شخصیت ہیں جو وسطی پنجاب کی پٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود ان کی اہمیت وہی ہے جو خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ اسحاق ڈار اور ان دوسرے رہنمائوں کی ہے جو وسطِ پنجاب سے ‘ بالخصوص لاہور سے یا نواحِ لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ پالیسی معاملات پر بولتے ہیں اور جرأت سے بولتے ہیں۔ ورنہ وزیر تو خاقان عباسی بھی ہیں اور شیخ آفتاب احمد بھی!! دور افق پر نظر جمانے والے تو یہ بھی گمان رکھتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کا خمیر‘ آخرِ کار‘ کسی ڈوبتی شام کو‘ کسی ابر آلود صبح کو‘ انہیں نون لیگ سے باہر لے آئے گا     ؎
کسی کو کیا خبر کیا کچھ چھپا ہے پردۂ شب میں
نہیں قدرت کے اسرارِنہاں کا راز داں کوئی
کیا خبر‘ کل یا پرسوں وہ تحریک انصاف کی طاقت بنے ہوئے ہوں!
ہم امرتسر واپس جاتے ہیں۔ توہین ایک شخص کی نہیں ہوئی۔ مشیر خارجہ کی نہیں ہوئی۔ توہین پاکستان کی ہوئی۔ اس ضمن میں بے جا نہ ہو گا اگر منجھے ہوئے‘ سرد و گرم چشیدہ سفارت کار جناب منیر اکرم کی ایک تحریر کا اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔
’’کچھ عشرے قبل غیر جانب دار تحریک کے رہنمائوں کے ایک اجلاس میں جب میزبان ملک کے صدر نے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے پر کڑی تنقید کی تو مصر کے وزیر خارجہ نے اسی وقت تقریر میں مداخلت کی۔ امرتسر میں اگر پاکستان مودی اور اشرف غنی کی تقریروں کے دوران پوائنٹ آف آرڈر پر مداخلت کرتا تو یہ اس کا حق ہوتا کیوں کہ مودی اور اشرف غنی ایجنڈے کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور کانفرنس کے اصل مقصد کو سبوتاژ کر رہے تھے! پھر اگر احتجاج کو نظر انداز کیا جاتا تو ہمارے وفد کو واک آئوٹ کرنا چاہیے تھا۔ یہ بھی نہ ہوتا تو کم از کم پاکستان بھی کانفرنس کے دوران بھارت اور افغانستان کو بتاتا کہ وہ کیا کچھ کر رہے ہیں!‘‘
مقامِ عبرت ہمارے لیے یہ ہے کہ اگر وہاں کوئی ہمارے حق میں بولا بھی تو وہ روس کا نمائندہ تھا۔ بھارت میں تعینات روسی سفیرنے پاکستان کی حمایت کی!
اب جب دنیا کہہ رہی ہے    ؎
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
تو کیا وقت آ نہیں گیا جب ہم جھرجھری لیں‘ پروں کو جھاڑیں اور اپنے آپ کو مجتمع کریں؟ کیا ہمیں کوئی اور یاد دلائے گا کہ پاکستان کا انحصار افغانستان پر نہیں‘ یہ افغانستان ہے جس کی شہ رگ پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ تصوّر کیجیے‘ اگر ترکی کی توہین کسی ایسی کانفرنس یمں ہوتی تو کیا ترکی کا یہی رویہ ہوتا؟ یہاں تک کہ قطر اور یو اے ای جیسے چھوٹے ممالک بھی یوں بھیگی بلّی نہ بنے ہوتے۔ مشیرّ خارجہ کو عملاً قیدی بنا کر رکھا گیا۔ وہ گولڈن ٹیمپل جا سکے نہ آزادی سے نقل و حرکت کر سکے۔
اور کچھ نہیں تو ہم افغان مہاجرین کو جلد واپس بھیجنے کے پروگرام کا اعلان کر سکتے ہیں۔ ہم افغانستان کو یہ بھی باور کرا سکتے ہیں کہ اگر وہ دشمنی سے اور ہر جگہ آتشیں نفرت انگیز بیانات دینے اور مکروہ تقریریں کرنے سے باز نہ آیا تو تجارتی پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔
آخر وسوسے تو دل میں اٹھتے ہی ہیں!     ع
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

Monday, December 12, 2016

میرے ماں باپ قربان

انڈونیشیا کئی ہزار جزیروں پر مشتمل ہے۔ اس کے مشرقی جزیروں میں فجر ساڑھے پانچ بجے ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں موذن کھڑے ہو کر اذان کہتے ہیں۔ اذان کے درمیان ایک کلمہ ہے اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُولُ اللّٰہ ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یہ شہادت فضائوں میں گونج اٹھتی ہے۔
انڈونیشیا کے درمیانی جزائر کا وقت ایک گھنٹہ پیچھے ہے۔ یعنی ایک گھنٹہ بعدمرکزی جزائر میں محمد رسول اللہ کے کلمات بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک گھنٹہ بعد جاوا اور سماٹرا کے مغربی جزیروں میں یہی نام بلند ہونے لگتا ہے۔
ایک گھنٹے بعد ملائیشیا کی باری آتی ہے پھر تھائی لینڈ کی۔ ابھی تھائی لینڈ میں محمدؐ کے نام کی گونج باقی ہے کہ ڈھاکہ میں محمد رسول اللہ کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔ پھر کلکتہ میں ۔ ایک گھنٹہ بعد سری نگر میں!
سری نگر اور سیالکوٹ میں فجر کا وقت ایک ہی ہے۔ تاشقند ، سمرقند اور بخارا بھی اسی ٹائم زون میں ہیں۔ ان تمام شہروں میں محمدؐ کا نام ایک ہی وقت میں گونجتا ہے۔
پھر افغانستان اور ایران اٹھتے ہیں۔ پھر خلیج کی ریاستیں اور مسقط! اتنے میں مکہ اور مدینہ میں صبح ہوتی ہے، جہاں سے اس روشنی کا آغاز ہوا تھا۔ وہاں ہزاروں مسجدوں میں محمدؐ کی رسالت کا غلغلہ برپا ہوتا ہے۔
استنبول اور خرطوم ایک ہی ٹائم زون میں ہیں۔ اس سے ایک گھنٹہ پہلے قاہرہ سے لے کر سکندریہ تک محمدؐ کا نام گونجنے لگتا ہے۔ پھر خرطوم سے لے کر استنبول تک فضا اس شہادت سے بھر جاتی ہے۔ پھر یہ سعادت لیبیا میں طرابلس کے ہاتھ آتی ہے۔ اتنی دیر میں الجزائر سے ہوتی ہوئی، فاس رباط، کاسا بلانکا، طنجہ، قرطبہ، غرناطہ، بارسلونا اور میڈرڈ میں پھوٹنے لگتی ہے۔ بحراوقیانوس کا مشرقی کنارہ محمدؐ کے نام سے گونجنے لگتا ہے۔
اب صبح نے بحراوقیانوس پار کرنا ہے۔ ٹورنٹو سے لے کر فلوریڈا تک، واشنگٹن سے لے کر نیو جرسی تک بے شمار مساجد ہیں جہاں رسالت کی گواہی فضائوں میں تیرتی آسمان کی طرف پرواز کرتی ہے۔
مگر ٹھہریے، جتنی دیر میں صبح کی اذان کا سفر بحر اوقیانوس پار کرتا ہے، انڈونیشیا کے مشرقی حصے میں، جہاں سے ہم نے یہ سفر شروع کیا تھا، ظہر کی اذانیں گونجنے لگتی ہیں۔ ظہر، ڈھاکہ اور کلکتہ پہنچتی ہے تو جکارتہ اور سنگاپور میں عصر کی اذانیں ہونے لگتی ہیں۔ افریقہ میں جب عشاء کی اذانیں ہو رہی ہوتی ہیں تو انڈونیشیا کے مشرقی حصے میں صبح کی اذان ایک بار پھردی جا رہی ہوتی ہے۔
غور کیجیے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرۂ ارض پر کوئی وقت ایسا نہیں جب فضا میں محمد رسول اللہﷺ کے کلمات بلند نہ ہو رہے ہوں۔ ایک دو یا دس مقامات سے نہیں، ہزاروں، لاکھوں مقامات سے!
پھر دوبارہ غور کیجیے، یہ اندازہ جو آپ نے لگایا ہے، صرف لمحہ موجود کے حوالے سے لگایا ہے۔ آنکھیں بند کر کے سوچیے، ایسا کب سے ہو رہا ہے؟ سینکڑوں سال سے! یعنی کتنی ہی صدیوں سے ہر وقت فضائوں میں، ہر لمحہ زمین کے کسی نہ کسی حصے میں، محمدؐ کا نام گونج رہا ہے۔
اب دوبارہ آنکھیں بند کرکے سوچیے، قیامت تک ایسا ہوتا رہے گا۔ جو مسجدیں قائم ہیں، وہ تو قائم ہیں، کتنی نئی مسجدیں تعمیر ہو رہی ہیں۔
اب مسجدوں کی بات بھی چھوڑیے، جہاں بھی، کسی سکول میں، کسی بازار میں، کسی گھر میں، کسی جنگل میں، کسی دفتر میں، دو یا چار یا پندرہ مسلمان مل کر نماز پڑھتے ہیں، اقامت ضرور کہتے ہیں۔ ہر اقامت میں محمدؐ کی رسالت پر گواہی دی جاتی ہے! کیا خبر قیامت تک کتنا وقت باقی ہے۔ کتنے لمحے، کتنے سال، کتنی صدیاں!! ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
سوچیے، اس لمحے کرۂ ارض پر کتنے انسانوں نے صلی اللہ علیہ و سلم کہا ہوگا! جمعہ کے دن ہر امام خطبہ میں قرآن کی آیت پڑھتا ہے: صلوا علیہ وسلموا تسلیما! جیسے ہی اس کے ہونٹوں سے یہ آیت طلوع ہوتی ہے، حاضرین محمدﷺ پر درود بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔ تصور کیجئے، کتنے کروڑوں انسان ہر جمعہ کے دن ایسا کرتے ہوں گے! چودہ سو سال سے ایسا کرتے آئے ہیں۔ ایسا کرتے رہیں گے۔
اب ان نعتوں اور قصائد کا تصور کیجئے، جو آج تک محمد ﷺ کی شان میں کہے گئے۔ یہ سلسلہ حضرت حسان بن ثابت سے شروع ہوا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، حضرت حسانؓ آپ کی کیسی تعریف کر گئے ہیں: 
وَ اَحسنَ مِنکَ لَم تَرقَطُّ عَینِی
وَ اَجمَلَ مِنکَ لم تَلِدُ النساء
 خُلِقتَ مُبَرَّاً مَن کُلِّ عَیبً
 کَاَنَّکَ قَد خُلِقتَ کَمَا تَشاء
آپ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کچھ نہیں دیکھا۔ آپ سے زیادہ جمیل کسی عورت نے نہیں جنا۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے۔ گویا آپ کو اسی طرح پیدا کیا گیا جیسا کہ آپ چاہتے تھے۔
ہمیں تو صرف سعدی کا اور حافظ کا اور رومی کا اور اقبال کا اور کچھ دوسرے شعراء اور ادیبوں کا معلوم ہے۔ ہمیں تو صرف یہ معلوم ہے کہ ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر یہ تو ایک پہاڑ جیسے گلیشیئر کا ایک کنارا ہے۔ محض ایک کنارا۔ دنیا میں کتنی ہی زبانیں ہیں۔ ہر زبان میں محمد ﷺ کے قصائد کہے گئے۔ صرف فارسی ، عربی، ترکی اور اردو کا تصور کیجیے۔ ہزاروں سال سے جو کتابیں لکھی جا رہی ہیں، ان کا آغاز حمد خدا کے بعد شان رسالتؐ سے ہوتا ہے۔ سینکڑوں سال سے تو ہر کتاب میں معراج کی تعریف الگ ہو رہی ہے۔ جامی، نظامی، خسرو، سنائی، انوری، خاقانی جیسے کتنے ہی آئے اور آپ کی شان میں موتی بکھیرتے ، ہیرے لٹاتے، نوک قلم سے نیلم اور الماس نکالتے رخصت ہوگئے۔
روز قیامت تک نابغے پیدا ہوتے رہیں گے، عبقری ابھرتے رہیں گے، جینئیس ظاہر ہوتے رہیں گے۔ محمد رسول اللہ کی شان میں نعتیں لکھتے رہیں گے۔ پڑھتے رہیں گے، خطبے دیتے رہیں گے، کتابیں تصنیف کرتے رہیں گے۔ کتنے شبلی، کتنے ڈاکٹر حمید اللہ، کتنے سلیمان ندوی،کتنے ابوالاعلیٰ مودودی، کتنے سید قطب، کتنے یوسف قرضاوی، کتنے وہب الزحیلی، کتنے شیخ البانوی، کتنے قاسم نانوتوی، کتنے احمد رضا خان، کتنے اقبال، کتنے سعدی پیدا ہوتے رہیں گے۔ شان رسالت پر اپنی زبانیں، اپنے قلم قربان کرتے رہیں گے اور حافظ محمد ظہور الحق ظہورؔ کی طرح اظہار عجز کرتے رہیں گے    ؎
ہے شان تری اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ
 جو لفظ تری شان کے شایاں نظر آیا
کتنے کیٹ سٹیونز، یوسف اسلام بن کر، کتنے جنید جمشید کروڑوں کی موسیقی تج کر، محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے، پڑھتے پڑھتے اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہیں گے۔
آج تک کوئی شخص مطمئن نہیں ہوا۔ عظیم تخلیقی صلاحیتوں کے مالک جب شان رسالتؐ بیان کرنے لگتے ہیں تو الفاظ کا دامن تنگ لگتا ہے۔ قلم وسعتوں میں کھو جاتے ہیں اور تخلیق کار پکار اٹھتا ہے   ؎
مری زباں پہ لغت بولتی ہے اور مجھے
ملا نہ لفظ تری آنکھ کے فسوں کے لیے
غالب جیسا شاعر، لغت جس کے آگے رکوع میں کھڑی رہتی ہے اور الفاظ و معانی جس کے گھر کا پانی بھرتے ہیں، آخر میں تھک ہار کر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے   ؎
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
کہ ہماری کیا بساط! آپ کی تعریف تو آپ کا پروردگار ہی کرسکتا ہے!
کسی نے مشک و گلاب سے ہزار بار منہ دھویا پھر بھی نام لینے کی ہمت نہ ہوئی۔ کسی نے اس ادب گاہ کو عرش سے نازک تر گردانا۔
پھر سوچیے، اس وقت جب محمد ﷺ کے غلاموں کا غلام یہ سطور نذرکر رہا ہے، اس وقت جب آپ بھیگتی آنکھوں سے یہ مضمون پڑھ رہے ہیں، کتنے ہی انسان، کتنے ہی قافلے مدینہ کی طرف رواں ہوں گے! کتنے جالیوں کے سامنے کھڑے آنسو بہا رہے ہوں گے! کیا کوئی کمپیوٹر انسانوں کی اس تعداد کا شمار کرسکتا ہے جو پندرہ صدیوں میں، کرۂ ارض کے مختلف خطوں سے چل کر مدینہ حاضر ہوا؟ قیامت تک انسان مدینہ کی طرف چلتے رہیں گے۔ حاضر ہوتے رہیں گے اور ہر واپس آنے والا، دوبارہ حاضر ہونے کی کسک دل میں سنبھالتا رہے گا    ؎
وہ دانائے سُبُل خَتم الرسل مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں، وہی یٰسین وہی طہٰ
التماس: پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ ایک بار دعا کردیں، یہ عاجزانہ ہدیہ قبول ہو جائے۔
میرے ماں باپ قربان
انڈونیشیا کئی ہزار جزیروں پر مشتمل ہے۔ اس کے مشرقی جزیروں میں فجر ساڑھے پانچ بجے ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں موذن کھڑے ہو کر اذان کہتے ہیں۔ اذان کے درمیان ایک کلمہ ہے اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُولُ اللّٰہ ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یہ شہادت فضائوں میں گونج اٹھتی ہے۔
انڈونیشیا کے درمیانی جزائر کا وقت ایک گھنٹہ پیچھے ہے۔ یعنی ایک گھنٹہ بعدمرکزی جزائر میں محمد رسول اللہ کے کلمات بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک گھنٹہ بعد جاوا اور سماٹرا کے مغربی جزیروں میں یہی نام بلند ہونے لگتا ہے۔
ایک گھنٹے بعد ملائیشیا کی باری آتی ہے پھر تھائی لینڈ کی۔ ابھی تھائی لینڈ میں محمدؐ کے نام کی گونج باقی ہے کہ ڈھاکہ میں محمد رسول اللہ کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔ پھر کلکتہ میں ۔ ایک گھنٹہ بعد سری نگر میں!
سری نگر اور سیالکوٹ میں فجر کا وقت ایک ہی ہے۔ تاشقند ، سمرقند اور بخارا بھی اسی ٹائم زون میں ہیں۔ ان تمام شہروں میں محمدؐ کا نام ایک ہی وقت میں گونجتا ہے۔
پھر افغانستان اور ایران اٹھتے ہیں۔ پھر خلیج کی ریاستیں اور مسقط! اتنے میں مکہ اور مدینہ میں صبح ہوتی ہے، جہاں سے اس روشنی کا آغاز ہوا تھا۔ وہاں ہزاروں مسجدوں میں محمدؐ کی رسالت کا غلغلہ برپا ہوتا ہے۔
استنبول اور خرطوم ایک ہی ٹائم زون میں ہیں۔ اس سے ایک گھنٹہ پہلے قاہرہ سے لے کر سکندریہ تک محمدؐ کا نام گونجنے لگتا ہے۔ پھر خرطوم سے لے کر استنبول تک فضا اس شہادت سے بھر جاتی ہے۔ پھر یہ سعادت لیبیا میں طرابلس کے ہاتھ آتی ہے۔ اتنی دیر میں الجزائر سے ہوتی ہوئی، فاس رباط، کاسا بلانکا، طنجہ، قرطبہ، غرناطہ، بارسلونا اور میڈرڈ میں پھوٹنے لگتی ہے۔ بحراوقیانوس کا مشرقی کنارہ محمدؐ کے نام سے گونجنے لگتا ہے۔
اب صبح نے بحراوقیانوس پار کرنا ہے۔ ٹورنٹو سے لے کر فلوریڈا تک، واشنگٹن سے لے کر نیو جرسی تک بے شمار مساجد ہیں جہاں رسالت کی گواہی فضائوں میں تیرتی آسمان کی طرف پرواز کرتی ہے۔
مگر ٹھہریے، جتنی دیر میں صبح کی اذان کا سفر بحر اوقیانوس پار کرتا ہے، انڈونیشیا کے مشرقی حصے میں، جہاں سے ہم نے یہ سفر شروع کیا تھا، ظہر کی اذانیں گونجنے لگتی ہیں۔ ظہر، ڈھاکہ اور کلکتہ پہنچتی ہے تو جکارتہ اور سنگاپور میں عصر کی اذانیں ہونے لگتی ہیں۔ افریقہ میں جب عشاء کی اذانیں ہو رہی ہوتی ہیں تو انڈونیشیا کے مشرقی حصے میں صبح کی اذان ایک بار پھردی جا رہی ہوتی ہے۔
غور کیجیے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرۂ ارض پر کوئی وقت ایسا نہیں جب فضا میں محمد رسول اللہﷺ کے کلمات بلند نہ ہو رہے ہوں۔ ایک دو یا دس مقامات سے نہیں، ہزاروں، لاکھوں مقامات سے!
پھر دوبارہ غور کیجیے، یہ اندازہ جو آپ نے لگایا ہے، صرف لمحہ موجود کے حوالے سے لگایا ہے۔ آنکھیں بند کر کے سوچیے، ایسا کب سے ہو رہا ہے؟ سینکڑوں سال سے! یعنی کتنی ہی صدیوں سے ہر وقت فضائوں میں، ہر لمحہ زمین کے کسی نہ کسی حصے میں، محمدؐ کا نام گونج رہا ہے۔
اب دوبارہ آنکھیں بند کرکے سوچیے، قیامت تک ایسا ہوتا رہے گا۔ جو مسجدیں قائم ہیں، وہ تو قائم ہیں، کتنی نئی مسجدیں تعمیر ہو رہی ہیں۔
اب مسجدوں کی بات بھی چھوڑیے، جہاں بھی، کسی سکول میں، کسی بازار میں، کسی گھر میں، کسی جنگل میں، کسی دفتر میں، دو یا چار یا پندرہ مسلمان مل کر نماز پڑھتے ہیں، اقامت ضرور کہتے ہیں۔ ہر اقامت میں محمدؐ کی رسالت پر گواہی دی جاتی ہے! کیا خبر قیامت تک کتنا وقت باقی ہے۔ کتنے لمحے، کتنے سال، کتنی صدیاں!! ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
سوچیے، اس لمحے کرۂ ارض پر کتنے انسانوں نے صلی اللہ علیہ و سلم کہا ہوگا! جمعہ کے دن ہر امام خطبہ میں قرآن کی آیت پڑھتا ہے: صلوا علیہ وسلموا تسلیما! جیسے ہی اس کے ہونٹوں سے یہ آیت طلوع ہوتی ہے، حاضرین محمدﷺ پر درود بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔ تصور کیجئے، کتنے کروڑوں انسان ہر جمعہ کے دن ایسا کرتے ہوں گے! چودہ سو سال سے ایسا کرتے آئے ہیں۔ ایسا کرتے رہیں گے۔
اب ان نعتوں اور قصائد کا تصور کیجئے، جو آج تک محمد ﷺ کی شان میں کہے گئے۔ یہ سلسلہ حضرت حسان بن ثابت سے شروع ہوا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، حضرت حسانؓ آپ کی کیسی تعریف کر گئے ہیں: 
وَ اَحسنَ مِنکَ لَم تَرقَطُّ عَینِی
وَ اَجمَلَ مِنکَ لم تَلِدُ النساء
 خُلِقتَ مُبَرَّاً مَن کُلِّ عَیبً
 کَاَنَّکَ قَد خُلِقتَ کَمَا تَشاء
آپ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کچھ نہیں دیکھا۔ آپ سے زیادہ جمیل کسی عورت نے نہیں جنا۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے۔ گویا آپ کو اسی طرح پیدا کیا گیا جیسا کہ آپ چاہتے تھے۔
ہمیں تو صرف سعدی کا اور حافظ کا اور رومی کا اور اقبال کا اور کچھ دوسرے شعراء اور ادیبوں کا معلوم ہے۔ ہمیں تو صرف یہ معلوم ہے کہ ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر یہ تو ایک پہاڑ جیسے گلیشیئر کا ایک کنارا ہے۔ محض ایک کنارا۔ دنیا میں کتنی ہی زبانیں ہیں۔ ہر زبان میں محمد ﷺ کے قصائد کہے گئے۔ صرف فارسی ، عربی، ترکی اور اردو کا تصور کیجیے۔ ہزاروں سال سے جو کتابیں لکھی جا رہی ہیں، ان کا آغاز حمد خدا کے بعد شان رسالتؐ سے ہوتا ہے۔ سینکڑوں سال سے تو ہر کتاب میں معراج کی تعریف الگ ہو رہی ہے۔ جامی، نظامی، خسرو، سنائی، انوری، خاقانی جیسے کتنے ہی آئے اور آپ کی شان میں موتی بکھیرتے ، ہیرے لٹاتے، نوک قلم سے نیلم اور الماس نکالتے رخصت ہوگئے۔
روز قیامت تک نابغے پیدا ہوتے رہیں گے، عبقری ابھرتے رہیں گے، جینئیس ظاہر ہوتے رہیں گے۔ محمد رسول اللہ کی شان میں نعتیں لکھتے رہیں گے۔ پڑھتے رہیں گے، خطبے دیتے رہیں گے، کتابیں تصنیف کرتے رہیں گے۔ کتنے شبلی، کتنے ڈاکٹر حمید اللہ، کتنے سلیمان ندوی،کتنے ابوالاعلیٰ مودودی، کتنے سید قطب، کتنے یوسف قرضاوی، کتنے وہب الزحیلی، کتنے شیخ البانوی، کتنے قاسم نانوتوی، کتنے احمد رضا خان، کتنے اقبال، کتنے سعدی پیدا ہوتے رہیں گے۔ شان رسالت پر اپنی زبانیں، اپنے قلم قربان کرتے رہیں گے اور حافظ محمد ظہور الحق ظہورؔ کی طرح اظہار عجز کرتے رہیں گے    ؎
ہے شان تری اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ
 جو لفظ تری شان کے شایاں نظر آیا
کتنے کیٹ سٹیونز، یوسف اسلام بن کر، کتنے جنید جمشید کروڑوں کی موسیقی تج کر، محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے، پڑھتے پڑھتے اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہیں گے۔
آج تک کوئی شخص مطمئن نہیں ہوا۔ عظیم تخلیقی صلاحیتوں کے مالک جب شان رسالتؐ بیان کرنے لگتے ہیں تو الفاظ کا دامن تنگ لگتا ہے۔ قلم وسعتوں میں کھو جاتے ہیں اور تخلیق کار پکار اٹھتا ہے   ؎
مری زباں پہ لغت بولتی ہے اور مجھے
ملا نہ لفظ تری آنکھ کے فسوں کے لیے
غالب جیسا شاعر، لغت جس کے آگے رکوع میں کھڑی رہتی ہے اور الفاظ و معانی جس کے گھر کا پانی بھرتے ہیں، آخر میں تھک ہار کر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے   ؎
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
کہ ہماری کیا بساط! آپ کی تعریف تو آپ کا پروردگار ہی کرسکتا ہے!
کسی نے مشک و گلاب سے ہزار بار منہ دھویا پھر بھی نام لینے کی ہمت نہ ہوئی۔ کسی نے اس ادب گاہ کو عرش سے نازک تر گردانا۔
پھر سوچیے، اس وقت جب محمد ﷺ کے غلاموں کا غلام یہ سطور نذرکر رہا ہے، اس وقت جب آپ بھیگتی آنکھوں سے یہ مضمون پڑھ رہے ہیں، کتنے ہی انسان، کتنے ہی قافلے مدینہ کی طرف رواں ہوں گے! کتنے جالیوں کے سامنے کھڑے آنسو بہا رہے ہوں گے! کیا کوئی کمپیوٹر انسانوں کی اس تعداد کا شمار کرسکتا ہے جو پندرہ صدیوں میں، کرۂ ارض کے مختلف خطوں سے چل کر مدینہ حاضر ہوا؟ قیامت تک انسان مدینہ کی طرف چلتے رہیں گے۔ حاضر ہوتے رہیں گے اور ہر واپس آنے والا، دوبارہ حاضر ہونے کی کسک دل میں سنبھالتا رہے گا    ؎
وہ دانائے سُبُل خَتم الرسل مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں، وہی یٰسین وہی طہٰ
التماس: پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ ایک بار دعا کردیں، یہ عاجزانہ ہدیہ قبول ہو جائے۔
میرے ماں باپ قربان
انڈونیشیا کئی ہزار جزیروں پر مشتمل ہے۔ اس کے مشرقی جزیروں میں فجر ساڑھے پانچ بجے ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں موذن کھڑے ہو کر اذان کہتے ہیں۔ اذان کے درمیان ایک کلمہ ہے اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُولُ اللّٰہ ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یہ شہادت فضائوں میں گونج اٹھتی ہے۔
انڈونیشیا کے درمیانی جزائر کا وقت ایک گھنٹہ پیچھے ہے۔ یعنی ایک گھنٹہ بعدمرکزی جزائر میں محمد رسول اللہ کے کلمات بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک گھنٹہ بعد جاوا اور سماٹرا کے مغربی جزیروں میں یہی نام بلند ہونے لگتا ہے۔
ایک گھنٹے بعد ملائیشیا کی باری آتی ہے پھر تھائی لینڈ کی۔ ابھی تھائی لینڈ میں محمدؐ کے نام کی گونج باقی ہے کہ ڈھاکہ میں محمد رسول اللہ کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔ پھر کلکتہ میں ۔ ایک گھنٹہ بعد سری نگر میں!
سری نگر اور سیالکوٹ میں فجر کا وقت ایک ہی ہے۔ تاشقند ، سمرقند اور بخارا بھی اسی ٹائم زون میں ہیں۔ ان تمام شہروں میں محمدؐ کا نام ایک ہی وقت میں گونجتا ہے۔
پھر افغانستان اور ایران اٹھتے ہیں۔ پھر خلیج کی ریاستیں اور مسقط! اتنے میں مکہ اور مدینہ میں صبح ہوتی ہے، جہاں سے اس روشنی کا آغاز ہوا تھا۔ وہاں ہزاروں مسجدوں میں محمدؐ کی رسالت کا غلغلہ برپا ہوتا ہے۔
استنبول اور خرطوم ایک ہی ٹائم زون میں ہیں۔ اس سے ایک گھنٹہ پہلے قاہرہ سے لے کر سکندریہ تک محمدؐ کا نام گونجنے لگتا ہے۔ پھر خرطوم سے لے کر استنبول تک فضا اس شہادت سے بھر جاتی ہے۔ پھر یہ سعادت لیبیا میں طرابلس کے ہاتھ آتی ہے۔ اتنی دیر میں الجزائر سے ہوتی ہوئی، فاس رباط، کاسا بلانکا، طنجہ، قرطبہ، غرناطہ، بارسلونا اور میڈرڈ میں پھوٹنے لگتی ہے۔ بحراوقیانوس کا مشرقی کنارہ محمدؐ کے نام سے گونجنے لگتا ہے۔
اب صبح نے بحراوقیانوس پار کرنا ہے۔ ٹورنٹو سے لے کر فلوریڈا تک، واشنگٹن سے لے کر نیو جرسی تک بے شمار مساجد ہیں جہاں رسالت کی گواہی فضائوں میں تیرتی آسمان کی طرف پرواز کرتی ہے۔
مگر ٹھہریے، جتنی دیر میں صبح کی اذان کا سفر بحر اوقیانوس پار کرتا ہے، انڈونیشیا کے مشرقی حصے میں، جہاں سے ہم نے یہ سفر شروع کیا تھا، ظہر کی اذانیں گونجنے لگتی ہیں۔ ظہر، ڈھاکہ اور کلکتہ پہنچتی ہے تو جکارتہ اور سنگاپور میں عصر کی اذانیں ہونے لگتی ہیں۔ افریقہ میں جب عشاء کی اذانیں ہو رہی ہوتی ہیں تو انڈونیشیا کے مشرقی حصے میں صبح کی اذان ایک بار پھردی جا رہی ہوتی ہے۔
غور کیجیے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرۂ ارض پر کوئی وقت ایسا نہیں جب فضا میں محمد رسول اللہﷺ کے کلمات بلند نہ ہو رہے ہوں۔ ایک دو یا دس مقامات سے نہیں، ہزاروں، لاکھوں مقامات سے!
پھر دوبارہ غور کیجیے، یہ اندازہ جو آپ نے لگایا ہے، صرف لمحہ موجود کے حوالے سے لگایا ہے۔ آنکھیں بند کر کے سوچیے، ایسا کب سے ہو رہا ہے؟ سینکڑوں سال سے! یعنی کتنی ہی صدیوں سے ہر وقت فضائوں میں، ہر لمحہ زمین کے کسی نہ کسی حصے میں، محمدؐ کا نام گونج رہا ہے۔
اب دوبارہ آنکھیں بند کرکے سوچیے، قیامت تک ایسا ہوتا رہے گا۔ جو مسجدیں قائم ہیں، وہ تو قائم ہیں، کتنی نئی مسجدیں تعمیر ہو رہی ہیں۔
اب مسجدوں کی بات بھی چھوڑیے، جہاں بھی، کسی سکول میں، کسی بازار میں، کسی گھر میں، کسی جنگل میں، کسی دفتر میں، دو یا چار یا پندرہ مسلمان مل کر نماز پڑھتے ہیں، اقامت ضرور کہتے ہیں۔ ہر اقامت میں محمدؐ کی رسالت پر گواہی دی جاتی ہے! کیا خبر قیامت تک کتنا وقت باقی ہے۔ کتنے لمحے، کتنے سال، کتنی صدیاں!! ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
سوچیے، اس لمحے کرۂ ارض پر کتنے انسانوں نے صلی اللہ علیہ و سلم کہا ہوگا! جمعہ کے دن ہر امام خطبہ میں قرآن کی آیت پڑھتا ہے: صلوا علیہ وسلموا تسلیما! جیسے ہی اس کے ہونٹوں سے یہ آیت طلوع ہوتی ہے، حاضرین محمدﷺ پر درود بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔ تصور کیجئے، کتنے کروڑوں انسان ہر جمعہ کے دن ایسا کرتے ہوں گے! چودہ سو سال سے ایسا کرتے آئے ہیں۔ ایسا کرتے رہیں گے۔
اب ان نعتوں اور قصائد کا تصور کیجئے، جو آج تک محمد ﷺ کی شان میں کہے گئے۔ یہ سلسلہ حضرت حسان بن ثابت سے شروع ہوا۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، حضرت حسانؓ آپ کی کیسی تعریف کر گئے ہیں: 
وَ اَحسنَ مِنکَ لَم تَرقَطُّ عَینِی
وَ اَجمَلَ مِنکَ لم تَلِدُ النساء
 خُلِقتَ مُبَرَّاً مَن کُلِّ عَیبً
 کَاَنَّکَ قَد خُلِقتَ کَمَا تَشاء
آپ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کچھ نہیں دیکھا۔ آپ سے زیادہ جمیل کسی عورت نے نہیں جنا۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے۔ گویا آپ کو اسی طرح پیدا کیا گیا جیسا کہ آپ چاہتے تھے۔
ہمیں تو صرف سعدی کا اور حافظ کا اور رومی کا اور اقبال کا اور کچھ دوسرے شعراء اور ادیبوں کا معلوم ہے۔ ہمیں تو صرف یہ معلوم ہے کہ ہندو شعرا کا نعتیہ کلام ترتیب دیا گیا ہے۔ مگر یہ تو ایک پہاڑ جیسے گلیشیئر کا ایک کنارا ہے۔ محض ایک کنارا۔ دنیا میں کتنی ہی زبانیں ہیں۔ ہر زبان میں محمد ﷺ کے قصائد کہے گئے۔ صرف فارسی ، عربی، ترکی اور اردو کا تصور کیجیے۔ ہزاروں سال سے جو کتابیں لکھی جا رہی ہیں، ان کا آغاز حمد خدا کے بعد شان رسالتؐ سے ہوتا ہے۔ سینکڑوں سال سے تو ہر کتاب میں معراج کی تعریف الگ ہو رہی ہے۔ جامی، نظامی، خسرو، سنائی، انوری، خاقانی جیسے کتنے ہی آئے اور آپ کی شان میں موتی بکھیرتے ، ہیرے لٹاتے، نوک قلم سے نیلم اور الماس نکالتے رخصت ہوگئے۔
روز قیامت تک نابغے پیدا ہوتے رہیں گے، عبقری ابھرتے رہیں گے، جینئیس ظاہر ہوتے رہیں گے۔ محمد رسول اللہ کی شان میں نعتیں لکھتے رہیں گے۔ پڑھتے رہیں گے، خطبے دیتے رہیں گے، کتابیں تصنیف کرتے رہیں گے۔ کتنے شبلی، کتنے ڈاکٹر حمید اللہ، کتنے سلیمان ندوی،کتنے ابوالاعلیٰ مودودی، کتنے سید قطب، کتنے یوسف قرضاوی، کتنے وہب الزحیلی، کتنے شیخ البانوی، کتنے قاسم نانوتوی، کتنے احمد رضا خان، کتنے اقبال، کتنے سعدی پیدا ہوتے رہیں گے۔ شان رسالت پر اپنی زبانیں، اپنے قلم قربان کرتے رہیں گے اور حافظ محمد ظہور الحق ظہورؔ کی طرح اظہار عجز کرتے رہیں گے    ؎
ہے شان تری اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ
 جو لفظ تری شان کے شایاں نظر آیا
کتنے کیٹ سٹیونز، یوسف اسلام بن کر، کتنے جنید جمشید کروڑوں کی موسیقی تج کر، محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے، پڑھتے پڑھتے اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے رہیں گے۔
آج تک کوئی شخص مطمئن نہیں ہوا۔ عظیم تخلیقی صلاحیتوں کے مالک جب شان رسالتؐ بیان کرنے لگتے ہیں تو الفاظ کا دامن تنگ لگتا ہے۔ قلم وسعتوں میں کھو جاتے ہیں اور تخلیق کار پکار اٹھتا ہے   ؎
مری زباں پہ لغت بولتی ہے اور مجھے
ملا نہ لفظ تری آنکھ کے فسوں کے لیے
غالب جیسا شاعر، لغت جس کے آگے رکوع میں کھڑی رہتی ہے اور الفاظ و معانی جس کے گھر کا پانی بھرتے ہیں، آخر میں تھک ہار کر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے   ؎
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
کہ ہماری کیا بساط! آپ کی تعریف تو آپ کا پروردگار ہی کرسکتا ہے!
کسی نے مشک و گلاب سے ہزار بار منہ دھویا پھر بھی نام لینے کی ہمت نہ ہوئی۔ کسی نے اس ادب گاہ کو عرش سے نازک تر گردانا۔
پھر سوچیے، اس وقت جب محمد ﷺ کے غلاموں کا غلام یہ سطور نذرکر رہا ہے، اس وقت جب آپ بھیگتی آنکھوں سے یہ مضمون پڑھ رہے ہیں، کتنے ہی انسان، کتنے ہی قافلے مدینہ کی طرف رواں ہوں گے! کتنے جالیوں کے سامنے کھڑے آنسو بہا رہے ہوں گے! کیا کوئی کمپیوٹر انسانوں کی اس تعداد کا شمار کرسکتا ہے جو پندرہ صدیوں میں، کرۂ ارض کے مختلف خطوں سے چل کر مدینہ حاضر ہوا؟ قیامت تک انسان مدینہ کی طرف چلتے رہیں گے۔ حاضر ہوتے رہیں گے اور ہر واپس آنے والا، دوبارہ حاضر ہونے کی کسک دل میں سنبھالتا رہے گا    ؎
وہ دانائے سُبُل خَتم الرسل مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں، وہی یٰسین وہی طہٰ
التماس: پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ ایک بار دعا کردیں، یہ عاجزانہ ہدیہ قبول ہو جائے۔

 

powered by worldwanders.com