خیر بخش گاؤں سے شہر وارد ہوا تو اجنبی تھا۔ مکمل اجنبی! دور کے ایک عزیز نے، جو آسودہ حال تھا، پناہ دی۔ نوکری مل گئی تو آسودہ حال عزیز نے اسے ایک کمرہ مستقل دے دیا۔ اس کے عوض خیر بخش اس کے بچوں کو پڑھا دیتا تھا۔
یہ انتظام بخیر و خوبی چلتا رہا؛ تاہم کچھ عرصہ بعد خیربخش نے محسوس کیا کہ میزبان کے طور اطوار، طرزِ معاشرت اور عادات و خصائل درست نہیں اور اصلاح کے قابل ہیں۔ خیر بخش دیر سے آتا تو دروازہ بند پاتا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ دروازہ رات بھر کھلا رہے۔ پھر اس نے مطالبہ کیا کہ بچوں کو فلاں سکول سے اُٹھا کر فلاں میں ڈالا جائے۔ پھر ڈرائنگ روم کو خواب گاہ میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا پھر اس نے ایک فہرست باورچی کے حوالے کی کہ کھانا اس کے مطابق پکایا جائے۔ پھر اس نے کہا کہ اس کا مطالعہ متاثر ہوتا ہے اس لیے ٹیلی ویژن لاؤنج سے ہٹا کر، اوپر کی منزل پر رکھا جائے۔
میزبان کچھ عرصہ تو طرح دیتا رہا۔ پھر ایک دن اس نے خیر بخش کو بٹھا کر اس سے بات کی۔ اس نے پوچھا کہ کیا میں نے تمہاری طرف نائی بھیجا تھا کہ آکر یہاں قیام کرو؟ تم بے گھر تھے اور بے یارومددگار‘ میں نے تمہیں پناہ دی۔ اب تمہیں ہر شے میں کیڑے نظر آنے لگے ہیں۔ میں اپنا طرزِ زندگی تمہارے کہنے پر نہیں بدل سکتا۔ تم مہربانی کرو، دو دن کے اندر اندر اپنا بندوبست کرو اور کمرہ خالی کرو‘ ورنہ پولیس آکر خود نمٹ لے گی!
آپ کا کیا خیال ہے کہ میزبان کا یہ اقدام ناروا ہے؟ یقیناً نہیں! خیر بخش اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا الگ گھر لے ورنہ جس طرح میزبان چاہتا ہے، اُس طرح رہے!
اب اس مثال کو تارکینِ وطن پر منطبق کیجیے۔ آئے دن عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ پڑھ کر ہنسی آتی ہے اور سُن کر رحم آتا ہے۔ میزبانوں پر بھی اور مہمانوں پر بھی! پنجابی کا محاورہ ہے‘ تو کون ہے؟ میں خواہ مخواہ ہوں! تارکینِ وطن یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ جاپان‘ آسٹریلیا گئے تو صفر سے شروع کیا۔ ایک دوست بتاتے ہیں، چالیس سال پہلے بارسلونا پہنچے تو کئی ہفتے لال مرچ کی چٹنی سے روٹی کھائی۔ پھر وہاں روزگار ملا۔ شہریت ملی۔ جائداد بنائی۔ دو بھائیوں کو بلایا۔ پھر یورپی یونین کی برکت سے انگلستان کی شہریت ملی۔ اب ایک بھائی برمنگھم میں ہے اور دوسرا لندن کے مضافات میں! عالی شان رہائش گاہیں ہیں۔ سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ بچے قابلِ رشک روزگار سے نفع حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ چالیس چالیس سال سے مشرق وسطیٰ میں کام کر رہے ہیں ان کے پاس شہریت تو دور کی بات ہے، ایک دکان تک ان کے نام نہیں! جوانیاں صرف کر دیں‘ توانائیاں لگا دیں، مگر اجنبی کے اجنبی رہے!
تاہم مغربی ملکوں میں چند تارکینِ وطن ایسے بھی ہیں جو مسلمانوں کی پوری کمیونٹی کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ (یہاں یہ وضاحت مناسب ہو گی کہ مغربی ملکوں سے مراد وہ ممالک بھی ہیں جو مغرب میں نہیں، مشرق میں واقع ہیں جیسے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، مگر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی حوالوں سے یہ مغربی دنیا ہی کا حصہ ہیں) ان تارکینِ وطن کے مطالبات اُسی قبیل کے ہیں جو بھائی خبر بخش کیا کرتا تھا۔ چند اللہ کے بندے اور بندیاں تو ایسی ہیں جو اپنی ذاتی خواہشات کو اسلام کا تقاضا بتاتی ہیں۔ گزشتہ برس ایک ٹیکسی ڈرائیور نے امریکہ میں اصرار کیا کہ شلوار قمیض ہی پہنے گا کیوں کہ یہ اس کے مذہب کا حصہ ہے! جج نے اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ جج اتنا بے خبر نہیں ہو سکتا کہ اسے یہ بھی نہ معلوم ہو کہ اس لباس کا اسلام سے یا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس نے یہی سوچا ہو گا کہ ان لوگوں کو اِسی جھمیلے میں رہنے دو! اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں شیطان اپنے مشیروں کو یہی ہدایت دیتا ہے کہ مسلمانوں کو اُس گرداب سے نکلنے نہ دو جس میں وہ غوطے کھا رہے ہیں؎
ابنِ مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جدا یا عین ذات
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں
یہ الٰہیّات کے ترشے ہوئے لات و منات
تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
امریکی جج نے ابلیس کی ہدایت پر پورا پورا عمل کیا اور پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کی یہ ’’دلیل‘‘ مان لی کہ شلوار قمیض، اسلامی تعلیمات کا جزوِ لاینفک ہے! ماہِ رواں میں آسٹریلیا کی ایک عدالت میں ایک خاتون نے اپنا مقدمہ خود ہی خراب کر لیا۔ مُعطیہ زاہد نے نیو ساؤتھ ویلز کی ریاست میں پولیس کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ اس کا موقف تھا کہ پولیس نے گھر کی تلاشی لیتے وقت اس کے ساتھ بدسلوکی کا ارتکاب کیا ہے۔ جج نے ثبوت سننے یا دیکھنے کے لیے اسے عدالت میں طلب کیا۔ معطیہ نے پورا چہرہ نقاب سے ڈھانپا ہوا تھا۔ جج نے تقاضا کیا کہ وہ چہرے سے نقاب ہٹا کر گواہی دے۔ جج کی دلیل یہ تھی کہ وہ چہرے کے تاثرات دیکھے بغیر نہیں جانچ سکتا کہ گواہی کتنے پانی میں ہے۔ جج کا بیان جامع تھا… ’’مجھے معلوم ہے کہ حرکات و سکنات اور چہرہ واحد ذریعہ نہیں جس سے گواہی جانچی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے یہ سہولت میسر ہی نہ ہو‘‘۔ دوسری طرف معطیہ کے وکیل کا بیان تھا کہ ’’مجھے کہا گیا ہے کہ میری موکلہ مسلمان ہے اور چہرے سے پردہ ہٹانا اس کے مذہب کے خلاف ہے۔‘‘
عدالت نے معطیہ کو کئی متبادل حل تجویز کیے۔ ایک یہ کہ پبلک کو عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ کسی الگ کمرے میں عدالت منتقل کی جا سکتی ہے۔ تیسرا یہ کہ خاتون ویڈیو کے ذریعے گواہی دے دے مگر معطیہ نے سارے متبادل نامنظور کر دیے۔
اس کے بعد مسئلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ یوں سمجھیے کہ شروع ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ان ملکوں میں خواندگی سو فیصد ہے۔ ہماری طرح نہیں کہ اسی فیصد آبادی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ خبر سارے اخبارات میں چھپی۔ آن لائن، جو قارئین کمنٹ دیتے ہیں وہ بہت عبرت ناک ہیں۔ چند گھنٹوں میں سینکڑوں کمنٹ انٹرنیٹ پر آ جاتے ہیں۔ اکثر کا کہنا یہ تھا کہ آپ یہاں کیوں رہ رہی ہیں؟ یہاں رہنا ہے تو یہاں کے طور طریقے اپنائیے۔ کچھ نے لکھا کہ ان کا بس چلتا تو موصوفہ کو پہلے جہاز میں، جو میسر ہوتا، بٹھا کر، واپس ان کے وطن بھیج دیتے۔
نومبر میں اٹلی میں ایک خاتون کو چہرے سے نقاب نہ ہٹانے پر تیس ہزار یورو جرمانہ ہوا۔ یوتھ پارلیمنٹ کا اجلاس تھا۔ اس میں خاتون کا بیٹا بھی شرکت کر رہا تھا۔ میئر نے اصرار کیا کہ خاتون کی شناخت ضروری ہے۔ خاتون نے انکار کر دیا۔
جرمنی نے حال ہی میں تقریباً بارہ لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ ان مہاجرین کے لیے ایران نے دروازے کھولے نہ سعودی عرب نے نہ کسی اور مسلمان ملک نے! دائیں بازو کے قوم پرستوں نے جرمن چانسلر مرکل کی بھرپور مخالفت کی‘ مگر خاتون چانسلر ڈٹی رہی اور مہاجرین کے لیے جرمنی کے دروازے کھول دیے۔ ساتھ ہی اس نے احسان بھی جتا دیا، ’’ہمارے بچوں کو تاریخ بتائے گی کہ مکّہ ان مہاجرین کو زیادہ نزدیک پڑتا تھا مگر پناہ جرمنی نے دی۔ کسی بھی امیر مسلمان ریاست کو توفیق نہ ہوئی۔‘‘
مرکل کی پارٹی نے اسے چوتھی بار چانسلر کا انتخاب لڑنے کے لیے نامزد کیا ہے۔ اب مرکل کی ترجیحات میں سرِ فہرست انتخاب جیتنا ہے؛ چنانچہ اس نے عندیہ دیا ہے کہ جرمنی میں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگانا ہو گی! اس اعلان سے وہ اُن طبقات کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہے جو مہاجرین کو اجازت دینے کی مخالفت کر رہے تھے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ چہرہ ڈھانپنا فرض ہے یا مستحب۔ سوال یہ بھی نہیں کہ چہرہ کھلا رکھنا حرام ہے یا مکروہ یا جائز! سوال مسلمانوں کی عزتِ نفس کا ہے۔ ہمارا موقف یہ بھی نہیں کہ جرمنی کی چانسلر، یا آسٹریلیا کا جج یا اطالوی قصبے کا میئر حق بجانب ہیں! انفرادی آزادی خود یورپی تہذیب کی بنیاد ہے‘ مگر انگریزی میں محاورہ ہے کہ دستِ سوال دراز کرنا ہو تو نخرے کیسے؟ اگر مقامی قوانین آپ کے طرزِ زندگی سے مناسبت نہیں رکھتے تو آپ تماشا بننے کے بجائے، اپنے ملک ہی میں کیوں نہیں رہتے؟ ضرور آپ نے مقامی لوگوں سے یہ کہلوانا ہے کہ جاؤ، اپنے گھروں کو جاؤ جہاں اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہو۔ ہم نے کیا تمہیں یہاں رہنے کی دعوت دی تھی؟
سعودی عرب میں ہر عورت کو عبایا پہننا ہوتا ہے۔ اگر وہ غیر مسلم ہے تب بھی! عبایا ہو بھی سیاہ رنگ کا! اب اگر کوئی خاتون نہیں پہننا چاہتی تو سعودی شرطہ یا سعودی عدالت یہی تو کہے گی کہ سعودی عرب سے نکل جاؤ۔ اور رہنا ہے تو ہمارے رسم و رواج، ہمارے قوانین، ہمارے اسلوبِ معاشرے کی پابندی کرو!
تان اُسی محاورے پر ٹوٹتی ہے۔ تم کون ہو؟ میں خواہ مخواہ ہوں!
No comments:
Post a Comment