ایک سو تیس سے زیادہ بچے بزدل دُشمن کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان کی استانیوں نے انہیں بچاتے ہوئے جانیں قربان کر دیں۔ اس دن پشاور میں قیامت کا سماں تھا۔ بنو عباس کی خلافت کو زوال آیا تو سعدی نے مرثیہ کہا تھا:
آسمان را حق بود گر خون بگرید بر زمین
بر زوالِِ ملکِ مستعصم امیرالمومنین !
آسمان کو حق پہنچتا ہے کہ زمین پر خون کے آنسو بہائے۔ اُس دن پشاور میں جو کچھ ہوا تھا‘ اس پر آسمان اور زمین لہو روئے تھے۔
مگر اُسی شام ایک بچے بلال نے ٹیلی ویژن کی ایک اینکر کو وہ بات کہی‘ جسے آسمان نے سنا تو اس کے رواں آنسو تھم گئے، زمین نے سنا تو تھرتھراہٹ ختم کر کے اپنی جگہ ٹھہر گئی۔ بلال نے اُس دن دہشت گردوں کی قسمت پر ہلاکت کی مُہر ثبت کر دی اور دو فقروں کی ایسی زبانی دستاویز جاری کی جس میں اس ملک کی سلامتی کی گارنٹی تھی!
حوصلہ اُس شام بجھا بجھا تھا۔ زمین پشاور کی خون سے سُرخ تھی‘ فضا مائوں کی سسکیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ابھی تو بارہ گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے۔ پختہ عمر کے لوگوں کی بھی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ کلیجے مُنہ کو آ رہے تھے۔ خوف تھا کہ ہڈیوں کے گودے میں جگہ بنا رہا تھا۔ اُسی دن تو قتل عام برپا ہوا تھا۔ ٹھیک اُسی دن‘ شام کو بلال نے کہا کہ دہشت گرد ہمیں ہرا نہیں سکتے۔ اگر کل صبح سکول کھل جائے تو میں کل ہی واپس سکول جائوں گا۔ میں آگے بڑھوں گا، آرمی میں جائوں گا اور دہشت گردوں سے اپنے دوستوں کا بدلہ لوں گا!
مُہر ثبت ہو چکی! لوحِ محفوظ پر اس ملک کی سلامتی مقدر ہو چکی! یہ فقرے دہشت گردوں کی موت کا پروانہ تھے۔ ساتوں لعین ڈھیر تو پہلے ہی ہو چکے تھے۔ اُن کے ماسٹر مائنڈ بھی بعد میں کیفرکردار کو پہنچ گئے۔ مگر دہشت گردوں کی اصل موت‘ بلال جیسے بچے کا وہ عزم تھا جو اس نے اُسی شام ہوا میں اچھالا۔ یہی عزم ہے جو پاکستان کے آسمان پر سورج بن کر دن کو چمکتا ہے اور ستاروں کی صورتِ رات بھر اس سر زمین پر چاندی جیسی کرنیں اتارتا ہے!
قدرت سب سے بڑی منصف ہے اور تاریخ غضب کی چھلنی ہے۔ قدرت اُس قوم کو آزمائش میں تو اتارتی ہے جس میں بلال جیسے بچے ہوں مگر آزمائش اس قوم کو صیقل کرتی ہے! تاریخ کی چھلنی میں سے وہ حکمران نیچے گر جاتے ہیں جو ایسے بچوں کی قربانیوں کو دولت جمع کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تاریخ کی چھلنی سے نیچے گر جانے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ابد تک کی لعنت اور پھٹکار! چند سکّوں اور چند ریشمی عبائوں کی خاطر میر جعفر اور میر صادق نے قوم کو دھوکہ دیا۔ آج تک پھٹکار پڑ رہی ہے۔ کیا عجب مسلسل نیچے دھنستے جا رہے ہوں! جب تک تاریخ لکھی جاتی رہے گی‘ جب تک تاریخ پڑھی جاتی رہے گی‘ سرّے محل اور پاناما لیکس چھلنی سے نیچے گرتے رہیں گے۔ چھلنی میں باقی کون رہ جائے گا؟ بلال جیسے بیٹے‘ جو یہ نہیں کہتے میں بڑا ہو کر ٹین پرسنٹ بنوں گا۔ جو اس فولادی عزم کا اظہار نہیں کرتے کہ میں بڑا ہو کر اتنی فیکٹریاں لگائوں گا، جدہ میں اتنے کارخانے قائم کروں گا اور لندن میں اتنے مکان خریدوں گا۔ وہ کہتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ سکول صبح کھل جائے تو صبح ہی واپس جائوں گا، بڑا ہو کر فوج میں جائوں گا اور اپنے شہید دوستوں کا بدلہ لوں گا!
بلال بچہ ہے مگر دودھ پیتا بچہ نہیں! اس بچے کو معلوم ہے کہ آرمی میں جانے کا کیا مطلب ہے؟ آرمی میں جانے کا مطلب ہے بھاری بوٹ‘ سر پر لوہے کا خود! اور ہاتھ میں بندوق! راتوں کی مشقیں اور دن کے خوفناک تربیتی مراحل۔ گھنے جنگل‘ بلند پہاڑ‘ گہری کھائیاں‘ چٹانوں کے خون منجمد کر دینے والے خطرناک کنارے‘ دشمن کی گولیاں! مٹی کے بستروں پر مشتمل مورچے‘ آگ‘ خون‘ دھول‘ دھماکے اور شہادت! مگر عزم دیکھیے! ابھی چند گھنٹے پہلے اس کے ساتھی اُس کی آنکھوں کے سامنے گولیاں کھا کر زمین پر گرے اور ابھی اُس نے اعلان کیا کہ وہ ڈرنے والا نہیں‘ وہ بدلہ لے گا!
اس ملک کی بھی کیا قسمت ہے! کوئی نشے میں دُھت‘ طبلہ بجاتے ہوئے کہتا ہے‘ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘ اور کوئی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے‘ میں ڈرتا نہیں! کوئی عرب بادشاہ کے بخشے ہوئے درہم و دینار سے اپنا کشکول بھرتا ہے اور کہتا ہے سب سے پہلے پاکستان! اور کوئی اس درہم و دینار پر تُھوک کر‘ جان ہتھیلی پر رکھتا ہے‘ رُوح آسمان کی طرف بھیجتا ہے اور اپنا لاشہ سخت کھردری زمین پر گرا کر کہتا ہے۔۔۔۔ سب سے پہلے پاکستان!
آرمی اور دہشت گرد، دونوں مسلح ہیں۔ دونوں موت کے مسافر! مگر فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ آرمی کا جوان‘ خواہ سپاہی ہے یا افسر‘ بھاگتا ہے نہ چھپتا ہے۔ سینے پر گولی کھاتا ہے۔ دہشت گرد سینے پر گولی نہیں کھاتا۔ کھا ہی نہیں سکتا! دہشت گردی کا لغت میں ایک ہی معنی ہے۔۔۔ بزدلی! حد درجہ بزدلی! وہ مار کر چُھپتا ہے‘ چُھپ کر مارتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کو موت کے مُنہ میں ڈال کر‘ کسی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر‘ گم ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت بھی گمنام ہوتی ہے۔ اس کی قبر کا مقام بھی متنازعہ ہوتا ہے۔ دہشت گرد موت کے لیے لڑتا ہے۔ آرمی کا جوان زندگی کے لیے لڑتا ہے۔ دہشت گرد لوگوں کو ہلاک کرنا چاہتا ہے‘ آرمی کا جوان لوگوں کو بچانا چاہتا ہے!
اُس پروردگار کی قسم! جس نے اِس مظلوم قوم کو بلال جیسے بچے عطا کیے‘ اس ملک کے مقدر میں روشنی ہے۔ صرف روشنی! چاندنی سے دُھلی ہوئی روشنی! سورج کی کرنوں سے بُنی ہوئی روشنی! اندھیرا چَھٹ کر رہے گا! اُفق روشن ہوں گے! باغ مخملیں سبزہ زاروں سے آراستہ ہوں گے۔ پرندے اُڈاریاں ماریں گے۔ کُنج پھولوں سے بھر جائیں گے۔ اس سرزمین پر وہ وقت ضرور آئے گا جب پانی افراط سے ہو گا اور میٹھا ہو گا! جب زمین سونا اگائے گی! جب فیکٹریوں سے بھوک نہیں‘ زندگی پیدا ہو گی! جب حکمران خود سودا سلف خریدیں گے‘ جب ہماری اسمبلیوں میں‘ ایک ایک پیسے کا حساب لینے والے ارکان بیٹھے ہوں گے۔ لوٹ مار ہمیشہ نہیں چل سکتی! ملک باقی رہے گا۔ ملک لوٹنے والے چھلنی میں سے نیچے گر جائیں گے‘ تاریخ کے گھٹا ٹوپ اندھے اندھیرے میں اُتر جائیں گے۔
یہ ملک صرف ڈاکٹر عاصم اور ایان علی نہیں پیدا کر رہا! یہاں صرف گلو بٹ نہیں پیدا ہوتے۔ یہاں صرف وہ دکاندار نہیں جو اپنی ہر صبح کا آغاز مرغیوں کی قیمت مقرر کرنے اور دودھ بیچ کر منافع کمانے سے کرتے ہیں۔ یہاں صرف وہ حکمران نہیں پیدا ہو رہے جن کی سوچ کی بلندی قیمتی گھڑی سے اُوپر نہیں جا سکتی۔ یہاں صرف ٹانگوں کے ساتھ بم باندھنے والے ’’سیاست دان‘‘ نہیں پیدا ہو رہے۔ اس قوم میں بلال جیسے آہنی انسان بھی پیدا ہو رہے ہیں! اس ملک کی سرحدوں پر مورچے خالی نہیں‘ آباد ہیں! افغان سرحد سے گولی آتی ہے تو گولی بھیجنے والے کو مارنے والے موجود ہیں! یہ ملک چند مراعات یافتہ اجنبیوں کا نہیں! اسی سرزمین پر جینے اور اسی سرزمین پر مرنے والوں کا حق ہے۔
مراعات یافتہ اجنبی! ہاں، مراعات یافتہ بھی اور اجنبی بھی! چودہ سال حکومت پاکستان کے خزانے سے گورنری کی تنخواہ لینے والا برطانوی شہریت کا مالک عشرت العباد بیٹے کی شادی کہاں کر رہا ہے؟ کراچی میں؟ نہیں‘ دبئی میں! مبیّنہ طور پر یہ شادی ’’اساطیر اٹلانٹس دی پام‘‘ دبئی میں 22 دسمبر 2016ء کو ہو رہی ہے۔ یہ مراعات یافتہ اجنبی‘ یہ غیر ملکی‘ کلائیو اور کرزن کی طرح یہاں صرف حکومت کرنے آتے ہیں۔ اس کے بعد یہ دبئی‘ لندن، جدہ اور نیویارک میں پائے جاتے ہیں!
تیرہ دسمبر کو وزیراعظم پاکستان نے پشین کا دورہ کرنا تھا۔ اُسی دوپہر کو پشین ریسٹ ہائوس میں وزیراعظم کے لیے ظہرانے کا پروگرام تھا۔ مبینہ طور پر کوئٹہ کے فائیو سٹار ہوٹل کی طرف سے ظہرانے کا جو خرچ بتایا گیا وہ پانچ ہزار پانچ سو روپے فی کس تھا۔ کل خرچ چونتیس لاکھ پچیس ہزار روپے بتایا گیا۔ اس میں روشنیوں، دیگر انتظامات‘ سٹاف کے رات کو وہاں رہنے کے اخراجات بھی شامل تھے۔ عین آخری وقت موسم کی خرابی کے سبب وزیراعظم کا دورہ منسوخ ہو گیا۔ ہماری اطلاع کے مطابق یہ بل‘ بلوچستان حکومت کی طرف سے ہوٹل کو ادا کرنا پڑا کیونکہ ہوٹل کو کیا معلوم تھا کہ دورہ منسوخ ہو جائے گا۔ اس پر قیاس کیجئے کہ جہاں بھی سواری جاتی ہے کتنا خرچ ہوتا ہے۔ ہر ظہرانے پر‘ ہر عشائیے پر‘ جہاں ٹھہرنا ہوتا ہے وہاں کی آرائش و تزئین پر!
مگر وہ سامنے دیکھیے‘ غور سے دیکھیے‘ سیاہ اندھیرے میں‘ دور‘ اُفق پر روشنی کی ایک نازک سی کرن شگاف ڈال رہی ہے! یہ شگاف بڑا ہو گا، اندھیرا چھٹ جائے گا۔ قائداعظمؒ جیسے حکمران ضرور لوٹیں گے جن سے کابینہ کے اجلاس کے لیے چائے کا پوچھا گیا تھا تو جواب دیا تھا‘ گھر سے پی کر آئیں‘ قومی خزانہ وزیروں کے لیے نہیں!
قُدرت کے مضبوط ہاتھ چَھلنی کو ہلائے جا رہے ہیں! اس چھلنی سے کوئی نہیں بچے گا!
No comments:
Post a Comment