Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, March 30, 2016

زبان کی لغزش یا علم کا فقدان؟


بہت سال پہلے کی بات ہے‘ دارالحکومت کے آئی ایٹ سیکٹر میں قیام تھا۔ ہمارے ایک دوست شاہ زیب بھی وہیں رہتے تھے۔ دیندار اور خوش اخلاق! علومِ مردم شماری (ڈیموگرافی) کی ڈگری آسٹریلیا سے لے کر آئے تھے۔ شماریات کے کسی ادارے میں اچھے منصب پر تھے! ان سے ملنا جلنا تھا۔ اس حوالے سے اُن کے ملازم بختیار سے بھی علیک سلیک تھی۔ وہ غالباً کسی سرکاری دفتر میں نائب قاصد تھا اور شاہ زیب صاحب کی سرکاری کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں رہائش پذیر تھا۔
ایک دن عشاء کی نماز کے لیے مسجد تاخیر سے پہنچا۔ جماعت ہو چکی تھی۔ ایک گروہ ایک طرف بیٹھا تھا اور بختیار ان کے درمیان کھڑا تقریر کر رہا تھا۔ اس تقریر کو خاص اصطلاح میں ’’بیان‘‘ کہا جاتا ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر میں بھی بیٹھ کر بیان سننے لگا۔ بختیار محیر العقول، ناقابلِ یقین واقعات پے در پے سنا رہا تھا۔ ایک عجیب و غریب واقعہ ختم ہوتا تو دوسرا شروع کر دیتا۔ بیان ختم ہؤا۔ اُسی نے دعا کرائی۔ مسجد سے نکلتے وقت اس سے پوچھا: ’’بختیار بھائی! آپ کا بیان بہت اچھا تھا۔ جو واقعات آپ سنا رہے تھے، وہ آپ نے کہاں سے پڑھے؟ ان کی کوئی سند؟‘‘ بختیار مسکرایا اور کوئی جواب نہ دیا!
جنید جمشید کے حوالے سے جو واقعہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر پیش آیا، اس میں مار کھانے والا‘ مارنے والے سب مسلمان تھے اور پاکستانی تھے۔ اس پر میڈیا میں بالخصوص سوشل میڈیا پر انواع و اقسام کے تبصرے ہو رہے ہیں۔ مگر اس واقعہ کے مضمرات میں ایک پہلو ایسا ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور وہی اس سارے واقعہ کا اصل سبب نہ سہی، بہت بڑا سبب ضرور ہے!
امرِواقعہ یہ ہے کہ جنید جمشید عالم نہیں۔ انہوں نے دین کا باقاعدہ علم کہیں سے نہیں سیکھا۔ وہ گلوکار تھے۔ کایا کلپ ہوئی تو تبلیغی اجتماعات میں ’’بیان‘‘ کرنے لگ گئے۔ مشہور تو پہلے سے ہی تھے، الیکٹرانک میڈیا کو نہ چھوڑ سکے، فقط زاویہ بدل لیا۔ پہلے صرف نعتیں پڑھیں۔ پھر درس اور تقریریں کرنے لگ گئے۔ کئی سال سے ہر رمضان میں کسی نہ کسی ٹی وی چینل سے ان کا باقاعدہ معاہدہ ہوتا ہے اور وہ پورا مہینہ وعظ اور تقریریں کرتے ہیں!
تبلیغی جماعت سے پہلے برصغیر میں (اور باقی عالمِ اسلام میں اب بھی) مذہبی وعظ و تذکیر صرف وہ علماء کرتے تھے جو باقاعدہ دین کا علم سیکھ کر آتے تھے۔ انہوں نے عربی زبان، ادب، فقہ، منطق، صرف، نحو، فلسفہ، علمِ کلام، پھر حدیث اور تفسیر پڑھنے میں آٹھ دس سال لگائے ہوتے تھے۔ اکثریت کی تقریریں ذمہ دارانہ بیانات پر مشتمل ہوتی تھیں۔ آپ علماء کو دیکھ لیجیے۔ مولانا تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، مولانا طارق جمیل، مولانا راغب نعیمی، مولانا ساجد نقوی، ان حضرات نے اپنی ساری جوانیاں قال اللہ اور قال الرسول سیکھنے میں گزاریں۔ اس کے بعد بھی مطالعہ اور کسبِ علم جاری رہتا ہے۔ روایت یہ تھی کہ عوام الناس کے لیے وعظ و تبلیغ کا کام علماء کرام کرتے تھے جنہیں قرآن و حدیث پر، فقہ و تفسیر پر، مسائل پر اور تاریخِ اسلام پر عبور ہوتا تھا!
تبلیغی جماعت کا المیہ یہ ہے کہ وہاں ہر شخص نے ’’بیان‘‘ کی صورت میں تقریر کرنا ہوتی ہے اور یہ لازمی ہے۔ فرض کیجئے، سہ روزہ کے لیے دس افراد کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر شخص کو اپنی باری پر تقریر کرنا ہو گی۔ اگر علمِ دین سے اس کا دور سے بھی تعلق نہیں، دکاندار ہے، یا فون آپریٹر ہے یا مکمل نا خواندہ ہے، وعظ اس نے ہر حال میں کرنا ہے۔ اب جو وعظ وہ کرے گا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے!
جنید جمشید نے جو کلمات ایک مقدس ہستی کے بارے میں کہے (بعد میں انہوں نے معافی بھی مانگی)گمان غالب یہ ہے کہ کوئی عالمِ دین ایسے الفاظ کبھی نہ کہتا۔ عربی کی مشہور کہاوت ہے۔۔۔۔ لِکلِّ فنِّ رجال، جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ بڑے بڑے ثقہ علماء، فنِ تقریر سے نابلد ہوتے ہیں۔ ہر کوئی وعظ اور تقریر نہیں کر سکتا۔ سیّد انور شاہ کاشمیری علم کا سمندر تھے ‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ان سے کم علم رکھتے تھے مگر خطابت کے بادشاہ تھے۔ علامہ اقبال ہر گز ایسے مقرر نہ تھے کہ مجمع پر چھا جاتے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہمارے سکہ بند علما ء نے آج تک ابوالاعلیٰ مودودی اور دوسرے کئی سکالرز کو تو ’’باقاعدہ‘‘ عالم اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ وہ کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل نہ تھے۔ مگر جن لوگوں کو مدرسہ کی ہوا بھی نہیں لگی اور جن کی وجہ شہرت کوئی اور ہے، وہ الیکٹرانک میڈیا پر دین سکھانے میں لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک معروف سابق کرکٹ سٹار کا وعظ سنا جا سکتا ہے۔ ایک ایک فقرے میں تین تین بار ’’دوستو بزرگو‘‘ کہتے ہیں۔ انتہائی غیر موثر! اپنے ایک ساتھی کرکٹ کھلاڑی پر برس رہے تھے کہ کہتے ہیں ملک ٹھیک کروں گا، بقول ان کے اپنا گھر تو ٹھیک نہیں کر سکتے! 
یہ حقیقت ہر شخص کو، خواہ وہ عالم ہے یا غیر عالم واعظ، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس ملک کا گنہگار سے گنہگار اور بے عمل سے بے عمل مسلمان بھی کسی مقدس ہستی کے بارے میں کوئی نازیبا جملہ برداشت نہیں کر سکتا۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم، انبیاء کرام، امہات المومنین، اہلِ بیت عظام اور صحابہ کرام کے بارے میں حد درجہ احتیاط سے اور ادب و احترام سے بات کی جانی چاہیے، یوں کہ معاذاللہ، گستاخی کا دور دور تک شائبہ بھی نہ ہو۔ یہ دلیل محض جو شیلی بات نہیں، حقیقت پر مبنی ہے کہ ہم اپنے ماں باپ‘ بہن بھائیوں ‘بیوی بچوں کے بارے میں گالی تو درکنار، منفی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ پھر مقدس ہستیوں کے متعلق ناشائستہ اور ذومعنی قسم کے کلمات کون برداشت کرے گا؟ شائستگی کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں بھی کوئی غیر مناسب بات نہ کی جائے۔ اس کی طرف اشارہ کلام پاک میں بھی کیا گیا ہے!
رہا یہ عذرِ لنگ کہ وہ تو زبان کی لغزش 
(Slip of Tongue)
 تھی یا یہ کہ زبان سے الفاظ نکل گئے، تو سارے الفاظ زبان میں سے نکلتے ہیں‘ زبان کو قابو میں رکھیے۔
نفرت کا ایک محرک تجارت کے لیے مذہب اور مذہبی جذبات کا استحصال بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام الناس ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے۔ ایسے ایسے اشتہارات الیکٹرانک میڈیا پر رات دن دکھائے جا رہے ہیں جن میں باریش مالک کی تصویر بار بار دکھائی جاتی ہے۔ آخر میں ’’دل دل پاکستان‘‘ کا تڑکا بھی لگایا جاتا ہے۔ مذہبی اور حب الوطنی کے جذبات کا تجارت کے لیے یہ استعمال مناسب نہیں۔ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ میں اگر مذہبی ہوں اور مجھے بار بار یہ بتایا جا رہا ہے کہ فلاں برانڈ، ایک مذہی شخصیت کی ملکیت ہے تو میں غیر شعوری طور پر متاثر ہوں گا اور قدم اُسی طرف اٹھیں گے۔ آقائے نامدار سے محبت اس قوم کے رگ و ریشہ میں سرایت کیے ہے۔ یہاں اس مقدس نام پر نہاری بیچی جا رہی ہے۔ بیکریاں چلائی جا رہی ہیں۔ عشقِ رسول میں ڈوبا ہؤا سچا اور سادہ مسلمان، آقاؐ کا نام دکان کے سائن بورڈ پر دیکھ کر کیسے آگے گزر سکتا ہے؟ بس یہی وہ جذبہ ہے جس کا تاجر حضرات استحصال کر رہے ہیں۔’’اسلامی شہد‘‘ کا بورڈ دیکھ کر لوگ رُک جاتے ہیں؛ حالانکہ آج تک دنیا میں کسی شہد کو غیر اسلامی نہیں کہا گیا! اس دنیا میں جتنے ماکولات اور مشروبات ہیںاور استعمال کی جتنی بھی اشیاء ہیں، قدرتی ہیں یا مصنوعی، سب پروردگارِ مطلق کی قدرت کا کرشمہ ہیں اور اس کی پیدا کردہ انسانی دماغ کا عطیّہ! پھر ہم کچھ کو اسلامی اور کچھ کو غیر اسلامی کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کیا صحرائے عرب میں پیدا ہونے والی کھجور اسلامی اور کیلی فورنیا کی کھجور غیر اسلامی کہلائے گی؟ نہیں! ہر گز نہیں! بیج سے درخت اُگانے والی اور درخت پر پھل لگانے والی ذات ایک ہی ہے اور یہ زمین کیا، پوری کائنات اُسی کی مٹھی میں ہے!!

Monday, March 28, 2016

Cover Point

ماسکو میں مصروفیات ختم ہوئیں تو پاکستانی وفد کو دو دن کے لیے لینن گراڈ لے جایا گیا۔ لینن گراڈ سے واپسی ایک آرام دہ ٹرین سے ہوئی۔ پاکستانی سفیر کو بتایا گیا کہ ٹرین جب ماسکو پہنچے گی تو صدر پوڈگرنی اور وزیر اعظم کو سیجن ریلوے سٹیشن پر موجود ہوں گے اور وہیں سے مہمان صدر کو ایئرپورٹ لے جائیں گے۔
ٹرین میں رات کے کھانے پر روسی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے پاکستانی سفیر سے کہا کہ روسی لیڈر اس بات پر حیران ہیں کہ صدر یحییٰ نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی کے مسئلہ پر بات نہیں کی۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ صدر یحییٰ کو مشورہ دیا جائے کہ اگلی صبح وہ یہ مسئلہ اٹھائیں۔
سفیر یہ پیغام پہنچانے فوراً صدر یحییٰ کے ڈبے میں حاضر ہوا، جہاں صدر اپنے ہم پیالہ دوستوں کے ساتھ آلامِ زمانہ سے دور بیٹھے تھے۔ مے نوشی کی محفل عروج پر تھی تا ہم پیغام سن کر صدر نے فوراً اپنے مے نوش ساتھیوں کو رخصت کیا۔ یوں لگتا تھا جیسے الکوحل کے اثرات کو بھی دماغ سے نکال دیا! صدر نے اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت کر کے اگلی صبح کے لیے حکمت عملی طے کر لی۔ اس کے بعد ’’پارٹی‘‘ دوبارہ شروع ہو گئی۔
اگلی صبح لیڈروں کا قافلہ ایئرپورٹ پہنچا تو تینوں لیڈر بہت دیر تک لیموزین میں بیٹھے بات چیت کرتے رہے۔ پرواز مؤخر ہوتی رہی۔ آخرکار یہ حضرات باہر نکلے۔ چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ صدر یحییٰ نے پاکستانی سفیر کو بتایا کہ وزارت خارجہ کے احکام کا انتظار کرے۔ وزارت خارجہ کے احکام جلد ہی موصول ہو گئے۔ سفیر کو ہدایت کی گئی کہ وہ ماسکو ایئرپورٹ پر ہونے والی بات چیت کی روشنی میں ہتھیاروں کی فراہمی کا مسئلہ طے کرے۔ سفیر نے وزارتِ خارجہ کی سطح پر مسئلہ اٹھایا مگر کوئی جواب نہ دیا گیا۔ آخر سفیر نے وزیر اعظم کوسیجن کو یاد دلایا! کوسیجن نے ٹکا سا جواب دیا کہ پاکستان ہتھیاروں کے بجائے اقتصادی ترقی پر توجہ دے! اُدھر صدر یحییٰ جی ایچ کیو کے سینئر افسروں کو خوشخبری دے چکے تھے کہ روسی ہتھیاروں کی فراہمی جلد شروع ہو جائے گی۔ اب انکار ہوا تو صدر یحییٰ کی پوزیشن خراب ہوئی؛ چنانچہ صدر کا غیظ و غضب فطری تھا۔ سفیر کو یہ کبھی معلوم نہ ہو سکا کہ روسیوں نے یہ عجیب و غریب حرکت کیوں کی؟ پہلے خود ہی کہنی ماری کہ ہتھیاروں کا مسئلہ اٹھائو اور پھر کورا جواب دے دیا!
یہ واقعہ روس میں پاکستان کے سابق سفیر جناب جمشید مارکر نے اپنی تازہ ترین تصنیف
 Cover Point 
میں لکھا ہے۔ جمشید مارکر کا تعلق کوئٹہ اور کراچی کی ایک معروف پارسی فیملی سے ہے۔ وہ 1922ء میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ڈیرہ دون اور پھر ایف سی کالج لاہور میں پڑھتے رہے۔ اقتصادیات میں آنرز کی ڈگری لی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نیوی میں خدمات سرانجام دیں۔ جنگ ختم ہوئی تو خاندانی بزنس سنبھال لیا۔ بنکنگ، انشورنس اور جہاز رانی کی کئی نجی اور سرکاری کمپنیوں کے بورڈ پر رہے۔
1965ء میں صدر ایوب خان نے انہیں گھانا میں سفیر مقرر کیا۔ اگلے تیس برسوں کے دوران وہ دس اہم دارالحکومتوں میں سفارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ دنیا بھر میں طویل ترین مدت تک سفیر رہنے کے علاوہ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ کسی بھی دوسرے سفیر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ملکوں میں خدمات سرانجام دیں۔ 1986ء میں جب امریکہ میں سفیر تھے تو افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ کوفی عنان کے خصوصی مشیر بھی رہے۔ پھر مشرقی تیمور میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کے طور پر کام کیا۔
تازہ ترین تصنیف ’’کور پوائنٹ‘‘ میں جمشید مارکر نے لیاقت علی خان سے لے کر صدر پرویز مشرف تک، تمام پاکستانی سربراہوں کے حوالے سے اُن واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن کے وہ عینی شاہد رہے۔ ایسی کتابیں تاریخ کا وہ سرمایہ ہیں جن میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ سیاسی جانبداری کی ملاوٹ، کئی راویوں کی یادداشت کی ملاوٹ، مستقبل میں کچھ حاصل کرنے کی لالچ کی ملاوٹ اور بہت سی دوسری ملاوٹیں۔ ایسی اہم اور انتہائی دلچسپ کتابیں فوراً اردو کے قالب میں ڈھال دی جائیں تو استفادہ کرنے والوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ جائے۔ بنداذہان کھلیں اور صرف اردو پر انحصار کرنے والے پاکستانیوں کی معلومات میں بیش بہا اضافہ ہو۔
پاکستان اس بات پر فخر کرتا ہے کہ چین اور امریکہ کے تعلقات بحال کرنے میں اس نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ ہنری کسنجر نے بیجنگ کا پہلا خفیہ دورہ پی آئی اے سے کیا۔ پھر صدر نکسن وہاں پہنچے مگر کم پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان نے ’’وچولن‘‘ ہونے کی کتنی بھاری قیمت ادا کی (وچولن پنجابی میں اُس عورت کو کہتے ہیں جو رشتے کراتی ہے۔) روسی لیڈر شپ غضب ناک ہو گئی۔ انہوں نے پاکستان سے ہولناک انتقام لیا۔ روس نے بھارت کے ساتھ 
دوستی کا باقاعدہ معاہدہ کر لیا۔ دوستی کا یہ واحد معاہدہ تھا جو سوویت یونین نے کسی غیر کمیونسٹ ملک سے کیا تھا۔ سوویت یونین نے متعدد سفارتی اور جنگی محاذوں پر پاکستان دشمن اقدامات کیے اور 1971ء کی مشرقی پاکستان جنگ میں بھارت کا بھرپور ساتھ دیا۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو روسی وزارتِ خارجہ کے ایک سینئر افسر پروفیسر یوری گینکوسکی نے جمشید مارکر سے کہا: ’’مائی ڈیئر مارکر! کیا ہنری کسنجر کو اسلام آباد ہی سے بیجنگ جانا تھا؟ آخر وہ ہانگ کانگ یا بنکاک سے بھی تو جا سکتا تھا۔ کسنجر کے اس سفر نے ہمارے(یعنی سوویت یونین اور پاکستان کے) تعلقات کو یوٹو(U2)فلائٹ سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے!‘‘
جو قارئین ’’یوٹو فلائٹ‘‘ سے آگاہ نہیں، اُن کی اطلاع کے لیے بتانا مناسب ہو گا کہ 1960ء میں ایک امریکی جاسوسی طیارہ پشاور(بڈھ بیر) سے اُڑ کر سوویت یونین پر پرواز کر رہا تھا کہ روسیوں نے اسے مار گرایا۔ اس کا سخت ردِ عمل ہوا تھا۔ خروشچیف اور صدر آئزن ہاور کی مجوزہ ملاقات منسوخ ہو گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خروشچیف نے جوتا دکھایا۔ کچھ کہتے ہیں جوتا باقاعدہ میز پر مارا۔ خروشچیف نے یہ بھی کہا کہ اس نے نقشے پر پشاور کے گرد سرخ روشنائی سے دائرہ لگا لیا ہے۔ یہ پشاور کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی ملفوف دھمکی تھی۔ جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1971ء میں شہنشاہ ایران نے ایرانی بادشاہت کی 2500 سالہ سالگرہ کی عظیم الشان تقریبات منعقد کیں تو دنیا بھر کے سربراہ مدعو کیے۔ ان میں پوڈگرنی، کوسیجن اور صدر یحییٰ بھی تھے۔ شاہ ایران نے اپنی سی کوشش کی کہ سوویت یونین اور پاکستان کے معاملات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دیں۔ جمشید مارکر کو جو رپورٹ ملی اس کے مطابق نتیجہ تباہ کن تھا۔ اجلاس میں روسی رہنما دھمکیاں دے رہے تھے اور تقریباً گالیوں ہی پر اتر آئے تھے۔ جواب میں صدر یحییٰ نے بھی، جو مدہوش تھے، گالیاں دیں۔
جمشید مارکر نے آخری بار صدریحییٰ سے اُس وقت ملاقات کی جب مشرقی پاکستان کے حالات ابتر تھے۔ صدر یحییٰ اس دن سویلین لباس میں ملبوس اپنے دفتر میں داخل ہوئے اگرچہ فوجی بَید ہاتھ میں پکڑے تھے۔ وہ سنجیدہ اور سوچ میں ڈوبے ہوئے لگ رہے تھے۔ جمشید مارکر کے الفاظ میں: ’’میں صدر کے دفتر سے جس وقت نکلا ، وہ اپنے مشیروں کے ساتھ گہرے صلاح مشورے میں مصروف تھے۔ میرا دل ملک کے مستقبل کے حوالے سے بدشگونی سے بھرا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ان لوگوں کو (یعنی صدر اور ان کے مشیروں کو) معلوم ہی نہیں تھا نہ پروا تھی کہ مشرقی پاکستان پر انہوں نے کس بربادی اور تباہی کو نازل کیا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ بھارت کے خلاف ملٹری ایکشن لینے پر تلے تھے۔‘‘
جمشید مارکر نے ذاتی مشاہدات کے حوالے سے یہ یادداشتیں لیاقت علی خان کے زمانے سے ابتدا کی ہیں۔ اس میں بہت سے چہرے میک اپ کے بغیر دیکھے جا سکتے ہیں اور کئی ایسے اشارات ہیں جو ہماری تاریخ کے سبق آموز موڑ دکھا رہے ہیں۔ سبق آموز مگر عبرت ناک موڑ! مثلاً لیاقت علی خان نے مصنف کو بتایا کہ انہیں بطور وزیر اعظم ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی رکھنے کا مشورہ دیا گیا۔ کاش لیاقت علی خان یہ مشورہ دینے والے درباری کا نام بھی بتا دیتے۔ بہر طور وزیر اعظم نے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی اور عوامی شخصیت ہیں یوں عوام کو ان تک رسائی ہونی چاہیے۔ سالہا سال تک یہی روایت برقرار رہی۔ کیا آپ کو معلوم ہے یہ روایت کس نے توڑی اور کس سربراہ حکومت نے ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی کے طمطراق کا آغاز کیا؟ یہ ہم اگلی نشست میں بتائیں گے۔

Saturday, March 26, 2016

کیا مصطفی کمال صفر سے ضرب کھائیں گے؟

عید کی نماز پڑھنے ہم یونیورسٹی ہوسٹل سے اکٹھے نکلے۔ گمان غالب یہ تھا کہ کم از کم آج تو خواجہ صاحب نماز پڑھ ہی لیں گے۔ نماز کے بعد خطبہ ہوا۔ خطبے کے بعد دعا‘ پھر ہم ایک دوسرے کو گلے ملے۔ خواجہ صاحب کہیں دکھائی نہ دیئے۔ واپس ہوسٹل پہنچے تو بڑے گیٹ پر نئی شلوار قمیض میں ملبوس‘ خوشبو سے معّطر‘ ہنستے مسکراتے‘ بازوئوں کو وا کیے کھڑے تھے۔ معانقے کیے۔ کسی نے کہا خواجہ! ہم عید گاہ میں آپ کو تلاش کرتے رہے۔ ہنس کر بولے‘ بے وقوفو! میں بھی عیدگاہ آ جاتا تو واپسی پر یہاں تمہارا استقبال کون کرتا؟ گھر سے تم پہلے ہی دور ہو!
ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کا یہ واقعہ 23 مارچ کے حوالے سے مسلسل یاد آ رہا ہے! 23 مارچ اور عیدالفطر میں کتنی مماثلت ہے! عیدالفطر کا مقصد واعظین کرام یہ بتاتے ہیں کہ خوشی کا موقع تو ہے ہی مگر اس دن اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہیے کہ رمضان کیسے گذارا! کیا وہ مقاصد پورے ہوئے جن کے لیے روزے فرض کئے گئے؟ روایت ہے کہ عید کے دن ایک صاحب امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کو ملنے حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ سوکھی روٹی تناول فرما رہے ہیں‘ اور گریہ کر رہے ہیں! خیر! عید کے دن نان خشک کھا کر گریہ کناں ہونا تو اتنا بڑا مقام ہے کہ امیر المومنین جیسوں ہی کو نصیب ہوا مگر اب جس طرح ہم عید مناتے ہیں‘ اس سے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ رمضان آیا ہی نہیں تھا!
23 مارچ قومی حوالے سے ہمارے لیے عید ہی کے دن کی طرح ہے۔ دارالحکومت میں پریڈ ہوئی۔ ہم نے طاقت کا مظاہرہ کیا کہ دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ شہر شہر سرکاری اور غیر سرکاری تقاریب منعقد ہوئیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر تو بہار ہی آ گئی۔ اشتہارات نے رزق کے دروازے کیا! بارہ دریاں کھول دیں! موسیقی اور کھیل تماشوں کے پروگراموں میں ناظرین ڈوب ڈوب گئے!
مگر یہ دن گریہ کرنے کا بھی تو ہے! سوکھی روٹی تو آج شاید ہی کوئی کھاتا ہو! جس نے فاقے کیے‘ اس کی امت آج کُلوا واشربوا کے عروج پر ہے   ؎
کرسی و عرش فقیری میں علاقے تیرے
تیری امت کو بچا لے گئے فاقے تیرے
چلیے‘ رنگ رنگ کے اور ذائقے ذائقے کے پکوان کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں! مگر گریہ کرنا تو بنتا ہے!
گریہ کرنا اس لیے بنتا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں کہ 23 مارچ کے حوالے سے ہمیں کتنی بڑی نعمت ملی! افسوس! ہم اُس شخص کی اولاد کی طرح نکلے جس نے زندگی بھر محنت کر کے بچوں کے لیے جائیداد چھوڑی اور بچے کچھ عیاشی میں پڑ گئے اور کچھ آپس کی لڑائی جھگڑے اور مقدمہ بازی میں تباہ ہو گئے۔ ہم نے نغمہ گایا اے قائداعظمؒ ترا احسان ہے احسان! اور پھر آپس میں الُجھ پڑے۔کسی نے کسی کو گلے سے پکڑا اور کوئی کسی کو چاروں شانے چت گرا کر خوشی کے شادیانے بجانے لگا۔ کہاں کی ترقی! کہاں کا اقتصادی انقلاب! کہاں کی سماجی پختگی! ہم نے صوبوں کے درمیان جو لکیریں محض کاغذی تھیں‘ ان پر رنگ ڈالے اور انہیں اس قدر نمایاں کیا کہ قوم مدہم پڑ گئی اور صوبے نمایاں ہو گئے۔ پھر اسی پر بس نہ کیا‘ قومیت در قومیت لے کر آئے۔ بلوچی ہونے سے افاقہ نہ ہوا تو بلوچستان کے اندر براہوی‘ پختون اور جانے کیا کیا تلاش کیے۔ اب پہچان یہ ہو گئی کہ فلاں ہزارہ ہے اور فلاں پوٹھوہاری ہے اور تم سرائیکی ہو اور میں ہندکو ہوں‘ اور وہ مہاجر ہے۔ پھر ہم اور آگے بڑھے۔ پھر ہم کشمیری‘ آرائیں‘ اعوان‘ جاٹ‘ راجپوت‘ مغل اور نہ جانے کیا کیا بنے‘ یہ عنوانات شناخت کے لیے تھے مگر ہم نے یہ تقسیم در تقسیم انتخابات میں جیتنے کے لیے اور ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے‘ اور سفارشیں ڈھونڈنے کے لیے اور فخر و مبابات کے لیے‘ اور ڈینگیں 
مارنے کے لیے استعمال کی! فلاں کو ووٹ دو اس لیے کہ وہ جاٹ ہے۔ فلاں کی بیٹی سے رشتہ کرو اس لیے کہ وہ مغل ہے! فلاں کو ملازمت دو اس لیے کہ وہ اعوان ہے‘ فلاں کو رسوا کرو اس لیے کہ وہ فلاں برادری سے ہے! تو پھر انصاف کرو! 23 مارچ کے دن خوشی سے ناچنا گانا بنتا ہے یا گریہ کرنا؟
23 مارچ کے دن گریہ کرنا بنتا ہے اس لیے کہ الگ ہم مسلمان ہونے کے حوالے سے ہوئے۔ پھر اس مسلمانی کو ہم نے چھریوں سے اور کلہاڑیوں سے اور تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا‘ یہ شیعہ ہے اس لیے اسے مار دو‘ یہ شیعہ نہیں ہے اس لیے اسے بھی ختم کر دو! یہ مسجد ہماری ہے‘ وہ مسجد تمہاری ہے! پھر ہم نے ظلم کی انتہا یہ کی کہ سیاسی جماعتیں مذہبی فرقوں کی بنیاد پر بنائیں۔ ہلاکت کا گڑھا اپنے ہاتھوں سے کھودا‘ یہ سیاسی جماعت دیوبندیوں کی ہے اور وہ اہل حدیث حضرات کی ہے اور یہ بریلوی ہیں‘ کہیں ہماری پارلیمنٹ دنیا کی واحد پارلیمنٹ تو نہیں جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں کچھ نمائندے فرقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر بھی تشریف فرما ہیں!
گریہ کرو! اللہ کے بندو! گریہ کرو! اُس خدائے برتر کے حضور سجدہ کرو جس نے تمہیں یہ ملک دیا۔ گریہ کرو اور جھاڑکھنڈ کے اُس انصاری اور اُس امتیاز کو یاد کرو جنہیں چار دن پہلے درختوں کی ٹہنیوں کے ساتھ لٹکا کر اس لیے پھانسی دی گئی کہ وہ بیل فروخت کر رہے تھے۔ گریہ کرو اس لیے کہ آسودگی نے تمہارے احساسات کو مردہ کر دیا ہے۔ انواع و اقسام کے کھانوں نے تمہارے سوچنے کی حس ختم کر دی ہے۔ محلات نے تمہیں اندر سے حیوان بنا دیا ہے۔ بینک بیلنسوں‘ لندن‘ جدہ‘ نیویارک کی پراپرٹیوں اور ویت نام اور ہسپانیہ کے کارخانوں نے تمہاری آنکھوں پر پردہ تان دیا ہے۔ تمہیں رمق بھر احساس نہیں کہ پاکستان کتنی عظیم نعمت ہے۔ تمہیں معلوم ہی نہیں کہ گئو رکھشا ایکٹ کیا ہے۔ ماضی قریب میں مسلمانوں پر بھارت میں ایک ہزار سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں بیسیوں شہید ہو چکے ہیں‘ سینکڑوں جیلوں میں پڑے سسک رہے ہیں اس لیے کہ انہوں نے کھانے میں چند بوٹیاں گائے کے گوشت کی کھا لی تھیں۔ اب بیل اور بھینس کا گوشت کھانے پر بھی مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے۔ سینکڑوں ہندو مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر اس لیے حملہ آور ہو رہے ہیں کہ مطبخوں میں گوشت کی ڈشیں کیوں پکائی جا رہی ہیں!
23 مارچ کا دن خوشی کا دن ہے مگر سوچنے کا بھی ہے! محاسبہ کرنے کا بھی! 
پس نوشت : ’’پاک سرزمین پارٹی کا لیڈر مصطفی کمال نہیں ہے کوئی اور شخص ہے جو سگار بھی پیتا ہے‘‘ اس قسم کے تجزیے ہوا میں اُڑا رہے ہیں! ظاہر ہے یہ تخمینے ہیں۔ جو غلط ہو سکتے ہیں اور درست بھی!
اگر واقعی ایسا ہی ہو گا تو مصطفی کمال کا حشر الطاف حسین جیسا ہی ہو گا۔ کراچی میں قتل و غارت شروع ہوئی تو ہمارے دوست شاعر افضال احمد سید نے دلچسپ فقرہ کہا کہ کراچی بیروت بننے سے پہلے ہی بیروت بن گیا! جو عروج الطاف حسین کو ملا‘ اُس حوالے سے مصطفی کمال الطاف حسین بننے سے پہلے ہی الطاف حسین بن جائیں گے۔ مصطفی کمال کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ الطاف حسین نے جب بھارت میں کھڑے ہو کر قیام پاکستان کو بہت بڑی غلطی قرار دیا تھا اور پاکستانی سفارت خانہ ان کے ایسے بیانات اور ایسی حرکتوں پر ماتم کناں تھا‘ تب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور اُسی شام پاکستانی سفارت خانے کی گردن پر پائوں رکھ کر اس حکومت نے سفارت خانے کو مجبور کیا تھا کہ جس پاکستان کے قیام کو الطاف حسین غلطی قرار دے رہے تھے‘ اسی پاکستان کے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اُسی الطاف حسین کو اُسی دن عشائیہ دیا جائے! اور عشائیہ دیا گیا جس ملک نے جنرل مشرف صاحب کو اقتدار دیا تھا‘ عزت دی تھی‘ اُس ملک کے خلاف الطاف حسین نے دشمن ملک بھارت میں ہرزہ سرائی کی اور دل کھول کر کی مگر جنرل صاحب کو اس کا اتنا بھی افسوس نہ ہوا جتنا دور کے کسی رشتہ دار کو کسی کے برا بھلا کہنے سے ہوتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف صاحب کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ ہمارے دوست خالد مسعود خان نے اپنے 23 مارچ کے کالم میں اس کی تفصیلات پھر شائع کی ہیں۔ چھ مختلف اکائونٹس میں کل رقم ایک ارب اسی کروڑ روپے جمع ہے! کیا یہ مناسب نہیں کہ مصطفی کمال ان تخمینوں ان پیشین گویوں اور ان خدشوں کا سدباب کرنے کے لیے ایک وضاحت نما اعلان جاری کریں کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے قافلے کے نقیب نہیں! ورنہ ان جیسے ذہین شخص کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہزار ہو یا لاکھ‘ صفر سے ضرب کھا کر صفر ہو جاتا ہے۔

Wednesday, March 23, 2016

سہسرام اور دہلی کے لیے ویزے

حافظ آباد میں وہی کچھ ہوا جو قصور میں ہوا! چھ ماہ گزر گئے۔ اگر وزیر اعلیٰ کسی سسٹم کو رائج کرتے یا رائج ہونے دیتے، تو حافظ آباد میں وہ کچھ نہ ہوتا جو قصور میں ہوا تھا۔
قصور میں کیا ہوا تھا؟ یہ گزشتہ اکتوبر کی بات ہے۔ وزیر اعلیٰ ’’اچانک‘‘ قصور پہنچے۔ انہوں نے قصور کے سرکاری ہسپتال کا دورہ کیا۔ صفائی کا حال برا تھا۔ بیت الخلا غلاظت سے بھرے تھے۔ پانی میسر تھا نہ روشنی کا انتظام تھا۔ بستروں کی چادریں گندی تھیں۔ ادویات عدم دستیاب تھیں۔ وزیر اعلیٰ نے ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کی اور پھر اپنے مخصوص خطیبانہ انداز میں میڈیا سے کہا کہ دکھی انسانیت کی خدمت نہ کرنے والوں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔
چھ ماہ گزر گئے۔ ہسپتالوں میں صورتِ حال کس درجہ بہتر ہوئی؟ ایک فی صد بھی نہیں۔ اس لیے کہ وزیر اعلیٰ کسی سسٹم کسی نظام پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کی کتاب میں کسی وزیر صحت اور کسی سیکرٹری صحت کے لیے کوئی صفحہ، کوئی پیراگراف نہیں۔ آپ یقینا ہر روز اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کیا آپ کو رانا ثناء اللہ کے علاوہ دوسرے صوبائی وزیروں کے نام یا ان کی وزارتوں کا علم ہے؟ صوبائی وزیر صحت کون ہے؟ کوئی ہے بھی یا نہیں؟
پرسوں وزیر اعلیٰ نے ڈسٹرکٹ ہسپتال حافظ آباد کا دورہ کیا۔ جو فلم قصور میں چلی تھی منظر بہ منظر، لفظ بہ لفظ دوبارہ چلی۔ ہسپتال کی وہی حالتِ زار۔ محکمے کی وہی نا اہلی! وزیر اعلیٰ کے وہی عزائم! وہی خطابت اور سسٹم کا وہی عدم وجود!
٭…مریضوں کی جانب سے مفت ادویات نہ ملنے کا وزیر اعلیٰ نے نوٹس لیا! اور ہدایت کی کہ مفت ادویات ہر صورت مریضوں تک پہنچنی چاہئیں۔
٭…پانی کی عدم دستیابی کا ’’سخت‘‘ نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ پانی کی فی الفور دستیابی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ 
٭…سٹاک رجسٹر مرتب نہ کرنے پر وزیر اعلیٰ نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ ڈی سی او گوجرانوالہ اپنی نگرانی میں ادویات کے سٹاک کو چیک کر کے مکمل رپورٹ پیش کریں۔
٭… ہسپتال کے بیت الخلا میں گندگی اور پانی اور روشنیوں کی عدم دستیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کی۔
٭… بستروں کی چادریں خراب تھیں۔ اس پر بھی وزیر اعلیٰ نے برہمی کا اظہار کیا۔
برہمی! نوٹس! ہدایات! دکھی انسانیت کی خدمت! کام نہ کرنے والوں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔
چار یا چھ ماہ بعد وزیر اعلیٰ پھر کسی ہسپتال کا ’’اچانک‘‘ دورہ کریں گے۔ جس خبر کو خوب خوب اچھالا جائے گا وہ وزیر اعلیٰ کا پروٹوکول کو خاطر میں نہ لانا اور عام وین میں سفر کرنا ہو گا۔ پھر وہی فلم چلے گی۔ بستروں کی گندگی چادریں۔ غلاظت بھرے بیت الخلا۔ لائٹس(روشنیاں) خراب! پانی کی عدم دستیابی! سٹاک رجسٹر نا مکمل! مفت دوائوں سے مریضوں کی محرومی! ڈی سی او کو ہدایت کہ ادویات کے سٹاک کو چیک کرے۔ ڈی سی او میں ہمت ہی نہیں کہ بتائے کہ جہاں پناہ! ہسپتال میں ادویات کے سٹاک کو چیک کرنا اس کی ذمہ داری ہی نہیں۔ اس کے لیے ایک اور چڑیا ہے جسے محکمۂ صحت کہا جاتا ہے۔
ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے یہ ہسپتال نجی ہیں۔ جناب شہباز شریف اِن نجی ہسپتالوں کے واحد مالک ہیں۔ انہوں نے ایک وزیر صحت رکھا ہوا ہے جسے تنخواہ دیتے ہیں۔ گاڑی اور کوٹھی بھی دی ہوئی ہے۔ سٹاف بھی مہیا کیا ہوا ہے۔ پھر ایک سیکرٹری صحت ہے۔ اسے گریڈ بائیس دیا ہوا ہے۔ تنخواہ مراعات کوٹھی گاڑی ڈرائیور پی اے، پی ایس سب دیئے ہوئے ہیں۔ ان سب کے اخراجات ان نجی ہسپتالوں کے مالک جناب شہباز شریف ادا کر رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے، تب بھی ان ہسپتالوں میں پانی اور روشنی نہ دکھائی دیتے، تب بھی ادویات مریضوں کی پہنچ سے دور ہوتیں؟ تب بھی بستروں کی چادریں گندی ہوتیں؟ تب بھی سٹاک رجسٹر ادھورے ہوتے؟
نہیں! کبھی نہیں! کیوں کہ اپنے نجی کاروبار کو میاں صاحب ایک سسٹم ایک نظام کے تحت چلا رہے ہیں! قصور کے واقعہ کے بعد وہ وزیر صحت اور سیکرٹری کو بلا کر کہتے کہ میں دس دن کے بعد کسی بھی ہسپتال کا دورہ کروں گا اور جو کچھ قصور میں دیکھ رہا ہوں، وہاں دیکھا تو پندرہ سیکنڈ کے اندر اندر فارغ کر دوں گا اور سامان سرکاری محل سے باہر پھینک دوں گا۔
اگر سسٹم ہوتا تو دورے کے موقع پر متعلقہ وزیر، چیف منسٹر کے ساتھ ہوتا! عملے کے سامنے اُس سے پوچھ گچھ ہوتی۔ اگر دورے کو خفیہ رکھنا ہے تو وزیر اور سیکرٹری کو نہ بتائیے کہ کہاں جا رہے ہیں۔ ان سے ان کے موبائل فون لے لیجیے تا کہ وہ ہسپتال میں کسی کو دورے کی اطلاع نہ دے سکیں۔ سب کچھ ہو سکتا ہے، مگر اپنا کاروبار اپنا کاروبار ہے۔ سرکاری کام سرکاری کام ہے۔ معصوم وزیر اعلیٰ کو یہ بتانے کی جرأت کون کرے کہ سر! یہ دکھی انسانیت والے بیانات کا طویل سلسلہ ختم کیجیے کہ انسانیت اگر دُکھی ہے تو اس کے پاس مزاحیہ پروگراموں کے لیے وقت اور دماغ کہاں؟
وزیر اعلیٰ عام وین کے بجائے پیدل آتے رہیں، گھوڑے پر یا تانگے پر تشریف لائیں، ڈی سی او کو الٹا لٹکا دیں، ہسپتال کے عملے پر برہمی کا اظہار ایک لاکھ بیس ہزار بار کریں، جب تک سسٹم نہیں بنے گا، نتیجہ صفر رہے گا۔ اس لیے کہ دنیا نے سینکڑوں ہزاروں برس کے تجربے کے بعد یہ سسٹم بنایا ہے۔ ایک تن تنہا وزیر اعلیٰ دس وزیروں کا کام کر ہی نہیں سکتا۔ 
یہی وجہ ہے کہ عشروں پر عشرے گزر گئے۔ وزیر اعلیٰ دہائیوں سے صوبے کے حکمران ہیں مگر تھانہ کلچر، کچہری کلچر، پٹوار کلچر سب جیسے تھے، ویسے ہی ہیں۔تھانوں کا عملہ کار چوروں سے ملا ہوا ہے۔ اغوا برائے تاوان انڈسٹری بن چکی ہے۔ صوبے میں لاکھوں(اب تو کروڑوں ہوں گے) غیر ملکی، جائیدادیں خرید کر آباد ہو رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے پاس ان کے اعداد و شمار ہی نہیں! سسٹم بنائیے! سسٹم! جہاں پناہ! نظام بنائیے! آزاد، غیر سرکاری میڈیا کو ہسپتال کا دورہ کرائیے اور پھر وزیر صحت کو سامنے کھڑا کر کے پوچھیے کہ ادویات کہاں ہیں؟ روشنی کیوں نہیں؟ وزیر سے کہیے کہ اپنی نگرانی میں ٹوائلٹ صاف کروائے، بستروں کی چادریں پاس کھڑا ہو کر بدلوائے، یہ نہیں کریں گے تو چھ ماہ بعد ایک اور ہسپتال میں یہی کچھ ہو گا جو قصور اور حافظ آباد میں ہوا۔
کیا آپ کے علم میں ہے کہ رہتاس کا ایک قلعہ جہلم کے علاوہ بھی موجود ہے؟ یہ بھارت کی ریاست بہار کے شہر سہسرام میں ہے۔ پاکستانی قلعہ رہتاس کی طرح بھارتی رہتاس کا یہ قلعہ بھی شیر شاہ سوری ہی نے بنوا دیا تھا۔ مخیر پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ اپنے ہم وطنوں کا ایک وفد لے کر سہسرام شیر شاہ سوری کے مزار پر حاضر ہوں(اگراس کالم نگار کو بھی وفد میں شامل کیا جائے تو دعا دے گا)۔ اُس کے مزار پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے اسے اُٹھنے کا کہیں کہ آ کر پاکستان میں ڈاکوئوں کا خاتمہ کرے۔ کل وفاقی دارالحکومت میں واقع ایک سرکاری بینک سے ڈاکو ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے لوٹ کر لے گئے۔ اس واردات کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ ہوائی فائرنگ کے خوف سے بینک میں موجود خواتین اور بچے بے ہوش ہو گئے۔ بینک سے نکلتے ہوئے ڈاکوئوں نے ایک شخص کو بندوق کا بٹ مار کر زخمی کر دیا۔ چار اور ڈاکوئوں نے حضرو سے راولپنڈی آنے والے منی چینجر سے دوکروڑ کی کرنسی چھین لی۔ پنجاب میں اس قبیل کی وارداتیں اس قدر عام ہو چکی ہیں کہ ان خبروں کو لوگ اخبارات میں پڑھتے ہیں نہ ٹی وی چینلوں پر سنتے ہیں۔
ہو سکتا ہے شیرشاہ سوری چیخ پکار کو کوئی اہمیت نہ دے اور ہمارے شاہی خاندان کے اسلوبِ حکمرانی کے بارے میں مشکل سوال پوچھنا شروع کر دے۔ ایسی صورت میں وفد کو چاہیے کہ نا امید نہ ہو۔ بہار سے سیدھے دہلی چلے آئیں۔ دہلی کے علاقے مہرالی میں ایک قطب کمپلیکس ہے۔ قطب مینار اور مسجد قوت الاسلام بھی(جو اصل میں قبتہ الاسلام تھی) یہیں ہیں۔ قطب کمپلیکس کی پشت پر سلطان علائو الدین خلجی کا مقبرہ ہے۔ سنا ہے کہ سلطان بھی ڈاکوئوں کے خاتمہ کو پل اور شاہراہیں بنانے سے زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ وفد پر لازم ہے کہ سلطان علائو الدین خلجی کے مزار پر روئیں گڑ گڑائیں اور اُس سے اپیل کریں کہ اُٹھے اور ایک بار آ کر مملکت خداداد میں ڈاکوئوں کا خاتمہ کرے۔ اس کالم نگار کو یقین ہے کہ عورتوں اور بچوں کے بے ہوش ہو جانے اور بندوق کے بٹ سے معصوم شہریوں کے زخمی ہو جانے کی خبر سن کر سلطان بے چین ہو جائے گا۔ یہ بادشاہ بھی عجیب تھے۔ قسم کھا لیتے تھے کہ جب تک قاتل یا ڈاکو کو نہیں پکڑیں گے، پانی نہیں پئیں گے۔ نیند اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے۔ زمین پر سونا شروع کر دیتے تھے۔ متعلقہ وزیروں کو پھانسی پر چڑھا دیتے تھے۔
قارئین دعا کریں کہ وفد کو سہسرام اور دہلی کے ویزے مل جائیں۔

Monday, March 21, 2016

حرف اُس شے کے تین ہیں

زیادہ مدت نہیں گزری جب عبدالستار ایدھی شدید بیماری کی وجہ سے ہسپتال داخل ہوئے۔ سوشل میڈیا پر جیسے طوفان آ گیا۔ ہر شخص تشویش کا اظہار کر رہا تھا۔ مرد بھی‘ عورتیں بھی‘ بچے بھی‘ بوڑھے بھی۔انہی دنوں ان کی وفات کی خبر اُڑ گئی۔
جلد ہی اس کی تردید کر دی گئی مگر اس تھوڑے سے وقت میں جیسے قیامتیں گزر گئیں۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ ہاتھ دعائوں کے لیے اُٹھ گئے۔ آنکھیں آنسوئوں سے چھلکنے لگیں۔ 
اور اس شخص کی حیثیت کیا ہے؟ ملیشیا کی قمیض‘ اسی رنگ کا پاجامہ‘ اس لباس کی قیمت شاید ہزار پندرہ سو سے زیادہ نہ ہو۔ سر پر ایک عام سی ٹوپی! سائیدوں سے مُڑی تڑی ہوئی! لمبی داڑھی! ڈیزائنر سوٹ‘ نہ آگے پیچھے گاڑیاں‘ نہ ڈیفنس میں ‘نہ باتھ آئی لینڈ میں محل‘ نہ پرسنل سٹاف‘ نہ غیر ملکی دورے‘ نہ ڈنر‘ نہ عصرانے‘ نہ پریس کانفرنس‘ کچھ بھی نہیں۔ مگر ایدھی دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ آج اگر عبدالستار ایدھی یہ اعلان کر دے کہ سب لوگ مال روڈ لاہور یا ڈی چوک اسلام آباد پر جمع ہو جائیں کہ اس نے وہاں ایک ضروری اعلان کرنا ہے تو اُس خدا کی قسم! جس نے عزت اور ذلت کے حقیقی معیار قائم کر رکھے ہیں‘ اتنا بڑا مجمع جمع ہو جائے کہ ریاستی ادارے حواس کھو بیٹھیں! 
یوں تو ایدھی صاحب کو کئی بار دیکھا مگر ایک منظر نہیں بھولتا۔ گھر والوں نے کچھ ملبوسات دیے کہ ایدھی سنٹر پہنچانے ہیں۔ اُن دنوں آئی ایٹ کی سرکاری رہائش گاہ میں قیام تھا۔ وہاں سے ایدھی سینٹر نزدیک تھا۔ کپڑوں کی گٹھڑی لے کر اندر گیا۔ ایک طرف صحن میں کرسی پر ایدھی صاحب تشریف فرما تھے۔ تن تنہا‘ سٹاف کے گنتی کے چند افراد اندر کمرے میں تھے۔ کس ادائے بے نیازی سے اور کس عافیت میں یہ شخص بیٹھا تھا۔ چوکیدار تھا‘ نہ گارڈ‘ پی اے تھا‘ نہ کوئی معاون۔سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ یوں لگا جیسے وقت کوئی اور ہو! کسی اور زمانے میں! مقام کوئی اور جیسے آسمانوں میں!
حکیم سعید صاحب کی مثال لیجیے‘ کروفر نہ ہٹو بچو کی صدائیں! امریکہ گئے تو جوتا تکلیف دے رہا تھا۔ نیا خریدنا چاہا۔ قیمت سو ڈالر بتائی گئی۔ انکار کر دیا۔ کہا یہ سو ڈالر ہمدرد کے ادارے کو کیوں نہ دوں۔ جوتے کے اندر روئی رکھ لی تاکہ تکلیف کم ہو جائے۔ ایک وقت کا کھانا!! ہر پیر کے دن روزہ!! چاہتے تو واشنگٹن سے لے کر دبئی تک‘ لندن سے لے کر کراچی تک محلات کے‘ ہوٹلوں کے‘ پلازوں کے‘ کارخانوں کے ڈھیر لگا سکتے تھے۔ مگر بنائی تو یونیورسٹی بنائی‘ بنایا تو مدینۃ الحکمت بنایا۔ بنائے تو شفاخانے بنائے۔ پھر جب شہید کیا گیا تو کون سی آنکھ تھی جو آنسوئوں سے چھلک نہ اٹھی‘ کون سے ہونٹ تھے جنہوں نے قاتلوں کے لیے بددعا نہ کی۔ قتل کرانے والوں اور کرنے والوں کے گروہ میں بھی ایسے لوگ تھے جو اس قتل پر دل گرفتہ ہوئے۔ دل کہتا ہے یہ قتل اُن رازوں میں سے ہے جو اسی دنیا میں طشت ازبام ہوتے ہیں اور ضرور ہوتے ہیں۔ دستاویزی ثبوت کچھ منظر عام پر آ چکا ہے۔ باقی بھی آئے گا۔ مگر اس قتل کا سراغ آج کا موضوع نہیں!
نوّے کا عشرہ شروع ہو رہا تھا۔ شاید اسّی کے عشرے کے اواخر تھے۔ ’’ہمدرد‘‘ نے دارالحکومت میں ’’ایک مہینہ ایک شاعر‘‘ کے پروگرام ترتیب دیے ۔ہر ماہ ایک شاعر کے ساتھ شام منائی جاتی تھی۔ سال بھر یہ تقریبات جاری رہیں۔ ان بارہ شعرا ء میں یہ کالم نگار بھی تھا۔ حکیم صاحب نے اپنے دست مبارک سے کلائی کی گھڑی انعام میں دی۔ ایک عام سی گھڑی‘ چند ہزار روپوں کی! ہو سکتا ہے اُس وقت چند سو کی ہو۔ مگر کیا افتخار ہے جو اس گھڑی کے ساتھ وابستہ ہے!  ع
میں تخت زر کے عوض کاسئہ گدائی نہ دوں
کتنی ہی قیمتی گھڑیاں ملیں‘ مگر جو احساس امارت یہ گھڑی باندھ کر ہوتا ہے‘ تین کروڑ روپے کی گھڑی باندھنے والے حکمرانوں کو کیا ہوتا ہو گا؟  ع
تو چہ دانی کہ درین گرد سواری باشد!
تجھے کیا پتہ کے اس گرد سے سوار بھی ظاہر ہوتا ہے!
ان شخصیات کے مقابلے میں صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کو دیکھیے! عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج کے سربراہ رہے‘ تقریباً ایک عشرے تک ملک کے سیاہ و سفید کے حکمران رہے۔ ایسے حکمران کہ سیاست دان دس دس بار منتخب کرانے کا اعلان کراتے تھے۔ راولپنڈی کے ایک صاحب سید کا لاحقہ لگائے بغیر ان کا نام نہیں لیتے تھے۔ ہو سکتا ہے وضو بھی کرتے ہوں۔ مگر دو 
دن پیشتر گئے تو کتنے دل رنجیدہ ہوئے؟ کتنی آنکھیں اشکبار ہوئیں؟ کتنی جھولیاں ان کی خیریت کے لیے آسمان کی طرف بلند ہوئیں؟ کتنے ہونٹ دعا کے لیے کپکپائے؟ بائیس کروڑ افراد کے دلوں کو چیر کر دیکھا جائے تو اُس خدا کی قسم! جس نے ایدھی اور حکیم سعید جیسے تہی دست فقیروں کی محبت کروڑوں دلوں میں انبار کر رکھی ہے! شاید ہی کسی دل میں پرویز مشرف کے لیے وہ جذبات ہوں جنہیں قابل رشک کہا جا سکتا ہے!
اور کروفر دیکھیے! گئے تو گاڑیوں کے جلوس میں‘ وہاں اُترے تو آگے پھر گاڑیوں کی قطاریں! گئے تو محل سے گئے۔ پہنچے تو وہاں ایک اور محل حاضر تھا! تازہ ترین تصویر میں سگریٹ ہونٹوں سے لگا رکھا ہے۔ غلام سلگا رہا ہے! روایات تواتر کے ساتھ بتاتی ہیں کہ کنالی کے سوٹ پہنتے ہیں جن کی قیمت ایک لاکھ روپے سے آغاز ہوتی ہے۔ اگر اس سے بھی گراں تر سوٹ پہنتے ہیں تو اِس پینڈو کالم نگار کو اس برانڈ کا کیا علم! ایک بار میڈیا نے خبر دی کہ پشاور سے آٹھ یا بارہ جوڑے پشاوری چپلوں کے کراچی منگوائے۔ دارالحکومت میں فارم ایسا کہ ڈیوڈ کیمرون اور اوباما خواب میں بھی نہ سوچ سکیں! سارے حکومتی ادارے‘ تمام ریاستی شعبے‘ حفاظت کے لیے کمربستہ! کوئی عامی پہنچنے کا تصّور بھی نہ کر سکے!
مگر حیف! صد حیف! 
مگر افسوس! ہزار افسوس!
مگر ہیہات! ہیہات! یہ سب کروفر‘ یہ سارا شاہانہ ٹھاٹھ! ایک شے نہیں دلا سکتا۔ حرف اُس شے کے تین ہیں! پہلا حرف عین ہے۔ جس کے نیچے زیر ہے! دوسرا حرف زے ہے۔ جس پر تشدید ہے! تیسرا حرف تے ہے! پرویز مشرف اگر خلق خدا کے سامنے مریخ سے طلسمی زینے پر اتریں‘ پرویز مشرف اگر بحرہند چل کر عبور کر لیں ‘پرویز مشرف اگر چشم زدن میں ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ جائیں تب بھی اُس عزت کا جو ایدھی اور حکیم سعید جیسی شخصیات کو میسر ہے‘ عشرعشیر بھی ان کے بخت کے تھیلے میں نہیں پڑ سکتا!
تضحیک! ایسی ویسی تضحیک؟ کوئی کہہ رہا ہے اڑان بھر لی! کوئی لکھتا ہے اُڑن چُھو ہو گئے۔ کہیں لکھا ہے پہنچتے ہی میڈیکل اپوائنٹ منٹ منسوخ کر دی! تصویر میں سگریٹ سلگایا جا رہا ہے‘ نیچے لکھا ہے ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے!! وہاں سے بیان جاری کیا ہے کہ واپس آ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ کوئی ہے جو ہنس نہیں رہا؟
خلق خدا غریب ہے مگر بے وقوف نہیں! مجبور ہے مگر کند ذہن نہیں! بدعنوان ٹولوں کی گرفت میں بے بس ہے مگر اندھی نہیں! پس جو عزت چاہتا ہے‘ ایدھی کو دیکھ لے‘ حکیم سعید کی مقبولیت پر غور کر لے‘ بھارت میں عبدالکلام کی ہر دلعزیزی کا سوچ لے پھر جنرل پرویز مشرف جیسے طاقتوروں اور گردن بلندوں کی شہرت و عزت بھی دیکھ لے! شاہی مسجد کے ایک طرف اُس اقبال کے مزار پر آنے والوں کی تعداد پر غور کر لے جو پوری زندگی صوفوں پر نئی پوشش نہ افورڈ کر سکا اور شاہی مسجد کے دوسری طرف اُس سکندر حیات کا مقبرہ بھی دیکھ لے جس کا طرّہ فلک کے رُخ پر تھا اور سلطنت برطانیہ جس کی مٹھی میں تھی!
اپنا اپنا چوائس ہے! اپنا اپنا انتخاب!

Saturday, March 19, 2016

عورت بو!عورت بو

تو پھر شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی نے کیا سمجھ رکھا تھا کہ اسلام کے محافظ ختم ہو گئے؟
نہیں! واللہ! نہیں! اسلام کے محافظ زندہ ہیں۔ جب تک یہ محافظین اسلام زندہ ہیں‘ عورت اس ملک میں‘ اپنی اوقات میں رہے گی!   ؎
وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ
سر بکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے
اسلام اس وقت دنیا میں ہے بھی کہاں؟ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں جو نہیں جانتے کان کھول کر سُن لیں کہ اسلام… اصل اسلام۔ اس وقت صرف دو ملکوں میں ہے۔ پاکستان اور افغانستان! الحمد للہ! پاکستان اور افغانستان کے علماء اور فقہا ء اس اصل اسلام کے محافظ ہیں! باری علیگ نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’کمپنی کی حکومت‘‘ میں لکھا ہے کہ گزشتہ صدی کے اوائل میں جب دارالکفر اور دارالحرب کا مسئلہ کھڑا ہوا تو بہت سے ہندوستانی مسلمانوں نے ہجرت کرتے ہوئے افغانستان کا رُخ کیا۔ انہی میں سے ایک گروہ جلال آباد کی ایک مسجد میں بیٹھا تھا ۔اکثر حضرات قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ اتنے میں مقامی معززین تشریف لائے۔راوی کو یہ یاد نہیں کہ باری علیگ نے مقامی معززین میں علما ء کا ذکر بھی کیا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس کتاب کو پڑھے ہوئے چالیس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا۔مسجد میں مقیم مہاجرین سے انہوں نے گفتگو شروع کی۔ مہاجرین نے بتایا کہ پشتو نہیں جانتے ۔ اس پر معززین برافروختہ ہو گئے اور کہا ’’اگر پشتو نہیں جانتے تو قرآن کس طرح پڑھ رہے ہیں‘‘۔ تو اصل اسلام وہی ہے جو افغانستان میں رائج ہے۔ اور افغانستان کے فیض سے وہی اصل اسلام پاکستان میں بھی رائج ہے کیونکہ مدرسہ اسلام آباد میں ہو یا لاہور میں یا کراچی میں یا جہاں بھی ہو‘ ڈانڈے پڑھنے والوں اور پڑھانے والوں کے افغانستان ہی سے جا ملتے ہیں۔ اہلِ علم کو یہ بھی معلوم ہے کہ مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم کے فرزند جسٹس تقی عثمانی نے ایک طویل عرصہ اسلامی بنکاری کے حوالے سے تحقیق و جستجو میں گزار کر اجتہاد کا ایک دروازہ کھولا۔ یہ ایک مسلسل عمل تھا جس میں غلطیوں کا امکان بھی تھا مگر اجتہاد میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ جسٹس تقی عثمانی صاحب نے اُن مسلمانوں کو ایک راستہ دکھایا جو عام بنکوں میں رقم رکھنے یا ان سے قرض لینے سے اجتناب کر رہے تھے۔مگر ایک گروہ نے اس سارے عمل کی مخالفت کی۔ اس گروہ کے ڈانڈے بھی مبینہ طور پر وہیں سے ملتے ہیں جہاں اصل اسلام کا مرکز ہے!
افغانستان اور پاکستان میں رائج اصل اسلام ہی کا فیض ہے کہ عورتیں یہاں اپنی اوقات میں ہیں! مثلاً اِن دو ملکوں کی مسجدوں میں عورتوں کے داخل ہونے اور نماز ادا کرنے کا تصور ہے نہ اجازت!پشاور سے روانہ ہوں اور جی ٹی روڈ کے راستے لاہور کا رُخ کریں۔ سارے راستے میں اگر عورت کے لیے کسی مسجد میں وضو کرنا اور نماز پڑھنا ممکن ہو تو اطلاع دیجیے۔ یہ ’’غیر اسلامی‘‘ حرکت انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ ترکی‘ مراکش اور سارے عرب ملکوں میں ہو رہی ہے۔ خواتین پانچ وقت کی نمازیں مسجدوں میں ادا کر رہی ہیں! الحمد للہ اِس حرکت سے پاکستان اور افغانستان بچے ہوئے ہیں‘ موٹر وے پر جو مسجدیں بنی ہوئی ہیں ان میں خواتین کے نماز پڑھنے کی سہولت موجود ہے۔ دینی رہنمائوں کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ آئندہ اجتماع میں‘ حقوق نسواں بل کے علاوہ اِس طرف بھی توجہ مبذول فرمائیں۔ اگر موٹر وے پر بنی ہوئی مسجدوں میں خواتین کے نماز پڑھنے کا رواج‘ پورے ملک میں پھیل گیا تو ہم کل روزِ حشر کیا جواب دیں گے۔ مراکش‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ کویت ‘ قطر‘ انڈونیشیا ‘ ملائشیا اور برونائی کے 
علما ء وہاں ہماری کچھ مدد نہیں کر سکیں گے!
الحمد للہ ! ہمارے کئی دینی مدارس خواتین طالبات اور خواتین اساتذہ سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ازروئے حدیث علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے مگر اس کا اطلاق ہماری دینی درسگاہوں پر نہیں ہوتا۔ دین کا علم حاصل کرنا صرف مرد ہی کو زیب دیتا ہے!
اس میں کیا شک ہے کہ مرد ہی سب کچھ ہے۔ مرد ہی آقا ہے۔ مرد ہی مالک و مختار ہے۔ چاہے تو گھر سے نکلتے وقت باہر کنڈی لگاتا جائے کہ عورت کہیں باہر نہ نکل جائے۔ ابھی چند عشرے پہلے ہی تو یہ فرمایا جاتا تھا کہ عورتوں کو پڑھنا سکھائو مگر لکھنا نہ سکھائو کہ لکھنا سیکھ گئیں تو پڑوس کے نامحرم مردوں سے خط و کتابت شروع کر دیں گی۔ چنانچہ برصغیر میں جو مسلمان خواتین گزشتہ صدی کے پہلے تین عشروں کے دوران پیدا ہوئیں ان کی اکثریت لکھنے سے نابلد تھی! افسوس! اب یہ احتیاط نہیں کی جا رہی! عورت کا کیا اعتبار! عورت پر شک کرنا اسلام کی اصل روح ہے! عورت ذات پر اعتبار جس نے بھی کیا‘ گھاٹے میں رہا!
مذہبی جماعتوں کے اجتماع میں جو ڈیڈ لائن پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو دی گئی ہے‘ ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ کچھ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن پر عمل کر کے مذہبی جماعتوں کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔
… جیسا کہ مطالبہ کیا گیا ہے وزیر اعلیٰ معافی مانگیں اور حلف اٹھا کر عہد کریں کہ آئندہ خواتین کے حق میں کچھ کرنا تو دور کی بات ہے‘ سوچیں گے بھی نہیں! اِس بار انہیں معاف کیا جائے کیونکہ اسلام کی ساری ٹھیکیداری انہی حضرات کے قبضے میں ہے جو وزیر اعلیٰ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
… جس صوبائی اسمبلی میں حقوق نسواں کا بل پاس ہوا‘ اُسے تحلیل کر دیا جائے۔ ان ارکان کو دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت دینا ایک غیر اسلامی فعل ہو گا۔
جو حضرات یہ پوچھ رہے ہیں کہ حقوق نسواں بل کی کون سی شق غیر اسلامی ہے اور قرآن و حدیث کے کس حکم کی خلاف ورزی ہے‘ انہیں فی الفور گرفتار کیا جائے۔ اِن عاقبت نااندیشوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ہمارے سیاسی علماء نے کہہ دیا ہے کہ یہ قرآن و حدیث سے متصادم ہے تو یہ حرفِ آخر ہے!
… دینی جماعتوں کے سربراہان جو اب بار بار کہہ رہے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو حقوق پہلے ہی دے رکھے ہیں‘ انہیں اِس بات پر تمغے دینے چاہئیں کہ انہوں نے ونی‘ اسوارہ‘ کاروکاری‘ غیرت کے نام پر قتل‘ قرآن سے شادی اور پنچایتوں میں عورت کے ساتھ ہونے والی وحشت و بربریت کے خلاف ایک لفظ… جی ہاں… ایک لفظ بھی آج تک نہیں کہا۔ اس مستقل مزاجی اور مستقل عورت دشمنی پر لازم ہے کہ قوم اِن علماء کرام کو سلیوٹ کرے۔
افغانستان میں رائج شٹل کاک(ٹوپی والا برقع) حکماً پورے ملک میں نافذ کیا جائے۔
…خواتین کے سکول کالج اور یونیورسٹیاں بشمول میڈیکل کالج فوراً بند کر دیے جائیں۔
… جب خواتین ڈاکٹر اور نرسیں ناپید ہوجائیں تو مرد ڈاکٹروں کے پاس جانے والی مریض اور حاملہ عورتوں کو گولی مار دی جائے۔
… تاریخ کی کتابوں سے حضرت نفیسہ بنت حسن‘ شفا بنت عبداللہ‘ رفیدہ اسلمیہ اور اس قبیل کی دیگر خواتین کے اسماء گرامی کھرچ دیے جائیں تاکہ ہمارے اصل اسلام کو نقصان نہ پہنچے۔ حضرت رفیدہ اسلمیہ(انصاریہ بھی کہلاتی تھیں)سرجن تھیں۔ وہ اپنے خیمے میں زخمیوں اور بیماروں کا علاج فرماتی تھیں۔ جنگ خندق میں حضرت سعد بن معاذؓ زخمی ہوئے تو آقائے دو جہاںؐ نے انہیں حضرت رفیدہ کے خیمے ہی میں رکھنے کا حکم دیا۔ حضرت شفابنت عبداللہ کو حضرت عمر فاروق  ؓنے مدینہ کے بازار کا انسپکٹر مقرر کیا۔ وہ ڈیوٹی بازار ہی میں سرانجام دیتیں! حضرت نفیسہ بنت حسن ؓ ‘حضرت حسن بن زیدؓ کی صاحبزادی تھیں۔ امام شافعی ان کی خدمت میں طلبِ علم کے لیے حاضری دیتے رہے۔ روایات میں یہ بھی ہے کہ آپ نے حضرت نفیسہ ؓسے احادیث کی سماعت فرمائی۔ امام شافعی نے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ حضرت نفیسہؓ کے مکان کے سامنے سے گزارا جائے۔
…لوگوں کو یہ بتانے سے احتراز کیا جائے کہ سرورِ کونینؐ گھر کے کاموں میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ جوتے مرمت کرتے تھے۔ گھر کی صفائی فرماتے تھے۔ کپڑے دھوتے تھے۔ کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے یعنی سلائی کا کام بھی سرانجام فرماتے تھے۔ اِن باتوں سے اُس اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ ہمارے ہاں یہ سارے کام صرف اور صرف عورت ہی کرتی ہے۔ اور اسے ہی کرنے ہوں گے۔
…عورتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک الگ وزارت تشکیل دی جائے۔ مذہبی جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل ایک بورڈ اِس وزارت کا انچارج ہو۔ وزیر اعظم وقتاً فوقتاً اِس بورڈ کی خدمت میں حاضر ہوا کریں۔ پوری قوم اِس بورڈ کو اسلام کا اجارہ دار سمجھے۔

Friday, March 18, 2016

خدا ہے کہ نہیں ہے؟

وکڑکراسنوف کا جرم کیا تھا؟ اگر وہ امریکہ میں ہوتا یا مغربی یورپ کے کسی ملک میں‘ تو یہ جرم‘ جرم نہ ہوتا۔ اسے گرفتار کرنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا۔مگر یہ روس تھا! لینن‘ سٹالن اور خروشچیف کا روس! جہاں سٹالن نے کہا تھا۔ ’’ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کو زمین سے اور خدا کو آسمان سے نکال باہر کیا ہے۔‘‘جہاں لینن نے کہا تھا۔ ’’مذہب لوگوں کی افیون ہے! مارکس کا یہ قول مذہب کے بارے میں ہمارے نظریے کی بنیاد ہے!‘‘
جہاں مذہبی بنیاد پر مارے جانے والے عیسائیوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ اور دو کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ کمیونسٹوں کا انقلاب آیا تو مذہب کی مخالفت اس انقلاب کا ضروری جزو تھا۔ پہلا رسالہ جو اس سلسلے میں جاری کیا گیا اس کا عنوان ’’انقلاب اور چرچ‘‘ تھا۔ اندازہ یہی لگایا گیا تھا کہ مذہب ختم ہو جائے گا اور بہت جلد مذہب کی جگہ الحاد لے لے گا۔ مگر جلد ہی معلوم ہو گیا کہ مذہب خودبخود ختم ہونے والا نہیں۔ ریاست کو اس کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ 1921ء کے عشرے میں یوکرائن میں 28 بشپ اور پونے سات ہزار پادریوں کو قتل کیا گیا۔ 1935ء تک ایک لاکھ تیس ہزار پادری گرفتار کیے جا چکے تھے۔ ان میں سے پچانوے ہزار کو گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے کھڑا کرکے مار دیا گیا۔ اس اثنا میں روس میں قحط پڑا تو ریاست نے چرچ کی دولت اور جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی پالیسی اپنائی‘ مذہبی رہنمائوں نے مزاحمت کی۔ ہزاروں پادری اس مزاحمت میں مارے گئے۔ 1940ء تک آرتھوڈکس چرچ تیس ہزار سے کم ہوکر صرف پانچ سو رہ گئے۔ سالہا سال کی کوششوں کے بعد بھی سرکاری اعدادوشمار میں اعتراف کرنا پڑا کہ ایک تہائی شہری اور دوتہائی دیہاتی آبادی اب بھی مذہب کے ’’شکنجے‘‘ میں ہے! ہاں! یہ ضرور ہوا تھا کہ قیدوبند اور قتل و غارت کی سرکاری پالیسی کے ڈر سے پبلک اجتماعات میں مذہب کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔ تمام مذہبی سرگرمیاں چھپ کر انجام دی جاتی تھیں یا چار دیواریوں کے اندر!
منافقت کا یہ عالم تھا کہ 1941ء میں ہٹلر نے حملہ کیا تو سٹالن نے مذہب کو ختم کرنے کی پالیسی میں یوٹرن لیا۔ جو چرچ حکماً بند کر دیے گئے تھے‘ کھلنے لگے۔ اب عوامی حمایت کی ضرورت تھی! اور عوامی حمایت کے لیے پادریوں اور گرجائوں کی اہمیت سے انکار ناممکن تھا! مگر جیسے ہی جرمن واپس ہوئے‘ مذہب کے خلاف مہم دوبارہ شروع ہوگئی۔ یوکرائن سے سینکڑوں پادری گرفتار کرکے سائبیریا کے لیبر کیمپوں میں بھیج دیے گئے۔
پھر خروشچیف کا عہد شروع ہوا۔ 1959ء سے 1964ء تک کے پانچ برسوں کے درمیان پندرہ ہزار چرچ مقفل کیے گئے۔ خانقاہوں اور مسیحی مدرسوں کو ہزاروں کی تعداد میں بند کردیا گیا۔ شادیوں‘ جنازوں اور بپتسمہ کے لیے جو گھرانے پادریوں کو بلاتے تھے‘ ان کے نام ریکارڈ میں درج ہونا شروع ہوگئے۔ اس سے چاروں طرف خوف کی فضا پھیل گئی اور لوگ جان بچانے کے لیے مذہبی رسوم سے اجتناب برتنے لگے۔ پھر والدین سے بچوں کو مذہبی تعلیم دلانے کا حق قانوناً چھین لیا گیا۔ دہریت پر تنقید کرنے والے پادریوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ مذہب کے حوالے سے خیراتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ کچھ علاقوں میں ’’کام‘‘ کے دوران چرچ کی گھنٹیاں بجانے سے منع کردیا گیا۔ جرمنوں کے حملے کے بعد سٹالن نے چرچ کو جو آزادی دی تھی‘ خروشچیف نے اس کی خوب خوب مذمت کی۔
اس روداد سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ کمیونسٹ صرف عیسائی مذہب کے خلاف تھے۔ مسلمانوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ کریمیا‘ تاتارستان‘ چیچنیا اور دوسرے مسلمان علاقوں سے مسلمانوں کو نکال کر دور افتادہ مقامات پر بھیج دیا گیا۔ آج تاتاری مسلمان‘ تاتارستان میں کم اور تاتارستان سے باہر زیادہ ہیں۔ کریمیا کے مسلمان تیس ہزار کے قریب جلاوطنی کے دوران شہید ہوگئے۔ لاکھوں بیگار کیمپوں میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1922ء میں تاتاری مسلمانوں کے علاقوں میں قحط کی مصیبت آئی۔ اس قحط میں ریاست نے کوئی مثبت کردار ادا نہ کیا۔ قحط کے بعد تاتارستان‘ وولگا اور اورال کے علاقوں میں روسیوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہوگئی۔ تاتاری مسلمانوں کی عالمی تنظیم نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہوا ہے کہ 1922ء کے قحط کو مسلمانوں کی نسل کشی قرار دے کر اس کی مذمت کی جائے!
اس سارے پس منظر میں وکٹرکراسنوف کا جرم کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ اس نے انٹرنیٹ کی ایک بحث میں لکھا کہ ’’خدا نہیں ہے‘‘۔ ساتھ ہی اس نے بائبل کو یہودیوں کی گھڑی ہوئی پریوں کی کہانیوں کا مجموعہ قرار دیا۔ مذہبی جذبات مجروح کرنے کے جرم میں اسے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ ایک سال قید کی سزا ہو سکتی ہے یا تین لاکھ روبل جرمانہ!یہ بھی خدا ہی کی قدرت ہے کہ جس روس میں سٹالن نے خدا کو آسمان سے نکال دیا تھا اور خروشچیف اور برزنیف نے خدا کے وجود پر یقین رکھنے والوں کو دماغی مریض قرار دے کر پاگل خانوں میں بند کردیا تھا۔ اُس روس میں آج صدر پیوٹن مذہب کے دفاع میں آگے آگے ہیں! کریمیا پر قبضہ کرتے ہوئے پیوٹن نے اعلان کیا کہ ’’کریمیا ہی وہ جگہ ہے جہاں شہزادے ولادی میر کو بپتسمہ دیا گیا تھا۔ یہیں اس نے دقیانوسی عیسائیت (آرتھوڈکس) کو گلے لگایا تھا۔ اسی وجہ سے روس‘ یوکرائن اور بیلارس ایک رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔‘‘
اُسی روس کو آج پیوٹن نے مسیحی ملک قرار دیا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آج روس الزام لگا رہا ہے کہ امریکی مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دسمبر میں پیوٹن نے علی الاعلان کیا۔ ’’آج یورپی اور امریکی اپنی اصل سے یعنی عیسائی قدروں سے دور ہو رہے ہیں۔ ان ملکوں میں ایسی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں جن میں ہم جنسی کی شادی اور شیطان پر ایمان لانے کو باعزت خاندانوں اور خدا پر ایمان لانے کے برابر سمجھا جا رہا ہے! پھر جب کہا گیا کہ کیونسٹ لیڈروں نے خود ہی کریمیا کو یوکرائن کے حوالے کیا تھا تو پیوٹن نے ایک پادری کے لہجے میں جواب دیا کہ ان سے خدا حساب لے گا!
صرف یہی نہیں‘ 2013ء میں روسی حکومت نے ہم جنسی کے پروپیگنڈے اور حمل ضائع کرنے کے اشتہارات پر پابندی لگا دی۔ ماں کے پیٹ میں بچہ بارہ ہفتوں کا ہو جائے تو اسقاط سے منع کردیا۔ یعنی سارے کام جو پوپ صاحب نے کرنے تھے‘ بھائی پیوٹن کر رہے ہیں! سٹالن نے خدا کو آسمانوں سے نکال دیا تھا مگر آج روس کی زمین خدا کے ماننے والوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ روسی ‘امریکی معاشرے کے بگاڑ اور خاندانی انتشار کا مقابلہ کرنے کے لیے باہر نکل آئے ہیں۔ 2013ء کے دوران جن دس بہترین رجحانات کی عالمی فہرست بنائی گئی‘ اس میں سرفہرست روس میں خاندان پرستی کا رجحان تھا۔
روایت ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی ایک ملحد سے وجودِ باری تعالیٰ کے اثبات پر بحث طے ہوئی۔ امام صاحب تاخیر سے پہنچے۔ ملحد نے شکوہ کیا۔ امام صاحب نے کہا کہ دریا پار کرنا تھا۔ کوئی ذریعہ ہی نہیں تھا۔ کوئی کشتی تھی نہ ملاح نہ پُل! اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت نیچے آ رہا! پھر اس کی لکڑی خود ہی تختوں میں تبدیل ہونے لگی۔ پھر وہ تختے خودبخود جُڑنے لگے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے خودبخود کشتی بن گئی۔ میں اُسی کشتی سے دریا پار کرکے آیا ہوں۔ ملحد ہنسا اور کہنے لگا‘ امام صاحب! کیا کہہ رہے ہیں؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ اگر چھوٹی سی کشتی‘ بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتی‘ نہ ہی تم مان رہے ہو‘ تو پھر اتنی بڑی کائنات خالق کے بغیر کیسے بن سکتی ہے؟
نہیں معلوم! وہ ملحد ایمان لایا یا نہیں! مگر امام ابوحنیفہؒ نے اُس ملحد پر فتویٰ لگایا نہ اسے گردن زدنی قرار دیا‘ نہ ہی بحث کے لیے کلام پاک کی آیات پیش کیں کیونکہ کلام پاک کو وہ مانتا ہی نہیں تھا! امام صاحب نے عقلی دلائل دیے۔ بدقسمتی سے آج ہمارے مذہبی رہنما یا تو فتویٰ دینے پر اتر آتے ہیں یا نقلی دلائل دیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ عقلی دلائل دینے کے لیے جدید فلسفہ‘ تاریخ‘ فلکیات اور دیگر عصری علوم پر دسترس ضروری ہے۔
تاہم شعرا یہ کام کر رہے ہیں اور خوب کر رہے ہیں۔ جوش کا یہ شعر تو زبان زدِ خاص و عام ہے   ؎
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
عبدالحمید عدم نے تو عجیب و غریب نکتہ نکالا   ؎
انکار کس کا کرتے ہو تم وہ اگر نہیں
انکار جس کا کرتے ہو تم وہ خدا تو ہے!!
مقابلے کا امتحان جس زمانے میں پاس کرکے مرکزی ملازمت کا آغاز کیا‘ اُسی وقت سول سروسز کی تربیت کا ایک حصہ کراچی میں منعقد ہوتا تھا! ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے۔ دنیا سے رخصت ہو چکے اس لیے نام لینا مناسب نہیں! خدا ان کے ساتھ معاملہ نرم کرے اور انہیں عافیت اور بخشش نصیب ہو! خدا کے وجود کا انکار کرتے تھے اور بہت بحث کرتے تھے۔ سارتر سے لے کر برٹرنڈ رسل تک کے حوالے زبانی یاد تھے۔ اس اثنا میں 1971ء کی مشرقی پاکستان کی جنگ چھڑ گئی۔ ایک رات کراچی پر بمباری ہوئی۔ دوسرے دن دفتر پہنچے تو ان صاحب کے ساتھ‘ کمرے میں جو دوسرے رفیق کار رہ رہے تھے‘ ہنس ہنس کر بتا رہے تھے کہ سائرن بجتا تھا تو موصوف بلند آواز سے کلمہ پڑھ کر گڑگڑاتے تھے کہ ’’یااللہ بچا! میں خیریت سے گھر پہنچنا چاہتا ہوں!‘‘ ایک بار ان کی جیب سے چھوٹے سائز کا پنج سورہ بھی برآمد ہوا۔ معلوم ہوا کہ کسی انٹرویو کی ’’تیاری‘‘ کے لیے رکھا ہوا ہے! احسان دانش نے کہا تھا ؎
آ جائو گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے

Wednesday, March 16, 2016

کاغذ کے پھول

بھائی وسیم خان! تم کس ہوا میں تھے؟
تم بھول گئے تھے کہ یہ ملک، ملکِ پاکستان ہے! یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں۔ یہاں قانون کی نہیں، شخصیات کی حکمرانی ہے! یہاں آئین کی کتاب نہیں چلتی۔ یہاں ایک ہی کتاب کارفرما ہے جسے چیک بک کہتے ہیں!
تم کیا سمجھتے تھے کہ جس شہر کی امارت تمہیں سونپی گئی، اُس کی فلاح مقصود تھی؟ نہیں! یہاں مقصود فلاح و بہبود نہیں! یہاں امیرِ شہر کا کام ہے اپنی امارت کی حفاظت! اور حفاظت تب ممکن ہے جب اثر و رسوخ والے عمائدین سے بنا کر رکھی جائے! ہاں اگر پائوں کسی کی دم پر نہ آئے تو شہریوں کی فلاح و بہبود ہوتی رہے! مگر بھائی وسیم خان، یہ ممکن نہیں کہ کسی کی دُم پر پیر آئے اور چیخ و پکار نہ ہو اور بچائو بچائو کی چیخیں بلند نہ ہوں۔
ناجائز تجاوزات ہٹانے اور گرانے کی یہ مہم جو تم نے پاکستان کے ایک قصبے میں شروع کی اور پھر دیانت داری اور حسنِ نیت سے چلائی، اگر کسی مغربی ملک کے قصبے میں چلاتے، اگر آسٹریلیا، جاپان یا سنگاپور میں چلاتے تو حکومت تمہاری پشت پر ہوتی۔ حکمران تمہیں شاباش دیتے، جب تک تم یہ مہم کامیابی سے ختم نہ کر لیتے، تمہیں اس ملک کا وزیر اعظم، اُس ملک کا صدر بھی نہ ہٹا سکتا! مگر وسیم خان، یہ جاپان ہے نہ آسٹریلیا! سنگاپور ہے نہ فرانس نہ جرمنی! یہ تو ترکی اور ملائیشیا بھی نہیں! یہ تو یو اے ای تک نہیں۔ یہ پاکستان ہے! یہاں وہی ہونا تھا جو ہوا! ٹیلی فون کھڑکے، ’’ملاقاتیں‘‘ ہوئیں، اور ’’مسائل‘‘ ’’پیدا‘‘ کرنے والے والیٔ شہر کو یوں ہٹا دیا گیا جیسے مکھن سے بال!
تجاوزات! تم نے تجاوزات ختم کرنے کی کوشش کی؟ یہاں اگر تم جیسے حکام کو کام کرنے دیا جاتا تو یہ ملک تجاوزات کی لعنت سے کب کا پاک نہ ہو چکا ہوتا؟ پورا ملک تجاوزات کی لعنت میں گلے گلے تک ڈوبا ہوا ہے۔ جس شہر جس قصبے جس بازار جس شاہراہ کو دیکھیں، تجاوزات سے اٹی ہوئی ہے۔ فٹ پاتھوں پر قبضہ ہے، سرکاری سڑکیں، جو عوام کی ملکیت ہیں، کھوکھوں، ریڑھیوں، سٹالوں سے بھری پڑی ہیں۔ چلنے کا راستہ ہے نہ گاڑی چلانے کا۔ غلاظتوں کے سمندر ہیں اور کثافتوں کے انبار! ریڑھی والا دکاندار کو رشوت دے کر اس کی دکان کے سامنے کاروبار کر رہا ہے۔ دکاندار، متعلقہ محکمے کو رشوت دیئے جا رہا ہے۔ ورکشاپیں سڑکوں پر کام کر رہی ہیں، فروخت کی جانے والی اشیا فٹ پاتھوں پر سجی ہیں، مکانات گلیوں کو کھا رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں قبضہ گروپ سرگرم کار ہیں۔ سرکاری زمینیں ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ ریلوے کی ہزاروں ایکڑ زمین طاقت ور جبڑوں کی نذر ہو گئی! اگر اس ملک کی پانچ غلیظ ترین لعنتوں کی فہرست بنائی جائے تو تجاوزات کی لعنت ان پانچ لعنتوں میں ضرور شمار ہو گی۔
کیریئر شروع کرتے وقت تم نے جو خواب بُنے تھے، انہیں اُدھیڑ دو! یہ ملک خوابوں کی نہیں، سرابوں کی جنت ہے۔ اس ملک کا کیا کہنا، یہاں سابق وزیر اعظم پیشانی پر ندامت کا ایک قطرہ لائے بغیر کہہ سکتا ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں نئے صوبے بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر کچھ دوست آڑے آ گئے۔ لیکن ’’نئے صوبوں کا حامی ہوں‘‘! جس ملک کو ایسے حکمران ملیں جو ملک کے بجائے دوستوں سے وفاداریاں نبھائیں اور اہم فیصلوں کو اس لیے کھائی میں پھینک دیں کہ دوست آڑے آ رہے ہیں، اُس ملک کی سیاہ بختی ثابت کرنے کے لیے کسی ریسرچ کی ضرورت ہے؟ یہ فخریہ اعتراف کسی ایسے ملک میں کیا جاتا جہاں جمہوریت اور پارلیمنٹ کا حقیقی راج ہے، تو ایسا اعتراف کرنے والے پر مجرمانہ کردار کا مقدمہ چلتا اور عبرت ناک سزا ملتی!
اس ملک کا کیا ہی کہنا! جس میں ’’مڈل کلاس‘‘ پارٹی کے رہنما پوری دنیا میں اللے تللے کرتے پھرتے ہیں۔ مڈل کلاس پارٹی؟ مائی فٹ! پارٹی کے رہنما قربانی کی کھالیں اوڑھے امریکہ میں ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں اور دبئی میں ہیں۔ ایک نہیں دو نہیں! چھ چھ آٹھ آٹھ رہنما، بیرون ملک مڈل کلاس مڈل کلاس کرتے پھر رہے ہیں اور چندے اور بھتے دینے والی غریب قوم کے غم میں ساحلوں، سیرگاہوں، شاپنگ مالوں اور گراں ترین اپارٹمنٹوں میں بیٹھ کر ٹسوے بہا رہے ہیں۔
اس ملک میں یہی نہیں طے ہو رہا کہ بیرون ملک سفارت خانوں میں ملکی تجارت کی نمائندگی کون کرے گا! ’’کامرس اینڈ ٹریڈ‘‘ کی سروس بنائی گئی۔ اس کا کام کامرس اینڈ ٹریڈ کی دیکھ بھال تھا۔ مگر یہاں تو پچھلے ساٹھ سال سے بیرون ملک تعیناتیاں چاچوں، ماموئوں، بھانجوںاور بھتیجوں کی ہو رہی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر اگر ایئر پورٹ پر حکمران اعلیٰ کا استقبال کر رہا ہے تو بیرون ملک کمرشل کونسلر بھی وہی بنے گا! کامرس اینڈ ٹریڈ میں بیس بیس سال ملازمت کرنے والے افسر، جو مقابلے کا امتحان پاس کر کے صرف اسی شعبے کے لیے مختص کیے جاتے ہیں، باہر نہیں بھیجے جاتے۔ اِس ’’میرٹ نوازی‘‘ کا نتیجہ ملکی تجارت کا زوال ہے۔ دو برس سے چاول برآمد کرنے والوں کی ایسوسی ایشن ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ سعودی عرب جا کر چاول کی برآمد میں اضافے کی کوشش کرے۔ سعودی عرب کی وسیع و عریض منڈی میں پاکستانی چاول کا حصہ صرف دس فی صد ہے۔ ہمسایہ ملک پاکستانی چاول خرید کر، اپنا ٹھپہ لگا کر اپنے نام سے برآمد کر رہا ہے اس لیے کہ جس اعلیٰ کوالٹی کا چاول پاکستان میں پیدا ہو رہا ہے، اُس کا ہمسایہ ملک میں تصور بھی ناممکن ہے۔ مگر ایسوسی ایشن کو سعودی عرب کا ویزا ہی نہیں مل رہا۔ برآمدکنندگان کی ایسوسی ایشن اب کہتی ہے کہ جب تک کمرشل اتاشی کو تبدیل نہیں کیا جاتا یہ لوگ سعودی عرب کا دورہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کریں گے۔ یہ ایک طرح کا بائیکاٹ ہوا۔ یہ نہیں معلوم کہ ویزا نہ ملنے میں کمرشل اتاشی کا کتنا قصور ہے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے اتنی کوشش نہ کی ہو جتنی کرنی چاہیے تھی۔ یہی حال آسٹریلیا میں 
ہے۔ ایسوسی ایشن کو شکوہ ہے کہ ہمارا ہائی کمیشن تعاون نہیں کر رہا۔ چاول برآمد کرنے والوں کی ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ سوئی کمرے میں گم ہوئی ہے تو برآمدے میں نہ ڈھونڈے! مطالبہ حکومت سے یہ کرے کہ کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ کے افسر جو تجارت کے کام کے ماہر ہیں اور اسی میدان کے لیے بھرتی کیے گئے، تربیت دی گئی، انہیں کمرشل اتاشی مقرر کیا جائے۔ ضلعی انتظامیہ کے افسر لائق ہوں گے مگر لگان اور مالیہ کا کام کریں۔ وہ زمانے گئے جب یہ امرت دھارا ہر بیماری میں استعمال ہوتا تھا۔
بات وسیم خان کی ہو رہی تھی۔ اس افسر نے تلہ گنگ کو خوبصورت کرنے کا عہد کیا تھا۔ تجاوزات کو گرانے کی مہم چلائی۔ مگر بڑے آدمیوں کے رشتہ دار متاثر ہوئے۔ کسی کا ہوٹل گرا، کسی کا سٹور راستے میں پڑا۔ نوجوان عزمِ صمیم رکھتا تھا۔ مگر یہاں عزم کی ضرورت ہے نہ قانون کا راستہ صاف کرنے والوں کی، جس ملک میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اُن نام نہاد مذہبی رہنمائوں کے سامنے ڈھیر ہو جائیں جنہیں عوام کی اکثریت نے کبھی ووٹ ہی نہیں دیا اور ان کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر عوامی نمائندوں کے پاس کیے ہوئے حقوق نسواں کے بل پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں وہاں ناجائز تجاوزات گرانے والے افسر کا دفاع کون کرے گا! اس قبیل کے نوجوانوں کے لیے دوہی راستے ہیں۔ ملک چھوڑ جائیں یا نمک کی کان میں نمک ہو کر رہیں۔ ورنہ بارش کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں کہ بقول ظفرؔ اقبال   ؎
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا

Tuesday, March 15, 2016

ڈرتے ڈرتے

ڈاکٹر رُتھ فائو 1929ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کی اور پریکٹس شروع کر دی۔ پھر ایک مذہبی تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی جو قناعت‘ پاک بازی اور اطاعت کا عہد لیتی تھی اور جس کے تحت زندگی کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرنا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر رُتھ فائو نے سُن رکھا تھا کہ ایشیا میں غربت‘ پسماندگی اور بیماریاں بہت ہیں؛ چنانچہ انہوں نے بھارت جا کر مریضوں کی دیکھ بھال کا قصد کیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ انہیں بھارت کا ویزا نہ مل سکا‘ کسی نے بتایا کہ پاکستان سے یہ ویزا مل جائے گا۔ چنانچہ وہ کراچی پہنچ گئیں۔ یہاں کوڑھ کے مریضوں کی حالت زار اور ان کی رُلا دینے والی بستی دیکھ کر یہیں کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 
ڈاکٹر رُتھ فائو گزشتہ 56 برسوں سے پاکستان میں جزام کے مریضوں کا علاج کر رہی ہیں۔ اُن مریضوں کا بھی علاج کیا جن کے جسم پرکیڑے رینگ رہے تھے اور جسم پر ہی رہتے تھے۔ پانی سے بھری نشیبی بستیوں میں میز پر کھڑے ہو کر بھی مریضوں کی خدمت کی۔ ایسے مریض بھی اٹینڈ کیے جو دونوں پائوں اور دونوں ہاتھوں پر چوپایوں کی طرح چل رہے تھے۔ مقامی ڈاکٹر ان مریضوں کے نزدیک آنے کا بھی حوصلہ نہ رکھتے تھے۔ آج پاکستان میں یہ مرض تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اس کے خاتمے میں ڈاکٹر رُتھ فائو کا کردار بنیادی ہے ‘مگر ہم جو بات کرنا چاہتے ہیں وہ اور ہے!
ڈاکٹر رُتھ فائو نے ایک تفصیلی انٹرویو دیا ہے جس میں اہل پاکستان کے بارے میں انہوں نے اپنے 56 سالہ تجربے کا نچوڑ یوں پیش کیا ہے: ’’جرمنی میں جب کوئی شخص کسی کام کی ہامی بھرتا ہے تو اسے تکمیل تک پہنچاتا ہے اور اگر اسے کوئی کام نہیں کرنا ہوتا تو وہ فوراً انکار کر دیتا ہے۔ ٹال مٹول نہیں کرتا۔ لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یہاں اگر کوئی شخص کسی کام کی ہامی بھرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ یہ کام نہیں کرے گا اور اگر انکار کرے تو سمجھ لیں کہ وہ اس کام کو ضرور کرے گا۔ میں آج تک پاکستانیوں کے اس مزاج کو سمجھ نہیں پائی۔ جب میں کسی سے کوئی کام کہتی ہوں تو لوگ کہتے ہیں میڈم یہ کام ہو جائے گا لیکن پھر جب میں ان سے پوچھتی ہوں کہ کام کیوں نہیں ہوا تو جواب ملتا ہے کہ میں نے اس وقت یونہی ہامی بھر لی تھی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ اتنی آسانی سے کیسے جھوٹ بول لیتے ہیں جبکہ جرمنز میں یہ عادت نہیں پائی جاتی!‘‘
ڈاکٹر رُتھ فائو کی اس آبزرویشن پر ہم لاکھ ناک بھوں چڑھائیں‘ آئیں بائیں شائیں کریں‘ بدلے میں کفار کی ہزار برائیاں گنوائیں‘ مغربی معاشرے کے ’’خاندان توڑ‘‘ کلچر پر اُچھل اُچھل کر حملے کریں‘ مگر ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور دل میں مانتے ہیں کہ بات وہ درست کر رہی ہیں۔ اس سچائی پر ہم میں سے ہر شخص‘ ہر عورت‘ ہر مرد‘ ہر بوڑھا‘ ہر بچہ گواہ ہے! جس دن چھت ڈالنی ہو‘ ہمیں معلوم ہوتا ہے آج راج اور مزدور غائب ہو جائیں گے‘ جو تاریخ ہمیں ٹیلر بتاتا ہے‘ ہمیں یقین ہوتا ہے اُس دن کپڑے نہیں ملیں گے۔ دفتر کا افسر اور اس کا بابو جس دن آنے کا کہتے ہیں‘ ہم اپنے دل میں سو فیصد یقین سے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کام اُس دن بھی نہیں ہو گا! دکاندار بتاتا ہے آپ کا مطلوبہ آئٹم منگل کو موجود ہو گا‘ ہم منگل کو جاتے ہیں‘ اُسے یاد ہی نہیں ہوتا کہ اُس نے وعدہ کیا تھا۔ ہم کسی کے ہاں جانے کا جو وقت متعین کرتے ہیں‘ ہم میں سے ننانوے فیصد اس کی قطعاً پروا نہیں کرتے۔ پھر ہم لوگ ڈھٹائی‘ بے شرمی اور بے حیائی کا مظاہرہ ڈنکے کی چوٹ اُس وقت کرتے ہیں جب یہ کہتے ہیں کہ میں نے وعدہ تو نہیں کیا تھا‘ بس یونہی کہہ دیا تھا۔ جب ہمیں کوئی بتاتا ہے کہ آ رہا ہوں اور لبرٹی چوک یا بندر روڈ یا پشاور موڑ سے گزر رہا ہوں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی گھر سے نکلا ہی نہیں! کتنی ہی بار لوگوں سے بحث ہوئی اور معاملہ تلخی تک پہنچا۔ کچھ سال پہلے ایک بچے کی شادی تھی۔ جن مولانا نے نکاح پڑھایا‘ وہ دوست تھے۔ کہنے لگے آج مغرب کے بعد نکاح نامہ مکمل کر کے دے جائوں گا۔ دو دن بعد یاد دلایا تو فرمایا بس آج مل جائے گا! صوفہ ساز کو گھر بلایا‘ متشرع نوجوان تھا۔ کہنے لگا انکل‘ جا کر فون کرتا
 ہوں اور متعلقہ شخص کا فون نمبر دیتا ہوں۔ دوسرے دن پوچھا بیٹا تم نے وعدہ نہیں پورا کیا۔ کہنے لگا‘ وعدہ تو کیا ہی نہیں تھا‘ میں نے تو ایک بات کی تھی! دروغ گوئی اور پیمان شکنی کی یہ ’’ثقافت‘‘ انفرادی سطح سے بڑھ کر اجتماعی وجود میں بھرپور طریقے سے حلول کر چکی ہے۔ ہماری ایئر لائنوں کا رویہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ لطیفہ یونہی نہیں بن گیا کہ ٹرین وقت پر پہنچی‘ سب خوش ہوئے مگر معلوم ہوا کہ اس نے تو کل اس وقت پہنچنا تھا۔ ایسے لطیفے جاپان‘ جرمنی اور کینیڈا میں کیوں نہیں سننے میں آتے؟ تقاریب میں وزراء اور سربراہ حکومت تاخیر سے آتے ہیں۔ شادیوں کی تقاریب دیکھ لیجیے‘ کس طرح بہترین پوشاکوں میں ملبوس‘ معززین دو روٹیوں کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ دل میں میزبان کو سب کوس رہے ہوتے ہیں اورکیا ستم ظریفی ہے کہ تحقیر اور شرمندگی کا یہ کھیل کھیلنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ مذہبی جلسوں میں بھی وقت کی پابندی کا کوئی تصور نہیں۔ مسجد کی دیوار پر نماز جمعہ کا وقت ڈیڑھ بجے لکھا ہے مگر وعظ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ڈاکٹر رُتھ فائو نے ہمارے بازاروں کا تو ذکر ہی نہیں کیا۔ رمضان میں قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ پوری ’’کافر‘‘ دنیا میں کرسمس پر قیمتیں گر جاتی ہیں۔ گزشتہ تین دن بارش رہی۔ کل اخبارات دہائی دے رہے تھے کہ پکوڑوں‘ سموسوں اور کباب کی قیمت تاجروں نے بڑھا دی‘ اس لیے کہ بارش کے موسم میں ان کی طلب بڑھی تھی! ملاوٹ‘ ٹیکس چوری‘ چور بازاری‘ تاجروں کا تجاوزات کا کھیل‘ شے بیچتے وقت نقص چھپانا‘ یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا ہزار بار تذکرہ ہو چکا اور ہر شخص جانتا اور مانتا ہے اور ساتھ ساتھ ان جرائم میں برابر کا شریک ہے! 
اب دوسری طرف دیکھیے! یہ وہی ملک ہے جس کے باشندوں کی عظیم اکثریت ازحد مذہبی ہے۔ ملک ممتاز قادری کے جنازے کو دیکھیے۔ مدارس کی جتنی تعداد پاکستان میں ہے‘ دنیا کے کسی مسلمان ملک میں نہیں‘ قدم قدم پر مسجدیں ہیں اور مدرسے‘ صرف دارالحکومت میں چار سو ایک مدارس کام کر رہے ہیں۔ مدارس سے فارغ التحصیل لاکھوں علماء‘ دین سکھا رہے ہیں۔ گنہگار سے گنہگار پاکستانی بھی جمعہ کی نماز ضرور ادا کرتا ہے اور وعظ سنتا ہے۔ تبلیغی جماعت کا تو مرکز ہی پاکستان ہے۔ لاکھوں جماعتیں تشکیل ہو کر قریہ قریہ‘ گلی گلی‘ تبلیغ کر رہی ہیں۔ لاکھوں پاکستانی چلے کاٹ رہے ہیں‘ وقت لگا رہے ہیں‘ گشت کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں مسجدیں شب جمعہ کو بھر جاتی ہیں!
تو پھر جھوٹ‘ وعدہ خلافی‘ چور بازاری‘ ملاوٹ‘ ملمع سازی‘ ٹیکس چوری‘ حرام تجاوزات‘ بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتا کر حرام کمائی کا حصول‘ سرکاری دفتروں میں رشوت اور عوام کو اذیت رسانی کا زور! قطع رحمی! لڑائی جھگڑے‘ سڑکوں پر جگہ جگہ مارکٹائی‘ گالی گلوچ‘ کچہریوں میں جھوٹی گواہیوں کی حیران کن کثرت… اس سب کی وجہ کیا ہے؟ یہ ساری تبلیغی سرگرمیاں‘ یہ مدارس سے نکلنے والے لاکھوں علماء کرام‘ یہ جمعہ کے دن وعظ سننے والے کروڑوں سامعین‘ یہ حرمت رسولؐ پر گردن کٹانے کا جذبہ‘ آخر یہ تضاد کیوں؟ اتنی بلندی ہے تو پھر ایسی پستی کیوں ہے؟
اگر آپ غیر جانبدار ہو کر غور کریں تو اس بھیانک تضاد کے آپ کو تین اسباب نظر آئیں گے۔ اوّل : ہمارا اسلام محض عبادات اور عقائد پر مشتمل ہے۔ ہمارے علما عقائد کے اختلافات اور عبادات کی تفاصیل پر زور دیتے ہیں مگر معاملات کی طرف نہیں آتے۔ آپ یوٹیوب پر مختلف مسالک کے علما کی تقریریں سنیں تو اختلافات کی شدت‘ اشتعال انگیزی اور تکفیر کی کثرت پر حیران رہ جائیں گے۔ اذکار‘ نوافل‘ تسبیحات‘ چلہ کشی‘ سب کچھ ہے مگر معاملات سے مکمل غفلت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی کی تعریف کرتے وقت یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں نماز‘ روزے کا پابند ہے؛ حالانکہ حضرت عمرؓ نے ایک شخص کے بارے میں یہ رپورٹ سُنی تو پوچھا کہ وہ معاملات میں کیسا ہے؟
دوم : ہم ’من حیث القوم‘ والدین کی حیثیت سے مجرمانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ سارا الزام علما پر اور اہل تبلیغ پر ڈالنا بھی انصاف پسندی نہیں! ہم بچوں کو یہ سکھا ہی نہیں رہے کہ جھوٹ کسی طور پر نہیں بولنا‘ وعدہ ہر حال میں پورا کرنا ہے‘ قانون نہیں توڑنا! آپ غور کیجیے‘ ہمارے گھروں میں بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان پہلوئوں کی اہمیت صفر کے برابر ہے! ایک امریکی‘ جرمن‘ فرانسیسی یا آسٹریلین گھرانے میں بچہ جھوٹ کے تصور ہی سے ناواقف ہے۔ وہاں پانچ بجے کا مطلب پانچ بجے ہے۔ پانچ بج کر ایک منٹ بھی نہیں! ہمارے حکمرانوں کا کردار بھی شرمناک ہے۔ اگر آج ہمارے وزراء اور ان کے باس جھوٹ اور وعدہ خلافی کو خیرباد کہہ دیں تو ماتحت بھی راتوں رات اپنا رویہ بدل لیں گے۔ سوم : ہمارے علما اور مبلغین عبادات و عقائد پر جو زور دے رہے ہیں‘ وہ بھی دین کا تقاضا ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی ترجیحات میں وہ چیزیں بھی شامل ہو گئی ہیں جن کا اصلاً دین سے تعلق ہی نہیں! انہوں نے اپنی ’’مصروفیات‘‘ کا دائرہ اتنا وسیع کر لیا ہے کہ معاملات میں عوام کی اصلاح کا وقت ہی کہاں ملتا ہے۔

Saturday, March 12, 2016

اے جغرافیہ بدل دینے والے پروردگار!!

ہم پر رحم کر اے پروردگار! تُورحمن ہے۔ رحیم ہے۔ تیری رحمت کا کوئی کنارا نہیں!
اے اللہ! ہم گنہگار ہیں! خطا کار ہیں! ہم مانتے ہیں کہ ہماری بھاری اکثریت جھوٹ بولتی ہے۔ وعدہ خلافی کرتی ہے۔ مگر اے خدائے برتر! ہمارے معصوم بچوں پر رحم فرما! ہمارے گناہوں کی سزا ہمارے بچوں کو نہ دے!
تیری قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں! تُو انہونی کو ہونی کر سکتا ہے۔ تُو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ تونے اپنے پیغمبر عیسیٰؑ کو بن باپ کے پیدا کیا! یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تھے۔ گھپ اندھیروں میں انہوں نے پکارا، تو نے سنا اور رہائی دی! یعقوب علیہ السلام کو بیٹے سے ملایا۔ ایوب علیہ السلام کو دردناک بیماری سے شفا بخشی! اے خدائے عزوجل! تو نے نارِ ابراہیم کو باغ میں تبدیل کر دیا! اے پتھر میں کیڑے کو رزق پہنچانے والے خدا! اے ایک بیج سے ہزاروں دانے نکالنے والے رازق! اے بنجر زمین کو سرسبز کر دینے والے مالک! ہم گنہگاروں پر بھی رحم فرما! ہم بدبختُوں کو اس مصیبت سے نکال! ہم پہلے دن سے جس بدقسمتی میں پھنسے ہوئے ہیں‘ ہمیں اس سے نجات دے!
اے کائنات کے رب! تُو سمندروں کو خشک کر سکتا ہے! تُو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتا ہے۔ تُو بادلوں سے پانی برسا سکتا ہے! تُو سمندروں کو باہم ملا سکتا ہے! تُو ستاروں کی گردش روک سکتا ہے۔ تُو سیاروں کا راستہ بدل سکتا ہے۔ زمین تیری مٹھی میں ہے‘ آسمان تیرے دستِ قدرت میں لپٹے ہوئے ہیں۔ تُو قوموں کی تاریخ بدل سکتا ہے۔ تُو ملکوں کا جغرافیہ تبدیل کر سکتا ہے۔ تُو سب کچھ کر سکتا ہے۔
اے ربّ کعبہ! ہم تجھے تیرے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کا واسطہ دیتے ہیں! ہم پر کرم فرما! ہماری جان اِس افغان بارڈر سے چھڑا!
اے پروردگار! اے ہر لحظہ پھیلتی کائنات کے رب ! ایک صبح ہم اُٹھیں تو افغانستان ہمارے پڑوس میں نہ ہو! اس کی جگہ کوئی ایسا ملک ہو جو مہذب ہو‘ امن پسند ہو! جس کے باشندے ناشتے میں انسان نہ کھاتے ہوں۔ جس کے کھیتوں میں بارود نہ اُگتا ہو! جس کے باغوں میں گولیاں نہ کِھلتی ہوں۔ جس کے درختوں پر کلاشنکوفیں نہ لگتی ہوں! جس کا مقبول ترین کھلونا راکٹ نہ ہو۔ جس کی سب سے بڑی ایکسپورٹ بارودی جیکٹ نہ ہو! اے جہانوں کے خالق! اے زمانوں کے مالک! اس خطۂ زمین پر اپنے دستِ غیب سے کوئی ایسا ملک رکھ دے جس کے رہنے والے پڑھے لکھے ہوں! جہاں یونیورسٹیاں اور کالج ہوں! کارخانے اور کھیت ہوں! جہاں مسافروں کے پاس سفری دستاویزات ہوں! جہاں کے حکمران بین الاقوامی قوانین کو گھاس ڈالتے ہوں! جہاں کے رہنے والے پڑوسیوں کو انسان سمجھتے ہوں۔ جہاں ماں باپ بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں نہ دیں، بستے اور تختیاں دیں۔ جہاں عورتوں کو گائیں بھینسیں اور بھیڑ بکریاں نہ سمجھا جائے۔
اے انصاف کرنے والے خدا! ہم انصاف کی بھیک مانگتے ہیں! ہمارے کسان ٹھٹھرتے جاڑوں اور چلچلاتی دھوپ میں خون پسینہ ایک کر کے جو غلّہ اگاتے ہیں، ہمارے کارخانوں میں جو گھی بنتا ہے، ہماری فیکٹریوں میں جو کپڑا بُنا جاتا ہے‘ وہ سب افغانستان چلا جاتا ہے! یا اللہ! ہم کب تک اس بھوکے ننگے ملک کی پرورش کرتے رہیں گے؟ ہماری ادویات‘ ہمارا فرنیچر‘ ہمارا سیمنٹ‘ ہماری اینٹیں‘ ہمارا سٹیل‘ ہمارے مویشی‘ ہماری گاڑیاں‘ یہاں تک کہ ہماری پکی پکائی روٹیاں سب کچھ اس بارڈر کی نذر ہو جاتا ہے۔ اے رب العالمین! ہمیں اس بارڈر سے نجات دے! یہ بارڈر ہمارے شناختی کارڈوں کو کھائے جا رہا ہے۔ یہ ہمارے پاسپورٹوں کو نگل رہا ہے۔ پچاس ہزار افراد ہر روز اس بارڈر کو پار کر کے آتے اور جاتے ہیں۔ نہ جانے کتنے علی حیدر‘ نہ جانے کتنے شہباز تاثیر اغواء کر کے اسے بارڈر کے پار لے جائے جاتے ہیں!
کرنل شجاع خانزادہ کو شہید کرنے والا سہیل اس بارڈر سے آیا اور واردات کر کے اس بارڈر کے پار اتر گیا! ہم کب تک اپنے بچے اغواء کراتے رہیں گے؟ ہمارے شجاع خانزادے کب تک افغانستان کی مردم خوری کی نذر ہوتے رہیں گے؟ فضل اللہ کب تک اس سفّاک ملک کی آغوش میں پناہ لیتے رہیں گے؟ قاتلوں کا یہ ملک کب تک ہماری زمین پر آگ اور خون کی ہولی کھیلتا رہے گا؟ اس ملک کی تین نسلوں کو پاکستان نے پالا! خوراک‘ لباس‘ پانی‘ ہوا‘ دھوپ‘ چاندنی سب کچھ دیا مگر ان لاکھوں مہاجروں میں سے کوئی بھی پاکستان کا وفادار نہ ہوا۔ ہمیں پھولوں کے بدلے زخم ملے۔ ہم نے پناہ دی، ہمارے گلے کاٹے گئے! ہم نے ان کے بچوں اور عورتوں کو سر چھپانے کا ٹھکانہ دیا‘ ہمارے سفارت خانے کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی رہی! خیبر پختونخوا کی معیشت اجڑ گئی۔ مزدور بیروزگار ہو گئے‘ ٹرانسپورٹر برباد ہو گئے۔ مگر ہمیں کیا صلہ ملا؟ اغواء‘ قتل‘ تباہی اور گالیاں!!
اے پروردگار! ہمیں اس ملک نے منشیات کے اندھیروں میں دھکیل دیا! ہمارے نوجوان نشے کا شکار ہو گئے! ہم سمگلروں کے رحم و کرم پر ڈال دیئے گئے۔ ہمارا ملک اسلحہ خانہ بن گیا۔ اس پڑوس کی وجہ سے ہم خوار اور رسوا ہو گئے۔ ہم پوری دنیا میں بدنام ہو گئے۔ ان احسان فراموشوں نے ہمارے چہرے پر کالک ملی! آسٹریلیا کا وہ پاکستانی لڑکا نہیں بھولتا جس نے روتے ہوئے بتایا: ’’انکل! میرے دفتر میں ایک افغان ہے جو پاکستان کو گالیاں دیتا ہے!‘‘ کہا‘ بیٹے! بے شک چیک کر لو! وہ پاکستانی پاسپورٹ پر یہاں آ کر پناہ گزین ہوا ہو گا اور اسی بنیاد پر شہریت لی ہو گی! دوسرے دن پاکستانی نوجوان نے آ کر بتایا کہ بالکل ایسا ہی ہے!!
اے خالق کائنات! ہم تجھ سے اس بارڈر سے نجات دلانے کی دعا نہ کرتے‘ مگر ہم کیا کریں! ہمارے حکمران بے نیاز ہیں! اس لیے کہ ان کے قلعہ نما محل اس بارڈر سے سینکڑوں میل دور ہیں! ان کی ترجیحات اور ہیں! انہوں نے تو اپنے ڈیروں کے نام ہی دوسرے ملکوں کی بستیوں پر رکھے ہیں‘ انہیں اس ملک کے عوام کا دکھ درد کیسے ہو سکتا ہے! یہاں تو ایسے ایسے محب وطن بیٹھے ہیں اور بلند مسندوں پر بیٹھے ہیں جو دوسرے ملکوں میں کارخانے لگاتے ہیں تو ملازمتیں اپنے ہم وطنوں کے بجائے دشمن ملکوں کے باشندوں کو دیتے ہیں!
اے قَہّار و جَبّار! ہمارے حکمرانوں کو امن و امان سے کوئی غرض نہیں! ان کی پیشانیوں پر تو کبھی ندامت کے دو قطرے بھی اس اعتراف سے نہیں چمکے کہ ملک میں ڈاکوئوں کا راج ہے! اغواء برائے تاوان انڈسٹری بن چکا ہے‘ بھتہ خوری عام ہے! یااللہ! ہمیں اُن زمانوں میں پیدا کیا ہوتا جب حکمران قاتل پکڑنے سے پہلے اپنے اُوپر پانی اور روٹی حرام کر لیتے تھے‘ اور اغواء کاروں کو ٹھکانے لگانے سے پہلے بستر پر نہیں سوتے تھے! ہمارے تو اپنے محکمے ہمارے ساتھ نہیں! ہمارے نادرا میں افغان ملازم پائے گئے، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنانے والے اہلکار دشمنوں کی خدمت کر رہے ہیں! بارڈر پر مامور ہمارے تنخواہ دار ملازم ہماری پیٹھ میں چُھرا گھونپ رہے ہیں۔
اے براعظموں کے نقشے تبدیل کرنے والے قیوم و بصیر خدا! ہماری طرف سے بے شک افغانستان کو جنوبی ہند میں فکس کر دے۔ اسے کیرالہ، تامل ناڈو کے پڑوس میں منتقل کر دے۔ اسے نیویارک اور واشنگٹن کے درمیان ڈال دے تب بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں! اسے بہاما منتقل کر دے یا ہوائی یا جزائر فجی میں! اے قادر و قُدّوس! ہم پر رحم فرما! اس مصیبت کا اور کوئی حل نہیں! تُو گواہ ہے کہ ہمارے اس پڑوسی ملک کے رہنے والے صدیوں سے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں کر رہے! دنیا بھر کے بازار چھان مارے جائیں تب بھی اس ملک کا بنا ہوا کوئی برتن‘ کوئی کپڑا‘ کوئی جوراب‘ کوئی پنسل‘ کوئی جوتا کہیں نہیں نظر آتا۔ کبھی نہیں دکھائی دیا! اے خبیر و علیم! تُو یہ بھی جانتا ہے کہ سینکڑوں سال مستقبل میں بھی اس ملک نے یہی کچھ کرنا ہے! ہمیں اس ڈَز ڈَز سے‘ اس مستقل چاند ماری سے نجات دلوا! اے حافظ و حفیظ! ہمارے بچوں کے مستقبل پر رحم فرما! اس بارڈر سے، خون کی اس لکیر سے ہمیں محفوظ فرما دے!

Monday, March 07, 2016

سوڈان میں غروب آفتاب

سنیچر تھا اور مارچ کی پانچ تاریخ۔ صبح کا وقت تھا جب ڈاکٹر حسن الترابی اپنے دفتر میں بے ہوش ہوگئے۔ انہیں فوراً خرطوم کے رائل انٹرنیشنل ہسپتال میں لے جایا گیا۔ پھر دل کا دورہ پڑا اور سوڈان کا یہ فرزند، جس نے صرف اپنے خطے میں نہیں، پورے عالم اسلام میں بلکہ پوری علمی اور سیاسی دنیا میں اپنا اثرورسوخ قائم کیا تھا، اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوگیا۔ ہم سب نے لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے!حسن الترابی سوڈان کے صوبے کسالہ میں 1932ء میں پیدا ہوئے۔ خرطوم یونیورسٹی سے قانون میں ڈگری حاصل کی۔ پھر انگلستان، جا کر پڑھتے رہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری سوربون یونیورسٹی پیرس سے لی۔ عربی ان کی مادری زبان تھی۔ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن روانی سے بولتے تھے۔
صدر جعفر نمیری نے انہیں اٹارنی جنرل مقرر کیا۔ سیاسی کیریر ان کا تلاطم خیز رہا۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ صدر حسن البشیرنے سوڈان کو ’’پولیس سٹیٹ‘‘ بنایا تو حسن الترابی نے اس کا ساتھ دیا۔ وہ جہادیوں کے بھی حامی رہے۔ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے تو حسن الترابی نے ان حملوں کو ’’قابل فہم‘‘ قرار دیا۔ ان کا یہ قول بہت مشہور ہوا کہ’’اگر آپ جبر اور ظلم کا مقابلہ کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں تو انہیں حریت پسند اورانقلابی کہتے ہیں۔ نہ پسند کریں تو یہی حریت پسند ’’دہشت گرد‘‘ بن جاتے ہیں!
خلیج کی جنگ چھڑی تو سعودی امریکی اتحاد کی شدید مخالفت کی۔1990-91ئمیں ’’عرب اینڈ اسلامک کانگریس ‘‘ بنائی اور پورے عالم اسلام سے شیعہ اور سنی تنظیموں کو اکٹھا کیا۔ ان میں پی ایل او اور حزب اللہ بھی شامل تھے۔ڈاکٹر ترابی نے سیاسی علمی اور قانونی سفر میں قیدوبند کی صعوبتیںبھی برداشت کیں۔ تین سال لیبیا میں جلا وطن رہے۔1992ء میں اوٹاوا( کینیڈا) کے ہوائی اڈے پر ایک سوڈانی نے، جو سیاسی مخالف تھا، ڈاکٹر صاحب پر چاقو سے حملہ کیا۔ یہ شخص کراٹے کا ماہر تھا اور بلیک بیلٹ جیتے ہوئے تھا۔ حملہ شدید تھا۔ حملہ آور نے سمجھا کہ وہ ختم ہوگئے۔ انہیںروبصحت ہونے میں بہت وقت لگا۔مگر ڈاکٹر حسن الترابی کا اصل کارنامہ ان کا وہ موقف ہے جو مسلمانوں کو پیش آنے والے گمبھیرمسائل پر انہوں نے فقہی اور علمی اعتبارسے پیش کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک متنازع میدان تھا۔ اس پر بہت لے دے ہوئی۔ کفر کے فتوے لگے۔تاہم مجموعی طور پر مسلمانوں نے خاص طور پر وہ جو غیر مسلم ملکوں میں قیام پذیر تھے، ان کے موقف کو سراہا۔
روزنامہ الشرق الاوسط، دنیا کا معروف ترین عربی روزنامہ ہے۔ اس کا اجراء لندن سے 1978ء میں ہوا تھا۔ اب یہ چار براعظموں کے چودہ شہروں سے شائع ہوتا ہے اور پوری دنیائے عرب میں مقبول ہے۔ اپریل 2006ء میں اسی نے جدید مسائل پر ڈاکٹر صاحب سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کے مندرجات، قدرے اختصار کے ساتھ، قارئین نے لئے پیش کیے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم ان کے موقف سے اتفاق کریں۔ یہ بھی لازم نہیں کہ اختلاف برائے اختلاف ہو۔ مقصد جدید مسائل کے حوالے سے ذہنی وسعت اور قوت برداشت پیدا کرنا ہے اوراس احساس کو  اجاگر کرنا ہے کہ اسلام ہر زمانے میں قابل عمل ہے۔
سوال: مسلمان عورت اور نصرانی یا یہودی لڑکے درمیان شادی کے معاملے میں آپ کا فتویٰ بہت متنازع ہوا ہے۔ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ عورت اسلام قبول کرنے کے بعد غیر مسلم شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے؟
جواب: پہلے تو اسی مسئلے کو اجتہاد کے نقطۂ نظر سے دیکھنا ہوگا۔ آج کے مسلمان ، عورت کے حوالے سے قابل اعتماد اسلامی قوانین کی پروا نہیں کرتے اور اپنی بیٹیوں کی شادی کے سلسلے میں غورو فکر نہیں کرتے۔ یہ فتویٰ اس صورت حال کے پیش نظر دیا گیا تھا جو مسلمان کمیونٹی کو امریکہ میں پیش آ رہی ہے۔ ایک امریکی عورت قبول اسلام کے لئے ایک اسلامی مرکز میں گئی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ قبول اسلام کے بعد شوہر کے ساتھ نہیںرہ سکتی۔ خواہ اسے غیر معمولی مالی قیمت ادا کرنی پڑے یا بچوںکو بھی چھوڑنا پڑے۔ ان حضرات نے بالکل نہیں سوچا کہ ابھی تو وہ پہلا قدم اٹھا رہی تھی اور یہ کہ اس رویہ سے عورتیں مسلمان ہونے سے گریز کریں گی۔فتویٰ دینے سے پہلے مجھے خاصی تحقیق کرنا پڑی اور فقہ کی اکثر وبیشترکتابیں دیکھنا پڑیں۔ تمام فتوے جنہوں نے مسلمان عورت اور غیر مسلم مرد کی شادی کو منع کیا تھا، ان زمانوں کے تھے جب مسلمانوں اور غیر مسلموں میں جھگڑے اور لڑائیاں ہورہی تھیں۔ دوسری طرف قرآن اور سنت میں ایسی شادیوں کے خلاف مجھے ایک لفظ بھی نہ ملا۔
اس خاص واقعہ کے حوالے سے میرا موقف یہ تھا کہ وہ عورت مسلمان ہونے کے بعد اپنے غیر مسلم شوہر کے ساتھ ہی رہتی اور شوہرکے قبول اسلام کی وجہ بن جاتی۔ مسلمان ہونے والی باقی عورتوں کے خاندان بھی پیروی کرتے۔ مجھے اس موقف کے بعد بہت اعتراضات موصول ہوئے۔ کچھ نے مجھے کافر بھی قراردیا۔ لوگوں نے اسے عزت اور بے عزتی کا مسئلہ بنالیا۔ حالانکہ زیادہ امکان یہی تھا کہ شوہر بھی مسلمان ہو جاتا۔ مغرب میں رہنے والے مسلمانوںکا مفاد بھی اسی میں تھا۔
مسلمان اقلیتوں کو جو ’’اہل کتاب‘‘ کے ملکوں میں رہ رہی ہیںخود اس مسئلے پر غور کرنا چاہئے اور خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ کیا مناسب ہے کیونکہ صورت حال کا سامنا انہی کو ہے۔ وہ اس نتیجے پر ہی پہنچیں گی کہ انہیں اہل کتاب سے شادیاں کرنے کے لئے بیٹیوں کو اجازت دے دینی چاہئے کیونکہ قوی امکان یہ ہے کہ وہ شوہروں کو اپنے راستے پر لے آئیں گی!
(غیر مسلم عورت کے قبول اسلام پر شوہر کو نہ چھوڑنے کے متعلق ’’یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ‘‘ نے بھی وہی فتویٰ دیا ہے جو حسن الترابی نے دیا۔ اس کونسل میں لبنان، سوڈان، سعودی عرب، ماریطانیہ، کویت اور یو اے ای کے علاوہ مغربی ملکوں کے ممتاز علماء بھی شامل ہیں۔ معروف فقیہ یوسف القرضاوی بھی کونسل کے ممبر ہیں)۔
سوال:آپ نے ایک اور متنازع بات بھی کہی کہ گواہی میں مرد اور عورت برابر ہیں؟
جواب: بھائی ، میری بات سنے اور سمجھے بغیر، فیصلہ نہ کیجئے۔ جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے اس میں قرضے کو ضبط تحریر میں لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس میں حکم ہے کہ ایک لکھنے والا ہو اور معاہدے کی تصدیق کے لئے گواہ ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’عورتوں میں سے ایک بھول نہ جائے‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ وہ یقینا بھول جائے گی۔ ایک اور مقام پر کلام پاک میںدو انصاف پسند گواہوں کی بات کی گئی ہے جو کسی کی موت پر گواہی دیں گے۔ یہاں جنس کی تخصیص ہی نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندان میںکسی کی موت کے وقت زیادہ امکان یہ ہے کہ خواتین اس وقت پاس ہوں گی۔ یہاں مردوں اور عورتوں کی گواہی کے لئے ایک ہی معیار ہے۔
بہت سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ گواہی دینے کی کئی صورتیں ہیں۔ جیسے معاہدے کی تصدیق ، یا جج یا وکیل کے سامنے شہادت دینا! آج کے عہد میں بہت سی خواتین وکالت میں اور بزنس میں نام پیدا کر رہی ہیں۔ بہت سے مرد ان کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتے۔ ابتدائے اسلام میں بزنس اور تجارت میں خواتین ناتجربہ کار تھیں! یہ اب جج پر منحصر ہے کہ وہ کس کو گواہ کے طور پر قبول کرتا ہے۔
سوال: کیا آپ نے فتویٰ دیا ہے کہ عورت نماز پڑھا سکتی ہے؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ منع کس نے کیا ہے؟ یہ تو آپ لوگوں کا رواج اور روایات تھیں جو عورت کو نماز گھرپر پڑھواتی رہی نہ کہ مسجد میں۔ یہ قرآن اور حدیث کا حکم تو نہ تھا! رسول اکرم ﷺ کی صحابیہ تھیں جو مردوں کو نماز پڑھاتی رہیں۔ اگر کوئی خاتون نیک ہے تو اسے نماز پڑھانی چاہئے اور اگر کسی کا خیال اسے دیکھ کر کسی اور سمت بھٹک جاتا ہے تو اسے بیمار (ذہنیت کا)سمجھنا چاہئے! مرد کے نماز پڑھاتے وقت ہم کیا اس کی سفید داڑھی یا بدصورت چہرہ دیکھ پاتے ہیں؟ ہم یہ سنتے ہیں کہ وہ کہہ کیا رہا ہے۔ عالم فاضل اور نیک خواتین کا بھی یہی معاملہ ہونا چاہئے۔
سوال: امام مہدی کی آمد پر بھی آپ کے خیالات مختلف ہیں؟
جواب: اس ضمن میں کئی احادیث ہیں! تاہم میں مسلمانوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے امام مہدی کا انتظار کرنے کے بجائے خود بھی کچھ کریں۔ وہ منتظر ہیں کہ امام مہدی تشریف لائیں گے اور عدل قائم کریں گے۔ وہ خود کسی قوت اور حرکت سے محروم ہیں! یہ تو موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں والی بات ہوئی جنہوں نے پیغمبر سے کہا کہ آپ جا کر لڑائی کریں، ہم تو یہیں ٹھہریں گے۔ میں مسلمانوں سے کہتا ہوںکہ آپ سب انشاء اللہ مہدی ہیں!

Saturday, March 05, 2016

یہ 2016ء ہے!

’’ہم تعلیم یافتہ تھے! تعلیم ہمارا زیور تھا! تیس سال میں ہم جاہل ہو گئے!‘‘
مصطفی کمال نے یہ کہا تو کون سا غلط کہا۔ یہ کہہ کر وہ روپڑا اس لیے کہ بات ہی رونے کی ہے۔
جس کمیونٹی نے دانشور، عالم، فقیہہ، محدث، مفسر، خطیب، طبیب، شاعر اور ادیب پیدا کیے، اُس کمیونٹی میں جاوید لنگڑا اور اجمل پہاڑی پیدا ہونے لگے۔ کہاں سلیمان ندوی، کہاں عبدالماجد دریا بادی، کہاں شبلی نعمانی، کہاں محمد علی جوہر، کہاں حکیم اجمل خان اور کہاں صولت مرزا اور نام نہاد سیکٹر کمانڈر! اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون!
دوسروں پر کیا گلہ، خود اہلِ کراچی بھول گئے کہ ان کے اجداد کیا تھے؟ وہ کس درخت سے ٹوٹے اور پیوند کاری کا شکار ہو کر کہاں پہنچ گئے۔ جتنے منتظم، دانش ور، فقہا، محدثین، شاعر اور نثر نگار زمین کے اس مختصر ٹکڑے نے، جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان ہے، پیدا کیے، عالمِ اسلام میں زمین کے کسی اتنے مختصر ٹکڑے نے شاید ہی پیدا کیے ہوں۔ مشہور مورّخ ضیاء الدین برنی لکھتا ہے کہ علائو الدین خلجی کے دور میں جو علماء دہلی میں پائے جاتے تھے ان کی مثال اُس وقت کے بخارا، مصر، دمشق، اصفہان اور تبریز میں نہیں ملتی تھی۔ برنی لکھتا ہے کہ…’’بعض علما غزالی اور رازی کی ٹکر کے تھے اور فقہ کے بعض ماہرین کو امام ابویوسف اور امام محمد کا درجہ حاصل تھا‘‘
امیر خسرو نے دہلی کو قبّۂ اسلام لکھا۔ محمد تغلق کے دسترخوان پر دوسو فقہا موجود ہوتے تھے۔ سکندر لودھی کے پاس روزانہ رات کو ستر علما تبادلۂ خیال کے لیے جمع ہوتے تھے۔ آگرہ کے کئی مدرسوں میں شیراز سے اساتذہ پڑھانے آتے تھے۔ صرف دہلی میں ایک ہزار تعلیمی ادارے تھے۔ جونپور سے (جس کا آج نام بھی کوئی نہیں جانتا) سید عبدالاول جونپوری نے صحیح بخاری کی شرح فیض الباری لکھی۔ یہاں سے دیوان عبدالرشید اور ملا محمد جونپوری پیدا ہوئے جن کے بارے
میں شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ علامہ تفتازانی اور علامہ جرجانی کے بعد اس پائے کے دو علماء کبھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ مغلوں کے عہدِ زوال میں صرف نجیب الدولہ کے ہاں نو سو علماء تھے۔ سرہند کے فرزند شیخ احمد نے تو سلطنتوں کی کایا پلٹ ڈالی۔ مجدد الف ثانی بن کر ابھرے۔ مجددی سلسلہ اب بھی شام، ترکی اور افغانستان موجود ہے۔ دہلی کے شاہ ولی اللہ کے خاندان نے علماء اور مجاہدین کی جتنی نسلیں اور جتنے گروہ پیدا کیے ان پر آج تک کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ پٹنہ کے صرف ایک محلے صادق پور نے تحریک مجاہدین کو کتنے ہی غازی اور شہید دیئے۔ مولانا ولایت علی اور عنایت علی جن کا شمار بہار کے نوابوں میں ہوتا تھا فقیر ہو گئے۔ ان کی حویلیوں پر ہل چلا دیئے گئے مگر بہار اور پٹنہ کے نام تاریخ کے صفحات پر ثبت کر گئے۔
یہی خطہ تھا، پٹنہ اور دہلی کے درمیان کا، جس نے بیدل، خسرو، فیضی اور ابوالفضل پیدا کیے جن کے نام سن کر ایرانی اہلِ علم بھی جھک جاتے ہیں۔ تاریخ، تہذیب، ثقافت اِس خطے کے آگے صدیوں ہاتھ باندھ کر کھڑے رہے۔ نام گننے میں نہیں آ سکتے۔ میرؔ اور دردؔ سے شروع ہوں، غالب، شیفتہ، مومن، ذوق، انیس، دبیر، مفتی صدر الدین آزردہ، سرسید احمد خان اور ان کی قیادت میں لکھنے والوں کی پوری کہکشاں، ڈپٹی نذیر احمد، فرحت اللہ بیگ، سجاد حیدر یلدرم، شبلی، سلیمان ندوی، حمید الدین فراہی، محمد علی جوہر، حسرت موہانی، جگرمراد آبادی۔ سب کے نام یاد رکھنا اور اس فہرست کو مکمل کرانا ممکن ہی نہیں، ممکن ہو بھی تو ازحد مشکل! ہفتے درکار ہیں۔ مصطفی کمال رویا! نہ روتا تو کیا کرتا! اب جو ہمارے دوست یہ کہہ رہے ہیں کہ اتنا عرصہ مصطفی کمال ایم کیو ایم میں رہا، پہلے کیوں نہ بولا تو یہ عجیب منطق ہے۔ یہ وہی اعتراض ہے جو قائد اعظم پر کیا گیا تھا کہ آپ پہلے فلاں جماعت میں تھے۔قائد اعظم کا جواب تھا کہ کسی زمانے میں وہ پرائمری سکول میں بھی پڑھتے تھے۔ جب کسی کو ہوش آ جائے اور جب کسی میں ہمت پیدا ہو جائے اور پلٹ پڑے تو اس بیداری کی تحسین ہونی چاہیے نہ کہ مذمت۔ ایک دوست نے تو اعتراض کرتے وقت حد ہی کر دی کہ مصطفی کمال نے جس مکان میں پریس کانفرنس کی وہ زیر تعمیر تھا۔ پلستر نہیں ہوا تھا۔ مرمت مکمل نہ تھی۔ ان باتوں کا پریس کانفرنس کے مندرجات سے کیا تعلق ہے؟ کیا پریس کانفرنس کرنے سے پہلے کے ڈی اے سے لکھوا کر لانا چاہیے تھا کہ مکان مکمل ہو چکا ہے۔ ایک نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ یہ چوہدری نثار کا آخری پتا ہے۔ محمد علی جوہر یاد آ گئے۔ بغاوت کا مقدمہ زیر سماعت تھا۔ انگریز مجسٹریٹ نے پھبتی کسی کہ یہ غنڈے ہیں۔ محمد علی جوہر نے جواب دیا کہ ہاں! غنڈے ہیں، مگر اللہ میاں کے غنڈے ہیں، ملکہ برطانیہ کے غنڈے نہیں! اگر مصطفی کمال چوہدری نثار کا پتا ہے توراکا پتا ہونے سے تو پھر بھی بہتر ہے۔ ایک طنز یہ کیا گیا کہ یہ تو ٹیلی فون آپریٹر تھا۔ اب یہ کون پوچھے کہ جن کے اہلِ خانہ لاس اینجلز کے گراں ترین حصوں میں رہائش پذیر ہیں، کیا وہ خاندانی رئیس ہیں؟ اِن حضرات میں سے بہت سوں کے اصل گھر اب امریکہ اور کینیڈا میں ہیں۔ کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ ایک جہاز سے اوقیانوس پار کرتے ہیں تو دوسرے سے بحرالکاہل کے اوپر پرواز کر رہے ہوتے ہیں۔ مڈل کلاس؟ کون سی مڈل کلاس؟ بھائی! یہ مڈل کلاس نہیں تھی۔ لوئر کلاس تھی اور اب اَپر کلاس سے بھی کوسوں اُوپر جا چکی ہے۔
اس کالم نگار نے کئی بار لکھا ہے اور کئی بار کہا ہے کہ ایم کیو ایم جن حالات میں وجود میں آئی اُن حالات کے ذمہ دار اہلِ کراچی نہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہم، جو اردو سپیکنگ نہیں ہیں، پنجابی، کشمیری، سندھی، پٹھان، بلوچی، سرائیکی اور نہ جانے کیا کیا بنے۔ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس تنظیم جب کراچی یونیورسٹی میں بنی ہے تو یونیورسٹی میں پندرہ طلبہ تنظیمیں لسانی، نسلی اور علاقائی بنیادوں پر پہلے سے موجود تھیں۔ سندھی اور بلوچ وڈیرے، بھیانک مونچھوں کو تائو دیتے، پجارو پر کراچی میں گھومتے تھے، محلات میں رہتے تھے۔ ان کے خوفناک بندوق بردار محافظوں کو دیکھ کر کراچی کے پڑھے لکھے، متین، سوبر نوجوان، دل میں پیچ و تاب کھاتے تھے۔ مہاجر سٹوڈنٹس تنظیم نہ بنتی تو کیا مہاجروں کے بچے سرائیکی یا بلوچ طلبہ تنظیموں میں جاتے؟ ایم کیو ایم ردِ عمل میں بنی۔ ردعمل ہمیشہ شدید، غیر منطقی اور انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔ مگر افسوس! الطاف حسین انتہا سے بھی کہیں آگے نکل گئے۔ جو کمیونٹی برصغیر کی ذہنی قیادت کرتی آ رہی تھی، جس کی ایک تاریخی جھلک اوپر دکھائی گئی ہے، اس کمیونٹی کو انہوں نے مجبور کیا کہ وہ گھر کا سازو سامان فروخت کر کے کلاشنکوفیں خریدے۔ الطاف حسین میں ذہنی پختگی اور وژن ہوتا تو وہ پورے ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کو ساتھ ملا کر ملک کی تقدیر بدل سکتے تھے۔ اس ملک کے پڑھے لکھے لوگ وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں، اسمبلیوں کے جدی پشتی ارکان سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ہفت روزہ چٹان کا اجراء کیا تو کسی نے کہا تھا کہ چٹانوں سے ٹکرانے والا شورش چٹان کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔ افسوس! تاریخ نے الطاف حسین کو موقع دیا تھا کہ وہ بڑے لیڈر بنتے، ملک کی کایا پلٹ دیتے، مگر وہ ذہنی طور پر عزیز آباد سے نکل ہی نہ سکے۔
کراچی کے دوستوں سے بات ہوئی ہے۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کا مینڈیٹ اتنا بڑا ہے کہ کچھ فرق نہیں پڑنے والا! اپنے آپ کو طفل تسلی دینے والی بات ہے۔ آخر اسی مینڈیٹ سے آٹھ لاکھ ووٹ پی ٹی آئی کے لیے نکلے۔ مصطفی کمال نے تالاب میں جو کنکر پھینکا ہے، اس سے پیدا ہونے والا ارتعاش تھمنے والا نہیں! وقت آگے بڑھتا ہے، پلٹتا نہیں، یہ 2016ء ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار پر رحم آتا ہے۔ کیا عجیب و غریب ذمہ داری ان کے سر آن پڑی ہے۔ بکری کو خرگوش ثابت کرنا ہے اور کوشش پوری کر رہے ہیں مگر ہائے افسوس بکری خرگوش بن نہیں سکتی۔
تردید اور شے ہے۔ الزامات کا مسکت جواب اور شے! مصطفی کمال نے کہا ہے… ’’سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کو 2013ء میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان نے ’’را‘‘ سے رابطوں کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔ اس بریفنگ میں میں اور انیس قائم خانی بھی موجود تھے۔ لندن سے طارق اور محمد انور بھی آئے تھے۔ محمد انور اور طارق میر نے رحمن ملک کو بتایا کہ ہم نے سکاٹ لینڈ کے سامنے اعتراف کر لیا ہے کہ ہمارے ’’را‘‘ سے رابطے ہیں۔ اب کیا کیا جائے؟‘‘
اس کا پس منظر بھی مصطفی کمال نے تفصیل سے بتایا۔ ایم کیو ایم پر لازم ہے کہ اس کا جواب ہاں یا نہیں میں کسی ابہام کے بغیر دے۔

تصحیح: کل کے کالم میں سید سلیمان ندوی کی کتاب کا نام خطباتِ مدراس کے بجائے خطباتِ مدارس چھپ گیا ہے۔ یہ کمپوزنگ کی غلطی تھی۔ کتاب اُن خطبات کا مجموعہ ہے جو سید صاحب نے مدراس شہر میں دیئے تھے۔
 

powered by worldwanders.com