Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, March 05, 2016

یہ 2016ء ہے!

’’ہم تعلیم یافتہ تھے! تعلیم ہمارا زیور تھا! تیس سال میں ہم جاہل ہو گئے!‘‘
مصطفی کمال نے یہ کہا تو کون سا غلط کہا۔ یہ کہہ کر وہ روپڑا اس لیے کہ بات ہی رونے کی ہے۔
جس کمیونٹی نے دانشور، عالم، فقیہہ، محدث، مفسر، خطیب، طبیب، شاعر اور ادیب پیدا کیے، اُس کمیونٹی میں جاوید لنگڑا اور اجمل پہاڑی پیدا ہونے لگے۔ کہاں سلیمان ندوی، کہاں عبدالماجد دریا بادی، کہاں شبلی نعمانی، کہاں محمد علی جوہر، کہاں حکیم اجمل خان اور کہاں صولت مرزا اور نام نہاد سیکٹر کمانڈر! اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون!
دوسروں پر کیا گلہ، خود اہلِ کراچی بھول گئے کہ ان کے اجداد کیا تھے؟ وہ کس درخت سے ٹوٹے اور پیوند کاری کا شکار ہو کر کہاں پہنچ گئے۔ جتنے منتظم، دانش ور، فقہا، محدثین، شاعر اور نثر نگار زمین کے اس مختصر ٹکڑے نے، جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان ہے، پیدا کیے، عالمِ اسلام میں زمین کے کسی اتنے مختصر ٹکڑے نے شاید ہی پیدا کیے ہوں۔ مشہور مورّخ ضیاء الدین برنی لکھتا ہے کہ علائو الدین خلجی کے دور میں جو علماء دہلی میں پائے جاتے تھے ان کی مثال اُس وقت کے بخارا، مصر، دمشق، اصفہان اور تبریز میں نہیں ملتی تھی۔ برنی لکھتا ہے کہ…’’بعض علما غزالی اور رازی کی ٹکر کے تھے اور فقہ کے بعض ماہرین کو امام ابویوسف اور امام محمد کا درجہ حاصل تھا‘‘
امیر خسرو نے دہلی کو قبّۂ اسلام لکھا۔ محمد تغلق کے دسترخوان پر دوسو فقہا موجود ہوتے تھے۔ سکندر لودھی کے پاس روزانہ رات کو ستر علما تبادلۂ خیال کے لیے جمع ہوتے تھے۔ آگرہ کے کئی مدرسوں میں شیراز سے اساتذہ پڑھانے آتے تھے۔ صرف دہلی میں ایک ہزار تعلیمی ادارے تھے۔ جونپور سے (جس کا آج نام بھی کوئی نہیں جانتا) سید عبدالاول جونپوری نے صحیح بخاری کی شرح فیض الباری لکھی۔ یہاں سے دیوان عبدالرشید اور ملا محمد جونپوری پیدا ہوئے جن کے بارے
میں شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ علامہ تفتازانی اور علامہ جرجانی کے بعد اس پائے کے دو علماء کبھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ مغلوں کے عہدِ زوال میں صرف نجیب الدولہ کے ہاں نو سو علماء تھے۔ سرہند کے فرزند شیخ احمد نے تو سلطنتوں کی کایا پلٹ ڈالی۔ مجدد الف ثانی بن کر ابھرے۔ مجددی سلسلہ اب بھی شام، ترکی اور افغانستان موجود ہے۔ دہلی کے شاہ ولی اللہ کے خاندان نے علماء اور مجاہدین کی جتنی نسلیں اور جتنے گروہ پیدا کیے ان پر آج تک کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ پٹنہ کے صرف ایک محلے صادق پور نے تحریک مجاہدین کو کتنے ہی غازی اور شہید دیئے۔ مولانا ولایت علی اور عنایت علی جن کا شمار بہار کے نوابوں میں ہوتا تھا فقیر ہو گئے۔ ان کی حویلیوں پر ہل چلا دیئے گئے مگر بہار اور پٹنہ کے نام تاریخ کے صفحات پر ثبت کر گئے۔
یہی خطہ تھا، پٹنہ اور دہلی کے درمیان کا، جس نے بیدل، خسرو، فیضی اور ابوالفضل پیدا کیے جن کے نام سن کر ایرانی اہلِ علم بھی جھک جاتے ہیں۔ تاریخ، تہذیب، ثقافت اِس خطے کے آگے صدیوں ہاتھ باندھ کر کھڑے رہے۔ نام گننے میں نہیں آ سکتے۔ میرؔ اور دردؔ سے شروع ہوں، غالب، شیفتہ، مومن، ذوق، انیس، دبیر، مفتی صدر الدین آزردہ، سرسید احمد خان اور ان کی قیادت میں لکھنے والوں کی پوری کہکشاں، ڈپٹی نذیر احمد، فرحت اللہ بیگ، سجاد حیدر یلدرم، شبلی، سلیمان ندوی، حمید الدین فراہی، محمد علی جوہر، حسرت موہانی، جگرمراد آبادی۔ سب کے نام یاد رکھنا اور اس فہرست کو مکمل کرانا ممکن ہی نہیں، ممکن ہو بھی تو ازحد مشکل! ہفتے درکار ہیں۔ مصطفی کمال رویا! نہ روتا تو کیا کرتا! اب جو ہمارے دوست یہ کہہ رہے ہیں کہ اتنا عرصہ مصطفی کمال ایم کیو ایم میں رہا، پہلے کیوں نہ بولا تو یہ عجیب منطق ہے۔ یہ وہی اعتراض ہے جو قائد اعظم پر کیا گیا تھا کہ آپ پہلے فلاں جماعت میں تھے۔قائد اعظم کا جواب تھا کہ کسی زمانے میں وہ پرائمری سکول میں بھی پڑھتے تھے۔ جب کسی کو ہوش آ جائے اور جب کسی میں ہمت پیدا ہو جائے اور پلٹ پڑے تو اس بیداری کی تحسین ہونی چاہیے نہ کہ مذمت۔ ایک دوست نے تو اعتراض کرتے وقت حد ہی کر دی کہ مصطفی کمال نے جس مکان میں پریس کانفرنس کی وہ زیر تعمیر تھا۔ پلستر نہیں ہوا تھا۔ مرمت مکمل نہ تھی۔ ان باتوں کا پریس کانفرنس کے مندرجات سے کیا تعلق ہے؟ کیا پریس کانفرنس کرنے سے پہلے کے ڈی اے سے لکھوا کر لانا چاہیے تھا کہ مکان مکمل ہو چکا ہے۔ ایک نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ یہ چوہدری نثار کا آخری پتا ہے۔ محمد علی جوہر یاد آ گئے۔ بغاوت کا مقدمہ زیر سماعت تھا۔ انگریز مجسٹریٹ نے پھبتی کسی کہ یہ غنڈے ہیں۔ محمد علی جوہر نے جواب دیا کہ ہاں! غنڈے ہیں، مگر اللہ میاں کے غنڈے ہیں، ملکہ برطانیہ کے غنڈے نہیں! اگر مصطفی کمال چوہدری نثار کا پتا ہے توراکا پتا ہونے سے تو پھر بھی بہتر ہے۔ ایک طنز یہ کیا گیا کہ یہ تو ٹیلی فون آپریٹر تھا۔ اب یہ کون پوچھے کہ جن کے اہلِ خانہ لاس اینجلز کے گراں ترین حصوں میں رہائش پذیر ہیں، کیا وہ خاندانی رئیس ہیں؟ اِن حضرات میں سے بہت سوں کے اصل گھر اب امریکہ اور کینیڈا میں ہیں۔ کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ ایک جہاز سے اوقیانوس پار کرتے ہیں تو دوسرے سے بحرالکاہل کے اوپر پرواز کر رہے ہوتے ہیں۔ مڈل کلاس؟ کون سی مڈل کلاس؟ بھائی! یہ مڈل کلاس نہیں تھی۔ لوئر کلاس تھی اور اب اَپر کلاس سے بھی کوسوں اُوپر جا چکی ہے۔
اس کالم نگار نے کئی بار لکھا ہے اور کئی بار کہا ہے کہ ایم کیو ایم جن حالات میں وجود میں آئی اُن حالات کے ذمہ دار اہلِ کراچی نہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے ہم، جو اردو سپیکنگ نہیں ہیں، پنجابی، کشمیری، سندھی، پٹھان، بلوچی، سرائیکی اور نہ جانے کیا کیا بنے۔ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس تنظیم جب کراچی یونیورسٹی میں بنی ہے تو یونیورسٹی میں پندرہ طلبہ تنظیمیں لسانی، نسلی اور علاقائی بنیادوں پر پہلے سے موجود تھیں۔ سندھی اور بلوچ وڈیرے، بھیانک مونچھوں کو تائو دیتے، پجارو پر کراچی میں گھومتے تھے، محلات میں رہتے تھے۔ ان کے خوفناک بندوق بردار محافظوں کو دیکھ کر کراچی کے پڑھے لکھے، متین، سوبر نوجوان، دل میں پیچ و تاب کھاتے تھے۔ مہاجر سٹوڈنٹس تنظیم نہ بنتی تو کیا مہاجروں کے بچے سرائیکی یا بلوچ طلبہ تنظیموں میں جاتے؟ ایم کیو ایم ردِ عمل میں بنی۔ ردعمل ہمیشہ شدید، غیر منطقی اور انتہا پسندانہ ہوتا ہے۔ مگر افسوس! الطاف حسین انتہا سے بھی کہیں آگے نکل گئے۔ جو کمیونٹی برصغیر کی ذہنی قیادت کرتی آ رہی تھی، جس کی ایک تاریخی جھلک اوپر دکھائی گئی ہے، اس کمیونٹی کو انہوں نے مجبور کیا کہ وہ گھر کا سازو سامان فروخت کر کے کلاشنکوفیں خریدے۔ الطاف حسین میں ذہنی پختگی اور وژن ہوتا تو وہ پورے ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کو ساتھ ملا کر ملک کی تقدیر بدل سکتے تھے۔ اس ملک کے پڑھے لکھے لوگ وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں، اسمبلیوں کے جدی پشتی ارکان سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ہفت روزہ چٹان کا اجراء کیا تو کسی نے کہا تھا کہ چٹانوں سے ٹکرانے والا شورش چٹان کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔ افسوس! تاریخ نے الطاف حسین کو موقع دیا تھا کہ وہ بڑے لیڈر بنتے، ملک کی کایا پلٹ دیتے، مگر وہ ذہنی طور پر عزیز آباد سے نکل ہی نہ سکے۔
کراچی کے دوستوں سے بات ہوئی ہے۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کا مینڈیٹ اتنا بڑا ہے کہ کچھ فرق نہیں پڑنے والا! اپنے آپ کو طفل تسلی دینے والی بات ہے۔ آخر اسی مینڈیٹ سے آٹھ لاکھ ووٹ پی ٹی آئی کے لیے نکلے۔ مصطفی کمال نے تالاب میں جو کنکر پھینکا ہے، اس سے پیدا ہونے والا ارتعاش تھمنے والا نہیں! وقت آگے بڑھتا ہے، پلٹتا نہیں، یہ 2016ء ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار پر رحم آتا ہے۔ کیا عجیب و غریب ذمہ داری ان کے سر آن پڑی ہے۔ بکری کو خرگوش ثابت کرنا ہے اور کوشش پوری کر رہے ہیں مگر ہائے افسوس بکری خرگوش بن نہیں سکتی۔
تردید اور شے ہے۔ الزامات کا مسکت جواب اور شے! مصطفی کمال نے کہا ہے… ’’سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کو 2013ء میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان نے ’’را‘‘ سے رابطوں کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔ اس بریفنگ میں میں اور انیس قائم خانی بھی موجود تھے۔ لندن سے طارق اور محمد انور بھی آئے تھے۔ محمد انور اور طارق میر نے رحمن ملک کو بتایا کہ ہم نے سکاٹ لینڈ کے سامنے اعتراف کر لیا ہے کہ ہمارے ’’را‘‘ سے رابطے ہیں۔ اب کیا کیا جائے؟‘‘
اس کا پس منظر بھی مصطفی کمال نے تفصیل سے بتایا۔ ایم کیو ایم پر لازم ہے کہ اس کا جواب ہاں یا نہیں میں کسی ابہام کے بغیر دے۔

تصحیح: کل کے کالم میں سید سلیمان ندوی کی کتاب کا نام خطباتِ مدراس کے بجائے خطباتِ مدارس چھپ گیا ہے۔ یہ کمپوزنگ کی غلطی تھی۔ کتاب اُن خطبات کا مجموعہ ہے جو سید صاحب نے مدراس شہر میں دیئے تھے۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com