Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, July 25, 2024

ہم ایسی پہیلی ہیں جسے کوئی سہیلی نہیں بُوجھ سکتی


تین مزدور تھے۔ دوپہر کا کھانا گھر سے لاتے۔ کھانا کیا ہوتا! سوکھی روٹی اور رات کا بچا کھچا سالن! تینوں نے صلاح مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ بیویوں کی کھنچائی کریں گے۔ آئندہ پراٹھے پکا کر ساتھ بھیجیں گی۔ مگر اس کھنچائی کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بالآخر انہوں نے بیویوں کو فائنل وارننگ دی کہ پراٹھے نہ ساتھ کیے تو خودکشی کر لیں گے۔ ان تینوں مزدوروں میں ایک مزدور سکھ تھا۔ آخری وارننگ کے بعد اگلی دوپہر کھانے کا وقفہ ہوا تو دو کے کھانے میں پراٹھے تھے اور سکھ کے کھانے میں وہی چپاتی! سکھ نے تیسری منزل سے چھلانگ لگائی اور خودکشی کر لی۔ اس کی بیوہ بَین کرتی تھی اور کہتی تھی: ہائے چپاتی اپنے لیے پکائی بھی اس نے خود ہی تھی!
ہم پاکستانیوں کا حال بھی اُس سکھ جیسا ہے۔ رات دن ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ دُکھوں کی پٹاری کھول کر سرِ راہ بیٹھے ہیں۔ دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے اور حیران ہو رہی ہے۔ سارے مسائل کا حل ہماری اپنی جیب میں ہے۔ ہم خود کشی کر نے کو تیار ہیں مگر مسائل حل نہیں کریں گے!
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آئی پی پیز کا ہے۔ یعنی بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں! یہ کمپنیاں پیداوار کے حساب سے پیسے نہیں لے رہیں بلکہ کپیسٹی کے حساب سے لے رہی ہیں۔ مثلاً ایک کمپنی اگر سو میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتی ہے مگر عملاً اس کی پیداوار صفر ہے تو حکومت سے پیسے سو میگاواٹ ہی کے لے رہی ہے۔ یہی رونا سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے رویا ہے۔ انہوں نے ہولناک اعداد وشمار دیے ہیں کہ رواں سال کے دوران‘ پہلے تین ماہ میں آئی پی پیز کو چار سو پچاس ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں جبکہ ان میں سے کچھ کی پیداوار صفر ہے۔ اس ظلم کا سارا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے۔ اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہے تو بالکل کر سکتی ہے۔ کیا یہ چالیس خاندان‘ جو اِن کمپنیوں کے مالک ہیں‘ غیر ملکی ہیں۔ ارے بھائی! ان میں سے بہت سے تو خود حکومت کا حصہ ہیں! مگر حیرت ہے کہ قیامت کا شور برپا ہے اور اہلِ اختیار اس شور کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ کوئی میٹنگ ان کمپنیوں سے کی جا رہی ہے نہ عوام کے احتجاج کو خاطر میں لایا جا رہا ہے۔ تو پھر یہ مسئلہ کیا اقوام متحدہ حل کرے گی یا سعودی اور چینی حکومتیں؟ نیت ہو تو ان کمپنیوں سے مذاکرات کر کے مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ہاں! اگر ''مفادات‘‘ آڑے آ رہے ہیں‘ تو اور بات ہے۔ نیت کی خرابی کا علاج کوئی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہم کا کوئی علاج نہیں! شاید یہ کہاوت غلط ہے۔ یہ نیت کی خرابی ہے جو لاعلاج ہے۔ علاج کرنے والے مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ سُن رہے ہیں۔ پانی سر سے گزر جائے گا تو جاگیں گے۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے۔ حیرت ہے کہ گوہر اعجاز صاحب کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ شورش کاشمیری ایک شعر پڑھا کرتے تھے اور لکھا کرتے تھے۔ معلوم نہیں کس کا ہے تاہم ہمارے حال پر منطبق ہو رہا ہے۔
وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
افغان سرحد کا معاملہ بھی ہم نے خود پیچیدہ کیا۔ پالیسیاں اتنی بار تبدیل ہوئیں کہ آج ڈور کا سرا نہیں مل رہا۔ کیا افغانوں نے کہا تھا کہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے؟ کیا فاتح جلال آباد جیسے مضحکہ خیز القابات افغانوں نے ایجاد کیے تھے؟ کیا ضیاالحق کے تاریک عہد میں ہماری افغان پالیسی افغانستان نے بنائی تھی؟ سارا کیا کرایا ہمارا اپنا ہے اور ان سیاستدانوں کا ہے جو ضیاالحق کی شوریٰ میں شامل تھے۔ ادھر ادھر دیکھیے‘ ان میں سے کئی چہرے آج کے پیش منظر پر بھی آپ کو دکھائی دیں گے۔ آج ہم شور مچا رہے ہیں کہ جس طرح دوسرے ملکوں کے لوگ ویزا لے کر آتے ہیں‘ افغان بھی اسی طرح آئیں۔ تو ویزے کی شرط بھی تو ہم ہی نے ختم کی تھی۔ اس سرحد کی حرمت ہم نے خود ہی خاک میں ملائی تھی۔ آج ہم دہائی دے رہے ہیں کہ چالیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کر کے تھک چکے ہیں۔ ان چالیس لاکھ کو پورے ملک میں ہم نے خود ہی پھیلایا تھا اور پورے ملک کی ٹرانسپورٹ اور بزنس کو ہم نے خود ہی پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ آج بھی ہم چاہیں تو ویزا کی پابندی نافذ کر سکتے ہیں مگر پالیسیاں ایک ہاتھ میں تو ہوں! جہاں سٹیک ہولڈرز کئی ہوں وہاں پالیسی بنے گی کیا اور نافذ کیا ہو گی؟ سمگلنگ ایرانی تیل کی ہو یا دوسری اشیا کی‘ اشیا غیر قانونی طور پر اندر آ رہی ہیں یا باہر جا رہی ہیں‘ قصور تو پاکستانیوں ہی کا ہے! اگر سختی کرنے سے ڈالر تین سو سے نیچے آ سکتا ہے اور ایرانی تیل کی سمگلنگ کم ہو سکتی ہے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ سب کچھ ہمارے اپنے اختیار میں ہے! جو سمگلنگ ہمارے اپنے اقدامات سے کم ہو سکتی ہے وہ ختم بھی تو کی جا سکتی ہے۔ اور ہم ختم کرنا نہیں چاہتے تو اس کی ذمہ داری نائیجیریا‘ زیمبیا یا گیمبیا پر تو نہیں ڈالی جا سکتی!
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہماری افغان پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج جن افغانوں کے لیے ہم نے قربانیاں دیں‘ وہ بھی ہم سے ناراض ہیں۔ جن طالبان کے لیے دنیا بھر کو ناراض کیا‘ وہ آج حکومت میں آکر ہمارے ہی نہیں ہو رہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی نام نہاد پالیسیوں کا تجزیہ کرتے ہیں نہ اپنا محاسبہ! افغان کیوں ناراض ہیں؟ آخر کوئی تو وجہ ہو گی۔ جرمنی میں انہوں نے ہمارے قونصلیٹ پر حملہ کیا۔ کیوں؟ کیا ہم اس کی وجوہ جاننے کی کوشش کریں گے ؟ یقیناً نہیں! ہماری پالیسیوں کے بارے ہی میں شاید کسی نے کہا ہے: یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا
ہزاروں لاکھوں پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ افغانوں کو دیے گئے‘ کیا اس کی ذمہ داری برازیل کی ریاست پر ڈالی جائے گی؟ آج یواے ای نے پاکستانیوں کے لیے اپنی ویزا پالیسی سخت کر دی ہے۔ ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بھکاریوں کی کثیر تعداد پاکستان سے آ رہی ہے۔ تو ہمارے سفیر صاحبان نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے کیا کیا؟ ہماری اپنی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ ذمہ دار نہیں تو کیا ارجنٹائن کی حکومت ذمہ دار ہے؟ کتنے مجرموں کو اس حوالے سے عبرتناک سزا دی گئی ؟ یو اے ای نے مبینہ طور پر یہ شکایت بھی کی کہ جب وہاں پچھلے دنوں سیلاب آیا تو وہاں‘ یعنی یو اے ای میں‘ رہنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر میزبان ملک کی برائیاں کیں۔ اور اس قسم کے فتوے جاری کیے کہ مندر بنانے پر عذاب آیا ہے۔ یہ بھی ہم پاکستانیوں کی ادائے خاص ہے کہ جہاں رہتے ہیں وہاں کی خوب خوب برائیاں کرتے ہیں۔ تمام نہیں‘ مگر ایسا کرنے والوں کی تعداد کم بھی نہیں۔ ایک صاحب میرے جاننے والے میلبورن میں رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ دراز ریش ہیں۔ ہنس ہنس کر بتا رہے تھے کہ داڑھی کے بال ادھر ادھر پھیلا دیتے ہیں جسے دیکھ کر سفید فاموں کے بچے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں! پچیس سال سے وہاں‘ پورے خاندان کے ساتھ‘ رہ رہے ہیں۔ سوشل سکیورٹی بھی لے رہے ہیں۔ مگر ہر نئے آنے والے کو کوستے ہیں کہ کیوں آئے ہو؟ یہ ملک اچھا نہیں ہے!! پتا نہیں ہم کیا چیز ہیں! حکومتی سطح ہو یا قومی یا انفرادی‘ ہمارا رویہ‘ ہمارا مائنڈسیٹ‘ ہماری سوچ‘ ایسی پہیلی ہے جسے کوئی سہیلی نہیں بوجھ سکتی!!

Tuesday, July 23, 2024

پیٹ وِچ درد؟ یا ڈِھڈ وِچ پیڑ؟؟


بل مندر سنگھ سے پہلی ملاقات نوے کی دہائی میں ہوئی۔ میں اُن دنوں وفاقی وزارتِ ثقافت میں تعینات تھا۔ میری ڈیوٹی میں جہاں اور امور شامل تھے‘ یہ بھی شامل تھا کہ ثقافتی طائفے دوسرے ملکوں میں لے کر جاؤں۔ ڈاکٹر خالد سعید مرحوم وزارتِ ثقافت کے ذیلی ادارے نیشنل کونسل آف آرٹس کے سربراہ تھے اور ان امور میں وزارت کے معاون و مدد گار تھے۔ بیرونِ ملک ایک بہت بڑی نمائش کا انعقاد ہو رہا تھا۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ چونکہ اس نمائش میں دنیا بھر سے ثقافتی وفود جا رہے ہیں اس لیے پاکستان کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔ چنانچہ 21 افراد کا گروہ میرے سپرد کیا گیا کہ لے کر نمائش میں جاؤں۔ ان میں عورتیں اور مرد شامل تھے۔ رقاص تھے‘ مغنی تھے‘ موسیقار تھے اور وارڈ روب‘ میک اَپ وغیرہ کے انچارج تھے۔ ایک دن پاکستانی فنکار بھنگڑا پیش کر رہے تھے۔ ہزاروں کا مجمع تھا۔ لوگ مسحور ہو کر دیکھ رہے تھے۔ میں لوگوں کے تاثرات لینے کی غرض سے مجمع میں گھوم پھر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص‘ جس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی اور کنگھی کیے گئے سیاہ بال تھے‘ رو رہا تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور انگریزی میں پوچھا کہ کیوں رو رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ ایسا بھنگڑا اس نے مدتوں پہلے بچپن میں اپنے گاؤں میں دیکھا تھا اور اس کے بعد آج دیکھا ہے۔ اس لیے رونا آرہا ہے۔ میں اسے پاکستانی سمجھا۔ مگر تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کا نام بل مِندر سنگھ ہے اور وہ مشرقی پنجاب کے کسی گاؤں سے تھا۔ جب اسے بتایا کہ یہ ثقافتی طائفہ پاکستانی ہے اور میں اس کا لیڈر ہوں‘ تو وہ کرسی سے اٹھا اور پھر میرے گلے لگ کر رونا شروع کر دیا۔
دوسرے دن پاکستانی کمیونٹی نے ہمارے اعزاز میں ایک عصرانہ ترتیب دیا تھا۔ وہاں بل مِندر سنگھ بھی موجود تھا۔ پاکستانی کمیونٹی نے اس کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ بل مِندر سنگھ عملاً پاکستانی کمیونٹی ہی کا فرد ہے۔ پاکستان دوست سکھوں میں ممتاز حیثیت کا حامل ہے اور مقامی سیاست میں بھی پاکستانی کمیونٹی ہی کا ساتھ دیتا ہے۔ اتوار کو صبح صبح میرے کمرے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو بل مِندر تھا۔ کہنے لگا کہ آپ کو لینے آیا ہوں۔ دوپہر کا کھانا ہمارے گھر کھانا ہے۔ میں نے شکریہ ادا کر کے ٹالنا چاہا تو اس نے کہا وہ کافی دور سے ٹرین کے ذریعے آیا ہے اور محض تکلفاً نہیں کہہ رہا۔ چنانچہ میں اس کے ساتھ گیا۔ یہ ایک باقاعدہ دعوت تھی جس میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی۔ پھر کئی سال گزر گئے۔ گردشِ زمانہ ایک بار پھر اس کے شہر میں لے گئی۔ اس سے ملاقات ہوئی۔ اس کی طبیعت ملول تھی۔ کہنے لگا ''ڈِھڈ وچ پِیڑ اے‘‘! یہ فقرہ تھا جسے سنانے کے لیے یہ سارا واقعہ بیان کرنا پڑا۔ میرے ذہن میں فوراً یہ سوال ابھرا کہ پیدائشی پنجابی تو میں بھی ہوں مگر یاد نہیں کہ ڈِھڈ اور پِیڑ کے الفاظ آخری بار کب استعمال کیے؟ اور آج یہی رونا رونا ہے!
ہم پنجابی بھی ایک عجیب و غریب گروہ ہیں۔ پنجاب نے دوسروں کے لیے ہمیشہ اپنی باہیں پھیلا کر رکھیں اور ہمیشہ گالیاں کھائیں۔ لاہور سے لے کر پنجاب کے کسی دور افتادہ قریے تک جا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو ریڑھی والے سے لے کر بڑے دکاندار تک‘ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے بھائی مل جائیں گے۔ کچھ عرصہ پیشتر پنڈی‘ اسلام آباد کے ایک نواحی قصبے میں بچوں کے درمیان معمولی سا جھگڑا ہوا جس کی وجہ سے غیر مقامی افراد نے مقامی آبادی کی خوب پھینٹی لگائی۔ اب تو پنجاب کے اکثر شہروں میں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے بھائیوں نے الگ آبادیاں (Pockets) بسا رکھی ہیں۔ وہی کراچی والی غلطی دہرائی جا رہی ہے۔ بہر طور اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ فراخ دلی جب انتہا سے آگے گزر جائے تو وہ نام نہاد فراخ دلی ہو جاتی ہے۔ پنجابیوں نے عملی طور پر پنجابی زبان کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے۔ اپنے ارد گرد غور سے دیکھیے۔ کتنے پنجابی بچے‘ پنجابی زبان میں بات چیت کرتے ہیں؟ میرے ناقص حساب سے بمشکل پندرہ‘ بیس فیصد! خاص طور پر شہروں اور قصبوں میں! مجھے پختون بھائیوں کی یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ پختون جرنیل بن جائے یا بڑا افسر‘ اپنی زبان نہیں چھوڑتا اور اپنے گاؤں سے تعلق نہیں توڑتا۔ سندھی برادری کو بھی کوئی احساسِ کمتری نہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ سندھی بولتے ہیں۔ ہم پنجابی یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ زبان ایک ہتھیار‘ ایک اثاثہ‘ ایک دولت ہے۔ بچے کو ایک زبان سے محروم کر دینا اس کا نقصان کر دینا ہے۔ میرے لیے ممکن ہوتا تو اپنے بچوں کو پشتو اور سندھی بولنا بھی سکھاتا۔ اس ملک میں اگر نظامِ تعلیم میں عقل کا عمل دخل ہوتا تو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پشتو اور سندھی پڑھائی جاتی۔ اسی طرح سندھ‘ کے پی اور دیگر اکائیوں میں دوسرے صوبوں کی زبانیں پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ مگر تعلیمی نظام کیا‘ کسی بھی نظام میں ہمارے ہاں عقل کی کارفرمائی نہیں ہے۔ پلاننگ ہے نہ مستقبل بینی‘ بس ایک کھٹارہ بس کی طرح ملک چلے جا رہا ہے۔
تھوڑی بہت پنجابی جو ہم بہت بڑا احسان کر کے بولتے بھی ہیں‘ کون سی پنجابی ہے؟ ہم نے پنجابی بولنی ہو تو کہتے ہیں ''میرے پیٹ چے درد اے‘‘ پیٹ پنجابی کا لفظ ہے نہ درد۔ پنجابی میں تو پیٹ کو ڈِھڈ اور درد کو پِیڑ کہتے ہیں۔ دروازے کو بُوا اور کھڑکی کو باری کہتے ہیں۔ چارپائی کو منجی اور لاٹھی کو ڈانگ کہتے ہیں۔ نمک کو لُون کہتے ہیں (سندھی میں بھی لُون ہی کہتے ہیں)۔ مینڈک کو ڈڈو اور کوّے کو کاں کہتے ہیں۔ آج کل ملکو کا گانا بہت وائرل ہو رہا ہے۔ ''نَک دا کوکا‘ ڈِٹھا رتوکا‘‘ رتوکا کسے کہتے ہیں؟ ہماری پٹی میں یعنی پنجاب کے مغربی اضلاع میں پرسوں کو اتروں کہتے ہیں۔ اور اتروکا یا رتوکا کا مطلب ہوا ''پرسوں سے‘‘۔ مگر رتوکا کا ایک اور معنی بھی ہے اور وہ ہے ''رات سے‘‘! اور سرائیکی اور وسطی پنجاب میں یہی مطلب لیا جاتا ہے۔ یعنی کوکا رات سے گُم ہے۔ اسی طرح یہ گیت ہر مرد و زن اور ہر بچے بوڑھے نے سنا ہے۔ چَن کِتھاں گزاری ائی رات وے‘ مینڈا جی دلیلاں دے وات وے! تو یہاں وات کا کیا مطلب ہوا؟ وات پنجابی میں دہانے کو یعنی منہ کو کہتے ہیں۔ دلیلاں سے مراد وسوسے ہے۔ یعنی تم نے رات کہاں گزاری ؟ میرا دل وسوسوں کے منہ میں یعنی وسوسوں میں گھِرا ہوا ہے!
اردو بلاشبہ ہماری قومی زبان ہے مگر ہماری علاقائی زبانیں ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ بچہ اپنی مادری زبان سیکھے تو اس سے اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ بچے کو اپنی زبان سے محروم کرنا زیادتی ہے۔ علامہ اقبال‘ فیض صاحب‘ منیر نیازی‘ حفیظ جالندھری‘ احمد ندیم قاسمی‘ صوفی تبسم‘ ظفر علی خان‘ اشفاق احمد‘ ممتاز مفتی‘ شورش کاشمیری‘ سب اردو ادب کے بڑے نام ہیں اور یہ سب پنجابی بولتے تھے۔ پنجابی بولنے کی وجہ سے ان کی اردو تحریر و تقریر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ ماضی میں پنجاب کے طول و عرض میں جو مدارس تھے اور جن میں سے ہر مدرسہ وقعت میں یونیورسٹی کے برابر تھا‘ ان میں ذریعۂ تعلیم (میڈیم آف انسٹرکشن) پنجابی زبان ہی تھی۔ فارسی اور عربی علوم پنجابی کے ذریعے پڑھائے جاتے تھے۔ خیبرپختونخوا اور افغانستان میں یہی علوم پشتو کی مدد سے پڑھائے جاتے تھے۔ میں علامہ اقبال کے خطوط پڑھ رہا تھا۔ اپنے دوست گرامی پر‘ جو فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے‘ ایک شعر پر بحث کے دوران اپنا موقف پنجابی کی مدد سے واضح کر رہے تھے۔ اظہار کا بہترین ذریعہ مادری زبان ہی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم پنجابی بولیں تو پنجابی پنجابی ہی میں بولیں! اس میں اردو اور انگریزی کے پیوند نہ لگائیں!!

Monday, July 22, 2024

ریاست کی تلاش


تھک ہار کر میں ریاست کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ 
اُس دن میں نے بیوی سے پراٹھے پکوائے۔ ساتھ انڈوں کا خاگینہ! یہ سب ایک کپڑے میں باندھ کر پوٹلی سی بنائی۔ ڈنڈا اٹھایا‘ گدھے پر بیٹھا اور چل پڑا۔ گاؤں والوں نے پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ میں نے بتایا: ریاست کی تلاش میں! ان میں سے ایک سیانا بولا:شمال کی طرف سفر کرو! دو دن رات مسلسل چلتے رہنا‘ تیسری رات تمہیں جنگل میں آئے گی‘ دریا کے کنارے شہتوت کا بڑا سا درخت نظر آئے گا۔ اس کے نیچے اینٹوں کا چبوترہ بنا ہوا ہے‘ اس چبوترے سے چارپائی کا کام لینا۔ صبح تمہیں ایک فقیر‘ اسی درخت کے نیچے ملے گا‘ اس سے مدد مانگنا۔ گدھے کے ہمراہ میں نے پہلے بھی بہت مہمات سر کی تھیں اس لیے مجھے یقین تھا کہ گم شدہ ریاست کو ڈھونڈ نکالوں گا۔ گاؤں سے باہر ندی تھی‘ اسے عبور کیا تو پتھریلی سی چڑھائی آ گئی۔ سامنے سے فیقا مستری آرہا تھا۔ اس کی بڑی ڈیمانڈ تھی۔ کمال کا کاریگر تھا۔ مکان تعمیر کرتا تو دیکھنے کے لائق ہوتا۔ اس نے پوچھا: کدھر کا ارادہ ہے؟ بتایا‘ ریاست کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔ فیقا مستری میرے جواب پر ہنسنا شروع ہو گیا۔ پوچھا: اس میں دانت نکالنے والی کون سی بات ہے؟ اس پر وہ اور ہنسا اور کچھ کہے بغیر چلتا بنا۔ یہ عجیب بات ہوئی کہ جسے بھی راستے میں بتایا کہ ریاست کی تلاش ہے‘ وہ مرد یا عورت ہنسنا شروع ہو جاتی۔ ہنسنے کا سبب کوئی نہ بتاتا۔ دن کو میں سفر کرتا۔ رات جہاں بھی آتی‘ سو جاتا۔ آدھا پراٹھا کھاتا۔ گدھا گھاس چر لیتا۔ پانی ہم دونوں کسی دریا‘ ندی یا کنویں سے پی لیتے۔ 
دوسری رات گزارنے کے بعد‘ صبح سفر شروع کیا ہی تھا کہ جنگل شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے شیر ملا۔ گدھے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا۔ میں نے متنبہ کیا کہ گدھے کو کچھ نہ کہنا‘ ہم ایک ضروری کام سے جا رہے ہیں۔ شیر نے پوچھا: کون سا کام ؟ بتایا تو شیر بھی ہنسنے لگا۔ پاس سے ہاتھی گزر رہا تھا۔ شیر نے ہاتھی سے کہا: اس احمق کالم نگار کو دیکھو‘ یہ ریاست کی تلاش میں نکلا ہے۔ یہ سن کر ہاتھی نے بھی قہقہہ لگایا اور دونوں کچھ کہے بغیر چل دیے۔ سخت حیرت ہوئی کہ جنگل میں جو بھی ملا‘ زیبرا‘ تیندوا‘ زرافہ‘ لومڑی‘یہاں تک کہ سانپ بھی‘ جیسے ہی سنتا کہ ہم ریاست کی تلاش میں نکلے ہیں‘ تو ایک عجیب‘ تضحیک آمیز ہنسی ہنستا مگر ہنسنے کی وجہ نہ بتاتا۔ خیر ہم نے سفر جاری رکھا۔ شام ہوئی تو جیسا کہ گاؤں کے بُڈھے سیانے نے بتایا تھا‘ دریا نظر آیا۔ اس کے کنارے شہتوت کا درخت تھا جس کے نیچے اینٹوں سے بنا ایک پرانا‘ کھنڈر نما چبوترہ تھا۔ رات اس پر گزاری۔ صبح اٹھا‘ ادھر ادھر دیکھا تو واقعی درخت کی دوسری طرف ایک فقیر گدڑی اوڑھے بیٹھا تھا۔ عجیب ہیئت کذائی تھی اس کی۔ چہرے پر جگہ جگہ ابھار! بال لمبے‘ چیکٹ! مثنوی گلزار نسیم کا شعر یاد آگیا:
زنبورِ سیاہ خال اس کے 
برگد کی جٹائیں بال اس کے 
وہ دھوپ کی طرف منہ کیے‘ آنکھیں بند کر کے بیٹھا تھا۔ میں نے پاس جا کر کہا: بابا جی! کافی دیر کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھا۔ عرض کیا: مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ ریاست کو تلاش کرنے میں میری دستگیری فرمائیں گے۔ فقیر نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔ کافی دیر کے بعد صرف اتنا کہا کہ فیض آباد پُل پر چلے جاؤ! میں نے شکریہ ادا کیا جس کا بابا جی نے کوئی جواب نہ دیا۔ خیر! میں گدھے پر سوار ہوا۔ اور منزلوں پر منزلیں مارتا‘ دارالحکومت کا رخ کیا۔ ابھی فیض آباد پُل بہت دور تھا کہ داروغوں کے ایک گروہ نے روک لیا۔ جب بتایا کہ فیض آباد پُل پر جانا ہے تو انہوں نے کہا پُل پر دھرنے والوں کا قبضہ ہے‘ تمام راستے بند ہیں۔ یہ سن کر میں نے گدھا داروغوں کے حوالے کیا اور مرتا مارتا‘ گھسٹتا‘ رینگتا پُل پر پہنچ گیا۔ ارے! یہ کیا! واقعی ریاست یہاں موجود تھی۔ مگر جو منظر میں نے دیکھا حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ریاست دھرنے والوں کی مٹھی چاپی میں مصروف تھی۔ کبھی اُن کے سر پر مالش کرتی۔ کبھی ان کی ٹانگیں‘ پاؤں اور کاندھے دباتی‘ کبھی انہیں چائے اور شربت پیش کرتی! مجھ پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ ابھی میں صدمے ہی میں تھا کہ ریاست اٹھی‘ گھوڑے پر سوار ہوئی‘ ایڑ لگائی اور نظروں سے غائب ہو گئی۔ میں اُس وقت پیدل تھا۔ پیچھا کرنا ناممکن تھا۔ مگر گدھا پاس ہوتا تب بھی ریاست کے برق رفتار گھوڑے کا تعاقب کرنا میرے مسکین گدھے کی طاقت سے باہر تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا‘ پھر گدھے پر بیٹھا اور کئی دن رات سفر میں گزارنے کے بعد‘ دریا کے کنارے‘ شہتوت کے پیڑ کے نیچے فقیر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آج اس نے گدڑی اتاری ہوئی تھی اور جسم پر بھبوت مَلے بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کہا: آئی پی پیز۔ میں سمجھ گیا کہ فقیر کا اشارہ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کی طرف تھا۔ سو گدھے پر بیٹھا اور آئی پی پیز کا رخ کیا۔ 
آئی پی پیز کے محل کی کیا بات تھی۔ محل کیا تھا پورا قلعہ تھا۔ روشنیاں اتنی کہ آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ نزدیک پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔ محل کے ارد گرد ہزاروں لاکھوں لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ بے شمار زخمی کراہ رہے تھے‘ کوئی پانی مانگ رہا تھا‘ کسی کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ معلوم ہوا یہ سب پاکستانی عوام تھے۔ محل کے پہریداروں سے پوچھا: کیا ریاست یہاں آئی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور ایک بہت بڑے ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ وہاں آئی پی پیز بہت ہی خوبصورت صوفوں پر بیٹھے تھے۔ کوئی سگار پی رہا تھا‘ کوئی کافی! ہلکی ہلکی میوزک سے ماحول خاصا طلسمی لگ رہا تھا۔ مگر اگلا منظر جو دیکھا‘ روح فرسا تھا۔ ریاست آئی پی پیز کے سامنے دست بستہ‘ خادم کی طرح کھڑی تھی۔ اتنے میں آئی پی پیز نے ریاست کو بہت کھردرے لہجے میں حکم دیا کہ کھانا لگاؤ! ریاست کچن کی طرف جانے لگی تو میں اس کے پاس پہنچا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا‘ ریاست نے سرگوشی میں کہا: محل کے باہر میرا انتظار کرو۔ یہاں صاحب لوگوں کے سامنے بات نہیں ہو سکتی۔ ریاست ایپرن باندھنے لگ گئی اور میں باہر نکل آیا۔ رات کو زخمی پاکستانی عوام کے ساتھ ہی لیٹا رہا۔ بدقسمتی سے صبح دیر سے آنکھ کھلی۔ معلوم ہوا ریاست پو پھٹے ہی جا چکی تھی!ایک بار پھر فقیر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ فقیر مجھے دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا: ریاست کو افغان طالبان کے ہاں دیکھو اور سنو! یہ تمہارا آخری پھیرا ہے۔ اس کے بعد نہ آنا ورنہ پچھتاؤ گے۔ میرا تو جیسے دل ہی بیٹھ گیا۔ 
جوں توں کر کے طور خم بارڈر پار کیا۔ عجیب اہلکار تھے‘ گدھے کا پاسپورٹ بھی مانگ رہے تھے۔ قصہ کوتاہ‘ کابل پہنچ کر پوچھا کہ میری ریاست کہاں ہے۔ مجھے ایک خاص کمرے میں انتظار کرنے کو کہا گیا۔ اندر سے مجھے اپنی ریاست کی آواز سنائی دی۔ گڑ گڑاتے لہجے میں کہہ رہی تھی۔ جہاں پناہ! کرم کیجیے اور ہماری سرزمین پر حملے رکوائیے۔ پھر ریاست نے ایک اور درخواست کی کہ جو سامان کراچی بندرگاہ سے افغانستان آتا ہے‘ اس کے کچھ آئٹم واپس پاکستان سمگل کر دیے جاتے ہیں! ازراہ کرم یہ تو بند کرائیے۔ نہیں معلوم ریاست جن کی خدمت میں یہ عرض گزاریاں کر رہی تھی‘ ان کا کیا رد عمل تھا۔ ریاست باہر نکلی۔ میں اس کے ساتھ ہو لیا اور پوچھا کہ اس قدر گڑ گڑانے کی کیا ضرورت تھی‘ کراچی بندرگاہ تو تمہاری اپنی ہے‘ تم ان کی ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندی لگا کر اپنے مطالبات منوا سکتی ہو۔ بس! میرا اتنا کہنا تھا کہ ریاست غضبناک ہو گئی۔ مجھے گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ بڑی مشکل سے بھاگ کر جان بچائی۔

Tuesday, July 16, 2024

ہمارا آسان اسلام


جان فرانسس پرانا دوست ہے۔ میلبورن کے قیام کے دوران اس سے ضرور ملاقات ہوتی ہے۔ وہ اپنی دوسری بیگم کے ساتھ‘ جس کا تعلق چلی سے ہے‘ ہماری قیام گاہ کے قریب ہی رہتا ہے۔ دونوں میاں بیوی کے پوتوں‘ نواسوں کی کُل تعداد ایک درجن کے قریب ہے۔ اتوار کو ان کے گھر گویا میلے کا سماں ہوتا ہے۔ جان فرانسس بیس‘ پچیس برس نیوزی لینڈ میں ایک مجلے کا مدیر رہا۔ پھر اپنی جنم بھومی‘ آسٹریلیا واپس آ گیا۔ آج کل ڈاکیومنٹریز بنانے کا کام کر رہا ہے اور ساتھ صحافت بھی!!
ہماری طویل نشستیں ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ان نشستوں میں اس کے صحافی دوست بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ان غیر ملکیوں اور غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں کچھ پتا نہیں!! مگر ایسا نہیں ہے۔ مجھے وہ امریکی سیاح نہیں بھولتا جس نے سالہا سال پہلے الحمرا (غرناطہ ) میں‘ شیروں کے اُن مجسموں (Court of Lions) کے قریب‘ جن کے دہانوں سے پانی کے فوارے ابل رہے تھے‘ مجھ سے پوچھا تھا کہ اسلام میں تو کسی جاندار کا مجسمہ بنانے کی اجازت نہیں‘ پھر اندلسی خلفا شیروں کے یہ مجسمے کیوں بنواتے رہے؟ جان فرانسس اور اس کے دوستوں کی معلومات بھی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اچھی خاصی ہیں۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ ان میں سے ایک صاحب کچھ عرصہ کراچی رہ آئے تھے۔ اُس دن ہم جان فرانسس کے گھر سے نکلے اور پیدل چلتے ہوئے برگنڈی سٹریٹ تک گئے۔ پھر ایک کیفے میں بیٹھے اور کافی کا آرڈر دیا۔ جان فرانسس یاد کرنے لگا کہ کچھ عرصہ پہلے جب ہم سب کافی پینے نکلے تو میرا روزہ تھا۔ اس پر گفتگو کا رُخ رمضان کی طرف مُڑ گیا۔ جو صاحب پاکستان رہ کر آئے تھے‘ مسکرا کر کہنے لگے ''مسٹر اظہار! ویسے ایک بات ہے! آپ لوگوں کا اسلام آسان بہت ہے!‘‘۔ اس کی یہ بات سنی تو ذہن میں اقبال کا شعر آگیا:
چو می گویم مسلمانم‘ بلرزم 
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را
مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کانپ اٹھتا ہوں کیونکہ اس راستے کی مشکلات سے آگاہ ہوں! مگر اسے شعر سنانے اور سمجھانے کے بجائے یہ پوچھا کہ ہمارا اسلام آسان کیسے ہے؟ کہنے لگا: تم لوگ رمضان میں جھوٹ‘ وعدہ خلافی‘ گالی گلوچ اور دیگر رذائل سے بچتے ہو۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ رمضان کے علاوہ ان سے بچنے کی ضرورت نہیں۔ اگر سارا سال تم ان برائیوں سے بچتے رہو تو رمضان میں خصوصی تاکید کی کیا ضرورت ہے؟ تو پھر یہ آسان اسلام ہی تو ہے کہ جن برائیوں سے ہم مغربی ملکوں کے رہنے والے سال کے بارہ ماہ‘ ہفتے کے سات دن اور رات دن کے چوبیس گھنٹے احتراز کرتے ہیں‘ تم لوگ صرف ایک ماہ ان سے بچ کر جنت کے حقدار ہو جاتے ہو!
پھر تم محرم کے دس دن شہادتِ حسینؓ کا ذکر کرتے ہو اور عزاداری کرتے ہو۔ مگر باقی گیارہ مہینے یزیدیت میں گزارتے ہو۔ اسوۂ حسینؓ تمہیں عملی زندگی کے معاملات میں یاد نہیں رہتا۔ اُس زمانے میں حکمران بیعت لیتا تھا۔ آج کا حکمران ووٹ مانگتا ہے۔ تم محرم کے دس دن رو رو کر یاد کرتے ہو کہ امام نے سر کٹا دیا‘ گھر لُٹا دیا مگر ایک فاسق کی‘ ایک خائن کی‘ ایک غیر مستحق کی بیعت نہیں کی۔ مگر خود ہر خائن‘ ہر کذّاب‘ ہر دروغ گو‘ ہر فاسق کو ووٹ دیتے ہو۔ اگر تم حسینی ہوتے تو تمہاری اسمبلیوں میں ارب پتی اور ٹیکس چور نہ بیٹھے ہوتے۔ تو پھر تمہارا اسلام اس حوالے سے بھی آسان ہی ٹھہرا کہ دس دن حسینؓ کے ساتھ اور باقی سارا سال یزید اور یزیدیوں کے ساتھ!! پھر تم سال میں ایک بار میلاد النبی مناتے ہو۔ جلوس نکالتے ہو۔ جلسے کرتے ہو۔ تمہارے مذہبی رہنما سیرتِ طیبہ پر تقریریں کرتے ہیں۔ مٹھائیاں اور پکوان بٹتے ہیں۔ مگر میلاد کے موقع کے سوا تمہیں سیرتِ رسول کبھی یاد نہیں آتی! تمہارے پیغمبر تین دن ایک جگہ کھڑے رہے کہ انتظار کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر تمہارے ہاں تو وعدہ ایفا کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ تم تو انفرادی سطح پر بھی وعدہ خلاف ہو اور قومی سطح پر بھی! تمہاری کابینہ کے اجلاسوں سے لے کر‘ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں کے اوقات تک‘ ہر شے وعدہ خلافی سے بھری ہوئی ہے۔ تم لوگ‘ جہاں بھی پہنچنا ہو‘ مقررہ وقت کے گھنٹوں بعد پہنچتے ہو اور جرم کے احساس تک سے عاری ہوتے ہو۔ تمہارا کوئی منصوبہ وقت پر اختتام پذیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ تین‘ چار کلو میٹر لمبی شاہراہ بھی تعمیر کرنی ہو تو اس کی تکمیل کے لیے بھی مقررہ مدت میں تین تین‘ چار چار بار توسیع کرنا پڑتی ہے۔ تمہارے رسول تاجر تھے۔ تجارت میں ان کی بے مثال دیانت دیکھ کر ہی انہیں شادی کی پیشکش کی گئی تھی۔ مگر افسوس! تمہارے تاجروں کی بددیانتی ضرب المثل بن چکی ہے۔ تمہارے کروڑوں کے سودے خود تمہارے عرب بھائیوں نے سمندر میں گرا دیے۔ تم کپاس برآمد کرتے ہو تو اس میں پتھر ڈالتے ہو اور مشروم برآمد کرو تو اس میں چھرے رکھ دیتے ہو۔ دنیا میں تم پر اعتبار کوئی نہیں کرتا۔ جھوٹ تمہارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ تم بچے کو سب سے پہلی تربیت جھوٹ بولنے کی دیتے ہو۔ تمہارے ہاں ہر شخص جھوٹ بولتا ہے اور اسے جھوٹ سمجھتا ہی نہیں۔ اولاد والدین سے‘ والدین اولاد سے‘ آجر مزدور سے‘ مزدور آجر سے‘ حکمران عوام سے اور عوام حکمران سے‘ غرض سب ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ذہنی طور پر اتنے گل سڑ چکے ہو کہ بیٹی پیدا ہونے پر بیوی کو پیٹتے ہو یا طلاق دے دیتے ہو اور بیٹی کی پیدائش پر موت تمہارے مسٹروں اور ملاؤں سب کو پڑ جاتی ہے۔ اور طُرفہ تماشا یہ ہے کہ تم پاکستانی‘ اس سب کچھ کے باوجود دنیا میں اسلام کے سب سے بڑے ٹھیکیدار بھی ہو۔ تم پوری دنیا کوکیا‘ ایک دوسرے کو بھی کافر گردانتے ہو۔ عزائم تمہارے ساتویں آسمان سے بلند تر ہیں۔ لال قلعہ ہو یا وائٹ ہاؤس‘ جھنڈا ہر جگہ تم نے اپنا لہرانا ہے۔ دنیا کی مذہبی قیادت تم نے خود ہی اپنے سپرد کر رکھی ہے اور حالت یہ ہے کہ تمہارے پاسپورٹ سے لے کر تمہاری کرنسی تک‘ ہر شے کی وقعت پست ترین سطح پر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سارے کرتوت تم مسلمانوں کے ہیں مگر بد نام اسلام ہو رہا ہے!
میں ان سارے حقائق کا کیا جواب دیتا۔ خیر‘ یہ بحث ختم ہو گئی۔ ہم نے کافی پی۔ بسکٹ کھائے۔ جان نے مجھے میری قیام گاہ پر ڈراپ کیا۔ صبح کو'' یزید‘‘ کے سیکرٹری کا فون آیاکہ'' خلیفہ‘‘ نے طلب کیا ہے۔ میں نے سیکرٹری سے کہا کہ کتنی بار کہا ہے کہ محرم کے پہلے عشرے میں رابطہ نہ کیا کرو‘ سیکرٹری نے معذرت کی۔ ساتھ ہی بتایا کہ'' یزید‘‘ ایک ہزار میل لمبی شاہراہ کا ٹھیکہ مجھے دینا چاہتا ہے۔ بس کمیشن کے طور پر ایک ارب روپے'' یزید‘‘ کو دینے ہوں گے۔ میں نے اسے کہا کہ'' خلیفہ‘‘ کو ملنے آؤں گا مگر رات دیر سے۔ شام کو محفل میرے ہی گھر پر منعقد ہوئی۔ آلِ رسول پر کیے گئے مصائب کا حال سن کر میرے آنسو تھمتے ہی نہیں تھے۔ دو بار ہچکی بندھ گئی۔ محفل کے اختتام پر عشائیے کا اہتمام بھی میری طرف سے ہی تھا۔ رات کو دو بجے جب گلیاں سنسان تھیں‘ اور فرشتوں کے علاوہ کوئی نہیں دیکھ رہا تھا‘ میں'' یزید‘‘ کے محل میں حاضر ہوا۔ اسے جھک کر ملا۔ ہاتھ چومے۔ اسے ایک ارب روپے کا چیک پیشگی پیش کیا۔ اس کے ایک پیشکار نے ٹھیکے کا نوٹیفکیشن میرے حوالے کیا۔ پیشکار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب میں نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے کہا: تسلی رکھو! ٹھیکے کا علم پبلک کو نہیں ہونے دیا جائے گا۔

Monday, July 15, 2024

مذہبی گھرانوں کے ادیب



جناب عطا الحق قاسمی نے ایک دلچسپ اور بالکل نیا موضوع چھیڑا ہے کہ کون کون سے ادیبوں اور شاعروں کا خاندانی پس منظر مذہبی ہے۔ مجھے اس ضمن میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق یاد آ رہے ہیں۔ وہ 1901ء میں پیدا ہوئے اور 1985ء میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ انہوں نے پہلے مدرسہ میں تعلیم پائی۔ عربی‘ فارسی پر عبور حاصل کیا۔ روایتی معنی میں عالم دین بنے۔ پھر گردشِ زمانہ انہیں جدید تعلیم کی طرف لائی۔ نئے علوم سیکھے۔ کلکتہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی اور مذہب کی وہ تعبیر کی جو روایتی ڈگر سے ہٹ کر تھی۔ معرکہ آرا کتب لکھیں جن میں ''دو اسلام‘‘ اور ''دو قرآن‘‘ بہت مشہور ہوئیں۔ ان تصانیف نے تہلکہ برپا کر دیا۔ کچھ لوگ ان کتابوں کے بہت گرویدہ ہوئے۔کچھ سخت مخالف!
ڈاکٹر غلام جیلانی برق ہمارے علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بسال نامی بستی میں پیدا ہوئے جو پہلے ضلع اٹک (کیمبلپور) کی تحصیل پنڈی گھیب کا حصہ تھی اور اب تحصیل جنڈ کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب جب مدرسہ کے زیر اثر تھے تو باریش تھے۔ پھر جب خیالات بدلے تو شیو کرنا شروع کیا۔ ہمارے علاقے میں ان کے بارے میں کئی باتیں مشہور ہیں جو ہم نے علاقے کے بڑوں سے سنیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب انہوں نے داڑھی صاف کی تو اسے لفافے میں بند کر کے اپنے اُن استاد صاحب کو بھیج دی جو مدرسہ میں انہیں پڑھاتے تھے۔ میں نے یہ سطور لکھتے ہوئے اپنے سینئر اور معروف دانشور پروفیسر فتح محمد ملک صاحب سے اس روایت کے بارے میں استفسار کیا۔ ملک صاحب گورنمنٹ کالج کیمبلپور میں ڈاکٹر برق صاحب کے شاگرد رہے ہیں۔ ملک صاحب نے اس روایت کی تصدیق نہیں کی۔ میرا گمان بھی یہی ہے کہ یہ واقعہ اصلی نہیں‘ گھڑا ہوا ہے۔ دوسرا واقعہ غالباً درست ہے جو میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا۔ دیہی ماحول میں جس کا بھی نام جیلانی ہو‘ اسے جانی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ایک بار ان کے گاؤں کے باہر کھیتوں میں کسان کام کر رہے تھے۔ کسانوں نے نوٹ کیا کہ دور سے ایک شخص کوٹ پتلون میں ملبوس‘ ہَیٹ پہنے گاؤں کی طرف چلا آ رہا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی منظر تھا۔ عام طور پر انسپکٹر آف سکولز یا اے ڈی آئی (اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر) قسم کے بابو کوٹ پتلون پہنے آتے تھے۔ کسان اپنے اپنے ہل اور درانتیاں رکھ کر کھڑے ہو گئے کہ آنے والے افسر کی آؤ بھگت کریں گے۔ جب وہ شخص نزدیک آیا تو وہ تو برق صاحب تھے۔ کسان کہنے لگے: اوئے کام دوبارہ شروع کر دو‘ یہ تو اپنا جانی ہے۔ ڈاکٹر برق طویل عرصہ گورنمنٹ کالج کیمبلپور میں پڑھاتے رہے۔ اس کالج کا شمار پنجاب کے بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا تھا۔ پروفیسر فتح محمد ملک اور منو بھائی جیسے مشاہیر اس کالج میں پڑھتے رہے۔ ڈاکٹر برق صاحب کے ساتھ یہاں مشہور و معروف دانشور پروفیسر اشفاق علی خان بھی استاد اور پرنسپل رہے۔ یہ یقیناً اس کالج کا زریں عہد رہا ہو گا۔ یہ لطیفہ بھی عام ہے کہ ان دونوں میں سے ایک اکثر اس خواہش کا اظہار کرتا کہ وہ ایک صوفہ سیٹ لینا چاہتا ہے۔ دوست کہتے کہ لے لو۔ مگر وہ کہتا کہ یار! میں ایک قالین بھی لینا چاہتا ہوں۔ پھر بات آئی گئی ہو جاتی۔ چند دن کے بعد پھر یہی مکالمہ دہرایا جاتا۔ ایک دن تنگ آکر دوستوں نے کہا کہ یوں کرو‘ پہلے قالین لے لو۔ پھر اسے بیچ کر صوفہ لے لینا۔ پروفیسر اشفاق علی خان گورنمنٹ کالج اصغر مال میں ہمارے بھی پرنسپل رہے۔ وہاں سے وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ہو کر گئے۔ ان کے صاحبزادے کامران علی خان اصغر مال کالج میں میرے کلاس فیلو تھے۔ وہ سی ایس ایس کر کے انفارمیشن سروس میں آ گئے تھے مگر حیرت ہے کہ کالج سے نکلنے کے بعد ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی جو تصنیف ''دو اسلام‘‘ اور ''دو قرآن‘‘ کی طرح مشہور نہ ہو سکی‘ اس کا نام'' حرفِ محرمانہ‘‘ ہے۔ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے مگر ختم نبوت کے موضوع پر اس سے زیادہ جامع اور ٹھوس کتاب نظر سے نہیں گزری۔ برق صاحب کی اور بھی تصانیف ہیں۔ ایک بار سننے میں آیا تھا کہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن اسلام آباد والے ان کی تصانیف کو از سر نو چھاپنے لگے ہیں۔ نہیں معلوم یہ بیل منڈھے چڑھی یا نہیں! اردو کے نامور محقق ڈاکٹر اسلم قریشی کالج میں ہمارے استاد تھے۔ ان کے صاحبزادے اعجاز قریشی مرحوم ہمارے کلاس فیلو تھے۔ وہ گورنمنٹ کالج اٹک میں پروفیسر تھے اور ڈاکٹر برق کے داماد۔ چند برس پہلے سڈنی میں اعجاز مرحوم کی بیٹی سے ملاقات ہوئی‘ جو ڈاکٹر ہے۔ وہ برق صاحب کی نواسی ہوئی۔ جو قارئین ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے تفصیلی حالات جاننے کے متمنی ہیں انہیں ایک تو پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی خود نوشت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ بد قسمتی سے یہ خود نوشت تادمِ تحریر میری نظر سے نہیں گزری مگر ملک صاحب نے مجھے آج ہی بتایا ہے کہ اس میں انہوں نے اپنے استاد برق صاحب کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ 2015ء کے اپریل اور مئی میں جاوید چودھری صاحب نے بھی برق صاحب پر چار‘ پانچ تفصیلی کالم لکھے تھے۔ ان میں بھی بہت قیمتی معلومات ہیں۔ برق صاحب کی ذاتی لائبریری عظیم الشان تھی۔ نجانے اس پر کیا گزری۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ادھر بندہ گیا‘ اُدھر اس کی لائبریری فُٹ پاتھ پر آ گئی۔
میرے ایک کلاس فیلو اور دوست بھی‘ جو ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے‘ اور شاعر تھے‘ بالکل دوسری طرف نکل گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ پیروں اور مولویوں کے بچے جب مذہب سے بغاوت کریں تو انتہا تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ دوست بھی ایسے ہی تھے۔ بوجوہ ان کا اسم گرامی نہیں لکھ رہا۔ ہم ہوسٹل میں اکٹھے رہتے تھے۔ ایک بار میں ہوسٹل کے حجام سے بال کٹوا رہا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ سر کے بال کاٹنے کے بعد وہ میری داڑھی کے درپے ہے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔ مگر جب اس نے استرے سے میری داڑھی پر حملہ کرنا چاہا تو میں نے اسے ڈانٹا اور اُٹھ کر بازو سے پکڑ کر پوچھا کہ یہ تم کیا کرنا چاہتے تھے۔ بیچارہ ڈر گیا اور بتا دیا کہ آپ کے فلاں دوست نے کہا ہے کہ آپ کی داڑھی بڑھ گئی ہے اور چونکہ آپ کا ذہنی توازن درست نہیں اس لیے زبردستی آپ کی داڑھی صاف کرنی ہے۔ تاہم میرے یہ مرحوم دوست آخری ایام میں بہت رقیق القلب ہو گئے تھے اور نعت اور منقبت پڑھتے ہوئے اکثر رو پڑتے تھے۔ خدا ان کی لغزشوں سے درگزر کرے اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے۔ غالباً یہ شعر احسان دانش کا ہے:
آ جاؤ گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
عدم نے کہا تھا:
انکار کس کا کرتے ہو وہ اگر نہیں
انکار جس کا کرتے ہو تم وہ خدا تو ہے
بہرطور‘ جلد یا بدیر‘ ہر ایک کو خدا یاد آ ہی جاتا ہے۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی دس سال الحاد اور تشکیک کے خارزار میں بھٹکتے رہے۔ پھر پلٹے تو انگریزی میں بھی کلام پاک کی تفسیر لکھی اور اُردو میں بھی! یہ مشہورِ عالم رباعی اصل میں نہیں معلوم کس کی ہے مگر ابو سعید ابو الخیر سے منسوب ہے اور ان کی رباعیات میں شامل ہے۔
باز آ‘ باز آ‘ ہر آنچہ ہستی باز آ؍ گر کافر و گبر و بُت پرستی‘ باز آ
این درگہ ما درگہ نومیدی نیست؍ صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
واپس آ جا واپس آ جا۔ تو جو کچھ بھی ہے واپس آ جا۔ کافر ہے یا آتش پرست یا بتوں کا پجاری‘ واپس آ جا۔ ہماری بارگاہ کا مایوسی سے کوئی تعلق نہیں۔ سو بار بھی توبہ توڑ چکا ہے‘ تو کوئی بات نہیں! واپس آ جا۔

Thursday, July 11, 2024

مجرم اور شریک مجرم

‘‘ 

بریگیڈیئر امتیاز بِلّا کی عبرتناک وڈیو کے بارے میں سب سے پہلے جناب عمران شفقت کے وی لاگ کے ذریعے علم ہوا۔ جناب جاوید چودھری کی تحریر نے مزید معلومات فراہم کیں۔ اس سے یاد آ گیا کہ انہی بریگیڈیئر صاحب کے اثاثے جس زمانے میں افشا ہوئے تو اخبارات کے صفحوں کے صفحے ان اثاثوں کی تفصیلات سے بھر گئے تھے۔ انسانوں کی اکثریت کو یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی کہ دولت کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب یہ حد پار ہو جائے تو دولت شیرینی سے زہر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بریگیڈیئر امتیاز بِلا کے بیٹے اس کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں وہ خدا کی سنت کے مطابق ہے اور منطق کے مطابق بھی!! وہ کہانی ہم سب نے سنی ہوئی ہے جس میں ایک آدمی کو کہا جاتا ہے کہ گھوڑے پر چڑھ کر جتنا بڑا دائرہ لگا سکتے ہو‘ لگاؤ۔ دائرے کے اندر جتنی زمین آئے گی وہ تمہاری ہو گی۔ اس نے بہت بڑا دائرہ لگایا۔ کئی کوس! کئی میل! واپس پہنچا تو تھکاوٹ اتنی تھی کہ مر گیا۔ انسانوں کی اکثریت زندگی بھر دائرے کو بڑا کرنے میں لگی رہتی ہے۔ حرام دیکھتی ہے نہ حلال! ایک اور صاحب بھی تھے‘ اسی قبیلے کے فرد‘ وہ دولت امریکہ بھیجتے رہے۔ پاکستان سے فارغ ہو کر وہاں پہنچے کہ جمع کی گئی دولت سے لطف اندوز ہوں تو صاحبزادے نے سرخ جھنڈی دکھا دی۔ اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو یہ وہی صاحب تھے جنہیں ضیاء الحق نے ایک مغربی ملک میں سفیر تعینات کیا تو اُس مغربی ملک نے پہلے کانوں کو ہاتھ لگائے‘ پھر ہاتھ جوڑ کر سفارت قبول کرنے سے معذرت کر لی۔ پھر شرقِ اوسط کے ایک ملک نے بھی معذرت کر لی۔ ان کی بیگم صاحبہ کی ''ادبی‘‘ تصنیف کی تقریبِ رونمائی بھی ایک عظیم الشان واقعہ تھا۔
اصل سوال اور ہے۔ افسوس! ہم میں سے بہت کم لوگ اس اصل سوال پر غور کرتے ہیں! اس قماش کے آدمی کو‘ جسے اس کے اپنے ادارے نے سزا کے طور پر نکال دیا تھا‘ سب سے بڑے صوبے کا ایڈیشنل چیف سیکرٹری لگا دیا گیا۔ یہ تعیناتی کس کے حکم پر ہوئی؟ بعد میں اسی شخص کو ڈائریکٹر جنرل آئی بی لگا دیا گیا؟ یہ کس کا فیصلہ تھا؟ آج جس وڈیو میں بریگیڈیئر امتیاز کو اس کا بیٹا گھر سے نکال رہا ہے اور پولیس کو کہہ رہا ہے کہ اسے یعنی اس کے باپ کو گرفتار کرے‘ اُس وڈیو کو دیکھ کر ہر شخص ایک ہی بات کہہ رہا ہے کہ یہ کیے کا پھل ہے۔ یہ مکافاتِ عمل ہے۔ تو پھر انتظار کرنا چاہیے کہ جس جس حکمران نے امتیاز بِلا کو‘ اس کے جرائم جانتے ہوئے بھی‘ اعلیٰ پوسٹوں پر فائز کیا‘ وہ بھی مکافاتِ عمل کی چکی میں پیسا جائے گا۔ کیے کا پھل وہ بھی کھائے گا اور ضرور کھائے گا۔ یہ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے جرائم معاف ہو جائیں گے؟ جرائم بھی ایسے جو قومی نوعیت کے ہیں۔ ایک مجرم کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور پھر ڈی جی آئی بی لگا دینا بھیانک قومی جرم نہیں تو کیا ہے؟؟
پہلے بھی کئی بار عرض کیا ہے اور پھر عرض ہے۔ بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم۔ کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ بہت سے جرائم کی سزا دنیا میں اس لیے ملتی ہے کہ عقلمند لوگ اس سے سبق سیکھیں اور اِن جرائم سے اجتناب کریں۔ بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کی چاپلوس نیچر دیکھ کر اپنے تئیں بہت چالاکی سے کام لیا اور میرٹ کو پامال کر کے اسے آرمی چیف لگایا کہ جھک کر ملتا ہے۔ فرمانبردار رہے گا۔ اور یہ کہ مولوی آدمی ہے‘ نمازیں پڑھتا رہے گا اور حکومت سے تعَرّض نہیں کرے گا۔ چنانچہ انہوں نے اسے نیچے سے اٹھایا اور اوپر لے آئے۔ کون جانتا تھا کہ جب بھٹو فائل پر جنرل ضیاء الحق کی پروموشن اور تعیناتی کی منظوری دے رہے تھے اُس وقت اصل میں وہ اپنی پھانسی کے پروانے پر دستخط کر رہے تھے۔ پاکستان کی خود غرض‘ ظالم بیورو کریسی نے وزرائے اعظم کو ایک خاص سبق پڑھایا ہوا ہے کہ یہ آپ کی صوابدید ہے‘ جسے بھی چاہیں چیف بنا دیں۔ مگر یہ ایک دھوکا ہے۔ صوابدیدی اختیار کا بنیادی اصول یہ ہے کہ صوابدیدی اختیار انصاف کے اصولوں کے مطابق استعمال ہو گا اور اگر کسی کو سنیارٹی کے باوجود نظر انداز کیا جائے گا‘ تو اس کی وجوہ فائل پر ریکارڈ کرنا ہوں گی۔ صوابدیدی اختیار کا یہ مطلب نہیں کہ آپ گھوڑے کے کھونٹے پر گدھے کو باندھ دیں اور گدھے کا پالان گھوڑے کی پیٹھ پر ڈال دیں۔ فرنگی زبان میں کہتے ہیں:

 Discretion is to be applied judiciously

۔ کہ صوابدیدی اختیار انصاف کے ساتھ برتا جا ئے گا!
اصل سوال کی طرف واپس جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا‘ کیا اس کی ذمہ داری ذوالفقار بھٹو پر بھی عائد ہو گی؟ اس کا جواب تو اسی دن ملے گا جس دن میزان رکھی جائے گی۔ 
تُلیں گے کس ترازو پر یہ آہیں اور آنسو
اسی خاطر تو میں روزِ جزا کو مانتا ہوں
بہرطور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے جو بویا‘ وہ ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔ افغانستان کے اندر افغانوں کی مدد اور بات ہے اور اپنے ملک کو غیر ملکی جنگجوؤں سے بھر دینا‘ بارڈر‘ ویزا‘ پاسپورٹ‘ سب کچھ ختم کر دینا اور پورے ملک کو غیر ملکیوں کی چراگاہ بنا دینا ایک بالکل مختلف بات ہے۔ اس وطن کُش کام میں جنرل صاحب کے ساتھ وہ عسکری اور مذہبی طالع آزما بھی شامل تھے جن کے اپنے بیٹے کاروبار میں آسمان کو چھو رہے تھے اور وہ دوسروں کے بیٹوں کو مذہب کے نام پر جنگ کا ایندھن بنا رہے تھے۔
پھر ایکشن ری پلے ہوا۔ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور اس طرح دہرایا کہ خود تاریخ کو شرم آ گئی۔ بھٹو کے انجام سے کسی نے عبرت پکڑی نہ ضیاء الحق کے انجام سے! بڑے میاں صاحب نے جنرل پرویز مشرف کو نیچے سے اٹھایا اور ٹاپ پر لے آئے۔ میرٹ کو پسِ پُشت ڈال دیا۔ مشورہ جس کا بھی تھا‘ ذمہ داری وزیراعظم کی تھی! اور وزیراعظم ہی نے اپنے اس فعل کے نتائج بھگتے۔ جنرل ضیاء الحق اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ہر شے میں مذہب کو داخل کرتے رہے۔ پرویز مشرف اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے مذہب کو ہر شے سے خارج کرتے رہے۔ دوست نوازی میں اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے اور بے شمار بد دعائیں سمیٹے‘ دنیا سے چلے گئے۔
پھر وہی سوال! وہی سوال جو سب سوالوں کی جڑہے۔ قاتل‘ ڈاکو اور دوسرے مجرم اپنے اعمال کی سزا پاتے ہیں۔ کچھ دنیا میں بھی اور تمام کے تمام آخرت میں! مگر جو حکمران ان قاتلوں اور ڈاکوئوں کو اعلیٰ مناصب پر بٹھاتے ہیں‘ انہیں ان قاتلوں اور ڈاکوئوں کے جرائم کے حوالے سے ''شریک مجرم‘‘ کیوں نہ ٹھہرایا جائے؟ اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا اور ہمارے سامنے ہو گا۔ کہ بقول فیض صاحب:
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے‘ کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
پس نوشت: صدر آصف علی زرداری کے دورۂ لاہور کیلئے ایوانِ صدر نے سکیورٹی کیلئے 20 گاڑیاں مانگ لیں۔ 20 گاڑیوں میں پانچ بم پروف گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی سکیورٹی کیلئے 14 سکیورٹی آفیشل بھی لاہور آئیں گے‘ سکیورٹی آفیشل صدر آصف علی زرداری کی لاہور آمد سے دو دن قبل لاہور پہنچیں گے‘ صدرِ مملکت کو پنجاب حکومت کی طرف سے مزید سکیورٹی بھی فراہم کی جائے گی۔ (ایک خبر۔ روزنامہ دنیا)

Tuesday, July 09, 2024

’’ بچنا مشکل ہے‘‘

یہ کہانی مجھے میری دادی جان نے سنائی تھی۔ انہیں ان کی دادی نے اور ان کی دادی کو پردادی نے۔ یوں یہ کہانی سینکڑوں سال سے چلی آ رہی ہے۔ دادی جان کی پردادی کے سولہ پوتے تھے۔ ہر پوتے نے یہ کہانی سنی اور آگے اپنے پوتوں تک پہنچائی۔ پھر یہ پرپوتوں نے سنی۔ معلوم نہیں‘ یہ خاندان کہاں تک پھیلا اور اب کہاں کہاں موجود ہے۔ انسان کی افزائش درخت کی طرح ہے۔ فرض کیجیے یہ آم کا درخت ہے۔ اس پر سینکڑوں آم لگے۔ ان کی گٹھلیاں جہاں جہاں دفن ہوئیں‘ وہاں وہاں اور درخت اُگ آئے۔ کون جانے گُٹھلیاں کہاں کہاں پہنچیں۔ آپ ہر گٹھلی کو ایک پوتا جانیے۔ تعجب نہیں اگر کوئی پوتا سنگاپور جا بسا‘ کوئی ہرات‘ کوئی مدراس اور کوئی بنگال! مگر کہانی ایک ہی ہے جو ہر پوتے نے اپنے پوتے کو سنائی!

کہانی یوں ہے کہ سینکڑوں‘ ہزاروں سال پہلے ملکِ عراق کے حالات ابتر تھے۔ خلقِ خدا پریشان تھی۔ رات کو نیند تھی نہ دن کو چَین!! گرانی اتنی تھی کہ لوگ صرف ایک مولی یا ایک آلو یا ایک سیب خرید سکتے تھے۔ لباس خریدتے تو کھانا رہ جاتا۔ پیٹ بھرنے کا سامان خریدتے تو ملبوس بِک جاتا۔ تاجروں‘ دکانداروں‘ آڑھتیوں‘ کمیشن ایجنٹوں کی پانچوں گھی میں تھیں اور سر کڑاہی میں! عام صارف کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ گرمیاں آتیں تو دستی پنکھوں کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچتیں۔ جاڑے میں ایندھن استطاعت سے باہر ہو جاتا۔ اس پر طُرّہ یہ کہ حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر آئے دن نئے ٹیکس لگاتی رہتی۔ اس لیے کہ حکومتی اخراجات حد سے بڑھے ہوئے تھے۔ اخراجات کیا تھے؟ اللے تللے تھے! عمائدین‘ وزرا اور افسران کی فوج ظفر موج کی پرورش عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ہو رہی تھی۔ ساٹھ ستر فیصد اخراجات ناروا تھے اور دوست نوازی کا نتیجہ تھے۔ مثلاً ملک میں قانون نہیں تھا مگر قانون کی وزارت قائم تھی۔ خوراک عنقا تھی مگر فوڈ سکیورٹی کے نام پر الگ وزارت بنی ہوئی تھی۔ جو شعبے مرکز کے پاس تھے ان کی وزارتیں اور محکمے صوبوں میں بھی چل رہے تھے۔ جن شعبوں کو صوبے اور ریاستیں چلا رہی تھیں ان کی وزارتیں مرکز میں‘ یعنی بغداد میں بھی قائم تھیں‘ جن پر لاکھوں کروڑوں کے اخراجات آ رہے تھے۔ عوام کی بدحالی کے باوجود حکومتی وزرا اور منصب دار تعیشانہ زندگی گزار رہے تھے جس کا بوجھ عوام پر پڑتا تھا۔ ان عمائدین کو گھوڑا گاڑیاں‘ چراغ‘ جھاڑ‘ فانوس‘ کچن کا ایندھن‘ باورچی‘ کوچوان‘ پہریدار‘ منشی اور کئی طرح کے ملازم‘ سب کچھ حکومت کی طرف سے ملتا تھا۔ عوام اور مراعات یافتہ طبقات میں تفریق بہت زیادہ نمایاں ہونے لگی تھی۔ یہاں تک کہ بچے بچے کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ بہت ہو چکا! مراعات یافتہ طبقے کا اب کچھ کرنا ہی پڑے گا۔
اس عوامی اضطراب کی خبر خفیہ ایجنسیاں بادشاہ تک بھی پہنچا رہی تھیں۔ بادشاہ فکرمند تھا۔ شاید عوام کی فلاح و عافیت کے لیے! یا شاید اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے۔ اس نے اپنے وزیرِ باتدبیر سے مشورہ کیا۔ جیسا کہ ہوتا آیا ہے‘ وزیر نے ساری زندگی بادشاہ کو خوش کرنے کے علاوہ کچھ کیا ہی نہیں تھا۔ اس کی سوچ محدود تھی۔ ایک آرام دہ زندگی کے سوا اس کے دماغ میں کبھی کچھ آیا ہی نہ تھا۔ دانش سے اس کا تعلق صفر تھا۔ اُس زمانے میں بھی حکومت کے عمائدین کو کتابوں سے‘ اہلِ علم سے اور عقلمندوں سے نفرت تھی۔ وزیر آخر کیا مشورہ دیتا۔ اخراجات کم کرنے کی بات کرتے ہوئے تو اس کی جان جاتی تھی۔ اس نے بادشاہ سے کچھ ماہ کی مہلت مانگ لی۔
اُس زمانے میں عراق کے طول وعرض میں ایک فقیر کا بہت شہرہ تھا۔ یہ فقیر‘ بغداد سے کچھ دور‘ ایک غار نما جگہ میں رہتا تھا۔ بولتا کم تھا۔ خوراک بھی اس کی برائے نام تھی۔ کبھی جنگلی پھل کھا لیے۔ کبھی کسی نے کھانا پیش کر دیا تو پیٹ بھر لیا۔ پانی دریا سے پیتا تھا۔ اہلِ حاجت حاضر ہوتے۔ مدعا بیان کرتے۔ فقیر چند الفاظ ہی بولتا۔ سائل اشارہ سمجھ لیتا تو ٹھیک‘ نہ سمجھ پاتا تو اس کی قسمت! وزیر نے اس فقیر کے بارے میں سنا تھا۔ کافی سوچ بچار اور غور وخوض کے بعد وزیر فقیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور مدعا بیان کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ فقیر اسے مسئلے کا حل بتائے جسے وہ بادشاہ کے سامنے پیش کر دے۔ یوں اس کے نمبر بھی بڑھ جائیں گے۔ مگر فقیر نے اس کی بات سن کر صرف اتنا کہا ''بچنا مشکل ہے‘‘ اور وزیر کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وزیر نے ایک دو بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی مگر ایک تو فقیر کی شخصیت میں رعب بہت تھا‘ دوسرے‘ فقیر اب اس کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔ وزیر کئی دن اس کے پاس جاتا رہا۔ فقیر اسے مسلسل نظر انداز کرتا رہا۔ جب کئی ہفتے گزر گئے تو فقیر نے اسے صرف اتنا کہا کہ بادشاہ سے وہ خود بات کرے گا۔
وزیر نے بادشاہ سے اجازت لی اور فقیر کو لے کر دربار میں پہنچ گیا۔ بادشاہ خلوت میں تھا۔ فقیر نے اسے سلام کیا نہ جھکا۔ بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ''تمہارا‘ تمہاری سلطنت کا اور اس شہر کا جو تمہارا دارالحکومت ہے‘ بچنا مشکل ہے‘‘۔ بادشاہ دست بستہ عرض گزار ہوا کہ کچھ وضاحت فرمائی جائے۔ فقیر گویا ہوا ''جب کنویں میں ہی زہر ہوگا تو پیاسا کیسے بچے گا۔ جب کھیت میں کانٹے اُگیں گے تو لوگ شکم کی آگ کیسے بجھائیں گے؟ جب مسجد میں بُت ہوں گے تو نماز کیسے ہو گی۔ تمہاری عدالتوں کے قاضی ہی تو انصاف کو پیروں تلے روند رہے ہیں۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے ایک قاضی کی بیٹی نے جو گھوڑا گاڑی چلا رہی تھی‘ دو بے گناہ افراد کو گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ اس جرم کو سرزد ہوئے ایک مدت گزر چکی‘ کوئی انصاف نہیں ہوا۔ ظلم در ظلم اور ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ مقتولوں کے پسماندگان نے انصاف کا مطالبہ کیا تو انہیں کوتوالی میں بند کر دیا گیا۔ میں تمہارے شہر کو ڈوبتا دیکھ رہا ہوں۔ تمہاری سلطنت کا ریزہ ریزہ ہونا لکھا جا چکا۔ جس اقلیم میں انصاف کرنے والا ظلم کرنا شروع ہو جائے‘ اس کی بربادی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ بادشاہ کا رنگ فق ہو رہا تھا۔ فقیر نے عصا اٹھایا‘ چادر کاندھے پر رکھی اور محل سے نکل گیا۔
کہانی کا آخری حصہ دردناک بھی ہے‘ ہولناک بھی اور عبرتناک بھی! اس کے بعد تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ سلطنت یوں بکھرنے لگی جیسے آندھی ریت کو اُڑا لے جائے۔ پھر ایک رات دجلہ نے شہر کو نگل لیا۔ بادشاہ کی لاش کئی کوس دور‘ دریا کے کنارے‘ کیچڑ میں لپٹی ہوئی ملی۔ ملکہ کے آدھے جسم کو مگرمچھ کھا چکے تھے۔ عمائدین‘ وزرا‘ خوشامدی درباریوں میں سے کوئی نہ بچ سکا۔ رہے قاضی تو ان کا نام نشان نہ رہا۔ کہتے ہیں کئی ماہ کے بعد پانی اترا تو شہر کھنڈر بن چکا تھا۔ پھر ایک رات فقیر کھوہ سے نکلا اور اجڑے ہوئے شہر میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک چل کر گیا۔ پھر وہ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھا۔ اس نے ''حق ہُو‘‘ کا نعرہ اتنے زور سے لگایا کہ خلق خدا نے دور دور تک سنا۔ پھر وہ دو زانو ہوکر زمین پر بیٹھا‘ سجدہ کیا‘ اور دعا مانگی ''یا پروردگار! اگر اس شہر کو دوبارہ آباد کرنا ہے تو انصاف کرنے والے قاضی بھیجنا‘‘۔

ہم جتنے غریب ہیں اتنے ہی عیاش ہیں اور اتنے ہی احمق!!

ہمارے خاندان کی ایک شاخ نے گاؤں چھوڑ کر قریبی شہر‘ فتح جنگ میں سکونت اختیار کر لی۔ ان میں میرے کزن اقبال ہاشمی بھی تھے۔ ان کی بیگم کو ہم بے بے جی‘ یا بے بے عمر ضیا کہتے تھے۔ نہیں معلوم یہ نام خواتین کا ہو سکتا ہے یا نہیں‘ بہرطور ان کا نام یہی تھا۔ یوں بھی مردوں عورتوں کے نام کلچر کا حصہ ہیں اور کسی ایک جگہ کا مردانہ نام‘ کسی دوسرے خطے یا علاقے میں نسائی بھی ہو سکتا ہے۔ ایک بار ملائیشیا کی ایک لیڈی ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی۔ اس کا نام ''خیر محمد‘‘ تھا۔ مگر یہ بات ضمناً سامنے آ گئی۔

گاؤں آتے جاتے ہوئے کبھی کبھی ہم بے بے کے ہاں پھیرا ڈالتے تھے۔ اقبال ہاشمی صاحب کے انتقال کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ابا جی کو جب بھی ملتیں‘ پہلے ان کے گھٹنے چھوتیں۔ سکول پڑھاتی تھیں۔ ریٹائر ہوئیں تو ان کے سرکاری واجبات کے لیے میں نے بھی کوشش کی۔ کچھ برس گزرے‘ اپنے خالق کے حضور حاضر ہو گئیں۔ اصل بات جو بتانی ہے‘ اور ہے۔ جب بھی اُن کے ہاں جانا ہوتا تو میں خصوصی طور پر نوٹ کرتا کہ سردیوں میں ان کے گھر چھت والے پنکھے اور پیڈسٹل فین‘ جتنے بھی ہوتے‘ ان پر کپڑے کے غلاف چڑھے ہوتے یہاں تک کہ روم کولر بھی کپڑوں سے ڈھکے ہوتے۔ گرمیوں میں ہیٹر پوری طرح مستور اور ملفوف ہوتے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی پہلا تاثر یہ ہوتا کہ ہر شے قرینے سے رکھی ہے اور بہت زیادہ صاف ہے۔ ہماری عمر کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ ایسی احتیاط اور سگھڑپن پہلے ہر گھر میں ہوتا تھا۔ ریڈیو بڑے سائز کے ہوتے تھے اور خوبصورت‘ کڑھے ہوئے کپڑے سے ڈھکے رہتے تھے۔ اسے احتیاط کہیے یا سگھڑپن‘ اس کی اصل اور بڑی وجہ یہ تھی کہ آمدنیاں محدود تھیں‘ ہر شے کی حفاظت کی جاتی تھی اور قدر بھی!! دستی پنکھیوں پر بھی کپڑے ٹانکے جاتے تھے۔ اچھے برتنوں کا الگ کمرہ ہوتا تھا جہاں برتن دیوار پر لگی کانَس پر رکھے جاتے تھے۔ (نہیں معلوم کانس کو اُردو میں کیا کہتے ہیں) کوئی بھی شے ضائع نہیں کی جاتی تھی۔ لالٹین کا شیشہ ٹوٹتا تو اسے جوڑا جاتا۔ دیاسلائی کی ایک ایک تیلی احتیاط سے خرچ کی جاتی۔ کسان ایک ایک رسی‘ ٹارچ‘ لاٹھی اور دیگر اشیا کی خوب حفاظت کرتے۔ آج کا نہیں معلوم‘ پہلے پشاور اور باڑے میں ٹوٹی ہوئی پیالیاں اور چینکیں دوبارہ جُڑی ہوئی ہوتی تھی۔ پٹھان بھائی پنجاب کی بستیوں اور قصبوں میں چل پھر کر برتن مرمت کیا کرتے تھے۔ فرش مٹی کے تھے مگر صاف ستھرے اور چمکے ہوئے۔ خواتین ان پر گول پتھر کی مالش کرتیں اور مٹی کے فرش یوں ہو جاتے جیسے سیمنٹ کے ہوں۔ بزرگ اس صورت حال میں ''برکت‘‘ کو بھی ایک عامل کے طور پر لیتے تھے۔ کسی شے میں برکت ہونے کا مطلب یہ تھا کہ وہ شے دیر تک سلامت رہے گی اور کارآمد!! تب گھروں میں برکت تھی۔
پھر شاید ہمارے گھروں سے برکت اُٹھ گئی اور بے برکتی نے ڈیرے ڈال دیے۔ سب کچھ بدل گیا اور ہر شے بلکہ پورا طرزِ زندگی وہ آ گیا جسے نہ صرف ہمارے کلچر سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ ہمارے موسموں اور ہماری آب وہوا سے بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ بنیادی وجہ یہ ہوئی کہ ہر شے کی افراط ہو گئی اور شے کی قدر نہ رہی۔ اب پنکھے ہیں یا ہیٹر یا اے سی یا استعمال کی دیگر اشیا‘ جلد خراب ہوتی ہیں اور ان کی جگہ فوراً نئی آ جاتی ہیں۔ پہلے کوئی شے ٹوٹتی تھی تو بزرگ افسوس کرتے تھے اور احتیاط کی نصیحت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہماری ایک حویلی جو مردانہ بیٹھک کے طور پر استعمال ہوتی تھی‘ اس میں شام کو میں اور میرا تایا زاد بھائی کھیل رہے تھے۔ ہم بچے نہیں تھے بلکہ دسویں گیارہویں جماعتوں میں پڑھتے تھے۔ مغرب کے وقت ہم بیٹھک سے نکلے تو چارپائی صحن ہی میں چھوڑ آئے۔ برآمدے میں رکھی نہ اندر کمرے میں! رات کو بارش آ گئی۔صبح دادا جان نے دیکھا کہ چارپائی مکمل بھیگی ہوئی تھی۔ انہوں نے جو فقرہ کہا آج تک مجھے یاد ہے۔ ''میری اولاد میری بنائی ہوئی چیزیں سنبھال نہیں سکتی!‘‘۔ آج غور کیجیے‘ ہمارے بچے کمروں سے نکلتے وقت پنکھے‘ لائٹ‘ اے سی‘ کچھ بھی بند نہیں کرتے۔ ہمارے بزرگ جوتوں کے ایک جوڑے اور ایک واسکٹ یا ایک اچکن میں گزارا کرتے تھے اور بہت اچھا گزارا کرتے تھے۔ آج ہر شے کی افراط ہے۔ جوتے‘ ملبوسات‘ پنکھے‘ ہیٹر‘ کراکری‘ کٹلری‘ فرنیچر‘ ہر شے کی بہتات ہے اور قدر کسی شے کی بھی نہیں!
یہ جو ہم رات دن رونا روتے ہیں کہ مہنگائی نے مار دیا۔ گزارا نہیں ہوتا‘ مارے گئے‘ لُٹے گئے‘ تو سچ پوچھئے اس سے بڑا فراڈ کوئی نہیں! ہمارے گھر چیزوں سے اَٹے پڑے ہیں۔ پہلا ظلم ہم نے یہ کیا کہ طرزِ تعمیر وہ اپنا لیا جو ہمارے موسموں اور آب و ہوا کے الٹ ہے۔ موٹی دیواریں اور اونچی چھتیں غائب ہو گئیں۔ پھر ہم نے رہائشی کمروں کو بیڈ روموں سے بدل دیا۔ ایک کمرے میں چار یا پانچ یا چھ چارپائیاں ہوتی تھیں! اب ڈبل بیڈ کا نخرہ آگیا اور ''بیڈ روم‘‘ صرف دو افراد کا ہو کر رہ گیا۔ بچوں کے الگ الگ کمرے ہو گئے۔ ماں باپ کو معلوم ہی نہیں کہ لڑکا یا لڑکی کمرے میں کیا کر رہی ہے۔ پہلے ہم جس کمرے میں سوتے تھے‘ اسی میں کھانا کھاتے تھے۔ ہمارا کلچر زمینی دسترخوان کا تھا۔ اب دو اڑھائی لاکھ (کم از کم) کا ڈائننگ ٹیبل اور چھ یا آٹھ یا دس یا اس سے بھی زیادہ کرسیاں لازم ہو گئیں۔ ہم قالینوں اور دریوں پر بیٹھتے تھے اور مہمانوں کو بٹھاتے تھے۔ اب خواتین قیمتی سے قیمتی صوفے خریدتی ہیں۔ مہنگائی اور گزارا نہ ہونے کا راگ الاپنے سے پہلے ذرا یہ حساب کر لیجیے کہ آپ کے گھر میں کتنے ملبوسات اور کتنے جوتے ہیں؟ کتنے برتن ہیں؟ کتنے پلنگ پوش ہیں؟ کچن میں کتنی مشینیں 

(Gadgets)

 ہیں؟ اور ان چیزوں میں سے کتنی کبھی استعمال ہی میں نہیں آتیں! کتنے صوفے‘ کتنی کرسیاں‘ کتنے قالین اور کتنے سنگھار میز ہیں؟ یہ اثاثے کتنی مالیت کے ہیں؟ آئیے ہم اپنی عقل کا ماتم کریں۔ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جاپان‘ کہیں بھی اٹیچڈ باتھ کا تصور نہیں! ایک اور زیادہ سے زیادہ دو باتھ روم (مع ٹائلٹ) ہوتے ہیں۔ ایک باتھ روم میاں بیوی والے کمرے میں اور ایک بچوں اور مہمانوں کے لیے۔ یہ استطاعت سے بڑھ کر عیاشی‘ یہ اٹیچڈ باتھ‘ ہمارے غریب ملک ہی میں لازم ہیں۔ مکان خریدتے وقت ہم احمقوں کی طرح‘ بڑے سٹائل سے پوچھتے ہیں کہ باتھ روم کتنے ہیں؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ صرف ایک بیت الخلا ہوتا تھا چھت پر۔ اور گھر میں ایک چَوبچہ یا باتھ روم ہوتا تھا۔ اور کبھی لائن نہیں لگتی تھی۔ چھ‘ آٹھ چارپائیاں ایک ڈبل بیڈ میں بدل گئیں اور کمرے کا سائز وہی رہا۔ جیسے کبڈی کا میچ یہیں ہونا ہے۔ کولنگ اور ہیٹنگ ان بڑے بڑے کمروں میں بے حد مہنگی!! ذرا ترقی یافتہ ملکوں میں عام گھروں کی خوابگاہوں کے سائز دیکھیے۔ اکثریت کا سائز چودہ ضرب بارہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ دن کو سب لاؤنج میں بیٹھتے ہیں اور بیڈ روم صرف سونے کے لیے ہوتا ہے۔ اکثر گھروں میں لاؤنج یا 

Living Room 

یا ڈرائنگ روم ایک ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹے سے چھوٹے گھر میں بھی لاؤنج الگ ہے اور ڈرائنگ روم الگ۔ اب تو ہر بیڈ روم میں الگ ٹی وی کی لعنت بھی شروع ہو گئی ہے۔ مزید غور کیجیے‘ گھر کا کھانا کھاتے ہوئے موت پڑتی ہے۔ رات بھر پیزے اور برگر ڈیلیور ہوتے ہیں۔ اپنا پیسہ ان چیزوں پر لٹا رہے ہیں جو مکمل طور پر غیر ضروری ہیں! ہم انفرادی طور پر بھی احمق ہیں۔ ہر گھر چادر سے باہر پاؤں نکالے بیٹھا ہے اور حکومتی سطح پر بھی احمق ہیں کہ غیر ترقیاتی اخراجات منہ کو آ رہے ہیں۔ ہم جتنے غریب ہیں اتنے ہی عیاش ہیں اور اتنے ہی احمق!!

Thursday, July 04, 2024

ننھے محافظ


''آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں نانا ابو! آپ نے کھاریاں نہیں جانا!‘‘
یہ بات زینب نے کہی! وہی زینب کہ جب چھوٹی سی تھی اور میری طبیعت مضمحل تھی تو آنکھوں میں آنسو بھر کر اس نے کہا تھا ''میں دعا کروں گی کہ آپ کبھی فوت نہ ہوں‘‘۔ اب تو وہ بڑی ہو گئی ہے۔ وقت آندھی کی رفتار سے چلتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی تیز تر! کل کی یہ بچی اب قانون کی سٹوڈنٹ بننے والی ہے۔ جس دن کی بات ہے‘ اس دن میری طبیعت بہت خراب تھی۔ ایک دن پہلے بخار تھا۔ رات کو نیند بھی نہیں آئی تھی۔ دن بھر بستر پر پڑا رہا۔ شام کو کھاریاں میں شادی کی ایک تقریب تھی۔ بیگم کو تو معلوم تھا کہ اس میں شرکت ناگزیر ہے۔ زینب کو خبر ملی تو فوراً میرے کمرے میں آئی۔ ''نانا ابو! یہ میں کیا سن رہی ہوں! آپ کھاریاں جا رہے ہیں! آپ کو اپنی حالت کا علم ہے؟‘‘۔ اسے تفصیل بتائی کہ کس طرح قریبی دوستوں کی تقریب ہے اور کس طرح بعض مواقع پر ہر حال میں جانا پڑتا ہے۔ مگر اس کی دلیل یہ تھی کہ میں کئی دن سے بیمار ہوں۔ اگر سفر پر گیا تو تھکاوٹ سے دوبارہ بخار ہو جائے گا۔ اسے سمجھایا کہ اب ٹھیک ہوں۔ بس جا کر ایک گھنٹہ وہاں بیٹھ کر آجاؤں گا۔ کہنے لگی: جس دوست کے گھر تقریب ہے اس کا فون نمبر دیجیے۔ فون نمبر دینا خطرے سے خالی نہ تھا۔ ایک بار لاہور میں فون نمبر کا استعمال کر چکی تھی۔ ہم لاہور اس کے گھر کئی دن رہے۔ جس دن ڈرائیور نے اسلام آباد سے آنا تھا کہ ہمیں لے جائے‘ اس سے ایک دن پہلے زینب نے اسے فون کیا کہ انکل آپ کل نہ آئیے۔ ابھی نانا ابو اور نانو امی نے واپس اسلام آباد نہیں جانا۔ وہ تو بھلا ہو ڈرائیور کا کہ ہوشیاری کی اور مجھ سے تصدیق چاہی۔ اب جب کھاریاں جانا تھا تو سخت پریشان تھی کہ میری طبیعت پھر خراب ہو جائے گی۔ ایک دن پہلے پینا ڈول کھلاتے وقت کہہ رہی تھی یہ ذرا میرے سامنے کھائیے۔ مجھے آپ پر اعتبار بالکل بھی نہیں ہے۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائیور نے بتایا کہ گاڑی کی چابیاں زینب بی بی نے اس سے لے لی ہیں اور اسے حکم دیا ہے کہ نانا ابو کو کھاریاں نہیں لے کر جانا۔ بہت مشکل سے قائل کیا اور اس نے جانے دیا۔ ابھی گوجر خان ہی کراس کیا تھا کہ اس کا میسیج آیا ''راستے میں سونے کی کوشش کیجیے‘‘۔
یہ جو پروردگارِ عالم نے اپنے آپ کو مدبر الامر قرار دیا ہے تو یونہی نہیں قرار دیا۔ غور کرنے کا مقام ہے۔ آپ کی دیکھ بھال اور آپ کے لیے فکرمندی آپ کے ماں باپ کرتے ہیں! پھر جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں یا داغِ مفارقت دے جاتے ہیں تو آپ کی جوان بیوی اور آپ کے بچے جو تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں‘ آپ کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ پھر ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ بیوی کے قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں۔ اس میں پہلے جیسی طاقت‘ توانائی اور ہمت نہیں رہتی۔ کبھی گھٹنوں میں درد کبھی ہڈیوں کی کمزوری! آپ کے بچے بڑے ہو کر زندگی کی جد و جہد میں لگ جاتے ہیں۔ کوئی دفتر جاتا ہے کوئی دکان پر کوئی کارخانے میں اور کوئی کھیت پر! شام ڈھلے لوٹتے ہیں۔ تھکے ہارے! اب مدبر الامر نے آپ کی دیکھ بھال پر آپ کے پوتے‘ نواسے‘ پوتیاں اور نواسیاں مامور کر دی ہیں۔ آپ بیمار پڑتے ہیں تو یہ پوتے نواسیاں پریشان ہو جاتے ہیں۔ کوئی آپ کو پانی دیتا ہے‘ کوئی دوا کھلاتی ہے۔ ان کا باپ شام کو گھر آتا ہے تو فوراً سے پیشتر اسے بتائیں گے کہ دادا ابو کو یا نانا ابو کو یہ تکلیف ہو گئی ہے۔ انہیں فلاں چیز کی ضرورت ہے۔ جس طرح ان کی باتیں غور سے دادا‘ دادی‘ نانی یا نانا سنتے ہیں‘ بالکل اسی طرح ان بزرگوں کی باتیں بھی سب سے زیادہ توجہ سے یہ بچے ہی سنتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی اتحاد (Alliance) ہے جو مدبّر الامر نے ہر گھر میں کھڑا کر دیا ہے۔ آپ دیکھیے‘ قدرت ہر مرحلے پر‘ زندگی کے ہر موڑ پر آپ کی دیکھ بھال کا انتظام کرتی ہے۔ اس بات پر آپ جتنا غور کریں گے‘ حیرت کے دروازے اتنے ہی کھلتے چلے جائیں گے۔
یہی زینب جب ساتویں یا چھٹی میں پڑھ رہی تھی‘ ایک دن رات کو میں اور وہ لاؤنج میں بیٹھے اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔ میں نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا۔ اسے کہا کہ روٹی تو پکی ہوئی پڑی ہے۔ ریفریجریٹر سے ماش کی دال نکال کر گرم کرے اور مجھے کھانا دے دے۔ وہ اٹھی اور باورچی خانے میں گئی۔ میں کام میں مصروف ہو گیا۔ بہت دیر بعد آئی۔ ٹرے میں دال نہیں تھی‘ آملیٹ تھا۔ کہنے لگی :نانا ابو! رات کو ماش کی دال نہیں کھانی چاہیے۔ میں نے آپ کے لیے آملیٹ بنایا ہے! اس کے بھائی ہاشم خان کا اظہارِ محبت کا اپنا الگ اسلوب ہے۔ ایک بار میں لاہور سے واپس آیا تو رپورٹ پہنچی کہ میری واپسی کے بعد ننھا ہاشم کہہ رہا تھا کہ اسے گھر کے ہر کونے سے نانا ابو کی آوازیں آرہی ہیں۔ ایک بار ہمارے ہاں اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ سردیاں تھیں۔ مجھے بہت ہی منحوس اور ظالم قسم کی کھانسی لگی ہوئی تھی۔ کسی دوا‘ کسی علاج‘ کسی ٹوٹکے سے گھَٹ ہی نہیں رہی تھی۔ کھانسی کا دورہ پڑا اور میں کھانستے کھانستے بے حال ہو گیا۔ ہاشم اپنے کمرے سے نکلا اور آکر میرے گلے لگ کر زارو قطار رونا شروع ہو گیا۔ بس اتنی بات سمجھ میں آرہی تھی کہ نانا ابو آپ اتنی تکلیف میں ہیں! ہر بچے کا اپنا انداز ہے اور اظہار کا اپنا طریقہ ہے۔ بارہ سالہ پوتا تیمور جو آسٹریلیا میں ہے‘ ہماری آسٹریلیا سے واپسی سے کئی دن پہلے ضد کرنا شروع کر دیتا ہے کہ ابھی نہیں جانا۔ ایک ماہ اور رکنا ہے۔ جیسے جیسے رخصتی کا دن قریب آتا ہے اس کے اصرار میں آنسو شامل ہوتے جاتے ہیں۔ کبھی باپ سے کہے گا: ابا انہیں روکیے۔ امی ابو پاکستان نہ جائیں۔ جب بھی پاکستان آتا ہے‘ واپس جاتے ہوئے روتا ہے کہ میں پاکستان میں ہی رہنا چاہتا ہوں۔ حمزہ کا اپنا انداز ہے۔ جس دن ہم نے واپس آنا ہوتا ہے وہ بات کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ خاموش اور افسردہ ہو کر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں ملنے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ چھوٹا سا تھا۔ اسلام آباد آیا تو دادی کو دس ڈالر کا نوٹ دیا اور کہا یہ رکھ لیجیے۔ دادی نے پیار کر کے واپس کر دیا۔ پھر مجھے دیا کہ یہ آپ کے لیے لایا ہوں۔ اس سے کچھ لے لیجیے گا۔ ایک بار مجھے ریل کار سے لاہور جانا تھا۔ ریلوے سٹیشن جانے لگا تو گاڑی میں بیٹھ گیا کہ ساتھ جاؤں گا۔ میں نے بہلانے کی کوشش کی۔ کہنے لگا: آپ کے بغیر مر جاؤں گا۔ اس کی دادی اور باپ نے بھی کہا کہ پیچھے روتا رہے گا‘ ساتھ لے جائیے۔ ریل کار پارلر میں نشست تو ایک ہی محفوظ تھی۔ خیر! ایک شریف آدمی نے اپنی نشست دے دی۔ ہمارے سامنے‘ میز کے دوسری طرف ایک این جی او ٹائپ‘ فیشن ایبل لڑکی بیٹھی لیپ ٹاپ پر کام میں مصروف تھی۔ سات آٹھ سالہ حمزہ کی پنجابی اس کے کانوں میں پڑی تو اس کے تو ہوش اُڑ گئے۔ حیرت سے کہنے لگی یہ تو پنجابی بولتا ہے ( اندازہ لگائیے پنجاب میں کوئی بچہ پنجابی بولے تو کتنی حیرت انگیز بات ہے!!)۔ اسے بتایا کہ آسٹریلیا کی پیدائش ہے۔ انگریزی بولتا ہے یا پنجابی! لڑکی نے اس سے ہاتھ ملایا۔ پھر دونوں کی دوستی ہو گئی۔ انگریزی زدہ لڑکی نے اس کی پنجابی سے خوب حظ اٹھایا۔ اسی لاہور یاترا کے دوران حمزہ نے ایک دلچسپ فقرہ بولا۔ میں سویا ہوا تھا۔ مجھے ہلایا اور کہنے لگا ''ابّو! آپ مر تو نہیں گئے؟‘‘۔

Tuesday, July 02, 2024

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان کی خدمت میں دو گزارشات


سردار سلیم حیدر خان صوبہ پنجاب کے پہلے (غیر فوجی) گورنر ہیں جن کا تعلق ضلع اٹک سے ہے۔ اس سے پہلے‘ پنڈی گھیب (ضلع اٹک) سے تعلق رکھنے والے جنرل اقبال خان بھی‘ جولائی 1993ء سے مارچ 1994ء تک گورنر رہے مگر وہ سیاستدان نہ تھے۔ سردار سلیم حیدر سیاسی کارکن ہیں۔ اپنی پارٹی (پی پی پی) سے ہمیشہ وفاداری نبھائی۔ پیپلز پارٹی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مجھے بھی ہے! مگر اس پارٹی کے اس وصف کو ضرور سراہنا چاہیے کہ یہ اپنے پرانے کارکنوں کو عزت دیتی ہے۔ سردار سلیم حیدر خان کو جب گورنر بنانے کی بات ہوئی تو پارٹی کے اندر بہت سے لوگ چونکے! چہ میگوئیاں ہوئیں! پنجاب کا گورنر؟ فتح جنگ سے؟ مگر پارٹی کی قیادت نے اپنا فیصلہ بر قرار رکھا۔ اس سے یاد آ رہا ہے کہ جب‘ بہت عرصہ پہلے‘ میری تعیناتی پی او ایف بورڈ‘ واہ‘ کے ممبر فنانس اور مالی مشیر کے طور پر ہوئی تو جو صاحب میرے پیشرو تھے اور جن سے مجھے چارج لینا تھا اور جن کا تعلق بِہار سے تھا‘ بہت پریشان ہوئے کہ یہ فتح جنگ قسم کے لوگ تو واہ میں ڈرائیور اور زیادہ سے زیادہ کلرک لگتے ہیں‘ یہ بورڈ کے ممبر اور مالی مشیر کیسے لگ سکتے ہیں؟
سردار سلیم حیدر خان صاحب کے گاؤں کا نام ڈُھرنال ہے۔ یہ فتح جنگ اور کھوڑ کے درمیان‘ شاہراہ کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ میرا گاؤں (جھنڈیال) اسی شاہراہ کے مغربی طرف واقع ہے اور ڈھرنال کا پڑوسی گاؤں ہے کہ درمیان میں اور کوئی گاؤں نہیں پڑتا۔
1998ء میں جب میری والدہ ماجدہ کی وفات ہوئی تو سردار سلیم حیدر خان‘ تعزیت کے لیے پُھوہڑی پر تشریف لائے تھے۔ ہمارے خاندان کی ایک شاخ ڈُھرنال میں موجود ہے مگر بزرگوں کے بعد اس سے رابطہ ختم ہو گیا۔ سردار سلیم حیدر خان صاحب نوجوان نہیں‘ مگر جوان ضرور ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کے علم میں نہ ہو کہ اس فقیر کے دادا جان تقریباً 50برس جھنڈیال میں بیٹھ کر درس وتدریس کا کام کرتے رہے۔ وہ فقہ اور فارسی ادب پڑھانے کے لیے مشہور تھے۔ پورے برصغیر سے طلبہ ان کے ہاں آتے تھے یہاں تک کہ بنگال‘ آسام‘ کشمیر اور کابل سے بھی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ طلبہ کی تعداد اڑھائی سو تھی۔ طلبہ کا قبرستان الگ تھا جو آج بھی پرانے آثار کی طرح موجود ہے۔ تحصیل فتح جنگ میں اور بھی کئی مدارس تھے۔ یہ علاقہ علم و ادب کے حوالے سے ماضی میں ہمیشہ زرخیز رہا ہے۔ خواتین کی تعلیم میں بھی‘ ایک زمانے میں‘ دوسرے کئی علاقوں سے آگے تھا۔ گورنر صاحب نے حال ہی میں حکم دیا ہے کہ ضلع اٹک کے ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں تینوں بڑی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھولے جائیں۔ یہ اقدام انقلابی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اٹک کا ضلع‘ تختِ لاہور سے دور ہونے کی وجہ سے بہت سی سہولتوں سے محروم چلا آ رہا ہے۔ لاہور میں واقع ''پنجاب پبلک سروس کمیشن‘‘ کی بے نیاز نگاہیں اس ضلع پر کم ہی پڑتی رہی ہیں۔
میں ان سطور کے ذریعے قابلِ احترام گورنر کی توجہ دو امور کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ اوّل یہ کہ ضلع اٹک کی پسماندگی کی جو بنیاد انگریز حکومت رکھ گئی تھی‘ وہ آج 76سال بعد بھی جوں کی توں قائم ہے۔ جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے‘ 1857ء سے لے کر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں تک‘ ضلع اٹک کی افرادی قوت نے انگریز سرکار کی بہت مدد کی۔ یہاں کے نوجوان یورپ‘ افریقہ‘ مڈل ایسٹ اور برما میں لڑے۔ جنگ کے اس ایندھن کی سپلائی کو جاری رکھنے کے لیے انگریز سرکار نے دو فیصلے کیے جو اُن کی استعمارانہ ذہنیت کے آئینہ دار تھے اور جو اس علاقے کے لیے حد سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے۔ ایک یہ کہ جب وسطی پنجاب میں نہری نظام قائم کیا گیا تو اٹک کے ضلع کو نہری نظام سے محروم رکھا گیا حالانکہ اگر جہلم‘ راوی اور چناب سے نہریں نکل سکتی تھیں تو دریائے سندھ کے مشرقی کنارے سے بھی نہریں نکالی جا سکتی تھیں۔ لیکن اگر فتح جنگ‘ پنڈی گھیب جنڈ اور فتح جنگ کے علاقے میں نہریں آ جاتیں تو اس سے زرعی آمدنی بڑھ جاتی۔ کسان خوشحال ہو جاتے اور نوجوان فوجی بھرتی سے گریز کرتے۔ مقصد انگریز سرکار کا یہ تھا کہ نوجوانوں کو فوجی بھرتی کے علاوہ اور کوئی آمدنی کا ذریعہ نہ ملے۔ چنانچہ اس ضلع کو آبپاشی کے ذرائع سے‘ یعنی نہروں سے‘ محروم رکھا گیا۔ دوسرا فیصلہ انگریز سرکار کا یہ تھا کہ اس ضلع کو صنعت سے بھی محروم رکھا جائے تاکہ نوجوانوں کو نوکری کے لیے فیکٹریاں اور کارخانے نظر نہ آئیں اور وہ فوج میں بھرتی کے لیے مجبور ہو جائیں۔ وہ تو بھلا ہو مسلح افواج کا کہ واہ‘ سنجوال اور کامرہ میں فیکٹریاں لگیں اور مقامی لوگوں کو کچھ ملازمتیں مل گئیں۔ لیکن سردار صاحب غور فرمائیں کہ ترنول سے فتح جنگ تک‘ فتح جنگ سے خوشحال گڑھ اور مکھڈ تک‘ اور فتح جنگ سے پنڈی گھیب تک کوئی کارخانہ‘ کوئی فیکٹری نہیں ہے۔ یہ فقیر جب پی او ایف واہ کا بورڈ ممبر اور مالی مشیر تھا تو کوشش کر رہا تھا کہ سُرلہ اور ڈُھرنال کے درمیانی علاقے میں ایک فیکٹری لگ جائے مگر ابھی بات چیت جاری تھی کہ وہاں سے تبادلہ کر دیا گیا۔ گورنر صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ سرکاری محکمۂ صنعت اور نجی شعبہ‘ دونوں کو آمادہ فرمائیں کہ اس علاقے پر توجہ دیں اور صنعتیں لگائیں تاکہ مردوں اور عورتوں‘ دونوں کو روزگار مل سکے!
دوسری گزارش یہ ہے کہ اُس وقت کے ضلع ناظم سے میں نے‘ اپنے گاؤں کے وفد کے ہمراہ ملاقات کی تھی اور تین کاموں کی منظوری لی تھی۔ ایک گاؤں سے قبرستان تک پکی سڑک بنوانا‘ دوسرا لڑکوں کے پرائمری سکول کو مڈل تک کرانا اور تیسرا گاؤں میں سرکاری ڈسپنسری کا قیام!! پہلے دو کام تو ہو گئے تھے مگر تیسرا کام ابھی تک نہیں ہوا حالانکہ جھنڈیال کے سردار تاج خان نے اپنی چار کنال زمین حکومت پنجاب کے نام اُسی وقت کرا دی تھی۔ پندرہ برس سے یہ منظور شدہ ڈسپنسری نہیں قائم ہو رہی کیونکہ لاہور کی منہ زور بیورو کریسی کے لیے پنجاب کا یہ آخری مغربی ضلع کسی توجہ کا مستحق نہیں۔ سابق بیورو کریٹ ہونے کے باوجود میں اس کام کو کرانے میں ناکام رہا۔ صحافتی سطح پر بھی کوشش کی مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔ ایک روایت یہ بھی پہنچی کہ اس غریب کی کالم نگاری سے کچھ بڑے لوگ ناخوش تھے چنانچہ غصہ پورے گاؤں پر نکالا گیا۔ بہرطور‘ آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ پنجاب کے محکمۂ مالیات کو حکم دیجیے کہ اس ڈسپنسری کے لیے مطلوبہ فنڈز مہیا کریں! زمین پہلے ہی حکومت کے نام کی جا چکی ہے۔ آپ اتفاق فرمائیں گے کہ جھنڈیال میں ڈسپنسری بنی تو اردگرد کے تمام گاؤں‘ (کِھدوال‘ میکی ڈھوک‘ دُھلیال‘ سِکھوال‘ سِدھریال) سب فائدہ اٹھا سکیں گے کیونکہ یہ ڈسپنسری ان تمام بستیوں کو نزدیک پڑے گی۔
ہم ضلع اٹک کے لوگ‘ خاص طور پر تحصیل فتح جنگ کے عوام‘ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری مٹی کا ایک فرزند گورنر کے منصب پر فائز ہوا ہے۔ آپ یقینا پورے صوبے کے مفادات کے محافظ ہیں۔ انصاف یہ ہے کہ ضلع اٹک ترقیاتی منصوبوں میں‘ عام طور پر‘ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ آپ خود گاؤں جاتے ہیں تو نوٹ کرتے ہوں گے کہ ''گلی‘‘ سے آگے سڑک کا برا حال ہے۔ تعلیمی اداروں کی بھی کمی ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے لیے تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ زراعت کے لیے صرف اور صرف بارش پر انحصار‘ صنعت کا فقدان‘ بستیوں کے درمیان پکی سڑکوں کا نہ ہونا‘ تعلیمی سہولتوں کی کمی‘ ان سب عوامل نے ضلع اٹک کو پسماندہ کر رکھا ہے۔ ہمیں امید ہی نہیں یقین ہے کہ آپ‘ اس سلسلے میں‘ ہر ممکن کوشش کریں گے!

Monday, July 01, 2024

قائداعظم کا پاکستان اور ہمارا پاکستان


معروف و مقبول کالم نگار جناب جاوید چودھری نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ بھٹو صاحب جب وزیر اعظم تھے‘ اُن کے ایک بہادر اے ڈی سی نے ایک خطرناک دھماکے میں اُن کی جان بچائی۔یہ اے ڈی سی فارن سروس میں جانا چاہتے تھے۔ جنرل ضیا نے بھٹو صاحب کا تختہ الٹ دیا۔مری میں دونوں کی ( نا خوشگوار) ملاقات ہوئی۔ جنرل نے اپنے سابق حکمران سے پوچھا: سر کوئی حکم ؟بھٹو صاحب نے کہا کہ ان کے دونوں اے ڈی سیز کو فارن سروس میں پوسٹ کر دیا جائے۔ دوسرے دن جنرل صاحب نے دونوں افسروں کو مسلح افواج سے فارن سروس منتقل کر دیا۔ ہم نے یہ واقعہ بہت اختصار سے بیان کیا ہے۔ اب ایک اور واقعہ سنیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بابائے قوم قائداعظم نے زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزارے۔جو نرس اُن کی خدمت پر مامور تھی اس نے استدعا کی کہ اس کا تبادلہ فلاں جگہ کرا دیا جائے۔ قائداعظم نے جواب دیا کہ یہ محکمہ صحت کا کام ہے۔ وہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔
یہ ہے فرق قائداعظم کے پاکستان میں اور ان کے بعد کے پاکستان میں! مسلح افواج کا سول سروسز میں دس فیصد حصہ ہے۔مگر اس کا ایک طریق کار‘ ایک سسٹم‘ ایک نظام ہے جو ظاہر ہے‘ عمل میں نہیں لایا جاتا۔ پھر یہ دس فیصد حصہ سول سروس کے تمام گروپوں میں ہے جن میں ریلوے‘ پوسٹل سروس‘ سیکشن افسر‘ کسٹم‘ انکم ٹیکس‘ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس‘ کامرس اینڈ ٹریڈ‘ اور انفارمیشن سروس سمیت سب گروپ شامل ہیں۔ ہوا یہ کہ مسلح افواج سے جو افسران سول سروس میں آئے وہ کم و بیش سب سفارش سے آئے اور آئے بھی ضلعی انتظامیہ میں‘ یا فارن سروس میں یا پولیس سروس میں۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس میں حکمرانی اور طاقت ہے۔ فارن سروس میں سیر و سیاحت کے مزے ہیں! اور آج تک مسلح افواج سے جو افسر اِن تینوں سروسز میں منتقل ہوئے وہ یا تو کسی نہ کسی صدر یا وزیر اعظم کے اے ڈی سی تھے یا کسی وزیر‘ کسی جرنیل‘ کسی بااثر خاندان کے چشم و چراغ!!شاید ہی کوئی ایسا فوجی افسر سول سروس کے ان شعبوں میں آیا ہو جو کسی عام گھرانے سے ہو‘ اے ڈی سی نہ رہا ہو‘ کسی وزیر یا جرنیل کا بیٹا یا داماد نہ ہو یا سیاسی اثر و رسوخ نہ رکھتا ہو! آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم کا اے ڈی سی ان سے فرمائش کرتا کہ مجھے ضلعی انتظامیہ میں بھجوا دیجیے یا پولیس یا فارن سروس میں تو اُن کا کیا رد عمل ہوتا؟ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی! اُن کا جواب ہوتا کہ نوجوان! اس کا ایک طریق کار ہے۔ میں اس میں مداخلت نہیں کروں گا۔ ہم نے قائد کے پاکستان کے پرخچے اُڑا دیے! اسے بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھایا‘ نوچا اور آج پاکستان ایک لاش کی صورت پڑا ہے۔ بھٹو صاحب کے اے ڈی سی‘ ضیا الحق کے اے ڈی سی‘ نواز شریف صاحب کے اے ڈی سی!سب نے فوج کو پشت دکھائی اور سر سبز چراگاہوں کی تلاش میں کہاں سے کہاں جا پہنچے! جو فوجی افسر اہلیت رکھتے تھے‘ جو شفاف مقابلے میں کامیاب ہوتے‘ انہیں نظر انداز کیا گیا۔ انہیں زیر غور آنے کا موقع ہی نہ دیا گیا۔
یہی حال بیرونِ ملک تعیناتیوں کا ہوا! سفارش‘ سفارش اور سفارش ہی واحد معیار تھا۔ جو ڈی سی اور ایس پی پنڈی‘ لاہور میں پوسٹ ہوتا ہے اس کے فرائض میں شامل ہے کہ ایئر پورٹ پر وزیر اعظم‘ صدر یا وزیر اعلیٰ کو رخصت بھی کرے اور استقبال بھی کرے۔ ان مواقع سے راستے نکالے گئے۔ بہت سے ان راستوں سے بیرونِ ملک تعینات ہوئے۔ کچھ وزیروں اور بااثر عمائدین کو سیڑھی بنا کر نکل گئے۔ کچھ سول سرونٹ دو دو تین تین بار بیرونِ ملک پوسٹ ہوئے۔ کچھ کو ایک بار بھی یہ موقع نہ ملا۔فارن کورسز کا بھی یہی حال رہا۔
ظلم کسے کہتے ہیں؟ کتابوں میں ظلم کی تعریف یوں کی گئی ہے ''وَضعُ الشَّی ئِ فِی غَیرِ مَحَلِّہ‘‘ یعنی کسی چیز کو وہاں رکھنا جہاں اس کی جگہ نہیں ہے۔ آپ میز پر بیٹھ جائیں گے اور کھانا کرسی پر رکھیں گے تو یہ ظلم ہو گا۔ اسی طرح اپنے پسندیدہ یا سفارشی فرد کو ایسی جگہ تعینات کرنا جس کا وہ اہل ہے نہ مستحق‘ ظلم ہے اور اس ظلم کا کل جواب دینا ہو گا۔ پاکستان میں یہ ظلم خوب خوب ہوا اور ہوئے جا رہا ہے۔ جس کو جتنا زیادہ موقع ملا‘ اُس نے اتنا ہی زیادہ ظلم کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے پسندیدہ افسروں کو بیرونِ ملک نو نو‘ دس دس سال ایک ہی عہدے پر رکھا۔ ایک صاحب ان کے بہت منہ چڑھے تھے۔ ہر سال ان کی لمبی چوڑی دعوت کرتے تھے۔ ان کے قریبی عزیز کو پہلے سول سروس میں فِٹ کیا۔ اس پر تسلی نہ ہوئی تو اسے بیرونِ ملک تعینات کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس ظلم کو انتہا پر پہنچا دیا۔ کسی کو پوسٹل کے محکمے کا سربراہ لگا دیا۔ اس کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اپنے ایک پسندیدہ شخص کو وفاقی تعلیم کا ڈی جی لگا دیا۔ پھر اسے پانچ بار توسیع دی۔جن کا حق تھا وہ عدالتوں میں جوتیاں چٹخا چٹخا کر‘ ریٹائر ہو گئے۔ ایک صاحب انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔ ریٹائرمنٹ پر جنرل صاحب کو ملے۔ پوچھا: آج کل کیا کرہے ہو؟ کہا: تعلیم کے موضوع پر کچھ پڑھ رہا ہوں۔ بس! انہیں سول سروس کے ایک بہت بڑے تربیتی ادارے کا سربراہ بنا دیا۔ ایک جج صاحب کے ڈاکٹر صاحبزادے کو ایف آئی اے میں فکس کیا گیا۔ انڈونیشیا میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت کو بیچنے کا قصہ ہم سب نے کئی بار پڑھا اور سنا ہے۔ نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ ایک سیاستدان کی بیٹی کو سی ایس ایس کیے بغیر بیرونِ ملک سفارتخانے میں لگا دیا گیا۔ ہمارے معزز ارکانِ پارلیمنٹ کی جیبیں ایسی سفارشی چٹوں سے بھری رہتی ہیں جن پر تعیناتیوں اور تبادلوں کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ہر ایم این اے‘ ایم پی اے اپنے علاقے میں مرضی کے افسر ان چاہتا ہے اور اس کی یہ خواہش متعلقہ صوبے کا وزیر اعلیٰ‘خوشی سے‘ یا مجبوراً پوری کرتاہے۔
سنگا پور‘ جاپان‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ فرانس وغیرہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں کوئی حکمران کسی بھی معاملے کے دستوری اور قانونی طریق کار میں دخل نہیں دے سکتا۔ قائداعظم کا پاکستان بھی ایسا ہی تھا!ہر کام‘ ہر فرمان‘ قانون کے مطابق! تا کہ سسٹم مضبوط ہو‘ نظام مبنی بر انصاف ہو‘ اور ملک ترقی کرے۔ افسوس! قائد کا وہ پاکستان آج تاریخ کی کتابوں ہی میں دیکھا جا سکتا ہے۔جب تعیناتیوں‘ پوسٹنگ ٹرانسفر‘ اور ترقیوں میں سفارش کی بنیاد پر دھاندلی ہو‘ تو ہر شعبہ نااہلوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ملک نیچے چلا جاتا ہے۔نظام بر باد ہو جاتا ہے۔ ادارے‘ ادارے نہیں رہتے‘ مُردہ ڈھانچوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں حکمران ماٹھا بھی ہو تو ادارے اپنی مضبوطی کے سبب نظام کو پٹری سے نیچے نہیں اُترنے دیتے کیونکہ اداروں کی افرادی قوت میرٹ کی بنیاد پر لگائی جاتی ہے۔ اور ادارے کے کام میں اوپر سے مداخلت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں ادارے کا سربراہ لائق ہو تب بھی نتیجہ صفر ہوتا ہے کیونکہ ادارے کا سربراہ سیاسی اور حکومتی مداخلت کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ بہت بہادر بنے گا اور انکار کر دے گا تو شام سے پہلے تبادلہ ہو جائے گا اور نیا آنے والا اپنے پیشرو کے انجام سے ڈرے گا۔ اداروں کی مشینری ( اہلکار + افسر ) بھی مداخلت کے بغیر کام نہیں کرتے۔ کچھ ہفتے پیشتر ایک وفاقی ادارے میں کام پڑا۔ معلوم ہوا پچاس ہزار روپے ''ریٹ‘‘ ہے۔ پوچھا: نہ دیں تو پھر ؟ بتایا گیا: کئی مہینے لگ جائیں گے۔
ادارے کے ایک بڑے افسر سے مداخلت کرائی تو ایک ہفتے میں ''ریٹ‘‘ کے بغیر کام ہوا۔ یہ ہے ہمارا پاکستان اور وہ تھا قائداعظم کا پاکستان!!

قائداعظم کا پاکستان اور ہمارا پاکستان


معروف و مقبول کالم نگار جناب جاوید چودھری نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ بھٹو صاحب جب وزیر اعظم تھے‘ اُن کے ایک بہادر اے ڈی سی نے ایک خطرناک دھماکے میں اُن کی جان بچائی۔یہ اے ڈی سی فارن سروس میں جانا چاہتے تھے۔ جنرل ضیا نے بھٹو صاحب کا تختہ الٹ دیا۔مری میں دونوں کی ( نا خوشگوار) ملاقات ہوئی۔ جنرل نے اپنے سابق حکمران سے پوچھا: سر کوئی حکم ؟بھٹو صاحب نے کہا کہ ان کے دونوں اے ڈی سیز کو فارن سروس میں پوسٹ کر دیا جائے۔ دوسرے دن جنرل صاحب نے دونوں افسروں کو مسلح افواج سے فارن سروس منتقل کر دیا۔ ہم نے یہ واقعہ بہت اختصار سے بیان کیا ہے۔ اب ایک اور واقعہ سنیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بابائے قوم قائداعظم نے زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزارے۔جو نرس اُن کی خدمت پر مامور تھی اس نے استدعا کی کہ اس کا تبادلہ فلاں جگہ کرا دیا جائے۔ قائداعظم نے جواب دیا کہ یہ محکمہ صحت کا کام ہے۔ وہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔
یہ ہے فرق قائداعظم کے پاکستان میں اور ان کے بعد کے پاکستان میں! مسلح افواج کا سول سروسز میں دس فیصد حصہ ہے۔مگر اس کا ایک طریق کار‘ ایک سسٹم‘ ایک نظام ہے جو ظاہر ہے‘ عمل میں نہیں لایا جاتا۔ پھر یہ دس فیصد حصہ سول سروس کے تمام گروپوں میں ہے جن میں ریلوے‘ پوسٹل سروس‘ سیکشن افسر‘ کسٹم‘ انکم ٹیکس‘ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس‘ کامرس اینڈ ٹریڈ‘ اور انفارمیشن سروس سمیت سب گروپ شامل ہیں۔ ہوا یہ کہ مسلح افواج سے جو افسران سول سروس میں آئے وہ کم و بیش سب سفارش سے آئے اور آئے بھی ضلعی انتظامیہ میں‘ یا فارن سروس میں یا پولیس سروس میں۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس میں حکمرانی اور طاقت ہے۔ فارن سروس میں سیر و سیاحت کے مزے ہیں! اور آج تک مسلح افواج سے جو افسر اِن تینوں سروسز میں منتقل ہوئے وہ یا تو کسی نہ کسی صدر یا وزیر اعظم کے اے ڈی سی تھے یا کسی وزیر‘ کسی جرنیل‘ کسی بااثر خاندان کے چشم و چراغ!!شاید ہی کوئی ایسا فوجی افسر سول سروس کے ان شعبوں میں آیا ہو جو کسی عام گھرانے سے ہو‘ اے ڈی سی نہ رہا ہو‘ کسی وزیر یا جرنیل کا بیٹا یا داماد نہ ہو یا سیاسی اثر و رسوخ نہ رکھتا ہو! آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم کا اے ڈی سی ان سے فرمائش کرتا کہ مجھے ضلعی انتظامیہ میں بھجوا دیجیے یا پولیس یا فارن سروس میں تو اُن کا کیا رد عمل ہوتا؟ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی! اُن کا جواب ہوتا کہ نوجوان! اس کا ایک طریق کار ہے۔ میں اس میں مداخلت نہیں کروں گا۔ ہم نے قائد کے پاکستان کے پرخچے اُڑا دیے! اسے بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھایا‘ نوچا اور آج پاکستان ایک لاش کی صورت پڑا ہے۔ بھٹو صاحب کے اے ڈی سی‘ ضیا الحق کے اے ڈی سی‘ نواز شریف صاحب کے اے ڈی سی!سب نے فوج کو پشت دکھائی اور سر سبز چراگاہوں کی تلاش میں کہاں سے کہاں جا پہنچے! جو فوجی افسر اہلیت رکھتے تھے‘ جو شفاف مقابلے میں کامیاب ہوتے‘ انہیں نظر انداز کیا گیا۔ انہیں زیر غور آنے کا موقع ہی نہ دیا گیا۔
یہی حال بیرونِ ملک تعیناتیوں کا ہوا! سفارش‘ سفارش اور سفارش ہی واحد معیار تھا۔ جو ڈی سی اور ایس پی پنڈی‘ لاہور میں پوسٹ ہوتا ہے اس کے فرائض میں شامل ہے کہ ایئر پورٹ پر وزیر اعظم‘ صدر یا وزیر اعلیٰ کو رخصت بھی کرے اور استقبال بھی کرے۔ ان مواقع سے راستے نکالے گئے۔ بہت سے ان راستوں سے بیرونِ ملک تعینات ہوئے۔ کچھ وزیروں اور بااثر عمائدین کو سیڑھی بنا کر نکل گئے۔ کچھ سول سرونٹ دو دو تین تین بار بیرونِ ملک پوسٹ ہوئے۔ کچھ کو ایک بار بھی یہ موقع نہ ملا۔فارن کورسز کا بھی یہی حال رہا۔
ظلم کسے کہتے ہیں؟ کتابوں میں ظلم کی تعریف یوں کی گئی ہے ''وَضعُ الشَّی ئِ فِی غَیرِ مَحَلِّہ‘‘ یعنی کسی چیز کو وہاں رکھنا جہاں اس کی جگہ نہیں ہے۔ آپ میز پر بیٹھ جائیں گے اور کھانا کرسی پر رکھیں گے تو یہ ظلم ہو گا۔ اسی طرح اپنے پسندیدہ یا سفارشی فرد کو ایسی جگہ تعینات کرنا جس کا وہ اہل ہے نہ مستحق‘ ظلم ہے اور اس ظلم کا کل جواب دینا ہو گا۔ پاکستان میں یہ ظلم خوب خوب ہوا اور ہوئے جا رہا ہے۔ جس کو جتنا زیادہ موقع ملا‘ اُس نے اتنا ہی زیادہ ظلم کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے پسندیدہ افسروں کو بیرونِ ملک نو نو‘ دس دس سال ایک ہی عہدے پر رکھا۔ ایک صاحب ان کے بہت منہ چڑھے تھے۔ ہر سال ان کی لمبی چوڑی دعوت کرتے تھے۔ ان کے قریبی عزیز کو پہلے سول سروس میں فِٹ کیا۔ اس پر تسلی نہ ہوئی تو اسے بیرونِ ملک تعینات کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس ظلم کو انتہا پر پہنچا دیا۔ کسی کو پوسٹل کے محکمے کا سربراہ لگا دیا۔ اس کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اپنے ایک پسندیدہ شخص کو وفاقی تعلیم کا ڈی جی لگا دیا۔ پھر اسے پانچ بار توسیع دی۔جن کا حق تھا وہ عدالتوں میں جوتیاں چٹخا چٹخا کر‘ ریٹائر ہو گئے۔ ایک صاحب انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔ ریٹائرمنٹ پر جنرل صاحب کو ملے۔ پوچھا: آج کل کیا کرہے ہو؟ کہا: تعلیم کے موضوع پر کچھ پڑھ رہا ہوں۔ بس! انہیں سول سروس کے ایک بہت بڑے تربیتی ادارے کا سربراہ بنا دیا۔ ایک جج صاحب کے ڈاکٹر صاحبزادے کو ایف آئی اے میں فکس کیا گیا۔ انڈونیشیا میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت کو بیچنے کا قصہ ہم سب نے کئی بار پڑھا اور سنا ہے۔ نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ ایک سیاستدان کی بیٹی کو سی ایس ایس کیے بغیر بیرونِ ملک سفارتخانے میں لگا دیا گیا۔ ہمارے معزز ارکانِ پارلیمنٹ کی جیبیں ایسی سفارشی چٹوں سے بھری رہتی ہیں جن پر تعیناتیوں اور تبادلوں کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ہر ایم این اے‘ ایم پی اے اپنے علاقے میں مرضی کے افسر ان چاہتا ہے اور اس کی یہ خواہش متعلقہ صوبے کا وزیر اعلیٰ‘خوشی سے‘ یا مجبوراً پوری کرتاہے۔
سنگا پور‘ جاپان‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ فرانس وغیرہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں کوئی حکمران کسی بھی معاملے کے دستوری اور قانونی طریق کار میں دخل نہیں دے سکتا۔ قائداعظم کا پاکستان بھی ایسا ہی تھا!ہر کام‘ ہر فرمان‘ قانون کے مطابق! تا کہ سسٹم مضبوط ہو‘ نظام مبنی بر انصاف ہو‘ اور ملک ترقی کرے۔ افسوس! قائد کا وہ پاکستان آج تاریخ کی کتابوں ہی میں دیکھا جا سکتا ہے۔جب تعیناتیوں‘ پوسٹنگ ٹرانسفر‘ اور ترقیوں میں سفارش کی بنیاد پر دھاندلی ہو‘ تو ہر شعبہ نااہلوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ملک نیچے چلا جاتا ہے۔نظام بر باد ہو جاتا ہے۔ ادارے‘ ادارے نہیں رہتے‘ مُردہ ڈھانچوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں حکمران ماٹھا بھی ہو تو ادارے اپنی مضبوطی کے سبب نظام کو پٹری سے نیچے نہیں اُترنے دیتے کیونکہ اداروں کی افرادی قوت میرٹ کی بنیاد پر لگائی جاتی ہے۔ اور ادارے کے کام میں اوپر سے مداخلت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں ادارے کا سربراہ لائق ہو تب بھی نتیجہ صفر ہوتا ہے کیونکہ ادارے کا سربراہ سیاسی اور حکومتی مداخلت کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ بہت بہادر بنے گا اور انکار کر دے گا تو شام سے پہلے تبادلہ ہو جائے گا اور نیا آنے والا اپنے پیشرو کے انجام سے ڈرے گا۔ اداروں کی مشینری ( اہلکار + افسر ) بھی مداخلت کے بغیر کام نہیں کرتے۔ کچھ ہفتے پیشتر ایک وفاقی ادارے میں کام پڑا۔ معلوم ہوا پچاس ہزار روپے ''ریٹ‘‘ ہے۔ پوچھا: نہ دیں تو پھر ؟ بتایا گیا: کئی مہینے لگ جائیں گے۔
ادارے کے ایک بڑے افسر سے مداخلت کرائی تو ایک ہفتے میں ''ریٹ‘‘ کے بغیر کام ہوا۔ یہ ہے ہمارا پاکستان اور وہ تھا قائداعظم کا پاکستان!!

Thursday, June 27, 2024

زیادہ خطرناک دہشت گردی

سیالکوٹ‘ جڑانوالہ‘ سرگودھا اور اب سوات میں جو کچھ ہوا اس سے ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ اس عفریت کے خاتمے کے لیے ریاست سے امید رکھنا سادہ لوحی ہے اور کم عقلی!! ریاست نے آج تک اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کیا! یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ریاست بے بس ہے؟ یا ریاست اس سلسلے میں کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی؟ ان سوالوں کا جواب ہمیں خود ہی تلاش کرنا ہو گا۔ آئیے! تلاش کرتے ہیں! اس تلاش سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم جب ریاست کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس میں حکومت‘ عدلیہ‘ پارلیمان‘ مقتدرہ‘ بیورو کریسی‘ سب اعضا شامل ہیں۔

ایسے واقعات کے سد باب کے لیے مؤثر ترین عمل عبرتناک سزا ہوتی ہے۔ آج تک کسی بھی ایسے سفاک قتل کے مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔ سری لنکن شہری والے واقعہ کی سزا سنائی گئی‘ دی نہیں گئی۔ سزا سنانے اور سزا دینے میں فرق ہے۔ اگر کسی بھی ایسے وحشیانہ قتل کی سزا دی گئی ہے تو ریاست کا فرض تھا کہ اس کی تشہیر کرتی۔ اس سے پہلے سیالکوٹ ہی میں دو بھائیوں منیب اور مغیث کو ہجوم نے بے دردی سے ہلاک کر دیا تھا۔ ان کے قاتلوں کو کیا سزا ملی؟ بینک کے منیجر کو جس گارڈ نے گولی ماری تھی کیا اسے سزا ملی؟ کسی کو کچھ معلوم ہے تو ہمیں بھی بتائے۔ آج کے دور میں جب تصاویر‘ آوازیں‘ وڈیو کلپس‘ وَٹس ایپ‘ سب اوزار میسر اور عام ہیں تو ہجوم میں سے اصل مجرموں کو پِن پوائنٹ کرنا ہر گز ناممکن نہیں! یہ معلوم کرنا کہ کس کس نے گھسیٹا تھا‘ کس نے پٹرول چھڑکا تھا‘ کس نے آگ لگائی تھی‘ مشکل نہیں۔ چونکہ آج تک کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی خاص کر مثالی اور عبرتناک سزا‘ تو مطلب واضح ہے کہ ریاست ایسا کرنا چاہتی ہی نہیں! اس عفریت کے استیصال میں اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ یا پھر ریاست عوام کو اعتماد میں لے کہ رکاوٹیں کیا کیا ہیں؟ اور مانع کیا کیا ہے؟؟
یہ تو سزا کا معاملہ ہے۔ پیشگی اقدامات میں سے بھی کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ عام طور پر لوگوں کو اکٹھا کرنے اور مشتعل کرنے کے لیے مساجد کے لاؤڈ سپیکر استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے ہی افواہ پھیلتی ہے لاؤڈ سپیکروں سے اعلانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مسجد کے نام سے اعلانات کے اعتبار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ریاست کے لیے اس استعمال پر مؤثر پابندی لگانا چنداں مشکل نہیں۔ ریاست کو طے کرنا چاہیے کہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر کی چابی کس کے پاس ہو گی یا لاؤڈ سپیکر کا انچارج کون ہو گا؟ خطیب یا امام یا مؤذن؟ یا مسجد کمیٹی کا صدر یا مسجد کمیٹی کا سیکرٹری؟ یہ طے کرنے کے بعد اگر لاؤڈ سپیکر ایسے کسی موقع پر استعمال ہو تو انچارج کو پکڑنا اور عبرت ناک سزا دینا مشکل نہیں! اس پہلو کی طرف پہلے بھی توجہ دلائی گئی تھی۔ مگر ریاست کو کوئی پروا نہیں کہ ایسا آسان قدم ہی اٹھا لے۔ اگر یہ اقدام کیا جائے تو علما کرام سمیت کوئی بھی اس اقدام کی مخالفت نہیں کرے گا۔ تاہم ریاست چاہتی ہی نہیں تو کیا ہو سکتا ہے! سوات کے حوالے سے دو متضاد خبریں ہیں۔ ایک کی رو سے لاؤڈ سپیکر استعمال کیے گئے۔ دوسری خبر کے مطابق‘ نہیں استعمال کیے گئے۔ بہر طور اس خبر کی تردید نہیں کی گئی کہ ایک گاڑی پر لاؤڈ سپیکر نصب کیے گئے اور یوں گاڑی کی مدد سے شہر بھر میں اشتعال پھیلایا گیا۔ گاڑی کا نمبر معلوم کرنا‘ گاڑی اور اس کے مالک اور اعلان کرنے والوں کا کھوج لگانا مشکل نہیں۔ لیکن نیت ہی نہ ہو تو اور بات ہے۔ 
ان واقعات کو روکنے کے لیے مقننہ میں قانون سازی لازم ہے۔ ایسا قانون پاس کیا جائے جو پولیس کو بے قابو ہجوم پر گولی چلانے کی اجازت دے۔ یہ اجازت صرف پاؤں پر گولی چلانے کی بھی ہو سکتی ہے۔ یقینا ایسے قانون کی مخالفت کی جائے گی۔ مگر دو ہی آپشن ہیں۔ پولیس بے قابو اور مشتعل ہجوم کے سامنے بے بس ہو کر ہتھیار ڈالتی رہے یا راہِ فرار اختیار کرتی رہے اور ہجوم انسانوں کو کچلتا رہے اور کچل کر نذرِ آتش کرتا رہے یا پولیس کو اختیار دیا جائے کہ اس بر بریت کو ہمیشہ کے لیے روکنے کی خاطر گولی چلائے۔ گولی چلانے کا فعل مجسٹریٹ کی اجازت سے بھی مشروط ہو سکتا ہے۔ گمانِ غالب یہ ہے کہ اس انتہائی قدم کی ضرورت ایک دو بار ہی پڑے گی! مگر مقننہ میں ایسا کوئی بل پیش نہیں کیا جائے گا! پورے معاملے میں ہی سنجیدگی‘ قوتِ ارادی اور عزم و استقلال کا فقدان ہے! اگر کسی سر پھرے نے ایسا بل پیش کر بھی دیا تو اس کا انجام اس بل سے مختلف نہیں ہو گا جو کچھ سال پہلے ''غیرت قتل‘‘ پر پیش کیا گیا تھا!! 
جو کچھ سیالکوٹ‘ جڑانوالہ‘ سرگودھا اور سوات میں ہوا اور اس سے پہلے اَن گنت جگہوں پر ہو چکا‘ بدترین قسم کی دہشت گردی ہے! جن افراد کو عرفِ عام میں ہم دہشت گرد کہتے ہیں‘ انہیں ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہماری ریاست کو ان کے خفیہ ٹھکانے بھی‘ کم و بیش‘ معلوم ہیں۔ ان کا طریقِ واردات بھی معلوم ہے۔ ان سے نمٹنے کے لیے ہماری ریاست نے کئی بار آپریشن کیے۔ کبھی آپریشن ضربِ عضب‘ کبھی ردالفساد اور اب عزمِ استحکام! مگر افسوس! جو دہشت گردی زیادہ خطرناک ہے اس کے خلاف کوئی آپریشن نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی آپریشن کے آثار ہیں!
اب جب یہ بات پختہ ہو چکی کہ ریاست ان واقعات کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی‘ نہ ہی مستقبل میں اس کا اس حوالے سے کوئی ارادہ ہے نہ منصوبہ بندی! تو پھر کیا کیا جائے؟ کیا اسے مقدر سمجھ کر قبول کر لیا جائے؟ ایسا کرنا خود کشی کے مترادف ہو گا اس لیے کہ ایسا واقعہ‘ خدا نخواستہ‘ کل ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ بس میں بیٹھے ہیں۔ آپ کی نشست کے بالکل ساتھ‘ نیچے‘ کسی کو کاغذ کا کوئی ٹکڑا نظر آتا ہے جس پر عربی میں کچھ لکھا ہے۔ اگر وہ شور مچا دے کہ یہ مقدس کاغذ ہے اور آپ نے اسے پھاڑ کر‘ نیچے پھینک کر اس کی توہین کی ہے تو آپ کے بچنے کا امکان صفر سے کم ہو گا کیونکہ آپ کو بس سے اترنے کوئی نہیں دے گا! اچھرہ میں عبا والی لڑکی کے ساتھ تقریباً یہی ہوا تھا۔ اس کی عبا پر عربی رسم الخط میں ''حلوہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ پڑھی لکھی عالم فاضل قوم نے اسے مقدس لفظ سمجھا۔ خاتون خوش قسمتی سے بچ گئی۔ یوں کہیے قدرت نے اسے نئی زندگی دی ورنہ اس کی زندگی اور موت کے درمیان صرف بال برابر فاصلہ رہ گیا تھا۔ کسی جگہ‘ کسی وقت‘ کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ اشیائے خورو نوش میں ملاوٹ کرنے والے کسی حاجی صاحب کو شرم دلاتے ہیں کہ متشرع چہرے کے ساتھ غلط کام کر رہے ہو تو متشرع کا لفظ آپ کے لیے مصیبت بن سکتا ہے۔ حاجی صاحب اگر چلا کر کہیں کہ آپ نے شریعت کی توہین کی ہے تو آن کی آن میں ہجوم جمع ہو کر آپ کی جان کو آسکتا ہے۔ تو پھر کیا حل ہے؟ کیا کچھ لوگوں کا ایک گروہ اقوام متحدہ سے یا کسی دوست ملک سے سفارش کرائے؟ کیا عجب ہماری ریاست اقوام متحدہ یا کسی دوست ملک کی بات مان لے اور اس عذاب سے نمٹنے میں سنجیدہ ہو جائے! 
ہم میں سے ہر شخص کو اپنی جگہ یہ احتیاط ضرور کرنی چاہیے کہ کسی سے بھی مذہب یا مسلک پر بحث نہ کریں۔ عام گفتگو میں بھی مذہبی الفاظ اور اصطلاحات کے استعمال سے پرہیز کریں! مکمل پرہیز!! مذہبی شعائر‘ عبادات‘ عقائد پر کبھی بات نہ کریں! اپنے بچوں کو‘ احباب اور اعزہ کو بھی سمجھائیں کہ ہر ممکن احتیاط کریں!! شعلہ بھڑکنے میں دیر نہیں لگتی!!!

Tuesday, June 25, 2024

مشتری ہُشیار باش!!

حکومت اور ریاست‘ دونوں کی ترجیحات میں عوام نہیں نظر آتے۔ اس لیے پاکستان میں ہر شعبہ‘ خواہ سرکاری ہے یا نجی‘ عوام کو دھوکا دیتا ہے۔ عوام کا استحصال کرتا ہے۔ عوام سے جھوٹ بولتا ہے اور عوام کو اذیت دیتا ہے۔ مستثنیات یقینا ہیں مگر کم! بہت کم! مریضوں کو ڈاکٹروں سے شکایات ہیں۔ ڈاکٹروں کو حکومت سے اور ہسپتالوں سے! والدین کو سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے۔ ڈرائیوروں کو ٹریفک پولیس سے۔ اسی سے باقی شعبوں کا بھی قیاس کر لیجیے۔ ریاست اور حکومت کا اولین فریضہ عوام کے حقوق کا خیال رکھنا ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ اسی لیے غیرملکی کمپنیاں بھی پاکستانی عوام کو پریشان کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں! ایک بار ایک عزیز بیرونِ ملک سے آ رہے تھے۔ عید قریب تھی۔ ان کی پرواز نے پشاور اترنا تھا۔ میں انہیں لینے گیا۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کی دو معروف ایئر لائنوں میں سے ایک کا جہاز تھا۔ میرے عزیز آگئے مگر سامان ابو ظہبی رہ گیا۔ بتایا گیا کہ کسی اگلی فلائٹ میں آئے گا۔ اس پرواز میں پشاور کی نواحی بستیوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے مسافر تھے جو اپنے اعزہ کے لیے عید کے تحائف لے کر آئے تھے۔ یہ تحائف اب عید کے بعد پہنچنے تھے۔ کب؟ یہ بھی معلوم نہ تھا۔ میں نے معاملے کو کریدا۔ ایئر پورٹ کے متعلقہ افراد سے معلومات لیں۔ انکشاف یہ ہوا کہ یہ اس ایئر لائن کا معمول ہے۔ چھوٹا جہاز بھیجتے ہیں۔ سامان وہیں رکھ لیتے ہیں‘ جو بعد میں آتا ہے۔ ایئر پورٹ والوں نے اپنی سی کوشش کی کہ وہ ایسا نہ کیا کریں‘ مگر یہ ہائی لیول کا کام تھا اور ہائی لیول والوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ عوام کتنی اذیت میں ہیں۔ نہیں معلوم اب بھی کے پی والوں کے ساتھ یہ ایئر لائن یہی سلوک کر رہی ہے یا صورتحال بدل چکی ہے۔ 

سب سے زیادہ استحصال خواتین کا ہو رہا ہے۔ خاص کر تین شعبوں میں‘ اور تینوں شعبے نجی سیکٹر کے ہیں۔ کورونا آیا تو ساتھ ہی آن لائن کاروبار بھی چل پڑا۔ یہ وقت کی ضرورت تھی۔ مگر آہستہ آہستہ کاروباری طبقے نے اس میں بھی وہی بددیانتی اور بدنیتی شروع کر دی جو ہمارا طرۂ امتیاز ہے اور جس کی وجہ سے ہم دنیا بھر میں ''مشہور‘‘ ہیں! موجودہ صورتحال یہ ہے کہ خواتین کی کثیر تعداد سودا آن لائن منگوا رہی ہے۔ ان میں ملبوسات‘ بیڈ شیٹس(پلنگ پوش)‘ گدیوں کے غلاف‘ رضائیوں کے غلاف‘ صوفوں کے کوَر‘ کچن کی اشیا وغیرہ خاص طور پر شامل ہیں! محتاط اندازہ بھی لگایا جائے تو کم از کم 50 فیصد آرڈرز کی تعمیل غلط ہوتی ہے۔ کبھی رنگ غلط بھیجا جاتا ہے۔ کبھی ماپ میں فاش غلطی ہوتی ہے۔ کبھی شے نامکمل بھیجی جاتی ہے اور کبھی نقص والی۔ اکثر و بیشتر خواتین کو اس حوالے سے روتے پیٹتے دیکھا ہے۔ باز مگر وہ نہیں آتیں۔ اپنے لمبے چوڑے وسیع و عریض خاندان میں خواتین کو یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آن لائن خریداری سے پرہیز کریں۔ مگر خواتین‘ اپنی رشتہ دار اور دوست خواتین کی دیکھا دیکھی اس جال میں بار بار پھنستی ہیں۔ پارسل پر پارسل آتے ہیں۔ پارسل پہنچانے کی انڈسٹری الگ لاکھوں میں کھیل رہی ہے۔ اذیت کی انتہا یہ ہے کہ اکثر کمپنیاں اپنا فون نمبر دیتی ہیں نہ ایڈریس۔ وَٹس ایپ نمبر دے بھی دیں تو جواب ندارد! خواتین کُڑھنے اور بددعائیں دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ پاکستان کے تاجر اور کمپنیاں اس کاروباری دیانت سے صدیوں دور ہیں جو ترقی یافتہ ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کاروبار کم ہے اور ٹھگی زیادہ۔ بہتر یہی ہے کہ خواتین بازار جا کر شے دیکھ بھال کر خریدیں اور اس آن لائن فریب کاری سے بچنے کی کوشش کریں! جو تاجر ٹیکس چراتے ہیں‘ حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں‘ دن کو دکانیں بند رکھ کر اور راتوں کو کھول کر ملک کی توانائی کو ضائع کر رہے ہیں‘ احساس سے عاری ہیں‘ وہ گھروں میں بیٹھی خواتین کو کیوں نہ دھوکا دیں! یہ تو آسان شکار ہے! 
دوسرا شعبہ جو خواتین کا استحصال کر رہا ہے‘ شادی بیاہ کے ملبوسات کا ہے۔ یہ کام سو فیصد خواتین کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ مردوں کے پاس اس کے لیے وقت ہے نہ انہیں اس کام کے اَسرار و رموز سے آگاہی ہے۔ وہ صرف رقم کا بندو بست کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جسے خواتین ہی سنبھال سکتی ہیں۔ اس میں ہزار باریکیاں ہیں اور نزاکتیں! کشیدہ کاری‘ زردوزی‘ گلکاری‘ کروشیا‘ سوزن کاری‘ سلما ستارہ‘ گوٹا کناری‘ جھالر‘ مقیش اور نہ جانے اور کتنی اقسام در اقسام ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ جھوٹے‘ وعدہ خلاف اور بے حس ہیں۔ خواتین کو جو تاریخ دیتے ہیں اس پر کام اَسی نوے فیصد حالتوں میں تیار نہیں ہوتا۔ یہ فون پر کبھی نہیں بتائیں گے کہ مقررہ تاریخ پر کام تیار نہیں اس لیے آپ نہ آئیے۔ خواتین پھیروں پر پھیرے ڈالتی ہیں۔ اوپر سے ان کے ہزار اور کام! شادی نزدیک ہونے کی وجہ سے ٹینشن اور مالی مسائل کی وجہ سے ذہنی دباؤ!! کئی برس پہلے جب میری بڑی بیٹی کی شادی تھی تو ایک دن بیگم نے تھک ہار کر‘ پریشان ہو کر بتایا کہ لہنگا اور کچھ اور ملبوسات جس ذات شریف کو دیے ہیں وہ کئی چکر لگوا چکا ہے۔ ایڈوانس میں رقم بھی لے چکا ہے اور اب تاریخ پر تاریخ دیے جا رہا ہے۔ میں ان کے ساتھ گیا۔ یہ ایک حاجی صاحب تھے۔ وسیع و عریض دکان‘ درجنوں کاریگر۔ بہت سے گاہک! تاہم شرافت سے عاری! شائستگی سے بات کی مگر انہوں نے کوئی خاص لفٹ نہ دی۔ اس پر میرے اندر چھپا ہوا دیہاتی باہر آگیا۔ بلند آواز میں کہا کہ حاجی ہو‘ چہرے پر سنتِ رسول ہے مگر جھوٹ بولتے ہو اور خواتین کو ایذا دیتے ہو۔ اس پر منت کر کے کہنے لگا: آہستہ بولیے‘ میرے گاہک سن لیں گے تو کیا کہیں گے! جواب دیا کہ انہی کو تو تمہاری اصلیت بتانی ہے۔ قصہ مختصر‘ راہِ راست پر آگیا۔ منتیں کرکے خاموش کرایا اور وعدہ کیا کہ ملبوسات خود بھجوا دے گا۔ آتے ہوئے اسے دس روپے دیے اور کہا کہ اگر تاریخ میں ردو بدل ہوا تو فون کر دینا۔ یہ فون کال کی قیمت ہے کیونکہ غریب تم بہت ہو! فون کال سے ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ ملبوسات اس نے پہنچا دیے مگر بد مزگی الگ ہوئی اور وقت کا ضیاع الگ!! 
تیسرا شعبہ ان ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں کا ہے جو سکن ( جلد) سپیشلسٹ ہیں۔ آج کل خواتین میں جلد کی بیماریاں عام ہیں۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں جن میں سے ایک کئی قسم کے کیمیکلز کا استعمال ہے۔ بچے جنم دینے کے بعد بھی چہرے پر داغ دھبے پڑ جاتے ہیں۔ خواتین اپنے آپ کو خوبصورت بھی رکھنا چاہتی ہیں جو ان کا حق ہے۔ اس سارے بکھیڑے میں جلد کے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں کروڑوں اربوں کی انڈسٹری آ گئی ہے۔ لیزر کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ کلینک میں‘ جسے مذبح کہنا چاہیے‘ خواتین کے لیے ڈھنگ کی بیٹھنے کی جگہ نہ کوئی سسٹم نہ باعزت برتاؤ! کئی کئی گھنٹے انتظار کرایا جاتا ہے۔ نام نہاد علاج کو خوب طول دیا جاتا ہے۔ خواتین اس چکر میں آجاتی ہیں تو پھر اس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹر ٹیکس دیتے ہیں نہ دستاویزات مکمل کرتے ہیں۔ اکثر فیس کی رسید تک نہیں دیتے‘ مگر نئے زمانے کے نئے تقاضے ہیں۔ میک اَپ کی انڈسٹری کھربوں کی ہے اور جلد کے امراض اس کا تتمہ ہیں۔ خواتین کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''مشتری! ہُشیار باش!‘‘۔

Monday, June 24, 2024

اونٹنی


اونٹنی صرف اونٹنی نہیں‘ ایک علامت ہے۔تب بھی علامت تھی۔ آج بھی علامت ہے۔ تب بھی لوگوں نے پروا نہ کی۔ آج بھی لوگ اٹکھیلیاں کر رہے ہیں۔ تب بھی خدا کا خوف عنقا تھا۔ آج بھی وہی صورت حال ہے۔ 
پہلے معجزے کا مطالبہ کیا۔پہاڑ پھٹا۔ اس میں سے اونٹنی نکلی۔ حکم ہوا ایک دن تالاب ( یا چشمے) سے اونٹنی پانی پیے گی۔ اور ایک دن سب لوگ۔ یہ پابندی لوگوں کو پسند نہ آئی۔ خدا کی اس نشانی کو انہوں نے ہلاک کر دیا۔ پھر ان پر عذاب اُترا! ایسا عذاب کہ آج تک ان کی بستیاں نشانِ عبرت ہیں!
یہ جو اونٹنی کی ٹانگ اب‘ اس ملک میں‘ کاٹی گئی ہے‘ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اصل مجرم کو‘ مبینہ طور پر‘ بچایا جا رہا ہے کیونکہ اس کا تعلق طاقتور طبقات سے ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ‘ مبینہ طور پر ایک سیاسی جتھے سے بھی جُڑا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں طاقتور مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے‘ اس معاشرے پر عذاب اُترتا ہے۔ عذاب صرف یہی نہیں کہ زلزلہ آئے یا چنگھاڑ سنائی دے‘ یا طوفان آکر مجرموں کو ہلاک کردے اور وہ اوندھے پڑے ہوں جیسے کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں‘ یا ان پر مینڈکوں کی یا جوؤں اور مچھروں کی یا خون کی بارش ہو یا ان کے چہرے مسخ ہو کر جانوروں کی شباہت اختیار کر لیں !! عذاب کی اور بھی صورتیں ہیں جنہیں یہ معاشرہ بھگت رہا ہے۔ عذاب کی سب سے بڑی صورت تو یہی ہے کہ اس بھوکی‘ ننگی‘ قلاش‘ ادھ موئی قوم پر کھرب پتی حکمرانی کریں‘ جن کے نزدیک عام آدمی کے وجود کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے بھی کم ہو۔ جن کے مکان‘ بازار‘ ہسپتال‘ تعلیمی ادارے‘ سب کچھ الگ ہو‘ جو ملک سے باہر زیادہ رہتے ہوں اور ملک کے اندر کم۔ جن کے بچے پیدائش سے پہلے ہی ارب پتی ہو جائیں۔اب آپ پوچھیں گے کہ جو طبقہ طاقتور مجرموں کو چھوڑتا ہے یا چھڑاتا ہے‘ وہ تو عیش و عشرت میں زندگی گزار رہا ہے اور عذاب پوری قوم پر اُترے‘ یہ کیسا عذاب ہے۔ تو جناب ! عذاب پوری قوم پر اس لیے اُتر تا ہے کہ قوم مجرموں کے چھوٹ جانے پر خاموش رہتی ہے۔ جو قوم افواہ کی بنیاد پر آئے دن اکٹھی ہو جائے اور بغیر ثبوت کے‘ یا بغیر قانونی کارروائی کے‘ کسی کو زندہ جلادے اور کسی کو گھسیٹ گھسیٹ کر ماردے‘ وہ قوم طاقتور مجرموں کو چھوڑ دینے پر بھیڑ بکریوں کا گَلّہ بن جائے اور چوں کی آواز بھی نہ نکالے‘ اُس قوم کے صرف مجرموں پر نہیں بلکہ پوری قوم پر عذاب اترتا ہے۔وہ مقدس اونٹنی جو پہاڑ سے نکلی تھی‘ اُسے ہلاک کرنے والے افراد چند ہی تھے مگر عذاب سب پر اترا تھا اس لیے کہ وہ جرم دیکھتے رہے اور خاموش رہے۔
کیا یہ عذاب نہیں کہ ہمارے پاسپورٹ اور ہماری کرنسی کی کرۂ ارض پر رمق برابر عزت بھی نہیں۔ دنیا میں ہماری تلاشیاں لی جاتی ہیں۔ہمیں ایئر پورٹوں پر پہروں روکا جاتا ہے۔ ہمیں بھکاری سمجھا جاتا ہے۔ کوئی ہمیں مسکین کہتا ہے کوئی فراڈ! ہمیں ویزے نہیں ملتے۔ ہمارے ہوائی جہازوں پر پابندی ہے۔ چار پانچ ایئر لائنوں کے سوا ہمارے ملک میں کوئی جہاز نہیں آتا۔ہماری عدلیہ کی رینکنگ ہر گز لائقِ عزت نہیں۔افغانستان کے اقتصادی اشاریے ہم سے اوپر ہیں۔ ہمیں عراق اور صومالیہ کی صف میں شمار کیا جاتا ہے۔ بھارت نے کشمیر کی آئینی حیثیت کی خاک تک اُڑا دی ہم چوں تک نہ کر سکے۔ ہم کشکول بردار ہیں۔ چند دن ہی کی بات ہے‘ آئی ایم ایف یہ بھی طے کرے گا کہ ہم نے دوپہر کوکیا پکانا ہے اور شام کو کیا کھاناہے۔اگر یہ سب کچھ عذاب نہیں تو کیا انعام ہے؟
جن ملکوں نے ترقی کی ہے‘ اور جن ملکوں کی دنیا میں عزت ہے اور ایک مقام ہے‘ ان میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں طاقتور مجرم کوچھوڑ دیا جاتا ہے! شاید ایک بھی ایسا ملک نہیں!
سنگا پورکی امریکہ کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے؟ جب ایک امریکی لڑکے کو سنگاپور میں بید مارے جانے تھے تو امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔امریکی صدر نے سنگاپور کے صدر کو فون کیا۔ تمام سفارتی اور سیاسی داؤ آزمائے گئے مگر سنگاپور کی حکومت نے مجرم چھوڑنے سے انکار کر دیا۔سنگاپور کے صدر نے بید چھ کے بجائے چار کر دیے مگر سزا معاف نہ کی۔ لڑکے کو ٹکٹکی سے باندھا گیا۔ بید مارے گئے۔ ہماری طرح نہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کو پلیٹ میں رکھ کر امریکہ بہادر کو پیش کر دیا۔ آئے دن اسلام آباد میں مغربی ملکوں کے سفارت کار ٹریفک قوانین کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں۔ کتنے ہی پاکستانی زخمی ہو چکے ہیں مگر چالان تک کرنے کی ہمت نہیں۔ امریکہ میں تو خود امریکی صدر کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں۔ صدر کلنٹن کو کٹہرے میں کھڑا کیاگیا۔ مقدمے کی کارروائی پوری دنیا نے دیکھی اور سُنی!یہ انصاف‘ یہ طاقتور اور کمزور کے ساتھ یکساں سلوک‘ یہی ان ملکوں کی عزت اور ترقی کا راز ہے۔ کفر ہے مگر ظلم نہیں! ہم رات دن سنتے اور سناتے ہیں‘ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی مرتضیؓ نے فرمایا :کفر کی حکومت چل سکتی ہے ظلم کی نہیں اور پھر ہم رات دن ظلم کرتے ہیں! ظلم ہوتا دیکھتے ہیں!ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اونٹنی تو اونٹنی ہے۔کوئٹہ میں جب ریاستی اہلکار کو دن دہاڑے ایک گردن بلند نے گاڑی کے نیچے کچل دیا تو وہ عدالتوں کے باہر دو انگلیوں سے فتح کے نشان بناتا اور دکھاتا رہا۔ کبھی دنیا میں ایسا ہوا ہے ؟ اس کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔ آپ بندہ قتل کر دیجیے‘ اگر آپ جتوئی ہیں یا کانجو ہیں یا آپ کے نام کے ساتھ طاقت کا اور کجکلاہی کا اور رعونت کا کوئی اور سابقہ یا لاحقہ لگا ہے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہاں گواہ موم کے ہیں! قانون بڑوں کے ڈرائنگ روموں میں قالین کی صورت بچھا ہے جس پر یہ بڑے جوتوں سمیت چلتے ہیں۔کوتوال کی حیثیت کنیز سے زیادہ نہیں! انصاف کا نظام ایک آوارہ لطیفے جتنی عزت سے بھی محروم ہے! غریب جیل میں مر جاتا ہے۔ مرنے کے بعد نظامِ انصاف اعلان کرتا ہے کہ جیل میں مر جانے والا بے گناہ تھا!مصر کے گورنر حضرت عمرو بن عاصؓ کے بیٹے نے ایک شہری کو مارا اور مارتے وقت کہا: میں بڑوں کی اولاد ہوں۔ گورنر نے شہری کو قید کر دیا تاکہ شکایت نہ کر سکے۔وہ قید سے چھوٹا تو سیدھا مدینہ پہنچا اور مقدمہ دائر کر دیا۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے گورنر اور ان کے بیٹے کو طلب کر لیا۔ مصر اور مدینہ کا درمیانی فاصلہ ذہن میں لائیے اور اُس زمانے کی سواریاں بھی۔ پہنچے تو مدعی کو حکم ہوا کہ کوڑا پکڑو اور مارنے والے کو مارو۔ وہ مارتا جاتا تھا اور آپ کہتے جاتے تھے: اسے مارو‘ یہ بڑوں کی اولاد ہے۔ مار چکا تو حکم ہوا کہ اب گورنر کو مارو کہ باپ کے اقتدار کے گھمنڈ ہی میں تو بیٹے نے ظلم کیا تھا۔ یہ اور بات کہ مدعی نے کہا کہ وہ بدلہ لے چکا ہے اس لیے گورنر کو نہیں مارے گا! جبلہ بن ایہم والا واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے !!
اونٹنی کامالک آج کمزور ہے۔ مجرم طاقتور ہے۔ مگر معاملہ سخت خطرناک ہے۔ اسے سرسری طور پر لینا بہت بڑی غلطی ہے۔ بظاہر اس اونٹنی کا اُس اونٹنی سے کوئی تعلق نہیں جو پہاڑ سے نکلی تھی۔مگر اس اونٹنی نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارے نظامِ انصاف میں نظام ہے نہ انصاف ! یہ وارننگ ہے۔
یہ اہلِ ثروت تھے‘ غیب کو مانتے نہیں تھے
عذاب سے پیشتر انہیں اونٹنی ملی تھی!!

 

powered by worldwanders.com