ہماری تاریخ میں دو مبارکبادیں بہت شرمناک ہیں!! ایک برطانوی غلامی کے عہد میں اور دوسری پاکستان بننے کے بعد! عید کی صبح ہمارے جاگیردار‘ زمیندار‘ وڈیرے اور گدی نشین ڈپٹی کمشنر بہادر کی کوٹھی کا رخ کرتے تھے۔ یہ لوگ عام طور پر خاص قسم کی اچکن پہنتے تھے جو سائیڈوں سے نہیں کٹی ہوتی تھی بلکہ پیچھے سے درمیان میں چاک ہوتا تھا۔ سر پر طُرّے والی دستار ہوتی تھی۔ یہ کلف زدہ طُرّے اتنے ہی اکڑے ہوئے ہوتے تھے جتنے یہ وڈیرے اور گدی نشین عوام کے سامنے اکڑے ہوئے ہوتے تھے۔ کسی سفید چمڑی والے کی موجودگی میں یہ اکڑ اڑ جاتی تھی اور یہ لوگ رکوع کی حالت میں ہو جاتے تھے۔ انگریز ڈپٹی کمشنر‘ وسیع و عریض کوٹھی کے اندر سو رہا ہوتا تھا۔ یہ سب ٹوڈی کوٹھی کے لان میں کھڑے ہو جاتے تھے اور پہروں کھڑے رہتے تھے۔ بہت دیر کے بعد ڈی سی جاگتا تھا۔ پھر اندر سے ایک چپڑاسی نمودار ہوتا تھا اور اعلان کرتا تھا کہ صاحب بہادر نے آپ حضرات کی عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے تھے اور ایک دوسرے ہی سے گلے ملتے تھے۔ اس کامیابی اور سرخروئی کے بعد یہ اپنے اپنے گھروں کو چل دیتے تھے۔
آج کل منتخب ایوانوں میں باہمی مخالفتیں عروج پر ہیں۔ بلکہ مخالفتیں دشمنیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ خود معزز ارکان ''آگ اگلنے‘‘ کا محاورہ استعمال کر رہے ہیں۔ سب و شتم‘ جوتم پیزار‘ سب کچھ ہوتا ہے۔ بجٹ کی موٹی موٹی کتابیں ایک دوسرے پر‘ تاک کر پھینکی جاتی ہیں۔ سپیکر کے تخت کی طرف جارحانہ پیش قدمی کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کی تقریر کے دوران شورِ قیامت برپا کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی کا ماضی کریدا جاتا ہے‘ کبھی کسی کا حال افشا کیا جاتا ہے۔ کئی الفاظ اور کئی جملے سپیکر کو حذف کرنا پڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے اور تسلسل کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر ایک معجزہ برپا ہوتا ہے۔ سارے فریق یک جان دو قالب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ چہروں پر رواداری کی نرمی آجاتی ہے۔ یہ انہونی اس وقت رونما ہوتی ہے جب پارلیمنٹ کے معزز ارکان کی مراعات کے بل پیش ہوتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پنجاب میں ان امرا و عمائدین کی تنخواہیں بڑھی ہیں تو ایک معروف انگریزی معاصر کا یہ فقرہ جگر میں نیزے کی انی بن کر پیوست ہو گیا ''بل پاس ہونے کے بعد ارکان بے حد مطمئن نظر آئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی‘‘۔ روزنانہ دنیا نے بھی کم و بیش یہی رپورٹ کیا۔ تنخواہوں میں یہ اضافہ ہولناک ہے اور وحشت ناک!! دل تھام کر تفصیل دیکھیے۔ اسمبلی کے ہر رکن کی تنخواہ 76ہزار سے بڑھا کر چار لاکھ کر دی گئی ہے۔ صوبائی وزرا کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر نو لاکھ 60ہزار روپے کی گئی ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار سے بڑھا کر نو لاکھ 50ہزار روپے‘ ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار سے بڑھا کر سات لاکھ 75ہزار روپے اور پارلیمانی سیکرٹریوں کی تنخواہ 83ہزار سے بڑھا کر چار لاکھ 51ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ سپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر چھ لاکھ 65ہزار روپے اور ایڈوائزر کی تنخواہ بھی ایک لاکھ سے بڑھا کر چھ لاکھ 65ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ پڑھتے آئے ہیں کہ عباسیوں نے امویوں کی لاشوں پر قالین بچھا کر ضیافت اڑائی تھی۔ اب ہمارے سامنے یہ ہو رہا ہے کہ گرانی سے مارے ہوئے بدحال عوام کی حالت زار پر بھاری بھرکم تنخواہوں کا قالین بچھا کر خوشی منائی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی جا رہی ہیں۔ یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ یہ اضافے چار سو فیصد سے لے کر نو سو فیصد تک ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس ظالمانہ اضافے پر اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
یہ اہلِ سیاست‘ جو کبھی اکٹھے نہیں ہوتے‘ آج عوام کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں! اس بے مثال اضافے کے علاوہ مراعات الگ ہیں۔ ہوائی جہاز کے مفت ٹکٹ‘ علاج کی شاہانہ سہولیات‘ گاڑیاں‘ پٹرول۔ سرکاری محلات‘ سٹاف اور خدام کی فوج ظفر موج!! یہ کیسے لوگ ہیں؟ عام آدمی سبزی اور دال نہیں خرید سکتا۔ بجلی اور گیس کے بل نہیں ادا کر سکتا۔ بچوں کی فیسوں کے لالے پڑے ہیں اور یہ حضرات‘ جو پہلے ہی کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں‘ انہی اَدھ موئے عوام کے ٹیکسوں سے نو نو لاکھ تنخواہ لینے پر ایک دوسرے کو مبارکیں دے رہے ہیں! اگر یہ سنگدلی اور سفاکی کی انتہا نہیں ہے تو کیا ہے؟
امریکی حکومت کے ترجمان کے سامنے اس ناجائز اضافے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا۔ بطور قوم ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ترجمان کو یاد دلایا گیا کہ ابھی ایک ماہ پہلے پاکستان کا وزیر خزانہ مالی مدد مانگنے واشنگٹن آیا تھا اور اب یہ نو نو سو فیصد اضافے ہورہے ہیں تنخواہوں میں!! امریکی بہت سیانے ہیں۔ ترجمان نے سفارتی پینترا بدلا اور کمال معصومیت سے جواب دیا کہ یہ پاکستانی عوام اور پاکستانی حکومت کا مسئلہ ہے۔ یہ اور بات کہ ترجمان کے سامنے یہ مسئلہ اٹھانے سے پوری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ پاکستانی عجیب و غریب مخلوق ہیں۔ ہاتھ میں کشکول ہے اور بدن پر زرق برق لباس!! مانگ کر کھاتے ہیں مگر دال ساگ نہیں‘ قورمے‘ شیرمال‘ چرغے‘ سالم دنبے اور کباب!! اور وہ بھی سونے چاندی کے برتنوں میں!! گدا گری کر لیں گے مگر عیاشی نہیں چھوڑ سکتے!! ہمارے حکمران بھیک مانگنے جاتے ہیں تو چارٹرڈ جہازوں پر اور ساتھ لمبے چوڑے وفود!
ٹیکس دے دے کر عام آدمی مُردے سے بدتر ہو چکا ہے۔ ماچس کی ڈبیا سے لے کر دوا تک‘ نمک سے لے کر گُڑ تک‘ ہر شے پر ٹیکس ہے۔ کیا مزدور‘ کیا تنخواہ دار‘ کیا اہلِ حرفہ‘ کیا تاجر‘ سب اذیت میں ہیں۔ پنشنر دشمن لگ رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں 55سال پر ریٹائر کر دیں گے۔ کبھی فیملی پنشن آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ سب قربانی دیں مگر حکمران طبقے کی تنخواہ ایک لاکھ کے بجائے نو لاکھ ہو جائے۔ اور حکمران علاج کرانے باہر جائیں تو وزیروں اور چیف سیکرٹریوں تک کو ساتھ لے کر جائیں! تو کیا ہم مفتوح قوم ہیں؟ کیا ہم پا بہ زنجیر ہیں؟ جس اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ راتوں رات چھ سو فیصد بڑھا دی جائے‘ وہ اسمبلی حکومت کا محاسبہ خاک کرے گی؟ ثابت ہو گیا کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی باہمی آویزش محض نورا کُشتی ہے۔ اندر سے یہ سب ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور وہ طبقہ ہے بالائی کلاس! رولنگ کلاس! پنجابی محاورے کی رُو سے بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ اور دیکھ لیجیے گا یہ ملک دشمن اضافہ صرف پنجاب تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صوبے کا ایم پی اے‘ وزیر اور سپیکر لاکھوں میں کھیلے اور دوسرے صوبوں کے ایم پی اے‘ وزیر اور سپیکر ہزاروں میں! ایک ہی ملک کے اندر یہ کیسے ممکن ہے؟ دوسرے صوبے بھی یہ اضافے اپنائیں گے۔ پھر وفاق کی باری آئے گی! ایم این اے اور سینیٹر نوازے جائیں گے۔ پھر ادارے جھرجھری لے کر اٹھیں گے۔ اضافوں کا مجموعی اثر
(Cumulative Effect)
کھربوں تک جائے گا! تجمل حسین خان عیش کریں گے۔ عوام سینہ کوبی کریں گے۔ پھر مزید ٹیکس‘ بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضے۔ لندن‘ جنیوا‘ دبئی کے مزید دورے! مزید ملکی ٹیلنٹ کی ہجرت! جب بلاول‘ حمزہ شہباز‘ مریم نواز‘ چودھری مونس الٰہی‘ چودھری سالک حسین اور مولانا اسعد محمود کے بچے تخت پر بیٹھیں گے تو ملک میں حاکم ہی حاکم ہوں گے‘ محکوم یا تو گل سڑ چکے ہوں گے یا کہیں نہ کہیں پناہ
(Asylum)
لے چکے ہوں گے!!
No comments:
Post a Comment