Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 25, 2010

ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت

یہ درست ہے کہ قبرض کے ترک حصے میں یونان نے مداخلت کی تھی تو چند ثانیوں کے اندر اندر ترکی کے جنگی جہاز ایتھنز پر منڈلا رہے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ تائیوان ہو یا کوئی اور مسئلہ، چین نے کبھی کسی ملک کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی لیکن یہ سب تاریخ کے کولڈ سٹوریج میں جا چکا ہے۔ یہ سب ماضی کی داستانیں ہیں۔ آج اگر کرۂ ارض پر کوئی غیرت مند اور خود مختار ملک بڑی سے بڑی طاقت کو اپنے امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا تو وہ صرف اور صرف پاکستان ہے! طلوع ہونے والے سورج کے دیس جاپان سے لے کے ۔۔ بحرالکاہل کے نیلے پانیوں کے کنارے آباد میکسیکو تک اور آسٹریلیا کے دل نشین ساحلوں سے لے کر دل پر جادو کر دینے والے فن لینڈ تک ۔۔ صرف پاکستان ہی ایک ایسا عزت دار ملک ہے جس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والی بڑی سے بڑی طاقت چند لمحوں کے اندر اندر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔ شیخ سعدی اگرچہ کچھ دیر پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی دور رس نگاہیں پردۂ غیب پر پاکستان کو دیکھ چکی تھیں۔ انہوں نے یہ شعر یقیناً پاکستان کے لئے کہا تھا …؎

ہر کہ با  فولاد   بازو پنجہ کرد

ساعت سیمینِ خود را رنجہ کرد

جس کسی نے بھی فولاد جیسے بازو سے پنجہ لڑانے کی حماقت کی تو اس نے اپنی نازک، چاندی جیسی کلائی ہی کو گزند پہنچایا!

میں دعویٰ کرتا ہوں تو ہمیشہ ثبوت بھی پیش کرتا ہوں۔ آج بھی میں اپنی اس روش پر قائم ہوں۔ آپ کو اگر معلوم نہیں تو میں عرض کئے دیتا ہوں۔ ایک مغربی طاقت نے ہمارے ملک پر ڈرون حملے کرنے کی غلطی کی۔ چند سیکنڈ بھی نہ گزرے تھے کہ ہمارے جنگی جہازوں نے درجنوں ڈرون گرا دئیے۔ ہم نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، احتجاج کے طور پر اس طاقت کے سفارت خانے کو بند کر دیا اور سفیر کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ مغربی طاقت کے گھٹنے لرزنے لگے، اس نے معافی مانگی اور قسم اٹھا کر وعدہ کیا کہ آئندہ اس کے جہاز ہماری مقدس فضاؤں کی حدود میں اپنی ناپاک تھوتھنیاں نہیں داخل کریں گے۔

جیکب آباد کے ہوائی اڈے پر قبضے کی کوشش کی گئی تو ہم نے قبضہ کرنے والوں کو بحیرہ عرب میں پھینک دیا جہاں وہ مچھلیوں کی خوراک بنے۔ جب ایک بڑے ملک کے اہلکار پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر چک لالہ بیس پر اترنے لگے تو ہم نے انہیں جیل میں بند کر دیا۔ لاہور میں سیاہ شیشے والی کار کو پولیس نے روکا، جب سفارش کا فون آیا تو پنجاب حکومت نے سفارش ماننے سے انکار کر دیا! لیکن پاکستان نے غیرت کا بڑا مظاہرہ اس وقت کیا جب ایک بڑی طاقت کے گماشتے پاکستانیوں کو پاکستان کے اندر سے پکڑ پکڑ کر لے جانے لگے۔ پاکستان نے بدلہ لینے کے لئے اسلام آباد میں پائے جانے والے کئی سفید فام افراد کو گرفتار کر لیا۔ پھر جب ڈاکٹر عافیہ کو اغوا کیا گیا تو پاکستان نے کمال ہی کر دیا۔ اس نے ایک خاص ملک سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین کو گرفتار کر لیا۔ واشنگٹن میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا۔ اس ملک کی سفیر کو چند گھنٹوں کے نوٹس پر پاکستان سے نکال دیا گیا۔ پاکستان نے وزیرستان سے فوج واپس بلانے کا اعلان کر دیا اور نیٹو کو سپلائی ہونے والا پٹرول اور دیگر اشیائے ضرورت روک لیں۔ چند دنوں ہی میں اس طاقتور ملک کے ہوش ٹھکانے آ گئے اور اس نے عافیہ صدیقی کو رہا کر دیا۔

اور اس وقت تو دنیا عش عش کر اٹھی جب پاکستان نے آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے سے انکار کر دیا اور ورلڈ بینک نے ویٹ نافذ کرنے کا حکم دیا تو حکومت پاکستان نے ورلڈ بینک کے تمام نمائندوں کے پاکستانی ویزے منسوخ کر دیے۔

اس غیرت مند رویے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کی دنیا بھر میں عزت کی جاتی ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں کے گال چومے جاتے ہیں، پاکستانیوں کے جوتے اتروا کر آنکھوں سے لگائے جاتے ہیں اور پاکستانی افسروں اور جرنیلوں کی پتلونوں کی پیٹیاں اتروا کر ان پر بوسے ثبت کئے جاتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے کئی صدر اور وزرائے اعظم ہمارے وزیر خارجہ سے بات کرنے کے لئے گھنٹوں ٹیلی فون کے پاس بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمارا کوئی معمولی اہلکار بھی واشنگٹن جائے تو امریکی صدر خود اس کا استقبال کرتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کا صدر بھی اسلام آباد آئے تو ہمارے معمولی اہلکار انہیں لینے کے لئے ہوائی اڈے پر جاتے ہیں۔

قصہ مختصر ۔۔ ہمارے دن عزت سے گزر رہے تھے۔ ہمارے اندرونی معاملات میں سوچنا بڑی سے بڑی طاقت کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ لیکن افسوس! ایک ملک نے ہمارے اندرونی معاملات میں دن دہاڑے کھلم کھلا مداخلت شروع کر دی ہے۔ زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ وہ دوست ملک ہے۔ سعودی عرب کی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ جعلی ڈگریوں پر نوکری حاصل کرنے والوں کی روزی حرام ہے۔ علماء کونسل نے فتویٰ دیا ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ دھوکہ دہی کے مرتکب ہوں۔ علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ ۔۔ ’’جعلی ڈگری حاصل کرنے والے معاشرے کیلئے نقصان دہ ہیں۔‘‘

یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے اور یہ ناقابل برداشت ہے۔ اگر اس سلسلے کو روکا نہ گیا تو کل کو یہ فتویٰ بھی آ جائے گا کہ ناجائز مال کمانا اور کھانا حرام ہے۔ چند دن کے بعد یہ بھی کہہ دیا جائے گا کہ ایک مخصوص گروہ کے پسندیدہ افراد کو قومی خزانے سے تنخواہیں دے کر ملک پر مسلط کرنا جائز نہیں۔ پھر ایک دن آئے گا جب مجرموں کی سزائیں معاف کرنا سراسر ظلم قرار دے دیا جائے گا۔

ہم ایک خود دار غیرت مند اور عزت نفس رکھنے والی قوم ہیں۔ ہمارے اندرونی معاملات میں یہ مداخلت فوراً بند کی جائے۔

Tuesday, May 18, 2010

عطر فروشوں کے بازار میں

اس کا باپ فیکٹری میں کام کرنیوالا ایک عام ملازم تھا۔ آج وہ برطانیہ کی کابینہ میں وزیر ہے اور قومی سطح کی سیاسی پارٹی کی سربراہ!

حیرت مجھے یوں چمٹی ہے کہ پنڈا نہیں چھوڑ رہی۔ میں اس خبر پر کیسے یقین کر لوں! اس خاتون کا تعلق کسی جاگیردار خاندان سے نہیں۔ اسے اسمبلی کی نشست دادا اور باپ سے ورثے میں نہیں ملی۔ یہ خاتون صنعت کار نہیں۔ اسکے پاس محلات ہیں نہ کارخانے، اس کے پاس جعلی ڈگریاں نہیں۔ اس نے سیاسی پارٹیاں نہیں تبدیل کیں۔ اس نے فوجی حکمران کی وردی استری نہیں کی نہ یہ نعرہ لگایا کہ ہم اسے دس بار منتخب کروائیں گے۔ اس نے کروڑوں اربوں کے قرضے معاف نہیں کرائے۔ ٹیکس چوری نہیں کرتی۔ صحیح ڈیوٹی دینے والے پولیس مین کو ناک سے لکیریںنہیں نکلواتی۔ اسکے آگے پیچھے چمکتے ہوئے اسلحہ کی نمائش کرنیوالے باڈی گارڈ نہیں۔ قانون کو پائوں تلے روندنا اپنا پیدائشی حق نہیں مانتی۔ اس میں تکبر ہے‘ نہ جہالت، اسکے باوجود وزیر بن گئی! الیکشن جیت لیا اور ایک سیاسی پارٹی کی سربراہ مقرر کر دی گئی! میں سوچ رہا ہوں کہ کیا اسکے بعد اس کا بیٹا یا بیٹی پارٹی کی قیادت سنبھالے گی اور کیا پارٹی کے ارکان، معزز ارکان … اسکے صاحبزادے یا صاحبزادی کی غلامی قبول کر لیں گے؟

میں اس خبر پر کیسے یقین کر لوں؟ کیا فی الواقع ایسا ہوا ہے؟ کہیں یہ کیمرہ ٹرک تو نہیں! میری مثال اس خاکروب کی ہے جس کی حکایت رومی نے مثنوی میں بیان کی ہے۔ وہ خاکروب عطر فروشوں کے بازار میں جا پہنچا اور تھوڑی دیر کے بعد بے ہوش ہو گیا۔ عطر فروش جمع ہو گئے اور اسے قیمتی سے قیمتی عطر سنگھانے لگ گئے تاکہ وہ ہوش میں آئے لیکن خاکروب بدبخت ہوش میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اتنے میں ایک بزرگ کا گزر ہوا۔ وہ کہنے لگے۔ بے وقوفو! اسے اس ٹوکرے کی غلاظت سنگھائو جو اسکے سر پر تھا۔ عطر اسکے نصیب میں کہاں، عطر کی خوشبو ہی سے تو یہ بے ہوش ہوا ہے!

میں بے ہوش ہونے کے قریب ہوں۔ خدا کیلئے تم سب ہٹ جائو، تمہارے قیمتی عطر مجھے بے ہوش کر کے رہیں گے۔ میرا ٹوکرا کہاں ہے؟ اسے ادھر لے کر آئو اور اسے میری ناک کے نیچے رکھو، میرے ٹوکرے میں کیا نہیں ہے! جعلی ڈگریوں والے امیدوار اور ان کی مہم چلانے والے حکومتوں کے سربراہ! مخالف امیدوار کے ٹوٹے ہوئے دانت اور ٹوٹے ہوئے بازو!پارٹیوںکی قیادت سنبھالنے کیلئے تیار بیٹھے ہوئے شہزادے! جن کے مستقبل کو محفوظ کرنے کیلئے سترھویں ترمیم کی شق نمبر چار کو قتل کیا گیا اور جس کی مخالفت میں پوری اسمبلی سے … جی ہاں‘ پور ی اسمبلی سے… صرف تین آوازیں بلند ہوئیں۔ پارٹیاں بدلنے والے اور بدلنے والی ارکان اسمبلی اور تین تین سو کنال کے ’’گھروں‘‘ میں رہنے والے سیاسی لیڈر!

دیکھو! میرے ٹوکرے میں کیا نہیں ہے! دو برس کی مدت میں ایک ہزار چار سو سولہ ڈاکٹر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ آبادی کے حساب سے ملک میں ایک لاکھ اکاسی ہزار نو سو چوبیس ڈاکٹروں کی پہلے ہی کمی ہے۔ دانتوں کے ڈاکٹر ایک لاکھ پچاس ہزار پانچ سو اکاون کم پڑ رہے ہیں! بین الاقوامی معیار کی رو سے ہر پانچ سو اشخاص کیلئے ایک ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں کئی ہزار افراد ایک ڈاکٹر پر انحصار کر رہے ہیں۔ اس شدید کمی کے باوجود وفاقی وزیر جناب سید خورشید شاہ قومی اسمبلی میں بتاتے ہیں کہ یہ جو دو سال کے عرصہ میں ایک ہزار چار سو سولہ ڈاکٹر اور سات سو چوہتر ڈسپنسر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں تو یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ایک تو یہ زرمبادلہ بھیجیں گے۔ دوسرے بیروز گاری کم ہو گی سبحان اللہ   میرے ٹوکرے میں کیسے کیسے نکتے اور فلسفے ہیں۔ لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ انہیں ڈاکٹروں کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان میں حاملہ عورتوں اور کم سن بچوں کے مرنے کے اعداد و شمار دنیا بھر کے ملکوں میں سرفہرست ہیں لیکن حکومت اس پر سجدہ شکر بجا لاتی ہے کہ زرمبادلہ کمانا ہے تو ڈاکٹروں کو کم تنخواہیں دو۔ انکی عزت پٹواریوں، تھانیداروں اور سیکشن افسروں سے بھی کم کرو۔ سیاست دانوں کو ملک لوٹنے کے طریقے بتانے والی نوکر شاہی کو چالیس چالیس کنال کی کوٹھیاں اور دس دس گاڑیاں دو لیکن ڈاکٹروں کو جھونپڑی تک نہ دو اورگدھا گاڑی کیلئے بھی ترسائو اتنا کہ وہ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں اسکے بعد مریضوں کو مرنے دو اور زرمبادلہ زیادہ ہونے کی خوشی میں تالیاں بجائو اور ڈھول پیٹو!

میرے ٹوکرے میں کیا نہیں ہے! ورلڈ بنک نے پنجاب میں ترقی کا سارا پول کھول دیا ہے۔ اس نے اعداد و شمار دیئے ہیں کہ ترقیاتی رقوم کا بھاری حصہ صرف ایک شہر… ایک خاص شہر… پر صرف ہو رہا ہے۔ اس شہر میں ہر شخص پر 35 ہزار روپے ترقیاتی بجٹ میں سے خرچ ہو رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر جو شہر (راولپنڈی) سب سے زیادہ ترقیاتی رقوم حاصل کر رہا ہے اس کا فی کس خرچ دس ہزار روپے ہے۔ ورلڈ بنک کہتا ہے کہ لیہ جھنگ میانوالی اٹک اور دوسرے شہر کسی شمار کسی قطار میں نہیں ۔

میرے ٹوکرے میں کیا نہیں ہے! فاروق لغاری، ذوالفقار کھوسہ، عابدہ حسین، مخدوم احمد محمود اور حنا ربانی کھر ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے لکژری گاڑیوں کے ٹیکس نہیں ادا کئے۔ یہ خبر ایک ہفتہ پہلے متعلقہ محکمے نے دی ہے!

حیرت مجھے یوں چمٹی ہے کہ پنڈا ہی نہیں چھوڑ رہی! کیا ہے برطانیہ کے پاس؟
 میرے ملک کے دو ضلعوں کے برابر رقبہ!
 برف،
 سردی سے ٹھٹھرتے لوگ،
 سال میں دس مہینے ہر طرف چھائی ہوئی تاریکی، دھند اور زندگی کو عذاب بنا دینے والی مسلسل بارشیں!
 اور کیا نہیں ہے میرے ملک میں!
 سارے موسم،
 سارے لینڈ سکیپ،
سارے پھل،
قسم قسم کے غلے،
 ساری دنیا سے زیادہ ذہین اور فطین باشندے،
 دریا،
 سمندر،
 دھرتی کا ایک انچ بھی ایسا نہیں جس کے نیچے قیمتی معدنیات نہ ہوں۔
 ایسے ایسے خوبصورت علاقے جن کا کرہ ارض پر کوئی جواب نہیں!
 اسکے باوجود برطانیہ آگے ہے، کوسوں ٰآگے، کئی نوری سال آگے اور میرا ملک اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے!

افسوس! میں حیران تو ہوں لیکن دیکھتا نہیں! میں نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ میں یہ نہیں دیکھتا کہ برطانیہ میں اصول ہیں جنہیں توڑا نہیں جاتا! وزیر اعظم پولیس کے سربراہ سے کہتا ہے کہ اگر میں نے اپنے دفتر میں غیر ملکیوں کو ملنا ہو تو اسمبلی سے نکل کر… وقت پر نہیں پہنچ پاتا اس لئے راستے کی ٹریفک کو روکا جائے لیکن پولیس کا سربراہ انکار کر دیتا ہے اور مشورہ دیتا ہے کہ جناب وزیراعظم! آپ دس منٹ پہلے روانہ ہو جایا کریں! وزیراعظم کی اہلیہ ٹرین چھوٹ جانے کے ڈر سے ٹکٹ خریدے بغیر سوار ہو جاتی ہے۔ اسے عدالت میں جانا پڑتا ہے اور جرمانہ کی سزا دی جاتی ہے! میں حیران تو ہوتا ہوں لیکن یہ نہیں یاد کرتا کہ کچھ عرصہ ہوا لندن میں ایک دوست کے گھر کھانا کھانے گیا، قطار کے سارے مکان ایک جیسے تھے۔ میزبان نے بتایا کہ اس قطار میں انہی ایک جیسے گھروں میں سے ایک گھر میں خاکروب رہتا ہے اور ایک اور گھر میں اسمبلی کا رکن! اسی لئے تو فیکٹری کے عام ملازم کی بیٹی سعیدہ وارثی … مسلمان ہونے کے باوجود… پاکستانی نژاد ہونے کے باوجود… ٹوری پارٹی کی سربراہ بن جاتی ہے اور کابینہ کی فل وزیر!لیکن یہ باتیں چھوڑئیے… یہ تو عطر فروشوں کا بازار ہے! آئیے یہاں سے جلدی نکل چلیں ورنہ ہم بے ہوش ہو جائیں گے!

Tuesday, May 11, 2010

ہمارے رہنما!

بڑے شہروں کے ہنگاموں سے دُور، شنکیاری کے بے پناہ خوبصورت علاقے میں رہنے والے طویل قامت شاعر محمد حنیف نے یہ شعر یقینا ایک عام پاکستانی کیلئے کہا ہے…؎

کوئی انساں کبھی بے خواب نہیں رہ سکتا

ہر کسی آنکھ میں کچھ خواب ہوا کرتے ہیں

باسٹھ سالوں سے بے خواب رہنے والے عام پاکستانی کے خواب سچے ثابت ہونگے یا خدانخواستہ احمد فراز نے بھی اُسی عام پاکستانی کیلئے کہا تھا…ع

خواب جھوٹے خواب تیرے میرے خواب بھی!

پیپلزپارٹی سے تیر کھا کر عوام مسلم لیگ نون کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور آنکھوں میں مزید تیر پیوست ہو جاتے ہیں۔ خاندانی حکمرانی کی حفاظت پر کمربستہ احسن اقبال یہ کہتے ہوئے ذرا بھی جھجک نہیں محسوس کرتے کہ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق نے غلط کیا۔ آخر کیا غلطی کی ان دونوں نے؟ یہی کہ سترھویں ترمیم کی شق نمبر چار کو ختم کرنے کی مخالفت کی جو سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات کرانے سے متعلق تھی!

خلقِ خدا کو خوش گمانی تھی کہ وقت کے اُس ٹکڑے نے جو ابتلا کی صورت میں گِرا تھا،میاں صاحبان کو بدل ڈالا ہوگا۔ خدا کی قسم اگر میاں صاحبان بدل جاتے تو اس ملک کے عوام کی قسمت بدل جاتی لیکن سوئی کے سوراخ سے اونٹ نکل سکتا ہے، ہتھیلی پر بال اُگ سکتے ہیں، اِس ملک کے اہلِ سیاست دو کام نہیں چھوڑ سکتے۔

مالی معاملات میں دھاندلی اور میرٹ کا قتل! پنجاب حکومت کے اطلاعات کے ملازم کہیں اور کام کر رہے تھے، خبر چھپی تو تردید کردی گئی اور اب جب اخبارات نے دہائی دی کہ از کار رفتہ ریٹائرڈ لوگوں کو بھاری تنخواہوں پر بڑی بڑی ملازمتیں دی گئی ہیں تو پنجاب حکومت کے ترجمان نے بے نیازی بلکہ رعونت کے ساتھ ’’وضاحت‘‘ کی کہ ’’اہل‘‘ لوگوں کو قواعد میں ’’نرمی‘‘ کرکے رکھا گیا ہے۔

چھیاسٹھ چھیاسٹھ برس کے ریٹائرڈ اہل کار جن پر پہلے ہی کئی قسم کے الزامات ہیں صوبے کے خزانے پر اور بھُوکے مرتے عوام کے سروں پر بٹھا دیئے گئے ہیں اور ’’عوامی مفاد‘‘ میں رکھے گئے یہ سارے افلاطون ایک خاص علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک صاحب جو ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب بنک کے سربراہ بنائے گئے تھے، اب وہاں سے ہٹا کر پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ممبر لگا دیئے گئے ہیں تاکہ مزید تین سال ’’لگا‘‘سکیں۔

جس بیوروکریٹ کی گاڑی نے ایک ریٹائرڈ کرنل کو ہلاک کیا تھا اور عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کیلئے اُسے اپنے عہدے سے ہٹایا گیاتھا، اُسے اب پنجاب بنک کا سربراہ بنا دیا گیا ہے‘ جہاں مراعات لارڈ مائونٹ بیٹن کو دی گئی مراعات سے بھی زیادہ ہیں۔ کیا یہ ادارے جاگیریں ہیں؟ جن پر کسی طریق کار کے بغیر اپنی پسند کے لوگوں کو لگایا جا رہا ہے اور یہ ساری کرم فرمائیاں ایک خاص حلقے کیلئے ہیں۔

صوبے کے دور افتادہ اضلاع کے ساتھ حسنِ سلوک کا یہ عالم ہے کہ ایک گائوں کی ڈسپنسری کیلئے دو ملین روپے نہیں دیئے جارہے۔ اسی لئے تو محروم علاقے الگ صوبوں کے مطالبے کرتے ہیں۔ اگر صوبائی حکومت کی نوازشات ایک خاص جغرافیائی دائرے سے باہر نہ نکلیں تو یہاں دو نہیں دو سے زیادہ صوبے بنیں گے اور پھر مرکز میں بھی تو یہی کچھ ہو رہا ہے۔ وہاں بھی تعیناتیاں پسند کے لوگوں کی کی جا رہی ہیں مطلب ظاہر ہے، اگر مرکز کو پنجاب پر اختیار مل گیا تو پنجاب میں یہی کچھ ہوتا رہے گا جو اب ہو رہا ہے اور اگر پنجاب پر حکومت کرنے والوں کو مرکز کے اختیارات مل گئے تو مرکز میں بھی یہی کچھ ہوگا جو اب صوبے میں ہو رہا ہے۔ لیکن قصہّ جو یہ کالم نگار سنانے لگا تھا، اور ہے…؎

ابھی سے کیوں طنابیں بحر و بر کی کھنچ گئی ہیں؟

ابھی تو واقعہ میں نے سنایا ہی نہیں ہے

چند برس پہلے کا واقعہ ہے۔ حج کے ایام تھے۔ ابھی منیٰ کے خیمے آباد نہیں ہوئے، مکہ مکرمہ کے ایک ہوٹل میں ایک میاں بیوی مقیم ہیں۔ ان کا ایک دوست، جس سے خاندانی تعلقات ہیں، ملنے آتا ہے۔ وہ پاکستانی سفارت خانے کے اُس دفتر میں ملازم ہے جو جدّہ میں واقع ہے۔وہ پریشان ہے اور آشفتہ حال۔ بے بس اور پراگندہ خاطر۔ قلق اس کے چہرے سے عیاں ہے۔

پاکستان سے ایک کھرب پتی وزیر آتا ہے اور سفارت خانے کو ’’حکم‘‘ دیتا ہے کہ ننگے پائوں طواف نہیں کرسکتا۔ مجھے چمڑے کی جرابیں بہم پہنچائی جائیں، دو جوڑے جرابوں کی قیمت نوے ریال بنتی ہے‘ جو وہ خود ادا نہیں کرتا‘ سفارت خانہ ادا کرتا ہے۔ پھر وزیراعظم آتا ہے۔ اُسے کراچی میں بتایا جاتا ہے کہ راستے میں میقات پڑیگااس لئے احرام باندھ کر جہاز میں بیٹھئے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا۔ وہ جدّہ پہنچتا ہے۔ سفارت خانہ سرکاری خزانے سے احرام خریدتا ہے اور وہ عمرہ ادا کرتا ہے۔ بتانے والا پریشان ہے کہ اس قسم کے کام ہیں جو اُسے کرنے پڑتے ہیں۔

سال اس لئے نہیں لکھا جارہا کہ غالباً وہ پراگندہ خاطر شخص اب بھی ملازمت میں ہے اور یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے! یہاں یوں بھی ہمیشہ اونٹوں کے بجائے لومڑیوں کو پکڑا جاتا ہے۔ حالانکہ سعدی شیرازی مستقبل کے معاملات سے ناآشنا تھے!

لیکن اب یہ سلسلہ ایک راوی اور سننے والے ایک میاں بیوی کی روایت پر نہیں موقوف…؎

میرے چُپ رہنے کی عادت جس کارن بدنام ہوئی

اب وہ حکایت عام ہوئی ہے، سنتا جا شرماتا جا

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ برائے سال 2008-09ء قومی اسمبلی کے سامنے تین مئی 2010ء کو پیش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ارکان اسمبلی کو بتایا گیا ہے۔

’’وزیراعظم پاکستان اور انکے ہمراہ جانیوالا وفد سعودی عرب میں 16 دسمبر سے لے کر 23دسمبر 2007ء تک ٹھہرا۔ ان حضرات نے ’’دَم‘‘ دینا تھا۔ اس مقصد کیلئے سفارت خانے نے قربانی کے پچاس کوپن خریدے۔ اس پر سرکاری خزانے کے انیس ہزار پانچ سو ریال خرچ ہوئے۔ وفد کے ارکان اس کے حق دار نہیں تھے۔‘‘

حج کے دوران اگر کوئی غلطی ہو جائے تو تلافی کیلئے ’’دَم‘‘ دینا پڑتا ہے یعنی ایک جانور کی قربانی۔ وفد نے اور وفد کے سربراہ وزیراعظم پاکستان نے ’’غلطی‘‘ یہ کی کہ میقات سے احرام باندھے بغیر گزر گئے! اس لئے کہ احرام تو سفارت خانے نے سرکاری خزانے سے خرید کر دینے تھے۔ جہاز میں سوار ہوتے وقت ان قلاشوں بھِک منگوں کے پاس احرام تھے ہی نہیں آڈٹ رپورٹ میں مزید رونا یہ رویا گیا ہے کہ ان مستحقین کیلئے سفارت خانے نے سرکاری خزانے سے احرام کی چادریں، عجوہ کھجوریں اور آبِ زم زم بھی خریدا جس پر مزید چونتیس ہزار ریال خرچ کئے گئے۔ عجوہ وہ کھجور ہے جو سب سے زیادہ مہنگی ہے۔ یعنی ڈاکہ مار کر کھجوریں بھی وہ خرید والی ہیں جو گراں ترین ہیں!

آداب بجا لایئے۔ جُھک جایئے۔ فرشی سلام کیجئے۔ یہ ہمارے رہنما ہیں! چلے جارہے ہیں‘ ننگ دھڑنگ بدن پر چیتھڑا تک نہیں!

Tuesday, May 04, 2010

طمانچہ

’’مبارک ہو! تم نے پُلٹزر
(Pulitzer)
پرائز جیت لیا ہے‘‘ کے وِن کارٹر کو یہ خبر ٹیلی فون پر نیویارک ٹائمز کی ایڈیٹر نے دی۔

’’کے وِن کارٹر‘‘ کون تھا؟ اور ہم اپنے قارئین کیلئے خصوصی طور پر اس کا ذکر کیوں کر رہے ہیں۔ یہ جاننے سے پہلے اتنا سن لیجئے کہ پُلٹزر انعام کیا ہے؟ یہ انعام ایک امریکی جوزف پُلٹزر نے جو خود بھی ایک اخبار نکالتا تھا‘ صحافت‘ موسیقی اور ادب کیلئے شروع کیا تھا۔

پہلا انعام 1917ء میں دیا گیا۔ اُس وقت سے لیکر اب تک ہر اپریل میں اس پرائز کا اعلان ہوتا ہے۔ پُلٹزر نے اپنی موت سے پہلے 1911ء میں اپنی ساری جمع پونجی نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کو دے دی تھی۔ یونیورسٹی ہی انعام کی تقسیم کا سارا کام کرتی ہے۔

ہاں! پُلٹزر نے اپنی دولت کا ایک حصہ یونیورسٹی میں صحافت کا ایک بڑا ادارہ (جرنلزم سکول) قائم کرنے کیلئے بھی وقف کر دیا!

کے وِن کارٹر کو پُلٹزر انعام جس شہکار تصویر پر ملا‘ وہ تصویر پوری دنیا کے مسلمانوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ وہ طمانچہ جسے روکنے کیلئے خدا کے آخری رسولؐ نے بار بار تنبیہ کی‘ بار بار وارننگ دی‘ بار بار تلقین کی‘ مسلمانوں کے منہ پر یہ طمانچہ آخری نہیں۔ بوستانِ سعدی جسے ہم بھول چکے ہیں‘ پہلے ہی بتا چکی ہے …؎

عزیزی کہ از در گہش سر بتافت

بہر در کہ شُد ہیچ عزت نیافت

اس دروازے سے جس نے بھی منہ موڑا اسے کہیں عزت نہ ملی۔

کیون (کے وِن) کارٹر جنوبی افریقہ کا فوٹو گرافر تھا اور تصویری صحافت میں دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتا تھا۔ سوڈان میں تاریخ کا ہولناک قحط پڑا تو اقوام متحدہ کا ایک جہاز قحط زدگان میں خوراک تقسیم کرنے کیلئے سوڈان جا رہا تھا۔ کیون کو بھی اس میں سوار ہونے کا موقع مل گیا۔ جہاز نے وہاں آدھا گھنٹے رکنا تھا۔ بس اسی آدھ گھنٹے میں اس باکمال فوٹو گرافر نے یہ شہکار تصویر ۔۔ یہ ماتمی شہکار ۔۔ کھینچ ڈالی۔ تصویر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

الفاظ کی کم مائگی اسے کیا خراج پیش کر سکے گی! لیکن پھر بھی قلم کا عجز آزما لیتے ہیں۔ گھاس پھونس کی جھونپڑیاں پس منظر میں نظر آ رہی ہیں۔ ایک وحشت ہے اور بلاخیز اداسی جہاں موت کی سی خاموشی ہے۔ ایسی خاموشی جو تصویر میں صاف سنائی دے رہی ہے۔ ہاں ۔ بالکل صاف ۔ رسا چغتائی نے کہا تھا …؎

آخر میرا کیا ہو گا .............. کیا ہو گا ویرانی کا

بس اس شعر کو ایک لاکھ سے ضرب دے لیجئے‘ جھونپڑیوں کے آگے کوڑا کرکٹ ہے‘ جھاڑ جھنکار‘ بنجر پن گندگی۔ درختوں کے زرد جُھلسے ہوئے پتے‘ ایک ناقابل بیاں افسردگی‘ پژمردگی۔ تصویر کے پیش منظر میں ایک سیاہ فام بچی جو ننگ دھڑنگ ہے‘ پاؤں کے بل بیٹھی ہے اسکے دونوں ہاتھ زمین پر اس طرح ہیں کہ ہتھیلیاں اوپر کی طرف ہیں اور اسکا سر ان ہتھیلیوں پر جھکا ہوا ہے۔ گلے میں سفید سی مالا ہے۔ شاید سفید منکوں کی۔ تصویر میں پسلیاں ۔۔ تقریباً ۔۔ گنی ہی جا سکتی ہیں۔

ابھی دل تھام کر رکھیں اور آنسوؤں کو رخساروں پر بہنے کی اجازت نہ دیں‘ قلاش لفظوں اور بے بس قلم نے ابھی تک کچھ بھی نہیں بیان کیا۔ گھاس پھونس کی جھونپڑیوں اور اٹھنے کی سکت نہ رکھنے وال بھوکی بچی کے درمیان‘ بچی کے بالکل پیچھے۔ چند گز نہیں ۔۔ چند فٹ کے فاصلے پر ایک بہت بڑا گدھ بیٹھا ہے جو بچی کو دیکھ رہا ہے۔ یہاں تصویر کو زبان اور لفظ مل گئے ہیں‘ وہ بتا رہی ہے کہ یہ گدھ بچی کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے تاکہ اسے کھائے۔

یہ تصویر چھپی تو مغربی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ سب زبانوں پر ایک ہی سوال تھا ۔۔ کیا وہ بچی بچ گئی؟ کیا وہ وہاں پہنچ سکی جہاں اقوام متحدہ خوراک تقسیم کر رہی تھی؟ اس سوال کا جواب کوئی نہ دے سکا۔ کیون کو انعام ملا تو اس پر لوگوں نے لعن طعن کی کہ فوٹو لینے کے بعد بچی کو اٹھا کر خوراک کے مرکز تک لے جانا اس کا فرض تھا۔ تین ماہ بعد کیون کارٹر نے ذہنی تناؤ سے مجبور ہو کر خودکشی کر لی۔ اُسکی ڈائری سے یہ تحریر ملی۔
""
میرے خدا! میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں کبھی خوراک ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ کتنی ہی بدذائقہ کیوں نہ ہو اور میں کتنا ہی سیر کیوں نہ ہو جاؤں! میرے خدا! اس بچی کی حفاظت کر‘ اور اسے اس مصیبت سے رہائی دے۔ کاش ہم حساس ہو جائیں اور ذاتی مفادات اور خود غرض ذہنیت ہمیں اندھا نہ کر دے۔ کاش یہ تصویر ہمیں یاد دلاتی رہے کہ ہم (جنہیں خوراک میسر ہے) کتنے خوش قسمت ہیں اور ہم یاد رکھیں کہ ضروری نہیں ہم ہمیشہ خوش قسمت ہی رہیں گے۔
""            
اپنی زندگی ہی میں اپنی لاش کو نوچنے والے گدھ سے چند فٹ کے فاصلے پر بیٹھی یہ بچی کون ہے اور اس کا کیا نام ہے؟

کسی کو نہیں معلوم ۔۔ لیکن ایک بات سب کو معلوم ہے کہ اس بچی کے ہم مذہب شہزادے ۔۔ جو اُسکے پڑوس کی مملکتوں میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘ اربوں میں نہیں کھربوں میں کھیل رہے ہیں۔ بحرِ روم میں واقع پورے پورے جزیرے خرید چکے ہیں۔ ایک رات کے کچھ حصے میں لاکھوں ڈالر قمار بازی پر لگا دیتے ہیں۔ اُنکے ذاتی جہاز اور ذاتی بجرے ہیں اور ایک ایک بجرے (YACHT) کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ یہ دستر خوان سے اٹھتے ہیں تو سینکڑوں بچوں کی خوراک بچی ہوئی ہوتی ہے جسے پھینک دیا جاتا ہے۔

اس بچی کے ہم مذہب حکمرانوں کے محلات پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کسی میں جرأت ہے تو اس بات کو غلط ثابت کر دے کہ جو محلات رباط‘ کاسا بلانکا‘ قاہرہ‘ دمشق‘ جدہ‘ دوحہ‘ دبئی‘ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ استنبول‘ جکارتہ‘ بالی اور برونائی میں ہیں‘ انکے سامنے یورپ اور امریکہ کے ’’محلات‘‘ سرونٹ کوارٹر لگتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا محل ۔۔ سب سے بڑا رہائشی مکان ۔۔ ایک مسلمان بادشاہ ہی کا تو ہے جو اکیس لاکھ مربع فٹ سے بھی بڑا ہے۔ اس میں ایک ہزار سات سو اٹھاسی کمرے‘ دو سو ستاون باتھ روم‘ پانچ سومنگ پُول (حوض) دو سو گھوڑوں کیلئے ائر کنڈیشنڈ اصطبل اور ایک سو دس کاروں کے گیراج ہیں اور ضیافت والے ہال میں پانچ ہزار مہمان کھانا کھا سکتے ہیں! گدھ سے چند فٹ کے فاصلے پر مرنے والی یہ بچی اسی محل کے مالک کی ہم مذہب ہے۔ یہ بھی سُنتے جائیے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی رہائش گاہ میں چھ سو فانونس‘ اکاون ہزار بلب‘ اٹھارہ برقی سیڑھیاں اور تیرہ سیٹلائٹ ڈشیں نصب ہیں۔

یہی وہ بچی ہے جس کے رسولؐ نے حکم دیا تھا کہ پلیٹوں کے ساتھ لگا ہوا کھانا بھی ضائع نہ ہو‘ انگلیاں بھی چاٹی جائیں‘ یہ وہی بچی ہے جس کے ہم مذہبوں کو بتایا گیا ہے کہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینے والے کو ستر گز لمبی زنجیر سے باندھا جائے گا لیکن اس بچی کے ہم مذہب علما چندہ تو مانگتے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ ’’طعامِ مسکین‘‘ ایک الگ فرض ہے جس کا زکوٰۃ صدقے کی ادائیگی سے کوئی تعلق نہیں!

آج اگر رائے ونڈ کے شریف‘ گجرات کے چوہدری‘ لاہور کے ہمایوں اختر‘ خیبر پختون خواہ کے سیف اللہ‘ اور کراچی کے ہاشوانی اور لاکھانی مل بیٹھ کر ’’طعامِ مسکین‘‘ کیلئے ایک تہائی نہ سہی‘ ایک چوتھائی دولت ہی وقف کر دیں تو آدھی مسلمان دنیا سے بھوک ختم ہو جائے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ اس سے دولت میں اضافہ ہی ہو گا ۔۔ کمی نہیں واقع ہو گی!
 

powered by worldwanders.com