Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, March 30, 2023

جب مجھے او ایل ایکس پر لگایا گیا


ایک صوفہ کافی عرصے سے گھر والوں کو ناپسند تھا۔ وہ اسے فروخت کرنا چاہتے تھے۔ میں آڑے آرہا تھا۔ مجھے یہ صوفہ اس لیے عزیز تھا کہ یہ مدتوں سے ہمارے گھر کا مکین تھا۔ یہ ایک وسیع و عریض تھری سیٹر 
(three seater)
 تھا۔ اسے میرے مرحوم والدین نے استعمال کیا تھا۔ میرے مرحوم ماموں جب بھی تشریف لاتے‘ اسی پر بیٹھتے۔ میری پالتو بلی بھی برسوں سے رات اسی پر گزار رہی تھی۔ میں نے کتنی ہی کتابیں اس صوفے پر بیٹھ کر پڑھیں! کتنے ہی کالم اس پر بیٹھ کر لکھے۔ سونے کے لیے بھی آرام دہ تھا۔ کتنی ہی بار اس کی پوشش بدل کر اس کے بڑھاپے کو شباب میں ڈھالا۔ افسوس! میری اہلیہ اور چھوٹی بیٹی جب بھی اسے دیکھتیں‘ ناپسند کرتیں۔ کئی بار انہیں آپس میں کھسر پھسر کرتے ہوئے پکڑا۔ وہ اسے بیچنا چاہتی تھیں۔ میں نے صاف صاف بتا دیا کہ جب تک میرے دم میں دم ہے‘ یہ صوفہ اس گھر سے کہیں نہیں جا سکتا۔ اس موقع پر میں نے وہ فرنگی محاورہ بھی استعمال کیا جو میں نے ایک ایسے شخص سے سنا تھا جو انگریزی جانتا تھا۔ 
over my dead
 body
۔ اس دن کے بعد ماں بیٹی نے میرے سامنے صوفے کی فروخت کا تذکرہ تو کبھی نہ کیا مگر مجھے یقین تھا کہ یہ اپنے مذموم ارادے سے باز نہیں آئیں گی۔ عقلمندوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی خاتون کچھ کرنے کی ٹھان لے تو اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ میں جب بھی صوفے پر بیٹھتا مجھے یوں لگتا جیسے صوفہ مجھ سے کچھ کہہ رہا ہے۔ اگر صوفہ بات کرنے کے قابل ہوتا تو ضرور بتاتا کہ اسے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے۔
اپنے تجارتی امور سلجھانے کے لیے مجھے کچھ مدت کے لیے ملک سے باہر جانا پڑا۔ اصل پروگرام تو چند ہفتوں پر مشتمل تھا مگر ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ یوں پورا ایک سال سفر میں گزرگیا۔ واپس آیا تو پہلا دن تو ملنے ملانے اور آرام کرنے میں کٹ گیا۔ دوسرے دن نظروں نے میرے محبوب صوفے کو تلاش کیا مگر جس جگہ صوفہ ہوتا تھا وہاں دو کرسیاں رکھی تھیں! میں ڈرائنگ روم میں گیا‘ پھر اوپر کی منزل میں‘ مگر صوفہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اہلیہ سے پوچھا تو وہ بیٹی کی طرف دیکھنے لگی۔ بیٹی پہلے تو خاموش رہی۔ پھر بولی ''ابو! وہ بہت بوسیدہ ہو گیا تھا۔ ہم نے اسے بیچ دیا‘‘۔ اگر اس معاملے میں بیٹی شامل نہ ہوتی تو اہلیہ سے تو میں حساب کتاب پورا لیتا مگر مجبوری یہ آڑے آئی کہ بیٹیاں مجھے عزیز بہت ہیں۔ انہیں ڈانٹ نہیں سکتا بلکہ ان کی ماں انہیں ڈانٹے تب بھی برا لگتا ہے۔ ان کی ہر فرمائش پوری کرتا ہوں۔ وہ بھی مجھ پر جان چھڑکتی ہیں۔ میرے پسندیدہ پکوان پکاتی ہیں۔ میری طبیعت خراب ہو تو ان کی جان پر بن جاتی ہے۔ رات دن خدمت میں لگی رہتی ہیں۔ صوفہ بِکنے کا دکھ تو بہت زیادہ تھا۔ دل میں جیسے شگاف پڑ گیا! مگر صبر کیا اور بیٹی کی خاطر غصہ پی گیا۔ وہ رات اضطراب میں گزری۔ بار بار نیند ٹوٹتی۔ کبھی پیاس لگتی! بظاہر تو معاملہ ختم ہو گیا تھا مگر دل کو جو گزند پہنچا تھا‘ اس نے تو اپنا آپ دکھانا تھا۔ سو دکھایا۔ نہ جانے صوفہ کہاں ہو گا اور کس حال میں ہو گا۔ اپنے استاد ڈاکٹر ظہیر فتحپوری کا شعر بار بار یاد آتا:
سب گہما گہمی ہار گئی یاں دل سے
پردیس میں تیرا حال نہ جانے کیا ہو
کئی دن گزر گئے۔ ایک دن تجسس ہوا کہ ان ماں بیٹی نے صوفہ بیچا کیسے؟ کیا یہ اسے کسی کباڑیے کے پاس لے گئیں یا کسی کو گھر پر بلایا۔ پوچھا تو جواب ملا ''او ایل ایکس پر لگایا تھا‘‘۔ میرے فرشتوں نے بھی یہ نام کبھی نہ سنا تھا۔ پوچھا کہ یہ او ایل ایکس کیا بلا ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ ایک ویب سائٹ ہے جو بازار کی طرح ہے۔ آپ نے کوئی شے بیچنی ہو تو اس ویب سائٹ پر اشتہار لگا دیجیے۔ ساتھ شے کی تصویر لگا دیجیے۔ سینکڑوں ہزاروں لوگ اس اشتہار کو پڑھیں گے اور دیکھیں گے۔ جو شائق ہوا یا ضرورت مند‘ تو تصویر دیکھ کر‘ یا آپ کے گھر آکر‘ بھاؤ تاؤ کرکے‘ قیمت ادا کرے گا اور خرید لے گا۔ حیرت ہوئی کہ کیا زمانہ آگیا ہے‘ گھر بیٹھے‘ اشیا کی خریدو فروخت کر سکتے ہیں! کفار کو داد دینا پڑتی ہے کہ کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ ویب سائٹ‘ کیا کیا ایجاد کر دیا ہے! دفعتاً ایک خیال بجلی کی طرح ذہن میں کوندا! کیوں نہ مجھے او ایل ایکس پر لگایا جائے! پتا تو چلے میری قیمت کیا ہے اور یہ کہ میں کسی کام کا ہوں بھی یا نہیں! اہلیہ سے بات کی تو ہنسنے لگی۔ میں نے بتایا کہ یہ مذاق کی بات نہیں ہے اور یہ کہ میں سنجیدہ ہوں۔ بیگم کہنے لگی کیا بیوقوفوں جیسی باتیں کر رہے ہیں‘ بھلا یہ کیسے ممکن ہے! میں اڑا رہا۔ مسلسل کہتا رہا۔ کئی دن اسی تکرار میں گزرے۔ ایک دن اہلیہ کو غصہ آگیا۔ کہنے لگی ٹھیک ہے۔ اِنج تے فیر اِنج ہی سہی! اس نے او ایل ایکس پر اشتہار لگا دیا۔ تصویر لگانے سے میں نے منع کر دیا کہ تصویر لگا دی تو بکنے کا امکان صفر رہ جائے گا۔ اہلیہ نے پوچھا قیمت کیا لگائیں؟ میں نے کہا تین لاکھ لگا دو‘ بھاؤ تاؤ کرکے اڑھائی لاکھ مل جائیں گے!
دوسرے دن فون آنے شروع ہو گئے۔ نہیں معلوم کون کیا پوچھ رہا تھا اور جواب کیا دیا جا رہا تھا۔ شام کو ایک عمر رسیدہ خاتون آئی۔ میں لائبریری میں بیٹھا اپنی آنے والی تصنیف پر کام کر رہا تھا۔ خاتون نے کتابوں کے انبار کے درمیان‘ مجھے بیٹھا دیکھا۔ پوچھا ''اس منشی گیری کے علاوہ گھر کا کچھ کام بھی کر لیتے ہیں؟‘‘ اہلیہ نے زہر خند کے ساتھ جواب دیا کہ گھر کا کام تو دور کی بات ہے‘ چائے کی پیالی کے ساتھ چمچ نہ ہو تو وہ بھی مانگتے ہیں‘ خود اُٹھ کر نہیں لیتے۔ خاتون منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتی چلی گئی۔ پھر ایک جوان میاں بیوی آئے۔ کہنے لگے: ہم خرید لیں گے بشرطیکہ ہمارے بچوں کو پڑھائیں۔ اہلیہ نے بتایا کہ چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ سچ یہی تھا۔ ہمارے بچوں کو ابتدائی کلاسوں میں اہلیہ ہی نے پڑھایا تھا۔ مجھے یہ کام ہمیشہ از حد مشکل لگا۔ دوسرے دن ایک بڑے میاں آئے۔ مجھے ٹٹولا۔ پسلیوں کو دبا دبا کر دیکھا۔ پوچھا: گن چلا لیتے ہو؟ میں نے کہا: سکھائیں گے تو سیکھ لوں گا۔ کہنے لگے: گارڈ چاہیے جو جیولری کی دکان کے باہر الرٹ ہو کر کھڑا رہے۔ میں نے کہا کہ میری ایک شرط ہے۔ کھڑا نہیں رہوں گا۔ بیٹھ کر پہرہ دوں گا اور ساتھ کتاب کا مطالعہ کروں گا۔ بڑے میاں ہنسے۔ میری اہلیہ سے انتہائی زہریلے لہجے میں کہا کہ یہ بندہ کسی کام کا نہیں! پھر ایک سیٹھ نما صاحب آئے۔ بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ کاٹن کا کھڑ کھڑاتا لباس زیب تن کیے تھے۔ کہنے لگے: اینٹوں کے بھٹے ہیں۔ حساب کتاب کے لیے اور مزدوروں کو ادائیگی کرنے کے لیے منشی کی ضرورت ہے۔ میں نے اس موضوع پر بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ انہیں کہا کہ آپ بھٹوں پر کام کرنے والے کنبوں کو عملاً غلام بنا کر رکھتے ہیں اور انہیں قرض کے ایسے جال میں پھنساتے ہیں کہ وہ نسل در نسل یرغمال بن کر رہ جاتے ہیں۔ سیٹھ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ جاتے ہوئے میری اہلیہ سے کہہ گیا کہ آپ کے میاں کا دماغ خراب ہے۔
بہت گاہک آئے۔ کسی نے نہ خریدا۔ اس کے بعد گھر والوں کے رویّے میں بھی سرد مہری آگئی۔ اب میرا سٹیٹس گھر میں وہی ہے جو میرے محبوب صوفے کا تھا!!

Tuesday, March 28, 2023

جناب اعجازالحق کی تحریک انصاف میں شمولیت


کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جنرل ایوب خان کے پوتے جناب عمر ایوب خان‘ جنرل ضیا الحق کے فرزند جناب اعجاز الحق ‘ جنرل اختر عبد الرحمان کے فرزند جناب ہمایوں اختر خان ‘ جنرل پرویز مشرف کو وردی میں دس بار منتخب کرانے والے چوہدری پرویز الٰہی اور جنرل پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار میں ان کی توصیف میں ہمہ وقت رطب اللسان رہنے والے شیخ رشید احمد‘ سب عمران خان کے دائرۂ اطاعت میں آچکے! یہ ان کا حق ہے۔ ہر شہری اپنی مرضی کی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے آزاد ہے۔ اس اکٹھ کے اسباب و علل پر تو سیاسی حرکیات کے ماہرین ہی روشنی ڈالیں گے۔ ہم ‘بہر طور‘ ایک عامی کی حیثیت سے اپنا خیال ظاہر کر سکتے ہیں۔

تحریک انصاف میں جناب اعجاز الحق کی انٹری ‘ دوسرے حضرات کی نسبت‘ نمایاں تر نظر آتی ہے۔ عمر ایوب خان اور ہمایوں اختر صاحبان نے اپنی الگ کوئی پارٹی نہیں بنائی۔ اس کے بر عکس اعجازالحق نے اپنی پارٹی بنائی۔ وہ اس عزم کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ ضیا الحق کے مشن کو مکمل کریں گے۔ ضیا الحق کا مشن کیا تھا؟ اپنے دس سالہ دورِ حکومت میں جنرل صاحب نے اس مشن کا کتنا حصہ مکمل کیا؟ کتنا رہتا ہے؟ جو رہتا ہے اس کی تفصیل یا بریک اَپ کیا ہے؟ تحریک انصاف میں ان کی شمولیت ‘ اس حوالے سے‘ کتنی ممد ثابت ہو گی اور کس طرح ممد ثابت ہو گی؟ ان سوالوں کے جواب کم از کم ہمیں نہیں معلوم !
جنرل ضیا الحق مرحوم کی شخصیت‘ تاریخ کی کچھ اور معروف شخصیات کی طرح‘ بہت زیادہ متنازع ہے۔ان کے طرفدار انہیں اسلام کا بطلِ جلیل مانتے ہیں۔ وہ نہ صرف افغانستان میں روسی افواج کی شکست کا سہرا جنرل صاحب کے سر باندھتے ہیں بلکہ سوویت یونین کے انہدام کا کریڈٹ بھی انہی کو دیتے ہیں! ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ انہوں نے ملک کو اسلام کے راستے پر ڈالا۔ انڈیا کے حوالے سے ان کی '' کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ بھی قابلِ تعریف تھی! ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں! مخالفین جو چارج شیٹ جاری کرتے ہیں‘ خاصی طویل ہے۔یہ چارج شیٹ منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹنے سے اور اسے پھانسی دینے سے شروع ہوتی ہے۔ نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کے عہد سے انہوں نے برملا بے وفائی کی۔ افغان مجاہدین کی مدد کرنے تک تو معاملہ ٹھیک تھا مگر جنرل صاحب اس حد تک چلے گئے کہ اپنے ملک کو اور اپنے لوگوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ ملک کی سرحد کی بے حرمتی ہوئی۔ پاکستانی ویزا گویا صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ پوری دنیا کے جنگجو اسلحہ اور خاندانوں سمیت پاکستان میں آگئے۔ جنرل صاحب کی حکومت نے انہیں خوش آمدید کہا اور مقیم کیا۔ افغان مہاجرین ایران بھی گئے۔ ایران نے انہیں غیر ملکی ہی سمجھا۔ انہیں کیمپوں تک محدود رکھا۔ مگر جو افغان مہاجر پاکستان آئے ‘ جنرل ضیا الحق کی حکومت نے انہیں پاکستانیوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ یہ مہاجر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ انہوں نے تجارت‘ ٹرانسپورٹ‘ مزدوری‘ غرض ہر شے پر قبضہ کر کے ملک کے اصل باشندوں کو ان سرگرمیوں سے نکال باہر کیا۔ یہ مہاجر آج بھی پاکستان میں ہیں اور طرح طرح کے مسائل پیدا کر تے رہتے ہیں۔ ان کئی نسلیں یہیں پیدا ہو کر یہیں پروان چڑھ چکی ہیں۔ لاکھوں نے ناروا طریقوں سے پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کر لیے ہیں۔ یہ جنرل صاحب کی ایسی غلط بخشی تھی جس کا تاوان آج بھی پاکستان ادا کر رہا ہے۔ معاملہ یہیں تک نہ رُکا۔ ان غیر ملکیوں کی وساطت سے پورے ملک میں اسلحہ کی ریل پیل ہو گئی۔ راکٹ تک بازاروں میں بکے۔ منشیات کی نحوست آگ کی طرح پھیلی اور پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔
جنرل ضیا الحق نے مذہب کی جو صورت( version)ملک میں رائج کی اس کے ڈانڈے تنگ نظری سے ملتے تھے۔ انہوں نے ٹی وی پر خبریں پڑھنے والی خواتین کے سر تو ڈھانپ دیے مگر خود وعدہ شکنی کی انتہا کر دی۔ آج جو رمضان کے دوران کسی مسافر کو‘ کسی مریض کو ‘ کسی بوڑھے کو دن کے وقت چائے کا ایک گھونٹ یا روٹی کا ایک نوالہ تک نہیں ملتا ‘ یہ سلسلہ جنرل صاحب کی حکومت سے پہلے نہیں تھا۔ شاید دنیا کے کسی مسلمان ملک میں ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے مشائخ اور علما کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کر کے مذہبی حلقوں میں بے پناہ اثر و رسوخ حاصل کیا۔ سرکاری خرچ پر حکومتی عمائدین اور دیگر امرا کے عمروں کا رواج بھی انہی کے دور میں پڑا۔مالی ڈسپلن کو تہِ تیغ کر دیا گیا۔ یہ ایک لحاظ سے بادشاہی کا دور تھا۔ قانون وہی تھا جو ان کی زبان سے نکلتا۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے ایک واقعہ لکھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عملاً بادشاہ تھے۔ترکی کے دورے کے دوران ‘ ترکی کے صدر نے ان کا تعارف ایک ایسے فنکار ‘ یا کھلاڑی سے کرایا جسے ترکی کے صدر علاج کے لیے امریکہ بھیجنا چاہتے تھے لیکن ترکی کی وزارتِ خزانہ اجازت نہیں دے رہی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے وہیں حکم دے دیا کہ اس کا علاج حکومت پاکستان کے خرچ پر کرا یا جائے۔ایسی غلط بخشیاں میاں نواز شریف کے دور میں بھی جاری و ساری رہیں۔ کئی ایسے افراد کو میاں صاحب نے سفیر تعینات کیا جو اہل نہیں تھے۔
اس ساری چارج شیٹ کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنرل ضیا الحق ذاتی زندگی میں صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔منکسر المزاج تھے۔ روایت ہے کہ ملاقاتیوں کو رخصت کرنے باہر آتے تھے اور ان کے لیے گاڑی کا دروازہ خود کھولتے تھے۔ مذہبی شعائر کا احترام کرتے تھے۔ اس حوالے سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جناب اعجاز الحق کی پرورش اور تربیت ایک کٹر مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ وہ خود بھی صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں اور شعائرِ اسلام کا احترام کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں کبھی کوئی سکینڈل سننے میں نہیں آیا۔ ان کے والدِ گرامی کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی مزار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوئے یا کسی کو انہوں نے یہ کہا کہ یہ وقت عمرے پر جانے کا نہیں تھا۔جنرل ضیا الحق کے طرزِ زندگی اور عمران خان کے طرزِ زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جو حکایتیں ‘ یا حقیقتیں عمران خان صاحب سے منسوب ہیں ‘ان کا جنرل صاحب کے حوالے سے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔عمران خان صاحب کو جب جنرل باجوہ نے پلے بوائے ہونے کا طعنہ دیا تو عمران خان نے جواب میں کہا کہ وہ پلے بوائے تھے۔ تو پھر ‘ قدرتی طور پر‘ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اعجاز الحق ‘ عمران خان سے کیوں آملے ہیں ؟ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والدِ محترم سے نفاذِ اسلام میں جو کمی رہ گئی تھی‘ وہ عمران خان پوری کریں گے! اگر وہ واقعی ایسا سمجھتے ہیں تو ہنسنے یا انگشت بدنداں ہونے کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے! اخبار میں چھپی ہوئی خبر کے مطابق جناب اعجاز الحق نے تحریک انصاف میں شامل ہوتے وقت کہا ہے کہ '' عمران خان امتِ مسلمہ کے قابل اعتماد قائد ہیں‘‘۔ کیا وہ بتانا پسند کریں گے کہ کس کس مسلمان ملک کے باشندوں نے عمران خان پر امتِ مسلمہ کے قائد کے طور پر اعتماد کا اظہار کیا ہے؟ کیا کوئی ایسا سروے ہوا ہے یا مسلم دنیا میں ریفرنڈم ہوا ہے ؟ ہم تو یہی عرض کر سکتے ہیں کہ:
ببین کہ از کہ بریدی و باکہ پیوستی؟
کہ حضور! کس درخت سے کٹ کر پیوند کاری کس درخت سے کر لی !!

Monday, March 27, 2023

سب سے بڑا مجرم


ان میں سے کچھ عمران خان کے مخالف ہیں۔
الزام بلکہ الزامات‘ عمران خان پر یہ ہیں کہ وہ یوٹرن لیتا ہے۔ دروغ گو ہے۔ سازشی تھیوریاں پھیلاتا ہے۔ گجر اور بزدار جیسے افراد اس کی چھتری تلے تھے!
کچھ زرداری اور شریفوں کے مخالف ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ناجائز مال اکٹھا کیا ہے۔ پارٹیوں کو خاندانوں کے اندر قید کیا ہوا ہے۔ ٹیکس نہیں دیتے!
یہ سب کون ہیں؟ یہ جو عمران خان کو جھوٹا اور شریفوں اور زرداریوں کو چور کہہ رہے ہیں‘ یہ کون ہیں؟ یہ ہم عوام ہیں! ہم عوام کون ہیں؟ ہم عوام عمران خان سے زیادہ جھوٹے ہیں! ہم عوام شریفوں اور زرداریوں سے زیادہ چور ہیں! کیا آپ اسے مذاق سمجھ رہے ہیں؟ نہیں! یہ ایک انتہائی سنجیدہ بات ہے! صرف غور کرنے کی ضرورت ہے!
رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے۔ اشیائے خور و نوش کے نرخ کئی گنا بڑھ گئے ہیں! جو اشیا دکانوں اور گوداموں میں رمضان سے پہلے کی پڑی ہیں‘ ان کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں! کیا اس حرام خوری کی تلقین عمران خان نے کی ہے؟ کیا نواز شریف اور آصف زرداری نے اپیل کی ہے کہ قیمتیں راتوں رات چڑھا دو؟ کیا اسٹیبلشمنٹ اس کی ذمہ دار ہے؟ عید آنے والی ہے۔ بچوں کے کپڑے‘ جوتے‘ ہر شے پہلے سے زیادہ مہنگی کر دی گئی ہے! کوئی مانے یا نہ مانے‘ اس ملک میں سب سے بڑا جھوٹا‘ سب سے بڑا چور‘ عام آدمی ہے! یہ جو عام آدمی ہے‘ جمع جس کی عوام ہے اور واحد جس کی عام آدمی ہے‘ یہ عام آدمی انتہائی بے شرم‘ بے حیا‘ ڈھیٹ اور بد دیانت ہے! یہ عام آدمی سیاست میں ہے نہ اسٹیبلشمنٹ میں! یہ نہ بیورو کریٹ ہے‘ نہ جرنیل! مگر یہ سب سے بڑا فرعون ہے! یہ اپنے جیسے دوسرے عام لوگوں کا سب سے بڑا دشمن ہے! یہ پھل بیچتا ہے تو جان بوجھ کر گندے پھل تھیلے میں ڈالتا ہے۔ یہ موٹر سائیکل چلاتا ہے تو پیدل چلنے والوں اور گاڑیاں چلانے والوں کے لیے خدا کا عذاب بنتا ہے۔ یہ ویگن اور بس چلاتا ہے تو ہلاکت کا پیامی بن کر چلاتا ہے‘ لوگ دور بھاگتے ہیں! یہ ٹریکٹر ٹرالی اور ڈمپر چلاتا ہے تو موت کا فرشتہ بن جاتا ہے۔ ٹریکٹر ٹرالیاں اور ڈمپر‘ بلامبالغہ سینکڑوں گاڑیوں اور ہزاروں انسانوں کو کچل چکے ہیں۔ یہ سرکاری دفتر میں کلرک بن کر بیٹھتا ہے تو سانپ کی طرح پھنکارتا ہے اور بچھو کی طرح ڈستا ہے۔ یہ دفتر سے نماز کے لیے جاتا ہے تو واپس نہیں آتا۔ سائل انتظار کر کر کے نامراد ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ آپ ڈاکخانے جائیے‘ بورڈ لگا ہو گا ''ڈیڑھ بجے نماز کا وقفہ ہے‘‘۔ یہ وقفہ کب ختم ہو گا؟ کچھ معلوم نہیں! یہ عام آدمی دکاندار ہے تو گاہکوں کو اپنا غلام اور خود کو ہامان سمجھتا ہے۔ صبح جوتے خرید کر شام کو واپس کرنے جائیے، نہیں لے گا۔ واپس کرنا تو دور کی بات ہے‘ تبدیل تک نہیں کرے گا! اس کا گاہک بھی عام آدمی ہے۔ وہ دکاندار سے بھی زیادہ فریبی ہے۔ چیز اچھی خاصی استعمال کرکے واپس یا تبدیل کرنے آئے گا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ امریکہ وغیرہ میں یہ عام آدمی‘ جو ہم نے یہاں سے بر آمد کیا ہے‘ دھوکا دیتا ہے۔ مہمان آئیں تو وال مارٹ (وہاں کے سپر سٹور) سے نئے گدے (میٹریس) خریدتا ہے۔ مہمان چلے جائیں تو جا کر واپس کر آتا ہے (یہ شہادت ثقہ افراد نے دی ہے)۔ یہ عام آدمی انگلستان میں‘ گھر سے باہر نکلے تو وِیل چیئر پر ہوتا ہے۔ گھر کے اندر ہو تو چھلانگیں لگاتا ہے (اس کی بھی مضبوط شہادت ہے)۔
یہ عام آدمی گھر کا کوڑا گلی میں پھینکتا ہے۔ یہ دو کروڑ مکان کی تعمیر پر لگا دیتا ہے مگر پانچ ہزار کی بجری‘ گھر کے سامنے ٹوٹی ہوئی سڑک پر نہیں ڈلوا سکتا۔ یہ عام آدمی گھر بناتا ہے تو گلی کا کچھ حصہ گھر میں شامل کر لیتا ہے۔ دکان ڈالتا ہے تو نہ صرف فٹ پاتھ بلکہ آدھی سڑک پر اپنا سامان رکھتا ہے۔ یہ عام آدمی ناجائز تجاوزات کی شکل میں جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کا حساب لگائیے تو شریفوں اور زرداریوں کی مبینہ چوری سے ہزار گنا بڑی چوری ثابت ہو گی! یہ عام آدمی گیس کے محکمے میں ملازم لگتا ہے تو رشوت لے کر ناجائز‘ چوری چھپے‘ گیس کنکشن دیتا ہے۔ بجلی کے محکمے میں جائے تو گھر بیٹھ کر میٹر ریڈنگ کرتا ہے۔ ٹیلی فون آپریٹر لگے تو فون ہی نہیں اٹھاتا۔ آزما لیجیے۔ آپ کے گردے فیل ہو جائیں گے مگر آپریٹر آپ کی کال نہیں اٹھائے گا۔
یہ عام آدمی ہی ہے جس نے سیاست دانوں کی عادتیں بگاڑی ہیں۔ یہ خوشی سے ان سیاست دانوں کی‘ ان کے بچوں کی‘ ان کے خاندانوں کی غلامی کرتا ہے۔ یہ ساری زندگی ان کے جلسوں میں دریاں بچھاتا ہے۔ نعرے لگاتا ہے۔ ان کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑتا ہے۔ ان کی حمایت میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے جھگڑتا ہے یہاں تک کہ تعلقات توڑ دیتا ہے مگر اپنی اور اپنے کنبے کی حالتِ زار پر رحم کرتا ہے نہ سیاست دانوں سے اپنے حقوق مانگتا ہے۔ آپ علی بلال عرف ظلِ شاہ کے عمر رسیدہ‘ بے بس ماں باپ کی حالت پر غور کیجیے۔ تصور کیجیے ان کی راتیں کیسے گزرتی ہوں گی! ان کی باقی ماندہ زندگی ان کے لیے سزا سے کم نہیں۔ اس خاتون کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو مریم نواز کے ساتھ شاید تصویر کھنچوانا چاہتی تھی اور جس کے بارے میں مریم نواز نے کہا تھا کہ اسے پرے کرو۔ اس کی وڈیو بھی وائرل ہوئی تھی۔ یہ عام آدمی حمزہ شہباز‘ بلاول اور مونس الٰہی کے جلسوں میں بھی دریاں بچھائے گا۔ غربت نسل در نسل اس کے خاندان میں راج کرے گی مگر یہ فخر سے کہتا رہے گا کہ ہم اتنی نسلوں سے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ یا تحریک انصاف کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہی عام آدمی ہے جو سیاست دانوں کے کبیرہ گناہوں کا جواز تراشتا ہے اور ان کی غلطیوں پر غضبناک ہونے کے بجائے ان کا دفاع کرتا ہے۔
یہ عام آدمی اپنے جیسے عام آدمیوں کو اذیت پہنچاتا ہے۔ بیٹے کی شادی کرے تو لڑکی والوں سے جہیز مانگتا ہے۔ بیٹی کی شادی کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ نندوں اور ساس کو چلتا کرے یا ان کے اختیارات چھین لے۔ مسجد میں نماز پڑھنا شروع کرتا ہے تو مولوی صاحب کو اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ تجارت کرتا ہے تو کم تولتا ہے۔کسی کے گھرمیں ملازم ہو تو مالک کے ساتھ مخلص نہیں۔ کسی کو اپنا ملازم رکھے تو اس کے کھانے پینے اور لباس کا خیال نہیں رکھتا۔ پیروں‘ فقیروں کے پیچھے بھاگ کر خوار و زبوں ہوتا ہے مگر گھر میں بیٹھے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا۔
یہ ہے وہ عام آدمی جو چاہتا ہے کہ عمران خان‘ نواز شریف‘ زرداری اور چودھری‘ سب کے سب راتوں رات عمر بن عبد العزیزؒ بن جائیں۔رات دن ان پر تنقید کرتا ہے۔ اسے پورا یقین ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی راہِ راست پر ہے تو صرف وہی ہے اور باقی سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ سیاست پر‘ مذہب پر‘ ملکی نظام پر‘ امریکہ پر اس کا کہا حرفِ آخر ہے۔ وہی بلند ترین اتھارٹی ہے۔ وہ بہت خلوص سے کہتا اور سمجھتا ہے کہ اگر ملک کو اس کی تجاویز کے مطابق چلایا جائے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی!
جس دن یہ عام آدمی‘ آدمی سے انسان بن گیا تو اہلِ سیاست سے لے کر مقتدرہ تک‘ سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور اس کے انسان بننے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے

Thursday, March 23, 2023

پاکستان تب اور اب۔ آخری قسط


یکم اکتوبر 1947ء ڈیلی گزٹ کراچی: ملیر کراچی میں ایک ڈیری فارم پر رات دو بجے 25 افراد نے لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے حملہ کرکے دو ہندوؤں کو قتل کر دیا۔دو اکتوبر 1947ء ویسٹ بنگال: انڈیا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آج سے صوبے کی سرکاری زبان بنگالی ہو گی۔7اکتوبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: جبل پور انڈیا‘ صوبائی مسلم لیگ کے صدر مولانا برہان الحق نے کہا ہے کہ ان کے شہر والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ عید کے موقع پر گائے کی قربانی نہیں دیں گے اور نہ ہی مسجد کے سامنے گائے ذبیحہ برائے کفارہ کیا کریں گے۔7اکتوبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: انجمنِ احمدیہ سری نگر نے حکومتِ کشمیر سے کہا کہ وہ پاکستان سے الحاق کرے۔
8اکتوبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: پاکستان کے مرکزی وزیر خزانہ غلام محمد نے اقلیتی تاجروں کے وفد سے ملاقات میں واضح طور پر یقین دلایا کہ پاکستان ایک سیکولر‘ جمہوری‘ نہ کہ مذہبی ریاست ہے اور آپ میں سے ہر ایک کے وہی حقوق ہیں جو قائداعظم کے ہیں۔
8اکتوبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: انگلینڈ کے اخبار مانچسٹر گارڈین نے لکھا ہے کہ طاقتور افغانستان پاکستان کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہوگا۔ ہاں‘ البتہ کمزور افغانستان ہمیشہ پڑوسیوں کے لیے مسائل پیدا کرے گا۔
9اکتوبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: معلوم ہوا ہے کہ پاکستان پبلک سروس کمیشن میں ایک ہندو رکن کا تقرر بھی کیا جائے گا۔ انڈیا کی سی پی اور برار اسمبلی کے رکن مسٹر جی ایس گپتا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پاکستان ایک مذہبی ریاست اور فرقہ وارانہ تقسیم والا ملک بن گیا تو اس کے نتیجے میں ڈر ہے کہ ہندوستان بھی ویسا ہی ملک بن جائے گا۔
9 اکتوبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: مسٹر اسرار احمد صدر بدایوں مسلم لیگ انڈیا نے پاکستان کے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان کو تار بھیجا ہے کہ پاکستانی پنجاب میں اقلیتوں پر ظلم و ستم بند کرائے جائیں۔ اس لیے کہ ایسا کیے بغیر انڈیا میں مسلمانوں کا تحفظ نہیں ہو سکتا۔ پٹنہ انڈیا کے مسلمان شیعہ لیڈر جناب ایس کے عباس‘ جنرل سیکرٹری آل انڈیا شیعہ کانفرنس نے مسلمانوں سے بالعموم اور شیعہ حضرات سے بالخصوص اپیل کی ہے کہ وہ عید پر گائے کی قربانی نہ کریں اور اپنے مذہبی تہوار پُرامن طور پر منائیں‘ خواہ اس کے لیے اپنی قائم شدہ روایات سے انحراف ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ایسا کرنے سے بہتر نتائج نکلیں گے۔
11اکتوبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: لاہور کے ایک آنریری مجسٹریٹ کو معطل کر دیا گیا کہ اس نے ایک غیرمسلم کی بند دکان کو کھولا تھا۔
24اکتوبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: لاہور میں ریٹائرڈ سیشن جج شیخ دین محمد کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے ایک غیرمسلم کے مکان پر مجرمانہ قبضے کی کوشش کی تھی۔25اکتوبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: وزیراعلیٰ سندھ جناب محمد ایوب کھوڑو‘ وزیر تعلیم پیر الٰہی بخش‘ مئیر کراچی حکیم محمد احسن اور مرکزی وزیر سردار عبد الرب نشتر نے رام باغ گراؤنڈ کراچی میں ہندو تہوار دسہرہ میں شرکت کی اور ہندو برادری کو مبارکباد دی۔
28اکتوبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: قائداعظم نمازِ عیدالاضحی کی ادائیگی کے لیے چند لمحوں کی تاخیر سے عید گاہ پہنچے لیکن جونہی گھڑیال نے دس بجائے امام نے جماعت کے لیے اعلان کر دیا۔ نمازی کھڑے ہو گئے۔ قائداعظم کو جہاں جگہ ملی انہوں نے نماز ادا کی۔
9نومبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: حکومتِ پاکستان کے ایک ترجمان نے ان خبروں پر تشویش ظاہر کی ہے کہ چھ ہزار مسلمانوں کو سکھ مذہب قبول کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔ یہ غیر مناسب اقدام ہے۔ جب کہ لائل پور پاکستان میں پانچ ہزار سکھ اسلام قبول کرنا چاہتے تھے لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں ہونے دیا کیونکہ اس طرح جبراً یا حالات کی بدقسمتی سے مذہب کی تبدیلی کو مسلمان پسند نہیں کرتے۔
17نومبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: صوبہ سرحد کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کے بیٹے عبداللہ خان کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ایک سکھ کے متروکہ مکان پر زبردستی قبضہ کر رہے تھے اور حکام کی مداخلت کے خلاف مدافعت کر رہے تھے۔
22نومبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: گاندھی جی نے کہا ہے کہ دہلی فسادات کے دوران 32مساجد کو نقصان پہنچایا گیا۔
25نومبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: لاہور کے ایک نمایاں ہندو بزنس مین رائے بہادر سوہن لال‘ جو تقسیمِ ہند کے بعد لاہور سے دہلی منتقل ہو چکے ہیں‘ بذریعہ طیارہ لاہور سے دہلی آئے ہیں تاکہ اپنے دادا اور والد کی قائم کردہ روایت کے مطابق دس محرم کو چائے یا شربت کی (موسم کے لحاظ سے) سبیل کا اہتمام کر سکیں۔ رائے بہادر نے روزنامہ پاکستان ٹائمز کے نمائندے کو بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ اپنے دادا کی قائم کی ہوئی روایت کو وہ تیسری نسل میں نبھا رہے ہیں۔ حالانکہ اس دوران کئی مشکل ادوار آئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی طرف سے اسلام کے عظیم شہید امام حسینؓ کے لیے خراجِ عقیدت ہے۔27نومبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی رکن بیگم سلمیٰ تصدق حسین نے امریکہ سے واپسی پر کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کا تعلیمی نظام اوور ہال کرنے کی ضرورت ہے۔
28نومبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کراچی میں شروع۔ ملک بھر سے 45مندوبین کی شرکت۔ قائداعظم کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی تعلیم کو ان خطوط پر استوار کرنا ہوگا جو ہمارے عوام کے مزاج اور تاریخ و ثقافت سے ہم آہنگ ہوں اور جن میں جدید آلات اور دنیا میں ہونے والی ترقی کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔ فوری اور اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو سائنسی اور فنی تعلیم دیں تاکہ اپنی اقتصادی زندگی کی تشکیل کر سکیں۔ ہمارے لوگ سائنس‘ تجارت‘ کاروبار اور صنعت و حرفت قائم کرنے کی طرف دھیان دیں۔ یہ نہ بھولیے کہ ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے۔ میں اس بات پر بھی زور دوں گا کہ ہمیں ٹیکنیکل اور پیشہ ورانہ تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔29نومبر 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: کیپٹن ایم ایس جسپال فیروزپور انڈیا نے اپنے ایک خط میں کہا ہے کہ ہماری مقدس کتاب گرنتھ صاحب جو ہمارے عزیز افراتفری میں ماڈل ٹاؤن لاہور اپنے گھر میں چھوڑ آئے تھے‘ اس قدر احترام اور غلاف میں لپٹی ہوئی میرے پاس پہنچی کہ میں بہت متاثر ہوا۔ اور میرے دل میں قرآنِ مجید کے لیے احترام بڑھ گیا۔ میں لوگوں کو یہ واقعہ ہمیشہ سناتا رہوں گا۔ یہ خط پاکستان آرمی کے صوبیدار غلام محمد بہادر کے نام آیا جنہیں کیپٹن جسپال نے گرنتھ صاحب کی واپسی کی ذمہ داری تفویض کی تھی۔
12دسمبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: پنجاب مسلم لیگ کے صدر میاں افتخار الدین نے کہا ہے کہ پاکستان کو جمہوری ریاست بنانا ہے تاکہ معاشی اور معاشرتی مساوات قائم کی جا سکے۔ جہاں سب کو فری تعلیم اور صحت کی سہولتیں میسر ہوں۔ جو لوگ انڈیا کو بزور طاقت فتح کرنا چاہتے ہیں وہ نہ ہی پاکستان کے دوست ہیں اور نہ ہی انڈیا میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ہمدرد! معاملے کا حل صرف یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ دوستانہ طریقے سے رہا جائے۔18دسمبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: پاکستان کے مرکزی وزیر قانون جناب جگن ناتھ منڈل نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کی تمام اقلیتوں کی ایک مرکزی تنظیم ہونی چاہیے جو ان کے مفادات کا تحفظ کر ے کیونکہ اگر پاکستان کے مسلمانوں کے لیے مسلم لیگی ہونا ضروری ہے تو غیر مسلموں کے لیے بھی ایسی ہی ایک تنظیم کا جواز ہے!

Tuesday, March 21, 2023

پاکستان … تب اور اب

!

ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے کرنے کے لیے پہنچے ہی تھے کہ مغربی پاکستان سے انٹر ونگ (بین الصوبائی) طلبہ کا ایک اور گروپ آگیا۔ یہ حضرات بی اے ( آنرز) کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ان میں محمد سعید بھی تھے۔ تعلق بھِریا روڈ سندھ سے تھا۔ لباس لکھنوی سٹائل کا تھا۔ چوڑی دار پاجامہ زیبِ تن کرتے تھے۔ مطالعہ کے شوقین تھے اور خوش گفتار!
یہ اتفاق تھا کہ مغربی پاکستان سے جتنے طلبہ‘ بین الصوبائی سکالرشپ سکیم پر ڈھاکہ یونیورسٹی اور مشرقی پاکستان کی دیگر یونیورسٹیوں میں گئے‘ سب مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے تھے۔ یہ فیوڈل پس منظر رکھتے تھے نہ جرنیلوں اور سیاست دانوں کے خاندانوں سے تھے۔ سفارش کی بیساکھیاں کسی کے پاس نہیں تھیں۔ بس ایک بات مشترک تھی کہ سب پڑھاکو تھے اور پڑھے لکھے خاندانوں کے چشم و چراغ! چنانچہ تقریباً سبھی کے کیریئر شاندار بنے۔ کچھ سول سروس میں گئے‘ کچھ مسلح افواج میں! جو نجی شعبے میں گئے وہ بھی کامیاب ٹھہرے! محمد سعید نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور سول سروس کے لیے منتخب ہوئے۔ اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام کیا لیکن ایک کام عجیب اور مختلف کیا جس کا ذکر آج مطلوب ہے! محمد سعید قومی آرکائیوز میں بیٹھ گئے اور یکم اگست 1947ء سے لے کر 31دسمبر 1947ء تک کے قومی اخبارات چھاننا شروع ہو گئے۔ ایسی خبریں اور اشتہارات الگ کرتے رہے جنہیں پڑھنے والا اچنبھے میں پڑ جائے۔ شروع میں پاکستان کیسا تھا؟ قائداعظم اور ان کے ساتھی اسے کیسا بنانا چاہتے تھے؟ اس وقت پاکستان کی ثقافتی فضا کیسی تھی؟ سمت کون سی تھی؟ اس وقت کی خبریں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ملک کیا تھا اور کیا ہو گیا! محمد سعید نے آرکائیوز سے جو کچھ نکالا‘ اسے کتاب کی صورت میں شائع کر دیا تاکہ سب کچھ آج کے پاکستانیوں کے علم میں آجائے! کتاب کا نام ''پاکستان‘ یکم اگست 1947ء تا 31 دسمبر 1947ء‘‘ رکھا۔ 564صفحات کی یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کتاب سے کچھ حصے قارئین کو چونکانے کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں!
11اگست 1947ء ڈیلی گزٹ کراچی: پاکستان آئین ساز اسمبلی کے 69اراکین میں سے آج پچپن حاضر تھے۔ ان میں پندرہ غیر مسلم تھے۔
12اگست 1947ء ڈیلی گزٹ کراچی: آئین ساز اسمبلی نے قائداعظم کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا۔ اس موقع پر قائداعظم کے خطاب کی خاص خاص باتیں: مجھے علم ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں ہند کی تقسیم اور پنجاب اور بنگال کے بٹوارے کے ساتھ اتفاق نہیں۔ میری رائے میں اس مسئلے کا اس کے علاوہ اور کوئی حل نہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ اس کے حق میں فیصلہ صادر کرے گی۔ ہو سکتا ہے یہ رائے درست ہو اور یہ بھی کہ درست نہ ہو۔ لیکن اس کا فیصلہ بھی وقت ہی کرے گا ... وقت کے ساتھ ساتھ ہندو فرقے اور مسلمان قومیت کے چند در چند زاویے معدوم ہو جائیں گے۔ اب آپ آزاد ہیں۔ اس ملک پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں۔ اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں! آپ کا کسی مذہب‘ ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو‘ کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں!
15اگست 1947ء سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور: پاکستان میں ہندوستان کے پہلے ہائی کمشنر‘ شِری پرکاشا نے وزیراعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان سے کراچی میں ملاقات کے بعد یونائیٹڈ پریس آف انڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ نہ ہندو ہیں اور نہ مسلمان! مذہب ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی ہو گی اگر دونوں ملک ہندو اور مسلمان ملک کی پہچان رکھیں!
19اگست 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: قائداعظم نے شام کو برطانوی ہائی کمشنر کے ہمراہ ہولی ٹرنٹی چرچ کراچی میں منعقدہ سروس میں شرکت کی جس کا اہتمام قیامِ پاکستان کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔ اس میں محترمہ فاطمہ جناح اور مسٹر غلام حسین ہدایت اللہ گورنر سندھ نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر پادری نے سپیشل سرمن (Sermon) دیا۔
20اگست 1947ء سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور: سیشن جج کیمبل پور (اب اٹک) نے اپنے پہلے فیصلے میں چھ مسلمانوں کو سزائے موت سنائی۔ جنہوں نے گزشتہ مارچ ایک پڑوسی کو فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں قتل کر دیا تھا۔ دس ملزموں کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔
27اگست 1947ء سول اینڈ ملٹری اگست لاہور: ہندو کلچر اور مذہب کے تحفظ کے لیے سندھ یونیورسٹی نے ایک الگ بورڈ آف سٹڈیز قائم کیا ہے جو اسلامک سٹڈیز بورڈ سے مختلف ہوگا۔ اس طرح کے بورڈ دوسرے مذاہب اور کلچرز کی سٹڈیز کے لیے بھی قائم کیے جائیں گے۔
میاں ممتاز دولتانہ وزیر خزانہ پنجاب نے لاہور کے نزدیک غیر مسلم قافلے پر حملے کے نتیجے میں پانچ افراد کی ہلاکت اور پندرہ کے زخمی ہونے کی شدید مذمت کی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسٹ پنجاب سے مسلمان مہاجرین کو لانے والی ریل گاڑیاں امرتسر ہی سے واپس کر دی گئیں۔ ایسا لاہور والے واقعہ کے رد عمل میں کیا گیا۔
31 اگست 1947ء پاکستان ٹائمز لاہور: ٹھاکر ہربنس سنگھ میونسپل کمشنر کیمبل پور (اب اٹک) نے مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کے لیے قائم کردہ ریلیف فنڈ میں 750روپوں کا عطیہ دیا ہے۔
تین ستمبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: جمعیت علمائے ہند نے اپنے ایک خفیہ مراسلے میں اپنی جماعت کی پاکستان میں شاخوں سے کہا ہے کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کریں اور امداد کریں۔
تین ستمبر 1947ء سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور: پنجاب یونیورسٹی لاہور کے رجسٹرار سردار بہادر ایم جی سنگھ کو چھرا گھونپ کر قتل کر دیا گیا جس پر وائس چانسلر سمیت سب نے افسوس کا اظہار کیا۔
نو ستمبر1947ء ڈیلی ڈان کراچی:انڈین وزیراعظم پنڈت نہرو پرانی دلّی کے دورے کے دوران فساد زدہ علاقوں سے دو مسلمان لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے آئے۔
11ستمبر 1947ء سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور: جونا گڑھ کے دیوان سر شاہنواز بھٹو نے اس امر کی تردید کی ہے کہ جونا گڑھ میں غیرمسلم شہری خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست میں ہر طرف امن و امان ہے۔ یہ درست نہیں کہ جمعیت المسلمین کو اجتماع کی اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ طاقت کا مظاہرہ کر سکے۔
13ستمبر 1947ء ڈیلی ڈان کراچی: شام میں قائداعظم سے ملاقات کے لیے درج ذیل صاحبان تشریف لائے: سر محمد ظفر اللہ خان۔ مسٹر لائق علی۔ مسٹر کشور گدوانی۔
15ستمبر 1947ء ڈیلی گزٹ کراچی: قائداعظم نے آفریدی قبائلی ملکوں سے کہا ہے کہ کوئی بھی جوابی کارروائی نہ کی جائے کیونکہ انتقام لینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔16ستمبر 1947ء سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور: سر ظفر اللہ خان نے لندن میں کہا ہے کہ انڈین پنجاب میں فسادات کا مقصد مسلمانوں کا وہاں خاتمہ ہے۔ اگر انڈین حکومت مؤثر اقدامات نہ کر سکی تو معاملہ عالمی اداروں میں اٹھایا جائے گا۔
30ستمبر 1947ء ڈیلی گزٹ کراچی: حکومت پاکستان نے ایک پریس نوٹ میں اس تاثر کی نفی کی ہے کہ پاکستان میں سرکاری ملازمت میں صرف مسلمان ہوں گے۔ یہ حکومتی پالیسی نہیں ہے۔ ہم تمام ملازمین سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ آئیں اور حکومت پاکستان کو جوائن کریں۔ انہیں ہر لحاظ سے برابر تصور کیا جائے گا۔ (جاری)

Monday, March 20, 2023



یہ لطیفہ نما واقعہ تو اب پامال ہو چکا ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے کسی ریاست کے راجہ یا نواب نے چیف جسٹس کی جگہ چیف انجینئر کو لگا دیا۔ چیف جسٹس چھٹی سے واپس آئے تو انہیں چیف میڈیکل افسر تعینات کر دیا۔ یعنی ہر شخص وہ کام کر رہا تھا جو اُس کا نہیں تھا۔ ہم اس سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں۔اب ادارے وہ کام کر رہے ہیں جس کا ان سے کوئی واسطہ‘ کوئی لینا دینا نہیں! وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کا یہی احوال ہے۔اس نے ادبی میلوں کے انعقاد کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ یعنی شہر کی صفائی کا کام اب اکادمی ادبیات کرے گی اور خستہ شکستہ شاہراہوں کی درستگی ادارۂ فروغِ اردو کے ذمے ہو گی! حضور! جو آپ کے فرائض ہیں وہ تو ادا کر لیجیے۔
تو کارِ زمین را نکو ساختی؟
کہ با آسمان نیز پرداختی!
زمین کے کام مکمل کیے نہیں اور آسمان کی کارسازی کو چل پڑے! صرف میلوڈی مارکیٹ کو دیکھ لیجیے۔ لگتا ہے اس ادارے کے کسی سربراہ نے اسے بنفسِ نفیس دیکھنے کی آج تک زحمت نہیں کی۔ یہ شہر کا دل ہے۔ اور بلا مبالغہ گندگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یہاں شہر کا معروف فوڈ پارک بھی ہے۔ اس فوڈ پارک سے اگر سنیما ( جو کبھی تھا) کی طرف آئیں تو نالیوں سے پانی اُبل رہا ہے اور کناروں پر بیٹھے عوام کھانے کھا رہے ہیں! سپر مارکیٹ اور جناح سپر مارکیٹ‘ جو کبھی شہر کی زینت تھیں‘ اب Slumsمیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ شہری پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جا بجا پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر روز گاڑیاں اور موٹر سائیکل چوری ہو رہے ہیں۔ الگ الگ سینکڑوں کے الگ الگ گینگ ہیں۔ بقول ظفر اقبال؎
بٹوے میرے کو لے اُڑا کون
ڈی سی آفس کے بس سٹاپا!
شہر کے بڑے پارک میں خواتین کی آبرو ریزیاں ہو رہی ہیں۔ چیف کمشنر اور ترقیاتی اداری کے چیئر مین کی پوسٹیں ایک دوسرے میں مدغم ہو چکیں۔ یعنی ٹو اِن ون! ڈپٹی کمشنر اور پولیس ان کے ماتحت! آبپارہ مارکیٹ اور اس کا نواحی علاقہ‘ جو شہر کا مرکز ہے‘ کثافت اور بدنمائی میں کسی تحصیل ہیڈ کوارٹر سے بھی بدتر ہے! ناروا تجاوزات نے شہر کا چہرا مسخ کر رکھا ہے۔ کیا ادارے کو معلوم نہیں کہ جو جگہیں مختلف سیکٹرز کے بازاروں میں پارکنگ کے لیے مخصوس کی گئی تھیں وہاں سٹال اور دکانیں بن گئی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اہلکار رشوت لے کر چشم پوشی کر رہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے لوگ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں! جس ادارے کے ذمے یہ سب کام ہیں‘ وہ لٹریری فیسٹیول منا رہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ ان حالات میں جب ایک ایک پائی کے لیے ملک‘ ہاتھ میں کشکول پکڑے‘ ایک ایک دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے‘ اس نام نہاد ادبی جشن پر کتنا روپیہ اُڑایا گیا ہے؟ یہ سوال پارلیمنٹ کو پوچھنا چاہیے! ہنسی آتی ہے کہ جس ادارے نے شہر کی قدیم ترین یونیورسٹی کے جسم کو درمیان سے کاٹ کر دوحصوں میں تقسیم کر دیا ہے وہ ادبی میلہ منا رہا ہے۔
ادب پر بڑے بڑے مشکل وقت آئے! پہلے شاعر اور ادیب درباروں میں بلائے جاتے تھے۔ سازشیں اور غیبتیں ہوتی تھیں۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی تھیں۔ مگر پھر بھی غیر ادیب کو ادیب اور ناشاعر کو شاعر نہیں بنایا جاتا تھا۔دربار سے وابستہ شعرا‘ با کمال ہوا کرتے تھے۔ متقدمین کو تو چھوڑیے‘ قریب کے زمانے میں قاآنی‘ ذوق اور غالب جیسے عبقری درباروں سے وابستہ تھے۔ ادب پر وہ زمانہ بھی مشکل تھا جب اخبارات نے ادبی صفحات کا ڈول ڈالا۔ عطاالحق قاسمی اور اختر امان مرحوم کو چھوڑ کر‘ ادبی صفحات کے باقی انچارج‘ ادب سے کم ہی علاقہ رکھتے تھے۔ پی ٹی وی کا عہد بھی ادب نوازی کا نہیں دوست نوازی کا تھا! سکرین پر مخصوص چہرے ہی دکھائی دیتے تھے۔ مگر اب جو ادبی میلوں کے نام پر تیرہ تالی کھیلی جا رہی ہے‘ اس کا سامنا ادب نے کبھی نہیں کیا تھا۔ ان میلوں کے منتظم‘ کراچی سے لے کر لاہور تک‘ وہ افراد ہیں جن کا ادب کی کسی صنف سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بنیادی طور پر ٹھیکیدار ہیں۔ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ‘ وہی سلوک کرتے ہیں جو ٹھیکیدار‘ لیبر کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ ٹھیکیدار‘ ایک سطر لکھنے کے قابل نہیں۔اب تو یوں بھی ان نام نہاد ادبی میلوں کے پیش منظر پر ان افراد کو لایا اور بٹھایا جا رہا ہے جن کا ادب سے کوئی رشتہ نہیں۔ کچھ میڈیا کے نمائندے ہیں اور کچھ سیاست دانوں کے چہیتے اور سیاسی پارٹیوں کے خدمتگار!!
اہلِ کمال کی بے قدری دیکھ کر رونا آتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ہمارے ٹاپ کے محققین اور مؤرخین میں سے تھے۔ تحریک پاکستان پر ان کا کام مثالی ہے۔ قائد اعظم کی زندگی کے ایک ایک ورق پر تحقیق کی اور جھاڑ جھنکار کو صاف کیا۔ مگر حرام ہے جو کسی ادبی میلے میں ان کی خدمات کو سراہا گیا ہو۔ کوئی شاہراہ ان کے نام پر ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا! بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ سر حد پار سے پاکستان کے دشمن بلائے جاتے ہیں جو پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی کرتے ہیں۔ کوئی انہیں ٹوکتا نہیں! منہ میں گھگنیاں ڈال کر بیٹھے رہے! یہ سب وہ ناشکرے ہیں جو پاکستان کی چاندنی‘ ہوا اور دھوپ سے متمتع ہو رہے ہیں!
تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو!
حال ہی میں اکرام چغتائی کی وفات ہوئی ہے۔ اپنی ذات میں نابغہ تھے۔ اتنا کام کیا کہ بڑے بڑے ادارے نہ کر سکیں! فرانسیسی اور جرمن زبانوں پر عبور تھا۔ اسّی سے زیادہ تصانیف ہیں جن کی بین الاقوامی فورمز پر تحسین کی گئی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا کہ اکرام چغتائی کو آسٹریا کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اگر چغتائی صاحب کسی سیاستدان کے زَلّہ خوار ہوتے تو اس اعزاز کی ملک بھر میں تشہیر ہوتی اور ان کے اعزاز میں تقریبات ہوتیں! اسلامک ریسرچ اکیڈیمی کراچی نے چغتائی صاحب کی علمی اور ادبی خدمات کے حوالے سے ارمغان( Festschrift)مرتب کر کے شائع کیا ہے۔ چغتائی صاحب اس میں بہت دُکھ سے لکھ گئے'' ان چالیس برسوں میں یورپ‘ امریکہ‘اور مشرق وسطیٰ کے متعدد سفر کیے۔کانفرنسوں میں حصہ لیا۔لیکن یہ سب دیارِ غیر کے علمی اداروں اور اربابِ دانش کا میرے مطالعات میں گہری دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ میرے دفتر سمیت ملک کے کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کا میرے غیر ممالک میں ان چار عشروں پر پھیلی ہوئی تحقیقی سرگرمیوں میں کوئی عمل دخل نہیں۔اور نہ کسی کی ذرہ برابر مالی امداد شامل ہے۔‘‘چغتائی صاحب کے یہ فقرے اس ملک کے ادبی اور علمی رخسار پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے! کیا کسی نام نہاد لٹریری فیسٹیول میں اتنی بڑی ادبی شخصیت کا ذکر تک کیا گیا؟ کیا صوبائی یا وفاقی حکومت کو کسی نے سفارش کی کہ لاہور کی کسی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کر دیا جائے؟ ہاں چغتائی صاحب کوئی کام اینٹی پاکستان کر جاتے تو یہ حاطب اللیل پورے پورے سیشن ان کے نام کرتے!میر نے ایسے ہی سکالرز کے لیے کہا تھا
گھٹ گھٹ کے رہے میرؔ سے جب مرتے جہاں میں
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم
لیکن دنیا میں نام جینؤئن سکالرز کا باقی رہتا ہے۔ تاریخ کام دیکھتی ہے! یہ نہیں دیکھتی کہ سیاسی پشت پناہی کس کی تھی اور پی آر میں کون تیز تھا! جو پیش منظر پر چھائے ہیں‘ ان کا سکّہ عارضی ہے کہ بقول ظفر اقبال 
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت

Thursday, March 16, 2023

ہم بھی کیا لوگ ہیں !!


ارے پاکستان کے حکمرانو! تم سے تو وہ موروثی بادشاہ‘ وہ آمر‘ سلطان محمود غزنوی ہی بہتر تھا جس نے فردوسی کو اس کا طے شدہ معاوضہ دیر سے بھیجا مگر اتنی دیر سے بھی نہیں! ادھر اونٹوں پر لدا معاوضہ شہر میں داخل ہوا‘ اُدھر فردوسی کا جنازہ اٹھا۔ مگر تم نے تو حد کر دی۔ قاضی عبد الرحمان امرتسری کو اُن کی زندگی میں اُن کا طے شدہ انعام کیا دیتے‘ تم نے اُن کا جنازہ اٹھنے کے بعد بھی تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزار دیا اور حقدار کو اس کا حق نہ دیا۔غلام محمد قاصر کا مشہور شعر ہے ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
قاصر مرحوم کو کم از کم محبت کرنا تو آتی تھی۔ ہمیں‘ یعنی ہمارے حکمرانوں کو تو کوئی ایک کام بھی نہیں آتا۔ سٹیل مل ہمارے حکمرانوں سے نہ چلی۔ گردن کا جؤا بنی ہوئی ہے۔ قومی ایئر لائن کی نعش نہیں سنبھالی جا رہی۔ سفید ہاتھی‘ مست سفید ہاتھی‘ پالے جا رہے ہیں۔ انہیں کھلا کھلا کر بیچارے عوام کی حالت قحط زدہ افریقیوں کی طرح ہو گئی ہے۔ پسلیاں دور سے گنی جا سکتی ہیں۔ بازو اور ٹانگیں سوکھ کر ماچس کی تیلیوں کی طرح ہو گئی ہیں۔ آنکھیں باہر نکل آئی ہیں۔ رخسار اندر کی طرف دھنس گئے ہیں۔ مگر مست سفید ہاتھیوں کا پیٹ ہے کہ بھر نہیں رہا۔ پوری دنیا کہہ رہی ہے اور پاگل کو بھی معلوم ہے اور بچہ بھی جانتا ہے کہ ان سفید ہاتھیوں کا ایک ہی علاج ہے‘ صرف ایک‘ کہ انہیں نجی شعبے کو بیچ دیا جائے مگر ہمارے حکمران ایسا کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے! انہیں یہ آسان لگتا ہے کہ عوام کے منہ سے نوالے چھین کر سٹیل مل اور خستہ شکستہ ایئر لائن کے دہانے میں ڈالتے جائیں! ایئر انڈیا نقصان میں جا رہی تھی۔ بھارتی حکومت نے اُٹھا کر نجی شعبے کو دے دی۔ وہ بھی نوالے منہ ہی میں ڈالتے ہیں۔ ان کے بھی دو ہی کان ہیں۔ دونوں کانوں کے درمیان پھنسا ہوا اُن کا بھی ایک ہی سرہے! بھیجا اُن کے بھی سر ہی میں ہے۔ وہ یہ کام کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے! کب تک اس عفریت کو پالتے رہیں گے؟
اور کون سا کام ہوا ہے؟ ڈالر اس وقت ہماری لائف لائن ہیں۔ ہر روز کروڑوں ڈالر سرحد پار جا رہے ہیں۔ ہماری لائق حکومت سے اس ڈکیتی کا استیصال نہیں ہو رہا! تو کیا اب عوام خود بارڈر پر جا کر پہرہ دیں؟ سرکاری ہسپتال مقتل ہیں اور سرکاری سکول کالج تعلیم کے منہ پر طمانچہ! ارے بھئی! اور تو اور ہماری حکومتوں سے آج تک ٹریفک کا نظام درست نہ ہو سکا۔ ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں آئے دن لوگوں کو قتل کر رہی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! ناروا تجاوزات نے ملک کو بدصورت کر رکھا ہے۔ آدھی آدھی شاہراہوں پر تاجروں نے قبضے کر رکھے ہیں۔ سرکاری محکمے مُک مکا کر کے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اسلام آباد میں جو جگہیں پارکنگ کے لیے بنائی گئی تھیں‘ وہاں بھی ٹھیلے اور سٹال لگے ہیں۔یہ سب کچھ لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں ! کوئی شنوائی نہیں! یہ سارے کام ہماری سرکار کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں!
تریسٹھ‘ چونسٹھ سال پہلے جب جنرل ایوب خان کی حکومت نے ملک کے صدر مقام کو کراچی سے کہیں اور منتقل کرنے کا ارادہ کیا تو اُس مقام کا انتخاب کیا گیا جہاں آج کل وفاقی دار الحکومت واقع ہے! تب عوام سے کہا گیا کہ نئے شہر کا نام تجویز کریں۔ اس ذہنی ایکسرسائز میں بیشمار افراد نے حصہ لیا‘ تاہم وفاقی کابینہ نے جس نام کا انتخاب کیا‘ وہ نام ''اسلام آباد‘‘ تھا۔ یہ نام قاضی عبد الرحمان امرتسری کی خوبصورت تخلیق تھا! قاضی صاحب تقسیم کے بعد ہجرت کر کے آئے تھے اور عارف والا میں آباد تھے۔ وہ سکالر تھے اور استاد!! اپریل1960ء میں حکومت نے انہیں آگاہ کیا کہ ان کا نام نئے دار الحکومت میں پلاٹ کے لیے رجسٹر ہو چکا ہے! قاضی عبد الرحمان صاحب کی عمر اُس وقت باون سال تھی۔ انہوں نے بہت خوشی کے ساتھ اپنی بیگم اور بچوں کو بتایا ہوگا کہ ان کی کاوش کو سراہا گیا ہے اور یہ کہ نئے شہر میں انہیں پلاٹ دیا جا رہا ہے۔ ان کے اور ان کے متعلقین اور احباب کے لیے یہ امتیاز یقینا قابلِ فخر تھا۔ہمارے کلچر کے عین مطابق لوگ دور و نزدیک سے مبارک دینے بھی آئے ہوں گے!
قاضی صاحب نے اور ان کے خاندان نے اُس طلسمی مکتوب کا انتظار کرنا شروع کر دیا جو ڈاک کے گھوڑے پر سوار ہو کر آنا تھا۔قاضی صاحب باون سے ساٹھ کے ہو گئے۔ بچے بڑے ہو گئے۔ خط نہ آیا۔ پھر وہ ستر سال کے ہو گئے۔ پیری نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا! دس سال مزید گزر گئے! اب وہ اسّی سال کے تھے۔ ان کے قو یٰ مضمحل ہو گئے۔ ضعف نے ان پر غلبہ پا لیا۔وہ دن بدن نحیف ہوتے گئے۔1990ء کا ایک اداس اور خاموش دن تھا۔ قاضی صاحب نے آخری بار گھر کے صدر دروازے کو ضرور دیکھا ہو گا کہ پوسٹ مین آ رہا ہے کہ نہیں! پھر فرشتے نے ان کے جسم سے جان نکالی اور آسمانوں کی طرف پرواز کرنے لگا۔ اُس وقت قاضی صاحب کی عمر بیاسی سال تھی!
اب ان کے پسماندگان نے اُس خط کا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ چلیے‘ اپنے انعام کو وصول کرنا اور دیکھنا قاضی صاحب کی قسمت میں تو نہ تھا۔ خاندان تو ضرور اس نعمت کو دیکھے گا اور اس سے متمتع ہو گا! ہفتے مہینوں میں بدلتے رہے۔مہینے سال بنتے رہے۔ یہاں تک کہ قاضی صاحب کی رحلت کو بھی بتیس برس ہو گئے۔انتظار کا یہ سارا عرصہ تریسٹھ سال پر مشتمل ہے۔ تیس سال ان کی زندگی میں اور بتیس تینتیس سال ان کی وفات کے بعد! اب تاریخ نے ورق الٹا ہے۔ وفاقی ترقیاتی ادارے کے موجودہ سربراہ کی توجہ کسی نے اس ظلم کی طرف دلائی ہے۔ انہوں نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ اب یہ پلاٹ قاضی صاحب کے خاندان کو دیا جائے گا اور نقصان کی تلافی کی جائے گی ! خاندان‘ ایک انگریزی معاصر کی رُو سے‘ عارف والا ہی میں رہتا ہے!
اب کون ہو گا ان کے خاندان میں؟ کیا ان کی بیگم حیات ہیں؟ یا بیٹے وارث ہیں یا بیٹیاں؟ کچھ معلوم نہیں ! مگر ٹھہریے! خوش نہ ہوں ! سرکار نے ایک بار پھر وعدہ کیا ہے۔ وعدہ ہی کیا ہے! دیا نہیں! یہ وعدہ تو تریسٹھ سال پہلے بھی ہوا تھا۔ اُس زمانے میں سرکارے ادارے آج کی نسبت زیادہ چست اور زیادہ مستعد تھے۔ اگر اُس بھلے زمانے میں کیا گیا وعدہ پورا نہیں ہوا تو کاتبِ تقدیر ہی جانتا ہے کہ آج کے کیے گئے وعدے کا کیا حال ہو گا۔ اگر‘ خدا نخواستہ‘ ترقیاتی ادارے کے موجودہ سربرا ہ کی ٹرانسفر ہو جاتی ہے تو یہ مسئلہ پھر نوکر شاہی کے اندھیرے غار میں گُم ہو جائے گا۔ بیورو کریسی کے کَٹ تھروٹ کلچر میں پیشرو کے شروع کئے گئے اچھے کاموں کی تکمیل کا کوئی رواج نہیں! اس لیے ہم التماس کریں گے کہ یہ کارِ خیر جتنا جلد ہو سکے‘ کر ڈالیے! کسی لٹریری فیسٹیول کا انتظار مت کیجیے۔ یہاں تو ایک پل کا کچھ پتا نہیں! احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎ 
پل پل میں تاریخ چھپی ہے‘ گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیمؔ
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بھول یہاں

Tuesday, March 14, 2023

لٹریچر سے مہنگائی تک



ڈھول پر تھاپ پڑ رہی تھی۔ ہر تھاپ کے ساتھسننے اور دیکھنے والوں کا دل باہر آجاتا تھا۔ پھر‘ اگلی تھاپ پر واپس چلا جاتا تھاعجیب‘ کَیف کا عالم تھا۔ سب ڈھول بجانے والے کو‘ اور شہنائی بجانے والے کو‘ پلک جھپکائے بغیر‘ دیکھ رہے تھے۔ نگاہیں ہٹتی نہیںتھیں۔ پھر نوجوان آئے اور لڈی کھیلنے لگے۔ ان نوجوانوں کے سا تھ ادھیڑ عمر اور بوڑھے بھی شامل ہو گئے۔زمین سے اٹھتا قدمپیچھے پڑتا‘ پھر آگے‘ اس دوران بازو ہوا میں لہرا کر تالی بجاتےکبھی سر کے اوپر‘ کبھی سامنےپھر ڈھول کی لیَ تیز ہونے لگی۔رقص کرنے والوں کے پاؤں تیزی سے پیچھے ہٹنے اور آگے پڑنے لگےدیکھنے والوں کے دل اسی تیزی سے رقص کرنے لگے۔ یہ کلچرتھا۔ مٹی سے جڑا ہوا کلچرنسل در نسل ساتھ چلتی ثقافتاس ثقافت کا کوئی نعم البدل نہیںاس لیے کہ جس مٹی میں ہم پیداہوتے ہیں‘ اُس مٹی کا کوئی نعم البدل نہیںہمارے جسم اسی مٹی سے بنے ہوتے ہیں۔ اسی مٹی سے اُگا ہوا رزق ہم کھاتے ہیں۔ اسرزق کو اُگانے میں وہ مٹی بھی شامل ہے جس سے ہمارے اجداد کے جسم بنے تھے۔ ہم سب‘ ہم بھی‘ ہمارے اجداد بھی‘ مٹی ہو کر‘ اس مٹی میں مِل جاتے ہیں۔ انسان پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائے‘ جرنیل بن جائے‘ کمشنر بن جائے‘ ارب پتی بزنس مین بن جائے‘ برسوںسے نیویارک یا لندن رہ رہا ہو‘ ڈھول کی اس تھاپ کو‘ لڈی کے اس رقص کو‘ نہیں بھول سکتا۔ ایک وڈیو نہیں بھولتیاب بھی یو ٹیوبپر پڑی ہو گی۔ خیبر میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی ری یونین تھی۔ ان میں اکثر ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹرز عمر رسیدہ تھیں۔بڑے بڑے مشہور سپیشلسٹ‘ بڑے بڑے نامور سرجنوہ سب ڈھول کی تھاپ پر رقص کر رہے تھے۔ اس وقت وہ ڈاکٹر نہیں‘ اپنی مٹیکے‘ اپنی دھرتی کے‘ بیٹے اور بیٹیاں تھیںیہ رقص نہیں‘ یہ ڈھول پر پڑتی تھاپ نہیں‘ یہ اپنی مٹی سے وابستگی اور اپنی زمین سےپیوستگی کی علامتیں ہیں !
یہ ثقافتی پروگرام‘ تلہ گنگ ادبی میلے ( لٹریری فیسٹیول ) کا آخری حصہ تھا۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ! لٹریری فیسٹیول صرفلاہور کراچی جیسے بڑے شہروں میں نہیں‘ چھوٹے شہروں میں بھی منعقد ہوتے ہیں۔ اور جو چھوٹے شہروں میں منعقد ہوتے ہیں وہزیادہ جینوئن ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹے شہروں کے ادبی میلے ٹھیکیداروں کے تصرف میں نہیں ہوتے۔ یہاں جنوب سے آنے والے نام نہاددانشور پنجاب پولیس پر تبرّا بھیجنے کے بہانے صوبائیت کا زہر نہیں پھیلاتے۔تلہ گنگ ادبی میلہ‘ ادبی میلوں کی اس کاروباری گھٹنمیں ایک خوشگوار جھونکا تھا۔ اس کے انعقاد کا بیڑہ '' تلہ گنگ پروفیشنل نیٹ ورک‘‘ نے اٹھایا جو ایک فلاحی تنظیم ہے۔ تلہ گنگ کےاعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اس تنظیم کو چلا رہے ہیں۔ ملک سہیل اعوان‘ جو اقوام متحدہ میں اعلیٰ منصب پر فائز ہیں‘ اس تنظیم کے روح ِرواں ہیں۔ ترقیاتی امور کی ماہر‘ نگہت النسا ان کی دست ِراست ہیں۔ اس فیسٹیول میں جن سکالرز اور مصنفین کو مدعو کیا گیاتھاوہ اپنے اپنے شعبے میں ٹاپ پر ہیںیہاں پروفیسر ڈاکٹر افتخار ملک سے ملاقات ہوئی جو برطانیہ میں تاریخ کے معروف پروفیسراور محقق ہیں۔The Silk Road and Beyondان کی معرکہ آرا تصنیف ہے۔پی ایچ ڈی امریکہ سے کی۔ درجنوں کتابیں تصنیفکیں۔ فیسٹیول میں ان کی گفتگو سنی تو یوں لگا اصفہان سے سمرقند تک ان کے ساتھ پھر رہے ہیں۔ ایک سوال انہوں نے دلچسپاٹھایا کہ ہمارے ہاں بچوں کا نام سکندر رکھا جاتا ہے‘ پورس کیوں نہیں رکھا جاتا ؟ پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ اعوان سے ملاقات ہوئی جواسلام آباد یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے کی سربراہ رہیں۔ زراعت کے بین الاقوامی ماہر‘ ملک فتح خان کی گفتگو از حد مفید تھی۔ملک فتح خان نے اپنے فارم پر زیتون کے دس ہزار پودے لگا کر دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ بریگیڈیئر (رفتح خان نے اپنےتجربات حاضرین سے شیئر کیے۔ بریگیڈیئر (رفتح خان نے اپنے گاؤں‘ دندہ شاہ بلاول‘ میں ہسپتال قائم کر کے کمال کر دیا ہے۔ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ کی مشینیں مہیا کیں۔دو ایمبولینسیں ہیں۔ لیبارٹری ہے۔ ساڑھے چھ لاکھ مریض اب تک فیضیاب ہو چکے ہیں!
فیسٹیول میں نئی تصانیف کا تعارف کرایا گیا۔ سول سروس میں نیک نامی حاصل کرنے والے تنویر ملک نے '' شہر آشوب تلہ گنگ‘‘ لکھکر ایک نئے اسلوب کی طرح ڈالی ہے۔ کتاب میں شہر یہی ہے جو موجود ہے۔مگر لوگ وہ نہیں ہیں۔ رفتگاں کا تذکرہ عجب دلسوز اندازمیں کیا ہے۔ سعید اختر ملک کے افسانوں کے مجموعے ''سوچ دالان‘‘ پر گفتگو ہوئی۔سعید اختر ملک نے اپنے علاقے میں سکولوں کیعمارتیں تعمیر کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔نمل میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر ملک نے میڈیا سے متعلق سیشنکو مہارت سے چلایا۔ سوشل میڈیا کے ان پہلوؤں پر گفتگو کی گئی جو نوجوانوں کو درپیش ہیں۔ بڑے شہروں سے دور‘ بہت ٹیلنٹ ہےخاص کر آئی ٹی کے شعبے میںان بچوں کو درست رہنمائی درکار ہے تا کہ ان کا ٹیلنٹ غلط سمت نہ چل پڑےان کے پاس اعلیٰ تعلیمکے لیے وسائل نہیں۔ افرادی قوت ضائع ہو رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ زیاں کا احساس نہیں ہے۔
پس نوشتمہنگائی کا جن پوری طرح بوتل سے نکل کر سامنے آچکا ہے۔ بد قسمتی کی انتہا یہ ہے کہ اللے تللے اسی طرح جاری ہیںعوام کچھ سوالات اٹھا رہے ہیںیہ سوالات پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوؤں کو اٹھانے چاہئیں مگر جہاں پارلیمنٹ مسئلے کا حصہ ہو وہاں وہمسئلہ حل کیا کرے گی؟ سوالات یہ ہیں! 1: کیا ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے سالِ رواں کے اخراجات پبلک کیے جائیں گے؟ 2: کیاوزیراعظم آفس کے اخراجات گھٹائے گئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو تفصیل؟ 3: اس وقت وزیراعظم کے کتنے کیمپ آفس ہیں اور کہاں کہاں؟ان کے اخراجات کی تفصیل بتائی جائے۔ 4: لاہور میں وزیراعظم کے کتنے گھروں کو وزیراعظم ہاؤس قرار دیا گیا ہے؟ ان کے اخراجاتعوام کے ساتھ شیئر کیے جائیں! 5: وفاقی کابینہ کے ارکان کے زیر استعمال گاڑیوں کی کیا تعداد ہےیہ گاڑیاں کون کون سی ہیں؟ان گاڑیوں کے پٹرول اور مینٹی ننس پر ہر ماہ سرکاری خزانے سے کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ 6: سالِ رواں میں (یکم جولائی سے اب تکارکانِ پارلیمنٹ کے علاج پر سرکار ی خزانے سے کیے گئے اخراجات کی تفصیلات کیا ہیں؟ 7: ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں پر ہر ماہکتنی رقم خرچ ہو رہی ہے؟ 8: پارلیمنٹ کے کیفے میں کھانے کے نرخ پبلک کیے جائیں‘ حکومت ہر ماہ اس حوالے سے کتنی سبسڈی دےرہی ہے؟ 9: بیورو کریسی کی سینئر سطح نے گاڑیوں کی Monetisation کے نام پر حشر برپا کیا ہوا ہےحکومت اس مد میں ہر ماہکتنی رقم دے رہی ہے؟ 10: Monetisation کے باوجود‘ افسر شاہی کے پاس سرکاری گاڑیاں کتنی ہیں؟ ان کے پٹرول کے ماہانہاخراجات کیا ہیں؟ 11: کیا سرکاری ظہرانوں اور عشائیوں کے مینیو پر نظر ثانی کی گئی ہے؟ 12: تقریباً سنچری جتنی کابینہ کےارکان کو جو پی اے‘ پی ایس‘ ڈائریکٹر‘ ڈرائیور‘ نائب قاصد اور دیگر سٹاف مہیا کیا گیا ہے‘ اس کی کل تعداد کیا ہے؟ اور ان کیتنخواہوں کے ماہانہ اخراجات؟
سوالات اور بھی ہیں مگر انہی کے جواب مل جائیں تو غنیمت ہے۔ یہ تاثر عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے کہ بالائی طبقہمہنگائی کی یلغار سے محفوظ ہےزد صرف عوام پر پڑ رہی ہے۔ وہ بھی مڈل کلاس پراس ملک میں مڈل کلاس یوں بھی آٹے میں نمککے برابر ہے۔ اسے بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سرحد پار‘ بھارت میں‘ مڈل کلاس کا سائز مسلسل بڑھ رہا ہے!!!


بشکریہ  روزنامہ دنیا 


 

powered by worldwanders.com