Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, December 31, 2013

شام پئی بن شام محمد

اب ہم دوسری بات کی طرف آتے ہیں اور ثبوت اور حوالے کے ساتھ آتے ہیں۔ یہ کہنا خلافِ واقعہ ہے کہ علامہ اسد کو ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن سے قائد اعظم کی رحلت کے بعد ظفر اللہ خان نے نکالا یا نکلوایا۔ نہ ہی یہ سازش تھی ۔قادیانی وزیرِ خارجہ کی ہمّت اور طاقت ہی نہ تھی کہ علامہ اسد کو وہاں سے نکال باہر کرتا۔
یہ تبادلہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کیا اور قائد اعظم کی وفات سے سات یا آٹھ ماہ قبل جنوری 1948ء میں کیا۔ اس لیے کہ لیاقت علی خان وزارتِ خارجہ میں علامہ اسد سے وہ کام لینا چاہتے تھے جو اور کوئی نہیں کر سکتا تھا۔
علامہ اسد حکومتِ پنجاب کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن میں کام کر رہے تھے کہ جنوری 1948ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انہیں کراچی بلایا۔ یہ واقعہ وہ اپنی خودنوشت ’’Home Coming of the Heart‘‘میں بتاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے انہیں کہا’’آپ پاکستان کے اُن معدود ے چند لوگوں میں سے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ کو عربی اور فارسی پر کامل دسترس حاصل ہے۔ ہمیں وزارتِ خارجہ میں آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔‘‘
لیاقت علی خان نے علامہ اسد کو وزارتِ خارجہ میں کیوں لگایا؟کاش!علامہ اسد کے بارے میں واقعات مسخ کرنے اور اپنی طرف سے گھڑنے والے حضرات تحقیق کرنے کی زحمت گوارا کرتے۔ سعودی عرب میں پاکستان کا سفارت خانہ ہی نہ تھا۔مصر میں تعینات پاکستانی سفیر سعودی عرب میں پاکستانی امور نمٹاتا تھا۔ دوسری طرف بھارت کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کر رہا تھا۔بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرونے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ یہ دورہ اس قدر کامیاب تھا کہ سعودیوں نے ’’امن کا سفیر‘‘ کے نعروں سے نہرو کا استقبال کیا۔
پاکستان کا سفارت خانہ سعودی عرب میں علامہ اسد نے کھلوایااور یہ کام ان سے لیاقت علی خان نے لیا۔ حیرت ہے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے اس کا کریڈٹ چھینا جا رہا ہے!لیاقت علی خان کے اس کارنامے کو بلیک آئوٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟وہ بھی اسلام کے نام پر؟یہ کون سی اسلام پسندی ہے اور اسلام کی کون سی خدمت ہے؟
پاکستان نے فیصلہ کیا کہ اعلیٰ سطح کا وفد سعودی عرب بھیجا جائے جو پاکستانی سفارت خانہ کھولنے کی اجازت حاصل کرے۔لیاقت علی خان نے قومی اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان کو اس وفد کا سربراہ مقرر کیا لیکن عملاً وفد کی سربراہی محمد اسد کے سپرد تھی۔ وہ وزارتِ خارجہ میں تعینات تھے۔ وزارتِ خارجہ میں انہیں وزیر اعظم لیاقت علی خان نے لگایا تھا۔ اللہ کے بندو!ظفر اللہ خان کو کیا پڑی تھی کہ علامہ اسد کو وزارتِ خارجہ میں لگاتا یا لگواتا؟اُسے کیا ضرورت تھی کہ علامہ اسد سے پاکستان کے حق میں اتنا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دلواتا؟تاریخ کو کیوں مسخ کرتے ہو؟قائد اعظم کی طرح لیاقت علی خان بھی اس قوم کے محسن ہیں۔ اُن کے کارناموں پر دروغ گوئی سے کیوں سیاہی پھیرتے ہو؟
وفد میں علامہ اسد کی کارکردگی نے بھارتی لابی کے خواب چکنا چور کر دیے۔محمد اسد عربی عربوں کی طرح بولتے تھے۔سعودی بادشاہ عبدالعزیز بن سعود کے وہ منہ بولے بیٹے تھے۔ اُس وقت کے سعودی وزیر خارجہ فیصل(جو بعد میں بادشاہ بنے)محمد اسد کے پرانے دوست تھے۔ علامہ اسد نے سعودی بادشاہ سے پاکستانی سفارتخانہ کھولنے کی اجازت حاصل کر لی۔ الحمد اللہ !خدا اس کارنامے کی جزا محمد اسد کو دے اور لیاقت علی خان کو بھی۔ وفد میں آزاد کشمیر کی نمائندگی صدر آزاد کشمیر کے معاون یعقوب ہاشمی کر رہے تھے۔ ان کے الفاظ میں…’’پاکستانی وفد کے قائد سمیت ہر ممبر نے محسوس کیا کہ اگر علامہ اسد ساتھ نہ ہوتے تو شاید وفد کو بادشاہ سے ملاقات کا موقع بھی نہ ملتا۔علامہ کی گفتگو کا سعودی حکمران پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ نہ صرف انہوں نے سفارتخانہ کھولنے کی اجازت دیدی بلکہ ہمیشہ کے لیے اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو سلطنت سعودی کے انتہائی قریبی دوست کی حیثیت میں منتخب کر لیا۔ آج پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ جو گہرے برادرانہ مراسم ہیں وہ اسی وقت سے چلے آ رہے ہیں۔ (یعقوب ہاشمی کا یہ بیان لاہور کے ایک روزنامے کی 27۔اگست 1982ء کی اشاعت میں چھپا)۔
سعودی عرب بھیجنے سے پہلے لیاقت علی خان نے علامہ اسد کو پاکستانی پاسپورٹ دینے کا حکم دیا۔ یہ پہلا پاسپورٹ تھا جو پاکستانی حکومت نے جاری کیا۔ کچھ حضرات یہ بھی کہتے پھرتے ہیں کہ یہ پاسپورٹ قائد اعظم کے حکم سے ملا جبکہ قائد اعظم کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اپنی خودنوشت کے صفحہ 128اور 129پر محمد اسد نے ساری تفصیل لکھی ہے۔ لیاقت علی خان انہیں وزارتِ خارجہ میں تعینات کر چکے تھے اور مشرق وسطیٰ کے دورے پر بھیجنے کا فیصلہ بھی کر چکے تھے۔ ابھی پاکستانی پاسپورٹ بننے شروع نہیں ہوئے تھے۔ کبھی کہا جاتا کہ ان کے پاسپورٹ پر برطانوی شہری لکھا ہو گا۔ کبھی کہا جاتا کہ وہ آسٹرین ہیں۔ محمد اسد لکھتے ہیں:
’’میں بے سروپا باتیں سُن سُن کر تنگ آ گیا۔ بالآخر میں نے وزیر اعظم کے ذاتی معاون کو فون کیا اور ان سے عرض کیا کہ براہ مہربانی وزیر اعظم سے میری ملاقات کرا دیجیے ۔کچھ دیر بعد میں لیاقت علی خان کے دفتر پہنچا اور انہیں اپنی مشکل سے مطلع کیا۔ انہوں نے اپنے سیکرٹری کو کہا کہ فوراً پاسپورٹ افسر کو بلائیں۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا‘وزیر اعظم نے انہیں جلد پاسپورٹ بنانے کا حکم دیا اورساتھ ہی کہا کہ اس پر ’’پاکستانی شہری‘‘ کی مہر ثبت کرے۔ اس طرح مجھے پہلا پاسپورٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جس پر ’’پاکستانی شہری‘‘لکھا گیا تھا…‘‘
جن باتوں کا قائد اعظم سے کوئی تعلق نہیں‘انہیں ان سے منسوب کر دینا۔ وہ بھی کسی شہادت کسی ثبوت کسی تحقیق کسی حوالے کے بغیر…آخر یہ نظریۂ پاکستان کی کون سی خدمت ہے؟
رہی یہ بات کہ …’’اپنی سوانح عمری ’یورپی بدو ‘میں علامہ اسد نے لکھا تھا…‘‘۔تو یہ اس لیے صریحاً غلط ہے کہ علامہ اسدکی سوانح عمری کا نام’’یورپی بدو‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’ Home Coming of the Heart‘‘ہے اور یہ ان کی خودنوشت کا دوسرا حصہ ہے۔ پہلا حصہ ’’دی روڈ ٹُو مکّہ ‘‘ ہے۔ ’’یورپی بدو‘‘کے نام سے تو کسی کتاب کاوجود ہی نہیں!یہاں ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ ایک عالمِ دین کو کسی نے آ کر بتایا کہ مولوی صاحب کی بیٹی کو کتا کھا گیا ہے۔ پوچھا تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ جواب دیا ،قرآن پاک میں لکھا ہے۔ عالمِ دین نے ایک لحظہ سوچا پھر اُسے بتایا کہ نہیں‘وہ مولوی صاحب نہیں تھے، پیغمبر تھے۔ بیٹی نہیں ‘بیٹا تھا۔کتا نہیں تھا ،بھیڑیا تھا اور بھیڑیے نے بھی کھایا نہیں تھا‘وہ تو بھائیوں نے جھوٹ بولا تھا۔ تو ’’یورپی بدو‘‘علامہ اسد کی خودنوشت نہیں بلکہ اکرام چغتائی کی تصنیف ہے اور اس کا درست نام ’’محمد اسد ایک یورپین بدوی ‘‘ہے۔ جو قارئین علامہ اسد کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں تفصیلات جاننا چاہتے ہیں‘ ان کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ جناب اکرام چغتائی نے علامہ اسد پر چار کتابیں لکھی ہیں اور یہ کام انہوں نے طویل ریاضت سے سرانجام دیا ہے۔ اس کے لیے وہ کئی بار آسٹریا اور جرمنی بھی گئے۔وہاں کی حکومتوں نے انہیں اعزازات سے بھی نوازا ہے۔ جرمن زبان پر بھی انہیں عبور حاصل ہے اور اس وقت علامہ اسد پر وہ ایک اتھارٹی ہیں۔چغتائی صاحب کی دو کتابیں اردو میں ہیں۔’’محمد اسد ایک یورپین بدوی‘‘۔اور ’’بندہ ء صحرائی‘‘۔انگریزی میں ان کی تصنیف کا عنوان ہے۔
Muhammad Asad-:Europe's gift to Islamاور یہ دو جلدوں میں ہے۔ علامہ اسد کی خودنوشت کے دوسرے حصے ’’ہوم کمنگ آف دی ہارٹ‘‘کو بھی اکرام چغتائی ہی نے مرتب کیا ہے اور اس پر انتہائی معلومات افزا حواشی لکھے ہیں۔ خودنوشت کا آخری حصہ محمد اسد کی وفات کے بعد ان کی بیگم محترمہ پولا حمیدہ اسد نے تحریر کیا ہے۔
یہ زندگی‘اس کی پی آر اور یہا ں کے الیکٹرانک میڈیا پر جلوہ نمائی چند دن میں ختم ہو جائے گی۔ پھر ہم سب کو اپنے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے جہاں ہمیں ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہو گا۔…جذباتیت کے مارے ہوئے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے واقعات کو مسخ کرنا کَل گلے نہ پڑ جائے۔ میاں محمد بخشؒ کیا خوب تنبیہ فرما گئے ہیں    ؎ 
لوئے لوئے بھر لے کُڑیے جے تدھ بھانڈا بھرنا 
شام پئی، بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا

Monday, December 30, 2013

نفسیاتی عارضہ

                                                    یہ ستر کی دہائی کا آغاز تھا۔ کراچی دنیا کے بہترین شہروں میں سرفہرست تھا۔ امن و امان اس قدر تھا کہ رات کے ایک بجے لوگ پیدل چل کر جیکب لائنز‘ بندوخان کی دکان پر کباب اور پراٹھے کھانے آتے تھے۔ صدر‘ ریگل سے لے کر ایک طرف ایمپریس مارکیٹ تک اور دوسری طرف فریئر ہال تک ایسا علاقہ تھا کہ دامنِ دل کھینچتا تھا۔ دنیا کی کون سی چیز تھی جو اس علاقے میں نہ تھی۔ مسجدیں بھی تھیں‘ چرچ بھی تھے۔ آتش پرستوں (پارسیوں) کا معبد بھی تھا۔ کسی کو کسی سے خطرہ تھا نہ دشمنی نہ غرض۔ وہ جو کہتے ہیں کہ   ؎ 
بہشت آنجاست کازاری نباشد 
کسی را با کسی کاری نباشد 
بہشت وہ ہوتا ہے جہاں کسی قسم کا آزار نہ ہو‘ اور کسی کو کسی سے غرض ہو نہ احتیاج۔ تو یہی صورت حال تھی۔ پارسی اور مسیحی خواتین سکرٹ پہنتی تھیں جو عام نظر آتا تھا۔ آج کل جس طرح یو اے ای اور ترکی میں مسجدیں اور کلب دونوں آباد ہیں‘ کراچی میں بھی تب ایسا ہی تھا۔ دنیا بھر کے سیاح آتے تھے۔ سمندر کے ساحلوں سے لے کر فائیو سٹار ہوٹلوں کے حوضوں تالابوں تک‘ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔ 
یورپ کے سفیر‘ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی آباد ہونا پسند کرتے تھے۔ پوری دنیا میں اسلامی ملک ہونے کے حوالے سے پاکستان کی عزت تھی۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں چین‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ سنگاپور‘ برما‘ نیپال‘ سری لنکا‘ عراق‘ اردن‘ سعودی عرب‘ مصر‘ یوگنڈا‘ کینیا‘ ملاوی اور کئی دوسرے ملکوں سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اسلامی مدارس یہاں چوٹی کے تھے۔ مارشل لاء ہمارے ماتھے پر داغ لگا چکا تھا اور مشرقی پاکستان الگ ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود دنیا میں ہمارے پاسپورٹ اور ہماری کرنسی‘ دونوں کی بے حرمتی نہیں شروع ہوئی تھی۔ شرحِ ترقی مناسب تھی۔ لاتعداد ملکوں میں ہمارے نیلے سرکاری پاسپورٹ ویزے کے بغیر قبول کیے جاتے تھے اور عام پاسپورٹوں پر بھی کئی ایئرپورٹ‘ مسافروں کو وہیں ویزے دے دیتے تھے۔ 
ہم پاکستانی اس وقت بھی دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے شہری تھے۔ لیکن ہم لوگ تب نارمل تھے۔ ہماری نفسیات مسخ نہیں ہوئی تھی۔ ہم میں انسانیت موجود تھی۔ شلوار قمیض اور شیروانی پہننے والا پتلون پوش کو بھینگی آنکھ سے دیکھتا تھا نہ تھری پیس سوٹ پہننے والا باریش آدمی سے متنفر تھا۔ اسلحہ خال خال نظر آتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ہجوم کسی نیم پاگل کو مذہبی الزام میں پٹرول چھڑک کر جلا دے۔ یا دو نوجوانوں کو ڈاکو سمجھ کر نوچ کھائے اور ہڈیاں راستے میں پھینک دے۔ جو پاکستانی مسلمان نہیں تھے انہیں غیر مسلم کہا جاتا تھا اور جو مسلمان تھے انہیں کافر نہیں قرار دیا جاتا تھا۔ عقیدوں کی ’’حفاظت‘‘ کے لیے مسلح تنظیموں کا کوئی وجود نہ تھا۔ 
لیکن یہ سب کچھ… یہ امن و امان۔ یہ نیک نامی‘ یہ معاشی شرحِ نمو… یہ مذاہب‘ فرقوں‘ عقیدوں کا باہم محبت سے مل جل کر رہنا۔ یہ غیر ملکیوں کو خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہنا… یہ سب کچھ ہمیں راس نہ آیا۔ ستر کی دہائی ختم ہونے تک ہم نارمل سے ابنارمل ہو چکے تھے۔ شدید احساسِ کمتری نے ہمیں دبوچ لیا۔ ہم ہر شخص‘ ہر ملک‘ ہر مذہب پر شک کرنے لگے۔ ہمیں ہر کوئی دشمن نظر آنے لگا۔ ہمیں ساری دنیا سازشی لگنے لگی۔ ساتھ ہی ہم اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور خصوصی مسلمان گرداننے لگ گئے۔ ہم احساسِ کمتری کے مارے ہوئے اس تحصیل دار کی طرح ہو گئے جو اپنا تعارف مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر کہہ کر کراتا ہے حالانکہ جو کچھ وہ ہے‘ اس میں بھی عزت ہے۔ ہم اس راجپوت کی طرح ہو گئے جو اپنے آپ کو سید بنا کر پیش کرتا ہے حالانکہ اس کی اصل ذات بھی لائقِ فخر ہے۔ ہم نے علامہ اقبال کی کتابوں میں نکاح‘ طلاق‘ وضو اور تیمّم کے مسائل تلاش کرنے شروع کر دیے۔ قائداعظمؒ کو مولانا کے روپ میں دکھانے لگ گئے اور اس دُھن میں سچائی کو چھوڑ کر واقعات گھڑنے لگے اور اختراعات پر اُتر آئے۔ 
اس نفسیاتی بیماری کی ایک مثال قائداعظم کی وہ ’’ذاتی ڈائری‘‘ ہے جو جنرل ضیاء الحق نے ’’دریافت کی‘‘۔ ضیاء الحق نے قوم کو بتایا کہ بابائے قوم نے اس ’’ڈائری‘‘ میں پارلیمانی طرزِ حکومت کو ناپسندیدہ قرار دیا اور مضبوط صدرِ مملکت کی حمایت کی۔ سرکاری میڈیا نے اس ڈائری کو خوب خوب اچھالا۔ پروگرام اور بحثیں ہوئیں۔ لیکن جب میاں ممتاز دولتانہ‘ کے ایچ خورشید اور قائداعظم اکیڈیمی کے محققین نے ایسی کسی ڈائری کو ماننے سے انکار کردیا تو یہ ڈائری جس راستے سے آئی تھی اسی سے واپس چلی گئی۔ 
احساسِ کمتری کا یہ حال ہے کہ جو چیز ہمیں پسند آتی ہے‘ ہم اسے قائداعظم کے حوالے سے بلا جھجک پیش کر دیتے ہیں۔ ایسی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ ایسی ہی ایک حالیہ کوشش کی طرف دوستوں نے توجہ دلائی ہے۔ ایک انگریزی اور انہی کے اردو روزنامے نے اپنی 27 دسمبر کی اشاعت میں علامہ اسد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ’’پاکستان کے قیام کے بعد قائداعظم نے اپنے پہلے ایگزیکٹو اقدام کے طور پر ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم کرنے کے لیے احکامات دیے تھے‘‘۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’قائداعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے علامہ کا تبادلہ کرا دیا اور انہیں امور خارجہ سے وابستہ ملازمت دے دی۔ معاصر یہ بھی لکھتا ہے کہ ’’اپنی سوانح عمری ’’یورپی بدو‘‘ میں علامہ اسد نے لکھا تھا…‘‘ 
یہ نویسندہ علامہ اسد کی زندگی اور تصنیفات کا طالب علم ہے۔ علامہ اسد پر سالہاسال تحقیق اور کام کرنے والے محقق جناب اکرام چغتائی صاحب سے بھی مسلسل رابطہ اور استفادہ رہتا ہے۔ اس لیے اس ضمن میں وضاحت ضروری ہے تاکہ ریکارڈ درست رہے اور تاریخی حقائق مسخ نہ ہو جائیں۔ اوّل: پاکستان بننے کے بعد علامہ اسد کا قائداعظم سے کوئی رابطہ کبھی نہیں ہوا ورنہ اسد اپنی خودنوشت میں ذکر کرتے۔ دوم: ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم کرنے کے احکامات قائداعظم نے نہیں دیے تھے بلکہ علامہ اسد کے بقول وزیراعلیٰ پنجاب نواب ممدوٹ نے دیے تھے۔ علامہ اسد کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔ 
’’جوں ہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا ممدوٹ صاحب رسمی تکلفات کی پروا کیے بغیر ہی کہنے لگے۔ ’’اسد صاحب! میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کہا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا ہمیں قائداعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟ کئی روز سے مجھے ایسے سوال کا انتظار تھا چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا: ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا اس لیے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں 
پہل کیجیے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے جو ان نظریاتی مسائل کو زیر بحث لا سکے جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آئندہ حکومت کراچی (مرکزی حکومت) بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم ادھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں‘‘۔ نواب صاحب فوری قوت فیصلہ کے مالک تھے۔ چنانچہ انہوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیے۔ میں نے جواباً عرض کیا اس کا نام ’’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن مناسب رہے گا۔ ممدوٹ صاحب نے بلا توقف کہا بالکل درست ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اس کے اخراجات کا ایک تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طور اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبۂ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی مجھے امید ہے آپ اسے قبول کر لیں گے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہو جائے گا لیکن نواب ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا‘‘… (محمد اسد خودنوشت۔ مرتب اکرام چغتائی۔ مطبوعہ 2009ء۔ ناشر: دی ٹروتھ سوسائٹی گلبرگ 3‘ لاہور‘ صفحہ 111-112) 
علامہ اسد کے ان الفاظ سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ یہ کام قائداعظم نہیں بلکہ نواب ممدوٹ نے کیا تھا۔ ڈیپارٹمنٹ کا نام (اسلامک ری کنسٹرکشن) علامہ اسد نے خود تجویز کیا تھا۔ نواب ممدوٹ علامہ اسد سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس ضمن میں قائداعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟ اسد جواب دیتے ہیں ’’نواب صاحب آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے‘‘۔ ساتھ ہی علامہ اسد یہ بھی کہتے ہیں کہ قائداعظم ادھر زیادہ توجہ نہیں دے سکیں گے!! 
اس ضمن میں باقی حقائق کل کی نشست میں پیش کیے جائیں گے۔  

Friday, December 27, 2013

کم از کم چار اقدامات

یہ دنیا کا سب سے زیادہ طاقت ور اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم بھی ہے۔ راولپنڈی کو سِیل کر دیا گیا ہے۔ دس ہزار فوجیوں کو تیار رہنے کا حکم مل چکا ہے۔ تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ بائیس شہروں میں ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے 58شہروں میں موبائل سروس بند کر دی گئی ہے۔ کوئٹہ میں سکیورٹی اداروں کے پانچ ہزار مسلح اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ تمام داخلی راستوں پر پولیس کی نفری کھڑی ہے۔ باہر سے آنے والی ہر گاڑی کی چیکنگ ہو رہی ہے۔
یہ مملکتِ خداداد ہے۔ یہ دنیا میں اسلام کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔ تادمِ تحریر یہ اسلام کا واحد قلعہ ہے کیونکہ کسی اور ملک نے اپنے آپ کو ابھی تک یہ خطاب دینے کی جرأت نہیں کی۔ گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ شہر کے مختلف حصوں سے علماء اور دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا۔ آرمی کی بارہ کمپنیاں اور رینجر اور پولیس کے ریزرو دستے پہنچ چکے ہیں۔ تمام ہسپتالوں میں عملے کو الرٹ رہنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ سٹی پولیس افسر پوری رات دفتر میں موجود رہے۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مسلسل فضائی نگرانی کی جا رہی ہے۔یہ عظیم اسلامی مملکت‘اسلام دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے۔ ریلی جیسے ہی آگے بڑھی‘ پولیس کی بھاری نفری نے ریلی کو آگے جانے سے روک دیا جس پر ریلی کے شرکاء اور پولیس میں تصادم ہو گیا۔ پولیس نے آنسو گیس‘لاٹھی چارج اور فائرنگ کی۔ تیرہ سے زائد کارکن زخمی ہو گئے۔ پولیس اور کارکنوں کے درمیان آنکھ مچولی کئی گھنٹے جاری رہی۔ فائرنگ سے زخمی ہونے والے افراد کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ کچھ ہلاک ہونے کے قریب ہیں اور کچھ کی حالت خطرے سے باہر ہے۔یہ صورتِ حال یہود و ہنود کی سازش کا نتیجہ نہیں‘ اس حقیقت کا نتیجہ ہے کہ مذہب دلوں سے نکل کر گلیوں بازاروں باغوں پارکوں اور شاہراہوں پر آ گیا ہے۔ مذہب خدا اور بندے کے درمیان نازک ترین اور خفیہ ترین تعلق کا نام تھا۔ ’’اپنے رب کو زاری کے ساتھ چُھپ کر پکارو‘‘۔ پروردگار کو تو دائیں اور بائیں پہلوئوں پر لیٹے ہوئے یاد کرنا تھا۔ رات کے آخری حصے میں اُس سے باتیں کرنا تھیں۔ جو شہ رگ سے زیادہ قریب ہے‘ اُسے بلانے کے لیے تو ہونٹ ہلانے کی بھی ضرورت نہیں۔
قرآن حدیث میں کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ جلسے کرو‘ جلوس کرو۔ ریلی نکالو‘ کانفرنسیں کرو‘ نعرے لگائو۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے استادِ گرامی امام جعفر صادقؒ نے کتنے جلسوں سے خطاب کیا؟ کتنے جلوس نکالے؟ کتنی ریلیاں منعقد کیں اور کرائیں‘ کتنی شاہراہوں اور چوکوں کو کانفرنسوں سے بند رکھا؟کیا حشر کے روز ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے کتنے سُنیوں کو مارا‘ کتنے شیعہ قتل کیے؟ کتنے بریلوی‘ کتنے دیو بندی اور کتنے اہلِ حدیث ختم کیے۔ دوسرے مسلک والے سے کتنی نفرت کی؟کیا ہم سے یہ باز پرس ہو گی کہ تم نے اپنی کار کے پچھلے شیشے پر اور اپنی مسجد کی پیشانی پر اپنے عقیدے کا اعلان کیوں نہ کیا؟ایک پابندِ صوم و صلوٰۃ نوجوان روہانسا ہو کر بتا رہا تھا کہ فلاں بزرگ صورت نے اُسے کہا کہ تمہاری شکل یہودیوں والی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ بزرگ صورت نے پوری زندگی کسی یہودی کو نہیںدیکھا تھاورنہ یہ کہتے ہوئے کئی بار سوچتے۔
اعداد وشمار کچھ اور بتاتے ہیں۔ فحش فلمیں اور ممنوعہ جنسی مناظر دیکھنے میں‘ گوگل کے سروے کے مطابق‘ یہ ملک سرِفہرست ہے۔ جھوٹ اوروعدہ خلافی اس قدر عام ہے کہ انہیں برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ افریقہ کو چھوڑ دیا جائے تو پوری دنیا میں جعلی خوراک ‘ جعلی دوائیں‘ بے ایمانی ٹیکس چوری…اور بے شمار دوسری سماجی برائیاں…دنیا بھر کی نسبت یہاں زیادہ ہیں اور کسی کو ان اعداد و شمار سے انکار نہیں! یہ ملک قتل گاہ بن چکا ہے۔ اگر اسے قتل گاہ سے دوبارہ ایسا ملک بنانا ہے جو رہنے کے قابل ہو‘ تو کم از کم چار اقدامات کرنے ہوں گے۔
اوّل۔ مسجدوں اور امام بارگاہوں سے لائوڈ سپیکر مکمل طور پر نکال دیے جائیں۔ یہ کہنا کہ لائوڈ سپیکر صرف اذان کے لیے استعمال ہوں گے‘ خام خیالی ہے۔ لائوڈ سپیکر کی موجودگی میں اس کے استعمال پر پابندی لگانا ناممکن ہے۔
رہی اذان اور خطبہ‘تو کیا لائوڈ سپیکر سے پہلے اذانیں اور خطبے نہیں ہوتے تھے؟اگر کافروں کے ایجاد کردہ لائوڈ سپیکر پر اذان جائز ہے تو کافروں کے ایجاد کردہ ٹیلی ویژن پر کیوں نہیں جائز؟اذان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ہونی چاہیے۔سنگا پور کی مساجد میں لائوڈ سپیکر استعمال ہو رہے ہیں لیکن آواز مسجد سے باہر نہیں سنائی دیتی۔ ایسا شریفانہ اور قانون پسند استعمال ہماری امام بارگاہوں اور مسجدوں میں ناممکن ہو گا۔
دوم۔ امام بارگاہوں اور مسجدوں سے باہر کسی قسم کے مذہبی مسلکی‘دینی اجتماع‘ جلسے‘ جلوس‘ ریلی‘ کانفرنس پر مکمل پابندی لگانا ہو گی! اس قبیل کی تمام سرگرمیاں مسجدوں‘ امام بارگاہوں کی چار دیواری کے اندر محدود کرنا ہوں گی۔
سوم۔ راستہ گلی‘کوچہ‘سڑک‘شاہراہ کسی صورت میں بند نہیں کرنا ہو گی۔ کسی حاکم یا غیر ملکی وی آئی پی کے لیے رُوٹ نہیں لگے گا۔ کسی سیاسی‘ احتجاجی مذہبی جلوس کی وجہ سے کوئی راستہ بند ہو گا نہ ٹریفک روکی جائے گی!شادی اور موت پر قناتیں اور کرسیاں لگا کر راستہ بند کر دینا‘بدتہذیبی اور جنگلی پن کا بدترین مظاہرہ ہے۔ جنگل میں بھیڑیے بھی راستے پر نہیں‘ بلکہ راستے سے ہٹ کر بیٹھتے ہیں۔
  چہارم۔ کسی ایسے گروہ کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جو مذہب‘مسلک‘ فرقے یا عقیدے کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ کسی شیعہ‘ سنی‘ دیو بندی بریلوی یا اہلِ حدیث تنظیم کو پارلیمنٹ میں داخل کرنے کا کیا جواز ہے؟ پارلیمینٹ کا کام ملک میں معاشی ترقی لانا اور امن و امان قائم کرنا ہے۔ اور وہ اسی حوالے سے حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔ معاشی ترقی‘ مسلکی‘ مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر نہیں ہو سکتی! اسلام کے نام پر بنی ہوئی سیاسی جماعتوں سے سب سے پہلے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ لوگ مسلمان نہیں جو تمہاری جماعت سے باہر ہیں ؟
یہ ہیں وہ چار اقدامات۔ وہ کم سے کم چار اقدامات جن کے بغیر یہ قتل گاہ‘ قتل گاہ ہی رہے گی‘ ملک نہیں بن پائے گی!
یہاں اس واقعہ کا ذکر کرنا برمحل ہے جو کچھ عرصہ قبل متحدہ عرب امارات میں پیش آیا ۔ یہ خبر تقریباً تمام پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔…’’متحدہ عرب امارات نے معروف سکالر…کے درجنوں پیرو کاروں کو اپنے ملک سے دبئی میں درسِ قرآن کے اجلاس منعقد کرنے کی بناء پر نکال دیا ہے۔ یو اے ای کی حکومت نے کئی پاکستانی خاندانوں کو وارننگ دی ہے کہ فلاں تاریخ تک اپنے کاروبار ختم کر کے ملک سے نکل جائیں۔ یہ مذہبی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ ان لوگوں نے قانون شکنی کی تھی۔ تاہم اسے نکالے جانے والوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں۔ترجمان نے بتایا کہ وہاں پرائیویٹ مذہبی اجلاس منع ہیں۔ نمازِ جمعہ کے علاوہ مذہبی اجتماعات کی اجازت نہیں۔ دبئی پولیس نے ستر کے لگ بھگ پاکستانیوں کو مذہبی اجتماع میں شرکت کرنے کی وجہ سے گرفتار کیا ۔ ان میں سے تیس جلا وطن کر دیے گئے جبکہ باقی کو کہا گیا ہے کہ اپنا کاروبار سمیٹیں اور جولائی کے آخر تک ملک چھوڑ دیں‘‘
ایک مسلمان ملک کی حکومت درسِ قرآن کے لیے بھی پرائیویٹ اجتماع کی اجازت نہیں دیتی اور دنیا کے کسی عالم نے‘کسی مکتبِ فکر کے سکالر نے یو اے ای کی حکومت پر غیر اسلامی یا کافر ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا۔ ہاں! اگر وہ مسجدوں میں داخل نہ ہونے دیتی تو یہ فتویٰ لگ سکتا تھا۔ یہ ہوتا ہے ملک کو ملک رہنے دینے کے لیے اقدام!ہماری اطلاع کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ملکوں میں اُن تبلیغی گروہوں پر بھی پابندی ہے جو بّرِصغیر کے ملکوں سے جاتے ہیں۔

Tuesday, December 24, 2013

مجھ سے لینے لگے ہیں عبرت لوگ

یہ اٹھارہ دسمبر کی شام تھی، پانچ بجے کا وقت تھا، شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں خودکش حملہ آور نے کھجوری چیک پوسٹ سے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرادیا۔ سکیورٹی اہلکار مغرب کی نماز ادا کررہے تھے، نماز پڑھتے ہوئے پانچ اہلکار شہید ہوگئے اور 43 زخمی ہوئے، ان زخمیوں میں اکثریت کا تعلق پاک فوج سے تھا اور باقی ایف سی سے تھے۔
تعجب ہے کہ عمران خان کو ان پاکستانیوں کی شہادت کے بارے میں آج تک اطلاع نہیں ملی ورنہ موصوف ضرور اظہار افسوس کرتے۔
عمران خان کی سیاسی ’’ سرگرمیوں‘‘ کو دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ جس جماعت کو مرکز اور صوبوں میں اچھی بھلی انتخابی نمائندگی حاصل ہے ، اس کے طور اطوار ان جماعتوں کی طرح ہیں جو پارلیمنٹ سے باہر ہوتی ہیں اور اپنے آپ کو اِن رکھنے کے لیے یہ سارے جتن کرتی ہیں۔
سب سے زیادہ حیرت اس چوں چوں کے مربے پر ہے جو عمران خان نے اپنی دکان پر بیچنے کے لیے سجارکھا ہے۔ تاریکی پسند قوتیں اس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں ہیں۔ ایک صاحب جو مجسم غیظ و غضب ہیں، جن کی نخوت کی حکایتیں پاکستان سے شکاگو تک عام ہیں، جو بات کرتے وقت لاٹھی مارتے ہیں، عمران خان سے گزارش ہے کہ کسی وقت ان سے پوچھیں کہ مصر سے لے کر بنگلہ دیش تک ایک ایک لمحے کی خبر رکھنے والے یہ تکبرمآب پولیو مہم میں شہید ہونے والوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟وہ سب جو معصوم بچوں کو پولیو کی اذیت سے بچاتے ہوئے جانیں قربان کررہے ہیں،کیا وہ سب ان کی نظر میں مسلمان نہیں؟ کیا انسان بھی نہیں ؟ کیا یہ سب کیڑے مکوڑے ہیں؟ ورنہ آج تک ان کی شعلے اگلتی زبان سے ایک لفظ،نہیں،ایک لفظ تو دور کی بات ہے، ایک حرف تک افسوس کا قاتلوں کی مذمت میں نہیں نکلا۔یہ ہیں عمران کے رفقا اس’’عوامی‘‘ سفر میں!
ایک صاحب ٹیلی ویژن پر نمودار ہوتے ہیں۔ فرماتے ہیں:’’ اسی فیصد ہوسٹل تو خالی کر ہی دیے تھے‘‘۔ان سے کوئی پوچھے کہ باقی بیس فیصد میں کیا تھا؟صوبے کے سب سے بڑے ، قدیم ترین ادارے کو مکمل تباہی اور بدنامی سے دوچار کرنا قوم کی کون سی خدمت ہے۔ اگر کوئی سروے کرے تو حیران کن اعداد و شمار ملیں۔ سینکڑوں ہزاروں والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو اس تعلیمی ادارے میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ ایک کالم نگار نے کچھ دن پہلے،مذہب کے ٹھیکیداروں سے سوال کیا ہے کہ یہ ’’سیاسی ‘‘ سرگرمیاں آپ حضرات اپنے تعلیمی اداروں میں کیوں نہیں متعارف کراتے، اس لیے کہ کاروبار میں فرق پڑتا ہے؟ جائیدادوں اور زمینوں کے سوداگر، ہائوسنگ سوسائٹیوں کے بادشاہ اور بادشاہ گر۔۔۔اس ملک میں مذہب کے اجارہ داربن رہے ہیں! ؎
بھرم کھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اسی طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
تاریکی پسند قوتیں خود کچھ بھی نہیں۔ ان کا اپنا اتنا وزن نہیں کہ یہ کسی ترازو پر سوار ہونے کی جرأت کریں۔ یہ ہمیشہ کسی نہ کسی کا اٹیچی کیس بنتی ہیں۔مشرقی پاکستان پر افتاد پڑی تو پیپلزپارٹی کی ہاں میں ہاں ملاکر یحییٰ خان ، جنرل نیازی اور جنرل ٹکا خان کے ساتھ وابستہ ہوگئیں۔ پھر اداروں کو تباہی سے دوچار کرنے والے ضیا الحق کا زمانہ آیا تو ایک اور مضبوط ہاتھ مل گیا جس نے اس اٹیچی کیس کو پکڑلیا۔ ان تاریکی پسند قوتوں نے افغانستان میں وہ بھنگڑا کھیلا اور وہ لڈی ڈالی کہ آج تک قوم حساب دے رہی ہے۔ ڈالروں کی ریل پیل تھی، اللہ دے اور بندہ لے۔ اپنے بچوں کے چمکتے دمکتے پھلتے پھولتے کاروبار اور دوسروں کے بچوں کے لیے شہادت!
ان تاریکی پسند قوتوں کو عمران خان مل گیا ہے۔عمران خان کو جلسوں، جلوسوں، دھرنوں ،احتجاجی ریلیوں کے لیے اس شعبے کے ماہرین کی تلاش تھی۔ سو لنگڑا ، اندھے کے کاندھوں پر سوار ہے، راستہ بتاتا جارہا ہے اور اندھا چلتا جارہا ہے۔
افسوس! صد افسوس! وعدے کرنے والے عمران خان کو پورے صوبے کی حکومت ملی ہے اور کسی وعدے کے ایفا کے آثار نظر نہیں آتے۔ ٹیکس کے بارے میں عمران خان نے اتنی تقریریں کیں، اتنے اعلانات کیے، اتنے عہدو پیمان کیے تو ان ٹیکسوں کے حوالے سے جو صوبے کی تحویل میں ہوتے ہیں کیا تبدیلی آئی ؟ ٹیکس اور محصول صرف وفاقی تو نہیں ہیں۔ عمران خان نے اور ان کی جماعت نے خیبرپختونخوا میں اس میدان میں کون سا انقلابی اقدام اٹھایا؟ کوئی زرعی اصلاحات ؟ زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس ؟ کوئی محصول ؟ دور دور تک کوئی آثار نہیں کہ عمران خان فیوڈلزم پر ہاتھ ڈال سکیں۔ سطحیت زندہ باد!
راولپنڈی کے ایک سیاستدان جو عمران خان کے دست راست بنے ہیں ، ایک بیرومیٹر ہیں۔ اس بیرومیٹر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف بالکل اسی قبیل کی جماعت ہے جس قبیل کی مسلم لیگ نون ، قاف اور پی پی پی ہے۔ یہ سیاستدان پہلے مسلم لیگ ن میں تھے، وہ اقتدار سے محروم ہوئی تو یہ اس شاہی ہاتھی کے مہاوت بن گئے جس پر جنرل پرویز مشرف سوار تھے۔ آخری وقت تک یہ انہی کے ساتھ تھے۔ پرویز مشرف کے سنگی ساتھی مسلم لیگ نون میں جائیں تو بری بات ہے اور عمران خان کے ساتھ آملیں تو چاند تارے بن جائیں! واہ ! واہ ! کیا بات ہے!
نہیں ! نہیں ! یہ ان گروہوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ میدان کسی اور کے لیے سج رہا ہے۔ اس ملک کو تاریکیوں سے نکالنے کے لیے نئے سورج طلوع ہوں گے۔ جس طرح رانا ثناء اللہ ، حمزہ شہبازشریف ، عابد شیر علی ، سٹیل مل کو کرپٹ صوبائی حکومت کے ہاتھ بیچنے پر تیار خاقان عباسی اور تغلقوں، خلجیوں اور مغلوں کے سچے جانشین شریف برادران نیا پاکستان لانے سے قاصر ہیں، جس طرح راجہ پرویز اشرف ، یوسف رضا گیلانی ، امین فہیم ، قائم علی شاہ اور آصف زرداری قوم کی قسمت تبدیل کرنے کے اہل نہیں ، اسی طرح، بالکل اسی طرح شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین ، آصف احمد علی، باغی باغی کی تکرار کرنے والے جاوید ہاشمی ، شیخ رشید ، منور حسن ، سراج الحق اور ان سب کے سرخیل عمران خان انقلاب لانے کے قابل نہیں۔ ہوا نکل چکی ، اوس پڑچکی ، وہ جو نامعلوم کو دیکھنے کا شوق تھا پورا ہوچکا   ؎
سر شام کتنی امید، کیسا غبار تھا
مگر اس غبار میں سربریدہ سوار تھا
فسطائیت کیا ہے؟ اپنے وابستگان کو مستحق ٹھہرانا اور اسے میرٹ قرار دینا! اس فن کے ماہرین کو عمران خان اپنے ساتھ لے کر چلے ہیں۔ احرار کے بارے میں کہاوت تھی کہ ان کے پاس رات کو تین افراد ہوں اور آٹھ آنے (اس زمانے کے آٹھ آنے!) تو صبح تک تحریک چلادیتے ہیں۔آج ایسے گروہوں کے نام بھی کسی کو نہیں معلوم ! تاریخ کے مرگھٹ میں وقت کے شعلوں کی نذر ہوچکے۔ عمران خان سے توقع تھی کہ نئی روایات ڈالیں گے۔۔۔جیسے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب، الیکٹرانک میڈیا پر مباحثے اور یوں عوام تک رسائی۔ لیکن ان کی زبنیل سے بھی دھرنے اور جلوس ہی نکلے اور ساتھ وہ آزمودہ چہرے جنہیں دیکھ کر لوگ آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیں !! ؎
مجھ سے لینے لگے ہیں عبرت لوگ
عاشقی میں یہ اعتبار ہوا

Monday, December 23, 2013

کیا ہمارے ڈاکٹر……؟

الطاف سے قرابت تھی۔ ہم گائوں میں پڑوسی تھے اور ہمجولی بھی۔ جولائی کی چلچلاتی دوپہروں میں کبوتروں کے بچے ڈھونڈنے دور چلے جاتے اور گھر والوں سے پٹتے۔ اس نے گیس اور تیل کے نیم خود مختار ادارے میں ملازمت کرلی اور دور افتادہ مقامات پر رہا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فتح جنگ میں گھر بنالیا۔ غالباً دس سال پہلے کی بات ہے جب اسے دل کے عارضے نے آگھیرا۔ اس کا محکمہ ریٹائرڈ ملازمین کے حق میں فیاض ہے۔ راولپنڈی کے ایک بڑے نام اور وقار والے ہسپتال میں داخل ہوا۔محکمے نے ساڑھے پانچ لاکھ روپے ادا کیے اور اس کا بائی پاس آپریشن ہوا۔ آپریشن کے بعد ہفتہ اور پھر کئی ہفتے گزرگئے۔ یہی بتایا جاتا رہا کہ بحالی ہورہی ہے۔کچھ وقت لگے گا اور یہ کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔جب بھی خبرگیری کے لیے ہسپتال جانا ہوا، اس کا بیٹا ظفر برآمدے میں اس بڑے کمرے کے سامنے کھڑا ہوتا جس میں بحالی والے مریض رکھے جاتے تھے اور لواحقین کے لیے اندر جانا منع تھا۔جب تین چار ہفتے مزید گزر گئے تو ایک دن ہسپتال کے عملے سے ’’ مل ملاکر‘‘ یہ نویسندہ اندرگیا۔ الطاف کو دیکھ کر جھٹکا لگا۔ سخت جھٹکا۔ اس کا پیٹ بہت زیادہ سوج چکاتھا۔ آنکھیں دونوں کھلی تھیں لیکن بات نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں اس نے پہچانا اور ایک لمحے کے لیے میرے بازو پر اپنا ہاتھ رکھا۔ دہشت اورخوف میں لیٹا۔ باہر آیا توظفر سے یہی کہہ پایا کہ بیٹے اللہ خیر کرے۔ جس بے بسی اور بیچارگی سے اس نے کہا کہ چاچا جی! ہسپتال والے کچھ بتا ہی نہیں رہے کہ کیا پوزیشن ہے ، یوں لگا جیسے یہ بے چارگی یہ کسمپرسی آسمان میں چھید کرڈالے گی۔
چند دن بعد خبر ملی کہ الطاف کا انتقال ہوگیا۔ بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچا۔ جسدخاکی ایمبولینس میں رکھاجارہا تھا۔ ظفر گلے سے لپٹ کر ہچکیاں لینے لگا۔ بار بار ایک ہی فقرہ کہتا، چاچا جی، میں ابو سے کوئی بات ہی نہیں کرسکا۔ ان ظالموں نے مجھے کسی مرحلے پر کچھ نہیں بتایا۔
آج تک الطاف کی یاد جب بھی آتی ہے یا مشترکہ عزیزوں سے اس کا ذکر چھڑتا ہے تو اس کی ایک ہی تصویر دماغ کے پردے پر ابھرتی ہے۔ کھلی آنکھیں،سوجا ہوا پیٹ اور بازو پر رکھا ہاتھ۔ ایک ثانیے کے بعد یہ تصویر محو ہوجاتی ہے۔ پھر ظفر کی ہچکی سنائی دیتی ہے۔ چاچا جی ان ظالموں نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔ میں ابو سے مل سکا نہ بات ہی کی۔
گزشتہ ہفتے آسٹریلیا میں ایک دوست کے ساتھ ہسپتال میں ایک دن گزارنے کا اتفاق ہوا۔ اس پاکستانی دوست کا آپریشن ہونا تھا۔ آپریشن بہت بڑا نہیں تھا لیکن بے ہوش پورا کیاجانا تھا۔ آپریشن سے دو دن پہلے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ہمیں انتظار گاہ میں بٹھایا گیا۔ جیسے ہی ہماری باری آئی، ڈاکٹر اپنے کمرے سے نکلا، ہنس کر ہاتھ ملایا اپنے کمرے کا دروازہ ہمارے لیے کھولا اور اندر لاکر کرسیوں پر بٹھایا۔ اگر ہمارے سامنے کسی اور مریض اور اس کے لواحقین کو اس طرح لایا جاتا تو ہمیں یقین ہوجاتا کہ یہ لوگ بڑے لوگ ہیں ، وی آئی پی یا ڈاکٹر کے جاننے والے ہیں۔ ڈاکٹر کی سیکرٹری لائونج میں اپنے ڈیسک پر بیٹھی تھی۔ ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ اتنے بڑے سرجن کو اٹھ کر استقبال کرنے اور اپنے کمرے سے باہر آنے کی کیا ضرورت تھی۔ سیکرٹری کو حکم دیتا کہ اگلا مریض اندر بھیجو۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ دو دن بعد آپ کے لیے وقت مقرر کیا ہے۔ اس کے بعد اس نے اس کارروائی کی مکمل تفصیل بتانا شروع کی جو دو دن بعد ہونا تھی۔کہاں آنا ہے ؟ وہاں کا ایڈریس کیا ہے؟کیسے پہنچنا ہے؟ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے سٹاف کیا کر ے گا۔ کون کون سے ٹیسٹ ہوں گے ، پھر آپریشن میں کتنی دیر لگے گی۔ بے ہوشی سے کتنی دیر میں بحالی ہوگی، کس وقت گھر بھیج دیاجائے گا۔ اس کے بعد کون سے ٹیسٹ ہوں گے۔ بیج میں کرسمس کی تعطیلات آنے کی وجہ سے کتنی تاخیر کا امکان ہوگا۔ مکمل تفصیلات بیان کرنے کے بعد اس نے مریض سے اور دونوں لواحقین سے الگ الگ پوچھا کہ آپ کچھ مزید پوچھنا چاہتے ہیں ؟ اس کے بعد وہ اٹھا، خود دروازہ کھولا اور یوں رخصت کیا، جیسے یہ ایک سماجی ملاقات تھی۔
مقررہ دن اور وقت پر ہم پہنچ گئے۔ کائونٹر پر چند سیکنڈ لگے۔ ایک یا دو منٹ بعد ایک نرس آئی اور کمرے میں لے گئی۔ کمرہ نہیں تھا۔ پردوں کی اوٹ میں کمرہ بنایا گیا تھا۔ سب سے پہلے اس نے تعارف کرایا، میرا نام یہ ہے، میری ڈیوٹی آپ کو آپریشن سے پہلے تیار کرنا ہے۔ پھر اس نے ہسپتال کا مخصوص لباس دیا ایک ٹوکری دی کہ اپنا لباس اتار کر اس میں رکھیں۔ پھر بلڈ پریشر چیک کیا اور بتایا کہ اتنا ہے۔ مریض کے جوتے اپنے ہاتھوں سے اٹھائے اور دراز میں رکھے۔ تھوڑی دیر میں ایک اور خاتون آئی۔ سب سے پہلے اپنا نام بتایا۔ پھر کہا کہ آپ نے کچھ پوچھنا ہے؟ یا کوئی بھی مسئلہ محسوس ہورہا ہے؟ مریض نے سردی لگنے کی شکایت کی۔ مجھے یقین تھا کہ اضافی کمبل کے لیے دوبارہ کہنا پڑے گا یا جانا پڑے گا۔ ایک منٹ سے کم وقت کے بعد ایک اور ہی خاتون نمودار ہوئی۔ اس نے بھی پہلے اپنا نام بتایا۔ پھر ایک کمبل، جو اتنا گرم لگ رہا تھا جیسے آگ پر سینکا گیا ہو، مریض کے اوپر پھیلایا، پھر اس کے اوپر ایک اور کمبل، جونسبتاً پتلا تھا۔ دیا پھر پوچھا کہ کیا مریض بہتر محسوس کررہا ہے؟پھر دو اشخاص آئے۔ دونوں نے اپنے اپنے نام بتائے اور بتایا کہ ان کی ڈیوٹی سٹریچر کو آپریشن تھیٹر تک لے جانے کی ہے۔ پھر ایک صاحب آئے، انہوں نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ ڈاکٹر ہیں۔ مریض سے نام پوچھا ۔ پھر کہا کہ سادہ لفظوں میں بتائیے آپ کو کیا تکلیف ہے۔ اندازہ ہوا کہ اس امر کا پختہ یقین کیا جارہا ہے کہ یہی وہ مریض ہے جس کا آپریشن کرنا ہے۔
مریض کو آپریشن تھیٹر میں لے گئے تو ہم دونوں تیماردار دوسری منزل سے گرائونڈ فلور پر آئے اور ہسپتال کی کینٹین میں بیٹھ گئے۔ ہم نے چائے پی اور ایک ایک سینڈوچ کھایا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ایک گھنٹہ گزرا تو دوسرے دوست سے پوچھا کہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ آپریشن ہوچکا ہے یا نہیں اور یہ کہ مریض کیسا ہے۔ یہ صاحب آسٹریلیا میں بہت عرصہ سے تھے ۔ مسکرا کر بولے کہ فکر نہ کیجیے ، ڈاکٹر یہاں آئے گا اور بتائے گا۔ تعجب ہوا، اس پر بتایاگیا کہ ڈاکٹر ہر آپریشن کے بعد لواحقین سے ملتے ہیں اور پوری تفصیل بتاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر کینٹین میں موجود تھا۔ وہ سبز رنگ کی یونیفارم پہنے تھا اور پلاسٹک کی سفید ٹوپی۔ وہ ہمارے ساتھ ، کرسی پر بیٹھ گیا۔ پوری تفصیل بتائی۔ طبی نکتہ نظر سے اور ذاتی نکتہ نظر سے ایک ایک پہلو پر روشنی ڈالی۔ جب ہم مطمئن ہوگئے تو مسکرا کر ہاتھ ملایا اور واپس دوسری منزل پر چلاگیا۔ ایک گھنٹہ اور گزرگیا پھر ٹیلی فون آیا کہ مریض کو مل سکتے ہیں۔ ایک کمرے میں لے جایاگیا۔ چار مریض بستر نما کرسیوں پر نیم دراز تھے۔سامنے میز تھے ۔ کوئی چائے پی رہا تھا کوئی کچھ کھا رہا تھا۔ ہم اپنے مریض کے پاس بیٹھ گئے۔ ایک خاتون آئی جس نے دو تین بار مریض سے حال پوچھا۔ یہ بھی پوچھا کہ نیند تو نہیں آرہی ؟ چکر تو نہیں آرہے؟ پھر ہم دونوں تیمار داروں کو بتایا کہ گھر جاکر کتنی دیر بعد نیند آئے گی۔ شام کو کیا کھانا ہے۔ درد کتنے دن تک رہ سکتا ہے۔ یہ خاتون جاکر دوبارہ آئی اور تقریباً وہی باتیں دہرائیں۔
جب ہم مریض کو ہسپتال سے باہر لے جارہے تھے تو دیکھا کہ اس کی کلائی پر کپڑا بندھا ہے جس پر اس کا نام لکھا ہے۔ ہسپتال والوں کو یاد دلایا کہ یہ تو آپ نے اتارا ہی نہیں۔ کائونٹر پر بیٹھی ہوئی عورت نے بہت سکون اور دل جمعی کے ساتھ بتایا کہ کچھ مریض اکیلے بھی یہاں سے رخصت ہوتے ہیں۔ اگر ہسپتال کے اندر ، گرائونڈ فلور پر یا پارکنگ ایریا میں کوئی مریض گرپڑے یا بے ہوش ہوجائے تو اس ٹیگ سے نام اور تفصیلات معلوم ہوجاتی ہیں اور اس طرح وقت ضائع کیے بغیر طبی امداد پہنچائی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ بتانا نامناسب نہ ہوگا کہ مجموعی ترقی کے حوالے سے آسٹریلیا یورپ اور امریکہ سے بہت پیچھے ہے!
دماغ کی سکرین پر ایک ہچکی ابھر رہی ہے۔’’ چاچا جی ان ظالموں نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں۔ میں ابو سے ملا نہ بات ہی کی‘‘
ایک سوال ہے۔ صرف ایک سوال ۔ صرف ایک ۔ کیا ہمارے ڈاکٹر آپریشن کے بعد مریض کے لواحقین کو مل کر تفصیلات سے آگاہ کرسکتے ہیں؟کیا وہ ایسا کریں گے؟

Friday, December 20, 2013

مگر اک بات‘ جو دل میں تھی ، جس کا غم بہت ہے

’’دس دیسی مرغیاں قریے سے منگوائی ہیں‘‘ایک دوست عزیز نے کل اطلاع دی ہے !   ؎
میں اتھے تے ڈھولا تَھل اے
مَینڈی اللہ خدائی آلی گل اے
اب کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ نوشِ جان فرمائیے اور انتساب فقیر کے نام کر دیجیے۔ یہاں انتساب نہیں‘مناسب لفظ’’ایصالِ ثواب‘‘ ہے لیکن اس لیے احتراز کیا کہ اس میں فقہی اختلافات ہیں۔ فتویٰ لگنے کا احتمال ہے ۔ کیا زمانہ تھا کہ تکفیرمیں بھی رکھ رکھائو تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا تھا کہ فلاں دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اب تو ’’کافر‘‘کا لفظ اتنا ارزاں ہو گیا ہے جیسے پاکستانیوں کا خون!سو یہ سوال اُٹھ سکتا تھا کہ یہاں مُردوں کو ایصالِ ثواب کرنے پر جھگڑے ہیں‘یہ زندہ آدمی ایصالِ ثواب چاہتا ہے!
دیسی مرغی کے عُشاق دو انواع کے ہیں۔ ایک وہ جو اِس فقیر کی طرح دیہاتی پس منظر کے ہیں اور فارمی مُرغی کو قبول کرنے سے قاصر۔ گائوں میں پلا بڑھا شخص تین چیزوں سے ڈرتا ہے‘ فارمی مرغی سے‘ چائے میں ڈالنے کے لیے پائوڈر والے دُودھ سے اور بازار سے لائے ہوئے تھیلے والے آٹے سے۔ دوسرے وہ بدبخت جنہیں اس حقیقت کا علم ہے کہ وطن عزیز میں فارمی مرغیوں کو مہیا کی جانے والی خوراک (فیڈ)پر کوئی کوائلٹی کنٹرول نہیں ہے۔ ہو بھی کیسے سکتا ہے ۔ جہاں انسانوں کو فراہم کی جانے والی خوراک میں پانچ ہزارملاوٹیں ہیں‘ وہاں فارمی مرغیوں کی خوراک کو کون چیک کرے گا۔ چین میں جب انسپکٹر مرغیوں کی فِیڈ چیک کرتا ہے تو چیک کرنے کے لیے پھکا مار کر خود کھاتا ہے۔ پوری مہذب دنیا میں یہ فِیڈ حکومتیں چیک کرتی ہیں۔ یہ بات ڈھکی چُھپی نہیں رہی‘پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں پر دہائی دی جا چکی کہ لاہور اور قصور کے علاقوں میں‘تمام مردہ جانوروں کو (بشمول گدھوں اور کتوں کے)فِیڈ بنانے والے لے جاتے ہیں۔ پنجاب کے حاکمِ اعلیٰ وفاقی وزارتِ خارجہ کے فرائض سے فارغ ہوئے تو عوام کی ہلاکت کے اسباب پر توجہ دیں گے۔ فی الحال تو ان کی خدمت میں ایک عام شہری یہی عرض کر سکتا ہے   ؎
میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بُوم ہے‘ زاغ ہے مرے ہاتھ میں
کیا ستم ہے کہ شہروں میں پیدا ہونے والے تو دیہی اکل و شرب سے محروم تھے ہی‘ اب وہ بچے بھی جو قریوں میں خود دہقانوں کے گھروں میں جنم لے رہے ہیں‘ اُن مزوں سے محروم ہیں جو ان کے ماں باپ اور دادا نانا نے کیے تھے۔ بلکہ یہ دہقان زادے تو دُہرے نقصان کا شکار ہوئے۔ برگر اور 
پیزا تک رسائی ہی نہیں اور جو تھا ‘وہ  غائب ہو گیا۔ 

نصف سے زیادہ دنیا کے دسترخوانوں پر بیٹھنے کے مواقع 
ملے لیکن  گائوں کے نائو نوش کا ذائقہ تالو سے کبھی محو نہ ہوا   ؎
یہ سنگِ مر مر‘ یہ شاخِ انگور‘ یہ کنیزیں 
مگر کوئی کھینچتا ہے مٹی کے گھر کی جانب
منیلا میں انناّس اور ناریل کے دودھ سے بنی ایسی سویٹ ڈش پیش کی گئی کہ پرستان میں بھی نہ ہو گی۔ کوالا لمپور میں تربوز کا رس پہلی بار پیا۔ ترمذ اور جنیوا کے قدیم شاہی محلات میں صدر کریموف نے دعوتیں کیں جو گھنٹوں پر محیط تھیں۔ کورس گننے میں نہیں آ رہے تھے۔ اُزبک پلائو اور ساتھ وسط ایشیائی رقص ! سرما تھا جب تاشقند میں خربوزہ کھایا۔ اتنا شیریں کہ سکتہ طاری ہو گیا۔ میزبانوں نے معذرت کی کہ سرما میں ہمارے میوے پھیکے رہ جاتے ہیں   ؎ 
ثمر بہشت کے تھے‘ حُسن ترکمانوں کا
خوش آ رہا تھا مزہ دوسرے جہانوں کا 
قونیہ اور استانبول میں گوسفند کا گوشت اور چھاچھ‘ جو ترکوں کا قومی مشروب ہے‘ اپنی مثال آپ ہے۔ اردن میں بحرِ مردار کے کنارے لبنانی کھانا کھایا۔ سٹارٹر ہی بیسیوں تھے۔ عمّان میں ایک اردنی دوست کو ڈھونڈ نکالا جو نیپلز (اٹلی) میں کلاس فیلو تھا۔ نیو ایئر نائٹ تھی۔ عرب چاول پکاتے ہیں تو چلغوزوں کی دبیز تہہ میں چُھپا ہی دیتے ہیں۔ اُس بریاں گوشت کا عشرِ عشیر بھی بس سے باہر تھا جو وہ کھلانے پر مصر تھا۔ فاس ‘دارالبیضا (کاسا بلانکا) اور رباط میں ’’تاجین‘‘ اور ’’قوس قوس‘‘ ،مراکشی ڈشیں جو پوری دنیا میں معروف ہیں‘ کھائیں۔ ویسٹ کوسٹ پر وینکووور میں سِی فُوڈ جو اپنی مثال آپ تھا۔ اُس ضیافت میں بائیں طرف فِجی کا ایک مسلمان مندوب تشریف فرما تھا۔ ایک پودا نما سمندری جانور آیا تو اس نے زانو دبا کر سرگوشی کی کہ یہ ہم نہیں کھائیں گے۔ روا نہیں ہے۔ وینکووور ریاست کا صدر مقام نہیں حالانکہ دنیا میں رہنے کے بہترین مقامات کی فہرست پر اکثر اول آتا ہے۔ برٹش کولمبیا کا دارالحکومت وینکووور سے ساٹھ ستر میل دور‘ وکٹوریہ ہے جو جزیرہ ہے۔ یہاں مصالحہ‘ چائے اور انڈین ڈشیں لاجواب ملیں۔ بیجنگ میں اہلِ کاشغر کا پکایا ہوا سالم بکرا جو پکنے کے بعد اپنی ٹانگوں پرکھڑا تھا کسی اور دنیا کا لگتا تھا ۔
غرض مانٹریال اور نیو یارک سے لے کر میکسیکو تک‘بارسلونا سے لے کر قرطبہ اور غرناطہ تک‘ایڈنبرا سے لے کر برسلز تک ۔ یہاں تک کہ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو تک انواع و اقسام کے کیا ماکولات اور کیا مشروبات قساّمِ ازل نے مقدر میں لکھے لیکن رات کی روٹی کے اُس چوتھائی حصے کا مزا آج تک نہیں بھولتا جو دادی جان رات کو دُودھ والی چاٹی میں ڈالتی تھیں اور صبح دہی کے ساتھ ملتا تھا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد اَدھ رڑکا اور میٹھی لسّی مٹی کے پیالوں میں !   ؎
بھرے ہوں گے شراب و شہد سے مٹی کے برتن
پسِ دیوارِ امکاں تو مرا مہماں رہے گا
تنور سے اُتری ہوئی روٹی میں انگلیوں سے کیے گئے گڑھے جن میں مکھن رچ بس جاتا تھا اور شکر اور گھی سے بھرے ہوئے پیالے!مکھڈی حلوے سے بھرے ہوئے طباق جن پر چاندی کے ورق لگتے تھے ۔ اب تو جدّت پیدا کر دی گئی ہے پنڈی گھیب والے ’’شیشہ حلوہ‘‘ بنانے لگے ہیں لیکن پہلے دو ہی نام تھے ’مکھڈّی یا کالا باغ کے حوالے سے باغیا‘ جسے اہلِ دیہہ باگیا کہتے تھے!
پھر جس دن ’’گاہ ‘‘ ہوتا تھا یعنی گندم کے گٹھو ں سے بھوسہ اور دانے الگ کیے جاتے تھے‘ تو خندق کھودی جاتی تھی جسے ’’چَر‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس میں آگ جلتی تھی۔ اوپر درجنوں مٹی کے بڑے بڑے کٹوے ہوتے تھے ۔ گوشت اپنی ہی چکنائی میں پکتا تھا اور وسط ایشیا اور افغانستان کے پکوانوں کے مقابلے کا ہوتا تھا۔ تب تھریشر کی مشینیں نہیں تھیں ۔ گندم کے گٹھوں کو کھلیان میں پھیلا دیا جاتا تھا۔ ان پر بیل دوڑتے تھے اور تاراج کرتے تھے ‘ یوں کہ دانہ دانہ الگ ہو جاتا تھا۔ تب ایلومینیم کے بنے ہوئے بھڑولے بھی نہیں تھے۔ مٹی کی بنی ہوئی سکاریوں میں غلّہ ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ 
ایک قریبی عزیز افیون کے عادی تھے ۔ گوشت ان کی مجبوری تھی۔ ان کے ساتھ شکار کے لیے بستی بستی گھومتے تھے۔ تیتر چکور، خرگوش ‘ ہرن۔ وہ خود ہی پکاتے تھے۔ بعد میں فاروق لغاریوں اور عمران خانوں نے اِس مظلوم علاقے سے ہرنوں کا خاتمہ کر دیا۔
سہ پہر کو بھٹیارن کے ہاں جا کر بُھنی ہوئی مکئی یا چنے لیتے تھے۔ کھیتوں سے آئے ہوئے پتوں والے سبز چنے تنور میں رکھ دیے جاتے تھے کہ خستگی آ جائے۔ کبھی کبھی سیاہ چنے‘ جنہیں نانا فارسی میں ’’نخودِ سیاہ‘‘ کہتے تھے‘ دوپہر کو تنور میں برتن بند کر کے رکھ دیے جاتے تھے اور سہ پہر کو چاٹ کھائی جاتی تھی ۔ باجرے کے خوشوں کا اپنا لطف تھا۔ باجرے کا میٹھا آٹا بچوں کے لیے خصوصی طور پر تیار ہوتا تھا۔ منہ میں بھر کر ایک دوسرے کو کہا جاتا تھا۔’’کہو پھپھی‘‘ تو منہ سے باہر آ جاتا تھا۔
اَدھ پکی گندم کے دانے بریاں کر کے کھائے جاتے تھے جسے بُھوٹی اور بعض علاقوں میں آہبو کہتے تھے۔ جَو کے ستوّ بھی اسی طرح بنائے جاتے تھے۔ بزرگ ستوّ پیتے تھے تو بچے خشک ستوئوں میں گھی اور شکر ڈال کر کھاتے تھے۔
اِس خطے کے کھیت اُس وقت تک مونگ پھلی کی نقد آور فصل کی نذر نہیں ہوئے تھے۔ جو فصل آج کل مونگ پھلی کی ہے وہ پہلے خربوزوں کی ہوتی تھی۔ ہر رنگ کے اور ہر نسل کے خربوزے ‘ بوریوں اورگدھوں کے حساب سے منگوائے جاتے تھے۔ خوشبو سے حویلی کیا‘گلیاں تک مہکتی رہتی تھیں۔ اب ریڑھیوں پر ایک جیسے خربوزے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ بھی شیور کے ہیں۔
مُرنڈوں کی انگنت قسمیں تھیں۔ چاول کے مرنڈے‘ چنوں کے مرنڈے‘ گندم کے مرنڈے‘ باجرے کے مرنڈے ۔ جوار کی میٹھی پنیاں بنتی تھیں۔ سُوجی کی میٹھی روٹی‘  سفید سنگِ مر مر کے گول توا نما چبوترے پر رکھ کر بنائی جاتی تھی۔ اِسے ’’پاپڑی‘‘ کہتے تھے۔ کبوتر کا گوشت عام تھا۔ ہر تیسرے گھر کے اپنے کبوتر تھے۔ فضائوں میں تازہ دم ہو کر ۔ واپس خود بخود اپنی اپنی کُھڈی میں آ جاتے تھے!
یاد ساتھ دے رہی ہے نہ کالم کی تنگ دامانی   ؎
مزے سارے تماشا گاہِ دنیا میں اٹھائے
مگر اک بات جو دل میں ہے جس کا غم بہت ہے

Tuesday, December 17, 2013

بھارت میں ہمت تھی نہ ہے

مشرقی پاکستان میں 1971ء کے آرمی ایکشن کو سوات کے حالیہ آرمی ایکشن سے تشبیہ دینا محض کٹ جحتی ہے!کیا سوات میں الیکشن ہوئے تھے؟کیا سوات میں اسمبلی کا اجلاس اٹنڈ کرنے والوں کو ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دی گئی تھی؟ اللہ کے بندو! سوات میں سو فیصد نہیں تو پچانوے فیصد اکثریت طالبان سے خوف زدہ اور تنگ تھی۔ اس عظیم اکثریت کو مٹھی بھر طالبان کے ظلم و ستم اور قتل وغارت سے بچانے کے لیے فوج میدان میں اتری تھی اور سیاسی حکومت کے حکم سے اتری تھی۔پورے ملک نے اس آرمی ایکشن کی حمایت کی ،سوائے ان تاریکی پسند قوتوں کے جو سواداعظم کے خلاف ہیں۔ اس کے برعکس مشرقی پاکستان کا آرمی ایکشن اکثریت کے خلاف تھا۔ جو الیکشن خود حکومت پاکستان نے منعقد کرایا،اس کا نتیجہ کچھ لوگوں کو نہ بھایا۔ پہلے عوام کا بنیادی حق غصب کیاگیا پھر ان پر چڑھائی کردی گئی!
جوبزر جمہر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سہرا بھارت کے سر باندھ رہے ہیں، وہ حقائق کو بھی جھٹلارہے ہیں اور قومی حمیت کا بھی جنازہ نکال رہے ہیں۔ وہ بھارت کی انا کو گنے کا رس پلارہے ہیں۔ جو بھارت قیام پاکستان کو نہ روک سکا ، وہ پاکستان کو دولخت کیسے کرسکتا تھا؟ اگر ہم اپنے پیروں پر خودکلہاڑی نہ مارتے ،اگر بددماغ فوجی آمر کے بجائے سیاسی حکومت ہمارے فیصلے کرتی اور اگر تاریخ دے کر ، اسمبلی کا اجلاس بلانے سے ہم مکر نہ جاتے تو بھارت کو یہ موقع ہی نہ ملتا۔ اگر ہمارا اپنا گھر درست ہوتا ،اگر ہم شائستگی ، انصاف اور رواداری کا مظاہرہ کرتے اور اپنے بھائیوں کو گلے سے لگاتے تو بھارت سوسال بھی مداخلت نہ کرسکتا۔ کیا بھارت نے مجیب الرحمن کو کہا تھا کہ فاطمہ جناح کا ساتھ دے اور کیا بھارت نے ایوب خان کو کہا تھا کہ فاطمہ جناح کو غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دے ؟نہیں ، جناب نہیں ، یہ بھارت کا نہیں ، ہمارا اپنا کیا دھرا تھا   ؎
دل کے ڈوبے سے مٹی دستِ شناور کی سکت
موج کی طغیانیوں سے ڈوبتا کوئی نہیں
آج کی نسل کو حقائق سے بے خبر رکھا جارہاہے۔ 1970ء کا الیکشن ہوا تو حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ووٹ دینے والوں کا تناسب 63فیصد تھا۔مکمل تصویر کچھ اس طرح تھی۔
عوامی لیگ160، پیپلزپارٹی81، جماعت اسلامی4، کونسل مسلم لیگ2، قیوم مسلم لیگ9، جمعیت علماء اسلام7، مرکزی جمعیت علماء اسلام 7، کنونشن مسلم لیگ7، این اے پی (ولی گروپ)6، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی1، آزاد 16۔اگر مرکز میں عوامی لیگ کی حکومت بن جاتی ، پنجاب اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی اور بلوچستان اور سرحد میں ولی گروپ اور جے یو آئی کی، تو کون سی قیامت آجاتی ؟کیا آج سندھ اور کے پی میں ان جماعتوں کی حکومتیں نہیں جو مرکز میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہیں؟ آج نوازشریف کو صرف پنجاب میں اکثریت ملی ہے اور وہ پورے پاکستان پر حکومت کررہے ہیں۔اگر عوامی لیگ ایک صوبے میں اکثریت کی بنا پر مرکز میں حکومت بنا لیتی تو کیا وہ پاکستانی نہیں تھے؟   ؎
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
روئے زمین کا بدترین گروہ اس وقت پاکستان پر حکومت کررہا تھا۔ جنرل خادم حسین راجہ کے بقول مشرقی پاکستان کی صورت حالات کے بارے میں حکومتی جتھے کا علم جہالت پر مبنی تھا! 13فروری 1971ء کو صدر یحییٰ نے اعلان کیا کہ 3 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہوگا۔اس سے پہلے 3جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن نے کہا تھا کہ اکثریت رکھنے کے باوجود وہ صرف اپنی جماعت کے بل بوتے پر آئین نہیں بنائے گا۔14جنوری کو یحییٰ خان نے مجیب الرحمن کو پاکستان کا مستقبل کا وزیراعظم قرار دیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ چھ نکات مرکزی حکومت کو بے دست وپا نہیں کریں گے۔ وہ تو صرف صوبائی خود مختاری کے حوالے سے ہیں۔ بھٹو کے کہنے پر یحییٰ خان نے 3مارچ کے بجائے قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے 25مارچ کی تاریخ رکھی۔ بھٹو نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔نتیجہ یہ ہوا کہ 25مارچ کو بھی اجلاس نہ ہوسکا۔ یہ تھا وہ پس منظر جس کے انجام میں فسادات شروع ہوئے اور جس سے آج کی پاکستانی نسل بے خبر ہے۔ یہ وہی صورت حال تھی جو بعد میں الجزائر میں پیش آئی۔ اسلام پسندوں کو انتخابات جیتنے کے باوجود حکومت نہ دی گئی تو کیا انہوں نے آگے سے پھول پیش کیے؟ انہوں نے وہی کچھ کیا جو مشرقی پاکستانیوں نے کیا تھا، بلکہ الجزائز میں کئی گنا زیادہ ہنگامہ ہوا۔
آج بنگلہ دیش کا ذکر ہمارے دانشور اس طرح کرتے ہیں جیسے وہ مسلمان نہیں، خدانخواستہ غیر مسلم ملک ہے۔ سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ساتھ لاکھ چھیانوے ہزار مربع کلومیٹر کے ملک پاکستان نے اپنے ناتواں کندھوں پر پوری دنیا کے کافر اور مسلمان ہونے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ ہم چاہیں تو شمالی اتحاد کو یوں سمجھیں جیسے وہ مسلمان ہی نہیں اور ایک ایسے گروہ کو قرون اولیٰ کے مسلمان قرار دے دیں جو مقامی ثقافت کو اسلام سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے عوامی لیگ کو ووٹ دیے تھے کیا وہ مسلمان نہیں تھے؟کیا ہم ان سے بہتر مسلمان ہیں ؟ کیا وہ پاکستانی نہیں تھے؟ چلیے کنفیڈریشن ہی رہ جاتی تو کیا نوے ہزار افراد کو بھارت کی قید میں بھیجنے سے بہتر نہ ہوتی؟
ہم آج بھی بنگلہ دیش کے نکتہ نظر کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری فہم و فراست کا یہ عالم ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے 2008ء  میں خواجہ خیرالدین کے فرزند علقمہ خیرالدین کو بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر مقرر کردیا۔ حکومت کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ بنگلہ دیش نے جنگی مجرموں کی جو فہرست بنائی اور جاری کی ہوئی ہے اس میں خواجہ خیرالدین سرفہرست ہیں۔ ایسا کرنا غلط ہے یا صحیح، یہ الگ مسئلہ ہے لیکن زمینی حقیقت یہی تھی۔ بنگلہ دیش نے جیسا کہ متوقع تھا یہ تعیناتی قبول کرنے سے انکار کردیا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے آج ہم حافظ سعید صاحب یا ان کے صاحبزادے کو بھارت میں ہائی کمشنر مقرر کردیں!
مولانا عبدالقادر ملا کو سزائے موت دینا حسینہ واجد کی ہٹ دھرمی ہے۔ یہ اس کے بیمار مائنڈ سیٹ کا انعکاس ہے۔ یہ صریح ظلم ہے جس کی کوئی صحیح الدماغ شخص حمایت نہیں کرسکتا۔ تاہم اس عدالتی قتل کی ذمہ داری ان لوگوں پر بھی ہے جنہوں نے جماعت اسلامی کو 1971ء میں یحییٰ خان اور بھٹو کی جھولی میں ڈالا۔ کیا یہ باعث حیرت نہیں کہ اس وقت بھٹو اور جماعت اسلامی ایک ہی صف میں تھے؟ ایک ہی پیج پر تھے؟ جماعت نے اسی آرمی ایکشن میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا جس پر بھٹو نے کراچی ائیرپورٹ پر کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان کو بچالیاگیا۔ آج پروفیسر خورشید احمد صفائی پیش کررہے ہیں کہ جماعت کی شوریٰ نے اعلان کیا تھا کہ جسے بھی عوام نے منتخب کیا ہے اسے اقتدار ملنا چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی عظیم اکثریت علیحدگی نہیں اپنا حق مانگ رہی تھی۔ تو پھر آرمی ایکشن میں کودنے کی کیا ضرورت تھی ؟ مکتی باہنی ایک ردِعمل تھا۔ مجیب الرحمن کو مستقبل کا وزیراعظم کہہ کر قومی اسمبلی کی تاریخ کا اعلان کرکے پیچھے ہٹ جانے کا مطلب مشرقی پاکستان کی توہین تھا۔ یہ فریب تھا۔ اس کا ردعمل فطری تھا۔ کاش جماعت اسلامی اس وقت یحییٰ اور بھٹو کے فیصلے پر صاد کرنے کے بجائے الگ کھڑی ہوتی۔ اپنی انفرادیت برقرار رکھتی اور جلتی آگ میں خشک لکڑیاں ڈالنے کے بجائے آگ پر پانی ڈالتی یا ڈالنے کی کوشش کرتی! نہیں معلوم یہ محض اتفاق ہے یا جماعت کی قسمت ! کہ وہ ہمیشہ اکثریت کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ مشرقی پاکستان سے لے کر ضیاء الحق کی آمریت تک یہی ہوتا رہا ہے۔ یہ آج بھی سب دیکھ رہے ہیں کہ عوام کن کے ساتھ ہیں اور جماعت کی قیادت کن کا ساتھ دے رہی ہے!
مولانا عبدالقادر ملا کا عدالتی قتل کہیں مکافات عمل تو نہیں ؟اب یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ ضیاء الحق نے بھٹو پر مقدمہ چلایا تو ایک وقت ایسا آیا کہ دو گواہ بھٹو کے خلاف اپنے بیان سے منکر ہوگئے۔ ضیاء الحق کے کہنے پر میاں طفیل محمد نے دونوں گواہوں کو یقین دلایا کہ اگر وہ بھٹو کے خلاف گواہی دیں گے تو انہیں چھوڑ دیاجائے گا۔ بعد میں ان دونوں کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ مئی 2011ء میں ایڈووکیٹ فاروق بیدار نے سپریم کورٹ میں جو بیان حلفی جمع کرایا اس میں اس واقعہ کی تفصیل حلفاً بیان کی ہے۔ اس نویسندہ کا پیپلزپارٹی سے دور کا تعلق بھی نہیں۔اس کے نزدیک گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے ابطال جلیل اس کی کریم ہیں۔لیکن میاں صاحب مرحوم کی مقدمے کی کارروائی میں خفیہ دخل اندازی اور گواہوں پر دبائو کون سے اسلام کا پر تو تھا؟ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کے مخالف بھی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہیں!

Monday, December 16, 2013

سقوطِ ڈھاکہ

                                         ڈھلتی شام تھی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں‘ جو چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی‘ ہم سب بیٹھے تھے۔ اندر تیز چلتے پنکھوں کی آواز تھی۔ باہر ہوا کا شور تھا۔ املی اور لیچی کے درختوں کے پتوں کے عکس کھڑکیوں کے شیشوں پر پڑ رہے تھے۔ طالب علم کتابوں میں غرق تھے۔ کوئی پڑھ رہا تھا‘ کوئی لکھ رہا تھا۔ کچھ باتیں کر رہے تھے مگر زیرِ لب۔ میں اور میرے مشرقی پاکستانی دوست نے کتابیں اور کاغذ وہیں میزوں پر رکھے اور کینٹین کی طرف چل دیے۔ مادھو کی کینٹین! جو 1921ء سے ڈھاکہ یونیورسٹی کی ثقافتی‘ علمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے اور جس کی دردناک کہانی الگ مضمون مانگتی ہے۔ ہم نے چائے منگوائی اور ساتھ دو سموسے اور دو رَس گُلے۔ میرے دوست کا ایک ہی سوال تھا اور غیر مبہم‘ واضح سوال تھا۔ 
’’اظہار! مجھے بس اتنا بتا دو‘ گیارہ سال ایوب خان کی آمریت رہی۔ اب ایک اور فوجی ڈکٹیٹر آ گیا ہے۔ جرنیل پنجابی ہیں یا پٹھان۔ جن علاقوں میں انگریزوں کا مقابلہ کیا گیا‘ بنگال‘ یوپی اور سندھ۔ وہاں کے لوگوں کو فوج کے لیے ’’غیر مناسب‘‘ قرار دے دیا گیا۔ ہم جرنیل کہاں سے لائیں گے؟ تو کیا ہماری باری کبھی نہیں آئے گی؟‘‘ 
آج سولہ دسمبر ہے۔ مشرقی پاکستان کو الگ ہوئے بیالیس برس ہو گئے ہیں۔ میں آج تک اپنے دوست کے سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ ان بیالیس برسوں میں باقی ماندہ پاکستان کے دانشوروں‘ صحافیوں اور سیاست دانوں نے ایک لمحے کے لیے بھی سنجیدگی سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پر نہیں سوچا۔ ذہنی افلاس کا یہ عالم ہے کہ طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگائی جا رہی ہے ’’وہاں ہندوئوں کا اثر تھا‘‘۔ عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ یہ ’’ہندوئوں کا اثر‘‘ اُس وقت کہاں تھا جب تحریک پاکستان چل رہی تھی۔ ہندوئوں کی حمایت تو احراری اور خاکسار کر رہے تھے اور مسلم لیگ کے لتے مولانا مودودی لے رہے تھے! بنگالی مسلمانوں نے تو تحریک پاکستان کی مخالفت ہی نہیں کی تھی! 
جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے‘ باقی ماندہ پاکستان کے دانشور اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے بنگالیوں اور بنگلہ دیش کی کردارکُشی کرنے لگتے ہیں۔ ایسے ایسے ابکائی لانے والے جھوٹ گھڑے جاتے ہیں اور تکبر کی ایسی ایسی صورتیں سامنے آتی ہیں کہ لگتا ہے ذہنی قلاش دریوزہ گری پر اتر آئے ہیں۔ یک رُخی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ ان میں سے اکثر اپنی پوری زندگی کسی بنگلہ دیشی سے ملے نہ وہاں گئے لیکن ’مستند ہے ان کا فرمایا ہوا‘۔ 
بنیادی طور پر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ملا کر ایک ریاست کی تشکیل دینا ہی غیر فطری اور ناقابلِ عمل تھا۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ملک کے دو منطقوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ترکی اور مراکش کو ایک ملک بنا دیا جائے یا برونائی کو بنگلہ دیش کے ساتھ ملا کر ایک ریاست کی تشکیل کردی جائے۔ درمیان میں دشمن ملک۔ ایک اضافی اور لاینحل مسئلہ تھا۔ پھر اس انتہائی دشوار بلکہ غیر فطری اتحاد پر حماقت‘ ظلم‘ آمریت‘ دھاندلی اور ہٹ دھرمی کی پے در پے ضربیں لگائی جاتی رہیں۔ کبھی ان پر ایک ایسی زبان تھوپنے کی کوشش ہوئی جس سے وہ ناآشنا تھے اور جس کی نسبت ان کی اپنی زبان کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ کبھی ان کی آبادی کو کم کر کے مصنوعی مساوات (Parity) کا ڈھونگ رچایا گیا۔ کبھی کابینہ کے بھرے اجلاسوں میں ان کا مذاق اڑایا گیا کہ اوئے! تم لوگ تو کھیتوں میں رفع حاجت کرتے ہو‘ تمہیں سینیٹری کے سامان کی کیا ضرورت ہے اور بالآخر انہیں کہا گیا کہ تم نے الیکشن میں زیادہ ووٹ تو لے لیے ہیں لیکن حکومت ہم تمہیں نہیں دیں گے! اس باقی ماندہ ملک کو اپنے ان کرتوتوں پر آج تک ندامت ہوئی نہ حیا آئی۔ 
اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ جس ملک میں لوگوں کو ذبح کرتے وقت وڈیو بنائی جاتی ہے‘ جس ملک میں بھتہ گیری اور اغوا برائے تاوان کو حکومت‘ بالواسطہ تسلیم کر چکی ہے‘ جس ملک کے سب سے بڑے شہر میں خانہ جنگی‘ طوائف الملوکی‘ گینگ وار‘ قتل و غارت اور آتش زنی کا مکمل دور دورہ ہے‘ جہاں سہراب گوٹھ میں الگ عدالتیں لگتی ہیں اور پنچایتیں شادی شدہ جوڑوں کو قتل کرا رہی ہیں‘ جہاں جان کے خوف سے مائیں بچوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکنے پر مجبور ہیں‘ جہاں صدر‘ وزیراعظم اور وزیروں پر کروڑوں‘ اربوں روپے ہڑپ کرنے کے مقدمے چل رہے ہیں‘ اُس ملک کے دانشور اور لکھاری بنگلہ دیش کی کردارکشی‘ مذمت‘ غیبت اور تنقیص کر رہے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں۔ 
ان حضرات میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ نئی نسل کو حقیقت سے آگاہ کریں۔ کیا جنرل خادم حسین راجہ نے اپنی کتاب "A stranger in my own country: East Pakistan1969-1971" میں جو کچھ لکھا‘ جھوٹ ہے؟ ’’صرف جنرل صاحبزادہ یعقوب خان زور دے رہے تھے کہ جنرل یحییٰ کو اُس قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی نہیں کرنا چاہیے جس نے 1970ء کے انتخابات جیتے ہیں۔ لیکن اچانک جنرل یعقوب خان کو ڈیفنس کالج کے کورس پر بھیج دیا گیا۔ یہ بھدّا اور نامناسب قدم صرف اس لیے اٹھایا گیا کہ وہ راستے سے ہٹ جائیں‘‘۔ جنرل خادم حسین راجہ اس کے بعد لکھتے ہیں: ’’جنرل رحیم خان کا کہنا یہ تھا کہ بنگالی بزدل قوم ہے اور انہیں بہت پہلے زیر کر لینا چاہیے تھا‘‘۔ 
یہ وہی جنرل رحیم ہے جو میدانِ جنگ سے پشت دکھاتا ہوا بھاگ گیا تھا۔ جنرل راجہ اس کے بعد لکھتے ہیں: ’’جنرل نیازی داخل ہوا‘ اس کی بیلٹ پر پستول نصب تھا۔ اس نے گالیاں دینا شروع کردیں اور ہذیان بکنے لگا (Raving)۔ پھر وہ اردو پر اتر آیا اور کہا… ’’میں اس حرام زادی قوم کی نسل بدل دوں گا۔ یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں؟‘‘ اس نے دھمکی دی کہ وہ ان (بنگالیوں) کی عورتوں پر اپنے سپاہی چھوڑ دے گا۔ اس کی باتوں سے سناٹا چھا گیا۔ اگلی صبح ہمیں افسوسناک خبر ملی۔ ایک بنگالی افسر میجر مشتاق کمانڈ ہیڈ کوارٹرز میں باتھ روم میں گیا اور اپنے سر پر گولی مار دی‘‘۔ جنرل نیازی نے جنرل راجہ سے یہ بھی کہا… ’’مجھے اپنی بنگالی گرل فرینڈز کے فون نمبر تو دو‘‘۔ 
یہی جنرل نیازی اپنی کتاب"The betrayal of East Pakistan"میں لکھتا ہے: 
’’1970ء کے انتخابات کے فوراً بعد بھٹو نے ایم ایم احمد ایڈوائزر اقتصادی امور ڈویژن اور قمر الاسلام ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کو ایک تحقیقی مضمون تیار کرنے کے لیے کہا جس میں یہ ثابت کیا جانا تھا کہ مغربی پاکستان‘ مشرقی پاکستان کے بغیر پھل پھول سکتا ہے۔ فروری 1971ء میں میجر جنرل عمر سیاستدانوں سے یہ کہہ رہا تھا کہ وہ نیشنل اسمبلی کا اجلاس اٹنڈ کرنے ڈھاکہ نہ جائیں کیونکہ وہ سازشوں کا گڑھ ہے اور مشرقی پاکستان سے الگ ہو جانا ہی بہتر ہے… پاکستان توڑنے کا حتمی منصوبہ جنرل یحییٰ اور بھٹو کے درمیان لاڑکانہ میں طے پایا۔ اس منصوبہ کا جسے ’’ایم ایم احمد پلان‘‘ کہا جاتا ہے‘ مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کو اس طرح چھوڑ دیا جائے کہ وہاں حکومت ہی نہ ہو۔ اس کا مطلب تھا: جنگ ہار کر…‘‘ 
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کیا کہتی ہے۔ جگر تھام کر پڑھیے: 
’’جنرل نیازی پر سنگین الزامات ہیں کہ جب وہ جی او سی سیالکوٹ اور بعد میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لاہور تھا تو مارشل لاء کے مقدموں میں پیسے بنا رہا تھا۔ وہ گلبرگ لاہور کی ایک خاتون سعیدہ بخاری کے بہت قریب تھا جو ’’سینو ریٹا ہوم‘‘ کے نام سے قحبہ خانہ چلا رہی تھی۔ وہ رشوت وصول کرنے اور معاملات چلانے کے لیے جنرل نیازی کی دلّالہ کے طور پر بھی کام کرتی تھی۔ جنرل نیازی کی سیالکوٹ کی ایک خاتون شمیم فردوس سے بھی یاری تھی۔ یہ بھی وہی کردار ادا کر رہی تھی جو لاہور کی خاتون کر رہی تھی۔ مشرقی پاکستان میں قیام کے دوران جنرل نیازی کی شہرت غلیظ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بدنام عورتوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا اور راتوں کو ایسی جگہوں پر جاتا تھا جہاں اس کے کئی ماتحت افسر بھی پائے جاتے تھے۔ وہ مشرقی پاکستان سے پان کی سمگلنگ میں بھی ملوث تھا۔ کمیشن کے سامنے یہ الزامات مندرجہ ذیل افراد نے لگائے۔ عبدالقیوم عارف (گواہ نمبر 6)‘ منور حسین ایڈووکیٹ سیالکوٹ (گواہ نمبر 13)‘ عبدالحفیظ کاردار (گواہ نمبر 25)‘ میجر سجاد الحق (گواہ نمبر 164)‘ سکواڈرن لیڈر سی اے واحد (گواہ نمبر 57) اور کرنل حفیظ احمد (گواہ نمبر 147)‘‘۔ 
حمود الرحمن کمیشن آٹھ افراد کے نام لکھ کر ان کے بارے میں لکھتا ہے: 
’’یہ افسر اور ا ن کی یونٹیں وسیع پیمانے پر لوٹ مار میں ملوث تھیں۔ ان میں ایک کروڑ پینتیس لاکھ کی وہ رقم بھی شامل ہے جو نیشنل بینک سراج گنج سے چوری ہوئی‘‘۔ کمیشن لکھتا ہے کہ سینئر افسروں کے ذاتی کردار اور بددیانتی کے بارے میں وہ تفتیش نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن دوسری طرف یہ بھی عام تصور تھا کہ اس قسم کے رُسوا کن کردار کا براہ راست اثر قیادت پر پڑا تھا۔ ’’ہم افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایسا ہی تھا‘‘۔ اس تحریر کی ابتدا ڈھاکہ یونیورسٹی کی مادھو کینٹین کے ذکر سے ہوئی تھی۔ 1921ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو پندرہ سالہ مادھو نے بھی اپنے باپ کے ساتھ‘ حکام کی اجازت سے‘ یونیورسٹی میں خوردنی اشیا کی فروخت شروع کی۔ 26 مارچ 1971ء کو فوجی ایکشن ہوا تو مادھو اور اس کے خاندان کو قتل کردیا گیا۔ 
26 مارچ 1971ء کو یحییٰ خان نے ڈھاکہ سے رخصت ہوتے وقت جنرل ٹکا خان کو حکم دیا Sort them out (ان کا دماغ ٹھیک کردو‘ ان کا بندوبست کرو)۔ آرمی ایکشن شروع ہو گیا۔ 27 مارچ کو ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی ایئرپورٹ پر اترتے ہی بیان دیا… ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچا لیا گیا‘‘۔ یہ تھے وہ لوگ جن کی حمایت اُس وقت صالحین کر رہے تھے۔ مشرقی پاکستانیوں کی عظیم اکثریت ان صالحین کو‘ بھٹو کو اور ٹکا خان اور اس کے ساتھیوں کو نظر ہی نہیں آ رہی تھی نہ ہی ان کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت تھی۔

Friday, December 13, 2013

ہیرو

لشکری آمریت کے طویل عرصے میں جسٹس افتخار چودھری وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تن تنہا ایک آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ’’نہیں‘‘ کہا اور پھر ڈٹ گئے۔ جس روز وہ آرمی ہائوس راولپنڈی میں عملی طور پر کئی گھنٹے محبوس رہے‘ ان کی پشت پر کوئی سیاسی جماعت تھی نہ کوئی اور قوت۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ جو چنگاری وہ جلا رہے ہیں‘ بجھ جائے گی یا اس سے ملک بھر میں آگ لگ جائے گی۔ 
اس ملک کی تاریخ میں روایت یہ تھی کہ ہر فوجی آمر کو آمنّا و صدّقنا کہا جاتا تھا۔ کیا سیاست دان‘ کیا جج‘ کیا بیوروکریٹ اور کیا سول سوسائٹی‘ کوئی امیر المؤمنین بننے کی تجویز دیتا رہا ہے اور کوئی عشرۂ ترقی منانے کے پروگرام بناتا رہا ہے۔ ضیاء الحق کا طویل دور تو سیاسی کراہت سے بھرپور تھا۔ پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ تک‘ سب سجدہ کناں تھے۔ آج کے بڑے بڑے نام دریافت ہی ضیاء الحق نے اس پس منظر میں کیے تھے۔ دیکھا جائے تو خم ٹھونک کر کھڑا ہونے کی ریت افتخار چودھری ہی نے ڈالی   ؎ 
ادب کا قافلہ تھا سست گام اے سیماب 
رواجِ گرم روی میرے کارواں سے چلا 
قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلے شخص تھے جو عوام کے ہیرو بنے۔ انہوں نے لوگوں سے پوچھا مرو گے؟ لوگوں نے جواب دیا مریں گے۔ کھمبوں کو کھڑا کیا تو وہ بھی جیت گئے۔ تاہم جلد ہی ارمانوں پر ا وس پڑ گئی۔ جو مخلصین نظریات کی بنیاد پر ساتھ آ ملے تھے‘ اُن سے چھٹکارا حاصل کیا گیا۔ بھٹو صاحب کے اندر کا فیوڈل پوری طرح باہر نکل آیا۔ منہ سے نکلا ہوا لفظ قانون تھا اور حکم عدولی ناقابلِ برداشت تھی۔ دلائی کیمپ وجود میں آ گیا۔ بدنامِ زمانہ فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بنائی گئی۔ سیاسی حریفوں کو قتل کرنا شروع کردیا گیا۔ مارچ 1973ء میں لیاقت باغ میں منعقد ہونے والے متحدہ جمہوری محاذ (UDF) کے جلسۂ عام پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی اور کئی افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ سیاسی تقرریوں کے نام پر بیوروکریسی کے ڈھانچے کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا گیا۔ سندھ میں ’’ٹیلنٹڈ کزن‘‘ نے لسانی بنیادوں پر بھائی کو بھائی سے لڑا دیا۔ زرعی اصلاحات کا خواب خواب ہی رہا۔ عوام کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ 
اس ملک نے ایک سائنسدان کو بھی ہیرو کا درجہ دیا لیکن بات بن نہ سکی۔ احساسِ تشکر کے بجائے ہیرو نے ہل من مزید کی پالیسی اختیار کر لی۔ کبھی وزیراعظم بننے کی تمنا کی اور کبھی صدر بننے کی۔ تشہیر کا شوق اور اثاثوں کے معاملات اس کے علاوہ تھے۔ سیاست میں داخل ہونے کی ناکام کوشش بھی ہوئی۔ ہیرو نے خود ہی پے در پے اپنے پیروں پر کلہاڑی کے وار کیے   ؎ 
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے 
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے 
عمران خان میں ایک غیر متنازع اور عوامی سطح پر مقبول ہیرو بننے کی پوری پوری صلاحیت موجود تھی۔ شوکت خانم ہسپتال اور میانوالی کے پہاڑوں کے دامن میں بلند معیار یونیورسٹی قائم کر کے انہوں نے ایک ایسا آغاز کیا جو کسی شائبہ کے بغیر قابلِ رشک تھا۔ اس ملک کا اصل مسئلہ ہی صحت اور تعلیم ہے۔ آج عمران خان یکساں نظامِ تعلیم کی بات کرتے ہیں لیکن انہیں ادراک نہیں کہ یہ کام کوئی سیاست دان کر سکتا ہے نہ کوئی حکومت۔ یہ کام اگر کبھی ہوا تو کوئی غیر سیاسی ریفارمر کرے گا۔ اس کام کے لیے وائسرائے نہیں‘ سرسید احمد خان کی ضرورت ہے اور یہ بتدریج کرنے کا کام ہے۔ بیک جنبشِ لب یا بیک جنبشِ قلم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے لوگوں کے اذہان بدلنے ہوں گے۔ اداروں کا جال بچھانا ہوگا۔ بے پناہ وسائل کی ضرورت ہوگی۔ 
پھر سیاست میں آ کر عمران خان نے اسلحہ رکھنے کی تھیلی چلے ہوئے کارتوسوں سے بھری۔ یہ بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کہ الناس علیٰ دین ملوکہم۔ پارٹی کا سربراہ سب کو اپنے پیچھے لگا سکتا ہے لیکن ایک صوبے میں حکومت بنانے کے لیے انہوں نے جن قوتوں کو ساتھ ملایا ہے وہ قوتیں گھٹن‘ تاریکی‘ عدم برداشت اور تنگ نظری کی بدترین مثال ہیں۔ یہ ایسی بے برکت قوتیں ہیں جن کا ماضی لشکری آمریت کے خاردار درختوں کی چھائوں میں گزرا۔ جس تعلیم یافتہ مڈل کلاس نے اور جن بڑی بڑی کوالی فی کیشن رکھنے والے نوجوانوں نے عمران خان کا ساتھ دیا ہے‘ ان کے مزاج کی ان تاریکی پسند قوتوں کے ساتھ دور کی مناسبت بھی نہیں۔ یہ ایسے دو دھارے ہیں جو متوازی تو چل سکتے ہیں‘ ایک دوسرے سے ہم آغوش کبھی نہیں ہو سکتے۔ انسان ورطۂ حیرت میں غرق ہو جاتا ہے جب دیکھتا ہے کہ ڈرون حملوں پر قیامت برپا کر دینے والے عمران خان‘ ان بے گناہ پولیس اہلکاروں کی موت کا ذکر تک نہیں کرتے جو پولیو ٹیموں کی حفاظت کرتے ہوئے مار دیے گئے۔ عمران خان ان غیر ملکی جنگ جوئوں کے وجود کو‘ یوں لگتا ہے تسلیم ہی نہیں کرتے جنہوں نے ملک کے ایک حصے پر اپنی مکمل عملداری قائم کی ہوئی ہے۔ کیا عجب یہ سب کچھ تاریکی پسند قوتوں کو ساتھ رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہو! بہرطور‘ سیاست میں آ کر عمران خان نے ہیرو بننے کا چانس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ضائع کردیا۔ 
ناخواندہ اکثریت کو افتخار چودھری کے کارناموں کا مکمل ادراک نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ انہوں نے نصف درجن وردی پوش جرنیلوں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ یوں بھی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر بحالی کے بعد جسٹس افتخار چودھری وہ سب کچھ نہ کرتے جو انہوں نے کیا تو صرف 9 مارچ 2007ء والی ’’نہیں‘‘ بھی انہیں تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھی۔ رہا بالائی طبقہ تو وہ جسٹس افتخار چودھری کے جوڈیشنل ایکٹوزم (عدالتی فعالیت) کا اصل ہدف تھا۔ وہ کس طرح ان کے کارناموں کا معترف ہو سکتا ہے! بلاول بھٹو جب حکمت کے موتی بکھیرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھتے ہیں کہ آج عدلیہ بحال اور غیر جانبدار ہو گئی تو اس میں اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے لیے وہی عدلیہ غیرجانبدار ہوگی جو 
یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف جیسے سچے موتیوں کو چمکنے دمکنے کا کھلا موقع فراہم کرے اور پچھتر پچھتر اسّی اسّی سال کے سلمان فاروقیوں کو اس وقت تک سرکار کی گردن پر سواری کرنے دے جب تک ان کی آنکھوں میں دم ہے‘ خواہ ہاتھ جنبش کریں یا نہ کر سکیں۔ 
جسٹس افتخار چودھری اس مڈل کلاس کے ہیرو ہیں جو اس ملک پر قانون کی حکومت کے لیے ترستی کڑھتی اور بلبلاتی رہی ہے۔ جسٹس افتخار چودھری اس تعلیم یافتہ طبقے کے ہیرو ہیں جو سفارش‘ اقرباپروری اور لاقانونیت سے تنگ آ کر یہ ملک چھوڑ جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج اگر امریکہ‘ کینیڈا‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور جاپان میں آباد پاکستانیوں سے نقل مکانی کا سبب پوچھا جائے تو مالی سبب کے بعد دوسرا بڑا سبب پاکستان میں رول آف لا کا نہ ہونا ہوگا۔ 
جسٹس افتخار ولی تھے نہ فرشتہ۔ یہ کہنا آسان ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں کام نہیں کیے۔ ایک قنوطی کو خوش خبری دی گئی کہ اس کا خرگوش پانی پر چل رہا ہے تو اس نے آہ بھر کر کہا افسوس! تیر نہیں سکتا۔ 
کل کا مورخ اُن معاملات کی فہرست نہیں بنائے گا جو جسٹس افتخار چودھری درست نہ کر سکے۔ وہ ان کارناموں کو گنوائے گا جو انہوں نے سرانجام دیے۔ رہے معترض تو   ؎ 
شورش ترے خلاف زمانہ ہوا تو کیا 
کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں

Thursday, December 12, 2013

حرافہ

وہ سامنے سٹیج پر دیکھیے‘ زرق برق چھت کے نیچے‘ غباروں اور رنگین جھنڈیوں کے درمیان ایک عورت رقص کر رہی ہے۔ لباس ایسا ہے کہ پہن کر بھی نیم برہنہ ہے۔ بالوں کی آرائش اس انداز میں کی گئی ہے کہ عمر کم لگے۔ اونچی ایڑی کے اوپر ٹانگیں ننگی ہیں اور فربہ ہیں۔ چہرے کو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پینسٹھ برس سے کم کیا ہوگی۔ غازے کی دبیز تہہ جھریوں کو چھپانے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔ اس فحاش حرافہ کا وحشیانہ ڈانس دیکھنے کے لیے جو تماشائی دادِ عیش دے رہے ہیں وہ ایک خاص قماش کے لگ رہے ہیں۔ چُپڑے ہوئے سر‘ بڑی بڑی مونچھیں‘ انگلیوں میں انگوٹھیاں‘ کلف سے کھڑکھڑاتے خالص کاٹن کے لباس‘ ایک ہاتھ میں قیمتی موبائل‘ دوسرے میں دساور کے سگرٹ کی ڈبیا‘ کچھ کلین شیوڈ‘ بظاہر تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ 
فحاش حرافہ کے جسم کی ہر تھرک پر سیٹیاں بج رہی ہیں۔ وہ جب کولہے مٹکا کر سرینوں کو جنبش دیتی ہے تو گلاسوں سے مشروب ہوا میں اچھالے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر گرائے جاتے ہیں۔ حرافہ سٹیج سے اترتی ہے۔ رقص کناں‘ کرسیوں کے درمیان قطاروں میں آتی ہے۔ کوئی اُسے چھوتا ہے۔ کوئی ٹٹولتا ہے۔ کسی کے کاندھے پر وہ سر ٹیکتی ہے پھر اگلے ہی لمحے تھرکتے پیروں کے ساتھ آگے بڑھ جاتی ہے۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ کوئی نعرہ لگاتا ہے تو کوئی بڑھک مارتا ہے۔ موسیقی کی لے تیز ہونے لگی۔ وہ دیکھیے‘ ایک پگڑی والا‘ بڑی بڑی مونچوں کو تائو دیتا شخص سٹیج پر چڑھتا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں نوٹوں کا پلندہ ہے۔ پانچ پانچ ہزار کے نوٹ حرافہ کے سر پر بارش کی طرح برسنے لگتے ہیں۔ 
رقص کرنے والی یہ اوباش بڑھیا‘ یہ بدقماش بدصورت حرافہ‘ اس ملک کی وہ اشرافیہ ہے جو پینسٹھ برسوں سے غنڈہ گردی کر رہی ہے۔ سامنے بیٹھے موج میلا کرنے والے وہ جاگیردار‘ سردار‘ گدی نشین‘ صنعت کار‘ سیاستدان ہیں اور وہ بے ضمیر بیوروکریٹ ہیں جو اس اشرافیہ کے رکن ہیں۔ یہ جشن چیف جسٹس افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ پر منایا جا رہا ہے۔ 
قائداعظم کو تو قسّامِ ازل نے مہلت ہی نہیں دی۔ اُس وقت سے لے کر آج تک چیف جسٹس افتخار چودھری وہ پہلا شخص ہے جس نے اس بدمست بے مہار اشرافیہ کو نکیل ڈالی۔ یوں تو یہ اشرافیہ پورے ملک میں دندنا رہی تھی لیکن پارلیمنٹ اس کی خاص جولا نگاہ تھی۔ یہ چند سو افراد پوری اشرافیہ کی نمائندگی کر رہے تھے۔ قانون ان کے پائوں کی جوتی اور آئین ان کے محل کا چوبدار تھا۔ انہیں ہر وہ آزادی حال تھی جس کا اس کرۂ ارض پر تصور کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ کروڑوں اربوں کے قرضے لے کر معاف کرانا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اسلحہ ان کے لیے کھلونوں کا درجہ رکھتا تھا۔ درجنوں کیا بیسیوں کلاشنکوف بردار محافظ ان کے ساتھ پارلیمنٹ تک ہوتے تھے۔ جہاز ان کے لیے پروازیں مؤخر کر دیتے تھے۔ ٹریفک کے قوانین کا ان کے بچے اور ان کے نوکر بھی مذاق اڑاتے تھے۔ لیکن اس طبقے کی انتہا کی بے شرمی یہ تھی کہ یہ جعلی تعلیمی ڈگریوں پر منتخب ہوتے آ رہے تھے۔ کمرہ ہائے امتحان میں ان کی جگہ ان کے منشی بیٹھتے تھے۔ یونیورسٹیوں سے لے کر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارتِ تعلیم تک کوئی ان کے سامنے چُوں تک نہیں کر سکتا تھا۔ یہ نام نہاد منتخب نمائندے شرافت کے سینے پر بوجھ تھے۔ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ تھے۔ پڑھی لکھی مڈل کلاس انہیں دیکھ کر دہکتے انگاروں کی طرح سلگتی تھی لیکن کچھ کر نہیں پاتی تھی۔ 
چیف جسٹس افتخار چودھری اس ملک کی تاریخ میں وہ پہلا مردِ آہن ہے جس نے اس طبقے کو پکڑا اور کٹہرے میں کھڑا کیا۔ جعلی ڈگریوں والے ’’خاندانی شرفا‘‘ کے جسموں سے باعزت لبادے اُترے اور پھر اُترتے ہی چلے گئے۔ بساط الٹ گئی۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ کچھ نااہل قرار دیے گئے‘ ایوانوں سے بے آبرو ہو کر نکلے‘ میڈیا میں ان معززین کی تصویریں شائع ہوئیں۔ ان میں نوابوں کے اونچے گھرانوں کی خواتین بھی تھیں اور عباپوش واعظین بھی تھے۔ چیف جسٹس نے ثابت کردیا کہ یہ کلاس ناقابلِ شکست نہیں۔ ان کا جادو ٹوٹ سکتا ہے۔ 
چیف جسٹس افتخار چودھری کو کچھ سال اور مل جاتے تو اس طاقت ور طبقے کا سحر مکمل طور پر ٹوٹ جاتا۔ ان سے ٹیکس بھی پورا پورا وصول ہونا شروع ہو جاتا‘ ان کے لیے جہاز بھی مؤخر نہ ہوتے‘ ان کے محافظوں کی فوجیں بھی ختم ہو جاتیں اور انتظامیہ میں ان کی مکروہ مداخلت کا سدباب بھی ہو جاتا۔ 
اشرافیہ جشن منا رہی ہے۔ حرافہ ناچ رہی ہے۔ وہ شخص جس نے اشرافیہ کو نکیل ڈالی‘ رخصت ہو رہا ہے۔ اس جشن میں نوکر شاہی کے وہ رکن بھی شامل ہیں جو ہمیشہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے ہیں۔ نوکری شاہی کے ایک معروف رکن نے‘ جسے ریٹائر ہوئے بھی عشرے ہو چکے تھے‘ جس طرح وفاقی محتسب کی کرسی پر شبخون مارا اور جو بے پناہ طاقت اُسے حاصل تھی‘ چیف جسٹس افتخار چودھری نے اُسے قانون کی عدالت میں لا کھڑا کیا۔ پانچ 
سال میدانِ اقتدار میں کشتوں کے پشتے لگانے والے بہادر کو قانون کا سامنا کرنا پڑا تو واحد دلیل جو کیسہ سے نکلی علالت تھی! افتخار چودھری پہلا جج تھا جس نے ایک سابق آرمی چیف کو ملزم نہیں‘ مجرم قرار دیا اور اس کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کیا۔ یہ جادو بھی ٹوٹ گیا اور اب ایک دوسرا سابق آرمی چیف قانون کے شکنجے میں پھنسنے کو ہے۔ 
تو کیا جشن برپا کرنے والے پلٹ آئیں گے؟ کیا قانون پھر وہ فرش بن جائے گا جس پر یہ معززین جوتوں سمیت چلتے تھے۔ کیا جعلی ڈگریوں والے ’’عالم فاضل‘‘ پھر بھوکے ننگے عوام کی گردنوں پر سوار ہو جائیں گے؟ کیا اقتدار کے جوتے چاٹنے والے بیوروکریٹ گھومنے والی کرسیوں پر بیٹھ کر پھر گردنیں اکڑانے لگیں گے؟ کیا چراگاہوں کی چراگاہیں ملیا میٹ کردینے والے وزرائے اعظم کو کان سے پکڑ کر ایوانِ وزیراعظم سے کوئی نہیں نکال سکے گا؟ کیا ان بھیڑیوں کی اولاد سرکاری خزانوں کو پھر دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے گی؟ کیا اربوں کھربوں روپے اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں پھر بانٹے جانے لگیں گے؟ 
ناگفتہ سوال سینوں میں مچل رہے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار چودھری فرشتہ نہیں تھا کہ غلطیوں سے مبرّا ہوتا۔ لیکن ا س ملک میں پہلی بار قانون کی عمل داری اُس کے ہاتھوں قائم ہوئی۔ کیا یہ عمل داری جاری رہے گی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر دل میں ہے۔ اس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔

Tuesday, December 10, 2013

تیمور

کنارِ بحرالکاہل کے اس شہر میں جس کی کل عمر ایک سو اٹھتر سال سے زیادہ نہیں ، گرما کا موسم ہے، لیکن ایسا گرما ، ایسا تابستان شاید ہی کہیں ہو۔ سرما کا آغاز ہوا تو غالب نے کیا دل نشین شعر کہا    ؎
عید اضحی سرِ آغازِ زمستان آمد
وقتِ آراستنِ حجرہ و ایوان آمد
جاڑوں کے شروع میں عیدالاضحی آئی تو کیا جھونپڑے کیا محلات، سجاوٹ کا وقت آگیا۔
 لیکن افسوس! غالب نے تابستان پر کوئی شعر نہیں کہا۔ تجربہ تو نہیں لیکن شاید وجہ یہ ہو کہ ’’ ش‘‘ سے شروع ہونے والی چیزیں تابستان میں کم اور زمستاں میں زیادہ خوش آتی ہیں۔ بہرطور یہ غالب ہی کو معلوم ہوگا یاانہیں جو بنتِ عنب سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا    ؎
شام    آئی    ہے   شراب تیز  پینا   چاہیے
ہوچکی ہے دیر اب زخموں کو سینا چاہیے
بحرالکاہل کے کنارے اس شہر میں تابستان ہے اور کیا ہی دلکش تابستان ہے! ایک دن درجہ حرارت تیس تو اس کے بعد تین دن سولہ یا بیس اور کبھی تو سولہ سے بھی نیچے! وہ جو ظفر اقبال نے کہا ہے    ؎
کیا کیا کھلے ہیں پھول اس اندر کی دھوپ میں
آ دیکھ مل کے مجھ کو دسمبر کی دھوپ میں
توگرما کے باوجود درجہ حرارت سولہ ہو تو دھوپ میں سرما ہی کی مٹھاس ہوتی ہے!
مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں دسمبر کی دھوپ کیا رنگ جماتی ہے۔ اداسی سے بھرا رنگ! فقیر نے کہا تھا    ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
دارالحکومت کے پارک ،جنہیں زمین ہڑپ کرنے والے آہستہ آہستہ کھا رہے ہیں،زمستاں کی دھوپ میں کیا سحر بکھیرتے ہیں ۔ سرخ، خوں رنگ پتوں والے درخت اور عشاق کے رخساروں جیسی زرد گھاس ! رومی نے کہا تھا    ؎
آخر تو شبی رحمی نہ کنی
بر رنگِ رخِ ہمچون زرمن
آخر تو ایک رات بھی میرے چہرے پر رحم نہیں کرتا جو سونے کی طرح زرد ہوگیا ہے!
لگتا ہے رومی کا معشوق بھی پاکستانی اہلِ سیاست کی طرح سنگدل تھا جو عوام کے زرد پچکے ہوئے رخساروں پر رحم نہیں کرتے!
ہوشیار! اشہب قلم سیاست کا رخ کرنے لگا ہے! اس کالم کو سیاست سے دور رکھنے کا ارادہ کیا تھا! خدا کامیاب کرے! کچھ دن ہوئے ایک دوست نے ، جو فون کرکے کالموں کی بے پناہ تعریف کرتے ہیں اور جب ان کے باکمال کالموں کی تحسین کرنا ہو تو فون پر بات ہوسکتی ہے نہ ہی ای میل پہنچ پاتی ہے، لکھا تھا کہ لندن میں واک کا اور بک شاپس دیکھنے کا لطف ہے۔ یہی لطف میلبورن  میں بھی ہے۔ ہر طرف پارک ،واک کرنے کے ٹریک، کتابوں کی بڑی دکانیں تو نہیں لیکن لائبریریاں بے شمار اور مرکزی لائبریری سے استفادہ کرنے کے لیے تو عمرِنوح درکار ہے!
بارش آہستگی سے ہورہی ہے! بالکل چپکے سے ، احمد ندیم قاسمی کے بقول    ؎
یوں مڑ جیسے پھول کی پتی ،یوں چل جیسے سرگوشی
وقت کے اس لمحے کا تقاضا مدہوشی ہے مدہوشی
نویسندہ گرم جیکٹ میں ملبوس ہے۔ حمزہ اور زہرہ آغوش میں ہیں اور تیمور یاد آرہا ہے! تیمور ! جو اس گھر میں جو پہاڑی کے دامن میں کنارِ دریار پر ہے، ایک سفید ریش شخص کا انتظار کررہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جتنا بھی رو رہا ہوتا ہے جیسے ہی لائبریری میں آتا ہے چپ کر جاتا ہے۔ سب سے پہلے وہ شمشیر دیکھتا ہے جو دروازے کے اوپر ، دیوار پر آویزاں ہے اور جسے تاشقند سے دادا خان نوری لائے تھے۔ پھر الماریوں میں صف بہ صف کتابیں دیکھتا اور خوب غور سے دیکھتاہے۔ بسا اوقات جب دادا لکھ رہا ہوتا ہے تو اطمینان اور خاموشی سے پاس بیٹھا رہتا ہے۔
ایک برس پہلے جب وہ چار ماہ کا تھا ایک عزیز دوست گھر تشریف لائے۔ نام پوچھا، تیمور کیوں نام رکھا ہے؟ تیمور نے کون سا اچھا کام کیا تھا؟ دوستِ عزیز  ناموں کے خواص پر دلچسپ گفتگو کرتے ہیں۔ اعتقاد نہیں لیکن سننے میں مزا آتا ہے۔ یوں بھی ہر مسئلہ کفر اور ایمان کا مسئلہ نہیں ہوتا!
ایک ہی نام رکھنے والے افراد مختلف طبائع اور مختلف خصائل کے بھی ہوسکتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی ، اکبر کے دور میں ہوتے تو دین الٰہی کی ہر گز تائید نہ کرتے بلکہ مخالفت کرتے ، جہانگیری عہد میں ہوتے تو شیخ احمد سرہندی کے ساتھ کھڑے ہوتے۔سرسید احمد خان کی مخالفت میں بہت دور نکل گئے۔ اصل میں مخالفت انگریز کی کررہے تھے۔ اس لپیٹ میں ہر وہ شے آگئی جسے انگریز سے نسبت تھی۔ یہاں تک کہ اچھی چیزوں پر بھی رونا پیٹنا ڈال دیاجیسے   ؎
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
شہر سبز میں پیدا ہونے والے امیر تیمور کی بیگم الجائی کا بھائی حسین مرگیا تو تاتاریوں کو نیا خان منتخب کرنا تھا۔ مخالفت بہت تھی مگر درویش زمانہ خواجہ ابوالبرکات نے اعلان کردیا کہ تیمور نہ صرف ماور النہربلکہ توران کا بھی حکمران ہوگا۔ خواجہ آل رسول ؐ تھے اور علما ان کے ہم نوا تھے۔ تیمور نے خون بہایا ، سلطنتیں تاراج کیں کہ یہی اس عہد کا قانون تھا۔ زندہ رہنے کے لیے مارنا لازم تھا۔ پھر ہر شہر نیا بسایا۔ رومی نے کہا تھا   ؎
ہر بنائی کہنہ کاباد آن کنند
اول آن بنیاد را ویران کنند
کھنڈرات کو ازسرنو تعمیر کرنا ہوتو پرانی بنیاد کی جڑیں نکالنا پڑتی ہیں۔ عام آدمی کو تیمور نے جتنا خوش رکھا اس کی کم ہی مثالیں ہیں۔ ہسپانیہ کا سفیر اس کے دربار میں تھا۔یادداشتوں میں لکھتاہے کہ مسافروں کے سونے کے لیے شاہراہوں کے کنارے کشادہ ریسٹ ہائوس تھے اور زمین دوز نالیوں کے ذریعے ان تک پانی پہنچایا جاتا تھا۔ مسافروں کو جو کھانا دیا جاتا تھا اس میں گوشت کی مقدار کافی زیادہ ہوتی تھی۔ کارواں سرائوں میں حوض تھے۔ حوضوں میں فوارے تھے ۔فواروں کے نیچے برف پڑی ہوئی تھی۔ پاس پیتل کے کوزے پڑے ہوئے تھے کہ جو چاہے ٹھنڈا پانی پیئے۔
 کوئی لشکری کسی شہری کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ فوجیوں کو تنخواہیں سرکاری خزانے سے ملتی تھیں۔ فوجی کمانڈر عوام سے محصول یا کچھ اور لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ غیر آباد زمین آباد کرنے والے پر پہلے سال مالیہ معاف ہوتا اور دوسرے سال مالیہ کی مقدار اس کی مرضی سے مقرر ہوتی۔ یہی وہ اصول ہے جسے آج ٹیکس جمع کرنے والے سیلف اسسمنٹ کہتے ہیں۔
لیکن اس کا اصل کارنامہ سمرقند تھا۔ اس کے خوابوں کی تعبیر ! مفتوحہ دنیا سے ہر خوبصورت شے اور ہر لائق ہنرمند سمرقند لایاگیا۔ ترکی سے سنگ مرمر، خراسان سے ٹائلیں اور بغداد کا چاندی کا کام سب کچھ سمرقند میں تھا۔ نہریں تھیں اور چنار کے درختوں کی قطاریں، پل تھے اور باغات ، لالہ و گل روش اندر روش تھے۔ بازاروں میں بھیڑ تھی۔ ماسکو ، چین ، عرب اور قلسطنطنیہ کے قافلے تھے ۔ گوشت اور شیرمالیں تھیں۔ مصری کے کوزے اور انجیر۔ اور آباد میخانے !
تین بار سمرقند دیکھا ۔چوتھی بار دیکھنے کی ہوس ہے۔ تاشقند سے چلی ہوئی ریل چھ گھنٹے میں پہنچی۔ آج تک یہی نہ معلوم ہوا کہ یہ اشعار کیسے اترے اور کہاں سے اترے    ؎
سمرقند گنج گراں مایہ تھا اور میں اس میں تھا
سمر قند بابل کا ہم پایہ تھا اور میں اس میں تھا
سمر قند میں تھیں ہوائیں، ثمر اور نہریں وہی
سمرقند جنت کا ہمسایہ تھا اور میں اس میں تھا
سمرقند اک پرچم زرفشاں تھا افق تا افق
یہ پرچم زمانوں پہ لہرایا تھا اور میں اس میں تھا
سمرقند میں ہونٹ یاقوت، ماتھے ستاروں کے تھے
فرشتوں کا حسن اس میں درآیا تھا اور میں اس میں تھا
سمرقند میں شیشہ درشیشہ رس سرخ شہتوت کا
بہشت اس کے میووں سے شرمایا تھا اور میں اس میں تھا
سمرقند میں ہر جگہ سر پہ انگور کی شاخ تھی
سمرقند میں کس کو ہوش آیا تھا اور میں اس میں تھا

Monday, December 09, 2013

آہ! نیلسن منڈیلا!

آہ! نیلسن منڈیلا! ایک ناکام سیاست دان‘ ایک ناکام پارٹی ہیڈ‘ ایک ناکام صدر! 
 یہاں تک کہ بطور قیدی بھی ناکام! 
آپ بطور سیاستدان اس کی ناکامی دیکھ لیجیے‘سفید فام اقلیت کے خلاف تحریک چلائی تو حالات کے مطابق زمینی حقائق کو خاطر میں نہ لایا۔ کامیابی تو یہ ہوتی کہ وہ رات کے اندھیرے میں سفید فام حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملتا اور انہیں یقین دلاتا کہ میری قیمت ادا کر دیجیے اور جو خدمت چاہتے ہیں لے لیجیے۔ اُس کے بعد اپنی پارٹی کو اور اپنے پیروکاروں کو ایسا ناچ نچواتا کہ نسلی امتیاز تو کیا ختم ہوتا‘ اُسے ذاتی امتیاز ضرور حاصل ہو جاتا۔ پھر اس کا ڈیرہ ہوتا اور علاقے بھر کے جرائم پیشہ افراد! کوئی اس کا بال بیکا نہ کر سکتا۔ ’’آئین کے تناظر‘‘ کے حوالے سے ایسے ایسے نکات لاتا کہ سفید فام حکومت ایک نہیں کئی کمیٹیوں کی صدارت جھولی میں ڈال دیتی۔ 
یہ درست ہے کہ وہ جاگیردار تھا نہ صنعت کار لیکن آخر اور ماڈل بھی تو موجود ہیں۔ ایل پی جی کے لائسنس اپنے یا اپنی بیگم کے نام لیتا اور کروڑ پتی بن جاتا۔ بیٹی کو سفارت خانے میں اعلیٰ افسر لگوا لیتا۔ بھتیجے اور بھانجے کو تحصیل دار بنوا دیتا اور بیٹا اگر فوج میں تھا تو وہاں کے جنگی ماحول سے نکال کر سول سروس یا فارن سروس کے پُرامن ماحول میں براہ راست اعلیٰ منصب پر فائز کروا دیتا۔ بیٹے کی شادی پر جو کُنڈا بھی نہ لگا سکا‘ اُسے کامیاب سیاستدان کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ ذرا اُس کے پس ماندگان سے اتنا ہی پوچھ لیجیے کہ اپوزیشن کے زمانے میں کتنے لوگوں کی سفارشیں کیں اور اہل امیدواروں کی حق تلفی کر کے کتنوں کو تعینات کرایا؟ 
رہی نیلسن منڈیلا کی کارکردگی بطور پارٹی ہیڈ‘ تو اس کی ناکامی میں کیا کلام ہے! یہ کیسا پارٹی ہیڈ تھا؟ کیا اس نے پارٹی اپنی بہنوں کے سپرد کی؟ کیا آج اس پارٹی کا سربراہ اس کا بیٹا یا بھائی ہے؟ کیا اس نے اپنے سمدھی‘ بھتیجے اور بھانجے کو پارٹی میں پُرکشش عہدے دلوائے؟ اپنے قبیلے ’’تھمبو‘‘ کے کتنے افراد کو پارٹی میں اعلیٰ مقام دلوایا؟ آج سیاست میں اس کی کسی بیٹی‘ پوتے‘ نواسے کا نام سننے میں نہیں آ رہا! اگر وہ پارٹی کا کامیاب سربراہ ہوتا تو آج حالات اس قدر حوصلہ شکن نہ ہوتے۔ اس کے خاندان کا پارٹی پر قبضہ ہوتا! 
وہ 1994ء سے 1999ء تک پانچ سال جنوبی افریقہ کا صدر رہا۔ یہ عرصہ مکمل ناکامی کا عرصہ ہے۔ اس طوطا چشم شخص نے طویل قید کے دوران حقِ رفاقت ادا کرنے والوں کو یکسر بھلا دیا۔ جو ڈاکٹر علاج کرتا رہا‘ اسے وزیر بنایا نہ اس پولیس افسر کو تین ترقیاں اکٹھی دلوائیں جس نے گرمی کے موسم میں پولیس کی اس گاڑی میں ایئرکنڈیشنر لگوایا تھا جس میں سوار کرا کے اسے جیل سے عدالت لایا جاتا تھا۔ کسی مفرور ملزم کو بیرونِ ملک سے واپس منگوا کر اپنا سیکرٹری تک نہ لگایا۔ اپنے عہدۂ صدارت کے دوران ’’ریٹائرڈ صدر‘‘ کی مراعات تک میں اضافہ نہ کرایا۔ سب سے بڑی حماقت یہ کی کہ جب 1999ء میں صدارتی مدت پوری ہوئی تو دوسری ٹرم کے لیے صدارتی 
الیکشن لڑنے ہی سے انکار کر دیا حالانکہ وہ چاہتا تو آسانی سے کم از کم تین بار اس عہدے کو کامیابی سے حاصل کر سکتا تھا۔ ہمیں تو یہ بھی شک بلکہ یقین ہے کہ سابق صدر کے طور پر اس نے جی او آر میں سرکاری رہائش کا مطالبہ بھی نہیں کیا ہو گا‘ نہ ہی ذاتی کوٹھی سے وہاں منتقل ہوا ہو گا؟ 
ایسے شخص کی معاشرے میں آخر کیا عزت ہو گی جو صدارت کے عہدے سے ریٹائر ہوا تو فارم ہائوس کا مالک تھا نہ لندن میں فلیٹ تھا‘ نہ ہی دبئی میں محل نہ نیویارک میں پینٹ ہائوس! پہننے کے لیے ایک دو پینٹیں تھیں تو اسی پر صابر و شاکر رہا! انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! 
سیاسی قیدی کے طور پر بھی اُس کا کردار متاثر نہیں کرتا! یہ کیسا سیاسی قیدی تھا جس کا اصل جرم لاتعداد افراد کو ناجائز طور پر ملازمتیں دینا نہیں تھا؟ کسی کی ٹانگ کے ساتھ بم بندھواتا‘ کچھ آف شور کمپنیاں کھول کر ’’فراہم کردہ‘‘ سرمایہ باہر بھجواتا‘ کچھ بڑے بڑے سودوں میں حصہ لیتا‘ کچھ سیاسی حریفوں کو غائب 
کراتا‘ غرض کچھ کر کے جیل جاتا تو تب مانتے کہ ہاں سیاسی قیدی تھا! سیاسی قیدی اور وہ بھی صرف سیاسی جرم میں!! کم از کم ہم اہلِ پاکستان ایسی قید سے متاثر نہیں ہوتے۔ 
سنا ہے اس ناکام شخص کی آخری رسوم میں شرکت کے لیے پاکستان سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد جنوبی افریقہ جائے گا۔ نہیں معلوم اس وفد کی سربراہی کس اعلیٰ شخصیت کے حصے میں آتی ہے۔ اس ضمن میں دو تجاویز معقول نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ ا یسے افراد کو اس وفد میں شامل کیا جائے جنہیں ابھی تک جنوبی افریقہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تاکہ وہ اس موقع پر وہاں کی سیر بھی کر لیں۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ اخلاقی دیانت کو بروئے کار لاتے ہوئے وفد کا سربراہ وہاں اس حقیقت کی طرف ضرور اشارہ کرے کہ سیاست‘ لیڈر شپ‘ صدارت اور سیاسی قید کی جو اخلاقیات ہمارے ملک میں رائج ہیں‘ ان کی رُو سے آنجہانی مکمل طور پر ناکام رہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو صریح منافقت ہو گی! اگر نیلسن منڈیلا کامیاب تھا تو ہمارے سیاسی رہنمائوں کی اکثریت اس قابل ہے کہ کم از کم ان کا منہ ضرور کالا کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ منہ کالا کرنے کے بعد کے مراحل تکمیل تک نہ پہنچائے جائیں!

Friday, December 06, 2013

باقی عمر اضافی ہے

ڈیئر اظہار! آج محبوب صدیقی کراچی میں چل بسے۔ اس دور میں جو میڈیا کے بنائے ہوئے شاعروں کا دور ہے‘ وہ آخری شاعر تھے جو شاعری میں زندگی کرتے تھے۔ اُس شاعری میں جسے وہ لکھتے تھے اور محسوس کرتے تھے۔ 
(جاوید علی خان) 
یہ ای میل رات گئے موصول ہوئی‘ تب سے سوچ رہا ہوں‘ آج کتنے لوگ محبوب خزاں کو جانتے ہیں! ہر جینوئن شاعر تو ان سے متعارف ہے لیکن کیا اردو شاعری میں دلچسپی لینے والے تمام لوگوں نے ان کے بارے میں سنا ہے یا انہیں پڑھا ہے؟ ہرگز نہیں! اس کی ذمہ داری اُس میڈیا پر تو ہے ہی‘ جو نا شاعروں کو شاعر بناتا ہے لیکن خود محبوب خزاں پر بھی تھی اس لیے کہ وہ ساری زندگی تشہیر تو دور کی بات ہے تعارف سے بھی گریزاں رہے۔ اب یاد نہیں‘ یہ شعری بیٹھک فاطمہ حسن کے گھر کراچی میں ہو رہی تھی یا قمر جمیل کے ہاں‘ ہم دو تین دوستوں نے محبوب خزاں کو ان کے گھر سے لیا ۔ راستے میں سختی سے تاکید کی کہ قمر جمیل کے سامنے ان کے‘ یعنی محبوب خزاں کے شعری مجموعے کی اشاعت کا ذکر بالکل نہ کیا جائے کہ قمر جمیل پیچھے پڑ جاتے ہیں! 
ایک ہی مجموعۂ کلام شائع کیا۔ اتنا وقیع کہ اردو شاعری میں بلند مقام حاصل ہوا۔ غالباً ساٹھ کا عشرہ تھا جب تین شعرا نے اپنے اپنے شعری مجموعے ایک کتاب کی صورت میں شائع کیے اور اس ایک کتاب کا عنوان ’’تین کتابیں‘‘ رکھا! اس میں محب عارفی کی ’’چھلنی کی پیاس‘‘ تھی‘ قمر جمیل کی ’’خواب نما‘‘ اور محبوب خزاں کی ’’اکیلی بستیاں‘‘۔ ’’اکیلی بستیاں‘‘ نے اس وقت کے شعری پیش منظر پر غلغلہ برپا کردیا۔ کئی اشعار ضرب المثل کی صورت اختیار کر گئے۔ 
ایک محبت کافی ہے 
باقی عمر اضافی ہے 
کہتا ہے چپکے سے یہ کون 
جینا وعدہ خلافی ہے 
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں 
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں 
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں 
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں 
زیرِ لب آہ بھی محال ہوئی 
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں 
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے 
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں 
جو کھیل جانتے ہیں ان کے اور ہیں انداز 
بڑے سکون بڑی سادگی سے کھیلتے ہیں 
خزاںؔ کبھی تو کہو ایک اس طرح کی غزل 
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں 
کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر 
تھوڑی بہت انہی سے شرافت خریدیے 
یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو 
رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو 
محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا 
کچھ ایسی بات ہے انکار بھی کرتے نہیں بنتا 
اسی دل کو بھری دنیا کے جھگڑے جھیلنے ٹھہرے 
یہی دل جس کو دنیا دار بھی کرتے نہیں بنتا 
سنبھالنے سے طبیعت کہاں سنبھلتی ہے 
وہ بے کسی ہے کہ دنیا رگوں میں چلتی ہے 
تمہیں خیال نہیں کس طرح بتائیں تمہیں 
کہ سانس چلتی ہے لیکن اداس چلتی ہے 
پلکوں پر حسرت کی گھٹائیں ہم بھی پاگل‘ تم بھی 
جی نہ سکیں اور مرتے جائیں ہم بھی پاگل‘ تم بھی 
دونوں اپنی آن کے سچے دونوں عقل کے اندھے 
ہاتھ بڑھائیں پھر ہٹ جائیں ہم بھی پاگل‘ تم بھی 
ان کی شہرۂ آفاق نظم ’’اکیلی بستیاں‘‘ اردو شاعری میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نظم ہے۔ کیا اچھوتا اسلوب ہے اور کیا سحر طاری کر دینے والا ڈِکشن ہے۔ حسن اور عشق سے لے کر معاشرت‘ رواج اور معیشت تک‘ ہر موضوع چودہ سطروں والی اس نظم میں در آیا ہے۔ غنائیت اس قدر کہ جب بھی پڑھی جائے‘ نیا لطف آئے: 
بے کس چمبیلی‘ پھولے اکیلی‘ آہیں بھرے دل جلی 
بھُوری پہاڑی‘ خاکی فصیلیں‘ دھانی کبھی سانولی 
جنگل میں رستے‘ رستوں میں پتھر‘ پتھر پہ نیلم پری 
لہریلی سڑکیں‘ چلتے مناظر‘ بکھری ہوئی زندگی 
بادل‘ چٹانیں‘ مخمل کے پردے‘ پردوں پر لہریں پڑی 
کاکل پہ کاکل‘ خیموں پہ خیمے‘ سلوٹ پہ سلوٹ ہری 
بستی میں گندی گلیوں کے زینے لڑ کے دھما چوکڑی 
برسے تو چھاگل ٹھہرے تو ہلچل راہوں میں اک کھلبلی 
گرتے گھروندے‘ اٹھتی امنگیں‘ ہاتھوں میں گاگر بھری 
کانوں میں بالے‘ چاندی کے ہالے‘ پلکیں گھنی کھردری 
ہڈی پہ چہرے‘ چہروں میں آنکھیں‘ آئی جوانی چلی 
ٹیلوں پہ جوبن‘ ریوڑ کے ریوڑ‘ کھیتوں پہ جھالر چڑھی 
وادی میں بھیگے روڑوں کی بیٹی چشموں کی چمپا کلی 
سانچے نئے اور باتیں پرانی مٹی کی جادو گری 
پاکستان بنا تو محبوب خزاں الہٰ آباد یونیورسٹی میں گریجوایشن کر رہے تھے۔ پاکستان آ کر مقابلے کے امتحان میں بیٹھے۔ قمر جمیل کہا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے ا ندازے سے بتایا تھا کہ نتیجہ آئے گا تو یہ پوزیشن ہوگی اور وہی پوزیشن آئی۔ لاہور سے سول سروس کا آغاز کیا۔ ڈھاکہ بھی رہے۔ انور سن رائے نے بتایا ہے کہ تہران میں بھی تعینات رہے۔ اپنے ڈھنگ سے ملازمت کی۔ ضروریات محدود رکھیں۔ کروفر سے بھاگتے تھے۔ افسری اور شاعری… دونوں کو چھپاتے تھے۔ عمر بھر ازدواج کے جنجال سے دور رہے۔ زندگی والدہ کے لیے وقف کیے رکھی۔ بے حد وسیع المطالعہ۔ بے تکان بولتے تھے اور خوب بولتے تھے۔ 1982ء میں ان سطور کے لکھنے والے کا پہلا شعری مجموعہ ’’دیوارِ آب‘‘ چھپا‘ بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ایک دن کراچی سے ٹیلی فون آیا… بھائی! میں محبوب خزاں بول رہا ہوں۔ محمود لودھی نے تمہارا مجموعہ پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کتاب پر‘ شاعری کے استعاراتی پہلوئوں پر‘ اور اشعار کے تصویری منظروں پر ایسی خوبصورت گفتگو کی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ جسارت کر کے کہا کہ حضرت! جو کچھ فرما رہے ہیں‘ لکھ دیجیے کہ اعزاز ہوگا‘ ناخوش ہو گئے کہ بھائی! میں لکھا نہیں کرتا؟ بہت کم ملاقاتیں رہیں۔ کچھ عرصہ اسلام آباد قیام کیا۔ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کا زمانہ تھا۔ مکمل طور پر کنارہ کش رہے! 
پطرس بخاری اردو کے فکاہیہ ادب میں ایک کتاب سے زندہ ہیں۔ باقی صدیقی کا پنجابی کا ایک مجموعہ ’’کچے گھڑے‘‘ کئی پر بھاری ہے۔ محبوب خزاں کا مجموعہ ’’اکیلی بستیاں‘‘ بھی ان کا مقام متعین کر چکا ہے۔ بہرطور کیا عجب اس کے بعد کا غیر مطبوعہ کلام شائع ہو جائے!

Thursday, December 05, 2013

تبدیلی؟ کون سی تبدیلی؟

حضرت شیخ ابو سعید ابوالخیر ؒ سے پہلا تعارف اُس وقت ہوا جب سِن ابھی کچا تھا ۔ خاندانی کتب خانے کو چاٹنا شروع کیا تو ابھی فارسی پر دسترس حاصل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن دہلی کی چھپی ہوئی ’’رباعیات ابو سعید ابوالخیر ‘‘ ساری پڑھ ڈالی۔ جو رباعیات سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں ان میں بھی غنائیت ‘ قافیہ آرائی‘ سلاست اور زبان کی لذت کمال کی تھی۔ یہ بھی کتاب سے معلوم ہوا کہ والد گرامی جو رباعی درد اور گداز کے ساتھ مترنم آواز میں پڑھتے تھے وہ حضرت شیخ ہی کی تھی۔ تصوّف کے پورے ادب میں اس رباعی کا جواب ہے نہ نظیر۔
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر وبت پرستی باز آ
این درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
واپس آ جا۔ واپس آ جا۔ جو کچھ بھی تُو ہے‘ واپس آ جا‘ کافر ہے یا آتش پرست یا بت پرست‘ واپس آ جا یہ ہمارا دروازہ ناامیدی کا دروازہ نہیں۔ اگر ایک سو بار بھی توبہ توڑ چکا ہے تو واپس آ جا!
افغان مہاجر آئے تو کم از کم ایک فائدہ یہ ہوا کہ فارسی کی کتابیں ملنے لگیں۔ پشاور یونیورسٹی کے قریب ایک چھوٹی سی بغلی گلی میں ’’ کتاب فروشیٔ خاور‘‘ نامی دکان میں شاعری کا ذخیرہ تھا۔ وہیں سے رباعیاتِ ابو سعید کا ایران کا چھپا ہوا خوبصورت نسخہ ہاتھ آیا۔ استاد سعید نفیسی نے مقدمہ لکھا تھا۔
تصوّف میں شیخ  ؒ کا وہ مقام ہے کہ فریدالدین عطارؒ بھی رہنما قرار دیتے ہیں۔ ساری عمر اپنے علاقے نیشا پور میں گزار دی لیکن شہرت اندلس تک زندگی ہی میں پہنچ گئی تھی۔ بو علی سینا ملنے آئے تو تین دن تک گفتگو جاری رہی جس کے بعد آپ نے بتایا کہ جو کچھ بھی آپ دیکھ سکتے ہیں‘ سب بوعلی سینا کے علم میں ہے اور بو علی سینا نے بتایا کہ جو کچھ بھی وہ (یعنی بوعلی سینا) جانتا ہے‘ اُسے ابو سعید دیکھ سکتے ہیں!
ایک اور رباعی میں کمال کا نکتہ نکالتے ہیں   ؎
در کعبہ اگر دل سوئی غیر است تُرا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دَیر است تُرا 
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکدہ ای
می نوش کہ عاقبت بخیر است تُرا
کعبہ میں بیٹھ کر اگر دل غیر اللہ کی طرف ہے تو تمہاری اطاعت گناہ ہے اور کعبہ تمہارے لیے بت خانہ ہے۔ لیکن اگر دل اللہ کی طرف ہے اور میکدہ میں بھی بیٹھا ہے تو بادہ نوشی کر لے۔ اس لیے کہ انجام بخیر ہے!
لیکن اس تحریر کا سبب حضرت شیخ کی رباعیات نہیں ! چند دن ہوئے روزنامہ دنیا ہی میں آپ کے حوالے سے ایک حکایت پر نظر پڑی۔ حکایت اور ایسی حکایت کہ دم بخود کر گئی ! ایک شخص نے بتایا کہ فلاں صاحب پانی پر چلتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جل مرغی بھی پانی پر چلتی ہے۔ اُس نے کہا فلاں ہوا میں اُڑتا ہے۔ فرمایا کوّااور مکھی بھی ہوا میں اُڑتے ہیں ۔ پھر کسی نے بتایا کہ فلاں آنکھ جھپکنے کی دیر میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں پہنچ جاتا ہے۔ فرمایا‘ یہ تو کوئی کمال نہیں۔ شیطان بھی ایک لحظہ میں مشرق سے مغرب پہنچتا ہے۔ پھر فرمایا‘ اِن چیزوں میں کوئی کمال نہیں۔باکمال وہ ہے جو لوگوں میں اُٹھے بیٹھے۔ اُن کے ساتھ لین دین کرے‘ اہل و عیال کے حقوق پورے کرے اور پھر بھی ایک لحظہ خدا سے غافل نہ رہے۔
یہ ہے وہ اسلام جو اصل اسلام ہے‘ جس سے ہم ناآشنا ہیں اور جس کے بارے میں منبر سے بتایا جاتا ہے نہ محراب سے۔ عمر فاروق اعظمؓ سے کسی نے پوچھا تقویٰ کیا ہے۔ آپ نے لباس سنبھالا‘ پائنچے اوپر کیے اور چل کر بتایا کہ جنگل میں اس طرح چلنا کہ جھاڑیوں سے کپڑے نہ الجھیں یعنی دنیا میں رہ کر‘ معاملات سے سابقہ رکھ کر گناہوں سے بچنا۔ جھاڑیاں نہ ہوں گی تو کپڑے کیسے بچائے جائیں گے۔ معاملات ِ دنیا سے کنارہ کشی کر لی تو کیسا تقویٰ۔ فرشتوں کو تقویٰ نہیں کرنا پڑتا کہ ان کا سابقہ معاملات سے ہے ہی نہیں! اسی لیے فرمایا گیا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے! رہبانیت کیا ہے ؟ خانقاہ یا مسجد میں یا جنگل میں دنیا سے کنارہ کش ہو کر رہنا۔ دس دن تک کے اعتکاف کی اجازت بھی دی اور حکم بھی ۔ کہ اس کے بعد آ کر حقوق و فرائض کی دنیا میں اپنے آپ کو پیش کرو۔ ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘ آزمائش تو جبھی ہے کہ خاندان کے‘ اقربا کے اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرے۔ تاجر کی آزمائش کیا ہے؟ تجارت میں صد فی صد دیانت۔ دفتری بابو کی آزمائش کیا ہے؟ سائل کو اذیت سے بچانا۔ مسجد میں چار ماہ چھوڑ کر پوری زندگی گزار دی جائے تو دین کی تربیت نہیں ہو سکتی اس لیے کہ تربیت تو دنیا کے اندر رہ کر ہو گی۔ مسجد میں تو دنیا داری کی جھاڑیاں ہی نہیں ‘ کپڑے بچانے کا کیا فائدہ؟ اِن گنہگار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ مصیبت میں مبتلا شخص نے کسی دیندار سے کوئی کام کہا تو ایک ہی جواب ملا۔ ’’وعدہ نہیں کرتا‘‘ !تاکہ وعدہ ایفا ہی نہ کرنا پڑے!
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ موج میلہ کرنے والوں کا زمانہ گیا‘ اب وہ لوگ حکمران ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں! نمازیں؟عبادت؟ یہ تو بندے اور خالق کا معاملہ ہے۔ مخلوق پر کون سا احسان ہے؟ جس شخص کے بارے میں فاروق اعظمؓ نے لوگوں کی رائے پوچھی تھی‘ اسی کے بارے میں بتایا گیا وہ خشوع سے نمازیں پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے۔فرمایا۔ نہیں! یہ بتائو لوگوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے؟
نمازیں تو حجاج بن یوسف بھی پڑھتا تھا سینکڑوں تابعین کو شہید کرنے والا حجاج! نمازیں تو تیمور بھی پڑھتا تھا۔ عثمانی ترکوں پر چڑھ دوڑا جو مسلمان ہی تھے۔ حکمران سے باز پرس یہ ہو گی کہ عوام سے کیا سلوک کیا۔ اخبارات دہائی دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ڈاکخانہ بن کے رہ گیا ہے۔ ایک ایک تعیناتی‘ کیا بیرونِ ملک اور کیا اندرونِ ملک‘ وزیر اعظم کے دفتر سے زبانی احکام کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔ وہی ظلم جو پہلے تھا ۔ع
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
پہلے وزرائے اعظم بھی اپنے پرنسپل سیکرٹری کو ورلڈ بنک یا ایشیائی بنک بھیجتے تھے۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ یہ خیال ذہن میں نہیں آتا کہ کل کو یہ نوازے جانے والے کام نہیں آئیں گے۔
کل ظفر قریشی کو دفتر بلا کر کہا جاتا تھا کہ چھٹی پر چلے جائو‘ یا انکوائری نہ کرو۔ آج طارق ملک کو بلا کر کہا جاتا ہے کہ مستعفی ہو جائو یا فلاں کام نہ کرو۔ کون سی تبدیلی آئی ہے؟
انسان بھی کیا عجب مخلوق ہے۔ عقل ۔ایسی عقل کہ ایک کارخانہ بنا کر اس سے درجنوں بنا لیتا ہے‘ لیکن نادانی! ایسی نادانی کہ دوسروں کے لیے غلط کام کرتا ہے۔ فائدہ دوسروں کا اور وبال اپنی گردن پر! کیا عجب وہاں یہی لوگ مخالفت میں گواہی دیں! جن کا حق مارا جا رہا ہے و ہ تو فریاد کناں ہوں گے ہی‘ جن کی خاطر میرٹ کا قتل کیا جاتا ہے‘ وہ بھی کام نہ آئیں گے‘ کام آنا تو دور کی بات ہے‘ گواہی دیں گے کہ ہاں! ہماری خاطر ظلم کیا گیا!
نہیں ! کوئی تبدیلی نہیں آئی! وہی اسلوبِ حکمرانی ہے جو تھا! وہی خویش پروری ہے‘ وہی شاہانہ طرز ہے‘ ادارے بے بس ہیں‘ فردِ واحد کے منہ سے نکلا ہوا لفظ حکم ہے!ایسا ہی عالم ہوتا ہے جب خلقِ خدا راتوں کو گڑ گڑا کر فریاد کرتی ہے۔ حضرت شیخ ابو سعید ابوالخیرؒ کے بقول   ؎ 
وا فریادا ز عشق وا فریادا
کارم بیکی طُرفہ نگار افتادا
ہائے فریاد۔ہائے فریاد، یہ کیسا معشوق ہے جس سے عشق کو کام پڑ گیا!!

 

powered by worldwanders.com