وفاقی حکومت کے مشیر خزانہ نے‘ جو وزیر کا درجہ رکھتے تھے کچھ سرکاری معاملات طے کرنے کے لیے چیف آف جوائنٹ سٹاف کے ساتھ میٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزارتِ خزانہ کے متعلقہ افسروں اور اہلکاروں نے چیف آف جوائنٹ سٹاف کے دفتر سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ جب چاہیں‘ ہمارے ہاں تشریف لے آیئے!
دفاع کے تمام ادارے‘ جن میں مسلح افواج اور چیف آف جوائنٹ سٹاف بھی شامل ہیں‘ وزارتِ دفاع کا حصہ ہیں اور دفاع کا وفاقی سیکرٹری پوری وزارت کا‘ بشمول تمام ذیلی اداروں اور محکموں کے‘ افسرِ اعلیٰ ہے۔ اس کا تو امکان ہی نہیں تھا کہ میٹنگ وزیر خزانہ کے دفتر میں ہو! مزے کی بات یہ تھی کہ جو میٹنگ چیف آف جوائنٹ سٹاف کے ہاں ہوئی اس میں بھی اجلاس کی صدارت صرف وزیر نہیں‘ دو اصحاب کر رہے تھے۔ وزیر اور چیف آف جوائنٹ سٹاف‘ یہ مشترکہ صدارت‘ چبوترہ نما اونچے سٹیج پر رونما ہو رہی تھی۔ دفاع اور خزانہ دونوں کے وفاقی سیکرٹری نیچے دیگر ارکان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے!
ہماری پوری تاریخ اس قبیل کے خلافِ قیاس اور متناقض بالذّات (Paradoxical) واقعات سے بھری پڑی ہے۔ چار جرنیلوں کے طویل ادوارِ حکومت ایک قانون بنا گئے کہ وردی میں جو بھی ہوگا‘ برتر ہوگا۔ یہ قانون لکھا ہوا تو کہیں نہیں لیکن قوم کے ذہن پر گہرے نقش کی صورت میں مرتسم ہو گیا۔ فوج کے سربراہ جو وزیر دفاع کے ماتحت تھے‘ بیک وقت ملک کے صدر کی حیثیت میں وزیر دفاع کے باس بھی تھے۔ جو تجاویز فوج کا سربراہ وزارتِ دفاع کی خدمت میں پیش کرتا تھا‘ صدر مملکت کے طور پر خود ہی ان کی منظوری بھی دیتا تھا۔ دلچسپ ترین صورت حال یہ تھی کہ فوج کا سربراہ اپنے ملک کے وزیراعظم کو سلیوٹ تک نہیں کرتا تھا۔ سلیوٹ کرتا بھی کس طرح‘ وہ تو ملک کا صدر تھا اور وزیراعظم اُس کا ماتحت تھا! بقول مجید امجد ؎
جو تم ہو برقِ نشیمن‘ تو میں نشیمنِ برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا!
اس صورت حال میں ہم ایک طویل عرصہ گرفتار رہے۔ مہذب دنیا میں اس قسم کے Paradoxes کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ صورت حال ایک علامت تھی‘ ہماری پسماندگی کی۔ ہم خلجیوں‘ تغلقوں اور مغلوں کے زمانے ہی میں رہ رہے تھے جب صوبوں اور ریاستوں کی حکومتیں اُن صوبیداروں اور گورنروں کو ملتی تھیں جو زیادہ سے زیادہ لشکری فراہم کرتے تھے!
29 نومبر کو جی ایچ کیو کے گرائونڈ میں آرمی چیف بننے کے بعد جنرل راحیل شریف نے وزیر دفاع کو سلیوٹ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ دوسرے مہذب ملکوں کی طرح‘ جہاں ادارے افراد سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں‘ پاکستان بھی اس صورت حال سے باہر آ رہا ہے جس پر یا تو افسوس کیا جا سکتا تھا یا ہنسا جا سکتا تھا۔ فوج کے سپہ سالار نے یہ سلیوٹ خواجہ آصف صاحب کو نہیں کیا‘ وزیر دفاع کو کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ سلیوٹ نئے کمانڈر ان چیف نے جمہوریت کو کیا ہے‘ اداروں کی تقدیس کو کیا ہے‘ پاکستان کی حکومت کو کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاست کو کیا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ سلیوٹ ایک علامت ہے قوم کی ذہنی پختگی کی‘ رُولز آف بزنس کی‘ اور اس خوشگوار تبدیلی کی کہ اب یہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا اصول نہیں چلے گا۔ وہ زمانہ لد گیا جب ایک بندوق بردار شیخی بگھارتا تھا کہ آئین کیا ہے‘ کاغذ کا ایک ٹکڑا جسے جب بھی میں چاہوں پارہ پارہ کردوں۔ جنرل راحیل شریف کا سلیوٹ بتا رہا ہے کہ آئین کاغذ کا ٹکڑا نہیں‘ ایک بنیادی دستاویز ہے جسے ماننے اور جس پر عمل کرنے ہی میں ہمارا ملک ازمنہ وسطیٰ کی بادشاہتوں سے نکل کر ایک جدید جمہوری ریاست بن سکتا ہے۔
یہ سلیوٹ یوں بھی ایک نیک فال ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیا سپہ سالار نظام اور نظم پر یقین رکھتا ہے‘ بدنظمی اور لاقانونیت پر نہیں! وہ اپنے سینئرز کا احترام کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ اُس کے ماتحتوں کے لیے ایک صحت مند مثال ہے کہ وہ بھی اپنے سینئر کا احترام کریں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جمہوری حکومت خود بھی آئین اور جمہوریت کا احترام کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے دل بوجھل ہو جاتا ہے۔ ان معاملات کو تو جانے دیجیے کہ اب تک وزیراعظم نے جتنے غیر ملکی دورے کیے ہیں‘ اکثر و بیشتر میں چار صوبوں میں سے صرف ایک صوبے کا وزیراعلیٰ اُن کے ہمراہ تھا! شاید اس لیے کہ حکومت اور حکومتی پارٹی پر اس صوبے کی چھاپ ہے‘ یا شاید اس لیے کہ رشتہ داری ہے۔ یہ تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہ ہو لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ پارلیمنٹ کو اُس کا جائز آئینی مقام نہیں دیا جا رہا! کیا برطانیہ‘ کینیڈا‘ امریکہ‘ فرانس‘ آسٹریلیا‘ سنگاپور اور دوسرے جمہوری ملکوں میں فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے نام نہاد اے پی سی کرتی ہیں؟ اس سے بڑھ کر منتخب پارلیمنٹ کی تضحیک اور بے حرمتی کیا ہوگی کہ جن افراد کو عوام نے اپنا نمائندہ بنا کر ایوان میں بھیجا‘ اُن کے بجائے اُن لوگوں کو جمع کر کے قومی مسائل پر غور ہوتا ہے جنہیں عوام نے جھٹک دیا‘ اور جو زخم چاٹتے پھرتے ہیں!
آل پارٹیز کانفرنس؟؟ کیوں؟ اگر ایسے مسائل کا حل جو ملک کے لیے زندگی اور موت کے مسئلے ہیں‘ آل پارٹیز کانفرنس نے طے کرنے ہیں تو پھر بجٹ بھی یہی کانفرنس پاس کرے‘ خارجہ پالیسی بھی یہی کانفرنس طے کرے۔ اقتصادی پالیسیاں بھی یہی کانفرنس بنائے اور سپیکر صاحب قومی اسمبلی کو اور چیئرمین صاحب سینیٹ کو فارغ کر کے اپنے اپنے گھر کو روانہ ہوں۔ آخر یہ کون سی جمہوریت ہے؟ یہ ماڈل کس جمہوری ملک میں کام کر رہا ہے؟ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ فیصلے کرنے والوں کو خود پر اعتماد ہے نہ پارلیمنٹ پر‘ وہ ذمہ داری نہیں لینا چاہتے۔ وہ آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔ یا پھر وہ اُن قوتوں سے خائف ہیں جو عوام میں مقبول نہیں لیکن اُن کے پاس دوسرے ہتھکنڈے ہیں۔ ورنہ ایک منتخب حکومت کو‘ ایک بھاری مینڈیٹ رکھنے والی حکومت کو‘ کیا پڑی ہے کہ اُن مسخروں کی خوشامد کرتی پھرے جنہیں عوام نے بغیر کسی شک و شبہ کے نامنظور کردیا ہے اور اب وہ اپنی ہر تقریر‘ ہر بیان میں عوام کو سڑکوں پر نکلنے کا کہتے پھرتے ہیں! یہ تو ہرگز ہرگز ایک جمہوری حکومت کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنی باگ ڈور غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں دے دے۔ یاد رکھیے‘ اگر آپ نے اُنہی قوتوں کو فیصلے میں شریک کرنا ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہیں تو پھر ان میں سب سے بڑی قوت مسلح افواج ہیں!!
آئین کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی‘ میرٹ کا بول بالا‘ پارلیمنٹ پر اعتماد… یہ ہیں وہ عناصر جو ایک کامیاب جمہوری عمل کی ضمانت دیتے ہیں۔ نئے آرمی چیف نے وزیر دفاع کو سلیوٹ کر کے جمہوریت پر اپنے پختہ یقین کی جھلک دکھا دی ہے۔ اب یہ جمہوری حکومت کا فرض ہے کہ وہ اُن اداروں کو بروئے کار لائے جن کی حیثیت آئینی ہے۔ غیر آئینی خود ساختہ اجتماعات کے ہاتھ میں اختیارات دے کر اپنے آپ کو تماشا بنائے‘ نہ ہی بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالے!
No comments:
Post a Comment