Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, April 24, 2012

ڈاکو کو گھر سے نکالنے کا طریقہ

ریاستی اہلکاروں  کی نااہلی دیکھئے کہ ان کے سامنے قومی شاہراہیں بازاروں میں تبدیل ہو رہی ہیں لیکن اُن کی آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اُن کے ہونٹ جیسے سِل گئے ہیں اور کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ٹیکس بچا کر قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے تاجر، کھنکتے سکّوں کی چمک سے سرکاری اہلکاروں کی استعداد کو مفلوج کر رہے ہیں۔ کسی کو پرواہ نہیں کہ چونچوں میں جو چوگ ڈالی جا رہی ہے وہ جائز ہے یا ناروا!



نااہلی کی صرف ایک مثال دیکھئے اور اس پر سارے ملک کو قیاس کیجئے۔ راولپنڈی سے کوہِ مری جانے والی قومی شاہراہ ملک کی اہم ترین شاہراہوں میں شمار ہوتی ہے لیکن آپ کنونشن سنٹر سے جیسے ہی مری کی طرف روانہ ہوتے ہیں، چھ سات منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہی یہ قومی شاہراہ راجہ بازار میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے، شاہراہ کے دونوں طرف دکانیں اس طرح تعمیر کی گئی ہیں  کہ وہ  بالکل شاہراہ کے اوپر ہیں۔ سامان ڈھوتی سوزوکی ویگنیں، گاہکوں کی کاریں اور موٹر سائیکل، دکانوں کے سامنے تجاوزات، سب کچھ یوں گڈمڈ نظر آتا ہے جیسے بادامی باغ یا پیر ودھائی کا اڈہ یہیں منتقل ہو گیا ہو۔ چند کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے سی ڈی اے کے اہلکار، ضلعی انتظامیہ کے جتھوں کے جتھے، سب اس صورتحال سے بے نیاز ہیں جیسے قومی شاہراہ کا یہ ٹکڑا اُنکی ذمہ داری کی سرحدوں سے باہر ہے، حالانکہ بچے کو بھی اس صورتِ حال کا حل معلوم ہے۔ بازار کے سامنے سروس روڈ بنانی ہے اور سروس روڈ اور شاہراہ کے درمیان دیوار تعمیر کرنی ہے۔
کوئی مہذب ملک اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عوامی راستوں میں رکاوٹیں ڈالی جائیں لیکن ہم اتنے زیادہ مہذب ہیں کہ کسی بھی شاہراہ کے کسی بھی حصے کو اپنے ذاتی استعمال کےلئے بند کر سکتے ہیں۔ شادی ہو یا موت، سائبان شاہراہ پر لگائے جائینگے۔ مکان تعمیر کرنا ہے تو ریت بجری اور سریا شاہراہ کے اوپر ڈھیر کئے جائینگے۔ دکان کھولنی ہے تو اُس کا منہ شاہراہ کے کنارے سے بالکل جُڑا ہوا ہو تاکہ گاہک کی گاڑی شاہراہ کے اوپر پارک کی جائے۔ کوئی پابندی ہے نہ قانون، ضابطہ ہے نہ کسی کا خوف۔ نوکر شاہی سبز پتوں کا پانی پی کر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ رہا وہ زرِکثیر جو نوکر شاہی پر صرف ہو رہا ہے تو وہ ٹیکس دہندگان کے خون اور پسینے سے اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ وہی بدبخت ٹیکس دہندگان جن کی شاہرائیں راجہ بازاروں میں تبدیل ہو رہی ہیں!


لیکن اس میں تعجب کیسا! اس انوکھے دیس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں عجائبات کا امکان وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ قومی شاہراہوں کا کیا رونا کہ قومی سطح کے رہنما میاں نواز شریف تجویز کرتے ہیں کہ سیاچن سے پاکستان رضا کارانہ طور پر اپنی فوج واپس بُلا لے۔ کوئی پوچھے کہ یہی کرنا تھا تو سالہا سال تک اربوں کھربوں روپے کیوں صرف ہوتے رہے؟ اور کیا ڈاکو کو گھر سے نکالنے کا یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ گھر کا مکین اپنا سامان اٹھائے اور گھر سے باہر نکل جائے؟ سیاچن پر مسلح واردات پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے کی تھی۔ پاکستان نے کارروائی مجبوراً کی تھی۔ اگر وہاں سے فوجیں واپس آنی ہیں تو پہلے بھارت کی فوج واپس آنی چاہئے۔


مردِ مومن مردِ حق جنرل ضیاالحق نے بھی بھارت کی دلجوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاچن پر تو گھاس کا تنکا تک نہیں پیدا ہوتا۔ حب الوطنی کا کیا اصول دریافت کیا تھا آپ نے! گویا ملک میں جہاں جہاں گھاس نہیں اُگتی، اُن حصوں کو دشمن کے حوالے کر دیا جائے! یہ درست ہے کہ دفاع پر ہمارے وسائل بے تحاشا خرچ ہو رہے ہیں اور ہماری غربت اسکی متحمل نہیں ہو سکتی لیکن بھارت کا جنگی جنون اور بے پناہ تیاریاں پاکستان کو اپنے دفاع پر مجبور کرتی ہیں، پانچ گنا بڑے ملک کو اتنا شدید احساسِ کمتری ہے کہ سیاچن کی چوٹی پر چڑھ کر بیٹھ گیا ہے، اسلحہ کے انبار لگا دئیے ہیں اور ساتھ ساتھ آہ و زاری بھی ہو رہی ہے اور واویلا بھی مچا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان اس محاذ سے پیچھے ہٹ جائے تو اسے اقدامِ خودکشی ہی کہا جا سکتا ہے!


ہماری بدقسمتی ہے کہ کچھ لوگ روشنی اور چاندنی تو اِس ملک کی استعمال کرتے ہیں لیکن دلوں میں محبت کسی اور کی بستی ہے۔  سعودی عرب میں پاکستانیوں نے انتہائی درد سے بتایا کہ ایک بڑے  پاکستانی سیست دان  سرمایہ دار نے وہاں کارخانہ لگایا لیکن بمشکل ہی کسی پاکستانی کو وہاں ملازمت دی جاتی ہے۔ پالیسی یہ بنائی گئی ہے کہ بھارتیوں کو نوکریاں دی جائیں۔ تعجب اور افسوس ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بستی پاکستان میں بسائی جاتی ہے لیکن نام اُس بستی پر رکھا جاتا ہے جسے بھارت میں چھوڑ آئے تھے۔ سچ کہا تھا اقبال نے


براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے 


ہوس سینوں میں چُھپ چُھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں


بات قومی شاہراہوں سے چلی تھی لیکن قومی لیڈروں کی طرف مُڑ گئی۔ تاہم شاہراہوں اور لیڈروں میں کم از کم ایک مماثلت ضرور ہے اور وہ یہ کہ دونوں پر قانون کا نفاذ لازم ہے۔ آج ہماری شاہراہیں لاقانونیت کا نمونہ ہیں، اس لئے کہ انہیں قانون کی حدود سے باہر کر دیا گیا ہے۔ تجاوزات روکنے کا قانون، ٹریفک کے قوانین غرض شاہراہیں تمام قوانین سے آزاد ہو گئی ہیں۔ حادثات میں اموات کی شرح کئی دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے۔ قصبوں اور بستیوں کا کیا شمار کہ بڑے شہروں میں رات کو گاڑیاں بتیوں کے بغیر چلائی جا رہی ہیں۔ یہی حال قومی سطح کے رہنمائوں کا ہے۔ ان پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتیں گدیاں بن گئی ہیں، آخر کون سا قانون ہے جو پارٹیوں کو سربراہوں کی اولاد کی ملکیت میں منتقل کر رہا ہے؟ پشاور سے لےکر ڈی آئی خان تک، گجرات سے لےکر لاہور تک، ملتان سے لے کر لاڑکانہ تک، سیاسی پارٹیاں مکانوں اور دکانوں کی طرح نسل در نسل وراثت کی شکل اختیار کر گئی ہیں! قانون تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات ہوں اور رہنمائی چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو لیکن نون سا قانون اور کہاں کا قانون!


دوسرے قوانین سے بھی لیڈرانِ کرام کی فوج ظفر موج مستثنیٰ ہے۔ ٹیکس کے قوانین، اسلحہ کے قوانین ٹریفک کے قوانین، بنکوں کے قوانین، صنعت و حرفت کے قوانین، بین الاقوامی سفر کے قوانین، درآمد اور برآمد کے قوانین، تھانے اور کچہری کے قوانین، الیکشن کے قوانین‘ غرض جتنے بھی قوانین موجود ہیں، اُن کا نفاذ لیڈروں پر اور ان کی آل اولاد پر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ لاقانونیت شاہراہوں پر زیادہ ہے یا سیاست میں زیادہ ہے، رہے عوام تو وہ بے چارے ان درختوں کی طرح ہیں جو شاہراہوں کے کنارے چپ چاپ لاقانونیت کو رات دن دیکھ رہے ہیں اور بے بس ہیں۔ ظہور نظر کا شعر یاد آ گیا


شاہراہیں پا بریدہ راہگیروں سی لگیں


صورتیں اشجار کی مجھ کو اسیروں سی لگیں

Tuesday, April 17, 2012

پہاڑی اور جائے نماز

آپ کا کیا خیال ہے کہ ملک کو درپیش اکثر عوامی مسائل کا ذمہ دار کون سا طبقہ ہے؟



بات سیاسی مسائل کی نہیں ہو رہی۔ عوام کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ کمر توڑ مہنگائی کا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آسمان کو چھوتی قیمتیں ادا کرنے کے بعد بھی کیا وہ خالص خوراک اور خالص دوا حاصل کر سکتے ہیں؟


اب اس مسئلے کو تھوڑی دیر کے لئے یہیں رہنے دیجئے۔ ہم ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں۔ علماءکو چھوڑ کر، سب سے زیادہ بظاہر دیندار لوگ کس طبقے میں نظر آتے ہیں؟ آپ اتفاق کریں گے کہ دیندار نظر آنے والے لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد تاجر برادری میں شامل ہے۔ یہ لوگ ماشاءاللہ متشرع ہیں۔ زکوٰة ادا کرتے ہیں، مسجدیں بنواتے ہیں، چندے دیتے ہیں، خیراتی اداروں کی دل کھول کر امداد کرتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، عمرے اور حج ادا کرتے ہیں اور اگر ہم غلطی نہیں کر رہے تو مدارس میں تعلیم پانے والے بچوں کی اچھی خاصی تعداد بھی انہی کے گھرانوں سے آ رہی ہے۔


لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ اس کے باوجود پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں کھانے پینے کی اشیاءمیں سب سے زیادہ ملاوٹ ہے۔ ہماری تاجر برادری کا کمال یہ ہے کہ مذہب کے سارے ظاہری تقاضے پورا کرتے ہیں اور پیروی اُس شخص کی کرتے ہیں جو ایک پہاڑی پر جائے نماز بچھائے نفل پر نفل پڑھے جا رہا تھا، پہاڑی کے دامن سے ایک مسافر گذرنے لگا تو وہ نفل چھوڑ کر نیچے اترا، مسافر کو لوٹا اور مصلّے پر کھڑے ہو کر نفل دوبارہ شروع کر دئیے۔ کسی نے اس حرکت کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا یہ میرا دین ہے اور وہ میری دنیا ہے۔ جعلی ادویات، بچوں کے معصوم منہ میں جاتا ناخالص دودھ ، آٹا، چائے، گھی، دودھ، بیسن، سوجی، مرچ، شیمپو، سب جعلی اور ملاوٹ زدہ۔ آپ ان کی سینہ زوری کا اندازہ لگائیے کہ اگر پٹرول کی قیمت آج بڑھی ہے تو یہ مہینوں پہلے خریدا ہوا مال بھی مہنگا کر دیتے ہیں۔بہت کم تاجر ایسے ہیں جو مانگے بغیر رسید دیں گے۔ مال کی گارنٹی کا دعویٰ کریں گے لیکن جب آپ کہیں گے کہ یہ گارنٹی لکھ کر عنایت کر دیجئے تو صاف انکار کر دیں گے۔ ان کی سب سے بڑی دلیل ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ ”آپ بے فکر ہو کر یہ مال لے جائیے، آج تک شکایت نہیں آئی“ اور شکایت لے کر آنےوالےسے یہ لوگ جس حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں اُس کی نسلیں بھی شکایت کرنے سے توبہ کر لیتی ہیں۔ پوری مہذب دنیا میں گاہک کا بنیادی حق ہے کہ وہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل کرے۔ دو ڈالرکی شے بھی خریدیں تو ساتھ ایک کاغذ ملتا ہے جس میں واپس کرنے یا تبدیل کرنے کا طریق کار لکھا ہوتا ہے۔ رسید دکھا کر آپ مہینوں بعد بھی خریدی ہوئی شے تبدیل کر سکتے ہیں اور واپس بھی کر سکتے ہیں لیکن اپنے ملک میں جب آپ دکان میں داخل ہوتے ہیں تو تاجر برادری کی طرف سے پہلا زناٹے دار تھپڑ آپ کے منہ پر اُس وقت پڑتا ہے جب آپ سامنے لکھا ہوا بورڈ پڑھتے ہیں کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔ فروخت کرتے وقت شے کا نقص واضح طور پر بتانا بنیادی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ یہاں شاید ہی کوئی کام کرتا ہو۔لگتا ہے کہ ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے‘ جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ یہ ساری تعلیمات یہ سارے احکام غیر مسلموں کےلئے ہیں کیوں کہ وہی ان پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارے حاجی صاحبان کا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ رہا وعدہ پورا کرنا تو اس کا ہماری تاجر برادری سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور وعدہ خلافی کا سب سے زیادہ شکار ہماری خواتین ہیں۔ اس ملک میں ہر سال لاکھوں کروڑوں شادیاں ہوتی ہیں، لاکھوں کروڑوں کے حساب سے دلہنوں کے غرارے، لہنگے اور ملبوسات تیار کرائے جاتے ہیں، مرد حضرات یہ سارا کام خواتین کے ذمے لگا دیتے ہیں، وہ تاجر جو یہ مصنوعات تیار کراتے یا فروخت کرتے ہیں ان میں سے ننانوے فیصد خواتین سے وعدہ خلافی کا سنگین ارتکاب کرتے ہیں، دس دس چکر لگواتے ہیں، کام معاہدے کے مطابق نہیں ہوتا۔ چونکہ ہمارے کلچر میں احتجاج کا رواج نہیں، اس لئے خواتین یہ تمام وعدہ خلافیاں اور بددیانتیاں خاموشی سے برداشت کرتی جاتی ہیں۔


آپ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ پٹرول کے نرخ بڑھنے کی افواہ پھیلتی ہے تو پٹرول پمپ بند کر دیے جاتے ہیں تاکہ ذخیرہ اندوزی ہو سکے۔ ان حضرات نے ہمیشہ چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اربوں روپے کمائے جو ظاہر ہے ناجائز کمائی ہے۔ کسان سے گندم سستی خرید کر منڈی میں گراں فروخت کرنا ان حضرات کا سالانہ معمول ہے۔
جب بھی کوئی حکومت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کا پروگرام بناتی ہے تو ہماری تاجر برادری آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے اور ”وطن پرستی“ کی آڑ میں اپنی ناروا منافع خوری کی حفاظت کرنے لگتی ہے۔ ٹیکس کے محکمہ کے اہلکاروں کی جیبیں بھر کر ملک کے خزانے کو سالانہ کھربوں روپے کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے۔


 تاجر برادری کی تازہ ستم کاری یہ ہے کہ انہوں نے شام کے آٹھ بجے تجارتی سرگرمیاں بند کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ غالباً ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک ہے جہاں دکانیں دن کے بارہ بجے کے بعد کھولی جاتی ہیں۔عرب ملکوں میں دکانیں صبح کی نماز کے بعد کھل جاتی ہیں۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک صبح نو بجے سارے بازار، تجارتی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں آپ چھٹی لیتے ہیں کہ گھر کے لئے خریداری کر لیں لیکن ظہر تک تاجر حضرات آپ کی شکل ہی نہیں دیکھنا چاہتے۔ایک دلیل یہ آئی ہے کہ موسم گرما کی شدت میں گاہک شام کے بعد آتے ہیں۔ تو کیا آپ حضرات موسم سرما میں شام کے بعد دکانیں بند کر لیں گے کیونکہ سردی کی شدت میں گاہک نہیں آئیں گے؟صرف سینہ زوری ہے اور ایک غیر منطقی ضد.... ایک بے لچک رویہ جس کا کوئی جواز نہیں ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق عشاءکی نماز کے بعد جلد سونے کا حکم ہے تاکہ سحر خیزی میں رکاوٹ نہ ہو۔ پوری دنیا میں بازار سرِشام غروب آفتاب سے پہلے بند ہو جاتے ہیں سوائے ریستورانوں اور چند دوا فروشوں کے۔!


انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر ملک میں توانائی کا بحران نہ بھی ہو تو بازار صبح نو بجے کھلنے چاہئیں اور سرِشام بند ہونے چاہئیں۔ قدرت نے رات سونے کےلئے بنائی ہے اور دن کام کرنے کے لئے۔ اگر حکومت بدعنوان ہے، اگر سیاستدان خود غرض ہیں، اگر بیورو کریسی نااہل ہے تو کم از کم تاجر برادری تو عوام کا ساتھ دے!

Tuesday, April 10, 2012

ذہن میں اُٹھٹا بلبلہ

”بلاول معمولی شخصیت نہیں ہے وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا منتخب چیئر مین ہے۔ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اسے چنا ہے اور اسے قوم کا مینڈیٹ حاصل ہے۔“



یہ بیان وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا ہے جو انہوں نے چوہدری نثار علی خان کے بیان کے جواب میں دیا ہے۔ بیان سے ظاہر ہے کہ یہ انکے دلی جذبات ہیں۔ اس میں ملازمت کی مجبوری کا کوئی پہلو نہیں۔ اس بیان کا اس حقیقت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ بطور وزیر اطلاعات خوش نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پیپلز پاٹی کے پرانے لوگ انکی وزارت میں مداخلت کرتے ہیں۔ ”پرانے “ اور ”نئے“ کا مسئلہ ٹیڑھا ہے۔ پرانے لوگوں کا موقف یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو پیپلز پارٹی میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔آٹھ دن پہلے وہ کسی اور پارٹی میں تھیں۔ تاہم ”نئے“ اور ”پرانے“ کا یہ قضیہ صرف پیپلز پارٹی میں نہیں۔ جماعت اسلامی کے پرانے رہنما قاضی حسین احمد نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے نیٹو سپلائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا تو انکے یعنی قاضی صاحب کے جماعتی سرگرم ارکان سپلائی روٹ بند کر دینگے۔ اس پر ”نئے“ رہنما جناب منور حسن کا ردّ عمل نہیں معلوم ہوا۔ جس انگریزی معاصرنے قاضی حسین احمد کی تقریر رپورٹ کی ہے ا س نے :


HIS PARTY ACTIVISTSکے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اگرپارٹی کے ارکان کسی رہنما کی ملکیت ہیں تب بھی یہ فیصلہ تو کرنا پڑےگا کہ وہ پرانے رہنما کی ملکیت میں ہیں یا ان کا مالک نیا رہنما ہے۔ ویسے قاضی صاحب کو خدا اور توانائی دے، وہ اِن رہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یوں بھی کئی دہائیاں جماعت پر حکمرانی کرنے کے بعد انکی حالت شاہ جہان جیسی ہے۔اورنگ زیب نے اسے قلعے میں محبوس کیا تو اس نے بچے پڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر فرزند ارجمند کا تبصرہ یہ تھا کہ حکومت کرنے کی خُو نہیں گئی۔ اس سے ہمیں ایک اور نکتہ یاد آیا۔ ہم جب بھی رونا روتے ہیں کہ پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کے اندر انتخابات نہیں ہوتے تو ہمیں ”خوشگوار“ او ر ”نرم“ قسم کی ای میلیں بھیجی جاتی ہیں کہ تم جماعت کا ذکر نہیں کرتے جس میں انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں جبکہ جمہویت کیلئے صرف ایسے انتخابات ہی ضروری نہیں ہوتے جسکے نتیجے میں بیس بیس پچیس پچیس سال کیلئے ایک ہی شخص پارٹی پر مسلط ہو جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ سب کچھ شفاف ہو اور کچھ بھی خفیہ نہ ہے لیکن یہاں کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں جن کے شورائی اجلاسوں کی باہر کی دنیا کو ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ خبریں باہر نکلتی بھی ہیں تو ٹکڑوں کی صورت میں اب ہم جیسے باہر والے زیادہ سے زیادہ یہ تصور ہی کر سکتے ہیں کہ نئے اور پرانے رہنما کے باہمی تعلقات ”نارمل“ ہیں اور یہ کہ کسی قسم کی تفتیش وغیرہ نہیں ہو رہی!


ویسے اس ملک کی بدقسمتی دیکھئے کہ کچھ سیاسی جماعتیں تو مشتمل ہی بالائی طبقات پر ہیں۔ ان سے توقع ہی عبث ہے۔ ان میں اگر کوئی صدیق الفاروق ہے بھی تو نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے بلکہ آواز بلند کرنا تو دور کی بات ہے۔ ارب کھرب پتیوں کی دنیا میں کچھ کہنا ہی ناممکن ہے لیکن جو پارٹیاں نام نہاد مڈل کلاس کی چھاپ لیے ہوئے ہیں وہ بھی عوام کے حقیقی مسائل سے مکمل اجتناب کرتی ہے۔ جے یو آئی ہے یا سنی تحریک زرعی اصلاحات یا نظام تعلیم کی یکسانیت کی بات کوئی بھی نہیں کرتا۔ قاضی حسین احمد کے مضامین اکثر و بیشتر چھپتے ہیں لیکن ان کا موضوع افغانستان ہوتا ہے یا ترکی یا عرب ملکوں میں رونما ہونےوالے واقعات۔ ملک کے اندر کیا ہونا چاہیے، اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ رہے سید منور حسن تو عوام کے مسائل سے ان کا تعلق بھی اس حد تک ہے کہ گو امریکہ گو اور نیٹو سپلائی روٹ، نو۔
بعض اوقات محسوس اس طرح ہوتا ہے کہ ہماے ایجنڈے ہی باہر سے آتے ہیں۔ امریکہ نے حافظ سعید کے سر کی قیمت لگائی تو پوری قوم کا ایجنڈا اس طرف مڑ گیا۔ حالانکہ خدا کی کتاب میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب بھی لغو اور بے ہودہ بات کا سامنا ہو تو متانت سے گزر جاﺅ، لیکن ہم امریکہ کی ہر لغو اور بے ہودہ بات کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ آخر کار ساری تشہیر کا فائدہ امریکہ ہی کو ہوتا ہے۔


یہی حال نیٹو سپلائی کا ہے۔ سالہا سال سے پاکستان یہ کام کرتا رہا ہے۔ اس اثنا میں امریکہ نے متبادل راستے تلاش کر لیے ہیں۔ وسط ایشیائی ریاستیں اور رو س یہ کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اس رکاوٹ کو دور کرنے سے پہلے امریکہ سے بہت سی باتیں منوا لے۔


نیٹو سپلائی روکنے کیلئے ساری مذہبی جماعتیں دفاع پاکستان کے پرچم تلے یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ کر رہی ہیں۔ یہاں ایک عام پاکستانی کے ذہن میں یہ بلبلہ ضرور اٹھتا ہے کہ اگر نیٹو کا سامنا کرنے کیلئے یہ ساری جماعتیں متحد ہو سکتی ہیں تو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کیوں نہیں اکٹھی ہو سکتیں؟ سید منور حسن کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حافظ سعید انمول ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کیلئے حافظ سعید کی قیادت بھی انمول ہونی چاہیے۔ کیا یہ ساری جماعتیں اپنی الگ الگ شناختیں ختم کرکے ایک قیادت کے نیچے کام کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گی؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ حافظ صاحب کی رہنمائی میں یہ سب حضرات قوم کو ایک پروگرام دیں جس کی روشنی میں سیات سے وڈیروں اور سرداروں کا خاتمہ ہو سکے۔ لاکھوں ہاری عورتیں ظلم کے پنجے سے آزاد ہو سکیں۔ کاروکاری، وَنی، سوارہ اور جاگیرداروں کی پنچایتوں کا ڈھونگ ختم ہو سکے۔ آخر وہ کونسی وجوہ ہیں جن کی بنا پر ہماری مذہبی جماعتیں وسائل کی عادلانہ تقسیم کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کوئی بات نہیں کرتیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی رائے ہی نہیں رکھتیں؟ کیا انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عوام دو وقت کی روٹی مشکل سے کھا رہے ہیں۔اخلاق رذیلہ کے حساب سے اس وقت یہ قوم دنیا میں سرفہرست شمار ہوتی ہے۔ جھوٹ، وعدہ خلافی، ملاوٹ، ٹیکس چوری، جعلی ادویات، کم تولنا، فروخت کرتے وقت شے کا نقص نہ بتانا.... غرض ہر وہ گناہ جس سے اسلام نے منع کیا اور جس سے اللہ کے رسول نے منع فرمایا، رات دن ہو رہا ہے۔ کیا ان جماعتوں کا فرض نہیں کہ اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کو ختم کرکے ایک قالب میں ڈھل جائیں اور ایک قیادت تلے، قوم کو ان ساری سماجی برائیوں سے نجات دلائیں؟یہ ہم اس لیے تجویز کر رہے ہیں کہ عام سیاسی جماعتوں سے عوام کو کوئی امید نہیں۔ ہاں! جو جماعتیں مذہب کا نام لیتی ہیں وہ مذہب کے احکام کے مطابق کچھ کر نے کی پا بند بھی ہیں۔

Tuesday, April 03, 2012

پورا دائرہ گھومنے کے بعد

اگر عمران خان اقتدار میں نہ آسکا تو پھر....؟ تو پھر کیا‘ پاکستانی عوام کی قسمت میں تبدیلی نہیں ہو گی؟

یہ ہیں وہ سوالات جو جواب مانگتے ہیں‘ اور جب ان سوالات کا جواب تلاش کیا جاتا ہے تو لوگ جذباتی ہو جاتے ہیں‘ بپھر جاتے ہیں‘ گلے کی رگیں تن کر سرخ ہوجاتی ہیں‘ منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے اور آستنیں چڑھا لیتے ہیں۔

جڑیں اتنی گہری ہیں اور اتنی زیادہ ہیں کہ الیکشن کا کلہاڑا‘ ان سب کو کاٹ نہیں سکتا۔ جاگیرداری کی جڑیں‘ برادری ازم کی جڑیں‘ پیری مریدی کی جڑیں‘ خاندانی وابستگی کی جڑیں‘ ہر تیسرا شخص یہ کہتا ہے کہ ہمارے خاندان نے ووٹ ہمیشہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کو دیا ہے‘ وہ اگر کھمبے کو کھڑا کریں‘ تب بھی ہمارا ووٹ انہی کا ہو گا۔

لیکن اسکے باوجود یہ حقیقت ہے کہ عام پاکستانی تبدیلی چاہتا ہے‘ وہ ان پارٹیوں سے دل برداشتہ ہو چکا ہے‘ جو تریسٹھ سال سے باری باری تخت نشین ہو رہی ہیں۔ عوام کی جان محفوظ ہے‘ نہ عزت نہ مال۔ ٹریفک سے لے کر ہسپتالوں کے بوجڑ خانوں تک‘ تھانوں سے لے کر دھماکوں اور خودکش حملوں تک‘ جعلی دواﺅں سے لے کر ملاوٹ والی داﺅں اور خوراک تک اور اغواءبرائے تاوان سے لے کر سیدھے سادے قتل تک‘ کسی کی جان محفوظ نہیں۔ کراچی اور بلوچستان قتل گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں‘ وی آئی پی آمد و رفت پر روٹ لگنے سے پاکستان میں سینکڑوں مریض مع حاملہ خواتین رکی ہوئی ٹریفک میں مر چکے ہیں۔
اب تو زندہ رہنے کا یہ بنیادی فارمولا ہر شخص کو معلوم ہے کہ گھر میں گھس آنے والا ڈاکو ہو یا سرراہِ موبائل چھیننے والا‘ یا کار لے جانےوالا‘ مزاحمت نہیں کرنی ورنہ جان چلی جائیگی۔ اس حوالے سے پاکستان پورے علاقے میں خواہ جنوبی ایشیا ہے یا مشرقِ وسطیٰ‘ یا وسط ایشیا‘ سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہے۔ اب عزت کی طرف آئیے۔ پولیس والے سے لے کر پٹواری تک‘ سیکشن افسر سے لے کر دکاندار تک‘ ہر شخص جس طرح دوسرے کو مخاطب ہوتا ہے اور جس طرح اوئے کہتا ہے‘ عزت ہی عزت رہ جاتی ہے‘ باقی سب کچھ اڑ جاتا ہے۔ پاکستان میں جس طرح راہ چلتی اور شاپنگ کرتی خواتین کو گھورا اور مسلسل گھورا جاتا ہے اور جس طرح ان کا جائزہ لیا جاتا ہے‘ اس کا غیرمسلم اور بہت سے مسلمان ملکوں میں بھی کوئی تصور نہیں۔ اجتماعی زیادتی کے واقعات عام ہیں‘ کسی مجرم کو سزا نہیں ملتی‘ ونی‘ سوارہ اور کاروکاری کرنےوالے جرگوں کے سربراہ وزیر‘ وزراءخود  ہیں! رہا مال.... تو گھروں کے اندر مال اسباب ہو یا باہر چلنے والی گاڑیاں‘ سب کچھ دوسروں کے رحم و کرم پر ہے۔ جو ذرا سی بھی استطاعت رکھتا ہے‘ پرائیویٹ گارڈ رکھنے پر مجبور ہے۔

نوجوانوں کیلئے سب سے زیادہ ہولناک حقیقت میرٹ کا قتل ہے‘ میرٹ کے حوالے سے انگریز جو سب سے زیادہ مضبوط ادارے چھوڑ گئے تھے‘ وہ مرکزی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن تھے لیکن انکی جو درگت بنائی گئی ہے‘ سب کے سامنے ہے۔ صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ارکان میں ریٹائرڈ پولیس افسروں کی بہتات ہے‘ جن کی وفاداریاں سروس کے دوران خاندانوں سے وابستہ رہیں‘ یہی حال مرکز میں ہے‘ جو خود میرٹ پر نہیں آئے۔ وہ دوسروں کو میرٹ پر کیا رکھیں گے۔ حالت یہ ہے کہ میرٹ کے قتل پر ایک آنسو تک کوئی نہیں بہاتا۔ آج تک پیپلز پارٹی نے ضیاءالحق کو اور نون لیگ نے پرویز مشرف کو میرٹ قتل کرکے آرمی چیف بنانے پر قوم سے معافی نہیں مانگی۔ افسر شاہی کے بدعنوان ارکان کو اس وقت تک قومی خزانہ چاٹنے کی اجازت دی جا رہی ہے‘ جب تک کہ وہ قبر میں نہ اتر جائیں۔ بیرون ملک تعیناتیاں سو فیصد سفارش پر ہو رہی ہیں۔

بہت کم لوگوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ بھارت نے 1951ءمیں زرعی اصلاحات (حقیقی معنوں میں) نافذ کرکے موروثی سیاست کا خاتمہ کر دیا۔ پاکستان نے بَس مِس کردی۔ بظاہر ناممکن لگتا ہے کہ بلوچستان کے سرداری نظام اور باقی ملک پر مسلط جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہو سکے‘ بھارت کے مقابلے میں ہمارے ادارے کمزور تو کیا‘ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سینٹ کے حالیہ الیکشن میں جس طرح کھلم کھلا نیلامی ہوئی اور اربوں روپوں کی سودا بازی ہوئی‘ اس پر الیکشن کمیشن کی بے حسی پر جتنا ماتم کیا جائے‘ کم ہے۔ اسکے مقابلے میں بھارت کے الیکشن کمیشن کی طاقت کا اندازہ لگائیے کہ وزراءاپنی انتخابی مہم کیلئے سرکاری ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان حکومت بنا پائے گا؟ کیا وہ فیوڈلزم‘ برادری‘ فرقہ واریت اور لسانیت کی رکاوٹیں عبور کر سکے گا؟ اور اگر وہ حکومت بنا لیتا ہے تو کیا حقیقی تبدیلی لا سکے گا؟
منہ زور ایجنسیاں‘
 بد عنوان سست الوجود نوکر شاہی‘
 تندخو عساکر‘
 ٹیکس دینے سے صاف انکار کرنیوالے تاجر‘
عوام کو تقسیم در تقسیم کرنیوالی چھوٹی چھوٹی شکست خوردہ مذہبی جماعتیں‘
کئی دہائیوں سے بے عزتی برداشت کرتا فارن آفس‘
 سرمایہ داروں کے جوتے پالش کرتی وزارت خزانہ‘
عوام کے حقیقی مسائل سے یکسر بے خبر پلاننگ کمیشن اور سب سے بڑھ کر اقربا پروری اور کرپشن میں ڈوبی ہوئی صوبائی حکومتیں.... کیا عمران خان ان سب کو لگام ڈال سکے گا؟ اگر نہ ڈال سکا تو عوام فراق گورکھپوری کا یہ شعر رو رو کر پڑھیں گے....

تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے

زمانے سے لڑائی مول لے‘ تجھ سے برا بھی ہو!

دنیا امید پر قائم ہے‘ پاکستان کے نوجوان تحریک انصاف سے اپنی امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں‘ ان میں ایسے حقیقت پسند بھی ہیں کہ برملا کہتے ہیں کہ چلو‘ زیادہ نہیں تو جو دعویٰ عمران خان کر رہا ہے‘ اگر اس کا پچیس فیصد بھی عملاً کر دکھایا تو یہ ایک برا آغاز نہیں ہو گا!

لیکن یہ فرض کرلینا کہ تحریک انصاف الیکشن میں اس قدر کامیابی حاصل کرلے گی کہ حکومت بنا سکے دراصل گاڑی کو گھوڑے کے آگے جوتنے کے مترادف ہے۔ ....ع

ہزاروں لغزشیں باقی ہیں منہ تک جام آنے تک

امکانات کا پورا دائرہ گھومنے کے بعد سوال وہیں کا وہیں ہے‘ اگر عمران خان اقتدار میں نہ آسکا تو پھر....؟ تو پھر کیا پاکستانی عوام کی قسمت میں تبدیلی نہیں ہو گی؟؟
 

powered by worldwanders.com