Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, June 28, 2011

شدّت پسند مسلمانوں کو کیوں قتل کرتے ہیں ؟

”طالبان دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث نہیں۔اگر ہیں تو اسکی پشت پناہی امریکہ بھارت اور اسرائیل کر رہے ہیں۔“
 یہ بیان ایک معروف مذہبی سیاسی جماعت کے  سابق امیر نے گزشتہ ہفتے دیا ہے۔
طالبان پر یہ الزام پہلی بار نہیں لگا۔ نادان دوست یہ کام ایک عرصہ سے کر رہے ہیں۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ آپ طالبان کے طریقِ کار سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ انکے فہمِ اسلام کو غلط قرار دے سکتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ امریکہ اسرائیل اور بھارت ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں، طالبان کےساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔
یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس موضوع کی کئی تہیں ہیں اور یہ تہیں نظر آتی ہیں اور نہیں بھی آتیں۔ بنیادی سوال اس ضمن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جن کارروائیوں کو دہشت گردی کہتے ہیں،  کیا طالبان یا شدت پسند بھی اسے دہشت گردی ہی سمجھتے ہیں؟
آپ نے عوام میں سے بہت سوں کو، بلکہ اکثر کو، یہ کہتے سُنا ہو گا کہ یہ جو بازاروں میں یا مزاروں پر یا مسجدوں میں دھماکے کرتے ہیں تو یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے کیونکہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو یوں بے دریغ نہیں ہلاک کر سکتا۔ ایک عام آدمی، جس کی مسلمانوں کی تاریخ سے زیادہ واقفیت نہیں، یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ مسلمانوں میں ایسے شدت پسند شروع سے چلے آ رہے ہیں جو بہت سے مسلمانوں کو مسلمان مانتے ہی نہیں۔ وہ جن لوگوں کو ہلاک کر رہے ہوتے ہیں، وہ انکی دانست میں مسلمان نہیں ہوتے۔ ہم اگر اس سارے مسئلے کو اس تناظر میں دیکھیں تو بہت سی گرہیں کھلنے لگ جائیں گی۔
یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ اسلامی شدت پسندوں پر امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ حالیہ تاریخ میں ایسے الزام الجزائر کے اسلامی شدت پسندوں پر بھی لگائے گئے۔۱۹۹۱ء میں
میں جب اسلام پسند الجزائر میں انتخابات جیت گئے تو انہیں اقتدار سے روکنے کےلئے فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایک کھلی دھاندلی تھی۔ اسلام پسندوں کی جماعت پر پابندی لگا دی گئی اور ہزاروں ارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا نتیجہ عسکری مزاحمت کی شکل میں سامنے آ یا۔ دھاندلی اور ظلم کا منطقی نتیجہ یہی تھا اور ایسے مواقع پر ہی توازن برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ الجزائر کے اسلامی مزاحمت کار یہ توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ شروع میں تو پولیس اور فوج حملوں کا ہدف تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، سول آبادیاں بھی ان حملوں کا نشانہ بننے لگیں۔ 1992 ء  اور  1997 ء کے درمیانی عرصہ میں، جعلی انتخابات کرائے گئے۔ اسلام پسند مزید مشتعل ہوئے اور پورے کے پورے گائوں ہلاک کئے جانے لگے۔ پیرس اور یورپ کے دوسرے مقامات پر بم دھماکے انکے علاوہ تھے۔ انہی دنوں کی بات ہے لندن میں ابو حمزہ نامی ایک خطیب نے جو الجزائری مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیا کرتے تھے، ٹیلی فون پر شدت پسندوں کے ایک کمانڈر سے گفتگو کی اور اس سے پوچھا کہ جی آئی اے (الجزائری مسلمانوں کی مسلح جماعت) سول آبادیوں کو کیوں ہلاک کر رہی ہے۔ حاضرین مجلس کے سامنے ٹیلی فون کی آواز بلند کی گئی۔ کمانڈر کا کہنا تھا کہ جو سول آبادیاں سرکاری جماعت کی حمایت کرتی ہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتی ہیں کیوں کہ ”صرف جی آئی اے اصل اسلام کی نمائندگی کرتی ہے۔“
یہ ہے شدت پسندوں کا نکتئہ نظر! اُنکے نزدیک امریکہ کی حمایت کرنےوالی حکومت اور اسکے ملازم سزا کے مستوجب ہیں۔ فوجیوں اور پولیس کے خاندان بھی سزا کے مستحق  ہیں اور وہ عوام جو امریکہ کےخلاف جدوجہد نہیں کرتے وہ بھی گردن زدنی ہیں۔ یہ شدت پسندوں کا نکتئہ نظر ہے۔ اس سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ شدت پسند جو دھماکے کر رہے ہیں، ان کی پشت  پر امریکہ ہے عجیب سی بات ہے۔
یہ درست ہے کہ مسلمان  مسلمان کو ہلاک نہیں کر سکتا لیکن اگر کوئی کسی کو مسلمان سمجھے ہی نہیں  تو پھر ؟ آخر وہ گروہ جو امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کو چھوڑ کر الگ ہو گیا تھا، دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھ کر  ہی تو قتل کرتا تھا۔ جب حضرت علی کرم اللہ وجہ  شام کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو خبر ملی کہ یہ گروہ  مسلمان عورتوں اور بچّوں کو بے دریغ قتل  کر رہا ہے۔ آپ کو ان کی سرکوبی کے لیے اپنے سفر کا رُخ   بدلنا پڑا۔ آپ کی وارننگ سے بہت سے افراد اس گروہ کو چھوڑ گئے لیکن اٹھارہ سو افراد ایسے تھے جو  ہر حال میں آپ سے جنگ چاہتے تھے۔ ناچار آپ کو ان پرتلوار اٹھانا پڑی ۔ روایات کے مطابق ان میں سے صرف نو افراد بچ سکے۔ یہ لوگ انتہا پسندتھے۔مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے قتل کو جائز قرار دیتے تھے اور اختلاف ان کے لیے ناقابل  برداشت تھا۔
اسلام اپنے ماننے والوں سے توازن اور انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ فرد سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سخت غصے کی حالت میں توازن برقرار رکھے اور گروہ سے تقاضا کرتا ہے کہ جنگ کے دوران توازن پر قائم رہے۔ جنگ کے جو اصول اللہ کے آخری رسول نے وضع فرما دئیے وہ قیامت تک کےلئے ہیں‘ اگر کفار مسلمانوں پر ظلم کریں تو اسکے جواب میں مسلمان ظلم نہیں کر سکتے۔ کفار سے مسلمانوں کی سرزمین خالی کرانے کےلئے جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ جنگیں مسلمانوں کو لڑنا پڑیں گی لیکن جنگ کے اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر! یہی تو وہ اصول ہیں جو مسلمانوں کو امریکیوں سے اور فرانسیسیوں سے اور انگریزوں سے اور روسیوں سے الگ کرتے ہیں! غیر مسلم ہر مرد عورت بوڑھے بچے کو بلا امتیاز قتل کر دیتے ہیں۔ وہ شہروں پر ایٹم بم تک گراتے رہے ہیں، کبھی  لوگوں کو گیس چیمبرز میں بند کر کے اور کبھی قصبوں اور بستیوں کو نذرِ آتش کر کے آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ یہ صدیوں سے ایسا کر رہے ہیں لیکن ایک سچا مسلمان اس طرح نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں کے رسول نے مسلمانوں پر پابندیاں عائد کی ہیں اور یہ پابندیاں کوئی شخص نہیں تبدیل کر سکتا۔ عورتیں اور بچے؟؟ اللہ کے رسول نے تو درختوں اور کھڑی فصلوں کو بھی جنگ کے دوران چھیڑنے سے منع فرما دیا۔
آخر ایک عام پاکستان امریکہ کےخلاف کر بھی کیا سکتا ہے؟ وہ امریکہ سے شدید نفرت کرتا ہے لیکن وہ تو اپنی حکومت تک کو سیدھے راستے پر نہیں لا سکتا! وہ بجلی اور پانی سے محروم ہے اُس کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانا ہے۔ ریاست اُسے نہ سکیورٹی فراہم کر رہی ہے نہ اُسکی بنیادی ضروریات کی ریاست کو فکر ہے۔ عوام کی اکثریت کے پاس ذاتی چھت تک نہیں، ایک چھوٹا سا طبقہ ملک کے وسائل پر قابض ہے اور ظلم پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ اس طبقے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں شامل ہیں۔ ان مجبور، مظلوم اور مقہور عوام کو امریکہ کے جرم کی سزا دینا کہاں کا انصاف ہے!
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہُنر میں یکتا تھے
بے سبب ہُوا غالب دشمن آسماں اپنا

Tuesday, June 21, 2011

وہ کافر بچّہ

      ڈاکٹر نے اتنا بھی نہ سوچا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں!    
وزیراعظم ہسپتال کے دورے پر تھے‘ انکے ساتھ وزیر صحت بھی تھے‘ وزیراعظم وارڈ میں ایک مریض کے پلنگ کےساتھ کھڑے اسکی عیادت کر رہے تھے‘ ٹیلی ویژن کی ٹیم بھی موجود تھی‘ وزیراعظم کے دورے کو فلمایا جا رہا تھا‘ اتنے میں سرجن اندر داخل ہوا‘ اس نے دیکھا کہ ہسپتال کے قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے‘ اس نے وزیراعظم سمیت سب کو ڈانٹا کہ پوری آستینوں کے ساتھ اور نکٹائیوں کےساتھ یہ لوگ وارڈ میں کیوں داخل ہوئے ہیں۔ یہ طریقہ جراثیم کے نکتئہ نظر سے نقصان دہ ہے۔ سرجن باقاعدہ دھاڑ رہا تھا‘ وزیراعظم نے ٹیلی ویژن والوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور سرجن کو آہستگی سے بتایا کہ ہم نے تو نکٹائی اتاری ہوئی ہے‘ اس پر سرجن وزیراعظم کو کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وزیراعظم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ ٹھیک ہے‘ ٹھیک ہے۔ میں آپکی بات مانتا ہوں اور وزیراعظم وارڈ سے نکل گئے۔
اسکے مقابلے میں برطانیہ میں کیا ہوا‘ سنیئے! وزیراعظم برطانیہ نے اپنے قریبی عزیز کو گریڈ اکیس سے بائیس میں ترقی دیکر قومی اسمبلی میں سپیشل سیکرٹری مقرر کردیا ہے‘ یہ صاحب اس سے پہلے قومی اسمبلی میں گریڈ بیس کے افسر تھے‘ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین انکی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ اس پر وزیراعظم نے انہیں گریڈ اکیس میں ترقی دی اور ڈویژن کا سیکرٹری انچارج مقرر کردیا! اس اقربا پروری پر برطانیہ میں کسی نے چوں تک نہیں کی۔
آپ پریشان ہو رہے ہیں تو ازراہِ کرم خاطر جمع رکھیے۔ یہ دونوں خبریں درست نہیں‘ اصل خبریں اس طرح ہیں۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون لندن کے ایک ہسپتال میں گئے‘ انکے  ڈپٹی پرائم منسٹر  اور وزیر صحت بھی ہمراہ تھے‘ وزیراعظم اور انکے دونوں ساتھی مریضوں کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے کہ متعلقہ سرجن آیا اور دھاڑا کہ وارڈ کے قوانین کی خلاف ورزی کیوں ہو رہی ہے؟ اس نے یہ تک کہا:
I am not having it, now out
”میرے لئے یہ ناقابل برداشت ہے‘ تم لوگ یہاں سے چلے جاﺅ“۔
اور برطانیہ کا وزیراعظم‘ اپنے نائب اور اپنے وزیر صحت کے ساتھ اور ٹیلی ویژن کی پوری ٹیم کے ساتھ باہر نکل جاتا ہے۔
آپ کاکیا خیال ہے کہ یہ واقعہ اگر پاکستان میں پیش آتا تو کیا ہوتا؟ اول تو کوئی ڈاکٹر ایسی قانون پسندی کا سوچ بھی نہیں سکتا اور اگر بفرض محال کوئی بہادر ڈاکٹر ایسا کر گزرتا تو شام سے پہلے‘ اگر گرفتار نہ بھی ہوتا تو ملازمت سے ضرور فارغ ہو جاتا۔
اب دوسری خبر بھی درست کر لیجئے‘ وزیراعظم پاکستان نے اپنے بہنوئی کو ترقی دیکر قومی اسمبلی میں خصوصی سیکرٹری لگا دیا ہے‘ خصوصی اس لئے کہ ایک سیکرٹری پہلے سے وہاں موجود ہے‘ لیکن اس خبر کے ساتھ اخبار نے جو ایک اور خبر دی ہے‘ اس کا جواب نہیں۔

”اس سے قبل وہ قومی اسمبلی میں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے گریڈ بیس میں جوائنٹ سیکرٹری تھے‘ تاہم چیئرمین پی اے سی چودھری نثار علی خان انکی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ جس پر وزیراعظم نے انہیں گریڈ 21 میں ترقی دیکر وزارت کلچر کا سیکرٹری انچارج مقرر کر دیا تھا اور وہ ان 54 افسران میں بھی شامل تھے‘ جن کو وزیراعظم کی طرف سے ترقی دی گئی تھی اور سپریم کورٹ نے ان ترقیوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔

آپ کا کیا خیال ہے‘ اگر برطانیہ کا وزیراعظم اس طرح کرتا تو کیا ہوتا؟ اول تو وہ اقرباپروری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ بفرض محال اگر ایسا ہوتا تو قیامت آجاتی۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وزیراعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیتا‘ اپوزیشن اسے اتنا بڑا معاملہ بناتی کہ وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑتا‘ ان ”کافر“ ملکوں میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک وزیر کو اس لئے استعفیٰ دینا پڑا کہ اس نے ذاتی سفارش کیلئے سرکاری لیٹر پیڈ استعمال کیا تھا۔ ڈنمارک کی ایک وزیر نے رات کے وقت سائیکل پر گھر جاتے ہوئے چوک کی سرخ بتی کا خیال نہ کیا‘ کیمرے نے یہ ”غیرقانونی“ حرکت محفوظ کرلی‘ دوسرے دن دوپہر تک موصوفہ کو وزارت چھوڑنا پڑی۔
یہ ہے ترقی یافتہ اور غیرترقی یافتہ ملکوں کا اصل فرق۔ دولت اور آسائش میں مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک مغربی ملکوں سے کسی طور پیچھے نہیں‘ لیکن مساوات‘ قانون کی حکمرانی اور حکمرانوں کا محاسبہ.... یہ ہیں وہ صفات جو مغربی ملکوں کو صحیح معنوں میں ترقی یافتہ بناتی ہیں۔ آپ ذرا موازنہ کیجئے‘ ایک طرف برطانیہ کا وزیراعظم چوں کئے بغیر سرجن کے سامنے سرتسلیم خم کردیتا ہے‘ اس لئے کہ قانون اور ادارے وزیراعظم سے بالاتر ہیں‘ دوسری طرف پاکستان کا وزیراعظم ملک کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چیئرمین.... جو ایک منتخب رکن اسمبلی ہے‘ ایک افسر کی کارکردگی سے مطمئن نہیں‘ وزیراعظم اسے وہاں سے صرف ہٹاتے نہیں‘ ہٹاتے وقت ترقی بھی دے دیتے ہیں اور کوئی چوں نہیں کرتا‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا سیکرٹری جو 35 سال ملازمت کرنے کے بعد اس اعلیٰ عہدے پر پہنچا ہے‘ ایک غلام کی طرح حکم کی تعمیل کرتا ہے اور اگر وہ اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیتا تو اسے سزا ملتی اور پورے سرکاری سیٹ اپ میں کوئی اسکی مدد کو نہ پہنچتا۔
یہ ہے وہ صورتحال جو اس ملک کو گھن کی طرح کھا رہی ہے‘ ایک طبقہ جو قانون سے ماورا ہے‘ اس ملک کی تباہی کا ذمہ دار ہے اور اس طبقے میں بدقسمتی سے حکومت کے عمائدین اور منتخب ارکان سرفہرست ہیں۔ قانون کو لونڈی سمجھنے کی یہ روایت جب تک ختم نہیں ہوتی‘ کوئی ترکیب کارگر نہیں ہو گی۔ آپ پورے ملک کو کوٹ‘ پتلون پہنا دیں یا اٹھارہ کروڑ کو لمبے کُرتے اور ٹخنوں سے اوپر شلواریں پہنا دیں‘ آپ دھماکے کریں‘ امریکہ کو للکاریں‘ یہود و ہنود کو تباہ کرنے کا اعلان کریں‘ ملک وہیں کا وہیں رہے گا اور جب تک برطانوی وزیراعظم ایک معمولی سرجن کا حکم مانتا رہے گا اور جب تک امریکی صدر ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہے گا‘ کوئی ان ملکوں کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ آپ اس ملک میں قانون کی بے بسی دیکھئے کہ وزیر خزانہ ارکان پارلیمنٹ کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ وہ ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں‘ جبکہ وزیر خزانہ کی ماتحتی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو جیسا عظیم الجثہ ادارہ موجود ہے اور اس ادارے کو اور وزیر خزانہ کو بھی معلوم ہے کہ ارکان کی اکثریت ٹیکس نہیں ادا کررہی‘ آپ وزیر خزانہ اور انکی وزارت کی بے بسی دیکھئے کہ نجکاری کمیشن وزیراعظم کے سیلاب فنڈ میں ستائیس کروڑ روپے دیتا ہے اور اس میں سے چھبیس کروڑ اشتہار بازی پر خرچ کر دیتا ہے اور وزیر خزانہ کچھ نہیں کرسکتے۔ آپ وزارت خزانہ کی بے بسی دیکھئے کہ اسکے ایک ماتحت ادارے نیشنل بنک میں ویلفیئر فنڈ کے دو ارب روپے خردبرد کرلئے جاتے ہیں اور سپریم کورٹ اس معاملے میں پڑتی ہے‘ گویا فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور وزارت خزانہ کا وجود ہی نہیں ہے۔ اور وزیرخزانہ اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر مراعات یافتہ طبقے کے سامنے بے بس ہیں اور جو کام انہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ سپریم کورٹ کر رہی ہے۔
کاش! اس کافر بچے ڈیوڈ کیمرون ہی سے ہم کچھ سیکھ لیتے!

Tuesday, June 14, 2011

The cap of my boy is missing

In response to an article of mine recently published in the Australian “Eureka Street”, many readers and friends (including my nephew) have responded with emphasis on the niqab or burqa.  The central theme of the article has been completely ignored.

I must clarify here that the title of the article was originally “Tragic Farce” which was changed into “Islam in denial of burqa” by the journal.

The issue is not whether niqab is must or not. As my article states, full face veil has always been a controversial issue. But even if we agree that full face veil is mandatory, still the point raised in the article looms large in the foreground. But first let me narrate a story.

Akram was living in a big city and his friend Arshad was living in a village.  Arshad requested his friend Akran to accommodate his son in his house so that he could study and avail the facilities available in the city.  Akram allocated a room in his home for Arshad’s son and pointed out certain norms.  He would have to be back to the house before dusk and would have to take off his shoes outside the entrance.  After some time, the son started violating these norms and protested. The owner told him to either observe the norms of the house or leave.

Similar is the situation here. We protest against the French law, but we never discuss why Muslims had to go to France and other Western countries. The newspapers of Western countries were flooded by the comments of their readers in which they asked the Muslims to go back to their own countries. What sort of dignity and self-respect we Muslims have, if any? Ok niqab is mandatory but please think for a while why millions of Muslims have migrated to non-Muslim countries? Why can’t Muslim countries provide what these immigrants find in their new countries?

We do not realize that these countries are providing personal and religious freedom, educational facilities, democratic norms, security, self-respect and above all, rule of the law which the immigrants could not have in their own countries.

Why doesn’t Jamaat Islami and others who hold protesting rallies ask Muslim rulers to provide what the Western countries are providing immigrants? If we Muslims think that beggars have choice, we are mistaken. When we condemn host-countries, we are behaving like the naïve woman whose drowning son was rescued by a kind person, but she was condemning him because her son’s cap was missing.

صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے

اٹھو۔ خدا کےلئے یہاں سے نکلو۔ ابھی رات کا کچھ حصہ باقی ہے۔ ابھی وقت ہے۔ تباہی کےلئے صبح کا وقت مقرر ہے اور صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے!

ساری حدیں پھلانگی جا چکی ہیں۔ ساری حجتیں تمام ہو چکی ہیں۔رسی جتنی ڈھیلی ہو سکتی تھی کی جا چکی اس سے زیادہ وقت نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے زیادہ وقت کبھی کسی کو دیا بھی نہیں گیا۔
 کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ فرشتوں کے پر ایک افق سے دوسرے افق تک پھیل چکے ہیں۔ کیا تم پھڑ پھڑاہٹ کی آوازیں نہیں سن رہے؟ تمہاری زمین اور آسمان کے اس ٹکڑے کے درمیان جو تمہاری زمین کے اوپر ہے‘ سارا خلا بھر چکا ہے۔ فرشتے آرہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ تباہی کےلئے صبح کا وقت مقرر ہے۔ اٹھو‘ خدا کےلئے نکلو‘ صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے!
خلق خدا کی گردنوں پر سوار ان قزّاقوں نے اس لکیر پر پائوں رکھ دیا ہے جس پر نہیں رکھنا تھا۔ انہوں نے چادر اور احرام کو لوٹا۔ لوٹنے والوں کے ڈانڈے جس شہر سے ملے‘ سب نے دیکھا اور سنا‘ لوٹنے والوں کا سرپرست کون تھا اور کہاں تھا‘ سب کو معلوم تھا۔
لوگوں کے حقوق چھین کر اقربا کو دے دئیے گئے‘ ریاست میں روزگار کے جتنے مواقع تھے‘ وہ سب ایک مخصوص طبقے کو سونپ دئیے گئے۔اللہ کی مخلوق کو مزارع اور کرسی کو جو امانت تھی گدی سمجھا گیا۔ فرشتوں نے گرز اٹھا لئے لیکن انہیں روک دیا گیا کہ ہو سکتا ہے یہ سمجھ جائیں‘ ہو سکتا ہے بدحال مخلوق ہمت سے کام لے اور انہیں اپنی گردنوں سے اتار پھینکے!

صرف ایک ادارے پورٹ قاسم اتھارٹی میں چھ سو اٹھاسی غیر قانونی بھرتیاں اور ناجائز تعیناتیاں! اور وہ بھی صرف کراچی کے دو حلقوں سے‘ سپریم کورٹ کہتی ہے کہ خدا کےلئے مغل بادشاہوں والا رویہ نہ اپنائو اور اٹارنی جنرل کہتا ہے کہ وزیراعظم سے رابطہ ہوا ہے اور ہم انکوائری کمیشن قائم کرنے کو تیار ہیں۔ کیا چھ سو اٹھاسی مستحق خاندانوں کےساتھ ہونےوالی ناانصافی پر یہی ردعمل ہونا چاہئے تھا؟ اس ننگی بھوکی بلکتی قوم کے منہ سے تین ارب روپے چھین کر پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک سو چھ رہائش گاہوں پر لگانے کا حکم دےدیا گیا ہے۔ پونے تین کروڑ روپے فی رہائش گاہ! ان لوگوں کےلئے جو ٹیکس چوری کرتے ہیں! اور عام آدمی کے ساتھ تکبر کا رویہ اپناتے ہیں۔ جو قانون کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں اور انصاف کا مذاق اڑاتے ہیں۔ انکی ایک ایک رہائش گاہ پر تین تین کروڑ روپے! ساڑھے سات کروڑ روپے ان کےلئے حفاظتی انتظامات پر جبکہ عوام کے جسموں کے پرخچے اڑ رہے ہیں۔ پشاور سے کوئٹہ تک اور کراچی سے لاہور تک انسانی گوشت کی بوٹیاں ہوا میں تیر رہی ہیں۔ ایک کروڑ اسی لاکھ روپے ان گردن بلندوں کےلئے ائرکنڈیشننگ کے انتظامات پر‘ جبکہ ٹیکس دینے والے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے برقی رو کے بغیر‘ آسمان کی طرف منہ اٹھائے بددعائیں دے رہے ہیں‘ یہ سب کچھ یہ بے پناہ جرائم بھی برداشت کئے جا رہے تھے لیکن انہوں نے اس لکیر پر پائوں رکھ دیا جس پر نہیں رکھنا تھا۔

تکبر‘ آسمان کو چھوتا تکبر‘ انہیں ”سردار“ کہہ کر نہ خطاب کیا جائے تو انکی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں اور اگر انکے قبیلے کے عام آدمی کو سردار کہہ دیا جائے اگرچہ وہ گورنر ہی کیوں نہ ہو‘ تو انکی پیشانیاں شکن آلود ہو جاتی ہیں۔ سردار قوم کو سینہ تان کر بتاتا ہے کہ محلات کا شہر کاغذوں میں فارم ہائوس ہے اور فارم ہائوس پر ٹیکس نہیں دیا جا سکتا! اس فارم ہائوس پر سرکاری تنخواہ وصول کرنےوالے سینکڑوں سپاہی پہرا دے رہے ہیں۔

دیواروں سے سر ٹکراتی خلق خدا آٹے کے ایک ایک تھیلے اور چینی کے ایک ایک پیکٹ کو ترس رہی ہے۔ دال اور بینگن ایک سو روپے کے ایک کلو بھی نہیں مل رہے۔ اسی فیصد آبادی سیب اور انڈا کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ سی این جی کے چند بلبلوں کےلئے اور پٹرول کے چند قطروں کےلئے پوری پوری رات قطار میں کھڑے لوگ اس طبقے کا منہ نوچنا چاہتے ہیں جو کبھی اقتدار اور کبھی حزب اختلاف کا چولا پہن کر ان کا خون پی رہا ہے لیکن انکے اعصاب کی مضبوطی دیکھئے کہ یہ ایک دوسرے کو ولایتی کتوں کے پلے تحفوں میں دے رہے ہیں۔ عوام کی ثقافت کےساتھ اس ملک کی ثقافت کےساتھ ذرا انکی ہم آہنگی دیکھئے‘ ایک نے کروڑوں اربوں کا فارم ہائوس بنایا ہے‘ دوسرے نے پہاڑی کی چوٹی پر چار سو کنال کا ”گھر“ تعمیر کیا ہے جس میں مبینہ طور پر کتوں کی تعداد نوکروں سے زیادہ ہے۔ صرف تحفہ ہی نہیں‘ اس مبارک پلے کے حسب و نسب پر باقاعدہ بحث ہوتی ہے۔ پہلے یہ کہا جاتا ہے کہ کتے کا یہ بچہ ڈکٹیٹر کو جرمن چانسلر نے دیا تھا۔ پھر عوام کو یہ خوش خبری دی جاتی ہے کہ نہیں‘ یہ پلا‘ ڈکٹیٹر کی کتاب لکھنے والے صحافی کی ملکیت میں تھا لیکن اس کی ”رہائش“ ڈکٹیٹر کے فارم نما محل میں تھی!

مسخروں اور کارٹونوں کی یہ ساری حرکتیں دیکھی جا رہی تھیں اور رسی بدستور ڈھیلی تھی لیکن انہوں نے اس لکیر پر پائوں رکھ دیا جس پر نہیں رکھنا چاہئے تھا۔ ان کے ملازموں نے اپنے ہی لوگوں کو گلیوں اور چوراہوں پر مارنا شروع کر دیا ہے‘ جیسے انسان نہ ہوں کتے بلے ہوں۔ ہاتھ جوڑتے نہتے بندوں کو جس طرح بندوقوں سے قتل کیا جا رہا ہے‘ اس طرح تو روسی چیچنیا کے مسلمانوں کو‘ بھارتی کشمیریوں کو‘ اسرائیلی فلسطینیوں کو اور امریکی عراقیوں کو بھی نہیں مارتے لیکن جب ایوان میں اس پر کچھ لوگ ماتم کناں ہوتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ ماتم کی لو اونچی نہ کرو اور احتجاج کی آواز آہستہ رکھو۔اس سے پہلے کہ پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسنا شروع ہو جائیں‘ اٹھو اور یہاں سے نکل چلو‘ وہ جو اس ملک کو اپنی جاگیر اور یہاں کے لوگوں کو بے وقعت سمجھتے ہیں‘ ان سے جس قدر جلد فاصلے پر ہو سکتے ہو‘ ہو جائو‘ ان کی تباہی کےلئے صبح کا وقت مقرر ہے۔ الیس الصبح بقریب۔

Tuesday, June 07, 2011

افسوس اے حجاج! افسوس!

حجاج! تو نے یہ کیا کیا؟ افسوس! تو نے کیا کر دیا!
ایک خاتون کے دہائی دینے پر اتنا طوفان کھڑا کیا۔ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا، سری لنکا سے آنےوالے جہاز کو قزاقوں نے لوٹا، کچھ کو قیدی بنایا، ایک عورت نے دہائی دی۔ یا حجاج! اور تم نے بصرہ سے لےکر دیبل تک.... عراق سے لےکر سندھ تک.... زمین کو اس بے یارو مددگار عورت کی دہائی سے بھر دیا۔ تم نے جواب میں ”لبیک“ کہا اور پھر سینکڑوں ہزاروں کوس پر پھیلے ہوئے کوہ و دشت اور صحرا و دریا پر اور آبادیوں اور ویرانوں پر اپنے لبیک کی گواہی کو چادر کی طرح تان دیا۔ ایک تنی ہوئی چادر، افق تا افق، شہر تا شہر--- ہر اس عورت کو ڈھانپتی ہوئی جو دہائی دے اور حجاج لبیک کہتا ہوا، لشکروں کو روانہ کر دے!
ضائع کیا تم نے اپنے لشکروں کو اے حجاج! ریاست کے لاکھوں درہم اور دینار خرچ کر ڈالے، راجہ کی حکومت کو موت کے گھاٹ اتار دیا، صرف ایک عورت کی فریاد پر! افسوس ہے حجاج! تم پر افسوس ہے!
اور تمہاری تشویش--- اور بے تابی--- اور راتوں کی بے خوابی اور دنوں کا پیچ و تاب--- یوں کہ لشکر دیبل روانہ ہوا تو ایک ایک کوس کی رپورٹ طلب کی، ایک ایک پڑاﺅ کا محاسبہ کیا، ہراول دستے بھیجے اور معلوم کیا کہ وہاں کا پانی کیسا ہے اور کھجور کس معیار کی ہے اور گھوڑے کیسے ہیں؟
حجاج! تم نے یہ سب ایک عورت کی فریاد پر کیا؟ افسوس حجاج! افسوس!
کاش تم آج ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ عورتوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری نہیں! ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ عوتیں ذلیل و رسوا ہوں۔ عورت جس کے بارے میں اللہ کے آخری رسول نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں تلقین کی تھی کہ ان کا خیال رکھنا--- عورت --- ریاست کی ذمہ داری نہیں! ریاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ عورت کو یہ باور کرائے کہ مملکت خداداد میں اس کےلئے کوئی جگہ نہیں!
وہ عورت تو ان پڑھ بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی اس کےساتھ معاملہ اسی طرح کیا گیا جیسے ان پڑھ عورتوں کےساتھ ونی کی جاتی ہے اور اسوارہ کیا جاتا ہے اور کاروکاری کی جاتی ہے۔ وہ ایک یونیوسٹی میں پروفیسر تھی۔ اپنی گاڑی پر جا رہی تھی۔ اسے ایک مرد نے غلط اوورٹیک کیا اتنا غلط کے اس عورت نے مشکل سے اپنی گاڑی کو اور اپنے آپ کو بچایا۔ اس نے مرد ڈرائیور سے احتجاج کیا اور بحث کی۔ اس گستاخی کی سزا اسے یوں ملی کہ پوری رات تھانے میں گذارنا پڑی، اسے کسی ایف آئی آر--- کسی مقدمے کسی جرم کے بغیر رات بھر محبوس رکھا گیا۔یہ سب کچھ جائز تھا‘ اس لئے کہ یہ اقلیم ان حکمرانوں کی ہے جو ملک میں خونیں انقلاب کی نوید سناتے ہیں جو اپنے لئے محلات نہیں، محلات کے شہر بساتے ہیں۔ جو اپنی کھانسی، اپنے زکام اور اپنی چھینک کے علاج کےلئے بھی سات سمندر پار جاتے ہیں جہاں انکے سرمائے ہیں اور انکی سلطنتیں ہیں۔
 جب پولیس آفیسر سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے غیر قانونی طور پر خاتون کو رات بھر کیوں محبوس رکھا تو اخباری رپورٹ کے مطابق وہ مسکراتا ہے اور جواب میں صرف اتنا کہتا ہے کہ مجھے حساس ادارے کے اہلکار نے کہا تھا سبحان اللہ کیا منطق ہے اور کیا اختیار ہے!
ہاں، درست ہے کہ حساس ادارے کے افسر اور اہلکاروں نے غلط کام کیا‘ انہوں نے اپنے دائرے سے تجاوز کیا۔ حساس اداروں کے اصحاب قضا و قدر کو یہ امر یقینی بنانا چاہئے کہ کسی فرد واحد کے ذاتی جھگڑے یا ذاتی انا کےلئے شعبے کا استعمال بند ہو لیکن کیا ایک پولیس افسر اتنا چھوئی موئی، اتنا بے بس اور اتنا ڈرپوک ہوتا ہے کہ کسی بھی حساس ادارے کے اہلکار اس سے جو چاہیں کروا سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنے افسر اعلیٰ کو بھی صورتحال سے آگاہ نہیں کر سکتا تھا؟ تو پھر کل کو رینجرز، ایف سی، سکاﺅٹ اور ملیشیا بھی تھانوں میں اپنی مرضی چلائیں گے پھر پرسوں واپڈا تھانوں کو دھمکی دے گا کہ اگر اس کے کہنے پر فلاں عورت کو محبوس نہ کیا گیا تو وہ تھانے کی بجلی کاٹ دینگے۔ واہ! کیا اسلوب حکمرانی ہے۔ سچ کہا تھا اہل دانش نے کہ جب صوبوں کے سربراہ اداروں کو پامال کر کے ہر کام اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور مجوزہ طریق کار کے بجائے ”حکم“ چلے گا اور ہر بازار سے نظر گھنٹہ گھر ہی پر پڑے گی تو اہلکار کام کرنا چھوڑ دیں گے اور ادارے خاک کا ڈھیر بن جائیں گے اور پوری مشینری صرف ایک شخص کا امیج تعمیر کرنے میں لگ جائےگی۔
جب صورتحال ایسی ہو جائے تو پھر لوگ قانون کے محافظوں پر تین حرف بھیج کر طالبان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ لاقانونیت کے اس جنگل میں خلق خدا کو دہشت گرد بھی بھلے لگنے لگتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں کو بھی بغیر کسی جرم کے رات رات بھر تھانوں میں رکھا جائےگا۔ تو لوگ وفاداریاں بدل لیں گے۔ وہ اپنی حفاظت کےلئے اپنی عزت بچانے کیلئے پگڑیوں اورداڑھیوں والوں کو بھی خوش آمدید کہیں گے اور سفید چمڑی والوں کو بھی نجات دہندہ سمجھنے لگ جائینگے۔
 کہاں کی سیاست اور کہاں کے تجزیے! کون سے بجٹ اور کیسی فی کس شرح آمدنی! خدا کے بندو، ایک بڑے، بہت بڑے شہر میں ایک بے گناہ خاتون کو رات بھر پولیس سٹیشن میں بند رکھا جاتا ہے اور تم اسمبلیوں میں اپنے استحقاق کی تحریکیں جمع کراتے پھرتے ہو۔ بس گنے جا چکے تمہارے دن   او ر   ہو چکا فیصلہ تمہاری کھڑپینچی کے بارے میں .... جعفر برمکی نے آنکھوں کو خیرہ کرنےوالا محل بنوایا اور اس میں داخل ہونے کیلئے ستارہ شناسوں سے مبارک گھڑی پوچھی۔ ایک راہ گیر نے سنا تو اس نے ساری ستارہ پرستی اور دولت کا گھمنڈ چٹکی میں اڑا دیا۔ اس نے کہا ....
تدبر بالنجومِ ولست تدری
و رب النجم یفعل ما یشائ
تو ستاروں کی مدد سے تدبیریں کرتا ہے لیکن تجھے معلوم نہیں کہ ستاروں کو پیدا کرنےوالا جو چاہے کر لیتا ہے! افسوس ہے حجاج! تم پر تم نے ایک عوت کی فریاد پر دھرتی ہلا ڈالی اور جواب میں ایسی لبیک کہی کہ آسمانوں نے سنی، تم زندہ ہوتے تو مملکت خداداد میں خواتین کے ساتھ ہونے والے سلوک سے سبق سیکھتے۔ ہائے حافظ شیرازی کہاں یاد آ گیا....
خون ما خوردند، ایں کافر دلان
ای مسلمانان! چہ درماں الغیاث
یہ کافر دل تو ہمارا خون بھی پی چکے ۔ اے مسلمانو! آخر علاج کیا ہے؟ الغیاث--- الغیاث۔

Sunday, June 05, 2011

Tragic Farce

They were furious. They were chanting slogans. They were swearing to crush the conspiracy being hatched against Islam. They were cursing the Western 'flawed' way of life. The rally was organised to condemn the banning of the burqa (full face veil) in France.



Paradoxically, hardly any of the protesters had actually read the text of the French enactment banning, from April, the full face veil. In countries like Pakistan, the nucleus of present Muslim extremism, where literacy is not more than 15 to 20 per cent and centuries old feudalism has been successfully forestalling education, who'd bother to find out and go through the text of the legislation?



The intellectual decline which has engulfed the Muslim world has thrown it into a dangerous state of denial. Everything that other, especially advanced countries, do is perceived and analysed in the light of 'conspiracy theories'. The majority of Muslims are suffering from a devastating persecution complex, which, in turn, is begetting and aggravating militant extremism. Such has been the reaction to the French burqa ban.



Every Muslim knows that wearing the burqa has never been irremissible in Islam. A considerable number of Islamic jurists do not support it. Millions of Muslim women, while reaping crops in agricultural fields, picking cotton in plantations of central Pakistan, handling herds in Central Asian pasturelands, teaching in universities, working in banks and elsewhere do not wear the burqa.



Billions of Muslim women have never, and will never, cover their faces while performing the pilgrimage to holy Mecca. They are not allowed by Islam to do so during pilgrimage.



In France, as elsewhere, only a handful of Muslim women cover their faces. Yet fanatics are making the French enactment an issue and presenting it as anti Islamic sentiment. The full face veil is being jumbled up with the hijab (head-covering). France has not prohibited covering of head. Interestingly, Saudi Arabia has made wearing of abaya (robes) mandatory for all women who visit that country or live there, irrespective of their religion.



This brings us to another issue being thrown into oblivion by protesting Muslims. Millions of Muslims have migrated to the developed world where 'flawed secular' values are at variance with Islamic, or so called Islamic, requirements. There are more than 50 Muslim countries, some of which (such as Saudi Arabia, Libya, Qatar) are fabulously wealthy. Why it is that not one of all these countries can accommodate Muslim immigrants?



Statistics are mind-blowing. According to 2009 figures, 365,000 Muslims have made Australia their home, 281,000 live in Belgium, 657,000 in Canada, 3,554,000 in France, 4,026,000 in Germany, 946,000 in Netherlands, 650,000 in Spain, 1,647,000 in UK, and 2,454,000 in USA.



Millions are ensconced in Italy, Greece, Scandinavia, Switzerland, Austria, Japan and New Zealand. Millions more are struggling to follow. There are long queues in front of the embassies of Western countries. Asylum seekers are setting ashore from boats and cargo vessels. Many manage to land with tourist visas and vanish.



Economics is not the only catalyst. The unemployed destitute and the affluent lucky-one are equally enthusiastic to reach these promised lands. The rule of law, democratic norms, equal opportunities, better education prospects, and religious, political and personal freedom attract them to these countries. None of these is available in their homelands.



A strange Kafalah (sponsorship) system is prevailing in oil rich Middle Eastern citadels of Islam. Every migrant worker needs, by law, a guarantor who must be a local citizen. The guarantor legally owns the business and all movable and immovable property of the migrant, and documents are held in his custody. Nothing belongs to the migrant, whether he is entrepreneur or employee, except his passport, which he must carry wherever he goes.



'When employers have near total control over migrants' ability to change jobs, and sometimes to leave the country, workers can get trapped in exploitative situations in which they are forced to work without wages, get beaten or face other abuse,' says a Human Rights Watch (HRW) report.



Outrage over slights such as the burqa ban in France are a distraction from these more important issues. Look at the protests against this backdrop. Isn't it a farce? Albeit a tragic farce!

 

powered by worldwanders.com