ڈاکٹر صہیب احمد مختلف ایام میں مختلف کلینکس میں کام کرتے ہیں۔ کیا یہ آسٹریلین حکومت کی پالیسی ہے؟ نہیں معلوم! مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہر علاقے کے لوگوں کو طبی سہولتیں اپنے علاقے میں یا اپنے علاقے کے نزدیک میسر آجاتی ہیں۔ ہم ستمبر میں ان کے پاس گئے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور سرجری کا فیصلہ کیا۔ ان کی مصروفیت بے پناہ تھی۔ ایک آنکھ کے لیے اکتوبر کی ایک تاریخ مقرر کی اور دوسری کے لیے نومبر کی۔ اس کے بعد مجھ سے اور میرے بیٹے سے مصنوعی عدسے کے حوالے سے طویل بات چیت کی۔ ہر عدسے کے فوائد تفصیل سے بیان کیے۔ مجھ سے یہاں تک پوچھا کہ اگر فلاں عدسے سے رات کو ستارے نظر نہ آئیں تو کوئی مضائقہ تو نہیں؟
ستارے دیکھنے والی بات بھی خوب رہی۔ گاؤں کی گرمیوں کی راتوں میں باہر صحن میں سوتے تھے تو تاروں بھرا آسمان رات کا ساتھی لگتا تھا۔ قطبی ستارہ بھی دکھائی دیتا تھا اور کہکشاں بھی! عجیب ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا جو آسمان سے اُترتی تھی۔ پھر ہم قصبوں اور آخر کار بڑے شہروں میں آگئے۔ ان شہروں نے ہمیں ہڑپ کر لیا۔ 1985-86ء میں ایک ہتھوڑا گروپ ظہور پذیر ہوا۔ سروں کو کچلا جانے لگا۔ اس کے بعد شہروں میں باہر صحن میں یا چھت پر سونے کا جو رہا سہا کلچر تھا وہ بھی ٹھکانے لگ گیا۔
پاکستان میں بھی بعض ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ تفصیلی بات چیت کر لیتے ہیں مگر کم! بہت کم! اکثریت تک رسائی ناممکن ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ڈاکٹر مریضوں کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو ڈی سی‘ کمشنر‘ ایس پی اور آئی جی عوام کے لیے رکھتے ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ہم دونوں باپ بیٹے نے اسلام آباد کے سب سے بڑے نجی ہسپتال میں ماہرِ امراضِ چشم سے مشورہ کرنے کی کوشش کی مگر کوشش کے باوجود ان سے ملنا ناممکن ثابت ہوا۔ یہ نامی گرامی ہسپتال پاکستان اکادمی ادبیات کے سامنے واقع ہے۔کچھ سال پہلے یہاں اہلیہ کا پِتّے کا آپریشن ہوا۔ سرجری تو ٹھیک ٹھاک ہو گئی مگر اس کے بعد ''فالو اَپ‘‘ میں جو گزری‘ ناقابلِ بیان ہے۔ ہاں سکہ رائج الوقت وصول کرنے میں یہ ہسپتال بھی دوسرے نجی ہسپتالوں کی طرح کسی قسم کے تکلف یا نرمی کا قائل نہیں۔
مقررہ تاریخ اور وقت پر ہم کلینک پہنچ گئے۔ سوئِ اتفاق سے ایک آنکھ سرخ تھی۔ ڈاکٹر صہیب نے کہا کہ یہ
Conjunctivitis
ہے یعنی آشوبِ چشم! اور اس حالت میں سرجری کرنا ٹھیک نہیں۔ آنکھ کے لیے انہوں نے مرہم دی۔ ایک ہفتے بعد پھر گئے۔ تب تک آشوبِ چشم ختم ہو گیا تھا۔ دونوں بیٹے ساتھ تھے۔ کاؤنٹر پر جس کلرک نے ہمارے کاغذ دیکھے اور حساب کتاب کیا وہ جنوبی امریکہ کی تھی۔ اندر لے جایا گیا تو دونوں بھائیوں سے کہا گیا کہ وہ باہر ہی رہیں گے۔ انتظار گاہ میں ہم چار مریض تھے۔ بیس بیس‘ پچیس پچیس منٹ کے بعد ایک ایک کو اندر لے جایا جاتا تھا۔ میری باری آئی تو نرس نے ایک ٹوکری دی اور کہا کہ اپنی جیکٹ‘ ٹوپی اور عینک اس میں رکھ دیجیے۔ پھر ایک اور نرس آئی اور اندر لے گئی۔ اس نے بتایا کہ پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے تین بار آنکھوں میں دوا ڈالے گی۔ یہ نرس سری لنکا سے تھی۔ پھر ایک بیڈ پر لٹا دیا گیا اور جیکٹ والی ٹوکری بیڈ کے نیچے رکھ دی گئی۔ یہاں جو نرس تھی وہ بھارت سے تھی۔ مجھے گرم کمبل سے لپیٹ دیا گیا۔ جو نرس بھی آتی پہلے نام اور تاریخ پیدائش پوچھ کر کنفرم کرتی کہ یہی وہ مریض ہے جس کی سرجری کرنی ہے۔ پھر ایک ڈاکٹر آیا۔ اپنا تعارف کرایا۔ وہ نیوزی لینڈ سے تھا۔ کہنے لگا وہ مدہوش کرے گا اور آنکھوں والا علاقہ سُن کرے گا۔ اس کے بعد معلوم نہیں گھنٹے یا شاید زمانے گزرے۔ ایک آواز کان میں آئی۔ ''انکل۔ آپ کی سرجری ہو گئی ہے‘‘۔ یہ ڈاکٹر صہیب تھے۔ کاؤنٹر والی کلرک جنوبی امریکہ سے تھی۔ نرسیں سری لنکا اور بھارت سے تھیں۔ مدہوش کرنے والا ڈاکٹر نیوزی لینڈ سے تھا اور سرجن بنگلہ دیش سے!! اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کیوں یہاں آ کر بس رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس نکتے پر غور کرنے سے ہم کچھ سیکھ سکیں!
صبح چار بجے کے بعد کچھ نہیں کھایا تھا کہ منع تھا۔ مدہوشی مدہم ہوئی تو نرس نے کرسی پر بٹھایا۔ چائے اور سینڈوچ پیش کیے گئے۔ ایک آنکھ پر پٹی بندھی تھی جو دوسرے دن ہمارے ڈاکٹر صاحبزادے نے خود کھولی۔ کاغذ پر لکھی ہوئی ہدایات دی گئیں جو اس قدر تفصیلی تھیں کہ کوئی پہلو نظر انداز نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد آنکھوں میں دوا ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تین قسم کے قطرے پانچ ہفتوں تک ڈالنے تھے۔ بیگم اور بچوں کے اصرار کے باوجود دوا آنکھوں میں خود ہی ڈالتا ہوں اور جب بھی ڈالتا ہوں یاد آتا ہے کہ ابا جی کی آنکھوں میں دوا ڈالتا تھا تو دوا کا کچھ حصہ رخسار پر آ بہتا تھا۔ اسے ٹشو پیپر سے جب بھی صاف کرتا دعا دیتے۔ ایک بات سوہانِ روح ہے کہ جس طرح ابا جی اپنی والدہ کی خدمت میں ایستادہ اور انتہائی الرٹ رہتے تھے اور جس طرح بچے میری تیمارداری کر رہے ہیں‘ میں اُس طرح اپنے والدین کی خدمت نہ کر سکا۔
عصا در دست ہوں اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا میں نے کھو دیا تھا
ایک ایک کوتاہی یاد آتی ہے اور خون کے آنسو رلاتی ہے۔ ندامت اور ناکامی کا اندھیرا چاروں طرف سے یلغار کرتا ہے۔ ایسا کیوں کیا تھا ؟ ایسا کیوں نہیں کیا تھا؟ ایسا کیوں کہا تھا؟ ایسا کیوں نہیں کہا تھا؟
دونوں بیٹے حاضرِ خدمت رہتے ہیں۔ بہوئیں ایک آواز پر دوڑی چلی آتی ہیں۔ 14سالہ حمزہ دن میں کئی بار پوچھتا ہے ''کیا میں آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں؟‘‘ ظاہر ہے وہ انگریزی میں سوچتا ہے اور پھر پنجابی میں پوچھتا ہے۔ تیمور سکول سے آکر پوچھتا ہے کہ ابو دن کیسا گزرا۔ پھر شام تک کئی بار پوچھتا ہے کہ کیا آپ کو کوئی ہیلپ چاہیے؟ زہرا سکول سے آکر چپکے چپکے‘ دیوار کے ساتھ ساتھ‘ پنجوں کے بل چلتی‘ پیچھے سے آکر ڈراتی ہے اور جب میرا تراہ نکلتا ہے تو ہنستے ہوئے لپٹ جاتی ہے۔ صاحبزادوں کے دوستوں نے‘ خاص طور پر ڈاکٹر صاحب کے رفقا نے ہم میاں بیوی کے اعزاز میں دعوتوں کی بھرمار کر رکھی ہے‘ یہاں تک کہ کچھ احباب کو معذرت کرنا پڑتی ہے۔ مشاعرے بھی ہو رہے ہیں اور شعری نشستیں بھی۔
سفر جاری ہے۔ جو قافلہ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ سے چلا تھا‘ رواں دواں ہے۔ مسافر بدلتے جا رہے ہیں۔ ہسپتال اور شہر نئے نئے سامنے آرہے ہیں۔ ٹیکنالوجی نئے نئے روپ بدل رہی ہے! کسی زمانے میں مصنوعی عدسے کا تصور تک نہیں تھا۔ مستقبل میں اور کیا کیا ہو گا؟ قدرت ہی جانتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے ''وہ وہ چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں‘‘۔ تعجب نہیں کل کو اگر سرجری کی اور مصنوعی عدسے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ پیوند کاری کا کس نے سوچا تھا۔ گردے کی‘ دل کی‘ جگر کی‘ آنکھوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے۔ دل میں سٹنٹ پڑ رہے ہیں۔ بائی پاس سرجری ہو رہی ہے۔ ہزاروں میل دور بیٹھا سرجن مریض کے آپریشن کی ہدایات دے رہا ہے اور آپریشن ہو رہا ہے۔ یورپ سے امریکہ جائیں تو بحر اوقیانوس سات آٹھ گھنٹوں میں عبور ہو رہا ہے۔ ایسا ہوائی جہاز بن چکا ہے جو یہ فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرے گا۔ ہاں ایک بات اطمینان بخش ہے کہ یہ ساری ایجادات کفار نے کی ہیں۔ ہمارا دامن کسی ایجاد‘ کسی دریافت سے آلودہ نہیں ہوا۔ کچھ کیا بھی ہے تو ہزار‘ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کیا تھا۔ اس کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ پدرم سلطان بود ہمارا پسندیدہ محاورہ ہے!! (ختم)