Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, November 28, 2024

میلبورن‘ جگر گوشے اور اردو سوسائٹی


14 سالہ حمزہ کو اس کی ماں جگاتی رہی مگر نہ جاگا۔ دیر سے اُٹھا۔ ناشتہ کرنے ہی لگا تھا کہ سکول لے جانے والی گاڑی آگئی۔ وہ ناشتہ کیے بغیر چلا گیا اور یہ بات میرے لیے سوہانِ روح بن گئی! بیگم کو بتایا کہ سخت پریشان ہوں‘ حمزہ ناشتہ کیے بغیر سکول چلا گیا‘ اسے بھوک لگے گی۔ انہوں نے تسلی دی کہ لنچ تو لے کر گیا ہے۔ مگر میری پریشانی اسی طرح رہی۔ لنچ سے پہلے تو بھوک لگے گی۔ اس کے سکول کا نام معلوم تھا نہ لوکیشن۔ معلوم ہوتا تو ٹیکسی پر جا کر ناشتہ دے آتا۔ اس کے ابا یا اماں سے سکول کا ایڈریس پوچھتا تو انہوں نے ایڈریس دینے کے بجائے کہنا تھاکہ اسے سمجھائیے وقت پر جاگا کرے۔ دو بار اسے ٹیلی فون کال کی مگر اس نے نہیں اٹھائی۔ میں پورا دن لکھنے پڑھنے کا کام کر سکا نہ آرام! واک پر نکلا مگر دل نہ لگا اور ایک دو فرلانگ کے بعد واپس آگیا۔ خدا خدا کرکے چھٹی کا وقت ہوا اور وہ واپس آیا۔ پہلے تو اسے سینے سے لگایا پھر پوچھا کہ دن بھر بھوکے رہے؟ ہنس کر کہنے لگا: نہیں کیونکہ جاتے ہوئے بسکٹ ساتھ لے گیا تھا۔ پوچھا: فون کیوں نہیں اٹھایا؟ کہنے لگا: ابو! میں اُس وقت کلاس میں تھا۔ ایک دن اسے کہا کہ چلو بازار چلتے ہیں‘ تمہارے لیے ایک دو اچھی سی قمیضیں لیتے ہیں۔ کہنے لگا: قمیضیں بہت ہیں۔ مجھے پتلون کی ضرورت ہے۔ ہم ''ویسٹ فیلڈ‘‘ گئے جو میلبورن کا بڑا اور فیشن ایبل مال ہے۔ کئی دکانیں پھرنے کے بعد اسے ایک پتلون پسند آئی۔ میں نے کہا کہ اس کے تو پائنچے بہت کھلے ہیں۔ کہنے لگا: یہی فیشن ہے آج کل۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگا کہ ''کیا یہ زیادہ مہنگی ہے‘‘؟ میں نے ہنس کر کہا: نہیں! پتلون لے کر وہ بہت خوش ہوا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ کمپیوٹر کے میرے بہت سے کام حمزہ ہی کرتا ہے۔ موبائل فون کی بھی کئی چیزیں‘ جو مجھے نہیں معلوم تھیں‘ اسی نے سکھائیں۔ جس شام میں آنکھ کی سرجری کرا کے آیا اور اپنے کمرے میں لیٹ گیا‘ وہ پاس ہی بیٹھا رہا۔ کئی بار پوچھا: ''درد تو نہیں ہو رہا؟ آپ کو کچھ چاہیے؟‘‘ یہاں بچوں کے لیے کرکٹ بھی تقریباً لازمی ہے۔ کئی دن سکول سے آتے ہی اسے کرکٹ کھیلنے جانا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں حمزہ اور اس کے بہن بھائی کے سوا شاید ہی کوئی پاکستانی بچہ آسٹریلیا میں ایسا ہو جو بولتا پنجابی ہو اور اردو لکھ پڑھ سکتا ہو۔ اس کے لیے ان کے ابا نے بہت محنت کی ہے۔ شام کو ڈیوٹی سے آتا ہے تو تھکاوٹ کے باوجود بچوں کو اردو پڑھانے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ بچے آپس میں انگریزی بولیں تو انہیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ پنجابی یا اردو میں بات کریں۔ سمیر میری عینک کے پرانے شیشے لے کر آیا اور کہنے لگا: ''ابو! اِن شیشے میں 

Keep

کر سکناں؟‘‘۔ ایسے مواقع بھی سکھانے کے لیے خوب ہوتے ہیں۔ میں نے کہا: ہاں آپ رکھ سکتے ہیں۔ 

Keep

کو کہتے ہیں رکھنا! سمیر اور اس کے چچا زاد بھائی سالار کی دوستی مثالی ہے۔ دونوں اکٹھے ہو جائیں تو ساری دنیا سے بے نیازہو کر پہروں کھیلتے رہتے ہیں۔ جس دن سمیر نے سالار کے گھر آنا ہو‘ سالار دروازے کے باہر کرسی رکھتا ہے اور اس پر بیٹھ کر سمیر کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ جس رات سالار سمیر کے ہاں ٹھہرا تو دس سالہ سمیر نے اپنے کزن اور دوست سالار کو اپنے پلنگ پر سلایا اور خود فرش پر سویا!
بارہ سالہ زَہرا اپنے سکول کی طرف سے پچھلے دنوں کینبرا گئی۔ یہ چالیس‘ پچاس بچوں کا گروپ تھا۔ اساتذہ ساتھ تھے۔ سب کو جہاز پر لے جایا گیا۔ کینبرا دارالحکومت ہے اس لیے آسٹریلیا بھر کے سکولوں سے بچوں کے گروہ کینبرا آتے ہیں۔ سب سے پہلے انہیں پارلیمنٹ کی سیر کرائی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور شاید کچھ اور ملکوں میں بھی گورنر برطانیہ کے بادشاہ کا نمائندہ ہوتا ہے۔ برائے نام ہی سہی‘ یہ ممالک برطانوی بادشاہ کے زیر نگیں ہیں! سکول کے بچوں کے اس گروپ نے گورنر صاحب سے ملاقات کی۔ زَہرا نے میرے لیے کینبرا میں ایک خوبصورت قلم خریدا اور دادی کے لیے لاکٹ۔ سب کے لیے کچھ نہ کچھ لائی اور سارے پیسے جو پاس تھے‘ خرچ کر دیے۔ ہمارے ملک کے سکولوں کے بچوں کو بھی اسلام آباد لا کر ان کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر دور افتادہ قصبوں اور بستیوں کے بچوں کو ایسے مواقع کا بہم پہنچانا ضروری ہے۔ وہ آکر پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے دفتر کی سیر کریں۔ صدرِ مملکت انہیں ملیں اور ان سے باتیں کریں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ خود اساتذہ کی کثیر تعداد نے قومی اہمیت کے ان مقامات کو نہیں دیکھا ہوا۔ دور افتادہ آبادیوں کے بچوں اور ان کے اساتذہ کے ایسے مطالعاتی دوروں کے اخراجات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو برداشت کرنے چاہئیں۔ اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ تعلیم کے لیے بجٹ کی الاٹمنٹ میں اضافہ ہونا چاہیے۔ یہ ایک طویل موضوع ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ تعلیم اور صحت ہماری ملکی ترجیحات میں سب سے نیچے ہے۔
بارہ سالہ تیمور اعتماد اور بات کرنے کے حوالے سے سب میں ممتاز حیثیت کا مالک ہے۔ گھر میں آنے والے ہر مہمان کو بہت گرم جوشی سے ملتا ہے اور حال چال پوچھتا ہے۔ ایک صاحب کو کہہ رہا تھا آپ کے آنے سے بہت خوشی ہوئی اور وہ صاحب خوب محظوظ ہو رہے تھے۔ سکول کی طرف سے وہ بھی دیگر بچوں کے ساتھ کینبرا گیا تھا۔ ان کا گروپ دو بسوں میں گیا تھا۔ یہ دورہ پانچ دنوں کا تھا۔ دورے کے اختتام پر اس کے استاد نے اچانک اعلان کیا کہ اب تیمور دورے کے بارے میں اختتامی کلمات کہے گا۔ تیمور پورے اعتماد کے ساتھ‘ فی البدیہہ بولا۔ دورے کی تعریف کی اور اساتذہ کا شکریہ ادا کیا۔ جب بھی گھر میں مہمان آئیں تو جب دوسرے بچے کھیل کود میں مگن ہوتے ہیں‘ وہ بیٹھک میں بڑوں کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ مگر تیمور کا اصل کمال یہ ہے کہ بارہ سال کی عمر میں اسے مشاعرے سننے کا شوق ہے اور باقاعدہ داد دیتا ہے۔ میلبورن کی ''اردو سوسائٹی‘‘ ایک فعال تنظیم ہے۔ ڈاکٹر اختر مجوکہ‘ ارشد سعید (میلبورن والے) اور ملک عاطف اس سوسائٹی کو پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر مصدق لاکھانی بھی میلبورن ہی میں آبسے ہیں۔ ان کے دونوں صاحبزادے بھی شاعر ہیں۔ علی جواد بھی یہاں کے مشاعروں کی جان ہیں۔ حیدر آباد دکن سے آئے ہیں اور بہت اچھے شاعر ہیں۔ میلبورن میں میرے قیام کے اختتام پر اردو سوسائٹی نے ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا جو ڈاکٹر اختر مجوکہ صاحب کے وسیع و عریض گھر میں منعقد ہوا۔ پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے احباب کثیر تعداد میں موجود تھے۔ تیمور واحد بچہ تھا جو اس مشاعرے کے سامعین میں شامل تھا۔ سٹیج پر میرے ساتھ بیٹھا تھا اور شعروں پر باقاعدہ داد دے رہا تھا۔ میرے کان میں کہنے لگا: ''بڑا مزہ آرہا ہے‘‘۔ مشاعرے کے اختتام تک بیٹھا رہا۔
کئی ماہ کے قیام کے بعد میلبورن سے رخصت ہونے کا وقت ہے۔ صاف ستھرا میلبورن‘ جو دنیا بھر میں رہنے کے لیے بہترین شہر قرار دیا جاتا ہے‘ میرے لیے اس لحاظ سے اہم نہیں کہ یہ عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہے۔ میرے لیے اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہاں میرے جگر گوشے رہتے ہیں۔ شہروں کی اہمیت وہاں کے رہنے والوں سے ہوتی ہے۔ سنگ و خشت‘ محلات‘ بازاروں اور شاپنگ مالوں سے نہیں ہوتی۔ اُدھر رستم اور آزادہ اسلام آباد میں انتظار کر رہے ہیں۔ کہیں ملاپ ہے تو کہیں جدائی۔
یہ زندگی ہے کھیل فراق اور وصال کا
ہیں پانیوں کے ساتھ جزیرے لگے ہوئے

Tuesday, November 26, 2024

ایک کالم کا ردعمل


کالم نگاری کے بتیس برسوں میں شاید ہی کسی قاری کامکتوب کالم میں نقل کیا ہو۔مگر اب کے‘ ایک ایسا رد عمل موصول ہوا ہے جسے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہے تا کہ سِکّے کا دوسرا رُخ بھی دیکھا جا سکے۔یہ ایک پروفیسر صاحب کا ای میل نما خط ہے۔ان سے خط کے مندرجات نقل کرنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اجازت دی مگر اس شرط پر کہ ان کا نام اور ان کے تعلیمی ادارے کا نام نہ لکھا جائے۔ اختصار کی خاطر ان کی طویل ای میل کو ایڈٹ کرنا پڑا ہے۔ کالم نگار کا ان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
'' آپ کا انیس نومبر2024ء کا کالم ( سولہ لاکھ پاکستانیوں کی ہجرت ) مایوسی پھیلانے کے علاوہ کسی کام کا نہیں۔ آپ نے تصویر کا ایک رخ دکھا یا ہے۔ آپ نے ملک کی ایسی تصویر کھینچی ہے جو ایک طرف تو حقیقت پسندانہ نہیں اور دوسری طرف بے شمار پاکستانیوں کو اپنے ملک سے بد دل کر سکتی ہے۔ یہ جو ہر طرف مہنگائی کا ہا ہا کار مچا ہوا ہے‘ یہ صرف شور ہے۔ اس کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر قیمتیں چڑھی ہیں تو دوسری طرف آمدنیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ باورچی اور ڈرائیورجن کی دو تین سال پہلے ماہانہ اجرت پندرہ اور بیس ہزار کے درمیان تھی اب تیس ہزار سے اوپر ہے۔ کھانا اور رہائش اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ ایک اچھا مستری چار پانچ سال پہلے اٹھارہ سو روپے دھیاڑ ( روزانہ ) لے رہا تھا‘ آج اڑھائی ہزار لے رہا ہے۔ مزدور چار پانچ سال پہلے آٹھ سو روپے روزانہ وصول کر رہا تھا۔ آج پندرہ سو سے کم نہیں لیتا۔تنخواہوں میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔ نجی شعبہ بھی اضافے کرتا ہے۔ حکومت ہر سال سرکاری ملازموں کے مکان کے کرائے کی شرح میں اضافہ کرتی ہے۔ اگر مکانوں کے کرائے بڑھے ہیں تو مکانوں کے مالکوں کو فائدہ ہے اور وہ بھی عوام سے ہیں۔ کرائے اتنے ہی ہیں جتنے لوگوں کی استطاعت میں ہیں۔ کھلی منڈی ہے اور مسابقت ہے۔ اگر کرائے اتنے زیادہ ہوں کہ استطاعت سے باہر ہوں تو مالکوں کا بھی نقصان ہے۔ طلب اور رسد کی قوتیں خود ہی قیمتیں طے کر لیتی ہیں۔ یہ بھی دیکھیے کہ مال‘ با زار‘ منڈیاں‘ سب گاہکوں سے کھچا کھچ بھری ہیں۔کون سا مال ہے اور کون سا بازار ہے جہاں رش نہیں۔چلنے کو راستہ نہیں ملتا۔ ریستورانوں میں جائیں تو انتظار کرنا پڑتا ہے۔اور یہ صرف لاہور کراچی اور دیگر بڑے شہروں کی بات نہیں‘ تحصیل لیول کے چھوٹے قصبوں میں بھی یہی حال ہے۔گاؤں والے بھی اب شادیاں قریب کے شادی ہالوں میں کرتے ہیں۔ملک میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ہر روز بڑھتی ہوئی تعداد سے کون سی غربت جھلک رہی ہے؟ سڑکیں چوک ہو گئی ہیں ! چھٹی کے دن پارک اور سیر گاہیں دیکھ لیجیے۔ خاندانوں کے خاندان تفریح کرنے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ کس گھر میں ٹی وی نہیں ہے؟ تین تین چار چار سمیں تو صرف مزدوروں اور سبزی فروشوں کے موبائل فونوں میں ہیں۔ سروے کر کے دیکھ لیجیے‘ دس سال پہلے کتنے گھروں میں ایئر کنڈیشنر تھے اور آج کتنے گھروں میں ہیں اور ہر گھر میں کتنے ہیں؟ پہلے دودھ بیچنے والے اور ہاکر سائیکلوں پر ہوتے تھے۔ اب ہر ایک کے پاس موٹر سائیکل ہے اور کتنے ہی دودھ بیچنے والے سوزوکی ڈبوں کے ذریعے اپنا کام کر رہے ہیں۔ اور یہ جو زرعی زمینوں پر دھڑا دھڑ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں اور بن چکی ہیں تو ان میں پلاٹ خریدنے والے اور کوٹھیاں بنانے والے کیانائیجیریا یا بلجیم کے باشندے ہیں؟ یہ سب پاکستانی ہی ہیں۔ جو تین تین پانچ پانچ مرلے کے گھروں میں رہتے تھے اب کنال کنال کے گھروں میں رہتے ہیں۔ بسیں ٹرینیں اور ویگنیں مسافروں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ جو لاکھوں گاڑیاں آن لائن ٹیکسی سروسز کی ہر شہر میں چل رہی ہیں‘ یہ کیسے چل رہی ہیں؟ ان میں وہ لوگ بھی سواری کر رہے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے بسوں پر سواری کرتے تھے۔ہر شہر‘ ہر قصبے کے ہر موڑ پر ریڑھی والے پھل بیچ رہے ہوتے ہیں۔ فروٹ اور سبزی منڈیاں گاہکوں سے چھلک رہی ہیں۔ نئے ہوٹل اور ریستوران بن رہے ہیں۔ مڈل کلاس سے نیچے والے بھی لاکھوں روپے لگا کر سولر بجلی لگوا رہے ہیں۔ یہ جو ملک میں چاروں طرف لا تعداد ٹرالے چل رہے ہیں اور پشاور سے لے کر گلگت تک کروڑوں اربوں کا مال ڈھو رہے ہیں‘ یہ ٹرالے صنعتکاروں اور سیاستدانوں کے نہیں ہیں‘ یہ عام لوگوں کے ہیں۔ میں آپ کو ایک ایسے گاؤں میں لے جا سکتا ہوں جس کے نوے پچانوے فیصد گھر کئی کئی ٹرالوں کے مالک ہیں۔ کئی دہائیاں پہلے اس گاؤں کے پہلے شخص نے ایک ٹرالا قسطوں پر لیا تھا۔ اس کی قسطیں پوری ہوئیں تو اس نے دوسرا خرید لیا۔ اس کی دیکھا دیکھی گاؤں کے باقی افراد نے بھی قسطوں پر ٹرالے لینے شروع کر دئے۔ آج سارا گاؤں ٹرالوں کا مالک ہے اور کئی کئی ٹرالوں کا! اور یہ صرف ایک گاؤں کا حال ہے !! یہ تو تھا مڈل کلاس اور لوئر کلاس کا حال! رہے بالائی طبقے تو ان کے ہمیشہ سے وارے نیارے ہیں۔ان کا معیارِ زندگی پاکستان میں بھی امریکہ اور یورپ جیسا ہے۔ مگر ان کی لالچ کی کوئی حد نہیں۔ یہ اس وجہ سے یورپ اور امریکہ نہیں جا بستے کہ پاکستان کے حالات خراب ہیں۔ یہ اس لیے جاتے ہیں کہ یہ دنیا میں ہر ممکن عیش و عشرت اور ہر نئی سے نئی سہولت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سول اور خاکی بیورو کریسی میں سے بھی بہت سوں نے مغربی ملکوں میں محلات خرید کر خاندانوں کو وہاں منتقل کر دیا ہے۔ سیا ستدان‘صنعتکار‘ وڈیرے‘ امیر صحافی صرف شہریت کے لیے بھی باہر جاتے ہیں تا کہ امریکی اور یورپی کہلا سکیں۔
مہنگائی کا شور مچا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کب ایسا شور نہیں تھا؟ ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں کہ مہنگائی نے مار دیا۔ہمیشہ یہی سنا کہ روپے کی قدر کوئی نہیں رہی۔ پندرہ سال پہلے کوئی مکان خریدتا تھا تو کہتا تھا مہنگا ملا ہے۔ اب اسی شخص کو لوگ کہتے ہیں کہ تم نے اچھے وقتوں میں خرید لیا تھا۔ آج تو خریدنا ممکن ہی نہیں۔ جو آج خرید رہا ہے‘ اسے دس سال بعد لوگ کہیں گے کہ اس نے اچھے وقتوں میں لے لیا تھا۔ یہ چکر نہ جانے کب سے چل رہا ہے۔ رہی یہ بات کہ حالات خراب ہیں تو کب نہیں تھے خراب؟ بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں ! مشہور بات ہے کہ فیض صاحب کے دوست پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ کوئی کہتا تھا اس کے اتنے حصے ہو جائیں گے۔ کوئی کہتا تھا یہ ہو جائے گا۔ کوئی کہتا تھا وہ ہو جائے گا۔ فیض صاحب نے کہا کہ خطر ناک بات یہ ہے کہ جیسا ہے‘ ویسا ہی رہے گا۔ ملک کا حال ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ خراب نہ اچھا۔ مگر پہلے سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اب سوشل میڈیا نے لوگوں میں احساس پیدا کر دیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حالات اب خراب ہو ئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ بنیادی طور پر ہم‘ بطور قوم‘ نا شکرے ہیں۔ سب کر رہے ہیں آہ و فغاں‘ سب مزے میں ہیں۔کڑاہیاں‘ چرغے‘ نہاریاں‘ تکے‘ کباب‘ قورمے‘ پلاؤ زردے کھاتے جا رہے ہیں۔ بوٹ بیسن‘ لکشمی چوک‘ پنڈی کا کرتارپورہ‘ہر جگہ پیٹ بھر بھر کر کھا رہے ہیں۔ اپر کلاس والے فائیو سٹار ہوٹلوں میں مزے اُڑا رہے ہیں۔ریستورانوں میں پیسٹریاں اور کیک چل رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ رو بھی رہے ہیں کہ ملک کے حالات خراب ہیں! دوسرے ملکوں میں جا کر فراڈ اور بد معاشیاں بھی کر رہے ہیں۔ ازراہ کرم لکھتے وقت انصاف سے کام لیا کیجیے۔ ملک کے حالات نہیں خراب ! ہم لوگ خود خراب ہیں! ......والسلام

Monday, November 25, 2024

ایک سو بتیس برسوں پر پھیلی ہوئی کہانی …(2)


فتح دین کا بیٹا عبد المجید واپس پرتھ پہنچ گیا۔اب وہ بیس سال کا تھا۔ آتے ہی اس کے اپنے والد سے اختلافات پیدا ہو گئے۔قصور باپ کا تھا‘ نہ بیٹے کا! فتح دین اس اثنا میں ایک سفید فام عورت سے شادی کر چکا تھا۔ اُس وقت کے قوانین کی رُو سے دوسری شادی کی آسٹریلیا میں اجازت تھی بشرطیکہ پہلی بیوی اجازت دے دے۔فاطمہ بی بی کو تا دمِ مرگ میاں کے عقدِ ثانی کا علم ہی نہ تھا۔عبد المجید جو پہلے ہی ماں کی جدائی سے غمزدہ تھا‘ سوتیلی ماں کے ساتھ نہ نبھا سکا۔ روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر اس نے مغربی آسٹریلیا کو خیر باد کہا اور جنوب کا رُخ کیا۔ ایڈیلیڈ سے ہوتا ہوا میلبورن پہنچا۔ یہ صوبہ وکٹوریہ کہلاتا ہے۔ اسی میں ایک خوبصورت علاقہ وادیٔ لاٹروب ہے۔ عبد المجید نے اس وادی کو مسکن بنایا اور بہت سے دوسرے پردیسیوں کی طرح پھیری کا کام شروع کر دیا۔ گھوڑا گاڑی اور ایک وفادار کتا اس کی کل متاع تھی۔ اس کام میں سرمائے کی ضرورت نہ تھی۔ آج کی طرح اُس زمانے کا آسٹریلیا بھی منتشر آبادیوں پر مشتمل تھا۔ سپر سٹوروں کا رواج نہ تھا۔ بڑی بڑی کمپنیاں تھوک فروشوں کو مال ادھار پر دیتیں۔ یہ تھوک فروش چینی ‘ لبنانی اور ہندوستانی ہوتے۔ یہ آگے پھیری والوں کو ادھار پر مال دیتے۔ دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار تھا۔پھیری والے نگر نگر ‘ گاؤں گاؤں‘ پھرتے۔ گھر گھر جاتے۔ زرعی فارموں کے چکر لگاتے۔ یہاں بھی ادھار چلتا۔ قمیصیں‘ پتلونیں‘ جوتے‘ سوئیاں ‘ بکسوئے‘ بچوں کے لیے مٹھائیاں ‘ سب کچھ ادھار پر ہوتا۔ چھ شلنگ کی ادائیگی بھی مہینوں بعد ہوتی۔ جو پھیری والے اَن پڑھ تھے وہ گاہک ہی سے اپنی کاپی پر حساب لکھاتے۔ کبھی کبھی کوئی گاہک بے ایمانی سے غلط اندراج بھی کر دیتا۔مختلف لوگ پھیری والوں سے مختلف سلوک کرتے۔کوئی مسکرا کر بٹھا لیتا اور چائے پلاتا۔ کوئی کالا سمجھ کر منہ دوسری طرف کر لیتا۔ رمضان کے دوران یہ پھیری والے چھٹی کرتے تا کہ روزے رکھ سکیں۔ اس وقت مسجدیں نہیں تھیں۔ یہ لوگ اپنی اپنی جائے نمازوں پر نماز ادا کرتے۔

جس زمانے میں فتح دین آسٹریلیا پہنچا‘ یعنی انیسویں صدی کے آخری عشرے میں‘ ٹھیک اسی زمانے میں ایک کشمیری نوجوان گلاب دین بھی قسمت آزمانے پہنچا تھا۔کچھ عرصہ بعد گلاب دین کی ملاقات ایک سفید فام بیوہ سے ہوئی جس کے نو بچے تھے۔ گلاب دین نے اس سے شادی کر لی۔ وہ اس عورت کا تیسرا میاں تھا۔ پہلا آئرش تھااور دوسرا چینی! گلاب دین سے اس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام زیب النسا رکھا گیا۔ ایک عید پر جب مسلمان خاندان اکٹھے تھے‘ عبدالمجید زیب النسا کو دل دے بیٹھا۔ان کی شادی ہو گئی۔ یہ خبر گاؤں پہنچی تو ہنگامہ برپا ہو گیاکیونکہ وہاں بھی ایک منگیتر منتظر تھی۔ پھر وہی ہوا جو ہماری ثقافت میں ہوتا آیا ہے۔ گھر کی ''عزت‘‘ بچانے کے لیے عبدالمجید کے چھوٹے بھائی مرزا انور کی شادی اس لڑکی سے کر دی گئی۔

عبدالمجید جڑی بوٹیوں کے ماہر کے طور پر بزنس کرتا رہا۔ اس نے پرتھ میں حلال گوشت کا کاروباربھی کیا۔ فتح دین قیام پاکستان سے آٹھ سال پہلے پرتھ ہی میں دنیا سے رخصت ہوا۔ آخر وقت تک باپ بیٹا نزدیک نہ ہو سکے۔ فتح دین کے کفن دفن کا بندو بست اس کی سفید فام بیوی نے کیا۔ عبد المجید نے بعد میں جب والد کی قبر پر لگا ہوا کتبہ پڑھا تو اس کے دُکھ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لکھا تھا ''ڈوروتھی کا محبوب شوہر اور مینا اور زہرا کا پیارا والد مرزا فتح دین ‘‘۔عبدالمجید اس کا بیٹا تھا مگر اس کا نام کتبے سے غائب تھا۔ عبدالمجید پاکستان بننے کے بعد کئی بار اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آبائی گاؤں آیا۔

اس کہانی کا سب سے زیادہ اہم اور قابلِ توجہ کردار حنیفہ دین ہیں۔ حنیفہ دین فتح دین کی پوتی‘ گلاب دین کی نواسی اور عبدالمجید کی صاحبزادی ہیں۔اس وقت وہ ستر سے اوپر کی ہوں گی۔میری ان سے ملاقات یونیورسٹی آف میلبورن میں ہوئی۔ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اور بلند پایہ ریسرچ سکالر ہیں۔ ان کا اصل کارنامہ جس کے لیے وہ آسٹریلیا کے ادبی‘ ثقافتی اور تحقیقی حلقوں میں جانی جاتی ہیں‘ ان کی وہ بے پناہ محنت ہے جو انہوں نے انیسویں صدی میں لائے گئے شتربانوں (Cameleers) کے حوالے سے کی ہے۔آسٹریلیا کے قومی آرکائیوز میں سالہا سال بیٹھ کر انہوں نے ایک ایک شتربان کے خاندان ڈھونڈے۔ کون کب آیا‘ کب واپس گیا‘ کب ایک بار پھر آسٹریلیا لوٹا‘ کون کس ریاست یا صوبے میں اقامت پذیر ہوا‘ کس کے ویزے پر کیا اعتراض ہوا‘ کس کی اگلی نسل آج کہاں ہے؟ یہ اور بے شمار دوسرے سوالوں کے جواب حنیفہ دین نے تلاش کیے۔ حنیفہ کی پہلی تصنیف ''کارواں سرائے‘‘ آسٹریلیا کے مسلمانوں کی تاریخی اور تہذیبی داستان ہے۔ ''علی ‘ عبدل اور بادشاہ‘‘ ان مسلمان خاندانوں کی سرگزشت ہے جن کے بزرگ ڈیڑھ صدی پہلے آسٹریلیا کے ساحلوں پر اترے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ ان کے علاوہ بھی حنیفہ کی متعدد تصانیف ہیں۔ انہیں وفاقی اور صوبائی سطح کے کئی انعامات اور ایوارڈ دیے گئے ہیں۔ شوہر جرمنی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کے بارے میں وہ کچھ نہیں بتاتیں۔ کچھ سال میلبورن رہنے کے بعد اب پرتھ منتقل ہو رہی ہیں۔ کئی بار پاکستان آئیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت بھی جاتی رہتی ہیں۔ ایک کتاب بنگلہ دیش کی تہذیبی زندگی پر بھی لکھی۔ ان کے مضامین آسٹریلیا کے صفِ اول کے اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے ہیں۔ ٹیلی وژن پروگرام بھی کرتی ہیں۔

ہم کھاریاں ڈنگہ روڈ پر چلتے گئے یہاں تک کہ انیس کلو میٹر کے بعد وہ بستی آگئی جہاں سے 1890ء میں مرزا فتح دین چلا اور سمندروں کو عبور کرتا ہزاروں میل دور ایک اجنبی‘ نو دریافت شدہ جزیرے میں جا اترا اور پھر اسی جزیرے کی مٹی میں دفن ہوا۔ حنیفہ دین نے بتایا تھا کہ گاؤں کا نام چنن ہے جہاں وہ کئی بار آئیں۔ ہم نے ایک معمر کسان سے پوچھا کہ جو بابا آسٹریلیا گیا تھا‘ اس کا گھر کہاں ہے؟ ایک ثانیے کے تذبذب کے بغیر اس نے ہماری رہنمائی کی۔ہماری ملاقات فتح دین کے تیسرے بیٹے مرزا انور کی اولاد سے ہوئی۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ یہ دو بھائی ‘ عبد العزیز اور عبدالغفور ‘ امریکہ سے آئے ہوئے تھے اور ایک دو دن میں واپس جانے والے تھے۔ یوں لگتا تھا یہ جڑواں بھائی ہیں۔ کم گو‘ شرمیلے‘ ستر پچھتر کے پیٹے میں‘ یہ دونوں‘ اپنے سگے تایا کی اس اولاد کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے جو آسٹریلیا میں رہتی ہے۔ خاندانوں کے انتشار کا مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ کسی بھی خاندان کی تاریخ تلاش کی جائے تو حیرت کے کئی باب وا ہوتے ہیں۔ کہاں کا پھول کس زمین میں جا کھِلتا ہے۔ خانوادے کیسے ضم ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ کچھ خوش قسمت اپنے اصل سے جُڑے رہتے ہیں۔بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو زبان اور ثقافت کھو بیٹھتے ہیں مگر اتنا جانتے ہیں کہ آبا ئو اجداد کہاں سے آئے تھے۔ کچھ حنیفہ دین کی طرح دوسروں پر احسان کرنے والے ہوتے ہیں کہ اپنے علاوہ دوسروں کی اصل بھی تلاش کر دیتے ہیں۔ انگریزوں کو یہ داد ضرور دینی چاہیے کہ کئی سو سال پہلے بھی وہ ہر شے کا ریکارڈ رکھتے تھے۔ سلاطینِ دہلی اور مغلوں کے زمانے کا ریکارڈ ہوتا تو بر صغیر کے مسلم خاندانوں کی جڑیں بھی وسط ایشیا اور ایران و عرب تک تلاش کی جا سکتی تھیں!(ختم)

جوائنٹ فیملی سسٹم اچھا نہ بُرا !

ایک ضروری کام کے لیے اپنے دوست حامد کو فون کیا۔ صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میرا خیال تھا سو رہا ہو گا اور میری بات سننے سے پہلے میری شان میں نازیبا کلمات کہے گا کہ جگا کیوں دیا۔ مگر فون کا جواب بھابی نے دیا۔ کہنے لگیں: حامد پوتے اور پوتی کو سکول چھوڑنے گئے ہیں اور فون ساتھ نہیں لے کر گئے۔ دوپہر تک میں اپنے مسائل میں الجھا رہا۔ ظہر کے بعد پھر حامد کو فون کیا۔ پوچھا: کہاں ہو؟ کہنے لگا: یار پوتے پوتی کو سکول سے لینے جا رہا ہوں۔ میں ہنسا اور کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ نئی ڈیوٹی سنبھال لی ہے کیا؟ کہنے لگا: یار! بیٹا اور بہو دونوں صبح ساڑھے سات بجے اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ بچوں کے لیے وین لگوائیں‘ میں خود ہی انہیں چھوڑنے اور لینے جاتا ہوں۔ وقت اچھا گزر جاتا ہے ان کے پاس۔ بیگم کو اور مجھے کھلونے مل گئے ہیں۔ ورنہ یہ لوگ ملک سے باہر تھے تو ہم سارا دن گھر میں بور ہوتے رہتے تھے۔

شام کو ایک قریبی عزیز ملنے آ گئے۔ بہت پریشان تھے اور مشورہ چاہتے تھے۔ ان کی بیگم اور بہو کی آپس میں بن نہیں رہی تھی۔ روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ گئے تھے۔ بہو زبان سے نہیں کہتی تھی مگر چاہتی تھی کہ الگ مکان لے کر میاں اور بچوں کے ساتھ رہے۔ بیٹا مانتا نہیں تھا۔ انہیں مشورہ دیا کہ بیٹے کو سمجھائیں الگ مکان لے لے اور کہیں نزدیک لے تاکہ آپ کے پاس بھی آتا جاتا رہے۔ یہ بھی سمجھایا کہ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ کہنے لگے: عجیب بات ہے اب ہم میاں بیوی جاتے ہیں تو بہو بہت اچھی طرح پیش آتی ہے۔ الگ گھر لے کر خوش ہے اور بالکل بدل گئی ہے۔
غور کیجیے۔ اوپر کی سطور میں آپ نے دو قسم کی صورت حال دیکھی ہے۔ پہلی صورت حال میں جوائنٹ فیملی سسٹم ایک نعمت سے کم نہیں۔ میاں بیوی دونوں ملازمت پر جاتے ہیں۔ ان کے بچوں کی دیکھ بھال سارا دن‘ ماں باپ کی غیر حاضری میں‘ دادا دادی کرتے ہیں۔ یہ صرف دیکھ بھال نہیں‘ اس دیکھ بھال میں دادا دادی کی والہانہ محبت‘ شفقت ‘ بے پناہ خلوص اور بے غرضی بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے ایسی دیکھ بھال کوئی آیا‘ کوئی نینی‘ کوئی ملازمہ نہیں کر سکتی۔ دوسری صورت حال میں یہی جوائنٹ فیملی سسٹم ایک مصیبت بن کر رہ گیا ہے۔ یہاں بہو ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسرے لفظوں میں مشترکہ خاندانی نظام اچھا بھی ہو سکتا ہے اور خراب بھی۔ ہم کُلّی طور پر
 (in absolute sense)
 نہیں کہہ سکتے کہ یہ نظام خراب ہے۔ اسی طرح کُلّی طور پر اسے اچھا بھی نہیں کہہ سکتے۔ ایک معروف اور محترم واعظ کے ایک بیان کا آج کل بہت شہرہ ہے کہ ''میاں بیوی کا خوبصورت رشتہ جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے تباہ وبرباد ہو گیا‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کلی طور پر جوائنٹ فیملی سسٹم کو مطعون کرنا غیر منطقی ہے اور غیر معقول بھی۔ یہ محترم واعظ کا ذاتی خیال یا ذاتی تجربہ تو ہو سکتا ہے مگر یہ ایسی بات نہیں جس کی بنیاد تحقیق پر ہو یا اعداد وشمار سے ثابت ہو رہی ہو! کوئی ایسا سروے بھی ہمارے علم میں نہیں جس سے میاں بیوی کے رشتے کی تباہی کی ساری ذمہ داری جوائنٹ فیملی سسٹم پر ڈالی جا سکے۔کئی دیگر وجوہ بھی تباہی کی ذمہ دار ہو سکتی ہیں۔ غربت بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ ہمارا معاشرہ عورتوں کی ملازمت کے حوالے سے بھی ایک خاص مائنڈ سیٹ رکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی جوڑے علیحدہ ہو رہے ہیں۔ مرد جب دیکھتا ہے کہ ایک ہاؤس وائف کے مقابلے میں ملازمت کرنے والی بیوی زیادہ خودمختار‘ زیادہ بااعتماد اور زیادہ معترض ہے تو وہ اس خودمختار رویّے کو قبول نہیں کرتا۔ جہیز کی لالچ اور سسرال کا مسلسل مالی استحصال بھی عورت ایک حد تک ہی برداشت کرتی ہے اور‘ جلد یا بدیر‘ میاں سے جان چھڑا لیتی ہے۔ دوسری شادی بھی گھر ٹوٹنے کا باعث بن جاتی ہے۔ سب سے بڑی وجہ مرد کی بے وفائی اور ادھر اُدھر منہ مارنے کی عادت ہے۔ ایک وجہ تشدد بھی ہے۔ نرینہ اولاد کا نہ ہونا بھی طلاق کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے خیال میں میاں بیوی کے الگ رہنے میں مرد کو تشدد کے مواقع زیادہ ملتے ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں مرد کے لیے بے وفائی کا چانس بھی نسبتاً کم ہو گا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں میں جوائنٹ فیملی سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر بھی ان ملکوں میں طلاق کی شرح پاکستان جیسے ملکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ اگر میاں بیوی کے رشتے کی ''تباہی‘‘ کا سبب جوائنٹ فیملی سسٹم ہے تو مغربی ملکوں میں طلاق کی شرح زیادہ کیوں ہے؟ امریکہ میں طلاق کی شرح پچاس فیصد ہے۔ برطانیہ میں اکتالیس فیصد ہے۔ فیصد کے حساب سے پاکستان کے اعداد وشمار میسر نہیں۔ مگر یقینا مغربی ملکوں سے بہت کم ہے۔ 
اس تحریر کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ لکھنے والا جوائنٹ فیملی سسٹم کا علمبردار ہے یا اس کا مخالف! مقصد صرف اور صرف یہ واضح کرنا ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے اور بغیر اعداد وشمار کے‘ گھر ٹوٹنے کی ذمہ داری کلیتاً جوائنٹ فیملی سسٹم پر ڈالنا درست نہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم دو قسم کا ہے۔ ایک وہ ہے جس میں کئی شادی شدہ جوڑے ساتھ رہتے ہیں۔ جیسے والدین کے علاوہ‘ دو یا تین یا زیادہ شادی شدہ بھائیوں کا اکٹھا رہنا۔ ان سب کا ایک ہی کچن ہونا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کی یہ قسم حد درجہ تکلیف دہ اور غیر فطری ہے۔ دوسری قسم اس سسٹم کی وہ ہے جس میں میاں بیوی کے ساتھ صرف مرد کے ماں باپ رہتے ہیں۔ اگر ماں باپ ضعیف ہیں اور محتاج 
(dependent) 
تو کہاں جائیں؟ کیا ہمارے محترم واعظ ایسے والدین کے لیے ملک بھر میں اولڈ ہومز بنوا دیں گے؟ انہیں یہ کام کرنا ہو گا۔ کیونکہ اگر آپ ایک نظام کو 'کلیتاً‘ تباہی کا سبب گردانتے ہیں تو آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ اس کا متبادل بھی دکھائیے۔ چلیے مان لیا آئیڈیل صورت حال یہی ہے کہ ہر شادی شدہ جوڑا اپنے گھر میں الگ رہے مگر اس غریب معاشرے میں کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ہر مرد اپنے ماں باپ کے لیے الگ گھر کا بندوبست کر نے کی استطاعت رکھتا ہے؟ ایک ڈرائیور‘ ایک کلرک‘ ایک مزدور‘ ایک چھوٹا دکاندار‘ مشکل سے ایک گھر کرائے پر لے سکتا ہے۔ اس کے ماں باپ بھی اس کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ وہ مشکل سے اس ایک گھر کے اخراجات برداشت کرتا ہے۔ دوسرے گھر کے اخراجات کیسے برداشت کرے گا؟ لازم نہیں کہ ہر بوڑھے کی پنشن آتی ہو! رہی یہ بات کہ میاں بیوی کے رشتے کی ''اہمیت والدین اور اولاد سے بھی زیادہ ہے‘‘ تو یہ بات کوئی عام آدمی کہتا تو اب تک اس کے خلاف فتوے آ چکے ہوتے۔ محترم واعظ ہم سے کہیں زیادہ علم رکھتے ہیں۔ ہم تو کچھ بھی نہیں‘ محض طالب علم ہیں۔ انہوں نے یہ ارشادِ نبوی ضرور پڑھا اور سنا ہو گا کہ ''تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے‘‘۔
یہ معلوم نہیں کہ حضرت نے یہ بیان کس سیاق وسباق میں جاری کیا۔ گمانِ غالب یہ ہے کہ ڈسکہ میں ایک ساس نے جو ظلم اپنی بہو پر کیا اور جس ظالمانہ طریقے سے اسے قتل کیا‘ اس بیان کا سبب بنا ہو گا۔ اسی ظالم عورت نے پہلے اپنی بیٹی کو بھی قتل کیا تھا۔ اس کی بہو جوائنٹ فیملی سسٹم میں نہیں رہتی تھی۔ وہ اپنے میاں کے ساتھ ملک سے باہر رہتی تھی اور اب باپ کے گھر میں تھی۔ اس کی ساس نے قتل کرنے کے ارادے سے اسے باقاعدہ بلایا تھا!!

Thursday, November 21, 2024

ہم کب سدھریں گے؟

خدا کی پناہ!! جو خبر بھی آتی ہے‘ شرمناک ہی آتی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے جو وجوہ پاکستانیوں کے ویزے بند کرنے کی بتائی ہیں‘ ایسی ہیں کہ ہم پاکستانیوں میں ذرہ برابر بھی عزتِ نفس ہو تو ڈوب مریں۔ تازہ ترین خبر کی رُو سے یہ وجوہ سرکاری سطح پر پاکستانی سفیر کو بھیج دی گئی ہیں۔ اولین وجہ جو بھی سنے گا اسے ہماری بے وقوفی پر ترس بھی آئے گا اور ہنسی بھی! وہ یہ کہ ہمارے ہم وطن‘ جو متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں‘ وہ متحدہ عرب امارات ہی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں! اس تنقید کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ دنیا میں جو ''استعمال‘‘ سوشل میڈیا کا ہم پاکستانیوں نے کیا ہے‘ شاید ہی کسی اور قوم نے کیا ہو گا۔ پاکستانی ایک بات بڑے مزے سے کہتے ہیں کہ جاپانیوں نے جو سوزوکی پک اَپ بنا کر بھیجی ہے‘ آکر اس کا استعمال دیکھیں تو بے ہوش ہو جائیں۔ 20‘ 30سواریاں اندر اور آٹھ‘ دس باہر لٹکی ہوئیں! سوشل میڈیا کا استعمال ہمارے ہاں اس سے بھی زیادہ بھرپور ہوا ہے۔ سب سے بڑی وجہ اس کی ہمارا ویلا ہونا ہے۔ ویلا پنجابی میں اُسے کہتے ہیں جس کے پاس وقت ہی وقت ہو۔ اس میں تھوڑی سی تضحیک بھی شامل ہے۔ ہم شاید دنیا میں سب سے زیادہ ویلی قوم ہیں۔ ہمارے پاس فراغت لاکھوں‘ کروڑوں ٹنوں کی صورت موجود ہے۔ کسی بھی جگہ‘ جہاں بھی دو گاڑیوں کی ٹکر ہو گی یا ٹریفک کا کوئی حادثہ ہو گا‘ وہاں لوگ اس طرح جمع ہوں گے جیسے کوئی بہت نادر قسم کا تماشا لگا ہے۔ ادھر حادثہ ہوا اُدھر تماشائی جمع ہو گئے۔ یہ اس قدر سرعت سے جمع ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا حیران ہو جاتا ہے۔ پتا نہیں زمین سے نکل آتے ہیں یا اوپر سے گرتے ہیں۔ پھر جب تک متاثرہ گاڑیاں وہاں موجود رہیں گی‘ یہ تماشائی بھی کھڑے رہیں گے۔ زندگی کا کوئی سا شعبہ اٹھا کر دیکھ کیجیے۔ فراغت کی بہتات نظر آئے گی۔ شادی بیاہ کی تقریبات لے لیجیے۔ دعوتی کارڈ پر سات بجے کا وقت ہو گا۔ مہمان دس بجے آنا شروع کریں گے۔ کھانا گیارہ بجے لگ جائے تو خوش بختی ہے ورنہ اس گنہگار نے شادی کی تقاریب میں دو بجے کھانا کھانے کی اذیتیں بھی برداشت کی ہیں۔ کوئی بھی فنکشن ہو‘ سرکاری‘ نجی‘ گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہو گا۔ سوشل میڈیا تو ہمارے ویلے ہونے کی مستند ترین سند ہے۔ ان لوگوں کی فراغت کا اندازہ لگائیے جو ہر روز صبح اٹھ کر‘ بلا ناغہ آپ کو پھول بھیجتے ہیں۔ صرف آپ کو نہیں‘ بیسیوں کو‘ بلکہ بے شمار لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ جمعہ مبارک بھی ارسال کرتے ہیں۔ پھر ہر رطب و یابس‘ ہر بُرا بھلا‘ ہر کچا پکا‘ ہر سچ جھوٹ‘ جو بھی موصول ہوتا ہے‘ اسے فارورڈ کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ پاکستانی جو یو اے ای میں مقیم ہیں‘ وہاں ملازمتیں اور کاروبار کر رہے ہیں‘ پیسہ کما رہے ہیں‘ پیچھے گھر بھی بھیج رہے ہیں‘ مگر عقل دیکھیے کہ میزبان ملک کی پالیسیوں پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ جب دبئی میں بارش آئی یا سیلاب‘ ان ہمارے ہم وطنوں نے سوشل میڈیا پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ مندر بنایا ہے اس لیے یہ عذاب اُترا ہے۔ ایک تو ہم پاکستانیوں کو فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ جو بھی قدرتی آفت آتی ہے‘ عذاب ہی ہوتا ہے۔ یو اے ای مندر بنائے یا مسجد یا کلیسا‘ یا کیسینو‘ کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے‘ جس کام کے لیے گئے ہو وہ کام کرو۔ اور اپنے کام سے مطلب رکھو! بنگلہ دیشی بھی ہمارے ہی (بچھڑے ہوئے) بھائی ہیں! حسینہ واجد کو زوال آیا تو ان بنگلہ دیشیوں نے یو اے ای میں بھی احتجاج شروع کیا۔ یو اے ای نے کان سے پکڑا اور واپس بنگلہ دیش بھیج دیا۔

دوسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ دستاویزات (پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ وغیرہ) میں جعل سازی کرنے والوں میں بھی پاکستانی سر فہرست ہیں۔ پھر بھکاریوں کی زیادہ تعداد بھی پاکستانیوں ہی کی ہے! چوری‘ نوسر بازی‘ بھیک مانگنا‘ جسم فروشی اور منشیات سے متعلق مجرمانہ سرگرمیاں بھی پاکستانی شہریوں میں دیگر قومیتوں کے افراد کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اپنی حرکتوں پر شرم کرنے کے بجائے ہم امت مسلمہ کی پناہ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر یو اے ای بھی مسلمان ملک ہے۔ ہم پر پابندیاں کیوں لگا رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیوں نہ لگائے؟ المیہ یہ ہے کہ یو اے ای ہر دو سال کے بعد کشکول اٹھائے آپ کے دروازے پر آکر بھیک نہیں مانگتا۔ آپ کہیں گے کہ شکار تو پاکستان میں آکر کھیلتے ہیں۔ تو آپ کو شکار والے علاقوں میں سڑکیں اور ہسپتال بھی تو بنا کر دے رہے ہیں۔ روکنا چاہیں تو روک دیجیے۔ بھارت انہیں آپ سے بھی زیادہ سہولتیں دے گا۔ ویسے کسی پاکستانی حکومت کی مجال نہیں کہ شکار کے اُن قوانین پر عرب اور خلیجی شہزادوں سے عمل کرائے جن کا اطلاق خود پاکستانیوں پر ہوتا ہے۔
دوسری خبر اس سے بھی زیادہ شرمناک اور عبرتناک ہے۔ اس سال سعودی عرب میں ایک سو غیر ملکیوں کے سر قلم کیے گئے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی رہی۔ یعنی ہم اول نمبر پر آئے۔ ٹاپ کیا۔ 21 پاکستانیوں کو سزائے موت دی گئی۔ یمن نے سیکنڈ پوزیشن لی۔ دوسرے ملکوں میں مصر‘ شام‘ نائیجیریا‘ اردن‘ ایتھوپیا وغیرہ شامل ہیں۔ سر قلم کرانے والوں میں تین افراد بھارت سے تھے اور اتنے ہی افغانستان سے! حیرت ہے ہمارے لوگوں کی سمجھ بوجھ پر اور ''استقامت‘‘ پر!! بچے بچے کو معلوم ہے کہ سعودی عرب میں منشیات لانے کا جرم ناقابلِ معافی ہے۔ پھر بھی ہمارے بھائیوں کے اعصاب اتنے مضبوط ہیں کہ اس جرم سے باز نہیں آتے۔ کچھ قتل کے جرم میں ملوث ہوتے ہیں اور سزائے موت پاتے ہیں۔ 
ہم کب سدھریں گے؟ کب عقل کے ناخن لیں گے؟ ملک کے اندر بھی بد امنی‘ بے چینی‘ گرانی‘ سیاسی عدم استحکام‘ اقتصادی ناکامی اور آبادی کے شدید دباؤ کے عفریت منہ کھولے دندنا رہے ہیں۔ ملک سے باہر بھی ہماری عزت ایک دھیلے کی نہیں۔ آہستہ آہستہ دوسرے ممالک‘ ایک ایک کر کے ہم پر اپنے دروازے بند کر رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں کو بھی بھکاری سمجھا جاتا ہے۔ ہر نئے سال‘ ہم دوسروں کے دروازوں پر کھڑے ہو کر آواز لگاتے ہیں کہ جو دے اس کا بھلا‘ جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ نہ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے عام‘ سبز پاسپورٹ کی بھی عزت ہوتی تھی۔ بہت سے ممالک ایسے تھے جو اپنے اپنے ایئر پورٹوں پر ہی ہمیں ویزے لگا دیتے تھے۔ آج پاکستان کے سرکاری‘ یعنی نیلے پاسپورٹ کو بھی کوئی نہیں گھاس ڈالتا۔ چند چھوٹے چھوٹے گمنام‘ بے بضاعت‘ عجیب سے مشکل ناموں والے ملک ہیں جہاں ہمارے نیلے پاسپورٹ ویزے کے بغیر قبول کیے جا سکتے ہیں۔ ان ملکوں میں کم ہی کوئی جاتا ہو گا۔ اس پستی‘ اس زوال اور اس بے عزتی کے باوجود ہمارے ''بڑے‘‘ دوسرے ملکوں میں رہنے کے اور مزے اڑانے کے شوقین ہیں۔ چھینک آئے‘ پاؤں میں موچ آجائے‘ انگلی پر چھوٹی سی پھنسی نکل آئے‘ سر میں ہلکا سا درد ہونے لگے‘ ہمارے لیڈر جہاز پر بیٹھتے ہیں اور لندن‘ امریکہ‘ سوئٹزر لینڈ اور دبئی جا اترتے ہیں۔ ہم پر وہ مثل صادق آتی ہے۔ ما‘ پِنّے تے پتر گھوڑے گھِنّے۔ یعنی ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداریوں میں لگا ہے۔ 
اور لکھ لیجیے کہ ویزے کی یہ پابندیاں مستقبل قریب میں ہٹنے والی نہیں! ہماری حکومت اول تو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے گی ہی نہیں‘ لے بھی لے تو یو اے ای کی شکایات کا ازالہ کیسے کرے گی؟ اس کے لیے دیانت دار اور محنتی انتظامی مشینری درکار ہے۔ وہ کہاں سے آئے گی؟ جب افسروں کو ذاتی وفاداری کی بنیاد پر وزارتیں دے دی جائیں تو کون بے وقوف افسر ہو گا جو دیانت اور محنت سے کام کرے گا؟

Tuesday, November 19, 2024

ایک سال میں سولہ لاکھ پاکستانیوں کی ہجرت

کیا ریاست کو معلوم ہے؟ کیا حکومت کے علم میں ہے؟

گزشتہ سال‘ 2023ء کے دوران‘ سب سے زیادہ تعداد میں جس ملک سے لوگوں نے ہجرت کی‘ وہ پاکستان ہے۔ پاکستان سے باہر بھاگنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ سے زیادہ تھی۔ دوسرے نمبر پر سوڈان تھا جہاں سے ساڑھے تیرہ لاکھ سوڈانیوں نے ہجرت کی۔ بھارت تیسرے نمبر پر تھا۔ پونے دس لاکھ بھارتی ہجرت کر کے ملک سے باہر چلے گئے۔ ان اعداد وشمار کا علم ہونے سے پہلے میرا خیال تھا کہ جتنے لوگ پاکستان سے گئے ہیں یا جا رہے ہیں‘ اتنے ہی بھارت سے بھی جا رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ آبادی کا دباؤ ہے۔ اس تاثر کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران بھارت سے آسٹریلیا آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ صرف پاکستان سے نہیں‘ دوسرے ملکوں سے‘ خاص طور پر بھارت سے بھی لوگ نکل رہے ہیں۔ اپنے اس تاثر کی بنیاد پر ایک کالم بھی لکھا۔ مگر جب عالمی اعداد وشمار دیکھے تو معلوم ہوا کہ اصل معاملہ اور ہے۔ یہ آبادی کا دباؤ نہیں‘ ملکی حالات سے مایوسی ہے جو لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سوال وہی ہے جو اوپر پہلی سطر میں کیا ہے۔ کیا اس ملک کے حکمرانوں کو اس صورتحال کا علم ہے؟ ملک کے حکمرانوں میں تمام سیاستدان‘ تمام پارلیمنٹیرین اور مقتدرہ‘ سب شامل ہیں! کاش نواز شریف‘ شہباز شریف‘ صدر زرداری‘ آرمی چیف‘ سب اس پر تشویش کا اظہار کرتے۔ پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوتی۔ ایک کمیٹی بنتی جو اس صورتحال کے اسباب پر غور کرتی۔ الیکٹرانک میڈیا پر مباحثے ہوتے! یہ معلوم کیا جاتا کہ ان سوا سولہ لاکھ افراد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کتنے ہیں؟ ملک پر ہولناک درجے کے اس برین ڈرین 
(Brain Drain)
 کے کیا منفی اثرات پڑیں گے؟ جانے والوں میں لیبر کلاس کتنی ہے؟ مگر لگتا ہے کہ اس ملک کا کوئی والی وارث نہیں۔ ذمہ دار افراد اور اداروں کو اس تشویشناک صورتحال کا علم ہے نہ پروا! جیسے کہہ رہے ہوں کہ کھان خصماں نوں! سانوں کی! ایک سابق وزیراعظم نے تو کھلم کھلا کہہ بھی دیا تھا کہ لوگ ملک سے باہر جاتے ہیں تو جائیں! اسی بے رحمانہ انداز میں ایک سابق صدر نے بھی امریکہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یہ عورتیں اس لیے ریپ ہوتی ہیں کہ مغربی ملکوں میں پناہ حاصل کر سکیں! حکمران ملک کا ایک لحاظ سے‘ باپ ہوتا ہے۔ اگر باپ ہی لاتعلق ہو جائے تو بچوں کا کیا بنے گا! گلستانِ سعدی میں ایک دردناک حکایت ہے۔ ایک بادشاہ کو کوئی خطرناک مرض لاحق ہو گیا۔ طبیبوں نے کافی غور وفکر کے بعد تجویز کیا کہ جس نوجوان میں فلاں فلاں صفات ہوں‘ اس کا پِتّہ درکار ہو گا۔ ایک کسان کا بیٹا انہی صفات کا مالک تھا۔ اس کے ماں باپ کو دولت دے کر راضی کر لیا گیا۔ قاضی نے فتویٰ دے دیا کہ بادشاہ کی جان بچانے کے لیے ایک فرد کا خون بہانا جائز ہے۔ جلاد سر قلم کرنے لگا تو نوجوان آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ بادشاہ دیکھ رہا تھا۔ اسے اس کا مسکرانا عجیب لگا۔ پوچھا کہ ادھر تمہیں قتل کرنے کے لیے جلاد تیار ہے‘ اُدھر تم آسمان کی طرف منہ کر کے مسکرا رہے ہو‘ آخر کیوں؟ نوجوان نے جواب دیا کہ اولاد کے ناز نخرے والدین اٹھاتے ہیں۔ میرے والدین ہیرے جواہرات لے کر میرے قتل پر راضی ہو گئے۔ مقدمہ قاضی کے پاس لے جاتے ہیں۔ وہ پہلے ہی فتویٰ دے چکا۔ آخری اپیل بادشاہ کے حضور دائر کی جاتی ہے‘ وہ تو خود اپنی جان بچانے کے لیے مجھے قربان کرنا چاہتا ہے۔ اب خدا کے سوا میری کوئی جائے پناہ نہیں۔ چھوڑیے کہ اس کہانی کا انجام کیا ہوا؟ سبق اس حکایت سے یہ ملا کہ سولہ لاکھ پاکستانی صرف ایک سال کے اندر اپنی دھرتی‘ اپنی مٹی‘ اپنے ماں باپ اور اپنے اعزّہ واحباب سے جدا ہو کر پردیس چلے گئے۔ کسی عدالت نے از خود نوٹس لے کر ریاست اور حکومت سے نہیں پوچھا کہ تم ایسے حالات پر خاموش کیوں ہو جن کی وجہ سے لوگ یہاں نہیں رہنا چاہتے۔ صدر اور وزیراعظم قوم کے بچوں کے باپ کی طرح ہیں۔ انہیں اول تو معلوم ہی نہ ہو گا کہ دھرتی مخلوق پر تنگ ہو رہی ہے‘ اور اگر معلوم ہے تو کوئی فکر نہیں کہ بچے اپنا ملک چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں؟ اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ دستِ غیب کچھ کرے اور اس ملک کے حالات بہتر ہوں۔ آسمان کی طرف دیکھ کر فریاد کرنے کا اور چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے کا وقت ہے۔
خلقِ خدا پاکستان سے کیوں بھاگ رہی ہے؟ مختصر ترین جواب تو یہ ہے کہ یہ انخلا اُس نالائقی‘ خود غرضی اور اونچی سطح کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے جو کئی دہائیوں سے اس ملک کو اپنے بے رحم جبڑوں میں لیے راج کر رہی ہے۔ تفصیلی جواب کے لیے صفحوں کے صفحے درکار ہیں۔ یہ جو بہت بڑا انخلا پچھلے سال ہوا ہے اور اس سال بھی جاری ہے‘ اس کی سب سے بڑی اور فوری وجہ ہوشربا گرانی ہے۔ لاکھوں کمانے والے بھی رو رہے ہیں اور ہزاروں کمانے والوں کو تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دواؤں سے لے کر آٹے اور دالوں تک اور ٹرانسپورٹ کے کرائے سے لے کر سکولوں کی فیسوں تک‘ کچھ بھی استطاعت میں نہیں رہا۔ زرمبادلہ کے حوالے سے ہماری کرنسی کاغذ کا بیکار ٹکڑا بن کر رہ گئی ہے۔ جو طاقتور افراد اس صورتحال کو بدل سکتے ہیں اور بدلنے کے ذمہ دار ہیں‘ ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ان کے لیے مہنگائی مسئلہ ہے نہ زرمبادلہ!! دوسرے ملکوں میں وہ جس آسانی سے اور جس کثرت سے جاتے ہیں اس طرح پنڈی سے گوجر خان‘ لاہور سے شیخوپورہ اور کراچی سے حیدرآباد جانا مشکل ہے۔
مگر انخلا کی سب سے بڑی وجہ وہ مایوسی ہے جو عمران خان کی حکومت ختم ہونے اور پرانے چہروں کی واپسی سے عوام میں پھیلی ہے۔ ہم جیسے گستاخ تو تحریک انصاف سے اس کے اقتدار کے آغاز میں ہی مایوس ہو گئے تھے اور اس کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ جب دیکھا کہ یہ میلہ تو بزداروں اور گُجروں کی بادشاہی کے لیے سجایا گیا ہے اور تکیہ جادو ٹونوں اور مؤکّلوں پر ہے تو بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔ مگر بات سچی کرنی چاہیے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اب بھی عمران خان سے امید لگائے بیٹھی ہے۔ وجہ جو بھی ہو‘ شخصیت پرستی یا Cult یا تجزیہ کرنے میں ناکامی یا پرانے چہروں کی واپسی سے پیدا ہونے والی مایوسی اور ناامیدی یا حالتِ انکار یعنی 
State of denial‘
 سچ یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ملک چھوڑنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ گرانی اور بے روزگاری اس پر مستزاد ہیں۔
ہمارے ایک طرف بھارت ہے۔ وہ ہم سے کوسوں آگے نکل چکا۔ بہترین ریلوے‘ بہترین انڈر گراؤنڈ ٹرینیں‘ آئی ٹی میں آسمان پر‘ ڈالر پچاسی روپوں میں! دوسری طرف ایران ہے جو ہولناک اور مسلسل عالمی پابندیوں کے باوجود ہم سے آگے ہے۔ لوگ خوشحال ہیں۔ بجلی سستی ہے۔ ساری معیشت‘ تمام کاروباری سرگرمیاں دستاویزی 
(Documented)
 ہیں۔ اور تو اور ایک امریکی ڈالر‘ اڑسٹھ افغانی میں مل رہا ہے۔ ہمارا یہی حال رہا تو بہت جلد افغانستان بھی ہمارے مقابلے میں معاشی دیو بن جائے گا۔ ہماری حکومتوں کی نااہلی کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ عین وفاقی دارالحکومت میں بھی سرجری کرنے والے ڈاکٹر لاکھوں کی فیس صرف اور صرف کیش میں وصول کر رہے ہیں۔ کون کم بخت کہتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ مستقبل بعید کے بارے میں بھی کچھ کہنا مشکل ہے:
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

Monday, November 18, 2024

فقیرنی‘ لندن اور جنیوا


ایک محترم وفاقی وزیر نے بھیک مانگتی فقیرنی کو‘ میڈیا کے بقول‘ جھاڑ پلائی ہے۔ اسے مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ''آپ کے گھر کے مرد کام نہیں کرتے کہ انہوں نے آپ کو کام پر لگا دیا ہے۔ بھیک مانگنا شرمناک کام ہے‘‘۔ فقیرنی نے بعد میں بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے مجبور ہے۔ گھر چلانا مشکل ہو چکا ہے۔
محترم وفاقی وزیر کا یہ اقدام‘ ہم سمجھتے ہیں‘ لائقِ تحسین ہے۔ اصل میں یہ اصلاحِ معاشرہ کی مہم ہے جو انہوں نے شروع کی ہے۔ ایک بات وہ بھول گئے۔ انہیں چاہیے تھا کہ فقیرنی کو آسان ترکیب بھی بتاتے کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاؤ۔ یاد آیا کہ جب عمران خان اپنی تقریروں میں لوگوں کے نام رکھتے تھے تو کہا جاتا تھا‘ اور درست کہا جاتا تھا‘ کہ کلامِ پاک میں تضحیک آمیز نام رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ یقینا آج بھی کہا جائے گا‘ اور کہنا بھی چاہیے‘ کہ کلام پاک میں سوالی کو جھڑکنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایک تو دیتے کچھ نہیں اوپر سے جھڑکتے بھی ہیں! وزیر صاحب کی اتباع میں ان کے شہر کی پولیس نے بھی اصلاحِ معاشرہ کی مہم شروع کر دی۔ آخری خبریں آنے تک 19بھکاریوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے اور تفتیش شروع کر دی گئی۔ یہ معلوم نہیں ان کے خلاف کون سی دفعہ لگے گی اور تفتیش کن خطوط پر ہو گی۔ کیا اس کی ذمہ داری معاشرے پر عائد کی جائے گی؟ یا ریاست پر؟ یا معاشرے کے متمول افراد پر؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ بھکاری مردوں‘ خواتین اور بچوں کو کب تک گرفتار رکھا جائے گا؟ کیا رہائی کے بعد انہیں کوئی روزگار دیا جائے گا؟ یا ریاست انہیں گھر اور دیگر اشیائے ضرورت مہیا کرے گی؟ ان پہلوؤں پر پولیس سوچتی ہے نہ وزرا کرام! ایسی سوچ کے لیے سطحی نہیں گہری سوچ کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تدبر اور تفکر درکار ہے۔ اس کے لیے سنجیدگی چاہیے۔ جب حکومتیں سارا وقت اس فکر میں گزار دیں کہ وہ کب تک قائم رہتی ہیں اور مخالفین کو کیسے قابو میں رکھا جائے تو انہیں بھیک ختم کرنے کے لیے سوچنے کی فرصت ہی کہاں ہو گی؟ جہاں حکومتیں سموگ ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتیں‘ وہاں بھکاریوں کو معزز شہری بنانے کا مشکل کام کون کرے گا؟ اور تعلیم اور زرعی اصلاحات جیسے مسائل پر کون سوچے گا؟
ان تمام مشکلات کے با وجود محترم وزیر صاحب نے جس اصلاحی تحریک کی ابتدا فقیرنی کو ڈانٹنے سے کی ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ محترم وزیر صاحب اس تحریک کو صرف بے بس‘ قلاش اور کم حیثیت‘ بلکہ بے حیثیت فقیرنیوں تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ رسی کا دوسرا سرا بھی پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ کیا وہ اپنی جماعت کے قائدین کو لندن لندن‘ جنیوا جنیوا کھیلنے سے منع کریں گے؟ جب اس بھوکی ننگی قوم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے خزانوں کی کوئی حد ہے نہ شمار‘ تو پھر وہ بار بار اس بے کنار امارت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ کبھی لندن کے ریستورانوں میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی جنیوا کی شاہراہوں پر اطمینان بخش چہل قدمی نظر آتی ہے۔ پہلے قوم کو بتایا گیا کہ پانچ یورپی ملکوں کے دوروں پر تشریف لے جا رہے ہیں اور یہ کہ ان دوروں کے دوران اہم ملاقاتیں متوقع ہیں! قوم‘ بالخصوص پارٹی کے وابستگان اور جان نثار جاننا چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ کی ملاقات پانچ یورپی ملکو ں کے کن سربراہوں‘ کن سیاستدانوں اور کن سٹیٹس مین سے ہوئی ہے؟ کیا کوئی طے شدہ ایجنڈا تھا؟ کیا کوئی مشترکہ پریس کانفرنس بھی ملاقاتوں کے بعد ہوئی اور کیا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا؟
ویسے یہ پانچ کا عدد بھی خاصا پُر اسرار لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب اور ان کے بچوں کے لیے یہ عدد متبرک بھی ہو۔ لندن میں مقیم ایک معروف صحافی نے دو سال پہلے 21نومبر 2022ء کو خبر دی تھی کہ ''سابق وزیراعظم نواز شریف‘ مریم نواز‘ ان کے بیٹے جنید صفدر اور حسین نواز لندن سے مختلف ممالک کی سیر کو چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق اگلے دس دنوں میں نواز شریف اور ان کی فیملی پانچ یورپی ممالک کا دورہ کریں گے‘‘۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دو سال پہلے بھی پانچ ممالک کا دورہ کیا گیا تھا اور وہ بھی نومبر ہی میں کیا گیا تھا؟ ایک عام پاکستانی کے لیے معاملہ پُر اسرار ہونا ہی ہے۔ اللہ ہماری وزیراعلیٰ کو صحت دے۔ سلامت رہیں اور طویل عمر‘ تندرستی کے ساتھ‘ پائیں۔ اللہ تعالی میاں صاحب کو بھی تا دیر سلامت رکھے اور صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔ آخر وہ کون سا عارضہ ہے جس کا علاج لندن میں نہیں‘ جنیوا ہی میں ممکن ہے۔ 
لگے ہاتھوں محترم وفاقی وزیر یہ استفسار بھی کر لیں کہ کیا سینئر صوبائی وزیر کے بغیریہ دورہ نہیں ہو سکتا تھا؟ وہ سینئر وزیر ہونے کے علاوہ صوبے کی وزیرِ ماحولیات بھی ہیں۔ جب صوبہ سموگ کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا تو وہ جنیوا میں غایت درجے کی طمانیت کے ساتھ چل پھر رہی تھیں۔ اُس وقت لاہور کی ہوا کا انڈیکس بارہ سو تھا اور جنیوا کا پچاس کے لگ بھگ!! صوبے کے چیف بیورو کریٹ بھی ہمراہ تھے۔ وہ خوش بخت ہیں۔ سعدی نے حکایت لکھی ہے کہ دو بھائی تھے۔ ایک محنت مزدوری کرتا تھا اور آرام سے زمین پر بیٹھتا تھا۔ دوسرا سنہری پیٹی کمر سے باندھے بادشاہ کے حضور کھڑا رہتا تھا۔ سنہری پیٹی باندھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ سنہری پیٹی سے مراد سنہری پیٹی نہیں بلکہ اقتدار‘ اثر و رسوخ اور رعب داب ہے۔ بادشاہوں کا قرب بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اس کے لیے آرام اور نیند کو تج دینا معمولی قربانی ہے۔ بادشاہ آدھی رات کو بھی بلا سکتا ہے اور تڑکے بھی! باریابی کے لیے گھنٹوں نہیں پہروں انتظار گاہ میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ مگر اس سب کچھ سے عوام میں جو ٹَور بنتی ہے‘ اس کا جواب نہیں! اور پھر ساتھ ہی لندن اور جنیوا کی سیر! اس موضوع پر اشفاق احمد کی ایک نظم کمال کی ہے۔ (کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ شاعری بھی کرتے تھے)
اوکھا گھاٹ فقیری دا بھئی! اوکھا گھاٹ فقیری دا
مِسلاں دے وِچ ویلا کڈھنا‘ میٹنگ دے وِچ بہنا
اوکھیاں دے نال متھا لا کے یس سر! یس سر! کہنا
ہسدے ہسدے رہنا
اپنی سیٹ تے عاجز بن کے اگے ہو کے بہنا
مرشد مُوہرے گل نہ کرنی‘ جو آکھے سو سہنا
دنیاداری کم نئیں‘ ایہہ کم ہے پِتّا چِیری دا
اوکھا گھاٹ فقیری دا
ہمارا شاہی خاندان یوں بھی اپنے پسندیدہ افسروں کی سرپرستی اور فلاح و بہبود کیلئے معروف ہے۔ ہاں! وفا داری شرط ہے۔ کسی کو سینیٹ کا رکن بنا دیتے ہیں کسی کو وفاقی وزیر! کسی کو ورلڈ ٹریڈ آگنائزیشن میں سفیر اور واپسی پر ورلڈ بینک میں تعیناتی۔ اسے کہتے ہیں تہہ در تہہ کرم فرمائیوں کی بارش اور وہ بھی موسلا دھار! ایسی ہی بارشوں میں ایچی سن کالج کا پرنسپل بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے! کون کہتا ہے کہ بادشاہوں کا زمانہ لد گیا۔ بادشاہ ہی تو ہیں جو دولت کا کروفر دکھا رہے ہیں!بس کر دو یار! خدا کیلئے بس کر دو!

Monday, November 11, 2024

ہم فارغ لوگ

ٹیکسی کے ڈرائیور کی عمر مشکل سے 19‘ 20برس ہو گی۔ سرگودھا سے تھا۔ ایک سال پہلے آسٹریلیا آیا تھا۔ جتنی دیر اس کے ساتھ سفر کیا‘ آسٹریلیا کی تعریفیں کرتا رہا۔ میں نے پوچھا: آسٹریلیا کی کون کون سی باتیں تمہیں خوش آئی ہیں؟ کہنے لگا: یہاں جھوٹ کوئی نہیں بولتا‘ سب وقت کے پابند ہیں‘ ہر کوئی قانون کی پابندی کرتا ہے‘ پانچ بجے دکانیں بند ہو جاتی ہیں‘ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو ڈاکٹر خود انتظار گاہ میں آکر مریض کو بلاتا ہے اور ساتھ لے جاتا ہے‘ یہاں گاڑی چلانا آسان ہے کیونکہ غلط سائیڈ سے کسی گاڑی کے آنے کا کوئی خطرہ ہے نہ امکان۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں گنوائیں۔ اس سے پوچھا: کیا یہ سب کچھ کرنا ہم پاکستانیوں کے لیے نا ممکن ہے؟ ظاہر ہے اس کا اس بچے کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ پھر بتانے لگا کہ چھوٹے بھائی کو آسٹریلیا منگوانا ہے۔ پوچھا: کیا کرتا ہے؟ کہنے لگا ایئر کنڈیشنر کی فٹنگ اور مرمت کا کام سیکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا ہنر ہے۔ پہلے اس کا م کی ڈیمانڈ صرف گرمیوں میں ہوتی تھی۔ اب انورٹر آ گئے ہیں‘ سارا سال اے سی چلتے ہیں۔ اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔ کہنے لگا: یہی تو اسے سب سمجھاتے ہیں‘ مگر وہ سارا دن گھر میں بیکار بیٹھا رہتا ہے اور ایک ہی رَٹ لگائے ہوئے ہے کہ آسٹریلیا یا کسی اور ملک میں جانا ہے۔

میری منزل آگئی۔ سلام کر کے اُتر گیا‘ مگر جو کچھ وہ بتا گیا گہری سوچ میں ڈال گیا۔ آسٹریلیا کی جو خوبیاں اس نے گنوائی تھیں‘ ایک عام‘ نیم تعلیم یافتہ آدمی کا مشاہدہ تھا۔ کوئی فلسفیانی یا دانشورانہ گتھی نہیں تھی اور سچ بھی یہی تھا۔ سوال جو ہم سب کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے‘ یہی ہے کہ کیا یہ خوبیاں ہمارے اندر نہیں آسکتیں؟ ہم جھوٹ بولتے ہیں؟ کیوں؟ بغیر فائدے کے بھی جھوٹ بولتے ہیں! وقت کی پابندی ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ قانون پر چلنے میں کیا مشکل ہے۔ اس مسئلے پر بے شمار لوگوں سے بات ہوئی۔ ملک کے اندر بھی۔ ملک کے باہر بھی! اکثر و بیشتر کی ایک ہی رائے ہے کہ انسان کی جبلت میں قانون شکنی بھری ہوئی ہے۔ جہاں جہاں قانون شکنی کی سزا سخت ہے‘ وہاں قانون کوئی نہیں توڑتا۔ جہاں سسٹم جانبدار ہے یا کمزور ہے وہاں قانون شکنی ہو گی اور ضرور ہو گی۔ سنگا پور میں‘ جہاں قانون شکنی کی سزا سخت ہے‘ سنگاپور کے قانون پسند لوگ جب سرحد پار کرکے ملائیشیا جاتے ہیں تو قانون توڑ کر انسانی جبلت کا تقاضا پورا کرتے ہیں‘ اس لیے کہ وہاں سزائیں سنگاپور کی نسبت سخت نہیں۔ ہم پاکستانی اپنے بارے میں یہ بات بھی اکثر و بیشتر کہتے ہیں کہ ہم ناقابلِ اصلاح ہیں۔ ہم ہیں ہی ایسے! ہم میں 

Manufacturing defect 

ہے۔ مگر یہی پاکستانی جب دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تو کارکردگی بھی زبردست ہوتی ہے اور قانون پر بھی چلتے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ سسٹم سستی‘ کاہلی اور قانون شکنی برداشت نہیں کرے گا۔ نوکری ختم ہو جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ جہاز پر بٹھائیں اور پاکستان واپس بھیج دیں! 
مگر ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اندر رہ کر محنت کرنے سے کون روکتا ہے؟ خاص طور پر نجی شعبے میں! اسی ملک میں لاکھوں لوگ صفر سے شروع کرتے ہیں اور سسٹم کی ناہمواریوں کے باوجود کامیاب ہو کر دکھاتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں۔ دیانتداری کو بھی اپناتے ہیں۔ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ اسی اسلام آباد میں اے سی ٹھیک کرنے والوں نے پانچ پانچ‘ آٹھ آٹھ ملازم بھی رکھے ہوئے ہیں۔ رات دن محنت کرتے ہیں اور بہت اچھی کمائی کر لیتے ہیں۔ ہاں کام دیانتداری سے کرتے ہیں اور اپنی ڈیمانڈ بڑھاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سسٹم کو درست کرنے کی زیادہ ذمہ داری حکومتوں کی ہے مگر زیادہ نہیں تو 49 فیصد ذمہ داری فرد کی بھی ہے اور معاشرے کی بھی۔ کیا ہم جھوٹ بولنا چھوڑ نہیں سکتے؟ وقت کی پابندی نہیں کر سکتے؟ وعدہ پورا نہیں کر سکتے؟ آخر حکومت یا ریاست ہمیں سچ بولنے پر کیسے مجبور کر سکتی ہے؟ 25کروڑ افراد پر 25کروڑ پولیس مین کیسے تعینات ہو سکتے ہیں؟ آخر بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنے والا‘ تقریب کو وقت پر کیوں نہیں شروع کر سکتا؟ آخر مہمان کھانے کے لیے پہروں کیوں بیٹھے رہتے ہیں؟ کہیں سے کوئی تو ابتدا کرے گا۔ جس دن مہمانوں کی اکثریت مناسب انتظار کے بعد اُٹھ کر چلی جائے گی‘ اسی دن معاشرے سے اس برائی کے خاتمے کا آغاز ہو جائے گا۔ یہ قانون کا یا حکومت کا یا ریاست کا مسئلہ ہی نہیں‘ یہ انسانی شعور کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے!
ہمارے اور بھی مسائل ایسے ہیں جن کے سامنے حکومتیں بے بس ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ کچھ معاملات میں تعلیم بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اب اگر ٹیلی ویژن چینل پر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ یہودیوں کو تو ہمارے فلاں بزرگ نے‘ جنہیں دنیا سے گئے سینکڑوں سال ہو چکے ہیں‘ ختم کیا اور نام ہٹلر کا لگ گیا اور سامنے بیٹھے ہوئے ہزاروں لوگ آفرین آفرین اور سبحان اللہ کے نعرے لگائیں اور سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں میں تعلیم یافتہ افراد بھی موجود ہوں‘ تو حکومت کیا کر سکتی ہے؟ چینل کو ریٹنگ چاہیے اور ریٹنگ کے لیے ایسے مسالا دار واقعات سنانے ضروری ہیں۔ عجیب بات ہے کہ مغربی ملکوں میں کسی کو جن پڑتے ہیں نہ آسیب کا سایہ پڑتا ہے‘ نہ بیماری سے نجات کے لیے لوگ مزاروں یا بابوں کے پاس جاتے ہیں‘ نہ نئے مکان کو بدنظری سے بچانے کے لیے بائبل شریف کا ختم کرایا جاتا ہے۔
Spiritual Healer

 وہاں بھی پائے جاتے ہیں مگر یہ اندھیر نہیں کہ لوگ پیر صاحب کے سامنے سجدہ کر رہے ہوں‘ ان کی طرف پیٹھ نہ کرتے ہوں‘ شادی کی تاریخ بھی وہی طے کرتے ہوں‘ بیماریوں کا ''علاج‘‘ بھی وہی کرتے ہوں اور ان کا درشن کرنے سے اندھوں کی بینائی بھی لوٹ آتی ہو۔ یہ درست ہے کہ شوگر مافیا‘ پٹرول مافیا‘ پلاٹ مافیا اور دیگر کئی مافیا کو ریاست کی طاقت ہی ختم کر سکتی ہے مگر جو مافیا توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی بنیاد پر کھڑا ہو اسے کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی‘ سوائے عوام کی طاقت کے!
رزق اپنے ملک میں بھی بہت ہے۔ جس تندہی‘ دیانت اور لگن کے ساتھ ہم پردیس میں کام کرتے ہیں‘ اسی لگن دیانت اور محنت کے ساتھ اپنے ملک میں بھی تو کام کر سکتے ہیں۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ دو اڑھائی برسوں میں لاکھوں افراد ملک چھوڑ کر جا چکے یا جا رہے ہیں تو ایسا بھارت میں بھی ہو رہا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد بھارت سے آسٹریلیا آئے ہیں۔ اس سے زیادہ یورپ اور امریکہ میں گئے ہیں جبکہ بھارت کی معیشت ہماری معیشت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مضبوط ہے۔ سنسنی پھیلانے میں ہمارا جواب نہیں۔ باہر جانے کی سب سے بڑی وجہ آبادی کا دباؤ ہے۔ جس رفتار سے آبادی ہمارے ہاں بڑھ رہی ہے‘ اسی رفتار سے لوگ نقل مکانی بھی کریں گے۔ اندرونِ ملک بھی دیکھ لیجیے۔ جس صوبے کی آبادی میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے‘ اس صوبے کے لوگ پورے ملک میں پھیل رہے ہیں اور دوسرے صوبوں کے دور افتادہ گوشوں میں بھی مقیم ہو رہے ہیں۔ جتنا وقت ہم ملک کی برائیاں کرنے پر‘ اور ملک کو بدنام کرنے پر صرف کرتے ہیں اس سے کم وقت بھی کسی پیداواری کام پر لگائیں تو ہمارے حالات بدل سکتے ہیں۔ پورا ملک بے سروپا افواہیں اور لایعنی باتیں سوشل میڈیا پر پھیلانے اور فارورڈ کرنے میں مصروف ہے۔ دو گاڑیوں کی ٹکر ہو جائے تو سینکڑوں افراد گھنٹوں کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے ہیں۔ ایسے فارغ لوگوں کے ملک کی حالت کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے!!

Sunday, November 10, 2024

بھارت ہم سے کیوں پیچھے رہ گیا؟

ہم نے سفر ساتھ ساتھ شروع کیا تھا! پھر ہم آگے نکل گئے۔ بھارت پیچھے رہ گیا۔ کئی کوس‘ کئی میل پیچھے! کیوں؟ یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں 

ہم نے اپنے عوام کی امنگوں کا خیال رکھا۔ ان کی لسانی‘ نسلی اور علاقائی حساسیت کو سمجھا اور مطمئن کیا۔ ہم نے کئی نئے صوبے بنائے۔ جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار کے نئے صوبے بنائے۔ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ اور شنکیاری سے لوگوں کو پشاور جانا پڑتا تھا۔ ہم نے ہزارہ کے نا م سے الگ صوبہ بنا دیا۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کو پشاور جانے کی صعوبت سے بچاتے ہوئے جنوبی کے پی کا ایک اور صوبہ بنایا۔ سندھ کے شمالی اضلاع شکارپور‘ کشمور‘ جیکب آباد‘ سکھر‘ خیرپور‘ دادو وغیرہ کو کراچی کے نکاح میں دینے کی کیا تُک تھی۔ ہم نے انتظامی طور پر شمالی اضلاع کو کراچی کی انتظامیہ سے نکال کر شمالی سندھ کے نام سے الگ صوبہ بنا دیا۔ نئے صوبے بنانے سے اختیارات کی مرکزیت ختم ہو گئی۔ اب تھرپارکر‘ عمرکوٹ‘ میرپور خاص اور سانگڑ کے اضلاع پر مشتمل مشرقی سندھ کے نام سے ایک اور صوبہ بنا رہے ہیں! سیاستدان کراچی‘ لاہور‘ پشاور کو خوش کرنے کے بجائے مقامی مسائل پر توجہ دینے لگ گئے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی حکومتوں کی نااہلی اور کم فہمی کا اندازہ لگائیے۔ جب سے انگریز گئے ہیں‘ ایک بھی نیا صوبہ نہیں بنایا۔ وہی لکیر کے فقیر! وہی بنے بنائے راستوں پر دھول اڑاتا ناکام سفر۔ کاش بھارت پاکستان سے کچھ سیکھتا! اور عوام کی خواہشات کا احترام کر کے انہیں سہولتیں بہم پہنچاتا!
ٹرانسپورٹ کی طرف آئیے۔ بھارت پاکستان سے کئی نُوری سال پیچھے ہے۔ پاکستان کی دور اندیش حکومتوں اور منصوبہ سازوں کو علم تھا کہ بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنی ہے تو اس کی بہترین صورت انڈر گراؤنڈ‘ یعنی زیر زمین ریلوے ہے۔ یہی سوچ لندن‘ پیرس‘ نیویارک اور دیگر بڑے شہروں کی تھی۔ پاکستان کو یہ بھی روزِ اول سے علم تھا کہ جتنی بسیں‘ ویگنیں‘ سوزوکیاں چلائیں گے‘ مسئلہ حل نہیں ہو گا سوائے زیر زمین ریلوے کے۔ چنانچہ آج پاکستان کے تمام گنجان آباد شہروں میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کامیابی سے چل رہی ہے۔ اسلام آباد کی زیر زمین ریلوے نے ٹیکسلا‘ ترنول‘ روات اور دیگر مضافاتی بستیوں کو اسلام آباد کے مرکز سے جوڑ دیا ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ فیصل آباد اور سکھر میں انڈر گراؤنڈ ریلوے بے مثال کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ اسلام آباد میں میلوڈی مارکیٹ سے زیر زمین ریلوے میں سوار ہوں تو آدھ گھنٹے میں ایئر پورٹ پہنچا دے گی اور بیس منٹ میں پنڈی صدر! یہی حال لاہور‘ کراچی کا ہے۔ اس سے فضائی آلودگی بھی کم ہوئی ہے اور ترقی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے باعزت ملکوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ یہ تھی دور اندیشی پاکستانی لیڈر شپ کی۔ بھارت اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دہلی‘ کولکتہ اور دیگر بڑے شہروں کے لوگ پرانی کھٹارا بسوں میں اور دھواں اڑاتے رکشوں میں خوار ہو رہے ہیں۔ انڈر گراؤنڈ ریلوے ان کے خیال وخواب میں بھی نہیں۔ ٹیکسی والوں کی چاندی ہے۔ پاکستان نے خیر سگالی اور خیر خواہی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت کو بے لوث پیشکش کی تھی کہ پاکستان زیر زمین ریلوے کے منصوبوں میں بھارت کی مدد کرنے کو تیار ہے مگر بھارت کی جھوٹی انا حسبِ معمول آڑے آئی۔ 
اب ذرا آئی ٹی کا ذکر ہو جائے۔ ہم اس وقت پوری دنیا کا اس حوالے سے مر کز ہیں۔ فیصل آباد‘ بہاولپور‘ مردان‘ ٹنڈو اللہ یار‘ گھوٹکی‘ لاڑکانہ اس وقت پوری دنیا کی آئی ٹی کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ بل گیٹس سال میں کئی چکر پاکستان کے لگاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی ہم نے بھارت کو پُرخلوص پیشکش کی کہ ہم حیدرآباد‘ بنگلور‘ چنائی اور گڑگاؤں کو آئی ٹی کے ضمن میں اپنے پَیروں پر کھڑا کر سکتے ہیں مگر بھارت تعصب کے کنویں سے نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ اس وقت امریکہ میں تمام بڑی بڑی کارپوریشنوں اور آئی ٹی کے اداروں کے سربراہ پاکستانی ہیں۔ ٹرمپ اور کملا ہیرس‘ دونوں کے مشیروں کی بڑی تعداد پاکستانیوں سے تھی۔ اس وقت ایشیا میں‘ بالخصوس جنوبی ایشیا میں پاکستان کی پوزیشن وہی ہے جو یورپ میں لندن کی ہے اور امریکہ میں نیویارک کی ہے۔
مگر افسوسناک ترین باب اس تذکرے کا بھارتی لیڈرشپ اور پاکستانی لیڈرشپ میں موازنے کا ہے۔ بھارتی قیادت پاکستانی قیادت کے مقابلے میں بالکل گاؤدی‘ بودی اور ہونّق نکلی۔ آپ سابق وزیراعظم گلزاری لال نندہ کو لے لیجیے۔ کرائے کے مکان میں عُسرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ جو آدمی اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل محفوظ نہ کر سکا‘ وہ اپنی قوم کے لیے کیا کرے گا۔ شاستری کی وفات ہوئی تو اس کا بیٹا بمبئی کے ایک بینک میں چھ سو روپے ماہوار پر ملازم تھا۔ کوئی بات ہے بھلا؟ منموہن سنگھ کی وارڈروب میں تین‘ چار کرتوں پاجاموں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔مہنگائی کے خلاف جلوس نکلتا تو اس کی پتنی اس جلوس میں شامل ہوتی۔ اسے دنیا میں دیانت دار ترین وزیراعظم قرار دیا گیا۔ ایسی دیانت کس کام کی۔ یہی حال واجپائی‘ گجرال اور مرار جی ڈیسائی کا رہا۔ یہ لوگ اس قدر نا لائق تھے کہ برطانیہ‘ امریکہ یا یو اے ای میں اپنے لیے ایک جھونپڑا تک نہ بنا سکے۔ مودی صاحب کے کُرتے سنا ہے بہت قیمتی ہوتے ہیں اور ان کے ناشتے کے لیے مشروم بھی باہر سے آتے ہیں مگر کم حیثیتی دیکھیے کہ بھارت سے باہر بینک بیلنس ہے نہ پراپرٹی۔ اس کے مقابلے میں کوئی عقل کا اندھا ہی ہو گا جو ہماری لیڈرشپ کی مستقبل بینی کی داد نہ دے گا۔ ہمارے قائدین نواز شریف ہوں یا زرداری صاحب یا عمران خان‘ ایک خاص معیارِ زندگی رکھتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا وزیراعظم بھارت کے نصیب میں ہوا ہے جو تمام دورِ اقتدار میں صرف اور صرف ہیلی کاپٹر سے دفتر آیا گیا ہو۔ کیا کسی بھارتی صدر یا وزیراعظم کے لندن یا یو اے ای میں یا امریکہ میں محلات ہیں؟ کیا کسی نے کروڑوں کی گھڑی کلائی پر باندھی ہے؟ صاحبزادی کے ساتھ امریکہ‘ جنیوا اور باقی یورپ میں گھومنے کی سعادت کیا کسی سابق بھارتی وزیراعظم کے حصے میں آئی ہے۔ ظاہر ہے سرکاری کام تو ریٹائرڈ حیثیت میں ہو نہیں سکتا۔ مگر افسوس کہ بھارتی لیڈرشپ کی اتنی پسلی ہی نہیں! یہ افتخار ہمارا ہی ہے کہ ہمارے صدرِ مملکت علالت میں دبئی تشریف لے جاتے ہیں۔ ایسی حیثیت کسی بھارتی صدر کو نہیں ملی۔ یہ تو غیر جمہوری لیڈرشپ کا حال ہے۔ جمہوری لیڈر شپ کی‘ جیسے ایوب خان‘ ضیاالحق اور پرویز مشرف۔ ان کی آئندہ نسلیں سنور گئیں۔ اقتدار وراثت میں لکھ دیا گیا۔ ایوب خان کے پوتے ماشاء اللہ ہر پارٹی میں اور ہر حکومت میں ممتاز مناصب پر فائز رہے۔ ایک اور جمہوری جنرل صاحب کے صاحبزادے مستقل سیاست میں ہیں مگر ذریعۂ معاش کوئی نہیں جانتا۔ رہے جمہوری صدر جنرل پرویز مشرف تو انہوں نے تو ماشاء اللہ اقتدار کے بعد پاکستان کو طلاق ہی دے دی۔ اتنا کچھ بنا لیا تھا کہ اپنی اور خاندان کی بود وباش دساور ہی میں رکھی اور بڑے سٹائل میں رکھی۔ اس کے مقابلے میں بھارتی لیڈرشپ کی نالائقی پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ بھائی‘ اپنے لیے نہ سہی‘ اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ہی کچھ کر لیتے۔ بھارت سے باہر کوئی محلات کوئی اپارٹمنٹ حاصل کر لیتے۔ ہماری لیڈرشپ کی دور اندیشی ملاحظہ ہو۔ بچوں کی قومیت تو فرنگستان کی ہے ہی‘ ماشاء اللہ! نواسے اور پوتے بھی پولو وہیں کھیلتے ہیں۔
یہ کوئی رسمی پیشکش نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ پڑوسی کا حق ہوتا ہے۔ اوپر بیان کردہ شعبوں میں کسی شعبے کے لیے بھی ہماری مدد یا ہمارے وسائل کی ضرورت ہو تو چشم ما روشن دلِ ما شاد! انسان ہی انسانوں کے اور قومیں ہی قوموں کے کام آتی ہیں! آزمائش شرط ہے!

Thursday, November 07, 2024

شاہ کی ڈھیری سے میلبورن تک … (3)



ڈاکٹر صہیب احمد مختلف ایام میں مختلف کلینکس میں کام کرتے ہیں۔ کیا یہ آسٹریلین حکومت کی پالیسی ہے؟ نہیں معلوم! مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہر علاقے کے لوگوں کو طبی سہولتیں اپنے علاقے میں یا اپنے علاقے کے نزدیک میسر آجاتی ہیں۔ ہم ستمبر میں ان کے پاس گئے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور سرجری کا فیصلہ کیا۔ ان کی مصروفیت بے پناہ تھی۔ ایک آنکھ کے لیے اکتوبر کی ایک تاریخ مقرر کی اور دوسری کے لیے نومبر کی۔ اس کے بعد مجھ سے اور میرے بیٹے سے مصنوعی عدسے کے حوالے سے طویل بات چیت کی۔ ہر عدسے کے فوائد تفصیل سے بیان کیے۔ مجھ سے یہاں تک پوچھا کہ اگر فلاں عدسے سے رات کو ستارے نظر نہ آئیں تو کوئی مضائقہ تو نہیں؟
ستارے دیکھنے والی بات بھی خوب رہی۔ گاؤں کی گرمیوں کی راتوں میں باہر صحن میں سوتے تھے تو تاروں بھرا آسمان رات کا ساتھی لگتا تھا۔ قطبی ستارہ بھی دکھائی دیتا تھا اور کہکشاں بھی! عجیب ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا جو آسمان سے اُترتی تھی۔ پھر ہم قصبوں اور آخر کار بڑے شہروں میں آگئے۔ ان شہروں نے ہمیں ہڑپ کر لیا۔ 1985-86ء میں ایک ہتھوڑا گروپ ظہور پذیر ہوا۔ سروں کو کچلا جانے لگا۔ اس کے بعد شہروں میں باہر صحن میں یا چھت پر سونے کا جو رہا سہا کلچر تھا وہ بھی ٹھکانے لگ گیا۔
پاکستان میں بھی بعض ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ تفصیلی بات چیت کر لیتے ہیں مگر کم! بہت کم! اکثریت تک رسائی ناممکن ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ڈاکٹر مریضوں کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو ڈی سی‘ کمشنر‘ ایس پی اور آئی جی عوام کے لیے رکھتے ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ہم دونوں باپ بیٹے نے اسلام آباد کے سب سے بڑے نجی ہسپتال میں ماہرِ امراضِ چشم سے مشورہ کرنے کی کوشش کی مگر کوشش کے باوجود ان سے ملنا ناممکن ثابت ہوا۔ یہ نامی گرامی ہسپتال پاکستان اکادمی ادبیات کے سامنے واقع ہے۔کچھ سال پہلے یہاں اہلیہ کا پِتّے کا آپریشن ہوا۔ سرجری تو ٹھیک ٹھاک ہو گئی مگر اس کے بعد ''فالو اَپ‘‘ میں جو گزری‘ ناقابلِ بیان ہے۔ ہاں سکہ رائج الوقت وصول کرنے میں یہ ہسپتال بھی دوسرے نجی ہسپتالوں کی طرح کسی قسم کے تکلف یا نرمی کا قائل نہیں۔
مقررہ تاریخ اور وقت پر ہم کلینک پہنچ گئے۔ سوئِ اتفاق سے ایک آنکھ سرخ تھی۔ ڈاکٹر صہیب نے کہا کہ یہ 
Conjunctivitis 
ہے یعنی آشوبِ چشم! اور اس حالت میں سرجری کرنا ٹھیک نہیں۔ آنکھ کے لیے انہوں نے مرہم دی۔ ایک ہفتے بعد پھر گئے۔ تب تک آشوبِ چشم ختم ہو گیا تھا۔ دونوں بیٹے ساتھ تھے۔ کاؤنٹر پر جس کلرک نے ہمارے کاغذ دیکھے اور حساب کتاب کیا وہ جنوبی امریکہ کی تھی۔ اندر لے جایا گیا تو دونوں بھائیوں سے کہا گیا کہ وہ باہر ہی رہیں گے۔ انتظار گاہ میں ہم چار مریض تھے۔ بیس بیس‘ پچیس پچیس منٹ کے بعد ایک ایک کو اندر لے جایا جاتا تھا۔ میری باری آئی تو نرس نے ایک ٹوکری دی اور کہا کہ اپنی جیکٹ‘ ٹوپی اور عینک اس میں رکھ دیجیے۔ پھر ایک اور نرس آئی اور اندر لے گئی۔ اس نے بتایا کہ پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے تین بار آنکھوں میں دوا ڈالے گی۔ یہ نرس سری لنکا سے تھی۔ پھر ایک بیڈ پر لٹا دیا گیا اور جیکٹ والی ٹوکری بیڈ کے نیچے رکھ دی گئی۔ یہاں جو نرس تھی وہ بھارت سے تھی۔ مجھے گرم کمبل سے لپیٹ دیا گیا۔ جو نرس بھی آتی پہلے نام اور تاریخ پیدائش پوچھ کر کنفرم کرتی کہ یہی وہ مریض ہے جس کی سرجری کرنی ہے۔ پھر ایک ڈاکٹر آیا۔ اپنا تعارف کرایا۔ وہ نیوزی لینڈ سے تھا۔ کہنے لگا وہ مدہوش کرے گا اور آنکھوں والا علاقہ سُن کرے گا۔ اس کے بعد معلوم نہیں گھنٹے یا شاید زمانے گزرے۔ ایک آواز کان میں آئی۔ ''انکل۔ آپ کی سرجری ہو گئی ہے‘‘۔ یہ ڈاکٹر صہیب تھے۔ کاؤنٹر والی کلرک جنوبی امریکہ سے تھی۔ نرسیں سری لنکا اور بھارت سے تھیں۔ مدہوش کرنے والا ڈاکٹر نیوزی لینڈ سے تھا اور سرجن بنگلہ دیش سے!! اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کیوں یہاں آ کر بس رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس نکتے پر غور کرنے سے ہم کچھ سیکھ سکیں!
صبح چار بجے کے بعد کچھ نہیں کھایا تھا کہ منع تھا۔ مدہوشی مدہم ہوئی تو نرس نے کرسی پر بٹھایا۔ چائے اور سینڈوچ پیش کیے گئے۔ ایک آنکھ پر پٹی بندھی تھی جو دوسرے دن ہمارے ڈاکٹر صاحبزادے نے خود کھولی۔ کاغذ پر لکھی ہوئی ہدایات دی گئیں جو اس قدر تفصیلی تھیں کہ کوئی پہلو نظر انداز نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد آنکھوں میں دوا ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تین قسم کے قطرے پانچ ہفتوں تک ڈالنے تھے۔ بیگم اور بچوں کے اصرار کے باوجود دوا آنکھوں میں خود ہی ڈالتا ہوں اور جب بھی ڈالتا ہوں یاد آتا ہے کہ ابا جی کی آنکھوں میں دوا ڈالتا تھا تو دوا کا کچھ حصہ رخسار پر آ بہتا تھا۔ اسے ٹشو پیپر سے جب بھی صاف کرتا دعا دیتے۔ ایک بات سوہانِ روح ہے کہ جس طرح ابا جی اپنی والدہ کی خدمت میں ایستادہ اور انتہائی الرٹ رہتے تھے اور جس طرح بچے میری تیمارداری کر رہے ہیں‘ میں اُس طرح اپنے والدین کی خدمت نہ کر سکا۔
عصا در دست ہوں اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا میں نے کھو دیا تھا
ایک ایک کوتاہی یاد آتی ہے اور خون کے آنسو رلاتی ہے۔ ندامت اور ناکامی کا اندھیرا چاروں طرف سے یلغار کرتا ہے۔ ایسا کیوں کیا تھا ؟ ایسا کیوں نہیں کیا تھا؟ ایسا کیوں کہا تھا؟ ایسا کیوں نہیں کہا تھا؟
دونوں بیٹے حاضرِ خدمت رہتے ہیں۔ بہوئیں ایک آواز پر دوڑی چلی آتی ہیں۔ 14سالہ حمزہ دن میں کئی بار پوچھتا ہے ''کیا میں آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں؟‘‘ ظاہر ہے وہ انگریزی میں سوچتا ہے اور پھر پنجابی میں پوچھتا ہے۔ تیمور سکول سے آکر پوچھتا ہے کہ ابو دن کیسا گزرا۔ پھر شام تک کئی بار پوچھتا ہے کہ کیا آپ کو کوئی ہیلپ چاہیے؟ زہرا سکول سے آکر چپکے چپکے‘ دیوار کے ساتھ ساتھ‘ پنجوں کے بل چلتی‘ پیچھے سے آکر ڈراتی ہے اور جب میرا تراہ نکلتا ہے تو ہنستے ہوئے لپٹ جاتی ہے۔ صاحبزادوں کے دوستوں نے‘ خاص طور پر ڈاکٹر صاحب کے رفقا نے ہم میاں بیوی کے اعزاز میں دعوتوں کی بھرمار کر رکھی ہے‘ یہاں تک کہ کچھ احباب کو معذرت کرنا پڑتی ہے۔ مشاعرے بھی ہو رہے ہیں اور شعری نشستیں بھی۔
سفر جاری ہے۔ جو قافلہ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ سے چلا تھا‘ رواں دواں ہے۔ مسافر بدلتے جا رہے ہیں۔ ہسپتال اور شہر نئے نئے سامنے آرہے ہیں۔ ٹیکنالوجی نئے نئے روپ بدل رہی ہے! کسی زمانے میں مصنوعی عدسے کا تصور تک نہیں تھا۔ مستقبل میں اور کیا کیا ہو گا؟ قدرت ہی جانتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے ''وہ وہ چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں‘‘۔ تعجب نہیں کل کو اگر سرجری کی اور مصنوعی عدسے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ پیوند کاری کا کس نے سوچا تھا۔ گردے کی‘ دل کی‘ جگر کی‘ آنکھوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے۔ دل میں سٹنٹ پڑ رہے ہیں۔ بائی پاس سرجری ہو رہی ہے۔ ہزاروں میل دور بیٹھا سرجن مریض کے آپریشن کی ہدایات دے رہا ہے اور آپریشن ہو رہا ہے۔ یورپ سے امریکہ جائیں تو بحر اوقیانوس سات آٹھ گھنٹوں میں عبور ہو رہا ہے۔ ایسا ہوائی جہاز بن چکا ہے جو یہ فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرے گا۔ ہاں ایک بات اطمینان بخش ہے کہ یہ ساری ایجادات کفار نے کی ہیں۔ ہمارا دامن کسی ایجاد‘ کسی دریافت سے آلودہ نہیں ہوا۔ کچھ کیا بھی ہے تو ہزار‘ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کیا تھا۔ اس کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ پدرم سلطان بود ہمارا پسندیدہ محاورہ ہے!! (ختم)

Tuesday, November 05, 2024

شاہ کی ڈھیری سے میلبورن تک … (2)

نظر کا چشمہ نویں جماعت ہی میں لگ گیا تھا یعنی چودہ سال کی عمر میں! نمبر بھی کچھ زیادہ ہی تھا۔ عینک کے ساتھ ساری زندگی کی رفاقت رہی۔ اس سے جدائی صرف تین حالتوں میں رہی۔ نہاتے دھوتے وقت‘ نماز کے دوران اور نیند کی حالت میں! عمر بھر جو نصابی اور غیرنصابی‘ فضول اور کارآمد‘ مفید اور غیرمفید‘ سنجیدہ اور غیرسنجیدہ‘ مشکل اور آسان کتابیں پڑھیں اور جس زبان میں بھی پڑھیں‘ نثر کی یا شاعری کی یا جس فن کی بھی‘ عینک کی مدد ہی سے پڑھیں۔ کتاب فروشوں کی طرح عینک سازوں سے بھی دوستی رہی۔

یہ کوئی پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے۔ ایک دن خیال آیا کہ ہمارے ساتھ کے کئی صاحبان نے سفید موتیے (کیٹا ریکٹ) کی سرجری کرا لی ہے۔ ہمیں بھی معائنہ کروا لینا چاہیے۔ اہلیہ کو لیا اور ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور کہا کہ آپ دونوں میاں بیوی فوراً سرجری کرائیے۔ ان کا انداز اور اصرار کچھ ایسا تھا کہ ہم دل میں قائل نہ ہوئے اور زبان سے ان کا شکریہ ادا کر کے واپس آگئے۔ ایک اور ڈاکٹر صاحب نے بھی یہی رویہ اختیار کیا۔ ان کی باتوں سے بھی کاروبار کی میٹھی میٹھی خوشبو آرہی تھی اور کاروبار کی خوشبو اس مزاج کو کبھی راس نہ آئی کہ بقول غالب:
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
بالآخر جنرل مظہر اسحاق صاحب کے پاس گیا کہ ان سے شناسائی تھی۔ جس زمانے میں وہ کرنل تھے‘ ابا جی کو انہی کے پاس لے جاتا رہا۔ انہوں نے سیدھے سادھے دو سوال پوچھے۔ کیا لکھنے پڑھنے میں دقت ہو رہی ہے‘ اور کیا گاڑی چلانے میں تکلیف ہو رہی ہے؟ دونوں کا جواب نفی میں تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ پچاس‘ ساٹھ سال سے اوپر موتیا تو اکثر لوگوں کی آنکھوں میں اتر ہی آتا ہے مگر سرجری تب کرانی چاہیے جب ضرورت محسوس ہو۔ اُسی سال جب آسٹریلیا گیا تو صاحبزادے ماہرِ امراضِ چشم کے پاس لے گئے جو اُن کے دوست بھی تھے۔ یہ ڈاکٹر صہیب تھے۔ سات سال کی عمر میں ڈھاکہ سے برطانیہ چلے گئے۔ وہیں تعلیم حاصل کی۔ ماہرِ امراضِ چشم بنے۔ کئی سال تک پریکٹس بھی وہیں کی۔ پھر آسٹریلیا آگئے۔ انہوں نے مکمل معائنہ کیا اور یہی رائے دی کہ سرجری ایسا کام نہیں جو شوقیہ کرایا جائے۔ جب کام کرنے میں دقت نہیں ہو رہی تو وقفے وقفے سے معائنہ کراتے رہیے۔ اس کے بعد جب بھی آسٹریلیا جانا ہوا‘ ڈاکٹر صاحب سے معائنہ کراتا رہا۔
سالِ رواں کا آغاز تھا جب بہت آہستگی سے احساس ہوا کہ کتاب پڑھتے ہوئے ذرا سی دِقت ہونے لگی ہے۔ کتاب کی بھی تو کئی صورتیں ہیں۔ جب فرمایا گیا کہ ''ذالک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ تو اس وقت کاغذ تھا نہ چھاپہ خانہ۔ معلوم ہوا کہ کتاب صرف وہ نہیں ہوتی جو کاغذ سے بنی ہو اور الفاظ اور حروف جس پر سے دیکھ کر پڑھے جائیں۔ کتاب کی شکل ہر زمانے میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اب کتاب کاغذ سے آئی پیڈ پر اور ای ریڈر پر اور انٹر نیٹ پر‘ اور نہ جانے کہاں کہاں نئی صورتوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔ جو دقت محسوس ہو رہی تھی
 وہ کاغذ والی کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہو رہی تھی۔ ترجیح یہی ہوتی ہے کہ کتاب کی سافٹ کاپی آئی پیڈ پر منتقل ہو جائے۔ اس طرح لفظ کا سائز (فونٹ) بڑا کیا جا سکتا ہے‘ مگر ہر کتاب کی سافٹ کاپی میسر نہیں ہو سکتی۔ پھر کاغذ کی کتاب پڑھنے کا اضافی فائدہ یہ ہے کہ حاشیے پر کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ میری پڑھی ہوئی کتاب کسی اور کے کام کم ہی آ سکتی ہے کیونکہ انڈر لائن کر کرکے اور حاشیوں پر لکھ لکھ کر کتاب کی صورت ہی تبدیل کر دیتا ہوں۔ القصہ مختصر کاغذ والی کتاب پڑھتے ہوئے دقت محسوس ہونے لگی۔ دقت دبے پاؤں ہی آئی اور دبے پاؤں ہی خراماں خراماں آگے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ سال کے وسط میں دقت بڑھ چڑھ کر بولنے لگی۔ انہی دنوں صاحبزادے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ جڑواں شہروں کے ایک بہت ہی معروف ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ پہلا دھچکا جاتے ہی لگا کہ سرجری کی فیس کریڈٹ کارڈ سے لی جائے گی‘ نہ چیک سے اور نہ ہی بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی جا سکے گی بلکہ صرف اور صرف‘ اور صرف کیش ہی میں لی جائے گی۔ خیر اس دھچکے کو ہم باپ بیٹا برداشت کر گئے۔ اگر ایف بی آر اس عظیم الشان ''حب الوطنی‘‘ کو برداشت کر رہا ہے تو مریض اور اس کے لواحقین کس کھیت کی مولی ہیں۔ ایک طرف تو حکومت واویلا کرتی ہے کہ معیشت کو دستاویزی 
(Documented) 
کرنا ہے۔ نان فائلر کو بخشنا نہیں‘ دوسری طرف حکومت کی ناک کے عین نیچے‘ بلکہ نتھنوں کے درمیان ڈاکٹر حضرات کیش کے سوا مریض کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ راولپنڈی کے بارے میں بھی ایک عزیز یہی بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر صرف نقد رقم وصول کرتے ہیں۔ اب تو مرغی بیچنے والوں کے پاس بھی کریڈٹ کارڈ کی مشینیں پڑی ہیں۔ کھوکھے والوں کے بھی بینک اکاؤنٹ ہیں جن میں خریدار رقم منتقل کر سکتے ہیں مگر لاکھوں کی فیس لے کر سرجری کرنے والے ڈاکٹر صرف نقد روپیہ وصول کرنے پر مُصر ہیں! آخر کیوں؟ حکومت شاید اس لیے اس حوالے سے کچھ نہیں کرتی کہ حکومت کی آنکھ میں سفید موتیا اُتر آیا تو انہی ڈاکٹروں کے پاس آنا پڑے گا۔ حالانکہ حکومت کی آنکھوں میں سفید موتیا اُتر ہی نہیں سکتا۔ وہ تو پہلے ہی گلوکوما (کالے موتیے) سے بھری ہوئی ہیں جس میں بینائی جاتے رہنے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ یا پھر یوں کہیے کہ بصارت کی کمزوری حکومتوں کا مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں۔ حکومتوں کی آنکھوں میں سفید‘ یا کالا‘ یا سرخ یا ارغوانی یا کسی بھی رنگ کا موتیا نہیں اُتر سکتا۔ حکومتوں کی آنکھوں میں تو ہمیشہ خون اترتا ہے‘ وہ بھی عوام کو دیکھ کر!! ان کا مسئلہ ہمیشہ بصیرت کا فقدان رہا ہے۔ یہ وہ موتیا ہے جو حکومتوں کی اندر کی آنکھ میں اُترتا ہے اور یوں اُترتا ہے کہ پھر سیڑھیاں چڑھ کر باہر نہیں آ سکتا۔ یہ مرض لاعلاج ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر عاجز ہیں۔ یہ دوا کا نہیں دعا کا کام ہے۔ اسی لیے ہماری حکومت نے بیرونِ ملک سے مولانا حضرات کو درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ ایک مشہور مولانا صاحب کو جھاڑ پھونک کے لیے درآمد کیا گیا مگر وہ سنوارنے کے بجائے اندر کی آنکھ میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر گئے۔ اندازہ لگائیے دنیا کیش کا لین دین ختم کر رہی ہے اور ہمارے ڈاکٹر کیش کے لیے صندوکڑیاں کھولے بیٹھے ہیں۔ حکومت تاجروں کے پیچھے لگی ہے کہ فائلر بنیں۔ تو ڈاکٹر کیوں نہ فائلر بنیں؟ اور اگر ڈاکٹر فائلر ہیں تو فیس بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے سے خائف کیوں ہیں؟
اصل مسئلہ ہمیں یہ پیش آیا کہ مصنوعی عدسے 
(Lens) 
کی ساری ذمہ داری ڈاکٹر صاحب نے ایک خاتون ٹیکنیشین پر ڈالی ہوئی تھی۔ پاکستانی ڈاکٹروں کو ایک خاص احساسِ کمتری ہے کہ مریض کی پہنچ سے دور رہنا ہے۔ خاتون ٹیکنیشین ہمیں مطمئن نہ کر سکی کہ کون سا عدسہ ڈالا جائے گا۔ جب ہمارے صاحبزادے نے‘ جو خود بھی ڈاکٹر ہیں‘ ڈاکٹر صاحب سے بات کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ خاتون ٹیکنیشین خود ہی ڈاکٹر صاحب سے بات کرے گی۔ یعنی کہ پھر ''نہ‘‘ ہی سمجھیں۔ ایک تو عینک کا نمبر بہت ہائی‘ پھر نمبر میں ایک اور مسئلہ بھی جسے 
Stigmatism 
کہا جاتا ہے‘ درپیش تھا۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر صاحب کی نارسائی اور ان سے ڈسکس نہ کر سکنا بہت بڑی حوصلہ شکنی کا باعث بن گیا۔ دو ماہ بعد آسٹریلیا جانے کا پروگرام بنا ہی ہوا تھا چنانچہ یہی طے ہوا کہ ڈاکٹر صہیب ہی سے جراحی کرائی جائے۔ یوں بھی کئی سال سے وہ معائنہ کر رہے تھے اور مریض کی آنکھوں کی صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے۔ (جاری)

Monday, November 04, 2024

شاہ کی ڈھیری سے شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال تک

کیا تم نے آنکھیں بنوا لی ہیں؟

جی۔ بنوا لی ہیں۔ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ گئی تھی۔ پچھلے ہفتے ہی واپس آئی ہوں۔
یہ وہ مکالمہ ہے جو بچپن میں بارہا سنا۔ عورتوں سے بھی‘ مردوں سے بھی! آنکھیں بنوانے سے مراد ہوتی تھی سفید موتیے 
(Cataract) 
کا علاج۔ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ کسے کہتے تھے؟ یہ وہی قصبہ ہے جو اب ٹیکسلا کے نام سے مشہور ہے۔ مغل تاریخ میں‘ ٹیکسلا کا نام کہیں نہیں ملتا۔ اگرچہ حسن ابدال کا نام مذکور ہے جہاں اورنگزیب نے قیام کیا۔ مقامی روایات کی رُو سے اُس زمانے میں‘ جہاں اب ٹیکسلا ہے‘ ڈھیری جوگیاں نامی قصبہ آباد تھا۔ ڈھیری اُونچی جگہ کو کہتے ہیں۔ (فتح جنگ شہر میں ایک محلے کا نام ''چاساں آلی ڈھیری‘‘ ہے) ٹیکسلا تو منوں مٹی کے نیچے دبا ہوا تھا۔ یہاں ہندو آبادی تھی اور جوگیوں کی کثرت تھی۔ پندرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ایک بزرگ سید صفدر حیدر افغانستان سے نکلے اور اوچ شریف اور پھر مارگلہ سے ہوتے ہوئے ڈھیری جوگیاں تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ ان کے مرید اور معتقدین بھی تھے۔ انہوں نے ایک اونچی جگہ (ڈھیری) پر قیام کیا۔ ان کی تبلیغ اور اخلاق سے متاثر ہو کر لوگ مسلمان ہو نے لگے۔ یوں یہ جگہ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ کہلانے لگی۔ معروف شاعر جناب حفیظ اللہ بادل کی وساطت سے ماہر آثار قدیمہ جناب مالک اشتر سے رابطہ ہوا تو انہوں نے قیمتی معلومات سے نوازا۔ 1913ء کے لگ بھگ جان مارشل نے اس مقام پر کھدائیاں کیں تو معلوم ہوا کہ اس جگہ کا اصل اور قدیم نام ''ٹیکسلا‘‘ ہے۔ اس کے بعد اسے ٹیکسلا کہا جانے لگا۔ روایات جو بھی ہوں‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مقامی نام شاہ کی ڈھیری ہی تھا جو بچپن اور لڑکپن میں اس لکھنے والے نے اس پورے علاقے میں سنا۔ جان مارشل برطانوی ہند کے محکمہ آثار قدیمہ کا سربراہ تھا۔ مناسب بجٹ کے حصول کے لیے دہلی حکومت سے اس کی کھینچاتانی چلتی رہتی تھی۔
بہرطور جان مارشل نے بستی کا نام سرکاری کاغذات میں بھی ٹیکسلا کر ا دیا۔ 1920ء میں یہاں ٹیکسلا کرسچین ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی۔ زمین خریدی گئی تو زمین فروخت کرنے والوں نے نقد قیمت کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ سِکّوں کی کثیر مقدار راولپنڈی سے بیل گاڑی میں لائی گئی۔ آنکھ کا پہلا آپریشن ایک خیمے میں لالٹین کی روشنی میں ہوا۔ ہمارے لڑکپن میں دو ناموں کا پورے علاقے میں بہت چرچا تھا۔ ایک نام ''لودھی‘‘ تھا۔ یہ ملیحہ لودھی کے والد تھے اور اٹک آئل کمپنی کھوڑ (ضلع اٹک) کے سربراہ! دوسرا نام ڈاکٹر لال کا تھا جو کرسچین ہسپتال ٹیکسلا کے انچارج تھے۔ ڈاکٹر ارنسٹ لال لیجنڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے 1957ء میں بھارتی ریاست تامل ناڈو سے ایم بی بی ایس کیا۔ ان کی بیگم ڈاکٹر پرامیلا ماہر امراض چشم تھیں۔ وہ خود سرجن تھے۔ شادی کے بعد دونوں ٹیکسلا کرسچین ہسپتال منتقل ہو گئے۔ دونوں نے پانچ دہائیوں تک اس ادارے میں بے لوث خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر لال پہلے پاکستانی تھے جو اس ہسپتال کے سربراہ بنے۔ میاں بیوی نے لاکھوں مریضوں کے آپریشن کیے اور ان کی بینائی انہیں لوٹائی۔ ادارے کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ کئی نئی عمارتیں تعمیر کرا دیں۔ خلق خدا آنکھوں میں سفید موتیا لیے ''شاہ کی ڈھیری‘‘ آتی تھی اور شفایاب ہو کر واپس جاتی تھی۔ یہ میاں بیوی چاہتے تو بھارت یا پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں رہ سکتے تھے اور ایک آسان‘ آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے۔ مگر قدرت نے ان کے بخت میں یہ شرف رکھا تھا کہ ایک چھوٹی سی بستی میں رہ کر لوگوں کی خدمت کریں۔ یہ توفیق بھی خدا ہی بخشتا ہے۔ ان کی خدمات کا مکمل تذکرہ ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔
میرے شباب کا آغاز تھا جب دادی جان نے اپنے فرزند سے کہا: بیٹے! میری بصارت میں مسئلہ ہو رہا ہے۔ مجھے شاہ کی ڈھیری لے چلو۔ ابا جی لے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں وہاں رہنے کے لیے ہسپتال کی طرف سے چھوٹا سا کوارٹر بھی ملا تھا۔ ابا جی ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ آپریشن کے بعد دادی جان نے بہت دن آنکھ پر سبز رنگ کے کپڑے کا ٹکڑا لٹکائے رکھا۔ یہ تو یقین ہے کہ اُس زمانے میں مصنوعی عدسہ 
(Lens)
 آنکھ کے اندر نہیں رکھا جاتا تھا‘ مگر یہ یاد نہیں کہ سرجری کے بعد آنکھوں میں کئی دن تک دوا ڈالنا ہوتی تھی یا نہیں۔ بہرطور دادی جان کے لیے نئی عینک بنوائی گئی۔ اس کے بعد‘ آنکھوں کے حوالے سے‘ ان کی زندگی اطمینان بخش رہی یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جو ان کے لیے مقرر تھا۔ ہولی فیملی ہسپتال میں میں ان کے پاس تھا جب انہوں نے خاکی جسم کو چھوڑ دیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئیں۔
کئی عشرے گزر گئے۔ پھر ابا جی کی بصارت متاثر ہونے لگی۔ دھوپ میں تکلیف ہونے لگی۔ باہر نکلتے وقت عینک کے شیشوں کے اوپر انہوں نے رنگین شیشے لگانے شروع کر دیے۔ پڑھتے وقت کبھی عینک لگاتے کبھی اتارتے۔ ڈاکٹر دوستوں سے مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال میں ان کی آنکھوں کا معائنہ اور علاج کرایا جائے۔ بتیس برس پہلے ایک صبح ہم شفا آئی ٹرسٹ روانہ ہوئے۔ اُس دن ڈرائیور معلوم نہیں گھر سے جھگڑ کر آیا تھا یا اسے نیند آ رہی تھی‘ اس نے پوری کوشش کی کہ کچہری کے قریب سے گزرتے وقت گاڑی کو ایک بس سے لڑا دے۔ کئی سال پہلے ایران میں سفر کے دوران ابا جی کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تھا۔ وہ محفوظ رہے مگر اس کے بعد ان کے اعصاب کمزور ہو گئے۔ گاڑی کی تیز رفتاری سے وہ مضطرب ہو جاتے۔ چنانچہ جب وہ گاڑی میں بیٹھے ہوتے تو گاڑی آہستہ چلائی جاتی۔ ڈرائیور کی طالع آزمائی کے بعد میں نے اسے ساتھ بٹھا دیا اور گاڑی خود چلائی۔ آج معلوم نہیں کس حالت میں ہے مگر اُس وقت شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال جڑواں شہروں میں منظم ترین ہسپتال تھا۔ ہر کام ترتیب سے ہوتا تھا اور تاخیر یا تقدیم کا کوئی سوال نہ تھا۔ ادارے کے مالی معاملات کے سربراہ ہمارے ایک دوست تھے جن کا نام پیراں بخش تھا۔ ان کی وساطت سے کچھ مزید سہولت بھی حاصل ہو گئی۔ مصنوعی عدسے کی قیمت ہم نے جمع کرا دی۔ پروسیجر میں دو تین گھنٹے لگے۔ سہ پہر کو میں ابا جی کو گھر واپس لے آیا۔ دوسرے دن سے آنکھ میں دوا کے قطرے ڈالنے کا عمل شروع ہوا۔ مختلف دوائیں تھیں جو دن بھر وقفے وقفے سے ڈالنا تھیں۔ جتنی دیر گھر میں رہتا دوا خود ڈالتا۔ صبح کام پر جانے سے پہلے دواؤں کے نام اور ڈالنے کے اوقات کاغذ پر چارٹ کی صورت لکھ دیتا۔ کاغذ دیوار پر چسپاں کر دیتا۔ اس کی مدد سے اہلیہ دوا ڈالتی رہتیں۔ کچھ ہفتوں بعد دوسری آنکھ کا پروسیجر بھی بخیر وخوبی ہو گیا۔ اب انہیں پڑھنے لکھنے میں آسانی ہو گئی۔ دھوپ کی چبھن بھی ختم ہو گئی۔ چند سال بہت اچھے گزرے۔ پھر انہیں ایک اور مسئلے نے آ لیا جسے 
Retina Detachment
 کہتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر یونس تھے جو اس بیماری کا علاج کرنے کے لیے معروف تھے۔ انہوں نے آپریشن کیا۔ کافی لمبا آپریشن تھا۔ اس کے بعد بینائی پہلے جیسی نہ رہی۔ مگر لکھنے پڑھنے کا کام پھر بھی کر لیتے تھے۔ چند برس اور گزرے۔ پھر وہی ہوا جس نے ہونا تھا۔ نقاہت بڑھنے لگی۔ نقل وحرکت پہلے گھر تک محدود ہو ئی‘ پھر کمرے تک! پھر بستر تک۔ ''ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر مہین پانی سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے۔ پھر گوشت کی بوٹی سے۔ جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ پھر تمہیں ایک بچے کی صورت میں نکال لائے تا کہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ اور کوئی زیادہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے‘‘۔ ( جاری)

 

powered by worldwanders.com