Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 31, 2011

کاش! مولانا فضل الرحمن ایسا کر دیں

لاکھ مخالفت کے باوجود، یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ایسی بات کہی ہے جو متوازن ہے اور جس بات کی بنیاد توازن پر ہو، اسے سننا چاہئے اور اس پر غور بھی کرنا چاہئے۔
  بدقسمتی سے ہم آج دو انتہاﺅں کا شکار ہیں اور سچائی ان دو انتہاﺅں کے درمیان چھپ گئی ہے۔ ایک طرف وہ فریق ہے جو امریکہ پر کئے جانےوالے کسی اعتراض کو تسلیم نہیں کرتا، ہر خرابی کا ذمہ دار مذہبی حلقوں کو گردانتا ہے اور یہ ماننے کےلئے تیار نہیں کہ اگر ہم امریکہ کی چند باتیں مانتے اور اکثر باتیں نہ مانتے تو اس میں کوئی برائی نہیں تھی۔ وہ یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ جنرل مشرف اور مسلم لیگ ق کی مشترکہ حکومت نے امریکہ کے وہ مطالبات بھی تسلیم کر لئے جن کی توقع خود امریکی بھی نہیں کر رہے تھے۔ دوسرا فریق ایک اور انتہا پر کھڑا ہے۔ اسکے نزدیک دھماکے کرنےوالے سب کے سب بھارتی اور اسرائیلی ہیں۔ وہ ایک لمحے کےلئے بھی اس موضوع پر بات کرنا تو درکنار، سوچنا بھی گوارا نہیں کر رہے کہ اگر اسامہ سے لےکر عمر خالد شیخ تک سب کے سب مطلوب افراد پاکستان سے برآمد ہونگے تو دنیا پاکستان کے بارے میں منفی رائے ضرور قائم کرےگی اگر اس فریق سے کہا جائے کہ دہشتگرد بے گناہ پاکستانیوں کو آخر کیوں مار رہے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہے کہ آخر امریکہ بھی تو ڈرون حملے کر رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن بوجوہ کسی سنجیدہ اور متین تعلیم یافتہ پاکستانی کو کبھی اچھے نہیں لگے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ فارمولا زبان زد عام و خاص تھا کہ جے یو آئی وہ مچھلی ہے‘ جو اقتدار کے پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی، اقتدار کا پانی جتنا بھی ٹھہرا ہوا, متعفن اور سڑاند والا ہو اس نے اسکے اندر ہی رہنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اقتدار سے نکل کر اور واپس نہ آ کر اپنے ناقدین کو حیران کر دیا۔ خیر یہ تو ایک جملہ، معترضہ تھا۔ ہم بات مولانا کے اس بیان کے بارے میں کر رہے تھے جو انہوں نے دو دن پیشتر علما کنونشن پشاور میں تقریر کی صورت میں دیا اور ایک بار پھر اپنے مخالفین پر (جن میں یہ کالم نگار بھی شامل ہے) ثابت کر دیا کہ وہ سیاسی حرکیات
Dynamic
کو بروئے کار لاتے ہوئے تجزیہ کرنا جانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں۔ مولانا نے جہاں حکومت کی امریکہ نوازی پر کڑی تنقید کی اور جہاں امریکی عزائم کو بے نقاب کیا، وہاں یہ بھی کہا کہ :
-1
 ملک میں حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ داڑھی اور پگڑی پہننے والے بھی محفوظ نہیں رہے۔۲
 چونکہ دہشت گردی کی کارروائیاں اسلامی مدارس سے جوڑی جا رہی ہیں اس لئے عسکریت پسندی اور لاقانونیت کی موجودہ لہر کے اثرات، مذہبی حلقوں پر براہ راست پڑ رہے ہیں۔
-3
 مولانا نے مسلح اور عسکری جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا اور
-4
 یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ ان کی جماعت صرف سیاسی اور
 پارلیمانی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اس لئے اس نے مسلح جدوجہد کو ہمیشہ غلط قرار دیا۔
گویا مولانا نے یہ تسلیم کیا کہ ملک میں ایک مسلح جدوجہد جاری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ زمینی حقیقت برملا کہتی ہے کہ مسلح جدوجہد جاری ہے، دوسرا یہ کہ اسی مسلح جدوجہد کے وقوع پذیر ہونے پر غور اسی وقت ہو سکتا ہے۔ جب ایک چیز کے وجود کا اعتراف کیا جائے۔ مولانا نے اس حقیقت کو تسلیم کر کے ذہنی بلوغت کا ثبوت دیا ہے۔ اسکے مقابلے میں جب حقائق کا ادراک کرنےوالا طبقہ ان مسخرہ نما رہنماﺅں کی دھواں دار تقریریں سنتا ہے جو سامنے نظر آنےوالے حقائق کا بھی انکار کرتے ہیں تو وہ سوائے ہنسنے اور ان سے ہمدردی کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔رہا مولانا کا یہ دعویٰ کہ انکی جماعت نے ملک کے اندر ہونےوالی مسلح جدوجہد کو ہمیشہ غلط قرار دیا ہے تو یہ ایک متنازعہ بات ہے۔ اسکی وجہ ہماری یادداشت کا ناقص ہونا بھی ہو سکتا ہے لیکن مولانا یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اکثر و بیشتر ذو معنی الفاظ اور سیاسی ابہام ہی انکی شناخت رہے ہیں اور بہت کم مواقع پر وہ بات کو برملا انداز میں بیان کرتے ہیں اور چونکہ وہ عربی کے عالم ہیں اسلئے یہ بھی جانتے ہیں کہ الشّاذُ کالمعدوم! یعنی جو بہت ہی کم ہو، وہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے!
انتہائی اہم نکتہ جو مولانا نے بیان کیا یہ ہے کہ موجودہ دہشت گردی کے اثرات مذہبی حلقوں پر پڑ رہے ہیں اس لئے کہ عسکریت پسندی کے ڈانڈے مدرسوں سے ملائے جا رہے ہیں۔ یہ ہے وہ اصل بات جس سے مولانا اور انکے مکتب فکر کے دوسرے رہنما اب سے پہلے بے نیاز رہے ہیں اور تجاہل عارفانہ کی پالیسی اختیار کئے رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عسکریت پسند ایک خاص مکتب فکر سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس مکتب فکر نے ہمیشہ سکوت سے کام لیا اور اپنے آپ کو  ان کارروائیوں سے بری الذمہ نہ قرار دیا۔ یہاں تک کہ ایک معروف مذہبی سکالر سے جب دہشت گردی  کی کارروائیوں کے بارے میں سوال کیا  گیا تو انہوں نے ٹیلی ویژن پر جواب میں یہ کہا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے  اور اس زمانے میں سکوت ہی بہتر ہے۔لیکن کراچی کا جوڑیا بازار  دہشت گردی کا شکار ہئوا تو سکوت کی پالیسی بھک سے اُڑ گئی اور دھئواں دار پریس کانفرنسیں کی گئیں۔ ستم ظریفی کا ارتکاب یہاں تک کیا گیا کہ جب سوات میں قبروں سے لاشیں نکال کرلٹکائی گئیں تب بھی مذمت کی  گئی نہ یہ وضاحت کی گئی کہ مکتب فکر  کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مولوی فضل اللہ جیسے عسکریت پسند  عالم دین نہیں تھے۔لیکن اس قسم کے لوگ ایک مکتب فکر کے علم بردار بن کر اُس مکتب فکر کو بدنام کرتے رہے۔ دہشت گردی کی کارروائیاں  اس مکتب فکر کے ساتھ اس حد تک وابستہ ہو گئیں کہ  حریف مکتب فکر بھی منظم ہو کر اور خم ٹھونک کر  باہر نکل پڑا اور اس نےمطالبہ کیا کہ مزاروں پر حملےکرنے والے مکتب فکر کو روکا جائے۔        

      کستان کسی ایک مکتب فکر کا ملک نہیں، سارے مکاتب فکر کو اس میں رہنے کا حق ہے۔ یہ مکاتب فکر، ایک دوسرے کو الزام دینے کے بجائے یہ بھی سوچیں کہ پاکستان کی سلامتی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ پاکستان ہے تو ہم سب بھی ہیں اور ہمارے مکاتب فکر بھی ہیں۔مسلّح جدو جہد کرنے والے عسکریت پسند پورے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ چند بندوق بردار  ہاتھوں کی وجہ سے  سارے مدارس بدنام ہو رہے ہیں۔ مولانا  نے مسئلے  کی نشاندہی  کی ہے  لیکن انکی ذمہ داری یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ لازم ہے کہ مولانا اپنی اس نشاندہی کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مولانا اپنے مکتب فکرکے تمام بڑے بڑے رہنماﺅں اور علماءکو اکٹھا کریں اور انہیں اس حقیقت کا احساس دلائیں کہ چند عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اور چند غیر سند یافتہ نیم علماءکے اقدامات کی وجہ سے پورا مکتب فکر بدنام ہو رہا ہے اور زد مدارس پر پڑ رہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے  فرقہ وارانہ منافرت میں کمی واقع ہو گی۔ 

Tuesday, May 24, 2011

کیا وزیر اعظم گیلانی ایسا کریں گے ؟؟

صدر تو ایک حادثے کے نتیجے میں سیاست میں در آئے، سوال یہ ہے کہ مصیبت کے اس موسم میں کیا وزیراعظم عوام کے دکھ میں شریک ہیں؟ نہیں! بالکل نہیں! وزیراعظم کو اُس مصیبت کے دسویں تو کیا ہزارویں حصے کا بھی احساس نہیں جس میں ٹیکس ادا کرنےوالے بے بس عوام مبتلا ہیں!

سوٹ اور نکٹائی‘ سوٹ اور نکٹائی‘ اسکے بعد پھر سوٹ نکٹائی اور صرف اور صرف سوٹ اور نکٹائی! دنیا کے تمام ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان اگر سوٹوں اور نکٹائیوں کا مقابلہ ہو تو پاکستان کے وزیراعظم کم از کم اس مقابلے میں فرسٹ پوزیشن ضرور حاصل کر لیں گے! حد سے بڑھے ہوئے اس شوق کی تہہ میں کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا کچھ اور؟ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن جو وزیراعظم سوٹ اور نکٹائی کے بغیر خواب میں بھی نظر نہ آئے اُسے کیا معلوم کہ چالیس سے بڑھے ہوئے درجہ حرارت میں کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ عوام پر کیا قیامت ڈھا رہی ہے!

کوئی مانے یا نہ مانے، لوڈشیڈنگ سے نجات پانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وزیراعظم ہائوس، ایوانِ صدر اور وفاقی وزیروں کی رہائشی کالونی میں بھی اتنی ہی لوڈشیڈنگ ہو جتنی پاکستان کے عوام کےلئے ہے۔ ان مراعات یافتہ افراد کو صرف ایک جون اور ایک جولائی لوڈشیڈنگ کےساتھ گزارنے دیجئے پھر دیکھئے کہ یہ پرویز اشرفوں اور نوید قمروں کےساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور بجلی کی کمی پوری ہوتی ہے یا نہیں۔
دنیا کے باقی ملکوں میں کیا ہوتا ہے؟ پڑوسی ملک بھارت کے روزنامہ ہندوستان ٹائمز کی ایک عام سی خبر پڑھئے۔

”گول مارکیٹ کی رہائشی آشا کماری نے بتایا کہ دوپہر کے ڈیڑھ بجے کے بعد بجلی بند رہی۔ ہم لوگوں نے بجلی کے محکمے میں اپنی شکایات رجسٹر کروائیں۔ محکمے نے بتایا کہ پاور سپلائی میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ اُدھر نئی دہلی میونسپل کمیٹی کے ایک سینئر اہلکار کا بیان ہے کہ وزیراعظم ہائوس سے بھی دو شکایات موصول ہوئیں اور دونوں شکایتیں متعلقہ محکمے کو بھیج دی گئیں۔ بجلی منقطع ہونے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ علاقے میں کھدائی کا کام ہو رہا تھا!“
بھارت میں یہ اس لئے ممکن ہے کہ وہاں کے ”بدلباس“ وزیراعظم کے پاس نصف درجن سے بھی کم کُرتے، پاجامے اور شیروانیاں ہیں۔ اسکی بیوی بازار سے سودا سلف خود لاتی ہے۔ دہلی میں جب خواتین نے مہنگائی کے خلاف جلوس نکالا 
تو اس میں وزیر اعظم کی بیوی بھی شامل تھی۔
فرانس کی مثال دیکھئے۔ ایوانِ صدر کے تمام اخراجات کی تفصیل آڈیٹر جنرل آف فرانس کو پیش کی گئی۔ آڈیٹر جنرل نے کچھ ایسے اخراجات پر اعتراض کیا جو صدر کو ذاتی جیب سے ادا کرنے چاہئیں تھے لیکن حکومت کے ذمے ڈال دئیے گئے۔ صدر نے یقین دلایا کہ یہ انکے علم میں نہیں تھا چنانچہ صدر سرکوزی نے چودہ ہزار ایک سو تئیس یورو کی رقم قومی خزانے میں اپنی جیب سے جمع کرائی۔ آڈیٹر جنرل نے صدر کو تنبیہ کی کہ خرچ کم کیا جائے۔ کھانا فراہم کرنے والی کمپنیوں سے ازسرنو معاہدے کر کے نرخ کم کرائے جائیں۔ پھولوں اور سجاوٹ کی دیگر اشیاءکم خریدی جائیں۔
ایوان صدر نے گیس اور بجلی کے بل تاخیر سے جمع کرائے اور یوں جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ اس پر بھی اعتراض کیا گیا۔ عوام سے سیاسی مسائل پر رائے لینے کےلئے ایوانِ صدر نے سروے کرایا۔ اس پر جو رقم صرف ہوئی آڈٹ نے وہ بھی منظور نہ کی۔ فرانس کے صدر نے ان سارے اعتراضات کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا اور یقین دلایا کہ وہ محتاط ہو جائینگے۔ انہوں نے سینئر اہلکاروں اور افسروں کا دوپہر کا سرکاری کھانا بند کرا دیا اور صدارتی جہاز میں صدر کےساتھ سفر کرنےوالے صحافیوں کو پیش کئے جانےوالے مہنگے مشروبات بھی بند کرنے کا حکم دیا!

یہ تو بھارت اور فرانس کی مثالیں ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہو رہا تھا۔ قائداعظم ہر ماہ گورنر جنرل ہائوس کے اخراجات کا خود جائزہ لیتے تھے۔ بہت سے سرکاری اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کر دیتے تھے۔ انہوں نے سٹاف کو ذاتی طور پر ہدایت کی کہ بجلی اور پانی کے استعمال میں حد درجہ احتیاط سے کام لیں۔ وہ صرف ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ، علامتی طور، لیتے تھے۔ گورنر جنرل کے طور پر وہ اپنی ذاتی گاڑی پیکارڈ استعمال کرتے جسے وہ بمبئی سے ساتھ لائے تھے۔ یہ انہوں نے پندرہ سال پہلے خریدی تھی۔ ڈرائیور بھی انکا ذاتی ملازم تھا جو اُنکے ساتھ ہی بھارت سے آیا تھا۔ گورنر جنرل گاڑی کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ جب وزارت خارجہ اور محکمہ پروٹوکول نے اصرار کیا کہ گورنر جنرل کےلئے سرکاری کار اور جہاز ہونا چاہیے تو قائداعظم نے رپورٹ طلب کی کہ دولتِ مشترکہ کے باقی ممالک کا اس ضمن میں کیا عمل ہے جب انہیں بھارت میں وائسرائے اور اس کے اہل خانہ پر خرچ کئے جانےوالے بھاری بجٹ کا علم ہوا تو وہ حیران ہوئے۔ انہوں نے وزیراعظم سے کہا ”ہمارا نیا ملک اس سب کچھ کا متحمل نہیں ہو سکتا، میرا بجٹ کم سے کم رکھو، میں اپنے ذاتی خرچ پر آرام سے رہ سکتا ہوں۔ ہمیں کشمیری اور مہاجرین کی آبادکاری کےلئے رقم درکار ہے۔ مجھے نئی کار کی کوئی ضرورت نہیں، میری اپنی کار پیکارڈ ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے۔ رہے لمبے سفر .... تو میں عام پروازوں سے یا ائر فورس کے جہازوں پر جا سکتا ہوں!“
قحط پڑا تو عمر فاروق اعظمؓ نے گھی کا استعمال ترک کر دیا، آپ خشک روٹی کھانے لگے اور کئی مہینے یوں ہی گزر گئے۔ یہاں تک کہ ان کا سرخ و سفید چہرہ سیاہ پڑنے لگا اور لوگوں کو گمان ہوا کہ امیر المومنین اپنی جان سے گزر جائیں گے۔ لیکن جب تک قحط ختم نہ ہو گیا اور عام لوگ گھی خریدنے کے قابل نہ ہو گئے آپ نے یہ مشقت جاری رکھی۔ حضرت علیؓ کی خدمت میں عید کے دن ملاقاتی حاضر ہوا۔ اُس نے دیکھا کہ آپ خشک روٹی تناول فرما رہے تھے!

ملک جہنم بنا ہوا ہے کہیں درجہ حرارت 46 ہے اور کہیں اس سے بھی زیادہ ۔ لوگ بے ہوش ہو کر گر رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ اس قدر زیادہ کہ تاریک براعظم افریقہ کے ملکوں میں بھی ایسا نہ ہوتا ہو گا۔ اس میں شک نہیں کہ وزیراعظم کچھ بھی نہیں کر سکتے، ان میں وژن ہے نہ ادراک ۔ لیکن وہ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اپنے دفتر....اپنے گھر.... ایوانِ صدر.... اور اپنے وزیروں کے سرکاری محلات میں لوڈشیڈنگ کے دوران بجلی کی سپلائی بند کروا دیں!

Tuesday, May 17, 2011

اصل چہرہ

ہم پاکستانی عوام مزے میں ہیں۔ اُس خوش قسمت شخص کی طرح جسکے دل کی شریانیں بند ہو رہی تھیں لیکن اُسے معلوم ہی نہ تھا۔ وہ بکرے کے مغز سے لےکر بھینس کے پائے تک اور شیرے سے لبالب بھری ہوئی جلیبی سے لےکر گھی میں تیرتے سوہن حلوے تک سب کچھ کھا رہا تھا اور ڈٹ کر کھا رہا تھا اور وہ جسے اپنے دل کی بیماری کا علم تھا وہ علاج بھی کرا رہا تھا، پرہیز بھی کر رہا تھا اور ڈر بھی رہا تھا۔اس لیے کہ آگہی عذاب ہوتی ہےاور بے خبری میں عیش ہی عیش ہے۔
 ہم پاکستانی عوام کو معلوم ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک تو خواندگی کا تناسب پندرہ بیس فی صد سے زیادہ نہیں اور اس پندرہ بیس فی صد میں بھی اُن لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جن کی بین الاقوامی میڈیا تک رسائی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا سے مراد  صرف وہ ذرائع نہیں جو امریکہ کے نکتہ نظر کا پرچار کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے اب اُن ذرائع ابلاغ تک بھی پہنچا جا سکتا ہے جو امریکی استعمار کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی عوام کو اس کا اندازہ ہی نہیں کہ دوسرے ملکوں میں بڑے سے بڑا شخص بھی جرم کر کے بچ نہیں سکتا۔ ہمارے اخبارات اُن جرائم سے بھرے ہوئے ہیں جن کا ارتکاب کرنےوالے ہمارے ملک میں مزے سے صرف رہ ہی نہیں رہے بلکہ عزت سے رہ رہے ہیں!
 آپ یہ دیکھیے  کہ 197 ملکوں کی معیشت کو ”درست“ کرنےوالے آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کے سربراہ سٹراس کاہن  کو بھی ان اہل مغرب نے قانون کے حوالے کر دیا۔۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے کاہن باسٹھ سال کے ہیں۔ دو دن پہلے وہ نیویارک سے فرانس جا رہے تھے کہ امریکی پولیس نے انہیں جہاز سے اتارا اور جیل میں ڈال دیا۔ موصوف ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ تین ہزار ڈالر یعنی پونے تین لاکھ روپے ایک دن کا کمرے کا کرایہ تھا لیکن انسانیت کا معیار ہوٹل کے معیار سے مختلف ہے۔ کاہن نے کمرے کی صفائی کرنےوالی ملازمہ پر حملہ کر دیا اور اسے گھسیٹ کر بیڈ روم میں لے جانے کی کوشش کی، ملازمہ نے مقابلہ کیا اور بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ کاہن نے فوراً کمرہ چھوڑا اور جہاز میں بیٹھ کر بھاگنے ہی والے تھے کہ پولیس پہنچ گئی۔ آنےوالے انتخابات میں وہ فرانس کی صدارت کے بھی امیدوار بننے والے تھے۔ آپ پوری دنیا کی رہنمائی کرنےوالے ان حضرات کی اخلاقی حالت دیکھئے، لیکن ہمارے لئے یہاں ایک اور سبق بھی ہے۔ آئی ایم ایف کا سربراہ وہی بنتا ہے جو امریکہ کا خاص آدمی ہو، اسکے باوجود امریکی پولیس نے کاہن کا لحاظ نہیں کیا، جہاز سے اتارا اور قانون کے سپرد کر دیا!
 ہم پاکستانی مزے میں ہیں، اس لئے کہ ہمیں پاکستان سے باہر کے حالات کا علم تو نہیں ہے، یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان کے اندر کیا ہو رہا ہے، ورنہ ہمیں اُن انکشافات کا ضرور علم ہوتا جن کے بارے میں پوری دنیا جان چکی ہے۔ شکاگو ٹرائی بیون امریکہ کا صف اول کا اخبار ہے اور کِم بارکر اس سے منسلک معروف صحافی خاتون ہے۔ اخبار نے اُسے پاکستان اور افغانستان میں تعینات کیا۔ اس قیام کے دوران اُسکے ساتھ جو واقعات پیش آئے اُن پر مشتمل اس کی کتاب شائع ہو کر تلاطم پیدا کر چکی ہے لیکن ہم مزے میں ہیں کہ ہمیں اس کا پتہ ہی نہیں۔ کِم بارکر نے:
THE TALIBAN SHUFFLE - STRANGE DAYS IN AFGHANISTAN AND PAKISTAN
نامی کتاب میں پاکستان کے ایک چوٹی کے  سیاست دان کے بارے میں ناقابل یقین باتیں لکھی ہیں، انٹرویو کے دوران یہ سیاست دان اس صحافی خاتون کو کہتا ہے کہ اپنا ٹیپ ریکارڈر بند کر دے۔ اُسکے بعد کی گفتگو اس امریکی صحافی کے بقول کچھ اس طرح کی ہے
”کِم! کیا تمہارا کوئی دوست ہے؟“
میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اُن کا کیا مطلب ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں، میرے بہت سے دوست ہیں! ....
”نہیں، کوئی دوست بھی ہے؟“ .
... تب میں سمجھی ۔
”آپکی مراد بوائے فرینڈ سے ہے؟“ ...
. میں نے اُنکی طرف دیکھا۔ میرے پاس دو راستے تھے، سچ کہوں یا جھوٹ بولوں۔ پھر یہ سوچ کر کہ دیکھوں تو سہی، یہ سوال کس طرف جا رہے ہیں، سچ بولنے کا فیصلہ کیا۔
”ہاں میرا بوائے فرینڈ تھا لیکن حال ہی میں ہمارا تعلق ختم ہو گیا“ ۔
”کیوں؟ کیا وہ بہت بور تھا؟
NOT FUN ENOUGH?“....
 ”نہیں، بس بات بنی نہیں“
”اوہ! مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تمہارا دوست کوئی نہیں! اگر تم چاہو تو میں تمہیں تلاش کر دوں؟“
یہاں پہنچ کر کِم بارکر لکھتی ہے ”افغانستان کی سرحد پر عسکریت پسند زور پکڑ رہے تھے، شہروں میں حملوں کی تعداد زیادہ ہو رہی تھی، درہ خیبر سے گزرنا ہی خطرناک ہو رہا تھا، مُلک ہچکولے کھا رہا تھا، کوئی سمت ہی نہیں تھی، جیسے بغیر کٹے ہوئے سر والی مرغی ہو، ایک طرف یہ حال تھا، اور دوسری طرف یہ صاحب مجھے ”دوست“ ڈھونڈ دینے کی پیشکش کر رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے پاکستان کے رہنمائوں کی ترجیحات ”واضح“ تھیں!“
اس دلچسپ گفتگو اور اپنے تبصرے کے بعد کِم بارکر بتاتی ہے کہ اسی سیاستدان نے اُسے اجمل قصاب کے بارے میں معلومات دیں جس پر بھارت ممبئی کی دہشت گردی کا الزام لگا رہا تھا۔ کِم بارکر کے الفاظ میں ”اس سیاستدان نے مجھے ”صحیح“ فرید کوٹ کے بارے میں بتایا جو ضلع اوکاڑہ میں ہے۔ اُس نے مجھے صوبائی پولیس کے سربراہ کا فون نمبر بھی دیا۔ اُس نے مجھے وہ باتیں بھی بتائیں جو بھارتی اور پاکستانی حکام نے اُسے زندہ بچ جانےوالے واحد عسکریت پسند کے بارے میں بتائی تھیں، ہمارے لئے یہ بہت بڑی خبر تھی۔ ایک سینئر پاکستانی اُس بات کی تصدیق کر رہا تھا جس کا حکومت پاکستان نے انکار کیا تھا یعنی یہ کہ حملہ آور پاکستان کے تھے!“
اُسکے بعد صحافی کے بقول کیا ہوا، سُنئے :
”انٹرویو ختم ہوا تو ”انہوں“ نے میری طرف دیکھا اور کہا ”کیا تم اپنے مترجم کو باہر بھیج سکتی ہو؟ میں نے کوئی بات کرنی ہے“ مترجم نے پریشان ہو کر میری طرف دیکھا۔ میں نے اُسے کہا کہ کوئی حرج نہیں۔ وہ باہر چلا گیا۔ پھر انہوں نے ٹیپ ریکارڈر بند کروایا۔
“ مجھے جانا ہے۔ مجھے اپنے اخبار کےلئے سٹوری لکھنی ہے“ میں نے کہا۔
انہوں نے میری بات کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور کہا ”میں نے تمہارے لئے آئی فون خریدا ہے“ ....
 اسکے بعد صحافی لکھتی ہے : ....”آخرکار وہ مطلب کی بات پر آئے۔“ .... ”کِم! مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے لئے ”دوست“ نہیں ڈھونڈ سکا۔ میں نے کوشش کی لیکن ناکام رہا، وہ ”پراجیکٹ“ میں ناکامی کی وجہ سے واقعی مغموم نظر آ رہے تھے۔
“ کوئی بات نہیں“ میں نے جواب دیا۔ مجھے اس وقت فی الواقع کسی دوست کی ضرورت نہیں، میں دوست کے بغیر بالکل خوش ہوں، میں دوست کے بغیر رہنا چاہتی ہوں“
اس کے بعد پنجاب کے شیر نے جھپٹا مارا
۔ ”میں تمہارا دوست بننا چاہتا ہوں“ ۔
 ابھی اُن کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ میں نے کہا ”نہیں، ہرگز نہیں، یہ نہیں ہو سکتا“ ۔
 انہوں نے مجھے خاموش کرنے کےلئے ہاتھ لہرایا ۔ ”میری بات سُنو ۔ مجھے معلوم ہے کہ میں اتنا لمبے قد والا نہیں جتنا تم پسند کرو، میں اتنا فِٹ بھی نہیں، میں موٹا ہوں اور بوڑھا بھی ہوں لیکن اسکے باوجود میں تمہارا دوست بننا چاہونگا“
”نہیں“ ۔ میں نے کہا ۔ ”ہرگز نہیں“
پھر انہوں نے مجھے اپنے ہسپتال میں ملازمت کی پیشکش کی کہ کہ میں یہ ہسپتال چلائوں۔ ظاہر ہے میں اس کام کے لیے بالکل اہل نہیں تھی۔"۔

یہ ہے ہمارے رہنمائوں اور لیڈروں کا اصل چہرہ

Tuesday, May 10, 2011

پاکستان کی سرحدیں مقدس ہیں

پو پھٹنے سے لے کر سورج نکلنے تک کا وقت عجیب و غریب ہوتا ہے۔ سکوت، سکوت میں پرندوں کی چہچہاہٹ،  دروازوں پر کرنوں کی  دستک ۔ اُس نے تلاوت ختم کی تو آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔ حج کی مٹھاس ابھی تک دل کی زبان پر تھی۔ اُس نے ایک سرد آہ کھینچی ”میرا دل کر رہا ہے کہ میں عمرہ کروں“ وہ قریب ہی بیٹھا تھا، بیوی کی سرد آہ اُس نے سُنی اور حسرت بھی۔ اُسی دن دوپہر کو وہ ٹریول ایجنٹ کے پاس پہنچ گیا۔ ”مجھے عمرہ کےلئے دو ٹکٹ چاہئیں، اپنا اور بیوی کا۔ ہم کل ہی روانہ ہونا چاہتے ہیں۔“

”کیا آپکے پاس عمرہ کے ویزے ہیں؟“ ٹریول ایجنٹ نے پوچھا۔
 اُسے غصہ آ گیا۔ ”ہمیں کسی ویزے کی ضرورت نہیں، ہم نے اللہ کے گھر میں جانا ہے اور رسول کی چوکھٹ پر حاضری دینا ہے۔ یہ ہمارا حق ہے۔ اس میں ویزے کہاں سے آ گئے؟“

ٹریول ایجنٹ نے بات سُنی اور مسکرایا، اُس نے چائے منگوائی اور آرام اور پیار کے ساتھ سمجھانے لگا ”چودھری صاحب! آپکی بات بالکل صحیح ہے لیکن اس کے باوجود صحیح نہیں۔ دنیا کے سارے ملک قانون کے سہارے چل رہے ہیں، یہ درست ہے کہ آپ کو اللہ کے گھر جانے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن سعودی قانون کی رو سے آپ کو ویزا درکار ہو گا، اگر میں آپ کو ویزے کے بغیر ٹکٹ دے بھی دوں اور جہاز آپکو لے بھی جائے تو آپ کو جدہ ائر پورٹ سے واپس بھیج دیا جائےگا۔ ہو سکتا ہے کچھ عرصہ جیل میں بھی رکھیں، پھر ویزا لےکر بھی آپ ایک مخصوص مدت کےلئے ہی جا سکتے ہیں اور عمرہ یا حج کے ویزا پر آپ وہاں کوئی ملازمت بھی نہیں کر سکیں گے۔ صرف یہی نہیں، سعودی قانون یہ بھی ہے کہ آپ انفرادی طور پر عمرہ کےلئے نہیں جا سکتے، آپ کو گروپ کےساتھ جانا ہو گا اور وہاں گروپ کےساتھ ہی رہائش رکھنا ہو گی۔ اگر آپ وہاں الگ اپنی مرضی کی رہائش لینا چاہتے ہیں تب بھی گروپ والی رہائش کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا اور روانہ ہونے سے پہلے یہیں ادا کرنا پڑےگا۔“

آپ کا کیا خیال ہے کیا مسلمانوں پر انکے مقدس ترین مقامات کی زیارت کے حوالے سے پابندیاں عائد کرنا انصاف ہے؟ شاید دنیا بھر میں کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہ ہو جو ان پابندیوں کو زیادتی قرار دے، اس لئے کہ ہر ملک کے اپنے قوانین ہیں، اُن قوانین کی پابندی باہر سے آنےوالوں کےلئے لازم ہے۔ بُرے سے بُرا سعودی بھی ائر پورٹ پر کسی کو ویزے اور پاسپورٹ کے بغیر اندر جانے دےگا‘ نہ ایسے شخص کو اپنے گھر پناہ دےگا! یہی حال دوسرے ملکوں کا ہے۔ متحدہ عرب امارات سے لےکر مصر تک اور ملائیشیا سے لےکر مراکش تک کوئی ایک اسلامی ملک بھی ایسا نہیں جہاں مسلمان اسلام کا نام لےکر ویزے اور پاسپورٹ کے بغیر داخل ہو جائیں اور سالہا سال تک رہیں، یہاں تک کہ وہاں جائیدادیں خرید لیں، شادیاں کر لیں اور ہر وقت مسلح رہیں۔!

تو پھر کیا پاکستان ہی ایسا لاوارث اور گیا گزرا ملک ہے کہ یہاں لاکھوں غیر ملکی غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صورتحال کی سب سے زیادہ ذمہ داری اُن اداروں پر ہے جو سرحدوں اور ہَوائی اڈوں پر کاغذات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم اُن اداروں نے اس ملک پر کیا ہے جو چند سکوں کے عوض غیر پاکستانیوں کو لاکھوں کی تعداد میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کر دیتے ہیں۔اخبارات نے بارہا ایسی خبریں شائع کی ہیں کہ پڑوسی ملکوں کے مسلمان، پاکستانی دستاویزات پر حج اور عمرے کرتے ہیں، حج کے موقع پر آپ کو حرمین شریفین میں اکثر و بیشتر ایسے لوگ ملتے ہیں (اور اس کالم نگار کو بھی ملے ہیں) جو پاکستانی نہیں ہوتے لیکن پاکستانی دستاویزات پر تضحیک کےساتھ پھبتیاں کس کس کر دکھاتے ہیں، خیبر پی کے میں پاکستانی بے روزگاری کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں لیکن غیر ملکی، پاکستان کے شناختی کارڈوں کےساتھ مزے سے ملازمتیں کر رہے ہیں اور ٹھسّے سے رہ رہے ہیں! تُف ہے اُن راشی اور بدقماش پاکستانی اہلکاروں پر جو چند سکوں کے عوض اپنے وطن کے شناختی کارڈ اور یاسپورٹ بیچ رہے ہیں!

پاکستان کی سرحدیں مقدس ہیں! اگر امریکی ہیلی کاپٹر ہماری سرحدوں کا تقدس پامال کر کے آئے اور خیریت سے واپس چلے گئے تو یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ بالکل اسی طرح کسی سعودی، کسی برطانوی، کسی مصری، کسی مراکشی، کسی چیچن اور کسی ازبک کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری سرحدوں کا تقدس اپنے پیروں تلے روندے، ہمارے وطن میں رہے اور وہ بھی مسلح ہو کر! اگر کسی ضیا ءالحق نے مردِ مومن مردِ حق ہونے کے زعم میں غیر ملکی مداخلت کاروں پر اپنی سرحدیں کھولیں تو اُس نے ملک کےساتھ بے وفائی کی اور اگر کسی مشرّف نے دونوں ہاتھوں میں دو کتے پکڑ کر.... امریکیوں کو بغیر کاغذات کے اندر آنے دیا تو اُس نے بھی ملک کےساتھ غداری کی۔ اسی طرح اگر کوئی پاکستانی، غیر قانونی طور پر آئے ہوئے امریکیوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو وہ بھی پاکستان کا غدار ہے اور اگر کوئی غیر قانونی طور پر اندر گُھسے ہوئے دوسرے غیر ملکیوں کو خواہ وہ برطانوی ہیں یا عرب، ازبک ہیں یا مصری یا بھارتی.... تحفظ فراہم کرتا ہے تو وہ بھی مادرِ وطن کی بے حرمتی کا ارتکاب کر رہا ہے۔

آج  قاضی حسین احمد  فخر کے ساتھ یہ تو کہہ رہے ہیں کہ  ""عرب ممالک نے پاکستان کی حکومت کو
CONDUIT
 (پائپ) بنا کر افغان مجاہدین کی مدد شروع کی تھی اور یہ کہ اس دوران بڑی تعداد میں عرب مجاہدین اور عرب شیوخ مذہبی لباس میں اور مخیر تاجروں کے لباس میں پاکستان آئے تھے۔ ""  لیکن قاضی حسین احمد اور ان جیسے""محبّان وطن"" یہ نہیں سوچتے کہ یہ لوگ یہاں سے واپس نہیں گئے۔ فارن باڈی
(FOREIGN BODY)
 انسانی جسم برداشت کر سکتا ہے نہ انسانی آبادیاں.... ہاں اگر کوئی غیر ملکی، صحیح دستاویزات کے ساتھ، ہمارے قوانین کا احترام کرتے ہوئے یہاں رہتا ہے تو سر آنکھوں پر۔ وہ ہمارا مہمان ہے اور اُس کا احترام ہمارا اخلاقی اثاثہ ہے۔لیکن اگر کوئی غیر قانونی طور پر ہماری سرحدی علاقوں میں مشکوک انداز سے رہتا ہے، مسلح ہے، ہماری حکومت اور ہمارے شہریوں کےلئے تکلیف کا سبب بنتا ہے اور ریاست کے اندر ریاست بنانے کا خواب دیکھتا ہے تو وہ امریکی ہے یا عرب، ہمارے لئے قابل برداشت نہیں ہونا چاہیے!

یہ وہ دور ہے جو پاکستانی عوام کےلئے ان کی تاریخ کا بدترین حصہ ہے۔ گرانی آسمان تک جا پہنچی ہے۔ دیانت دار پاکستانی دو وقت کی روٹی کےلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں۔ زرعی ڈھانچہ فرسودہ ہے، صدیوں پرانا جاگیر دارانہ نظام جاتا نظر نہیں آ رہا، سرداروں نے ملک کے ایک بڑے صوبے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور عام آدمی کو غلام بنایا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں اقتدار کی بندر بانٹ ہو رہی ہے، امریکی ہر طرف دندنا رہے ہیں، دہشت گردوں کے سرغنے کبھی ایک شہر سے پکڑے جاتے ہیں کبھی دوسرے سے، دھماکوں سے پاکستانی گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں اور دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنےوالے علانیہ نقل و حرکت کرتے پھرتے ہیں۔مولانا حسن جان، مولانا نعیمی، ڈاکٹر فاروق احمد اور کئی دوسرے عالم اور دانشور شہید کئے جا چکے ہیں۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں بھی ہمارے کچھ  کوتاہ اندیش رہنما پاکستان کے عوام سے زیادہ ارد گرد کے ملکوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور یہی ان کی سوچوں کا محور ہے۔ آج کے مجبور، مقہور اور مظلوم پاکستانیوں ہی کےلئے تو غنی کاشمیری نے کہا تھا

غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشہ کُن

کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را

کنعان کے بوڑھے کی حالتِ زار دیکھو، اُسکی آنکھوں کا نور، زلیخا کی آنکھوں کو روشن کرتا پھر رہا ہے!

Tuesday, May 03, 2011

خضاب ، پلاسٹک سرجری اور فائبر گلاس کی ٹانگیں.

وہ دیکھتی تھی اور خون کے آنسو روتی تھی۔

اُسے ہر طرف اندھیرا     نظر آرہا تھا۔یوں لگتا تھا اُس کی آنکھیں رو رو کر بینائی کھو دیں گی۔اس کا جُھریوں سے اٹا چہرہ آنکھوں سے بہتے پانی کی گذر گاہ بن کر رہ گیا تھا۔ہاتھ مُڑ گئے تھے۔بال جو کسی زمانے میں ریشم کے لچھے تھے۔اب اس طرح ہوگئے تھے جیسے شاعر نے انہی کے بارے میں کہا تھا....

برگد کی جٹائیں بال اس کے

زنبورِ سیاہ خال اس کے

وہ دیکھتی تھی اور روتی تھی۔ حالات دگرگوں تھے۔ہر آنے والا دن، گذرے ہوئے دن سے بدتر تھا۔ ملک تھا یا غارت گردی کا عشرت کدہ تھا۔کبھی خبر آتی تھی کہ حکومت نے حاجیوں کی رقم سے سینکڑوں معززین کو حج کرایا ہے۔کبھی خبر آتی تھی کہ ڈاکوﺅں نے ناکہ لگا کر درجنوں شہریوں کو لوٹ لیا۔کسی کے گھر سے سولہ لاکھ، کہیں سے ستر لاکھ اور کسی فیکٹری سے کروڑوں روپے کا سامان ، کبھی بیس گاڑیوں اور دس موٹر سائیکلوں کی چوری کی خبر آتی اور کبھی دن دیہاڑے بسوں کو لوٹ کر مسافروں کو نذرِ آتش کردینے کے واقعات رپورٹ ہوتے۔چالیس ارب روپے کی سرکاری املاک چند کروڑ میں فروخت کی جارہی تھیں۔مہنگائی کا یہ عالم تھا کہ کرائے ہفتہ وار بڑھ رہے تھے۔پٹرول سو روپے فی لٹر تک پہنچنے کے قریب تھا۔عوام کی اکثریت دو یا تین کلو سے زیادہ آٹا ایک وقت میں خرید ہی نہیں سکتی تھی۔ نوجوان ڈاکٹروں کی ہڑتال سے الگ افراتفری مچی ہوئی تھی اور مریض چوہے بلیوں کی طرح مر رہے تھے، امن و امان کی حالت جنگل سے بدتر تھی۔بسوں سے مسافروں کو اتارا جاتا شناختی کارڈ دیکھے جاتے اور گولی ماردی جاتی۔بلوچستان میں غیر مقامی افراد کوچُن چُن کر مارا جارہا تھا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ دھماکے روزمرہ کا معمول تھے، کبھی مسجدوں میں، کبھی مزاروں پر، کبھی درس گاہوں میں اور کبھی لوگوں سے چھلکتے ہوئے بازاروں اور چوراہوں میںدھماکے ہوتے، بم چلتے، لاشیں گرتیں، جنازے اٹھتے، کہرام مچتے اور سرکاری بیان ہر موقع پر دہشت گردی کو ختم کرنے کے عزم پر مشتمل ہوتا! 
 وہ یہ سب کچھ دیکھتی تھی اور خون کے آنسو روتی تھی۔ لیکن کب تک! آخر اُس نے ملک کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کیا۔اُس نے نے انگڑائی لی، اُٹھی، بالوں کو خضاب لگایا، انہیں شیمپو سے دھویا، کنگھی کی، خوشبو لگائی، گلے کے لٹکے ہوئے گوشت اور اندر دھنسے ہوئے رخساروں کو پلاسٹک سرجن کی مہارت سے تازہ اور سڈول بنوایا۔ پلاسٹک کے خوبصورت ہاتھ اور فائبر گلاس سے بنی ہوئی طاقت ور ٹانگیں لگوائیں، اصلی ڈائمنڈ سے چمکتے ہوئے زیورات پہنے، بنارسی ساڑھی باندھی، اٹلی سے درآمد کیے ہوئے خالص چمڑے کے ہائی ہیل جوتے پاﺅں میں ڈالے اور یوں بن ٹھن کر۔ جوان ہوکر۔ حُسن کو چار چاند لگا کر۔ قاف لیگ نے پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ اقتدار میں شرکت کی! اس لیے کہ ملک کو تباہی کے کنارے سے واپس موڑنے کی اور کوئی صورت ہی نہیں تھی۔ اگر قاف لیگ اسی طرح بیٹھی رہتی تو ملک کا کیا بنتا؟ خدانخواستہ، میرے منہ میں خاک، کچھ ہوجاتا تو قاف لیگ خود اپنے آپ کو معاف کرتی نہ عوام اسے بخشتے!

سو، اے بھوکے ننگے عوام! شکر کا سجدہ ادا کرو، جشن مناﺅ، مٹھائیاں بانٹو! پھول بکھیرو، بھنگڑے ڈالو، رقص کرتے کرتے بے حال ہوجاﺅ، آسمانوں سے تمہاری دعاﺅں کا جواب آگیا ہے۔اندھیرے کا پردہ چاک ہوا ہے،سورج کی کرنیں زمین کا رُخ کر رہی ہیں،قاف لیگ نے اقتدار میں شرکت کرلی ہے،تمہارے دن بدلنے کو ہیں،مقدر جاگ اٹھا ہے۔ حاسد لاکھ کہیں کہ قاف لیگ نے یہ انقلابی قدم دراصل اپنے پیاروں کو جیل سے نکلوانے کیلئے اٹھایا ہے لیکن ایسانہیں ہے۔قاف لیگ تو دانشوروں اور دردمندوں پر مشتمل ایک مخلص گروہ ہے۔اس میں ایسے ایسے عظیم دماغ ہیں جنہوں نے ” لُٹو  تے پُھٹو“ (لوٹو اور بھاگو) جیسی طبع زاد پھبتیاں ایجاد کی تھیں۔ قاف لیگ میں کوئی ایک سیاست دان بھی ایسا نہیں جس نے اپنی زندگی میں کسی پارٹی سے بے وفائی کی ہو اور ایک پارٹی کو خیر باد کہہ کر دوسری پارٹی میں شرکت اختیار کرلی ہو۔ سب سے بڑا مژدہ اہلِ وطن کو یہ ہے کہ قاف لیگ ساری کی ساری مڈل کلاس پر مشتمل ہے،یہ لوگ عام محلوں میں چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں۔انکم ٹیکس پورا دیتے ہیں۔ اکثریت مزدوروں پر مشتمل ہے۔اس میں لوٹے ہیں نہ لُوٹنے والے ہیں۔نیکو کاروں اور مخلصین کا ایک صاف شفاف گروہ ہے جو صرف اور صرف عوام کے مفاد میں شریکِ اقتدار ہوا ہے۔ ان کے ایجنڈے پر ایک اور صرف ایک پوائنٹ ہے۔ عوام کی حالت میں تبدیلی! چنانچہ اے اہلِ وطن! مبارک ہو، اب یہ کوئی دن کی بات ہے کہ تبدیلی صاف نظر آنے لگے گی۔ ڈرون حملے رکنے کو ہیں۔ بم دھماکے ماضی کا قصہ سمجھو، پٹرول پچاس روپے فی لٹر اور سی این جی بیس روپے ہونے کو ہے، امن و امان کی حالت یہ ہوگی کہ ایک عورت زیورات سے لدی پھندی، دونوں ہاتھوں میں کرنسی سے بھرے ہوئے بریف کیس اٹھائے، تن تنہا، رات کو گجرات سے روانہ ہوگی اور جھنگ سے ہوتی ہوئی کراچی پہنچ جائے گی لیکن اُس کی طرف کوئی ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔ لوڈشیڈنگ اس طرح ختم ہوگی کہ یُو پی ایس کا کاروبار کرنے والے خودکشیاں کر رہے ہوں گے۔ انکم ٹیکس نہ دینے والوں کو قاف لیگ شاہراہوں کے کنارے جلتے ہوئے تنوروں میں زندہ بھسم کرڈالے گی۔
 رہے بین الاقوامی معاملات تو قاف لیگ نے اس پہلو سے بھی پورا پورا انتظام کیا ہوا ہے۔یہ معجزہ بھی دنیا دیکھے گی کہ صدر اوباما حکومت پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری سے بات کر رہے ہونگے ۔من موہن سنگھ دہلی میں متعین ہمارے سفیر سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کرینگے ۔ مشرقِ وسطی کے امیر ممالک ہمارے معاملات میں آئے دن خل اندازی کا سوچ بھی نہیں سکیں گے۔افغانستان سے بھارت یوں بھاگے گا جیسے گیدڑ شہر سے بھاگتا ہے۔ بلوچستان میں ہر قریہ خوشحالی کا ہنستا بستا باغ بن جائے گا۔ سرکاری ملازم کوئٹہ میں تعینات ہونے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے اور صنعت کار پورے ملک سے بلوچستان کا رُخ کر رہے ہونگے!
قاف لیگ نے عزم کررکھا ہے کہ دو ماہ کے اندر اندر زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیرداری کا خاتمہ کردےگی، تعلیمی اصلاحات سے مدرسہ اور کالج کا درمیانی فاصلہ پاٹ دےگی۔ مسجدیں اور امام بارگاہیں محبت اور اخوت کے مراکز میں بدل جائیں گی۔غرض کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس سے قاف لیگ غافل ہو۔ اے اہلِ وطن! مژدہ ہوکہ قاف لیگ نے صرف اور صرف تمہارے لئے، تم بدبخت عوام کیلئے،اس عمر میں خضاب لگایا ہے، پلاسٹک سرجری کرائی ہے، فائبر گلاس کی ٹانگیں لگوائی ہیں۔ صرف اور صرف تمہارے لئے، بدبختو! اس کا شکریہ ادا کرو۔
 

powered by worldwanders.com