Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, December 31, 2017

ڈرتے ڈرتے چپکے چپکے یہ بھی سن لیجیے


اس کا رنگ کالا ہے۔سفید فام دنیا میں کہیں بھی چھپ نہیں سکتا۔ پھر مالک نے اپنی شناخت کے لیے اس کے ماتھے  پر،رخساروں پر،اور ناک پر ،لوہے کی گرم سلاخوں سے خصوصی نشان بھی بنا رکھے ہیں ۔

بھاگنے کی کوشش کی تو کچھ ہفتوں بعد پکڑا گیا۔سزا کے طور پر ایک پاؤں  کاٹ دیا گیا۔ پھر ایک دن ایک سوداگر آیا غلاموں کو خریدنے اور بیچنے والا سوداگر ۔۔اسے اس کی بیوی پسند آگئی ۔اس نے مالک کو رقم دےی ۔اس کی بیوی کو باندھا اور گھوڑا گاڑی کے عقبی حصے میں  ڈال کر لے گیا۔ دونوں میاں بیوی چیختے ،چلاتے ،بلبلاتے ،ہچکیاں لیتے رہ گئے۔

یہ جسمانی غلامی تھی۔ اس غلامی میں  ایک خصوصیت بہر حال تھی اور وہ یہ کہ یہ جسمانی غلام بھاگنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے۔ آزادی کی ایک چنگاری ان کے نہاں خانہ دل میں کہیں نہ کہیں روشن ضرور رہتی تھی۔سیاہ فام امریکی غلاموں کی تاریخ ان چنگاریوں ،ان شعلوں اور ان روشنیوں سے جگمگا رہی ہے۔

کبھی  آپ نے سوچا ہے کہ جسمانی غلامی کے مقابلے میں ذہنی غلامی ہزار ردجہ بدتر ہے؟ اس لیے کہ ذہنی غلامی سراسر رضاکارانہ ہوتی ہے، اس میں زنجیر ہے نہ رخساروں پر گرم سلاخوں سے بنے ہوئےشناختی نشان،نہ پاؤں کاٹنے کی سزا ،خریدو فروخت نہ کوڑے۔

اس ذہنی غلامی کی  ایک بدترین مثال چار دن پہلے میڈیا میں نظر آئی۔ ایک صوبے کے والی سے پوچھا گیا کہ آپ کے ہاں وزیراعظم کی تصویر کے بجائے یہ جو سابق”نااہل”وزیراعظم کی تصویر اب بھی لگی ہوئی ہےتو اس کا کیا سبب ہے۔اس پر حکمران  نے جواب دیا کہ میرے وزیراعظم اب بھی وہی ہیں ۔

اب یہ کون پوچھے کہ کیا آپ کی فائلیں اب بھی انہی صاحب کے پاس جاتی ہیں ۔جو ملک کے نہیں ‘صرف آپ کے وزیراعظم ہیں ؟اور اگر آپ کے وزیراعظم اب بھی وہی ہیں اور سرکاری دستاویزات پر دستخط خاقان عباسی صاحب کے ہیں تو   پھر تو یہ سلسلہ ہی غیر قانونی ہے۔احکام کسی اور سے’منظوری یا انکار کسی ور کا اور وزیرعظم کوئی اور ۔

اس ذہنی غلامی کو آپ مفادات کا شاخسانہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔وزیراعلی ہونے کے بعد اور کیا درکار ہے۔وزیراعظم بننے کا خواب تو خود بھی نہ دیکھا ہوگا۔نہیں ‘ مفادات کا کھیل نہیں۔یہ سراسر اور محض ذہنی غلامی ہے۔جس  کا بت  ذہن میں اور دل میں  براجمان کردیا گیا ،اب اس کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ آجائے یا آسمان سے کوئی دلیل اتر آئے۔اس ذہنی غلامی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا  - یہ بنیادی طور پر قبائلی طرز فکر ہے- قبیلہ ہر حال میں سردار کا وفادار رہتا ہے -اس ذہنی غلامی کا پھر بھی جواز ہے۔وہ جدید دنیا سے دور ہے۔ تعلیم نہیں،جمہوریت پارلیمنٹ،عدلیہ ،یہ سب وہاں مفقود ہیں مگر ایک صوبے کا پڑھا لکھا حکمران ذہنی غلامی میں مبتلا ہو، تو کوئی دلیل اس کے حق میں نہیں دی جاسکتی۔ہاں !ہمدردی کی جاسکتی ہےیا افسوس۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ذہنی غلام ‘اپنے آقا کی ہر غلطی کا دفاع یوں کرتے ہیں جیسے کفر و ایماں کا مسئلہ ہو۔ حال ہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے جو شور مچایا ہے کہ وفاقی وزارتِ خزانہ نے 9 ارب روپے کی خطیر رقم داماد اول جناب کیپٹن صفدر کے حوالے کیوں کی’تو ذہنی غلام اس کے حق میں عجیب و غریب دلائل دیں گے۔مثلاً یہ کہ وہ آخر اسمبلی کے رکن ہیں ۔یا یہ کہ ساتھ ہی کمیٹی بھی تو بنا دی گئی ۔ کمیٹی کی کیا حیثیت تھی۔ فنڈز زیادہ تر ایک خاص علاقے میں گئے اور قانونی اور انتظامی تقاضے پورے کئے بغیر خرچ کئے گئے۔اب جو بیوروکریسی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سامنا کررہی ہے۔وہ فائلوں کا پیٹ بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔یہ ہے عدل کا ایک نمونہ جس کی بحالی کے لیے تحریک چلانے کا اعلان ہوا ہے۔ذہنی غلامی صرف پیری مریدی میں  نہیں ‘صرف آنکھیں بند کرکے کسی ایک مسلک پر عمل پیرا ہونے میں نہیں ‘ذہن کو بند کرکے ایک خاندانی پارٹی کے  ساتھ وابستہ ہونا بھی ذہنی غلامی ہے۔

ہاں ! مفادات اس ذہنی غلامی کوکنٹرول ضرور کرتے ہیں ۔مثلا! ذہنی غلاموں کا جو گروہ جنرل پرویز مشرف کو میسر تھا اور عینی شاہدوں کے مطابق جس گروہ کے افراد جنرل صاحب کی خاکی قمیض سے خیالی دھبہ اپنی انگشت شہادت اورانگوٹھے سے دائرہ بنا کر جھاڑتے تھے’وہی گروہ اب موجودہ حکمران پارٹی کے خاندانی سربراہ کے ساتھ وابستہ ہے۔زمانہ جب بھی کروٹ لے گا اور اقتدار کے سنگھاسن پر کوئی آ کر بیٹھے گا تو یہ گروہ اسے اپنا نیا آقا بنانے میں دیر نہیں لگائے گا۔

اس  ذہنی غلامی کی ایک مثال دیکھئے’ ایک وفاقی وزارت میں تعینات ایک منظور نظر افسر کو بیرون ملک آنکھوں کے علاج کے لیے دو کروڑ 37 لاکھ 95 ہزار روپے قومی خزانے سے عطا کئے گئے۔آڈٹ سے بچنے کے لیے اس بخشش کی توثیق وفاقی کابینہ سے کرانا ضروری تھی۔ پوری کابینہ میں سے کسی نے یہ نہ پوچھا کہ یہ کس قبیل کا علاج ہے جس کے لیے اتنی بھاری رقم دی جارہی ہے۔

یوں بھی غلاموں کا کام ہی کیا ہوتا ہے ؟ہاتھ کھڑا کردینا’ بغیر پوچھے انگوٹھا لگا دینا ‘کسی کے خلاف بیان جاری کردینا’کسی کی حمایت میں حد  سے گزر جانا’بابے ظفر اقبال نے کیا خوب کہا ہے

سر اٹھایا نہیں میں نے کہ سلامت رہ جائے

عذر کیا ہے مجھے اب ہاتھ اٹھا دینے میں

یہاں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ چودھری صاحب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے ۔نوکر ٹانگیں دبا رہا تھا ۔سامنے سے میراثی آتا دکھائی دیا ۔نوکر کو حکم ہوا کہ میراثی قریب آئے تو اس پر بھونکو۔ نوکر حسبِ حکم اور حسبِ منشا بھونکا۔ میراثی کہاں چوکنے والا تھا ۔ کہنے لگا” پہلے اس لاش کو تو بھنبھوڑ لو جو تمھارے سامنے پڑی ہے”۔

ویسے جناب شاہد خاقان عباسی کے بجائے کوئی دھڑلے والا وزیراعظم ہوتا تو فائلیں واپس کردیتا ۔فنڈز روک لیتا۔صرف یہ کہتا کہ مجھے تو آپ وزیراعظم تسلیم ہی نہیں کرتے’منظوری کیسے دے سکتا ہوں ؟مگر جو خود پابہ زنجیر ہو’ دوسرے کو آزادی کا سبق کیسے پڑھا سکتا ہے۔

ذہنی غلامی کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجئے۔اسے بدترین مثال کہہ سکتے ہیں ۔ پوری حکومتی پارٹی میں ‘فاٹا کے حوالے سے’کسی مرد “آزاد” کو یہ پوچھنے کی جرات نہ ہوئی کہ صرف دو افراد کی خاطر فاٹا کے انضمام میں کیوں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے جبکہ ان دونوں کا تعلق فاٹا سے نہیں ہے۔ مگر اسمبلی میں جو ذہنی غلام بیٹھے ہیں ‘ان کا کام صرف آنکھیں  بند کرکے احکام کی تکمیل ہے۔جو اقبال نے کہا تھا کہ

شریک حکم غلاموں کو کرنہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک

تو ہمارے عہد کے غلاموں پر تو اس شعر کا اطلاق ہی نہیں ہوتا اس لیے کہ اس میں ادراک لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور انگوٹھا ثبت کرنے میں اور ہاتھ اٹھادینے میں کسی ادراک کی ضرورت نہیں رہتی۔غلامی کی انتہا یہ ہے کہ ایک شخص نے کھلم کھلا فاٹا  کو افغانستان کا حصہ قرار دیا مگر حکومتی پارٹی کے کسی رکن کی پاکستانیت نے چوں نہیں  کی۔ قومی اسمبلی میں فاٹا کے سابق پارلیمانی رہنما شاہ جی گل آفریدی ایم این اے نے جو  بیان دیا ہےاس پر حکومتی پارٹی اراکین کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔شاہ جی نے کہا ہے

“محمود اچکزئی کا فاٹا میں سٹیک ہی نہیں پھر کس کے اشارں پر مخالفت کررہے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن کو قبائلیوں کا درد نہیں بلکہ مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔فاٹا اصلاحات پر عمل درآرمد میں سابق وزیراعظم خود رکاوٹ ہیں اگر نواز شریف  کو ریاست اور بیس کروڑ عوام کی فکر ہوتی تو وہ اپنے اتحادیوں کو نہ دیکھتے ۔دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو اپنے علاقے کو علاقہ غیر کہے”

شاہ گل آفریدی نے درست کہا مگر ان کا یہ کہنا کہ اچکزئی کا فاٹا میں  سٹیک ہی نہیں ‘محل نظر ہے۔ اچکزئی کا سٹیک فاٹا میں نہیں ‘سرحد پار ضرور ہے۔ان کے جو قابل مذمت روابط دوسرے ملک سے ہیں ان کی تفصیل ہم   اس کالم میں بیان کرچکے ہیں جو بیس دسمبر کو شائع ہوا ہے۔ اور اب تو سابق وزیراعظم نے اچکزئی صاحب کو اپنا  نظریاتی ساتھی بھی قرار دے دیا ہے۔ یہی تو نظریاتی سیاست ہے جس کے شروع کرنے کا اعلان انہوں نے نااہلی کے بعد کیا ہے ۔پورے ملک میں اچکزئی صاحب واحد خؤش قسمت ہیں جن کے ساتھ سابق وزیرعظم نے اپنے”نظریاتی تعلق” کا اعلان کیا ہے،سابق وزیراعظم کی نظریاتی سیاست یا تو اتنی گہری ہے کہ کوئی شناور اس تک پہنچ نہیں سکتا یا اس قدر اُتھلی ہے کہ اس پر ہنسا ہی جاسکتا ہے۔

ہم برصغیر کے مسلمان شاہی خاندان کے ساتھ وفاداری یا غداری کے لیے یوں بھی معروف ہیں ۔1208 ء میں قطب الدین ایبک دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ تب سے لے کر 1857 ء تک کی تاریخ کھنگال لیجئے ‘بادشاہ مرتا یا قتل ہوتا تو دربار کے عمائدین اپنی اپنی پسند کے شہزادوں کو جانشین بنانے کےلیے متحارب گروہوں میں بٹ جاتے۔خاندان سے باہر کسی فرد کو بادشاہ بنانے کا وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ہاں ! خود آگے بڑھ کر کوئی قبضہ کرلیتا   تو اور بات تھی ۔وہی روایت مسلم لیگ نون نبھا رہی ہے۔ ذہنی طور پر پارٹی کے ارکان تیار ہیں کہ بھائی وزیراعظم بنے ‘اس کا بیٹا عملاً نائب وزیراعظم ہو’دختر نیک اختر پنجاب کی فرماں روا ہو۔ بس چلے تو باقی صوبوں پر بھی اپنے ہی خاندان کے افراد تعینات کئے جائیں ۔ پاکستانیوں کی اکثریت اسے برداشت کرلے گی۔ آخر پیپلز پارٹی کو بھی تو برداشت کیا ہی جارہا ہے۔

محمود خان اچکزئی ‘مولانا فضل الرحمن ‘اسفندیار ولی سبھی نے پارٹی کی سربراہی وراثت ہی میں تو پائی ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے فرزند گرامی بھی جلوہ افروز ہو چکے ہیں ۔اگر احسن اقبال ‘صدیق الفاروق ‘رضا ربانی’اعتزازاحسن اور حافظ حسین احمد جیسے پڑھے لکھے دانشور سیاستدانوں کو خانوادہ پرستی پر اعتراض نہیں تو ہماشا کس کھیت کی مولی ہیں اس لیے کہ

رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا

رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے

چونکہ غلامی میں رہنا ہے اور غلاموں کے ساتھ رہنا ہے اس لیے “غلام” پر لغت کے حوالے سے بھی نظر ڈال لیں ۔غلام کی جمع غلمان ہے۔ بادشاہوں کے غلام کبھی کبھی خود  بادشاہ بن جاتے تھے مگر اس کا تصور ہماری سیاسی جماعتوں میں نہیں ۔ جو افراد پوری پوری زندگی سیاسی جلسوں میں دریاں بچھاتے رہتے ہیں  وہ کارکن کے کارکن ہی رہتے ہیں ۔

غلاموں کو مختلف ڈیوٹیاں سونپی جاتی تھیں مثلاً ساقی گری’ آبداری’ شربت داری’ جامہ داری’رکاب داری اور اسلحہ داری۔ دربار کا رواج یہ تھا کہ پہلے سال غلاموں کو سواری کی اجازت نہ تھی۔صرف پیدل چل سکتا تھا ‘ایک سال کے بعد حاجب(پروٹوکول وغیرہ کا انچارج)کی اجازت سے گھوڑا مل جاتا۔ تیسرے برس خنجر اپنی پوشاک کے ساتھ باندھ سکتا تھا۔چوتھے سال قبا اور گرز عطا کردئیے جاتے ۔غلام ترقی کرتے کرتے “حاجب” بھی بن جاتا۔ حاجب میں اگر ٹیلنت ہوتا تو پینتیس چالیس سال بعد” امیر”(بلند مرتبہ عہدیدار)بنا دیا  جاتا ۔آخر کار ڈرتے ڈرتے چپکے چپکے یہ بھی سن لیجیے کہ ادبیات میں غلام کا معنی معشوق بھی لیا جاتا ہے۔


Friday, December 29, 2017

.ٹیپ ریکارڈ سے یوٹیوب تک


ٹیپ ریکارڈرپر سائنسدان کام تو ایک عرصہ سے کررہےتھے مگر ا س کا عام استعمال 1940 کے عشرے میں شروع ہوا۔ آپ نے ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر قائداعظم کی تقریر کے کچھ الفاظ ان کی اپنی زبانی سنے ہوں گے ان کی وفات 1948 میں ہوئی ۔اسکا مطلب یہ تھاکہ اس وقت برصغیر میں ٹیپ ریکارڈ 'جیسا بھی تھا آچکا تھا۔موسیقی میں اس کا استعمال خوب ہوا ۔اسی زمانے میں معروف و مشہور شعرا کاکلام بھی ریکارڈ کیاجانے لگا۔

جن لوگوں کو شوق تھا ‘انہوں نے اپنے پسندیدہ شاعروں کا کلام ان کی اپنی آواز میں ریکارڈ کیا یا کرایا۔ کراچی کے لطف اللہ خان صاحب نے تو آوازوں کا خزانہ جمع کیا ۔اسی کی دہائی میں وہ اس کالم نگار کے غریب خانے پر تشریف لائے اور غزل ریکارڈ کی۔تاہم یہ ریکارڈ شدہ آوازیں ‘غزلیں ‘نظمیں ‘تقریریں ‘انٹرویو ‘جن لوگوں کے پا س تھے ‘انہی کی دسترس میں رہے۔بہت ہوا تو ریڈیو یا ٹیلی ویژن نے ان میں سے مشہور اور تاریخی چیزیں مناسب مواقع پر نشر کردیں ۔جس نے سن لیا ‘سن لیا ،جومحروم رہا ‘اس کی ان ریکارڈ شدہ آوازوں تک رسائی نہ تھی۔

بہت سے مشہور شعرا اور نامور ہستیوں کو سننے کا موقع ملا یہ مواقع ہماری پوری نسل کو دستیاب ہوئے۔ منیر نیازی ‘جون ایلیا’ سلیم احمد’ قمر جمیل ‘احمد ندیم قاسمی’ ضمیر جعفری اور کئی اور شعرا ء کو جی بھر کر براہ راست سنا۔ ان سے تعارف کا اعزا ز حاصل رہا۔شورش کاشمیری کو بھی سنا ۔تاہم بہت سے ایسے شعرا بھی تھے جو بہت زیادہ پسند تھے مگر انہیں دیکھا نہ سنا،مجید امجد کی “شب رفتہ” الف سے ی تک حفظ ہو گئی،ناصر کاظمی کی برگِ نےکا ایک ایک شعر ازبر ہوگیا۔مگر ان مشاہیر کو دیکھا نہ ان کی زبانی ان کا کلام سنا۔

پھر کچھ ایسے شعرا کے حالات پڑھے اور ان کا ذکر سنا جن کی شاعری اقبال ،فیض اور جوش کے مقابلے کی نہ تھی مگر اپنے زمانے میں ان کے ترنم اوراندازِ بیان نے غلغلہ برپا کیے رکھا۔ ہم نے سنا کہ جگر مرادآبادی کلام سناتے تھے تو سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا ۔ کلیم عاجز اور خمار بارہ بنکوی بہت مقبول ہوئے۔ استاد قمر جلالوی نے کلاسیکی رنگ کی شاعری کی اور اپنے زمانے میں مشاعروں پر چھا گئے۔ جن خوش قسمت لوگوں کے پاس ریکارڈ شدہ ٹکڑے تھے وہ محظوظ ہوتے ہرے اور دوسرے محروم رہے۔

پھر ایک انہونی ہوئی۔2005 میں امریکہ میں تین نوجوانوں نے جو ایک مالیتی کمپنی میں ملازم تھے ایک انوکھی قسم کی ویب سائٹ بنائی ۔یہ نوجوان چاڈ ہرلے’سیٹوچن اور جاوید کریم تھے۔اس ویب سائٹ کی خاصیت یہ تھی کہ اس پر ریکارڈ شدہ تصویر مع آواز یعنی ویڈیو یا صرف ریکارڈ شدہ آواز پوسٹ کی جاسکتی تھی۔2006 میں گوگل نے یہ ویب سائٹ تقریباً پونے دو ارب ڈالر میں خرید لی جیسے ہی یہ ویب سائٹ پبلک کے لیے عام ہوئی ‘انقلاب آگیا۔جس شخص کے پاس جو ریکارڈنگ محفوظ تھی ‘اس نے اس ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی۔”یوٹیوب”اسی ویب سائٹ کا نام ہے۔اب آوازوں اور متحرک تصویروں کے یہ خزانے ہر انسان کی دسترس میں آگئے آپ کے پاس کسی کی ویڈیو ہے تو آپ اسے یوٹیوب پر اپ لوڈ کرکے دنیا کے سامنے پیش کردیجیے۔گیت ہیں  یا شاعری’تقریریں ہیں یا انٹرویو ‘ڈرامے یا کوئی اور پروگرام سب یوٹیوب پر چڑھائے جاسکتے ہیں اور دیکھے جاسکتے ہیں ۔جگر مراد آبادی 1960ء میں وفات پا گئے اس وقت یہ کالم نگار ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ یوٹیوب ایجاد ہوکر منظرِ عام پر آئی تو جن خوش بخت لوگوں کے پاس جگر مراد صاحب کی آواز تھی انہو ں نے افادہ ء عام کی خاطر یوٹیوب پر اپ لوڈ کردی۔یوں جگر مراد کی آواز گویا موت کے بعد زندہ ہوگئی۔قمر جلالوی سے لے کر ماہر القادری تک آپ بہت سوں کو سن سکتے ہیں ۔آج ہی مجید امجد کی زبانی ان کی نظم سنی۔

ہوا کے سایوں میں ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب

میں کاش دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا

پلٹ پڑا ہوں شعاؤں کے چیتھڑے اوڑھے

نشیب زینہء ایام پر عصا رکھتا

کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ناصر کاظمی کی شاعری ان کی زبانی سنیں گے۔دلچسپ ترین بات تو یہ ہے کہ یہ یوٹیوب ہر جگہ ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ آپ کراچی میں ہیں یا سکھر میں ‘نیویارک میں ہیں یا ٹوکیو میں ‘ایک کلک کیجیے اور جو سننا چاہیں سنیے۔یہ آوازیں ‘یہ تصویریں کسی سے چُھپ نہیں سکتیں ۔

ہم جو کچھ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں وہ بھی ایک ٹیپ ریکارڈر  پر محفوظ ہورہا ہے۔ایک بہت بڑی ویڈیو بن رہی ہے۔ہر حرکت،ہر آمد و رفت’ہر منصوبہ’ہر پروگرام ‘ہر سازش کی تصویر لی جارہی ہے۔ ہر فقرہ’فقرے کا ہر لفظ ‘یہاں تک کہ لہجہ’ انداز اور آواز کا زیرو بم بھی محفوظ ہورہا ہے۔سات پردوں میں چھپ کر جو سکیم بنائی جارہی ہے’وہ بھی ریکارڈ ہورہی ہے۔کسی دستاویز میں خفیہ رد و بدل کیا جارہا ہے تو اس کا فوٹو بھی لیا جارہا ہے ۔کسی کو مارا پیٹا جارہا ہے۔ ۔گالیاں دی جارہی ہیں۔ کسی کی حق تلفی ہورہی ہے’قدم کسی غلط جگہ کی طرف اٹھ رہے ہیں غرض جو کچھ بھی ہورہا ہے’ٹیپ ریکارڈر میں نوٹ ہورہا ہے۔

ریکارڈ کرنے والے یہ سب ٹیپ ریکارڈر ز رکھتے جارہے ہیں ۔یہ ذخیرہ ہے جس میں خلقِ خدا کی زندگیوں کی زندگیاں جوں کی توں اتارلی گئی ہیں ۔گوشہء گمنامی میں پڑے ہوئے یہ ٹیپ ریکارڈ ز کسی یو ٹیوب کا انتظار کررہے ہیں۔

ایک دن یہ عظیم الشان یوٹیوب سامنے آجائے گی۔اس یوٹیوب پر یہ ٹیپ ریکارڈز اپ لوڈ کردیے جائیں گے۔ بس پھر کیا ہے ‘سب کچھ سب کے سامنے آجائے گا۔وہ جو پروردگارنے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ “جب اعمال نامے نشر کیے جائیں گے” تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ایجاد ہونے کے بعد یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ نشر کرنے سے کیا مراد ہے جو کچھ نشر ہوتا ہے’ وہ ساری دنیا سنتی ہے اور دیکھتی ہے۔ہم آئے دن مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی پٹی چند لفظوں پر مشتمل چلتی ہے کہ فلاں گرفتار ہوگیا ہے۔ چند سیکنڈ میں یہ خبر کراچی سے لے کر گلگت تک ہی نہیں ‘نیویارک سے لے کر ٹوکیو تک سب کے علم میں آجاتی ہے۔

یہ بڑی بے رحم یوٹیوب ہوگی۔اس کا کوئی توڑ نہ ہو گا۔ فلم کے بعد فلم’ویڈیو کے بعد ویڈیو چلے گی۔شوہر کا کچا چٹھا بیوی دیکھے گی۔اولاد دیکھے گی کہ ان کا شریف باپ چھپ چھپ کر کیا گل کھلاتا رہا۔حاجی صاحب سات پردوں کے اندر خوراک اور ادویات میں جو ملاوٹ کرتے رہے۔ ‘انہیں نیکو کار سمجھنے والے عقیدت مند اس سارے عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔اس دن کوئی این آر او ،کوئی دستاویز،کچھ بھی نہیں خفیہ رہ سکے گا ۔پردے ہٹ جائیں گے۔ لوگ ننگے ہو جائیں گے ۔حساب کتاب  میں جعل سازی سے لے کر انفرادی، خاندانی ، ملکی ،قومی،علاقائی ،بین الاقوامی سطح تک کی ساری سازشیں طشت از بام ہو جائیں گی۔

ایک اور صرف ایک طریقہ ہے اس ذلت ،اس رسوائی اور اس بر ہنگی سے بچنے کا ۔آج کے بعد کوئی ایسا کام نہ کیا جائے ، کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس کے ظاہر ہونے سے رسوائی ہو ۔بڑی سے بڑی لالچ ایسے فعل پہ آمادہ نہ کرےجس کے طشت ازبام ہونے سے ڈر لگے۔

مگر یہ احتیاط کافی نہیں۔اس معاملے کا براہ راست تعلق اللہ کی اس صفت کے ساتھ قائم ہے جو ستار العیوب قرار دیتی ہے ۔عیوب کی پردہ پوشی کرنے والا۔ یوں تویار لوگوں نے روپے پیسے اور سونے چاندی کو بھی ستار العیوب سمجھ لیاہے۔یہ شعر بہت مشہور ہے

ای زر تو خدا نہ ای ولیکن بخدا

ستار عیوب و قاضی الحا جاتی!

کہ اے زر !تو خدا تو نہیں مگر خدا کی قسم تو عیوب ڈھانک لیتا ہے اور حاجات پوری کرتا ہے ۔

مگر یہ دولت اور اقتدار کی پردہ پوشی اسی جہان تک محدود ہے ۔اس پردہ پوشی کو تو خود ریکارڈ کیا جا رہا ہے ۔جس دن وہ حشر انگیز  یوٹیوب کائنات پر نصب ہو گی ،اس پر اس پردہ پوشی کی فلم بھی چل رہی ہو گی ۔

پرور دگار کو اس کی عظیم الشان صفت کا واسطہ دے کر،دل کی گہرائیوں میں اسے اصل ستار العیو ب مان کر ،عرض گزاری کی جائے اور گڑگڑایا جائے کہ اس دن پردہ پوشی کر دینا ، ہمیں اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں بیوی بچوں او ر دوست احباب کےسامنے رسوا ہونے سے بچا لینا ۔ ہمارے ٹیپ ریکارڈرز کو یوٹیوب پر اپ لوڈ نہ کیا جائے۔رحمتِ خاص سے اس کڑے مرحلے سے باعزت گزرنے دے دیا جائےتو کیا عجب دعا قبول ہوجائے ۔بشرطیکہ ٹیپ ریکارڈ پر نیا مٹیریل ‘نیا مصالحہ نئے کرتوت نہ چڑھتے جائیں ۔،

ماں باپ دوست احباب بیوی بچوں سے بھی زیادہ کٹھن بلا خیز اور رُسوا کن مرحلہ وہ ہوگا جب ہمارے اعمال رسول کریم ﷺ کے سامنے لائے  جائیں گے جو امت کے لیے راتوں کو خدا کے حضور کھڑے رہتے،یہاں تک کہ مقدس پیروں میں ورم آجاتا۔اسی لیے تو اقبال نے گڑ کڑا کر زاری کی تھی۔

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روزِ محشر عذر ہائی من پذیر

ور حسابم را تو بینی ناگزیر

از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر

کہ مجھ فقیر کے عذر جزا کے دن قبول کرلینا ۔اور اگر میرا حساب کتاب کرنا ہی ہوا تو آقا ﷺ سے چھپا کر کرنا۔






Wednesday, December 27, 2017

قوم کے لیے مژدہ جانفزا


ایک بہت بڑا کارنامہ جو میاں شہباز شریف نے سرانجام دیا ہے یہ ہے کہ “خونی انقلاب “ کی خونی اصطلاح کا آنجناب نے بندوبستِ دوامی کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسا بندوبست ِدوامی کہ جس کی تاریخ ِ انقلاب میں نظیر ملنی مشکل ہے۔کارل مارکس کو جو اذیت چھوٹے میاں صاحب نے پہنچائی ہے ‘کسی گرز سے بھی کیا پہنچی ہوگی!

سچ یہ ہے کہ یہ اصطلاح دشنام بن کر رہ گئی ہے۔محض یہ کہنا کہ مذاق بن کر رہ گئی ہے ،اس اصطلاح کے ساتھ بھی ظلم ہے’مذاق کے لفظ کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور خود دشنام کے ساتھ بد سلوکی ہے۔

اس وقت اگر پاکستان میں چوٹی کے پانچ مراعات یافتہ ترین افراد کی فہرست بنے تو شہباز شریف کا نام ان پانچ میں ضرور ہوگا ۔تعجب نہیں اگر ان پانچ میں بھی وہ اولیں نمبر پر ہوں ۔ان کی کئی رہائش گاہیں ہیں ۔ہر رہائش گاہ ایک عالی شان محل ہے،ہر محل کو سرکاری سٹیٹس حاصل ہے۔ ہر محل کے ارد گرد اوپر نیچے آگے پیچھے سینکڑوں سرکاری پہریدار ہیں۔

ان پہریداروں کی تنخواہ اس کھرب پتی شخص کی جیب سے نہیں بلکہ اس بھوکی ننگی مفلس قلاش، مظلوم،معتوب،مقہور،بدبخت قوم کی انتڑیوں سے نکالے گئے ٹیکسوں سے ادا ہوتی ہے۔ بیڑوں کے بیڑے قیمتی لیموزینوں کے خادم اعلیٰ کے لیے ہر وقت تیار کھڑے ہیں، باہر نکلتے ہیں تو غلام قوم کے لیے ان شاہراہوں کا استعمال حرام قرار دے دیا جاتا ہے جنہیں اسی غلام قوم کے گاڑھے خون پسینے سے بنایا گیا ہے۔ ہر چند ہفتے بعد خادمِ اعلیٰ صحت کے چیک اپ کے لیے ولایت تشریف لے جاتے ہیں۔اتنا ٹھاٹھ باٹھ ہے اور اتنا تزک و احتشام اور جاہ و جلال ہے کہ صوبائی حکمران ہوتے ہوئے اسلامی کانفرنس میں ترکی گئے۔ باقی وزرائے اعلیٰ اتنے گھگھو اور مٹی کے مادھو ہیں کہ احتجاج تک کا حوصلہ ہے نہ عقل۔ ترکی جاکر شہباز شریف جو وزیراعلیٰ خاقان عباسی کے ماتحت ہیں'ایک تصویر کی رُو سے' صدر اردوان کو اپنے وزیراعظم سے بھی پہلے مل رہے ہیں  اور پاکستان کے وزیراعظم ایک چکن کی طرح اپنے ماتحت کے پیچھے کھڑے ہیں کہ باری ٓئے تو اردوان سے ملیں!وزیراعظم کا بھائی ہونے کا ان صاحب نے اس قدر فائدہ اٹھایا اور اس حد تک اپنی حد سے بڑھے کہ ان کی اپنی پارٹی کے رکن اور ان کی اپنی حکومت کے وزیر بھرے اجلاس میں ان کی مداخلت کے خلاف پھٹ پڑے۔ہر وفاقی معاملے میں یہ صوبائی حکمران آگے آگے ہے  یہاں تک کہ قطر کے ساتھ گیس کے قبضے میں بھی!
اس سب پر کچھ مستزاد یہ ظلم کہ ان کے صاحبزادے جو قومی اسمبلی کے رکن ہیں عملاً صوبے کے بادشاہ ہیں! تعیناتیاں ہوں یا فنڈز کی تقسیم، ہر معاملے میں اختیار ان کا ہے۔ جو پروٹوکول شہزادے کو مل رہا ہے'وہ گورنر یا وزیر اعلیٰ کے پروٹوکول سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں!
آمریت کا یہ حال ہے کہ صوبائی اسمبلی میں آپ سال میں اتنی ہی بار جاتے ہیں جسے انگلیوں پر گنا جاسکے۔ رہی صوبائی کابینہ تو اُسے جوتوں کے تسموں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ صوبائی کابینہ رانا ثنا اللہ صاحب سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہوتی ہے۔
مری داستان ِ غم کی کوئی قیدو حد نہیں ہے
ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگِ آستاں تک
اب آپ انصاف کیجیے'  یہ حد سے زیادہ مراعات یافتہ صاحب' جن کی طاقت' جن کا اختیار' جن کا جاہ و جلال، طمطراق اور شان و شوکت شاہ جہان اور جہانگیر سے کم نہیں' اگر خونی انقلاب کا بار بار نعرہ لگائیں اور نعرے سے بھی بڑھ کر خونی انقلاب کی دھمکی(بروزنِ گیدڑ بھبھکی) دیں تو کیا خونی انقلاب کی اصطلاح دشنام نہیں بن جاتی؟
کبھی  فرماتے  ہیں غریبوں کو انصاف نہ ملا تو خونی انقلاب آئے گا! کبھی مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں کہ تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔
خلقِ خدا کو ہنسانا نیکی کا مشغلہ ہے۔ مگر اتنا بھی دوسروں کو کیا ہنسانا کہ انسان خود ہی نکُو بن جائے۔ارے جہاں پناہ! آپ اور آپ کے برادرِ کلاں لگ بھگ تین عشروں سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔غریبوں کو  انصاف آپ ہی نے تو دینا تھااور تھانے کیا بھارتی حکومت کے نیچے تھے؟اگر آپ آئی جی کو ذاتی ملازم کے طور پر استعمال کریں گے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اسے وفاداری کا صلہ بھی دیں گے اور خلقِ خدا کی حیرت کو جوتی کی نوک پر رکھیں گے تو تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک کیسے ہوگا؟ اور پھر رونا رونا کہ تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا' کیا اس کا مقصد اپنی مذمت کرنا ہے؟ وہی پامال شدہ قصہ دہرانا پڑتا ہے ایک شہزادہ پیدائش سے جوانی تک زنان خانے رہا۔ خواجہ سراؤں' کنیزوں اور بیگمات کے سوا کچھ دیکھا ہی نہ تھا ۔حرم سرا میں سانپ نکل آیا۔جب بیگمات اور کنیزیں چیخ رہی تھیں کہ کسی مرد کو بلاؤ تو نسوانیت زدہ شہزادہ بھی پکار رہا تھا کہ کسی مرد کو بلاؤ۔خلقِ خدا چیخ رہی ہے کہ تھانوں میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا تو وزیراعلیٰ بھی خلقِ خدا کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر فریاد کررہے ہیں کہ اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ د ل اس معصومیت پر فدا ہونا چاہتا ہے مگر دماغ کہتا ہے کہ یہ فریاد جعلی ہے! پرسوں کڈنی ہسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ا میر غریب کا فرق مٹانے کے لیے آپ نے تیس برسوں میں کیا کیا ہے؟ پورے صوبے میں کسی ایک کچہری کا نام بتا دیجیے جس کا کلچر بدل گیا ہو!
اور اب ماشااللہ!یہ خبر عام ہے کہ اگلے وزیر اعظم بھی آپ ہی ہوں گے۔ کیا مژدہ جانفزا ہے قوم کے لیے۔استاد ذوق اور مرزا غالب حیات ہوتے تو قصیدے لکھتے۔ قاآنی شیرازی ہوتا تو ایسے ایسے یاقوت و مرجان لٹاتا کہ بادشاہی کا مزا آجاتا
اقبال و بخت و نصرت و فیروزی و ظفر
تصور کیجیے'  دارالحکومت میں داخل ہوتے ہی آپ کو سب سے بڑے چوراہے پر زرِ خالص کی بنی ہوئی بہت بڑی انگشتِ شہادت نظر آئے گی جو ہر آنے والے کو کچھ سمجھا رہی ہوگی۔ ایک اور چوک پر فرنگی ہیٹ آویزاں ہوگا۔ اس کے بعد سب سے بڑی شاہراہ پر لمبے والے بوٹ!ایک بوٹ  کے نیچے اسمبلی اور دوسرے  کے نیچے کابینہ   - شہر میں ایک بھی درخت نہ ملے گا کیوں کہ دن رات شاہراہیں اکھاڑی بنائی' پھر اکھاڑی بنائی اور پھر اکھاڑی بنائی جارہی ہوں گی۔پُل اس قدر ہوں گے کہ شہر کا شہر ہی انڈر پاس لگے گا۔
چونکہ سرکاری سکولوں سے آپ کو شدید نفرت ہے اس لیے وفاقی دارالحکومت میں سرکاری سکول ایک بھی نظر نہیں آئے گا۔سب دانش سکول ہوں گے۔ ساری روٹیاں سستی روٹیاں ہوں گی۔ساری ٹیکسیاں پیلی ٹیکسیاں ہوں گی اور سارے گھر آشیانہ گھر ہوں گے۔
اخبارات شائع ضرور ہوں گے مگر تمام کے تمام صفحے پر خادمِ اعظم کی (وزیر اعظم بنتے ہی لقب خادم اعظم  ہوجائے گا) تصویر اور کارناموں کی تفصیل ہوگی۔ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی یہی پروگرام نشر ہو رہے ہوں گے۔
ماڈل ٹاؤن کے 14قتل' جس میں بیوروکریٹ کا نام آرہا تھا اسے بیرون ملک سفیر لگا دیا گیا تھا۔ بس اسی کو واپس لاکر خادمِ اعظم کا معاون ِ خاص تعینات کیا جائے گا۔نوکر شاہی کا لاہور گروپ لاہور میں بھی ہوگا اور وفاقی دارالحکومت میں بھی!پنجاب کے جن ریٹائرڈ آئی جی صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد وفاق میں اعلیٰ منصب عطا کیا گیا ہے' انہیں خادم ِ اعظم کے چارج لیتے ہی مزید اعلیٰ منصب پر بٹھایا جائے گا۔ دارالحکومت کے  ہر کھمبے پر خونی انقلاب کی تصویر لٹک رہی ہوگی! کئی محلات حرم سرا کا درجہ حاصل کریں گے۔ نئی ایلیٹ فورس او رنئی ڈولفنس پولیس وجود میں آئے گی اور سب کو شاہی محلات اور حرم سراؤں کے ارد گرد آگے پیچھے اور نیچے پھیلا دیاجائے گا۔خادمِ اعظم ایک کیمپ آفس انقرہ میں اور دوسرا کیمپ آفس لندن میں بنائیں گے تاکہ کاروبار مملکت کو وہا ں بیٹھ کر چلاتے رہیں۔ اگر حاضرین سامنے موجود ہوں تب بھی ترجیح ویڈیو تقریر کو دی جائے گی کہ ویڈیو خطاب زیادہ موثر اور زیادہ متاثر کن لگتا ہے۔رہا صوبہ تو اس کا چارج بھی آپ ہی کے پاس رہے گا اس لیے کہ والی ء پنجاب کے طور پر صرف آپ ہی سجتے ہیں۔شہزادہ عملاً اسی طرح نائب وزیراعظم ہوگا جیسے اب نائب وزیراعلیٰ ہے! اور ہاں! خادمِ اعلیٰ لندن، بیجنگ،انقرہ اور لاہور کے سوا کہیں بھی نہیں جائیں گے اس لیے کہ وفاق میں آکر'  ملک کے باقی حصوں کا مرتبہ و مقام آنجناب کی نظر میں وہی ہوگا جو بطور وزیراعلیٰ لاہور کو چھوڑ کر باقی پنجاب کا تھا۔ اب تو صوبے کا بجٹ لاہور کی نذر ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کا بجٹ نذر کیا جائے گا۔
اگر خاندان چھوٹے میاں صاحب کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کرچکا ہے تو چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آخر اس قوم کو اعمال کی سزا بھی تو ملنی ہے


Monday, December 25, 2017

وائرس جس نے ہر پاکستانی کو بے چین کررکھا ہے۔


ٹریفک رینگ رہی تھی ۔آگے جاکر بالکل رُک گئی۔اس نے باس  کی معیت میں ایک میٹنگ کے لیے جانا تھا۔باس کو فون کیا اور صورتحال بتانے  کے بعد معذرت کی۔باس نے تسلی دی کہ ایسا ہوجاتا ہے۔کوئی بات نہیں !

چند دن کے بعد'چھٹی کے بعد وہ گھر واپس جارہا تھا۔پھر ٹریفک کی وہی حالت ہوگئی۔ہائی وے پر گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔اس نے بیوی کو فون کیا۔بیوی طنزیہ ہنسی ہنسی!زہر میں بجھی ہوئی ہنسی!"مجھے معلوم ہے آپ دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں "
یہ واقعہ ایک صاحب نے سنایا جو جرمنی میں رہتے ہیں ۔

اس تفاوت کا سبب کیا ہے؟باس یقین کرلیتا ہے۔مگر بیوی جو رفیقہء حیات ہے'جھٹلا دیتی ہے؟ کیوں ؟
یہ محض سوال نہیں 'یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اگرا س سوال کا جواب دریافت کر لیا جائے'پھر اس پر غور کرلیا جائے اور ہم میں سے ہر شخص اپنا رویہ اس سوال اور اس کے جواب کی روشنی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہی پاکستان جسے ہم رات دن کوستے ہیں 'جنت بن جائے۔

وجہ  جاننے کے لیے ستاروں کے علم کی ضرورت ہے نہ چلے کاٹنے کی۔باس جس ماحول میں پلا بڑھا 'اس میں جھوٹ بولنے کا رواج نہ تھا۔اسے بچپن میں جو کچھ بتایا جاتا تھا 'وہ اصل میں بھی وہی ہوتا تھا۔کبھی اس کے ما ں باپ نے اسے ڈاج کرنے کی کوشش کی نہ کسی ہم جماعت نے نہ کسی استاد نے۔وہ یہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ فون کرنے والا جھوٹ بول رہا ہے۔

بیوی کی پرورش جس فضا میں ہوئی 'وہ فضا دروغ گوئی کے جراثیم سے اٹی ہوئی تھی۔اس نے ہوش سنبھالا تو ہر طرف جھوٹ تھا۔نوکر نے بتایا کہ اس کی ماں بیمار ہے 'چھٹی چاہیےبعد میں معلوم ہوا ماں زندہ ہی نہیں تھی!باپ اچھا بھلا بستر پر لیٹا ' رضائی اوڑھے  اخبار پڑھ رہا تھا۔وہ پاس بیٹھی تھی۔ وہ اپنے باس کو فون کررہا تھا کہ سر مجھے بخار ہے'میں آج نہیں آسکوں گا۔اماں نے تین سوٹ نئے خریدے۔شوہر کو صرف ایک کا بتایا۔ایک شادی کا دعوت نامہ آیا ۔دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ یہاں نہیں جانا۔دعوت دینے والوں کو دونوں نے معذرت کرتے ہوئے وجہ یہ گھڑی کہ اسی دن قریبی رشتہ داروں کے ہاں شادی کی تقریب ہے۔کسی کو برا لگے یا درست لگے'ابکائی آئے یا کٹھا ڈکار'نام نہاد مسلمانی مجروح ہو یا جعلی حمیت کو ٹھیس پہنچے'سچائی صرف یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کی زندگی جھوٹ سے شروع ہوتی ہے اور جھوٹ پر ختم ہوجاتی ہے'ایک قریبی عزیر کے بچے کی ولادت تھی۔

دارالحکومت کے ایک جانے پہچانے نجی ہسپتال میں بیوی کو داخل کرایا۔محض بل بڑھانے  کے لیے  ڈاکٹروں نے جھوٹ پر جھوٹ اور مزید جھوٹ بولا۔بغیر کسی وجہ کے بچے کو وینٹی لیٹر پر رکھا۔جو ضروری نہیں تھا وہ سب کروایا اور خریدوایا۔ آپریشن کیا گیا ۔ ایک ہفتے بعد زچہ ٹانکے کھلوانے گئی تو اسے دو گھنٹے انتظار یہ کہہ کر کرایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پر ہیں ۔حالانکہ ڈاکٹر صاحبہ دوسری ڈاکٹروں کے ساتھ چائے پی رہی تھیں اور کیک اڑا رہی تھیں۔

یہ ہمارے مسیحا ہیں !ایک معروف اینکر نے دو ماہ پہلے پریشانی میں بتایا کہ ان کے دل کا معاملہ تشویشناک ہو چلا ہے۔ تین دن بعد دو سٹنٹ پڑیں گے۔ڈاکٹر نے بتا دیا ہے۔تسلی کے لیے انہوں نے ایک جاننے والے ماہر امراض قلب سے رابطہ کیا ۔انہوں نے پورا معاملہ دیکھا اور فیصلہ دیا کہ پریشانی کی کوئی ضرورت نہیٰں۔ سٹنٹ ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مزید اطمینان کے لیے ایک عزیز دوست سے بیرون ملک مشورہ کیا۔وہ بھی ماہر امراض قلب تھے۔انہوں نے بھی یہی بتایا کہ سٹنٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔انہوں نے سٹنٹ نہیں ڈلوائے ان ہدایات پر عمل کیا جو ان واقف کار  ڈاکٹروں نے بتائیں۔ ماشااللہ خوش و خرم ہیں ۔
مسیحاؤں کے مکروہ رویے کی بات درمیان میں آن پڑی۔بات اس جھوٹ کے جالے کے بارے میں ہو رہی تھی جو پیدائش ہی سے زندگی کے ارد گرد بن دیاجاتا ہے۔شوہر بیوی سے کہتا ہے فلاں رشتہ دار سے نہیں ملنا۔بیوی چھپ کر ملتی ہے پھر جھوٹ بولتی ہے۔شوہر بیوی کو تنخواہ غلط بتاتا ہے۔جاتاکہیں اور  ہے'بیوی کو کچھ اور بتاتا ہے۔ماں باپ بچوں سے جھوٹ بولتے ہیں اور دن رات بولتے ہیں ۔ "میں یہیں ہوں کہیں نہیں جارہا"باپ بتاتا ہے۔تھوڑی دیر بعد باپ نظر نہیں آتا۔بچہ اسے ڈھونڈتا ہے مگر پاتا نہیں ۔بچے کی نفسیات میں یہ بات پتھر پر لکیر کی طرح جاگزیں ہوجاتی ہے کہ جھوٹ بولنا کوئی ایسی بات نہیں یہ تو پوری زندگی کا حصہ ہے۔روزمرہ کی طرح محاورہ ہے! فون کی گھنٹی بجتی ہے۔بچہ سنتا ہے۔باپ سامنے بیٹھا ہے۔اشارے سے اسے بتاتا ہے کہ کوئی میرا پوچھے تو میں گھر پر نہیں ہوں۔ معمار یا الیکڑیشن مزدوری مانگ رہا ہے۔"صاحب !آپ نے آج کا وعدہ کیا تھا"بچہ پاس کھڑا سن رہا ہے۔دیکھ رہا ہے باپ ڈھٹائی سے کہتا ہے 'یار وعدہ  تو کیا تھا مگر آج نہیں 'دو دن بعد لے لینا'دعوت میں جارہے ہیں ۔گھر سے نکلے ہی تاخیر سے۔پہنچ کر سبب یہ بتاتے ہیں کہ راستے میں ٹریفک بلا ک تھی۔بچہ ساتھ تھا۔وہ سن رہا تھا۔ ٹریفک ہر  گز بلاک نہیں تھی۔

یہ ہے وہ ماحول 'وہ فضا جس میں بچہ بڑا ہوا ہے۔ جھوٹ کا یہ مکروہ جال 'ہر طبقے نےاپنے گھرمیں بُنا ہوا ہے۔مستری ہے یا مزدور'افسر ہے یا کلرک' استاد ہے یا تاجر' اسمبلی کا ممبر ہے یا وزیر' کروڑ پتی صنعت کار ہے یا عام دکاندار 'مرد ہے یا عورت' بوڑھا ہے یا جوان۔کراچی میں ہے یا اسلام آباد میں ' لاہور میں یا ملتان میں یا کوئٹہ میں یا پشاور میں یا کسی چھوٹے موٹے قصبے میں ہے یا کسی دور افتادہ گاؤں میں ۔مذہبی ہے یا غیر مذہبی'ہر شخص ہر مرد ہر عورت رات دن جھوٹ بولتی ہے۔اہل مذہب کا رویہ ایک رمق بھر بھی مختلف نہیں ۔ایک قریبی عزیز کی بیٹی کا نکاح تھا۔یہ کالم نگار دلہن کی طرف سے وکیل بنایا گیا۔ مولانا صاحب رخصت ہوئے تو وعدہ کیا کہ کل فارم مکمل کرکے گھر پر پہنچا دیں گےتین دن انتظار کیا۔چوتھے دن پوچھا تو آدھا گھنٹہ مولانا نے کسی گھنٹی پر فون نہ اٹھایا۔پھر ایک "سنجیدہ" سا پیغام ایس ایم ایس کیا ۔فون اٹھایا ۔فرمانے لگے فارم تو مکمل ہے آپ آئے ہی نہیں "دوست نے منع کیا مگر کالم نگار نے ان سے تسلیم کرا لیا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا اور یہ کہ وعدہ خلافی کی ہے۔ غور کیجیے' یہ جھوٹ اس حد تک سرائیت کرچکا ہے کہ مولانا کو اس کا احساس ہی نہیں ! بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ لوگوں نے اعتراض کرنا چھوڑ دیا ہے۔مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مذہبی لوگوں کا ذکر بطور خاص کیا جارہا ہے۔وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔پھر جھوٹ اور وعدہ خلافی سے اجتناب صرف اہل مذہب پر ہی تو لازم نہیں !

ہمارے ہاں ان گھرو ں سے 'یہ بچے 'اس تربیت کے ساتھ نکلتے ہیں اور معاشرے میں پھیل جاتے ہیں ۔ بچہ تاجر بنتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔استاد  بنتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔یہاں تک کہ صدر بنتا ہے تو صاف کہتا ہے کہ وعدہ ہی کیا تھا 'وعدہ کوئی قرآن حدیث تھوڑی ہے۔وزیراعظم بنتا ہے تو قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر جھوٹ بولتا ہے۔عدالت میں اس جھوٹ کے بارے میں جرح ہوتی ہے تو وکیل پوری "شرافت "کے ساتھ کہتا ہے کہ اسمبلی میں کی گئی وہ تقریر تو سیاسی تھی ۔وزیراعظم خالو کو پہچاننے میں اڑھائی گھنٹے لگاتے ہیں !

یہ تو معاملے کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ وہ ہے جو اس بیوی نے دکھایا ہے۔اسےشک ہے کہ ٹریفک کا مسئلہ نہیں میاں دوستوں کے ساتھ بیٹھا گپیں ہانک رہا ہے۔یہ اعتماد کا فقدان ہے۔ہر شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کسی کی بات پر یقین نہیں کرتا! یہ ہے وہ وائرس جس نے معاشرے کو بے چین کررکھا ہے۔ہر پاکستانی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔کل چھت پڑنی ہے 'رات کو نیند نہیں آرہی اس لیے کہ یقین نہیں کل معمار مستری اور مزدور آئیں گے یا نہیں ! کل گاہک کو مال دینا ہے۔بے چینی یہ ہے کہ کل تک سپلائر یا ڈسٹری بیوٹر مال پہنچاتا ہےیا نہٰیں!بیگم میکے گئی ہے  کل  آنا ہے۔جانے وعدہ پورا کرتی ہے یا نہیں !

وعدہ  ایک  معاہدہ  ہے۔تحریری ہے یا زبانی ۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اب اس جھوٹ اور وعدہ  خلافی کی دوسری صورتیں دیکھیے۔ہوائی جہاز وقت پر پہنچانے کا قومی ائیرلائن نے وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ جھوٹا  ثابت ہوتا ہے۔ غور کیجیے 'تھائی ائیر لائن سنگا پور ائیر لائن کیوں نہیں جھوٹ بولتی۔ وہی گھر کی تربیت کا معاملہ۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ شاہراہ سال کے آخر میں بن جائے گی۔نہیں بنی۔سب جھوٹ پر بڑے ہوئے ہیں ۔نیا اسلام آباد ائیر پورٹ 2007 میں بننا شروع ہوا ۔گیارہ میں مکمل ہونا تھا۔سترہ گزر گیا ہے' ابھی تک آثار نہیں ۔وہی جھوٹ گھروں سے نکلا اور قوم کے اوپر افق سے افق تک چھا گیا۔سیاست دان وعدے کرکے ووٹ لیتا ہے۔وعدے جھوٹ نکلتے ہیں ۔بیوروکریٹ کہتا ہے کل آپ کی فائل پر فیصلہ ہوجائے گا۔نہیں ہوتا ۔ جھوٹ اس کی گھٹی میں ہے۔ پروفیسر کلاس میں نہیں آتا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ ہفتے میں اتنی کلاسیں پڑھائے گا'جھوٹا


ثابت ہوا۔ وقت پر دفتر کوئی نہیں آتا ۔وعدہ کیا تھا کہ آٹھ بجے آئیں گےاور چار بجے تک حاضر رہیں گے۔جھوٹ ۔سب جھوٹ!
اس وائرس کا جس دن علاج ہوگیا 'یہی ملک سوئٹزرلینڈ 'کینیڈا 'جاپان بن جائے گا۔ورنہ لاکھ میٹرو 'کروڑ اورنج ٹرین 'ہزاروں بجلی  کے کارخانے'کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔


Sunday, December 24, 2017

نواز شریف کا نظریاتی تعلق کس کے ساتھ ہے۔


دل اور دماغ باہم بر سرِ پیکار ہیں ۔

دل کہتا ہے میاں نواز شریف اقتدار  کی دُھن میں ملک  دشمنی  کی  حد تک نہیں جاسکتے!دماغ کے پاس ثبوت ہیں ۔ حوالے ہیں  ۔شہادتیں ہیں ۔ گواہیاں ہیں !

دل کہتا ہے اس دھرتی نے میاں صاحب کے ان بچوں کو بھی کھرب پتی بنا دیا ہے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔اور عالمِ ارواح میں ہیں ۔تین بار وہ وزیراعظم بنے،تینوں بار  پنجاب نے یہ تاج ان کے سر پر رکھا۔کیا اب وہ ان عناصر کے ساتھ گٹھ جوڑ کریں  گے جو  پاکستان بالخصوص پنجاب  کے دشمن ہیں ۔کُھلے دشمن 'ایسے کھلے دشمن کہ پوری دنیا جانتی ہے۔ایسےدشمن جو خود  دشمنی کا دن دھیاڑےڈنکے کی چوٹ پر اعتراف کرتے ہیں !نہیں! ایسا نہیں  ہوسکتا!میاں صاحب ایسا نہیں کرسکتے!

دماغ ہنستا ہے ۔طنزیہ ہنسی !قہقہہ لگاتا ہے!اخبارات سامنے رکھ دیتا ہے۔یوٹیوب لگا کر پوچھتا ہے  ۔اب بتاؤ!

دل خاموش ہوجا تا ہے!یہ دنیا  جذبات کے سہارے نہیں چلتی !یہ ٹھوس شہادتوں 'حقیقی واقعات اور ناقابلِ تردید سچائیوں کے بل پر قائم ہے!

بائیس دسمبر 2017 کے اخبارات کیا بتاتے ہیں ۔

"نواز شریف نے وزیراعظم عباسی کو ہدایت کی  کہ مولانا فضل الرحمٰن اور محمود اچکزئی کے تحفظات دور کیے بغیر فاٹا  اصلاحات بِل قومی اسمبلی میں نہ لایا جائے ۔نون لیگ فاٹا اصلاحات بل کی قیمت پر فضل الرحمٰن اور اچکزئی کی حکومت سے علیحدگی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔دونوں شخصیات راضی نہ ہوئیں تو حکومت فاٹا اصلاحات بل سے دستبردار ہوجائے گی!

یعنی مولانا  اور اچکزئی کے سوا اور کوئی بھی بل کی مخالفت نہیں کررہا۔یہ دو ہی مخالفت کررہے ہیں۔ان کا موقف ہےکہ فاٹا کا کے پی میں انضمام انہیں منظور نہیں! وزیراعظم ان دوکو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔

اس سے پہلےدودسمبر کو کوئٹہ کے ایک اجلاس میں نواز شریف نے اعلان کیا کہ "محمود اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے"!

آئیے دیکھتے ہیں،محمود اچکزئی کا نظریہ کیا ہے؟

جون 2016 ء میں  محمود اچکزئی نے "افغانستان ٹائمز"کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا افغانوں کا ہے اور وہ اس میں کسی خؤف کے بغیر رہ سکتے ہیں 'اچکزئی نے یہ بھی کہا کہ اگر افغان مہاجرین کو پاکستان  کے دوسرے  حصوں میں ہراساں  کیا جائے تو انہیں خیبر پختونخوا  آجانا چاہیےجہاں کوئی ان سے مہاجر کارڈ نہیں  چیک کرسکتا کیوں کہ یہ صوبہ افغانوں کا ہے ۔

2014ء میں معروف اینکر جناب مبشر لقمان نے ایک نجی ٹی وی  چینل پر بتایا کہ محمود اچکزئی کو 2013ء کا الیکشن جتوانے کے لیےافغان خفیہ اداروں نے  کئی ملین ڈالر دیے۔مبشر لقمان صاحب نے ایسے فوٹو اور ویڈیو دکھائیں  جن میں  محمود اچکزئی میجر جنرل عبدالرزاق کے ساتھ کھڑے ہیں  ۔یہ وہی جنرل عبدالرزاق ہے جو پاکستان دشمن اور بھارت نواز خفیہ سرگرمیوں کے لیے مشہور  ہے۔ٹی وی چینل پر ان دو بلٹ پروف لینڈ کروزرز کی تصویریں  بھی دکھائی گئیں جو افغان خفیہ ادارے نے محمود اچکزئی کو دیں ۔بتایا گیا کہ افغانستان سے اس  سیاست دان کو تیس لاکھ امیریکی ڈالر دیے گئے ہیں۔ایک اور اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی کم و بیش یہی باتیں  ایک اور چینل پر  کہیں ۔

انٹر نیٹ پر ایسی کئی ویڈیو آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں جن میں محمود اچکزئی جلسوں میں  پشتونستان زندہ باد  اور افغانستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں  مگر ان کے منہ سے پاکستان  کا نام نہیں نکلتا ۔

معروف اینکر پرسن ڈاکٹر دانش نے ٹوئٹر پر وزارتِ داخلہ کا ایک مراسلہ نشر کیا۔ مراسلہ فرید احمد خان سیکشن آفیسر وزارتِ  داخلہ اسلام آباد نے  دس مارچ 2001 کو لکھا  اس مراسلے کے مخاطب دو افراد ہیں ۔ سیکرٹری وزارتِ خارجہ اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ حکومت بلوچستان کوئٹہ۔ مراسلے کا عنوان ہے" یعنی ایران کی طرف  سے ملی عوامی پارٹی کی قیادت کے لیے مالی امداد  "۔

مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ رمضان نورزئی نامی ایک افغانی شہری نے"جو  ہلمند  کا رہنے والا ہےاور  ایرانی  ایجنسی" اطلاعات" کے لیے کام کرتا ہے'کوئٹہ میں ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کو دس لاکھ امریکی ڈالر دیے ہیں ۔محمود اچکزئی نے نواب محمد ایاز جوگیزئی کو ایک کروڑ روپے دیے جس  نے ایک گاڑی 29 لاکھ میں کراچی سے اپنے لیے خریدی۔رمضان نورزئی زاہدان میں ایرانی ایجنسی کے کرنل سردار دہقان کے ساتھ کام کرتا رہا۔رپورٹ کے مطابق کرنل دہقان کا بعد میں تبادلہ کردیا گیا  تیسرے او رآخری پیرا گراف میں  یہ مراسلہ بیان کرتا ہے کہ ایرانی ایجسنسی"اطلاعات" چاہتی ہے کہ شمالی اتحاد کی سرگرمیوں کو بلوچستان میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ذریعےکوآرڈی نیٹ  کرے اور اس مقصد کے لیے اس کی قیادت کو استعمال کرے۔عمومی رائے یہی ہے کہ تخریب کاروں  کو ٹھکانے فراہم کرنے کے لیے اور ایران  آنے جانے کے لیے اور دیگر  افراد کو تربیت دینے کے لیےایرانی حکومت کو بلوچستان کے مقامی افراد کی مدددرکار ہے۔ پختونخوا   ملی عوامی پارٹی کی قیادت ایران اور شمالی اتحاد کے ساتھ اس  مقصد کے لیے تعاون کررہی ہے۔،ڈاکٹر دانش کے ٹوئٹر اکاؤنٹ  میں  یہ مراسلہ باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔انگریزی روزنامہ نیشن نے چھ جولائی 2016 کی اشاعت میں اس مراسلے کے مندرجات 'کچھ دیگر تفصیلات کے  ساتھ رپورٹ کیے ہیں  ،رپورٹر کا نام جواد عوان ہے۔یہ جواد اعوان اس وقت روزنامہ 92 میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔

محمود اچکزئی کے نظریات  کی مزید تشریح کے لیے ٹیلی ویژن کے معروف صحافی جناب افتخار احمد کا  وہ انٹر ویو ضرور سننا چاہیے جو انہوں نے اچکزئی صاحب کا کیا تھا۔افتخار احمد نے ان سے پوچھا  کہ آپ نے ایک ہی بات تین مختلف اوقات میں تواتر سے کہی۔

نوائے وقت 28 جنوری 1993 ء میں 'پھر رونامہ جنگ 23 جنوری 1999ءمیں اور پھر میٹ دی پریس  پروگرام حیدرآباد میں دس نومبر 2001ء کے دن!

یہ کہ" پنجابی کالے انگریز ہیں  ۔ان کے دل اور رنگ دونوں  کالے ہیں  ۔ پختونوں  کے وسائل پر یہ کالے انگریز قابض ہیں  ۔اور یہ پاکستان نہیں پنجابستان ہے"۔

اچکزئی کےپاس اس   کا کچھ جواب نہ تھا۔آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔اس انٹر ویو اور بحث میں انہوں نے برملا کہا کہ وہ 1973ء کے آئین  کو نہیں مانتے اس آئین کو ختم کرکے نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ جب اس"نئے عمرانی  معاہدے" کے خدوخال پوچھے گئے تو ان کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ خیبر پختون خوا  اور بلوچستان کے پشتونوں کو ملا کر ایک الگ یونٹ بنایا جائے اور اس میں  اٹک اور میانوالی بھی شامل ہوں ۔

محمود اچکزئی یہ بھی برملا کہہ چکے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں تسلیم کرتے۔یہ ہیں محمود خان اچکزئی کے نظریات کی چند جھلکیاں ۔ جب میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے 'تو اس  کا سوائے اس کے اور  کیا  مطلب ہے کہ نواز شریف محمود اچکزئی کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں ؟

قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی موقع پر نواز شریف نے  یا ان کے کسی ترجمان نے  یا وزیر نے یا مسلم لیگ ن کے کسی عہدیدار نے محمود خان اچکزئی کے ان پاکستان دشمن بیانات کی تردید یا  مخالفت  نہیں  کی!کوئی پرویز رشید  سیخ پا نہیں  ہوا، کسی دانیال  عزیز نے زبان کے  جوہر نہ دکھائے۔ کسی طلال چوہدری نے مائک پر آ کر تبصرہ نہ کیا۔ مریم نواز کے کسی ٹویت نے محمود خان اچکزئی کے  بیانات کی مذمت نہ کی!

دماغ  جذبات کے دباؤ میں آتا ہے نہ من مانی تشریحات اور توجیہات کرتا ہے۔دماغ کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ میاں نواز شریف کا محمود اچکزئی کے ساتھ نظریاتی تعلق ہے اس لیے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ :میاں نواز شریف مانتے ہیں کہ

پنجابی کالے انگریز ہیں

پنجابیوں کے دلاور رنگ دونوں کالے ہیں

پختونوں  کے وسائل پر کالے انگریز قابض ہیں

یہ پاکستان نہیں 'پنجابستان ہے

ڈیورنڈ لائن کی کوئی حقیقت نہیں ۔

محمود خان اچکزئی نے افغان اور ایران سے بھاری رقوم وصول کیں ( جن کی تفصیل اوپر دی جاچکی ہے)

محمود خان اچکزئی'شمالی اتحاد اور ایرانی ایجنسی"اطلاعات"کے آلہٰء کار رہے۔

محمود خان اچکزئی کے مشہور پاکستان دشمن اور بھارت نواز میجر جنرل عبدالرزاق کے ساتھ تعلقات ہیں ۔

بلوچستان کے پختون علاقوں 'اٹک میانوالی اور کے پی پر مشتمل الگ پشتون اکائی وجود میں لائی جائے۔

1973ء کے آئین کو ختم کردینا چاہیے۔

یہ آئین پشتون علاقوں کے اتحاد میں حائل ہے۔

ا س میں کیا شک ہے کہ نواز شریف صاحب کی پاکستان میں اور  پاکستان کی سالمیت میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ ایک طرف پوری دنیا کے حکمرانوں میں سے صرف مودی کو وہ اپنی نواسی کی شادی پر بلاتے ہیں۔بیماری کے دورن لندن سے صرف مودی کو  فون پر اعتماد میں لیتے ہیں ۔'مری میں  بھارتی ایجنٹ سے' وزارتِ خارجہ سے بالا بالا خفیہ   ملاقات کرتے ہیں ۔ مذمت کا لفظ نہیں بولتے'دوسری طرف ان کا اتحاد محمود اچکزئی اور مولانا  فضل الرحمٰن سے ہے! اس سیاسی اتحاد کے علاوہ اچکزئی سے ان کا  نظریاتی تعلق بھی ہے جس کا علان واعتراف وہ جلسہ عام میں کرتے ہیں !

سارے پاکستان  میں 'انہیں  دو اتحادی قبول ہیں۔اچکزئی اور مولانا فضل الرحمٰن !مولانا کے بارے میں  معروف صحافیوں نے کئی بار لکھا ہے کہ  بھارت جاکر انہوں نے پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے انضمام کی  حمایت کی  تھی یا تجویز پیش کی تھی۔یہ بات پاکستان پہنچی تو قاضی حسین احمد مرحوم نے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور اسے ڈس انفارمیشن قرار دیا۔ مذہب کے علمبردار 'یعنی مذہب کے بزعمِ خویش علم بردار 'ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے ہیں ۔غلط دفاع کرتے ہیں ۔اس لیے کہ یہ بھی دوسرے طبقات کی مانند ایک طبقہ ہے۔اور یہ اپنے ساتھیوں کی حمایت کرنے کے لیے سچ کے سینے میں بھالا اتارنےسے دریغ نہیں کرتے۔یہی قاضی صاحب  مرحوم نے یہی کیا۔ مگر  سید منور حسن نے' کہ بہت سی  خامیوں  کے باوجود شمشیر برآں ہیں 'برملا مولانا فضل الرحمٰن کے بیان کی مذمت کی!مولانا   کو  معلوم ہے کہ فاٹاکے پی میں ضم ہوا تو وہاں کے باشندے پتھر کے زمانے سے نکل آئیں گے اور پروہتوں کو ووٹ نہیں ڈالیں گے۔مولانا کو راضی رکھنے کے لیے نواز شریف فاٹا کی پیٹھ میں  چھرا گھونپ رہے ہیں ۔

نواز شریف کے نزدیک فاٹایا پاکستان کے مسائل پر کاہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ان کی بلا سے  ۔انہیں  صرف اس سے غرض ہے کہ وہ حکمران بنیں ۔وہ نہ بن سکیں تو ان کی بیٹی اس ملک پر حکومت کرےوہ بھی نہ کرسکے تو ان کا بھائی۔ان کا وژن اس سے آگے دیکھنے سے قاصر ہے۔آنکھ میں پیچھے روشنی نہ رہےتو  چشمہ کام آتا ہے نہ سرجری!

اب ایک ہی کسر باقی رہ گئی ہے کہ وہ ان اتحادیوں کو خوش  رکھنے کے لیے قائداعظم کے مزار  پر کبھی حاضر  نہ ہونے کا اعلان کردیں ۔


Friday, December 22, 2017

راجہ بھوج اور گنگو تیلی


کیا قدیم زمانے کا انسان بہت لمبے قد کا تھا؟

اس کا جواب سائنس دان یا محققین یا اینتھروپالوجی کے ماہرین ہی دےسکتے ہیں۔ہاں سب کی طرح ہم نے بھی سنا ہے کہ ہمارے مقابلے میں اس زمانے کے قد زیادہ لمبے ہوتے تھے۔اس کالم نگار کو اردن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قبر مبارک دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کی لمبائی دیکھ کر حیرت ہوئی ۔کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تھی۔

آج کے زمانے میں حالات دیکھیں تو یہ بات' قد کی لمبائی والی' درست ہی لگتی ہے۔ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے قد کس قدر چھوٹے ہوگئے ہیں !جہاں شمشاد قد بیٹھتے تھے۔ وہاں بونے نظر آتے ہیں !جہاں دیو ہیکل تھے وہاں بالشتیے براجمان ہیں !تخت یا کرسی کے پایوں کے نیچے دو دو فٹ اونچی لکڑیاں رکھ کر بھی یہ بونے' یہ بالشتیے'یہ پستہ قد کردار'بلند قامت نہ ہوسکے۔

اس لیے کہ بلند قامتی مصنوعی اونچائی سے نہیں ملتی!
ذوالفقار علی بھٹوسے شروع کیجیے۔منفی پہلو بہت تھے،آمرانہ رجحانات شخصیت کا حصہ تھے،دلائی کیمپ تاریخ میں ان کے ساتھ چپکا ہوا ہے مگر بطور لیڈر بھٹو بلند قامت تھے۔لباس کا کیا اچھا ذوق تھا!فرنگی ملبوس بہت رکھ رکھاؤ سے پہنتے۔عوامی جلسوں میں شلوار قمیض کا فیشن شروع کیا تو پورے ملک پر فیشن چھا گیا۔کثرت سے اور باقاعدگی سے مطالعہ کرتے،انگریزی کمال کی لکھتے ۔اور بولتے تو دھاک بٹھا دیتے۔سیاسی جلسوں میں فن تقریر کی نئی سمت نکالی۔کم از کم اس کالم نگار کے ناقص علم میں ان کی مالی کرپشن کی کوئی کہانی نہیں ہے!صدر سو کارنو سے لے کر یاسر عرفات اور شاہ فیصل تک دوستی تھی۔پارٹی بنائی اور پھر اسے ایک بڑی سیاسی قوت میں تبدیل کیا۔

اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت دیکھیے اور اس بات پر ایمان لائیے کہ قد چھوٹے ہوگئے۔پارٹی سربراہ جناب آصف زرداری کی قابلیت فنِ خطابت پر ان کی گرفت.کتابیں پڑھنے کا شوق اور لکھنے کی مہارت او ر سب سے بڑھ کر دیانت اور امانت کے حوالے سے شہرت! عبرت کی جا ہے کہ قیادت کہاں سے کہاں آپہنچی۔جو عمارت بھٹو نے تعمیر کی تھی اب اس کے فقط کھنڈر باقی ہیں۔ان کھنڈرات پر مجاور بیٹھے ہیں!چادر چڑھا کر نذرانے وصول کرنے والے مجاور! پارٹی جاں بلب ہے کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے۔اسی لیے ان مجاوروں کو اب گورکن اور غسال درکار ہیں۔بقول ظفر اقبال
مجھے غسال ہی نہلائیں گے اب
بہت میلا کچیلا ہوگیا ہوں !

مسلم لیگ کا بخت دیکھیے! عبرت کی جیتی جاگتی مثال!آغاز قائداعظم سے ہوا۔اس قدو قامت کا لیڈر صدیوں بعدپیدا ہوا اور شاید کئی صدیوں تک نہ ملے۔جان کے دشمن بھی ایک پائی کی بد دیانتی نہ ڈھونڈ سکے۔ اصو ل پرستی اور آئین پسندی کی آخری حد سے بھی کوسوں آگے!زندگی بھر اپنی تعریف میں ایک لفظ نہ کہا!مقدمہ پہلے ختم ہوگیا تو رقم واپس کردی!پھر ذہانت و فطانت اور لیاقت اس درجے کی کہ مشرق و مغرب عش عش کر اٹھا!پیسہ کمایا بھی تو زورِ بازو سے!طعنہ ملا کہ گاندھی جی کانگریس کے خرچ پر سفر کرتے ہیں۔ریل کے تیسرے درجے میں سفر کرتے ہیں اور آپ ہیں کہ فرسٹ کلاس میں! جواب دیا کہ گاندھی جی کا نگریس کے خرچ پر سفر کرتے ہیں،میں اپنی جیب سے ٹکٹ لیتا ہوں!وقت کی پابندی قابلِ رشک!لباس کے معاملے میں ذوق داستانوی حد تک طلسمی! متانت اس قدر کہ زندگی بھر کچی بات نہ کی!رعب اتنا کہ بڑے بڑے سردار،نواب زادے،یہاں تک کہ انگریز بھی سوچ کر'ناپ تول کر'ان سے بات کرتے۔سرکاری خزانے کی اس قدر حفاظت اور اتنی احتیاط کہ گزرے زمانے یاد دلا گئے۔سرکاری گاڑی اورگورنر جنرل کے استعمال کے لیے جہاز خریدنا پڑا تو اس قدر فکر کہ کم سے کم خرچ ہو! پھر قوتِ بیان ایسی اور اندازِ تقریر ایسا کہ ایک ایک لفظ سے کوہسار جیسا عزم چھلک چھلک پڑتا ہو۔حسنِ نیت اور اخلاص کی برکت تھی کہ انگریزی معلٰی میں تقریر کرتے اور کچھ نہ سمجھنے والے عوام یوں بیٹھے رہتے اور یوں زبانِ حال سے تصدیق کرتے جیسے الفاظ قائد کے منہ سے نہیں ' بادلوں کے اس پار سے اتر رہے ہوں !بمبئی اور دہلی میں محلات چھوڑ آئے'گورنر جنرل ہو کر ایک خشت تک اپنے لیے حاصل نہ کی!

اُسی قائد اعظم کی جماعت مسلم لیگ اب میاں نواز شریف کی باندی بنی ہوئی ہے۔اب نہیں 'تین عشرے ہونے کو ہیں! قوتِ تقریر متانت اور رعب سب کےسامنے ہے۔کچھ بیان کرنے کی حاجت ہے نہ گنجائش! جس مسلم لیگ کے قائد نے بسترِ مرگ پر 'لاہور سے آیا ہوا باورچی واپس کردیا تھا اور جورابیں نہیں لی تھیں کہ مہنگی ہیں 'اُسی مسلم لیگ کا قائد اب تین کروڑ (یا اس سے زیادہ کی) گھڑی کلائی پر باندھتا ہے۔ پورا سالم ہوائی جہاز 'اپنے لیے خالی' لندن منگواتا ہےاور کھڑا رہتا ہے۔غسل خانے پر بیت المال سے کروڑوں روپے صرف کردیتا ہے۔ وزارتِ اعظمٰی سے نا اہل ہوکر بھی سرکاری پروٹوکول 'مراعات'سرکاری اہلکار اور افسر اپنی اردل میں یوں بٹھاتا ہے جیسے بیت المال نہ ہو'شیرِ مادر ہو! آپ کا کیا خیا ل ہے کہ قائداعظم بیمار ہوتے تو کیا ان کے فرائض ان کی جگہ ان کی وہ بیٹی سرانجام دیتی جو حکومت میں ہوتی نہ پارلیمنٹ میں ' نہ پارٹی کا ہی عہدہ اس کے پاس ہوتا!اور آپ کا کیا خیال ہے کہ قائداعظم امریکی صدر سے ملتے تو جیب سے چٹیں نکال کرایک ایک لفظ منہ سے یوں نکالتے جیسے بچہ سبق ازبر کررہا ہو'اور آپ کا کیا خٰیال ہے قائداعظم بھارت جاتے تو وہاں تاجروں کے گھر جاتے اور کیا مری میں بھارتی سیٹھوں سے'وزارت خارجہ کو بے خبر رکھ کر' ملتے؟ اور آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم درجنوں فیکٹریوں اور لندن کے فلیٹوں اور جدہ دبئی اور قطر کی جائیدادوں کے مالک ہوتے ؟اور کیا کرپشن کے مقدمات میں سر سے لے کر پاؤں تک لتھڑے ہوتے؟اور آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم پارٹی کے صدر ہوتے تو او آئی سی کے اجلاس میں ترکی اپنے بھائی کو جانے کی اجازت دیتے؟اور خدانخواستہ عدالت آتے تو کیا تیس تیس گاڑیاں اور سرکاری اہلکاروں کے جتھوں کے جتھےان کے ساتھ پروٹوکول کا تزک و احتشام دکھاتے؟اور کیا قائداعظم کا دفاع عابد شیر علی 'دانیال عزیز' طلال چوہدری'اور ضنیف عباسی کرتے؟

کس آسمان پر تھی مسلم لیگ او رکس اسفل السافلین میں آن گری ہے!جی چاہتا ہے بال کھول لیےجائیں اور کمر کے ساتھ پٹکا باندھ کر ایسا ماتم'ایسی آہ و زاری 'ایسی سینہ کوبی کی جائے کہ فرشتے ماتم میں شریک ہوجائیں ،آسمان گر پڑے اور زمین پھٹ جائے۔پھر 'پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا سوچیے،دنیا سے گئے تو بنک میں چند ہزار روپے تھے اور بیوہ کے لیے چھت تک نہ تھی۔اس کے مقابلے میں آج کی قیادت کے اثاثے دیکھیے، صرف تصور ہی سے روح کانپنے لگتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں !آنکھیں بند کرکے سوچیےکیا قائداعظم احتساب کا اور دیانت کا لباس یہ کہہ کر تار تار کرتے کہ "میرے اخراجات میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو تمھیں کیا؟"

جماعت اسلامی کا زوال دیکھیے 'اس کے بانی سید ابو اعلٰی مودودی تھے! پچیس برس کے بھی نہ ہوئے تھےکہ الجہاد فی الاسلام جیسا شاہکار تصنیف کیا۔

تصانیف کی تعداد حیران کن !مضامین کا تنوع قابلِ رشک!"سلاجقہ " سے لے کر تفہیم القرآن تک'تنقیحات سے لے کر "سود "اور "پردہ" جس موضؤع پر قلم اٹھایا حق ادا کردیا۔ اردو ادب کو نثر کا نیااسلوب دیا ۔پھر تحریر میں مولویت نہ جذباتیت!خالص استدلالی اور سائنسی اندزِ بیان! یہی حال تقریر کا تھا!گھن گرج نہ نعرے'چیخ نہ لَے'صرف'اور صرف دلائل'پھر ایک حلقہ ارباب قلم اپنے گرد باندھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک !ملک غلام علی ' خلیل حامدی'عبدالحمید صدیقی'مصباح الاسلام فاروقی'نعیم صدیقی اور کئی ستاروں جیسے چمکتے دمکتےسکالر اور! ہر ایک اپنے میدان کا شہسوار !پھر گفتگومیں متانت !فیض صاحب اور مولانا ابو الاعلٰی مودودی دو ابطال ہیں جنہوں نے زندگی بھر مخالفین کے متعلق خاموشی اختیار کی۔صبر کیا اور جوابی حملہ نہ کیا۔لباس میں ابوالاعلٰی مودودی حد درجہ نفاست پسند اور منظم! کبھی ڈھیلی 'کچی 'لاابالی'بڑبولی بات نہ کی!اب جماعت کی قیادت سراج الحق صاحب کے پاس ہے پرسو ں کراچی خطاب میں دعویٰ کیا کہ 2018 میں بیت المقدس آزاد ہوجائے گااور پاکستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی!آپ کا کیا خیال ہے ابوالاعلٰی مودودی ایسا دعویٰ کسی جلسے میں کرتے؟اور کیا وہ جس جماعت کی قیادت پر رات دن کرپشن کا الزام لگاتے' آزاد کشمیر میں اسی سے اتحاد کرلیتے؟ او رکیا ابوالاعلٰی ہوتے تو لسانی بنیاد پر مولانا فضل ا لرحمٰن اور اچکزئی جیسے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے؟

وہی جماعت اسلامی جس پر سکالر' محقق' ماہرین لغت' مفسر 'شاعر چھتری کی طرح سایہ کیے ہوئے تھے'وہی جماعت اسلامی اب جن افراد کے حضور سر جھکائے شرمندہ کھڑی ہے'وہ ایک صفحہ لکھنے سے قاصر ہیں 'ایک سماعت کو متاثر نہیں کرسکتے'ہا ں پراپرٹی کے معاملات اور کاروبار کے اسرار و رموز کوئی سیکھنا چاہے تو ان سے بڑا ماہر کوئی نہیں ملے گا!ابوالاعلٰی کا لباس دیکھ کر شخصیت کا کیا تاثر ملتا تھا اور اب کیا تاثر ملتا ہے!!

تو اس میں تعجب کی بات ہی کیا ہے اگر اگلے وقتوں میں قامتیں بلند تھیں ! اور اب بونے اور بالشتیےپیش منظر پر چھا گئے ہیں ۔



Wednesday, December 20, 2017

معاف کیجیے!میں جلدی میں ہوں


سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت بنے!

اس لیے کہ دفاع پاکستان کونسل میدان میں اتر چکی ہے۔ اس نے فیصلہ سنا دیا  ہے کہ امریکہ نے اعلان واپس  نہ کیا تو کھلی جنگ ہوگی!اور جو کام امریکہ کے افغانستان آنے پر نہیں  ہوا وہ  بیت المقدس میں ہو گا اور یہ کہ وزیراعظم اسلام آباد میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلانے کا اعلان کریں اور مسلمان ممالک  امریکی سفارت خانے بند کرٰیں اور یہ کہ یمن اور عراق جنگ کے پیچھے یہودی سازشیں ہیں اور  یہ کہ ہمیں  امت کو جگانا ہے اور یہ کہ ٹرمپ کا اعلان کھلی جنگ ہے مسلم ملکوں کے سربراہ اس چیلنج کو قبول کریں ۔ مسلم حکمران بروقت اقدام اٹھائیں ورنہ علماء جہاد کا  فتویٰ دیں گے اور یہ کہ بیت المقدس کے دفاع کے لیے   سب سے پہلے ہمارا خون بہے گا!

بیت المقدس کے اسرائیلی دارالحکومت بننے کا دور دور تک امکان نہیں ۔ کیونکہ دفاع پاکستان کونسل میدان میں اتر چکی ہے ۔ تاہم دفاع پاکستان کونسل سے مندرجہ ذیل سوالات نہ پوچھے جائیں۔

 کھلی جنگ کیسی ہوگی؟کیا اب خفیہ جنگ ہورہی ہے؟یہ خفیہ جنگ کہاں ہورہی ہے؟کون لڑرہا ہے؟

"جوکام امریکہ کے افغانستان آنے پر نہیں ہوا'وہ بیت المقدس میں ہوگا"یہ کون ساکام ہے؟ہم تو دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کو عبرت ناک شکست ہوئی ہے۔کیا نہیں ہوئی؟

وزیراعظم اسلام آباد میں سربراہی کانفرنس بلائیں تو کیا دفاع پاکستان کونسل اس کانفرنس سے مطمئن  نہیں جو ابھی اردوان نے ترکی میں بلائی تھی؟

لاہور میں دفاع پاکستان کونسل نے مسلم ممالک کو امریکی سفارت خانے بند کرنے کا جو حکم دیا ہے کیا وہ انڈونیشیا 'ملائشیا'مراکش'تیونس'سعودی عرب اور دوسرے ممالک کے سربراہوں  کو موصول ہوگیا ہے؟

ہمیں امت کو جگانا ہے۔ تو کیا  اب امت سوئی ہوئی ہے؟اگر سوئی ہوئی ہے تو کب سے سوئی ہوئی ہے؟

مسلم ممالک کے سربراہ ٹرمپ کے چیلنج کو قبول کریں ۔ کیسے قبول کریں ؟کیا کریں؟دفاع پاکستان کونسل مسلم  سربراہوں سے خود رابطہ کیوں نہیں کرتی؟

مسلم حکمران بروقت قدم نہیں اٹھائیں  گے تو علما جہاد فتویٰ دیں گے' جہاد کا فتویٰ دیا گیا تو جہاد کرنے والے پاکستانی بیت المقدس کیسے پہنچیں گے؟سمندری راستے سے یا  یا خشکی کے راستے سے؟کیا وہ ایران اور راستے میں پڑنے والے دوسرے ملکوں سے ویزے لیں گے؟اگر سمندری راستے سے جائیں گے تو بحری جہازوں کا اہتمام کون کرے گا؟روٹ کیا ہوگا۔ کیا یہ جہاز بحرِ ہند سے براہ راست بحیرہ احمر میں داخل ہوں گے؟کیا ہمارے علماء کرام کو علم ہے کہ بیت المقدس اور پاکستان کے درمیان کون کون سے ممالک یا کون کون سے سمندری روٹ واقع ہیں ؟

یمن اور عراق جنگ کے پیچھے یہودی سازش ہے تو کیا سعودی عرب اور ایران اور دوسرے اسلامی ممالک اس یہودی سازش کا مہرہ ہیں ؟کیا آپ نے یہ سازش خود پکڑی ہے؟سب سے پہلے آپ کا خون بہے گا۔بجا۔ مگر کب بہے گا؟ آپ کا اس ضمن میں ذریعہ اطلاعات کیا ہے؟

ٹرمپ کی شکست دیوار پر صاف صاف لکھی ہے کیونکہ امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق بھی میدان میں اتر چکے ہیں ۔آپ نے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ "اسلامی فوجی اتحاد"بیت المقدس اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے واضح طور پر اپنے ایجنڈے کا اعلان کرے۔آپ نے فیصلہ صادر کیا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کسی طور تسلیم نہیں کیا جائے گا ملین مارچ اس بات کی علامت ہے کہ مسلم عوام جاگ رہے ہیں   اور یہ کہ جب تک ایک بھی مسلمان دنیا میں موجود ہے القدس اسرائیل کا دارالحکومت نہیں بن سکتا۔ یہ کہ 2018 ء بیت المقدس اور کشمیر کی آزادی کا سال ثابت ہوگا اور ملک میں  اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی۔ ایک اور مقرر نے مولانا سراج الحق کی موجودگی میں کہا کہ مسجد اقصٰٰی ایک دن ضرور آزاد ہوگی۔

 محترم سراج الحق صاحب کے ان جرات مندانہ احکام اور فیصلوں  کے بعد کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ ٹرمپ  منہ کی  کھائے گا۔ تاہم اس ضمن میں 'لازم ہے ' کہ مندرجہ ذیل سوالات جو ذہن میں در آتے ہیں 'ہرگز نہ پوچھے جائیں ۔

"اسلامی فوجی اتحاد" جس "ملک" نے بنایا ہے 'اس "ملک" سے براہ راست یہ مطالبہ کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ آپ نے یہ حکم " اسلامی فوجی اتحاد" کو براہ راست دیا  ہے؟اس کا سربراہ کون ہے؟ آپ نے یہ حکم کس شخصیت کو دیا ہے؟

بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کسی طور تسلیم  نہیں کیا جائے گا !بجا فرمایا ۔مگر تسلیم کرنے نہ کرنے کا کام حکومتوں کا ہے۔کیا آپ نے یہ اعلان حکومت پاکستان کی طرف  سے یا اس  کے ایماء  پر کیا ہے؟ یا کیا ساری مسلم حکومتوں  کی طرف سے کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ  یقین دہانی آپ کو  پچپن مسلمان ملکوں کی حکومتوں نے زبانی کرائی ہےیا تحریری ؟کیا اس ضمن میں عوام کو اعتماد میں  لیں گے؟

 ملین مارچ اس بات کی علامت  ہے کہ مسلم عوام جاگ رہے ہیں !جس دن سراج الحق صاحب نے مسلم عوام کے جاگنے کی خبر دی ہے'اسی دن لاہور میں  "دفاع پاکستان کونسل"نے اعلان کیا ہے کہ امت کو جگانا ہے۔ اس کونسل میں سراج صاحب اور ان کی پارٹی کی نمائندگی ان کی پارٹی کے ایک سرکردہ لیڈر کر رہے تھے۔ اگر  امت سو رہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم عوام جاگ رہے ہیں ؟ کیا مسلم عوام وار امت دو مختلف وجود ہیں ؟

 جب تک ایک بھی مسلمان دنیا میں موجود ہے القدس اسرائیل کا دارالحکومت نہیں بن سکتا ۔ جب اسرائیل بنا تھا تو کیا دنیا میں  ایک مسلمان بھی موجود نہیں تھا ؟ یا آپ  امریکہ کو یہ کہہ کر جب تک ایک مسلمان بھی موجود ہے'تم اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوسکتے'کوئی اور پیغام دے رہے ہیں ؟

 "2018ء بیت المقدس اور کشمیر کی آزادی کا سال ثابت ہوگا اور ملک میں اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی"اس پیش گوئی کی بنیاد کیا ہے؟آپ کا سورس کیا ہے؟ اگر 2018 میں یہ تینوں کام نہ ہوئے تو کیا آپ اعتراف کریں گے کہ آپ نے غلط دعویٰ کیا تھا؟ اگر 2018ء میں ملک میں اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی تو کیا اس  وقت ملک میں  کافرانہ حکومت ہے؟

یہ جو ایک  مقرر نے سراج الحق صاحب کی موجودگی میں کہا ہے کہ مسجد اقصٰی ایک دن ضرور آزاد ہوگی ۔ تو کیا اسے اس اعلان پر یقین نہیں ہے  کہ یہ کام 2018ء میں ہوجائے گا؟کیا وہ اعلان کی تردید کررہا تھا؟ اس کی اسی وقت تصحیح کیوں نہ کی گئی؟ملین مارچ میں شریک ملین یعنی دس لاکھ عوام کون سی بات پر یقین کریں ؟ 2018ء والی پر یا اس بات پر کہ ایک دن مسجدِ اقصٰی ضرور آزاد ہوگی؟اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ 2018ء میں صرف بیت المقدس آزاد ہوگا یا پورا فلسطین؟اور 2018ء میں پاکستان میں جس اسلامی حکومت کی بنیاد پڑے گی اس کا سربراہ کون ہوگا؟

 یہ تمام سوالات ناروا ہیں !دفاع پاکستان کونسل اور ملین مارچ کے جلسوں میں جو احکام صادر کئے گئے ہیں اور جو فیصلے سنائے گئے ہیں ان کی حقانیت پر شبہ کرنے والے کو اپنے دین ایمان کی خیر منانا چاہیے۔

 ان احکام اور فیصلوں پر مسلم دنیا کے حکمرانوں نے عمل کرنا  بھی شروع کردیاہے یوں امکان ہے کہ 2018ء کا سال شروع ہونے سے پہلے ہی القدس اور مقبوضہ کشمیر آزاد ہوجائیں 'ہمیں  اس حقیقت پر فخر کرنا چاہیے کہ ہمارے ان رہنماؤں کے رابطے مسلم دنیا کے حکمرانوں سے براہ راست قائم ہوچکے ہیں اور حکومت پاکستان اس سارے معاملے سے باہر ہے۔ایسا نہ ہوتا تو یہ اعلانات' یہ احکام' یہ فیصلے'   حکومت پاکستان کے ترجمان کے ذریعے منظر عام پر آتے۔

بیت المقدس کی آزادی اور ٹرمپ کی شکست فاش کی طرف اولین قدم مشرق وسطٰٰی کے ایک اہم اسلامی ملک کے ولی عہد نے بڑھایا ہے یہ  اہم اسلامی ملک پوری دنیا  کے مسلمانوں  کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور الحمدللہ پہلا پتھر اسرائیل اور  اس کے بے شرم مربی ٹرمپ کی طرف اسی ملک کے ولی عہد بہادر نے پھینکا ہے۔ تفصیل اس ایمان افروز اقدام کی یوں ہے کہ ولی عہد نے دنیا کی گراں ترین رہائش گاہ خریدی ہے۔یہ فرانس میں واقع ہے ۔یہ عظیم الشان محل ولی عہد نے 30 کروڑ میں خریدا ہے۔جو حضرات یہ قیمت پاکستانی کرنسی میں جاننا چاہتے ہیں وہ اسے ایک سودس سے ضرب دے کر دیکھ لیں یہ اور بات کہ ڈالر ایک سودس  روپے کو کراس کرچکا ہے!
 گزشتہ برس اس مقدس ملک کے بجٹ کا خسارہ 79 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تو اس خسارے کے مداوے کے لیےمملکت میں ٹیکس بڑھا دیےگئے۔ شاہی خاندان کے دو سو افراد قید کرکے ان سے بھاری رقوم وصول کی گئیں۔

یہ رہائش  گاہ جو اسرائیل اور امریکہ کا سر کچلنے کے لیے خریدی گئی ہے 'چھ سو بیس ایکڑ پر محیط ہے اس میں ایک فلم  تھیٹر بھی ہے"مشروبات "کو خیرہ کرنے کے لیے گودام  cellar

بھی ہے

 اس میں گہرے پانی سے بھری ایک  خندق بھی ہے جس میں زیر زمین کمرے نظر آتے ہیں ۔دس خواب گاہیں  ہیں چھت والے اور بغیر چھت کے حوض ہیں ۔

کھیل کے میدا ن ہیں  اور نائٹ کلب بھی ہے  اس گھر میں جو فوارے ہیں اور روشنیاں ہیں اور ائیر کنڈیشننگ ہے،وہ سب ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کام کرتے ہیں اور اس ریموٹ کنٹرول کا مرکز موبائل فون میں ہے۔

 یہ رہائش گاہ جواسرائیل اور ٹرمپ پر ایٹم بم بن کر گری ہے اور جس نے ان کے پرخچے اڑا دیے ہیں' واحد ہتھیار نہیں جو امت کی طرف سے اٹھایا گیا ہےاس کےساتھ یہ جہاں پناہ نے ایک یاچ (تفریحی بجرا، بھری جہاز) بھی خریدا ہے۔ اس کی قیمت پچاس کروڑ ڈالر ادا کی گئی ہے۔ ایک تصویر (پینٹنگ) جس کی مالیت 45 کروڑ ڈالر ہے'اس کے علاوہ ہے!
 معاف کیجیے'میں جلدی میں ہوں ۔2018ء میں بیت المقدس  اورکشمیر آزاد ہورہے ہیں۔آزادی کے بعد یہاں جو حکومتیں اور انتظامی ڈھانچہ بنے گا'اس کی ساری منصوبہ بندی میرے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔دعا کیجیے کہ میں اس مبارک ذمہ داری سے کامیابی سے عہدہ برآ ہوسکوں ۔  


Monday, December 18, 2017

باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور


الیگزینڈر برنس سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا  ۔سولہ سال کی عمر میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں  بھرتی ہوگیا۔ ذہانت خداداد تھی۔جلد ہی اردو اور فارسی میں مہارت حاصل  کرلی۔

1822 میں کمپنی نے اسے سُورت میں  ترجمان مقرر کردیا۔ زبانوں میں مہارت کے باعث افغانستان اور وسط ایشیاء میں اس کی دلچسپی بڑھنے لگی۔یہ زمانہ گریٹ گیم کے عروج کا تھا۔روس جنوب کی طرف بڑھ رہا تھا ۔دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی اپنا بارڈر ستلج تک لے آئی تھی۔دونوں استعماری طاقتیں  ایک دوسرے سے خائف تھیں اور گمان کر رہی  تھیں کہ گھمسان کا رن درمیان میں یعنی افغانستان میں پڑے گا۔برطانیہ نے برنس کو جاسوس بنا کر بخارا بھیجا جہا ں سے اس نے انتہائی کارآمد معلومات ارسال کیں ۔

1831
 میں برنس برطانیہ کے بادشاہ کی طرف  سے رنجیت سنگھ کے لیے گھوڑوں کا تحفہ لے کر لاہور آیا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے بہانہ بنایا کہ گھوڑے خشکی کے راستے سفر نہیں کر پائیں گے 'چنانچہ سندھ پہنچ کر یہ گھوڑے دریائے سندھ کے ذریعے لائے گئے۔ اصل مقصد سندھ کا مشاہدہ کرنا اور دریائی راستے کا نقشہ بنانا تھا۔

برنس کو 1841 میں افغانوں  نے کابل میں قتل  کردیا ۔اس کا تذکرہ یہاں اس  رائے کے حوالے سے کیا جارہا ہے جو قیام لاہور کے درمیان اس نے رنجیت سنگھ کے بارے میں لکھی۔ اس نے لکھا:

"ایک آنکھ والے اس شخص کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں۔ قامت پانچ فٹ تین انچ سے زیادہ نہیں!نمود و نمائش سے دور ہے مگر دربار پر اس کی ہیبت چھائی رہتی ہے۔ میں کسی ایشیائی سے اتنا متاثر  نہیں ہوا جتنا رنجیت سنگھ سے ہوا ہوں ۔ تعلیم ہے نہ کسی کی رہنمائی مگر سلطنت کے امور کمال مہارت اور چابکدستی سے نمٹاتا ہے"۔

اب جیک مانٹ کے تاثرات سنیے۔ جیک مانٹ فرانسیسی تھا۔ علمِ  نباتات کا ماہر اور جڑی بوٹیوں کا شائق۔ اسی زمانے میں وہ کلکتہ اور دہلی سے ہوتا ہوا لاہور پہنچا۔ ہمالیہ کے دامن میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں  اور پودوں پر تحقیق کی۔رنجیت سنگھ کے بارے میں اس نے لکھا:

"یہ پہلا ہندوستانی ہے جسے میں نے متجسس پایا۔اس کی ساری قوم میں جو بے حسی پائی جاتی ہے،اس کی کمی اس کے تجسس نے پوری کردی ہے۔اس نے مجھ سے کئی سو ہزار سوال پوچھے۔برطانیہ ،یورپ ،نپولین،دنیا ،آخرت،جہنم،بہشت،روح،خدا،شیطان اور دیگر ہزار ہا موضوعات پر اس نے بے شمار سوالات کیے۔

ان پڑھ رنجیت سنگھ نے جیتے جی انگریز کو ستلج پار نہ کرنے دیا۔پنجاب کے سکھ سرداروں اور مسلمان نوابوں کو اس نے باجگزار بنا کررکھا۔معلومات  ،حاضر  جوابی اور اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بارہا انگریزوں ،فرانسیسیوں اور  افغانیوں سے کامیاب مذاکرات کیے۔پنجاب کی قسمت دیکھیے کہ پونے دو سال بعد اسی مٹی سے ایک اور حکمران ابھرا جو  بظاہر پڑھا لکھا ہے مگر آئے دن اس کی معلومات اور علم کے بارے میں ہوشربا انکشافات ہورہے ہیں ۔ایک معروف کالم نگار نے'جو انگریزی سے اردو کالموں کی طرف آئے ہیں ۔بتایا ہے کہ موصوف نے ایک بار سعودی عرب کی مثال دے کر فرمایا کہ وہاں تو  ٹیکس لگتا ہی نہیں۔اس سے سوائے اس کے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ انہیں پاکستان کی قومی آمدنی  کے ذرائع بارے میں کچھ نہیں معلوم  ورنہ سعودی عرب کی مثال نہ دیتے۔

رنجیت سنگھ کے زمانے میں گورنمنٹ کالج کا وجود نہ تھا لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہوتا تو رنجیت سنگھ  امتحان خود دیتا۔ اس کی جگہ  کمرہ امتحان میں کوئی   نقلی رنجیت سنگھ نہ حاضر ہوتا۔اس کا بخت اچھا تھا کہ پڑھا لکھا نہ تھا۔ ہوتا تو انگریزوں  فرانسیسیوں اور افغانوں ،کشمیریوں  اور سندھیوں سے سرکاری بات چیت کرتے وقت جیب سے چٹیں نہ نکالتا۔فائلیں خود پڑھتا۔تعجب ہے کہ  ناخواندہ ہوتے ہوئے بھی اسے بین الاقوامی امور پر  عبور حاصل تھا۔یہاں یہ حال ہے کہ خارجہ امور کے بارے میں  کبھی بھول کر بھی گفتگو نہ کی۔ تعلیم ،زرعی اصلاحات ،بیرونی قرضے ،ان کی لغت میں موجود  ہی نہ تھے۔کبھی کوئی فائل پڑھی نہ کوئی اہم دستاویز۔

تاریخ میں حیرت کے کتنے باب باندھے جائیں گے صرف اس موضوع پر کہ کیسے کیسے افراد کو قسمت نے تخت پر لابٹھایا اور  تاج پہنایا، قسمت سے زیادہ ایسے حادثوں کی ذمہ داری حالات اور نظام پر ہے۔ صدر ایوب خان نے عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا۔اس کا علم بھی اسی طرح حد سے زیادہ "متاثر" کرتا تھا۔ مشہور ہے کہ  ثقافت میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کا وفد ملا۔درخواست کی کہ ڈھاکہ ریڈیو سے ٹیگور کے گیتوں پر پابندی ہے ۔ازراہِ کرم اٹھا دیجیے۔فرمایا کہ تم لوگ خود کیوں  نہیں ٹیگور کے گیت لکھتے؟

اس کی شخصیت اور  مجموعی تاثر  کو دیکھتے ہوئے

؎بڑھا بھی دیتے تھے کچھ زیبِ داستاں کے لیے

خان صاحب(یعنی عبدالمنعم خان)ماوزے تنگ سے ملے۔ ان سے پوچھنے لگے کہ ہمارے ملک میں اشتراکیوں کے دو گروہ  ہیں ایک ماسکو نواز اور دوسرا پیکنگ نواز(اس زمانے میں  بیجنگ کو پیکنگ کہتے تھے) آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے؟ ایک لطیفہ یہ  مشہور تھا کہ ڈھاکہ ائیر پورٹ پر خان صاحب نے بطور گورنر صدر ایوب خان کا استقبال کیا ۔گلے ملتے وقت،ایوب خان کو کوئی شئے چُبھی۔تلاشی لینے پر  دیکھا گیا کہ ایوب خان کی تصنیف فرینڈز ناٹ ماسٹرز  عبدالمنعم خان نے سینے کے ساتھ لپٹائی ہوئی تھی!

بڑے بھائی کا علم و فضل کیا کم تھا کہ اب  برادرِ خورد کو مستقبل کا بادشاہ بتایا جارہا ہے او رعمران کے مقابل لایا جارہاہے۔آخر عمران کا کرپشن کے ان  غیر متنازعہ ،مصدقہ اور رسوائے زمانہ کھلاڑیوں سے کس طرح مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔دنیا تسلیم کررہی ہے کہ کےپی  میں پولیس سیاسی آلودگی سے پاک ہوچکی ہے۔روایت ہے کہ سندھ کے آئی جی ،اے ڈی خواجہ نے، جو اپنی دیانت داری کی وجہ سے سندھ حکومت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں،کہا کہ انہیں سندھ میں کے پی پولیس جیسا سسٹم چاہیے۔ایک ارب درخت لگانے کے علاوہ عمران  خان کی ٹوپی میں کامیابی کے کئی پَر ہیں۔لاکھوں طلبہ پرائیویٹ سکولوں سے اٹھ  کر سرکاری سکولوں میں آگئے ہیں ۔ہسپتالوں میں نظام بدل گیا ہے۔ عمران خان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ۔ اس کے کسی رشتہ دار نے صوبائی حکومت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔پنجاب میں اس کے برعکس پولیس  وزیراعلیٰ کی کنیز  سے زیادہ نہیں۔لاہور شہر میں  ایک  رات  میں درجنوں ڈاکے پڑتے ہیں۔ حاکم کا پنجاب رائے ونڈ سے شروع ہوتا ہے اور ماڈل ٹاؤن پر ختم ہوجاتا ہے۔

ابھی تین دن پہلے معروف کالم نگار رؤف کلاسرہ نے ڈنکے کی چوٹ پر الزام لگایا ہے کہ وزیراعلٰی کی خواہر نسبتی کے ساتھ شادی کرنے والے شخص کو بورڈ آف  انویسٹمنٹ کا سربراہ لگا دیا گیا ہے۔وزیراعلی کو چاہیے تھا کہ صحافی کو عدالت لے جاتے ،یا کم از کم الزام کی تردید ہی کردیتے مگر یہاں کوئی ایک الزام ہو تو  تردید کی جائے ۔راولپنڈی میں حکمران جماعت کے لیڈر نے تھانے پر باقائدہ حملہ کیا اور ملزموں کو چھڑا کر لے گیا مگر لہک لہک کر حبیب جالب کی انقلابی شاعری گانے والے وزیراعلی کی رگِ انصاف نہ پھڑکی۔کتنے ہی سرکاری اہلکاروں کے تبادلے سیاست دانوں کی فرمائش پر  کیے گئے۔مضحکہ خیز دعوے کیے گئے اور عشروں کے اقتدار کے باوجود تھانہ کچہری میں رمق بھر تبدیلی نہیں نظر آتی! کیا یہ کرپشن نہیں کہ شہزادہ صوبے کے سیاہ سفید کا مالک ہے اور حکمرانوں جیسا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ صوبے کی اسمبلی  میں ضمیر  کی مردہ لاشوں کے بجائے ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے نمائندے بیٹھے ہوتے  تو ضرور حساب لیتے کہ وزیراعلی کتنی بار چیک اپ کرانے کے لیے لند ن گئے ؟تاریخ نے یہ لطیفہ بھی دیکھا کہ صوبے کا حکمران اپنی صحت کے لیے لند ن گیا  اور وہاں سے ویڈیو کے ذریعے صوبے میں صحت کی"ترقی" کا راگ الاپا۔ظفر اقبال نے شاید ایسے ہی موقع کے لیے کہا ہے

؎ مجھے کبڑا نہ سمجھو، زندگی پر

میں ہنستے ہنستے دہرا ہوگیا ہوں!

تاریخ  بھی ہنستے ہنستے دہری ہوگئی ہوگی ۔یہ الگ بات کہ ذہنی کُبڑوں کو ہر طرف  ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ ساون مسلسل برس رہا ہے۔

عمران خان کے ساتھ موازنہ قابلِ دست اندازیء پولیس ہے ۔اگر کوئی صاحب استاد امام دین گجراتی کی شاعری غالب یا اقبال کی شاعری سے موازنہ کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لیں تو کون سا آسمان ٹوٹ گرے گا۔شاعر نے تو پہلے ہی مایوسی کا اظہار کردیا تھا۔

؎کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں

اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت!

زرداری صاحب قائداعظم کے ملک کے پانچ سال صدر رہے تو کون سے پتھر برس پڑے۔ یوں بھی مکافاتِ عمل کو  جلدی نہیں اس لیے کہ کچھ لوگوں کی رسی قدرت خود دراز کرتی ہے۔

ایک شاعر سے بادشاہ ناخوش ہوا  اور قیدِ تنہائی میں ڈال دیا۔ وزیر نے سمجھایا کہ قیدِ تنہائی تو شاعر کے لیے نعمت سے کم نہیں۔کتابیں پڑھے گا اور فکرِ سخن کرے گا۔ وزیر نے کہا صبحتِ ناجنس میں ڈال دیجیے،چنانچہ ایک جاہل مطلق سر پھرے کو اس کوٹھری میں بند کردیا گیا۔شاعر نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو۔اس نے پوچھا پہلے تم بتاؤ تم کون ہو؟  شاعر نے جواب دیا  میں شاعر ہوں ۔اس نے کہا میں ماعر ہوں ۔شاعر نے پوچھا ماعر کون ہوتا ہے۔اس نے پلٹ کر پوچھا شاعر کیا کرتا ہےشاعر نے بتایا کہ شعر کہتا ہے۔اس نے جواب دیا ماعر وہ ہوتا ہے جو مِعر کہتا ہے۔اس نے کہا تم بتاؤ شعر کیا ہوتا ہے۔شاعر نے مثال دی۔جیسے ع

باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور

ماعر نے کہا مِعر یہ ہوتا ہے ع

ماغ میں مِرتے ہیں کیا مُش مُش مکور

خدا کرے کہ اس قوم کی جان سیاسی ماعروں سے چھوٹ جائے ۔ملک کو حبیب جالب کی انقلابی شاعری گانے والوں کی نہیں ،اس انقلابی شاعری کو عملی جامہ پہنانے والوں کی ضرورت ہے۔


Sunday, December 17, 2017

اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار


کیا یہ ممکن ہے کہ  ہم مذہب کو سیاست سے نکال کر اپنی زندگیوں میں لے آئیں ؟

اس وقت مذہب 'جسے ہم دین بھی کہتے ہیں  'ہماری زندگیوں سے کوسوں دور ہے'یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہماری زندگیاں ہمارے مذہب سے کوئی علاقہ نہیں رکھتیں ۔ہاں 'سیاست اور تجارت میں مذہب کا استعمال زوروں پر ہے!تجارت میں مذہب کو کیسے استعمال بلکہ غلط استعمال
(misuse)
کیا جارہا ہے اس پر کئی بار بات ہوچکی ہے ۔یہ اور بات کہ اس کا تذکرہ بار بار کرنا چاہیے یہاں تک کہ مسئلہ ذہنوں  میں اجاگر ہوجائے۔

تاہم سیاست میں مذہب کا استعمال 'تجارت میں مذہب کے  استعمال سے زیادہ  خطرناک ہے۔کئی گنا خطرناک!سب سے بڑا  سبب اس کا یہ ہے کہ عوام  مذہب پر جان چھڑکتے ہیں !بدعمل سے بدعمل مسلمان بھی مذہب کا احترام کرتا ہے اور مذہب کے حوالے سے'یا واسطے سے کوئی بات اس سے کی جائے تو اسے رد نہیں کرتا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسے رد کرے۔اسی لیے شاطر سیاستدان 'مذہب کا  لبادہ اوڑھتے ہیں ! وہ اپنے لیے نہیں 'مذہب کے لیے ووٹ مانگتے ہیں حالانکہ ان میں اور دوسرے سیاست دانوں میں ظاہری وضع قطع  کے سوا کوئی اور فرق نہیں !زندگیاں سب کی مذہب سے لاتعلق ہیں !

اب یہاں  ایک سیدھا سادہ سوال پیدا ہوتا ہے یہاں منطق 'کسی فلسفے 'کسی پی ایچ ڈی 'کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں !ایک شخص جو ظاہری وضع قطع  سے پکا کٹر مسلمان لگے ۔فرائض  کی انجام دہی میں قابل رشک حد تک پورا اترے۔پانچ نمازیں باجماعت پڑھتا ہو'رمضان کے روزے رکھتا ہو۔حج کا فرض ادا کرچکا ہو'زکوۃ ادا کرتا ہو۔بلکہ فرائض سے آگے بڑھ کر نوافل اور مستحبات میں بھی سرگرم ہو۔اشراق ادا کیے بغیر مسجد سے نہ اٹھے'اکثر و بیشتر عمرہ کی نفلی عبادت ادا کرنے کے لیے عازم حرم ہوتا ہو ۔تو کیا اس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں  کہ وہ مذہب پر' ہمارے مذہب یعنی اسلام پر 'چل رہا ہے؟

نہیں ! اسلام صرف ظاہری وضع قطع عبادات کا نام نہیں ! یہی وہ گرہ ہے جو ہماری سیاست میں پڑی ہوئی ہے۔مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سیاست کرنے والوں کے نزدیک مذہب صرف ظاہری شکل و صورت اور عبادات کا نام ہے۔ اسی نکتے پر وہ عوام کا استحصال کرتے ہیں !
فرض کیجیے !کوئی شخص مسلم لیگ میں ہے یا تحریک انصاف میں 'یا پیپلز پارٹی میں ہے وہ فرائض کی انجام دہی کے علاوہ عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بھی اسلامی تعلیمات کو اپناتا ہے۔جھوٹ نہیں  بولتا'وعدہ خلافی کا مرتکب نہیں ہوتا۔ تجارت میں 'صنعت میں 'دفتری زندگی میں 'خاندانی دائرے  میں 'آخرت کی جواب دہی کا خیال رکھتا ہے 'تو کیا وہ اس شخص کے مقابلے میں ووٹ کا زیادہ حقدارنہیں جو عبادات کا پابند ہے' مذہب کے نام پر ووٹ مانگتا ہے مگر ا س کا نام سن کر 'اس کے رشتہ دار 'اس کے ماتحت 'اس کے متعلقین اس سے معاملات طے کرنے والے'کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں!

مذہب اگر ہماری زندگیوں میں دخیل ہوجائے تو سیاست خود بخود  دُھل کر پاک صاف ہوجائے گی! سچ بولنے والے'معاملات میں شفافیت اختیار کرنے والے اور اس امر سے ڈرنے والے کہ ہر عمل کا کل جواب اور حساب دینا ہوگا اگر منتخب اداروں میں آجائیں تو حکومت کا سارا نظام درست ہوجائے' سفارش'اقربا پروری' قومی خزانے کا غلط استعمال'یہ سب وہ کام ہیں جو اسلام کی رُو سے حرام ہیں  ! یہ برائیاں  خودبخود ختم ہوجائیں !

پاکستانی سیاست کا عجیب و غریب پہلو جو شاید  ہی  دنیا  کے کسی اور ملک  میں پایا جاتا ہو 'یہ ہے کہ مذہبی پارٹیاں 'جو سیاست کررہی ہیں  اپنی الگ شناخت کسی فلاحی پروگرام کی بنیاد پر نہیں رکھتیں 'بلکہ ان کی شناخت ان کے مسالک ہیں ! جے یو آئی کے جتنے بھی گروہ ہیں 'ایک مخصوص مکتبِ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔شاہ احمد نورانی کے جانشیں  ایک دوسرے مسلک کا علم اٹھائے ہوئے ہیں !مولانا ساجد میر کی جماعت' جوسیاسی بھی ہے اپنے مسلک کی بنیاد پر قائم ہے۔اسی طرح مولانا ساجد نقوی ایک اور مسلک کی نمائندگی فرماتے ہیں  ۔آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ سیاست کا اور اسمبلیوں کااور وزارتوں کا 'اور امورِ حکومت کا اور امورِ مملکت کا ان مسلکوں سے کیا تعلق ہے؟اور کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ پارلیمنٹ نے جو مسائل حل کرنے ہیں ان کا تعلق بجٹ سے ہے 'بین الاقوامی قرضوں سے ہے' توازن ِ تجارت سے ہے' کارخانے لگانے سے ہے 'زراعت کو ماڈرن کرنے اور ترقی دینے سے'بستیوں اور قریوں کو' قصبوں اور شہروں کو جدید سہولتیں فراہم کرنے سے ہے' سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہے' آئی ٹی سے ہے 'ٹیکس لگانے اور وصول کرنے سے ہے'امور خارجہ نمٹانے سے ہے!خدا کے بندو!ان کاموں  کے لیے مسلکی بنیادوں پر سیاسی جماعتیں بنانے اور مسلکی لبادے اوڑھ کر ووٹ مانگنے کا کیا جواز ہے؟

یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ جے یو آئی میں 'یا جمعیت اہل حدیث میں  یا جماعت اسلامی میں شامل ہیں کیا وہ ان افراد سے بہتر مسلمان ہیں  جو مسلم لیگ 'تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی میں شامل ہیں ؟آخر اس بات کا فیصلہ کون کرے گا ؟اور کیسےکرے گا؟کیا بہتر مسلمان ہونے کے لیے اتنا کافی ہےکہ مذہبی جماعت میں شامل ہوا جائے؟ مذہبی جماعتوں پر الگ الگ نام لے کر بات کی جائے تو درِ عمل شدید ہوتا ہے  تاہم حقیقت یہی ہے کہ مذہب کے حوالے سے سیاست کرنے والی جماعتوں کی شہرت قابلِ رشک ہر گز نہیں !ان کے مالی معاملات اور ان کی سماجی قدریں پڑھی لکھی مڈل کلاس کے نزدیک مستحسن نہیں ۔

ان میں سے کچھ کے رہنما  ہر حکومت سے فائدہ اٹھانے کے لیے مشہور یا بدنام ہیں ۔کچھ تعلیمی اداروں میں  تشدد  اور فساد کے ذمہ دار ہیں! لوگوں نے اور میڈیا نے کچھ کے تو ایسے نام رکھے ہوئے ہیں جو خیانت سے عبارت ہیں! حالی نے شاید ایسے حضرات ہی کے حوالے سے کہا تھا

؎اپنے جوتوں  سے رہیں  سارے نمازی ہشیار

اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت!

اب اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھیے۔ جن ملکوں کو ہم مغربی یا ترقی یافتہ یا جمہوری کہتے ہیں'ان کے سیاست دان عملی زندگی میں ان اصولوں پر سختی سے عمل  کرتے ہیں'جن پر اسلام نے معاملات کے حوالے سے زور دیا ہے۔ ان کا طرز زندگی عوام جیسا ہے ۔سفارش اور اقربا پروری کی وہاں اجازت ہی نہیں! آسٹریلیا کے صوبے نیو ساؤتھ ویلز کا ایک وزیر 'یا اسمبلی کا ممبر' اس لیے زیرِ عتاب آیا کہ اس نے سرکاری لیٹر ہیڈ کو ذاتی سفارش کے لیے استعمال کیا تھا۔ وزیراعظم کی بیوی ٹرین میں بغیر ٹکٹ بیٹھے تو اسے عدالت میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔حافظ سعید صاحب جیسا کٹر مسلمان جب اپنے حکمرانوں کے متعیشانہ  طرزِ   زندگی  کے خلاف   عدالت جاتا ہے تو اسلامی طرز رہائش کی مثال دینے کےلیے برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کا نام لیتا ہے!کیا یہ سیات دان ان افراد کے مقابلے میں زیادہ صاف شفاف نہیں جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر قومی خزانے سے بے تحاشا مراعات لیتے ہیں ؟ اور جن کی زندگی ہر گز قابلِ رشک نہیں نہ قابلِ تقلیدہیں ؟

زندگی کو معاملات کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کا کام ہر مسلمان پر فرض ہے اسلام جبہ و دستار کی جاگیر نہیں! جبہ و دستار کی اکثریت اسلام سے صرف فائدہ اٹھاتی ہے۔معاشی فائدہ 'سیاسی فائدہ اور سماجی فائدہ! یقیناً  جبہ و دستار کے گروہ میں ایسے نیکوکار بھی موجود ہیں جو مفادات کے اسیر نہیں اور اخلاص  اور بے غرضی کے ساتھ خلقِ خدا کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔ایسے افراد اس زوال پذیر معاشرے میں غنیمت ہیں ان میں سے اکثر سیاست اور پی آر کی آلائشوں سےدور ہیں ! مگر المیہ یہ ہے کہ ایسے بزرگوں کی تعداد کم ہے!آٹے میں نمک کے برابر!

ہمارے سیاسی منطر نامے کو بہت سے عوارض گھن کی طرح کھا رہے ہیں اور دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ان میں ایک بڑا عارضہ سیاست میں مذہب کا استعمال ہے ۔اگر ہم اس عارضے کو جڑ سے اکھیڑنے میں کامیاب ہوجائیں تو ایک بہت بڑا مرحلہ سر ہوجائےگا!اسلام کا  تعلق  سیاست یا تجارت سے نہیں'ہماری زندگی کے ہر پہلو سے ہے ! اور یہی کام مشکل ہے!اسی لیے تو اقبال نے متنبہ کیا تھا۔۔

چومی گویم مسلمانم'بلرزم

کہ دانم مشکلاتِ لاالہ را

مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں تو لرز اٹھتا ہوں مجھے اس راستے کی صعوبتوں کا اندازہ ہے!


 

powered by worldwanders.com