Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, December 29, 2017

.ٹیپ ریکارڈ سے یوٹیوب تک


ٹیپ ریکارڈرپر سائنسدان کام تو ایک عرصہ سے کررہےتھے مگر ا س کا عام استعمال 1940 کے عشرے میں شروع ہوا۔ آپ نے ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر قائداعظم کی تقریر کے کچھ الفاظ ان کی اپنی زبانی سنے ہوں گے ان کی وفات 1948 میں ہوئی ۔اسکا مطلب یہ تھاکہ اس وقت برصغیر میں ٹیپ ریکارڈ 'جیسا بھی تھا آچکا تھا۔موسیقی میں اس کا استعمال خوب ہوا ۔اسی زمانے میں معروف و مشہور شعرا کاکلام بھی ریکارڈ کیاجانے لگا۔

جن لوگوں کو شوق تھا ‘انہوں نے اپنے پسندیدہ شاعروں کا کلام ان کی اپنی آواز میں ریکارڈ کیا یا کرایا۔ کراچی کے لطف اللہ خان صاحب نے تو آوازوں کا خزانہ جمع کیا ۔اسی کی دہائی میں وہ اس کالم نگار کے غریب خانے پر تشریف لائے اور غزل ریکارڈ کی۔تاہم یہ ریکارڈ شدہ آوازیں ‘غزلیں ‘نظمیں ‘تقریریں ‘انٹرویو ‘جن لوگوں کے پا س تھے ‘انہی کی دسترس میں رہے۔بہت ہوا تو ریڈیو یا ٹیلی ویژن نے ان میں سے مشہور اور تاریخی چیزیں مناسب مواقع پر نشر کردیں ۔جس نے سن لیا ‘سن لیا ،جومحروم رہا ‘اس کی ان ریکارڈ شدہ آوازوں تک رسائی نہ تھی۔

بہت سے مشہور شعرا اور نامور ہستیوں کو سننے کا موقع ملا یہ مواقع ہماری پوری نسل کو دستیاب ہوئے۔ منیر نیازی ‘جون ایلیا’ سلیم احمد’ قمر جمیل ‘احمد ندیم قاسمی’ ضمیر جعفری اور کئی اور شعرا ء کو جی بھر کر براہ راست سنا۔ ان سے تعارف کا اعزا ز حاصل رہا۔شورش کاشمیری کو بھی سنا ۔تاہم بہت سے ایسے شعرا بھی تھے جو بہت زیادہ پسند تھے مگر انہیں دیکھا نہ سنا،مجید امجد کی “شب رفتہ” الف سے ی تک حفظ ہو گئی،ناصر کاظمی کی برگِ نےکا ایک ایک شعر ازبر ہوگیا۔مگر ان مشاہیر کو دیکھا نہ ان کی زبانی ان کا کلام سنا۔

پھر کچھ ایسے شعرا کے حالات پڑھے اور ان کا ذکر سنا جن کی شاعری اقبال ،فیض اور جوش کے مقابلے کی نہ تھی مگر اپنے زمانے میں ان کے ترنم اوراندازِ بیان نے غلغلہ برپا کیے رکھا۔ ہم نے سنا کہ جگر مرادآبادی کلام سناتے تھے تو سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا ۔ کلیم عاجز اور خمار بارہ بنکوی بہت مقبول ہوئے۔ استاد قمر جلالوی نے کلاسیکی رنگ کی شاعری کی اور اپنے زمانے میں مشاعروں پر چھا گئے۔ جن خوش قسمت لوگوں کے پاس ریکارڈ شدہ ٹکڑے تھے وہ محظوظ ہوتے ہرے اور دوسرے محروم رہے۔

پھر ایک انہونی ہوئی۔2005 میں امریکہ میں تین نوجوانوں نے جو ایک مالیتی کمپنی میں ملازم تھے ایک انوکھی قسم کی ویب سائٹ بنائی ۔یہ نوجوان چاڈ ہرلے’سیٹوچن اور جاوید کریم تھے۔اس ویب سائٹ کی خاصیت یہ تھی کہ اس پر ریکارڈ شدہ تصویر مع آواز یعنی ویڈیو یا صرف ریکارڈ شدہ آواز پوسٹ کی جاسکتی تھی۔2006 میں گوگل نے یہ ویب سائٹ تقریباً پونے دو ارب ڈالر میں خرید لی جیسے ہی یہ ویب سائٹ پبلک کے لیے عام ہوئی ‘انقلاب آگیا۔جس شخص کے پاس جو ریکارڈنگ محفوظ تھی ‘اس نے اس ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردی۔”یوٹیوب”اسی ویب سائٹ کا نام ہے۔اب آوازوں اور متحرک تصویروں کے یہ خزانے ہر انسان کی دسترس میں آگئے آپ کے پاس کسی کی ویڈیو ہے تو آپ اسے یوٹیوب پر اپ لوڈ کرکے دنیا کے سامنے پیش کردیجیے۔گیت ہیں  یا شاعری’تقریریں ہیں یا انٹرویو ‘ڈرامے یا کوئی اور پروگرام سب یوٹیوب پر چڑھائے جاسکتے ہیں اور دیکھے جاسکتے ہیں ۔جگر مراد آبادی 1960ء میں وفات پا گئے اس وقت یہ کالم نگار ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ یوٹیوب ایجاد ہوکر منظرِ عام پر آئی تو جن خوش بخت لوگوں کے پاس جگر مراد صاحب کی آواز تھی انہو ں نے افادہ ء عام کی خاطر یوٹیوب پر اپ لوڈ کردی۔یوں جگر مراد کی آواز گویا موت کے بعد زندہ ہوگئی۔قمر جلالوی سے لے کر ماہر القادری تک آپ بہت سوں کو سن سکتے ہیں ۔آج ہی مجید امجد کی زبانی ان کی نظم سنی۔

ہوا کے سایوں میں ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب

میں کاش دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا

پلٹ پڑا ہوں شعاؤں کے چیتھڑے اوڑھے

نشیب زینہء ایام پر عصا رکھتا

کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ناصر کاظمی کی شاعری ان کی زبانی سنیں گے۔دلچسپ ترین بات تو یہ ہے کہ یہ یوٹیوب ہر جگہ ہر ایک کی دسترس میں ہے۔ آپ کراچی میں ہیں یا سکھر میں ‘نیویارک میں ہیں یا ٹوکیو میں ‘ایک کلک کیجیے اور جو سننا چاہیں سنیے۔یہ آوازیں ‘یہ تصویریں کسی سے چُھپ نہیں سکتیں ۔

ہم جو کچھ کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں وہ بھی ایک ٹیپ ریکارڈر  پر محفوظ ہورہا ہے۔ایک بہت بڑی ویڈیو بن رہی ہے۔ہر حرکت،ہر آمد و رفت’ہر منصوبہ’ہر پروگرام ‘ہر سازش کی تصویر لی جارہی ہے۔ ہر فقرہ’فقرے کا ہر لفظ ‘یہاں تک کہ لہجہ’ انداز اور آواز کا زیرو بم بھی محفوظ ہورہا ہے۔سات پردوں میں چھپ کر جو سکیم بنائی جارہی ہے’وہ بھی ریکارڈ ہورہی ہے۔کسی دستاویز میں خفیہ رد و بدل کیا جارہا ہے تو اس کا فوٹو بھی لیا جارہا ہے ۔کسی کو مارا پیٹا جارہا ہے۔ ۔گالیاں دی جارہی ہیں۔ کسی کی حق تلفی ہورہی ہے’قدم کسی غلط جگہ کی طرف اٹھ رہے ہیں غرض جو کچھ بھی ہورہا ہے’ٹیپ ریکارڈر میں نوٹ ہورہا ہے۔

ریکارڈ کرنے والے یہ سب ٹیپ ریکارڈر ز رکھتے جارہے ہیں ۔یہ ذخیرہ ہے جس میں خلقِ خدا کی زندگیوں کی زندگیاں جوں کی توں اتارلی گئی ہیں ۔گوشہء گمنامی میں پڑے ہوئے یہ ٹیپ ریکارڈ ز کسی یو ٹیوب کا انتظار کررہے ہیں۔

ایک دن یہ عظیم الشان یوٹیوب سامنے آجائے گی۔اس یوٹیوب پر یہ ٹیپ ریکارڈز اپ لوڈ کردیے جائیں گے۔ بس پھر کیا ہے ‘سب کچھ سب کے سامنے آجائے گا۔وہ جو پروردگارنے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ “جب اعمال نامے نشر کیے جائیں گے” تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ایجاد ہونے کے بعد یہ بھی معلوم ہوگیا ہے کہ نشر کرنے سے کیا مراد ہے جو کچھ نشر ہوتا ہے’ وہ ساری دنیا سنتی ہے اور دیکھتی ہے۔ہم آئے دن مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی پٹی چند لفظوں پر مشتمل چلتی ہے کہ فلاں گرفتار ہوگیا ہے۔ چند سیکنڈ میں یہ خبر کراچی سے لے کر گلگت تک ہی نہیں ‘نیویارک سے لے کر ٹوکیو تک سب کے علم میں آجاتی ہے۔

یہ بڑی بے رحم یوٹیوب ہوگی۔اس کا کوئی توڑ نہ ہو گا۔ فلم کے بعد فلم’ویڈیو کے بعد ویڈیو چلے گی۔شوہر کا کچا چٹھا بیوی دیکھے گی۔اولاد دیکھے گی کہ ان کا شریف باپ چھپ چھپ کر کیا گل کھلاتا رہا۔حاجی صاحب سات پردوں کے اندر خوراک اور ادویات میں جو ملاوٹ کرتے رہے۔ ‘انہیں نیکو کار سمجھنے والے عقیدت مند اس سارے عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔اس دن کوئی این آر او ،کوئی دستاویز،کچھ بھی نہیں خفیہ رہ سکے گا ۔پردے ہٹ جائیں گے۔ لوگ ننگے ہو جائیں گے ۔حساب کتاب  میں جعل سازی سے لے کر انفرادی، خاندانی ، ملکی ،قومی،علاقائی ،بین الاقوامی سطح تک کی ساری سازشیں طشت از بام ہو جائیں گی۔

ایک اور صرف ایک طریقہ ہے اس ذلت ،اس رسوائی اور اس بر ہنگی سے بچنے کا ۔آج کے بعد کوئی ایسا کام نہ کیا جائے ، کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس کے ظاہر ہونے سے رسوائی ہو ۔بڑی سے بڑی لالچ ایسے فعل پہ آمادہ نہ کرےجس کے طشت ازبام ہونے سے ڈر لگے۔

مگر یہ احتیاط کافی نہیں۔اس معاملے کا براہ راست تعلق اللہ کی اس صفت کے ساتھ قائم ہے جو ستار العیوب قرار دیتی ہے ۔عیوب کی پردہ پوشی کرنے والا۔ یوں تویار لوگوں نے روپے پیسے اور سونے چاندی کو بھی ستار العیوب سمجھ لیاہے۔یہ شعر بہت مشہور ہے

ای زر تو خدا نہ ای ولیکن بخدا

ستار عیوب و قاضی الحا جاتی!

کہ اے زر !تو خدا تو نہیں مگر خدا کی قسم تو عیوب ڈھانک لیتا ہے اور حاجات پوری کرتا ہے ۔

مگر یہ دولت اور اقتدار کی پردہ پوشی اسی جہان تک محدود ہے ۔اس پردہ پوشی کو تو خود ریکارڈ کیا جا رہا ہے ۔جس دن وہ حشر انگیز  یوٹیوب کائنات پر نصب ہو گی ،اس پر اس پردہ پوشی کی فلم بھی چل رہی ہو گی ۔

پرور دگار کو اس کی عظیم الشان صفت کا واسطہ دے کر،دل کی گہرائیوں میں اسے اصل ستار العیو ب مان کر ،عرض گزاری کی جائے اور گڑگڑایا جائے کہ اس دن پردہ پوشی کر دینا ، ہمیں اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں بیوی بچوں او ر دوست احباب کےسامنے رسوا ہونے سے بچا لینا ۔ ہمارے ٹیپ ریکارڈرز کو یوٹیوب پر اپ لوڈ نہ کیا جائے۔رحمتِ خاص سے اس کڑے مرحلے سے باعزت گزرنے دے دیا جائےتو کیا عجب دعا قبول ہوجائے ۔بشرطیکہ ٹیپ ریکارڈ پر نیا مٹیریل ‘نیا مصالحہ نئے کرتوت نہ چڑھتے جائیں ۔،

ماں باپ دوست احباب بیوی بچوں سے بھی زیادہ کٹھن بلا خیز اور رُسوا کن مرحلہ وہ ہوگا جب ہمارے اعمال رسول کریم ﷺ کے سامنے لائے  جائیں گے جو امت کے لیے راتوں کو خدا کے حضور کھڑے رہتے،یہاں تک کہ مقدس پیروں میں ورم آجاتا۔اسی لیے تو اقبال نے گڑ کڑا کر زاری کی تھی۔

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روزِ محشر عذر ہائی من پذیر

ور حسابم را تو بینی ناگزیر

از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر

کہ مجھ فقیر کے عذر جزا کے دن قبول کرلینا ۔اور اگر میرا حساب کتاب کرنا ہی ہوا تو آقا ﷺ سے چھپا کر کرنا۔






No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com