Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, September 29, 2009

گھڑا

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کساد بازاری سرطان کی طرح پھیل چکی تھی اور بے روزگاری عام تھی! کوئی اقتصادی سرگرمی رونما نہیں ہو رہی تھی۔ خرید و فروخت کا بازار سرد تھا۔ لوگ پلاٹ لے کر منڈی میں بیٹھے تھے اور آدھی قیمت پر بیچنے کو تیار تھے لیکن خریدار عنقا تھا! درآمد برآمد کا کاروبار ٹھپ ہو چکا تھا۔ سرکاری شعبے میں یہ حال تھا کہ بیروزگاروں کو تو کیا نوکریاں ملتیں، پہلے سے موجود سرکاری ملازمین کو نکالا جا رہا تھا۔ سوائے کابینہ کے کسی شعبے میں توسیع نہیں ہو رہی تھی اور کابینہ میں نوکری حاصل کرنے کے لئے نیم خواندہ ہونے کے علاوہ بھی کئی کڑی شرطیں تھیں جن کا پورا کرنا آسان نہیں تھا۔ایسے میں جب مفتی صاحب نے مجھے اپنے ہاں ملازمت کی پیشکش کی تو مجھے یوں لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ میرے اہل خانہ نے مشورہ دیا کہ میں ملازمت کی پیشکش قبول کرنے سے پہلے یہ ضرور پوچھ لوں کہ میرا کیا ہوگا، لیکن میں اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ہم پاکستانیوں کو ایک بیماری یہ بھی لاحق ہے کہ پہلے تو نوکری کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں سفارشیں تو خیر کرائی ہی جاتی ہیں رشوت تک پیش کی جاتی ہے لیکن جب نوکری ملتی ہے تو اس میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔ چنانچہ میں نے فوراً ہاں کردی۔ مفتی صاحب نے دوسرے دن حاضر ہو جانے کی ہدایت کی۔
دوپہر ابھی ہونے ہی والی تھی جب مفتی صاحب کا ذاتی ملازم مجھے بلانے کے لئے نمودار ہوا۔ مجھے مسجد میں طلب کیا گیا تھا حاضر ہوا تو مفتی صاحب نے ایک لمبے بانس کی طرف اشارہ کیا جو مسجد کے صحن میں پڑا تھا۔فرمایا کہ اسے صحن کے عین درمیان میں گاڑ دو۔ میں نے کدال سے اینٹیں ہٹائیں، گڑھا کھودا اور بانس گاڑ دیا۔ اب انہوں نے کہا کہ بانس کی لمبائی ماپو۔ میں نے سوچا کہ بانس کی لمبائی تو اس وقت ماپی جانی چاہئے تھی جب وہ صحن میں لیٹا ہوا تھا۔ لیکن مفتی صاحب کا نکتہ یہ تھا کہ اس وقت یہ معلوم کرنا مشکل تھا کہ کتنا حصہ زمین کے اندر ہوگا اور کتنا باہر۔گڑے ہوئے بانس کی لمبائی ماپنا عجیب سا کام لگ رہا تھا۔ لکڑی کی سیڑھی اس کے ساتھ لگائی جاتی تو بانس گر پڑتا۔ بالآخر میں نے چار پانچ میز اوپر تلے رکھے۔ پھر تین چار افراد نے مجھے سہارے سے سب سے اوپر والے میز پر کھڑا کیا میں نے ایک لمبے فیتے سے بانس کو ماپا اور بڑی مشکل سے نیچے اتر کر مفتی صاحب کو یہ لمبائی گزوں فٹوں اور انچوں میں بتائی۔ اب انہوں نے دھوپ کی طرف اشارہ کیا۔ بانس کا سایہ مشرق کے رخ پر تھا۔ فرمایا کہ اب بانس کے سائے کی پیمائش کرو۔ وہ بھی بتا دی۔ اب حکم ہوا کہ سائے کو ہر پانچ منٹ کے بعد ماپتے رہو اور جس وقت سائے کی لمبائی بانس کی لمبائی کے برابر ہو جائے تو ظہر کی اذان دو۔ میرے دل میں ایک سوال اٹھا لیکن ملازمت کی خیر مناتے ہوئے میں نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی۔ اس دن میں نے چودہ دفعہ بانس کا سایہ ماپا۔ پندرہویں دفعہ قسمت نے یاوری کی اور حساب لگایا تو بانس کی لمبائی اور سائے کی لمبائی برابر تھی۔ دوڑ کر مفتی صاحب کو بتایا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے مجھے اذان دینے کا حکم دیا۔ اب ایک اور ڈیوٹی بتائی گئی کہ جیسے ہی ظہر کو کچھ دیر گزر چکے، پھر سایہ ماپنا شروع کر دو اور جب سائے کی لمبائی بانس کی لمبائی سے دوگنا ہو جائے تو یہ عصر کی نماز کا وقت ہوگا۔ اس دن اٹھارہ دفعہ سائے کی پیمائش کی۔ انیسویں بار قسمت نے یاوری کی اور سایہ بانس سے دوگنا ہوگیا۔ اس وقت عصر کی اذان دی گئی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ یہ دونوں اوقات… یعنی ظہر اور عصر کی نمازوں کے اوقات… ایک کاغذ پر لکھ لئے جائیں اور آئندہ گھڑی دیکھ کر اذان دے دی جائے۔ مفتی صاحب کا سفید چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ انہوں نے میری کلائی سے گھڑی اتاری اور مسجد کے کنویں میں پھینک دی۔ اس کے بعد انہیں کچھ یاد آیا۔ مسجد کے اندر تشریف لے گئے۔ دیوار سے گھڑیال اتارا اور ایک شاگرد کو حکم دیا کہ اسے پتھروں سے اس طرح توڑا جائے جیسے بْت توڑے جاتے ہیں۔
مغرب سے پہلے مجھے چھت پر چڑھا دیا گیا۔ غروبِ آفتاب آنکھوں سے دیکھنا ضروری تھا۔ورنہ اذان دی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ عشاء کی اذان کے لئے میں نے افق پر تیرتے ہوئے اندھیرے ماپے اور پھر کہیں جا کر نیچے اترنے کی اجازت ملی۔ لیکن یہ سب تو کچھ بھی نہیں تھا۔ دو ماہ بعد رمضان کا مبارک مہینہ آگیا میں نے ایک اسلامی کتاب گھر سے سحری اور افطاری کے اوقات کا نقشہ لیا اور خوشی خوشی مفتی صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ میرے نمبر تو خیر کیا بنتے، مفتی صاحب جلال میں آ گئے اور نقشہ پھاڑ کر پرزے پرزے کر دیا۔آدھی رات کو میرے کمرے کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا باہر پھر مفتی صاحب کا ملازم کھڑا تھا۔ اس نے بتایا کہ میں سحری چھت پر بیٹھ کر کھاؤں گا اور مسلسل مشرقی افق کو دیکھتا رہوں گا۔ جس وقت سفیدی اور سیاہی الگ الگ نظر آ جائیں گی۔ تو سحری کا وقت ختم ہونے کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ دن میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ کڑکتا ہوا جاڑا، آدھی رات کو اٹھ کر چھت پر جانا اور سحری ختم ہونے تک مسلسل افق کو گھورتے رہنا! پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ بیروزگاری کے اس عذاب میں ملازمت تو ہے!۔
ابھی ایک دو روزے باقی تھے کہ مجھے چاند دیکھنے کا حکم ملا۔ میں نے کچھ عرض کرنے کے بجائے مناسب سمجھا کہ تعمیل حکم میں تاخیر نہ کروں۔ چاند ہوتا تو نظر آتا۔ لیکن حضرت کا اصرار تھا کہ چاند ہرحال میں دیکھنا ہے۔ میں نے بتایا کہ ماہرین فلکیات کے حساب کی رو سے آج چاند کا نظر آنا ممکن ہی نہیں مفتی صاحب پریشان ہوگئے۔ آنکھوں میں آنسو بھر کر مجھے بتایا کہ بدبخت! ماہرین فلکیات کا ذکر کرکے تم دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے ہو۔ انہوں نے نہایت شفقت سے مجھے کلمہ پڑھا کر میرے ایمان کی تجدید کی۔ وہ تو محض اتفاق تھا کہ میں ابھی تک غیر شادی شدہ تھا ورنہ نکاح کی تجدید بھی کرانا پڑتی۔
جب دوسری بار بھی چاند نظر نہ آیا اور میں سب سے اوپر والی چھت سے نامراد نیچے اترا تو اس بار مجھے ایک گھڑا دیا گیا جس کے پیندے میں بہت باریک سا سوراخ تھا۔ مفتی صاحب نے مجھے تیسری بار چھت پر بھیجا تو خصوصی دعا فرمائی اور میری نشست پر تھپکی نما ہاتھ پھیر کر کامیابی کا یقین دلایا۔ میں نے چھت پر جا کر گھڑے کا پیندا مغرب کی طرف کیا اور چہرہ گھڑے کے اندر ڈال کر سوراخ سے سامنے آسمان کو دیکھنا شروع کیا۔ جتنا سوراخ تھا، اتنا ہی آسمان نظر آتا تھا۔ دس منٹ سوراخ سے آسمان کو مسلسل دیکھتا رہا۔ مفتی صاحب کی دعا اثر لائی اور گیارہویں منٹ میں ہلال عید بالکل صاف نظر آنا شروع ہوگیا۔ مفتی صاحب نے عید کا اعلان کر دیا۔
عید کے دن گلے ملے تو شفقت سے پاس ہی بٹھا لیا۔ فرمانے لگے آج میں تمہیں وہ بات بتاتا ہوں جو تمہارے دل میں سوال اٹھاتی ہے! اگر ہم نمازوں کے اوقات کا تعین گھڑی دیکھ کر کریں یا سحری اور افطاری کا وقت سائنس دانوں کے بنائے ہوئے نظام الاوقات کے مطابق طے کریں تو کل کو کوئی عاقبت نااندیش یہ بھی کہہ دے گا کہ چاند نظر آنے یا نہ آنے کا تعین بھی اسی طرح سائنس کی مدد سے کیا جائے جس طرح سال بھر کی نمازوں کے اوقات پہلے ہی معلوم ہو جاتے ہیں اور ان اوقات کا نقشہ ہر مسجد میں لگا ہوا ہوتا ہے یا جس طرح رمضان کے پورے مہینے کی سحری اور افطار کے اوقات پہلے ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ہم ہر چیز برداشت کر سکتے ہیں لیکن سوراخ والے گھڑے کے بغیر چاند دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے!۔

Thursday, September 24, 2009

شہر کی چابیاں

کیا اجتماعی سطح پر ہمارا زوال اس درجے کو پہنچ گیا ہے کہ اب اردو زبان کو علماء کرام نے بھی ثانوی حیثیت دے دی؟ بے شک ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے!
مسجد قاسم خان میں جب واجب الاحترام مفتی پوپلزئی صاحب ہلالِ عید دیکھنے کا اعلان فرما رہے تھے، تو بھلے وہ باقی ملک سے ایک دن پہلے نہیں، ایک ہفتہ پہلے عید کرنے کا اعلان کر دیتے اور بے شک وہ صوبائی حکمران جماعت کے دو نہیں، درجنوں وزیر اکٹھے کر لیتے، کم از کم یہ تو دیکھتے کہ وہ پوری قوم سے، پورے پاکستان سے اور تمام پاکستانیوں سے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، خطاب فرما رہے تھے۔ کیا کسی بھی منطق کی رو سے انہیں پہلے اردو میں اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا (یہ بھی نہیں کہ وہ اردو میں رواں نہیں تھے۔ بعد میں انہوں نے فصیح و بلیغ اردو میں خطاب فرمایا) پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں کو مخاطب کرنے کا کیا یہی طریقہ تھا؟ اور کیا اب قومی سطح پر ہماری وحدت بالکل ہی پارہ پارہ ہو چکی ہے؟ اور کیا ہم سارے پاکستانی ایک اکائی نہیں ہیں؟ کیا وہ لوگ جو مسجد قاسم خان میں جمع تھے، اردو سے اتنے نابلد تھے کہ انہیں سمجھانے کے لئے پہلے پشتو میں خطاب ضروری تھا؟ یا کیا مفتی صاحب کے مخاطب ایک محدود علاقے کے رہنے والے تھے؟
کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم پشتو کے یا کسی بھی علاقائی زبان کے مخالف ہیں! ایسی بات نہیں! حاشا وکلّا نہیں! خدا کی قسم نہیں! پشتو، پنجابی، بلوچی، سندھی اور ساری علاقائی زبانیں ہمیں عزیز ہیں، لیکن ہماری قومی زبان اردو ہے، ہماری رابطے کی زبان اردو ہے جب پورے اہلِ پاکستان سے بات کرنا مقصود ہو تو اردو کے سوا ہماری کوئی جائے پناہ نہیں، ہمیں اپنے دل بڑے کرنے ہوں گے، ہمیں اپنے اپنے کنوئیں سے نکلنا ہو گا۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو بے توقیری تو پہلے ہی ہماری پشت پر، ہماری قمیض اٹھا کر اپنی مہر ثابت کر چکی ہے، ایک اور مہر سہی۔
اگر پی این اے کا کوئی وزیر اردو کو ثانوی حیثیت دیتا تو ہم اس کا نوٹس ہی نہ لیتے! لیکن کیا شبیر احمد عثمانی، سید سلیمان ندوی اور ظفر احمد عثمانی کے جانشین اب علاقائی زبانوں کو قومی زبان پر فوقیت دیں گے؟ اور کیا اس بات میں کوئی شبہ ہے کہ عربی زبان کے بعد اگر کسی زبان میں اسلام کے بارے میں سب سے زیادہ لٹریچر موجود ہے تو وہ صرف اور صرف اردو زبان ہے۔ اور کیا ہمارے علماء کرام کو معلوم نہیں کہ بنگال میں اور مہاراشٹر میں، آندھرا پردیش میں اور کرناٹک میں، یو پی میں اور بہار میں … یہ اردو ہی ہے جس نے دینی مدارس کو زندہ رکھا ہوا ہے! اور لاکھوں کروڑوں مسلمان اردو ہی کے ذریعے علوم اسلامی سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔ ہمارے ایک کرم فرما جناب مقصود الٰہی شیخ برطانیہ سے اردو میں ایک مجلہ ’’مخزن‘‘ کے نام سے نکالتے ہیں۔ اس کے تازہ شمارے میں اورنگ آباد (بھارت) کے جناب اثر فاروقی کا ایک مضمون ’’ہندوستان میں اردو کا مستقبل‘‘ شائع ہوا ہے۔ فاروقی صاحب بتاتے ہیں کہ بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے لئے علم دین حاصل کرنے کا اردو کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہاں دینی علوم پشتو، پنجابی یا ہندی اور مراٹھی میں تو نہیں پڑھائے جاتے۔ یوپی اور بہار کے سینکڑوں مدرسوں میں دینی علوم کے طلبہ کا ذریعہ تعلیم اردو ہے شاید اہل پاکستان کو معلوم نہیں کہ حال ہی میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے والے ایک عالم دین انڈین سول سروس کا مقابلے کا امتحان پاس کرکے کلکٹر مقرر ہو گئے ہیں۔ صرف دہلی میں دینی مدارس کی تعداد تین سو سے زائد ہے جہاں اردو ذریعہ تعلیم ہے۔ مہاراشٹر کے صوبے میں 35 اضلاع، 358 تعلقہ جات (ہماری تحصیل کے قائم مقام) اور چالیس ہزار سے زائد دیہات ہیں۔ ہر ضلعے اور ہر تعلقے میں اردو کے ذریعے دینی علوم پڑھانے والے مدارس ہیں۔مہاراشٹر پبلک سروس کمشن اور صوبائی انتخابی بورڈ میں ملازمتوں کے لئے مقابلے کے امتحان اردو میں دئیے جا سکتے ہیں اس کے مقابلے میں جو ’’پذیرائی‘‘ اردو کو پاکستان میں مل رہی ہے اسے بیان کرنے کے لئے ماتمی الفاظ کا ذخیرہ شاید کم پڑ جائے۔ جب علاقہ پرست سیاسی جماعتوں کی تقلید میں علماء کرام بھی اپنے مخاطبین کا دائرہ صرف علاقائی زبان تک محدود کر لیں تو پھر اردو کے گلے پر فرنگی زبان کا خنجر چلانے والوں سے کیا گلہ! اردو تو فراق گورکھ پوری کے بقول اتنا ہی کہہ سکتی ہے…؎
تو پھرکیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے
زمانے سے لڑائی مول لے، تم سے برا بھی ہو!
یہ جو ہم عید کے موقع پر رونے دھونے کا ذکر چھیڑ بیٹھے ہیں تو اس کے لئے اپنے پڑھنے والوں سے بہت بہت معذرت! اب آئیے! ہنسنے کھیلنے والی خبروں کی طرف! کچھ عرصہ پہلے وقت کے وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ تاریخ بنانا چاہتے ہیں، تو اس ضمن میں عملی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے بے خانماں اور قلاش اراکین کے لئے تین ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرکے رہائش گاہیں بنانے کی منظوری دی جا چکی ہے کیوں کہ موجودہ رہائش گاہیں کم پڑ رہی ہیں۔ اگر کچھ پڑھنے والوں کو یہ نہ معلوم ہو کہ ارب کیا ہوتا ہے تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایک ارب روپے میں ایک سو کروڑ روپے ہوتے ہیں اور تین ارب روپوں کا مطلب ہے تین سو کروڑ روپے۔ لیکن یہ تو سرکاری رہائش گاہیں ہیں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کے لئے ایک ہائوسنگ سوسائٹی بھی بنائی گئی ہے جس میں ان غریبوں کو ڈیڑھ ڈیڑھ اور دو، دو کنال کے پلاٹ بھی دئیے جائیں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ اسمبلی اور سینٹ میں تشریف فرما ہیں، انہیں یہ پلاٹ ملکیتی بنیادوں پر دے دئیے جائیں گے۔ اس کے بعد اگلے انتخابات کے نتیجہ میں جو حضرات ان اداروں کے لئے منتخب ہوں گے، ظاہر ہے کہ وہ بھی پلاٹ کے حقدار ہوں گے۔ اس طرح ہر ممبر، خواہ وہ اگلے انتخابات میں ہار کر اسلام آباد سے واپس ہی کیوں نہ چلا جائے، ایک پلاٹ کا مالک ہو گا اور یہ سلسلہ صدقہ جاریہ کی طرح چلتا رہے گا۔ یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جس میں اکثریت اپنے ذاتی گھروں سے محروم ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ایک ایک کچے کمرے کی چھت کے نیچے رہ رہے ہیں۔ اس ملک میں تاریخ بنانے والے حکمران ان مستحقین کو نواز رہے ہیں جن کی اکثریت جاگیرداروں صنعت کاروں اور کروڑ پتیوں، معاف کیجئے گا، ارب کھرب پتیوں پر مشتمل ہے۔کیا عجب، آج حکمران، جن ملکوں کو ’’ارض پاکستان‘‘ طشتری میں رکھ کر دے رہے ہیں، وہ کتنے سو سال ہم پر حکومت کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، ہمارے قومی ترانے میں ایک بار ’’ارض پاکستان‘‘ کے لفظ آتے ہیں اور دو بار ’’پاک سرزمین‘‘ آتا ہے۔ یہ مسرت بھی اسی عید پر ملی ہے کہ باسٹھ سال کی جدوجہد کے بعد، قومی ترانے کا مفہوم درست طور پر معلوم ہوا ہے۔ اس حکومت کا موقف یہ ہے کہ اگر ہم نے کشور حسین کو شاد باد کرنا ہے تو پاک سرزمین ٹھیکے پر دوسرے ملکوں کو دے دیں اور اگر مرکزِ یقین کو شادباد کرنا ہے تو ’’ارض پاکستان‘‘ کے ٹکڑے فروخت کرنا شروع کر دیں…؎
بنے گا کوئی تو تیغ ستم کی یادگاروں میں
مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں
رہا اقبال کا یہ شعر کہ…؎
دہقان و کشست و جُو و بیاباں فروختند
قومے فروختند و چہ ارازان فروختند
تو علامہ پرانے زمانے کے آدمی تھے انہیں ان مجبوریوں کا پتہ ہی نہ تھا جن کے تحت غیر ملکی سفارت خانوں کو شہر کی چابیاں دے دی جاتی ہیں۔

Thursday, September 17, 2009

ایف آئی آر

اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کتنی تھیں۔ بیس، یا بیس سے بہت زیادہ یا بیس سے کم وہ عورتیں جو کراچی میں مفت آٹا لینے کی خواہش میں ہجوم کے پیروں تلے کچلی گئیں، جتنی بھی تھیں، مرکر ثبوت چھوڑ گئی ہیں کہ پاکستان نااہلوں کے ہاتھ میں ہے اور نا اہلی بھی ایسی جس کے ارد گرد بددیانتی کا حاشیہ کھنچا ہوا ہے۔
آپکا کیا خیال ہے لاٹھی چارج کے بعد بھگدڑ میں مرنے والی ان عورتوں نے ’’وہاں‘‘ سب سے پہلے کون سا کام کیا ہو گا؟ جب لوگ جنازہ پڑھ کر واپس چلے گئے۔ دفن شدہ عورتوں نے کم از کم چار افراد کے خلاف ضرور ایف آئی آر کٹوائی ہو گی۔ صدر، وزیراعظم سندھ کا گورنر اور سندھ کا وزیراعلیٰ ان عورتوں کا موقف یقیناً یہ ہو گا کہ ان حکمرانوں کا فرض تھا کہ ہمارے گھروں میں راشن پہنچاتے اگر نہیں پہنچا سکتے تھے تو حکومت چھوڑ دیتے۔
جس ملک میں ریل کے حادثے پر ریلوے وزیر نے کہا ہے کہ ’’میں کیوں استعفیٰ دوں، میں کوئی ڈرائیور تھا اور یہ بیان تاریخ کا حصہ بن گیا ہو، اس ملک میں اگر مرکز کے حکمران اور صوبے کے والی قہقہہ مار کر یہ کہہ دیں کہ کیوں، ہماری ذمہ داری کیوں تھی؟ ہم کوئی راشن انسپکٹر تھے؟ تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن یہ بات عمر فاروق اعظمؓ نہیں کہہ سکتے تھے۔
آج مغربی ممالک میں ہر بیروزگار شخص کو سرکاری رقم سے گزارہ الائونس ملتا ہے اور ہر نومولود بچے کا وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے۔ ہم میں سے کتنوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ ہر شہری کا گزارہ الائونس اور ہر نومولود بچے کا وظیفہ سب سے پہلے عمر فاروق اعظمؓ نے مقرر کیا تھا کیا آپ وہ مشہور واقعہ بھول گئے جب رات کو بچہ روتا تھا اور چپ نہیں کرتا تھا۔ آپ ماں سے بچے کے رونے کا سبب پوچھتے تھے۔ بالآخر اس نے بتایا کہ میں اسے دودھ نہیں پلانا چاہتی کیوں کہ عمرؓ شیر خوار بچوں کو وظیفے نہیں دیتا۔ صبح کی نماز پر حضرت عمرؓ نے مسلمانوں سے خطاب کیا اور کہا ’’افسوس ہے عمرؓ پر … نہ جانے کتنے مسلمان بچوں کا خون اس کی گردن پر ہے۔ پھر اعلان کیا کہ ہر نومولود بچے کو وظیفہ دیا جائے گا خواہ وہ شیر خوار ہو یا نہ ہو۔
تو کیا ہر ضرورت مند کو اس کا وظیفہ اور راشن اس کے گھر یا محلے میں پہنچانا حاکم کا فرض نہیں؟ اگر یہ کام حیدر کرار کرم اللہ وجہہ اور عمر فاروق اعظمؓ کر سکتے ہیں تو آج کے حکمرانوں کی انکے سامنے کیا حیثیت ہے؟ حیدر کرار کرم اللہ وجہہ جو عید کے دن جو کی سوکھی روکھی تناول فرما رہے تھے۔ اور حضرت عمرؓ جن کے بارے میں حرّام بن ہاشم کعبی اپنے والد کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ حضرت عمرؓ رجسٹر لئے چلے جا رہے تھے‘ انہوں نے ہر شادی شدہ عورت اور ہر غیر شادی شدہ لڑکی کو بلایا اور اس کا وظیفہ اپنے ہاتھ سے اسے دیا۔ پھر وہاں سے عسفان پہنچے اور ایک ایک کا وظیفہ پہنچایا‘‘۔ پھر انہوں نے حضرت خدیفہ کو لکھا کہ لوگوں کے وظیفے اور روزیاں انہیں دے دی جائیں۔ حذیفہ کو اسلئے لکھا کہ وظائف کے سارے رجسٹر مدینہ میں نہ تھے۔ وہ ان شہروں کے حاکموں کے پاس تھے۔ جن شہروں کے وظیفہ خواروں کے نام ان رجسٹروں میں درج تھے۔ چنانچہ یمن کا رجسٹر والی یمن کے پاس اور بصرہ کا رجسٹر بصرہ کے حکمرانوں کے پاس تھا اور اسی طرح باقی سب صوبوں کے رجسٹر صوبوں کے حکام کے پاس تھے۔ یہ اس لئے تھا کہ ہر شخص کو اسکے اپنے شہر ہی میں وظیفہ ملے۔ مرکز (مدینہ) میں حضرت عمرؓ خود وظیفے پہنچاتے تھے اور صوبے کا گورنر یہ کام صوبے میں کرتا تھا۔
آپکا کیا خیال ہے کہ پاکستان کے حالات کب بدلیں گے؟ شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو جو اس بارے میں پر امید ہو اور وہ پرامید ہو بھی کس طرح سکتا ہے جب ہمارا بالائی طبقہ … خواہ حکومت کرنے والا یا اپوزیشن کرنیوالا … ایک اور ہی دنیا میں رہتا ہے۔ جو جانتا ہے وہ تو جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ جب تک دو کام نہیں ہونگے، اس ملک کے حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔ ایک یہ کہ حکمران چھوٹے گھروں میں اٹھ آئیں بالکل اس طرح جیسے ڈنمارک، اسرائیل برطانیہ اور جرمنی کے حکمران رہتے ہیں اور بازار سے سودا سلف خود خریدیں اور دوسری یہ کہ سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات ہوں!
کاش میاں نوازشریف ہر اتوار کو ایک چھوٹی سی کار ڈرائیو کر کے اپنے گھر کا سودا سلف اکبری منڈی سے خود خریدیں اور کاش الطاف حسین ہر اتوار کو اپنے گھر کا سودا سلف کراچی کی ایمپریس مارکیٹ سے خود خریدیں، یہی دو لیڈر ہیں جن پر اس وقت اہل پاکستان کی نظریں جمی ہیں۔ رہا عمران خان تو اس کے ذہنی افق کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے رہنے کیلئے تین سو کنال اور ایک روایت کیمطابق چار سو کنال پر گھر بنایا ہے۔ اسے ابھی تک یہی معلوم نہیں ہو سکا کہ طالبان اچھے ہیں یا برے۔
تو پھر آپ کا کیا خال ہے کیا ان دونوں تبدیلیوں کے واقع ہونے کا امکان مستقبل قریب میں ہے؟ یعنی حکمرانوں کا چھوٹے گھروں میں منتقل ہو جانا اور سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کا انعقاد! اگر میں یہ کہوں کہ اس کا امکان مستقبل قریب تو کیا، مستقبل بعید میں بھی نہیں، تو کیا آپ لکڑی اٹھا کر مجھے مارنے کو دوڑیں گے؟بالکل اس طرح جس طرح جرأت لکڑی اٹھا کر انشا کو مارنے دوڑا تھا۔ جرأت نابینا تھا، انشا آیا تو دیکھا جرأت فکر سخن میں غرق ہے، پوچھا تو جرأت نے بتایا کہ مصرع ہوا ہے
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
انشا نے فوراً گرہ لگائی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
اس پر جرأت لکڑی اٹھا کر مارنے کو دوڑا
آپ مجھے مارنے کو دوڑیں یا نہیں، اتنا سوچئے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی کے اندر انتخابات ہوں اور پارٹی کی رہنمائی ایک خاندان سے باہر نکل جائے؟ نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا! پیپلزپارٹی پر بھٹو خاندان ہی کی سردار ی ہو گی۔ مسلم لیگی نوازشریف برادران کی جاگیر ہی رہے گی۔ تحریک انصاف پر ہمیشہ عمران خان ہی بادشاہی چلائیگا۔ ایم کیو ایم اعلیٰ تعلیم یافتہ، شہری اور فیوڈلزم سے پاک ہونے کے باوجود الطاف حسین ہی کی جیب میں رہے گی۔
رہا حکمرانوں کا محلات کو خیر باد کہنا۔ تو اس کا بھی کوئی امکان نہیں۔ شان و شوکت اور انتہا درجے کا تعیش…ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے۔ اس سے تربیت اٹھان اور بیگ گرائونڈ کا بھی پتہ چلتا ہے، ایوب خان کے زمانے میں مشرقی پاکستان کا گورنر عبدالمنعم خان ایک گھٹیا پس منظر سے آیا تھا وہ اپنے دوستوں کو گورنر ہائوس کے پلنگ اور پلنگ پوش دکھا کر فخر کیا کرتا تھا۔ اسی طرح کی حرکتیں ماضی قریب میں ہوئیں۔ جنرل مشرف اور شوکت عزیز کے درمیان مہنگے ڈیزائن سوٹوں کا مقابلہ ہوتاتھا۔ کیمبل پور کے علاقے میں نو دولتیے کے بارے میں کہتے ہیں کہ عصر کے وقت اس کا پیٹ بھرا ہے۔ ان لوگوں نے شاید زندگی میں پہلی بار کپڑے دیکھے تھے، ایک ایک سوٹ لاکھوں روپے کا اور وہ بھی سینکڑوں کی تعداد میں -----جس نے کچھ دیکھا ہوتا ہے، وہ اس طرح آپے سے باہر نہیں ہوتا، ٹونی بلیر نے جوتوں کا ایک جوڑا اٹھارہ سال تک پہنا۔ اور شوکت عزیز نے اس ملک کو جوتے کی طرح پہنا، وزیر خزانہ اور وزیراعظم … آٹھ سال تک … اور اب یہ ملک ایک لطیفہ بن چکا ہے۔ اگر ٹیلی فون آپ کے نزدیک پڑا ہے تو ذرا ابھی اور اسی وقت ون سیون یعنی 17 ڈائل کیجئے۔ آپ کو آواز آئیگی… ’’آپ کا مطلوبہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ ون سیون سے رجوع فرمائیں۔‘‘ یہ ہے وہ پی ٹی سی ایل جو ’’نجی‘‘ شعبے کو بیچ دی گئی اور جہاں ایک ایک افسر کی تنخواہ اور مراعات اس قدر ہیں کہ امریکی بھی رشک کرتے ہیں۔
آپ لکڑی اٹھا کر مجھے مارنے کو ضرور دوڑیں لیکن ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھائے جانے والے ان گنت ٹاک شوز کے ان میزبانوں کا کیا کرینگے جو ہر روز ہارے ہوئے سیاستدانوں اور آسودہ حال ریٹائرڈ جرنیلوں کو بلا کر عوام کی سماعتوں پر سوار کرتے ہیں اور یہ ہارے ہوئے سیاست دان اور آسودہ حال ریٹائرڈ جرنیل اس قدر بولتے ہیں اس قدر بولتے ہیں کہ صاف پتہ چلتا ہے انکے پیٹ پھولے ہوئے ہیں۔کیا اس ملک میں اثاثوں کی چھان بین کبھی نہیں ہوگی؟
بیس عورتوں نے جو مفت آٹا لینے گئی تھیں اور بھگڈر میں ماری گئیں، تدفین کے فوراً بعد ایف آئی آر درج کرا دی ہے۔! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔

Tuesday, September 15, 2009

مظلوم گاؤں کی خادم پنجاب سے فریاد

2005
ء کی جنوری تھی۔ دھوپ کی تمازت نے جاڑے کو خوشگوار کیا ہوا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب جھنڈیال کے اشراف۔۔ جن کی تعداد تقریباً پندرہ تھی۔ فتح جنگ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر میں اٹک ضلع کے ناظم میجر طاہر صادق سے ملے
۔جھنڈیال تحصیل فتح جنگ کا ایک عجیب گاؤں ہے۔ عام اصول یہ ہے کہ قریے‘ قصبے اور شہر خستہ حال ماضی سے نکل کر خوشگوار حال کی طرف بڑھتے ہیں اور بہتر مستقبل کی امید رکھتے ہیں لیکن جھنڈیال نے الٹی گنگا بہائی ہے۔ اس کا ماضی تابناک تھا اور حال ویران ہے۔ یہاں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ ان کا نام غلام محمد تھا۔ انہوں نے ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ تک اس گاؤں میں بٹھ کر درس و تدریس کا کام کیا۔ بنگال اور آسام سے لے کر کابل اور بدخشاں تک کے طلبہ آکر ان سے فقہ اور فارسی ادب پڑھتے تھے تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ اردگرد کے گاؤں بھی ان طلبہ کے قیام و طعام کی ذمہ داری میں شریک ہو جاتے تھے۔ مولانا غلام محمد معروف طبیب بھی تھے اور مفت علاج کرتے تھے۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے شاندار ماضی رکھنے والے اس گاؤں کا حال آج اتنا تاریک ہے کہ یہ گاؤں عبرت کی مثال ہے۔
ضلع ناظم میجر طاہر صادق گاؤں کے اشرافیہ کے وفد کو خندہ پیشانی سے ملے۔ ان کے مطالبات سنے اور متعلقہ اہلکاروں کو جو وہاں موجود تھے۔ اسی وقت حکم دیا کہ اس گاؤں میں ڈسپنسری قائم کی جائے اور اس سکول کو جو 1940ء سے پرائمری چلا آرہا ہے‘ مڈل کر دیا جائے۔ ضلع ناظم نے دونوں کی منظوری دے دی۔ گاؤں کے خوشحال افراد اٹھے۔ سردار تاج خان نے چار کنال اراضی ڈسپنسری کیلئے اور سردار اکبر خان نے آٹھ کنال اراضی مڈل سکول کیلئے تحفے کے طور پر پیش کی اور حکومت کے نام منتقل کر دی۔
اس کے بعد کی داستان۔۔ داستان نہیں ماتم ہےیہ ماتم وعدہ خلافی کا ہے سنگدلی کا ہے بے مہری کا ہے مجرمانہ غفلت اور ظلم و ستم کا ہے۔ ضلع ناظم کی منظوری اور زمین کی حکومت کے نام منتقلی کو چار سال اور آٹھ مہینے گزر چکے ہیں۔ یہ چار سال اور آٹھ ماہ محض چار سال اور آٹھ ماہ نہیں۔ اڑھائی سو ہفتے ہیں اور ایک ہزار سات سو تیس دن بنتے ہیں۔ ان سینکڑوں ہفتوں اور ہزاروں دنوں میں ضلع ناظم سے لے کر ضلعی حکومت کے افسروں اور اہلکاروں تک کے دروازے کھٹکھٹائے گئے ہیں۔ یہ گاؤں رویا ہے‘ گڑ گڑایا ہے لیکن اٹک کی ضلعی حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
اس عرصہ میں اس گاؤں پر ایک اور قیامت بھی گزری پلاسٹک کے بنے ہوئے شخص شوکت عزیز کی سیاسی لاش تحصیل فتح جنگ کی پیٹھ پر لادی گئی۔ شوکت عزیز اس گاؤں کے ایم این اے بن گئے اور پھر وزیراعظم۔ وہ کتنی بار اپنے ’’حلقے‘‘ میں گئے اور اپنے حلقے کے کتنے لوگوں سے ملے؟ یہ تاریخ کا حصہ ہے اور کوئی اس کو جھٹلا نہیں سکتا لیکن جس گاؤں کی نمائندگی ملک کا وزیراعظم کر رہا تھا اس گاؤں میں ڈسپنسری بنی نہ سکول کی تعمیر ہوئی۔ عطیے میں دی گئی زمین انتظار کرتی رہی۔ ضلعی حکومت کو ہر سطح پر خطوط‘ درخواستیں عرض داشتیں لکھی گئیں۔ گاؤں سے تعلق رکھنے والے افراد نے جو شہروں میں ملازمتیں کر رہے تھے‘ سارے جتن کئے۔ معلوم ہوا کہ اٹک کی ضلعی حکومت میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر صاحب نے اس زمین کو بنفس نفیس دیکھنا ہے جو ڈسنپسری کے نام کرائی گئی تھی۔ یہ ڈاکٹر صاحب اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی رہائشی کالونی میں رہتے تھے۔ گاؤں کے لوگوں نے اسلام آباد آکر ان ڈاکٹر صاحب کو گاڑی پر بٹھایا اور ادب احترام سے گاؤں لے کر گئے۔ ان کی پذیرائی ہوئی۔ انہوں نے سب کے سامنے کہا کہ میں رپورٹ لکھ رہا ہوں۔ بہت جلد تعمیر شروع ہو جائے گی۔ لیکن چار سال ہونے کو ہیں‘ رپورٹ جانے کون سے آسمان پر لکھی گئی‘ ابھی تک اس زمین پر نہیں پہنچی جہاں ڈسپنسری بننی تھی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اٹک کے ناظم نے لاہور میں قیام پذیر ہوتے ہوئے بھی ضلع میں ترقیاتی کام بہت کئے ہیں۔ اس سے انکار کرنا حقیقت کی خلاف ورزی ہو گی۔ وہ ملتے بھی خندہ پیشانی سے ہیں۔ لیکن یہ نہیں معلوم کہ اس مخصوص گاؤں کی بدقسمتی کی کیا وجہ ہے؟ اہل دہ کا خیال یہ ہے کہ ضلع ناظم نے منظوری دے دی لیکن اس کے بعد ضلع کی نوکر شاہی اس منظوری پر سانپ بن کر بیٹھ گئی۔
بہت سے پاکستانی حیران ہوتے ہیں کہ آخر پاکستان کو بیماری کیا ہے کہ یہ ہر آنے والی صبح کو پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔ اگر اس ملک کی بدقسمتی کو کسی ایک نکتے پر مرتکز کرکے دیکھنا ہو تو اس گاؤں پر غور کیجئے ضلع ناظم بنفس نفیس‘ گاؤں کے پندرہ افراد کی موجودگی میں سکول اور ڈسپنسری کی منظوری دیتا ہے‘ اراضی حکومت کے نام منتقل کر دی جاتی ہے‘ ڈاکٹر گاؤں میں آکر زمین کا معائنہ کرتا ہے‘ اس کے بعد ۔۔ چار سال نو ماہ ہوتے ہیں کہ عرضداشتوں اور یاد دہانیوں کے باوجود ایک پتہ نہیں ہلتا ایک ذرہ نہیں حرکت کرتا۔
یہ گاؤں اب چوبیس گھنٹے کام کرنے والے اور نہ تھکنے والے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی طرف دیکھ رہا ہے اور گاؤں کی درخواست خادم پنجاب کی خدمت میں یہ ہے کہ ڈسپنسری اور سکول بنوانے کا حکم تو صادر کریں لیکن خدا کیلئے یہ کھوج لگائیں کہ مجرم کون ہے؟ اگر اس ظلم کی ذمہ دار نوکر شاہی ہے تو کیا خادم پنجاب ذمہ دار افراد کو عبرت ناک سزا دیں گے؟ اور اگر غفلت اہل سیاست کی ہے تو اس ملک کے اہل سیاست میں خیر کا پہلو کبھی تھا‘ نہ ہے‘ سوائے ان چند سیاست دانوں کے جو صحیح معنوں میں خلق خدا کی خدمت کر رہے ہیں اور جن کا نام سب کو معلوم ہے۔ مشک وہ ہے جس کی خوشبو خود پھیلتی ہے۔ بیچنے والے کو نہیں بتانا پڑتا۔
میاں شہباز شریف شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ جدید نظم کے معروف شاعر فرح یار کے تازہ مجموعے کا نام ہے ’’نیند جھولتے لوگوں کے لئے لکھی گئی نظمیں‘ دل چاہتا ہے کتاب کا نام ہوتا ’’سولی پر لٹکے لوگوں کیلئے لکھی گئی نظمیں‘‘ فرح یار نے اپنی نظم SUBVERSION میں پاکستانی عوام کی بے زبانی اور درد ناک بے ہوشی کو کس تاثیر کے ساتھ اور کس دل گیر لہجے میں پیش کیا ہے…
؎ہدف میں نہ تھا
پر مجھے اس نے اپنے نشانے پہ رکھا
خبر اس نے لکھی زمانے سے ہٹ کے
مگر موجۂ سر زمانے پہ رکھا
جدائی کی شاخوں سےامید باندھ
یسماوات کو آب و دانے پہ رکھا
کہیں دشمنوں کو زمینیں سجھائیں
کہیں دوستوں کو ٹھکانے پہ رکھا
عجب لہر میں اس نے خواہش بھرے دن
گزارے زمیں پر
یقیں کے پیالے میںخاشاک بھر کے
ارادوں کوسونے سلانے پہ رکھا
ہدف میں نہ تھاپر مجھے اس نے اپنے نشانے پہ رکھا

Thursday, September 10, 2009

نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم

یہ تو مجھے معلوم تھا کہ من موہن سنگھ پاکستان بننے سے پہلے چکوال کے علاقے کے کسی گاؤں میں رہتا تھا لیکن اس گاؤں کا نام پتہ تھا نہ محلِ وقوع۔من موہن سنگھ کو میں فوراً ملنا چاہتا تھا اور جو بات اس سے کرنا چاہتا تھا وہ اتنی ضروری تھی کہ تاخیر کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اسکے بارے میں سنا تھا کہ بہت سادہ اور فقیر منش انسان ہے لیکن جو کچھ بھی ہو، تھا تو وہ وزیراعظم اور وزیراعظم جتنا بھی فقیر منش ہو، وزیراعظم ہوتا ہے، اس تک رسائی کیلئے کوئی نہ کوئی سیڑھی ضرور ہوتی ہے۔ کم از کم ہمارے ہاں رواج یہی ہے۔ سوچ سوچ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اسکے گاؤں جاؤں۔ ضلع چکوال میں واقع یہ گاؤں جس کا نام ’’گاہ‘‘ ہے من موہن سنگھ کی جنم بھومی ہے جب ہمارے کمانڈو صدر جنرل مشرف من موہن سنگھ کو ملنے گئے تھے تو اسی گاؤں کے سکول ہی سے من موہن سنگھ کا تاریخ پیدائش کا سرٹیفکیٹ تحفے کے طور پر لے گئے گئے تھے!۔ایک بوڑھا آدمی، جس کا دعویٰ تھا کہ وہ من موہن سنگھ کا ہم جماعت رہا ہے، مشکل سے راضی ہوا کہ اس کے نام رقعہ دے۔ میری فرمائش تو یہ تھی کہ وہ مجھے دہلی لے چلے، آنے جانے کا بس کا کرایہ میرے ذمے ، لیکن اسکے خیال میں وہ ایک مصروف انسان تھا اور میرے طور اطوار دیکھ کر وہ مجھے ایک غیر سنجیدہ شخص سمجھ رہا تھا۔واہگہ بارڈر کس طرح پار کیا۔ پار کرنے سے پہلے اور پار کرنے کے بعد کیا بیتی امرتسر میں کیا دیکھا، لدھیانہ کیسا لگا، ہریانہ کے شب و روز کیسے تھے، دہلی کیسے پہنچا، قیام کہاں کیا ان سارے سوالوں کے جواب کسی اور وقت پر اٹھا رکھتا ہوں۔ قصہ مختصر کئی دن کے انتظار کے بعد ملاقات کا وقت ملا۔ وزیراعظم کے دفتر میں داخل ہونے سے پہلے کئی مشینوں کے ذریعے مجھے اندر باہر سے چیک کیا گیا، ٹھوک بجا کر دیکھا گیا، پسلیاں گنی گئیں، کمر پر ہلکی ہلکی ضربات لگا کر اطمینان کیا گیا، جوتے اتروائے گئے، پتلون کی پیٹی سونگھی گئی میں نے اعتراض کیا تو وہی گھسا پٹا جواب کہ تمہارے ملک کے وزیر بھی امریکہ جائیں تو دونوں ہاتھ اٹھا کر تلاشی دیتے ہیں اور بڑے بڑے ٹوپیاں پیٹیاں جوتے اتار کر چیک کراتے ہیں، یہی کچھ تمہارے ساتھ ہم بھارتی کریں تو کیا فرق پڑتا ہے؟میں توقع کر رہا تھا کہ من موہن سنگھ اپنے ہم جماعت کا رقعہ دیکھ کر مجھے اپنا مہمان بنائے گا گپ شپ ہوگی لیکن وہ مجھ ایک اکڑے ہوئے بیورو کریٹ کی طرح لگا، میں نے پنجابی میں بات کی تو اس نے انگریزی میں جواب دیا۔ رہی سہی کسر اسکے سٹاف نے پوری کردی۔ ابھی ملاقات شروع ہی ہوئی تھی کہ من موہن کو بتایا گیا کہ بیس منٹ کے بعد اس نے ایک کانفرنس میں شریک ہونا ہے۔ اس کم وقت میں، میں کیا بات کرتا لیکن کچھ نہ کرنے سے پھر بھی بہتر تھا۔ میں نے اسے مخاطب کرکے کہنا شروع کیا : ’’جناب وزیراعظم! میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو ختم کرنے کیلئے آپکی حکومت بھارت کی پچھلی حکومتوں کی طرح کوششیں کررہی ہے، بھارت کے وسائل پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ غریب بھارتیوں کے منہ سے نوالا چھین کر کہیں دریاؤں پر بند باندھے جا رہے ہیں تاکہ پاکستان کو پانی نہ ملے۔ کہیں ایٹم بم بنائے جا رہے ہیں کہیں جہاز تعمیر ہو رہے ہیں اور کہیں ’’را‘‘ پر کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں میں نے یہ کہنا ہے کہ ازراہ کرم اپنے وسائل کو اس طرح ضائع نہ کریں‘‘۔میں نے دیکھا کہ من موہن کے ماتھے پر سلوٹیں نمودار ہوئیں اس نے پگڑی کو آگے پیچھے کیا۔ مونچھوں پر ہاتھ پھیرا، عینک کے شیشے کرتے کے دامن سے صاف کئے اور کہنے لگا۔ ’’کیا آپ یہ بات کہنے اتنی دور سے آئے ہیں؟اگر ایسا ہے تو آپ نے اپنا بھی وقت ضائع کیا اور میرا بھی، ہم پاکستان سے غافل نہیں رہ سکتے۔ پاکستان ہمارا ازلی ابدی پیدائشی فطری دشمن ہے۔ ہم اس کو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔ آپ ہمارے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔‘‘میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا وہ چپ ہو گیا۔ میرے چہرے پر اس وقت رعب تھا اور میں ایک طاقت ور بادشاہ کی طرح لگ رہا تھا۔’’من موہن جی! آپ نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے اسرائیل سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے، کروڑوں اربوں روپے اس ناپاک گٹھ جوڑ پر صرف کئے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں سے آپ نے پاکستان کے حساس مقامات کے نقشے بنوائے۔ ان کی فوجوں نے آپ کے لوگوں کو تربیت دی۔ اسرائیل کا سفارت خانہ دہلی پاکستان دشمنی کا بہت بڑا گڑھ ہے، میری آپ سے گذارش ہے کہ یہ ناپاک گٹھ جوڑ فی الفور ختم کریں، اس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘ من موہن سنگھ نے بے تابی سے پہلو بدلا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن میں نے گرج دار آواز میں کہاکہ مجھے اپنی بات مکمل کرنے دو، اسے جیسے سانپ سونگھ گیا۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’آپ نے افغانستان کو پا کستان دشمنی کا مرکز بنا دیا ہے۔ درجنوں قونصل خانے کام کر رہے ہیں۔ وہاں سے پاکستان میں در اندازی کی جا رہی ہے۔ سوات میں بھارتی پکڑے گئے ہیں۔ شمالی اتحاد کی پاکستان دشمنی کو بھارت خوب خوب استعمال کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ اب نہیں ہونا چاہئے۔’’جناب وزیراعظم! ہم پاکستانی بھارتی عوام کے دشمن نہیں! ہماری انکے ساتھ کیا دشمنی اور کیسی دشمنی؟ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اربوں روپے جو پاکستان کے خلاف خرچ کئے جا رہے ہیں بھارتی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے جائیں، لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر سو رہے ہیں، تن سے ننگے، پیٹ سے بھوکے بھارتی ایک فاقہ زدہ ملک کے لٹے پٹے باشندے لگتے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ سکولوں کی چھتیں غائب ہیں، پینے کا پانی میسر نہیں اور آپ سارے وسائل پاکستان کو نقصان پہنچانے پر صرف کر رہے ہیں۔ کیا یہ حماقت نہیں؟‘‘من موہن سنگھ چلایا۔ ’’ کیا بات کر رہے ہیں آپ؟ کیا ہم اپنے دفاع سے غافل ہو جائیں؟ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، ہم ذرا بھی غافل ہوئے تو وہ تو ہمیں کھا جائیگا، ہمیں نیست و نابود کر ڈالے گا‘‘۔میں نے خشم گیں نگاہوں سے من موہن کو دیکھا تو وہ خاموش ہوگیا۔’’من موہن جی! میں نے یہ کب کہا ہے کہ آپ اپنی سرگرمیاں ختم کر دینگے تو پاکستان محفوظ ہو جائیگا؟‘‘پہلی بار من موہن سنگھ کے چہرے پر رونق آئی۔ اسکی آنکھوں میں چمک لوٹ آئی۔ مسکراہٹ اسکے ہونٹوں سے یوں پھوٹی جیسے بدنما دھرتی سے پھول نکلتے ہیں۔… کیا مطلب؟ اگر ہم پاکستان دشمنی ختم کر دیں تو پھر بھی پاکستان کو نقصان پہنچے گا؟ دیکھیے، میں سخت بے تاب ہو رہا ہوں۔ اس کی تفصیل بتائیے، پلیز!‘‘اسکی تفصیل یہ ہے عزیزم! کہ جس ملک کو نقصان پہنچانے والے اسی ملک کی کابنیہ میں بیٹھے ہوئے ہوں، اس ملک کو کسی بھارت، کسی اسرائیل کسی شمالی اتحاد کی ضرورت نہیں، جس ملک کا وزیر خزانہ ہاتھ مل مل کر یہ کہہ رہا ہو کہ : …’’ حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے چینی مافیا کے اثرو رسوخ کے باعث ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنیوالے عناصر پر ہاتھ ڈالنا ناممکن ہے بااثر چینی مافیا تاحال کم از کم 25 ارب روپے سے زائد خالص منافع کما چکا ہے۔ جبکہ عوام کو چینی کے حصول کیلئے لمبی قطاروں اور چلچلاتی دھوپ میں کھڑا رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ میں موجود مضبوط لابی نے گذشتہ سال نومبر میں تین لاکھ ٹن خام چینی درآمد کرنے کی سمری کی مخالفت کی تھی۔ ‘‘من موہن سنگھ صاحب! جس ملک میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں چینی مافیا اور آٹا مافیا کے مجرموں پر مشتمل ہوں۔ جس ملک کی کابینہ اپنے ہی عوام کو ذلیل و رسوا کرکے اربوں روپے کا ناجائز منافع کما رہی ہو اور جس ملک کا وزیر اطلاعات ان سارے قومی مجرموں کو نظر انداز کر کے عوام کو ’’تلقین‘‘ کر رہا ہو کہ ’’ دو چمچ کے بجائے ایک چمچ چینی استعمال کرو‘‘۔ اس بدقسمت ملک کو دشمنی کیلئے بھارت کی ضرورت ہے نہ اسرائیل کی اور من موہن سنگھ صاحب! پاکستانی عوام کے یہ ’’دوست‘‘ جو پاکستان کی کابینہ اور سیاسی جماعتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، اس قدر مضبوط ہیں کہ پاکستانی ایٹم بم بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

Wednesday, September 09, 2009

خادمِ حرمین شریفین کی خدمت میں بصد احترام

عالی جاہ! آج جب خلافتِ عثمانیہ کا دور دور تک نشان نہیں ہے، آپکی پْرشکوہ سلطنت ملّتِ اسلامیہ کیلئے عملاً مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمان جس خطّے میں بھی بس رہے ہیں، اکثریت کی شکل میں یا اقلیت کی صورت میں، آپ ہی کی طرف دیکھتے ہیں! حرمین شریفین کے خادم کی حیثیت سے آپ پورے عالمِ اسلام کے سرپرست ہیں اور کروڑوں اربوں مسلمان جو قطبِ شمالی سے لے کر انتہائی جنوب میں واقع میلبورن تک اور لاس اینجلز سے لے کر جزائر جاپان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کو اپنے دل کے قریب پاتے ہیں!
۔جہاں پناہ! آپ سے زیادہ اس حقیقت سے کون باخبر ہوگا کہ پورے عالم اسلام میں پاکستان وہ واحد مملکت ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی، اسکے قیام کیلئے لاکھوں مسلمان عورتوں مردوں بچوں اور بوڑھوں نے جان کی قربان دی، اس کی سپاہ دنیا کی افواج میں تربیت اور جواں مردی کے حوالوں سے ایک ممتاز مقام رکھتی ہے اور اسکے سائنس دانوں نے ایک طویل عرصہ کی محنت ِ شاقہ کے بعد پاکستان کو دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی طاقت کا درجہ عطا کیا ہے!
۔عالی جاہا! آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ جس طرح سعودی عرب کی مملکت عالم اسلام کا روحانی مرکز ہے، اسی طرح پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پوری دنیائے اسلام کی امیدوں کا محور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں مملکتوں کا باہمی تعلق جغرافیائی حدود اور وقتی فوائد سے بالاتر ہے۔ یہ رشتہ روح کا رشتہ ہے اور یہ تعلق جسم سے بہت آگے جان کی ناقابلِ بیان گہرائیوں تک گیا ہے!
۔ظّلِ الٰہی! یہی وجہ ہے کہ ایک عام مسلمان، جس خطّے میں بھی ہے، جو زبان بھی بولتا ہے اور جو رنگ بھی اس کی جلد کا ہے، یہ نہیں برداشت کر سکتا کہ سعودی مملکت یا اس کے فرماں روا کے حوالے سے دلوں کو دھچکا لگے اور عقیدت پر ہلکی سی بھی ضرب پڑے۔ وہ عقیدت جو ظاہری رسم و راہ سے بے نیاز، دلوں کے اندر موجزن ہے!۔
فضیلت مآب! مملکتِ خداداد پاکستان کے سولہ کروڑ عوام نے فروری 2008ء کے عام انتخابات میں اپنے ضمیر کو گواہ بنا کر ایک فیصلہ کیا اور اس فیصلے کی رو سے ان عناصر کو ٹھکرا دیا جو تقریباً ایک عشرے سے ان پر مسلّط تھے۔آپ یقیناً آگاہ ہیں کہ ان عناصر نے مملکتِ خداداد کا شیرازہ منتشر کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مطرب ومے کے ان دلدادگان نے عوام کی ہڈیوں پر قالین بچھا کر جشن برپا کئے۔ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک خانہ جنگی برپا کی، اپنے شہری عالمی طاقتوں کو فروخت کر کے ڈالر کمائے اور اس کا تحریری اعتراف بھی کیا۔ آٹھ سالہ ظلم و ستم اور بدعنوانی اور نااہلی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مملکتِ پاکستان کے شہری آٹے کیلئے پولیس کے ڈنڈے کھا رہے ہیں اور بجلی اور گیس کیلئے ترس رہے ہیں۔ وہ مملکت جو عالمِ اسلام کا قلب ہے، آج صومالیہ اور افغانستان کے ساتھ بریکٹ کی جا رہی ہے!
اعلیٰ حضرت! آج مملکت پاکستان کے شہری بالخصوص اور پورے عالم اسلام کے باشندے بالعموم اس پروپیگنڈے کا شکار ہو رہے ہیں کہ ان ٹھکرائے ہوئے عناصر کو مملکتِ سعودی عرب میں پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ مفادات کا پروردہ پریس یہ افواہیں پھیلا رہا ہے کہ ان عناصر کو… جن سے پاکستانی عوام شدید نفرت کرتے ہیں … ظّلِ الٰہی کے خصوصی طیارے فراہم کئے جا رہے ہیں، انہیں دربارِ خاص تک رسائی حاصل ہو رہی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ عوام کے غیظ وغضب اور قانون کے ہاتھوں سے محفوظ رکھنے کیلئے انہیں مقدس دیار میں پناہ دے دی جائے۔
عزت مآب! آپ خسرو عالم پناہ ہیں اور رموزِ مملکت جانتے ہیں۔ آپکے اختیارات بے کنار اور آپکی حدودِ فرماں روائی اْفق تا اْفق ہیں۔ ہم مملکتِ پاکستان کے باشندے جو آپکی سلامتی اور سر افرازی کیلئے ہمہ وقت دست بدعا ہیں۔ یہ تصوّر بھی نہیں کر سکتے کہ جہاں پناہ کے کسی حکم پر بدگمانی کا شائبہ بھی پڑے۔ تاہم، ہم بندگانِ درگاہ، انتہائی تکریم کے ساتھ آپ کے دامن کو بوسہ دیتے ہوئے عرض گذار ہیں کہ اگر بین الاقوامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی یہ خبریں مبنی برحقیقت ہیں تو ازراہِ لطف وکرم، کسی بھی اقدام سے پیشتر ہماری درج ذیل گذارشات پر نگاہِ التفات ڈالی جائے۔-1 چونکہ مملکتِ سعودی عرب کے معاملات مؤقر علمائِ کرام کی رہنمائی میں طے کئے جاتے ہیں۔ اس لئے علمائے کرام سے استفسار کیا جائے کہ جن عناصر کی پذیرائی کی جا رہی ہے اْن کے جو مشاغل ہیں جس انداز سے انکے شب و روز گزرتے ہیں اور جو انکی شہرت ہے، کیا ان کی پذیرائی شرعاً مستحسن ہے؟-2 کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت پاکستان کے عوام کی خواہشات کا ازراہِ لطف خیال رکھا جائے، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی عقیدت کے شفاف آئینے پر کوئی دھبہ پڑ جائے۔
خدا آپ کی فرماں روائی کو دوام بخشے اور حرمین شریفین کیلئے آپ کی بے غرض اور بے لوث خدمات تاریخ میں زندہ جاوید رہیں۔
 

powered by worldwanders.com