Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, November 26, 2009

اگر کھڑے ہو تو چل پڑو



ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اس نے پہلے ہی بہت دیر کر دی ہے۔ اسے پیغام تو اسی وقت بھیج دیا گیا تھا جب مریض کے حلق نے دوا آگے گزارنے سے انکار کر دیا تھا۔ قاصد کو تلقین کی گئی تھی کہ اس نے راستے میں کہیں نہیں رکنا بس چلتے جانا ہے۔ ایک بستی سے دوسری بستی کی طرف‘ دوسری سے تیسری اور تیسری سے چوتھی بستی کی طرف اور اگر رکنا بھی پڑے تو صرف روٹی کے چند نوالوں اور پانی کے چند گھونٹ پینے کیلئے رکے اور ایم کیو ایم کو جا کر پیغام دے کہ اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جائو اور اگر کھڑے ہوئے ہو تو چل پڑو!


ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ قاصد چاشت کے وقت روانہ ہو گیا تھا پھر دوپہر ہو گئی اور مریض کی حالت زیادہ بگڑنے لگی۔ سب کی آنکھیں دروازے پر لگی تھیں۔ لیکن جنوب سے کوئی نہ آیا‘ قاصد نہ کبوترنہ رقعہ! سہ پہر کو مریض کے حلق سے ڈرائونی آوازیں آنے لگ گئیں‘ جھاڑ پھونک کرنے والے آ گئے‘ عورتوں نے سروں پر پٹیاں باندھ لیں اور سینوں پر دو ہتھڑ مارنے لگ گئیں۔ مردوں نے شملوں والی پگڑیاں اتار کر پھینک دیں اور چارپائیاں اور کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے جمع کرنے گلی گلی گھر گھر پھیل گئے۔ نوشتہ دیوار پڑھا جا رہا تھا‘ لیکن اب بھی امید تھی کہ کراچی والے پنجاب کو اس حال میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ امید اب بھی زندہ ہے‘ زندگی اور موت کے پیدا کرنے والے سے کچھ بعید نہیں کہ مردہ رگوں میں جان پڑ جائے۔ اس لئے ایم کیو ایم والے جب یہ سطور پڑھیں تو اگر بیٹھے ہوئے ہوں تو اٹھ کھڑے ہوں اور اگر کھڑے ہوں تو چل پڑیں۔

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ جب پٹنہ کے مولوی عنایت علی اور ان کے بھائی مولوی ولایت علی نے تحریک مجاہدین کی خاطر اپنی حویلیوں پر ہل چلوانا منظور کر لیا اور سید احمد شہید کی خاطر جانیں ہتھیلیوں پر رکھ لیں اور سرحد اور پھر بالاکوٹ کا رخ کیا تو اہل پنجاب ان کے ہم رکاب تھے۔
مولانا غلام رسول مہر نے ’’تحریک مجاہدین‘‘ میں بالاکوٹ کے شہیدوں کے جو نام تحریر کئے ہیں ان میں میانوالی کے اعوانوں اور پنجاب کے دوسرے علاقوں سے کئی نام دیکھے جا سکتے ہیں۔ اعظم گڑھ کے سید سلیمان ندوی  افغانستان کے نظام تعلیم کو جانچنے گئے تو سیالکوٹ کے علامہ اقبال ان کے ساتھ تھے۔ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی کو شاہ جہاں نے دہلی ہی میں تو سونے میں تلوایا تھا۔

میر تقی میر نے بہت پہلے ایم کیو ایم کو رقت بھرے لہجے میں بتایا تھا کہ …؎

چھڑا جو قصہ کہیں رات ہیر رانجھے کا

ہم اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا

عظیم آباد کے مرزا بیدل اور شہر سبز سے آئے ہوئے مرزا اسد اللہ غالب نے نائن زیرو کو سندیسوں پر سندیسے بھیجے  1857 میںدہلی میں اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو فرنگیوں نے پھانسی دی تو اس کا بیٹا مولانا محمد حسین آزاد‘ برسوں بعد‘ لاہور ہی میں علم کے موتی لٹانے آیا۔
حالت یہ تھی کہ محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف جہاں وہ پروفیسر تھے روانہ ہوتے تو راستے میں ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے شاگرد کتابیں کھولے‘ چلتے چلتے ‘ سبق لیتے جاتے۔
پٹنہ میں پیدا ہونیوالے سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے علی گڑھ میں تقریر کی تو پہلا فقرہ یوں آغاز کیا ’’برس دن ہوئے-‘‘ اور پھر پوری تقریر اسی طرح اردوئے معلی میں کی۔ میر تقی میر اور بیدل‘ پٹنہ کے مولوی برادران‘ سلیمان ندوی اور محمد حسین آزاد‘ شبلی نعمانی‘ اور حیدرآباد دکن کے بے مثال خطیب بہادر یار جنگ‘ سب ایم کیو ایم کو ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کہ کہیں دیر نہ ہو جائے اگر بیٹھے ہو تو خدا کے لئے اٹھ کر کھڑے ہو جائو اور اٹھے ہوئے ہو تو ایک لخطہ تاخیر کئے بغیر چل پڑو!

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ پنجاب کا متوسط طبقہ زبان فرنگ میں جسے مڈل کلاس کہتے ہیں‘ خون کے آنسو رو رہا ہے وہ ایک طرف پشتینی جاگیرداروں کے تنے ہوئے نیزوں کا سامنا کر رہا ہے اور دوسری طرف برادری پر مبنی اندھا نظام اس کے برہنہ سر پر کوڑے برسا رہا ہے۔
پنجاب کے پڑھے لکھے لوگ جنہیں زبان فرنگ میں INTELLIGENTIA
 کہا جاتا ہے‘ ان دو مسلم لیگوں سے عاجز آ چکے ہیں جو ان پر باری باری حکومت کرتی ہیں اور ایک دوسرے کو برملا کہتی ہیں کہ کل تمہاری باری تھی تو آج ہماری باری ہے! ایک مسلم لیگ قبل از اسلام کی جاہلیت کو سینے پر یوں سجائے ہے کہ اس نے ناظموں کی اکثریت جاٹ برادری سے نامزد کی۔ پرویز مشرف جیسے آمر کی حمایت ایم کیو ایم نے بھی کی تھی لیکن ایم کیو ایم نے کم از کم بیس بار یہ نہیں کہا کہ ہم وردی والے کو دس بار یا بارہ بار ’’منتخب‘‘ کرائیں گے۔ رہی دوسری مسلم لیگ تو وہ ایک نسلی گروہ سے باہر جانے کو تیار ہی نہیں۔ کیا لوگوں کو یاد نہیں کہ جنرل مشرف نے شب خون مارا تھا تو کسی آنکھ نے آنسو نہیں بہایا تھا کیوں؟ اس لئے کہ اخبارات کے صفحات دہائی دے چکے تھے کہ اسلام آباد اور لاہور میں کلیدی مناصب پر فائز تین یا چار درجن نوکر شاہی کے فرعون صفت نمائندے ایک خاص نسلی گروہ اور لاہور کی ایک خاص آبادی سے تھے!اہل پنجاب‘ لاہور سے عاجز ہیں اور لاہور‘ محلات سے عاجز آ چکاہے‘ محلات‘ محلات ہر طرف بکھرے ہوئے محلات‘ بابل کے معلق باغات لاہور کے محلات کے سامنے غلاموں کے جھونپڑے لگتے ہیں! پورے پنجاب کا بجٹ لاہور پر صرف ہو رہا ہے اور میانوالی سے اٹک تک اور بہاولپور سے خانیوال تک ‘ لوگ‘ دانتوں میں انگلیاں دبائے زندہ دلان لاہور سے پوچھتے ہیں" الیس من کم رجل رشید؟ "کیا تم میں کوئی انصاف پسند نہیں جو تکبر کی اس لہر کے آگے کھڑا ہو سکے؟

اٹک کے ایک گائوں نے خادم پنجاب کی خدمت میں فریاد کی کہ 2005ء میں ضلعی حکومت کی منظور شدہ ڈسپنسری ابھی تک بننی شروع بھی نہیں ہوئی اور یہ کہ ازراہ کرم وہ اہل دہ کو ان کا حق دلوائیں (نوائے وقت پندرہ ستمبر 2009ئ) لیکن خادم پنجاب ‘ پنجاب کے دور افتادہ دیہات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ان کا پنجاب رائے ونڈ سے شروع ہوتا ہے اور ماڈل ٹائون  پر آ کر ختم ہو جاتا ہے 

جگر مراد آبادی نے انہی کیلئے تو کہا تھا…ع

میری داستاں غم کی کوئی قیدو حد نہیں ہے

ترے سنگ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک

رہے عمران خان تو جو شخص چار سو کنال کا گھر تعمیر کرواتا ہے اور اس میں رہتا ہے‘ اس کا
MiND SET
کیسا ہوگا! وہ تو قبائلی خواتین کو تخت پر بٹھانے والے جرگہ سسٹم کو پورے پاکستان پر مسلط کرنا چاہتا ہے‘ وہ اسلام کا سبق ان اسلامی رہنمائوں لے رہا ہے جنہیں اسمبلیوں میں بھیجنے کیلئے اپنی صاحبزادیوں اور اپنی بیگمات کے سوا اور کوئی خاتون نظر ہی نہیں آئی! تو کیا ایم کیو ایم پنجاب کے پڑھے لکھے متوسط طبقے کو ان ’’مخلص‘‘ اور ’’عوامی‘‘ رہنمائوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے آپ کو کراچی حیدرآباد اور سکھر کے گلی کوچوں میں بند کر لے گی؟ تو کیا ایم کیو ایم نے ابھی تک آواز نہیں سنی کہ بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جائو اور کھڑے ہو تو چل پڑو…؟؟

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اہل پنجاب کا جسم زخم زخم ہے‘ خون رس رہا ہے اور مرہم رکھنے کا دعویٰ کرنے والے ان زخموں پر زہر چھڑک رہے ہیں‘ کوہ مری کے کسی ایک گائوں کو بھی سوئی گیس نہیں مہیا کی گئی لیکن وہاں جس علاقے میں خادم پنجاب کے فرزند ارجمند نے ’’مکان‘‘ بنوایا ہے‘ وہاں گیس کی پائپ لے جانے پر ستر کروڑ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں‘ ڈونگا گلی تک درختوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ انگوری ‘ نامبل مسیاری اور دوسری بستیاں‘ جہاں سے پائپ گزر رہی ہے‘ گیس سے محروم ہیں لیکن شاہی خاندان کو اپنے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا‘ ضابطہ پسندی اور میرٹ کی حرمت کا یہ عالم ہے کہ ایک جرنیل کو جو پنجاب سے نہیں ہے‘ پنجاب پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے‘ یہ وہی پنجاب پبلک سروس کمیشن ہے جس کا شاید ہی کوئی رکن لاہور سے باہر کا ہے

ایم کیو ایم کو واضح ہو کہ اگر وہ پنجاب کی طرف بڑھ رہی ہے تو پنجاب کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی برادریوں کے جان لیوا پھندے سے اپنے آپکو بچائے‘ کھرب پتی کالم نگاروں سے با عزت فاصلہ رکھے ورنہ عزت سادات سے محروم ہو جائے گی! جو زرعی اصلاحات بھارت نے 1951ء میں نافذ کر دی تھیں‘ ان سے ملتی جلتی اصلاحات پنجاب میں نافذ کرنے کا نصب العین اپنے سامنے رکھے اور جلدی کرے جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں پر کاری ضرب لگانے کا حوصلہ لے کر آئے توپھر دیر نہ کرے۔بیٹھی ہے تو اُٹھ کھڑی ہواور کھڑی ہے تو چل پڑے
 (پس تحریر۔ اٹک‘ کیمبل پور کے علاقے میں مریض کی خطرناک حالت کے بارے میں اطلاع ان الفاظ کے ساتھ بھیجی جاتی ہے کہ اگر بیٹھے ہوئے ہو تو اٹھ پڑو اور اگر کھڑے ہو تو چل پڑو

Wednesday, November 25, 2009

تابوت


اس کوشش میں عرصہ ہی لگ گیا، اس اثنا میں جناب پروفیسر فتح محمد ملک نے مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین کا منصب چھوڑتے وقت، اپنے جانشین کے طور پر جو تین نام تجویز کئے، ان میں سرفہرست اس فقیر کا نام تھا۔ ملک صاحب کی منطق یہ تھی کہ نفاذ اردو کیلئے زمین ہموار ہو چکی ہے اور اب مقتدرہ کا سربراہ کسی ایسے شخص کو ہونا چاہئے جو بیوروکریسی سے، کسی احساس کم تری کے بغیر بات کرسکے اور افسر شاہی کے اندر اور باہر کو بخوبی جانتا ہو، ظاہر ہے حکومت کا ظاہری مرکز اسلام آباد لیکن اصل مرکز ملتان تھا۔ پینل میں شامل ایک اور دوست ملتان سے تھے اور نظریاتی طور پر بھی وہ اربابِ حل و عقد کو زیادہ راس آسکتے تھے۔ میرا نام سرفہرست ہونے پر ذوالکفل بخاری کی مسرت کی انتہا نہ تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ پی آر میں صفر ہونے کی وجہ سے میری کامیابی کا کوئی امکان نہیں، لیکن اس نے نظریاتی طور پر صف بندی کرلی اور میرے لئے کوششیں کرنے لگا۔ نظریاتی حوالے سے اپنے (اور میرے) کسی نہ کسی حوالے سے اسے مقتدرہ اور اوپر کے فیصلہ سازی کے مرکزوں کی خبریں ملتی رہتی تھیں اور وہ مجھے معاملے کی پیش رفت سے آگاہ کرتا رہتا۔ اس کی بے تابی سے بعض اوقات مجھے شبہ ہونے لگتا کہ مقتدرہ کے سربراہ کیلئے میرا نہیں، بلکہ اس کا نام زیر غور تھا! لیکن یہ محض اس کا خلوص، بے غرضی اور وہ بلند مقام تھا جس پر وہ شخصیت اور کردار کے حوالے سے فائز تھا! بعد میں یوں ہوا کہ اس فہرست میں سے وزیراعظم نے کسی کو بھی نہ چُنا اور قرعۂ فال ایک بار پھر دوستِ مکرم جناب افتخار عارف کے نام نکل آیا۔ ذوالکفل کو معلوم ہوا تو اس نے مجھے ٹیلی فون کیا۔ وہ بالکل بجھا ہوا اور خاموش سا تھا لیکن میں نے اسے یاد دلایا کہ اس میں ہمارے لئے ضرور کوئی بہتری ہوگی۔ اسے جب میں نے بتایا کہ جناب افتخار عارف کی تعیناتی میرے لئے انتہائی اطمینان کا باعث ہے کیونکہ میرے ذاتی تعلق کے علاوہ ان کا جو گہرا اور والہانہ تعلق والد گرامیؒ سے رہا اور ہے، اس کے پیش نظر وہ میرے لئے بہت محترم ہیں اور میں اس محبت اور احترام کو ایک لمحے کیلئے بھی پس پشت نہیں ڈال سکتا جو جناب افتخار عارف کے باطن اور ظاہر میں والد گرامی کیلئے تھا۔ اس پر وہ لمحۂ یاس جو اس پر طاری تھا، گزر گیا۔



رواں سال کا کوئی ابتدائی مہینہ تھا۔ فروری یا مارچ، ٹھیک سے یاد نہیں، ذوالکفل کا فون آیا کہ وہ سعودی ویزے کے سلسلے میں اسلام آباد آرہا ہے۔ وہ کام سے فارغ ہو کر میری قیام گاہ پر آگیا۔ شام کو اس نے رخصت ہونے کی بہت کوشش کی لیکن میں نے جانے نہ دیا۔ اس رات وہ میرے پاس ٹھہرا۔ میری اہلیہ اپنی بیٹی اور نواسوں کو ملنے لاہور گئی ہوئی تھی اور مجھے قلق تھا کہ ذوالکفل کی کماحقہ خاطر مدارت نہ ہوسکے گی۔ ہر پوری شام باتیں کرتے رہے اور احساس ہی نہ ہوا کہ رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جو اسلام کی روح کو روحِ عصر کے حوالے سے سمجھ سکتے تھے۔ اس کے ایک عقیدت مند نے ایک ملازمت کی پیشکش جب صرف اس وجہ سے ٹھکرانا چاہی کہ وہاں انگریزی لباس پہننا پڑتا تھا تو ذوالکفل نے اسے منع کیا اور سمجھایا کہ صرف لباس کی وجہ سے نہ جا کہ بہت سے وہ کام کس طرح کئے جاسکیں گے جو ایک اچھا مسلمان ہی کرسکتا ہے۔


چند دن بعد اس نے مکہ یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر کی حیثیت سے شمولیت کرلی۔ فون پر اس نے بتایا کہ اب وہ مکہ شریف میں رہائش پذیر ہے۔ خانوادہ آنے والا ہے اور یہ کہ میں اہل و عیال کے ساتھ آئوں تو خوب رونق رہے گی۔ اپریل میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں میرا جدہ جانا ہوا۔ میں عمرہ کیلئے حرم پہنچا تو ذوالکفل میر امنتظر تھا۔ عرب لباس میں وہ ایک وجیہہ شہزادہ لگ رہا تھا۔جتنی دیر میں عمرہ کرتا رہا، وہ مقررہ جگہ پر انتظار کرتا رہا۔ عمرہ ختم ہوا اور حجام کے پاس گئے تو اس کے حجام سے قینچی لے کر میرے بالوں کی ایک لٹ اپنے ہاتھوں سے کاٹی۔ اس نے فاسٹ فوڈ ریستوران سے ڈھیر سارا کھانا خریدا اور ہم حرم کے جوار میں بیٹھ کر، پہروں باتیں کرتے رہے۔ دوسرے دن شام گئے وہ جدہ پہنچ گیا اور گردش زمانہ سے کچھ وقت ہم نے پھر چھین لیا۔دو ماہ پہلے اس نے رمضان ملتان میں گزارا۔ فون پر بات ہوئی تو میں نے اصرار کیا کہ شاہ صاحب! اسلام آباد کو اپنے قدموں سے تھوڑی دیر ہی کو سہی، سرفراز فرما جایئے، لیکن ذوالکفل رمضان کے فوراً بعد مکہ مکرمہ واپس چلا گیا۔دس بارہ دن پہلے میں گھر کے لائونچ میں بیٹھا تھا۔ ایک طرف اخبارات کا پلندہ تھا اور دوسری طرف لیپ ٹاپ کھلا تھا۔ عجیب اداس اور پھیکی شام تھی۔ میں نے بیزار ہو کر سامنے پڑا ہوا ٹی وی بندکردیا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ حافظ صفوان تھے۔ مجھے اچنبھا ہوا۔ حافظ صاحب ای میل پر ہروقت رابطے میں رہتے ہیں لیکن فون پہلی بار آیا تھا۔ کاش نہ آتا! ذوالکفل شہرِ امن مکہ کی ایک گلی میں ٹریفک کے حادثے کی نذر ہوگیا۔ مجھے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کیا کروں، کس سے بات کروں، المیہ یہ تھا کہ رونا بھی نہیں آرہا تھا۔ ملتان خالد مسعود کو فون کیا معلوم ہوا وہ امریکہ میں ہے۔ امریکہ کا فون لیکر وہاں اس سے بات کی لیکن ہزار دوستوں سے بھی بات کرلینے سے سینے کے اندر جو آگ سی لگی ہوتی ہے، کہاں بجھتی ہے! میں ڈرائنگ روم میں چلا گیا، جس جگہ وہ بیٹھا رہا تھا، وہاں بیٹھ کر اندھیرے میں آنسو بہائے۔ شائستگی، شرافت، حلم اور محبت کا ایک پیکر تھا، جو رخصت ہوگیا۔ کیا رومی نے دیوانِ شمس تبریز کا یہ شعر ذوالکفل ہی کیلئے نہیں کہاتھا؟…؎


بروزِ مرگ چو تابوتِ من رواں باشد


گماں مبر کہ مرا  فکرِ این و آں باشد

Thursday, November 19, 2009

سید برادران


چلئے مان لیا! آصف علی زرداری منصب صدارت سے ہٹ گئے لیکن صرف اتنا بتا دیجئے، آپ سید برادران کا کیا کرینگے؟

اکیس برس پہلے فوجی آمر کا تختِ رواں ہوا میں تحلیل ہوا اور بے نظیر بھٹو سربر آرائے حکومت ہوئیں تو بتایا گیا کہ وہ خرابی کی جڑ ہیں۔ یہ جڑ کاٹ دی گئی لیکن سید برادران وہیں کے وہیں رہے۔ پھر نواز شریف آئے، انہیں بھی ہٹا دیا گیا۔ سید برادران قائم و دائم رہے پھر دوبارہ بے نظیر آئیں ایک بار پھر نواز شریف آئے، دونوں ہٹا دئیے گئے۔ سید برادران وہیں کے وہیں رہے، پھر پرویز مشرف نے شب خون مارا اور آٹھ سال سروں پر منڈلاتا رہا، ہمیں یقین دلایا گیا کہ وہی ساری مصیبتوں کا سبب ہے۔ اسے ہٹانے کیلئے کوشش کرنیوالوں نے کوشش کی، ایڑی چوٹی کا زور لگا، وہ ہٹ گیا تو معلوم ہوا کہ سید برادران کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ اب آصف زرداری کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں، مجھے آصف علی زرداری سے کوئی عقیدت ہے نہ ہمدردی! جس صدرِ مملکت کے شب و روز پراسراریت میں لپٹے ہوئے ہوں، اور جو بڑے بڑے سے بڑے حادثے پر کبھی نظر نہ آیا ہو اور جسکے آگے پیچھے ایسے لوگ ہوں، جیسے اب اسکے آگے پیچھے ہیں، اس صدرِ مملکت ک ساتھ کوئی اندھا ہی عقیدت رکھ سکتا ہے اور کوئی پاگل ہی ہمدردی رکھے گا، لیکن آصف علی زرداری ایوانِ صدر سے رخصت ہو بھی گئے تو مجھے خدا کیلئے کوئی سمجھائے، کوئی بتائے کہ سید برادران سے چھٹکارا کیسے ملے گا؟
سید برادران دو بھائی تھے ایک کا نام عبداللہ خان تھا اور دوسرے کا حسین علی تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات 1707 میں ہوئی۔ اورنگ زیب اپنے عہد حکومت کے آخری پچیس سال دکن سے نکل ہی نہ سکا اور اسکے زمانے میں جو عروج کہلا رہا تھا، دراصل زوال کا آغاز تھا۔ وہ مرہٹوں میں ایسا الجھا کہ باقی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے میں اسکی موت کے بعد دیر ہی نہ لگی۔ اس افراتفری، نفسا نفسی،
اس غدر اور اس
     Cut Throat
  میں سید برادران، بادشاہگر بن گئے۔ ان کا باپ سید میاں بیجاپور کا صوبیدار (گورنر) تھا۔ 1720ء تک سید برادران کی مرضی کے بغیر بے نظیر تخت آراء ہو سکتی تھی نہ نواز شریف اور نہ آصف علی زرداری!
اورنگ زیب عالمگیر کا بیٹا معظم، بہادر شاہ کے لقب سے تخت پر بیٹھا اصل اقتدار سید برادران کے ہاتھ میں تھا۔ بہادر شاہ مرا تو اس کے چار بیٹے پھر آپس میں لڑے۔ تین قتل ہوئے اور چوتھا جہاندار شاہ بادشاہ بنا، سید برادران وہیں کے وہیں رہے پھر اس کا بھتیجا فرخ سیر تخت پر بیٹھا۔ طاقت کا مرکز سید برادران ہی رہے ان میں سے ایک بھائی وزیر اعظم بن گیا اور دوسرا کمانڈر ان چیف یہ اس قدر طاقت ور تھے کہ دہلی کو اپنی مٹھی میں رکھنے کیلئے مرہٹوں کیساتھ مل گئے اور 1719 میں ان کیساتھ باقاعدہ معاہدہ کر لیا۔ بادشاہ فرخ سیر نے ان کا ہر مطالبہ پورا کیا لیکن اسکے باوجود انہوں نے اسکی آنکھیں نکال لیں اور اذیتیں دے دے کر مارا۔ پھر اب انہوں نے رفیع الدرجات کو بادشاہ بنایا۔ لیکن اقتدار کا ایک ایک سرچشمہ، ایک ایک قلم دان سید برادران کے پاس ہی رہا۔ بادشاہ آتے رہے، جاتے رہے…؎
کسی سے شام ڈھلے چھِن گیا تھا پایۂ تخت
کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا
لیکن اقتدار سید برادران ہی کا رہا وزیروں کی تعیناتیاں انکی مرضی سے ہوتی تھیں۔ گورنر وہ لگاتے تھے فوجی افسروں کی ترقیاں انکے ہاتھ میں تھیں۔ بیورو کریسی کی اکھاڑ پچھاڑ اُنکے اشارہ ابرو سے ہوتی تھی۔!تو آپ آگے بڑھئے، دیر نہ لگائیے، آصف زرداری کو ہٹا دیجئے، نواز شریف کو لے آئیے، پھر اُسے ہٹا دیجئے، پھر کسی اور کو ایوان صدر میں کسی اور کو وزیراعظم کے محل میں داخل کردیجئے پھر اُسے بھی نکال دیجئے، لیکن ایک بات کا یقین کرلیجئے کہ اصل اقتدار سید برادران کے ناپاک ہاتھوں ہی میں رہے گا! چینی کے کارخانے انہی کے قبضے میں رہیں گے۔ آٹے پر انہی کا کنٹرول رہے گا۔ ملازمتیں یہی بانٹیں گے۔ فیکٹریاں اور ملیں اِ ن ہی کی ہوں گی، جاگیریں اِنکے پاس ہی رہیں گی۔ سنگ مرمر کی کانوں کے مالک یہی رہیں گے اور سرداریاں انہی کے سامنے دست بستہ کھڑی رہیں گی۔!
آپ خود سوچئے، آصف علی زرداری کے آنے جانے سے اور نواز شریف کے تیسری چوتھی یا گیارہوں بارہویں بار وزیراعظم بننے سے کیا فرق پڑیگا؟ کیا امین فہیم کی صاحبزادی کو…جو بغیر کسی امتحان کے بیرون ملک تعینات کی گئی ہے نکال کر کسی اور کو میرٹ پر رکھ لیا جائیگا؟ کیا چینی اور آٹے کے کارخانے کے مالکوں کو بھڑکتے تنوروں میں ڈال دیا جائیگا جس طرح سعودی بادشاہ عبدالعزیز نے روٹی کا وزن کم کرنے والے کو اپنے سامنے تنور میں ڈال دیا تھا اور پھر آج تک روٹی کا وزن کم ہوا نہ قیمت بڑھی! کیا زرداری اور نوازشریف کے جانے یا آنے سے اکبر بگتی کا بیٹا ملک کے طول وعرض میں یہ کہنا چھوڑ دیگا کہ سرداری نظام کے سوا کوئی اور نظام قابلِ قبول نہیں، اور یہ کہ جُھوٹے کو پکڑنے کیلئے اُسے دہکتے انگاروں پر چلانا ایک جائز فعل ہے۔ کیا میر علی بگتی کی نجی جیل ختم کردی جائیگی اور کیا ڈیرہ بگتی کے غریب سرکاری ملازموں کو تنخواہ عالی بگتی کی تجوریوں سے ملے گی۔
کیا زرداری کے جانے سے اور کسی کے آنے سے وعظ کرنیوالے اور مضامین لکھنے والے ریٹائرڈ جرنیلوں کے اثاثوں کا حساب ہو سکے گا اور کیا مرحوم جرنیلوں کی اولاد کے کھرب پتی ہونے کے راز سے پردہ اُٹھ سکے گا؟ کیا عورتوں کو جلانے اور گولیاں مارنے والے وزارتوں سے ہٹ جائیں گے؟ کیا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور وزارت میں میرٹ کے بغیر لاکھوں کی تنخواہوں پر نوکریاں لینے والے برطرف کر دئیے جائیں گے؟ کیا مونس الٰہی اور حمزہ شہباز شریف کی تخت نشینیاں رُک جائیں گی؟ کیا وسیم سجاد اور شریف الدین پیرزادہ جیسے چمکتے ستاروں سے قوم کی گلوخلاصی ہو جائیگی؟ کیا اپنے آپکو خدا سمجھنے اور ہرقانون سے بالاتر گرداننے والے ’’عوامی‘‘ نمائندے قانون کے آگے سرجھکالیں گے؟ کیا ملازمتیں سفارش کے بغیر ملنا شروع ہوجائینگی؟ کیا سرکاری مکان حق داروں سے چھین کر سفارش کے زور پر اپنے پسندیدہ لوگوں کو دلوانے والے (جن کے نام ہاؤسنگ اور تعمیرات کی وزارت نے خود قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتائے ہیں) کیفرکردار کو پہنچیں گے؟
کیا وزارت ِداخلہ سے پوچھا جائے گا کہ قلعہ سیف اللہ بلوچستان کی کمپنی سے بارود کی نقل حرکت کا لائسنس منسوخ کرکے دوبارہ کیوں جاری کیا گیا جبکہ اس کمپنی نے کروڑوں روپے کا بارود کہاں اور کس کو دیا؟ کسی کو معلوم نہیں! کیا چینی کے مجرم کارخانہ داروں کے حق میں خاموش رہنے والی کابینہ کے 72 وزراء کو برطرف کرکے نشان عبرت بنایا جا سکے گا؟ کیا صدر وزیراعظم وزیروں مشیروں اور صوبائی حکمرانوں سے وہ مراعات واپس لے لی جائینگی جو بھارت میں دی جاتی ہیں نہ کسی مغربی ملک میں! کیا سنگاپور، کینیڈا اور دوسرے مہذب ملکوں کی طرح ہماری کابینہ کی اکثریت بھی پی ایچ ڈی پر مشتمل ہوگی اور کیا اُن گاموں ماجھوں سے قوم کی جان چھوٹ جائیگی جو اس دھرتی پر بوجھ ہیں اور ملک کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں؟ اور کیا وفاداریاں بدل کر ہمیشہ اقتدار میں رہنے والوں اور رہنے والیوں کے چہروں پر کالک ملی جائیگی؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا اور اقتدار ’’سید برادران‘‘ کے قبضے ہی میں رہنا ہے تو مجھے اس سے کیا غرض کہ کون جاتا ہے اور کون آتا ہے؟
؎ میری بلا سے بُوم رہے یا ہُما رہے

Tuesday, November 17, 2009

شکنجے سے آتی ہوئی آوازیں


آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سربراہ جناب سکندر خان کی خدمت میں یہ اطلاع نہایت ادب سے پیش کی جاتی ہے کہ خالد کو جب شکنجے میں کسا گیا تو پہلے یہ اس کے پائوں کو ڈالا گیا، پائوں کی ہڈیاں تڑا تڑ ٹوٹ گئیں، پھر آہستہ آہستہ شکنجے کو اوپر سرکایا جاتا رہا، ہڈیاں ٹوٹتی گئیں، تڑ تڑ تڑ، ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں وہ لوگ سن رہے تھے جو اس زمانے میں غلے کے ایک ایک دانے کو ترس گئے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ شکنجہ خالد کے سر تک پہنچ گیا اور اس کا دم نکل گیا!



فرشتے آسمانوں پر حیران ہیں کہ جب چینی کے کارخانوں کے مالکوں کی طرف سے جناب سکندر خان مسابقتی کمشن میں پیش ہوئے اور نرم برتائو کی درخواست کی تو انہیں یہ حکم کیوں نہیں دیا جا رہا تھاکہ آسمان سے پتھر برسائیں! غضب خدا کا! چینی کی فیکٹریوں کے مالکان نے پہلے گٹھ جوڑ کیا اور کارٹل بنایا۔ کارٹل انگریزی میں اس مجرمانہ اکٹھ کو کہتے ہیں جو کارخانوں کے مالک بے بس صارفین کو اذیت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کارخانہ داروں نے سب کچھ کیا۔ ذخیرہ اندوزی کی حالانکہ اللہ کے آخری رسولؐ نے صاف صاف حکم دیا تھا کہ ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ پھر انہوں نے قیمتیں بڑھائیں یہاں تک کہ خدا کی مخلوق چیخ اٹھی۔ میں یہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا جب ایک بڑھیا جو قطار میں کھڑی کھڑی نڈھال ہو رہی تھی اور گرنے کے قریب تھی، آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کارخانہ داروں کو بددعا دے رہی تھی، میں نے اوپر دیکھا، ایک بدلی فضا میں اٹکی ہوئی تھی اس کے قریب سے ایک پرندہ اڑ رہا تھا، کارٹل …؟ ایک کارٹل…؟ ایک ہزار… ایک کروڑ… ایک کھرب کارٹل…؟ بددعا کو فضا میں اٹکی ہوئی بدلی کے اوپر جانے سے کوئی کارٹل نہیں روک سکتا!


غضب خدا کا! ان کارخانہ داروں نے کارٹل بنا کر ہر وہ کام کیا جس سے صارفین کی زندگی جہنم بنی اور اب یہ کارخانہ دار مسابقتی کمشن کی خدمت میں یہ درخواست دے رہے ہیں کہ آرڈیننس کی شق 39 کی رو سے ان سے نرمی برتی جائے! یہ کیسا ملک ہے جس میں سب کے لئے قانون کوئی نہ کوئی نرمی ڈھونڈ لیتا ہے، کبھی این آر او کی شکل میں کبھی آمروں کیلئے نظریۂ ضرورت کی صورت میں اور اب اربوں کھربوں کی لوٹ مار کرنے والے مسابقتی کمشن سے نرمی کی درخواست کر رہے ہیں۔ یہ صرف عوام ہیں جن کے لئے کوئی این آر او ہے نہ کوئی نرمی!


چینی کے بحران کے ذمہ دار مشرف کی کابینہ میں تھے یا جناب یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں بیٹھے ہیں، قاف لیگ کے تخت پر متمکن ہیں یا نواز لیگ کے اقتدار کا حصہ ہیں یا پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر بادشاہی کے مزے لوٹ رہے ہیں، وہ جو بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خالد کو جب شکنجے میں کسا گیا تو اس کی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں وہ لوگ سن رہے تھے جو غلے کے ایک ایک دانے کو ترس گئے تھے۔ یہ خالد بن عبداللہ تھا جسے اموی خلیفہ ہشام بن عبدالمالک نے کوفہ کا گورنر بنایا اور پھر یہ پورے پندرہ سال 105 ہجری سے 120ھ تک عراق کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ اس کی ماں یورپ کی عیسائی عورت تھی اس لئے اسے ابن النصرانیہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس نے مسجدوں کے مینار منہدم کرا دیئے اور سبب یہ بتایا کہ موذن ان پر چڑھ کر لوگوں کے گھروں میں جھانکتے ہیں اور عورتوں سے تانک جھانک کرتے ہیں لیکن یہ وہ بات نہیں جو ہم خالد بن عبداللہ کے بارے میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔


مخلوق کو اذیت میں مبتلا کر کے دولت مند بننے والے حکمران پہلی بار نہیںظاہر ہوئے، ایسے عاقبت نااندیش پہلے بھی ہو گزرے ہیں لیکن ان کے انجام سے سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ خالد کے حکمران ہشام بن عبدالملک نے پایۂ تخت دمشق سے خالد کو خفیہ پیغام بھیجا کہ جب تک خلیفہ کا غلہ فروخت نہ ہو جائے کسی دوسرے کو غلہ فروخت کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ خالد نے غلہ یچنے پر پابندی عائد کر دی۔ گرانی پھوٹ پڑی، لوگ قطاروں میں کھڑے ہوگئے، غلے کی قیمت آسمان پر جا پہنچی۔ آج جناب سکندر خان لاکھوں کروڑوں عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں، کاش وہ آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ساتھیوں کو جمع کر کے انہیں یہ بتاتے کہ ایک نظام اور بھی ہے جو اس کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو اس نظام کی پرواہ نہیں کرتے ان کا انجام وہی ہوتا ہے جو خالد بن عبداللہ کا ہوا تھا!


عربی کے مشہور شاعر فرزدق نے اس کی ہجو میں کیا ہی زبردست شعر کہا


’’ارے اللہ اس سواری کی پشت کا برا کرے جو دمشق سے لڑ کھڑاتے ہوئے خالد کو ہمارے پاس لائی!‘‘


آج پیپلز پارٹی کے وزیر اپنے صاحبزادوں کی شادیوں پر کُنڈے لگا کر بجلی غصب کرتے ہیں اور لوگوں کو اندھیرے میں دھکیلتے ہیں تو یہ کون سی نئی بات ہے۔ خالد بن عبداللہ کے ایک ملازم طارق کے بچے کے ختنے کی تقریب تھی تو اس نے مالک کو ان گنت دوسرے تحائف کے علاوہ ایک ہزار غلام اور ایک ہزار لونڈیاں پیش کیں۔ خالد نے اپنے بھائی کو موجودہ افغانستان کا حکمران نامزد کیا جو ان دنوں خراسان کہلاتا تھا۔ بلخ (موجودہ مزار شریف) دارالحکومت تھا۔ عید پر اسے سونے کے محل کے ماڈل‘ طلائی لوٹے‘ چاندی اور سونے کے بادیے اور رکابیاں اور سونے کی بنی ہوئی بڑی بڑی گیندیں تحفے میں ملیں، پھر یہی خالد قید ہوا اور عراق کا نیا گورنر اسے ہر روز نئی سزا دیتا تھا اور چھپا ہوا مال اگلواتا تھا۔ چینی کے کارخانہ داروں سے ہماری دست بستہ گزارش ہے کہ خالد کے بارے میں (جس نے عراق میں غلے کی قلت بالکل اسی طرح پیدا کی تھی جس طرح آج پاکستان میں چینی کا مصنوعی قحط پیدا کیا گیا ہے) ابن خلکان کے یہ الفاظ پڑھیں اور ازراہِ کرم غور سے پڑھیں۔


’’اس نے (نئے گورنر نے) دو لکڑیوں کے درمیان اس کے پائوں رکھے اور ان کو نچوڑ دیا حتیٰ کہ وہ ٹوٹ گئے، پھر اس نے دونوں لکڑیوں کو اس کی پنڈلیوں تک بلند کیا اور ان کو نچوڑ دیا۔ حتیٰ کہ وہ بھی ٹوٹ گئیں پھر اس نے لکڑیوں کو اس کی رانوں تک بلند کیا پھر اس کی کمر تک، پس جب اس کی کمر ٹوٹ گئی تو وہ مر گیا…‘‘


بہت ہو چکی یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں، نہ کسی کے باپ کو وراثت میں ملا تھا! اس ملک کے مالک عوام ہیں اور یہ مالک کبھی آٹے کے لئے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں اور ظلم کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ مجرم کابینہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی یہ مالک چینی کے ایک ایک دانے کے لئے ترستے ہیں اور ساٹھ روپے فی کلوگرام لیتے ہیں اور ظلم کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ مجرم پھر کابینہ میں بیٹے ہوتے ہیں، مرکز کی کابینہ میں، پنجاب کی کابینہ میں، سندھ اور سرحد کی کابینہ میں اور سیاسی پارٹیوں کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں نہیں! اب یہ ظلم مزید برداشت نہیں ہو سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملزم شکنجوں میں کسے جائیں ان کے پائوں‘ ان کی رانیں اور ان کی گردنیں ٹوٹیں اور لوگ آوازیں سنیں!


یہ عجیب تماشا ہے کہ پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی کی اعلیٰ کلاس تک سبق پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، یہ کیسا زرعی ملک ہے جس میں خالص شہد صرف آسٹریلیا کا پایا جاتا ہے دودھ نیسلے کا ہے اس لئے کہ ایک پائو دودھ میں ایک من پانی ملانے والے کیلئے بھی کوئی سزا نہیں ہے، آٹا ناپید ہے، چینی کا بدترین بحران ہے، گوشت پونے چار سو روپے کلو ہے، مرغی خریدنے سے پہلے لوگ ہزار بار سوچتے ہیں اور مرغی کی خوراک بنانے والے اس میں ایسی ایسی غلاظت شامل کر رہے ہیں جو مہذب ملکوں میں کتے اور سور کو بھی نہیں کھلائی جاتی۔ چند ماہ پہلے چیف جسٹس نے مرغیوں کی خوراک میں خنزیر کے اجزا شامل کرنے پر متعلقہ کارخانہ داروں کو شرم دلائی تھی۔ یہ کیسا زرعی ملک ہے! شاید یہ محض اس لئے زرعی ملک ہے کہ جاگیردار اور زمیندار منتخب اداروں میں نسل در نسل اور پشت در پشت بیٹھے ہیں!


لیکن اب خلقِ خدا شکنجے سے آتی ہوئی آوازیں سننا چاہتی ہے!!

Thursday, November 12, 2009

مسّلح افواج اور سول سروس… ایک تقابل


سرپر بال کسی زمانے میں ہوں گے، اب نہیں تھے جو جھالر کی صورت میں باقی تھے، سفید تھے۔ جُھریوں کا لشکر چہرے کی طرف ہر اول دستہ بھیج چکا تھا اور چہرے کے کچھ حصے پر قبضہ بھی کر چکا تھا۔ لہجے میں دُکھ تھا۔ بے پناہ دُکھ۔ احتجاج تھا، ایسا احتجاج کہ اگر اس کا بس چلتا تو شاہراہ دستور پر واقع طاقتور ’’اداروں‘‘ کو وہ ضرور تہس نہس کر دیتا۔



’’میں نے حکومت پاکستان کو اپنی زندگی کا بہترین حصہ دیا۔ اڑتیس سال۔ دیانت داری سے کام کیا۔ حکومت کے خزانے کے اربوں کھربوں روپے بچائے اور حکومت نے میرے ساتھ کیاکیا؟ ریٹائرمنٹ پر ایک پلاٹ دیا تاکہ میں گھر بنا کر سر چھپا سکوں لیکن ایسی جگہ جہاں اگلے دس سال تک گھر نہیں بنایا جاسکتا۔ وہاں تو گائوں کے گائوں آباد ہیں۔ وہاں تو سڑک تک نہیں بنی اور وہ جو ساری زندگی ’’صحیح‘‘ طریقے سے ’’نوکری‘‘ کرتے رہے، انہوں نے راتوں رات اپنے پلاٹ ’’وی آئی پی‘‘ سیکٹروں میں ’’منتقل‘‘ کرا لئے، یہ ہے اس حکومت کا انصاف!‘‘


اُس کا سانس پھول چکا تھا۔ میں نے اُس کیلئے پانی منگوایا اور تسلّی دینے کی کوشش کی۔ ’’آپ کی شکایت حق بجانب ہے، لیکن ایسا تو بہت سے سرکاری ملازموں کے ساتھ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے‘ اس کا حل کیا ہے؟‘‘ … ’’حل بہت آسان ہے۔‘‘ اُس نے جواب دیا ’’سول سرکاری ملازموں کے گھروں اور پلاٹوں کے منصوبے پاکستان آرمی کے سپرد کردیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی پلاٹوں پر تعمیر شروع کرنی ممکن ہو جائے گی!‘‘


وہ تو رو دھو کر، دل کا غبار نکال کر چلا گیا اور مجھے وہ خط یاد آنے لگے جو وقتاً فوقتاً اخبارات میں پڑھنے والوں کی طرف سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے کئی خطوط یاد آئے جن میں سرکاری ملازموں نے مطالبہ کیا تھا کہ سول حکومت کے رہائشی منصوبے فوج کے ذمے لگائے جائیں تاکہ وقت پر مکمل ہو سکیں۔


ملک کی تاریخ کا نصف سے زیادہ حصہ فوجی آمروں کے ہاتھ سے سیاہ ہو چکا ہے۔ کسی نے ’’عشرۂ ترقی‘‘ منایا اور کوئی نوے دن کے وعدے کو کھینچ کر گیارہ سال تک لے گیا اور کوئی قاف لیگ کے کندھے پر بیٹھ کر نوسال تک قوم کا منہ چڑاتا رہا، لیکن کیا فوج بطور ادارہ اسکی ذمہ دار ہے؟ نہیں! اور اگر ملک پر قبضہ کرنے والے فوجی سربراہوں کیخلاف فوج نے بغاوت نہیں کی تو یہ بھی فوج کے محاسن میں سے ہے‘ اس لئے کہ جن ملکوں کی فوجیں تقسیم ہو کر آپس میں لڑنے لگتی ہیں اُن پر تاریخ رشک کرتی ہے نہ اُن کی ہم عصر دنیا!


اِس وقت پورے سرکاری سیکٹر میں مسلح افواج ہی وہ ادارہ ہیں جن کے تنظیمی ڈھانچے، اندرونی احتساب اور انٹرنل آڈٹ کا مقابلہ مغربی دنیا کے کارپوریٹ سیکٹر سے کیا جاسکتا ہے۔ یہاں وقت کی پابندی ہے اور منصوبوں کو وقت پر ختم کرنے کی روایت جو برقرار رکھی جا رہی ہے۔ اسکے مقابلے میں سول حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگایئے! ایک ہفتہ پہلے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو متعلقہ وزارت نے خود بتایا کہ ستر سرکاری مکان سفارشوں کی بنیاد پر الاٹ کئے گئے ہیں۔ سفارش کرنیوالے ’’معززین‘‘ کے اسمائے گرامی بھی اخبار میں شائع ہوئے لیکن وزارتِ عظمیٰ کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی!


پاکستان آرمی نے ریٹائر ہونیوالے فوجی افسروں کو بنے بنائے مکان دینے کا منصوبہ 1980ء میں شروع کیا۔ اس کا ایک طریق کار وضع کیا گیا، قوانین بنائے گئے، ملازمت کے دوران فوجی افسروں کے جی پی فنڈ سے مکانوں کی قیمت اقساط میں لینے کے فارمولے طے کئے گئے۔ اُس وقت سے لیکر آج تک یہ سکیم انصاف کیمطابق چل رہی ہے۔ الاٹمنٹ کے قوانین بھی وہی ہیں اور غالباً ایک مثال بھی ایسی نہیں کہ کسی منظورِ نظر کو کسی عامی پر ترجیح دی گئی ہو۔ ہماری معلومات کیمطابق ریٹائر ہونیوالے کسی فوجی افسر کو بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑتی۔ اسکے مقابلے میں اسلام آباد کی ہائوسنگ فائونڈیشن کا حال دیکھئے۔ سول ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر بنے بنائے گھر دینے کا یہ منصوبہ 1988ء میں شروع ہوا‘ اب تک

 اسکے چار مرحلے
(PHASE) منظرِ عام پر آچکے ہیں اور ہر مرحلے 

میںالاٹمنٹ کا معیار بدل دیا گیا۔ صرف اس لئے کہ کچھ کو نوازا جاسکے اور کچھ کی تذلیل کی جاسکے۔ پہلے مرحلے میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بنے بنائے گھر دیئے جائینگے۔ یہ منصوبہ بُری طرح ناکام ہوا۔ بعد کے تین مرحلوں میں پلاٹ دیئے گئے اور ہر بار طریقِ کار نیا وضع کیا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ جن سرکاری ملازموں کو ریٹائر ہوئے دو دو سال ہو چکے ہیں وہ بھی جی۔14 میں گھر نہیں بناسکتے! یہاں مجھے سلیم بہادر خان یاد آرہے ہیں۔ 1988ء میں ہائوسنگ فائونڈیشن کے پہلا مرحلہ کا آغاز ہوا تو سلیم بہادر خان پاکستان ایئرفورس کے مالی مشیر تھے۔ مالی مشیر اور اُس کا محکمہ وزارتِ خزانہ کا حصہ ہوتا ہے۔ سلیم بہادر خان حافظ رحمت خان روہیلہ کے خاندان سے ہیں اور اُسی رکھ رکھائو، شرافت اور مہمان نوازی کی صفات سے آراستہ ہیں جو روہیل کھنڈ کے نوابوں میں پائی جاتی تھی۔ انہوں نے ایئرفورس کے کئی اصحابِ ’’قصا و قدر‘‘ کو برج کھیلنا سکھایا لیکن اپنے لئے کوئی جائز سہولت بھی نہ مانگی۔ اسلام آباد ہائوسنگ فائونڈیشن نے سرکاری ملازموں کو مکان دینے کا منصوبہ شروع کیا تو انہوں نے بھی طریق کار کیمطابق درخواست دی لیکن وزارت نے انہیں ’’آگاہ‘‘ کیا کہ چونکہ آپ پہلے سے ہی ایک مکان کے مالک ہیں اسلئے اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ سلیم بہادر خان کو بذلہ سنجی سے بھی وافر حصہ ملا تھا۔ انہوں نے جواب لکھا کہ ’’میرا‘‘ یہ مکان جسے ہائوسنگ کی وزارت نے ’’دریافت‘‘ کیا ہے، جہاں کہیں بھی ہے، مجھے اس کا محلِ وقوع بتایا جائے تاکہ میں اس پر قبضہ کرسکوں۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ وزیر صاحب کسی ایسے منظورِ نظر کو نوازنا چاہتے تھے جو معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ اس کیلئے خان صاحب کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور دھاندلی کی یہ صرف ایک مثال نہیں!


اسلام آباد حکومت کی ’’سنجیدگی‘‘ کا اندازہ لگانا ہو تو سول افسروں کے دفتروں کی دیواروں پر لگے ہوئے لکڑی کے بورڈوں کا ’’مطالعہ‘‘ کیجئے۔ ان بورڈوں پر یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ کون کون سے افسر کتنا کتنا عرصہ اس دفتر میں رہے۔ اگران تمام بورڈوں پر درج شدہ اعداد و شمار اکٹھے کئے جائیں تو ایک دلچسپ تجزیہ سامنے آئے گا۔ تین سالہ مقررہ میعادِ عہدہ پر عملدرآمد کا یہ حال ہے کہ کہیں تو دس دس سال تک ایک ہی شخص بیٹھا ہے اور کہیں چند مہینوں بلکہ چند ہفتوں بعد تبادلے کردیئے جاتے ہیں اور یہ انتظامی کارکردگی ان لوگوں کا کارنامہ ہے جو غریب عوام کی جیبوں سے کاٹے گئے ٹیکس کے روپے پر ہارورڈ اور دوسری یونیورسٹیوں سے انتظام عامہ (پبلک ایڈمنسٹریشن) کے کورس کرکے آتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں فوجی افسروں کے دفتروں میں لگے بورڈ بتاتے ہیں کہ مقررہ میعاد ہمیشہ اور ہر حال میں پوری کرنی ہے اور پوری ہو جائے تو اس کے بعد کوئی رہ بھی نہیں سکتا! آپ سول ملازمین کیساتھ کیے جانیوالے مذاق کا اندازہ لگایئے کہ جو بغیر تعیناتی کے ہیں انہیں کھلم کھلا بتایا جاتا ہے کہ کسی وزیر یا بڑے آدمی کی سپانسر شپ (سرپرستی) کا بندوبست کرو اور تعیناتی لے لو! بیرون ملک تعیناتیوں کا حشر اس سے بھی بدتر ہے۔ گزشتہ تیس سالوں کی فہرست اگر بنائی جائے تو معلوم ہوگا کہ راولپنڈی، لاہور، کراچی اور پشاور کے ڈپٹی کمشنر سب سے زیادہ بیرون ملک تعینات کئے گئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان ڈپٹی کمشنروں کو دن میں کئی بار ائیرپورٹ پر وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کے استقبال کیلئے جانا پڑتا ہے اور جو سیاست دان ایک قلیل عرصہ کے دوران ستر سرکاری مکان حق داروں کے منہ سے چھین سکتے ہیں وہ اپنے منظور نظر سرکاری نوکروں کو بیرون ملک کیوں نہ تعینات کرائیں گے! اور جو اور بھی زیادہ خوش قسمت ہیں وہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بن جاتے ہیں اور پھر دھاندلی کی انتہا کرتے ہوئے اور وزرائے اعظم کی عاقبت ’’سنوارتے‘‘ ہوئے اپنی پسندیدہ

اسامیوں پرفائز ہو جاتے ہیں۔اس وقت ایشیائی ترقیاتی بنک فلپائن وفاقی محتسب،
، NEPRA،
ہر جگہ سابق پرنسپل سیکرٹری تعینات ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پانچ پانچ سال تک وزیراعظم کی ’’میرٹ‘‘ پالیسی کا مکمل نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ قوم کے دودھ پر پلنے والے یہ اژدہے عوام سے کئی نوری سالوں کے فاصلے پر اس معیار زندگی سےلطف اندوز ہو رہے ہیں جس کا عوام تصور تک نہیں کرسکتے
ریٹائر ہونیوالے سرکاری ملازموں سے جو سلوک اسلام آباد کی حکومت کر رہی ہے اس کا مسلح افواج میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ مسلح افواج میں ہر ریٹائر ہونیوالے جرنیل کو دو سال کی ملازمت کی پیشکش کی جاتی ہے۔ جو وہ منظور کرلیتا ہے یا انکار کر دیتا ہے لیکن ہماری معلومات کے مطابق پیشکش ہر ایک کو کی جاتی ہے۔ اسکے مقابلے میں سول سروس میں بدترین قسم کا ’’امتیازی‘‘ نظام رائج ہے۔ جو ’’خوش قسمت‘‘ ہیں انہیں لاکھوں روپے ماہوار کی ’’تنخواہ‘‘ پر پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل سروسز ٹرائی بیونل میں ’’رکھا‘‘ جا رہا ہے اور جن کی رسائی وزیراعظم یا ایوان صدر تک نہیں ہوتی انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اس قسم کی دھاندلیاں اور ناانصافیاں مسلح افواج میں نہیں ہو رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسکی وجہ کیا ہے؟ اسکی یوں تو متعدد وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ سیاست دانوں کی کوتاہ نظری ہے۔ بدقسمتی سے یہ کوتاہ نظری کور چشمی کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ اپنے ذاتی فوائد کیلئے اور اقربا پروری اور دوست نوازی کے جنون ہیں سیاستدانوں نے سول سروس کے پورے نظام کو طاعون زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جس کی ترقیاں ہونی چاہئیں۔ وہ کونوں کھدروں میں پڑے سسک رہے ہیں اور جنہیں ٹکٹکی پر باندھا جانا چاہئے وہ ’’اوپر‘‘ جا رہے ہیں۔ سول سروس میں دیانت دار اور سرکاری ملازموں کا حال ضیا سرحدی کے بقول یہ ہے کہ …؎



ہم نے اقبال کا کہا مانا


اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے


جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں


ہم خودی کو بلند کرتے رہے


اہل سیاست نے سول سروس کو اس بری طرح اپنی کوتاہ نظری کی آماجگاہ بنایا کہ یاسین وٹو مرحوم جیسے ’’تابعدار‘‘ وزیر کو بھی اْس وقت کے وزیراعظم کے نام احتجاجی مراسلہ لکھنا پڑا کیوں کہ وزیراعظم نے ایک ایسے سرکاری ملازم کو ترقی دیدی تھی جس کو متعلقہ پروموشن بورڈ نے ایک سے زیادہ بار نااہل قرار دیا تھا! اْسی زمانے میں یہ بھی ہوا کہ ایف آئی اے میں تیس افراد بھرتی کئے گئے جن میں سے اٹھائیس کا تعلق ایک خاص نسلی گروہ سے تھا! اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ صوبوں میں چیف سیکرٹری اتنی تیزی سے بدلے جاتے ہیں کہ اس رفتار سے عرب شیوخ بیویاں بھی نہیں بدلتے۔


رہا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تو اسکی حیثیت ایک داشتہ سے زیادہ نہیں۔ جسے پرسنل سیکرٹری کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تو ایک ڈاک خانہ بن کر رہ گیا ہے جو سیاست دانوں، وزیراعظم اور ایوان صدر تک کے احکام کو آگے روانہ کر دیتا ہے۔ نوکر شاہی کا جو رکن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا سیکرٹری لگتا ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی نوکری کے لالچ میں غلامی کا بھرپور مظاہرہ کرتا ہے۔ اسکی مثالیں واضح اور واشگاف ہیں۔ ایک صاحب جو اس اسامی سے سالہا سال پہلے ریٹائر ہوئے، اپنی ’’گونا گوں‘‘ ’’خدمات‘‘ کے عوض آج بھی ’’وظیفہ خوار‘‘ ہیں اور ’’شاہ‘‘ کے دعاگو ہیں!! یہ صورتِ حال خوش قسمتی سے مسلح افواج میں نہیں ہے۔ بّری فوج کی ایم ایس برانچ… جو افسروں کی ترقیوں اور تعیناتیوں کی ذمہ دار ہے۔ ایک ضابطے اور ترتیب سے کام کررہی ہے۔ فوج کا نظام سول سروس سے کئی گنا زیادہ شفاف ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام سیاستدانوں کی دست بْرد سے بچا ہوا ہے۔ ایک صاحب جو بہت تھوڑے عرصہ کیلئے وزیراعظم بنے، انہوں نے سب سے پہلے اپنے ایک اہم قبیلہ کو نوکری کی معراج پر پہنچایا۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ اسے جرنیل بنا دیتے۔ اہلِ سیاست کو یہی تو قلق ہے کہ وہ اپنے بھانجوں بھتیجوں کو تحصیل دار تو بنوا سکتے ہیں، بیرون ملک بھی تعینات کرا سکتے ہیں لیکن انہیں کرنل بریگیڈئر اور جرنیل نہیں بنوا سکتے۔ مسلح افواج کا یہ نظم و ضبط اور شفاف نظام امریکہ اور بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور اس کا انکے نزدیک ’’علاج‘‘ یہ ہے کہ سیاست دانوں کو افواج کے معاملات میں دخلیل کر دیا جائے۔ یہ کام کیری لوگر بل کے ذریعے تجویز کیا جا رہا ہے۔ بل کے الفاظ پر غور فرمائے۔


An assessment of the extent to which the Government of Pakistan exercises effective civilian control of the military will be carried out regularly


یعنی کسی حد تک حکومتِ پاکستان ملٹری پر ’’سول‘‘ کنٹرول حاصل کر سکتی ہے؟ اس کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا رہے گا‘‘۔


کیری لوگر بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ مسلح افواج کے سینئر افسروں کی ترقیاں ’’سول‘‘ کے دائرہ اختیار میں لائی جائیں گی!


مسلح افواج کا سول کے معاملات میں عمل دخل یقیناً لائقِ تحسین نہیں ہے! تینوں افواج کے سربراہوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ساتھی ٹو سٹار اور تھری سٹار ساتھیوں کو سول محکموں میں ملازمتیں حاصل کرنے سے باز رکھیں کیوں کہ اس سے مسلح افواج بطور ایک ادارہ کے بدنام ہوتی ہیں۔ حال ہی میں اخبارات کی اطلاع کے مطابق ایک سابق جرنیل کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ان صاحب کو یہ عہدہ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انکے علاوہ اور فرد اس کااہل نہیں تھا؟ اسی طرح سٹاف کالج لاہور، جہاں سینئر سول سرونٹ گریڈ اکیس کی ترقی کیلئے لازمی کورس اٹنڈ کرتے ہیں اور جو انتہائی اہم ہے، ایک عرصہ سے ایک جرنیل کے تصرف میں چلا آ رہا ہے۔ کیا پورے پاکستان میں کوئی سول افسر اس عہدے کا اہل نہیں رہا؟ اور کیا ملٹری اکادمی کاکول کے سربراہ کے منصب پر کسی سول افسر کو تعینات کیا جائیگا؟


اسی طرح دفاع اور دفاعی پیداوار کی وزارتوں کو جس طرح کلی طور پر مسلح افواج کے قبضے میں رکھ دیا گیا ہے، انتہائی غیر منطقی اور نامناسب ہے۔ اکثر و بیشتر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو سیکرٹری دفاع مقرر کیا جاتا ہے۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو پھر بھی بن جاتی لیکن صورتحال اس وجہ سے انتہائی غیر متوازن ہے کہ سیکرٹری کے نیچے تینوں ایڈیشنل سیکرٹری بھی فوج کے باوردی جرنیل ہیں۔ جن میں سے ایک نیوی سے ایک ائرفورس سے اور ایک بری فوج سے لایا جاتا ہے۔ اس کا موازنہ ذرا بھارت سے کیجئے۔ وہاں سیکرٹری دفاع ہمیشہ سول سرونٹ ہوتا ہے اور اس کے نیچے ایڈیشنل سیکرٹری بھی سول ہی سے ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں ادارے کس قدر مضبوط ہیں۔ بھارتی وزارت دفاع میں تینوں افواج کے نمائندے موجود ہیں لیکن سینئر ہونے کے باوجود ان کی حیثیت ’’ٹیکنیکل منیجر‘‘ سے بڑھ کر نہیں اور اسی نام سے انہیں پکارا جاتا ہے! بھارتی وزارتِ دفاعی پیداوار کو بھی سول ملازمین چلا رہے ہیں جب کہ یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے!


جنرل اشفاق کیانی نے تحمل اور آہستگی سے مشرف دور کے اقدامات واپس لیکر افواج کا سول میں عمل دخل بہت کم کر دیا ہے لیکن اسکے باوجود ابھی فوج کے سربراہ کو بہت کچھ کرنا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا سول سروس اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے گی یا بدستور اہل سیاست کی کنیز بنی رہے گی؟؟۔

Thursday, November 05, 2009

روحوں سے ملاقات


میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان لوگوں کی جو‘ اب اس دنیا میں نہیں ہیں‘ روحیں مجھے ملنے آئیں گی اور وہ بھی آدھی رات کو!



مجھے تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ ہے نہ جھجک کہ میں ایک ڈرپوک آدمی ہوں اور یہ آج سے نہیں‘ بچپن سے ہے۔ گائوں میں چرواہے شام کو اپنے ریوڑ واپس لاتے تھے۔ میں گلی میں کھیل رہا ہوتا‘ اور کوئی بیل یا راکھی کرنیوالا کتا گزرتا تو میں دیوار کے ساتھ لگ جاتا۔ میرے ساتھی میری یہ حالت دیکھ کر قہقہے لگاتے اور شام کے بعد صحن سے اٹھ کر اندھیرے کمرے میں جانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ اسکے برعکس میرے بہن بھائی لالٹین لیکر بے دھڑک اندر چلے جاتے!


یہ دو دن پہلے کی بات ہے۔ میں آدھی رات کو بیدار ہوا۔ کیوں؟ اسکی وجہ مجھے نہیں معلوم! مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے بہت آہستگی سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ مجھے پیاس محسوس ہوئی۔ میری بیوی ایک بڑے تھرموس میں پانی ڈال کر گلاس سمیت میری چارپائی کے پاس رکھ دیتی ہے۔


میں نے ایک گلاس پانی غٹاغٹ پیا‘ لیکن عجیب بات ہے کہ میری پیاس میں اس سے اضافہ ہو گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میں دھوپ میں کئی میل پیدل چل کر آیا ہوں۔


ابھی میں نے دوسرا گلاس پینے کیلئے تھرموس سے بھرا ہی تھا کہ مجھے ڈرائنگ روم میں کرسی گھسیٹنے کی آواز آئی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میری کیا حالت ہوئی ہو گی۔ میں نے بیوی کی طرف دیکھا‘ وہ سو رہی تھی۔ مردانہ غیرت نے گوارا نہ کیا کہ اسے جگائوں!


دونوں لڑکے اور بیٹی اوپر کی منزل پر تھے اور اگروہ جاگ رہے ہوتے تو نیچے لائونج میں ہوتے جہاں وہ ٹی وی دیکھتے ہیں یا اپنے اپنے کمپیوٹر پر نہ جانے کیا کرتے رہتے ہیں!


میں اپنے کمرے سے نکلا اور باورچی خان کے سامنے سے گزرتا ہوا لائونج میں آ کھڑا ہوا۔ اوہ! میرے اللہ! ڈرائنگ روم میں بتی جل رہی تھی اور آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز … بالکل صاف… کسی شبہ کسی شک کے بغیر … سنائی دے رہی تھی!!


مجھے یوں لگا جیسے میری ٹانگیں بے جان ہو گئی ہوں۔ گھٹنے ٹیڑے ہونے لگے‘ میں نے تھوک نگل کر آواز نکالنے کی کوشش کی تاکہ پوچھوں کہ اندر کون ہے‘ لیکن آواز نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ بیوی پاس ہوتی تو میری یہ حالت دیکھ کر ضرور کہتی کہ سبحان اللہ! کتنے بہادر مرد ہو! مردانہ غیرت پھر جاگی اور میں ہرچہ بادا … باد کہہ کر ڈرائنگ روم میں داخل ہو گیا۔


کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ صوفوں پر اور باقی لوگ قالین پر بیٹھے تھے۔ میں نے ان میں سے چھ کو فوراً پہچان لیا۔ قریب تھا کہ میں نے بے ہوش ہو کر گر پڑتا‘ ان میں سے ایک نے اٹھ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اس سے مجھے یوں لگا جیسے کسی نے پیار کیا ہو اور ماحول یک دم جانا پہچانا ہو گیا ہو! میں ایک طرف رکھی کرسی پر بیٹھ گیا!


جن چھ آدمیوں کو میں نے پہچانا‘ ان میں سے پانچ وہ تھے جو چند ہفتے پہلے جی ایچ کیو پر دہشت پسندوں کے حملے میں شہید ہو گئے تھے۔ ایک طرف حوالدار زرخان شہید بیٹھا تھا۔ اسکے ساتھ حوالدار ایوب بیٹھا مسلسل مسکرا رہا تھا۔ بریگیڈیر انوار الحق قالین پر آلتی پالتی مارے بیٹھے چہرے پر دل آویز مسکراہٹ لئے لانس نائک شاہد اقبال سے کوئی بات کر رہے تھے۔ کرنل وسیم عامر صوفے پر تھے اور انکے ساتھ بریگیڈیر معین الدین بیٹھے تھے جو چند دن پہلے اپنی کار میں کہیں جاتے ہوئے شہید کر دئیے گئے تھے۔ ان چھ کے علاوہ باقی حضرات کو میں نہیں جانتا تھا‘ بعد میں بریگیڈئر انوار نے بتایا کہ وہ سب کارگل کے شہدا تھے!


یہ عجیب بات ہے کہ اب میں ہر گز خوف زدہ نہیں تھا۔ میرے دل پر اطمینان اس طرح اتر رہا تھا جیسے میرے سامنے بادلوں سے برف کے نرم نرم گالے اتر رہے ہوں۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ سب میرے قریبی عزیز ہوں۔ میں نے بے تکلفی سے کہا کہ میں چائے بنا کر لاتا ہوں‘


لیکن کرنل وسیم عامر نے میرے بازو پر ہاتھ رکھ کر کہا…’’ہم روحیں ہیں اور ایک ضروری بات کرنے آئے ہیں‘ ہم تمہاری دنیا کی چائے پانی سے بے نیاز ہیں‘ ہمارے کھانے پینے کا انتظام وہ ذات کرتی ہے جس کے راستے میں ہم نے اپنی جانیں قربان کیں‘‘


میں ہمہ تن گوش تھا! حوالدار زرخان شہید نے کہا کہ وہ سب کی طرف سے بات کرنے کا مجاز ٹھہرایا گیا ہے!


’’ہم اس لئے شہید ہوئے کہ یہ ملک امن اور انصاف کا گہوارہ بنے‘ اپنی بیویوں کو بیوہ اور اپنے ماں باپ کو زخم رسیدہ اس لئے نہیں کیا کہ اس ملک میں ظلم اور دھاندلی ہو! کل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں انتہائی دیدہ دلیری کیساتھ اعتراف کیا گیا کہ سینکڑوں سرکاری ملازمین کو جو سالہا سال سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے… انکے حق سے محروم کر کے سرکاری مکانات ستر (70) ایسے افراد کو الاٹ کر دئیے گئے جو سفارشی تھے! شہیدوں کی روحیں اس ظلم سے تکلیف میں ہیں!


قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سب سے زیادہ سرکاری مکانات جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور انکی جماعت کے دیگر اراکین کی سفارش پر الاٹ کئے گئے۔ سفارش کرنیوالے دوسرے افراد میں قمر الزمان کائرہ‘ راجہ پرویز اشرف‘ حمید اللہ جان آفریدی‘ خورشید شاہ‘ میاں رضا ربانی‘ فوزیہ وہاب ‘ سلیم سیف اللہ‘ محمد میاں سومرو‘ سینیٹر انور بیگ اور کچھ دوسرے افراد شامل ہیں! ہم شہید سفارش کرنیوالے ان طاقت ور لوگوں سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ لوگ جو ویٹنگ لسٹ میں تھے اور انتظار کر رہے تھے اور از روئے انصاف انکی باری تھی۔ پاکستانی نہیں تھے؟


اگر وزیر ‘پارلیمنٹ کے ارکان اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ حق دار لوگوں کا حق مار کر اپنے اپنے پسندیدہ افراد کو نوازتے رہیں گے تو کیا یہ ملک ذلت کے اس گڑھے سے نکل سکے گا جس میں آج پڑا کراہ رہا ہے؟ ‘‘


یہاں حوالدار زرخان شہید کی آواز بھرا گئی اور اسکی آنکھوں سے موتیوں جیسے آنسو نکل کر اسکے رخساروں پر بہنے لگے۔ بریگیڈئر انوار الحق نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور مجھے کہنے لگے‘


’’ اگر ہو سکے تو حق داروں کا حق مارنے والے ان طاقت ور حکمرانوں کو وہ واقعہ سنا دینا۔ ایک بادشاہ کو ایک ایسا مرض لاحق ہوا جس کیلئے کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بالآخر طبیبوں نے ایک ایسے آدمی کا کلیجہ تجویز کیا جس میں کچھ خاص صفات ہوں۔ تلاش شروع ہوئی ایک کسان کا بیٹا ان صفات کا حامل قرار دیا گیا بادشاہ نے اسکے ماں باپ کو دولت کی پیش کش کی اور وہ اس کے قتل پر راضی ہو گئے۔ پھرقاضی نے فتویٰ دے دیا کہ سلطنت کے سربراہ کی جان بچانے کیلئے رعایا کے ایک فرد کا خون بہانا جائز ہے۔ جب جلاد اسے قتل کرنے لگا تو لڑکے نے آسمان کی طرف منہ کیا اور ہنسنے لگا۔


بادشاہ نے پوچھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے۔ لڑکے جواب دیا کہ اولاد کے محافظ ماں باپ ہوتے ہیں۔ میرے ماں باپ نے دولت کے عوض مجھے فروخت کر دیا۔


قاضی سے انصاف طلب کیا جاتا ہے‘ اس نے بھی میرے قتل کو جائز قرار دے دیا ہے۔ رعایا کی آخری فریاد بادشاہ کے پاس ہوتی ہے۔ لیکن بادشاہ ہی نے تو مجھے اس قتل کیلئے چنا ہے۔ ایسے عالم میں خدا کی طرف دیکھنے کے سوا کیا کر سکتا ہوں۔


فیل بان نے کہا تھا کہ جو پائوں کے نیچے کچلی جانے والی چیونٹی کی پرواہ نہیں کرتے‘ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہاتھی کے پائوں تلے ان کا حال اس سے مختلف نہ ہو گا!


سفارش کرنیوالے اور سفارش ماننے والے محتاط رہیں ! کہیں مظلوم آسمان کی طرف دیکھنا نہ شروع کر دیں!!

Tuesday, November 03, 2009

ہلیری کلنٹن کی اس فقیر کے گھر میں تشریف آوری


’’یہ اگست کی بات ہے، ایک سینئر سیاست دان مری جا رہا تھا اسکا روٹ طے ہو چکا تھا اور اسکے مطابق ہی اسکی گاڑیوں کے قافلے کیلئے راستہ ’’صاف‘‘ کر دیا گیا تھا لیکن اس کا روٹ بغیر کسی اطلاع کے تبدیل کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ نئی صورتحال میں ٹریفک وارڈنوں کو اتنا وقت نہ مل سکا کہ وہ نئے روٹ پر ٹریفک کو ہٹا سکتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوئر ٹوپہ کے نزدیک سیاست دان کے قافلے کو کچھ دیر کیلئے رک جانا پڑا۔ فی الفور چیف سیکرٹری سے رابطہ کر کے شکایت کی گئی اور چیف ٹریفک افسر کو طلب کیا گیا۔



چیف ٹریفک افسر نے 30 سے زیادہ ٹریفک وارڈن معطل کر دیئے۔ الزام یہ تھا کہ وہ سیاست دان کے قافلے کو راستہ نہ ’’مہیا‘‘ کر سکے۔ اسکے بعد ایک انکوائری کی گی اور 25 ستمبر کو چار ٹریفک وارڈن ملازمت ہی سے برطرف کر دیئے گئے۔ دس دوسرے وارڈنوں کی ملازمتیں بھی معطل کر دی گئیں اور بیس کیخلاف محکمانہ کارروائی جاری ہے۔ یہ سب کچھ تو ہوا ہی، اسکے علاوہ یہ بھی ہوا کہ آئی جی پنجاب نے مری کے ڈی ایس پی ٹریفک کو بھی معطل کر دیا۔ پیارے ہم وطنو! یہ ہے ہمارا پاکستان!!‘‘


راولپنڈی کے ٹریفک وارڈن کے اس خط کا جو تیس اکتوبر کے اخبارات میں شائع ہوا مجھے تو علم ہی نہیں تھا یہ تو ہلیری کلنٹن جب اسکے دوسرے دن مجھے ملنے میرے غریب خانے پر آئی تو اس نے اس خط کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ پورا اخبار میرے لئے لے آئی، جس اخبار میں ٹریفک وارڈن کا یہ خط چھپا وہ اخبار کراچی، لاہور، اسلام آباد اور لندن سے تو شائع ہوتا ہی ہے انٹرنیٹ پر بھی خطوط کے حصے سمیت ظاہر ہوتا ہے۔


یہ جو میں نے کہا ہے کہ ہلیری کلنٹن میرے گھر آئی تو یہ مذاق نہیں ہے۔ امریکہ کی وزیر خارجہ تو وہ اب بنی ہے میرے ساتھ اسکے مراسم قدیمی ہیں۔ ہم دونوں تقریباً کلاس فیلو ہی تھے جب وہ امریکہ کے شہر پارک رج کے پبلک سکول میں داخل ہوئی تو میں نے بھی اسی سکول میں داخلہ لینا تھا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیب میں داخل ہونا پڑا تاہم یہ جغرافیائی بُعد ہمیں حقیقی ہم جماعت ہونے سے روک نہ سکا۔ پھر جب اس نے میسا چوسٹس کے ویلزلے(WELLESLEY)
کالج میں داخلہ لے لیا تو میں نے بھی سفر کی تیاری کر لی۔ میں اسے اپنے انتظار میں زیادہ پریشان کرنا بالکل نامناسب سمجھتا تھا بس آخری وقت میں حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ مجھے گورنمنٹ ڈگری کالج راولپنڈی میں داخل ہونا پڑ گیا۔ اس نے پولیٹیکل سائنس میں بی اے آنرز کیا ادھر میں نے اکنامکس کیساتھ بی اے پاس کر لیا اور رول آف آنر لیا۔


اسکے بعد تو الگ الگ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا چنانچہ جیسے ہی اس نے نیوہیون کی ییل (YALE)
لا یونیورسٹی میں قانون میں داخلہ لیا تو میں نے بیگ میں اپنے کپڑے اور ٹرنک میں ضروری سامان رکھا اور نیو ہیون جانے کیلئے گھر والوں سے رخصت ہوا لیکن گردش زمانہ نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ ہوش آیا تو میں نے اپنے آپکو ڈھاکہ یونیورسٹی کے اکنامکس کے شعبے میں پایا۔
ڈھاکہ امریکہ سے اسلام آباد اور لاہور کی نسبت بھی زیادہ دور تھا لیکن وہ جسے تعلق خاطر کہتے ہیں وہ ہلیری سے بہر صورت برقرار رہا۔


یہ تھا قریبی بے تکلفانہ تعلقات کا وہ پس منظر جس کے حوالے سے ہلیری نے میرے غریب خانے پر آکر مجھ سے ملاقات کی۔ خاندانی لوگوں کا وطیرہ یہی ہوتا ہے جب وہ اقتدار کے عروج پر ہوتے ہیں تو اس وقت بھی دیرینہ مراسم کی لاج رکھتے ہیں یہ تو نیچ لوگ ہوتے ہیں جو ذرا سی خوشحالی اور رمق بھر حکومت دیکھتے ہیں تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد دیکھیں تو آپ کو حکومتی راہداریوں سے لے کر میڈیا کی غلام گردشوں تک ایسے کئی ’’خاندانی‘‘ پس منظررکھنے والے بہلول مل جائیں گے۔


میں نے ہلیری کلنٹن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کی بے پناہ مصروفیات کا ذکر کیا اور اسکی تعریف کی کہ اس صورتحال میں بھی وہ مجھے ملنے آئی اور وہ بھی اس طرح کہ امریکی سفارت خانے کو اس ملاقات کی ہوا لگی نہ اسکے پاکستانی میزبان ہی جان پائے۔ میں نے اسے شکیب جلالی کا شعر سنایا…؎


گلی میں لوگ بھی تھے‘ میرے اسکے دشمن لوگ


وہ سب سے چھپ کے مگر میرے پاس آیا تھا


تو وہ کھکھلا کر ہنسنے لگی۔


اچانک وہ سنجیدہ ہوگئی اور اخبار پھیلا کر اس نے یہ خط جس کا ترجمہ میں نے اس کالم کے آغاز میں پیش کیا ہے، سامنے رکھ لیا۔ اسکے لہجے میں عجیب دل سوزی تھی اور آنکھوں میں ایک دل گیر خلوص تھا۔


’’دیکھو اظہارالحق، میں اس وقت وزیر خارجہ کی حیثیت سے نہیں بات کر رہی میں تو ان دیرینہ مراسم کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتی ہوں جو تمہارے اور میرے درمیان قائم ہوتے ہوتے رہ گئے۔


پولیس کے ایک افسر کا یہ خط تمہارے ملک کیلئے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔ تمہارا دشمن بھارت ہو یا وہ دہشت گرد جو دھماکے کر رہے ہیں، اسرائیل ہو یا امریکہ، تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیوں کہ یہ ذہنی سطح جس کا اس خط میں سراغ ملتا ہے تمہاری سب سے بڑی دشمن ہے۔ یہ ذہنی سطح‘ یہ طرز عمل‘ یہ
MIND-SET
جس قوم میں بھی ہو وہ ہمیشہ
 ذلت کی گہرائیوں میں رہتی ہے اور یہ طرز عمل یہ
MIND-SET
 صرف ایک سیاست دان کا نہیں، تمہاری قوم کے ہر فرد میں ہے۔ جو بی اے کر لے وہ اپنا سامان خود نہیں اٹھاتا، نواز شریف‘ آصف زرداری‘ الطاف حسین‘ چودھری شجاعت حسین کا تو ذکر ہی کیا۔ تمہارے ہاں تو سینٹ اور اسمبلیوں کے ارکان عام لوگوں سے نہیں ملتے۔


رینجر کا کمانڈر ہو یا ڈپٹی کمشنر‘ ضلع ناظم ہو صوبائی نوکر شاہی کا کوئی رکن‘ قانون پائوں کی جوتی تلے روندا جاتا ہے، تمہارے منتخب نمائندوں اور نوکر شاہی کے پرزوں میں اس قدر شدید احساس کم تری ہے کہ وہ جہاز کی اکانومی کلاس میں بھی سب سے آگے کی نشستوں پر بیٹھتے ہیں حالانکہ پوری دنیا میں یہ نشستیں ان خواتین کیلئے مخصوص ہوتی ہیں جن کی گود میں بچے ہوں۔


دنیا کے کسی مہذب ملک کو دیکھ لو، سنگاپور ہے یا سوئٹزر لینڈ، سویڈن ہے یا فرانس، کینیڈا ہے یا آسٹریلیا، کسی کیلئے ٹریفک روکی جاتی ہے نہ پولیس کے افسروں اور جوانوں کو اس لئے سزا دی جاتی ہے کہ انہوں نے ٹریفک کیوں نہیں روکی۔ اقتصادی اور سماجی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ذہنی پس ماندگی ہے جس کی رو سے سڑکوں پر ٹریفک روکی جاتی ہے۔ محلات پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں اور لوگوں کو ملنے سے اجتناب برتا جاتا ہے، جس ملک کی سیاسی جماعتوں کے اجلاس بھوربن کے فائیو سٹار ہوٹل میں منعقد ہوں وہ ملک ہمیشہ دوسروں کا غلام رہتا ہے اور جس ملک میں سیاست دان‘ سیاسی جماعت کے رہنما کے بعد اس رہنما کی اولاد کے سامنے ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، اس ملک کو غلام بنانے کیلئے کیری لوگر بل کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیری لوگر بل تو احساس کم تری کے مارے ہوئے ہر اس کھرب پتی کے ذہن میں ہے جو اپنی دولت میں تو عوام کو کیا شریک کرے گا، شاہراہیں تک عوام سے چھین لینا چاہتا ہے!!!‘‘
 

powered by worldwanders.com