Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 30, 2010

کھیل کا منطقی انجام

یہ منظر جانا پہچانا ہے۔ یہاں سے ہم پہلے گذر چکے ہیں۔ یہ سماں ہم نے کئی بار دیکھا ہے۔

پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کا عہد تھا۔ پنجاب میں برسراقتدار، دو اہم سیاست دا ن کچھ دن بعد شوکت عزیز کو ملتے تھے۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر تصویر آتی تھی۔ چند روز گزرتے تھے کہ ایک اور تصویر چھپتی تھی۔

راولپنڈی کا ایک سیاست دان جو فوجی آمر کی تعریف میں رطب اللسان رہتا تھا، پنجاب کے برسراقتدار سیاست دان کو مل رہا ہوتا تھا۔ نہیں معلوم کسی کو یاد بھی ہے یانہیں کہ اس سوئی ہوئی قوم کا حافظہ مکڑی کے بنے ہوئے تار سے زیادہ کمزور ہے۔ ان ملاقاتوں کی تصویریں اس کثرت اور اس تواتر سے اور اس ترتیب سے شائع ہوتی تھیں کہ ہنسی تک آنا رک گئی تھی!

وہی منظر ہے، وہی تصویریں ہیں۔ وہی کثرت ہے اور وہی تواتر ہے۔ صرف نام بدلتے ہیں۔ کردار وہی رہتے ہیں۔ ایک رات ایسی آتی ہے جب ایکڑ بدل دیئے جاتے ہیں اور شاعر پکار اٹھتا ہے …؎

کیا رات تھی بدلے گئے جب نام ہمارے

پھر صبح کو خیمے تھے نہ خدام ہمارے

خیمے اور خدام کسی اور کے ہو جاتے ہیں اور سٹیج سے غائب ہونے والے اداکاروں کے نام تک گرد میں چھپ جاتے ہیں۔

تازہ منظر میں ایک معروف مذہبی رہنما ایوان وزیراعظم میں نظر آتے ہیں کچھ دن بعد ایک اور تصویر چھپتی ہے۔ اب ایوان صدر میں ہیں، کبھی کبھی وہ ایک وفاقی وزیر کے پاس بھی نظر آتے ہیں۔ ترتیب کبھی وہی رہتی ہے، کبھی بدل جاتی ہے۔ آنکھیں دیکھتی ہیں اور ششدر رہ جاتی ہیں رونا آتا ہے نہ ہنسی…؎

کیا کاتب تقدیر سے زخموں کی شکایت

جو تیر تھا ترکش میں سو چلنے کیلئے تھا

ماتم تو اس عقیدت پر ہے جو اس ملک کی اکثریت نے مذہبی رہنمائوں کے لئے دلوں میں بسائی ہوئی ہے۔ اس عقیدت کے ساتھ کیا کیا فریب کاریاں ہو رہی ہیں۔ کیسا کیسا استحصال ہے جو اس عقیدت کا کیا جا رہا ہے!

ایک مذہبی رہنما بھارت جا کر اعلان کرتا ہے کہ پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے سیاستدان ایک گول میز کانفرنس میں1947ء کی تقسیم منسوخ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

دوسرا مذہبی رہنما اس اعلان کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے اخبارات ڈس انفارمیشن کے مرتکب ہوئے۔ یہ سارا قصہ ایک معروف کالم نگار دوست نے از سر نو بیان کیا ہے۔ افسوس! کہ عوام کا حافظہ مکڑی کے بنے ہوئے تار سے بھی کمزور تر ہے! کیا دیانت ہے اور کیا صدق مقابل ہے کہ بھارت اور پاکستان کے سارے اخبارات ڈس انفارمیشن (جھوٹ) پھیلا رہے ہیں! تو کیا وہ بھی ڈس انفارمیشن تھی جب برملا کہا گیا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہ تھے۔ یہ الگ بات کہ پاکستان سے فائدہ اٹھانے کے ثواب میں خوب خوب شامل ہیں یوں کہ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں لیکن اصل مسئلہ دیانت کا ہے اور صدق مقال کا۔ شیخ سعدی نے جبھی تو کہا تھا …؎

گر نہ بیند بروز، شپّرہ چشم

چشمۂ آفتاب را چہ گناہ

اگر چمگادڑ کی آنکھ دن کے وقت دیکھنے سے معذور ہے تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟

جب سچ کو چھپانا مقصود ہو تو کیا گھڑا گھڑایا جملہ ہے کہ ڈس انفارمیشن ہے لیکن آپ کچھ لوگوں کو چند دن کیلئے بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ سب لوگوں کو ہمیشہ کیلئے کیسے دھوکا دیں گے؟

کیا کیا استحصال اس عقیدت کا نہیں ہوا جو عوام کے دلوں میں اہل مذہب کیلئے بس رہی ہے! بیچارے عوام کو کیا خبر کہ…؎

واعظان کین جلوہ بر محراب و منبر می کنند

چون بہ خلوت می روند آن کاردیگر می کنند

ان کی حالت یہ ہے کہ کوئی اپنی زندگی ہی میں اپنی اولاد کو جماعت کا سربراہ بنواتا ہے، کسی کو اسمبلی میں بھیجنے کیلئے اپنے خاندان سے باہر کی خواتین نظر ہی نہیں آتیں، گویا تحریک اس سارے عرصے میں خاندان سے باہر ہی نہیں نکل سکی۔ واہ! کیا کامیابی ہے …؎

مری داستانِ غم کی کوئی قید و حد نہیں ہے

ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک!

یہ حال تو ان مذہبی رہنمائوں کا ہے جو سیاست کی چادر کندھے پر ڈالے ہوئے ہیں۔ رہے وہ اہل مذہب جو سیاست سے باہر ہیں، تو ان کا حال یہ ہے کہ مسجدیں ذاتی جاگیروں میں بدل چکی ہیں۔ محراب ومنبر نسل درنسل ایک ہی خاندان کی ملکیت بن کر رہ گئے ہیں۔ گویا مسجدیں نہیں، کھیت ہیں یا مکان ہیں! یہی حال مدرسوں کا ہے۔ کیسے کیسے لائق اور ذہین علما ان مدرسوں میں پڑھا رہے ہیں لیکن مدرسے کی سربراہی والد صاحب کے بعد صاحبزادہ صاحب ہی کے حصے میں آئیگی اور کیا چندے دینے والے عوام کو معلوم ہے کہ مدرسوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو اتنی کم تنخواہیں دی جاتی ہیں کہ ان میں کنبے کی گذر بسر ناممکن ہے۔ حکومت میں اتنا وژن کہا کہ مدارس کے اساتذہ کی کم سے کم تنخواہ مقرر کر دے تاکہ مدرسوں کے ’’مالکان‘‘ کے ہاتھوں ان علماء کرام کا استحصال نہ ہو سکے جو راتوں کو مطالعہ کرتے ہیں اور دنوں کو علم بانٹتے ہیں!

رہے وہ سیاست دان جو عام، یعنی غیر مذہبی سیاسی جماعتوں کے ذریعے میدان میں ہیں تو وہ تقریباً سارے کے سارے بالائی طبقات سے ہیں۔ یہ اور بات کہ ان کے ووٹروں کی اکثریت لوئر کلاس سے ہے۔ یہ سیاست دان برادری یا جاگیرداری کے بل بوتے پر ان پڑھ عوام سے ، ہاریوں، کسانوں، مزارعوں، مزدوروں اور ورکروں سے ووٹ لیتے ہیں۔ مڈل کلاس کا سیاست کے موجودہ کھیل سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ مڈل کلاس سیاست دانوں کی اکثریت سے شدید نفرت کرتی ہے۔ اتنی شدید کہ الیکشن کے موقع پر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ گھروں سے نکلتے ہی نہیں۔ ایک سرد جنگ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ مڈل کلاس اور سیاست دانوں کے درمیان جاری ہے۔ سیاست دانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ تو خیر کیا ہو گی۔ جعلی ڈگریوں کی فریب کاری سے پیش منظر پر قابض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان مڈل کلاس سے خائف ہیں اور ناخواندہ حمایتیوں کے ساتھ زیادہ سہولت سے رابطہ کرتے ہیں اور گزارہ بھی کرتے ہیں۔

مڈل کلاس کا تعلق سیاست کے ساتھ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات کی ریت نہیں پڑتی۔ اس کے بغیر سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کی گرفت کمزور نہیں پڑ سکتی۔ ’’سیاسی خاندان‘‘ کی اصطلاح ایک گمراہ کن اصطلاح ہے اور یہ ’’سیاسی خاندان‘‘ پارٹیوں کے اندر انتخابات ہونے سے اور ہوتے رہنے سے غائب ہو جائیں گے …؎

یہ کھیل اب منطقی انجام کو پہنچے گا اظہار

ذرا اک صبر! عزت کے نشاں گرنے لگے ہیں






















































Tuesday, November 23, 2010

آسان اسلام

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی سننے والا اسکے سحر میں گرفتار تھا، وہ پوری طرح اس میں ڈوبا ہوا تھا، اچانک ایک بدقسمت تلاوت بند کر دیتا ہے۔ جو آیت پڑھی جا رہی تھی، مکمل بھی نہ ہوئی تھی۔ آدھی تلاوت ہو چکی تھی، بقیہ آدھی رہتی تھی، سننے والا آنکھیں بند کر کے سُن رہا تھا۔ درمیان میں نعوذ بااللہ کاٹ دی گئی۔

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی شانِ اقدس میں نعت پڑھی جا رہی ہو، آپؐ کی تعریف ہو رہی ہو، سننے والا بے خود ہو، اتنے میں کوئی بدبخت نعت کو درمیان میں کاٹ دے ابھی تو جو شعر پڑھا جا رہا تھا، مکمل بھی نہ ہوا تھا، ایک مصرع پڑھا گیا تھا دوسرا پڑھا جانا تھا کہ نعت سنانی بند کر دی گئی، سننے والا چاہتا تھا کہ رسالت مآبؐ کی شان میں نعت ہوتی رہے، اور وہ سنتا رہے۔

کلامِ پاک کی شان میں یہ گستاخی اور نعتِ رسول کی یہ بے ادبی ہمارے اردگرد مسلسل ہو رہی ہے، صبح و شام، رات دن اسکا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن گستاخانہ خاکوں پر اپنے ہی ملک کی ٹریفک جام کرنے والوں اور اپنی ہی گاڑیوں کے شیشے توڑنے والوں کو اس کا شعور ہے نہ پرواہ۔ آپ کسی کو موبائل پر ٹیلی فون کرتے ہیں، جواب میں نارمل گھنٹی کے بجائے تلاوت سنائی دیتی ہے۔ آپ تلاوت میں کھو جاتے ہیں اچانک بدقسمت انسان بٹن دباتا ہے، تلاوت جہاں تھی وہیں ختم ہو جاتی ہے اور وہ ہیلو کہہ کر آپ سے مخاطب ہوتا ہے۔ آپ کچھ دیر کے بعد ایک اور صاحب کو فون کرتے ہیں جواب میں گھنٹی کے بجائے نعتِ رسولؐ سنائی دیتی ہے۔ محمدؐ کا روضہ قریب آ رہا ہے، آپ کا دل عقیدت اور محبت سے بھر جاتا ہے، آپکی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ ’’بلندی پہ اپنا‘‘ لیکن ابھی مصرع پورا نہیں ہوتا کہ نعت ختم کر دی جاتی ہے اور آپ کو ایک کرخت، بدبخت قسم کی ’’ہیلو‘‘ سے سابقہ پڑتا ہے۔ اگر آپ ان بدبختوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ موبائل فونوں پر تلاوت اور نعتِ رسولؐ کا استعمال نہ کرو تو وہ آپ کو ایک ہی جواب دیں گے۔ ’’تم ہمیں تلاوت اور نعت سننے اور سنانے سے منع کرتے ہو؟‘‘

آپ اس سارے معاملے پر غور کریں تو آپ ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہم مذہب کے نام پر ہر وہ کام کرتے ہیں جس کی ضرورت ہے نہ فائدہ اور نہ ہی حکم دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام ہماری زندگیوں میں عملی طور پر داخل نہ ہو، یعنی جو ضروری ہے وہ ہم نہیں کر رہے اور جو قطعاً غیر ضروری ہے وہ ہم کر رہے ہیں اور نہ صرف کر رہے ہیں بلکہ احمقانہ طور پر یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ اسلام ہے اور عین اسلام ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام مسجد میں مقفل ہے۔ وہ وہاں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ہم پانچ وقت مسجد میں حاضر ہوتے ہیں۔ اسلام کو گلے سے لگاتے ہیں۔ پھر اُسے وہیں بٹھا کر مسجد سے نکل آتے ہیں۔ مسجد سے باہر اسلام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اب ہم ظہر کی نماز تک اسلام کے تقاضوں سے اسلام کی عائد کردہ پابندیوں سے آزاد ہیں۔ اب ہمیں جھوٹ بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ظہر تک ہم نے وعدہ خلافی کرنی ہے۔ کم تولنا ہے، ماپتے وقت کمینگی کا ثبوت دینا ہے۔ جعلی دوائیں بنانی ہیں اور فروخت کرنی ہیں۔ کوئی ملنے والا آجائے تو اُس شخص کی جو موجود نہیں، زور و شور سے برائی کرنی ہے، دفتر میں سائل یا دکان میں گاہک آ جائے تو سرد مہری سے پیش آنا ہے، کسی رشتہ دار کی مدد کرنے کا معاملہ ہو تو بیس سال پہلے والا واقعہ یاد کر کے رشتہ دار کو بُرا ثابت کرنا ہے اور گھر والوں کو قائل کرنا ہے کہ ہم اس مصیبت میں مدد نہیں کر سکتے نہ اُسکے غم یا خوشی میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اتنے میں ظہر کی اذان سنائی دیتی ہے، ہم ٹوپی ڈھونڈتے ہیں، سر پر رکھ کر مسجد کی طرف دوڑتے ہیں۔ مسجد میں بند اسلام کو پندرہ منٹ کیلئے گلے سے لگاتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، مولوی صاحب کو تکبر سے یوں سلام کرتے ہیں جیسے وہ ہمارے ذاتی ملازم ہوں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ مسجد کیلئے ایک نیا پنکھا اور دو نئی قالینی صفیں شام تک پہنچا دی جائینگی۔ اسلام کو مسجد میں عصر تک کیلئے بند کرتے ہیں اور عصر کی نماز تک کھُل کھیلنے کیلئے باہر آتے ہیں اور آتے ہی ’’بھِڑ کوڈی بھڑ کوڈی‘‘ کا نعرہ لگانے لگ جاتے ہیں۔

حلیم بیچنے والے نے کھوکھے پر آیت لکھائی ہوئی ہے ’’اللہ سب رازقین سے بڑا رازق ہے‘‘۔ اُس سے پوچھیں کہ تم حلیم میں ٹشو پیپر کیوں ڈالتے ہو تو مسکین شکل بنا کر جواب دیگا کہ خالص حلیم بیچوں تو نفع کم ہوتا ہے‘ اُسکے نزدیک کھوکھے کی پیشانی پر آیت لکھوا کر اُس نے اسلام کے سارے تقاضے پورے کر دیئے ہیں۔ محلے کی بیگمات نے آج شام جمع ہو کر آیت کریمہ کا ورد کرنا ہے۔ وہ مطمئن ہیں کہ یہی اسلام ہے، رہے شوہر کے بچوں کے اور عزیز و اقارب کے حقوق، یا اسراف و تبذیر سے احتراز تو یہ تو سب کہنے کی باتیں ہیں۔ ملک صاحب نے جمعرات کی شام دیگیں پکائی ہوئی ہیں۔ ایک ہزار لوگ کھانے پر آرہے ہیں جن میں غریب غربا بھی شامل ہیں۔ ملک صاحب خوش ہیں کہ اسلام پر عمل پیرا ہیں، رہے وہ ایک سو سرکاری مکان جو انہوں نے تعمیر کئے ہیں اور ان میں ملاوٹ والا سیمنٹ، غیر معیاری لوہا، تھرڈ کلاس کھڑکیاں اور جلد ٹوٹ جانیوالے دروازے لگائے ہیں اور غسل خانوں کے پائپ ابھی سے بند ہو رہے ہیں اور سیوریج میں پیا جانیوالا پانی مِکس ہو رہا ہے تو اس کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو دنیاوی معاملات ہیں!

ہم لوگ سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ شہد کو اسلامی شہد، بیکری کو مدینہ بیکری، نہاری ہائوس کو محمدی نہاری ہائوس کہہ کر ہم اسلامی تقاضوں سے عہدہ برآ ہو گئے ہیں۔ محل کے اوپر ’’ماشاء اللہ‘‘ لکھ کر، دکان پر ’’ہذا من فضلِ ربی‘‘ کا بورڈ لگا کر ویگن پر سیاہ کپڑے کا جھنڈا لگا کر ہمارا کام ختم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ سب وہ کام ہیں جو ضروری ہیں نہ جن کا حکم ہے، حساب تو اُس مال کا ہو گا جو کمایا جا رہا ہے اور پرسش اُس خرچ کی ہو گی جو کیا جا رہا ہے۔ ایک ایک رشتہ دارکے حق کا جواب دینا ہو گا۔ والدین کو کہے جانے والے ایک ایک لفظ کا سامنا کرنا ہو گا‘ وہاں یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ تمہاری دکان کا نام کیا تھا اور ناجائز مال سے بنائے گئے محل کے اوپر تم نے یہ کیوں نہیں لکھا تھا اور وہ کیوں نہیں لکھا تھا۔

ہمارا المیہ اور زیادہ المناک ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ منبر و محراب پر اسلام کی تلقین کرنے والے اس صورتحال سے یکسر بے نیاز ہیں۔ ان حضرات کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کہیں وہ مخیر حضرات ناخوش نہ ہو جائیں جو مسجدوں اور مدرسوں کو نقد اور اجناس کی صورت میں خطیر امداد دیتے ہیں۔ یہ وہ بیماری ہے جو مسجدوں کو ’’پرائیویٹ‘‘ بنا کر اس ملک کو لاحق کی گئی ہے۔ ترکی، ملائیشیا، سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور کئی دوسرے اسلامی ملکوں میں مسجدیں ریاست کی ملکیت ہیں اور نسل در نسل ایک ہی خاندان کی جاگیر نہیں بنتیں۔

پھر وہ ’’روحانی شخصیات‘‘ ہیں جو بالائی طبقات کو خوش کرنے کیلئے میدان میں موجود ہیں‘ ان حضرات کی ’’پی آر‘‘ کا سلسلہ اتنا وسیع و عریض ہے کہ اخبارات انکی مدح و توصیف میں اٹے پڑے ہیں۔ اس مکتب فکر کے بانی قدرت اللہ شہاب تھے۔ اسکے بعد لائن لگ گئی، اللہ دے اور بندہ لے، یہ اپنے امیر کبیر ’’ملاقاتیوں‘‘ کو کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ اکِل حلال، فرائض کی سرانجام دہی اور کبائر سے اجتناب لازم ہے، یہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ یہ اسم اتنی بار پڑھ لو، ’’ملاقاتی‘‘ کو نفسیاتی تسکین حاصل ہوتی ہے کہ ہاں! میرا بھی اسلام سے تعلق ہے اور ’’روحانی شخصیت‘‘ کا شہرہ بھی مسلسل پھیلتا رہتا ہے۔ واہ کیا آسان اسلام ہے۔ جس کا عملی زندگی سے دُور کا تعلق بھی نہیں!

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

Saturday, November 20, 2010

ہم مسکین پاکستانی

یہ نومبر 2010 کی سولہ تھی۔ منگل کا دن تھا۔ دن کے سوا دو بجے کا وقت تھا۔ پشاور ائرپورٹ پر ایک جہاز اترنے والا تھا۔ اس جہاز کے مسافروں کا استقبال کرنے کیلئے ہوائی اڈے پر ایک ہجوم انتظار کر رہا تھا۔ انتظار کرنے والے یہ لوگ صوبے کے دور دراز علاقوں سے آئے تھے۔ دیر اور سوات سے‘ مالاکنڈ اور مردان سے‘ کوہاٹ اور وانا سے‘ بنوں اور میران شاہ سے‘ کرک سے‘ باجوڑ سے‘ وزیرستان سے‘ ڈیرہ اسماعیل خان سے اور نہ جانے کہاں کہاں سے‘ کوئی ٹیکسی کرکے آیا تھا‘ کوئی تین بسیں بدل کر‘ کوئی پوری سوزوکی کرائے پر لیکر‘ کوئی اپنی کار پر‘ اور یہ لوگ جو پشاور کے ہوائی اڈے پر تھے انکی تعداد تو کچھ بھی نہیں تھی۔ ہر استقبال کرنیوالا اپنے پیچھے دس سے پندرہ فراد گھر میں چھوڑ کر آیا تھا۔ گھروں میں پوپلے منہ لئے بوڑھی مائیں منتظر تھیں‘ بار بار دروازے کی طرف دیکھتی ہوئیں‘ چلم پیتے باپ حجروں میں ایک ایک لمحہ کن رہے تھے‘ سہاگنیں دلوں میں دھڑکنیں بسائے زندگی کے ساتھیوں کی راہ تک رہی تھیں۔ پھول سے چہروں والے بچے اپنے اپنے ابو کیلئے بے قرار تھے‘ کھلونوں کی جھنکار ان کے دلوں میں گدگدی مچا رہی تھی۔ وہ نئے کپڑوں کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک دن کے بعد عید تھی۔ ایک ایک لمحہ قیامت کی طرح لگ رہا تھا۔

دو بج کر تیس منٹ پر ابوظہبی سے چلا ہوا جہاز پشاور ائرپورٹ پر اترا‘ جہاز مشرق وسطیٰ کی ایک ائرلائن کا تھا‘ مسافر پاکستانی تھے‘ کروڑوں روپے کا کرایہ ائرلائن کو پاکستانیوں نے دیا تھا۔ پشاور ائرپورٹ پر جہاز کو مہیا کی گئی۔ سہولتیں پاکستان کی تھیں لیکن افسوس! کروڑوں روپے کے کرائے کا لحاظ تھانہ جہاز کو دی گئی سہولتوں کا‘ مسافر جہاز سے اترے‘ پاسپورٹ دکھانے اور امیگریشن کے مرحلوں سے گزرے اور کشاں کشاں ائرپورٹ کے اس حصے کی طرف بڑھے جہاں انہوں نے اپنا اپنا سامان لینا تھا۔صندوق‘ اٹیچی کیس‘ بکس‘ بیگ‘ جن میں انکے پیاروں کیلئے تحفے تھے۔ ایک دن بعد عید تھی اور گھروں میں مائیں باپ سہاگنیں‘ بہنیں‘ بھائی کھلکھلاتے ہنستے مسکراتے پھول سے بچے انتظار کر رہے تھے۔

سامان کا انتظار کرتے پندرہ منٹ گزر گئے‘ پھر آدھ گھنٹہ‘ پھر ایک گھنٹہ‘ پھر دو گھنٹے‘ پھر تین گھنٹے‘ تین گھنٹوں کے بعد مسافروں کو بتایا گیا کہ ابوظہبی سے آنیوالا جہاز چھوٹا تھا۔ مسافر تو اس میں لائے گئے لیکن سامان اس میں سما نہیں سکتا تھا‘ اس لئے ائرلائن دو سو مسافروں کا سامان ابوظہبی ہی چھوڑ آئی۔ ایک دن بعد عید ہے۔ عید کی پانچ چھٹیاں ہیں اب سامان عید کی چھٹیوں کے بعد‘ پیر کے دن یعنی بائیس نومبر کو لاہور پہنچے گا‘ وہاں سے سڑک کے ذریعے پشاور لایا جائیگا‘ اسکے بعد مسافر اپنا اپنا سامان بخوشی گھر لے جا سکتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی اس ائرلائن کا ایک دفتر بھی پشاور کے ہوائی اڈے پر موجود ہے۔ یہ کالم نگار وہاں موجود تھا اور اس کالم نگار نے اپنے کانوں سے ائرلائن کے مقامی انچارج کو یہ بتاتے سنا کہ سامان جان بوجھ کر ابوظہبی چھوڑ گیا ہے کیوں کہ پشاور آنیوالا جہاز چھوٹا تھا۔ اور اب سامان عید کی تعطیلات کے بعد ملے گا۔

ایک نوجوان کہہ رہا تھا کہ میں نے دو ہزار ڈالر کرایہ ادا کیا ہے۔ مجھے ابوظہبی ائرپورٹ پر کیوں نہ بتا دیا گیا کہ میرا سامان نہیں لے جایا جا رہا۔ اس کا جواب بہت معصومیت سے دیا گیا کہ ’’ابوظہبی کیسے بتاتے‘ آپ تو ٹرانزٹ میں تھے‘‘!

پشاور ائرپورٹ پر کام کرنیوالے ذمہ دار اہلکاروں نے بتایا کہ یہ سفاک کھیل ایک ماہ سے کھیلا جا رہا ہے۔ کروڑوں روپے کرائے کی مد میں لینے والی مشرقی وسطیٰ کی یہ ائرلائن سامان بعد میں لاتی ہے اور مسافر اذیت اور بے چارگی کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی اور ملک ہوتا جہاں شہریوں کی عزت کے محافظ جاگ رہے ہوتے تو اس قسم کی ائرلائن کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟اس ائرلائن کے جہازوں کو ملک میں آنے کی اجازت نہ دی جاتی ۔ ائرلائن پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا جاتا۔ اس ملک کا سفیر مشرق وسطیٰ کی متعلقہ حکومت سے پرزور اور پرشور احتجاج کرتا۔ میڈیا پر کہرام مچ جاتا۔  ائرلائن کا بائی کاٹ کر دیا جاتا اور چوبیس گھنٹے کے اندر ائرلائن  ناک سے لکیریں کھینچتی اور اسکا ملک بھی معافی مانگتا۔ لیکن یہ سب کچھ پاکستانیوں کی قسمت میں نہیں‘ ہم بیچارے غریب مسکین پاکستانی! ہمارا کوئی وارث ہے نہ محافظ!

اس ملک میں ایک ادارہ ہے جسے سول ایوی ایشن اتھارٹی کہتے ہیں۔ آپ اس کے ملازموں کو ملنے والی تنخواہیں اور سہولیات کی تفصیل سنیں تو یقین کیجئے‘ بے ہوش ہو جائیں اس سفید ہاتھی کا کام ملک کے اندر آنیوالے جہازوں کی نگرانی اور سارے امور کی جانچ پڑتال ہے-اس کت اوپر وزارت دفاع ہے۔ لیکن پشاور ائرپورٹ پر ہونے والے ظلم کی پرواہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ہے نہ وزارت دفاع کو۔ جب اپنا ملک اپنے ہی باشندوں کو جوتے کی نوک پر لکھتا ہے تو دوسرے ملکوں اور دوسرے ملکوں کی ائرلائنوں کو کیا پڑی ہے کہ ان لاوارثوں کی فکر کریں۔ وہ تو پہلے ہی پاکستانیوں کو کبھی ’’رفیق‘‘ کہتے ہیں اور کبھی ’’مسکین۔ وہ اپنے ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں سے وہ سلوک روا رکھتے ہیں جو جانوروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ یہ ملک تو پہلے ہی پاکستان سے تین تین چار چار سال کے بچے یوں ’’درآمد‘‘ کرتے ہیں۔ جیسے یہ بچے پلاسٹک کا سامان ہوں یا سامان کی بوری ہوں۔ پھر انہیں اونٹوں کی کوہانوں پر باندھتے ہیں۔ پھر ان اونٹوں کو دوڑاتے ہیں۔جب یہ رسیوں سے بندھے ہوئے بچے خوف کے مارے چیختے ہیں تو یہ ’’مہذب‘‘ اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ لوگ خوشی سے دیوانہ وار نعرے لگاتے ہیں۔ پھر جب یہ بچے نیچے گر کر اونٹوں کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں تو یہ ’’مہذب‘‘ اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ لوگ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں ’’دوڑ میں کونسا اونٹ اول نمبر پر آیا؟‘‘

کوئی مانے یا نہ مانے اور کسی کو یہ بات کتنی ہی بری کیوں نہ لگے‘ حقیقت یہ ہے کہ عربوں کی جتنی عزت پاکستانی کرتے ہیں‘ رب کعبہ کی قسم! کوئی اور نہیں کرتا! سادہ دل پاکستانی عربوں کو عربی میں جھگڑتا بھی دیکھیں تو ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور کلمہ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔

اور یہ تو سچا واقعہ ہے کہ عمرے کیلئے جانیوالی پاکستانی عورت کے جوتے ائرپورٹ پر چھرے سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دئیے گئے۔ وہ عورت سرزمین حجاز پر ننگے پاؤں چلتی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ اس مقدس زمین پر ننگے پاؤں ہی چلنا چاہئے! بھائی یاسر عرفات کو دیکھیں‘ ساری زندگی کشمیر کیلئے ایک لفظ منہ سے نہ نکل سکا‘ موت تک دل بھارت کیلئے دھڑکتا رہا‘ لیکن پاکستانی فلسطین اور اہل فلسطین کیلئے جان اور مال کی قربانی دینے کو ہر وقت آمادہ ہیں!

لیکن جس ملک کے اہلکار حاجیوں کے حج کو بھی حرام مال کا ذریعہ بنا لیں اور سعودی شہزادے پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر صورت حال سے آگاہ کریں‘ اس ملک کے مسافروں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی ائرلائنیں کیوں نہ غیر انسانی سلوک روا رکھیں؟؟

Tuesday, November 16, 2010

مکھی اڑانے کیلئے پتھر

آخرایک سرکاری ملازم اور سیاست دان میں کیا فرق ہوتا ہے؟
اول یہ کہ سرکاری ملازم صرف ایک فرد کو جواب دہ ہوتا ہے۔ جس کا وہ ماتحت ہے۔ سیاست دان پوری قوم کو جواب دہ ہے۔ بالخصوص ان لاکھوں افراد کو جن کے حلقے سے وہ منتخب ہو کر آیا ہے اور جن کی وہ نمائندگی کر رہا ہے۔ سرکاری ملازم کا باس کہیں اور چلا جائے تو ماتحت فورا نئے افسر کا وفادار ہو جائے گا لیکن سیاستدان مرغِ باد نما نہیں بن سکتا۔ اسے تو موت تک اپنے حلقۂ انتخاب کے سامنے پیش ہوتے رہنا ہے۔

دوم …یہ کہ سرکاری ملازم کے سامنے بے جان فائلیں اور مسلیں ہوتی ہیں۔ رقعے، توقیعات اور نوٹنگ ہوتی ہے‘ اور بس۔ لیکن سیاستدان کے سامنے انسان ہوتے ہیں۔جیتے جاگتے انسان، جن کے درمیان اس نے چلنا پھرنا ہے، انکی سننی ہے اور اپنی کہنی ہے۔

سوم …اور یہ اصل فرق ہے۔ سیاست دان نے پالیسی بنانا ہے اور سرکاری ملازم نے اس پالیسی کی پیروی کرنا ہے۔

دنیا کی مشہور کتابیں سیاست دانوں کی تربیت کیلئے لکھی گئی ہیں۔ نہ کہ سرکاری ملازموں کیلئے میکیاولی کی پرنس سے لیکر سیاست نامہ طوسی تک اور قابوس نامہ سے لیکر اخلاقِ جلالی تک‘ اس لئے کہ اہل سیاست نے لاکھوں افراد کیلئے پالیسیاں طے کرنا ہوتی ہیں۔ سرکاری ملازم تو ایک اوزار ہے جو سیاست دان کے ہاتھ میں ہے۔ سیاست دان جیسے چاہے اسے استعمال کرے۔

افسوس! کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کردار باہم بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سرکاری ملازم وہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جو سیاستدان کے کرنے کا ہوتا ہے اور منہ کی کھاتا ہے۔ آپ ایوب خان سے لیکر غلام اسحاق تک اور ضیاء الحق سے لیکر پرویز مشرف تک سب کا مطالعہ کر لیں۔ آپکو ایک بات معلوم ہو جائیگی کہ عوامی امنگوں سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان کی تربیت اس انداز سے ہوئی تھی کہ وہ تو ایک فرد کو جواب دہ رہے تھے۔ سیاستدان کبھی سیکشن افسر، ڈپٹی کمشنر، جوائنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری نہیں رہا ہوتا، اس کا وژن وسیع ہوتا ہے اور اگر نہیں ہے تو وہ سیاست کیلئے موزوں نہیں ہے۔ میاں نواز شریف ایک سیاستدان ہیں اور جناب سعید مہدی ایک سرکاری ملازم تھے اور ہیں۔ میاں صاحب نے دفتروں میں فائل فائل نہیں کھیلی۔ وہ وزیر خزانہ بنے، پھر وزیراعلیٰ ، پھر وزیراعظم، جیل گئے، جلاوطن رہے، پرویز مشرف کی آمریت کا ہدف رہے وہ کروڑوں عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عوام کے جذبات کیا ہیں؟ اگر انہوں نے نوشیرواں عادل کا یہ قول نہیں بھی سن رکھا تو اسکے باوجود اس پر ضرور عمل پیرا ہو نے کی کوشش کرتے ہونگے کہ ’’اگر دانا بننا چاہتے ہو تو اپنے بارے میں لوگوں کے تاثرات سے سبق سیکھو‘‘ لیکن سعید مہدی صاحب کو عوام کے جذبات کا علم ہے نہ پرواہ اور نہ ہی انہیں یہ فکر ہے کہ لوگوں کے تاثرات کیا ہیں؟ لوگوں کے تاثرات یہ ہیں کہ میاں محمد نواز شریف نے پرویز مشرف کو پاکستان کی بری فوج کی سربراہی پر فائز کر کے غلطی کی تھی۔ سعید مہدی صاحب نے اپنے حالیہ انٹرویو میں یہ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے کہ اس ضمن میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی۔ مسئلہ وہی ہے وژن کا۔ سیاستدان کا وژن اور سرکاری ملازم کا وژن اس سے ملتی جلتی ہی بات تو اقبال نے کی تھی کہ ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور نادان دوست کی طرح سعید مہدی صاحب نے میاں صاحب کی پوزیشن کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ انٹرویو میں عوام کے جذبات کو مجروح کرنے کیساتھ ساتھ خود اپنے بیان کو بھی تناقص (Contradiction)
کی نذر کرتے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز
 شریف کے دور میں آرمی چیف کے عہدے کیلئے پرویز مشرف کے علاوہ جنرل علی قلی خان اور جنرل ضیاء الدین بٹ کے نام بھی زیر غور تھے اور فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ان سینئر جرنیلوں میں سے ایک کا تقرر کیا جائیگا۔ یہاں تک تو بات صحیح ہے لیکن اسکے بعد سعیدی مہدی کہتے ہیں کہ’’ضروری نہیں کہ اس میں سینیارٹی ہی کو مدنظر رکھا جائے‘‘ یہاں انہیں قوم کو بتانا چاہئے کہ سینیارٹی کے علاوہ اور کیا کیا پہلو مدنظر رکھنے چاہئیں یا رکھے گئے تھے؟ پھر وہ اقرار کرتے ہیں کہ ’’اس میں شک نہیں کہ جنرل علی قلی خان پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل تھے اور ’’ہرطرح‘‘ سے اس عہدے کے مستحق تھے لیکن پرویز مشرف کی سلیکشن کی بڑی وجہ یہ تھی کہ چونکہ علی قلی خان سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور خدشہ تھا کہ انکی سیاسی سوچ ہو یا سیاسی مقصد جبکہ پرویز مشرف حکومتی ملازم کے بیٹے تھے‘‘۔ یہاں مہدی صاحب نے دو سوال پیدا کر دیئے۔ ایک یہ کہ سیاسی خاندان سے ہونا اتنا بڑا جرم ہے کہ باصلاحیت ہونے کے باوجود ایسے جرنیل کو سربراہ نہیں بنایا جا سکتا؟ اگر آپکو اس پر اعتماد نہیں اور اتنا شک ہے تو پھر اسے تھری سٹار جرنیل بنا کر کور کمانڈر بنانا بھی غلط ہے۔ دوسرا یہ کہ یہاں وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ علی قلی خان کا کیا جرم تھا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ جنرل ضیاء الدین بٹ کا کیا جرم تھا؟ اگر وہ تین سینئر جرنیلوں میں شامل تھے تو ’’نیک نام‘‘ پرویز مشرف کو جنرل ضیاء الدین بٹ پر کیوں ترجیح دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر علی قلی خان سے کچھ لوگوں کو ’’خوف‘‘ تھا تو جنرل بٹ مشرف سے کہیں بہتر تھے۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج پر ایک ایسے شخص کو مسلط کرنا جس کے شب و روز کے مشاغل کسی سے چھپے ہوئے نہیں تھے۔ بہت بڑا ظلم تھا اس فوج میں بے شمار افسر اور جوان ایسے تھے جو راتوں کو سر بہ سجدہ رہتے تھے۔ ہر وقت باوضو ہوتے تھے، دن کو اللہ سے ڈرتے تھے اور فوج کی ملازمت کو کارثواب اور شہادت کو اپنی منزل مراد سمجھتے تھے۔ ان غازیوں اور مجاہدوں پر ایک بلا نوش اور طبلہ نواز شخص کو مسلط کرنا اور پھر عذر گناہ بد تر از گناہ کیمطابق اب اصرار کرنا کہ اس میں کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ یہ رویہ ایک محدود وژن رکھنے والے سرکاری ملازم کا ہی ہو سکتا ہے۔

پھر سعید مہدی صاحب مکھی اڑانے کیلئے دوست کے سر پر پتھر مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ…’’جو لوگ وزیر اعظم کے نزدیک تھے انکے ساتھ جنرل علی قلی خان کے کچھ ذاتی مسائل تھے‘ جسکے باعث انکی تقرری نہ ہو سکی‘‘ دوسرے لفظوں میں مہدی صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ لوگوں کے ذاتی مسائل کی وجہ سے وزیراعظم نے میرٹ کا قتل کیا کیوں کہ علی قلی خان کے باصلاحیت ہونے کا تو مہدی صاحب اعتراف کر ہی چکے ہیں! پھر اسی پر بس نہیں کرتے، وہ میاں نواز شریف پر ایک اور الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’جنرل پرویز مشرف کا بھی پیشہ ورانہ لحاظ سے ریکارڈ ٹھیک تھا تاہم وزیراعظم نے ان کے پروفیشنلزم سے ہٹ کر دوسرا ریکارڈ نہیں دیکھا‘‘۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس کا جواب میاں صاحب کو خود ہی دینا چاہئے لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر میاں صاحب کے اردگرد عقل مند لوگ اور وژن رکھنے والے بیوروکریٹ ہوتے تو انہیں مشورہ دیتے کہ ’’دوسرا‘‘ ریکارڈ ضرور دیکھنا چاہئے۔ پھر مہدی صاحب ایک تیر جنرل ضیاء الدین بٹ کی طرف بھی پھینکتے ہیں کہ ’’اختلاف اس وقت شروع ہوا جب وزیراعظم کو پتہ چلا کہ کارگل میں جنرل پرویز مشرف نے مہم جوئی کی جو ان کو بغیر بتائے کی گئی۔ اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کی جانب سے اس بارے میں حکومت کو آگاہ نہ کرنا ان کی ناکامی ہے‘‘۔ گویا سعید مہدی صاحب یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جو شخص آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر ناکام رہا اسے وزیراعظم نے پوری فوج کا سربراہ بنا دیا!! ظفراقبال نے شاید کسی ایسے ہی موقع کیلئے کہا ہے …؎

دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے

شور  کر اور بہت   خاک    اڑا   اور      بہت

Saturday, November 13, 2010

ہمیشہ نئی سرنج پر اصرار کیجئے

صحت اور تعلیم دو ایسے شعبے ہیں جن کے ساتھ ہر حکومت نے ’’مناسب‘‘ سلوک روا رکھا! وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے محلات پر اٹھنے والے اخراجات کہیں زیادہ ہیں۔ اس ’’ترجیحی‘‘ برتائو کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وطن عزیز میں جہالت اور بیماری دونوں زوروں پر ہیں۔ ٹی بی جس کا ماضی میں انسداد ہو گیا تھا۔ شدومد کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو گئی ے۔ ہیپا ٹائٹس بی اور سی آبادی کے بہت بڑے حصے پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ یاد نہیں یہ اعداد و شمار کس حد تک درست ہیں لیکن ایک اندازے کیمطابق جنوبی پنجاب کی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ ان مہلک بیماریوں کے نرغے میں ہے۔ غربت اور جہالت، بیماری کی چچازاد بہنیں ہیں‘ چنانچہ وہ خاندان جو غریب ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی ہیں، پورے کے پورے، ہیپا ٹائٹس بی اور سی کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔
 نیم حکیم، عطائی، نام نہاد ہومیو پیتھ،  بسوں، اڈوں اور فٹ پاتھوں پر دوائیاں بیچنے والے ٹھگ ، تعویز فروش، ’’روحانی علاج کرنیوالے اٹھائی گیرے، ’’نقش‘‘ فروخت کرنیوالے، نجومی، اور ’’ہر بیماری‘‘ کا علاج کرنیوالے زبدۃ الحکما قسم کے انسانی جانوں کے تاجر۔ یہ سب خلق خدا کو ’’علاج‘‘ کے راستے سے قبرستانوں میں بھیجنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان دونوں بیماریوں کے ٹیسٹ اتنے مہنگے ہیں کہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ علاج پر ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ انجکشن مہنگے ہیں۔ پرہیز سخت ہے، چنانچہ غربت کے ہاتھوں مجبور بیمار آسانی سے عطائیوں اور ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

وفاقی وزارت صحت نے چند دن پہلے اسلام آباد میں ایک سرکاری ہسپتال میں وزیر اعظم کو بلایا اور ہیپا ٹائٹس کے مرض کے سلسلے میں ایک منصوبے کا افتتاح کروایا۔ اس منصوبے کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سٹیج کے پیچھے والی دیوار پر وزیر اعظم کی بہت بڑی تصویر لگائی گئی اور تصویر کے ساتھ یہ عبارت لکھی گئی: ’’ٹیکہ لگواتے وقت ہمیشہ نئی سرنج پر اصرار کریں‘‘ ہیپا ٹائٹس کا خاتمہ، خوشیوں بھری زندگی‘‘

وزارت صحت کے بابوئوں سے وزیر اعظم کو پوچھنا چاہئے تھا کہ ’’میاں! اس سارے مسئلے میں میری تصویر لگانے کا کیا جواز ہے؟‘‘ یا تو ٹیکے اور سرنج کی تصویر ہونی چاہئے تھی یا کسی مریض کی، یا ہسپتال کی، لیکن متعلقہ وزیر نے اپنی وزارت پکی کرنے کیلئے یا بابوئوں نے نوکری کی رسّی اپنے گلے میں تنگ کرنے کی خاطر یہ خوشامد بھرا کام کیا۔ جہاں سسٹم نہ ہو، ضابطہ اور نظام ناپید ہو فیصلے فرد واحد کی مرضی سے ہوتے ہوں، وہاں خوشامد ایک فن بلکہ سائنس بنا دی جاتی ہے
رہا یہ مشورہ کہ ٹیکہ لگواتے وقت ہمیشہ نئی سرنج پر اصرار کریں تو اہل پاکستان تو باسٹھ سال سے اس نصیحت پر عمل پیرا ہیں۔ سب سے پہلی نئی سرنج جس سے قوم کو ٹیکہ لگایا گیا، ایوب خان تھی، ایوب خان ایک ایسی سرنج تھی جس نے ٹیکہ لگایا تو قوم کا بازو سن ہو گیا اور دس سال سن رہا۔ یہ آمرانہ سرنج الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب جیسے عطائیوں کے ہاتھ میں تھی۔ ایوب خان کے بیٹوں نے فوج جیسے مقدس پیشے سے ’’توبہ‘‘ کی اور کروڑ پتی ہو گئے۔ دوسری طرف لال بہادر شاستری، وزیر اعظم بھارت مرا تو اس کا بیٹا بمبئی کے ایک بنک میں چھ سو روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازمت کر رہا تھا۔
اس ٹیکے کی بدولت مادر ملت محترم فاطمہ جناح بھی انتخابات میں ’’شکست‘‘ سے دو چار ہوئیں۔ ایوب خان کے بعد قوم نے نئی سرنج پر اصرار کیا اور اب کے جو سرنج ڈبے سے نکلی تو اس کا نام یحییٰ خان تھا۔ اس سرنج سے جو ٹیکہ لگا، اسکے نتیجے میں ہم نے پاکستان کا نصف سے بڑا حصہ کھو دیا۔ میانوالی کے ٹائیگر جرنیل نے اپنا ریوالور بھارت کو پیش کیا اور ساتھ ہی جہیز میں نوّے ہزار قیدی دیئے۔ پھر ایک اور سرنج آئی۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، انہوں نے میٹرک پاس وفاداروں کو بڑے بڑے عہدے دیئے دلائی کیمپ بنوایا، کارخانے، سکول، کالج سب کچھ قومیا دیا گیا، نیچے کی مٹی اوپر اور اوپر کی مٹی نیچے کی گئی، ایئر مارشل، اصغر خان کو کہا گیا کہ ہمارے ساتھ مل جائو، اس ٹیکے لگوانے والی قوم کو بیس سال تک بے وقوف بنائیں گے، لیکن قوم کو اصغر خان جیسے دیانت دار سیاست دان کی ضرورت ہی نہ تھی۔

اگلی سرنج جو ٹیکے کیلئے استعمال ہوئی، ضیاء الحق کی اسلامی سرنج تھی! اس سے اوجڑی کیمپ کا ٹیکہ لگا جس سے ’’خاندانی صنعت کار‘‘ وجود میں آئے۔ ایران نے ایک افغان مہاجر بھی کیمپ کی تاروں سے باہر نہ نکلنے دیا لیکن یہاں افغان مہاجر ملک کے طو ل و عرض میں پھیل گئے۔ خیبر پی کے کی معیشت پر کاری ضرب لگی۔ مقامی لوگ مزدوری سے محروم ہو گئے، ہزاروں لاکھوں شناختی کارڈ جعلی بنائے گئے، کلاشنکوف اور ہیروئن نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ۔ادارے تباہ و برباد ہو گئے۔ ضیاء الحق کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون تھا۔ کبھی اس نے قوم کو یہ خوش خبری دی کہ آئین کیا ہے؟ کاغذ کاایک پرزہ، جسے میں جب چاہوں، پھاڑ سکتا ہوں، کبھی اس نے یہ کہہ کر اپنے ہم وطنوں کو تسلی دی کہ سیاچین پر تو گھاس کا تنکہ تک نہیں اگتا‘ پلاٹ یوں بانٹے گئے جیسے ریوڑیاں، ہر ستائیسواں رمضان شہنشاہ معظم حرم کعبہ میں گزارتے ، جہاز بھر کر لے جایا جاتا، سارا خرچ غریب عوام اپنے ٹیکسوںسے برداشت کرتے، اس اسلامی دور میں بھارتی گویے اور اداکار صدارتی محل میں قیام کیا کرتے، لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیمیں اسی ٹیکے کے اثرات ہیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مشائخ کانفرنس کا رواج پڑا اور اہل مذہب کو دستر خوان پر بٹھایا گیا جہاں سے اب وہ اٹھ ہی نہیں رہے!

اگلی نئی سرنج جس پر قوم نے اصرار کیا، پرویز مشرف تھی، سچی بات یہ ہے کہ قوم کو تو اس سرنج کا معلوم ہی نہ تھا۔ یہ سرنج میاں محمد نواز شریف کی دریافت تھی اور اس سرنج سے قوم کو ٹیکہ بھی میاں صاحب ہی نے لگایا‘ شراب و کباب اور لہو و لعب میں مست جرنیل کو میاں صاحب نے منگلا سے اٹھایا اور سینسیر کو محروم کرکے اسے چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا۔

اس ٹیکے نے وہ کچھ کیا جو وہم و گمان میں نہیں تھا۔ پرویز مشرف کی حیثیت عملاً ایک امریکی گورنر کی تھی۔ پاکستانی شہری باقاعدہ فروخت کئے گئے، ایسے ایسے خفیہ معاہدے ہوئے جن کا آج تک قوم کو پتہ نہیں چلا، ہوائے اڈے، شاہراہیں، سب کچھ امریکہ کی نذر کر دیا گیا، پاسپورٹ اور ویزے تک معاف کر دیئے گئے، خود مختاری، عزت ، ناموس سب کچھ ڈالروں کی نذر ہو گیا۔ یہ وہی ڈالر ہیں جن کی بدولت آج پرویز مشرف دنیا کے بہترین ملکوں میں شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

سو، وزیر اعظم کی تصویر کے ساتھ یہ لکھنا مکمل غیر ضروری تھا کہ ٹیکہ لگواتے وقت ہمیشہ نئی سرنج پر اصرار کریں۔ قوم نئی سرنج کیلئے تیار رہے۔ اس نے قمیض کی آستین اوپر کرکے بازو کا وہ حصہ سامنے کیا ہوا ہے جہاں نئی سرنج سے پرانا ٹیکہ لگنا ہے، پیر پگاڑا کے کلینک میں بھی کچھ سرنجیں تیار ہو رہی ہیں …ع

دیکھیئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!

Sunday, November 07, 2010

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں

ایک خوش بخت زمانہ اس ملک میں ایسا بھی تھا جب صرف انکم ٹیکس اور کسٹم کے محکمے بدنام تھے۔پولیس کا ذکر آتا تو اس لئے مذمت کی جاتی کہ غریبوں کو پریشان کرتی ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی ٹیکس یا کسٹم کے محکمے میں ملازمت اختیار کرتا تو اُس کے بزرگ پریشان ہوجاتے کہ ہم لوگوں کو کیسے بتائیں گے کہ برخوردار کہاں کام کرتا ہے!

جب سے انجینئروں نے طاقت پکڑی ہے،ٹیکس جیسے محکمے تزک و احتشام کھو بیٹھے ہیں۔کہیں پڑھا تھا کہ مولانا مودودی کے ایک صاحبزادے انجینئر ہوئے تو مولانا نے کہا تھا باپ مولوی اور بیٹا لوہار۔ مولانا نے تو ازراہِ تفنّن کہا ہوگا لیکن اہلِ پاکستانی نے بہت جلد دیکھ لیا کہ انجینئر واقعی لوہار ہیں ۔سوسنار کی ایک لوہار کی۔ جن جن محکموں میں زمامِ کار انجینئروں کے ہاتھ میں ہے ان کی کارکردگی دیکھ لیجئے اور شہرت بھی۔ ریلوے، واپڈا، پی ڈبلیو ڈی، ایم ای ایس لیکن ایک زمانہ وہ بھی آنا تھا جب واپڈا اور پی ڈبلیو ڈی بھی پس منظر میں چلے جانے تھے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں۔

اس ملک کی بد قسمتی کا نیا دروازہ اُس دن کھلا جس دن ملک میں پہلا ترقیاتی ادارہ وجود میں آیا۔ یوں تو ترقیاتی ادارے (ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) ہر شہر میں ہیں، میرپور سے ملتان تک اور پشاور سے حیدرآباد تک لیکن جن ترقیاتی اداروں نے شہرتِ عام اور لعنتِ دوام پائی ہے وہ تین ہیں۔ کراچی کا ترقیاتی ادارہ( کے ڈی اے) لاہور کا ترقیاتی ادارہ( ایل ڈی اے) اور دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ( سی ڈی اے)۔

یہ جو چار پانچ دن پہلے عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ سی ڈی اے میں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے تو یہ تو بالکل وہی بات ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ آسمان پر ہر طرف ستارے ہی ستارے ہیں۔ آخر ایک وقت میں ایک انسان کی دو آنکھیں کتنے ستارے دیکھ لیں گی۔ ہزاروں لاکھوں کہکشائیں، سیارے، مدار، لاتعداد نظام ہائے شمسی۔ ہر لمحہ پھیلتی ، بڑی ہوتی کائنات۔ بس یہی صورتحال ان اداروں میں کرپشن کی بات ہے۔ناقابلِ بیان۔ ناقابلِ پیمائش اور ناقابلِ تصور!

یہ ترقیاتی ادارے ملک میں تین قسم کے ناسور پھیلانے کا سبب بنے ہیں۔ اول یہ سیاست دانوں کی فرنٹ لائن بن کرشہروں کی منصوبہ بندی میں نقب لگاتے ہیں، جام صادق جیسے لوگوں نے کے ڈی اے کو اور پنجاب کے وزرائے اعلی ا  نے ایل ڈی اے کو خوب استعمال کیا اور اپنے پسندیدہ لوگوں کو پلاٹ دئیے۔سی ڈی اے نے بھی یہی کچھ کیا۔ گرین ایریا کی ایسی تیسی ہوگئی۔ پارک باغات سب جوع الارض کی نذر ہوگئے۔ یہ کام بھٹو نے شروع کیا اور ضیاء الحق اور اسکے جانشینوں نے اسے کمال تک پہنچایا۔
 دوم۔ان اداروں نے سڑکیں پل سرکاری عمارتیں اور پارک بنانے میں کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کی اور کر رہے ہیں۔ شاید اس ملک میں کبھی وہ دن آئے کہ ان اداروں میں کام کرنیوالے انجینئروں اور دوسرے ملازموں کی جائیدادوں کی فہرستیں بنیں۔ ان اداروں میں روڈ کے محکمے کو گولڈ کہا جاتا ہے۔حرام کھا نے والے ان اداروں میں یوں بیٹھے ہوئے ہیں جیسے پانیوں میں مگر مچھ۔نقشے پاس کرانے سے لیکر ناجائز عمارتیں نہ گرانے تک ‘ سوئی سے لیکر ہاتھی تک۔ ہزاروں مواقع ہیں جہاں حرام یوں کھایا جاتا ہے جیسے ناپاک جانور راتب کھاتے ہیں!

سوم۔ ان اداروں میں فوقیت اُن لوگوں کو دی جاتی ہے جو ان میں کام کرتے ہیں ۔ ان تینوں اداروں کے تصرف میں جو بہترین زمینیں تھیں وہ ان کے اپنے ملازموں میں تقسیم ہوئیں۔ جولاہے کا بیٹا تھانیدار لگا تھا تو اس نے پہلے باپ کو قید کیا تھا۔ ان اداروں نے دال جوتیوں میں بانٹی۔ جس کی چند سال کی نوکری تھی اُسے بھی زمینیں دی گئی۔ جو تیس تیس سال سے ملازمت کررہے تھے لیکن ان ترقیاتی اداروں میں نہیں تھے،اُنہیں(اکثرو بیشتر) ترسایا گیا اور چکر لگوائے گئے۔

ان اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ آپ کراچی اسلام آباد یا لاہور میں ایک گھنٹہ بھی گھومیں تو شاید ہی کوئی ایسی شاہراہ ملے جو تجاوزات سے پاک ہو۔ پیدل چلنے والوں کیلئے فٹ پاتھ نہیں ہیں۔ سڑکوں کے نصف سے زیادہ حصے دکانداروں کے قبضے میں ہیں لیکن کروڑوں روپے تنخواہ کی مد میں لینے والے یہ ادارے یہ سارے تجاوزات ہر روز دیکھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ دارالحکومت میں شاید ہی کوئی ایسا ریستوران ہوجس نے فٹ پاتھوں اور پارکنگ کی جگہ پر قبضہ نہ کیا ہوا ہو۔ بُھنے ہوئے گوشت اور مہکتے ہوئے تکوں اور کبابوں کی اشتہاانگیز خوشبو ان اداروں کے بدنما چوڑے نتھنوں میں داخل ہوکر ناجائز کوجائز اور تجاوزات کو باپ کی ملکیت بنادیتی ہے۔

دارالحکومت سے مر ی کی طرف جائیں تو ایک خوبصورت بستی شاہ پور کے نام سے نظر آتی ہے۔یہ بستی ایک ندی’’ کورنگ‘‘ کے کنارے آباد ہے۔ ممتاز مفتی کے صاحبزادے عکسی مفتی نے(جو لوگ ورثہ کے ڈائریکٹر رہے) سالہا سال پہلے اس ندی (کورنگ) کے کنارے سب سے پہلے مکان بنا کر جنگل میں منگل کیا۔ پھر کچھ اور خوش ذوق لوگوں نے انکی پیروی کی، دیکھتے ہی دیکھتے شاہ پور کی خوبصورت بستی وجود میں آگئی لیکن اسکے بعد کی کہانی نہ صرف دردناک ہے بلکہ عبرت ناک ہے۔اس بستی پر دو ظلم ہوئے۔ایک یہ کہ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے نے اسکی شاہراہوں اور گلیوں کی والی وارث ہونے سے انکار کردیا چنانچہ یہاں کے مکین گڑھوں میں دھنسی ہوئی گاڑیاں کھینچ کھینچ کر نکالتے ہیں حالانکہ انہیں گھوڑا گاڑیاں رکھنی چاہئیں لیکن اصل ظلم اس خوبصورت ندی’’کورنگ‘‘ پرہورہا ہے۔ زمین ہڑپ کرنیوالے گروہ اس ندی کے کناروں کوکاٹ کر، پہاڑیوں کو گرا کر دکانیں اور مکروہ ورکشاپیں بنا رہے ہیں‘ جو پہاڑیاں سبزے سے لدی ہوئی تھیں اُنہیں کاٹا جارہا ہے، گرایا جارہا ہے، درختوں کو آروں کی نذر کیاجارہا ہے اور چند سکّوں کی خاطر ایک طرف ندی کا پاٹ تنگ کرکے پانی کی روانی کو خطرناک کیا جارہا ہے اور دوسری طرف ناجائز بننے والی دکانوں اور ورکشاپوں کا کوڑا کرکٹ، لوہا اور سینکڑوں قسم کا فُضلہ اسی پانی میں پھینکا جارہا ہے۔

دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں’’ ماحولیات‘‘ کے نام سے بہت بڑا شعبہ ہے۔ظاہر ہے یہ شعبہ مستعد ہے لیکن لگتا ہے فی الحال وہ بھارت افغانستا ن اور ایران میں ماحولیات پر توجہ دے رہا ہے‘ اپنے ملک کا دارالحکومت اُسکی ترجیحات میں ہوتا تو یہ خوبصورت بستی اور یہ خوبصورت ندی تباہی سے ہمکنار نہ ہورہی ہوتی!

ملک کی قسمت دیکھیے اور سَر دُھنیے، کراچی، لاہور ،اسلام آباد، گوجرانوالہ، پشاور… شاید ہی دنیا میں ان شہروں سے زیادہ گندے شہر ہوں لیکن ذرا قیمتیں ملاحظہ ہوں۔ تین کروڑ روپے کنال۔ چار کروڑ روپے برائے پانچ سو گز، کروڑوں کے محل کے سامنے سڑک ٹوٹی ہوئی، گیٹ کے سامنے کھڑا ہوا پانی جس میں مچھروں کی زبردست تولید ہورہی ہوتی ہے، محل کے سامنے اندھیرا اس لیے کہ سٹریٹ لائٹ کا زمانہ ابھی اس ملک میں نہیں آیا، محل جنریٹر کے چراغوں سے جگمگاتا ہوا پورچ میں پچاس لاکھ کی پجارو، اسکے پاس پانچ نوکر زمین پر بیٹھے ہوئے، کروڑوں کے اس محل میں چارکتابیں بھی نکل آئیں تو محل کا مالک شرمندگی سے زمین میں گڑ جائے۔ موبائل فونوں اور سِموں کے انبار۔ دیوار کے سائز کا ٹیلی ویژن، پست ذو ق کی لچر موسیقی اور اُبکائی لانے والے گانے، اخبار گھر میں اگر آتا بھی ہے تو وہ جس میں جرائم کی تفصیل چسکے لے لیکر لکھی جاتی ہے اور جسے شرفا گھر میں لانا بُرا سمجھتے ہیں۔ کروڑوں کے اس محل کے مالک کے پاس اربوں کے ٹھیکے، ڈگری جعلی اور الیکشن میں کامیابی سو فیصد یقینی! ہائے میرؔ ظالم کہاں یاد آگیا …؎
 کس خرابے میں ہم ہوئے آباد!

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں

Saturday, November 06, 2010

زمبابوے نے مبارک کیوں نہیں دی؟

صورت حال دلچسپ سے دلچسپ تر ہو رہی ہے۔ ایک طرف عبدالستار ایدھی نے کہا ہے کہ مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اسے روکا نہ گیا تو خونی انقلاب آئے گا۔ ایدھی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عام آدمی کا جینا اس قدر مشکل ہو گیا ہے کہ اس کے پاس دوا کے پیسے نہیں ہیں۔ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ ملک میں پندرہ کروڑ افراد صرف ایک سو ستر روپے روزانہ کما پاتے ہیں۔
 دوسری طرف قاف لیگ کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر زیادہ چیخ و پکار نہ کریں۔ چودھری صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب ہر شخص کی آمدنی اچھی ہے۔
 تیسری طرف ایک سعودی شہزادے نے پاکستان کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ پاکستانی حکام حاجیوں کی رہائش گاہیں جس طریقِ کار اور جن نرخوں پر لے رہے ہیں اس میں بہت زیادہ کرپشن ہے۔ وزارت مذہبی امور نے اس کا زبردست جواب دیا ہے۔ ایسا جواب جو مکمل خاموش کر دے۔ وزارت نے کہا ہے کہ یہ خط جعلی ہے! داغ دہلوی نے کسی ایسے ہی موقع پر کہا تھا؎

پڑا فلک کو کبھی دل جلوں سے کام نہیں

جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں

اگر سعودی شہزادے کو یہ ثابت کرنا پڑا کہ خط جعلی نہیں تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ ہمارا متعلقہ محکمہ شہزادے ہی کو جعلی قرار دے۔

چوتھی طرف ایک ثقہ بین الاقوامی ادارے نے خوشحال ملکوں کی فہرست (انڈیکس) جاری کی ہے جس کی رو سے پاکستان کا نمبر 109 ہے۔ یعنی 108 ملک پاکستان سے زیادہ خوشحال ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے اس فہرست میں کتنے ملک شامل ہوں گے؟ کئی سو؟ نہیں اس انڈیکس میں کل ایک سو دس ملک شامل ہیں اور ان ایک سو دس ملکوں میں ایک ملک (زمبابوے) ایسا بھی ہے جو پاکستان سے بھی گیا گزرا ہے۔

اس ادارے کو ہمارا جواب یہی ہونا چاہیے کہ یہ فہرست جعلی ہے! جب کئی سال کی جدوجہد کے بعد بین الاقوامی ادارہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ فہرست جعلی نہیں ہے اصلی ہے تو ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ فہرست اصلی بھی ہے تو کیا ہوا خود ادارہ ہی جعلی ہے!
لیکن یہ فہرست اور یہ ادارہ ذرا ہماری سنجیدہ توجہ کا حق دار ہے اس لئے اس مسئلے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔

لیگاٹم (Legatum)
انسٹی ٹیوٹ ایک آزاد اور غیر جانبدار تنظیم ہے جو خوشحالی کے موضوع پر تحقیق کر رہی ہے۔ یہ تنظیم سرمایہ کاری بھی کرتی ہے اس کا ہیڈ کوارٹر دبئی میں ہے۔ گزشتہ دس برس میں اس تنظیم میں سو سے زیادہ ملکوں میں پندرہ سو منصوبے کامیابی سے چلائے ہیں اور یہ سارے منصوبے کم آمدنی والے لوگوں کے نکتہ نظر سے ترتیب دیئے گئے تھے۔ یہ ادارہ خوشحالی کو صرف مادی یا مالی حوالوں سے نہیں دیکھتا بلکہ مجموعی لحاظ سے اس کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ خوشحالی کی تعریف کرتے وقت انسانی حقوق، سیاسی آزادی، مذہبی آزادی، معاشی آزادی، سیکورٹی اور معیارِ زندگی کے پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ ادارے کی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ آمریت زدہ ملک ترقی نہیں کر سکتے جو ریاستیں انصاف بہم نہیں پہنچاتیں ان میں انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور دہشت گردی عوام کا مقدر بنتی ہے اگر دولت میں اضافہ ہو رہا ہو لیکن جمہوریت اور انصاف کا فقدان ہو تو یہ دولت غلط مقاصد کے لئے استعمال ہو گی اور اس سے جعلی خوشحالی تو وجود میں آ سکتی ہے حقیقی خوشحالی نہیں پیدا ہو سکتی۔ کرپشن، معاشی خوشحالی کا گلاگھونٹ دیتی ہے اور ملک بین الاقوامی جرائم کا گڑھ بن جاتا ہے۔ کرپشن سے ناجائز اسلحہ بھی بڑھتا ہے۔ ایک جامع ترقی وہی ہو گی جس میں ان سارے مسائل سے نمٹا جائے اور لوگوں کو معاشی خوشحالی کے ساتھ اطمینان اور اپنے ملک پر اعتماد بھی ہو دوسرے لفظوں میں یہ ادارہ خوشحال ملکوں کی فہرست ترتیب دیتے ہوئے انسانی وقار، آزادی انصاف اور امن وامان کے محرکات بھی جانچتا ہے۔

یہ ادارہ کیسے فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا ملک زیادہ خوشحال ہے اور کون سا کم؟ اس میں بنیادی کردار دو چیزوں کا ہے دولت اور فلاح وبہبود۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان اس کی بہترین مثال ہے اور شاید بدترین بھی۔ دنیا کے امیر ترین افراد اس ملک میں موجود ہیں اس ملک کے امرا کی دولت جدہ سے لندن اور نیویارک تک پھیلی ہوئی ہے لیکن عوام کی فلاح وبہبود صفر ہے۔
یہ ادارہ دنیا کے ایک سو دس ملکوں کو آٹھ پہلوؤں سے جانچتا ہے اور یہ آٹھ پہلو خوشحالی یا بدحالی کے حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

 معیشت، مستحکم اور پھلتی پھولتی معیشت فی کس شرح آمدنی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور لوگوں کی فلاح کا بھی خیال رکھتی ہے۔

۔: بزنس کے مواقع ایسی فضا جس میں لوگ بزنس کے مواقع آسانی سے حاصل کر لیں، خوشحالی کے لئے از حد لازمی ہے لیکن اگر لوگ اس خوف میں مبتلا ہوں کہ ہم بزنس کریں تو کیا خبر انکم ٹیکس والے کیا سلوک کریں؟ بجلی اور گیس بہم پہنچے یا نہ اور امن وامان کی صورت حال مخدوش ہو تو بزنس کے قریب بھی کوئی نہیں پھٹکے گا۔
۔ اندازِ حکومت 

 تعلیم،
 صحت،
  حفاظت اور امن وامان،
  شخصی آزادی،
  باہمی اعتماد اور وعدوں کی پاسداری۔
 ان عوامل کی روشنی میں اس ادارے نے اعداد وشمار اکٹھے کئے اور خوشحالی کی سطح طے کرتے وقت اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ ایک عام آدمی کو صحت اور تعلیم کے بجٹ میں سے کتنا حصہ ملتا ہے اور وہ اپنے آپ کو کتنا محفوظ خیال کرتا ہے۔ فہرست میں ٹاپ کے دس ملکوں میں ناروے، ڈنمارک، فن لینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سویڈن، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اور امریکہ شامل ہیں۔ دس بدحال ترین ملکوں میں زمبیا،کیمرون، موزمبیق، کینیا، یمن، نائیجیریا، ایتھوپیا، سنٹرل افریق ریپبلک، پاکستان اور زمبابوے شامل ہیں۔ مسلمان ملکوں میں متحدہ عرب امارات (یو، اے ای) پہلے نمبر پر ہے اور فہرست میں اس کا نمبر تیس ہے۔ کویت 31 ویں نمبر پر ہے۔ ملائیشیا 43 ہے۔ ٹیونس 48 ہے، سعودی عرب 49 نمبر پر ہے، بھارت کا نمبر 88 ہے اور بنگلہ دیش کا نمبر 96 ہے۔ اگر یہ فہرست اسلام دشمنی پر مبنی ہوتی تو یقینامتحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور سعودی عرب کی پوزیشن اتنی اچھی نہ ہوتی۔ ہم پاکستانیوں کو ایک احساسِ کمتری یہ بھی ہے کہ جو سچ ہمیں کڑوا لگے ہم اسے اسلام دشمنی قرار دیتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ زمبابوے نے اب تک ہمیں مبارک باد نہیں دی۔


















Tuesday, November 02, 2010

کراچی کے گڈریے

اگر یہ سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا!
 کراچی کی طرح سنگاپور میں بھی کئی زبانیں بولنے والے اور کئی قومیتیں رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ انگریزوں نے 1819ء میں جب یہاں تجارتی چوکی قائم کی تو سنگاپور کی آبادی نو سو دس افراد پر مشتمل تھی جس میں سے 880 ملایا کے باشندے اور تیس چینی تھے۔ 2009ء کے اعداد و شمار کیمطابق موجودہ آبادی 45 لاکھ ہے جس میں 74 فی صد چینی، ساڑھے تیرہ فیصد ملائی اور تقریباً 9 فی صد انڈین ہیں۔ سنگاپور کی نسلی ہم آہنگی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ گھروں کے کسی بلاک میں کسی ایک قومیت کی اجارہ داری نہیں ہو گی۔ فرض کریں ایک بلاک میں ایک سو گھر یا فلیٹ ہیں تو اس میں چینیوں، ملائے اور انڈین کی تعداد متعین ہو گی جب یہ تعداد پوری ہو جائیگی تو کسی صورت اس قومیت کے لوگوں کو اس بلاک میں گھر نہیں دئیے جائینگے۔ اسکا فائدہ یہ ہے کہ پورے سنگاپور میں یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں محلہ انڈیا کا ہے اور فلاں جگہ صرف چینی رہتے ہیں۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی نسلی یا مذہبی بنیادوں پر اپنے ووٹروں کا استحصال نہیں کر سکتی، اسے کامیابی حاصل کرنے کیلئے ایسا پروگرام دینا ہو گا جو چینی بُدھ، ملائی مسلمان اور تامل ہندو‘ سب کیلئے قابل قبول ہو.
 اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان قومیتوں کی انفرادیت مجروح ہو رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اگر انگریزی زبان لازمی اور ’’اول زبان‘‘ ہے تو ہر قومیت کے بچے اپنی مادری زبان کو ’’ثانوی زبان‘‘ کے طور پر پڑھنے کے پابند ہیں۔

آپ کے ذہن میں یقیناً یہ سوال اٹھ رہا ہو گا کہ اگر چینی آبادی 74 فی صد ہے تو یہ تو چینیوں کا ملک ہوا لیکن یہی وہ نکتہ ہے جس پر آپ نے کراچی کو ذہن میں رکھ کر غور کرنا ہے۔ سنگاپور کی حکومت نے ہر قومیت کو یہ باور کرا دیا ہے کہ آپکا بچہ انگریزی کیساتھ ساتھ اپنی مادری زبان سیکھے گا اور اپنے گھر میں جو چاہے کریگا لیکن گھر سے باہر وہ چینی ہو گا نہ انڈین نہ ملائی اور نہ کچھ اور … وہ صرف اور صرف سنگاپوری ہو گا۔ جدید سنگاپور کے معمار ’’لی کوان پیو‘‘ نے ایسے سکول قائم کئے جن میں چینیوں کو یہ تربیت دی گئی کہ اب وہ چینی نہیں بلکہ سنگاپوری ہیں۔ خود لی نے اپنے بچوں کو انہی سکولوں میں تعلیم دلوائی۔ سنگاپوری ہونے کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ سنگاپور میں بولی جانے والی انگریزی زبان کو انگلش کے بجائے سنگلش کہا جانے لگا ہے۔

ان ساری پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ سنگاپور کے تمام لسانی اور نسلی گروہوں میں مفاہمت بھی ہے اور رفاقتِ کار بھی۔ مفاہمت کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ پچھلے دس سال سے ایک انڈین (تامل) سنگاپور کی صدارت کے عہدے پر فائز ہے حالانکہ کُل آبادی میں انڈین صرف 9 فی صد ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے سنگاپور دنیا کے اُن دس ملکوں میں شمار ہو رہا ہے جو کرپشن سے پاک ہیں۔ رشوت، اقربا پروری، سفارش اور انتخابات میں دھاندلی کا تصور تک مفقود ہے۔ مسجدیں بھی ہیں، گرجا بھی اور مندر بھی، بُدھ مت کے پیروکار بھی بس رہے ہیں اور وہ بھی جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ کوئی کسی کو ختم نہیں کرنا چاہتا، نہ مذہب، زبان یا نسل کی بنیاد پر لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔

یہ سب کچھ اگر سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم کراچی کو اس آگ سے نجات دلانا چاہتے ہیں جس کے شعلے آسمان کو چُھو رہے ہیں؟
اگر ہم سنگاپور کا ماڈل اپنے سامنے رکھیں تو ہمیں ہر قیمت پر مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہونگے :

اول ۔ ہمیں ان آبادیوں سے جان چھڑانا ہو گی جو لسانی حوالوں سے بنائی گئیں یا بن گئیں۔ آخر کوئی ایسی آبادی کیوں ہو جس میں صرف اردو، صرف سندھی یا صرف پشتو بولنے والے رہتے ہوں۔ ہمارے خونریز ماضی کے پیش نظر ہمیں کسی کو ایسا موقع ہی نہیں دینا چاہیے کہ وہ لسانی بنیاد پر کسی آبادی کو نشانہ بنائے۔ کراچی کی شہری حکومت (سٹی گورنمنٹ) کو ایسا قانون بنانا ہو گا جسکی رُو سے ہر نیا بلاک یا پلازا بنانے والا مختلف لسانی اکائیوں کے حساب سے گھر بیچے۔ پرانے کراچی کی عمارتیں جلد یا بدیر نئی عمارتوں میں ڈھلیں گی۔ بند روڈ، کھارادر، برنس روڈ، ریگل اور بے شمار دوسرے علاقوں کی عمارتیں بوسیدگی کا شکار ہو کر گرنے کی منتظر ہیں۔ یہاں نئے بلاک، نئی اپارٹمنٹ بلڈنگیں اور نئے پلازے تعمیر ہونگے۔ کراچی شمال کی طرف بھی پھیل رہا ہے۔ یہ پابندی ہر نئی تعمیر پر عائد کی جائے، رہیں وہ آبادیاں جو پہلے سے بسی ہوئی ہیں تو انکے مکینوں کو نئی آبادیوں میں نئے فلیٹ خریدنے کیلئے مالی ترغیب دینا ہو گی۔مثلاَ َ َ اگرنئے گھر کی آدھی قیمت حکومت ادا کرے تو لسانی گوشوں میں مقیّد لوگ ویاں سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے پر آمادہ ہو جاَئیں گے۔اگر دس سال میں پندری بیس  ارب روپے اس ترغیب پر خرچ ہو جائیں اور نئی آبادیاں لسانی ہم آہنگی سے ہم کنار ہو جائیں تو سودا مہنگا نہیں۔
 دوم ۔ ہر لسانی اکائی کو یہ حق حاصل ہو کہ اسکے بچے لازمی اردو کے بعد اپنی مادری زبان ’’دوسری زبان‘‘ کے طور پر پڑھیں اس کیلئے وسائل اور اساتذہ مہیا کرنا حکومت کا فرض ہو گا۔ کراچی میں بسنے والے ہر شہری کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ اپنے گھر سے باہر صرف کراچی کا شہری ہے اور صرف پاکستانی ہے۔ وہ دہلی سے آیا ہے یا حیدر آباد دکن سے یا سکھر سے یا ایبٹ آباد سے یا مردان سے، وہ جہاں سے بھی آیا ہے، یہ اس کا ماضی ہے۔ اب وہ کراچی کا ہے اور صرف کراچی کی ترقی اور کراچی کا امن اسے عزیز ہونا چاہیے‘ اس کیلئے ثقافتی، تعلیمی، اطلاعاتی، سماجی سارے میدانوں میں جدوجہد کرنا ہو گی۔
سوم۔ایسی سیاسی جماعتیں جو لسانی یا مذیبی بنیاد پر سیاست کر رہی ہیں، پیش منظر سے ہٹانا ہوں گی۔آخر عوامی نیشنل پارٹی میں صرف پٹھان کیوں ہوں ؟ اور ایم کیو ایم میں سرف اردو بولنے والے کیوں ہوں؟ اگر ان جماعتوں کے اپنے ذہن اس قدر چھوٹے ہیں کہ  تنگ دائرے سے نہیں نکل سکتے  تو حکومت اپنا کردار ادا کرے  اور ایسا قانون بنائے جس کی رو سے کوئی سیاسی پارٹی کسی مخصوص لسانی یا مذہبی گروہ تک محدود نہ رہے۔ 

یہاں ملائیشیا کا حوالہ دینا نامناسب نہ ہو گا۔ 1969ء میں وہاں ہولناک نسلی فسادات برپا ہوئے۔ اسکے بعد جو پالیسیاں وجود میں لائی گئیں ان میں مختلف اکائیوں کے درمیان شادیاں بھی تھیں یعنی اگر ایک گروہ کا فرد دوسرے گروہ میں شادی کرتا ہے یا کرتی ہے تو حکومت اسکے اخراجات کا ایک حصہ ترغیب کے طور پر ادا کرتی ہے۔ پاکستان بھی اس کی تقلید کر سکتا ہے لیکن اصل سوال پھر بھی یہی ہے کہ کیا کراچی کے رہنما اور عوام کو مختلف سمتوں میں ہانکنے والے گڈریے خلوص دل سے کراچی میں برپا قتل و غارت ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر چاہتے ہیں تو پھر یہ سب کچھ اگر سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا؟










 

powered by worldwanders.com