Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 28, 2020

عید جو کھو گئی

سِن اس وقت کچا تھا۔
یہ گائوں تھا‘ نہ شہر جہاں ہم رہتے تھے۔ قصبہ تھا۔ چھوٹا نہ بڑا۔ بس اتناکہ اس میں بڑا بازار تھا! لڑکوں کا ہائی سکول تھا اور لڑکیوں کا بھی۔ ہسپتال تھا جہاں ایک ہی ڈاکٹر ہوا کرتا۔ ایک معمر شخص وہاں ڈسپنسر تھا جسے قصبے والے ''کمپوڈر‘‘ کہاکرتے۔ وہ زمانہ مکسچروں کا تھا۔ نظامِ ہضم درست کرنے کیلئے لال رنگ کا ایک مکسچر عام تھا۔ ذائقہ اس کا کچھ کچھ کھٹا ہوتا۔ اگر حافظہ غلطی نہیں کررہا تو اسے ''28 نمبر‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس ڈسپنسر نے ایک دن مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ میں چوتھی یا پانچویں میں پڑھتا تھا۔ پوچھنے لگا: تم تو پڑھے لکھے گھر سے ہو‘ بتائو بیوی کے بھائی کو کیا کہیں گے؟ جواب میں میں نے ہونّق پن کا ثبوت دیا تو اس نے بتایا: برادرِ نسبتی! ان دنوں گھر میں گلستانِ سعدی سبقاً سبقاً پڑھ رہا تھا۔ بوستانِ سعدی پڑھائی جا چکی تھی۔ برادرِ نسبتی کا لفظ ان میں کہیں بھی نہیں آیا تھا!! اس کے بعد جب بھی ہسپتال جاتا‘ جو ہمارے گھر کے نزدیک ہی تھا‘ تو اُس سے میں خائف ہی رہتا کہ کہیں پھر نہ امتحان لینے بیٹھ جائے!
بتانے کی بات جس سے قصبے کا ذکر شروع ہوا‘ وہ میلہ تھا جو عید کے دن شروع ہوتا اور چار پانچ دن رہتا۔ قصبے کے جنوب مشرقی کنارے غضب کی رونق ہوتی۔ کیا ان دنوں یقین کیا جا سکتا ہے کہ چوتھی‘ پانچویں جماعت کا بچہ‘ اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لیے‘ قصبے کے ایک سرے سے چلنا شروع کرتا ہے اور دوسرے سرے پر پہنچ کر میلے میں شریک ہوتا ہے؟ کیا وہ اور کوئی زمانہ تھا یا وہ کوئی اور دنیا تھی؟ع
یا وقت کوئی اور تھا یا اُس کی ہوا تھی!
گم ہونے کا خوف تھا نہ اغوا کیے جانے کا ڈر!
رستہ بھولنے کا بھی اندیشہ نہ تھا کہ سب لڑکے لڑکیاں‘ بڑے‘ چھوٹے اُسی سمت جا رہے ہوتے! میلے کی یاد آئی ہے یا ذہن میں طلسم کدہ کھل گیا ہے! کچے فرش سے مٹی اڑ رہی ہوتی۔ لوگوں کے چلنے سے دھول اٹھتی۔ رنگا رنگ دکانیں تھیں۔ بڑے تھالوں میں سجی‘ گہرے سُرخ‘ کچھ کچھ اورنج رنگ کی جلیبی سب سے زیادہ جاذبِ نظر ہوتی۔ لال‘ پیلے‘ ارغوانی رنگوں کے شربت ہوتے۔ چنے اور لال لوبیے کی چاٹ ہوتی! پکوڑے اور سموتے ہوتے۔ طرح طرح کی مٹھائیاں بھی! اُس علاقے کی خاص سوغات مکھڈی حلوہ الگ گرم گرم بک رہا ہوتا!
یہی ہمارا فاسٹ فوڈ پزا تھا۔ یہی ہمارا برگر تھا۔ یہی ایپل پائی تھی۔ یہی چاکلیٹ تھی۔ برف کے میٹھے گولے ہماری آئس کریم تھی۔ ہم خوش تھے! بہت خوش! ہم اس اذیت سے ناآشنا تھے کہ فلاں لڑکے کے پاس زیادہ پیسے کیوں ہیں‘ نہ ہمیں یہ تجسس ہوتا کہ وہ کیاکھاتا‘ کیا پیتا اور کیا پہنتا ہے!
آج کے معیار‘ آج کے نخرے اور آج کی نام نہاد ''ہائیجین‘‘ کے اعتبار سے یہ سب اشیائے خورونوش سخت مضر تھیں۔ ان پر گرد بھی تھی۔ مکھیاں بھی یقینا ہوں گی! تولنے والے اور پلیٹوں میں ڈال کردینے والوں کے ہاتھوں پر دستانے بھی نہ تھے۔ مگر کیا جادو تھا کہ ہمارا پیٹ خراب ہوتا نہ گلا! شاید یہ عافیت کا احساس تھا‘ تحفظ کا یقین تھا یا اندر سے پھوٹتی کوئی ایسی طمانیت تھی جو سب کچھ ہضم کرا دیتی۔
سب سے بڑا چارم میلے کا وہ آئٹم ہوتا جس میں ڈبے سے خانے ہوتے۔ دودو نشستوں والے۔ یہ سارے ڈبے پہلے اوپرجاتے‘ پھر نیچے آتے۔ ایک بڑے سے دائرے میں گھومتے۔ یہ اس زمانے کا رولر کوسٹر تھا۔ اس پر بیٹھ کراوپر جاتے وقت اور تیزی سے نیچے آتے ہوئے دل میں تھوڑا تھوڑا ہول اٹھتا اور مزہ بھی آتا۔ پھر اس سٹال پر جاتے جہاں ایک دوربین نما شے آنکھوں سے لگاتے۔ کبھی اس میں ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے ٹکڑے آپس میں مل کرپھول اور ڈیزائن بناتے‘ کبھی اس میں کچھ عمارتیں دکھائی دیتیں‘ شاید مکہ مدینہ کے مقدس مقامات! پھر ایک طرف فوٹوگرافر ہوتا جو فوٹو کھینچتے وقت‘ اپنا سرکالے کپڑے میں چھپا لیتا۔ تب تصویر کھنچوانے میں کافی دیر لگتی تھی۔ آج کی طرح صرف کلک نہیں کرنا ہوتاتھا!
دوپہر سہ پہر میں تبدیل ہونے لگتی۔ سائے لمبے ہونے لگتے مگر تھکاوٹ نام کی کوئی شے ہمیں لاحق نہ ہوتی۔ شاید ہم تب اس تماشے سے نکلتے جب پیسے ختم ہوجاتے! ہمیں دن بھر کی اس عیاشی کے لیے زیادہ پیسے کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ پیسے کی کیاقدر تھی؟ اس کااندازہ اس بات سے لگائیے کہ پانچویں جماعت میں وظیفے کا امتحان دیا۔ ضلع اٹک کیلئے یہ امتحان ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے آبائی قصبے بسال کی بغل میں واقع ایک گائوں دومیل میں لیا جاتا۔ امتحان میں کامیابی ہوگئی۔ آج کل کی اصطلاح میں میں ''سکالرشپ ہولڈر‘‘ ہو گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے ماہانہ وظیفے کی مقدار کیا تھی؟ چار یا شاید پانچ روپے! یہ تین سال ملتا رہا۔ یہاں تک کہ آٹھویں جماعت کے اختتام پر ایک اورامتحان ہوا۔
روپے کی قدربتدریج کم ہوئی۔ اکبر عمر کوٹ میں 1542ء میں پیدا ہوا۔ ہمایوں کے رفقاکا بیان ہے کہ عمر کوٹ میں انہیں ایک روپے کی چار بکریاں مل جاتی تھیں۔ انگریز افسر کے پائوں کی ٹھوکر سے کوئی ہندوستانی نوکر مرجاتا تو وائسرائے کی حکومت اس قتل کی سزاکے طور پر اسے دو روپے جرمانہ کرتی۔ اس کالم نگار کے داداجان اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ گائوں کے فلاں شخص سے گائے پندرہ روپے میں خریدی! یہ شاید 1930ء یا 40 کی دہائی کا قصہ تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران سکالرشپ کی رقم ایک سو ستر روپے ماہانہ تھی۔ ایم اے کا طالب علم ہونے کی وجہ سے ہوسٹل میں الگ کمرہ ملا۔ ایم اے سے نیچے‘ آنرز کے طلبہ‘ ایک کمرے میں دو دو رہتے! کمرے کا کرایہ سولہ روپے ماہانہ تھا۔ پورے مہینے کے ناشتے پر تیس روپے خرچ ہوتے۔ ناشتے میں ایک انڈہ‘ ڈبل روٹی کے ٹوسٹ‘ یا دلیہ‘ اور ایک کیلے کے علاوہ ڈیڑھ پائو دودھ بھی شامل تھا۔ بنگال میں دودھ گھی کھانے کا رواج نہیں۔ بنگالی دوستوں نے مشہورکر رکھا تھاکہ یہ ہرروز ڈیڑھ کلو دودھ پیتا ہے۔ مَیس کے کھانے کا بل ستر روپے ماہانہ تھا‘ جس میں اکثروبیشتر بریانی‘ روزانہ شام کو سویٹ ڈش اور عموماً مرغی ہوتی! ادھ پکے ناریل کا پانی چار آنے میں ملتا۔ 1980ء میں پہلی بار یورپ جانا ہواتو ڈالر دس ساڑھے دس روپے کا مل جاتا تھا۔ پھر ہمارے روپے کو دیمک چاٹنے لگی۔ آج ایک ڈالر ایک سو اکسٹھ روپے کا ہے۔ بھارت میں ڈالر 76 روپے کا اور بنگلہ دیش میں 85 ٹکہ کا ہے! ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں روپے کی قدر اورانسان کی قدر یکساں رفتار سے نیچے کی طرف گئی!
واپس عید کی طرف آتے ہیں۔ عید جو کھو گئی! جس طرح بچے کی چوّنی گرتی تھی اور وہ نیچے مٹی میں اُسے ڈھونڈتا تھا‘ اسی طرح بچے کی عید بھی کھوگئی۔ جتنی بھی مٹی پھرولیں‘ یہ عید کبھی نہیں ملے گی! عید کبھی ہم قصبے میں مناتے اورکبھی اپنے آبائی گائوں میں۔ دونوں میں بہت فرق ہوتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہرگائوں میں جمعہ کی نماز پڑھی جاتی نہ عید کی! علاقے میں کسی بڑے گائوں میں جمعہ اور عیدکی نماز ہوتی تو لوگ پیدل چل کر‘ یا گھوڑوں پر سوار ہو کروہاں جاتے۔ گائوں میں میلہ نہ ہوتا‘ پھر بھی گائوں کی عیدکا اپنا ذائقہ تھا۔ صبح اٹھتے تو نانی یا دادی کھیر اور حلوہ پکاچکی ہوتیں۔ نئے کپڑے اور نئی پشاوری چپل پہنی جاتی! ہرگھر‘ ہر دوسرے گھر کو عید کی خاص ڈش بھیجتا‘ گلیوں میں ٹرے اٹھائے ہوئے لڑکوں‘ لڑکیوں کا تانتا بندھ جاتا۔ دس بجے تک کھانے سے فراغت ہوچکتی۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوتا۔ گائوں کے مرد اور عورتیں آتیں۔ یہ ایک طرح کی عیدملن ہوتی۔ مردانہ اور نسوانی بیٹھکیں الگ الگ ہوتیں مگر مخلوط محفلیں بھی گائوں کے کلچرکا حصہ تھیں۔
دوپہرکے وقت گائوں کے مشرقی کنارے واقع‘ سیڑھیوں والے بڑے پختہ تالاب کے اردگرد جمگھٹا ہوتا۔ آسماں بوس درخت کی سب سے موٹی ٹہنی کے ساتھ مضبوط رسّوں والی پینگ ڈالی جاتی۔ دو جوان اور توانا عورتیں‘ اُس پر کھڑے ہو کر یوں جھلاتیں کہ دونوں کا رخ ایک دوسرے کی طرف ہوتا۔ ہر عورت اپنی باری پر پینگ کواونچا سے اونچا لے جانے کی کوشش کرتی۔ یہ عید کھوچکی۔ اس میں لوگ ایک دوسرے کوعید مبارک کہنے اس لیے نہیں جاتے تھے کہ نوکری پکی کریں یا بزنس حاصل کریں۔ اب تو عیدکی شام کو ایک احساسِ زیاں ہوتا ہے کہ جس کاانتظار تھا وہ عید آئی اور گزر بھی گئی! جیسے کوئی خالی ہاتھ پلٹ آئے۔ تب ایسا نہیں تھا۔ تب عید گزر جانے کے بعد لذّت جیسے دوچند ہوجاتی تھی!

Thursday, May 21, 2020

قائد اعظم دشمنی‘ براستہ سویڈن


قائد اعظم دشمنی اس ملک میں ایک فیشن رہا ہے‘ اب بھی ہے۔ ایک طرف کچھ مذہبی طبقات‘ دوسری طرف نام نہاد ''وسیع الظرف‘‘ حضرات! مگر یہ جیسے بھی ہیں اسی ملک کے باشندے ہیں۔ یہیں رہتے ہیں۔ جو کچھ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ اس سے ان ہر دو طبقات کی رائے بہت حد تک بدل بھی چکی ہے!8
تاہم قائد اعظم دشمنی کی ایک قسم وہ بھی ہے جو فصلی بیڑے لیے لیے پھرتے ہیں۔ ساری زندگی کسی اور ملک میں گزاری مگر رومانس کے لیے بھارت! اور دشمنی کے لیے قائد اعظم! ایسے ہی ایک صاحب سویڈن سے آ کر یہاں قائد اعظم دشمن حلقوں میں خوب پذیرائی پا رہے ہیں۔ بھارت کے اینکر انہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں گویا ایک طارق فتح ہاتھ آ گیا ہے۔ معروف پاکستان دشمن بھارتی اینکر اروند سہارن کے ساتھ ان صاحب نے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے چھ سات ایپی سوڈ کیے ہیں۔ ایک ایک لفظ‘ ایک ایک فقرے سے گاندھی کی محبت‘ قائد اعظم کے ساتھ بُغض اور تحریک پاکستان سے نفرت امڈ امڈ پڑتی ہے۔ گاندھی کو مہاتما اور قائد اعظم کو جناح کہتے ہیں۔ تکیہ ہائے کلام دو ہیں ''میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے‘‘! کتاب فروشی کے بھی کیا کیا روپ ہیں! دوسرا تکیہ کلام ہے: ''میں تو Public intellectual یعنی عوامی دانشور ہوں‘ میرا کام تو سچ کہنا ہے۔‘‘ اس ''سچ‘‘ کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں۔ (کوشش کی گئی ہے کہ حتی الامکان الفاظ انہی کے ہوں)
٭ عمران نے مودی کا ہٹلر کے ساتھ موازنہ غلط کیا ہے۔
٭ آرٹیکل 370 اور 35 اے‘ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ انڈیا کے اندر وہ جو چاہیں کریں‘ مودی کو 370 ختم کرنے کا مینڈیٹ بھارتی عوام نے دیا ہے۔
٭ آل انڈیا کانگرس ڈیموکریٹک تھی اور All-inclusive یعنی ہمہ گیر تھی۔ یہاں موصوف کہتے ہیں کہ مہاسبھا اور آر ایس ایس مسلم لیگ کی طرح ہندو مسلمان کی الگ الگ بات کرتی تھیں۔
٭ کانگرس کی کسی دستاویز میں ہندو ریاست بنانے کا ذکر نہیں ملتا۔
٭ مہاتما گاندھی نے ہندو مت کی جو بات کی وہ کامن انسانیت کی بات تھی جو قرآن‘ بائبل اور گیتا میں ہے۔
٭ جسونت سنگھ نے غلط لکھا ہے کہ لکھنئو پیکٹ کے بعد کانگرس کا رویہ غیر دوستانہ ہو گیا تھا۔ ایسا نہیں تھا۔ یہ تو مسلم لیگ تھی جس نے مزید مطالبات شروع کر دیئے۔
٭ گاندھی کا تحریک خلافت چلانا In good faith تھا۔
٭ جداگانہ انتخابات کا مطالبہ مان لینا کانگرس کی عظمت تھی‘ اس کا اصل کریڈٹ کانگرس لیڈرشپ کو جاتا ہے۔
٭ کانگرس نے جناح کو مسلم لیگ میں خود بھیجا تھا تاکہ وہ مسلم لیگ کو کانگرس کے قریب لائیں۔
٭ جناح کا جھگڑا گاندھی کے ساتھ ذاتی تھا (Personal resentment) ۔
٭ 1930ء کی رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں اقبال کو نہیں بلایا گیا تھا۔ خطبۂ الہ آباد میں اقبال نے الگ ریاست کا تصور صرف اس لیے پیش کیا کہ ان کی حیثیت اور اہمیت کو مانا جائے اور اگلی رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں بلایا جائے۔
٭ اور سویڈن کے اس باشندے کے شک اور زہریلے منفی خیالات کی انتہا اس کی اس بات سے لگائیے... ''جناح 1931ء سے 1934ء تک جو برطانیہ میں رہے تو اس عرصہ کی تفصیلات بالکل نہیں ملتیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس عرصہ میں ریسرچ کرنے کیلئے پابندی لگی ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے وہاں کسی نے انہیں اکسایا ہو گا کہ واپس جائو۔ اس عرصہ میں..پریوی. کونسل میں انہوں نے مقدمات لڑے۔ تو...پریوی کونسل میں تو امیر لوگوں کے مقدمے ہوتے ہیں نا! تو یوں پیسہ کمایا۔‘‘
٭ مسلم لیگ نے ایک دن انگریز کے خلاف جیل نہیں کاٹی۔ کبھی انہوں نے انگریزوں کے ساتھ ٹکر نہیں لی۔ اس کے برعکس کانگرس کی جو روایت تھی وہ جدوجہد کی تھی۔ آپ کو تو ملک مل گیا جس کے لیے آپ نے ایک گھنٹہ جیل نہیں کاٹی۔
٭ برطانوی فوج نے پاکستان اس لیے بنایا کہ جناح اور مسلم لیگ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں جبکہ کانگرس تو استعمار دشمن تھی۔
٭ ہم اسی خطے کے لوگ ہیں۔ ہم سب جنوبی ایشیا کے ہیں۔ کیوں نہ بھارت کے ہاتھ میں ہاتھ دیں اور عظیم تر جنوبی ایشیا کے لیے کام کریں۔
یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ ایک مقام پر آ کر یہ صاحب حالتِ غضب میں ''نظریاتی بکواس‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ یہ ''سچ‘‘ زیادہ تر ان کے ذاتی خیالات اور آرا پر مشتمل ہے۔ ورنہ کس تاریخی دستاویز میں درج ہے کہ اقبال نے الگ ریاست کا تصور محض رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں بلائے جانے کے لیے پیش کیا تھا۔ اور یہ کیسا سچ ہے کہ کانگرس تو ہمہ گیر اور انسانیت نواز تھی مگر مسلم لیگ‘ ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کی طرح تھی!!
کسی گفتگو‘ کسی انٹرویو میں یہ صاحب بھارتی مسلمانوں کی بات نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں کہ سندھیوں اور بلوچوں کو حقوق ملنے چاہئیں مگر بھارتی مسلمانوں کیلئے ان کے پاس ہمدردی تو دور کی بات ہے‘ حقائق کی بھی رمق نہیں! مودی کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ تو اکھنڈ بھارت چاہتا ہی نہیں مگر یہ عوامی دانشور یہ نہیں جاننا چاہتا کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر جب مودی کمنٹ لیا گیا تو کہنے لگا 'کار میں جا رہے ہوں اور کتا گاڑی کے نیچے آ جائے تو کیا کہہ سکتے ہیں‘‘۔ ابھی چار اپریل 2020ء کو بی جے پی کے معروف لیڈر اور پارلیمنٹ کے رکن سبرامنیم سوامی نے علی الاعلان کہا ہے کہ مسلمان برابر کے شہری نہیں ہیں۔ یہی بی جے پی حکومت کا اجتماعی مؤقف ہے۔ یہی ہٹلر کا یہودیوں کے حوالے سے مؤقف تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے مودی کو اسی بنا پر ہٹلر سے تشبیہ دی تو اس نام نہاد خود ساختہ دانشور کو سینے میں درد محسوس ہوا۔ کاش اس درد کا پچاسواں حصّہ بھی اس سینے میں بھارتی مسلمانوں کے لیے ہوتا۔ لگتا ہے‘امیت شاہ‘ ادتیا ناتھ اور کپیل مشرا کا نام بھی اس ''عوامی دانشور‘‘ نے نہیں سنا۔ ادتیا ناتھ کوئی عام بھارتی شہری نہیں‘ بہت بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے اور کھلم کھلا غنڈوں کو مسلمان خواتین سے زیادتی پر اکساتا ہے۔ شہروں کے نام محض تعصب اور تنگ نظری کی بنا پر تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ صدیوں سے بھارت کے باسی مسلمانوں کو شہریت کے دائرے سے نکالا جا رہا ہے۔ ریٹائرڈ بھارتی فوجیوں کو بھی! اس لیے کہ مسلمان ہیں‘ آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ تنگ نظری کا ایسا رویہ ہے جس کی مثال اسرائیل کے علاوہ کہیں نہیں ملتی۔ اسرائیلی خطوط ہی پر خصوصی جیل خانے بنائے جا رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کو GHETTOS میں دھکیلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
بھارتی چینلوں پر اپنے آپ کو دانشور کہنے والے یہ صاحب کہتے پھرتے ہیں کہ 370 والی شق ختم کرنے کا مینڈیٹ بھارتی عوام نے خود دیا ہے۔ کوئی پوچھے کہ کیا دنیا کا طویل ترین کرفیو لگانے کا بھی مینڈیٹ دیا گیا ہے؟ کشمیری لڑکوں اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ کتنے مہینے انٹرنیٹ کے بغیر رہنے پر مجبور کیا گیا۔ اب بھی اکثر و بیشتر بند کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ نوجوان حریت پسند جنید صحرائی کی شہادت کی خبر ملی ہے۔ گزشتہ چند ایام کے دوران پینتیس حریت پسندوں کو شہید کیا گیا ہے۔ آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے متعصب ہندوئوں کو جائیداد خریدنے اور آباد ہونے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ مگر ان نام نہاد دانشوروں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔
پاکستان بن گیا۔ تمام شیطانی توقعات کے باوجود قائم و دائم ہے اور انشاء اللہ قائم و دائم رہے گا مگر قیامِ پاکستان کے مخالفین اور قائد اعظم کے دشمنوں کے لیے یہ صدمہ ابھی تک ناقابلِ برداشت ہے۔ زخم ہے کہ بھر نہیں رہا۔ رِستے رِستے ناسور بن چکا ہے۔ تعفّن سنڈاس کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے کلامِ الٰہی میں فرمایا گیا ہے کہ غصے میں اپنی انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔ مُوتُوا بِغیْظِکُمْ! مرو اپنے غصے میں!! ہاں اگر حسرت یہ ہے کہ گھر کی چھت پر ترنگا لہرائو تو سرحد پار کر جائو! وہاں تمہارے ساتھ سلوک مناسب کیا جائے گا!

Monday, May 18, 2020

ہم دلدل میں دھنس گئے ہیں


‎رات تھی اور جنگل۔ گھڑ سوار چلا جا رہا تھا۔ پگڈنڈی کے دونوں طرف پانی تھا۔ ایک ٹارچ تھی جس سے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد یقین کر لیتا تھا کہ گھوڑا پگڈنڈی ہی پر چل رہا ہے۔ جیسا کہ ایسے مواقع پر ہوتا ہے، کچھ ہی دیر بعد ٹارچ کے سیل ختم ہو گئے۔ چاند بھی چھپ گیا، گھوڑا چلتا رہا۔ پھر یوں محسوس ہوا جیسے گھوڑا قدم رکھتے وقت زیادہ زور لگا رہا ہے۔ پھر اس کے پاؤں دھنسنا شروع ہو گئے۔ سوار ایک وسیع و عریض دلدل میں پھنس چکا تھا۔ اب معاملہ وہی تھا نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن! کوئی معجزہ ہی بچا سکتا تھا!

‎ہم بحیثیت ملک ایک دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ ٹارچ میں دیانت، احساس اور عزتِ نفس کے سیل جواب دے چکے ہیں۔ آسمان پر دور دور تک چاند ہے نہ کوئی تارا، اندھیرا ایک افق سے دوسرے افق تک دبیز چادر تان چکا ہے۔ اب کوئی معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔
‎کرپشن کا لفظ اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب اس سے ڈر محسوس ہوتا ہے نہ نفرت! زرداری خاندان اور شریف خاندان کے خلاف ا تنے مقدمات بن چکے ہیں اور بھگتائے جا چکے ہیں کہ شمار کرنا شاید ممکن نہ ہو اور سنجیدگی سے یہ مقدمات شمار کرنے ہوں تو باقاعدہ ریسرچ سیل بنانا پڑے گا۔ سیکنڈل کے بعد سیکنڈل۔ الزام کے بعد الزام! کیس کے بعد کیس۔ ملزمان! نیب، عدالتیں اور حکومتیں! چومکھی سی چومکھی ہے! کسی کو کوئی حجاب ہے نہ شرمندگی! اچھی خاصی تعداد ذمہ دار شہریوں کی باقاعدہ موقف رکھتی ہے کہ ''کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں۔‘‘

‎پھر ہم خوش ہوئے کہ چیزیں بدل رہی ہیں۔ اپنے زعم میں کچھ لوگوں نے لمبی جنگ لڑی۔ امیدیں باندھیں۔ توقعات کے پودے لگائے۔ انہیں پانی دیا۔ مگر پھل کیا لگتا، بُور تک نہ دکھائی دیا۔ وہی دلدل ہے۔ وہی اندھیرا۔ ہاتھوں میں ٹارچ ہے نہ آسمان پر چاند! ہم دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں!
‎وہی سیکنڈل در سیکنڈل! وہی الزام در الزام! چینی کا سیکنڈل، آٹے کا سیکنڈل۔ آئی پی پیز کے الزامات! کابینہ کے ا رکان کے خلاف الزامات! جوابی الزامات! صفائیاں! مزید الزامات! مزیدصفائیاں!

‎کیا اس سے بھی زیادہ گہری دلدل کوئی ہو سکتی ہے کہ پہلے زرداریوں اور بھٹوؤں نے سرکاری خزانے سے سرکاری عمارتیں بنوائیں۔ اُن پر اپنے نام لکھوائے۔ جیسے اقبال، قائداعظم، فاطمہ جناح، لیاقت علی خان، عبدالرب نشتر، نور الامین، مولوی فرید احمد، فضل القادر چودھری، مولوی تمیز الدین، راجہ تری دیو رائے کی تو خدمات ہی کوئی نہیں تھیں۔ پھر شریفوں کی باری آئی۔ اب ہر کالج، ہر ہسپتال، ہر سکول، ہر سرکاری عمارت پر ان کے ناموں کی تختیاں لگنے لگیں! خدا کا خوف عنقا ہو گیا۔ سرکار، جاگیر میں بدل گئی۔ ملک فیکٹری بن گیا۔ 

‎پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اپنے علاقے میں ہسپتال کا افتتاح کیا ہے۔ پیسہ پاکستان کے عوام کا، عمارت پاکستان کے عوام کی، مگر نام کی تختی پر ان کے والد کا نام لکھا گیا۔ یہی کچھ زرداری اور بھٹو کرتے تھے تو بدنام تھے۔ یہی کچھ شریفوں نے کیا تو بُرے کہلائے۔ یہی کچھ اب ہو رہا ہے مگریہ ٹھیک ہے!اقبال نے کہا تھا ؎
‎تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
‎کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
‎غلامی سے مراد صرف وہ غلامی نہیں جو انگریزی یا روسی یا ہسپانوی استعمار کی ہوتی ہے۔ غلامی ذہنی بھی ہوتی ہے جو ہمارے ہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ہر نئی حکومت کے ساتھ یہ ذہنی غلامی زیادہ ہو رہی ہے تو کوئی مبالغہ نہیں!
‎ویسے کیا حرج ہے اگر بانگِ درا اور بالِ جبریل پر ان حکمرانوں کے اور ان کے بزرگوں کے اسمائے گرامی لکھ دیئے جائیں۔ خطبۂ الہ آباد اقبال نے نہیں، ان کے کسی وڈے وڈیرے نے دیا تھا۔ ان کا بس چلے تو قائداعظم کے مزار میں کسی اپنے جدِ امجد کو لِٹا دیں! ؎
‎یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چُرا لیتے ہیں لوگ
‎قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ!

‎ایک معتبر وفاقی وزیر نے، جو پارٹی کے اپنے وزیر ہیں، اُدھار پر کسی دوسری پارٹی سے نہیں لئے گئے، جیسا کہ کچھ لئے گئے ہیں، کہا ہے اور علی الاعلان کہا ہے کہ فردوس عاشق اعوان نے لابنگ کے ذریعے وزارت حاصل کی تھی اور یہ کہ وہ اس وزارت کی اہل نہیں تھیں۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کا اپنا نمائندہ تصدیق کر رہا ہے کہ اس دور میں بھی، گزشتہ ادوار کی طرح، نااہلوں کو وزارتیں دی جا رہی ہیں۔ پہلے بھی لابنگ سے مناصب حاصل کئے جاتے تھے، اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ طریقِ کوہکن میں وہی پرویزی حیلے ہیں۔ بندہ اب بھی کوچہ گرد ہے! خواجہ بدستور بلند بام ہے! منزل کوسوں دور تھی!منزل کوسوں دور ہے!!

‎پہلے بھی حکمرانوں کے گرد اہلِ زر ہوتے تھے۔ تجوریاں اور اے ٹی ایم تھے‘ اب بھی بلند ترین مسند کے اردگرد زر و سیم ہیں۔ تجوریاں ہیں۔ اے ٹی ایم ہیں۔ جہازوں والے ہیں۔ ہماری قسمت میں کوئی من موہن سنگھ نہیں، کوئی احمدی نژاد نہیں! اب کوئی لیاقت علی خان نہیں آئے گا جس کی وفات پر اس کی بیوہ کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی۔ اب ہمارے حصے میں کوئی اور محمد علی جناح نہیں جو کابینہ کے ارکان کو گھرسے چائے پی کر آنے کے لئے کہتا تھا! ہمارے نصیب میں کوئی ''لی کوان ییو ‘‘ نہیں جس نے ترکے میں ایک مکان چھوڑا اور اس ضمن میں بھی وصیت کر ڈالی کہ ا س کے مرنے کے بعد منہدم کر دیا جائے تاکہ سرکاری وسائل اس کی مینٹی نینس پر نہ لگانے پڑیں! ہمارے نصیب میں اب زرداری ہیں اور شریف، عمران خان ہیں اور بزدار! شاید ہم مستحق ہی انہی عبقریوں اور نابغوں کے ہیں! جیسے ہم عوام کے منہ ہیں، ویسی ہی چپیڑیں قدرت مار رہی ہے!

‎ہر سیاسی جماعت کی طرح عوام میں تحریک انصاف کے حامیوں کے بھی دو گروہ ہیں! ایک گروہ وہ ہے جو معروضی سوچ رکھتا ہے۔ غلط کو غلط کہتا ہے۔ درست کو درست کہتا ہے۔ اس گروہ کی وابستگی، کمٹ منٹ، شخصیات کے ساتھ نہیں، نظریات کے ساتھ ہے۔ تحریک انصاف کے یہ حامی ہسپتال کی عمارت والد کے نام رکھنے پر سوالات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اعتراض کر رہے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ حکومت سیکنڈل فری نہیں۔ آلودگی کے بادل فضا میں منڈلا رہے ہیں۔ کابینہ کے ارکان کی اچھی خاصی تعداد غیر متنازعہ طور پر پاک صاف نہیں! دوسرا گروہ وہی ہے جو اپنے لیڈروں کے ہر اقدام کو سراہتا ہے۔ تجزیہ نہیں کر سکتا۔ محاسبے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہ گروہ آنکھیں بند کر کے دفاع پر جُتا ہوا ہے۔ سوالات اٹھانے والوں پر بُغض اور دشمنی کے الزامات عائد کر رہا ہے۔ یہ نادان دوست ہیں۔ خدا حکومت کو اور حکومتی پارٹی کو نادان دوستوں سے بچائے!

‎جو الزام ایک معروف صحافی نے لگایا ہے حکومت کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔ اگر برطانوی پراپرٹی ٹائیکون جو شہباز شریف سے قربت رکھتا ہے، اُن کے کام آتا ہے اور وہی موجودہ وزیراعظم کا مہمان بنتا ہے تو یہ کوئی معمولی الزام نہیں۔ یہ شفافیت کے خلاف ہے۔ آخر وضاحت کرنے کے بجائے ایسے مواقع پر خاموشی کیوں اختیار کی جاتی ہے؟ اگر الزام غلط ہے تو تردید کیوں نہیں کی جاتی؟ ؎
‎یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
‎واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
‎الزامات کے حوالے سے ہمارا روّیہ، من حیث القوم، بہت عجیب ہے۔الزام کا جواب نہیں دیتے‘ یہ نہیں بتاتے کہ الزام غلط ہے یا درست! الزام لگانے والے سے ثبوت مانگنے  کے بجائے جوابی الزامات کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک جماعت پر سرے محل کاالزام لگے تو وہ اس کا جواب دینے کے بجائے لندن اپارٹمنٹس کا طعنہ دے گی! دوسری جماعت پرجدہ یا دبئی کی پراپرٹی کا الزام لگے تو وہ نیویارک کے ہینٹ ہاؤس کا تذکرہ شروع کرے گی! اس طرزِدفاع سے تو ہم یہ تاثردیتے ہیں کہ ٹھیک ہے، ہم نے ایسا کیا تو تم نے بھی ایسا ہی کیا۔ آؤ، پرامن بقائے باہمی کی رُو سے ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالیں۔

‎معلوم نہیں یہ محاورہ کہ ''جو نمک کی کان میں گیا نمک ہو گیا‘‘ کس طرح وجود میں آیا مگر لگ یہ رہا ہے کہ یہ ہمارے لئے تراشا گیا ہے۔ ابھی تک تو نمک کی کان میں ہر ایک کو نمک ہوتے ہی دیکھا ہے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, May 14, 2020

ہم معصوم ہیں! ہم بچے ہیں


ولیم اور بیگم ولیم ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔ کورونا کی وبا نازل ہوئی تو وہ اپنی رہائش گاہ تک محدود ہو گئے۔ 
کچھ ہی دن بعد ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی۔ مسز ولیم بے تاب تھی کہ اپنے والدین کو نئی نویلی بیٹی دکھائے مگر سماجی فاصلہ رکھنا لازم تھا؛ چنانچہ اس کے والدین آکر اپارٹمنٹ کے سامنے کمپائونڈ میں کھڑے ہو گئے۔ مسز ولیم بیٹی کو پکڑ کر بالکونی میں آ گئی۔ یوں نانا نانی نے نومولود نواسی کو دیکھا۔ اپنے ہاتھوں کو بوسہ دے کر ہوا میں اچھالا۔ پھر وہ اپنے گھر کو پلٹ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب حکومت ملنے جلنے کی اجازت دے گی تاکہ آکر نواسی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا سکیں‘ اس کی خوشبو کو اپنے اندر سمیٹ سکیں۔ اس کے ساتھ تصویریں بنوا سکیں۔ 
لاریسا اور اس کے میاں کے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹی دو سال کی، دوسری چار سال کی۔ اپنا گھر زیر تعمیر ہے اس لئے چار افراد کا یہ خاندان، لاریسا کے ماں باپ کے ساتھ رہتا ہے۔ یوں کل ملا کر اس گھر کے چھ افراد ہوئے۔ حکومت کے تازہ ترین اعلان کی رو سے، گھروں سے باہر کی تقاریب میں زیادہ سے زیادہ دس افراد شریک ہو سکتے ہیں بشرطیکہ سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے۔ اسی اصول کا اطلاق پہاڑوں کی سیر (ہائکنگ)، کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار پر بھی ہوگا؛ تاہم کسی دوسرے کے گھر جانے کیلئے پانچ افراد تک کو اجازت ہو گی۔ اگر ایک گھر میں چھ افراد رہ رہے ہیں تو کسی کے ہاں جاتے وقت ایک کو گھر ہی میں رہنا ہوگا۔ لاریسا نے ایک اخباری نامہ نگار کے ذریعے حکومت سے شکوہ کیا ہے کہ وہ اور اس کے اہل خانہ اکٹھے گھر سے باہر تو جا سکتے ہیں مگر سب ایک ساتھ اس کے سسرال نہیں جا سکتے اس کیلئے انہیں انتظار کرنا ہوگا۔ 
دو خاندانوں کا یہ احوال دو مختلف ملکوں کا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جنہیں ہم کئی ناموں سے پکارتے ہیں، کبھی ترقی یافتہ کہتے ہیں‘ کبھی مغربی، کبھی غیر مسلم اور کبھی کافر! یہ خیالی داستان ہے نہ دیومالائی۔ ایسا بھی نہیں کہ ان ملکوں کی سو فیصد آبادی قانون پسند ہے۔ ہاں! بھاری اکثریت قانون پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ اس میں قوتِ نافذہ کا بھی کردار ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کو استثنیٰ نہیں دیتے۔ سفارش نہیں سنتے۔ ہم میں سے جو لوگ ان ملکوں میں گئے ہیں یا وہاں رہتے ہیں، جانتے ہیں کہ پارکنگ کیلئے شاہراہوں کے کنارے نشان لگے ہیں۔ ان نشانوں کی خلاف ورزی کرکے گاڑی پارک کرنے پر سزا ملتی ہے؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ قوت نافذہ کے بغیر بھی قانون پسندی کا حال بُرا نہیں۔ شدید گرمی میں آگ لگ جانے کے خطرے کی وجہ سے حکومت اعلان کرتی ہے کہ آج باربی کیو پر پابندی ہے تو بھاری اکثریت اپنے گھروں میں بھی باربی کیو نہیں کرتی حالانکہ وہاں دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ 
ہم جب رونا روتے ہیں کہ اپنے ہاں قانون پر کوئی نہیں عمل پیرا ہوتا تو اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ سو فیصد لوگ قانون شکن ہیں۔ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ بھاری اکثریت قواعدوضوابط کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ایک حقیر اقلیت یقیناً قانون پر عمل کرنے کی خواہش رکھتی ہے اور کوشش بھی کرتی ہے۔ یہ الگ بات کہ بعض اوقات مجموعی طور پر قانون شکنی کرنے والا معاشرہ، قانون پسند افراد کے آڑے آجاتا ہے۔ 
لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان ہوتے ہی ہماری ذہنیت، ہماری اصلیت، ہمارا سب کچھ ظاہر ہو گیا۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے خوبصورت دیدہ زیب ملبوسات اور ہمارے اجسام شفاف (ٹرانسپیرنٹ) ہو گئے ہیں۔ ہمارے پھیپھڑے، پسلیاں، گردے، چھوٹی آنت، بڑی آنت، سب نظر آنے لگے ہیں۔ احتیاطی تدابیر کے پرخچے اُڑائے جا رہے ہیں۔ سماجی فاصلے کے اصول کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق دکاندار حضرات ماسک پہنے بغیر ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر ایامِ فراق کی کمی پوری کررہے ہیں۔ دستانے نظر آرہے ہیں‘ نہ سینی ٹائزر! ٹریفک جام کے مناظر عام ہیں اور ابھی تو پبلک ٹرانسپورٹ بھی جاری نہیں ہوئی! بسیں اور ویگنیں چلنے کے بعد جو صورتِ حال ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں! موٹر سائیکلوں پر تین تین افراد بیٹھے دیکھے گئے ہیں۔ دکانیں مقررہ اوقات کے بعد بھی کھلی رکھی جارہی ہیں۔
بازاروں میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ باڑہ مارکیٹوں اور مو تی بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں ہیں۔
اس صورتِ حال میں پنجاب حکومت کی خوش فہمی بلکہ سادہ لوحی ملاحظہ ہوکہ دوسرے شہروں کو جانے والی ٹرانسپورٹ کھولی جا رہی ہے اور خواب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ مسافر، بسوں میں بیٹھنے سے پہلے ماسک اور دستانے پہنیں گے‘ سینی ٹائزر اپنے پاس رکھیں گے۔ کھانستے اور چھینکتے وقت ٹشو پیپر کا استعمال کریں گے۔ گاڑیوں میں جراثیم کش ادویات چھڑکی جائیں گی۔ مسافروں کو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بٹھایا جائے گا۔ بسوں کو سواریوں سے نہیں بھرا جائے گا۔ اگر یہ سب امیدیں واقعتاً پوری ہو گئیں تو یوں سمجھیے بڑے پوپ صاحب ویٹی کن سے حج کو چل پڑیں گے۔ پیوٹن انگریزی کو روس کی سرکاری زبان قرار دے دے گا اور بلیاں آئندہ بچوں کے بجائے انڈے دیا کریں گی۔ جس معاشرے میں عوام کی اچھی خاصی تعداد ناک، قمیص کے دامن سے یا آستین سے صاف کرتی ہے اور سرعام کرتی ہے‘ اس معاشرے میں یہ توقع کرنا کہ بسوں میں بیٹھے مسافر کھانستے اور چھینکتے ہوئے ٹشو پیپر استعمال کریں گے سادگی نہیں تو کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سادگی نہیں کچھ اور ہی ہے۔
بچے میں اتنی عقل نہیں ہوتی کہ کوئلے پر ہاتھ رکھے یا یاقوت پر‘ ماں نہلانے لگتی ہے تو روتا اور بُرا مناتا ہے۔ ہم اس ملک کے شہری بچے ہی تو ہیں ! معصوم بچے! ہمیں کوئی بے وقوف احمق اور جانگلی نہ کہے۔ ہماری عزت اس میں ہے کہ ہمیں جاہل کہنے کے بجائے بچہ کہا اور بچہ سمجھا جائے۔ ہم سیٹ بیلٹ باندھ کر پولیس پر احسان کرتے ہیں‘ اوورسپیڈنگ سے روکنے والے کو دشمن گردانتے ہیں۔ جو جگہ پارکنگ کیلئے مخصوص ہو وہاں ٹھیلے اور سٹال لگا لیتے ہیں‘ پھر گاڑیاں دکانوں کے عین منہ پر کھڑی کرتے ہیں۔ اولاد نالائق ہو تب بھی میڈیکل میں داخلے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ ہم اتنے معصوم ہیں کہ ریلوے پھاٹک کھلتے ہی دائیں بائیں کی تمیز بالائے طاق رکھتے ہوئے ہڑبونگ مچا دیتے ہیں اور یوں ٹریفک پھاٹک کھلنے کے بعد بھی آدھا آدھا گھنٹہ رکی رہتی ہے۔ رقم ہونے کے باوجود بل جمع کرانے کیلئے آخری تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ لال بتی سبز ہوتے ہی ہارن بجانے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگلی گاڑی والا ہوا میں اُڑنا شروع کر دے۔ ریل کے ڈبے میں فون پر طویل گفتگو اتنی اونچی آواز سے کرتے ہیں کہ سارے مسافروں کو ہمارے گھر کے حالات اور ٹینڈر کھلنے کی آخری تاریخ کا علم ہو جاتا ہے کیونکہ اس گفتگو کے دوران مسافر ایک دوسرے کی بات سن سکتے ہیں‘ نہ اخبار یا کتاب ہی پڑھ سکتے ہیں۔ 
ہم چار کروڑ روپے کوٹھی کی تعمیر پر لگا دیتے ہیں مگر گیٹ کے سامنے پھٹی ہوئی پانی بھری سڑک پر ہزار روپے کی بجری نہیں ڈلوا سکتے۔ ہزاروں روپے ریستورانوں، لاکھوں روپے شادیوں اور ختنوں پر خرچ کر دیتے ہیں مگر تیس چالیس لاکھ کی گاڑی پر دس بیس ہزار روپے کا ٹریکر نہیں لگوا سکتے۔ قومی حوالے سے ہماری عمر تہتر برس ہونے کو ہے مگر ذہنی عمر ہماری تین چار سال سے زیادہ نہیں۔ ہم ماشاء اللہ کھاتی پیتی قوم ہیں اسی لئے ہماری چلتی گاڑیوں سے مالٹوں کے چھلکے اور چپس کے خالی پیکٹ باہر سڑک پر گرتے ہیں کہ ہماری خوش خوراکی کو ایک دنیا دیکھے۔ بابر اور جہانگیر کسی کے تابع فرمان نہ تھے۔ ہمارے ہاں ہر ٹرک ڈرائیور شہنشاہ ہے اور گلگت سے کراچی تک سارا ملک اس کی خاندانی جاگیر ہے۔ 
بچے سے کام کرانا ہو تو اسے چمکارا جاتا ہے خوشامد کی جاتی ہے یا ٹافی دی جاتی ہے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہم سماجی فاصلہ رکھیں، ہجوم سے احتراز کریں، مصافحے اور معانقے سے گریز کریں اور دستانے اور ماسک استعمال کریں تو اسے چاہئے کہ ہماری خوشامد کرے، منت سماجت سے کام لے، ہمارے آگے ہاتھ جوڑے اور اس کام کے لئے ہمیں معقول معاوضہ پیش کرے! ورنہ اگر بچہ یاقوت چھوڑ کر جلتا انگارہ پکڑ سکتا ہے تو ہم بھی عافیت چھوڑ کر خود کو کورونا لگوا سکتے ہیں۔
بشکریہ  روزنامہ دنیا

Tuesday, May 12, 2020

کوئی ہے جو وزیراعظم کو بتائے؟

خاتون عمر رسیدہ تھی! مجھ سے اور میری اہلیہ سے بھی زیادہ معمر! نحیف بھی!
ہم دونوں نے جہاں تک ممکن تھا، اس کا خیال رکھا۔ جہاز بھرا ہوا تھا۔ کبھی کبھی خوش قسمتی سے دو نشستیں ایک ساتھ خالی مل جاتی ہیں مگر اُس دن یہ لاٹری بھی نہ نکلی۔ عمر رسیدہ خاتون کو کھانا نہ بھایا۔ ایئر ہوسٹس سے کہہ کر دوسرا منگوا کر دیا۔ پندرہ گھنٹے کی فلائٹ تھی۔ کہنا آسان ہے مگر پندرہ گھنٹے اکانومی کی نشست پر بیٹھنا سزا سے کم نہیں! خاتون جب بھی کروٹ بدلنے کی کوشش کرتی اس کے منہ سے ایک خفیف سی ہائے نکلتی!پندرہ گھنٹے بعد جہاز دبئی کے ہوائی اڈے پر اترا۔ یہاں بارہ گھنٹے کا ٹرانزٹ تھا۔ بارہ گھنٹے یعنی صبح سے شام تک! شاید غالب بھی کسی ایسے ہی ٹرانزٹ میں تھے جب کہا ؎
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
بارہ گھنٹے بعد اسلام آباد کی پرواز میں بیٹھے۔ مزید ساڑھے تین گھنٹے۔ گویا سڈنی سے اسلام آباد تک تیس گھنٹے کا نسخہ!!سفر کی یہ مدت ''اتحاد‘‘ اور ''ایمیریٹ‘‘ کے جہازوں سے آنے جانے میں ہے۔ اگر تھائی ایئر لائن سے براستہ بنکاک آئیں تو دورانیہ کم ہوگا مگر وہ بھی چھبیس گھنٹے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ بنکاک میں بھی بارہ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے!

کیا یہ چھبیس یا تیس گھنٹے ناگزیر ہیں؟ نہیں! ہرگز نہیں! چند دن پہلے ایک خصوصی پرواز لاہور سے میلبورن گئی تاکہ پاکستان میں پھنسے ہوئے آسٹریلیا کے شہریوں کو واپس وطن پہنچایا جائے۔ اس پرواز کا کل دورانیہ صرف بارہ گھنٹے کا تھا۔
آسٹریلیا میں رہنے والے پاکستانی تارکین وطن کا المیہ یہ ہے کہ ان کا کوئی والی وارث نہیں! قومی ایئر لائن کا جہاز ایک زمانے میں بنکاک تک جاتا تھا۔ اب وہ بھی نہیں! ترقیٔ معکوس ہو رہی ہے۔ اب صرف احساسِ تفاخر باقی رہ گیا ہے کہ ایک زمانے میں ہماری ایئر لائن میں جیکولین کینیڈی سفر کرتی تھیں۔ پدرم سلطان بود! آج ہمارے پلّے کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں سوائے ان فخریہ داستانوں کے کہ فلاں ٹاپ کی ایئر لائن کو اُڑنا ہم نے سکھایا تھا اور فلاں کو تربیت ہماری ایئر لائن نے دی تھی! وہی انداز کہ ہزار سال پہلے ہمارے ہاں بھی سائنسدان تھے جو ایجادات اور دریافتیں کیا کرتے تھے!
تازہ ترین صورت احوال یہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن نے حکومت پاکستان سے اور آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی سفیر سے مطالبہ کیا ہے کہ قومی ایئر لائن کی باقاعدہ سروس شروع کی جائے!یہ مطالبہ غیر معقول نہیں! ہرگز نہیں! آسٹریلیا میں اس وقت تقریباً نوے ہزار پاکستانی تارکین وطن مقیم ہیں۔ انہیں ملنے کے لئے اور ان کے پاس کچھ عرصہ رہنے کے لئے جو متعلقین آتے ہیں انہیں بھی شمار کیا جائے تو یہ تعداد ایک لاکھ سے بڑھ جاتی ہے! ہفتے میں ایک فلائٹ میلبورن سے اور ایک سڈنی سے بآسانی آغاز کی جا سکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہفتے میں دو دو فلائٹیں بھی بزنس کے نقطۂ نظر سے نفع کا سودا ثابت ہوں گی! مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان مطالبات پر کوئی غور کرے گا؟ دوسرے ملکوں کی طرح آسٹریلوی تارکین وطن نے بھی عمران خان اور ان کی پارٹی کے لئے انتھک کام کیا تھا۔ دامے، درمے، سخنے، ہر طرح سے حمایت کی۔ انجمنیں بنائیں۔ کینویسنگ کی۔ ووٹ دیئے۔ یہ تحریک انصاف کی حکومت سے اور کچھ مانگتے بھی نہیں۔ اگر ان کے لئے یہ حکومت کچھ کر سکتی ہے تو یہی ایک مطالبہ ہے جو پورا کر دے۔ یہ مسافر تیس تیس گھنٹے کی اذیت اور دوسری ایئر لائنوں کی محتاجی سے چھوٹ جائیں۔
آسٹریلیا کے تارکین وطن کا جو مطالبہ معروف ادیب اور سفر نامہ نگار طارق مرزا کی وساطت سے دیکھنے میں آیا ہے اس میں پاکستانی سفیر سے بھی اس ضمن میں مدد مانگی گئی ہے! یہ بھی خوب رہی! ہمیں نہیں معلوم ان دنوں وہاں کون صاحب اس منصب پر فائز ہیں مگر ماضی میں اس عہدے پر براجمان افسران براؤن صاحب ہی ثابت ہوئے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون سفیر تھیں۔ وہ اپنی ہی ہوا میں رہتی تھیں۔ جو نیچے سے بابو نے لکھ دیا یا بتا دیا، اسی کو پتھر پر لکیر سمجھ لیا۔ وہاں کے کچھ احباب نے جب اس سلسلے میں اُس وقت رابطہ کیا تو وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا تھے۔ اُن کا خوشگوار طرزِ عمل حیرت کا سبب بنا۔ مسئلہ نہ صرف سُنا، حل کرنے کی کوشش کی اور پھر ٹیلی فون کر کے آگاہ بھی کیا۔ یہ وہ وصف ہے جو ہمارے اکثر بیورو کریٹس میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت مند سے خود رابطہ کرنے میں تزک و احتشام کم نہیں ہوتا، زیادہ ہوتا ہے۔ جناب جلیل عباس جیلانی کا طرزِ عمل بھی اس حوالے سے مثالی رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ آسٹریلیا میں متعین پاکستانی سفرا میں مقبول ترین سفیر تھے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ سیکرٹری خارجہ کے طور پر بھی وہ ہر ای میل کا جواب دیتے تھے اور واپس کال بھی کرتے تھے۔ یہ اس کالم نگار کا ذاتی تجربہ ہے۔ اس کے بعد پھر وہی لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور! کچھ ماہ پہلے چند لوگ موجودہ سیکرٹری خارجہ سے ملنے کے خواہش مند تھے۔ یہ وہ بدقسمت تھے جن کے بیٹے اور قریبی اعزہ شام اور عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کچھ کردُوں کی تحویل میں ہیں اور کچھ دوسرے گروہوں کے قبضے میں! موجودہ سیکرٹری خارجہ سے بات تک نہ ہو سکی۔ اس کالم نگار نے بھی کوشش کی مگر موجودہ سیکرٹری خارجہ کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ کچھ معلوم نہیں یہ پاکستانی وہاں کس حال میں ہیں۔ اگر وزارت خارجہ کے پاس ایسے پاکستانیوں کے لئے وقت نہیں جو دوسرے ملکوں میں یا نو گو ایریاز میں مقید ہیں تو وزارت خارجہ کم از کم یہ تو بتا دے کہ متعلقین کس کے پاس جائیں؟ کہاں فریاد کریں؟ دنیا کے معزز ممالک اپنے کسی بھی شہری کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑتے۔ ہم پاکستانیوں نے ایسے کئی واقعات دیکھے ہیں۔ برطانیہ ہی کی مثال لے لیجئے۔ پاکستانی نژاد برطانویوں کے لئے برطانیہ کا سفارت خارجہ ہمیشہ سرگرم کار رہا اور مصیبت میں ہمیشہ ان کے کام آیا۔ سنگاپور میں جب ایک امریکی لڑکے کو بید مارنے کی سزا کا اعلان ہوا تو امریکی صدر نے خود سنگاپور کے صدر کو فون کیا اور یوں سزا چھ بید سے کم کر کے چار بید کر دی گئی!
کیا آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی سفیر، پاکستانی تارکین وطن کی اس معاملے میں، یعنی براہ راست پروازیں شروع کرنے کے معاملے میں مدد کریں گے اور کیا اوپر کی سطح پر کچھ سلسلہ جنبانی کریں گے؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا! مگر امید مثبت رکھنی چاہئے!
ایئر انڈیا کی دہلی سے براہ راست سڈنی میلبورن اور پرتھ کے لئے پروازیں ایک عرصہ سے چل رہی ہیں، بجا کہ بھارتی تارکین وطن کی تعداد، پاکستانی تارکینِ وطن سے زیادہ ہے مگر پاکستانی تارکینِ وطن کی تعداد اتنی کم بھی نہیں کہ قومی ایئر لائن کو براہ راست پرواز شروع کرنے میں گھاٹے کا امکان ہو۔ ابتدا میں صرف سڈنی سے براہ راست لاہور یا اسلام آباد کے لئے پرواز شروع کی جا سکتی ہے۔ آغاز ہو تو سہی!
کوئی دوزخ، کوئی ٹھکانہ تو ہو
کوئی غم حاصلِ زمانہ تو ہو
اپنے ملک کو اکثر میدانوں میں دوسروں سے پیچھے دیکھ کر کلیجہ شق ہونے لگتا ہے! ایمیریٹ ایئر لائن کے ایک افسر نے بتایا کہ سال میں کئی بار افرادی قوت کی بھرتی کے لئے ایمیریٹ کا ادارہ بھارت کے چکر لگاتا ہے‘ امیدواروں کے انٹرویو لیتا ہے اور ملازمتیں پیش کرتا ہے۔ ایسا پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ کیوں نہیں ہو رہا؟ اس لئے کہ متعلقہ ادارے جذبہ و جوش سے عاری ہیں! حب وطن کے لئے کام کرنے کی سپرٹ مفقود ہے۔ تہتّر برس کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ اس سے کم عرصہ میں بھی کئی ملک اندھیروں سے نکل کر روشنی میں نہا رہے ہیں۔ خدانخواستہ ہمارا حال اُس دو سالہ چوہے کی طرح نہ ہو جس نے ہاتھی کا دو سالہ بچہ دیکھ کر صفائی پیش کی تھی کہ عمر تو میری بھی اتنی ہی ہے مگر میں ذرا بیمار شیمار رہا ہوں!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, May 11, 2020

بہت کچھ آپ کے اپنے اختیار میں ہے


چوہدری صاحب پرانے دوست ہیں۔ فرسٹ ایئر سے لے کر بی اے فائنل تک ہم کلاس فیلو رہے۔ پھر میں مرکزی حکومت کے سکالرشپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی چلا گیا اور وہ ایم اے کرنے پنجاب یونیورسٹی۔ ان کے بڑے بھائی کو گردے کا عارضہ لاحق ہوا۔ ڈاکٹر نے خراب گردہ نکالنا تھا مگر لاپروائی کی بنا پر جو گردہ تندرست تھا‘ اسے باہر نکال مارا۔ مریض جاں بحق ہو گیا۔
ایک اور دوست کے ‘جو ملتان سے ہیں‘ قریبی عزیز کو ایسی دوا دی گئی جو اپنی مدتِ عمر پوری کر چکی تھی۔ مریض کو ری ایکشن ہوا۔ ہولناک ری ایکشن! ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔ دونوں مواقع پر متعلقہ ڈاکٹروں اور متعلقہ ہسپتالوں کا مؤقف ایک ہی تھا کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ اللہ کی مرضی یہی تھی۔
یہ ہمارے معاشرے کا عام چلن ہے۔ جن ملکوں کو ہم ترقی یافتہ یا قانون پسند کہتے ہیں‘ وہاں کم سے کم سزا یہ ہوتی ہے کہ ڈاکٹر کا لائسنس منسوخ ہو جاتا ہے‘ وہ پریکٹس نہیں کر سکتا۔ عدالتی کارروائی اور بھاری زرِ تلافی کے معاملات اس کے علاوہ ہیں۔ پوری پوری حکومتوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ پالیسی وضع کرنے والے وزیروں کو عدالتیں یوں بے نقاب کرتی ہیں کہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔
جس طرح لاک ڈائون سے جان چھڑائی جا رہی ہے‘ اس کے نتیجے میں کل خدانخواستہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ گئی تو کہا جائے گا کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ لاک ڈائون کے مسئلے پر حکومت کا رویہ اول دن سے گومگو کا ہے۔ یہ ارشاد کہ لاک ڈائون اشرافیہ نے کرایا‘ شاید دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔پرانا لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ شہزادے کی پرورش محل سرا میں بیگمات اور کنیزوں کے ساتھ ہوئی‘ یہاں تک کہ وہ جوان ہو گیا۔ ایک دن محل میں سانپ دکھائی دیا تو جہاں عورتیں شور مچا رہی تھیں کہ کسی مرد کو بلائو‘ شہزادہ بھی دہائی دے رہا تھا کہ کسی مرد کو بلائو۔ لاک ڈائون اشرافیہ نے کرایا تو حکومت کہاں تھی؟ اور اگر حکومت نے کرایا تو اشرافیہ کہاں سے آ گئی۔ یعنی بلّی آدھا سیر گوشت چٹ کر گئی۔ خود بلّی کا وزن آدھا سیر ہے۔ اگر یہ گوشت ہے تو بلی کہاں ہے اور اگر یہ بلی کا وزن ہے تو گوشت کہاں گیا؟ 
تادمِ تحریر‘ کورونا کے مریض 30174 ہو چکے۔648 اموات واقع ہو چکیں۔ گراف ہر روز اوپر جا رہا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا سارا قصور حکومت کا ہے یا حکومت کا ہوگا؟ غور کیجیے اگر آپ اور میں گھر میں بیٹھے ہیں۔ اگر نماز گھر میں پڑھ رہے ہیں ‘ اگر مجبوراً نکلنا پڑے تو ماسک لگا کر نکلتے ہیں۔ اگر ہجوم سے گریز کر رہے ہیں تو کیا یہ سب کچھ اس لیے کر رہے ہیں کہ حکومت نے کہا ہے یا حکومت سے ڈر کے مارے کر رہے ہیں؟ نہیں! یہ ہمارا اپنا فیصلہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ حکومت سے زیادہ ذمہ داری عوام کی ہے۔ بائیس کروڑ افراد کے سر پر بائیس کروڑ پولیس مین نہیں مامور کیے جا سکتے۔ لوگ اگر مسجدوں‘ بازاروں‘ نادرا کے دفتروں‘ شاپنگ سنٹروں اور گلی کوچوں میں سماجی فاصلے کی دھجیاں اڑا رہے ہیں تو اس میں حکومت کا کیا قصور ہے؟ تاجر مارکیٹیں کھولنے پر بضد ہیں۔ سرکاری ملازم عید پر آبائی گھروں کو جانا چاہتے ہیں۔ ریلیں اور بسیں دوبارہ چلائے جانے کے مطالبات ہو رہے ہیں اور ان مطالبات پر ہمدردانہ غور بھی ہو رہا ہے۔ اچھی خاصی تعداد ہمارے عوام کی کورونا کے وجود ہی سے انکار کر رہی ہے۔ اتائی اپنی اپنی جگہ دکانیں کھول کر الگ بیٹھے ہیں کہ یہ کرو تو کچھ نہیں ہوگا اور وہ کرو تو ماسک کی ضرورت ہے نہ سماجی فاصلے کی! ایسے میں حکومت کی تمام کمزوریوں کے باوجود‘ ساری ذمہ داری حکومت پر اور حکومتی اعمال پر ڈالنے کا کوئی جواز نہیں! تعلیم‘ شعور‘ سوک سینس اور سوچ بچار کے حوالے سے ہم‘ مجموعی طور پر‘ اوسط سے بھی کم درجے پر ہیں۔ ہماری قسمتوں کے مالک تو ملنگ‘ ننگ دھڑنگ فقیر‘ مجاور‘ اتائی اور محبوب قدموں میں ڈالنے والے تعویذ فروش ہیں۔ میڈیکل سائنس کی دنیا میں صرف آنکھ‘ صرف گردوں اور صرف کان کا ڈاکٹر بننے کے لیے دس دس برس کی ریاضت درکار ہے۔ مگر ہمارے ہاں کوئی بھی نیم خواندہ شخص دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ شوگر‘ گردوں‘ دل ‘ پھیپھڑوں‘ بلڈ پریشر‘ یرقان‘ سب امراض کا علاج ایک چٹکی سے کرنے پر قادر ہے اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ایسے ہر دعویدار کو اپنے حصے کے بیوقوف اچھی خاصی تعداد میں مل بھی جاتے ہیں۔ کورونا سے احتیاط کرنے میں ہر فرد کا اپنا فائدہ ہے۔ کسی ڈاکٹر پر احسان ہے نہ حکومت پر! اس حوالے سے یوگنڈا کے صدر مُوس وینی نے اپنے عوام کو جس طرح اس خطرے سے آگاہ کیا‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ تقریر اس لائق ہے کہ اس کے کچھ حصّے قارئین سے شیئر کیے جائیں:۔
''جنگ چھڑ جائے تو کوئی کسی کونہیں کہتاکہ گھرکے اندر رہو۔ اپنی مرضی سے اندررہتے ہیں‘گھر میں تہہ خانہ ہے تو وہاں جا چھپتے ہیں۔ عرصۂ جنگ میں اپنی آزادی کیلئے اصرارنہیں کرتے۔ اس آزادی کومرضی سے قربان کرتے ہیں تاکہ جان بچ جائے۔ بھوک کی شکایت نہیں کرتے‘ بھوک کوموت پر ترجیح دیتے ہیں۔
جنگ جاری ہو تو آپ کاروبار کھلوانے اور جاری رکھنے کی ضد نہیں کرتے۔ دکان بند کر کے بھاگنے کی کرتے ہیں۔ دعا کرتے ہیں کہ جنگ ختم ہو اور آپ کاروبار دوبارہ سنبھالیں بشرطیکہ کاروبار کسی بم سے تباہ نہ ہو چکا ہو یا لوٹ نہ لیا گیا ہو۔
جنگ کے دوران آپ ہر روز خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایک دن اور دیکھ لیا۔ آپ کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ بچے سکول گئے ہیں یا نہیں! الٹا یہ دعا کرتے ہیں کہ حکومت لازمی بھرتی ایکٹ کے تحت انہیں ٹریننگ سنٹروں میں نہ بھیج دے۔ ان بچوں کے سکول ہی ٹریننگ سنٹر اور اسلحہ کے ڈپوئوں میں بدل دیئے جاتے ہیں۔ دنیا ان دنوں حالتِ جنگ میں ہے۔ ایک ایسی جنگ جس میں بندوقیں ہیں نہ گولیاں! اس جنگ میں لڑنے والے سپاہی کہیں نہیں! اس جنگ کا بارڈر کوئی نہیں! جنگ بندی کا معاہدہ بھی ممکن نہیں۔ اس میں ''نو وار زون‘‘ بھی کوئی نہیں! 
جو فوج یہ جنگ لڑ رہی ہے‘ اس کی لغت میں رحم کا لفظ کہیں نہیں! اس میں انسانی ہمدردی کا کوئی امکان نہیں! یہ کسی میں امتیاز برتتی ہے نہ تخصیص! یہ بچوں کو چھوڑتی ہے نہ عورتوں کو‘ نہ عبادت گاہوں کو! اس فوج کو مالِ غنیمت کا لالچ ہے نہ کسی حکومت کا تختہ الٹنے میں دلچسپی ہے۔ یہ کسی ایسے خطۂ ارض کی تلاش میں بھی نہیں جہاں زیرِ زمین معدنیات کے خزانے ہوں! اسے کسی مذہبی‘ نظریاتی یا نسلی برتری کی بھی خواہش نہیں! یہ رنگ کی برتری سے بھی بے نیاز ہے۔ یہ ایک غیر مرئی فوج ہے۔ نظر نہ آنے والی فوج۔ ایک ظالم اور فاتح فوج!
اس فوج کا ایک ہی ایجنڈا ہے۔ موت کی فصل! اس کی ایک ہی خواہش ہے‘ دنیا موت کے میدان میں تبدیل ہو جائے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ فوج اس خواہش کو پورا کرنے پر قادر بھی ہے! اس کے پاس بری طاقت ہے نہ بحریہ نہ فضائیہ‘ مگر پھر بھی ہر ملک میں اس کی کمین گاہیں موجود ہیں۔ یہ کسی اقوام متحدہ کے اصولوں پر یقین نہیں رکھتی! اس کا کوئی جنگی پروٹوکول نہیں! یہ بذات خود قانون ہے۔ یہ کورونا ہے۔ یہ کورونا 19ہے کیونکہ اس نے اپنی ہولناک آمد کا اعلان 2019ء میں کیا۔
تاہم خدا کا شکر ہے کہ اس بے رحم‘ تباہ کن سپاہ کی ایک کمزوری بھی ہے۔ اسے شکست دی جا سکتی ہے مگر اس کے لیے اجتماعی ایکشن کی ضرورت ہے۔ ڈسپلن کی اور برداشت کی ضرورت ہے! یہ سماجی فاصلے کے سامنے ہار مان جاتی ہے۔ یہ جسمانی فاصلے سے خوف کھاتی ہے! اسے قریب جا کر للکاریں تو یہ مار دیتی ہے۔ ذاتی حوالے سے احتیاط کریں تو یہ سر جھکا کر ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ یہ ہائی جین سے یعنی صفائی سے ڈرتی ہے۔
اگر آپ ہاتھ ‘ منہ‘ پیر اور جسم کو سینے ٹائز کرتے رہیں تو یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی!یہ وقت روٹی اور روزی کیلئے شور مچانے کا نہیں! زندہ رہنے کیلئے صرف روٹی کافی نہیں! ہمیں حکومتی احکام کو ماننا ہو گا! ہمیں کورونا کے گراف کو نیچے لانا ہوگا! لازم ہے کہ ہم صبر سے کام لیں! اگر ہم نے صبر و استقلال سے مطلوبہ احتیاط برتی تو بہت جلد اپنی آزادی‘ اپنا کاروبار اور اپنی سوشل لائف دوبارہ حاصل کر لیں گے‘‘۔ 
صدر مُوس وینی کا یہ اثر انگیز خطاب پوری دنیا میں پڑھا اور سنا جا رہا ہے۔ یہ صرف یوگنڈا کے عوام کیلئے نہیں‘ ہم سب کیلئے ہے۔ اس وقت کوئی بارڈر ہے نہ قومیت‘ پوری دنیا ایک طرف ہے اور کورونا ایک طرف! ہر شخص پوری دنیا کیلئے دعا کر رہا ہے۔ یہ کسی براعظم‘ کسی مذہب‘ کسی نسل‘ کسی رنگ کا نہیں‘ تمام انسانیت کا معاملہ ہے! حکومت کی پالیسی غلط ہے یا صحیح‘ ہر شخص بنیادی طور پر اپنی حفاظت کا خود ذمہ دار ہے! سفر سے احتراز کرنا آپ کے اپنے بس میں ہے! سماجی فاصلہ رکھنے کیلئے آپ کو کسی ہتھیار‘ کسی اوزار کی ضرورت نہیں! مجبوراً باہر نکلنا پڑے تو واپس آ کر لباس بدلنا‘ ہاتھ دھونا‘ سینے ٹائزر استعمال کرنا آپ کے اپنے اختیار میں ہے اور اپنے فائدے میں ہے! وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آپس میں سینگ لڑانے دیجیے۔ سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہیں تو آپ کان بند کر کے قرآنی احکام کے مطابق‘ متانت سے آگے گزر جائیے! اپنی اور اپنے متعلقین کی فکر کیجیے!

Thursday, May 07, 2020

………مزاحیہ کلپ بدستور بھیجتے رہیے


کالم نوکری کے فضائل پر لکھنا تھا!
گائوں کی بے باک الّہڑ دوشیزہ نے تو نوکری کی مذمت کی تھی
تیری دو ٹکیاں دی نوکری
وے میرا لاکھوں کا ساون جائے 
مگر اب نوکری وہ نوکری نہیں رہی۔ اب اس میں اعلیٰ درجات کی نوکریاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ٹھاٹھ باٹ، پرچم بردار لمبی، جہازی سائز کی کاریں! ذرا سے اشارے پر دوڑتا سٹاف! رشک آور محلات! ہر شہر میں پروٹوکول! ہر چینل پر کوریج، ہر اخبار میں تصویر! مگر نوکری پھر بھی نوکری ہی ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے: نوکری پیو دی وی چنگی نئیں‘ یعنی نوکری باپ کی ہو پھر بھی نوکری ہی ہے! کہنے کو تو نوکر سب برابر ہیں۔ نائب قاصد بھی سرکار کا اسی طرح نوکر ہے جیسے اس کا سپریم باس جسے سیکرٹری کہا جاتا ہے۔ جو نوکری کی اصل نوعیت سمجھتے ہیں وہ اپنے نائب قاصد کا تعارف بھی کولیگ کے طور پر کراتے ہیں۔ ایک نائب قاصد کہا کرتا تھا کہ میں دورے پر جاتا ہوں تو سیکرٹری صاحب کو بھی ساتھ لے جاتا ہوں!
وزارت بھی نوکری ہی ہے۔ اعلیٰ ترین درجے کی نوکری! بلکہ اعلیٰ ترین درجے سے ایک درجہ کم کی نوکری! وزارت سے پہلے کتنا شاندار تاثر ہوتا ہے! مرنجاں مرنج! صلح جُو! کبھی کسی کے خلاف بیان دیا نہ کسی کا نام لے کر مخالفت کی! مگر وزارت کی اپنی مجبوریاں! مخالفین کا نام لے لے کر بیان دینے پڑتے ہیں۔ وہ جو قبولیتِ عامہ کا بلند مینار تھا، نیچے گر پڑتا ہے۔ وزارت جنگ کا میدان ہے۔ تیر، بھالے، نیزے، گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ چلانی بھی پڑتی ہیں۔ اسی لیے وہ جو زیادہ مستقبل بین ہوتے ہیں، ایسی نوکریوں سے بچتے ہیں! مگر بچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں! 
کالم نوکری کے انہی فضائل اور درجات پر لکھنا تھا مگر کورونا آڑے آ رہا ہے! کورونا نے جہاں ہماری بہت سی کمزوریاں عیاں کرکے رکھ دیں وہاں ہمارے خفیہ اور نہفتہ کمالات بھی ظاہر کر دیئے۔ یہ تو کورونا سے پہلے بھی معلوم تھا کہ ہمارے ہاں ہر شخص علم سیاسیات کا ماہر ہے اور مذہبیات کا بھی! مگر اب راز کھلا کہ ہم میں سے ہر شخص اعلیٰ درجے کا ڈاکٹر ہے اور طبیبِ حاذق بھی! جتنے علاج کورونا کے پوری دنیا میں تجویز ہوئے، ان سے کہیں زیادہ صرف ہمارے ایک ملک میں تجویز کیے گئے۔ ان میں تارکینِ وطن کا بھی حصہ ہے۔ آخر وہ بھی ہمارے قومی جسم کا اہم عضو ہیں! علاج معالجہ کے اس گھمسان کے رن میں انہوں نے بھی خوب کشتوں کے پشتے لگائے اور تاک تاک کر نشانے باندھے ہیں۔
کوئی دعویٰ کر رہا ہے کہ فلاں تیل کے دو قطرے ناک کے دونوں نتھنوں میں باری باری ٹپکائیں تو کورونا کیا، کورونا کا باپ بھی مر جائے گا! ولایت سے ایک صاحب کی وڈیو اندرونِ ملک اور بیرون ملک سے بار بار موصول ہو رہی ہے، ان کا بہ صد اصرار دعویٰ ہے کہ فلاں نسخہ کورونا کا سو فیصد علاج ہے بشرطیکہ انہی کے طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ یہ چیلنج بھی کیے جا رہے ہیں کہ غلط ثابت کرنے والے کو اتنے لاکھ اور اتنے کروڑ انعام دیں گے۔ فیض یاب ہونے والوں کی تعداد وہ باقاعدہ ضرب تقسیم کر کے ہزاروں، لاکھوں میں بتا رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ گواہی ایک کی بھی نہیں!
حاشا وکلّا! ہم ان طریقہ ہائے علاج کی مکمل نفی نہیں کر رہے۔ ان سے یقینا کچھ نہ کچھ فائدہ ہوتا ہوگا اور ہوا ہوگا‘ مگر یہ جو ہم لوگوں کا قطعیت کا دعویٰ ہوتا ہے، یہ عجیب ہے کہ سو فی صد فائدہ ہوگا اور یہ کہ نہ ہوا تو اتنا انعام دوں گا اور یہ کہ کسی اور علاج یا پرہیز کی ضرورت نہیں! اسی طرح یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ بھاپ سے مکمل تندرستی ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے اس میں صداقت ہو مگر ایسا ہوتا تو دنیا میں اتنی کھلبلی نہ مچتی جو مچی ہے! معاملہ اتنا آسان نہیں! 
سنی سنائی بات پھیلانے کی وبا تو کورونا سے پہلے بھی عام تھی! کورونا نے آ کر اس میں اضافہ کر دیا! قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی کی آفاقیت اور ہمہ گیری پر حیرت ہوتی ہے! یوں لگتا ہے کہ یہ جو فرمانِ اقدس ہے... ''کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرنا پھرے...‘‘ تو یوں لگتا ہے یہ آج کے زمانے کی ''فارورڈ‘‘ کرنے کی علّت کے بارے میں فرمایا گیا ہے! صبح ہی سے سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ فیس بک پر، میسنجر پر، وٹس ایپ پر، ٹویٹر پر! کاپی کر کے پیسٹ کرو۔ پھر بیسیوں کو بھیج دو۔ سُنی سنائی بات کو آگے بیان کرنے کا یہ بدترین مظاہرہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ زبانی یہ کام کرتے وقت جو کسر رہ جاتی تھی اب ساتھ یہ لکھ کر پوری کر دی جاتی ہے کہ "Forwarded as received" یعنی ''جیسے سنی، ویسے ہی آگے بیان کی جا رہی ہے‘‘!
اب یہ جو ولایت والا دعویٰ ہے، دو کروڑ کے انعام والا... یہ آسٹریلیا سے لے کر امریکہ تک چہار دانگِ عالم سے آ رہا ہے اور آئے جا رہا ہے! وہ شعر چیخ چیخ کر سنانے کو دل چاہ رہا ہے جو سجاد حیدر یلدرم نے اپنے شہرۂ آفاق مضمون ''مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘ میں لکھا تھا؎ 
اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ایک بار وہ بیمار پڑے تو ایک صاحب عیادت کے لیے ایسے بھی آئے جنہوں نے یہ نہیں کہا کہ فلاں دوا کھائیے اور فلاں ڈاکٹر کے پاس جائیے! ہر دوست، ہر عزیز، پورے صدق دل سے چاہتا ہے کہ آپ اس کے پسندیدہ ڈاکٹر ہی سے علاج کرائیں اور وہی دوا استعمال کریں جس سے اس نے شفا پائی! اسے ہمارے کلچر کا حسن کہہ لیجیے یا کثافت! جس طرح یہ سوال بُرا نہیں سمجھا جاتا کہ ''تنخواہ کتنی ہے‘‘؟ اسی طرح آپ کے ڈاکٹر کی تنقیص اور اپنے ڈاکٹر کے پاس جانے کا اصرار خلوص کا مظہر ہے!
پھر ہمارے ہاں مشوروں پر عمل کرنے کا رواج بھی بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ خواتین سے آپ نے عام سنا ہوگا کہ کپڑا فیصل آباد میں یا نوشہرے میں ارزاں ہے! اگر انہیں سمجھانے کی کوشش کریں کہ کوئی خاص فرق نہیں ہوگا اس لیے کہ مجموعی طور پر مارکیٹ ایک ہی ہے تو دلیل یہ دیں گی کہ فلاں ملنے والی نے مشورہ دیا ہے۔ ایک بزرگ گائوں سے تشریف لائے۔ ان کے لیے ایک مستند ڈاکٹر سے وقت لیا‘ پھر انہیں اُس کے کلینک پہنچایا۔ چند گھنٹوں بعد فون پر خیریت پوچھی تو فرمانے لگے: ٹیکسلا سے بول رہا ہوں۔ پنڈی سے وہاں کیسے پہنچ گئے؟ معلوم ہوا کہ کلینک میں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ ساتھ بیٹھے ایک اور مریض نے گپ شپ کے دوران ٹیکسلا کے اس ڈاکٹر کی تعریف کی۔ ہمارے بزرگ وہیں سے اٹھے اور ٹیکسلا پہنچ گئے!!
ایسا بھی نہیں کہ بھیڑ چال صرف نیم تعلیم یافتہ یا ان پڑھوں کا شعار ہے! بڑے بڑے سوٹڈ بوٹڈ صاحبان کو شوقِ تقلید میں خوار ہوتے دیکھا ہے! ایک دوست تھے‘ اعلیٰ عہدے پر فائز! خدا بخشے داغِ مفارقت دے گئے۔ کراچی جانا ہوتا تو ضرور دعوت کرتے۔ اپنے والد گرامی مرحوم کو پاپا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ وہ شوگر کے مریض تھے۔ کہنے لگے، حیدرآباد میں ایک صاحب ہیں جو شوگر کا علاج میٹھے سے کرتے ہیں۔ پاپا کو ان کے ہاں لے جا رہا ہوں۔ بہت سمجھایا کہ ایسا مت کیجیے‘ ڈاکٹر کا جو علاج چل رہا ہے، اس سے وہ ایک اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کی دلیل تھی کہ حیدرآباد والے صاحب کے علاج کے بعد کوئی دوا کھانا ہی نہیں پڑتی۔ کراچی سے واپس آ کر، چند دن بعد پاپا کی خیریت پوچھنے کے لیے فون کیا۔ پریشان تھے کہ حیدرآباد والے بابے نے میٹھے سے جو علاج کیا اس سے پاپا کی حالت خراب ہو گئی۔ اب ہسپتال داخل ہیں!
مگر جس معاشرے میں ہم ان داستانوں پر فخر کرتے ہوں کہ فلاں مشہور طبیب اتنے ماہرِ فن تھے کہ لوگوں نے بلّی کی ٹانگ سے دھاگہ باندھا اور انہوں نے اس دھاگے کی نبض دیکھ کر بتا دیا کہ یہ مریضہ ایک بلّی ہے، اس معاشرے میں کسی بھی دعوے پر یقین کیا جا سکتا ہے!
تاہم، احباب سے التماس ہے کہ مزاحیہ کلپ بدستور بھیجتے رہیں۔ وحشت، خوف اور نظر بندی کے ان ایام میں تفنّنِ طبع کا سامان ضروری ہ

Tuesday, May 05, 2020

درانتی


‎گھٹا دیکھ کر عاشق اور کسان دونوں خوش ہوتے ہیں یا اداس!

‎عاشق تو شہروں میں بھی  پائے جاتے ہیں‘ مگر کسان کے مسائل شہر والوں کو نہیں معلوم! 
‎گندم کٹ چکی ہے۔ کچھ کاٹی جا رہی ہے۔ ابھی ابھی فون پر گائوں بات ہوئی۔ بارش ہو رہی ہے اور موسلا دھار ہو رہی ہے۔ گندم کھڑی ہو یا کٹی ہوئی‘ بھیگ جائے تو اسے سکھانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے کم از کم چار پانچ دن کی تیز دھوپ درکار ہوگی۔ اس کے بعد ہی تھریشنگ ہو سکے گی۔ یہ بارانی علاقوں کی بات ہو رہی ہے۔ خشک کیے جانے کے باوجود گندم کی کوالٹی اور مقدار... دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان بہر طور پہنچ چکا ہے۔

‎تھریشنگ کا لفظ لکھتے وقت دل میں کسک اٹھی ہے۔ وہ جو اقبالؔ نے کہا ہے: ؎

‎ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
‎احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات 

‎تو اس کا صحیح مفہوم کوئی ہمارے جیسا دیہاتی ہی پا سکے گا۔ بہت سے لوگوں کے لیے شہر اور ایسی بہت سی باتیں ترقی کے خلاف ہیں۔ اس زمانے میں رہنا! اور مشینوں اور آلات کے خلاف بات کرنا! عجیب نہ لگے تو کیا لگے!

‎ہم جو گائوں سے آ کر شہر میں بسے‘ ہماری یادوں کے خزانے تو اُس وقت سے مربوط ہیں جب گندم کاٹنے کی مشین تھی نہ بھوسہ الگ کرنے کی! درانتی تھی جس سے گندم کاٹی جاتی تھی۔ اب تو پنجاب کے مغربی اضلاع میں افغان مشقتی مل جاتے ہیں جو مزدوری کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں اور ضرورت مندوں کو دیہاڑی پر میسر آ جاتے ہیں۔ ہمارے دوست ملک سعید اختر کو ایک افغان فیملی خوش قسمتی سے ہاتھ آ گئی ہے۔ محنتی‘ جفا کش اور دیانت دار! ان کی زمینوں کو تھوڑے عرصے ہی میں گل و گلزار کر دیا ہے۔ مگر جس عہد کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت یہ لگژری موجود نہیں تھی۔ دیہاڑی پر کام کرنے کا تصوّر بھی دیہات میں مفقود تھا! جس کی گندم کاٹنے کی باری ہوتی تھی‘ اس کی برادری‘ دوست‘ احباب‘ گھر کے افراد... سارے مل کر ہاتھ بٹاتے تھے۔ اپریل کے آخر اور مئی کی کڑاکے کی دھوپ! چلچلاتی‘ آگ برساتی!!
‎عورتیں اور مرد مل کر گندم کاٹتے جاتے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کٹے ہوئے پودوں کے ڈھیر چھوڑتے جاتےکبھی کبھی کوئی ترنگ میں آتا تو تان اڑاتا‘ آواز دور تک جاتی‘ اس کی لے پر درانتیاں اور تیز چلنے لگتیں۔ ساری خوشحالی‘ ساری امید‘ سارا مستقبل... درانتی کے اردگرد گھومتا۔ درانتی کیا تھی‘ صرف اوزار نہیں‘ علامت تھی‘ زندگی کو رواں رکھنے کی! احمد ندیم قاسمی نے درانتی پر جو نظم لکھی‘ اس عہد کی اور اس عہد کی امیدوں کی گویا بایو گرافی لکھ ڈالی۔ اس نظم سے لطف اندوز بھی وہی ہو سکتے ہیں جنہوں نے درانتیاں چلتی دیکھی ہیں 
: ؎ 
‎چمک رہے ہیں درانتی کے تیز دندانے
‎خمیدہ ہل کی یہ الہڑ‘ جوان‘ نورِ نظر
‎سنہری فصل میں جس وقت غوطہ زن ہو گی
‎تو ایک گیت اٹھے گا مسلسل اور دراز
‎ندیمؔ ازل سے ہے تخلیق کا یہی انداز
‎ستارے بوئے گئے آفتاب کاٹے گئے
‎ہم آفتاب ضمیرِ جہاں میں بوئیں گے
‎تو ایک روز عظیم انقلاب کاٹیں گے
ہم انقلاب ضمیر جہاں میں بوئیں گے 
زمیں پہ خلد بریں کا جواب کاٹیں گے 

‎ایک طرف جھلساتی‘ شعلے برساتی دھوپ‘ دوسری طرف گندم سے اٹھنے والی تیز ''ہواڑ‘‘ (نہیں معلوم اسے اردو میں کیا کہیں گے)۔ بس یوں سمجھیے ایک عجیب سی‘ ہوا سے ملتی جلتی گرم شے جو فصل سے اٹھتی ہے۔ یہ سب مل کر کچھ کاٹنے والوں کو بخار میں مبتلا کر دیتیں۔ مگر بخار ہو جانے کے بعد گھر جا کر لیٹ جانے کا تصور تک عنقا تھا۔ محاورہ تو یہ تھا کہ گندم کاٹنے کے دنوں میں کسان کی ماں مر گئی تو اس نے اسے یوں ہی چھوڑ دیا۔ مطلب یہ کہ شدید ترین مصروفیت! شدید ترین سے بھی زیادہ!

‎!پھر کٹے ہوئے گندم کے پودوں کو گٹھوں کی صورت میں باندھا جاتا۔ یہ گٹھے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پڑے کھیتوں میں یوں دکھائی دیتے جیسے آسمان پر امید کے ستارے! پھر انہیں کھلیان میں پہنچایا جاتا۔ باریاں مقرر ہوتیں کہ کس کھلیان پر کس دن کسی کی گندم کو بھُوسے سے الگ کیا جائے گا۔ اس عمل کو ''گاہ‘‘ کہتے۔ سب کے گاہ بیک وقت اس لیے نہیں ہو سکتے تھے کہ وہی برادری‘ وہی دوست‘ وہی رشتہ دار تو سب کے کام آنے ہوتے۔ جس کی باری گاہ کی ہوتی‘ وہ دن اس کے اور اس کے اہلِ خانہ کے لیے عید سے کم نہ ہوتا۔ تیاریاں کی جاتیں۔ پوری برادری کو اور کچھ تو پورے گائوں کو کھانا کھلاتے۔ کھانا کیا ہوتا! بکرے کا گوشت اور گندم کے موٹے آٹے کا حلوہ! گوشت پکانے کے لیے مٹی کے کٹوے ہوتے‘ (سمجھنے کے لیے یوں جانیے جیسے مٹی کی دیگیں)! زمین میں نالی کھودی جاتی۔ جس میں ایندھن جلتا۔ اس پر کٹووں کی قطاریں! مٹی کے کٹووں میں پکے ہوئے اس گوشت کا ذائقہ منفرد تھا۔ لسّی اُس دن پورا گائوں‘ اُسی گھر والوں کو بھیجتا کہ لسّی کی بہت بڑی مقدار کی ضرورت پڑتی۔ گوشت‘ تنور کی روٹیاں‘ گندم کے آٹے کا حلوہ اور لسّی یہ ہوتے ضیافت کے مندرجات!

‎گندم کے گٹھے کھول دیئے جاتے۔ کھلیان یعنی بڑے میدان میں گندم کے پودے‘ دائرے کی شکل میں پھیلا دیئے جاتے۔ پھر ان پر بیل دوڑتے۔ انہیں روندتے‘ پامال کرتے‘ کرتے رہتے یہاں تک کہ گندم کا ایک ایک دانہ اپنے غلاف سے باہر آ جاتا۔ اس کے بعد اگلا کام ان دانوں کو بھوسے سے الگ کرنا ہوتا۔ اس کے لیے لکڑی کا ایک لمبا ڈنڈا استعمال ہوتا۔ ڈنڈے کے آخر میں لکڑی ہی کی تین لمبی انگلیاں ہوتیں۔ اس ڈنڈے کو ترینگل کہتے۔ اسے ترے (تین) انگل(انگلی) سمجھ لیجیے۔شاید ٹرائی اینگل
 (Triangle) 
‎کے شروع میں جو ٹرائی کا لفظ ہے‘ وہ بھی وہی ''ترے‘‘ ہے جو مغربی پنجاب میں تین کے لیے بولا جاتا ہے۔ دانوں اور بھوسے کو الگ کرنے کے لیے ہوا کا کردار مرکزی ہوتا۔ وہ مواد جو گندم کے دانوں اور بھوسے کے آمیزے پر مشتمل ہوتا‘ اسے ترینگل پر اٹھا کر ہوا میں اڑایا جاتا۔ دانے گر پڑتے اور ہوا بھوسے کو اڑا کر‘ ذرا سے فاصلے پر ڈھیر کرتی جاتی۔ پھر گندم کو بوریوں میں بھرا جاتا۔ یہ بوریاں گھر پہنچتیں تو کمروں میں دیواروں کے ساتھ لگا دی جاتیں۔ جو گندم بوریوں سے بچتی‘ وہ مٹی کے بنے ہوئے سٹور میں بھر دی جاتی۔ اسے ''سکاری‘‘ کہا جاتا۔ پھر بعد میں ایلومینیم سے بنے ہوئے بھڑولے آ گئے۔ کسانوں کے کمروں میں کہیں کہیں یہ بھی ہوتا کہ کمرے میں ایک طرف گندم بھری بوریاں دیوار سے لگی ہوتیں اور دوسری طرف چارپائیاں بچھی ہوتیں جن پر دن کو بیٹھا اور رات کو سویا جاتا۔یہ وہ زمانہ تھا جب لالچ‘ حسد اور سازش نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہر شخص کو معلوم تھا کہ فلاں کی اتنے من گندم ہوئی ہے اور فلاں کی اتنی بوریاں! بڑے زمینداروں کی سینکڑوں بوریوں کے حساب سے‘ چھوٹوں کی پچاس‘ سو یا دو سو! مگر لبوں پر برکت کی دعائیں ہوتیں۔ زبانوں پر غیبت کے بچھو تھے نہ سینوں میں حسد کے سانپ!

‎اب درانتی ہے نہ ترینگل! اب ایک مشین کاٹتی ہے‘ دوسری تھریش کرتی ہے۔ دنوں کا کام گھنٹوں میں ہو رہا ہے۔ مشینیں پھیل گئی ہیں۔ زندگی سکڑ گئی ہے۔ حسد نے دلوں میں چھائونیاں ڈال لی ہیں۔ برکت اٹھ گئی ہے: 

؎
‎جبیں سے بخت آخر اُڑ گیا یہ کہہ کے اظہارؔ
‎یہاں اب ختم میرا آب و دانہ ہو رہا ہے

‎بات بارش سے شروع ہوئی تھی۔ ابھی ابھی کھنڈہ کے ملک فرح یار سے بات ہوئی ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ گندم کو فنگس (پھپھوندی) لگ گئی ہے۔ پیداوار آدھی رہ جائے گی۔ پنجاب حکومت کو بارانی علاقوں پر خصوصی نظرِ کرم کرنا ہوگی۔ کسانوں کو مالی امداد کی ضرورت ہے۔ خدا اس کسان کو شاد آباد رکھے جو ہمارا پیٹ بھرتا ہے۔ گمنام سپاہی! 
Un-Sung 
‎ہیرو!!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, May 04, 2020

پے کمیشن‘ چند گزارشات


''نجی شعبہ بہت سے لائق مرد اور عورتیں لے اُڑا۔ اس سے حکومت نقصان میں رہے گی‘‘۔

جدید سنگاپور کے معمار لی کوان یئو نے پتے کی یہ بات جان لی تھی کہ حکومتی اہلکاروں کی معاوضے‘ نجی شعبے کے برابر نہیں ہوں گے تو ٹیلنٹ کا بہائو نجی شعبے کی طرف ہوگا۔ اس نے بیوروکریسی کی تنخواہیں اتنی بڑھائیں کہ سنگاپور کے نوجوان ہارورڈ سے ایم بی اے کرنے کے بعد سیدھا حکومتی سیکٹر میں آنے لگے۔ جب اعتراض ہوا تو لی کوان یئو کا جواب صاف تھا:...''پبلک سیکٹر میں معاوضے کم کرنے سے حکومت نا اہل ہو جائے گی۔ اثاثوں کی قدر و قیمت گر جائے گی۔ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی اور ہماری خواتین دوسرے ملکوں میں جا کر میڈ اور آیا بننے پر مجبور ہو جائیں گی۔‘‘لی اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا۔ تنخواہیں بڑھانے کے بعد اس نے سرکاری اہلکاروں پر واضح کر دیا کہ اب کرپشن کرنے کا جواز ہے نہ کسی کو چھوڑا جائے گا۔ آج سنگاپور ترقی یافتہ ہے اور کرپشن سے پاک بھی!!
پاکستانی حکومت نے سرکاری ملازموں کے معاوضوں پر غور کرنے کیلئے پے کمیشن تشکیل دیا ہے۔ ایک اور پے کمیشن!! ارکان میں افسر شاہی کی نمائندگی ہے اور نجی شعبے کی بھی۔ فائنل رپورٹ کب تیار ہوگی اور حکومت کو کب پیش کی جائے گی؟ اس کیلئے کسی تاریخ یا عرصے کا تعین نہیں کیا گیا۔ 

سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کا معاملہ پاکستان میں ہمیشہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا رہا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ بلیک میل کر کے مطالبات منوا لیے جاتے ہیں۔ کچھ اداروں نے مشاہروں میں خصوصی اضافہ منوالیا۔ کچھ ادارے ''پروجیکٹ الائونس‘‘ کے نام پرفائدہ اٹھا رہے ہیں۔ صوبائی حکومتوں نے وفاقی حکومت سے بالا بالا‘ تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کر لیا۔ یوں افسروں کو وفاق سے صوبوں میں تبادلے کرانے کیلئے ترغیب ہوئی۔ ایک جھگڑا ہمیشہ سے ''سیکرٹریٹ الائونس‘‘ کا رہا ہے۔ دیکھا دیکھی کئی اور اقسام کے الائونس منظور ہوتے گئے۔ ایک اور بہت بڑی عدم مساوات ایم پی ون اور ایم پی ٹو کے سکیلوں کی صورت میں رائج ہوگئی‘ پھر اتھارٹیاں وجود میں آ گئیں۔ تعلقات اور پی آر کے ماہر بیورو کریٹ ریٹائرمنٹ کے بعد سرسبز چراگاہوں کی تاک میں رہتے ہیں‘ جہاں موقع ملا‘ جھپٹ پڑتے ہیں۔ ہمیشہ نیا لگنے والے ناول ''اینیمل فارم‘‘ کا خالق جارج آرویل کیا سدا بہار جملہ لکھ گیا ''سب برابر ہیں مگر کچھ زیادہ برابر ہیں‘‘۔ اس ''زیادہ برابر‘‘ کے فارمولے نے ٹیلنٹ کو ہمیشہ لتاڑا اور چہیتوں کو چُپڑی دیں اور دو دو بھی! برہنہ بادشاہ کے لباس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے مناصب پاتے رہے۔ کبھی 
اداروں کی سربراہیاں‘ کبھی بیرون ملک تعیناتیاں‘ کبھی ریٹائرمنٹ کے بعد پھر ''ذمہ داریاں‘‘۔

کیا نیا پے اینڈ پنشن کمیشن حقیقت پسندانہ تجاویز دے کر سرکاری ملازمین کی توقعات پر پورا اترے گا؟ ایک آزمودہ کار اور سرد و گرم چشیدہ ریٹائرڈ سول سرونٹ کو کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ یہ اور بات کہ کبھی کبھی کمیشن کی رپورٹ کو خاطر میں ہی نہیں لایا جاتا۔ مجھے دو بار پے کمیشنوں کا ممبر بننے کا اتفاق ہوا۔ خوب خوب اجلاس ہوئے۔ لاہور‘ کراچی جا کر‘ صوبائی اصحاب قضا و قدر کی تجاویز اور تقاریر سنی گئیں۔ پھر رپورٹ تیار ہوئی۔ دل کو خوش کرنے والی تجاویز! مگر آخر میں وہی پرنالہ اور وہی صحن۔ پانچ یا زیادہ سے زیادہ دس فیصد کا اضافہ۔ خدا سمجھے انگریز سرکار کو۔ انگریزی کا ایک محاورہ چھوڑ گئی جو ہر بار سرکاری ملازموں کی جان کو آ جاتا ہے۔ Paucity of funds‘ فنڈز کم ہیں! فکر نہ فاقہ‘ عیش کر کاکا!!نجی شعبے سے جو اصحاب کمیشن کے ارکان بنائے جاتے ہیں‘ اسی کی حکمت آج تک سمجھ نہیں آئی۔ مثال کے طور پر کسی بینک کا بڑا ایگزیکٹو! ان اصحاب کی دنیا ہی الگ ہے۔ ملازمین کی توقعات اور حکومت کی مجبوریوں سے یہ زیادہ آگاہ بھی نہیں ہوتے۔ سرکاری افسر اور اہلکار کن حالات میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں‘ انہیں کچھ اندازہ نہیں۔ ایک بہت بڑے بینک کے بہت بڑے ایگزیکٹو پے کمیشن میں ہمارے ساتھ تھے۔ ان کی ملکیت میں موبائل فونوں کے دو سیٹ تھے۔ ایک ایک جیب میں‘ دوسرا کوٹ کی دوسری جیب میں! کبھی ایک نکالتے‘ کبھی دوسرا‘ کبھی دونوں کو بیک وقت آزمائش میں ڈالتے۔ کئی اجلاس ہوئے۔ وہ صرف چائے پینے کے لیے منہ کھولتے۔ ہاں ایک اجلاس میں ایک سوال کیا۔ پہلا اور آخری! اجلاس وزارتِ خزانہ کے کیو بلاک ہی میں ہو رہا تھا۔ معین افضل صدارت کر رہے تھے۔ اُس دن دُکھڑا بیان کرنے کی باری وزارتِ خارجہ کی تھی۔ وزارت کی نمائندگی‘ اگر میں بھول نہیں رہا تو کاکا خیل صاحب کر رہے تھے۔ دوسرے ملکوں کے سفارت کاروں کے مقابلے میں ہمارے سفارت کاروں کا ''فارن الائونس‘‘ بہت کم ہوتا ہے۔ بعض ملکوں میں تو مشکل ہی سے گزر بسر ہوتا ہے۔ بینک کے ایگزیکٹو صاحب نے دونوں موبائل فونوں کو سامنے جوڑ کر‘ بڑی ترتیب سے رکھا اور سوال کیا: صاحب! یہ فرمائیے کہ بھارتی وزارتِ خارجہ اور سفارت کاروں کی کارکردگی ہماری وزارتِ خارجہ اور ہمارے سفارت کاروں کے مقابلے میں برتر کیوں ہے؟ وزارتِ خارجہ کے نمائندے نے ایک ثانیہ کی تاخیر کے بغیر جواب دیا: اس لیے کہ ایک تو وہاں وزارت خارجہ سے متعلق فیصلے وزارتِ خارجہ ہی میں کیے جاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ سفیر‘ فارن سروس ہی کے ہوتے ہیں! اس جواب کے بعد کانفرنس روم میں سناٹا چھا گیا۔ مکمل سناٹا۔ بقول منیر نیازی 

: ''اس کے بعد ایک لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور!‘‘۔

نئے پے کمیشن سے توقعات بہت زیادہ وابستہ ہیں۔ پچاس فیصد سے لے کر ڈیڑھ سو فی صد تک اضافے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہماری کیا بساط کہ پے کمیشن کو مشورہ دیں۔ جس کے پاس پانی سے بھری چھاگل ہو اسے تیمم کرنے والا کیا مشورہ دے گا! مگر اتمامِ حجت کی خاطر اور اپنا فرض ادا کرتے ہوئے پانچ گزارشات ضرور کریں گے۔

اول‘ خدا کے لیے نجی شعبے کے مقابلے میں‘ سرکاری پے سکیلز کی بے بضاعتی اور شرمندگی کو دور کیجیے۔ ایسا نہ ہو‘ کل ایک فیصد ٹیلنٹ بھی سرکار کو ہاتھ نہ آئے۔ ایک طرف سی ایس ایس کا ایسا امتحان کہ نو دس ہزار امیدواروں میں سے صرف پانچ چھ سو تحریری امتحان میں کامیاب ہوں اور سو ڈیڑھ سو فائنل لسٹ تک پہنچ پائیں اور دوسری طرف ان افسروں کے سامنے پیش ہونے والے ان کی تنخواہوں کو حقارت سے دیکھیں اور خریدنے کی کوشش کریں۔

دوم: تنخواہوں اور مراعات میں عدم مساوات کو دور کیا جائے۔ ''زیادہ برابر‘‘ کے مکروہ فارمولے کو اب چھوڑ بھی دیجیے۔ سب کے لیے دن رات چوبیس گھنٹوں ہی کے ہیں۔ عدم مساوات سے اور کچھ کو خصوصی الائونس دینے سے مایوسی بڑھتی ہے۔ کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

سوم: سال بہ سال مہنگائی کے حساب سے خود کار اضافے (Indexation) کا سلسلہ شروع کیجیے۔ بھارت میں ساتواں پے کمیشن‘ آخری پے کمیشن تھا۔ اس کے بعد پے کمیشن بنانے کی ضرورت ہی نہ پیش آئی۔ اس لیے کہ ''ویلیو انڈیکس‘‘ (Value index) کے حساب سے یعنی مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں ہر سال خود کار اضافہ کر دیا جاتا ہے‘ ہمیں بھی چاہیے کہ مہنگائی اور افراطِ زر کے حساب سے یعنی Cost inflation index کے اعتبار سے ہر سال آٹو میٹک اضافے کا نظام ترتیب دیں۔

چہارم! وزارت خزانہ کو اور حکومت کوسوچنا چاہیے کہ ڈاکٹروں کی بھاری اکثریت ملک سے ہجرت کیوں کر جاتی ہے۔ یہ ایک نازک پروفیشن ہے۔ ڈاکٹر بننے کے لیے خون جگر جلانا پڑتا ہے۔ جوانی تج جاتی ہے۔ خدارا ان کے لیے خصوصی پے سکیل تشکیل دیجیے 

اور پنجم: پنشن! بیچارے پنشنر! جو دس سال پہلے ریٹائر ہوا اس کی پنشن دس ہزار ہے تو آج ریٹائر ہونے والے کی چالیس ہزار حالانکہ دونوں ایک ہی بازار سے سودا خریدتے ہیں۔ ایک گریڈ ایک پنشن (ایک رینک ایک پنشن) کے اصول پر غور۔ فرمائیے!؎

خیری کن اے فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ بر آید فلان نماند

حضور! نیکی کر جائیے‘ اس اختیار کو غنیمت جانیے ‘اس سے پہلے کہ آواز آئے فلاں نہیں رہا۔
 

powered by worldwanders.com