''نجی شعبہ بہت سے لائق مرد اور عورتیں لے اُڑا۔ اس سے حکومت نقصان میں رہے گی‘‘۔
جدید سنگاپور کے معمار لی کوان یئو نے پتے کی یہ بات جان لی تھی کہ حکومتی اہلکاروں کی معاوضے‘ نجی شعبے کے برابر نہیں ہوں گے تو ٹیلنٹ کا بہائو نجی شعبے کی طرف ہوگا۔ اس نے بیوروکریسی کی تنخواہیں اتنی بڑھائیں کہ سنگاپور کے نوجوان ہارورڈ سے ایم بی اے کرنے کے بعد سیدھا حکومتی سیکٹر میں آنے لگے۔ جب اعتراض ہوا تو لی کوان یئو کا جواب صاف تھا:...''پبلک سیکٹر میں معاوضے کم کرنے سے حکومت نا اہل ہو جائے گی۔ اثاثوں کی قدر و قیمت گر جائے گی۔ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی اور ہماری خواتین دوسرے ملکوں میں جا کر میڈ اور آیا بننے پر مجبور ہو جائیں گی۔‘‘لی اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا۔ تنخواہیں بڑھانے کے بعد اس نے سرکاری اہلکاروں پر واضح کر دیا کہ اب کرپشن کرنے کا جواز ہے نہ کسی کو چھوڑا جائے گا۔ آج سنگاپور ترقی یافتہ ہے اور کرپشن سے پاک بھی!!
پاکستانی حکومت نے سرکاری ملازموں کے معاوضوں پر غور کرنے کیلئے پے کمیشن تشکیل دیا ہے۔ ایک اور پے کمیشن!! ارکان میں افسر شاہی کی نمائندگی ہے اور نجی شعبے کی بھی۔ فائنل رپورٹ کب تیار ہوگی اور حکومت کو کب پیش کی جائے گی؟ اس کیلئے کسی تاریخ یا عرصے کا تعین نہیں کیا گیا۔
سرکاری ملازموں کی تنخواہوں کا معاملہ پاکستان میں ہمیشہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا رہا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ بلیک میل کر کے مطالبات منوا لیے جاتے ہیں۔ کچھ اداروں نے مشاہروں میں خصوصی اضافہ منوالیا۔ کچھ ادارے ''پروجیکٹ الائونس‘‘ کے نام پرفائدہ اٹھا رہے ہیں۔ صوبائی حکومتوں نے وفاقی حکومت سے بالا بالا‘ تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کر لیا۔ یوں افسروں کو وفاق سے صوبوں میں تبادلے کرانے کیلئے ترغیب ہوئی۔ ایک جھگڑا ہمیشہ سے ''سیکرٹریٹ الائونس‘‘ کا رہا ہے۔ دیکھا دیکھی کئی اور اقسام کے الائونس منظور ہوتے گئے۔ ایک اور بہت بڑی عدم مساوات ایم پی ون اور ایم پی ٹو کے سکیلوں کی صورت میں رائج ہوگئی‘ پھر اتھارٹیاں وجود میں آ گئیں۔ تعلقات اور پی آر کے ماہر بیورو کریٹ ریٹائرمنٹ کے بعد سرسبز چراگاہوں کی تاک میں رہتے ہیں‘ جہاں موقع ملا‘ جھپٹ پڑتے ہیں۔ ہمیشہ نیا لگنے والے ناول ''اینیمل فارم‘‘ کا خالق جارج آرویل کیا سدا بہار جملہ لکھ گیا ''سب برابر ہیں مگر کچھ زیادہ برابر ہیں‘‘۔ اس ''زیادہ برابر‘‘ کے فارمولے نے ٹیلنٹ کو ہمیشہ لتاڑا اور چہیتوں کو چُپڑی دیں اور دو دو بھی! برہنہ بادشاہ کے لباس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے مناصب پاتے رہے۔ کبھی
اداروں کی سربراہیاں‘ کبھی بیرون ملک تعیناتیاں‘ کبھی ریٹائرمنٹ کے بعد پھر ''ذمہ داریاں‘‘۔
کیا نیا پے اینڈ پنشن کمیشن حقیقت پسندانہ تجاویز دے کر سرکاری ملازمین کی توقعات پر پورا اترے گا؟ ایک آزمودہ کار اور سرد و گرم چشیدہ ریٹائرڈ سول سرونٹ کو کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ یہ اور بات کہ کبھی کبھی کمیشن کی رپورٹ کو خاطر میں ہی نہیں لایا جاتا۔ مجھے دو بار پے کمیشنوں کا ممبر بننے کا اتفاق ہوا۔ خوب خوب اجلاس ہوئے۔ لاہور‘ کراچی جا کر‘ صوبائی اصحاب قضا و قدر کی تجاویز اور تقاریر سنی گئیں۔ پھر رپورٹ تیار ہوئی۔ دل کو خوش کرنے والی تجاویز! مگر آخر میں وہی پرنالہ اور وہی صحن۔ پانچ یا زیادہ سے زیادہ دس فیصد کا اضافہ۔ خدا سمجھے انگریز سرکار کو۔ انگریزی کا ایک محاورہ چھوڑ گئی جو ہر بار سرکاری ملازموں کی جان کو آ جاتا ہے۔ Paucity of funds‘ فنڈز کم ہیں! فکر نہ فاقہ‘ عیش کر کاکا!!نجی شعبے سے جو اصحاب کمیشن کے ارکان بنائے جاتے ہیں‘ اسی کی حکمت آج تک سمجھ نہیں آئی۔ مثال کے طور پر کسی بینک کا بڑا ایگزیکٹو! ان اصحاب کی دنیا ہی الگ ہے۔ ملازمین کی توقعات اور حکومت کی مجبوریوں سے یہ زیادہ آگاہ بھی نہیں ہوتے۔ سرکاری افسر اور اہلکار کن حالات میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں‘ انہیں کچھ اندازہ نہیں۔ ایک بہت بڑے بینک کے بہت بڑے ایگزیکٹو پے کمیشن میں ہمارے ساتھ تھے۔ ان کی ملکیت میں موبائل فونوں کے دو سیٹ تھے۔ ایک ایک جیب میں‘ دوسرا کوٹ کی دوسری جیب میں! کبھی ایک نکالتے‘ کبھی دوسرا‘ کبھی دونوں کو بیک وقت آزمائش میں ڈالتے۔ کئی اجلاس ہوئے۔ وہ صرف چائے پینے کے لیے منہ کھولتے۔ ہاں ایک اجلاس میں ایک سوال کیا۔ پہلا اور آخری! اجلاس وزارتِ خزانہ کے کیو بلاک ہی میں ہو رہا تھا۔ معین افضل صدارت کر رہے تھے۔ اُس دن دُکھڑا بیان کرنے کی باری وزارتِ خارجہ کی تھی۔ وزارت کی نمائندگی‘ اگر میں بھول نہیں رہا تو کاکا خیل صاحب کر رہے تھے۔ دوسرے ملکوں کے سفارت کاروں کے مقابلے میں ہمارے سفارت کاروں کا ''فارن الائونس‘‘ بہت کم ہوتا ہے۔ بعض ملکوں میں تو مشکل ہی سے گزر بسر ہوتا ہے۔ بینک کے ایگزیکٹو صاحب نے دونوں موبائل فونوں کو سامنے جوڑ کر‘ بڑی ترتیب سے رکھا اور سوال کیا: صاحب! یہ فرمائیے کہ بھارتی وزارتِ خارجہ اور سفارت کاروں کی کارکردگی ہماری وزارتِ خارجہ اور ہمارے سفارت کاروں کے مقابلے میں برتر کیوں ہے؟ وزارتِ خارجہ کے نمائندے نے ایک ثانیہ کی تاخیر کے بغیر جواب دیا: اس لیے کہ ایک تو وہاں وزارت خارجہ سے متعلق فیصلے وزارتِ خارجہ ہی میں کیے جاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ سفیر‘ فارن سروس ہی کے ہوتے ہیں! اس جواب کے بعد کانفرنس روم میں سناٹا چھا گیا۔ مکمل سناٹا۔ بقول منیر نیازی
: ''اس کے بعد ایک لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور!‘‘۔
نئے پے کمیشن سے توقعات بہت زیادہ وابستہ ہیں۔ پچاس فیصد سے لے کر ڈیڑھ سو فی صد تک اضافے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہماری کیا بساط کہ پے کمیشن کو مشورہ دیں۔ جس کے پاس پانی سے بھری چھاگل ہو اسے تیمم کرنے والا کیا مشورہ دے گا! مگر اتمامِ حجت کی خاطر اور اپنا فرض ادا کرتے ہوئے پانچ گزارشات ضرور کریں گے۔
اول‘ خدا کے لیے نجی شعبے کے مقابلے میں‘ سرکاری پے سکیلز کی بے بضاعتی اور شرمندگی کو دور کیجیے۔ ایسا نہ ہو‘ کل ایک فیصد ٹیلنٹ بھی سرکار کو ہاتھ نہ آئے۔ ایک طرف سی ایس ایس کا ایسا امتحان کہ نو دس ہزار امیدواروں میں سے صرف پانچ چھ سو تحریری امتحان میں کامیاب ہوں اور سو ڈیڑھ سو فائنل لسٹ تک پہنچ پائیں اور دوسری طرف ان افسروں کے سامنے پیش ہونے والے ان کی تنخواہوں کو حقارت سے دیکھیں اور خریدنے کی کوشش کریں۔
دوم: تنخواہوں اور مراعات میں عدم مساوات کو دور کیا جائے۔ ''زیادہ برابر‘‘ کے مکروہ فارمولے کو اب چھوڑ بھی دیجیے۔ سب کے لیے دن رات چوبیس گھنٹوں ہی کے ہیں۔ عدم مساوات سے اور کچھ کو خصوصی الائونس دینے سے مایوسی بڑھتی ہے۔ کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
سوم: سال بہ سال مہنگائی کے حساب سے خود کار اضافے (Indexation) کا سلسلہ شروع کیجیے۔ بھارت میں ساتواں پے کمیشن‘ آخری پے کمیشن تھا۔ اس کے بعد پے کمیشن بنانے کی ضرورت ہی نہ پیش آئی۔ اس لیے کہ ''ویلیو انڈیکس‘‘ (Value index) کے حساب سے یعنی مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں ہر سال خود کار اضافہ کر دیا جاتا ہے‘ ہمیں بھی چاہیے کہ مہنگائی اور افراطِ زر کے حساب سے یعنی Cost inflation index کے اعتبار سے ہر سال آٹو میٹک اضافے کا نظام ترتیب دیں۔
چہارم! وزارت خزانہ کو اور حکومت کوسوچنا چاہیے کہ ڈاکٹروں کی بھاری اکثریت ملک سے ہجرت کیوں کر جاتی ہے۔ یہ ایک نازک پروفیشن ہے۔ ڈاکٹر بننے کے لیے خون جگر جلانا پڑتا ہے۔ جوانی تج جاتی ہے۔ خدارا ان کے لیے خصوصی پے سکیل تشکیل دیجیے
اور پنجم: پنشن! بیچارے پنشنر! جو دس سال پہلے ریٹائر ہوا اس کی پنشن دس ہزار ہے تو آج ریٹائر ہونے والے کی چالیس ہزار حالانکہ دونوں ایک ہی بازار سے سودا خریدتے ہیں۔ ایک گریڈ ایک پنشن (ایک رینک ایک پنشن) کے اصول پر غور۔ فرمائیے!؎
خیری کن اے فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ بر آید فلان نماند
حضور! نیکی کر جائیے‘ اس اختیار کو غنیمت جانیے ‘اس سے پہلے کہ آواز آئے فلاں نہیں رہا۔
No comments:
Post a Comment