Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, May 11, 2020

بہت کچھ آپ کے اپنے اختیار میں ہے


چوہدری صاحب پرانے دوست ہیں۔ فرسٹ ایئر سے لے کر بی اے فائنل تک ہم کلاس فیلو رہے۔ پھر میں مرکزی حکومت کے سکالرشپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی چلا گیا اور وہ ایم اے کرنے پنجاب یونیورسٹی۔ ان کے بڑے بھائی کو گردے کا عارضہ لاحق ہوا۔ ڈاکٹر نے خراب گردہ نکالنا تھا مگر لاپروائی کی بنا پر جو گردہ تندرست تھا‘ اسے باہر نکال مارا۔ مریض جاں بحق ہو گیا۔
ایک اور دوست کے ‘جو ملتان سے ہیں‘ قریبی عزیز کو ایسی دوا دی گئی جو اپنی مدتِ عمر پوری کر چکی تھی۔ مریض کو ری ایکشن ہوا۔ ہولناک ری ایکشن! ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔ دونوں مواقع پر متعلقہ ڈاکٹروں اور متعلقہ ہسپتالوں کا مؤقف ایک ہی تھا کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ اللہ کی مرضی یہی تھی۔
یہ ہمارے معاشرے کا عام چلن ہے۔ جن ملکوں کو ہم ترقی یافتہ یا قانون پسند کہتے ہیں‘ وہاں کم سے کم سزا یہ ہوتی ہے کہ ڈاکٹر کا لائسنس منسوخ ہو جاتا ہے‘ وہ پریکٹس نہیں کر سکتا۔ عدالتی کارروائی اور بھاری زرِ تلافی کے معاملات اس کے علاوہ ہیں۔ پوری پوری حکومتوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ پالیسی وضع کرنے والے وزیروں کو عدالتیں یوں بے نقاب کرتی ہیں کہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔
جس طرح لاک ڈائون سے جان چھڑائی جا رہی ہے‘ اس کے نتیجے میں کل خدانخواستہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ گئی تو کہا جائے گا کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ لاک ڈائون کے مسئلے پر حکومت کا رویہ اول دن سے گومگو کا ہے۔ یہ ارشاد کہ لاک ڈائون اشرافیہ نے کرایا‘ شاید دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔پرانا لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ شہزادے کی پرورش محل سرا میں بیگمات اور کنیزوں کے ساتھ ہوئی‘ یہاں تک کہ وہ جوان ہو گیا۔ ایک دن محل میں سانپ دکھائی دیا تو جہاں عورتیں شور مچا رہی تھیں کہ کسی مرد کو بلائو‘ شہزادہ بھی دہائی دے رہا تھا کہ کسی مرد کو بلائو۔ لاک ڈائون اشرافیہ نے کرایا تو حکومت کہاں تھی؟ اور اگر حکومت نے کرایا تو اشرافیہ کہاں سے آ گئی۔ یعنی بلّی آدھا سیر گوشت چٹ کر گئی۔ خود بلّی کا وزن آدھا سیر ہے۔ اگر یہ گوشت ہے تو بلی کہاں ہے اور اگر یہ بلی کا وزن ہے تو گوشت کہاں گیا؟ 
تادمِ تحریر‘ کورونا کے مریض 30174 ہو چکے۔648 اموات واقع ہو چکیں۔ گراف ہر روز اوپر جا رہا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا سارا قصور حکومت کا ہے یا حکومت کا ہوگا؟ غور کیجیے اگر آپ اور میں گھر میں بیٹھے ہیں۔ اگر نماز گھر میں پڑھ رہے ہیں ‘ اگر مجبوراً نکلنا پڑے تو ماسک لگا کر نکلتے ہیں۔ اگر ہجوم سے گریز کر رہے ہیں تو کیا یہ سب کچھ اس لیے کر رہے ہیں کہ حکومت نے کہا ہے یا حکومت سے ڈر کے مارے کر رہے ہیں؟ نہیں! یہ ہمارا اپنا فیصلہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ حکومت سے زیادہ ذمہ داری عوام کی ہے۔ بائیس کروڑ افراد کے سر پر بائیس کروڑ پولیس مین نہیں مامور کیے جا سکتے۔ لوگ اگر مسجدوں‘ بازاروں‘ نادرا کے دفتروں‘ شاپنگ سنٹروں اور گلی کوچوں میں سماجی فاصلے کی دھجیاں اڑا رہے ہیں تو اس میں حکومت کا کیا قصور ہے؟ تاجر مارکیٹیں کھولنے پر بضد ہیں۔ سرکاری ملازم عید پر آبائی گھروں کو جانا چاہتے ہیں۔ ریلیں اور بسیں دوبارہ چلائے جانے کے مطالبات ہو رہے ہیں اور ان مطالبات پر ہمدردانہ غور بھی ہو رہا ہے۔ اچھی خاصی تعداد ہمارے عوام کی کورونا کے وجود ہی سے انکار کر رہی ہے۔ اتائی اپنی اپنی جگہ دکانیں کھول کر الگ بیٹھے ہیں کہ یہ کرو تو کچھ نہیں ہوگا اور وہ کرو تو ماسک کی ضرورت ہے نہ سماجی فاصلے کی! ایسے میں حکومت کی تمام کمزوریوں کے باوجود‘ ساری ذمہ داری حکومت پر اور حکومتی اعمال پر ڈالنے کا کوئی جواز نہیں! تعلیم‘ شعور‘ سوک سینس اور سوچ بچار کے حوالے سے ہم‘ مجموعی طور پر‘ اوسط سے بھی کم درجے پر ہیں۔ ہماری قسمتوں کے مالک تو ملنگ‘ ننگ دھڑنگ فقیر‘ مجاور‘ اتائی اور محبوب قدموں میں ڈالنے والے تعویذ فروش ہیں۔ میڈیکل سائنس کی دنیا میں صرف آنکھ‘ صرف گردوں اور صرف کان کا ڈاکٹر بننے کے لیے دس دس برس کی ریاضت درکار ہے۔ مگر ہمارے ہاں کوئی بھی نیم خواندہ شخص دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ شوگر‘ گردوں‘ دل ‘ پھیپھڑوں‘ بلڈ پریشر‘ یرقان‘ سب امراض کا علاج ایک چٹکی سے کرنے پر قادر ہے اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ایسے ہر دعویدار کو اپنے حصے کے بیوقوف اچھی خاصی تعداد میں مل بھی جاتے ہیں۔ کورونا سے احتیاط کرنے میں ہر فرد کا اپنا فائدہ ہے۔ کسی ڈاکٹر پر احسان ہے نہ حکومت پر! اس حوالے سے یوگنڈا کے صدر مُوس وینی نے اپنے عوام کو جس طرح اس خطرے سے آگاہ کیا‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ تقریر اس لائق ہے کہ اس کے کچھ حصّے قارئین سے شیئر کیے جائیں:۔
''جنگ چھڑ جائے تو کوئی کسی کونہیں کہتاکہ گھرکے اندر رہو۔ اپنی مرضی سے اندررہتے ہیں‘گھر میں تہہ خانہ ہے تو وہاں جا چھپتے ہیں۔ عرصۂ جنگ میں اپنی آزادی کیلئے اصرارنہیں کرتے۔ اس آزادی کومرضی سے قربان کرتے ہیں تاکہ جان بچ جائے۔ بھوک کی شکایت نہیں کرتے‘ بھوک کوموت پر ترجیح دیتے ہیں۔
جنگ جاری ہو تو آپ کاروبار کھلوانے اور جاری رکھنے کی ضد نہیں کرتے۔ دکان بند کر کے بھاگنے کی کرتے ہیں۔ دعا کرتے ہیں کہ جنگ ختم ہو اور آپ کاروبار دوبارہ سنبھالیں بشرطیکہ کاروبار کسی بم سے تباہ نہ ہو چکا ہو یا لوٹ نہ لیا گیا ہو۔
جنگ کے دوران آپ ہر روز خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایک دن اور دیکھ لیا۔ آپ کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ بچے سکول گئے ہیں یا نہیں! الٹا یہ دعا کرتے ہیں کہ حکومت لازمی بھرتی ایکٹ کے تحت انہیں ٹریننگ سنٹروں میں نہ بھیج دے۔ ان بچوں کے سکول ہی ٹریننگ سنٹر اور اسلحہ کے ڈپوئوں میں بدل دیئے جاتے ہیں۔ دنیا ان دنوں حالتِ جنگ میں ہے۔ ایک ایسی جنگ جس میں بندوقیں ہیں نہ گولیاں! اس جنگ میں لڑنے والے سپاہی کہیں نہیں! اس جنگ کا بارڈر کوئی نہیں! جنگ بندی کا معاہدہ بھی ممکن نہیں۔ اس میں ''نو وار زون‘‘ بھی کوئی نہیں! 
جو فوج یہ جنگ لڑ رہی ہے‘ اس کی لغت میں رحم کا لفظ کہیں نہیں! اس میں انسانی ہمدردی کا کوئی امکان نہیں! یہ کسی میں امتیاز برتتی ہے نہ تخصیص! یہ بچوں کو چھوڑتی ہے نہ عورتوں کو‘ نہ عبادت گاہوں کو! اس فوج کو مالِ غنیمت کا لالچ ہے نہ کسی حکومت کا تختہ الٹنے میں دلچسپی ہے۔ یہ کسی ایسے خطۂ ارض کی تلاش میں بھی نہیں جہاں زیرِ زمین معدنیات کے خزانے ہوں! اسے کسی مذہبی‘ نظریاتی یا نسلی برتری کی بھی خواہش نہیں! یہ رنگ کی برتری سے بھی بے نیاز ہے۔ یہ ایک غیر مرئی فوج ہے۔ نظر نہ آنے والی فوج۔ ایک ظالم اور فاتح فوج!
اس فوج کا ایک ہی ایجنڈا ہے۔ موت کی فصل! اس کی ایک ہی خواہش ہے‘ دنیا موت کے میدان میں تبدیل ہو جائے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ فوج اس خواہش کو پورا کرنے پر قادر بھی ہے! اس کے پاس بری طاقت ہے نہ بحریہ نہ فضائیہ‘ مگر پھر بھی ہر ملک میں اس کی کمین گاہیں موجود ہیں۔ یہ کسی اقوام متحدہ کے اصولوں پر یقین نہیں رکھتی! اس کا کوئی جنگی پروٹوکول نہیں! یہ بذات خود قانون ہے۔ یہ کورونا ہے۔ یہ کورونا 19ہے کیونکہ اس نے اپنی ہولناک آمد کا اعلان 2019ء میں کیا۔
تاہم خدا کا شکر ہے کہ اس بے رحم‘ تباہ کن سپاہ کی ایک کمزوری بھی ہے۔ اسے شکست دی جا سکتی ہے مگر اس کے لیے اجتماعی ایکشن کی ضرورت ہے۔ ڈسپلن کی اور برداشت کی ضرورت ہے! یہ سماجی فاصلے کے سامنے ہار مان جاتی ہے۔ یہ جسمانی فاصلے سے خوف کھاتی ہے! اسے قریب جا کر للکاریں تو یہ مار دیتی ہے۔ ذاتی حوالے سے احتیاط کریں تو یہ سر جھکا کر ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ یہ ہائی جین سے یعنی صفائی سے ڈرتی ہے۔
اگر آپ ہاتھ ‘ منہ‘ پیر اور جسم کو سینے ٹائز کرتے رہیں تو یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی!یہ وقت روٹی اور روزی کیلئے شور مچانے کا نہیں! زندہ رہنے کیلئے صرف روٹی کافی نہیں! ہمیں حکومتی احکام کو ماننا ہو گا! ہمیں کورونا کے گراف کو نیچے لانا ہوگا! لازم ہے کہ ہم صبر سے کام لیں! اگر ہم نے صبر و استقلال سے مطلوبہ احتیاط برتی تو بہت جلد اپنی آزادی‘ اپنا کاروبار اور اپنی سوشل لائف دوبارہ حاصل کر لیں گے‘‘۔ 
صدر مُوس وینی کا یہ اثر انگیز خطاب پوری دنیا میں پڑھا اور سنا جا رہا ہے۔ یہ صرف یوگنڈا کے عوام کیلئے نہیں‘ ہم سب کیلئے ہے۔ اس وقت کوئی بارڈر ہے نہ قومیت‘ پوری دنیا ایک طرف ہے اور کورونا ایک طرف! ہر شخص پوری دنیا کیلئے دعا کر رہا ہے۔ یہ کسی براعظم‘ کسی مذہب‘ کسی نسل‘ کسی رنگ کا نہیں‘ تمام انسانیت کا معاملہ ہے! حکومت کی پالیسی غلط ہے یا صحیح‘ ہر شخص بنیادی طور پر اپنی حفاظت کا خود ذمہ دار ہے! سفر سے احتراز کرنا آپ کے اپنے بس میں ہے! سماجی فاصلہ رکھنے کیلئے آپ کو کسی ہتھیار‘ کسی اوزار کی ضرورت نہیں! مجبوراً باہر نکلنا پڑے تو واپس آ کر لباس بدلنا‘ ہاتھ دھونا‘ سینے ٹائزر استعمال کرنا آپ کے اپنے اختیار میں ہے اور اپنے فائدے میں ہے! وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آپس میں سینگ لڑانے دیجیے۔ سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہیں تو آپ کان بند کر کے قرآنی احکام کے مطابق‘ متانت سے آگے گزر جائیے! اپنی اور اپنے متعلقین کی فکر کیجیے!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com