Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 30, 2019

… اگلے پچیس سال کا قمری کیلنڈر جو استعمال ہو رہا ہے


’’فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ‘‘(FCNA)نے مختلف تشکیلی مراحل گزار کر1986ء میں موجودہ شکل اختیار کی۔ یہ کونسل ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے مسلمانوں کی فکری‘ نظریاتی اور فقہی رہنمائی کرتی ہے۔ڈاکٹر مزمل صدیقی اس کے چیئرمین ہیں‘اعلیٰ ترین مذہبی تعلیم کے مالک ہونے کے علاوہ ڈاکٹر مزمل صدیقی مکہ مکرمہ کی کونسل آف علما کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن ہیں۔ آپ مصر کی ’’سپریم اسلامی کونسل‘‘ کے بھی ممبر ہیں اور مکہ مکرمہ میں قائم مساجد کی سپریم کونسل کے بھی رکن ہیں۔ ڈاکٹر زینب الوانی فقہ کونسل کی وائس چیئرمین ہیں۔ کونسل کے ارکان میں مساجد کے ائمہ اور دیگر اہل علم شامل ہیں۔ 

فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ کا بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے 2044ء تک ہر سال کا قمری کیلنڈر بنایا ہے۔ فقہ کونسل نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے اصل میں ’’یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ‘‘ کی پیروی کی ہے۔’’یورپی کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ‘‘ کے سربراہ عالم اسلام کے مشہور و معروف فقیہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں! یورپی کونسل نے واضح کیا ہے کہ رویت فی نفسہِ مطلوب نہیں بلکہ رویت نئے مہینے کا آغاز جاننے کا صرف ذریعہ ہے اور اب اس کا بالکل ٹھیک حساب لگایا جا سکتا ہے۔کونسل کے الفاظ یہ ہیں۔ 

‏The sighting was not a requirement but just the means of ascertaining the beginning for a new month, and that is now attained by exact calculation. 

طریقِ کار یہ ہے کہ کرہ ارض پر کہیں بھی نیا چاند نمودار ہو(یعنی Conjunction)تو مقامی غروب آفتاب کے وقت سورج اور چاند کے درمیان زاویہ کم از کم ْ 8ہو ۔ اور چاند افق سے کم ازکم ْ 5اوپر ہو۔اگر یہ شرط پوری ہو جائے تو اگلے دن نیا قمری مہینہ  شروع ہو جائے گا بصورت دیگر نیا مہینہ اس کے ایک دن بعد آغاز ہو گا۔ 

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ امریکہ اور کینیڈا کے مسلمانوں کی بہت بھاری تعداد اس کیلنڈر کے حساب سے روزے رکھ رہی ہے اور عیدین منا رہی ہیں۔ ان میں مساجد کے ائمہ اور علماء کرام بھی شامل ہیں۔ روایت پسند علما مخالفت کر رہے ہیں مگر ان کا ساتھ دینے والوں کی تعداد سال بہ سال گھٹتی جا رہی ہے۔ 

یاد رہے کہ حساب (calculation)کے ذریعے قمری مہینوں کی شناخت اسلامی فقہ میں کوئی نئی بات نہیں۔ پہلی صدی ہجری کے آخر میں یہ بحثیں شروع ہو گئی تھیں۔ مشہور عالم فقیہ اور محدث تقی الدین سبکی(وفات 756ھ) جو شام میں سترہ سال تک چیف جسٹس رہے۔ حساب کے ذریعے قمری مہینوں کی شناخت کے زبردست حامی تھے ان کا فتویٰ تھا کہ اگر حساب رویت کے امکان کی نفی کرتا ہے تو قاضی پر واجب ہے کہ شہادت رد کر دے’’لأن الحساب قطعی والشہادہ والخبر ظنیان‘‘ اس لئے کہ حساب (calculation) قطعی ہے اور گواہی اور خبر ظنّی ہیں۔ 

اس وقت یہ کیلنڈر کینیڈا اور امریکہ کے لاکھوں مسلمانوں کے زیر استعمال ہے۔ اس کے مطابق یکم شوال یعنی نئے قمری مہینے کا آغار چار جون2019ء کو پڑ رہا ہے۔ یکم ذوالحجہ دو اگست کے دن پڑ رہا ہے۔ اس طرح اس کیلنڈر کی رو سے عیدالاضحیٰ گیارہ اگست 2019ء کے دن ہونی ہے۔ شمالی امریکہ کے دونوں ملکوں کے مسلمان اور یورپی مسلمانوں کی اکثریت ایک عرصہ سے چاند کے جھگڑوں سے آزاد ہے۔ عالم اسلام میں کسی نے فتویٰ نہیں دیا کہ ان کے روزے باطل ہیں یا ان کی عیدیں غلط ہیں۔ اس کالم نگار کی گفتگو اس ضمن میں وہاں کے ذمہ دار ائمہ مساجد سے ہوئی ہے یہ ائمہ خود اسی کیلنڈر کے حساب سے روزے اور عیدیں منا رہے ہیں اور ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے والے بے شمار مسلمان بھی۔ اگلے برس کی تاریخیں بھی ان کے علم میں ہیں۔ اگلے برس یعنی 1441ھ کے دوران عیدالفطر 24مئی 2020ء کے دن پڑ رہی ہے۔1441ھ کا متعلقہ مہینوں کے آغاز ملاحظہ کیجیے۔

 یکم محرم 1441ھ۔31اگست2019ء (سنیچر) 

یکم شعبان1441ھ۔25مارچ2020ء (بدھ) 

یکم رمضان1441ھ ۔24اپریل2020ء (جمعہ) 

یکم شوال عیدالفطر1441ھ۔24مئی2020ئ(ایتوار) 

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے فقہ کونسل نے 2044ء تک قمری کیلنڈر ترتیب دے دیا ہے اگلے پچیس برسوں کے یہ کیلنڈر فقہ کونسل کی ویب سائٹ پر دیکھے جا سکتے ہیں دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ انٹرنیٹ کھول کر
‏ moonsighting.com
پر جائیے‘ صفحہ کھلنے پر بائیں طرف فہرست موضوعات نظر آئے گی - اس فہرست میں اوپر سے نویں نمبر پر calender-N.Aلکھا ہے۔ اس پر کلک کیجیے۔ ایک اور فہرست نمودار ہو گی۔ اس میں سب سے اوپرcalender Fcna & uq لکھا نظر آئے گا۔ اس پر کلک کیجیے تو آپ اگلے پچیس برس میں قمری مہینوں کے آغاز کی تاریخیں دیکھ سکتے ہیں۔ 

دلچسپی کے لئے یہاں 2044-45ء کے دوران قمری مہینوں کے آغاز کی تاریخیں دی جاتی ہیں۔ 

یکم محرم1467ھ۔ 21نومبر 2044ء (پیر) 

یکم صفر1467ھ۔21دسمبر2044ء (بدھ) 

یکم ربیع الاول1467ھ۔19جنوری2045 ء  (جمعرات) 

یکم ربیع الثانی1467ھ۔18فروری2045 ء  (سنیچر) 

یکم جمادی الاولیٰ1467ھ۔20مارچ2045 ء (پیر) 

یکم جمادی الاخریٰ 1467ھ۔ 18اپریل2045ء (منگل) 

یکم رجب1467ھ۔ 18مئی2045ء (جمعرات) 

یکم شعبان1467ھ۔ 16جون2045 ء (جمعہ) 

یکم رمضان1467ھ۔ 15جولائی2045 ء (سنیچر) 

یکم شوال(عیدالفطر)1467ھ ۔14اگست 2045ء (پیر) 

یکم ذوالقعدۃ 1467ھ۔12ستمبر2045ء (منگل) 

یکم ذوالحجہ1467ھ 12اکتوبر2045 ء (جمعرات) 

اس حوالے سے پاکستان میں کیا صورت احوال ہے اور کیا ہو رہا ہے اس پر تبصرہ آئندہ نشست میں کیا جائے گا۔

Tuesday, May 28, 2019

چھاج بولے سو بولے چھلنی کیوں بولے


‎دروغ برگردن راوی‘ کہتے ہیں کہ اس وقت کے طبقۂ بالا میں صرف دو شخص شراب سے اجتناب کرتے تھے اورنگ زیب عالم گیر اور مغل سلطنت کے مفتیٔ اعظم! جب کہ حقیقت یہ تھی کہ مفتی اعظم بھی موقع ملنے پر ڈنڈی مار جاتے تھے۔ یہ صرف شہنشاہ تھا جو مکمل پرہیز کرتا تھا۔ اس وقت نیب کا ادارہ ہوتا تو نیب کے ملزمان چیئرمین کی مے نوشی کرتے وقت فلم بناتے اور اس کی معزولی کا مطالبہ کرتے! 

‎عجیب معاشرہ ہے‘ نفاق سے لبا لب بھرا ہوا‘ چھلکتا ہوا! پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو! اخلاقی اعتبارسے پاتال میں گرے ہوئے معززین‘ دوسروں پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ کیا کسی کو یاد ہے ذوالفقار مرزا نے ایان علی کے بارے میں کیا کہا تھا؟ کیا لوگ اس مغنّیہ کو بھول بیٹھے ہیں جس کے شوہر ملک کے نامی گرامی وکیل نے‘ اسے طلاق دے دی تھی؟ کیا کسی کو کِم بارکر کا نام یاد ہے؟ اس نے کیا کیا انکشافات کئے؟ کیا عوام اس شعبدہ گر حکمران کو بھول گئے جس کے بارے میں مشہور تھا کہ نکاح کے نئے فارم جیب میں رکھتا تھا؟ نکاح کرنا جرم نہیں مگر ماتحت سے اس کی بیوی کو طلاق دلوا کر‘ ماتحت کا ہنستا بستا گھر اجاڑ دینا کیا گھنائونا مکروہ اور غلیظ جرم نہیں؟ کیا سیتا وائٹ کا نام اس ملک کی فضائوں میں نہیں گونجتا رہا؟ جو دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ان کا ذکر تو چھوڑ ہی دیجیے۔ 

‎یہ ہیں وہ لوگ جو اس ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں اور کرتے آئے ہیں تو کیا ان کے احتساب کے لئے حسن بصری کو تعینات کیا جاتا؟ نیب کا چیئرمین بھی انہی کی طرح گوشت پوست کا بنا ہوا، آج کے زمانے کا انسان ہے! ایسا نہیں کہ ان سطور میں چیئرمین کا دفاع کیا جا رہا ہے۔ مگر سوال صرف یہ ہے کہ اس حمام میں جب سب ننگے ہیں تو صرف ایک شخص پر برہنگی کا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے؟ 

‎ایک صاحب نماز پڑھا رہے تھے۔ پڑھا چکے تو مولوی صاحب آ گئے۔ فرمانے لگے تم تو فاسق ہو‘ تم نماز پڑھا ہی نہیں سکتے۔ اس نے جوابدیا‘ حضرت! پریشان نہ ہوں‘ میرے پیچھے نماز پڑھنے والے بھی سب فاسق ہی ہیں‘ وقت کے اولیاء تو آپ کی اقتدا میں پڑھیں گے! 

‎اورنگزیب عالم گیر کے مفتیٔ اعظم کا کیا ذکر! کیا ہر بچے بوڑھے مرد عورت امیر غریب کو نہیں معلوم کہ کون سا دستار پوش مے نوشی کے لئے معروف ہے؟ مذاق سہی‘ مگر کون سا مفتی ہے جو خواجہ سرائوں کے امیر کے ساتھ شادی کے ٹھٹھے کرتا رہا اور لطف اندوز ہوتا رہا۔ اہل مذہب اپنی برادری کے جرائم کو درخور اعتنا نہیں گردانتے۔ ورنہ قندیل بلوچ فیم مولوی صاحب آج مذہبی فرائض ادا نہ کر رہے ہوتے! 

‎بھارت یا اسرائیل نہیں‘ گوگل کہتا ہے کہ پورنو گرافی دیکھنے میں یہ ملک اول نمبر پر ہے! ایک اسلام پسند‘ بلکہ سخت اسلام پسند صحافی کا کہنا ہے کہ مے نوشی میں پیارا وطن آٹھویں نمبر پر ہے۔ نیب کے چیئرمین باذوق ہوتے تو معترضین کو ویسا ہی جواب دیتے جیسا‘ اقبال کی زبان میں‘ اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی نے اپنے حریفوں کو دیا تھا ؎ 

‎کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم؟ 
‎بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج 

‎میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں
‎ ہیں سبھی تہذیب کے اوزار‘ تو چھلنی ‘ میں چھاج 

‎میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم
‎ تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟ 

‎تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام 
‎تم نے لوٹی کشتِ دہقاں‘ تم نے لوٹے تخت و تاج 

‎پردۂ تہذیب میں غارت گری‘ آدم کُشی 
‎کل روا رکھی تھی تم نے‘ میں روا رکھتا ہوں آج 

‎حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو وصیت کی کہ ان کی نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کی تہجد کی نماز نہ چھوٹی ہو‘ جس کی تکبیر اولیٰ ہمیشہ ادا ہوئی ہو‘ جس نے غیر محرم عورت کو کبھی نہ دیکھا ہو۔ یہ شرائط بیان کی گئیں تو جنازہ میں شرکت کرنے والوں پر سناٹا چھا گیا۔ کوئی نہ باہر آیا۔ آخر بادشاہ وقت سلطان التمش ‘ روتا سسکیاں لیتا‘ آگے بڑھا اور خواجہ صاحب مرحوم سے شکایت کی’’ امروز پیشِ خلق مرا سِوا کر دی! حضور!‘‘ آپ نے مجھے خلقِ خدا کے سامنے رسوا کر دیا۔ یہ بات تو آپ کے اور میرے درمیان تھی! پھر التمش نے نماز جنازہ پڑھائی۔ یا تو التمش جیسے حکمران لائیے۔ یا نیب کے سربراہ کو برداشت کیجیے پھر اقبال یاد آ گئے۔ ؎ 

‎یا چناں کن یا چنین یا اس طرح کر! یا اِس طرح! 

‎یا دگر آدم کہ از ابلیس باشد کمترک 
‎یا دگر ابلیس بہرِ امتحانِ عقل و دین
‎ یا چُنان کُن یا چُنین

‎ یا کوئی اور آدم بنا جو ابلیس سے کم ہو( کہ موجودہ انسان تو ابلیس کو پیچھے چھوڑ گیا) یا عقل اور دین کے امتحان کے 
‎لئے کوئی اور ابلیس بنا(جو شیطنت میں انسان سے زیاد ہو) یا اس طرح کر۔ یا اِس طرح! 

‎نیب کے چیئرمین کا مسئلہ تو چیئرمین اور ان کے ’’خیر طلب‘‘ بھگتتے رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے جس ایڈوائز(طاہر اے خان) کو برطرف کیا ہے۔ اس کے فرائض کیا تھے؟ کیا وزیر اعظم قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ مشیروں کی فوج ظفر موج جو انہوں نے اپنے اردگرد سجا رکھی ہے۔ کیا کام کرتی ہے؟ صرف میڈیا کے شعبے کو لیجیے۔ ایک معاون خصوصی برائے اطلاعات ہیں جو وفاقی وزیر کی ہم پلہ ہیں۔ ان کے ساتھ وفاقی سیکرٹری اطلاعات ہے جو نوکر شاہی کا خانہ پر کرنے کے لئے ہوتا ہی ہے۔ اگرچہ اس کے ہونے نہ ہونے سے فرق کچھ بھی نہیں پڑتا۔ پھر افتخار درانی ہیں جو معاون خصوصی ہیں۔ چلیے افتخار درانی کا معاملہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی پارٹی کی میڈیا ٹیم کو سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کی تعیناتی منطقی طور پر روا ہے۔ مگر کیا وزیر اعظم قوم کو اعتمادمیں لیں گے کہ انہوں نے یوسف بیگ مرزا کو اس قوم پر کیوں مسلط کیا ہے؟ کون سا کام افتخار درانی اور مشیر اطلاعات نہیں کر سکتے جس کے لئے ان صاحب کو مشیر مقرر کیا گیا ہے؟ حال ہی میں نیب نے ان صاحب کے خلاف تفتیش کا ڈول بھی ڈالا ہے۔ 

‎پچھلی حکومتوں اور عمران خان کی حکومتوں میں کون سا جوہری فرق ہے؟گزشتہ حکومتیں بھی انہیں طاہر خانوں اور یوسف بیگوں کے کندھوں سے نیچے گریں اور اب انہی طاہر خانوں اور انہی یوسف بیگوں نے اس حکومت کو کندھوں پر چڑھا رکھا ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ حکومت نے ان آکاس بیلوں کو اپنے اردگرد لپیٹ رکھا ہے۔ 

‎کتنا بڑا المیہ ہے کہ جن گناہوں کا الزام عمران خان اپنی پیشرو حکومتوں پر لگاتے تھے۔ وہی گناہ خود کر رہے ہیں اور پورے شدو مد کے ساتھ! وزراء کی فوج ظفر موج الگ ہے اور مشیروں کا ایک لشکر‘ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے جلو میں خراماں خراماں چلتاہے۔ 

‎کیا خصوصی صفات ہیں ان مشیروں میں؟ ایک نیازی تھا۔ دوسرا ہر حکومت میں کسی نہ کسی صورت میں ان رہا۔ یہاں تک کہ عمران خان بھی اس حوالے سے اُسی سطح پر اتر آئے جس سطح پر گزشتہ حکومتیں اتری تھیں ۔ ناصرکاظمی نے شاید عمران خان ہی کے بارے میں کہا تھا ؎ 

‎سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب 
‎ورنہ یہ درویش پردے میں ہیں دنیادار بھی

Sunday, May 26, 2019

عابدی صاحب


‎’’یہاں ایک بزرگ ہیں۔ عابدی صاحب! آپ کا پوچھ رہے تھے‘‘ 

‎دس برس قبل پہلی بار میلبورن پہنچا تو بیٹے نے عابدی صاحب کے بارے میں بتایا۔ کوئی تقریب تھی جس میں یہ دونوں مدعو تھے بات چیت چل نکلی وہ جو کہتے ہیں ڈاک خانہ مل جانا۔ تو ڈاکخانہ مل گیا۔ عابدی صاحب کو معلوم ہوا کہ اسرار میرا بیٹا ہے تو کہنے لگے’’بھائی! وہ تو ہمارے ساتھ تھے۔پاکستان آرڈیننس فیکٹریز واہ میں! ہم بھی بورڈ کے ممبر تھے اور وہ بھی!‘‘ ساتھ ہی انہوں نے فرمائش کی کہ اظہار صاحب آئیں تو میرا ضرور بتانا‘ چنانچہ میلبورن پہنچے چند دن ہوئے تھے کہ بیٹے نے ان کا ذکر کیا اور سلام پہنچایا۔ 

‎فلم چلی اور میں 1992ء میں پہنچ گیا۔ خلیج کی جنگ کا زمانہ تھا۔ میری تعیناتی واہ فیکٹریز میں بطور مشیر مالیات اور ممبر بورڈ تھی۔ پی او ایف اصل میں چودہ فیکٹریوں کا مجموعہ ہے جو حویلیاں سے لے کر سنجوال تک پھیلی ہوئی ہیں۔ معاملات‘خواہ انتظامی ہوں یا ٹیکنیکل یا مالی‘ بورڈ کے پاس مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔ بورڈ کے چار ممبران ہوتے ہیں اور ایک چیئرمین۔ عابدی صاحب ممبر ٹیکنیکل تھے یعنی تمام تکنیکی معاملات کے انچارج۔ نرم گفتار۔ وضعدار ادب آداب سے بھرے ہوئے! ایک ہی بورڈ کے ممبر ہونے کے باوجود ان سے زیادہ تعلقات اس زمانے میں نہیں تھے کیوں کہ ہمارے دائرہ ہائے کار مختلف تھے۔ ممبرمالیات کا ٹاکرہ زیادہ تر چیئرمین ہی سے ہوتا تھا۔

‎ جیسے ہی بیٹے نے بتایا‘ عابدی صاحب کو فون کیا۔ یہ رابطہ اٹھارہ سال بعد ہو رہا تھا۔ بہت خوش ہوئے کہنے لگے ملاقات ہونی چاہیے۔ ایک دن میں اور بیگم ان کے ہاں جا پہنچے!

‎ وہ اور ان کی بیگم صاحبہ دو کمروں کے ایک نیم اپارٹمنٹ نما گھر میں رہ رہے تھے۔ انہوں نے آسٹریلیا منتقل ہونے کا قصہ سنایا۔ ایک بیٹا تھا اور ایک بیٹی۔ بیٹی امریکہ میں تھی بیٹا سفید فام بیوی کے ساتھ آسٹریلیا میں رہ رہا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد عابدی صاحب دوراہے پرکھڑے تھے۔ بیٹا اور اس کی انگریز بیگم تو ان کے پاس پاکستان میں منتقل ہونے سے رہے! کیا انہیں بیٹے کے پاس آسٹریلیا چلے جانا چاہیے؟ اگر پاکستان میں رہیں تو ان کا خیال تھا کہ اپنا کوئی بھی پاس نہیں ہو گا۔ آسٹریلیا منتقل ہو جائیں تو کم از کم بیٹا تو پاس ہو گا۔ پھر سوچتے جہاں ساری زندگی گزاری‘ وہاں سے عمر کے اس حصے میں ہجرت کیسے کریں؟ یہ گومگو کی کیفیت طویل عرصہ ان کے درپے رہی آخر کار فیصلہ کیا کہ مستقل منتقل ہونے کے بجائے جا کر کچھ عرصہ قیام کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا وہاں رہنا راس آ رہا ہے یا نہیں۔ 

‎چنانچہ پانچ سال یہ معمول رہا کہ آسٹریلیا جاتے۔ کچھ مہینے رہتے‘ پھر واپس پاکستان آ جاتے۔ آخری فیصلہ آسٹریلیا میں مستقل قیام کا کیا۔ بیٹے کی موجودگی کے علاوہ اعلیٰ میڈیکل سہولیات کی بھی کشش تھی۔ پاکستان میں جو جمع پونجی تھی۔ سمیٹی اور میلبورن میں یہ اپارٹمنٹ نما گھر خرید لیابیٹے کا گھر قریب ہی تھا۔ سفید فام بہو بھی آتی جاتی رہتی۔ پوتے بھی ملتے۔ مگر مجموعی طور پر عابدی صاحب اور بیگم صاحبہ اپنا خیال خود ہی رکھ رہے تھے۔ بیگم صاحبہ پاکستان میں علیل رہتیں۔ آسٹریلیا کے ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ یہ علالت گندم کی وجہ سے ہے کیوں کہ گندم میں موجود گلوٹن
(Gluten)
‎ان کے مزاج کو راس نہیں آ رہی۔ چنانچہ بیگم صاحبہ اپنی روٹی جَو کے آٹے کی پکاتی تھیں۔ 

‎ہم تین چار گھنٹے عابدی صاحب کے ہاں رہے۔ دوپہر کا کھانا وہیں کھایا۔ بازار سے سودا سلف بیگم صاحبہ خود لاتیں۔ عابدی صاحب کی خوابگہ الگ تھی اور بیگم صاحبہ کی الگ۔ صاحبزادی سال میں ایک بار امریکہ سے ملنے آتی تو لائونج میں سوتی۔ ان ملکوں میں اٹیچڈ باتھ روم کا تصورناپید ہے۔ یہ عیاشی پاکستان ہی میں ہے کہ چھ بیڈ روم ہیں تو چھ ہی باتھ روم ہیں ولایتی ملکوں میں بہت ہوا تو ماسٹر بیڈ روم میں ایک اٹیچڈ باتھ روم ہوتا ہے اور باقی سارے گھر کے لئے ایک! 

‎عابدی صاحب اس وقت اسی سال کے لگ بھگ تھے۔ ہر روز ایک گھنٹہ سیر کرتے۔ میڈیکل سہولیات سے بہت مطمئن تھے بلکہ خوش! صحت کے حوالے سے کچھ پیچیدگیاں تھیں۔ دل کے معاملات تھے۔ پیشاب کی تکلیف تھی۔ جس معیار کا علاج وہاں میسر تھا اور ہسپتال میں جتنی دیکھ بھال ہوتی تھی‘ اس کا پاکستان میں تصور بھی ناممکن تھا۔ 

‎پنشن پاکستان میں جمع ہوتی رہتی کبھی جاتے تو اکٹھی لے لیتے۔ میں نے بتایا کہ پاکستان ہائی کمیشن کے ذریعے پنشن ہر ماہ آسٹریلیا میں بھی وصول کی جا سکتی ہے۔ یہ کام انہوں نے میرے ہی ذمے لگایا۔ میں نے اپنے ماڑے موٹے غریبانہ عاجزانہ روابط استعمال کئے اور ماہانہ پنشن انہیں آسٹریلیا ہی میں ملنا شروع ہو گی۔ 

‎پاکستان کے سیاسی حالات سے بے پناہ دلچسپی تھی۔ فون پر لمبی بات ہوتی۔ پاکستانی اخبارات انٹرنیٹ پر باقاعدگی سے پڑھتے ای میل کرتے رہتے۔ 

‎ایک سال بعد میں پھر میلبورن میں تھا۔ انہیں کھانے کی دعوت دی۔ وہ اور بیگم صاحبہ ٹرین پر آئے میں بیٹے کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پر انہیں لینے کے لئے موجود تھا۔ کھانا کھا کر ایک مہذب اور اعلیٰ اخلاق کے مالک شخص کی طرح کھانے کی تعریف کی اور میری بہو اور بیگم کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا۔

‎ گزشتہ نو سال کے دوران آسٹریلیا جب بھی جانا ہوا ان سے برابر رابطہ رہا۔ ہمیشہ ان کی تنہائی کا احساس رہا۔ یہ بھی سوچتا کہ علاج سے قطع نظر پاکستان میں ان کے پاس ملازم ہوتے ڈرائیور ہوتا اورزندگی شاید زیادہ آرام دہ ہوتی۔ مگر اب وہ آسٹریلین تھے اور ان کا عہد پیری اسی انداز میں گزرنا تھا جیسے اس ملک میں دوسرے بوڑھوں کا گزرتا ہے۔ یعنی دستِ خود‘ دہان خود! اپنی مدد آپ! 

‎اب کے مارچ کے آخر میں میلبورن پہنچا کچھ دن کے بعد حسب معمول عابدی صاحب کو فون کیا۔ موبائل وہ رکھتے نہیں تھے۔ لینڈ لائن نمبر تھا۔ کافی دیر گھنٹی بجتی رہی کسی نے نہیں اٹھایا ۔سیاہ رنگ کا ایک سایہ دل میں لہرایا مگر صرف ایک ثانیے کے لئے ! دونوں میاں بیوی گھر سے نکلے ہوئے ہوں گے۔ بیگم کو بتایا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ پھر کسی وقت کر کے دیکھ لیجیے۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ پھرفون کیا کسی نے جواب نہ دیا اب کے ماتھا ٹھنکا۔ ڈاکٹر منصور کا تعلق واہ ہی سے ہے۔ کینبرا میں ہوتے ہیں اور عابدی صاحب سے خاندانی تعلقات رکھتے ہیں۔ ان سے پوچھا۔ کہنے لگے عابدی صاحب وفات پا گئے۔ کئی ماہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے گمان ظاہر کیا کہ بیگم صاحبہ بیٹی کے پاس امریکہ چلی گئی ہوں گی! 

‎دو ماہ ہونے کو ہیں عابدی صاحب کا سفر آخرت ذہن سے نہیں نکل رہا۔ کیا زندگی تھی پاکستان میں ان کی! اعلیٰ ترین عہدہ! خدام کی ریل پیل۔ باورچی‘ ڈرائیور‘ بٹلر‘ خاکروب! اور آخری حصہ ولایت میں کیسے گزرا۔ تنہائی! ہر کام بدستِ خود! سوشل لائف نہ ہونے کے برابر! آخری وقت میں ان کے پاس صرف بیگم صاحبہ ہوں گی! کیا پتہ بیٹا کس وقت پہنچا۔ یہاں کی مشینی زندگی میں خواہش کے باوجود بیٹے وقت پر نہیں پہنچ سکتے۔ جنازہ واہ میں ہوتا تو سینکڑوں لوگ صفیں باندھتے یہاں مسجد میں وہی لوگ ہوں گے جو نماز کے وقت موجود تھے! زیادہ سے زیادہ چند درجن!

‎ان ملکوں میں لاکھ سہولیات سہی۔ بہت کمفرٹ سہی! مگر مرنا اپنے ملک ہی میں چاہیے! دوسری طرف’’بای ارض تموت‘‘ کی تلوار ہر ذی روح کے سر پر لٹکی ہے۔ کسی کو نہیں خبر کہ ڈھیری کہاں بنے گی۔ بہر طور‘ خدا کی پناہ مانگنی چاہیے اس حال سے کہ ؎ 

‎مارا دیارِ غیر میں مجھ کو وطن سے دور
‎ رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی لاج

Saturday, May 25, 2019

مسئلے کا مستقل حل:آئینی ترمیم


آپ کی ذہانت کا امتحان ہے! 

پوری مسلم لیگ( ن) میں سے افطار پارٹی میں بلاول نے صرف مریم صفدر کو اپنے ساتھ کیوں بٹھایا؟ یوں تو حمزہ شہباز اور اپنے وزیر اعظم ہونے سے انکار کرنے والے خاقان عباسی بھی وہاں موجود تھے مگر حاشیے پر بیٹھے تھے۔ اصل مہمان مسلم لیگ نون میں سے مریم تھیں۔ 

پھر، اس سوال کا آپ کیا جواب دیں گے کہ پیپلزپارٹی میں اتنے بڑے بڑے جغادری موجود ہیں۔ خود زرداری صاحب، پھر رضا ربانی، راجہ پرویز اشرف، شیری رحمن اور کئی اور۔ مگر افطار پارٹی کی میزبانی بلاول کر رہے ہیں، وہی پارٹی کے چیئرمین ہیں، کیوں؟ آخر کیوں؟ 

ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ پیپلز پارٹی بلاول کو میراث میں ملی ہے اور مسلم لیگ نون پر مریم صفدر کا موروثی حق ہے۔ کچھ عرصہ منقار زیر پر رہ کر مریم دامن جھاڑ کر دوبارہ اٹھی ہیں کہ حق بہ حقدار رسد! جس طرح نواز شریف کی جائیداد، صنعت، روپے پیسے پر ان کی اولاد کا حق مسلمہ ہے اسی طرح، سیاسی حوالے سے پارٹی مریم کی وراثت ہے وہ پارٹی کی نئی سربراہ ہیں۔ اب خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ، راجہ ظفر الحق خاقان عباسی اور دیگر معمر رہنمائوں کی وہ نئی باس ہیں۔ یہ سارے بابے جس طرح نواز شریف کے سامنے دست بستہ رہتے تھے اور جی ہاں جی سر کہتے تھے، اب اسی طرح مریم صفدر کے سامنے جی میڈم کہا کریں گے۔ یہی حال پیپلزپارٹی کے چٹ سرے لیڈروں کا ہے۔ رضا ربانی، شیری رحمن، فرحت اللہ بابر، قائم علی شاہ اور دیگر عمر رسیدہ پپلیے بلاول کی اردل میں کھڑے ہیں۔ 

میاں صاحب تین بار وزیر اعظم رہے۔ بے نظیر بھٹو دو بار۔ ذوالفقار علی بھٹو،لڑکے کے نانا، اس سے بھی پہلے حکمران رہے۔ جس طرح پارٹیاں مریم اور بلاول کو وراثت میں ملی ہیں، اسی طرح وزارتِ عظمی پر بھی دونوں کا حق ہے۔ جب تک یہ حق تسلیم نہیں کیا جائے گا، ملک میں ابتری رہے گی۔ حریفانہ کش مکش جاری رہے گی۔ کوئی اور وزیر اعظم بنا، تو یہ دونوں جائز حقدار اس سے نفرت کریں گے، اسے نیچا دکھانے، گرانے کی جدوجہد کرتے رہیں گے۔ کبھی بلاول اسے سلیکٹڈ وزیر اعظم کا خطاب دے گا، کبھی مریم اسے نالائقِ اعظم کے نام سے پکاریں گی۔ 

عوام اس فضا سے تنگ آ چکے ہیں، ملک کی ترقی کی رفتار اس معاندانہ ماحول میں رُک رُک جاتی ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ ایک دوسرے پر حملے نہ ہوں۔ گندے کپڑے گلی میں دھوئے جا رہے ہیں۔ ساری دنیا یہ لڑائیاں دیکھ رہی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے سر غیر ملکیوں کے سامنے شرم سے جھک جاتے ہیں۔ 

اس مسئلے کا مستقل حل ہونا چاہیے۔ بہترین حل یہ ہے کہ دونوں حقداروں کا حق تسلیم کر کے، انہیں یہ حق آئینی طور پر دے دینا چاہیے، اس کی صورت یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے یہ شق ڈالی جائے کہ پانچ سال کے لیے بھٹو کا وارث وزیر اعظم بنے گا اور اس کے بعد، اگلے پانچ برس کے لیے نواز شریف کی وارث وزارتِ عظمیٰ سنبھالے گی۔ 

اس کا ضمنی فائدہ یہ ہو گا کہ ملک الیکشن کے گرداب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر نکل آئے گا۔الیکشن کمیشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کروڑوں کا سالانہ خرچ بچے گا۔ اسمبلیوں کے لیے یہ دونوں ورثا،اپنے نمائندے، نامزد کر دیں 
گے۔ کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔ اگر اب ان دونوں کے سامنے کوئی چُوں نہیں کر سکتا تو اُس وقت کون کرے گا؟ 

اس آئینی ترمیم سے ملک کی فضا میں ٹھہرائو آ جائے گا۔ مخالفانہ بیانات آنے بند ہو جائیں گے۔ دونوں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے باز آ جائیں گے۔ 

رہا حمزہ شریف کا مسئلہ۔ تو پنجاب پر اس کا موروثی حق تسلیم کرنا پڑے گا۔ وزیر اعلیٰ ہمیشہ شہباز شریف کا بیٹا اور مستقبل بعید میں، پوتا ہو گا۔ اس بندوبست پر سیاسی جماعتوں کی اکثریت رضا مند ہو جائے گی۔ بلاول کی افطار پارٹی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی بھی تھی۔ مولانا فضل الرحمن بھی حاضر تھے اور دیگر علاقائی جماعتوں کے سربراہ بھی! یہ سب بلاول کے ہم نوا ہیں اور مریم صدر کے بھی۔ 

اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ سندھ کی حکومت پیپلزپارٹی کی ذاتی ملکیت ہے۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ہوں یا مراد علی شاہ، اصل اقتدار زرداری صاحب کے خاندان میں رہتا ہے۔ ان کی خواہیر نیک اختر، ان کا صاحبزادہ، یہی تو سندھ کے اصل حکمران ہیں۔ اس حق کو بھی آئینی طور پر مان لینا ہو گا۔ 

جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے، تقسیم ہند سے لے کر اب تک اس پر ہمیشہ قبائلی سرداروں کی حکومت رہی ہے سوائے ان اڑھائی برسوں کے جب ایک غیر سردار، عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ رہا۔ الیکشن کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے بلوچستان کے سرداروں کی ایک کونسل بنا دی جائے۔ اس کونسل کے ارکان باری باری وزارتِ اعلیٰ پر فائز ہوں۔ صوبائی اسمبلی کے لیے یہ قبائلی سردار اپنے اپنے نمائندے نامزد کر سکتے ہیں۔ 

رہا خیبر پختون خوا…تو اسے تحریک انصاف کے سپرد کر دینا چاہیے۔ وہ اس میں الیکشن کراتی پھرے۔ اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن بھی اس صوبے پر اپنا اپنا حق جتاتے ہیں۔ الیکشن میں جو جیتے، حکومت بنا لے۔ مولانا سراج الحق بھی اصلاً اسی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرنجاں مرنج آدمی ہیں۔ کسی کا دل نہیں دکھاتے۔ تحریک انصاف کے ساتھ بھی مل کر حکومت بنا لیتے ہیں۔ ایم ایم اے میں مولانا فضل الرحمن کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔ بلاول کی افطار پارٹی میں بھی اپنے نائب کو بھیج کر دوستی کا بھرم رکھتے ہیں اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ نون کے بھی ہم نوا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ خیبرپختونخوا ہو یا پنجاب یا وفاق، جس کی بھی حکومت ہوئی، سراج صاحب اس کے لیے مسئلہ نہیں بنیں گے۔ 

جب بھی اس ملک میں الیکشن ہوتے ہیں، سیاپا پڑ جاتا ہے۔ ہارنے والے نتائج نہیں تسلیم کرتے۔ جیتنے والے انانیت کے پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں۔ مجوزہ آئینی ترامیم سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔ یوں بھی یہ کون سا امریکہ، برطانیہ یا فرانس ہے کہ دو خاندانوں کے حوالے کرنے سے قیامت آ جائے گی۔ سالہا سال سے یہی خاندان حکومت کرتے آ رہے ہیں۔ آئین اس حقیقت کا اقرار کر لے گا تو کون سا آسمان گر پڑے گا ؎ 

قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ 
اے نالہ! نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے

Thursday, May 23, 2019

کتے ، خوک زادے اور ہنسانے والا



‎کیا کیا ارمان تھے خیراں بی بی کے دل میں! 

‎ساری عمر کی حسرتیں ! سبز گنبد دیکھنے کا شوق! جالیاں چومنے کی چاہ! ایک ایک پل گن کر گزارا تھا اس لمحے کے لئے! راتوں کو سوتے سوتے تڑپ کر اٹھ بیٹھتی ! یا پاک پروردگار! امجھے مرنے سے پہلے اپنے گھر کی زیارت کرا دے۔ مجھے مدینہ دکھا دے! مجھے مدینہ کی گلیوں میں پڑا رہنے والا ککھ بنا دے۔ نہیں تو اس جھونکے ہی کا روپ دے دے جو مدینتہ النبیؐ کے کوچوں سے گزرتا ہے! 

‎ایئر پورٹ پر انیس مئی کو خیراں بی بی پہنچی تو تسبیح ہاتھ میں تھی اور درود ہونٹوں پر! ساتھ تین عورتیں اور بھی تھیں۔ رفیقہ ہائے سفر! چاروں جدہ جانے والے جہاز کے لئے کاغذات چیک کرانے قطارمیں کھڑی تھیں۔ چاروں ان پڑھ! چاروں معصوم! سادہ دل! سادہ لوح! دوسروں پر اعتبار کرنے والی! 

‎امیگریشن والا۔ ویزوں پر لگی ان کی تصویریں دیکھتا‘ پھران کے چہروں پر نظریں جما لیتا اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا پاسپورٹ ان کے ہیں اور الیکٹرانک ویزے کسی اور کے! چاروں نہ جا سکیں۔ زندگی بھر کے ارمان ہوا میں تحلیل ہو گئے ؎ 

‎یہ تو ہے یاد ہے تیری کہ میری حسرت ہے 
‎یہ کون ہے مرے سینے میں سسکیاں لیتا 

‎ٹریول ایجنٹ نے فریب کاری کی تھی! دھوکہ دیا تھا۔ لاکھوں کی رقم بٹور لی اور ان کا زندگی بھرکا شوق بے کنار حرص کی بر چھی سے  قتل کر دیا! 

‎لالچ اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کعبہ اور گنبد خضریٰ سے بھی حیا نہیں آتی! یہ خبر پڑھ کر آنسوئوں کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ گلی کا آوارہ کتا آ کر قدموں میں لوٹنے لگا۔ 

‎صاب جی! کیا ہوا کیوں رو رہے ہو؟ 

‎میں نے کہا۔ ذرا پرے ہٹ جائو! تم ناپاک جانور ! میرے نماز ی کپڑے خراب نہ ہو جائیں! 

‎آوارہ کتے نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں! حیرت ہوئی کہ اس کی آنکھیں آنسوئوں سے چھلک رہی تھیں! بھرائی ہوئی آواز میں بولا

‎’’صاب جی! ناپاک سہی مگر اس انسان سے بڑھ کر ناپاک نہیں جو معصوم عورتوں کو مکہ اور مدینہ کے نام پر دھوکہ دیتا ہے! کتنے ہی عاشقان رسولؐ یہ حسرت لیے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ کاش! مدینتہ النبیؐ کی گلی کا کتا بنتے! کیا کبھی کسی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ٹریول ایجنٹ بنتا اور مدینہ کے، مکہ کے نام پر سادہ لوح عورتوں کو لوٹتا؟ 

‎کتے کے سر پر پیار بھرا ہاتھ پھیرا! اور آگے بڑھ گیا۔ سامنے والی پہاڑیوں سے جنگلی سؤروں کا ریوڑ نیچے اتر رہا تھا۔ شاید ان کا ارادہ کھیتوں میں کھڑی فصل کو اجاڑنے کا تھا! ایک سؤر میرے پاس آیا۔ پستہ قد جانور میرے قدموں میں کھڑا ہو گیا اوپر دیکھا اور کہنے لگا۔ 

‎صاب جی! آج اداس ہیں؟ کیا ہوا۔ 

‎میں نے جھڑکا ’’خوک زادے! پرے ہٹ! تو اتنا پلید ہے کہ کلامِ الہی میں تیرا نام لے کر تیرا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے! 

‎خوک زادہ پہلے ہنسا اورپھر روہانسا ہو کر بولا۔

‎’’خیر صاب جی! جانے دیجیے! میں حرام سہی! ناپاک سہی!مگر اس کے بارے میں کیا کہیں گے جس نے چند کھنکتے سکوں اور چند کھڑکھڑاتے کرنسی نوٹوں کے لئے غلافِ کعبہ کو چومنے کی حسرت دل میں پالنے والوں کو بھی نہ بخشا اور جن کا شوق ساری زندگی ایڑیاں رگڑتا رہا انہیں سبز گنبد دیکھنے کی نعمت سے محروم کر دیا!نعمت جو ان کے جسم کی ایک ایک رگ میں‘ خون کے ایک ایک قطرے میں، ہڈیوں کے اندر والے گودے میں‘ حسرتوں کا طوفان اٹھا رہی تھی! 

‎میں فیصلہ نہ کر پایا کہ یہ خُوک زادہ زیادہ ناپاک ہے یا ان عورتوں کا مجرم؟ 

‎کیا اس ٹریول ایجنٹ کو سزا ملے گی؟ کم سے کم سزا تو یہ ہونی چاہیے کہ عمر بھر کے لئے اسے دیکھنے‘ سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے۔ مگر ابھی تو اس نے خدا کے نام پر بننے والے اس ملک میں نہ جانے کتنوں کو لوٹنا ہے؟ کتنوں کے ارمانوں کا خون کرنا ہے؟ 

‎کیسا ملک ہے جہاں دریائوں کو آگ لگی ہے اورصحرا پانیوں کو پی رہے ہیں! جہاں ٹہنیاں زمین کے اندر ہیں اور جڑیں دھرتی کے اُوپر! جہاں لالچ اوڑھنا بچھونا ہے اورحرص لوگوں کے دلوں کے اندرتخت حکمرانی پر بیٹھی ہے!

‎ جنگلی سؤروں کا ریوڑ جا چکا تھا۔ نہیں معلوم وہ فصلیں اجاڑنے گئے تھے یا اب ان کا رُخ اس ٹریول ایجنٹ کی طرف تھا جس نے معصوم زائرات کو خون کے آنسو رلوائے تھے۔ دائیں طرف سے آہ و بُکا کی آوازیں آنے لگیں دیکھا تو ڈولفن پولیس کے چاراہلکار روتے بلکتے‘ عورتوں کی طرح ماتم کرتے آ رہے تھے! وردیاں ان کی تار تار تھیں۔ ہیلمٹ ٹکڑے ٹکڑے ان کے ہاتھوں میں تھے۔ یہ ساندہ سے آ رہے تھے پوچھا کیا ہوا۔ منمناتے ہوئے کہنے لگے کہ ون ویلنگ کرنے والوں کو منع کیا تھا‘ انہوں نے مارا ہے! ان کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ یہ پولیس مَین تھے مگر حالت ان کی یوں تھی جیسے نہتوں کا حال تربیت یافتہ پولیس کر دے! 

‎اس پر یاد آیا کہ لاہور میں ایک حکمران تھا۔ جو ہنساتا بہت تھا۔ ہَیٹ سے خرگوش اور خرگوش سے لمبے بوٹ نکالتا۔ یاد نہیں آ رہا کہ ہنسانے والے کو کہتے کیا ہیں۔ انگریزی میں نہ جانے‘ہنسانے والے کے لئے کیا لفظ ہے۔ شایدCسے آغاز ہوتا ہے۔ ایک لفظ ہنسانے والے کے لئے اردو میں بھی موجود ہے۔ شاید م سے شروع ہوتا ہے۔ قصہ کوتاہ ہنسانے والے حکمران نے جو پولیس موجود تھی‘ اس پرتوجہ دینے کے بجائے ایک نئی فورس قائم کی جسے اس نے ڈولفن کا نام دیا۔ اس میں اٹھارہ سو کانسٹیبل، ساٹھ اے ایس آئی اور چار ڈی ایس پی تھے۔ اوپر ایک ایس پی بہادر بھی مامور ہوا۔ تین سو انیس موٹر سائیکل دیے گئے۔ ہونڈا پانچ سو سی سی ملے۔ دس بسیں عنایت کی گئیں اور سینکڑوں ہیلمٹ!ہیلمٹ بھی ایسے کہ ہر ہیلمٹ میں بلیو ٹوتھ نصب تھا۔(یہ اور بات کہ وہ کام نہ آیا) راستے بتانے والے آلات(جی پی ایس) وائرلیس ریڈیو‘ کیمرے‘ غرض ہر شے مہیا کی گئی۔ وردی بھی نئی تجویز ہوئی۔ مگر لاہور میں سٹریٹ جرائم ڈولفن کے قیام کے بعد بڑھے- کم نہیں ہوئے۔ 

‎کبھی ڈولفن‘ کبھی ایلیٹ فورس‘ اصل مقصد شہریوں کی حفاظت نہیں‘ شاہی خاندان کا تحفظ تھا۔ محلات کے شہر جاتی امرا سے لے کر لاہور کے متعدد مقامات پر واقع محلات۔ پولیس کے پہروں سے پروئے ہوئے تھے۔ 

‎بہر طور‘ زخمی ڈولفن فورس کے سپاہیوں میں سے ایک کو‘ جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ میں نے کہا کہ تمہارے پاس ہلکا اسلحہ بھی تھا، ہتھکڑیاں بھی تھیں۔ وائرلیس بھی تھا۔ پھر بھی تم مار کھاتے رہے! اپنا دفاع نہ کر سکے اور تھے بھی تم کم ازکم چار! ڈولفن اہلکار نے خون تھوکا اور کہنے لگا

‎’’آپ کو معلوم ہے۔ ہم ہنسانے والے حکمران کی تخلیق ہیں! اس کا اورکون سا منصوبہ سنجیدہ تھا کہ ڈولفن بھی سنجیدہ نکلتا اور پھر ہمیں چُوڑیاں بھی تو نہیں مہیا کی گئی تھیں!

Tuesday, May 21, 2019

مولانا طارق جمیل ……صحرا میں اذان دے رہا ہوں


‎شبر زیدی نے کہا ہے کہ تین سو کمپنیاں ہیں اور ان میں سے صرف اسی انکم ٹیکس دے رہی ہیں، سمگلنگ دھڑا دھڑ ہو رہی ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے علاوہ بھی سمگلنگ زوروں پر ہے۔ 

‎ایف بی آر کے چیئرمین نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ برس ساٹھ ارب ڈالر کی درآمدات کی گئیں۔ ایک سال میں دس ہزار مشکوک بنک سرگرمیاں ہوتی ہیں، بائیس کروڑ کی آبادی میںانکم ٹیکس گوشوارے صرف انیس لاکھ افراد جمع کرا رہے ہیں! 

‎یہ صورت احوال عمران خان کو معلوم ہوتی تو اقتدار میں آنے سے پہلے ان عزائم کا اظہار نہ کرتے جن کا کرتے رہے! اب یہ تھیوری درست ثابت ہو رہی ہے کہ صرف ٹاپ پر دیانت دار قیادت ہو تو سب درست نہیں ہو سکتا۔ خزاں کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ چند پھول کھل کر پیش منظر کو کیسے بدلیں گے؟ بددیانتی اور بد نیتی پاکستان کی سرزمین پر وال ٹو وال کارپٹ کی طرح بچھی ہے! 

‎یہ مارچ کے اوائل کا ذکر ہے! وفاقی دارالحکومت کے ایک پررونق، پوش، سیکٹر کے مرکز میں واقع ایک بہت بڑی دکان میں جانا ہوا جو صرف اور صرف مذہبی کتابیں فروخت کرتی ہے۔ قرآن پاک کے ایک خاص پرنٹ کے نسخے کی تلاش تھی جس کی فرمائش بیرون ملک سے ایک عزیز نے کی تھی۔ دکان پر بچوں کیلئے کچھ کتابیںنظر آئیں، انگریزی اور اردو دونوں ہیں جو چن لی گئیں۔ کاؤنٹر پر کریڈٹ کارڈ پیش کیا تو تقدس مآب فرمانے لگے کہ ’’ہم تو کریڈٹ کارڈ نہیں لیتے‘‘! فوراً! بات سمجھ میں آگئی کہ ٹیکس سے بچنے کا حیلہ ہے! کریڈٹ کارڈ پر خریدو فروخت دستاویزی ہو جائے گی۔ کچھ کتابیں کم کر دیں! جتنی کیش پاس تھی دے دی۔ توقع کے عین مطابق حضرت نے رسید نہ دی! یہ دارالحکومت کا حال ہے ع 

‎قیاس کن زگلستان من بہار مرا 

‎اس ایک باغ سے پوری بہار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے! 

‎ملک کا سدھار کیسے ممکن ہے جب بھاری اکثریت ملک کا سوچ ہی نہیں سکتی! سمگلنگ سے لے کر ٹیکس چوری تک سب کچھ زورو شور سے جاری ہے! راتوں کو بازار کھول کر توانائی کے ساتھ ہولی کھیلی جا رہی ہے! یہ جو تاجروں کی انجمنیں ہیں جو قانون پر عمل پیرا ہونے کے بجائے ہڑتال کو ترجیح دیتی ہیں۔ کیا ان انجمنوں میں کوئی رجل رشید نہیں ہے جو اپنے بھائیوں کو سمجھائے کہ آؤ! اس ملک کا سوچیں۔ حرام خوری۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور بدعہدی چھوڑ دیں! حکومت کے ساتھ تعاون کریں! 

‎ایک دلیل یہ ہے کہ قوت نافذہ کمزور ہے! مگر سوال یہ ہے کہ کیا بائیس کروڑ افراد پولیس میں مامور کرنا ممکن ہے؟ کیا حب الوطنی کا کوئی رول نہیں؟ کیا خوف خدا عنقا ہو چکا ہے؟ اپنے ہاتھوں سے ملک اجاڑ رہے ہیں! اپنی آئندہ نسلوں کے راستے میں خود کانٹے بو رہے ہیں! تین سو کمپنیوں میں سے ٹیکس دینے والی صرف اسی!! غضب خدا کا! ستائیس فی صد سے بھی کم! ایک نوجوان ٹیکس افسر کا سنایا ہوا واقعہ پھر یاد آ رہا ہے! ایک کمپنی کے ڈائریکٹر صاحب اس کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے کھاتے چیک ہو رہے تھے۔ ڈائریکٹر صاحب مسلسل ورد وظیفہ کر رہے تھے، اذان ہوئی تو تڑپ کر اٹھے کہ جماعت نہ رہ جائے۔ واپس آئے تو ٹیکس افسر نے پوچھنے کی جسارت کی کہ حضرت! آپ اس قدر عبادت گزار اور ذکر الٰہی میں سرگرم! مگر کھاتے آپ کے جھوٹ اور جعل سازی سے لبریز!! یہ کیوں؟ اس کا انہوں نے کوئی جواب نہ دیا سوائے اس کہ منہ کھول کر آنکھیں حیرت سے پھاڑ دیں! وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ مذہب صرف اور صرف عبادات کا نام ہے! معاملات اپنے نفس کی مرضی سے طے کیجیے! 

‎درست تشخیص کی ہے مولانا طارق جمیل نے کہ دنیا کی قیادت کرنے والے ملکوں کی ترقی اور عزت کی وجہ ان کے ہاں سچائی، دیانت داری اور انصاف ہے! مولانا نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں عام طور پر منبر سے معاشرت اور اخلاقیات کی بات نہیں ہوتی۔ علما میں سے کچھ فرقہ واریت پر اور باقی عبادات پر فوکس کر رہے ہیں! اخلاقیات پر بات کرنے والے علما بہت کم ہیں! یہی بات جو مولانا نے فرمائی تاہم جیسے بے بضاعت عرصہ سے کر رہے ہیں کہ اسلام کو عبادات تک مخصوص کر دیا گیا ہے اور معاملات و معاشرت سے باہر نکال دیا گیا ہے۔خدا مولانا کی عمر دراز کرے۔ تبلیغی جماعت بلکہ تمام مذہبی جماعتوں کو پوری تاریخ میں مولانا پہلے نمایاں مبلغ ہیں جنہوں نے معاملات کو اہمیت دی اور حقوق العباد پر زور دیا۔ اس صحرا میں وہ اکیلے ہیں جو اذان دے رہے ہیں۔ روایت یہ بھی ہے کہ مولانا کی اس متوازن اپروچ کو پرانی روش کے بزرگ تحسین سے نہیں دیکھتے۔ 

‎اسلام کو صرف عبادات تک مخصوص کرنے کا بھیانک انجام یہ نکلا کہ ایک طرف ہمارے تاجروں کی بھاری تعداد مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہے اور دوسری طرف ملاوٹ اور چور بازاری عام ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تجارت میں ملاوٹ، دروغ گوئی اور عہد شکنی کا سب سے زیادہ رواج پاکستان میں ہے تو مبالغہ آرائی ہرگز نہیں! تاجر کو اگر آپ چار ماہ کیلئے بازار اور معاشرت سے کاٹ کر مسجد میں مقید کر دیں گے تو اس کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ اسلام صرف عبادات کا نام ہے! اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ بازار میں وہ جو کچھ کر رہا ہے اس کا مداوا عبات کرنے اور چلہ کاٹنے سے ہو جائے گا!

‎ ہم مولانا طارق جمیل صاحب کی خدمت میں درخواست کرتے ہیں کہ جہاں تبلیغی جماعت کے نصاب میں فضائل قرآن۔ فضائل نماز، فضائل ذکر اور دیگر عبادات کے فضائل پر مشتمل کتابیں شامل ہیں وہاں ایک کتاب حقوق العباد پر بھی شامل نصاب کرنے کی کوشش فرمائیں اور ایک کتاب صرف تاجر برادری کیلئے مخصوص ہو جس میں ٹیکس چوری، ملاوٹ سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری اور فروخت کرتے وقت شے کے نقص کو ظاہر نہ کرنے کا انجام واضح کیا جائے! ہمیں معلوم ہے کہ تبلیغی جماعت میں حقوق العباد پر اٹھنے والی آواز تنہا انہی کی ہے اور نصاب میں اضافے کرانا آسان کام نہ ہو گا مگر مولانا کوشش تو فرمائیں۔ 

‎مولانا نے فرمایا ہے کہ عمران خان پہلا شخص ہے جس نے ریاست مدینہ کا نام لیا ہے اس لئے اس کا ساتھ دینا چاہئے! ساتھ دینے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تاجروں کو ریاست کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب دی جائے اور مَنْ غَشّ فَلَیْسَ مِناّ (ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں) اور من احتکر طعاماً اربعین لیلۃ فقد بری من اللہ تعالیٰ وبری اللہ تعالیٰ مِنْہُ (جس نے اشیائے خورد و نوش کی ذخیرہ اندوزی چالیس راتوں تک کی، اللہ اس سے بری اور وہ اللہ سے بری ہے) جیسے احکام تاجروں کیلئے نصاب میں شامل کیے جائیں۔ 

‎بعینہ اگر مذہبی احکام کے عمل کرنے والے تاجر دکانیں صبح نو بجے کھولیں اور سرشام بند کر دیں تو یہ ایک ایسا رجحان ہو گا جس کی پیروی دوسرے تاجر بھی کرنے پر مجبور ہوں گے! 

‎اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ جو عمران خان کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں خدا ان کی خواہش پوری کرے مگر خواہش کے ساتھ کوشش بھی لازم ہے!!

Sunday, May 19, 2019

کوئی ہے جو اس قتلِ عام کو روکے




یہی کہا ہے نا کہ کمزور ترین کرنسی ہے پاکستان کی؟


 مان لیا کمزور ترین ہے! مگر گزارہ ہو جائے گا۔ ایک وقت فاقہ کر لیں گے۔ چُپڑی ہوئی نہ سہی‘ سوکھی کھا لیں گے۔ گوشت کے بجائے چٹنی پر قناعت کر لیں گے۔ مگر جس ملک میں ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں سے ہو اس میں کون بچے گا؟ مغربی سیاح کا کمنٹ نہیں بُھولتا۔


‏People have been left on roads to kill each other! 


خلق خدا شاہراہوں پر ایک دوسرے کو کھلے عام قتل کر رہی ہے! 


قمر زمان کائرہ کا جواں سال بیٹا ٹریفک کے حادثے کی نذر ہو گیا ع 


دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے! 


جو ماں باپ ایسے روح فرسا سانحے سے گزر چکے ہوں۔ وہی اس قیامت کا اندازہ کر سکتے ہیں!اولاد ماں باپ کو کاندھا دینے کے لئے پال پوس کر بڑی کی جاتی ہے مگر جب موت و حیات کا مالک فیصلہ کر لے کہ باپ نے کاندھا دینا ہے تو آمناّ و صدّقناَ کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! امانتیں سپرد کرنے والا امانتیں واپس لے لیتا ہے! وقت کا تعین وہی کرتا ہے! مگر ڈھلتی عمر والے ماں باپ اس کے بعد ہر روز مرتے ہیں! 


ہر روز جیتے ہیں! کاش کوئی ایسا دلدوز حادثہ اس ملک کے اربابِ حل و عقد کو عقل سکھا دے کہ اس قتل عام کو روکنا ہے! مدتوں سے اس ملک کی شاہراہوں پر بدترین خانہ جنگی جاری ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ وحشیوں کو ڈرائیونگ لائسنس دے دیے جاتے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بے مہار ڈمپر‘ ٹریکٹر‘ ٹرالیاں‘ سڑکوں پر دندنا رہے ہیں۔ کاروں کو کچل دیتے ہیں۔ کوئی پوچھ گچھ نہیں! کوئی نیاں نہیں۔ راولپنڈی میں پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر جیسا ہیرا‘ عالم فاضل‘ طلبہ کے دلوں پر حکمرانی کرنے والا۔ ڈمپر کے نیچے آ کر کچلا گیا۔ شہر کے رکھوالوں کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی! 


ستر کی دہائی کے اوائل تھے۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کا ارادہ تھا۔ تیاری بھی تھی۔ اس لئے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اکنامکس میں ایم اے کرنے کے دوران‘ بنگالی دوست رفیق اللہ اکثر و بیشتر طعنہ دیتا کہ ایم اے کرنا ہو تو انگریزی ادب میں کیا جائے۔ ورنہ شاعری کا دعویٰ چھوڑ دو۔ اس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی انگریزی ادب تھا۔ اداس آنکھوں سے افق کو دیکھتا اور شہزادہ ہیملٹ کا فقرہ دہراتا۔


‏ To Be, or not to be that is the Question 


اتنی دماغ شوئی کی کہ مغربی پاکستان واپس آ کر انگریزی میں ایم اے کی تیاری شروع کر دی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا۔ داخلہ بھیجنے کا وقت آیا تو سی ایس ایس کا داخلہ بھیج دیا۔ صرف چند ہفتے تھے لولی لنگڑی ‘ ماڑی موٹی‘ گرتی پڑتی تیاری کی! ایک پرچے کے لئے مسلمان ملکوں میں جاری ہم عصر تحریکوں کا حال درکار تھا۔اس موضوع پر کچھ مل ہی نہیں رہا تھا۔ کسی نے بتایا کہ خلیل حامدی کی تصنیف ’’عالم اسلام اور اس کے افکار و مسائل‘‘ دیکھو! کیا مبسوط تذکرہ کیا تھا خلیل حامدی صاحب نے انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک سب پر ان کی نظر تھی پھر ایک دن والد گرامی مرحوم کے پاس تشریف لائے۔ مولانا مودودی کی کسی کتاب یا کچھ کچھ کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرنے کی فرمائش کی۔ والد گرامی مرحوم کی صحت ان دنوں ڈانواں ڈول تھی! معذرت کی! 


عربی زبان کے بحر ذخار خلیل حامدی کا انجام اس ملک میں کیا ہوا؟ کیا کسی کو یاد ہے؟ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت کو تو شاید نام تک معلوم نہ ہو اس لئے کہ عبدالحمید صدیقی‘ مصباح الاسلام فاروقی‘ نعیم صدیقی‘ خلیل حامدی‘ ملک غلام علی‘ اسعد گیلانی‘ پروفیسر غلام اعظم اور خرم جاہ مراد جیسے اصحابِ قلم آج کی جماعت اسلامی کے لئے اجنبی ہیں۔ اب سیف رہی نہ قلم رہا ! ؎ 


گل گئے گلشن گئے جنگلی دھتورے رہ گئے 

عقل والے چل بسے کچھ بے شعورے رہ گئے 


اب تو پیش منظر پر وہ لوگ ہیں جو گہرا شعور اور ادراک رکھتے ہیں مگر کاروبار کا‘ پراپرٹی کا! کسی کے اعمال نامے میں کتاب تو کیا ایک صفحہ بھی ہو تو سورج مغرب سے طلوع ہونے کی ضد کرے! رہی تقریر! تو اس فن کے ایسے ایسے ماہرین ہیں کہ اچھے بھلے جاگتے کو تھپکی دے کر سلا دیں!


 کیا انجام ہوا خلیل حامدی کا؟ ایک ٹرالی نے کہ شاید گنے ڈھو رہی تھی‘ ان کی گاڑی کوکچلا جیسے وہ انسان نہ ہوں‘ ایک بے بضاعت کپڑا ہوں! شیخ فریدالدین عطار کو ایک تاتاری سپاہی نے غلام بنا لیا۔ کسی نے اس غلام کو خریدنے کے لئے دس ہزار اشرفیاں پیش کیں۔ عطار نے سپاہی کو متنبہ کیا خبردار! اتنے میں نہ بیچنا۔ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے! ایک اور خریدار نے عطار کے عوض گھاس کے گٹھے کی پیشکش کی۔ عطار نے کہا لے لو! میری قیمت تو اتنی بھی نہیں ! سپاہی جھلا گیا۔ غصے میں قتل کر ڈالا۔ روایت ہے کہ بعد میں جب قاتل کو مقتول کا مقام و مرتبہ معلوم ہوا تو ندامت میں غرق ہوگیا۔ مسلمان ہو کر ان کے مزار پر ہی بیٹھ گیا۔ خلیل حامدی کو قتل کرنے والا ٹرالی کا ڈرائیور اس وحشی تاتاری سے بدتر تھا کیوں کہ اسے بعد میں بھی نہ معلوم ہوا ہو گا کہ اس نے ایک باکمال عالم مصنف اور مترجم کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔


 پاکستان کی ٹریفک آج 2019ء میں بھی بدترین ہے۔ مائوں کے لخت ہائے جگر بہنوں کے بھائی‘ دلہنوں کے سہاگ‘ بچوں کے باپ‘ گھروں سے نکلتے ہیں اور لاشوں کی صورت میں پلٹتے ہیں۔ پولیس کا رول صفر سے کم تر ہے۔ ہدایات نہ تربیت ! نہ قانون کا نفاذ! نہ جیل کا ڈر نہ پھانسی کا خوف! ویگن کا مالک ڈرائیور کو وارننگ دیتا ہے کہ اتنے منٹ میں تم نے اس روٹ پر ایک پھیرا پورا کرنا ہے تاکہ دن میں اتنے پھیرے لگ سکیں اور اتنی کمائی ہو سکے اب وقت کی یہ قید ڈرائیور کو مسلسل کوڑے مارتی ہے۔ اسے سڑک پر کوئی گاڑی دکھائی دیتی ہے نہ پیدل چلنے والا۔ وحشت اس کے سر پر سوار ہے۔ اتنے وقت میں پہنچنا ہے! خلق خدا کیوں نہ قتل ہو! 


موٹر سائیکل سواروں نے الگ حشر برپا کر رکھا ہے۔ سانپ کی طرح ادھر سے ادھر دائرے بناتے ہوئے۔ گاڑیوں کے بیچ سے نکل کر زن سے جا رہے ہوتے ہیں! ٹرک ڈرائیور ہائی ویز پر کاروں کو راستہ نہیں دیتے۔ اکثر چرسی ہیں اور جرائم پیشہ! بڑے شہروں کو تو چھوڑ دیجیے‘ ضلع‘ تحصیل‘ یونین کونسل اور اس سے نیچے کی سطح پر جو حشر برپا ہے‘ ناقابل تصور ہے! پتھر کے زمانے میں گاڑیاں ہوتیں تو ٹریفک اس سے بدتر نہ ہوتی۔ 


جی ٹی روڈ‘ موت کا کنواں ہے۔ صرف گتکا کھیلنے کا ماہر اس پر کامیاب ڈرائیونگ کر سکتا ہے۔ اس شاہراہ پر سفر کرنے والا ہماری تہذیب‘ ہمارا کلچر‘ ہماری انسانیت ‘ہمارا ایمان۔ ہمارا اندر باہر سب کچھ جانچ لیتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیے۔ کتنے شہر درمیان میں پڑتے ہیں کسی شہر کی انتظامیہ میں خوف خدا ہے نہ عقل کہ بازار اور جی ٹی روڈ کے درمیان حدِ فاصل تعمیر کر کے سروس روڈ الگ بنا لیں۔ بازار اور شاہراہ آپس میں گڈ مڈ ہیں۔ ریڑھیاں شاہراہ پر ہیں اور گاڑیاں دکانوں میں گھس رہی ہیں۔ صندوق میں بندوق ہے بندوق میں گولی۔ اعصاب چٹخ جاتے ہیں۔ بازاروں کے لئے سروس روڈز الگ بن جائیں۔ بڑی شاہراہ اور سروس روڈ کے درمیان دیوار بنا دی جائے تو خلق خدا کو سکون ملے۔ ہر بار اس شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے لڑائی جھگڑے نظر آتے ہیں۔ ڈرائیور ایک دوسرے سے دست و گریباں‘ کہیں زخمی پڑے ہوتے ہیں کہیں لاشیں اٹھائی جا رہی ہوتی ہیں! 


تہذیب و ترقی دو چیزوں سے جانچی جاتی ہے۔ ٹریفک اور واش روموں کی صفائی کا معیار! ہم دونوں میں ناکام ہیں! 


کسی دوسرے ملک کو ٹھیکہ دے دیجیے کہ ہماری ٹریفک کو قانون کے دائرے میں لے آئے۔ اپنے حکمران‘ اپنے عمال ‘ یہ کام نہیں کر سکتے! شاید آئندہ ستر برس بھی!! ۔

Saturday, May 18, 2019

بد بخت کہیں کے



‎پھر وہی سیاپا وہی پھوہڑی ! وہی سینہ کوبی وہی ماتم! ؎ 

‎آج بھی صید گہ عشق میں حُسنِ سفّاک 
‎لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا 

‎یہ رمضان بھی اپنے نصف کو پہنچنے والاہے مگر نالاں ہے! شاکی ہے! فریاد کناں ہے۔ہم منافقین سے پناہ مانگ رہا ہے! اس کا بس چلے تو کٹر کتا عذاب نازل کر دے! 

‎یہ لطیفہ بھی پرانا ہو چکا ہے جو کمال بے شرمی بے حیائی اور ڈھٹائی سے ہم منافقین ہنس ہنس کر ایک دوسرے کو سناتے ہیں کہ کسی ترقی یافتہ ملک کے غیر مسلم نے مسلمان سے پوچھا روزے میں کیا کیا کرتے ہو اور کیا کیا نہیں کرتے۔ مسلمان نے فخر سے سینہ پھیلایا اور کہا کہ رمضان میں سحری سے افطار تک اکل و شرب سے پرہیز کرتے ہیں۔ ساتھ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولیں‘ وعدہ خلافی نہ کریں۔ کسی کو دھوکہ نہ دیں! ماپ تول میں خیانت نہ کریں! غیر مسلم نے اداس ہو کر حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ یہ سارے بُرے کام جن سے تم رمضان میں پرہیز کرتے ہو‘ ہم تو ان سے سارا سال پرہیز کرتے ہیں۔ 

‎یہ نوحہ خوانی بھی ہر سال ہوتی ہے کہ مسیحی دنیا میں کرسمس اور ایسٹر کے مواقع پر بازاروں میں ارزانی کا دور دورہ ہوتاہے———-سیلیںُُُُُُ
(sales) 
‎لگتی ہیں اور صحیح معنوں میں لگتی ہیں۔ کچھ تو غیر مسلم ملکوں کے بڑے بڑے سپر سٹوروں میں رمضان کے موقع پر بھی اشیا سستی کر دی جاتی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص رمضان اور عید کے ساتھ بازاروں میں ایک وحشت در آتی ہے! ایک بربریت دندنانے لگتی ہے! سبزی اور پھل سے لے کر تمام اشیائے خوردو نوش تک۔ جوتے اور کپڑوں سے لے کر‘ تمام سامان آرائش و زیبائش تک۔ گرانی اپنا منحوس سایہ پھیلا دیتی ہے۔ تاجر جلاد بن جاتے ہیں عوام کے گلے میں مہنگائی کا پھندا ڈال دیا جاتا ہے۔ 

‎یہ رونا دھونا‘ یہ آہ وزاری ‘ یہ پٹنا کُٹنا ہر سال ہوتا ہے۔ کوئی رمضان کبھی ایسا نہیں آیا کہ یہ سب کچھ نہ ہو! آ بھی کیسے سکتا ہے! یہ کیسے ممکن ہے کہ جو معاشرہ گیارہ مہینے جھوٹ بولے‘ عہد شکنی کرے۔ فریب دہی میں طاق ہو‘ خیانت ہر شخص کی عادت ثانیہ ہو۔ وہ معاشرہ رمضان کا چاند دیکھ کر اپنے آپ کو تبدیل کر لے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان رزائل کا گناہ صرف رمضان میں ہوگا؟ کیا ان گناہوں کا ارتکاب باقی گیارہ مہینوں میں جائز ہے؟ ہم منافقین ‘ جب اعلان کرتے ہیں کہ اس مہینے جھوٹ، چوری، غیبت، وعدہ خلافی اور بددیانتی سے بچنا ہے تو ہم اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ عادات خبیثہ باقی سارا سال ہمارے لئے روا ہیں! 

‎ہم عجیب لوگ ہیں! ہم وہ ہیں جسے کسی نے شرم دلانے کے لئے بتایا تھا کہ تمہاری پیٹھ پر درخت اُگا ہے تو شرم کرنے کے بجائے اس نے ہنس کر کہا تھا اچھا ہے‘ سائے میں بیٹھوں گا!ہم میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اصلاح کا آغاز دوسروں سے ہو! میں اسی ڈگر پر چلتا رہوں جس پر چل رہا ہوں۔ ہم منافقین یہ حدیث ایک دوسرے کو خوب سناتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولے۔ وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کا مرتکب ہو، امانت دار بنایا جائے تو خیانت کرے۔ یہ بھی مروی ہے کہ منافق کی علامت یہ ہے کہ جھگڑا کرتے وقت گالی بکتا ہے! یہ ساری نشانیاں ہم نے سینوں پر سجائی ہوئی ہیں۔ یہ ساری علامات ہمارے گھروں کی چھتوں پر پرچموں کی طرح لہرا رہی ہیں! ہم میں سے کوئی شخص‘ دوسرے پر اعتماد نہیں کرتا۔ جو کہتا ہے کہ کل تک یہ کام کر دے گا‘ جانتا ہے کہ نہیں کرے گا۔ جو سن رہا ہے اسے بھی یقین ہے کہ وعدہ پورا نہیں ہو گا۔ مگر دونوں انشاء اللہ کہتے ہیں اور دونوں منافق ہیں۔ دونوں زمین پر بوجھ ہیں! المیے کی انتہا یہ ہے کہ دونوں کو احساس نہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں اور منافقت کر رہے ہیں! 

‎اس پر طرہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص اسلام کا علمبردار ہے! دوسروں سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ کیا تم روزے سے ہو؟ اتنی تمیز نہیں کہ ایسے سوال نہ کریں! روزہ بندے اور بندے کے خدا کا معاملہ ہے! کسی کو کسی سے پوچھنے کا حق نہیں! اسی پر بس نہیں! ہم میں سے ہر شخص ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل بنا ہوا ہے۔ فلاں نے نماز غلط پڑھی۔ فلاں قرآن درست نہیں پڑھ رہا۔ فلاں کا عقیدہ غلط ہے! فلاں گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ پھر ہم ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور وہ فتویٰ لگاتے ہیں جو ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل جیسے ثقہ فقہا بھی نہیں لگاتے تھے۔ ہم دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں! اعلان کرتے ہیں کہ فلاح کا نکاح فسخ ہو گیا ہے۔ فلاں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ اپنی نماز کی فکر ہے نہ روزے کی!قمیض میں گریبان ہی نہیں رکھتے کہ جھانکنا نہ پڑ جائے۔ ہر شخص کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں حالانکہ ارذل الخلائق ہم خود ہیں!جیب میں حرام مال ڈال کر حلال تلاش کرتے ہیں! پورا پورا بکرا خرید کر لاتے ہیں۔ باورچی کو یا بیوی کو تلقین کرتے ہیں کہ گوشت خوب نرم ہو مگر کیا رمضان کیا شعبان اور کیا محرم‘ مردہ بھائی کا گوشت کچا کھاتے ہیں خلال تک نہیں کرتے! 

‎ہمیں جس سے نفرت ہو‘ اسے یہودی قرار دیتے ہیں! یہودی کہنا بدترین نفرت کا اظہار ہے!حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں یہودی تاجر‘ یہودی کمپنیاں‘ یہودی برانڈ‘ خریدا ہوا مال‘ بغیر کسی وجہ کے واپس لے لیتے ہیںاور قیمت خریدار کو واپس کر دیتے ہیں۔ کوئی پندرہ دن کے اندر کوئی ایک ماہ کے اندر اور بہت سے ایسے ہیں کہ وقت کی قید ہی نہیں! خرید شدہ مال‘ اچھی حالت میں ہے اور رسید دکھا سکتے ہیں تو تین ماہ بعد جا کر واپس کیجیے اور ری فنڈ لے لیجیے۔ یہ برانڈ لندن میں ہیں یا نیو یارک میں یا اسلام آباد میں یا لاہور میں۔ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ مگر مسلمان کمپنیاں‘ مسلمان برانڈ، مسلمان تاجر اس کی اجازت نہیں دیتے۔ خریدا ہوا مال واپس کرنے کا تصور تک ان کے ہاں مفقود ہے! پھر بھی یہودی بُرے ہیں۔ جنت کا ٹھیکہ سارے کا سارا مسلمانوں کے پاس ہے! اب تو یہ ٹھیکہ آگے پٹے پر بھی دیا جا رہا ہے!! جنت اور دوزخ میں بھیجے جانے کا فیصلہ مسلمانوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے! سنتے آئے تھے کہ یہ فیصلہ روز محشر پروردگار عالم خود فرمائے گا! مگر روزِ محشر کا انتظار کون کرتا۔ 

‎وہ جو ہم سے پوچھا گیا تھا کہ لِم تقولون مالا تفعلون ! جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں اور جو کرتے نہیں وہ کہتے کیوں ہو؟ تو ہم مکمل بے نیاز ہیں کہ اس کا جواب سوچیں! ہماری ثقافت اور ہمارے طرز زندگی کی بنیاد ہی اس محاورے پر اٹھی ہے کہ خود را فضیحت دیگراں را نصیحت، یعنی دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت! نائب قاصد اور ریڑھی بان سے لے کر اعلیٰ ترین طبقات تک۔ ہم سب منافقت میں گلے گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ یہی مثال لے لیجیے‘ ہم واعظ ہیں تو دوسروں کو حجامہ کی تلقین کرتے ہیں احادیث سناتے ہیں۔ زور دیتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے چنگل میں نہ آئو۔ مگر خود بیمار پڑتے ہیں تو شہرکے بہترین ہسپتال میں سب سے زیادہ لائق ڈاکٹر کے پاس جا کر اینجیو گرافی کراتے ہیں۔ سٹنٹ ڈلواتے ہیں! 

‎ہر بار رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہم سے آزردہ خاطر ہو کر رخصت ہوتا ہے۔ ہم اسے زخموں سے چور کر کے الوداع کہتے ہیں۔ اگر ہم اعتراف کر لیتے کہ ہم معصیت میں مبتلا ہیں۔ ہم منافقت کا شکار ہیں تو بچنے کا امکان تھا! مگر ہم تو اصرار علی المعصیت کا ارتکاب کرتے ہیں چوری اور سینہ زوری! چور بھی اور چترا بھی یہ معصیت سے اگلا درجہ ہے۔ اسے بغاوت کہتے ہیں! اس کا نام نافرمانی ہے!

‎ مگر اس قصے کو چھوڑیے آئیے! افطار کے بعد چل کر کسی کیفے میں بیٹھتے ہیں اور یہود و ہنود کی ان سازشوں کا پردہ چاک کرتے ہیں جو وہ ہمارے خلاف کر رہے ہیں! بدبخت کہیں کے!

Thursday, May 16, 2019

اچھے ماتحت


‎یہ ایک مختصر‘ عام سا بیان ہے جسے ہو سکتا ہے بہت سے اخبار بینوں نے غور سے پڑھا بھی نہ ہو۔ مگر ایک خاص طرز سیاست کا کچا چٹھہ کھول رہا ہے جو اس ملک پر مسلط ہے!

‎ ’’مریم نواز ایک سیاسی کارکن ہیں وہ سیاسی میدان میں بھر پور کردار ادا کرتی ہیں لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتیں‘‘ 

‎یہ بیان کس کا ہے؟ یہ اہم نہیں! اس لئے کہ مقصد کسی کی ذات یا کسی کے نام کو موضوع سخن بنانا نہیں۔ مقصد اس فرق کو سامنے لانا ہے جو ہماری جمہوریت اور ترقی یافتہ ملکوں کی جمہوریت میں ہے۔ 

‎ہماری جمہوریت میں خاندان اہم ہے پارٹی اہم نہیں! ترقی یافتہ ممالک میں پارٹی اہم ہے۔ خاندان اہم نہیں! 

‎کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی برطانوی سیاست دان سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی یا اس کے خاندان کی صفائیاں پیش کر رہا ہو؟ امریکہ کے اخبارات کھنگال لیجیے۔ یو ٹیوب پر تقریریں۔ بیانات‘ چھان ماریے‘ کوئی ڈیمو کریٹ سیاستدان ایسا نہیں ملے گا جو سابق صدر بارک اوباما کے خاندان کی تعریفیں کر رہا ہو!یہ طرز جمہوریت صرف ہمارے ہاں رائج ہے کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کی بیٹی کے لئے میدان صاف کیا جا رہا ہے اور فل ٹائم خاندانی وفادار صاحبزادی کے حاجب بنے ہوئے ہیں ان حاجبوں کا اپنا کیا مستقبل ہے؟ کیا تاریخ انہیں یاد رکھے گی؟ 

‎نہیں! تاریخ خاندانی غلاموں کو ہمیشہ کوڑے دان میں ڈالتی ہے۔ عباسیوں نے ایک ایک اموی شہزادے کو موت کے گھاٹ اتارا۔ صرف ایک بچ پایا۔ عبدالرحمن جو قسمت کا دھنی نکلا اور اندلس پہنچ کر عبدالرحمن اول اور عبدالرحمن الداخل کے نام سے مشہور ہوا۔ دمشق میں تعاقب کرتی ننگی تلواروں سے بچ کر شمالی مراکش پہنچا اور پھر سمندر عبور کر کے اندلس لینڈ کرنا آسان نہ تھا۔ اس طویل‘ اذیت ناک سمندر میں اس کا ساتھ کس کس نے دیا؟ شام سے مصر اور مصر سے تیونس (اس وقت تیونس کو ’’افریقہ‘‘ کہا جاتا تھا) پھر تیونس سے مراکش تک کے خطرناک سفر میں کون اس کا ہم سفر تھا؟ کیا کسی کو نام یاد ہے؟ نہیں ہاں! تاریخ کی کرم خوردہ کتابوں میں ڈوب جائیے تو نام مل پائیں گے۔ ورنہ نہیں! اس لئے کہ خاندانی وفاداروں کو تاریخ نے کبھی اہمیت نہیں دی خواہ وہ امویوں کے خاندانی وفادار ہوں یا زرداریوں کے یا شریفوں کے! ان خاندانی وفاداروں کو ملنے والا یہ صلہ کیا کم ہے کہ ان کی زندگی میں لوگ ان کا نام سنتے رہتے ہیں! 

‎نوجوان ظہیر الدین بابر فرغانہ سے بھاگا۔ سالہا سال جدوجہد کرتا رہا۔ پہاڑیوں میں چھپتا کبھی جان بچا کر صحرائوں میں بھاگتا پھرتا۔ اس سارے عرصہ میں کون کون اس کے ساتھ رہا۔ بابر سے لے کر اورنگ زیب تک سب کے نام بچے بچے کو آج بھی یاد ہیں مگر جنہوں نے بابر کا ساتھ دیا۔ انہیں کوئی نہیں جانتا۔

‎ اور آخری مثال۔ ہمایوں در بدر ہو کر بھٹکتا رہا۔ جب عمر کوٹ میں اکبر پیدا ہوا تو بے کسی کا عالم یہ تھا کہ معزول بادشاہ کے لئے گوشت خود (ہیلمٹ) میں ابالا گیا پھر ایران پہنچا مدد ملی تو کابل کو فتح کیا پھر سوریوں سے سلطنت واپس چھینی۔ اس طویل جدوجہد میں چند جاں نثار ہمایوں کے ساتھ ہی رہے۔ سوائے بیرم خان کے تاریخ نے کسی کو اس قابل نہیں گردانا کہ اس کا نام آج معروف ہو۔ بیرم خان کا نام بھی اس لئے باقی رہ گیا کہ اکبر نے تاج پہنا تو بچہ تھا۔ عملی طور پر کئی برس بیرم خان ہی حکمرانی کرتا رہا۔ 

‎کل ہماری تاریخ نے نام باقی رکھا بھی تو سعد رفیق کا یا چودھری نثار علی خان کا رکھے گی جو خاندانی غلامی کا طوق گلے میں پہننے کے لئے تیار نہ ہوئے اس طویل قامت باریش وفادار کو تو شاید فٹ نوٹ میں ایک سطر بھی نہ نصیب ہو جو مبد ء ِفیاض کا اس قدر ناشکرا تھا کہ وزیر اعظم بن کر بھی اپنے آپ کو وزیر اعظم نہ کہہ سکا اور جس نے سرکاری اڑن کھٹولے میں ایک مجرم کو فرار کرا کر قومی ’’دیانت‘‘ کا چمکدار ثبوت دیا۔ 

‎اس وفادار گروہ کی نفسیات سمجھنے کے لئے آپ کو ایک عسکری اصطلاح پر غور کرنا ہو گا۔ ایک بریگیڈیئر جب کور ہیڈ کوارٹر میں تعینات ہوتا ہے تو وہ کور کمانڈر کا چیف آف سٹاف لگتا ہے۔ یہاں اس نے فیصلے نہیں کرنے بلکہ کمانڈر کو اس کے کام میں مدد فراہم کرنی ہے اس کے احکام کی متعلقہ حلقوں تک پہنچانا ہے اور ان پر تعمیل کرانا ہے۔ اسے سٹاف پوسٹنگ کہتے ہیں۔ کل اسی بریگیڈیر کو ایک بریگیڈ کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے اب وہ بریگیڈ کمانڈر ہے۔ اب اس نے قیادت کرنی ہے، فیصلے کرنے ہیں۔ اسے کمانڈ پوسٹنگ کہتے ہیں۔ یہی صورت حال سول انتظامیہ میں ہے۔ ایک افسر کو ضلع کا سربراہ بنایا جاتا ہے تو اس نے پورے ضلع کی قیادت کرنی ہے۔ انتظام و انصرام کرنا ہے۔ فیصلے صادر کرنے ہیں۔ وہ اپنے دائرہ کار میں ٹاپ پر ہے۔ مگر جب وہ پنجاب یا سندھ سیکرٹریٹ میں تعینات ہوتا ہے تو اب اسے چیف سیکرٹری یا چیف منسٹر کے سٹاف کے طور پر کام کرنا ہے

‎ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی شرارہ کوئی چنگاری نہیں ہوتی۔ وہ قیادت کے اہل ہوتے ہیں نہ فیصلے کرنے کے ۔وہ صرف ماتحت ہو کر احکام کی تعمیل کر سکتے ہیں ایک ذہین شخص ایسے فرد کی نفسیات پر ایک طویل تقریر کرنے کے بجائے صرف ایک جملہ کہے گا کہ’’فلاں ایک اچھا ماتحت ہے‘‘ یہ جملہ جو بظاہر تعریفی ہے۔ بتا رہا ہے کہ اس میں قیادت کی اہلیت نہیں۔ انسانوں کی یہی وہ قسم ہے جو کسی حکمران خاندان کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کر لیتے ہیں۔ اسی کے سائے میں اسی کی چھتری تلے‘ وقت گزارتے ہیں۔ انہیں سیاست دان کہنا سیاست کی توہین ہے۔ یہ خاندانی غلام۔ پشتینی وفادار۔ اپنی رائے نہیں رکھتے۔ فیصلہ نہیں کر سکتے۔ قیادت ان کے بس کی بات نہیں۔ لیڈر شپ کوائلٹی ان کی صفر ہے۔ 

‎مثلاً انہی صاحب کو لیجیے جنہوں نے پرسوں مریم بی بی کے بارے میں بیان صفائی دیا ہے آپ ان کا پورا کیریر اور کیریر کاریکارڈ غور سے دیکھیے۔ یہ کوئی پالیسی بیان کبھی نہیں دیتے۔ ملک اور قوم کے بارے میں انہوں نے کبھی کوئی بات نہیں کی۔ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کا ان کے نزدیک اور کوئی طریقہ روئے زمین پر موجود ہی نہیں سوائے اس کے کہ شریف خاندان کا کوئی مرد یا عورت حکمران ہو۔ ملک میں تعلیمی نظام کیا اصلاحات چاہتا ہے؟ زراعت کن تبدیلیوں کی متقاضی ہے؟ ادارے کس پراگندگی میں ہیں؟ بین الاقوامی تعلقات کی نزاکت کیا چاہتی ہے؟ یہ سب باتیں ان کے ذہن کی رسائی سے بلند ہیں۔ گزشتہ دس سال کے ان کے بیانات دیکھ لیجیے یہ صرف دو اقسام کے ہیں۔ شریف خاندان(یا شریف خاندان کے کسی فرد) کی تعریف میں یا دفاع میں۔ اور شریفوں کے مخالفن کی مذمت میں۔ اس مذمت میں ایسے وفاداروں نے اپنے آپ کو مضحکہ خیز تک بے نقاب کر دیا۔ 

‎ایسے افراد کبھی کسی جماعت کے لیڈر نہیں بن سکتے۔ یہ صرف اچھے ماتحت ہیں۔اچھے سٹاف افسر ہیں۔ خاندان کادفاع کرنا جانتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں صرف اس وقت نمایاں ہوتی ہیں جب مربی خاندان کے مخالفوں کی کردار کشی کرنا ہوتی ہے۔ مومن نے شاید انہی کے بارے میں کہا تھا ؎ 

‎بے بخت رنگ خوبی کس کام کا کہ میں تو 
‎تھا گُل ولے کسی کی دستار تک نہ پہنچا

‎ یہ ہمیشہ کسی دوسرے کی دستار میں لگتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ بغاوت کا یہ سوچ تک نہیں سکتے۔ جی سر جی سر کہنا انہیں اچھا لگتاہے۔ وہ مر کر دوبارہ جی اٹھیں تب بھی اپنے لیڈر کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’مجھے آپ سے اختلاف ہے‘‘ 

‎اقبال نے مومنؔ سے اختلاف کیا اور ایسے لوگوں کو شرم دلائی کہ ؎ 

‎نہیں یہ شان خودداری‘ چمن سے توڑ کر تجھ کو 
‎کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کر لے 

‎یہ وہ مخلوق ہے جو کسی چھتنار کے سائے تلے اگتی ہے۔ وہیں پرورش پاتی ہے۔ وہیں مرجھا کر زمین کا رزق ہو جاتی ہے۔ سیاست کے دامن پر یہ داغ ہیں ایسا داغ جسے خوشننما کہنے کے لئے ’’اچھا ماتحت‘‘ ہونا ضروری ہے!

Tuesday, May 14, 2019

اب افاقہ ہے؟



یوگی ادتیاناتھ
(Aditya nath)
یو پی کے ایک گائوں میں 1972ء میں پیدا ہوا۔ باپ محکمہ جنگلات کا ملازم تھا۔ نوے کی دہائی میں ادتیا ناتھ اس تحریک میں شامل ہو گیا جو ایودھیا مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنا چاہتی تھی۔ اسی دوران خاندان سے قطع تعلق کر کے وہ گورکھ پور کے مشہور مندر گورکھ ناتھ سے وابستہ ہو گیا۔ یہیں اسے ’’مہنت‘‘ کا درجہ دے دیا گیا۔ پھر وہ انتہا پسند ہندو کے طور پر سیاست میں آیا اور لوک سبھا کا رکن منتخب ہو گیا۔ آر ایس ایس کو اس کے نظریات راس آ رہے تھے۔

2017
ء میں وہ یو پی کا وزیر اعلیٰ مقرر ہو گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ مدارس کو پابند کیا گیا کہ یوم آزادی پر قومی ترانہ گائیں
 اور ثبوت میں ویڈیو پیش کریں۔ پاکستان کو شیطان سے تشبیہ دی۔ صدر ٹرمپ کی اینٹی مسلم پالیسی کی حمایت کی۔ اس نے اعلان کیا کہ ہم ہر مسجد میں دیوتائوں کے بت نصب کریں گے۔2015ء میں اس نے کہا کہ شاہ رخ خان وہی زبان استعمال کرتا ہے جو حافظ سعید کی ہے۔ 

حال ہی میں ادتیا ناتھ نے الہ آباد کا نام تبدیل کر کے پریاگ راج رکھ دیا ہے۔ مسلم ثقافت پر یہ بھارتی تاریخ کا بدترین حملہ ہے۔ عبدالقادر بدایونی‘ نظام الدین احمد اور اکبر نامہ کا مصنف سب یہی لکھتے ہیں کہ الہ آباد کی بنیاد اکبر اعظم نے رکھی۔ 1580ء میں اکبر نے اسے صوبائی دارالحکومت قرار دے دیا۔ شہزادہ سلیم نے بغاوت کی تو الہ آباد کو مستقر بنایا۔ تاریخ الہ آباد کے نام ہی سے آشنا ہے۔ 1902ء سے 1922ء تک الہ آباد یوپی کا دارالحکومت رہا۔ آزادی کی تحریکوں میں الہ آباد پیش منظر پر چھایا رہا۔1857ء میں مولوی لیاقت علی نے علم بغاوت یہیں بلند کیا۔ 1930ء میں علامہ اقبال نے اپنا مشہور خطبہ جس میں الگ ریاست کا تصور پیش کیا۔ یہیں دیا تھا۔ اکبر الہ آبادی ے بغیر الہ آباد کا تذکرہ مکمل نہیں ہوتا۔ اقبال کو اکبر نے آم بھیجے تو اقبال نے رسید یوں دی ؎

 اثر یہ تیرے اعجاز مسیحائی کا ہے اکبرؔ 
الہ آباد سے لنگڑاچلا لاہور تک پہنچا 

مشہور شاعر نوح ناروی یہیں سے تھے۔ مصطفی زیدی کا ابتدائی تخلص تیغ الہ آبادی تھا۔ 

ایودھیا مسجد کے سانحہ کے بعد الہ آباد کے نام کی تبدیلی مسلمانان برصغیر کے لئے دوسرا بڑا ثقافتی صدمہ ہے۔ پاکستانی مسلمان کم رنجیدہ نہیں مگر بھارتی مسلمانوں کے لئے یہ ایک المناک تبدیلی ہے۔ مسلمانوں کے بدترین دشمن یوگی ادتیا ناتھ نے مسلمانوں کو بڑے بڑے زخم دیے ہیں۔ مگر یہ زخم سب سے زیادہ گہرا ہے۔

 تاہم یہ گریبان میں جھانکنے کا لمحہ ہے۔ اس حوالے سے ہم پاکستانیوں کا ریکارڈ کیا ہے؟آج اگر ادتیاناتھ سے گلہ کیاجائے تو وہ ایک فلک شگاف قہقہہ لگائے گا اور کہے گا ع 

این گناہیست کہ در شہر شمانیزکنند 

کہ تم بھی تو یہی کرتے آئے ہو۔ 

جہاں آج فیصل آباد ہے۔ وہاں ایک زمانہ تھا کہ صرف جنگل تھے اورجانگلی قبیلے !بقول ناصر کاظمی ؎ 

یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
 سنا ہے میں نے لوگوں کی زبانی 

انگریز سرکار نے غلہ انگلستان بھیجنے کے لئے اس علاقے میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم کرنے کی ٹھانی اور زرعی پیداوار میں انقلاب برپاکر کے دکھا دیا۔ ایک انگریز افسر پوہم ینگ نے نئے شہر کا نقشہ ترتیب دیا اور وہی ڈیزائن بنایا جو انگریزی پرچم(یونین جیک) کا ہے۔ مرکز اور اس کے گرد آٹھ شاہراہیں۔ مرکزگھنٹہ گھر بنا اور آٹھ شاہراہیں آٹھ مشہور بازار بن گئے۔ 

اس وقت کے پنجاب کے گورنر جیمز لائل نے شہر کو تعمیر کرایا۔ لائل کا نہری نظام کی تعمیر میں بہت بڑا حصہ تھا۔ ساٹھ لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے کی منصوبہ بندی کی۔ نیا شہر صفر سے شروع ہوا۔ یہ برصغیر میں انگریزی عہد کا پہلا شہر تھا جو باقاعدہ پلاننگ سے آباد کیا گیا۔1895ء میں اسے ٹرین کے ذریعے وزیر آباد سے جوڑا گیا۔1904ء میں اسے ضلع بنایا گیا۔ موجودہ زرعی یونیورسٹی اصل میں زرعی کالج تھا جو 1906ء میں قائم ہوا۔1930ء سے یہ شہر 
صنعتی ہونا شروع ہوا۔ تقسیم کے بعد اسے پاکستان کا مانچسٹر قرار دیا گیا کیونکہ کپڑے کی صنعت کا مرکز بن گیا تھا۔ 

1977
ء میں اس کا نام لائل پور سے بدل کر فیصل آباد رکھ دیا گیا۔ شاہ فیصل سے اہل پاکستان کی محبت اور عقیدت اپنی جگہ۔ مگر آج تک یہ راز‘ راز ہی ہے کہ شاہ فیصل مرحوم کا لائل پور سے کیا تعلق تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ لائل پور کا اصل نام فیصل آباد تھا۔ جسے انگریز سرکار نے بدل دیا تھا۔ شہر کی پہلی اینٹ ہی برطانوی عہد میں رکھی گئی پوہم ینگ نے نقشہ بنایا۔ جیمز لائل نے تعمیر کی سرپرستی کی۔1977ء میں جب شہر کو ’’مسلمان‘‘ کیا گیا تو اس کی کل عمر نوے برس کے لگ بھگ تھی۔ انصاف کا اندازہ لگائیے کہ نقشہ کسی اور نے بنایا۔ تعمیر کسی اور نے کرایا۔ شاہ فیصل کی پیدائش 1906ء کی تھی۔ جب کہ اس وقت تک لائل پور ضلع بھی بن چکا تھا! 

1978ء میں ہمارے اندر کے یوگی ادتیا ناتھ نے ایک بار پھر انگڑائی لی۔ اس بار ہم نے کیمبل پور شہر کا نام اٹک رکھ دیا حالانکہ اٹک اصل میں ایک پرانا قصبہ تھا جو دریائے سندھ کے کنارے سینکڑوں برس سے آباد چلا آ رہا ہے۔ اکبر کا تعمیر کردہ قلعہ بھی اٹک کے نام سے موسوم چلا آ رہا ہے۔ کیمبل پور شہر کی بنیاد انگریز سرکار نے رکھی تھی۔ کیمبل پورچھائونی 1857ء میں وجود میں آ چکی تھی۔ فیلڈ مارشل کولن کیمپ بیل 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران انگریزی فوج کا کمانڈر ان چیف تھا۔ جنگ آزادی کے ہیرو تانیتا ٹوپی کو اسی نے شکست دی۔ پھر لکھنؤ کو دوبارہ انگریزی عملداری میں لایا۔ کیمبل پور (Campbell pur)شہر کی بنیادیں 1908ء میں کھودی گئیں۔ اصل اٹک قصبہ اس سے کئی میل دور شمال مغرب میں تھا۔ نئے شہرکو کیمپ بیل کے نام پر کیمپ بیل پور کہا گیا۔ عام لوگ جو انگریزی تلفظ سے ناآشنا تھے۔ کیمبل پور اور کبھی کامل پور کہتے اور لکھتے تھے۔ یہ دو الگ الگ آبادیاں تھیں۔ اٹک قصبہ جو دریا کے کنارے‘ قلعے کے نزدیک تھا۔ اور کیمبل پور شہر جو انگریزوں نے بنایا اور بسایا۔

اگر قومی ثقافت کا دورہ اتنا ہی شدید تھا تو ضلعی ہیڈ کوارٹر کیمبل پور سے اٹک(موجودہ اٹک خورد) میں منتقل کر دیتے۔ مگر ایک شہر جو کسی اور نے بنایا اور آباد کیا‘ اس کا نام بدلنے کا کوئی جوازؤ۱ نہ تھا۔ 

خود ہم نے ستر برسوں میں ایک نیا شہر اسلام آباد بسایا جو اب جرائم کا گڑھ بن چکا ہے اور نااہلی اور شرمناک بدانتظامی کا بدترین نمونہ ہے۔ ہر روز کئی گاڑیاں چوری ہوتی ہیں۔ پانی کمیاب ہے۔ کوڑے کے جابہ جا ڈھیر ہیں۔ شہر کا مرکز میلوڈی مارکیٹ اور میلوڈی فوڈ پارک غلاظت کا گڑھ ہے گندھے بدبودار پانی کے اوپر بیٹھ کر کباب اور نہاری کھائی جاتی ہے۔ سڑکوں پر اینٹوں کے انبار لوہے کے سریے اور بجری کے ڈھیر پڑے ہیں۔ گرین ایریا‘ لینڈ مافیا کے جبڑوں میں آ چکا ہے۔ ہر نئی حکومت نے پلاٹوں کو رشوت کے طور پر بانٹا۔ شہر کے دونوں کناروں پر بارہ کہو اور ترنول کے ’’آزاد‘‘ علاقے ہیں۔ انہیں علاقہ غیر کہا جانا چاہیے۔ شہر کے عین درمیان پورا سیکٹر(جی۔12) غیر منظم اور انتظامیہ کے قبضے سے آزاد ہے۔ یہ منشیات اور تمام ممکنہ جرائم کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ 

اس شرمناک کارکردگی اور بدترین نااہلی پر حیا کرنے کے بجائے ہم نے پرانے شہروں کو فتح کرنا بہتر جانا۔ کبھی ایک شہر کا نام بدلا کبھی دوسرے کا۔ کمائی کسی اور کی۔ جیب ہماری! ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا۔ 

وہی کام ادتیا ناتھ نے کیا تو ہمیں صدمہ ہوا۔ لائل ‘ پوہم ینگ اورکیمپ بیل زندہ ہوتے تو ہم سے ضرور پوچھتے کہ اب افاقہ ہے؟

Sunday, May 12, 2019

جو ہو رہا ہے ہم اسی کے مستحق ہیں

 


کیا آپ کو یاد ہے مہاجن چوکی سامنے رکھےدری پر بیٹھا ہوتا تھا؟ 


نواب صاحب کا منشی اس کے پاس آتا تھا۔ کہ نواب صاحب نے مزید قرض مانگا ہے۔ وہ کھاتہ دیکھتا تھا کہ پچھلا حساب کتنا ہے۔ پھر کچھ کہے یا پوچھے بغیر مطلوبہ رقم گن کر منشی کے حوالے کر دیتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ قر ض واپسی آنا ہی آنا ہے اور مع سود آنا ہے۔ نواب صاحب کے پاس رقم نہ بھی ہوئی تو جاگیر تو کہیں نہیں گئی۔ یوں آہستہ آہستہ جاگیر قسطوں میں مہاجن کے نام منتقل ہوتی رہتی تھی۔ اس زمانے میں کتنے ہی نواب قرض لے لے کر قرقی ہوئے۔ کچھ نے پیسہ طوائفوں کے کوٹھوں پر لٹایا کچھ نے کنیزیں پالیں اور ان پر فدا ہوئے کچھ کو شادیوں کا شوق تھا۔ کچھ شراب نوشی اور قمار بازی کے شیدا تھے۔ کچھ کو انگریز سرکار پنشن جتنی دیتی تھی وہ ان کے شاہانہ اخراجات کی متحمل نہ ہوتی تھی۔ واجد علی شاہ کو لکھنؤ سے نکال کر انگریزوں نے کلکتہ میٹا برج میں نظر بند کیا تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دکانداروں کو انہیں ادھار دینے سے منع کر دیا۔ 


مہاجن کا وصف یہ تھا کہ وہ نصیحت نہیں کرتا تھا۔ قرض دیتے وقت شرط نہیں عائد کرتا تھا کہ نواب صاحب اپنی سلطنت میں فلاں فلاں اصلاحات بروئے کار لائیں یا جاگیر کے انتظام و انصرام میں یہ یہ تبدیلی لائیں۔ آئی ایم ایف بھی مہاجن ہے۔ مگر جدید زمانے کا پڑھا لکھا طاقت ور مہاجن ! جس کا رعب داب اتنا ہے کہ قرض مانگنے والے ملکوں کو پندو نصائح کرتا ہے۔ اصلاحات تجویزکرتا ہے۔ پھر ان اصلاحات کا عملی نفاذ مانگتا ہے۔ 


اگر ہم گریبان میں لمحہ بھر کے لئے جھانکنا گوارا کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آئی ایم ایف کے بجائے اگر عہد رفتہ کا مہاجن ہوتا تو اب تک پاکستان کے وسیع رقبے اس کے نام منتقل ہو چکے ہوتے۔ ہم وہ نواب ہیں جس کی جاگیر بدترین بدانتظامی کا شکار ہے اور ہم خود شکار کھیل رہے ہیں اور کوٹھوں پر بیٹھے مجروں سے حظ اٹھا رہے ہیں۔ 


سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے اختیار میں تھا کیا ہم نے کیا ؟ حکومتیں سٹیل مل اور پی آئی اے کی درجنوں یونینوں کے ہاتھوں یرغمال رہی ہیں آج بھی حکومت یرغمال ہے۔ پی آئی اے کو پے درپے ہر حکومت نے رشوت کے طور پر استعمال کیا آج بھی اچھی طرح یاد ہے ایک سیاسی جماعت کے دو لیڈروں کی دو ڈاکٹر بیٹیوں کی تعیناتی قومی ایئر لائن میں ہوئی تھی۔ جب کہ ملک کی ہزاروں ڈاکٹر بیٹیاں اس خصوصی سلوک سے محروم تھیں۔ کتنے عشرے گزر گئے کہ کسی اشتہار کے بغیر کسی اوپن مقابلے کے بغیربھرتیاں کی جاتی رہیں۔ کیا بائیں بازو کے کامریڈ اور کیا اسلام پسند۔ سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ گنتی کے چند جہاز اور دنیا بھر میں فی جہاز سب سے زیادہ ملازمین؟ یونینیں کوئی اصلاحات نہیں کرنے دیتیں۔پائلٹوں کی اپنی یونین، انجینئروں کی اپنیانتظامی سائڈ والے الگ ۔ اس کا ایک ہی علاج تھا کہ اسے نجی شعبے کے حوالے کیا جاتا۔وہ اسے نفع نقصان کی بنیاد پر چلاتا اور یہ اندھیر نہ ہوتا کہ جہاز کے اندر اچھی نشستیں سب اپنے ملازمین کو دی جاتی ہیں جو مفت سفر کرتے ہیں۔ 


یہی حال سٹیل مل کا ہے۔ شریفوں سمیت سب کے نجی کارخانے کامیابی سے چل رہے ہیں صرف سٹیل مل سفید ہاتھی ہے ؎ 


انجم غریب شہر تھے اب تک اسیر ہیں 

سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے 


مگر حکومت اس سے جان نہیں چھڑا رہی ۔ہر سال اربوں روپے خیرات میں اس لولے لنگڑے کارخانے کو دیے جاتے ہیں۔ 


ہم کروڑوں روپے کی ماہانہ اس چوری کو نہیں روک سکتے جو گیس اور بجلی کی ملک کے اطراف و اکناف میں ہو رہی ہے آپ نااہلی اور بدانتظامی کی انتہا دیکھیے کہ گیس سائل کو قانونی طریقے سے نہیں دی جا رہی، وہ برسوں جوتے چٹخاتا ہے۔کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ رشوت دے کر چوری کا کنکشن لے لیتا ہے جس کا بل بھی نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی کے نرخ بڑھا دیں گے مگر ملک کے جن حصوں میں بجلی مفت دی جا رہی ہے، وہاںمفت دی جاتی رہے گی۔ چوری نہیں روکی جا رہی۔ پھر محکمے کے ہزاروں ملازمین جس بے دردی سے ایئر کنڈیشنر مفت استعمال کر رہے ہیں اس کا کوئی حساب ہے نہ تخمینہ!


 کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ تاجروں کی ہٹ دھرمی اور ملک دشمنی کتنی مہنگی پڑ رہی ہے؟ ٹیکس کی بات نہیں کی جا رہی۔ اوقات کار کی طرف اشارہ ہے۔ یہ کیسے محب وطن ہیں جو دن کے بارہ ایک بجے کاروبار شروع کرتے ہیں اور آدھی رات تک توانائی کو بے دردی سے استعمال کرتے ہیں پوری مہذب دنیا میں بازار نو بجے کھل جاتے ہیںپاکستان میں دوپہر تک سناٹا رہتا ہے۔ 


آپ اداروں کی کارکردگی پر غور کریں گے توسر پیٹ لیں گے۔ نادرہ جیسے حساس ادارے میں غیر ملکی ملازمین پائے گئے۔ ہزاروں شناختی کارڈ غیر ملکیوں کو جاری کر دیے گئے۔ ترقیاتی ادارے کرپشن کا گڑھ ہیں۔ باقی شہروں کوچھوڑ دیجیےوفاقی دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ نااہلی رشوت اور بدانتظامی سے ناسور بن چکا ہے ایک انتہائی طاقت ور یونین ہے جس کے عہدیدار دفتری کام کئے بغیر صرف دادا گیری کرتے ہیں۔ دارالحکومت کے رہائشی سیکٹر جھگیوں سے بدتر تصویر پیش کرتے ہیں۔ دکانداروں سے رشوت لی جاتی ہے۔ ناجائز تجاوزات کی بھر مار پارکنگ کے رقبے ریڑھیوں اور سٹال لگانے والوں کو ٹھیکے پر دیے جاتے ہیں۔ ترقیاتی ادارے کی آنکھوں کے سامنے ناجائز تعمیرات ہوتی ہیں۔ غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں تشکیل پاتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ بارہ کہو کے علاقے میں پہاڑ کاٹ کاٹ کر سرکاری زمینیں ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ مگر چیف کمشنر کا ادارہ کچھ کرتا ہے نہ ترقیاتی ادارہ


آپ ترقیاتی ادارے کی نااہلی کا اندازہ ایک مثال سے لگائیے پورے وفاقی دارالحکومت میں اگر کوئی سڑک پر تعمیراتی سامان یعنی سریااینٹیںبجریسیمنٹ رکھ دے یہاں تک کہ گزرگاہ بند ہو جائے تو اس ظلم سے روکنے والا کوئی نہیں۔ دوسری طرف بحریہ اور ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اس حرکت کو جرم قرار دے کر بھاری جرمانے عائد کئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ترقیاتی ادارے میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ 


کیا عجب کل آئی ایم ایف حکومت پاکستان سے یہ کہے کہ قرض لینے سے پہلے اپنے ملازمین کو وقت کا پابند کیجیے۔ کیا افسر کیا کلرک کیا نائب قاصد دس گیارہ بجے سے پہلے دفترخواب گراں سے جاگتے نہیں! سائل آئے تو متعلقہ اہلکار نشست پر موجود نہیں ہوتا۔ ایک استدعا آئی ایم ایف سے ہم خود کرنا چاہتے ہیں کہ کسی طرح اہل پاکستان کو تقاریب وقت پر شروع کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اس لاقانونیت میں شادی بیاہ کی تقاریب کے علاوہ تمام سرکاری اور نجی تقاریب سرگرم کارہیں۔ یہ عجیب مست ملنگ اور دامن دریدہ قوم ہے کہ دعوتی کارڈ پر آٹھ بجے کا وقت لکھتے ہیں اور میزبان خود نو دس بجے سے پہلے نہیں نظر آتے۔ جن تقریبات میں وزیر اعظم صدر اور وزراء شرکت کرتے ہیں ان میں بھی یہی جاہلانہ رویہ اپنایا جاتا ہے۔

پاکستان میں وقت پر کوئی کام کرنے کا تصور سرے سے مفقود ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ مادام لگارڈےجو آئی ایم ایف کی سربراہ ہیں۔ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں اور وقت کے ناقابل بیان ضیاع کو رکوائیں۔ 


اگر وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کی ناک کے عین نیچے وفاقی دارالحکومت میں اتنی دھاندلیاتنی لاقانونیت اور اتنی انارکی کا دور دورہ ہے تو ضلعوں اور تحصیلوں میں جو کچھ ہو رہاہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر بادشاہ ہے۔ دوپہر کو دفتر آئے تو کون اعتراض کر سکتا ہے۔ ڈپٹی کمشنرایس پیتحصیلدارپٹواریفراعنہ اور نماردہ سے کم نہیں! پورا دن دفترنہ آئیں سائل بیٹھ بیٹھ کر سوکھ سڑ جائیں تو کوئی تلافی ہے نہ شنوائی


جس قوم کے یہ لچھن ہوں وہ دنیا میں سر اٹھا کر کیسے چل سکتی ہے؟ وہ اسی قابل ہے کہ کشکول ہاتھ میں اٹھائےرُسوا ہوتی رہے

 

powered by worldwanders.com