پھر وہی سیاپا وہی پھوہڑی ! وہی سینہ کوبی وہی ماتم! ؎
آج بھی صید گہ عشق میں حُسنِ سفّاک
لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا
یہ رمضان بھی اپنے نصف کو پہنچنے والاہے مگر نالاں ہے! شاکی ہے! فریاد کناں ہے۔ہم منافقین سے پناہ مانگ رہا ہے! اس کا بس چلے تو کٹر کتا عذاب نازل کر دے!
یہ لطیفہ بھی پرانا ہو چکا ہے جو کمال بے شرمی بے حیائی اور ڈھٹائی سے ہم منافقین ہنس ہنس کر ایک دوسرے کو سناتے ہیں کہ کسی ترقی یافتہ ملک کے غیر مسلم نے مسلمان سے پوچھا روزے میں کیا کیا کرتے ہو اور کیا کیا نہیں کرتے۔ مسلمان نے فخر سے سینہ پھیلایا اور کہا کہ رمضان میں سحری سے افطار تک اکل و شرب سے پرہیز کرتے ہیں۔ ساتھ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولیں‘ وعدہ خلافی نہ کریں۔ کسی کو دھوکہ نہ دیں! ماپ تول میں خیانت نہ کریں! غیر مسلم نے اداس ہو کر حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ یہ سارے بُرے کام جن سے تم رمضان میں پرہیز کرتے ہو‘ ہم تو ان سے سارا سال پرہیز کرتے ہیں۔
یہ نوحہ خوانی بھی ہر سال ہوتی ہے کہ مسیحی دنیا میں کرسمس اور ایسٹر کے مواقع پر بازاروں میں ارزانی کا دور دورہ ہوتاہے———-سیلیںُُُُُُ
(sales)
لگتی ہیں اور صحیح معنوں میں لگتی ہیں۔ کچھ تو غیر مسلم ملکوں کے بڑے بڑے سپر سٹوروں میں رمضان کے موقع پر بھی اشیا سستی کر دی جاتی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص رمضان اور عید کے ساتھ بازاروں میں ایک وحشت در آتی ہے! ایک بربریت دندنانے لگتی ہے! سبزی اور پھل سے لے کر تمام اشیائے خوردو نوش تک۔ جوتے اور کپڑوں سے لے کر‘ تمام سامان آرائش و زیبائش تک۔ گرانی اپنا منحوس سایہ پھیلا دیتی ہے۔ تاجر جلاد بن جاتے ہیں عوام کے گلے میں مہنگائی کا پھندا ڈال دیا جاتا ہے۔
یہ رونا دھونا‘ یہ آہ وزاری ‘ یہ پٹنا کُٹنا ہر سال ہوتا ہے۔ کوئی رمضان کبھی ایسا نہیں آیا کہ یہ سب کچھ نہ ہو! آ بھی کیسے سکتا ہے! یہ کیسے ممکن ہے کہ جو معاشرہ گیارہ مہینے جھوٹ بولے‘ عہد شکنی کرے۔ فریب دہی میں طاق ہو‘ خیانت ہر شخص کی عادت ثانیہ ہو۔ وہ معاشرہ رمضان کا چاند دیکھ کر اپنے آپ کو تبدیل کر لے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان رزائل کا گناہ صرف رمضان میں ہوگا؟ کیا ان گناہوں کا ارتکاب باقی گیارہ مہینوں میں جائز ہے؟ ہم منافقین ‘ جب اعلان کرتے ہیں کہ اس مہینے جھوٹ، چوری، غیبت، وعدہ خلافی اور بددیانتی سے بچنا ہے تو ہم اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ عادات خبیثہ باقی سارا سال ہمارے لئے روا ہیں!
ہم عجیب لوگ ہیں! ہم وہ ہیں جسے کسی نے شرم دلانے کے لئے بتایا تھا کہ تمہاری پیٹھ پر درخت اُگا ہے تو شرم کرنے کے بجائے اس نے ہنس کر کہا تھا اچھا ہے‘ سائے میں بیٹھوں گا!ہم میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اصلاح کا آغاز دوسروں سے ہو! میں اسی ڈگر پر چلتا رہوں جس پر چل رہا ہوں۔ ہم منافقین یہ حدیث ایک دوسرے کو خوب سناتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولے۔ وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کا مرتکب ہو، امانت دار بنایا جائے تو خیانت کرے۔ یہ بھی مروی ہے کہ منافق کی علامت یہ ہے کہ جھگڑا کرتے وقت گالی بکتا ہے! یہ ساری نشانیاں ہم نے سینوں پر سجائی ہوئی ہیں۔ یہ ساری علامات ہمارے گھروں کی چھتوں پر پرچموں کی طرح لہرا رہی ہیں! ہم میں سے کوئی شخص‘ دوسرے پر اعتماد نہیں کرتا۔ جو کہتا ہے کہ کل تک یہ کام کر دے گا‘ جانتا ہے کہ نہیں کرے گا۔ جو سن رہا ہے اسے بھی یقین ہے کہ وعدہ پورا نہیں ہو گا۔ مگر دونوں انشاء اللہ کہتے ہیں اور دونوں منافق ہیں۔ دونوں زمین پر بوجھ ہیں! المیے کی انتہا یہ ہے کہ دونوں کو احساس نہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں اور منافقت کر رہے ہیں!
اس پر طرہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص اسلام کا علمبردار ہے! دوسروں سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ کیا تم روزے سے ہو؟ اتنی تمیز نہیں کہ ایسے سوال نہ کریں! روزہ بندے اور بندے کے خدا کا معاملہ ہے! کسی کو کسی سے پوچھنے کا حق نہیں! اسی پر بس نہیں! ہم میں سے ہر شخص ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل بنا ہوا ہے۔ فلاں نے نماز غلط پڑھی۔ فلاں قرآن درست نہیں پڑھ رہا۔ فلاں کا عقیدہ غلط ہے! فلاں گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ پھر ہم ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور وہ فتویٰ لگاتے ہیں جو ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل جیسے ثقہ فقہا بھی نہیں لگاتے تھے۔ ہم دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں! اعلان کرتے ہیں کہ فلاح کا نکاح فسخ ہو گیا ہے۔ فلاں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ اپنی نماز کی فکر ہے نہ روزے کی!قمیض میں گریبان ہی نہیں رکھتے کہ جھانکنا نہ پڑ جائے۔ ہر شخص کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں حالانکہ ارذل الخلائق ہم خود ہیں!جیب میں حرام مال ڈال کر حلال تلاش کرتے ہیں! پورا پورا بکرا خرید کر لاتے ہیں۔ باورچی کو یا بیوی کو تلقین کرتے ہیں کہ گوشت خوب نرم ہو مگر کیا رمضان کیا شعبان اور کیا محرم‘ مردہ بھائی کا گوشت کچا کھاتے ہیں خلال تک نہیں کرتے!
ہمیں جس سے نفرت ہو‘ اسے یہودی قرار دیتے ہیں! یہودی کہنا بدترین نفرت کا اظہار ہے!حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں یہودی تاجر‘ یہودی کمپنیاں‘ یہودی برانڈ‘ خریدا ہوا مال‘ بغیر کسی وجہ کے واپس لے لیتے ہیںاور قیمت خریدار کو واپس کر دیتے ہیں۔ کوئی پندرہ دن کے اندر کوئی ایک ماہ کے اندر اور بہت سے ایسے ہیں کہ وقت کی قید ہی نہیں! خرید شدہ مال‘ اچھی حالت میں ہے اور رسید دکھا سکتے ہیں تو تین ماہ بعد جا کر واپس کیجیے اور ری فنڈ لے لیجیے۔ یہ برانڈ لندن میں ہیں یا نیو یارک میں یا اسلام آباد میں یا لاہور میں۔ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ مگر مسلمان کمپنیاں‘ مسلمان برانڈ، مسلمان تاجر اس کی اجازت نہیں دیتے۔ خریدا ہوا مال واپس کرنے کا تصور تک ان کے ہاں مفقود ہے! پھر بھی یہودی بُرے ہیں۔ جنت کا ٹھیکہ سارے کا سارا مسلمانوں کے پاس ہے! اب تو یہ ٹھیکہ آگے پٹے پر بھی دیا جا رہا ہے!! جنت اور دوزخ میں بھیجے جانے کا فیصلہ مسلمانوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے! سنتے آئے تھے کہ یہ فیصلہ روز محشر پروردگار عالم خود فرمائے گا! مگر روزِ محشر کا انتظار کون کرتا۔
وہ جو ہم سے پوچھا گیا تھا کہ لِم تقولون مالا تفعلون ! جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں اور جو کرتے نہیں وہ کہتے کیوں ہو؟ تو ہم مکمل بے نیاز ہیں کہ اس کا جواب سوچیں! ہماری ثقافت اور ہمارے طرز زندگی کی بنیاد ہی اس محاورے پر اٹھی ہے کہ خود را فضیحت دیگراں را نصیحت، یعنی دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت! نائب قاصد اور ریڑھی بان سے لے کر اعلیٰ ترین طبقات تک۔ ہم سب منافقت میں گلے گلے تک دھنسے ہوئے ہیں۔ یہی مثال لے لیجیے‘ ہم واعظ ہیں تو دوسروں کو حجامہ کی تلقین کرتے ہیں احادیث سناتے ہیں۔ زور دیتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے چنگل میں نہ آئو۔ مگر خود بیمار پڑتے ہیں تو شہرکے بہترین ہسپتال میں سب سے زیادہ لائق ڈاکٹر کے پاس جا کر اینجیو گرافی کراتے ہیں۔ سٹنٹ ڈلواتے ہیں!
ہر بار رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہم سے آزردہ خاطر ہو کر رخصت ہوتا ہے۔ ہم اسے زخموں سے چور کر کے الوداع کہتے ہیں۔ اگر ہم اعتراف کر لیتے کہ ہم معصیت میں مبتلا ہیں۔ ہم منافقت کا شکار ہیں تو بچنے کا امکان تھا! مگر ہم تو اصرار علی المعصیت کا ارتکاب کرتے ہیں چوری اور سینہ زوری! چور بھی اور چترا بھی یہ معصیت سے اگلا درجہ ہے۔ اسے بغاوت کہتے ہیں! اس کا نام نافرمانی ہے!
مگر اس قصے کو چھوڑیے آئیے! افطار کے بعد چل کر کسی کیفے میں بیٹھتے ہیں اور یہود و ہنود کی ان سازشوں کا پردہ چاک کرتے ہیں جو وہ ہمارے خلاف کر رہے ہیں! بدبخت کہیں کے!
No comments:
Post a Comment