Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 09, 2019

درخواست بخدمت سربراہ آئی ایم ایف



دوست عزیز جناب رؤوف کلاسرہ نے کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم کے سامنے میانوالی مظفر گڑھ روڈ کی تعمیر کا مسئلہ اٹھایا تھا ۔ کل انہوں نے لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے اس منصوبے کی منظوری دے دی۔ یہ خوش رنگ خبر وزیر اعلیٰ نے کلاسرہ صاحب کو بنفس نفیس دی۔ 

کلاسرہ صاحب اس حوالے سے خوش بخت ہیں۔ خوش بختی کی دو وجوہ ہیں ایک یہ کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ان کے گرائیں ہیں۔ یعنی سرائیکی ہیں۔ سرائیکی سرائیکی پر جان چھڑکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوئی کہ یہ شاہراہ وفاق کے دائرہ کار میں نہیں۔ اگر اسے وفاق نے تعمیر کرنا ہوتا تو اس شاہراہ کے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو وفاقی دارالحکومت میں رسوائے زمانہ ایکسپریس ہائی وے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ وفاق کے سربراہ عمران خان ہیں اور عمران خان جب تک کرپشن کا سدباب نہیں کر لیتے کسی سڑک ‘پل ‘پگڈنڈی ‘ گلی کی تعمیر نہیں ہو گی۔ کرپشن ختم ہو بھی گئی تو اگلا پروجیکٹ وزیر اعظم کا اس پاکستانی دولت کی واپسی ہے جو بیرون ملک ذخیرہ کی گئی ہے۔ اقبال ساجد نے کہا تھا ؎ 

میں بھوک پہنوں، میں بھوک اوڑھوں، میں بھوک دیکھوں، میں پیاس لکھوں 
برہنہ جسموں کے واسطے میں خیال کاتوں کپاس لکھوں

 تو وزیر اعظم نے لباس فاخرہ اتار کر پرے پھینک دیا ہے اور کرپشن کا خاتمہ پہن لیا ہے۔ یہی ان کا اوڑھنا ہے۔ یہی بچھونا، یہی ان کی بھوک ہے اور یہی پیاس، اس لئے وفاقی دارالحکومت کے باشندوں کی کوئی درخواست‘ کوئی عرضگزاری ‘ کوئی اپیل کوئی آہ و فغاں ‘ کوئی زاری‘ ان کی سماعت پر اثر نہیں کرتی۔ ہو سکتا ہے پٹرول کی مہنگائی پر ان کا فلسفہ یہ ہو کہ پٹرول کے بجائے عوام گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں میں کرپشن کا خاتمہ ڈلوائیں۔ 

روات چوک سے لے کر فیض آباد تک جاتی ہوئی یہ شاہراہ اسلام آباد کی شہ رگ ہے۔ جہلم اور چکوال سے مندرہ تک لاکھوں عوام روزانہ اس کے ذریعے دارالحکومت پہنچتے ہیں۔ میڈیا ٹائون‘ بحریہ ‘ ڈیفنس پی ڈبلیو ڈی کی آبادیاں اس کی محتاج ہیں۔ شاہراہ عبرت ناک گڑھوں کا مجموعہ ہے ۔ عبرت سرائے ہے۔ شرم و حیا کی آخری حد تک شکستہ اور خستہ ہے۔ خلق خدا ہر روز اس پر پہروں سسک سسک کر مرتی ہے مر مر کر جیتی ہے۔ بلک بلک کر گرتی ہے مگر وزیر اعظم کی بلا سے۔ جب تک کرپشن کاخاتمہ نہیں ہوتا‘ یہ لوگ بے شک مرتے سسکتے بلکتے رہیں۔ ہچکیاں لیتے رہیں۔ وفاق کو کوئی پرواہ نہیں! 

وزیر اعظم کرپشن کے خاتمے میں اس قدر مصروف ہیں کہ حکومت انہوں نے آئی ایم ایف کے سپرد کر دی ہے۔ انگریز برصغیر میں آئے تو ہمارے راجوں مہاراجوں نوابوں اور بادشاہوں نے کار حکومت انگریزوں کے سپرد کیا اور خود شکار ‘ ازدواج حرم کی توسیع اور دیگر ضروری امور میں مصروف ہو گئے گڈے گڈی اور کتے کتیا کی شادیاں ایسی دھوم دھام سے کیں کہ اصلی اور نسلی شاہزادیوں شہزادوں کی شادیاں اس طرح نہ ہوئی ہوں گی۔ ہمارے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے بھی امور سلطنت انگریز ریذیڈنٹ سر تھامس میٹکاف کے سپرد کر دیے اور خود شعروشاعری اور مشاعرہ بازی میں مشغول ہو گئے۔ 

اب یہ بھی نہیں کہ وزیر اعظم کا موازنہ حاشا وکلا عہد فرنگ کے راجوں اور نوابوں سے کیا جائے۔ وزیر اعظم تو بے لوث ہیں اور دل و جان سے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ عجیب و غریب یہ آن پڑا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے سوا اور کوئی شے وزیر اعظم کو دکھائی نہیں دے رہی۔ ہانپتے کانپتے عوام نظر آ رہے ہیں نہ خاک اڑاتے کچے راستے! ترقیاتی کام سارے رک گئے ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کا لونگ اس قدر لشکارے ما ررہا ہے کہ ہل چلانے والوں کے ہل تھم گئے ہیں یہ مصروفیت اتنی شدید ہے کہ وزیر اعظم کے پاس حکومت کرنے کے لئے وقت ہی نہیں بچا۔ چنانچہ وفاقی حکومت انہوں نے آئی ایم ایف کے سپرد کر دی ہے۔ 

وفاقی حکومت کا جوہر‘ وزارت خزانہ ہے۔ وزیر خزانہ ان صاحب کو لگا دیا گیا ہے جنہوں نے بائیس برس کی جدوجہد کے دوران بائیس گھنٹے بھی وزیر اعظم کے ساتھ نہیں گزارے۔پچاس فیصد حکومت وزارت خزانہ کی صورت میں آئی ایم ایف کی آغوش میں چلی گئی۔ اب تمام وزراء اور سیکرٹری آئی ایم ایف کے نمائندے کے سامنے آ کر عرض معروض کیا کریں گے اور وزیر خزانہ جو اصلاً آئی ایم ایف ہیں‘ یہ عرض گزاریاں منظور یا نامنظور کریں گے۔ باقی پچاس فیصد حکومت سٹیٹ بنک آف پاکستان کی صورت میں ہاتھ سے نکل گئی۔آئی ایم ایف کا نمائندہ مصر سے نکلا اور آ کر گورنر سٹیٹ بنک بن گیا۔ بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے کوئی اس لائق نہ تھا کہ یہ منصب سنبھال سکتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا ؎ 

اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
 آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے

 کہاں یہ عزم صمیم کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے ہی نہیں! کہاں یہ انتہا کہ نہ صرف گئے بلکہ حکومت یہ آئی ایم ایف کے سپرد کر دی۔ یعنی مردہ بولے ہی نہیں ‘ بولے تو کفن پھاڑے۔ 

اب چونکہ مالیات پر مکمل کنٹرول آئی ایم ایف کا ہو چکا ہے اور معاملات چونکہ وزیر اعظم کے دستِ مبارک سے پھسل کر دور جا چکے ہیں۔ اس لیے ہم اہل اسلام آباد بھی اپنی درخواست براہِ راست آئی ایم ایف کی سربراہ کے حضور پیش کر رہے ہیں! 

بحضور فیض گنجور محترمہ مادام لگارڈے 
سربراہ آئی ایم ایف 

جناب عالی! 

جیسا کہ جناب کو معلوم ہے ہمارے ملک کے مالیاتی امور مکمل طور پر آپ کے نمائندوں کے ہاتھوں میں آ چکے ہیں۔ وزیر خزانہ سے لے کر گورنر سٹیٹ بنک تک۔ تمام عہدیدار جناب ہی مہیا فرما رہے ہیں! بنا‘ بریں’ ہم غریب مفلس اور قلاش اہل اسلام آباد آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہیں کہ شاہراہ جو روات چوک سے فیض آباد تک کھنڈر کی صورت پیش کر رہی ہے اور جس پر ہرروز لاکھوں مسافر پہروں ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں، ازراہ لطف و عنایت تعمیر فرمائی جائے تاکہ آپ کی رعایا سکھ کا سانس لے اور آپ کی طوالت عمر کی دعا مانگتی رہے۔ 

ہم دعا گو ہیں کہ آئی ایم ایف کا اقتدار کلی ہمارے ملک پر ہمیشہ سایہ فگن رہے۔ اس سے پہلے کسی نے یہ جو مجذوب کی بڑ ہانکی تھی کہ آئی ایم ایف کے حضور نہیں جائیں گے۔ اس کی آپ سے ہم معافی مانگتے ہیں۔ 

مناسب سمجھیں تو ایک مناسب افسر آئی ایم ایف سے سی ڈی اے میں بھی بھیج دیں جو اس ادارے کا سربراہ بن کر آپ کے احکام کی تعمیل بسرعت تمام کر سکے۔ 

جناب کے اقتدار کی سلامتی کے دعا گو۔ اہل اسلام آباد

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com