بہت سی مشینوں پر آنکھوں کا معائنہ ہوا۔ کبھی ہدایت کی گئی کہ نیچے دیکھیں‘ کبھی اوپر‘ کبھی دائیں‘ کبھی بائیں۔ پھر آنکھوں میں کسی دوا کے قطرے ڈالے گئے۔ شاید اس غرض سے کہ پتلیاں پھیلیں۔ اس سے چبھن ہوئی اور جلن! پھر دوبارہ مشینوں میں ٹھوڑی اور پیشانی فِٹ کرا کے بینائی کا امتحان ہوا۔ پھر باہر بیٹھ کر انتظارکرنے کو کہا گیا۔ پھر ڈاکٹر خود باہر آیا اور اپنے کمرے میں لے گیا۔ ان ملکوں میں یہی چلن ہے۔ ڈاکٹر اپنے کمرے سے باہر نکل کر انتظار گاہ میں آتا ہے اور مریض سے ہاتھ ملا کر اسے اپنے ساتھ‘ اپنے کمرے میں لاتا ہے۔ کہنے لگا مسئلہ تو ہے مگر چونکہ ابھی لکھنے پڑھنے اور گاڑی چلانے میں کوئی دقت نہیں ہورہی۔ اس لئے سرجری کی لمحہ موجود میں ضرورت نہیں! ذوق یاد آ گئے۔ قصیدے کی تشبیب میں کیا شعر کہہ دیا
؎
نسخہ پر لکھنے نہیں پاتا ہو الشافی طبیب
کہتا ہے بیمار‘ بس کر! مجھ کو بالکل ہے شفا
ساتھ ہی آئی سپیشلسٹ نے تنبیہ کی کہ عینک کا نمبر زیادہ ہے۔ اس لیے فلاں رِسک کا خیال رکھنا ہو گا اور فلاں کا بھی!
ہم جماعتوں‘ دوستوں اور
Batch Mates
میں سے اکثر یہ آپریشن کرا چکے۔ باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ عزیز دوست اطہر شاہ خاں جیدی نے‘ خدا انہیں صحت عطا فرمائے کہا تھا ؎
ہم نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا
عرصہ ہوا ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ مشاعروں میں اب وہ آ نہیں سکتے۔ ڈرامہ نگاری ہے یا اداکاری یا شاعری‘ مزاح کو کیا اچھوتے زاویوں اور انوکھے ذائقوں سے روشناس کرایا ؎
لواحقین کو جانا تھا ایک فنکشن میں
لحد میں نانا کو اکڑوں بٹھا کے چھوڑ گئے
بصارت اور بصیرت دونوں ضروری ہیں۔ انسان کو دونوں پر اختیار نہیں! کبھی باہر کی آنکھیں سلامت ہوتی ہیں مگر انسان اندر سے اندھا ہوتا ہے۔ ٹھوکر پر ٹھوکر کھاتا ہے۔ کبھی اصحابِ بصیرت کو بصارت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ جیسے ڈاکٹر طٰہٰ حسین ! جو نابغۂ عصر تھے۔ اقبال عظیم نے نعت میں کیا دلگیر شعر کہا ہے ؎
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
ہم جیسے بے بضاعت بصیرت سے تہی تو تھے ہی‘ بصارت کے بھی کمزور نکلے۔ عینک کا ہائی نمبر بزرگوں سے ورثے میں ملا۔ اس المناک ذکر کے دوران ضمیرجعفری کا زعفران زار یاد آ گیا ؎
نہ بینائی پسند آئی نہ دانائی پسند آئی
مجھے کل جرمنی میں ایک نکٹائی پسند آئی
بزرگوں کا علم‘ تقویٰ اور نیک نامی ہاتھ نہ آئی مگر دُورکی نظر کا ضُعف مل گیا۔ عینک نویں جماعت ہی میں لگ گئی تھی۔ والد گرامی کے ساتھ پنڈی گھیپ سے راولپنڈی آئے۔ نظر ٹیسٹ ہوئی۔ نمبر ملا۔ عینک ساز نے دوسرے دن آنے کا کہا۔ والد گرامی کے دوست سید سجاد بخاری‘ ماہنامہ تعلیم القرآن کے مدیر تھے اور جید عالم! انہی کے ہاں رات کا قیام تھا۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگے‘ یہ جو صاحبزادے کے اشعار۔ روزنامہ تعمیر اور ماہنامہ تعلیم القرآن میں شائع ہوتے ہیں۔ یہ اباجی لکھ کر دیتے ہوں گے۔ نویں جماعت کے بچے نے کیا شاعری کرنی ہے اور وہ بھی جو چھپ جائے۔ عرض کیا نہیں! میرے نام سے میری اپنی شاعری چھپتی ہے۔ والد صاحب کی نہیں! شاہ صاحب کہنے لگے ‘ سانچ کو آنچ نہیں‘ ابھی پتہ لگ جائے گا۔ تم راولپنڈی آئے ہو کہ عینک لگوائی جائے۔ بس اسے شعر میں بیان کر دو۔ طبیعت موزوں تھی۔ فارسی تب بھی دل و دماغ پر حکمران تھی۔تھوڑی دیر میں دو شعر کہہ کر سنا دیے اور شاہ جی پرچوٹ بھی کر دی ؎
آئے ہیں گھر سے چل کے پنڈی تک
تاکہ ہم بھی لگائیں اک عینک
شاہ جی نے ہمیں ہے جانا چور
لیک ہم بھی نہیں ہیں اتنے کور
شاہ صاحب بہت ہنسے اور مان لیا کہ صاحبزادے خود شعر کہتے ہیں۔
گرما کی ایک سفید ‘ تابدار صبح تھی۔ جب والد گرامی مرحوم کو لے کر شفا آئی ہسپتال روانہ ہوا۔ اب انہیں پڑھنے لکھنے میں دقت ہونے لگی تھی۔ دھوپ میں تکلیف زیادہ ہوتی تھی۔ اگرچہ وہ دھوپ والا چشمہ بھی لگاتے تھے۔ پوچھتے کتنے دن سبق نہیں پڑھا سکوں گا۔ ان دنوں حماسہ‘ متنبی اورسبع معلقات کا درس دیتے تھے۔ راستے میں ڈرائیور نے مہم جوئی کی۔ گاڑی ایک بس سے مس ہو کر گزری اور مشکل سے بچی۔ ایران میں دوران قیام ٹریفک کے ایک حادثے کے بعد ان کے اعصاب کمزور ہو گئے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات دیکھے اور ڈرائیور سے گاڑی لے کر خود چلانے لگا۔ ایک آنکھ کی سرجری ہوئی۔ سہ پہر کو ہمیں گھر بھیج دیا گیا۔ پہلے دو دن ایک ایک دو دو گھنٹے بعد دوا ڈالنا تھی۔ دوسرے دن دفتر جاتے وقت اہلیہ کی سہولت کے لئے دوا کا ٹائم ٹیبل بنا کر دیوار پر چسپاں کر دیا تاکہ وہ ٹھیک وقت پر دوا ڈالتی رہیں۔ چند ہفتوں بعد دوسری آنکھ میں بھی عدسہ ڈال دیا گیا۔ اب انہیں سہولت ہو گئی۔ عینک کے بغیر پڑھنے لگے۔ مگر چند سال بعد آنکھ کے پردے میں خرابی پیدا ہو گئی۔ اسے
Retina-detatchment
کہتے ہیں۔ ایک لمبا آپریشن کرانا پڑا۔ اس کے بعد پہلے والی بات نہ رہی۔ بہر طور لکھنے پڑھنے کا کام وہ کرتے رہے۔
یہ جسم جو دیا گیا ہے ایک محدود مدت کے لئے ہے۔ یہ صرف اس آب و ہوا۔ اس فضا اور اس ماحول کے لئے بنا ہے جو اس زمین پر ہماری زندگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ فرض کیجیے۔ آپ کو خلا میں زندگی گزارنی پڑے تو وہاں یہ بدن کام نہیں آئے گا۔ اس جسم کا آپ سے جو تعلق ہے اس تعلق کی بے ثباتی اسی سے واضح ہو جاتی ہے کہ آپ کے جسم کے حصے الگ ہوتے رہتے ہیں اور آپ کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بال چلے جاتے ہیں۔ آپ سلامت رہتے ہیں۔ ناخن جدا ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کو اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ کسی انسان کے ہاتھ اور بازو کٹ کر الگ ہو جائیں تب بھی وہ انسان باقی رہتا ہے۔ معلوم ہوا جسم اُن کپڑوں کی طرح ہے جو ہم پہنتے ہیں۔ پھر اتار دیتے ہیں۔ جسم سلامت رہے یا اسے مور و مار کھائیں‘ زندگی اسی طرح رواں دواں رہتی ہے کسی اور شکل میں‘ کسی اور جسم میں‘ کسی اور صورت میں! اقبال نے اسے کئی اسالیب کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
اس جسم سے نکلنے کے بعد‘ روح کو جو نیا ٹھکانہ ملے گا کیا خبر اس میں دیکھنے کے لئے آنکھیں ہوں گی یا دید کا کوئی اور ذریعہ ہو گا۔ وہاں موتیا ہو گا نہ گلوکوما‘ نہ سرجری کی ضرورت پڑے گی۔
ہاں! یہ بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں جو اعضا ہماری خدمت پر مامور ہیں‘ انہیں گواہی کے لئے طلب کیا جائے گا۔ ہاتھ پائوں آنکھیں ‘دماغ‘ اگرچہ سب کچھ قادرِ مطلق کے بے کنار علم میں ہے۔ فرمایا۔’’وہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز بھی جانتا ہے جو سینوں کی گہرائیوں میں لپٹتے پڑے ہیں‘‘ یہ گواہی انسان کی تسلی کے لئے ہو گی کہ ناانصافی نہیں کی جا رہی!
خیانت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے! آنکھوں کی خیانت! ہم میں سے جو مالی خیانت کے مرتکب نہیں ہوتے اس خوش گمانی میں نہ رہیں کہ الزامِ خیانت سے بَری ہیں۔ خیانت کی قسمیں لاتعداد ہیں۔ نفاق‘ غیبت‘ چغل خوری‘ حب جاہ اور دیگر رذائل خیانت ہی کی صورتیں ہیں۔
لباس ہائے فاخرہ کے اندر کیا کچھ چھپا ہے؟ خوشنما چہروں کے پیچھے اصل میں کون ہے؟ دھوپ کے قیمتی برانڈڈ چشموں کے پیچھے آنکھیں کسے دیکھ رہی ہیں؟ جس طرح انتڑیوں ‘ جگر‘ پھیپھڑوں اور دیگر اعضا کو ایک خوبصورت جلد میں چھپا دیا گیا ہے‘ اسی طرح بدنیتی‘ نفاق‘ حسد اور دیگر نجاستوں کو وجیہہ شخصیتوں لچھے دار گفتگوئوں اور دمکتے ملبوسات میں مستور کر دیا گیا ہے۔ مگر کب تک؟ ؎
لباس بے آبرو‘ جواہر سیاہ سارے
وہ دن کہ جب جمع ہوں گے عالم پناہ سارے
No comments:
Post a Comment