Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, October 25, 2011

مگر اک بات جو دل میں ہے

یہ رباط تھا۔ مراکش کا خوبصورت خوابیدہ دارالحکومت۔ ہم کاسا بلانکا کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ کاسا بلانکا جو مراکش کا نیویارک ہے۔ پرتگالی میں کاسا بلانکا کا مطلب سفید محل ہے۔ عرب اسے دارالبیضا کہتے ہیں۔
محل نما مکان کے ساتھ بہت بڑا لان تھا۔ لان کے درمیان ایک شخص آلتی پالتی مارے زمین پر بیٹھا گھاس سے جھاڑ جھنکار نکال رہا تھا۔ مناسب فاصلے پر ایک خاتون بیٹھی یہی کام کر رہی تھیں۔ یہ قاضی رضوان الحق تھے۔ مراکش میں پاکستان کے سفیر۔ خاتون ان کی بیگم تھیں۔ یہی ہمارے میزبان تھے۔ میرے یارِ دیرینہ قاضی عمران کے برادر خورد۔
 قاضی رضوان تغلقوں کے دارالحکومت دیپالپور کے اس خاندان سے ہیں جسے ترکوں اور مغلوں نے قاضی مقرر کیا تھا۔ قاضی تو اب یہ لوگ نہیں رہے لیکن درویشی باقی ہے۔ قاضی عمران بھی بڑے بڑے عہدوں پر رہے مگر ہر رمضان کے آخری دس دن دیپالپور کی مسجد کے سخت فرش پر گزارتے تھے۔
میری بیگم بھی لان کی صفائی پر لگ گئیں اور میں آڈیٹر جنرل آف مراکش سے ملنے چلا گیا۔ ایک سال پہلے میکسیکو میں دنیا بھر کے ملکوں کے آڈیٹر جنرل اکٹھے ہوئے تھے۔ اپنے ملک کی ٹوٹی پھوٹی نمائندگی میں کر رہا تھا۔ وہیں ڈاکٹر احمد المداوی سے ملاقات رہی تھی۔ خدا میرے والد کی قبر کو اپنے نورِ رحمت سے بھر دے‘ میں ان سے عربی میں گفتگو کرتا اور وہ خصوصی شفقت سے پیش آتے۔ ان کا اصرار تھا کہ مراکش جب بھی آوں ملاقات ضرور ہونی چاہئے۔ اب جب میں ان کے دفتر میں داخل ہوا تو انہیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ شیشے کے خوبصورت گلاس نما مراکشی پیالوں سے پودینے کا قہوہ پیتے ہوئے ہم گفتگو کرتے رہے۔ جب انہوں نے میرے مراکش کے قیام کے دوران اپنے ایک سینئر افسر کو میرا معاون مقرر کیا اور گاڑی بھی مختص کرنے کا حکم دیا تو میں نے معذرت کی کہ میں سرکاری دورے پر نہیں‘ ذاتی حوالے سے سفر کر رہا ہوں۔ لیکن احمد المداوی آڈیٹر جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ عرب بھی تھے۔ میرے احتجاج کو ان کی عرب مہمان نوازی نے قطعی طور پر نامنظور کر دیا۔
رباط سے فاس تک کے سفر کے دوران یوں محسوس ہوا جیسے یورپ میں سفر کر رہے ہیں۔ وہی صفائی‘ وہی نظم و ضبط‘ ویسے ہی صاف ستھرے ریستوران‘ حدِ نگاہ تک زیتون کے باغات جو بہت کچھ یاد دلا رہے تھے۔ فاس وہی شہر ہے جسے انگریزی میں فیز (FEZ) کہتے ہیں۔ پرانا فاس دنیا کے ان معدودے چند شہروں میں سے ایک ہے جس کے گلی کوچوں اور ثقافت میں گذشتہ بارہ سو سال سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہزاروں تنگ گلیاں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئیں‘ چمڑے کی مختلف مراحل سے ہوتی ہوئی صفائی اور کاروبار‘ کہیں اونٹ کا گوشت بِک رہا ہے‘ کہیں گدھے پر سامان لادا جا رہا ہے۔ کہیں کھجوروں کے ڈھیر لگے ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی‘ جو مسلسل چل رہی ہے‘ یہیں ہے۔ مدرسوں کی پرشکوہ عمارات جابجا راستہ روکتی ہیں۔ فاس کی وجہ شہرت پھُندنے والی وہ سرخ ٹوپی بھی ہے جسے ترکی ٹوپی کہتے ہیں۔ عربی میں اسے تربوش کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بعد کے زمانے میں یہ ٹوپی یورپ سمیت مختلف مقامات پر بننے لگی لیکن اس کا اصل وطن فاس ہی ہے اور اس کا رنگ فاس کے ارد گرد پائے جانے والے ایک خاص قسم کے بیری کے درخت سے نکالا جاتا تھا۔ تاہم میرے لئے زیادہ اہم کام اس گھر کو تلاش کرنا تھا جہاں ابنِ خلدون نے زندگی کے بہت سے سال گزارے تھے۔ کئی لوگوں سے پوچھتے اور کئی چھوٹی بڑی گلیوں میں کئی گھنٹے چلنے کے بعد ہم نے وہ گھر تلاش کر لیا۔ یہ آج تک اسی حالت میں ہے۔ درمیان میں چھوٹا سا صحن اور اس کے ارد گرد تین منزلہ عمارت جس میں بہت سے کمرے تھے۔
میں سوچ رہا تھا کہ یہیں اس نے فلسفہ تاریخ پر وہ معرکہ آرا کتاب تصنیف کی ہو گی جو دنیا میں آج بھی اس موضوع پر معتبر ترین حوالہ ہے۔ اس تاریخی مکان کا موجودہ مالک ایک چھوٹا موٹا تاجر تھا۔ اس کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں اور پہلی نظر میں ڈراونا لگتا تھا۔ مکان کے باہر‘ بازار کے ایک کنارے پر اس نے دستکاریوں اور تحائف نما اشیاءکا سٹال لگایا ہوا تھا۔ ہم نے اس سے چند تحائف خریدے۔ وہ قیمت ذرا بھی کم کرنے پر تیار نہ تھا۔ میں نے اسے رام کرنے کیلئے کہا کہ وہ ابنِ خلدون کے گھر میں رہتا ہے اسلئے کچھ تو رعایت کرے۔ اس سے اس کی شانِ ملکیت پر زد پڑی اور وہ جلال میں آ گیا۔ تب اس نے وہ فقرہ کہا جو مجھے زندگی بھر نہیں بھولے گا۔ ”ابن خلدون کا تو کبھی رہا ہو گا۔ اس وقت اس مکان کا مالک میں ہوں“
مراکش شہر جو ملک کے جنوبی صحرا میں واقع ہے‘ سرخ شہر کہلاتا ہے کیونکہ اس میں ساری عمارتیں سرخ رنگ کی ہیں۔ یوسف بن تاشفین کا مزار اسی شہر میں ہے۔ اصل میں مراکش اس شہر کا نام ہے۔ ملک کیلئے مراکش کا لفظ صرف ہمارے ہاں ہی استعمال ہوتا ہے ورنہ عرب اس ملک کو المغرب اور دوسرے لوگ مراکو کہتے ہیں۔
طنجہ اور اس میں واقع ابن بطوطہ کے مزار پر اس سے پہلے ایک کالم  لکھا جا چکا ہے۔ طنجہ سے بحرِ روم پار کرنے میں آدھ گھنٹہ لگتا ہے۔ ہم نے مسجد قرطبہ میں نوحہ خوانی کی‘ غرناطہ میں الحمرا کے محلات میں کھڑے ہو کر دل ہی دل میں سینہ کوبی کی اور جبرالٹر (جبل الطارق) کے کہیں نزدیک ہی سے بحرِ روم کو دوبارہ پار کر کے مراکش پلٹ آئے۔
رباط پہنچے تو قاضی رضوان صاحب نے بتایا کہ ان کا تبادلہ ہو چکا ہے اور چند دنوں میں وہ ہسپانیہ کے دارالحکومت میڈرڈ میں سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے چلے جائیں گے۔ اس رات ہم دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ صبح سویرے ہماری روانگی تھی۔ پراسرار طور پر گم ہو جانے والے شبیر شاہد کے اشعار یاد آ رہے تھے
مئے فراغت کا آخری دور چل رہا تھا
سبو کنارے وصال کا چاند ڈھل رہا تھا
نگاہیں دعوت کی میز سے دور کھو گئی تھیں
تمام ذہنوں میں ایک سایہ سا چل رہا تھا
میں نے رضوان سے کہا کہ وہ اپنے کیریئر کے عروج پر ہے اور بڑے بڑے ملکوں میں پاکستان کی سفارت کاری کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ اس عروج کے بعد ظاہر ہے ریٹائرمنٹ ہو گئی۔ کیا اتنے خوبصورت ملکوں اور پرامن شہروں کو چھوڑ کر وہ پاکستان واپس جائے گا یا بہت سے دوسرے سفیر حضرات کی طرح باہر ہی آباد ہو گا۔ میرا سوال سن کر وہ خاموش ہو گیا۔ اس خاموشی میں بہت کچھ تھا۔ غم اور افسوس‘ واپسی کی خواہش اور محبت۔ بے بسی اور ارادے کی پختگی بھی۔
جب رضوان بولا تو یوں لگا جیسے اس کی آواز کہیں دور سے آ رہی ہے۔ اظہار بھائی! پوری دنیا دیکھ لی‘ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا۔ ترقی یافتہ شہروں میں ہر جدید سہولت آزمائی لیکن اصل بات وہی ہے جو آپ ہی کے شعر میں بیان ہوئی ہے
مزے سارے تماشا گاہِ دنیا میں اٹھائے
مگر اک بات جو دل میں تھی جس کا غم بہت تھا
میں اب شامِ غریباں کے اس طلسم سے رہائی چاہتا ہوں اور ان گھروندوں ان محلوں اور ان مکانوں میں واپس جانا چاہتا ہوں جہاں میں نے اپنی زندگی کے پہلے پندرہ برس گزارے۔ جہاں میرے بچپن کے دوست ہیں‘ جہاں ہم نئے کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھا کرتے تھے اور کوئی نہیں پرواہ کرتا تھا کہ شیعہ کون ہے اور سنی کون۔ جہاں میں نے کبھی کہیں اپنی سائیکل کو تالہ نہیں لگایا تھا۔ جہاں ہم بے خطر بازاروں میں گھومتے تھے جہاں ماں باپ جب یہ نصیحت کرتے تھے کہ مغرب کی اذان کے ساتھ گھر واپس آنا ہے تو اس کی وجہ جان کا خطرہ نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ تہذیبی تربیت کا ایک جزو ہوتا تھا۔ میرے خواب انہی گلیوں میں گردش کر رہے ہیں‘ جہاں میرے اجداد کی قبریں ہیں اور جہاں میرا خاندان سینکڑوں سال سے رہتا چلا آ رہا ہے۔ جہاں ہاتھاپائی کرنے کا تصور بھی ناپید تھا۔ جہاں بحث ہوتی تھی لیکن کوئی ناراض ہوتا تھا نہ جھگڑتا تھا۔
اب وہاں گولیاں چل رہی ہیں‘ دھماکے ہو رہے ہیں‘ بارودی جیکٹس فیشن بنتی جا رہی ہیں‘ کبھی مذہب کے نام پر‘ کبھی امریکہ کی حمایت میں‘ کبھی امریکہ کی مخالفت کے حوالے سے اور کبھی اپنی ذاتی رائے کو اسلام قرار دیتے ہوئے ہماری زندگیوں میں زہر گھولا جا رہا ہے۔ امن و امان قصہ پارینہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ میرے بچے وہاں جانے سے خوفزدہ ہیں لیکن میں وہیں جاوں گا اور وہیں رہوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان دہشت گردوں کو‘ اسلام کے ان نام نہاد علم برداروں کو اور امریکہ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے والوں کو شکست دیں گے۔ میرا اور کوئی ٹھکانہ نہیں! میں نے انہی گلیوں میں واپس جانا ہے اور وہیں اپنے بڑھاپے کی چاندی بکھیرنی ہے!

Tuesday, October 18, 2011

بوجھو تو جانیں

میرا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ سے ”بوجھو تو جانیں“ کھیلوں لیکن کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میرا آئیڈیل کون لوگ ہیں؟مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں بوجھ سکیں گے۔ آپ کا خیال ہو گا کہ دانشور، ادیب، سائنسدان یا فنکار میرا آئیڈیل ہیں۔ نہیں۔ ہرگز نہیں!

میرا آئیڈیل اِس ملک کے تاجر ہیں اس لئے کہ انکے اعصاب مضبوط ہیں۔ یہ گروہ ارادے کا پکا ہے۔ جو چاہے، حاصل کر کے رہتا ہے۔ کسی سے ڈرتا ہے نہ کسی کی پرواہ کرتا ہے۔ ملک میں سیلاب آئے یا زلزلہ، طوفان آئے یا آندھی، عید ہو یا رمضان، خوشی ہو یا غم، تاجر برادری پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ اپنے اہداف ہر حال میں جیت کر رہتے ہیں۔ یہ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں نہ کسی رکاوٹ ہی کو خاطر میں لاتے ہیں۔

آپ دکانیں صبح جلد کھولنے اور سرِشام بند کرنے ہی کی مثال لے لیجئے۔ جن ملکوں میں بجلی کی کمی کا مسئلہ نہیں اور خوشحالی کا دور دورہ ہے، وہاں بھی دکانیں صبح نو بجے کھُل جاتی ہیں اور شام پڑتے ہی بند ہو جاتی ہیں۔ میں اِن دنوں آسٹریلیا میں ہوں۔ حال ہی میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی گئی ہیں۔ سورج پونے آٹھ بجے غروب ہو رہا ہے لیکن دکانیں ساڑھے پانچ بجے بند ہو جاتی ہیں۔ یعنی غروبِ آفتاب سے دو گھنٹے پہلے۔ کسی تاجر نے احتجاج نہیں کیا کہ میں سہ پہر ہی کو کیوں دکان بند کر دوں۔ یہ لوگ صبح نو بجے دکانیں کھولتے ہیں۔ آبادی کا وہ حصہ جس نے دوپہر کو اپنے کام پر جانا ہے، یا وہ لوگ جو چھٹی پر ہیں، یا خواتین خانہ، سب صبح صبح بازار جاتے ہیں اور سودا سلف خرید کر دس گیارہ بجے تک فارغ ہو جاتے ہیں۔ آپ اسکے مقابلے میں پاکستان کی تاجر برادری کا ”انصاف“ ملاحظہ کیجئے اُنکے پاس صبح دکان نہ کھولنے کی کوئی دلیل نہیں، سوائے دھاندلی کے۔ یہ ”خدا ترس“ لوگ دن کے بارہ بجے دکانیں کھولتے ہیں اور وہ بھی بصد مشکل۔ آپ نے اگر دفتر سے چھٹی لی ہے کہ بچوں کو جوتے یا کپڑے دلانے ہیں یا نئے سال کی کتابیں خریدنی ہیں یا پورے مہینے یا ہفتے کا سودا سلف لینا ہے تو بارہ بجے تک آپ کو انتظار کرنا پڑے گا اور یوں آپ کا نصف دن ضائع ہو جائےگا۔ جو خریداری ظہر کے وقت شروع ہو گی وہ شام کے بعد تک جاری رہے گی۔ آپ بازار سے دس گیارہ بجے رات کو لوٹیں گے۔ یہ ایک خرابی کئی خرابیوں کو جنم دےگی۔ کھانا دیر سے کھائینگے۔ بچے تھکے ہوئے ہونگے۔ سب لوگ دیر سے سوئیں گے۔ صبح دیر سے اٹھیں گے۔ اس طرح ایک دائرہ بن جائےگا۔ خرابی ¿ اوقات۔ تصنیعِ اوقات کا دائرہ۔ جس سے باہر نکلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔

اس برادری میں جو لوگ خواتین سے لین دین کر رہے ہیں وہ اخلاق میں ”بہترین“ ہیں۔ سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، کام طے شدہ معاہدے کےمطابق کرنا، یہ سب کچھ ان لوگوں کی لغت میں مکمل ناپید ہے۔ اُن تاجروں کو دیکھ لیجئے، جن سے خواتین شادی بیاہ کا کام.... بالخصوص ملبوسات کا کام کراتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے کلچر میں شادی بیاہ کی تیاری ایک عذاب سے کم نہیں اور یہ عذاب خواتین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مرد حضرات رقم دے کر فارغ ہو جاتے ہیں اسکے بعد ان کا ایک ہی کام ہے کہ خواتین کو ڈانٹتے رہیں کہ تم نے فضول خرچی کی۔ انہیں تصور ہی نہیں کہ خواتین کس عذاب سے دوچار ہوتی ہیں۔ اس شعبے کے ننانوے فیصد تاجر کھُلی وعدہ خلافی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس کھلی وعدہ خلافی کو وہ کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ یہ ظالم لوگ خواتین کو کئی کئی پھیرے ڈالنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ تاریخ جو یہ کاغذ یا رسید پر لکھ کر دیتے ہیں، اُسے مذاق سمجھتے ہیں، پھر ان میں اتنا اخلاق بھی نہیں کہ ٹیلی فون کر کے اطلاع دےدیں کہ آپ فلاں تاریخ کے بجائے فلاں تاریخ کو آئیں۔ ہمارے خاندان میں ایک شادی تھی۔ خواتین اس قدر زچ ہوئیں کہ انہوں نے مجھے ساتھ آنے کو کہا۔ یہ ایک بہت بڑے حاجی صاحب کی دکان تھی۔ وہ کئی پھیرے ڈلوا چکے تھے اور ہر بار کام اُس تخصیص سے مختلف کرتے تھے جو کاغذ پر لکھ کر دیتے تھے۔ میں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا کہ آپ اتنی بار وعدہ خلافی کر چکے ہیں، کیا آپکی آمدنی جائز ہے؟ پہلے تو منت کی کہ آہستہ بولئے، باقی گاہک سُن لیں گے، پھر دبک کر اُوپر والی منزل پر چھپ گئے۔ آتے ہوئے میں نے انہیں دس روپے اضافی دئیے، پوچھنے لگے، یہ کیوں؟ میں نے کہا، میرے بعد جس گاہک سے وعدہ خلافی کریں گے، اُسے کم از کم فون کر کے بتا دیجئے گا کہ فلاں تاریخ کو آئے۔ یہ اسی ٹیلی فون کے پیسے ہیں!

اِس معاشرے میں جہاں مرد غالب اور حاوی ہیں، خواتین.... یہاں تک کہ تعلیم یافتہ خواتین بھی.... ان تاجروں کی بداخلاقی کا شکار ہیں اور احتجاج کا رویہ شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ ”حاجی“ صاحبان، اُس حدیث سے لگتا ہے ناواقف ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور امانت اسکے سپرد کی جائے تو خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کسوٹی پر پرکھیں تو ہم سب منافق ہیں۔ خاص طور پر تاجر اور سیاستدان.... حیرت اور افسوس اس بات پر ہے کہ جنہیں ہم کافر عیسائی اور یہودی کہتے ہیں وہ معاملات میں جھوٹ بولتے ہیں نہ وعدہ خلافی کرتے ہیں، آپ نے اکثر اپنے بڑوں سے سنا ہو گا کہ ہندو دکاندار بچے کو بھی وہی بھاﺅ دیتا تھا جو بڑے کو دیتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا، تاجروں کی اکثریت شکل صورت سے متشرع ہے۔ نمازی ہیں اور حج کر کے حاجی کہلواتے بھی ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز نفع خوری، کم تولنا اور کم ماپنا عام ہے۔ جعلی دوائیں، جعلی غذائیں ۔ اور پھر بیچتے وقت مال کا نقص نہیں بتایا جاتا اور ہوس اس قدر کہ رمضان آتے ہی قیمتیں دوچند بلکہ کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہیں۔ پوچھنے پر جواب ملے گا کہ پیچھے سے ہی مہنگی آ رہی ہیں۔ حالانکہ جو مال حاجی صاحب نے پرانی قیمت پر خرید کر رکھا ہوا ہے، اسکی قیمتِ فروخت بھی بڑھا دی ہے۔ اقبال نے شیخِ حرم کے بارے میں کہا تھا ....

یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیمِ بوذر   و   دَلقِ اویس      و چادرِ زہرا

شیخِ حرم میں اب شیخِ تجارت کو بھی شامل کر لیجئے!

پوری مہذب دینا میں یہ ایک معمول کی بات ہے کہ آپ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل کر سکتے ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ پالیسی لکھ کر لگا دی جاتی ہے۔ بہت سے ملکوں میں آپ تین ماہ تک مال واپس یا تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ اعزاز صرف پاکستانی صارفین کو حاصل ہے کہ وہ ”خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل“ نہیں کر سکتے۔ آپ تاجر کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنیں گے کہ جناب لے جائیے اس مال کی کوئی شکایت نہیں آئی ۔ بھائی جان  شکایت کیسے آئے گی ؟پاکستان میں تو صارف اس قدر دب چکا ہے اور اتنا مظلوم اور خوفزدہ ہے کہ شکایت کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ جس معاشرے میں ایک تاجر کا جرم۔ کھُلا جرم بخشوانے کےلئے سارے تاجر ہڑتال کر دیں اور گاہکوں اور انتظامیہ کو دھمکیاں دیں وہاں شکایت کون مائی کا لال کرےگا۔
اور آخری بات.... کیا ہماری تاجر برادری ٹیکس ادا کر رہی ہے اور کیا اتنا ہی ادا کر رہی ہے جتنا کرنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی! رہا یہ اعتراض کہ حکومت ٹیکس کی رقم کو غلط خرچ کرتی ہے تو یہ اعتراض اُسی وقت کیوں اٹھتا ہے جب ٹیکس پورا جمع کرنے کی مہم چلتی ہے؟ آپ دیانتدار نمائندے اسمبلیوں میں بھیجئے تو ٹیکس صحیح جگہ خرچ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ انکم ٹیکس اور محصولات جمع کرنےوالے اہلکاروں کو کرپشن کون سکھاتا ہے؟ بوجھو تو جانیں!

Tuesday, October 11, 2011

وہ میرا شعلہ جبیں موجئہ ہوا کی طرح

اکتوبر کی تیسری صبح تھی جب تعمیلِ حکم کےلئے فرشتہ گھر میں داخل ہوا اور زندگی پروں کو پھڑپھڑاتی دریچے سے باہر نکل گئی۔ فاروق گیلانی اپنے پروردگار کے حضور پہنچ گئے۔ سب سے بے نیاز۔ جیسا کہ رومی نے کہا تھا ....
بروزِ مرگ چو تابوتِ من رواں باشد
گماں مبر کہ مرا فکرِ این و آن باشد
مرگ کے دن جب میرا تابوت جا رہا ہو گا تو یہ نہ سوچنا کہ مجھے اِدھر اُدھر کی فکر ہو گی۔
وہ اِس عصر میں اُن اہلِ کمال کی تصویر تھے جن کے گزرے زمانوں کو لوگ یاد کر کے حیران ہوتے ہیں۔ 36 سال سروس کے اعلیٰ عہدوں پر یوں رہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ تلوار کی طرح تیز اور کھرے۔ کتنی ہی دفعہ سزا کے طور پر او ایس ڈی بنائے گئے لیکن کبھی اتنی مصلحت کیشی بھی پسند نہ کی جسے بڑے بڑے صالحین بھی جائز سمجھتے ہیں۔ نصف درجن کے قریب کتابیں آغازِ جوانی ہی میں تصنیف کر چکے تھے۔ گفتگو ایسی کہ ادب اور تاریخ کا، دانش اور حکمت کا مرقع۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ انکے سامنے فارسی یا اردو کا کوئی مصرع یا قرآن پاک کی کسی آیت کا حصہ پڑھا گیا اور انہوں نے اسے مکمل نہ کر دیا۔ اردو اور انگریزی پر یکساں مہارت۔ خیال کو پوشاک پہنانے کا ارادہ کرتے تو لفظ غلاموں کی طرح حاضر ہونا شروع ہو جاتے۔
پشاور کے سرکاری تربیتی ادارے میں لیکچر دینے گئے تو معروف شاعر ڈاکٹر وحید احمد نے، جو وہاں تعینات تھے، بتایا کہ انہوں نے زیر تربیت افسروں کو مٹھی میں لے لیا۔ آج کے کئی سیاستدان اور قلم کار اُنکے بابِ دانش سے فیض یاب ہوئے لیکن گیلانی صاحب نے کبھی ذکر کیا نہ جتایا۔ استغنٰی کا یہ عالم تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کئی ساتھی بیورو کریٹ ”قندِ مکرر“ کےلئے دوڑ دھوپ میں لگ گئے لیکن فاروق گیلانی نے دامن جھاڑا، گھر کو روانہ ہو گئے اور پلٹ کر نہ دیکھا۔ کئی بار کہا کہ شاہ جی! اداروں کو آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔ ہر بار ایک ہی بات کہتے ”لیکن اظہار بھائی! مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں“۔ شام کو اسلام آباد کلب میں دوستوں کی بزم برپا کرتے۔ جہاں بیٹھتے ملاقاتی آنا شروع ہو جاتے۔ ہر جا کہ رفت، خیمہ زد و بارگاہ ساخت! لامحدود دستر خوان۔ گھر ہو یا کلب۔ مہمانوں کا ہجوم۔ خود کم کھانے والے فاروق گیلانی کی وسعتِ قلب پر حیرت ہوتی۔ دوست تو دوست تھے، واقف کاروں کو بھی پکڑ کر لاتے اور ضیافتوں میں شریک کرتے۔
جب تک مکان زیرِ تعمیر  رہا  ہر ہفتے مزدوروں اور کاریگروں کی دعوت کرتے اور دوستوں کو بھی شریک کرتے۔ خوشحالی اللہ نے جتنی دی اُس سے زیادہ ہی خرچ کیا۔ اس میں رمق بھر مبالغہ نہیں کہ ہر قدم پر بٹوہ کھولتے اور خسروانہ بخشش کرتے۔ انکے جانے سے کتنے ہی ملازم، کتنے ہی دربان اور کتنے ہی سفید پوش سرپرستی سے محروم ہو گئے۔ مال کو بکری کی چھینک سمجھنے کا محاورہ پڑھا تو تھا لیکن خدا کی قسم! فاروق گیلانی کو دیکھنے اور انکے ساتھ رہنے سے سمجھ میں آیا۔
آسٹریلیا میں اُس وقت شام کا سرد دھندلکا پھیل رہا تھا جب سکائپ پر میرا بیٹا معاذ نمودار ہوا۔ اُس کا چہرہ دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا اور جب اس نے بتایا تو جو کیفیت ہوئی اُس کیفیت کا کوئی نام نہیں تھا۔ سکتہ نہ ہوش نہ بے ہوشی۔ ہر ہفتے طویل فون کرتے اور ہر بار واپسی کی تفصیل پوچھتے۔ دو سال پہلے جب بیٹے کے اصرار پر میں کچا پکا بیرون ملک منتقل ہوا تو سخت ناخوش تھے۔ چھ ماہ بعد واپس آیا تو ہر شام اکٹھی گذرتی اور جب بھی موقع ملتا باہر نہ جانے کی ترغیب دیتے۔ اب خبر ملی تو احساسِ جرم، صدمے کے علاوہ تھا۔ اُن کے گھر، ظاہر ہے، فون اٹھانے کا ہوش کسے ہونا تھا! مشترکہ دوستوں کو فون کرنے شروع کئے۔ آکہ وابستہ ہیں اس حُسن کی یادیں تجھ سے۔ ہارون الرشید فون اٹھا نہیں رہے تھے۔ پروفیسر معظم منہاس ملے تو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے۔ اپنے گھر فون کیا تو حسان سسکیاں بھر رہا تھا۔ پھر دوستوں کی میلز آنا شروع ہو گئیں۔ جاوید علی خان نے لکھا کہ اسلام آباد اب کبھی پہلے جیسا نہیں ہو گا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سعید صاحب نے اطلاع دی۔ یہ سانحہ ہر شخص کے لئے ذاتی المیہ تھا۔
نماز کی پابندی تو تھی ہی، نمازِ باجماعت کی حرص شدید تھی۔ یہ فقرہ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے ”اظہار بھائی! جماعت کے ساتھ پڑھنے میں پچیس گنا زیادہ ثواب ہے“۔ اسلام آباد کلب کے اندر گراﺅنڈ فلور پر مردوں کےلئے اور بالائی منزل پر خواتین کےلئے نماز کی جگہ بنوائی۔ بیٹیوں کو پڑھاتے تو سبھی ہیں انہوں نے تربیت بھی کی۔ تینوں کو انگریزی ادب میں ماسٹر کرایا اور نماز کا پابند بھی بنایا۔ مدتوں پہلے میں نے مریم کا کالم پڑھا اور مبارک دی تو فون نمبر لکھایا کہ بھتیجی کو خود مبارک دو۔ پھر وہ سول سروس کے لئے منتخب ہو گئی۔ ریلوے میں سیاسی اور ذاتی بنیادوں پر بھرتی کی کوشش ہوئی تو مریم متعلقہ شعبے کی انچارج تھی۔ پہاڑ کی طرح رکاوٹ بن گئی۔ اکثریت۔ مجھ سمیت۔ اپنے بچوں کےلئے گوشہ عافیت تلاش کرتی ہے لیکن فاروق گیلانی نے بیٹی کو ڈٹ جانے کےلئے کہا۔ وہ دن سخت آزمائش اور ابتلا کے تھے۔ معطلی ہوئی۔ پھر برطرفی ہو گئی۔ گیلانی صاحب ایک لمحہ کےلئے بھی پریشان نہ ہوئے۔ ایک ہی بات زبان پر رہتی تھی کہ انشاءاللہ آخر کار مریم کی جیت ہو گی۔ اسعد گیلانی کی پوتی اور فاروق گیلانی کی بیٹی نے عدالت اور ٹریبونل میں اپنے مقدمے کی پیروی زیادہ تر خود کی۔ دھمکیاں ملیں تو سید زادی نے بندوق چلانا سیکھ لی۔ آخر کار اس کا موقف درست مان کر اُسے بحال کر دیا گیا۔ چند ہفتے پیشتر گیلانی صاحب نے فون کر کے بتایا۔ مبارک دی تو مسلسل اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔
اپنی شریکِ حیات کےساتھ فاروق گیلانی کا سلوک دیکھ کر وہ حدیث مبارکہ یاد آ جاتی تھی کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کےساتھ اچھا ہے۔ فرزانہ بھابھی کےساتھ جو تعلق تھا وہ شرکتِ حیات اور دوستی سے کہیں آگے کا تھا۔ سفر و حضر میں اکٹھے رہے۔ ہمیشہ اکٹھے۔ ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی۔ کسی ضروری کام سے تھوڑی دیر کےلئے بھی کراچی لاہور یا پشاور جانا ہوتا تب بھی اکیلے نہ جاتے۔ سب کچھ خواب و خیال ہو گیا ....
خوش بود لبِ آب و گُل و سبزہ و نسرین
افسوس کہ آن گنجِ روان رہگذری بود
فاروق گیلانی پکے اور سچے پاکستانی تھے۔ پاکستان کی بقا پر پختہ یقین تھا۔ ہم کئی دوست بلوچستان کے حالات سے پریشان ہو کر وسوسوں کا شکار ہوتے اور ہمیں مشرقی پاکستان کا حادثہ یاد آ تا تو گیلانی صاحب دلائل کا انبار  لگا کر  ثابت کرتے کہ  مشرقی پاکستان کے ساتھ تطابق غیر منطقی ہے۔ انہیں سیاسی حرکیات  کا قابل رشک ادراک تھا۔اور اسے پیش کرنے کا اس سے بھی زیادہ قابل رشک فن رکھتے تھے۔ وہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حیرت انگیز حوصلہ رکھتے تھے۔ سخت پابند صوم  و صلوٰۃ ہونے کے باوجود ان کے قریبی حلقئہ احباب میں دوسرے مذہب اور دوسرے مسالک رکھنے والے احباب شامل تھے اور مہمان نوازی، قربت اور محبت ان کے ساتھ بھی غیر مشروط تھی۔

اسلام آباد میں دو قبرستان ہیں۔ ایک میں میرے والد گرامی  اور میرا  چار ماہ کا بیٹامحو استراحت ہیں ۔ اب دوسرے میں فاروق گیلانی نے ڈیرہ   ڈال لیا ہے۔ وہ ہر روز فون کرکے پوچھتے  اظہار بھائی  کلب کس وقت آرہے ہیں؟ مجھے لگتا ہے اب بھی پوچھیں گے اظہار بھائی آج میرے پاس چکر لگائیں گے؟ شاہ جی  آپ چھ ماہ فون کر کر کے واپسی کاپوچھتے رہے ۔اور واپسی سے چودہ دن پہلے خود وہاں چلے گئے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ آپ نے خوب سزا دی۔

اِذا  زُرتُ ارضاَ َ بعدَ طولِ اجتنابا بہا
فَقدتُ  صَدیقی   و البلادُ   کما      ھیا

  میں طویل غیر حاضری کے بعد وطن واپس آیا تو  شہر تو وہی تھے لیکن میرا دوست غائب تھا۔

وہی مکاں  وہی گلیاں  مگر وہ لوگ نہیں
یہی  مراد  تو    ہے بستیاں اجڑنے سے     
فاروق گیلانی چلے گئے۔ ہائے صادق نسیم مرحوم کا شعر یاد آ رہا ہے ....
وہ میرا شعلہ جبیں موجہ ہوا کی طرح
دیے بجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا

Tuesday, October 04, 2011

پاگل لڑکے سے ٹاکرہ



میں جب کسی کام کا بیڑہ اٹھاتا ہوں تو پھر محنت ، احساسِ ذمہ داری اور کار کردگی کی انتہا پر پہنچ کر دم لیتا ہوں۔ اب کُل جماعتی کانفرنس [ اے پی سی ] ہی کو لے لیجیے، میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جہاں تک میرا بس چلے گا ہر پاکستانی کو اس کانفرنس کی اہمیت سے آگاہ کروں گا۔ آخر ملک کا مستقبل اسی کُل جماعتی کانفرنس ہی پر تو منحصر ہے۔
یہی احساس ذمہ داری تھا جس نے مجھے اس نوجوان لڑکے سے گفتگو کرنے پر مجبور کیا جو سخت گرمی میں مکان کے باہر تھڑے پر بیٹھا تھا۔ میں نے گاڑی ایک طرف پارک کی اور اُس گندی چھوٹی گلی کے دوسری طرف اُس کے پاس باقاعدہ چل کر گیا۔ پسینے سے اس کی قمیض اس کے بدن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ اس سے بو آرہی تھی۔ پھر بھی میں اس کے نزدیک ہئوا اور پوچھا ۔" نوجوان تمہیں معلوم ہی ہو گا کہ کُل جماعتی کانفرنس ہو رہی ہے جو ملک کی سلامتی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔"
اُس نے قمیض کے بازو کے ساتھ ماتھا پونچھا اور عجیب ہونق انداز میں کہنے لگا " کون سی کُل جماعتی کانفرنس؟"
پوچھنے پر اس نے بتایا کہ گیارھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پھر بھی اسے کانفرنس کے بارے میں کچھ علم نہیں
" کیا اخبار نہیں پڑھتے ؟ ٹیلی ویژن پر خبریں نہیں سنتے؟"
" چاچا اخبار ہمارے ہاں نہیں آتا۔ اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ اب اخبار کا بل بھی ادا کرنا شروع کر دیں۔ رہا ٹیلی ویژن تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اس شدید گرمی میں باہر کیوں بیٹھا ہوں ؟ دو گھنٹوں سے بجلی غائِب ہے۔ اور دن میں کئی بار ایسا ہوتا ہے۔ جب ٹی وی چلتا ہی نہیں تو خبریں کیسے دیکھیں اور سنیں۔ لیکن یہ بتائو کہ کل جماعتی کانفرنس میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بارے میں کیا فیصلہ ہئوا ہے؟ مہنگائی کم کرنے کے کے متعلق ہمارے رہنمائوں نے کیا کہا ہے؟ اور یہ جو دن دہاڑے چوریاں ہو رہی ہیں اور ڈاکے پڑ رہے ہیں اس کا کل جماعتی کانفرنس نے کیا حل سوچا ہے؟"
مجھے اس پر غصّہ آیا۔ ایک تو اس نے مجھے چاچا کہہ کر مخاطب کیا جو عجیب سا لگا۔ میرے بچوں کے دوست تو مجھے انکل کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔ چاچا ماما خالہ ماسی کے الفاظ پڑھے لکھے لوگ نہیں استعمال کرتے۔ اوپر سے وہ کُل جماعتی کانفرنس کو لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
میں نے اُس سے مغز ماری جاری رکھی۔
" یہ جو کانفرنس ہو رہی ہے یہ امریکی دھمکیوں اور ممکنہ امریکی حملے کے پیش نظر منعقد کی جا رہی ہے۔ کیا تم امریکی دھمکیوں سے پریشان نہیں۔؟"
اس نے میری طرف یوں دیکھا جیسے میں دنیا کا احمق ترین انسان ہوں۔
" چا چا امریکہ کا دماغ نہیں خراب جو ہم پر حملہ کرے حملہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ ملک کو تباہ کر دیا جائے ۔ تو تباہ تو ہم امریکی حملے کے بغیر ہی ہو رہے ہیں۔ رہی کل جماعتی کانفرنس تو اس کا فاِئدہ صرف یہ ہئوا کہ کچھ امیر لوگوں کو اپنی خوش پوشی دکھانے کا موقعہ مل گیا۔ سنا ہے کہ وزیر اعظم کے ایک ایک سوٹ کی قیمت لاکھوں روپے میں ہے۔کیا کانفرنس میں دعوت اڑانے والے "عقل مند" رہنمائوں کو نہیں معلوم کہ ملک کی کیا حالت ہے؟ کیا ہمارے ملک کا مسئلہ نمبر ون امریکہ ہے؟ ریلوے موت کے گھاٹ اتر رہی ہے۔ پی آئی اے بد عنوانی اور نا اہلی کا گڑھ ہے۔ واپڈا کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ اپنے ملازمین کو مفت بجلی فراہم کرے۔ سیلاب زدگان جانوروں کی سی زندگی گذار رہے ہیں۔ ہر سال سیلاب آتا ہے اور سیلاب آنے سے پہلے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ۔ڈینگی سے لوگ مر رہے ہیں۔ سپرے جعلی ہو رہے ہیں۔ رہائشی علاقے گائے بھینسوں اور ان کے گوبر پیشاب سے معمور ہیں۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں مویشی شہروں سے باہر مخصوص علاقوں میں رکھے جاتے ہیں۔ اور جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے بھی مخصوص علاقے ہیں۔ یہاں ہر گھر کے سامنے گوبر ہے اور آنتیں اور اوجھڑی بھی پڑی ہے۔ یہ مسخرے جو امریکہ کا نام لے کر آئے دن جلوس نکالتے ہیں اور شاہراہیں بند کر کے رہگیروں کو اذیت پہنچاتے ہیں ان مسائل کے حل کے لیے کوئی پروگرام کیوں نہیں پیش کرتے؟ اور حکومت سے اس ضمن میں بات کیوں نہیں کرتے؟ ایک عام پاکستانی کا مسئلہ امریکہ ہے نہ طالبان۔ اس کا مسئلہ بجلی اور گیس ہے ۔ روٹی ہے ۔ امن و امان ہے اور انصاف ہے۔"
اب میں اس پاگل لڑکے سے جان چھڑانا چاہتا تھا اور وہ خاموش ہی نہیں ہو رہا تھا۔ وہ سانس لینے کو رکا تو میں نے اس سے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے اور میں جا رہا ہوں۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیااور کہنے لگا " مجھ سے تو تم پوچھ رہے ہو کہ کیا مجھے کل جماعتی کانفرنس کا علم ہے یا نہیں۔ تو کیا تمہیں بھی معلوم ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں حرام کھانے والے پاکستانیوں کے ستانوے ارب ڈالر جمع ہیں؟"
میں نے اس خبر سے بے علمی کا اظہار کیا تو تو اس نے تقریباَ َ میرا مونہہ چڑاتے ہوئے کہا کہ قیمتی لباس پہننے والے مسخروں کی کانفرنسوں سے اگر فرصت مل جائے تو وہ خبریں بھی پڑھ لیا کرو جن کا اس ملک کی تباہی سے براہ راست تعلق ہے۔ سئوٹزر لینڈ کے بنکوں کے ڈائرکٹر نے انکشاف کیا ہے کہ سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کے ستانوے ارب ڈالر پڑے ہیں۔
اس رقم سے تیس سال تک پاکستان کا ٹیکس فری بجٹ بنایا جا سکتا ہے۔ چھ کروڑ پاکستانیوں کو ملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔ پورے ملک کے گائوں سڑکوں کے ذریعے اسلام آباد سے جُڑ سکتے ہیں۔ سینکڑوں عوامی منصوبوں کو مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ اور پاکستان کے ہر شہری کو ساٹھ سال تک ہر ماہ بیس ہزار روپے دیے جا سکتے ہیں۔"
اس نے بات جاری رکھی " چاچا میں نے اور میرے دوستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم آدھی رات کو اُٹھ کر وضو کر کے خدا کے حضور سر بسجود ہوں گے اور دعا کریں گے کہ اگر یہ ڈاکو ملک کی یہ رقم واپس ملک میں نہیں لاتے تو یہ اس رقم کو استعمال کرنے سے پہلے ہلاک ہو جائیں، ان کی قبریں آگ ، دھوئیں ، بچھئووں اور سانپوں سے بھر جائیں اور آخرت میں ان کے ناپاک جسموں کو انہی ڈالروں سے داغا جائے۔ چاچا تم اپنے اخبار میں لکھو کہ سب پاکستانی رات کو اُٹھ کر خدا کے حضور یہی دعا کریں۔"
میں نے عافیت اسی میں جانی کہ وہاں سے بھاگوں۔ میں گلی پار کرنے ہی والا تھا کہ وہ پیچھے سے تقریباَ َ چیخ کر بولا
" اور ہاں چاچا میں تمہارے دل کی بات جان گیا تھا۔ اپنے بچوں کو بتائو کہ آنکلوں اور آنٹیوں کے علاوہ چاچوں ماموں ماسیوں اور پھپھیوں کے رشتے بھی ہوتے ہیں"
 

powered by worldwanders.com