Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, December 29, 2018

تحریکِ انصاف کی حکومت اپنے پائوں پر کلہاڑی کیسے ماررہی ہے؟


جہلم شہر کی آبادی پونے دو لاکھ ہے‘ چکوال کی تقریباً دو لاکھ۔ اتنی ہی میر پور کی ہو گی۔ دینہ کی ساٹھ ہزار ہے۔ گوجر خان کی بھی ڈیڑھ لاکھ سے کیا کم ہو گی۔تحصیل کلر سیداں کی آبادی سوا دو لاکھ ہے۔ پھر کہوٹہ شہر اور تحصیل ہے۔ سوہاوہ ہے۔ مندرہ اور روات ہیں۔ یہ وہ قصبے ہیں جن کے نام ہمیں معلوم ہیں۔ ان سے متصل وہ سینکڑوں قریے ہیں جو جہلم‘ چکوال ‘ گوجر خان ‘ دینہ اور کلر سیداں کے اردگرد آباد ہیں۔ انسانوں کا جمِّ غفیر سورج طلوع ہونے کے ساتھ ان تمام قریوں بستیوں سے نکلتا ہے۔ ان میں طلبہ اور طالبات ہیں۔ دفتروں ‘کارخانوں ‘وزارتوں ‘سفارتوں ‘کالجوں ‘سکولوں‘ کمپنیوں ‘تجارت خانوں‘ سپر سٹوروں‘ دکانوں میں ملازم عورتیں اور مرد ہیں۔ یہ لاکھوں افراد جس شاہراہ کو دارالحکومت جانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اسے ایکسپریس وے کہتے ہیں۔ 

مگر ایکسپریس وے پر صرف ان کی اجارہ داری نہیں‘ خود ایکسپریس وے کے دونوں طرف لاتعداد بستیاں آباد ہیں۔ بحریہ کے آٹھ فیز۔ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے پانچ فیز۔ پی ڈبلیو ڈی۔ میڈیا ٹائون۔ پولیس فائونڈیشن‘ ڈاکٹرز کالونی۔ کورنگ ٹائون۔ پاکستان ٹائون۔ غوری ٹائون۔ جناح ٹائون‘ نیوی کا اینکریج۔غرض بیسیوں آبادیاں انسانوں سے چھلک رہی ہیں! 

یہ لاکھوں افراد ایکسپریس وے پر جیسے ہی کاک پُل عبور کرتے ہیں‘ ٹریفک رُک جاتی ہے۔ ٹرکوں کی قطار ہے جسے قطار کہنا جھوٹ ہے۔ یہ ٹرک اس تنگ شاہراہ پر عملاً قبضہ کئے ہوتے ہیں۔ کاریں ویگنیں سوزوکیاں بسیں موٹر سائیکل ‘ چیونٹی کی رفتار سے رینگتے ہیں۔ پھر پی ڈبلیو ڈی بحریہ اور پولیس فائونڈیشن سے ٹریفک کا ایک اور ریلا اس گرفتارِ بلا ہجوم میں آن ملتا ہے۔ سات سے آٹھ بج جاتے ہیں۔ پھر نو۔ پھر دس! یہ لاکھوں انسان ایک ایک انچ۔ ایک ایک سنٹی میٹر کے حساب سے چک لالہ کے پرانے ایئر پورٹ چوک کی طرف بڑھتے ہیں۔ جب یہ ڈیوٹی کے مقامات پر پہنچتے ہیں تو کسی کی غیر حاضری لگ چکی ہوتی ہے کسی کو بلا کر ڈانٹ پلائی جاتی ہے۔ طلبہ اور طالبات کے پہلے ایک یا دو پیریڈ ضائع ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ۔ یہ لاکھوں افراد ڈیوٹی پر پہنچنے سے پہلے ہی تھک کر چور ہو چکے ہوتے ہیں۔ 

اذیت کی یہ خوراک شام کو پھر لینا ہوتی ہے! اب خلقِ خدا نے واپس اپنے اپنے شہر‘ قصبے‘ بستی‘ قریے‘ گائوں‘ ڈھوک پہنچنا ہے۔ دارالحکومت سے چل کر‘ فیض آباد سے ہوتے ہوئے‘ جیسے ہی ٹریفک کرال چوک اور گلبرگ کو پار کرتی ہے‘ ایک تنگ پُل میں اٹک جاتی ہے۔ پیچھے سے چار لین کی شاہراہ تھی۔ آگے دو لین کی ایسی سڑک ہے جسے سڑک کہنا اپنی عاقبت خراب کرنے کے مترادف ہے۔ چار لین کی ٹریفک کو دو لین میں گھسیڑنے سے وہی تماشا بنتا ہے جو شیطان کو کنکریاں مارتے وقت ہجوم کے آگے بڑھنے کے بجائے واپس آنے سے بنتا ہے۔ گھنٹوں پرگھنٹے گزرتے ہیں۔ کاروں بسوں سوزوکیوں ویگنوں میں خلق خدا بیٹھی‘ بھوکی پیاسی‘ راستہ طے ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ اب لوگ اس بے آب و گیاہ لق و دق صحرا کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ گاڑیوں کی ٹینکیاں پٹرول سے بھر کر‘ اس طرف آتے ہیں۔ مشکیزے آج کل استعمال نہیں ہوتے‘ پانی سے بھری بوتلیں کھانے پینے کی اشیا‘ سب ساتھ رکھتے ہیں اس لیے کہ یہ عذاب کا سفر ہے۔ گلبرگ سے روات تک چند کلو میٹر کا فاصلہ دو سے تین گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ 

شریف برادران راشی سہی‘ چور ڈاکو سہی‘ نیم تعلیم یافتہ سہی‘ شاہراہیں بہر طور بنا رہے تھے۔ ایکسپریس وے کا دو تہائی حصہ سابقہ حکومت نے بنا دیا تھا۔ پہلا حصہ زیرو پوائنٹ سے لے کر فیض آباد تک تھا۔ دوسرا فیض آباد سے لے کر گلبرگ تک تھا۔ یہ مکمل ہو گئے تھے ۔تیسرے حصے کے بجٹ کی منظوری سابق وزیر اعظم خاقان عباسی نے دے دی تھی۔ اگر حکومت تبدیل نہ ہوتی تو یہ شاہراہ اب تک بن چکی ہوتی یا تکمیل کے قریب ہوتی! 

وزیر اعظم عمران خان کی نیت صالح ہے۔ بے غرض ہے۔ بے لوث اپروچ ہے۔ مگر اس میں فلسفہ اور تھیوری زیادہ ہے اور عملی اقدامات کم ہیں۔ سب سے بڑی غلطی ان کی حکومت یہ کر رہی ہے کہ جو عوامی منصوبے زیر تعمیر تھے یا شروع ہونے والے تھے‘ وہ روک دیے گئے ہیں۔ یہ کوتاہ بینی کی انتہا ہے۔ بچے کو بھی معلوم ہے اور کپڑے پھاڑنے والا پاگل بھی جانتا ہے کہ جو شاہراہیں تعمیر ہونے والی تھیں یا بن رہی تھیں‘ انہیں روکنا اپنے ہاتھ پائوں کٹانے کے مترادف ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے جہلم‘ دینہ ‘چکوال ‘روات ‘گوجر خان ‘کلر سیداں‘ کہوٹہ ‘میر پور اور پھر ایکسپریس وے کے دونوں کناروں پر آباد لاکھوں افراد جو دن میں دو بار اس قیامت صغریٰ سے گزرتے ہیں‘ دن میں دو بار نئی حکومت کو گالی نہیں دیتے؟ بددعائیں نہیں دیتے؟ آپ لاکھوں افراد کی بہبود پر لات ماریں گے تو آپ کو کون الو کا پٹھا ووٹ دے گا؟ آپ نے آ کر شاہراہوں پر جاری کام روک دیا ہے۔ بجٹ کھینچ لیا۔ ساری کی ساری توجہ احتساب پر مرکوز کر دی۔ محض احتساب لوگوں کی ٹریفک کی اذیت نہیں دور کر سکتا۔ اگر لوگ صبح ڈیوٹی پر نہ پہنچ سکیں اور شام گھر لوٹتے وقت ہر روز جہنم سے گزریں اور آپ کی سوئی احتساب پر اٹکی رہے تو پھر یا تو آپ کی عقل دو نقطے والے قاف کے بجائے کتے والے کاف سے ہے یا آپ جان بوجھ کر اُس راستے پر چل رہے ہیں جو ہزیمت کا راستہ ہے! 

انصاف اور احتساب کا کام شیرشاہ سوری نے بھی کیا تھا اور علائوالدین خلجی نے بھی! مگر سینکڑوں برس پہلے‘ جب امریکہ سوئٹزرلینڈ اور سکینڈے نیویا کی مثالی ریاستیں‘ موجود نہیں تھیں‘ اس گھوڑوں کے زمانے میں بھی‘ ان حکمرانوں کو معلوم تھا کہ عوام کی فوری ضروریات کیا ہیں! صرف پانچ برسوں میں شیر شاہ سوری نے پورے برِصغیر کو شاہراہوں سے یوں بھر دیا جیسے آسمان پر کہکشائوں کے راستے ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں۔ سنار گائوں (کلکتہ) سے پشاور تک۔ ملتان سے دہلی تک رہتاس سے برہان پور تک۔ آگرہ سے جودھ پور تک۔ جونپور سے اجمیر تک۔ شاہراہوں کا جال بچھا دیا۔ ہر چند کوس کے بعد سرائیں بنوائیں۔ ان میں ٹھنڈا اور گرم پانی چوبیس گھنٹے موجود رہتا تھا۔ چار پائیاں حاضر تھیں۔گھوڑوں کے لیے چارہ تھا۔ اخراجات حکومت کے ذمے تھے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات مدِ نظر رکھتے ہوئے کھانے پینے کا انتظام الگ الگ تھا۔ 

کیا کوئی رجلِ رشید اُس ہجوم میں شامل ہے جو وزیر اعظم کے گرد حصار باندھے کھڑا ہے؟ وزیر اعظم کو اگر سسکتی بلکتی خلقِ خدا سے ہمدردی نہیں تو کم از کم اگلے انتخابات میں ووٹ لینے کی غرض ہی سے پالیسی پر نظرثانی کریں۔ وہ منصوبے جو گزشتہ حکومت میں زیر تکمیل تھے یا جن کے بجٹ منظورہو چکے تھے اور شروع ہونے والے تھے‘ ان منصوبوں پر رحم کھائیں۔ انہیں نہ روکیں۔ ان کے اجرا کا حکم دیں۔ ورنہ عمران خان اور شہباز شریف میں کیا فرق رہ جائے گا؟ شبہاز شریف نے بھی چودھری پرویز الٰہی کے چلتے ہوئے منصوبے روک دیے تھے!! کیا اس ملک میں یہی تماشا چلتا رہے گا؟ ؎ 

تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم 
یونہی دن گزارے چلے جائیں گے؟؟

   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, December 25, 2018

قائد اعظم ؒ


اس معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھیے 

برصغیر میں مسلمان آبادی تین حصوں میں منقسم ہے۔ مغرب میں پاکستان ہے۔ تقریباً بائیس کروڑ آبادی ہے۔ مشرقی کنارے پر بنگلہ دیش ہے۔
اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں 90فیصد مسلمان ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان اپنی تقدیر کے مالک خود ہیں۔ وہ دوسرے ملکوں میں سفیر تعینات ہوتے ہیں۔ مسلح افواج میں شامل ہیں۔بریگیڈیئر اور جرنیل بنتے ہیں۔ فوجوں کی کمان سنبھالتے ہیں۔ عدالتوں کی سربراہی کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کی سول سروسز میں ان کا بھر پور حصہ ہے۔ ان کے پاس وزارتیں ہیں۔ انتخابی حلقوں کی بنیاد پر منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ قانون سازی کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مسلمان بچے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پھر ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے ہیں۔ تجارت ہے یا صنعت‘ زراعت ہے یا بنکاری‘ ہر شعبہ زندگی میں انہیں اپنے حقوق حاصل ہیں۔ 

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بھارت ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً اٹھارہ کروڑ ہے جو کل آبادی کا پندرہ فیصد بنتی ہے۔ بھارت کے مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے سول سروس‘ مسلح افواج‘ عدلیہ‘ تعلیم اور سفارت کاری‘ میں پندرہ فیصد حصے کے حق دار ہیں۔مگر یہ حصہ صفر فیصد اور چار فیصد کے درمیان ہے۔ مسلح افواج میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف ایک مسلمان جرنیل بنا۔ وہ بھی فضائی’’حادثے‘‘ میں شہید ہو گیا۔ سول سروس میں مسلمان خال خال نظر آتے ہیں۔ شاید ہی کوئی سفیر ہو۔ جو کچھ گائے کے نام پر ہو رہا ہے یا جو کچھ گجرات میں ہوا اس کا تو یہاں ذکر ہی نہیں ہو رہا۔ 

آپ کا کیا خیال ہے اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کا وجود نہ ہوتا‘ اگر پورے برصغیر پر ایک ہی حکومت ہوتی تو کیا مسلمانوں کی حالت‘ آج کے بھارتی مسلمانوں کی حالت سے مختلف ہوتی؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے تقسیم ہند سے پہلے کے ہندوستان کو دیکھ لیجیے۔ کتنے مسلمان ملازمت میں تھے؟ کتنے سفارت کاری میں تھے؟ کتنے تجارت میں تھے؟ جب کہ اس وقت اقتدار ہندوئوں کے ہاتھ میں تھا بھی نہیں! حساب کتاب کے دفتروں میں مسلمانوں کو اس وجہ سے نہیں آنے دیا جاتا تھا کہ یہ ریاضی اور اکائونٹس میں کمزور ہیں۔ ایک شام جہلم میں گزری۔ لوگ بتا رہے تھے کہ قیام پاکستان سے پہلے جہلم کے بازار میں صرف ایک مسلمان تاجر تھا۔ باقی سارے ہندو اور سکھ تھے۔ 

ایک صاحب جن کی عمر کا بیشتر حصہ مشرق وسطیٰ میں گزرا‘ کہتے ہیں کہ تقسیم ہند سے پہلے جو رویہ ہندوئوں کا مسلمانوں کے ساتھ تھا‘ اس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو یہ دیکھیے کہ مشرق وسطیٰ میں‘ بالخصوص متحدہ عرب امارات میں بھارتی‘ پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ جہاں جہاں ان کا اختیارہے‘ وہاں وہاں ان کی پوری کوشش ہے کہ ملازمتیں پاکستانیوں کو نہ ملیں صرف بھارتیوں‘ وہ بھی بھارتی ہندوئوں کی جھولی میں ڈالی جائیں! 

آج اگر پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلمان اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں تو قائد اعظم محمد علی جناح کو دعائیں دیں جن کے وژن نے انہیں اپنی تقدیر کا مالک بنایا۔ آج بنگلہ دیش اور پاکستان میں جتنے وفاقی سیکرٹری ہیں جتنے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہیں‘ جتنے سفیر ہیں‘ وزیر ہیں ‘اسمبلیوں کے ارکان ہیں ‘تاجر ہیں‘ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سربراہ ہیں‘ مجسٹریٹ‘ جج اور چیف جسٹس ہیں‘ جرنیل ہیں‘ پروفیسر ہیں‘ ڈاکٹر اور انجینئر ہیں۔ ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا مسلمانوں کی ان شعبوں میں اتنی ہی تعداد ہوتی؟؟ جواب کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں!! پاکستان اور بنگلہ دیش نہ ہوتے تو مسلمانوں کو ہندوستان میں اقلیت کا خطاب ملتا۔ مسیحیوں کی طرح وہ بھی ایک اقلیت ہوتے۔ ون مین‘ ون ووٹ کے حساب سے ہمیشہ اقلیت میں رہتے۔ آخر کار انہیں اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنا پڑتی۔ حل وہی ہوتا‘ الگ الگ ریاستیں !! یہ ریاستیں پچاس‘ سو یا دو سو سال بعد وجود میں آتیں مگر آتیں ضرور! یا پھر بنگلہ دیش اور پاکستان کے چالیس کروڑمسلمانوں کا بھی وہی حشر ہوتا جو آج بھارت کے سترہ اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کا ہو رہا ہے! 

یہ قائد کا وژن تھا جس نے اٹھاون کروڑ مسلمانوں میں سے کم از کم چالیس کروڑ کو ان کے حقوق دلوا دیے۔ ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو سب کے سب محکوم ہوتے۔ جو بزر جمہر کہتے ہیں کہ ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو مسلمان ایک بڑی طاقت ہوتے‘ اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ بکھرے ہوئے مسلمان‘ طاقت کس طرح بنتے ؟ آج بھارت میں اٹھارہ کروڑ کی تعداد کیا کوئی کم تعداد ہے؟ 

آج اگر بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو کم از کم اپنے داخلی معاملات میں آزادی حاصل ہے تو اس کا کریڈٹ بھی قائد اعظم اور قائد اعظم کے پاکستان کو جاتا ہے۔ بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ نہ ہوتا تو آج اس کا علیحدہ وجود نہ ہوتا۔ بنگلہ دیش کے قیام سے دو قومی نظریہ ختم نہیں ہوا‘ زیادہ اجاگر ہوا ہے! مشرقی بنگال آج الگ ملک ہے تو صرف اس لئے کہ وہاں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں۔ ورنہ بنگالی زبان تو مغربی بنگال کے بنگالی بھی بولتے ہیں اور رس گُلّے اور گلاب جامن تو کلکتہ میں بھی اتنے ہی میٹھے ہیں جتنے ڈھاکہ اور چٹا گانگ میں!! 

کیا بے مثال کردار ہے قائد اعظم محمد علی جناح کا! تاریخ میں اس کی مثال کوئی نہیں! کہیں نہیں! ایک شخص جو طوفانوں سیلابوں آندھیوں جھکڑوں میں چٹان کی طرح کھڑا رہا! اس سارے مقابلے میں اس امتحان میں‘ اس جنگ میں اس نے جھوٹ بولا نہ بددیانتی کا ارتکاب کیا۔ کوئی لفظ چبایا نہ منافقت دکھائی۔ ہر بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی! وہ خوف سے ناواقف تھا! کسی قسم کے احساس کمتری کا اُس پر سایہ بھی نہ پڑا تھا۔ وہ ساری زندگی ایک آزاد شخص رہا اور یہی آزادی اس نے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کو عطا کی! اسے کہا گیا گاندھی جی ریل کے تیسری کلاس کے ڈبے میں سفر کرتے ہیں‘ آپ کیسے لیڈر ہیں جو فرسٹ کلاس میں کرتے ہیں! جواب دیا گاندھی کے سفر کا خرچ ان کی پارٹی کے ذمے ہے۔ میں اپنے پیسے سے کرتا ہوں۔ ساری زندگی اپنا کھایا‘ اپنا پہنا۔ دہلی سے لے کر بمبئی تک محلات جیسی رہائش گاہیں اس کی اپنی تھیں! اس کا سر کسی کے آگے نہ جھکا! پھر جب ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو پیسے پیسے کا خیال رکھا۔ کوئٹہ سے باورچی واپس لاہور بھجوا دیے۔ جہاز خریدنا پڑا تو اتنی مین میکھ نکالی کہ تاریخ میں اس کی مثال کہیں نہ ملے۔ جسے تفصیل درکار ہو‘ پڑھ لے اور سوچے کہ آج کے حکمران قائد اعظم کے مقابلے میں کیا ہیں اور کہاں کھڑے ہیں؟ 

پاکستان قائم رہنے کے لئے بناہے۔ اس لیے کہ اس کی بنیادمیں ایک سچے‘ ایک دیانت دار ایک عظیم الشان شخص نے اپنی پوری زندگی ڈال دی! ع 

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے 

حالیؔ نے سچ کہا تھا ؎ 

قیس سا پھر کوئی اٹھا نہ بنی عامر میں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص

    

Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Sunday, December 23, 2018

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں


بخار تھا کہ ٹوٹنا تو کیا‘ کم ہونے کا بھی نام نہ لیتا تھا۔

محلے کے ڈاکٹر نے کم مائگی کا اعتراف کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ ہسپتال لے جائو۔ اُس وقت دارالحکومت میں ایک ہی ہسپتال تھا۔ پولی کلینک۔ مگر یہ پولی کلینک کے سنہری دن تھے۔ شہر کی آبادی محدود تھی۔ ہسپتال کی انتظامیہ چُست تھی اور ذمہ دار۔ پولی کلینک کی راہداریاں تب بھی چھلک رہی ہوتی تھیں مگر آج کی طرح ’’ٹریفک جام‘‘ نہیں تھا!

یہ 1976ء یا 1977ء تھا۔ پولی کلینک کے جس ڈاکٹر نے والد گرامی کا معائنہ کیا‘ سرخ سفید رنگ کا تھا! وجیہہ شخصیت ۔ انداز مسحور کُن! …اردو پر میانوالی کا لہجہ غالب! اُس نے ایک ہاتھ والد گرامی کے کندھے پر رکھا۔ دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے پہلے ہاتھ پر ایک یا دو بار ضرب لگائی۔ اور کہا پھیپھڑوں میں پانی ہے۔ نکالنا ہو گا۔ ہسپتال داخل کریں گے۔ علاج لمبا ہے۔ انشاء اللہ مریض ٹھیک ہو جائے گا۔ معائنے ‘ تشخیص اور گفتگو سمیت سارا معاملہ دو منٹ میں نمٹ گیا۔

تین ماہ والد گرامی ہسپتال داخل رہے۔بھائی دونوں چھوٹے تھے۔ تیسرا ایک حادثے کی نذر ہو چکا تھا۔ بعد میں تو دونوں بھائیوں نے خدمت کا موقع ہی نہ دیا۔ وہ تین ماہ کالم نگار ہسپتال ہی رہا۔ ایک بار مریض کا یہ حال بھی ہوا کہ یاس غالب آ گئی اور اعزہ و احباب کو بلا لیا۔ تین ماہ یہ عجیب و غریب ڈاکٹر علاج کرتا رہا۔ بات کم کرتا۔ خود اعتمادی بلا کی تھی۔ کالم نگار پریشانی اور مایوسی کا اظہار کرتا تو یقین کے ساتھ کہتا ’’انشاء اللہ ٹھیک ہو جائیگا‘‘۔ کبھی جھڑک دیتا۔ ایک بار خوراک کا پوچھا تو کہنے لگا۔ ’’بُھکا رکُھس۔‘‘ 

ایک دن جب والد گرامی نقاہت سے اور مرض کی شدت سے بے حال تھے‘ ڈاکٹر نے نیم سنجیدگی سے کہا؟؟ابھی تو آپ نے مجھے قرآن پاک پڑھانا ہے‘ میں نے نہیں پڑھا ہوا‘‘۔ بات آئی گئی ہو گئی! والد گرامی روبصحت ہو گئے۔ ڈاکٹر اپنی بات بھول گیا۔ اُس وقت کا اسلام آباد سہل تھا اور باہم متصل۔ ہمارے گھر سے ڈاکٹر کے گھر کا پیدل فاصلہ دس منٹ کا تھا۔ ایک ڈھلتی شام کو والد گرامی اس کے گھر پہنچ گئے۔ اس نے بٹھایا اور پوچھا فرمائیے۔ کہا جس طرح کہ طے ہوا تھا‘ میں صحت یاب ہو چکا اور اب قرآن پڑھانے آ گیا ہوں۔ ڈاکٹر نے اس جال سے نکلنے کی بہت کوشش کی۔ کبھی کہا‘ یکم سے شروع کریں گے۔ حساب کتاب میں سہولت ہو گی۔ والد گرامی ہنسے‘ میں پیشہ ور ٹیوٹر نہیں ہوں کہ معاوضہ لوں۔ بہر طور‘ ڈاکٹر کو انہوں نے الحمد سے الناس تک کلام پاک پڑھایا اور جہاں جہاں مناسب سمجھا سمجھایا! 

ڈاکٹر اسلم خان نیازی نے والد گرامی سے تعلّق پھر عمر بھر نبھایا۔ پورے خاندان کے معالج رہے۔ بارہا گھر پر آئے‘ ایک بار کلینک میں فیس دینے کی کوشش کی تو خالص میانوالی کے لہجے میں سرزنش کی‘ ’’اوے اظہار! جوائنٹ سیکرٹری تھی گیاں پر عقل نہیں آئی۔‘‘ 

ڈاکٹر اسلم خان نیازی دارالحکومت کے اس بڑے اور قدیم ترین سرکاری ہسپتال میں تین عشروں سے زیادہ میڈیسن کے شعبے کے سربراہ رہے۔ شام کو اپنے کلینک میں مریض دیکھتے۔ سینکڑوں ہزاروں مریضوں کا علاج کیا۔ ذیابیطس ‘ ٹی بی اور امراض سینہ کے نامور ماہر کے طور پر شہرت پائی۔ شاگرد ڈاکٹروں اور سٹاف کے جلو میں رائونڈ کرتے تو لگتا بادشاہ دورے پر ہے! ذہن پر چھا جانے والی شخصیت‘ عمدہ ترین فرنگی ملبوس! لہجے میں خود اعتمادی! مریض کے رتبے منصب اور امارت سے مکمل بے نیازی! کئی انتظامی سربراہ آئے اور گئے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ ڈاکٹر اسلم خان نیازی پر حکم چلائے یا امارت اور عہدے کی بنا پر ترجیحی سلوک کرائے۔ ایک بار انجکشن لگاتے ہوئے دیکھا کہ شیشی میں پھپھوندی لگی ہے۔ سیدھا ایم ایس کے کمرے میں گئے‘ انجکشن کی شیشی اس کے میز پر دے ماری اور کہا یہ معیار ہے تمہاری ادویات کا؟ 

عمران خان اُن کے سگے ماموں کے صاحبزادے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ مرحومہ اکرام اللہ خان مرحوم کی بہن تھیں۔ ڈاکٹر صاحب والد گرامی مرحوم سے اور ان کے بعد کالم نگار سے گھنٹوں باتیں کرتے۔ ایک آدھ بار کے علاوہ عمران خان کا ذکر کبھی نہ کیا۔ اپنے ’’خانکی خیل‘‘ہونے کا ذکر اکثر کرتے۔ ان کے والد ڈاکٹر نور محمد ہمارے محترم دوست‘ معروف کالم نگار اور تجزیہ نگار جناب حفیظ اللہ نیازی کے پھوپھا تھے۔1922ء میں ڈاکٹر بنے۔ نصف صدی میانوالی میں خلق خدا کا علاج کیا۔ نیک نامی کمائی عزت دینے والے پروردگار نے بے پناہ عزت بخشی۔ روایت ہے کہ ڈاکٹر اسلم خان نیازی لندن اور ایڈنبرا سے اعلیٰ ترین ڈگریاں لے کر آئے اور میانوالی میں پریکٹس کا آغاز کیا تو فیس‘ اس زمانے کے اعتبار سے‘ ذرا زیادہ رکھی۔ والد ڈاکٹر نور محمد کو معلوم ہوا تو بیٹے کو سرزنش کی کہ میرے غریب لوگوں سے اتنی فیس؟ 

ڈاکٹر اسلم خان نیازی دارالحکومت میں رہ کر میانوالی کو کبھی نہ بھولے۔ شروع میں ہر پندرہ دن بعد اور بعد میں ہفتہ وار میانوالی جا کر کلینک کرتے۔ اُس وقت موٹر وے نہ تھی۔ فتح جنگ‘ کھوڑ اور ڈُھلیاں موڑ والے راستے سے اپنی کار پر جاتے۔ معمول تھا کہ دوران سفر‘ شاہراہ کے کنارے کسی مریض کی چارپائی دیکھتے تو رُک جاتے۔ گاڑی سے اتر کر مریض کے لواحقین سے اپنا تعارف کراتے مریض کا معائنہ کرتے اور مشورہ دے کر دوبارہ سفر شروع کرتے۔ کچھ عرصہ عام ویگن کے ذریعے بھی جاتے اور آتے رہے۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو معمول الٹ کر لیا۔ اب مستقل کلینک میانوالی منتقل ہو گیا اور ہفتہ وار یا پندرھویں روز اسلام آباد پھیرا ڈالتے۔ 

ہمارا خاندان اُن کے بچوں کی شادیوں پر باقاعدہ بلایا جاتا۔ ٹائیگر جنرل نیازی کو پہلی اور آخری بار ایسی ہی ایک تقریب میں دیکھا۔ روایتی پگڑی پہنے مہمانوں میں بیٹھے تھے۔ کالم نگار کے بزرگ دوست لیفٹیننٹ جنرل کمال اکبر بھی‘ جو مسلح افواج کے ’’سرجن جنرل‘‘ رہے۔ ان خاندانی تقاریب میں شامل ہوتے رہے۔ ان کی ڈاکٹر اسلم خان نیازی سے قریبی عزیز داری تھی! 

ڈاکٹر صاحب مرحوم کا روحانیت سے گہرا لگائو تھا۔ اوراد و وظائف بہت کرتے۔ ایک بار بتایا کہ مریض کا معائنہ کرتے وقت پروردگار سے التماس کرتے کہ ’’اے مینڈا مریض اے۔ اِساں ول کر دے‘‘ (یہ میرا مریض ہے۔ اسے تندرست کر دے)! قدرت نے طب کے علم کے ساتھ حکمت بھی عطا فرمائی تھی۔ حاذق طبیب‘ حکیم بھی ہوتا ہے۔اِس زمانے کی اصطلاح میں یوں سمجھیے۔ آئی کیو بلند ہوتا ہے۔ تشخیص میں کمال حاصل تھا۔ کالم نگار کی والدہ مرحومہ ایک بار سخت بیمار پڑ گئیں۔ سی ایم ایچ کی اعلیٰ ترین سہولت حاصل تھی! ہفتوں وہاں داخل رہیں۔ افاقہ نہ ہوا۔ گھر واپس لے آئے اور عرضِ مدعا ڈاکٹر صاحب سے کیا۔ فوراً گھر تشریف لائے۔ طنز کیا کہ ’’وڈا افسر تھی گیاں‘ ہُن تواں سی ایم ایچ وچ پروٹوکول ملنا تے اُٹھے گِھن گیاں‘‘ (بڑے افسر ہو گئے ہو۔ سی ایم ایچ میںپروٹوکول ملتا ہے تو وہاں لے گئے!) معائنہ کیا دوا تشخیص کی۔ شفا دینے والے نے دو دن میں بیماری کا زور توڑ ڈالا۔ مرض میں شفا اُسی کی ذات پاک عطا کرتی ہے! 

نومبر کا ایک ابر آلود دن تھا۔ استانبول میں بلا کی سردی تھی! فون پر ایس ایم ایس موصول ہوا ڈاکٹر اسلم خان نیازی رحلت فرما گئے۔ اسی زمین سے ہم پھوٹے‘ اسی میں لوٹنا ہے۔ پھر اسی سے اٹھائے جائیں گے۔

ایک وجیہہ شخصیت نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ہزاروں مریضوں کی بے لوث‘ نم آنکھوں بھری دعائیں‘ ان کے ساتھ لحد میں اتریں۔ کتنوں ہی کی مسیحائی کی! سینکڑوں ہزاروں کا فی سبیل اللہ علاج کیا۔ خوف نہ لالچ۔ انفاق فی سبیل اللہ کا یہ عالم تھا کہ عید آتی تو تھان کے تھان کپڑوں کے خریدتے اور ملازمین اور غربا میں بانٹتے۔ کردار کی مضبوطی کے جو واقعات کالم نگار کے علم میں ہیں’ ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں! غالب نے ایسے ہی عظیم انسانوں کے لئے کہا تھا ؎ 

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیئم 
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے    


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, December 22, 2018

اندھے عقاب کی اڑان!



شام ڈھل رہی ہے۔ لائبریری میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان بیٹھا کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوں۔ املی اور کھجور کے درخت گم سم کھڑے ہیں۔ لمبے ہوتے سائے اداسی میں ڈوبے ہوئے لگ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے شام ڈھاکہ کے اوپر تاریکی نہیں، نا امیدی کی چادر تان رہی ہے۔ میرا بنگالی دوست آکر میرے پاس بیٹھتا ہے اس کے ہاتھ میں مغربی پاکستان سے شائع ہونے والا سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز ہے۔ وہ اس کا اداریہ میرے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اداریہ اعتراف کر رہا ہے کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان پر خرچ کیا جاتا رہا اور کیا جا رہا ہے۔

کئی برسوں سے یہ کالم نگار ہر سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ پر کالم لکھتا رہا ہے۔ روتا رہا ہے! حقائق بتاتا رہا ہے۔ سوچا اب کے نہیں لکھتا! آہ و زاری، نالہ وشیون اور سینہ کوبی کی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو کہ ؎

شامِ غم جل جل کے مثلِ شمع ہو جائوں گا ختم
صبح کو احباب آئیں گے تو دفنائیں گے کیا

سو خاموش رہا! اور دیکھتا رہا کہ سولہ دسمبر کو اپنے پرائے کیا کیا لکھ رہے ہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اندھوں کا گروہ ہاتھی کے گرد کھڑا ہے۔ کوئی ٹانگوں سے لپٹا ہوا! کوئی سونڈ کو ٹٹولتا! کوئی کان کو پنکھا قرار دیتا ہوا!! ؎

کوئی یار جاں سے گزرا کوئی ہوش سے نہ گزرا
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے

وہی احساسِ کم تری کہ ہمارا کیا قصور ہے، یا، ہمارا قصور ہے مگر اتنا بھی نہیں! کوئی حقائق بتاتا ہے تو رویے کا ذکر نہیں کرتا۔ وہی گھسی پٹی لولی لنگڑی دلیل کہ ہندوئوں کے زیر اثر تھے۔ اور بھارت کے گلے میں کامیابی کا ہار تو ہم شروع ہی سے پہناتے چلے آ رہے ہیں۔ تعصب کے علاوہ اس بے تُکی چاندماری کی ایک وجہ لاعلمی بھی ہے۔ بنگال کی تاریخ سے لاعلمی! مغربی پاکستان کے رویے سے لاعلمی! اُس تکبر اور نخوت سے لاعلمی جس سے مشرقی پاکستان کو 1948ء سے لے کر 1971ء تک مسلسل کچوکے دیئے جاتے رہے۔

ہندوئوں کا اثر تھا تو یہ اثر قیام پاکستان کے راستے میں رکاوٹ کیوں نہ بنا؟ مغربی پاکستان میں تو مجلسِ احرار بھی قیام پاکستان کی مخالفت کر رہی تھی۔ خاکسار بھی اور جماعت اسلامی بھی، مشرقی بنگال میں تو کوئی مخالفت نہ تھی۔ سو فی صد مسلمان پاکستان کے حق میں تھے۔

پھر پاکستان کو تو آج تک اسلام کی قمیض پوری نہ آئی، اردو کو اسلام کا چولا پہنا کر، تمام غیر مسلموں کو بیک وقت اردو سے متنفر کر دیا گیا۔ آج بھارت کے مسلمان شاعر چیخ چیخ کر اردو کی طرف سے کہہ رہے ہیں کہ ؎

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا

مگر یہ بات اُس وقت کے مغربی پاکستانی اور آج کے پاکستانی نہیں سمجھتے! کیا تھا اگر پہلے ہی دن سے بنگالی اور اردو دونوں کو سرکاری زبان مان لیا جاتا؟ کینیڈا کی دو اور سوئٹزر لینڈ کی تین سرکاری زبانیں ہیں! کئی اور ملکوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ بنگالی زبان اردو کی نسبت سینکڑوں سال پرانی اور کئی گنا زیادہ ثروت مند تھی۔ خود پروفیسر غلام اعظم ڈھاکہ یونیورسٹی طلبہ یونین کے 1947ء سے لے کر 1949ء تک جنرل سیکرٹری رہے اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سامنے اسی حیثیت میں مطالبہ پیش کیا کہ اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی ریاست کی قومی زبان تسلیم کیا جائے۔ پھر جب انکار نے زخم لگائے۔ فساد ہوا، کدورتیں گہری ہو چکیں تو مطالبہ مان لیا گیا مگر بنیاد پر ضرب پڑ چکی تھی۔معاملہ سوپیاز اور سو کوڑوں سے آگے نکل چکا تھا۔

گزشتہ ہفتے جناب ارشاد عارف ٹیلی ویژن پر اُس نفرت کی ایک مثال دے رہے تھے جو مغربی پاکستانیوں کے دل میں بنگالیوں کے لیے تھی۔ گورنر امیر محمد خان ڈھاکے گئے اور الطاف گوہر کو کھانے کی دعوت دی تو فخر سے بتایا کہ میں گوشت پانی اور نمک تک مغربی پاکستان سے لایا ہوں۔ وفاقی بھک منگوں کو اس زمانے میں کسی ترقی یافتہ ملک سے سینیٹری کا سامان ہاتھ لگا۔ وفاقی وزراء نے آپس میں بانٹا۔ بنگالی وزیروں نے حصہ مانگا تو کہا گیا تم لوگ تو رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو، تم نے سینیٹری سامان کو کیا کرنا ہے۔ کبھی لنگی(دھوتی) کا مذاق اڑایا جاتا۔ کبھی چاول کھانے کی نقل اتاری جاتی۔ کبھی مچھلی اور تیل کے حوالے سے تضحیک کی جاتی۔ مغربی پاکستانی طلبہ جو مشرقی پاکستان میں زیر تعلیم تھے، ان کی اکثریت بنگالیوں کو ڈڈو(مینڈک) کہا کرتی۔ جو ان دکاندار سے کوئی شے خریدتے،وہ قیمت چھ آنے بتاتا۔اسے ایک تھپڑ پڑتا اور چار آنے دیئے جاتے۔

بہار سے آئے ہوئے مہاجرین کا مشرقی پاکستانیوں نے کشادہ بازوئوں اور فراخ دل کے ساتھ استقبال کیا۔ دوسرکاری محکموں، پوسٹل اور ریلوے، پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ اس کالم نگار نے دور افتادہ ریلوے اسٹیشنوں پر بھی انہی کی افرادی قوت دیکھی۔ ان بھائی لوگوں نے ان محکموں میں مقدور بھر کوشش کی کہ بنگالی آنے ہی نہ پائیں۔ اپنی بستیاں الگ بسا لیں۔ کسی بھی ملک میں لسانی بنیاد پر الگ آبادیاں بسانا حماقت کی بدترین قسم ہے۔ اس کا مطلب ہے آ بیل مجھے ضرور مار اور زور سے مار! پھر خمیازہ بھی بھگتا۔ ان لگ، جزیرہ نما، بستیوں پر حملہ کرنا بھی آسان اور نذر آتش کرنا بھی آسان! یہی حماقت اب کراچی اور لاہور میں کی جا رہی ہے۔ لسانی بنیادوں پر الگ الگ پاکٹ بن گئی ہیں۔ یہی حال وزیر اعظم کے دفتر کی بغل میں بارہ کہو کا ہے اور کچھ میل پرے ترنول کا۔ زندہ قومیں اپنے آپ کو ایسی دولتی نہیں مارتیں۔ سنگا پور میں تین قومیتیں بس رہی ہیں۔ انڈین، ملے اور چینی! کسی کی بھی کہیں اکثریت نہیں! گھروں اور فلیٹوں کی منصوبہ بندی اور بکنگ اس طرح کی جاتی ہے کہ کسی ایک قومیت کا رہائشی یونٹ پر غلبہ نہ ہو۔ چینی کا پڑوسی انڈین ہے اور انڈین کا ہمسایہ مَلے ہے۔

پھر اُس مرحوم اخبار نویس پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے جس نے ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ کی منحوس شہ سرخی جمائی تھی۔ تُف ہے ایسا کہنے والوں پر اور کرنے والوں پر۔ پیپلزپارٹی نے دھمکی دی کہ جو اسمبلی کا اجلاس اٹنڈ کرنے ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ مجیب الرحمن کا انجام اچھل اچھل کر بتانے والے پیپلزپارٹی کا عبرت ناک انجام بھی دیکھیں جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔ آج پیپلزپارٹی کرپشن کی علامت کے سوا کچھ بھی نہیں! بچے کھچے ارکان شہزادے بلاول کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ بلاول ایک نازک پودا! جس کے اوپر کا چھتنار درخت اسے قد ہی نہیں نکالنے دیتا۔ یوں بھی بلاول گوربا چوف نہ ثابت ہوا تو آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔

بہت تکلیف تھی کہ مجیب الرحمن صرف مشرقی پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے۔ وفاق کیسے اس کے حوالے کیا جائے؟ تاریخ سزا دیتی ہے تو عبرت کا نشان بنا کر دنیا کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ وفاق کی حکومت وسطی پنجاب کے صرف چھ اضلاع کی نمائندگی کرنے والوں نے ہتھیا لی اور چار سال تک مسلط رہے۔ ساری اہم وزارتیں بھی ان اضلاع کے پاس تھیں۔ ہر سال اس سبق کا ذکر ہوتا ہے جو اس سانحہ سے نہیں سیکھا گیا۔ سیکھ بھی لیا تو کیا! ؎ 

اب ترا التفات ہے حادثۂ جمال و فن 
اندھے عقاب کی اڑان! زخمی ہرن کا بانکپن!

    




Thursday, December 20, 2018

ایک قاصدالطاف بھائی کی طرف بھی!!


’’پی ٹی آئی اور نون لیگ انتشار چاہتی ہیں۔‘‘ یکم جولائی 2018ء

’’زرداری اور نیازی اکٹھے ہوگئے۔ عوام کسی بھول میں نہ رہیں۔ نیب میں حاضریاں صرف نون لیگ کی اور زرداری پاک صاف۔‘‘ 5 جولائی 2018ء

’’پی پی پی، پی ٹی آئی اور نیب مل کر ہمارے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔ ہم گھبرانے والے نہیں۔‘‘ 8 جولائی 2018ء 

’’تیر اور بلے کو شکست دے کر نوازشریف اور مریم کو آزادکرائیں گے۔‘‘ 19 جولائی 2018ء 


یہ ان بے شمار بیانات میں سے صرف چند بیانات ہیں جو جولائی 2018ء کے الیکشن سے پہلے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے رہنمائوں نے مختلف مواقع پر جاری کئے۔ کچھ ان کی تقاریر کے حصے ہیں۔ 

دو دن پہلے زرداری صاحب نے شہبازشریف صاحب کو اطلاع دی ہے کہ اپوزیشن عمران حکومت کو گرانا چاہے تو وہ یعنی زرداری صاحب تیار ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ سابق صدر نے حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن سے مدد مانگ لی۔ دونوں عظیم رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ عمران حکومت اپنی نااہلیوں کی وجہ سے آغاز میں ہی اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ اسے بآسانی گرایا جا سکتا ہے۔ 

آپ اگر اس کایا کلپ کو منفی انداز میں لے رہے ہیں تو ایسا نہ کیجئے۔ معاملے کی تہہ تک جائیے۔ حتمی رائے قائم کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیجئے۔ 

انگریزوں نے کمال کے الفاظ ایجاد کئے ہیں جو مشکل وقت میں ہمارے کام آتے ہیں۔ مثلاً اس لفظ پر غور کیجئے کہ ’’میں بور ہورہا ہوں‘‘ یا ’’ہو رہی ہوں‘‘ آج سے چالیس پچاس سال پہلے یہ لفظ کہاں تھا؟ کم از کم ہم پاکستانیوں کی لغت میں کہاں تھا؟ کوئی بور ہوتا ہی نہیں تھا۔ عورتیں پوپھٹے اٹھتی تھیں۔ کام میں جت جاتی تھیں۔ گھر کی صفائی، آٹا پیسنا، پھر گوندھنا، تنور دہکانا، روٹیاں لگانا، دہی بلونا، مکھن نکالنا، کپڑے دھونا، مہمان داری، پتہ ہی نہیں چلتا تھا شام سر پر آ جاتی تھی۔ بچے سکول سے آتے۔ ہوم ورک کرتے، پھر کھیلنے، گھر کے نزدیک چوراہے پر چلے جاتے۔ گلی ڈنڈا، ہاکی، بیڈمنٹن اس زمانے کے کھیل تھے۔ لڑکیاں سٹاپو (چینجی) کھیلتیں۔ چھوٹے بچے گول ریڑھے کو تار سے چلاتے اور لطف اندوز ہوتے۔ ادھر مغرب کی اذان ہوئی، ادھر سب گھروں کو بھاگے۔ لالٹینیں جل اٹھتیں۔ اس زمانے کا ’’ڈنر‘‘ بھی سادہ تھا۔ ایک سالن۔ اور بہت عیاشی ہوئی تو چاول، سادہ تڑکے والے یا پلائو، اور کبھی کبھی ساتھ میٹھا۔ بزرگ اس زبردست ’’ڈنر‘‘ کے بعد گڑ ضرور طلب کرتے۔ کسی بچے نے کبھی نہیں کہا تھا کہ میں بور ہورہا ہوں یا بور ہورہی ہوں۔ نہ ان کی مائوں کے پاس بور ہونے کا وقت تھا۔ 

اب بوریت عام ہے۔ اتنی عام کہ گھر گھر سرکھولے بین کرتی پھر رہی ہے۔ ہفتے میں کئی بار بیگم میاں کو کہتی ہے۔ ارے سنیے، کتنی بوریت ہے۔ ڈیپرس ہورہی ہوں، باہر گھومنے چلتے ہیں۔ کھانا اکثر وبیشتر باہر کھایا جاتا ہے۔ اس کالم نگار کا نواسا آتا ہے تو دن میں کئی بار پوچھتا ہے، نانا ابو بور ہورہا ہوں، کوئی ایکٹیویٹی 
(Activity) 
بتائیے۔ بیرون ملک سے پوتا آتا ہے تو اس انگریزی جملے کا کہ
 What can I do 
کا ترجمہ کرتا ہے، میں کے کر سکناں؟ پھر اس کے بعد اس تسلسل سے پوچھتا ہے کہ کیا کرے کہ دادا ابو سارے کام چھوڑ کر اسے بوریت کے چنگل سے رہائی دلوانے میں لگ جاتے ہیں۔

موضوع سے ہم بھٹک نہیں رہے۔ یہ تمہید تھی۔ انگریزوں نے ایک اور لفظ ہماری سیاست کو عنایت کیا ہے۔ کیا طلسمی لفظ ہے۔ 
Pragmatism
۔ اس کا کسی دوسری لغت میں ترجمہ کرنا ناممکن نہیں تو جان جوکھوں کا کام ضرور ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ حقیقت پسندی، عملیت پسندی، بس یہ قریب قریب الفاظ ہیں۔ یہ جو بے نظیر بھٹو کے زمانے میں میاں نوازشریف نے اسمبلی کے اندر اور باہر سرے محل کا واویلا مچایا تھا تو یہ اس وقت کا تقاضا تھا۔ پھر لندن میں میثاق جمہوریت نے ’’حقیقت پسندی‘‘ اور’’عملیت پسندی‘‘ یعنی
 Pragmatism

 کی نئی تاریخ مرتب کی۔ دونوں بہن بھائی ایک ہو گئے۔ پھر ایک اور لہر آئی۔ عوام کی خاطر، جمہوریت کی خاطر، غریب عوام کی خاطر، شہبازشریف صاحب نے عملیت پسندی کی ایک اور چادر نکالی، سر پر اوڑھ لی۔ ’’میں زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا، میں پیٹ پھاڑ کر اندر سے لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا۔‘‘ اس عملیت پسندی میں وہ درجنوں مائیک بھی شامل ہو گئے جنہیں شہبازشریف صاحب جوش خطابت میں ہاتھ کی غضب ناک آہنی ضرب سے گرا دیتے تھے۔ 

پھر عمران خان نے دھرنا دے دیا۔ مسلم لیگ نون کی حکومت سوکھے ہوئے زرد پتے کی طرح کانپ اٹھی۔ وزیراعظم نوازشریف نے خطرے کی اس تاریکی میں ’’یا زرداری‘‘ پکارا اور زرداری صاحب لاہور آ موجود ہوئے۔ وقت کے وزیراعظم ان کی سواری کے کوچوان خود بنے۔ 74 قسم کے پکوان، نصف جن کے 37 قسم کے پکوان ہوتے ہیں، تیار کرا کر پیش خدمت کئے گئے۔ سڑکوں پر گھسیٹنے کا بیان ابھی فضا میں تیررہا تھا اس لیے شہبازشریف صاحب مہمان گرامی کے سامنے نہ آئے۔ مہمان نوازی کے فرائض پس پردہ رہ کر سرانجام دیئے۔ 

عملیت پسندی کا نیا دور 2018ء کے الیکشن سے پہلے پھر نازل ہوا۔ جس کی ایک جھلک اس تحریر کے آغاز میں دکھائی گئی ہے۔ ’’نیازی اور زرداری‘‘ گٹھ جوڑ کے شہبازشریف صاحب نے پرخچے اڑا دیئے۔ پیپلزپارٹی نے اس عظیم ’’انتشار‘‘ کو دریافت کر لیا جو تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون مل کر پیدا کرنا چاہتی تھیں۔ انتخابات کے بعد اسمبلی میں پی پی پی نے شہبازشریف صاحب کو ووٹ نہ دیا۔ اب یہ جو تازہ روٹی نفاق کے تنور میں لگائی گئی ہے اور زرداری صاحب اور شہبازشریف دونوں مل کر حکومت گرانے چلے ہیں تو اسے ابن الوقتی یا منافقت نہ گردانیے‘ یہ اس عملیت پسندی کی تازہ ترین مثال ہے جس کی یہ دونوں قد آور شخصیتیں ماہر ہیں۔ 

انگریزوں کے مقابلے میں ہم نے بھی کچھ اصطلاحیں علم سیاسیات کو عنایت کی ہیں۔ غریب عوام اور جمہوریت۔ جو کچھ کہا جاتا ہے، غریب عوام کے لیے اور جمہوریت کی خاطر کیا جاتا ہے۔ ہر روز کروڑوں روپے کی تھیلی سندھ سے دبئی پہنچتی ہے تو جمہوریت کی خاطر، چار چار محلات کو سرکاری خرچ کی چھتری تلے لانے کے لیے اگر ’’کیمپ آفس‘‘ قرار دیا جاتا ہے تو غریب عوام کے لیے، حمزہ شہبازشریف، مریم صفدر، بلاول زرداری، یہ سب جو کچھ کر رہے ہیں عوام کے لیے کر رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک حکمران جتنا پروٹوکول لیتا رہا ہے اور کچھ ابھی تک لے رہے ہیں۔ منصف کوئی نہیں مگر اختیارات سارے حاصل ہیں۔ عدالت عالیہ نے شہبازشریف سے پوچھا کہ 56 کمپنیوں کے بورڈز کے اجلاسوں میںحمزہ شہباز کس حیثیت سے بیٹھتے تھے تو جواب ملا کہ وہ مسلم لیگ کے ورکر ہیں۔ خدمت کے لیے بیٹھتے تھے۔ کیا سادگی ہے اور کیا عجز ہے۔ 

خدا اس تازہ ترین عملیت پسندی کو برکت عطا فرمائے۔ حضرت مولانا اور باچا خان کے چشم و چراغ بھی آن ملیں تو سونے پر سہاگہ ہو جائے۔ ایسے میں ایک خجستہ گام قاصد الطاف بھائی کی طرف روانہ ہو جائے تو عملیت پسندی آسمان کو چھونے لگ جائے۔

    


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, December 18, 2018

طاعون زدہ چوہے



یہ واقعہ کسی جنگل میں پیش آیا نہ کسی وحشی قبیلے کے ہاں۔ یہ کسی دور افتادہ، گائوں میں بھی نہیں ہوا۔ فاٹا کے کسی دور دراز گوشے میں نہ دیامیر اور چلاس کے پہاڑوں میں نہ چترال کی وادی بمبریٹ میں۔ 

انٹرنیٹ پر جائیے۔ پوچھئے ٹیکسلا اور اسلام آباد کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ کمپیوٹر جواب دے گا ساڑھے چونتیس کلومیٹر، گاڑی پر کتنا وقت لگے گا؟ انٹرنیٹ یہ بھی بتائے گا، انچاس منٹ۔ یہ وہی ٹیکسلا ہے جو ہزاروں سال سے تعلیم کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ چانکیہ سے لے کر (جسے کوتلیا بھی کہا جاتا ہے) پنینی تک کتنے ہی صاحبان علم یہاں ہوگزرے۔ آج بھی یہاں ایک سے زیادہ یونیورسٹیاں علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں، پاکستانی عساکر نے یہاں ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ تعمیر کردیا جس سے خلق خدا فض یاب ہورہی ہے۔ پھر ٹیکسلا دو ایسے شہروں کے درمیان واقع ہے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں اور خواندگی کی بلند شرح کے لیے معروف ہیں۔ ایک طرف اسلام آباد دوسری طرف واہ! واہ کی شرح خواندگی حیرت انگیز طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی شرح کو چھونا چاہتی ہے۔ پھر، عجائب گھر کی وجہ سے ٹیکسلا کے باشندے پوری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں، غیر ملکی سیاح، مشرق بعید کے زائر، دوسرے ملکوں سے آنے والے سرکاری مہمان۔ سب یہاں آتے ہیں، میوزیم کے اردگرد پھیلی دکانوں سے خریداری کرتے ہیں۔ ٹیکسلا کے لوگ ان غیر ملکیوں کے لباس، زبانوں، ثقافتوں اور رویوں سے بخوبی آشنا ہیں۔ یہ واقعہ جس کی طرف اس تحریر کے آغاز میں اشارہ کیا گیا ہے، 

اگر ٹیکسلا جیسے ترقی یافتہ شہر میں پیش آ سکتا ہے تو پھر قیاس کیجئے، دور افتادہ قبیلوں اور پہاڑوں میں رہنے والے ناخواندہ نیم وحشی انسانوں کا کیا عالم ہوگا؟ دو بھائی اپنی اڑتیس سالہ بہن کو گھر کے اندر ایک اندھے کنویں میں زندہ دفن کردیتے ہیں۔ ماں شور مچاتی ہے تو اسے کمرے میں بند کردیتے ہیں۔ تیسرا بھائی الگ رہتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے تو وہ پولیس کے پاس جا کر فریاد کرتا ہے۔ کیوں زندہ دفن کردیا؟ جائیداد کا جھگڑا؟ نہیں، خاندانی تنازع؟ نہیں۔ بہن دشمن بنی ہوئی تھی؟ نہیں۔ اس لیے کہ وہ جو روحانی بزرگ تھے اور دونوں بھائی جن کے عقیدت مند تھے، انہوں نے بہن میں چھپی نحوست کو دریافت فرما لیا تھا۔ یہ نحوست بہن کے اندر سے نکل کر دونوں بھائیوں کی زندگی پر اثرانداز ہورہی تھی۔ ترقی کے راستے میں رکاوٹ پیش آ رہی تھی۔ خاندان کو خطرات درپیش تھے۔ اس نحوست کا علاج بھی یہ بابا جی ہی بتا سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے شفقت فرمائی اور غیب کے ان دیکھے جہانوں میں ڈوب کر ابھرے تو ہاتھ میں نسخہ کیمیا تھا۔ بہن سے جان چھڑائو، اسے ہلاک کردو، نحوست کے گہرے سائے چھٹ جائیں گے۔ روشنیاں پلٹ آئیں گی، دلدر دور ہو جائیں گے، موسم بدل جائے گا، رت گدرا اٹھے گی، صحن پھولوں سے بھر جائے گا۔ بادلوں سے پانی کے قطرے نہیں، موتی برسیں گے۔ بس اس کلموئی بہن سے، اس نحوست کی غلیظ گھڑی سے، اس عورت ذات سے جان چھڑائو۔ 

اس مقام پر راوی کویاد نہیں رہتا کہ جان چھڑانے کی جو مقدس آسمانی ترکیب اس غیب دان بابے نے بتائی تھی اس میں بہن کو پہلے مارنا تھا، پھر دفن کرنا تھا، یا شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے مارے بغیر زندہ دفن کرنا تھا۔ بہر طور عملاً یہ ہوا کہ دونوں ماں جایوں نے منحوس بہن کو مارنے کا ظلم برپا نہیں کیا، اندھا کنواں گھر کے اندر ہی تھا، صحن میں یا کسی کال کوٹھڑی میں۔ زندہ ہی اس میں اتار دیا۔ اندر زہریلی گیس تھی یا موذی حشرات الارض تھے یا گندھک سے بھرا پانی تھا، جو کچھ بھی تھا، عورت کے لیے یہ کنواں موت کا گھاٹ ثابت ہوا۔ 

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ واقعہ ’’الشاذ کالمعدوم‘‘ کے ضمن میں شمار ہو گا تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ شاذو نادر کی فہرست میں نہیں، پورا ملک ان بابوں سے، ان غیب دانوں سے، ان روحانی قاتلوں سے بھرا پڑا ہے۔ آئے دن معصوم بچوں اور عورتوں سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ جس ملک میں مردم شماری درست نہیں ہو سکتی، مرد خاندان کی عورتوں کی تعداد، تعلیم اور پروفیشن بتانا بے حرمتی سمجھتے ہوں، جس معیشت میں اقتصادی سرگرمیاں دستاویزات کے بغیر (Un-documented) ہورہی ہوں، جس معاشرے میں تاجر سودا بیچ کر رسید دینے سے کتراتے ہوں، اس ملک میں بابوں کی کرامات اور منحوس انسانوں کے قتل کے اعداد و شمار کہاں رکھے جا رہے ہوں گے؟ پھر غور فرمائیے کہ ان مقدس بزرگوں کی غیب دان نظر، اکثر و بیشتر، عورت ذات ہی پر پڑتی ہے۔ بلیدان بیٹی کا یا بہن کا یا بیوی کا یا ماں ہی کا دیا جاتا ہے۔ 

یہ وہ امت ہے جس کے رسول ؐ نے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کیا تھا جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو پھول کی طرح رکھا تھا۔ جو رضاعی ماں کے آنے پر اٹھ کھڑے ہوئے، جو بیٹی کی آمد پر اس کے بیٹھنے کے لیے چادر بچھاتے۔ جب ایک سنگدل باپ تفصیل بتا رہا تھا کہ کس طرح اس نے بیٹی کو زندہ دفن کیا تو رسالت مآب کی مقدس آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ یہ وہ ملک ہے جس میں لاکھوں مدرسے اپنی دانست میں دین پڑھا، سکھا اور پھیلا رہے ہیں جو پورے عالم اسلام میں تبلیغ کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ جس میں ہزاروں این جی او، حفاظت نسواں کے نام پر کروڑوں کا لین دین کر رہی ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اس معاشرے کے لیے عطائیوں، نیم خواندہ ہومیوپیتھوں اور سٹیرائیڈ کھلانے والے جعلی حکیموں کی نسبت یہ بابے، یہ غیب دان، یہ ملنگ، یہ نام نہاد روحانی عفریت، یہ جن نکالنے والے راکھشس کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ وہ زہر میں بجھے تیر ہیں جو عوام کے سینے میں پیوست ہیں، جب ان کا جی چاہے، آبرو ریزی کرلیں جب دل کرے، نحوست کی تشخیص کرکے قتل کرادیں۔ ان کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ اس کا اندازہ اس محاورے سے لگائیں جو دیہاتیوں اور شہریوں میں یکساں عام ہے کہ ’’پیر نے بیٹا نہ بھی دیا تو ہماری عورت تو واپس کردے گا۔‘‘ (ترجمہ)۔ کیا کوئی حکومت ایسی بھی آئے گی جو ان وحشیوں کا منظم استیصال کرے؟ ان کے قلعے مسمار کرے؟ اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکے؟ اس کے لیے تحریک کی ضرورت ہے۔ سرکاری سطح پر اور عوامی سطح پر۔ ان طاعون زدہ چوہوں کو ایک ایک کونے سے نکال کر مارا جائے۔ ورنہ بھائی بہنوں کو اور باپ بیٹیوں کو مارتے رہیں گے۔

    


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net






یہ واقعہ کسی جنگل میں پیش آیا نہ کسی وحشی قبیلے کے ہاں۔ یہ کسی دور افتادہ، گائوں میں بھی نہیں ہوا۔ فاٹا کے کسی دور دراز گوشے میں نہ دیامیر اور چلاس کے پہاڑوں میں نہ چترال کی وادی بمبریٹ میں۔ 

انٹرنیٹ پر جائیے۔ پوچھئے ٹیکسلا اور اسلام آباد کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ کمپیوٹر جواب دے گا ساڑھے چونتیس کلومیٹر، گاڑی پر کتنا وقت لگے گا؟ انٹرنیٹ یہ بھی بتائے گا، انچاس منٹ۔ یہ وہی ٹیکسلا ہے جو ہزاروں سال سے تعلیم کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ چانکیہ سے لے کر (جسے کوتلیا بھی کہا جاتا ہے) پنینی تک کتنے ہی صاحبان علم یہاں ہوگزرے۔ آج بھی یہاں ایک سے زیادہ یونیورسٹیاں علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں، پاکستانی عساکر نے یہاں ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ تعمیر کردیا جس سے خلق خدا فض یاب ہورہی ہے۔ پھر ٹیکسلا دو ایسے شہروں کے درمیان واقع ہے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں اور خواندگی کی بلند شرح کے لیے معروف ہیں۔ ایک طرف اسلام آباد دوسری طرف واہ! واہ کی شرح خواندگی حیرت انگیز طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی شرح کو چھونا چاہتی ہے۔ پھر، عجائب گھر کی وجہ سے ٹیکسلا کے باشندے پوری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں، غیر ملکی سیاح، مشرق بعید کے زائر، دوسرے ملکوں سے آنے والے سرکاری مہمان۔ سب یہاں آتے ہیں، میوزیم کے اردگرد پھیلی دکانوں سے خریداری کرتے ہیں۔ ٹیکسلا کے لوگ ان غیر ملکیوں کے لباس، زبانوں، ثقافتوں اور رویوں سے بخوبی آشنا ہیں۔ یہ واقعہ جس کی طرف اس تحریر کے آغاز میں اشارہ کیا گیا ہے، 

اگر ٹیکسلا جیسے ترقی یافتہ شہر میں پیش آ سکتا ہے تو پھر قیاس کیجئے، دور افتادہ قبیلوں اور پہاڑوں میں رہنے والے ناخواندہ نیم وحشی انسانوں کا کیا عالم ہوگا؟ دو بھائی اپنی اڑتیس سالہ بہن کو گھر کے اندر ایک اندھے کنویں میں زندہ دفن کردیتے ہیں۔ ماں شور مچاتی ہے تو اسے کمرے میں بند کردیتے ہیں۔ تیسرا بھائی الگ رہتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے تو وہ پولیس کے پاس جا کر فریاد کرتا ہے۔ کیوں زندہ دفن کردیا؟ جائیداد کا جھگڑا؟ نہیں، خاندانی تنازع؟ نہیں۔ بہن دشمن بنی ہوئی تھی؟ نہیں۔ اس لیے کہ وہ جو روحانی بزرگ تھے اور دونوں بھائی جن کے عقیدت مند تھے، انہوں نے بہن میں چھپی نحوست کو دریافت فرما لیا تھا۔ یہ نحوست بہن کے اندر سے نکل کر دونوں بھائیوں کی زندگی پر اثرانداز ہورہی تھی۔ ترقی کے راستے میں رکاوٹ پیش آ رہی تھی۔ خاندان کو خطرات درپیش تھے۔ اس نحوست کا علاج بھی یہ بابا جی ہی بتا سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے شفقت فرمائی اور غیب کے ان دیکھے جہانوں میں ڈوب کر ابھرے تو ہاتھ میں نسخہ کیمیا تھا۔ بہن سے جان چھڑائو، اسے ہلاک کردو، نحوست کے گہرے سائے چھٹ جائیں گے۔ روشنیاں پلٹ آئیں گی، دلدر دور ہو جائیں گے، موسم بدل جائے گا، رت گدرا اٹھے گی، صحن پھولوں سے بھر جائے گا۔ بادلوں سے پانی کے قطرے نہیں، موتی برسیں گے۔ بس اس کلموئی بہن سے، اس نحوست کی غلیظ گھڑی سے، اس عورت ذات سے جان چھڑائو۔ 

اس مقام پر راوی کویاد نہیں رہتا کہ جان چھڑانے کی جو مقدس آسمانی ترکیب اس غیب دان بابے نے بتائی تھی اس میں بہن کو پہلے مارنا تھا، پھر دفن کرنا تھا، یا شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے مارے بغیر زندہ دفن کرنا تھا۔ بہر طور عملاً یہ ہوا کہ دونوں ماں جایوں نے منحوس بہن کو مارنے کا ظلم برپا نہیں کیا، اندھا کنواں گھر کے اندر ہی تھا، صحن میں یا کسی کال کوٹھڑی میں۔ زندہ ہی اس میں اتار دیا۔ اندر زہریلی گیس تھی یا موذی حشرات الارض تھے یا گندھک سے بھرا پانی تھا، جو کچھ بھی تھا، عورت کے لیے یہ کنواں موت کا گھاٹ ثابت ہوا۔ 

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ واقعہ ’’الشاذ کالمعدوم‘‘ کے ضمن میں شمار ہو گا تو وہ غلطی پر ہے۔ یہ شاذو نادر کی فہرست میں نہیں، پورا ملک ان بابوں سے، ان غیب دانوں سے، ان روحانی قاتلوں سے بھرا پڑا ہے۔ آئے دن معصوم بچوں اور عورتوں سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ جس ملک میں مردم شماری درست نہیں ہو سکتی، مرد خاندان کی عورتوں کی تعداد، تعلیم اور پروفیشن بتانا بے حرمتی سمجھتے ہوں، جس معیشت میں اقتصادی سرگرمیاں دستاویزات کے بغیر
 (Un-documented)
 ہورہی ہوں، جس معاشرے میں تاجر سودا بیچ کر رسید دینے سے کتراتے ہوں، اس ملک میں بابوں کی کرامات اور منحوس انسانوں کے قتل کے اعداد و شمار کہاں رکھے جا رہے ہوں گے؟ پھر غور فرمائیے کہ ان مقدس بزرگوں کی غیب دان نظر، اکثر و بیشتر، عورت ذات ہی پر پڑتی ہے۔ بلیدان بیٹی کا یا بہن کا یا بیوی کا یا ماں ہی کا دیا جاتا ہے۔ 

یہ وہ امت ہے جس کے رسول ؐ نے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کیا تھا جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو پھول کی طرح رکھا تھا۔ جو رضاعی ماں کے آنے پر اٹھ کھڑے ہوئے، جو بیٹی کی آمد پر اس کے بیٹھنے کے لیے چادر بچھاتے۔ جب ایک سنگدل باپ تفصیل بتا رہا تھا کہ کس طرح اس نے بیٹی کو زندہ دفن کیا تو رسالت مآب کی مقدس آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ یہ وہ ملک ہے جس میں لاکھوں مدرسے اپنی دانست میں دین پڑھا، سکھا اور پھیلا رہے ہیں جو پورے عالم اسلام میں تبلیغ کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ جس میں ہزاروں این جی او، حفاظت نسواں کے نام پر کروڑوں کا لین دین کر رہی ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اس معاشرے کے لیے عطائیوں، نیم خواندہ ہومیوپیتھوں اور سٹیرائیڈ کھلانے والے جعلی حکیموں کی نسبت یہ بابے، یہ غیب دان، یہ ملنگ، یہ نام نہاد روحانی عفریت، یہ جن نکالنے والے راکھشس کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ وہ زہر میں بجھے تیر ہیں جو عوام کے سینے میں پیوست ہیں، جب ان کا جی چاہے، آبرو ریزی کرلیں جب دل کرے، نحوست کی تشخیص کرکے قتل کرادیں۔ ان کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔ اس کا اندازہ اس محاورے سے لگائیں جو دیہاتیوں اور شہریوں میں یکساں عام ہے کہ ’’پیر نے بیٹا نہ بھی دیا تو ہماری عورت تو واپس کردے گا۔‘‘ (ترجمہ)۔ کیا کوئی حکومت ایسی بھی آئے گی جو ان وحشیوں کا منظم استیصال کرے؟ ان کے قلعے مسمار کرے؟ اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکے؟ اس کے لیے تحریک کی ضرورت ہے۔ سرکاری سطح پر اور عوامی سطح پر۔ ان طاعون زدہ چوہوں کو ایک ایک کونے سے نکال کر مارا جائے۔ ورنہ بھائی بہنوں کو اور باپ بیٹیوں کو مارتے رہیں گے۔

    


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Sunday, December 16, 2018

محاسب کا اپنا حساب لیروں لیر



نوجوان سرکاری ملازم کو دارالحکومت میں سر چھپانے کی جگہ درکار تھی۔ وفاقی وزارت ہائوسنگ کے چکر لگائے۔ ایک سرکاری ہوسٹل میں خالی کمرہ تلاش کیا۔ ہوسٹل کے انچارج نے اس کی درخواست وزارت کو روانہ کی۔ وزارت نے کارروائی کی اور درخواست وزیر کے معاون کو پہنچائی۔ وہاں سے نہ معلوم کیا ہوا‘ درخواست غائب ہو گئی۔

یہ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا عہد تھا۔ نوجوان سرکاری ملازم کا اس کالم نگار سے بھی تعلق تھا۔ وزیر صاحب کے ہم زبان ایک صحافی سے عرضِ مدعا کیا۔ یہ عزت رکھنے والا اور عزت کرنے والا صحافی تھا۔ بنفس نفیس‘ چل کر‘ وزیر صاحب کے پاس گیا۔ ان سے کالم نگار کی بات کرائی۔ وزیر صاحب نے بہ کمال شفقت و کرم‘ ہدایت کی کہ درخواست ان تک پہنچائی جائے۔

بقیہ داستان‘ الم اور غم پر مشتمل ہے۔ کئی چکر وزارت کے لگائے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وزیر صاحب ہفتے میں ایک دن دفتر آتے تھے۔ کوشش بسیار کے باوجود درخواست ان تک پہنچانے میں ناکامی ہوئی۔ معاونین‘ پرائیویٹ سیکرٹری اور ایک خصوصی ڈائریکٹر نے وزیر کے گرد ایسا حصار باندھ رکھا تھا کہ ایک سوئی تک اس حصار میں سے نہیں گزر سکتی تھی۔ ظاہر ہے یہ حصار معاونین نے اپنی مرضی سے نہیں قائم کیا تھا۔ اس معاشرے میں کسی معاون کی کیا مجال کہ ’’حکم‘‘ کے بغیر اتنی اونچی اور چوڑی فصیل تعمیر کرے۔

یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے وزراء کو متنبہ کیا ہے کہ جو وزیر دفتر نہیں آئے گا‘ گھر جائے گا۔ اس سے چند دن پہلے وزیر اعظم نو گھنٹے مسلسل کابینہ کے اجلاس میں بیٹھے اور ایک ایک وزیر کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔

اس اجلاس کی خبر آئی تو خوب خوب پھبتیاں کسی گئیں۔ ایک نام نہاد مذہبی سیاسی جماعت جو نیک بخت زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے‘ کبھی ایک پارٹی کا بریف کیس بنتی ہے تو کبھی دوسری کا ٹرالی بیگ‘اس کے ایک بے روزگار سربراہ ہیں جو ع

چلتے ہیں تھوڑی دور ہر اک رہنما کے ساتھ

انہوں نے اپنی طرف سے فقرہ بازی میں اول آنے کی مضحکہ خیز کوشش کرتے ہوئے کہا کہ وزراء پاس ہو گئے۔ قوم فیل ہو گئی‘‘ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ان کے حافظے کمزور ہیں۔ یادداشتیں ریت کی بنیادوں پر کھڑی ہیں۔ گزشتہ ادوار کو تو جانے دیجئے‘ مسلم لیگ نون کے جو حالیہ چار برس تھے۔ ان کے دوران کیا کبھی اس وقت کے وزیر اعظم کے خیال و خواب میں بھی یہ بات آئی کہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیں؟ سرکاری وسائل لُٹا کر نواسی کا نکاح حرمِ پاک میں کرنے والے سابق وزیر اعظم نے یہ کبھی نہ سوچا کہ روزِ حشر یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ نکاح کہاں پڑھایا گیا۔ باز پرس یہ ہو گی کہ تمہارے وزیر ہفتے میں ایک دن دفتروں میں آتے تھے۔ تم نے کبھی پوچھا؟ کبھی کارکردگی کا جائزہ لیا؟ کبھی انہیں وارننگ دی؟

حکومت پر اور وزیر اعظم پر اور ان کی ٹیم پر تنقید ہو رہی ہے۔ ہونی بھی چاہیے مگر تنقید اور تنقیص میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے ؎

شورش ترے خلاف زمانہ ہوا تو کیا
کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں

جوان بارک اوباما قصر صدارت میں داخل ہوا تو ہرا بھرا اور سرسبز و شاداب تھا۔ صدارت پھولوں کی سیج نہ تھی۔ آٹھ برس بعد رخصت ہوا تو ایک پیر مرد تھا۔ ضُعف کے آثار چہرے پر نمایاں تھے۔ عمران خان پوری کوشش کر رہا ہے کہ فرائض دیانت داری سے سرانجام دے۔ جس ملک میں نو نو ماہ تک کابینہ کا اجلاس ہی منعقد نہیں ہوتا تھا اسی ملک میں ایک ایک اجلاس نو‘ نو گھنٹوں کا ہو رہا ہے۔ نتائج اس خلّاقِ عالم کے ہاتھ میں ہیں جو نیتوں کا حال جانتا ہے اور جس نے اصول بتا دیا ہے کہ لیسَ لِلانسان اِلاّ ما سعیٰ۔ وہی کچھ ہاتھ میں آئے گا جس کے لئے کاوش کرو گے۔

ڈھول تاشے بجائے جا رہے ہیں کہ میاں شہباز شریف پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہونگے! یعنی پوپ حج وفد کی قیادت کرے گا! بلّی چوہوں کی کانفرنس کا افتتاح کرے گی! مُودی حافظ سعید کو بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دے گا! واہ واہ! سبحان اللہ! وفاق میں حکومت بڑے بھائی کی تھی۔ اب چھوٹا بھائی اس کا آڈٹ کرے گا! ،خود چھوٹا بھائی وفاق کے معاملات میں گلے گلے تک لتھڑا ہوا تھا۔ خواجہ آصف صاحب نے تو کابینہ کے بھرے اجلاس میں گریباں چاک کر دیا تھا کہ ’’لاہور‘‘ سے ان کی وزارت میں مداخلتِ بے جا کا کوئی انت نہیں تھا۔ پھر یہی چھوٹے بھائی تھے جنہوں نے وفاق کی طرف سے مسقط جا کر گیس کے معاہدے کئے۔ یہی چھوٹے بھائی تھے جنہوں نے دارالحکومت میں میٹرو کی تعمیر کی۔ یہی چھوٹے بھائی تھے جو وزیر اعظم کے بیرونی دوروں میں‘ جو وفاق کے دورے تھے‘ بڑے بھائی کے نال نال رہتے تھے۔ اب وہ اس دور کے محتسب ہوں گے! ع

چہ دلاور است دُز دے کہ بکف چراغ دارد

مصرع ہی ایسا یاد آ گیا ہے کہ اس میں دُزد کا لفظ در آیا ہے۔ حاشا وکلاّ کسی کو چور نہیں کہا جا رہا۔ یہ مصرع تو صدیوں پہلے کہا گیا ہے۔ کہ واہ! کتنا جری چور ہے کہ ہتھیلی پر چراغ لئے پھرتا ہے۔

بظاہر سادہ لوح بزدار صاحب نے پریس کانفرنس میں جو اعداد و شمار پیش کئے‘ کاش سابق وزیر اعلیٰ ان کا جواب دیتے۔ چار کیمپ آفس بنا رکھے تھے۔ پہلا جاتی امرا میں۔ دوسرا 96ایچ ماڈل ٹائون۔ تیسرا 180ایچ ماڈل ٹائون۔ چوتھا 41ایس ۔ ڈی ایچ اے۔ دو ہزار سے زیادہ سرکاری تنخواہ داران محلات پر پہرہ دے دے رہے تھے۔ جاتی امرا کی سکیورٹی پر پچپن کروڑ روپے خرچ اس کے علاوہ ہوئے۔ ماں قلاش اور بیٹا گھوڑوں کا سوداگر۔ قوم مفلوک الحال اور خادمِ اعلیٰ کے چار چار دفتر‘ اصل دفتر اس کے علاوہ۔ اس سے تو بادشاہ بہتر تھے‘ صاف صاف حرم بنا لیتے تھے‘ اور بجائے اس کے کہ بیگمات اور کنیزوں کے لئے الگ الگ عشرت کدے بناتے اور انہیں کیمپ آفس کا نام دیتے‘ ساری حسینائوں کو ایک ہی حرم میں ڈال دیتے تھے دیکھ بھال کے لئے خواجہ سرا تعینات کر دیتے تھے۔

خواجہ سرائوں کی خادم اعلیٰ کے عہد ہمایونی میں بھی کمی نہ تھی۔ بس ذرا بال برابر فرق یہ آ گیا تھا کہ خواجہ الگ ہو گئے تھے اور سرائیں الگ۔ اب دو خواجگان پکڑے گئے ہیں! دودھ جیسے چِٹے سفید مکھانے اور بتاشے کھائے جاتے رہے ہوں تو کبھی نہ کبھی پکڑ تو ہو ہی جاتی ہے۔ سانچ کو آنچ نہیں! آن را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک! جس نے کیا ہی کچھ نہیں‘ اسے محاسبے سے کیا ڈر! بے قصور ہوں گے تو یوں باہر نکل آئیں گے جیسے مکھن میں سے بال۔ ورنہ مکھن کو پگھلایا جانا تو لازم ہے کہ گھی بنے۔

گھی سے یاد آ گیا۔ مدتوں پہلے جب کالم نگار کم سن تھا۔ ایک دوست گائوں میں ہمارے بزرگوں کے پاس تشریف لائے۔ بات بات پر محاورے بولتے۔ کہنے لگے‘ ’’آج کل خالص گھیو اور خالص پیو نہیں ملتے‘‘ یعنی خالص گھی اور خالص باپ عنقا ہیں۔ نصف صدی پہلے یہ حال تھا تو اب کیا حال ہو گا! اُس زمانے میں کم از کم بہی کھاتے اُن محاسبوں کے سپرد نہیں کئے جاتے تھے جن کا اپنا حساب کتاب لیروں لیر تھا!!

   











Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Saturday, December 15, 2018

: شریعت خس و خار ہی کی چلے گی



جو قریوں اور بستیوں میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے وہ جانتے ہیں کہ گائوں میں کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی میونسپل کمیٹی ہوتی ہے نہ خاکروب۔ صدیوں سے پریکٹس چلی آ رہی ہے کہ عورتیں گھروں کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر، گائوں سے ذرا باہر، کھیت میں ڈالتی جاتی ہیں۔ اس کوڑے میں جانوروں کا گوبر بھی شامل ہوتا ہے۔ ہوتے ہوتے یہ کوڑا ڈھیر کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اب کالے رنگ کے بھینس کی کھال جیسی کھال رکھنے والے کیڑے اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کیڑوں کو پنجاب کے مغربی حصے میں بھبھون کہا جاتا ہے۔

بھبھون غلاظت کا کھلاڑی ہے۔ اسی میں رہتا ہے، یہیں سے جو کچھ ملتا ہے، اس سے اپنا بل
آراستہ کرتا ہے۔ طریق واردات اس کا یہ ہے کہ کمال ہنروری سے غلاظت کا گولہ بناتا ہے۔ سائز میں ماربل کی گولی (بنٹے) سے بڑا اور پنگ پانگ گیند سے چھوٹا۔ یوں صفائی سے تراشتا ہے جیسے سمرقند کے کاریگر مرمر تراشتے تھے ؎

مرمر سے جیسے ترشا ہوا تھا تمام باغ
پیڑوں کے ساتھ جیسے پرندے لگے ہوئے

مجال ہے جو گولائی میں ذراق فرق آئے۔ پھر وہ اسے لڑھکاتا ہے۔ غلاظت کا گولہ آگے آگے، بھبھون پیچھے پیچھے۔ جیسے ریڑھی بان ہو، کہاں لے جاتا ہے؟ گمان غالب یہ ہے کہ اپنے بل میں لے جاتا ہے۔ سجاوٹ کے لیے یا پھر پلتا، جیتا، اسی پر ہے۔

یہ گولہ کیا ہے؟ یہ ٹی وی چینلوں کا صبح کا پروگرام ہے۔ یہ ہنرور، یہ غلاظت تراش کون ہے، یہ وہ اینکر ہے، مرد یا عورت، جو صبح کے پروگرام کی کوچوان ہے۔

کوئی ڈکشنری، کوئی لغت، کوئی کشاف، کوئی معجم، کوئی تھیسا رس، اس کثافت کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتا جو صبح کے پروگراموں کے ذریعے اس قوم کے اندر زہراب کی طرح اتارا جا رہا ہے۔ عام اردو میں جسے گھٹیا کہتے ہیں، انگریزی میں جسے چیپ کہتے ہیں، ادبی زبان میں جسے مبتذل کہتے ہیں، وہ سب ان پروگراموں سے بہتر ثابت ہوں گے۔

حد سے زیادہ بے باک کوئی عورت، میک اپ اور فیشن کی انتہائوں کو چھوتی یا ایک چھوکرا، جس کا علم سے متانت سے شرافت سے، سنجیدگی سے دور کا بھی تعلق نہیں، نمودار ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے سامنے یوں تو پورا ملک ہے، بلکہ پوری اردو دنیا، مگر وہاں چینل کے ہال میں اس کا مجمع زیادہ تر نوجوان لڑکوں اور نوخیز لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ان پروگراموں میں ایک اینکر پرسن نے اپنے حمل کا بارہا ذکر کیا اور گوناگوں پیرایوں میں کیا۔ زبان عامیانہ، جملے ذومعنی، جنسی تعصب 

(Sexism)
 سے چھلکتے، کم ہی خاندان ہوں گے جو سارے اکٹھے ہو کر یہ تماشا دیکھ سکتے ہوں گے۔ تفریح پر کسی کو اعتراض نہیں، تفریح انسان کی جبلت کا تقاضا ہے مگر تفریح اور ابتذال میں فرق روا رکھنا واجب ہے۔ کیا کسی سے یہ پوچھنا کہ آپ کی پہلی بیگم نے آپ کی دوسری شادی کو قبول کیوں نہیں کیا؟ تفریح میں شامل ہے؟ ان پروگراموں میں یہ چھیل چھبیلی بنجارنیں اور یہ اینکر چھوکرے مختلف اقسام کے کھیل بھی پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کھیل ایسے ہیں جو کسی بھی بھلے مانس کی غیرت نفس پر بار بن سکتے ہیں۔ شکلیں بگڑ جاتی ہیں۔ چہروں پر نہ جانے کیا کیا مل دیا جاتا ہے۔ کبھی جانوروں کی طرح کھانے بلکہ ہڑپ کرنے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ کبھی اندرون خانہ کی وہ باتیں کرید کرید کر پوچھی جاتی ہیں کہ جو پردے ہی میں پڑی اچھی لگتی ہیں۔ حرام ہے جو ان پروگراموں میں کوئی معلوماتی ٹکڑا نظر آ جائے، شعر و ادب کا کوئی تربیتی پہلو در آ جائے، ملک کی تاریخ، معیشت یا کسی اور پہلو کا ذکر ہو جائے۔ تفریح میں تہذیب بھی شامل ہو سکتی ہے مگر ان پروگراموں میں جو تہذیب دکھائی، بتائی اور سکھائی جا رہی ہے اس سے ذہنی پستی میں کئی گنا اضافہ تو ہورہا ہے، مثبت پہلو کہیں نہیں دکھائی دیتا۔

دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عوام جو پسند کرتے ہیں وہی دکھاتے ہیں۔ اول تو یہ دلیل بودی ہے۔ فرض کیجئے معقول بھی ہے تو آپ عوام کے ذوق کی ترویج کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے نشیب ہی کی طرف بہنا ہے؟

کوڑے کرکٹ سے تراشے ہوئے کچھ گولے اور بھی ہیں۔ وہ ڈرامے جو شام ڈھلے پردہ سیمیں پر نمودار ہونے شروع ہوتے ہیں، ان سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ کوئی ایک ڈرامہ بھی ایسا نہیں جس میں کہانی معاشقے طلاق اور ساس بہو کے جھگڑوں پر مشتمل نہ ہو۔ تشدد سے بھرے مناظر۔ عورتوں کو پیٹا جا رہا ہے کہیں واجب الاحترام رشتوں سے معاشقے ہورہے ہیں، سوائے اس کے کہ لڑکی کہیں اور شادی کرنا چاہتی ہے اور ماں باپ کہیں اورکرنا چاہتے ہیں، کوئی اور موضوع، کوئی اور تھیم، کوئی اور مرکزی خیال، ان ڈراموں میں ملنا محال ہے۔ تاریخ، لٹریچر، معاشرتی اخلاق، اعلیٰ سماجی قدریں، ان ڈراموں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ یوں لگتا ہے روایتی فلموں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ڈراموں میں بدلا جارہا ہے۔

ان ڈراموں کو دیکھنے والے بچے اور بچیاں ذہنی طور پر وقت سے پہلے جوان ہورہی ہیں۔ منفی اثرات جسمانی نشوونما اور جسمانی تبدیلیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان جو حجاب کا باریک پردہ تھا، تار تار ہو چکا ہے۔ آٹھ دس سال کی بچی پہلے ہی کہہ اٹھتی ہے کہ ہیروئن کو طلاق ہو جائے گی، یہ بچے کیا سیکھ رہے ہیں؟ یہی کہ منگنی کا ٹوٹ جانا، طلاق کا ہو جانا، گھروں کی شکست و ریخت، دیور کا بھابھی سے دل لگانا، یہ سب روزمرہ کا حصہ ہے۔ اندازہ لگائیے، ان ڈراموں کو دیکھنے کے بعد جو نسل سامنے آئے گی، اسے رشتوں کے تقدس اور بندھنوں کے استحکام کا کتنا شعور ہوگا؟ ان ڈراموں میں سب سے زیادہ جو جملہ سننے میں آتا ہے وہ ہے۔ ’’میری اپنی زندگی ہے۔‘‘ یہ اطلاع بیٹی ماں کو، بیٹا باپ کو، بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

کتابیں پڑھنے کا رجحان پہلے ہی موت کے گھاٹ اتر رہا ہے۔ وڈیو کلپوں کا طوفان، سوشل میڈیا کے اوزار اور انٹرنیٹ کے منفی اثرات کیا کم تھے کہ پاکستانی ٹی وی چینلوں کے ڈرامے اور صبح کے پروگرام معاشرے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہورہے ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں ای ریڈر عام ہورہے ہیں، ان میں کتابیں بھر کر پڑھی جا رہی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں آن لائن کتابیں منگوائی جا رہی ہیں، ہم نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ ہر ایجاد کے شیطانی پہلو ہی آزمانے ہیں۔ جہاں پھول اور کانٹے دونوں موجود ہوں، ہمارا ہاتھ کانٹوں کی طرف بڑھتا ہے، چمکتے یاقوت کو چھوڑ کر دہکتے انگارے منہ میں ڈالے جا رہے ہیں۔ جس ملک کے عوام کا دن صبح کے ٹی وی پروگراموں سے آغاز ہوتا ہے اور سماجی توڑ پھوڑ سے لبالب ڈراموں پر ختم ہوتا ہے، اس ملک کے عوام کا کیا ذوق ہو گا اور کیا معیار ہوگا۔ محب عارفی یاد آ گئے ؎

شریعت خس و خار ہی کی چلے گی
علم رنگ و بو کے نکلتے رہیں گے

مچلتے رہیں روشنی کے پتنگے
دیے میرے کاجل اگلتے رہیں گے

رواں ہر طرف ذوق پستی رہے گا
بلندی کے چشمے ابلتے رہیں گے

   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Thursday, December 13, 2018

اگر سنگ میل ہی راستے کا پتھر بن جائے تو؟؟



مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ایک بار بیمار پڑے تو بہت سے لوگ عیادت کو آئے۔ ان میں ایک صاحب ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ مشورہ نہیں دیا کہ فلاں ڈاکٹر کو ضرور دکھائیے۔ 

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم دوسروں کے معاملات میں کس فراخ دلی سے دخل انداز ہوتے ہیں؟ بچے کوفلاں سکول میں داخل کرائیے۔مکان فلاں آبادی میں تعمیر کیجئے۔ نقشہ فلاں معمار سے بنوائیے۔ اور اس طرح بنوائیے بیماری کے دوران جتنے مشورے ملتے ہیں ان سب پر عمل کیجیے تو آپ نہایت آسانی سے زندگی کا دورانیہ مختصر کر سکتے ہیں۔ کچھ احباب تو باقاعدہ نسخہ بھی تجویز کریں گے اور اصرار کریں گے کہ اپنے ڈاکٹر کو ایک طرف رکھیے بس یہ استعمال کیجیے۔ 

ان ہدایات پر عمل کرنے والوں کا حشر بھی دیکھا ہے۔ گائوں سے ایک بزرگ تشریف لائے ایک ڈاکٹر سے ان کے لئے وقت لیا۔ مقررہ وقت پر انہیں وہاں پہنچایا۔ انتظار گاہ میں کسی سے سنا کہ ٹیکسلا میں ایک زبردست حکیم ہے اور چند خوراکوں میں مریض شفا یاب ہو جاتا ہے‘ وہیں سے ٹیکسلا چلے گئے۔ وہاں کسی نے بتایا کہ حسن ابدال میں جو ڈاکٹر فلاں کلینک میں موجود ہے‘ اس کے آگے سب اطبا ہیچ ہیں۔ بزرگ وہاں تشریف لے گئے۔ صحت یاب تو کیا ہوتے‘ اب پیچ در پیچ تکالیف کے انبار تلے دبے ہیں۔ ایک صاحب لندن سے بائی پاس کرا کے آئے۔ اچھے بھلے تھے معمولی بخار ہوا کسی نے ایک گولی کھانے کو دی گولی کا نام تک معلوم نہ تھا۔ ایسا ردعمل ہوا کہ ہولی فیملی ہسپتال میں لائے گئے۔ جہاں جان ‘جان آفریں کے سپرد کر دی! 

یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے مگر معاملہ یہیں تک رہتا نہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اس دخل اندازی کا سلسلہ مذہب تک جا پہنچتا ہے اور پھر بت پرستی تک! بت صرف اس مجسمے کو نہیں کہتے جو لکڑی یا پتھر یا مٹی یا پلاسٹک سے بنتا ہے۔ ایسے بت کو توڑنا آسان ہے مگر وہ بت جو شخصیات کی صورت میں نہاں خانہ دل میں جاگزیں ہیں‘ مشکل سے ٹوٹتے ہیں ۔اقبال نے انہیں بتانِ وہم و گماں بھی قرار دیا ہے مگر یہ وہم و گماں سے بڑھ کر اور صورتیں بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ 

ایک صاحب تشریف لاتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ دینی رہنما کی تصنیف کردہ تفسیر چھوڑ جاتے ہیں پھر ایک ہفتہ بعد فون کرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں پڑھی ہے کہ نہیں؟ ان کا پختہ ایمان ہے کہ چودہ سو برس میں اس سے بہتر تفسیر نہیں لکھی گئی پھر ڈاک میں ایک بھاری پیکٹ موصول ہوتا ہے۔ اس میں ان کے انہی پسندیدہ عالم دین کی تصانیف ہیں جو مفت ارسال کی ہیں۔ ساتھ ہی خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ انہیں پڑھیے! ان کا اوڑھنا بچھونا اسی عالم دین کا ذکر‘ اس کی تفسیر‘ اس کی تصانیف ‘ اسی کی تقاریر‘ اسی کے ارشادات ہیں۔ اگر کہیں ان کی تقریر ہے تو وہ سو میل دور سے آ کر آپ کو وہاں لے جانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ 

ایک اور نوجوان اطلاع دیتا ہے کہ اگر قرآن پاک کی الہامی عظمت سے آشنا ہونا ہے تو فلاں کا ترجمہ اور تفسیر ملاحظہ کیجئے۔ اللہ اللہ! یعنی اب تک قرآن پاک کی الہامی عظمت سے کوئی اور شناساہی نہیں ہوا‘ نہ کر سکا! کسی کی مجلس میں تفہیم القرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب پڑھی جاتی ہے نہ پڑھائی جاتی ہے کسی کے نزدیک مولانا شبیر احمد عثمانی کا ترجمہ ہی قابل اعتبار ہے۔ کسی کی زندگی کا مشن صرف مولانا احمد رضا خان کے ترجمہ قرآن کی تشہیر و تبلیغ ہے: ہر کوئی اپنے حصار میں بند ہے ایک دائرہ اپنے اردگرد کھینچا ہوا ہے۔ اس سے باہر نکلنے کا سوچنا بھی کفر ہے۔ 

عقیدت قرآن پاک سے ہے نہ اس پر ایمان!عقیدت ہے تو تفہیم القرآن سے ہے یا بیان القرآن سے یا کنزالایمان سے یا البیان سے یا موضح القرآن سے۔ ایمان بھی اسی تشریح پر ہے جو اس میں بیان ہوئی ہے دستار باندھنی ہے تو اپنے پسندیدہ رہنما کی طرز پر۔ لباس پہننا ہے تو انہی کے انداز میں۔ بیان کرنا ہے تو ان کی نقالی کرتے ہوئے۔ بچے کا نام رکھنا ہے تو وہی رکھیں گے۔ 

یہ وہ راستے تھے جن پر چل کر منزل تک پہنچنا تھا مگر افسوس! یہی منزل بن گئے۔ آگے بڑھ ہی نہ سکے۔ خود ہی ایک جال بنا‘ پھر خود ہی اس میں پھنس گئے۔ خدا اس کا رسول‘ رسول کی سنت۔ قرآن پاک‘ اس کا پیغام سب پس منظر میں چلے گئے۔ سارے پیش منظر پر اپنے پسندیدہ عالم پسندیدہ رہنما‘ پسندیدہ پیر ‘ پسندیدہ مرشد‘ پسندیدہ مفسر ‘ پسندیدہ تنظیم کے سربراہ کا سراپا چھا گیا۔ تفسیر صرف ان کی‘ تقریر صرف ان کی! تشریح صرف ان کی! تصانیف صرف انہی کی پڑھنی ہیں اور مشن یہ ہے کہ ہر اپنے پرائے کو ان کی کتابیں پڑھوانی ہیں! بچوں کو‘ اہل خانہ کو‘ احباب کو‘ انہی کے حضور لے کر جانا ہے۔ یوں ہی تو متنبہ نہیں کیا گیا کہ

’’ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا اور شریک بنا رکھے ہیں جن سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی کہ اللہ سے رکھنی چاہیے اور ایمان والوں کی تو اللہ ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے…‘‘ 

ذہنی پختگی کو ہم کب پہنچیں گے؟ جذبات اور فریفتگی سے کب رہائی ملے گی؟ کب ہم ایک خاص تفسیر کو‘ ایک خاص رہنما کی تصانیف کو‘ ایک مخصوص گروہ کو محض چراغ راہ قرار دیں گے‘ منزل نہیں سمجھیں گے! سب مفسرین نے ‘سب علما نے ‘سب مشائخ نے ‘اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سب قابل احترام ہیں۔ ترجمہ یا تفسیر ‘کسی آیت کی ‘ کنز الایمان میں بھی اتنی ہی معتبر ہے جتنی موضح القرآن میں یا تفہیم القرآن میں! ہم کب لوگوں کو یہ کہنا شروع کریں گے کہ بھائی قرآن پاک کو سمجھو‘ خواہ کسی بھی تفسیر کی مدد سے !غلط کوئی بھی نہیں ! ہر زمانے میں ابھرنے والے مسائل کے نکتہ نظر سے علماء کرام نے تفاسیرلکھیں اور اپنا فرض ادا کیا۔ جب برصغیر میں عیسائی مشنریوں کا زور ہوا تو رحمت اللہ کیرانوی صاحب نے اس نکتہ نظر سے خدمات انجام دیں۔ دین سے واجبی واقفیت رکھنے والے جدید اذہان کے لئے تفہیم القرآن لکھی گئی۔ عشق رسول کے نکتہ نظر سے کنزالایمان تصنیف ہوئی۔ حرف آخر کوئی نہیں! یہ سب تو چشمے پر آ کر پیاس بجھانے والے ہیں۔ آتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ چشمہ یوں ہی رہے گا۔ اب یہ اپنی اپنی ذہنی سطح ہے کہ چشمے کو چھوڑ کر چشمے سے فیض یاب ہونے والوں کے پیچھے چل پڑیں یہاں تک کہ چشمہ ہی گم کر دیں!! 

شخصیت پرستی‘ بت پرستی کی سب سے زیادہ خطرناک شکل ہے اس لئے کہ اس پر مذہب کا لبادہ پڑا ہوا ہوتا ہے! ناصر کاظمی نے کہا تھا: 

ہزار رستے ہیں اہل دل کے بس ایک منزل ہے بوالہوس کی
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

تبلیغی جماعت میں‘ ساری خامیوں کے باوجود ایک مستحسن بات یہ تھی کہ شخصیات کو اجاگر نہیں کیا جاتا تھا۔ ان کے اجتماعات میں مقررین کا نام تک نہیں بتایا جاتا تھا۔ مگر اب اس جماعت کو بھی ایک محترم شخصیت نے یوں سمجھیے ایک لحاظ سے ہائی جیک ہی کر لیا ہے۔ وہی اس کی شناخت بن گئے ہیں اور سارا تعارف ‘ پہچان‘ سلسلہ‘ دانستہ یا نادانستہ ‘ انہی کے گرد گھوم رہا ہے انہی کی شخصیت انہی کے انداز بیان‘ انہی کے انداز دستار‘ انہی کی نقل و حرکت کو دین سمجھا جا رہا ہیٖ : 

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے 
ہوس سینوںمیں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں

اقبال کا شعر مشہور تو بہت ہوا ہے مگر کیا ہم اس پر عمل بھی کر رہے ہیں؟؟

بمصطفیٰ برسان خویش را کہ دیں ہمہ اوست 
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست

   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

Tuesday, December 11, 2018

کامیابی کی کنجی جوش نہیں ہوش ہے



سالہا سال سے بیساکھیوں پر چلنے والے سے اچانک بیساکھی لے لی جائے توگر پڑے گا۔ اسے بتدریج‘ اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ 

پاکستانی معیشت برسوں سے نہیں‘ عشروں سے بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ بیرونی قرضوں کی بیساکھیاں‘ اندرونی قرضے‘ اسحاق ڈار صاحب نے قومی بچت کے ادارے تک کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ بیوائوں اور بوڑھوں کے لیے منافع کی شرح کم کرتے گئے۔ یہاں تک کہ پہلے سے تقریباً نصف رہ گئی۔ 

اقربا پروری کی بیساکھیاں‘ 

دوست نوازی کی بیساکھیاں‘

قومی اداروں کو طاعون زدہ کردیا گیا۔ سب کچھ ظفر حجازیوں‘ محمد سعیدوں‘ توقیر شاہوں‘ خواجہ ظہیروں‘ سعید مہدیوں‘ وانیوں‘ ڈاروں اور بٹوں کے سپرد تھا۔ اس سے پہلے وہ دور بھی آیا کہ ٹیلنٹ کا ہر منبع‘ ہر مصدر‘ ملتان سے پھوٹتا تھا۔ اسامیوں کے اشتہار چھپتے اور کابینہ کی سیکرٹری صاحبہ کو بتا دیا جاتا کہ فلاں صاحب آ کر ملیں گے۔ انہیں ہی رکھنا ہے۔ دور کی نظر تو کمزور تھی ہی نزدیک سے بھی دکھائی دینا بند ہوگیا۔ خواجہ خیرالدین کے فرزند کو بنگلہ دیش میں سفیر مقرر کردیا‘ اس لیے کہ ملتان کا حوالہ تھا۔ اس حقیقت سے مکمل لاعلمی کے ساتھ کہ خواجہ خیرالدین بنگلہ دیش کے نزدیک ناپسندیدہ افراد میں شمار کئے جاتے تھے۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے حافظ سعید کے بیٹے کو دہلی میں سفیر مقرر کردیا جائے۔ 

سب سے بڑی بیساکھی کرپشن کی تھی۔ کرپشن جس کی انتہا کوئی نہ تھی۔ کاش کوئی اہل پاکستان کوبتائے کہ نیویارک کے ایک پاکستانی بینک کی برانچ کیسے موت کے گھاٹ اتری۔ کون ذات شریف تھے جن کی منی لانڈرنگ اس موت میں ملوث تھی 

اور ایسے سینکڑوں ڈاکے۔ 

پاکستانی معیشت ان بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت سے غلطی یہ ہوئی کہ ان تمام بیساکھیوں کو نیچے سے یکدم کھینچ لیا۔ معیشت لڑکھڑا کر رہ گئی ہے۔ یہ کام بتدریج ہونا چاہیے تھا۔ تجاوزات کے مسئلے پر جلد بازی کی گئی۔ بجا کہ یہ کام ضروری تھا مگر جو ایکشن لیا گیا‘ اس کے کچھ متبادل بھی تھے کیا ان پر غور کیا گیا؟ 

اس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہدام سے ہمیشہ ایک منفی تصور ابھرتا ہے۔ مخالفین کو وہ نفسیاتی جنگ جیتنا آسان ہو جاتا ہے جس سے وہ عوام کے ذہنوں پر تباہی و بربادی کی تصویر مرتسم کرسکیں۔ رہگزاروں اور شاہراہوں کے کنارے جب لوگ شکستہ اور نیم منہدم عمارتیں دیکھتے ہیں تو دلوں پر خوف طاری ہو جاتا ہے اور زبان پر نہ چاہتے ہوئے بھی مذمت کے کلمات آ جاتے ہیں۔ کیا حکومتی ارکان میں سے کسی نے اس نفسیاتی پہلو کی طرف وزیراعظم کی توجہ دلائی؟ 

دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو پلازے‘ عمارتیں‘ گھر بنے ہوئے تھے وہ بہرطور ایک امر واقعہ تھا۔ ایک 
Fait Accompli
 تھا۔ دانش مندی یہ تھی کہ ایک لکیر کھینچ دی جاتی کہ اب تک جو ہو چکا ہے اسے نہیں گرا رہے۔ ہاں‘ بھاری جرمانہ عائد کریں گے یا بحق سرکار ضبط کریں یا نیلام کریں گے مگر بنی ہوئی عمارتوں کو کسی نہ کسی طور بچائیں گے اور آج کے بعد جو ناجائز تجاوزات کی طرف قدم بڑھائے گا‘ اسے وہیں فی الفور روک دیا جائے گا۔ دور اندیشی اسی قبیل کی پالیسی کا تقاضا کرتی ہے جو غلط کام نصف صدی سے ہورہا ہو‘ اس کا رخ راتوں رات نہیں بدلا جاسکتا۔ بدلنے کی کوشش کریں گے تو اس پروسیس میں نقصان زیادہ ہو جائے گا۔ 

تیسرا پہلو یہ تھا کہ گندم کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔ تجاوزات پر جن غلط عناصر نے قبضے کئے‘ اصل قصور تو ان کا تھا جس نے زمین خریدی‘ اپنے نام کچہری میں رجسٹری کرائی‘ اس کا کیا قصور تھا؟ شاہراہ دستور سے بیس منٹ کی مسافت پر گزشتہ ادوار میں طاقتور لوگوں نے پہاڑیاں کاٹیں جو سرکاری ملکیت میں تھیں۔ پھر پلاٹ بنائے‘ پھر بیچے۔ اب اگر وہ گھر گرائیں گے تو مکان بنانے والا آپ کو ووٹ نہیں بددعائیں دے گا۔ 

چوتھا پہلو یہ ہے کہ متعلقہ محکموں نے تساہل برتا۔ تجاوزات جب بیچے جا رہے تھے‘ نقشے تبدیل ہورہے تھے اور بنیادیں کھودی جا رہی تھیں‘ اس وقت محکموں نے کیوں انسدادی اقدام نہ اٹھایا؟ ترقیاتی محکموں کی آنکھوں کے سامنے اور ناک کے نیچے غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں بنتی ہیں‘ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان تمام معاملات میں اصل مجرموں کو تلاش کیا جائے۔ اگر وہ ریٹائر ہو چکے ہیں تب بھی انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ ایسا نہ کیا گیا تو بے قصور سزا پاتے رہیں گے اور مجرم بچ کر نکلتے رہیں گے۔ 

وزیراعظم دیانت دار ہیں۔ دلسوزی سے اس قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔ ناصر درانی کا استعفیٰ ہو‘ پاکپتن کے پولیس افسر کا تبادلہ ہو‘ ناجائز عمارتوں کا انہدام ہویا ڈالر کی قیمت میں فلک بوس اضافہ ہو‘ اثرات ان سب کے منفی پڑ رہے ہیں۔ ڈھنگ کی وضاحت تک نہیں ہورہی۔ غلطیوں کا ازالہ نہیں ہورہا۔ یہ درست ہے کہ اگر بھانجے نے کسی اہلکار کو تھپڑ رسید کیا یا اگر بہن کی جائیداد نکل آئی تو اس میں وزیراعظم کا کوئی قصور نہیں مگر ع 

یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں 

موثر انداز میں وضاحت تو کیجئے۔ مخالفین نے اس ضمن میں جو پُرسوز پروپیگنڈا برپا کیا ہوا ہے‘ اس کا سدباب تو کیجئے۔ اپنی پوزیشن تو واضح فرمائیے۔ 

آخر یہ تاثر ابھرے ہی کیوں کہ کسی گروہ نے کسی طبقے نے‘ کسی صوبے نے حکومت کو ہائی جیک کرلیا ہے۔ احتیاط کیجئے کہ کہیں کوئی نیا سلمان فاروقی‘ نیا سراج شمس الدین‘ نیا خواجہ ظہیر‘ نیا سعید مہدی تو نہیں تیار ہورہا؟ 

مشاورت کا دائرہ وسیع کیجئے۔ خاص طور پر پارٹی کے نظریاتی وفاداروں اور پرانے وابستگان کو نزدیک لائیے‘ یہ تاثر دور ہونا چاہیے کہ ؎ 

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں 

اس میں کیا شک ہے کہ سفر طویل ہے راستہ کٹھن ہے‘ ہمراہیوں میں کچھ سست گام ہیں مگر یہ مسائل تو ہمیشہ سے انقلابی رہنمائوں کے آڑے آتے رہے ہیں۔ بس یہ یاد رہے کامیابی کی کنجی جوش نہیں‘ ہوش ہے۔

Sunday, December 09, 2018

زلف عنبر بار سے کژدم بکھیر اژدر نکال



’’ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جا سکتی اور دینی مدارس امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘

ایک مذہبی رہنما کے اس تازہ ترین بیان پر غور کیجئے۔ کیا دونوں فقروں میں کوئی باہمی تعلق ہے؟

پہلا سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر کس نے سودا بازی کی ہے؟ یا سودا بازی کی پیشکش کی ہے؟ نام بھی تو معلوم ہو؟ نعوذ بااللہ کیا ختم نبوت اور ناموس رسالت پر سودے بازی ہو سکتی ہے؟ کیا کسی میں اس کی جرأت ہے؟

میڈیا کے اس بدترین دور میں کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ پھر اپنے مطالبے کو‘ اپنی کمیونٹی کے مطالبے کو‘ اپنے گروہ کے مطالبے کو زور دار بنانے کے لیے ختم نبوت اور ناموس رسالت سے بڑھ کر اور کون سا کندھا بہتر ہوگا جس پر مفادات کی بندوق رکھ کر چلا دی جائے۔ کل کو کیا عجب آپ یہ بھی سنیں:۔

’’ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جاسکتی اور ڈاکٹر امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘

یا ختم نبوت‘ ناموس رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں کی جا سکتی اور تاجر امتیازی سلوک برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
۔ مولانا صاحب نے ساتھ ہی یہ خبر دی کہ ’’مدارس نے ملک میں محبت کو فروغ دیا ہے۔ مدارس کا پیغام بھی پیغام محبت ہے۔‘‘

یہ ایک روح پرور خبر تھی۔ دل کو اطمینان نصیب ہوا۔ میں نے دیوبندی لبادہ اوڑھا اور ایک بریلوی مدرسہ میں جا دھمکا۔ ایک سینئر طالب علم ملا۔ اس سے پوچھا‘
کتنے عرصہ سے یہاں زیر تعلیم ہو؟
ساتواں سال۔
کیا ان سات برسوں میں کسی دیوبندی مدرسہ میں جانے کا اتفاق ہوا؟
نہیں۔
کیا یہاں تمہارے اساتذہ میں کوئی دیو بندی مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہے؟
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
آپ کے مدرسہ سے ملحقہ مسجد میں جلسے ہوتے ہیں۔ کیا کبھی کوئی دیوبندی مولانا بھی وعظ کے لیے بلائے گئے؟
نہیں‘ مگر آپ کون ہیں اور یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟
میں ایک دیوبندی ہوں اور آپ سے محبت کرنے آیا ہوں۔
طالب علم کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔
تم ایک دیوبندی ہو؟ تم تو گستاخ رسول ہو‘ تمہارا ہم سے‘ ہمارے مدارس سے‘ ہماری مساجد سے اور محبت سے تعلق ہی کیا ہے۔ ہم تو تم لوگوں کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے۔ یہاں تک کہ حرمین شریفین میں بھی ہم احتیاط کرتے ہیں۔ تم اولیاء اللہ کو نہیں مانتے۔ تم کرامات کے منکر ہو۔ بہتر ہے یہاں سے نکل جائو۔

اب میں بریلوی بنا اور اہل حدیث مکتب فکر کے مدرسہ میں جا پہنچا۔ محبت کو ماپنے کے لیے بیرومیٹر تلاش کر ہی رہا تھا کہ مدرسہ کے بڑے مولوی صاحب نے بلایا۔
آپ کو یہاں پہلے نہیں دیکھا؟ کون ہیں‘ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟
حضور‘ میں ایک بریلوی ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مدارس ملک میں محبت کو فروغ دے رہے ہیں اور ان کا پیغام محبت کا پیغام ہے۔ میں یہاں محبت بانٹنے اور محبت وصول کرنے آیا ہوں۔

مولانا کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ ایسے بل جنہیں محبت کی بڑی سے بڑی استری بھی ہموار نہ کرسکے۔
تم مشرک‘ بدعتی‘ یہاں کیسے آن دھمکے؟ ہم تو کسی بریلوی کے گھر رشتہ تک نہیں کرتے‘ تم لوگ مزاروں پر جاتے ہو‘ عرس مناتے ہو‘ پیروں فقیروں کو مانتے ہو‘ گیارہویں پکاتے‘ کھاتے اور کھلاتے ہو۔ اذان سے پہلے درود شریف پڑھتے ہو اور پھر تم حنفی بھی ہو۔ تم رفع یدین کرتے ہو نہ امام کی اقتدا میں سورۃ فاتحہ پڑھتے ہو۔

میں روہانسا ہو کر نکل آیا۔ یہ محبت کا پیغام جو مدارس دے رہے تھے‘ نہ جانے کہاں دستیاب تھا۔ ایک امید باقی تھی۔ میں نے شیعہ عبا پہنی اور سنیوں کے مدرسہ جا پہنچا۔ دور ہی سے پہچان لیا گیا۔
اوئے‘ یہ صحابہ کو نہ ماننے والا اور ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے والا یہاں کیسے گھس آیا۔
نماز کا وقت تھا‘ امام صاحب کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔ سب بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ میں نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔
میں نماز پڑھا دیتا ہوں۔ ہم بھی تو وہی نماز پڑھتے ہیں۔ اتنی ہی رکعتیں۔
نہیں‘ تم شیعہ ہو‘ ہم سنی ہیں۔ تمہارے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی۔
پھر میں نے سنیوں کا بھیس بدلا اور اثنا عشریوں کے مدرسہ میں جا پہنچا۔ وہاں بھی یہی ہوا۔ میرے پیچھے نماز پڑھنے کو کوئی تیار تھا نہ میرے گھر رشتہ کرنے کو۔
تم محرم میں ماتم کرتے ہو نہ تعزیہ نکالتے ہو‘ تمہارا ہم سے کیا تعلق۔

بات وہ کرنی چاہیے جسے سن کر لوگ ہنسنانہ شروع کردیں۔ خلق خدا سیانی ہو چکی ہے۔ کسی سے پوچھ کر دیکھ لیجئے کہ امت میں تفرقے کا باعث کون سا طبقہ ہے؟ جواب سن کر چودہ طبق روشن ہو جائینگے۔ آپ کی اس بات کو کون تسلیم کریگا کہ لاہور میں برفباری ہوئی ہے اور گرمیوں میں لوگوں نے مری اور کاغان کے بجائے جیکب آباد جانا شروع کردیا ہے۔

ہاں‘ مدارس محبت کے مراکز تھے۔ اس وقت تک جب یہ کمرشل نہیں ہوئے تھے۔ جب مدارس کے مہتمم اور مالکان اپنی روٹی کمانے کے لیے کام کرتے تھے۔ تجارت کرتے تھے‘ ہل چلاتے تھے‘ یہاں تک کہ محنت مزدوری سے بھی عار نہ تھا۔ تب رواداری تھی‘ دلوں میں خدا کا خوف تھا‘ کہاں وہ زمانہ کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے غیر مسلم خاکروب کو اپنے ساتھ کھانے پر بٹھایا‘ اس کے منہ میں آلو ڈالا۔ اس نے آدھا کھایا تو دوسرا آدھا اپنے منہ میں ڈال لیا اور کہاں یہ زمانہ کہ دوسرے مسلک کے مسلمانوں کو مسلمان ماننے کے لیے اہل مدرسہ تیار نہیں۔ یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر مسلکی اختلافات سے لبالب بھری ہوئی‘ آگ لگا دینے والی تقریریں سن لیجئے۔ وہ جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا ؎

تو غزل خوانی پہ آ جائے تو ہے خواجوئے وقت
زلف عنبر بار سے کژدم بکھیر اژدر نکال

خوا جو کرمانی کمال کے غزل گو تھے کژدم بچھو کو کہتے ہیں اور اژدر اژدھا کو۔ وہ زمانہ لد چکا جب محبوب کی زلف سے کژدم اور اژدر نکلتے تھے۔ اب تو پھنکارتے سانپ اور بچھو ہمارے واعظین کے دہانوں سے نکل رہے ہیں۔
خدا وہ دن دکھائے کہ ہمارے محترم علماء کرام ایک دوسرے کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنا شروع کریں اور ٹکڑوں میں بٹی امت کو حقیقی معنوں میں محبت کا پیغام دیں۔






Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

 

powered by worldwanders.com