Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, December 08, 2018

ایک خوش بیان کا تذکرہ



قاضی گل حسین صاحب کو دیکھا کبھی نہیں

مگر بچپن اور لڑکپن کی وہ یادیں جنہوں نے ساری زندگی دامنِ دل نہ چھوڑا‘ قاضی صاحب کا نام ان یادوں کا ایک جزو رہا ہے۔ 

نہیں معلوم قاضی صاحب کی دوستی کا آغاز دادا جان کے ساتھ کب ہوا اور کیوں کر ہوا۔ اُس کچّے سن میں اتنا شعور ہی کہاں تھا کہ باتیں کرید کرید کر پوچھی جاتیں اور لکھ لی جاتیں۔ مگر دادا جان جب بھی اپنا لکھنے پڑھنے کا کام کر رہے ہوتے ہیں اکثر و بیشتر ان کے پاس ہوتا۔ فارسی ادبیات عالیہ کی تدریس کے علاوہ علاقے میں ان کا فتویٰ بھی چلتا تھا۔ دور و نزدیک سے خطوط آتے اور سائل بھی۔ کبھی کبھی ان کا کوئی معاون یا شاگرد بھی ان کا ہاتھ بٹاتا۔ کبھی وہ بولتے جاتے اور وہ لکھتا جاتا۔ کبھی وہ متعلقہ کتابوں سے ریفرنس تلاش کرنے کا کام کرتا۔ انگریزی عہد سے وہ میرج انسپکٹر کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ تحصیل فتح جنگ ان کے دائرہ فرائض میں شامل تھی۔ یہ بنیادی طور پر مردم شماری کی قسم کا کام تھا۔ گھوڑی پر سوار‘ خادم کے ساتھ وہ گائوں گائوں دورہ کرتے اور اعداد و شمار بہم پہنچا کر رجسٹر پر لکھتے جاتے۔ پھر رپورٹ بنتی اور ضلع کے ڈی سی کو بھیج دی جاتی۔ یہ طے تھا کہ فلاں گائوں میں فلاں کے گھر ٹھہرنا ہے۔ یہ دورہ ہر ماہ کے دس یا پندرہ دنوں پر محیط ہوتا۔ جب رپورٹ لکھوا رہے ہوتے تو اس میں ایک نام چک امرال کا بھی ہوتا۔ اس وقت یہ گائوں (یا قصبہ) فتح جنگ تحصیل کا حصہ تھا۔ قاضی گل حسین کا تعلق چک امرال سے تھا۔ یوں لگتا تھا کہ دادا جان ہفتے میں کئی خطوط قاضی صاحب کو لکھتے اور اتنی ہی تعداد میں ان خطوں کے جواب بھی ہوتے۔ ان میں تین پیسے میں ملنے والا پوسٹ کارڈ بھی ہوتا اور چھ پیسے (ڈیڑھ آنے) میں آنے والا لفافہ بھی !!بس اتنا معلوم تھا کہ یہ قاضی صاحب کوئی اعلیٰ پائے کے عالم دین ہیں اور دادا جان کے گہرے دوست ! اتنے گہرے کہ آتے اور جاتے خطوط کا تانتا لگا تار بندھا رہتا۔ ان خطوں میں ذاتی معاملات کے علاوہ دینی مسائل کا تذکرہ بھی ہوتا۔1966ء میں جب دادا جان کا انتقال ہوا تو ہو سکتا ہے قاضی صاحب بھی تعزیت کے لئے آئے ہوں مگر یہ ناممکن تھا کہ مہینوں تک آنے والے ہزاروں مہمانوں سے خاندان کے ایک لڑکے کا تعارف کرایا جاتا اور وہ سب کو جان جاتا۔ 

عشرے گزر گئے۔ ایک صاحب خورشید احمد ندیم کے کالموں نے اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کیا۔ تجزیہ‘ بالخصوص مذہبی حوالے سے ایک خاص اپروچ ‘ ایک جدید عقلی
(Rational)
اپروچ ! شاید اسی اپروچ نے ارشاد احمد حقانی صاحب مرحوم کو ان کا مداح بنایا۔ میں حقانی صاحب کے دفتر میں ان کے حضور بیٹھا تھا۔ باتیں ہو رہی تھیں۔ خورشید ندیم کے کالموں کی انہوں نے تعریف کی!(اس تعریف کا علم خورشید ندیم کو اس کالم ہی سے ہو گا!)

پھر ایک دن خورشید ندیم سے ملاقات ہو گئی۔ کب اور کہاں‘ یاد نہیں! وہ میرے حدود اربعہ سے واقف تھے۔ مگر میں ان کے حدود اربعہ سے ناواقف تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ قاضی گل حسین مرحوم کے فرزند ہیں۔ حیرت ہوئی اور مسرت بھی!یوں ظاہری رشتے کے اعتبار سے وہ چچا ہوئے مگر تقویم عجائبات کے کیسے کیسے شوشے چھوڑتی ہے۔ عمر میں اٹھارہ برس چھوٹے!! 

’’سماج ریاست اور مذہب متبادل بیانیہ‘‘ ان کی تازہ تصنیف ہے۔ یہ ان تحریروں کا مجموعہ ہے جو 2016ء اور 2017ء کے درمیان لکھی گئیں اور شائع ہوئیں۔ مذہب کے حوالے سے سماج اور سیاست کا تجزیہ اور سماج اور سیاست کی عینک لگا کر مذہب کی تعبیر۔ یہی خورشید ندیم کا میرے نزدیک اصل میدان بھی ہے۔ کاش وہ خالص سیاسی کالم نہ لکھتے۔ ان کالموں سے اختلاف رہا اور ہے۔ مگر یہ ایک اور بحث ہے جس کا یہ وقت نہیں! 

اس مجموعے میں ان تمام نازک معاملات پر خورشید ندیم نے کھل کر بات کی اور اپنا نکتہ نظر شائستہ اسلوب میں پوری طرح واضح کیا جنہیں عرف عام میں بھڑوں کا چھتہ کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ باڑ کے دوسری طرف جو مدافعین یا دعویدار مورچہ زن ہیں وہ دلیل کم دیتے ہیں اور توپ کا آہنی گولہ زیادہ پھینکتے ہیں۔ مثلاً تکفیر کا جو سلسلہ سید قطب سے چلا اور جماعت اسلامی تک پہنچا اور جماعت کے ارکانِ قضا و قدر جس کا کُھل کر اقرار نہیں کرتے‘ اس کا ذکر خورشید ندیم نے دلائل کے ساتھ کیا اور اپنا مقدمہ یوں ثابت کیا کہ 1995ء میں بے نظیر حکومت کے خلاف جماعت نے تحریک چلائی تو ایک مرکزی رہنما نے دلیل اس طرح دی۔ 


’’پاکستان کی موجودہ حکومت طاغوت ہے۔ الجماعتہ نہیں اور اس کی خیر خواہی اور وفاداری کا التزام طاغوت کا التزام ہے، التزامِ جماعت نہیں‘‘

اور پھر یہ بھی کہ 

’’جو لوگ سیکولر سیاست کے قائل ہوں اور سیاست و حکومت میں قرآن و سنت کی بالادستی کو ذہناً بھی تسلیم نہ کرتے ہوں بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہو کہ سیاست میں دین و مذہب کا کوئی دخل نہیں ہے وہ تو اعتقادی کفر اور فکری کفر کے مرتکب ہیں۔ ان کی اہلیت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘ 

اس موقف کا اعتراف اور اعلان کھل کر صرف سید منور حسن نے کیا اور ڈٹ گئے۔ یہاں تک کہ پاکستانی عساکر کو شہید کہنے سے بھی انکار کیا۔ تاہم جماعت کے میکانزم کو سید صاحب کی یہ جرأت اور عدم مداہنت ہضم نہ ہو سکی! 

٭ فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک پر صدر اردوان کے بے ثبوت الزامات؛ 

٭ تبلیغی جماعت ؛

٭ دیو بند مکتب فکر کا دہشت گردی سے تعلق اور اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی پالیسی 

٭ جنید جمشید ؛ 

٭ ایران اور انقلاب ایران؛ 

٭ روحانیت بمقابلہ شریعت؛ 

٭ ہمارے حکمرانوں کا تصوّرِ مذہب؛ ٭ 

یہ اور ایسے کئی نازک متنازعہ مضامین پر اس کتاب میں ایسی تحریریں شامل ہیں جو غورو فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ سوچ کی نئی راہیں دکھاتی ہیں۔ ذہنوں میں بنے ہوئے بُت‘ ممنوعات
(Taboos) 
توڑتی ہیں۔ خورشید ندیم کے نکتہ ہائے نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ مگر یہ تحریریں جستجو کی طرف لے کر جاتی ہیں جستجو ہی انسانی عقل کی معراج ہے۔ آبا کے نظریات پر بلا چون و چرا عمل مشرکین مکہ کی سنت ہے۔ اہل ایمان کی نہیں!

خورشید ندیم کا تعلق جاوید احمد غامدی کے سکول آف تھاٹ سے ہے۔ وہ غامدی صاحب کے شاگرد بھی رہے۔ غامدی صاحب کی بہت سی آرا سے اتفاق کیا جا سکتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سے اختلاف! اچھا بھلا چلتے چلتے وہ دائیں کان کو بائیں ہاتھ سے پکڑنے میں لگ جاتے ہیں۔ مثلاً وہ جو آیت ہے’’رجالاً اَو رُکبانا‘‘ والی‘(سورۃ بقرہ‘239) جس میں پیادہ یا سواری کی حالت میں نماز پڑھنے کی سہولت عطا کی گئی ہے۔ اس کا تعلق حالت خوف سے ہے۔ مگر غامدی صاحب اس کا اطلاق عام زندگی کی افراتفری پر بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح سورہ الفیل کی جو تشریح اس مکتبِ فکر کے بزرگ‘ فراہی تا غامدی‘ فرماتے ہیں‘ اسے دل مانتا ہے نہ دماغ۔ ان کی جماعت کے معروف کارکن برادرم ڈاکٹر ذوالفقار سڈنی سے میلبورن آئے تو غریب خانے پر بھی تشریف لائے۔ ان کی خواہش تھی کہ سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ لوں۔ مگر مجھ جیسے آزاد منش طالب علم کی کسی ایک مذہبی یا سیاسی گروہ سے مکمل وابستگی ‘ اپنے آپ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے پ؎

ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں 
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

تاہم غامدی صاحب کے علم و فضل اور نوجوانوں کو مذہب کے نزدیک لانے کے سلسلے میں ان کی کاوشوں سے انکار کرنا‘ ہرگز روا نہ ہو گا۔ یہاں کہنا یہ ہے کہ اگر وہ اپنے جریدے اشراق کی ادارت خورشید ندیم کے سپرد کر دیں تو ایک تو جریدے کی سنجیدہ حلقوں میں مقبولیت میں کئی گناہ اضافہ ہو جائے گا‘ دوسرے خورشید صاحب خالص سیاسی کالموں کے گناہ بے لذت سے بچ نکلیں گے۔ 

یوں بھی خورشید ندیم‘ ڈاکٹر خالد ظہیر جیسے خود فریفتہ
(SELF-CONCEITED)
سکالروں کی نسبت زیادہ متوازن زیادہ خوش فکر اور زیادہ خوش بیان ہیں۔

    
۔


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com