Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, February 22, 2011

صدر اوباما شاہ پور میں

چار سال سے محراب خان روزگار کی تلاش میں تھا۔ لیکن چترال میں روزگار کہاں! جہاں زراعت ہے نہ تجارت! سال کا بڑا حصہ برف کی حکومت ہوتی ہے اور برف نہ بھی ہو تو کیا ہے؟ کارخانے نہ کھیت، یونیورسٹیاں نہ ادارے، ایک بار تو اس نے ادھار مانگا اور گرمیوں میں پشاور پہنچ گیا، لیکن نوکری کیلئے جہاں جاتا، آدھا درجن مہاجر پہلے موجود ہوتے، جوں توں کرتا، اٹک کے اس طرف آیا، اسلام آباد کی سبزی منڈی میں سر پر ٹوکرا رکھ کر کام کرتا رہا، لیکن ایک تو بڑھاپا تھا، دوسرے، جو چند سکے ملتے تھے اتنے نہ تھے کہ وہ چترال بھیج سکتا۔ بالآخر اس نے واپس چترال جانے کا فیصلہ کیا۔ بغیر کرائے کے اور بغیر کھائے پیئے وہ پنڈی سے چترال کس طرح پہنچا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے اور کبھی اہل وطن کو سنائی جائیگی لیکن آج نہیں!

چار سال کے بعد گزشتہ ماہ محراب خان کو اس کے ایک دور کے رشتہ دار نے راولپنڈی سے اطلاع دی کہ تمہارے لئے نوکری کا بندوبست ہو گیا ہے۔ فوراً پہنچو، چھ ہزار روپے ماہانہ، ساتھ رہائش اور تین وقت کا کھانا۔ محراب خان خوشی سے پاگل ہو رہا ہے۔ وہ کم از کم چار ساڑھے چار ہزار روپے ہر ماہ بال بچوں کو بھیج سکے گا لیکن یہ وہ بات نہیں جو یہ کالم نگار اپنے پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا ہے۔

المیہ تو اسکے بعد شروع ہوتا ہے۔ محراب خان کے راولپنڈی پہنچنے کی کوئی صورت نہیں یہ وہ موسم ہے جس میں جہاز کا چترال سے آنا ممکن نہیں۔ زمینی طور پر چترال ملک سے مکمل طور پر کٹا ہوا ہے، لواری کے درّے کا ایک ایک انچ، کئی کئی انچ برف سے ڈھکا پڑا ہے۔ کوئی کار، بس ویگن، موٹر سائیکل نہیں کام آ سکتی۔ ہاں اگر کوئی پیدل آنے کی کوشش کرے تو اُس کی لاش برف پگھلنے تک محفوظ رہ سکتی ہے۔

یہ ہے ایک جھلک اس ملک کی جس کے حکمران اپنے لئے محلات نہیں شہر بسا رہے ہیں، جس کے عوام امریکہ اور یورپ کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں، جس کے علماء کرام لوگوں کو شاہراہوں پر لا کر بھرپور طاقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور جس کے شعلہ بیان مقرر، الیکٹرانک میڈیا پر آکر، نوجوانوں کو پوری دنیا فتح کرنے کا سبق دے رہے ہیں اور نوجوان ہیں کہ خطابت کے زور سے مغلوب ہو کر اپنے سینوں میں موجزن سمندر کو روک نہیں پا رہے۔ زمینی حقائق دوسری طرف یہ ہیں کہ باسٹھ برس ہو چلے ہیں ملک کا ایک انتہائی اہم حصہ پورے چھ ماہ اپنے ہی ملک سے کٹا رہتا ہے۔ پہلے لوگ چترال آنے جانے کے لئے جاڑوں میں افغانستان کے صوبے نورستان کو استعمال کرتے تھے لیکن اب وہاں کے حالات بھی اجازت نہیں دے رہے۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم آج تک وہاں کوئی سرنگ، کوئی راستہ نہ بنا سکے؟ اس سوال کا جواب بہت واضح ہے، اس لئے کہ بدبخت برطانوی حکومت قیام پاکستان سے پہلے یہ کام نہ کر سکی۔ برطانوی حکومت کے کئی اور جرائم ایسے ہیں جو ناقابل معافی ہیں۔ یہ کافر انگریز حویلیاں تک ریلوے لائن بچھا گئے اور اس سے آگے کچھ نہ کر سکے۔ ہم تو بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ ہم ریلوے کو چین کی سرحد تک لے جائینگے لیکن اس کا کیا کِیا جائے کہ ریلوے سروس پورے ملک ہی سے ختم کی جا رہی ہے۔ اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں۔ آخر انگریزوں کو کیا موت پڑ رہی تھی کہ حویلیاں سے آگے وہ ریل کو نہ لے جا سکے؟

اسی طرح وہ ریلوے کو راولپنڈی سے فتح جنگ تو لے گئے لیکن پنڈی گھیپ اور تلہ گنگ کو بھول گئے اور ہم آج تک افسوس کر رہے ہیں کہ کاش لگے ہاتھوں وہ یہ کام بھی کر جاتے! آج کوئٹہ سے اسلام آباد پہنچنے میں چالیس گھنٹے لگتے ہیں خواہ ٹرین سے آئیں یا بس سے، یہ بھی انگریزوں کی غلطی ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ اس سلسلے میں بھی وہی کچھ کر جاتے۔ انکی یہی بدمعاشی کیا کم ہے کہ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی بنا گئے اور پشاور میں ایڈورڈ کالج لیکن قبائلی علاقوں میں کوئی تعلیمی ادارہ قائم نہ کیا۔ آج اگر وزیرستان میں، سوات میں، خیبر ایجنسی میں، مہمندوں کے علاقے میں اور دوسرے قبائلی علاقوں میں کالج اور یونیورسٹیاں ہوتے تو نوجوان خودکش دھماکے کرتے نہ خودکش جیکٹس بناتے اور نہ انہیں کوئی ورغلا سکتا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ہالینڈ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف میں برطانیہ کے خلاف مقدمہ کر دے تاکہ ان بھیانک جرائم کی اسے سزا مل سکے لیکن کس کس جرم پر مقدمہ چلایا جائے۔

برطانیہ پاکستان سے دفعہ ہوتے وقت بلوچستان کا سرداری نظام بھی نہ ختم کر سکا۔ آج اگر کوئی سردار اعلان کر رہا ہے کہ مشرف کا سر قلم کرنیوالے کو وہ ایک ارب روپے کی زمین انعام کے طور پر دے گا تو یہ اس کا حق ہے۔ جنرل مشرف کو اکبر بگٹی کے قتل کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اکبر بگٹی نے پوری زندگی پاکستان کیخلاف کوئی سرگرمی نہیں کی اور ہمیشہ پاکستان کیساتھ وفاداری نبھائی، یہی اکبر بگٹی تھا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے حکم اور اصرار کے باوجود چوہدری ظہور الٰہی کو نقصان پہنچانے سے انکار کر دیا۔ یہ سب درست ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ایک ارب روپے کی زمین کہاں سے آئی اور جس کے پاس صرف دوسروں کو دینے کیلئے اتنا کچھ ہے وہ ٹیکس کتنا ادا کر رہا ہے؟

بات انگریزی حکومت کے جرائم کی ہو رہی تھی۔ اسی حکومت کا خبثِ باطن دیکھئے کہ اس نے قیام پاکستان سے پہلے ہم پر کیسے کیسے ہیرو مسلط کئے! اس استعماری حکومت کے نظام تعلیم نے ہم پر محمد علی جناح، اقبال، محمد علی جوہر، ظفر علی خان، حسرت موہانی، عبدالرب نشتر، راجہ صاحب محمود آباد، لیاقت علی خان، چوہدری رحمت علی، حسین شہید سہروردی اور مولوی تمیزالدین خان جیسے رہنما مسلط کئے۔

وہ تو خدا کا شکر ہے کہ آج نظام تعلیم ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے اور ہم راحت فتح علی خان، محمد آصف اور محمد عامر جیسے ہیرو پیدا کر رہے ہیں جو دنیا میں ہماری دیانت داری اور قانون پسندی کی دھاک بٹھا رہے ہیں، اس فہرست میں تازہ ترین اضافہ ان مولانا صاحب کا ہے جن کے مریدوں نے ان کے فارن کرنسی اکاؤنٹ ڈالروں سے لبالب بھر دیے ہیں!

میں یہاں تک لکھ پایا تھا کہ ایک دوست نے ٹیلی فون پر بتایا کہ اس نے صدر اوباما کو اسلام آباد سے پیدل مری جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے اپنے دوست کو کہا کہ تم پاگل تو نہیں ہو گئے لیکن اس نے اصرار کیا کہ میں خود آ کر دیکھوں۔ میں ایک سو تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتا پہنچا تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ دراز قد، سمارٹ صدر اوباما اور انکی دلکش بیگم کنونشن سنٹر سے ذرا آگے تیز تیز چلی جا رہی تھیں اس قدر تیز کہ بس لگتا تھا جاگنگ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی آپس میں ہنس ہنس کر باتیں بھی کر رہے تھے۔ میں اور میرے دوست نے ان کا تعاقب شروع کر دیا۔ ہمیں یقین تھا کہ وہ مری جائیں گے لیکن ہم اس وقت حیران ہوئے جب وہ شاہدرہ اور مَل پور کو کراس کر کے دائیں طرف سِملی ڈیم روڈ پر مُڑگئے۔ آگے ایک زیر تعمیر پُل تھا اسے عبور کر کے وہ بائیں طرف مُڑ گئے۔ اب یہاں سڑک ناپید تھی۔ میں نے اور میرے دوست نے دیکھا کہ صدر اوباما نے اپنی بیگم کو فرطِ جذبات میں گلے سے لگا لیا اور پھر دونوں تصویریں کھینچنے لگے۔ وہ اتنے محو تھے کہ ہمارے نزدیک آنے کا انہیں احساس تک نہ ہوا۔

امریکی صدر، خاتون اول سے کہہ رہے تھے:

’’تم نے دیکھا میں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ تمہیں پتھر کے زمانے کی بستی دکھاؤں گا، شاہ پور کی یہ بستی وہی بستی ہے، یہاں صرف یہ نہیں کہ سڑکیں نہیں، لوگ راہ چلتے گھٹنوں تک زیر زمین چلے جاتے ہیں اور کاریں چلتے چلتے پُرزوں کی شکل میں بکھر جاتی ہیں۔ سی ڈی اے کے چیئرمین مظہر عنایت علی اور اسلام آباد کے چیف کمشنر شاہ پور کے موجودہ ہیرو اور محسن ہیں، ورنہ شاہ پور نہ ہوتا تو میں تمہیں پتھر کے زمانے میں لانے کا وعدے کیسے پورا کرتا؟‘‘

Tuesday, February 15, 2011

مکھی کی تھوک

بزرگ فیض شناس اشفاق سلیم مرزا کا خیال تھا کہ فیض ساری زندگی کی رجائیت پسندی کے بعد عمر کے آخری حصے میں یاس کا شکار ہو گئے تھے۔ اس پر یہ فقیر بات کرنا چاہتا تھا لیکن خورشید ندیم نے اعلان کیا کہ وقت ختم ہو گیا ہے۔ ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پروگرام کرنیوالے کو ایک ایک لحظے کا حساب دینا پڑتا ہے۔

فیض صاحب اگر زندگی بھر رجائیت پسند رہے تو یہ ان کا اپنا قصور تھا۔ لیکن اصل مسئلہ فیض صاحب کا نہیں ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کب پرامید تھے اور کب مایوسی انہیں آنکھ مارتی تھی اصل مسئلہ اور ہے …؎

نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے

مگر تم نے میری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے

سوال یہ ہے کہ کیا برصغیر میں انقلاب کی روایت موجود ہے؟ جب یہاں ایسی کوئی روایت ہی موجود نہیں تو رجائیت پسندی کی کیا بنیاد ہے؟ کچھ نہیں! کچھ بھی نہیں! مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ برما کے ساحلوں سے لے کر خراسان کے سلسلہ ہائے کوہ تک۔ بادشاہ اپنے پسندیدہ کفش برداروں کو سونے چاندی میں تولتے تھے۔ اس وقت پوری مغل سلطنت کی دولت کا ایک چوتھائی حصہ چھ سو افراد کی ملکیت میں تھا! چھ سو سے بھی کم! اکثریت لنگوٹی میں ملبوس تھی اور جھونپڑوں میں رہائش پذیر۔ کون سا انقلاب برپا ہوا؟ اس سے بھی پیچھے چلے جائیے۔ ابن بطوطہ نے تغلقوں کے عہد میں ملتان سے دلی جاتے ہوئے زندہ انسانوں کی بادشاہ کے حکم سے کھالیں کھنچتی دیکھیں! انقلاب کا دور دور تک نشان نہیں تھا!

خوش فہمی کا کوئی علاج نہیں جو ’’توحید پرست‘‘ نجومیوں پر پیشگوئیوں اور ایمان رکھتے ہیں ان کا علاج حکیم جالینوس کے مطب میں بھی نہیں اور نہ ہی یہ قنوطیت ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ سے سبق سیکھنا قنوطیت نہیں کہلاتا۔

آخر آپ مستقبل کی
Projection
کیسے کریں گے؟ ستارے دیکھ کر؟ زائچے نکال کر؟ یا ہاتھ کی لکیروں سے؟ نہیں! بلکہ سائنس کا بنیادی اصول ہے۔ آپ ماضی کے حقائق کو نمونہ
(Sample)
 کے طور پر لیتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اندازہ لگاتے ہیں۔

معروف امریکی تاریخ دان باربرا ٹک مین تو عقل مندی (وِزڈم) کی تعریف ہی یہی کرتی ہے کہ تین چیزوں کی مدد سے فیصلہ کرنا۔ اول معلوم اعداد و شمار۔ دوم ماضی اور حال کو نمونہ سمجھ کر آنیوالے دنوں کا اندازہ اور سوم کامن سنس! آپ ہمارے قبائلی علاقوں کی مثال لے لیجئے۔ اس کالم نگار نے باربار کہا ہے اور پھر کہہ رہا ہے کہ باسٹھ سالوں میں پولیٹیکل ایجنٹوں نے جن ملکوں اور خانوں کو حکومت کی طرف سے دولت کے انبار دئیے ہیں قوم کو ان کا حساب دیا جائے! عام قبائلی کو کیا ملا؟ بندوق! اور اس کے بچوں کو غلیل! تف ہے ان پر جو ہمارے قبائلی بچوں کو بندوق اور غلیل کے ساتھ ثقافت، کے نام پر دکھا رہے ہیں۔ آخر ان کے ہاتھ میں کتاب اور لیپ ٹاپ کیوں نہیں دیا گیا؟

اخبارات میں شہ سرخیوں کیساتھ ان ’’عمائدین‘‘ کے نام شائع ہو رہے ہیں جنہوں نے پندرہ پندرہ کروڑ روپے میں سینٹ کی نشستیں خریدیں اور ماضی میں پجارو کے بدلے ووٹ فروخت کئے۔ انقلاب آنا ہوتا تو ان لوگوں کو اب تک پھانسی دی جا چکی ہوتی جو قبائلی علاقوں میں ایک یونیورسٹی بھی نہ بنا سکے! آخر کالج اور یونیورسٹیاں لاہور کراچی اور پشاور ہی کیوں بنتی رہیں؟

کیا وزیروں، محسودوں، آفریدیوں، شنواریوں اور مہمندوں کے بیٹے اور بیٹیاں سوتیلی تھیں جن کیلئے آج تک … ہاں … آج تک کوئی یونیورسٹی نہ بنائی گئی؟ کیا ملک انہیں تحفے میں بیت اللہ محسود، فضل اللہ اور مسلم خان کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا تھا؟

آٹھ برس.- چھیانوے مہینے -تقریباً تین ہزار دن۔ یہ عرصہ تھوڑا نہیں۔ پرویز مشرف نے ملک کی خود مختاری فروخت کر ڈالی اور دس حسنی مبارکوں سے زیادہ آمر بنا رہا۔ کون سا انقلاب آیا؟ درست ہے کہ چیف جسٹس ڈٹ گیا اور وکیل اکٹھے ہوئے لیکن انقلاب وہ ہوتا ہے جہاں نظام بدلے اور انصاف کا دور دورہ ہو۔ یہاں تو کالے کوٹوں والے خود ہی اینٹیں مار مار کر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں اور عدالتوں میں ان پڑھوں کی طرح مرنے مارنے کے ہنگامے کر رہے ہیں صرف اس لئے کہ مجرم وکیل ہے اسے کوئی سزا نہ دی جائے! انقلاب ادھر کا رخ نہیں کرتے جہاں عورتیں صحرائوں میں زندہ دفن کر دی جائیں اور پنچایتیں قتل کی سزائیں دیتی پھریں۔

خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بننے والے عوام کیا انقلاب لائیں گے۔ یہ عوام تو جمشید دستیوں کو ووٹ دے کر ہار پہناتے ہیں۔ عدلیہ نے پنجاب کے دوبارہ ملازمتوں پر فائز ہونے والے آٹھ افسر نکالے تو عوام ڈھول بجا رہے ہیں انہیں یہی نہیں معلوم کہ پنجاب پبلک سروس کمشن ایک سیاسی خانوادے کی ذاتی جاگیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہر وہ افسر جس نے تیس سالہ ملازمت میں خانوادے کی نوکری کی وہاں بٹھا دیا گیا ہے۔

سیاسی خانوادے تو ایک طرف مذہبی خانوادوں کی گرفت اور بھی زیادہ مضبوط ہے۔ لوگ انسانوں کو قسمتوں کا مالک سمجھتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد روحانیت کا لبادہ اوڑھ کر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ کروڑوں عورتیں ہر روز مزاروں کی مٹی پھانکتی ہیں اور ملنگوں سے اولاد کے تحفے لیتی ہیں۔ جو منع کرے اسے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ غضب خدا کا۔ مسجدیں وراثت میں مل رہی ہیں۔ اللہ کے گھر خاندانوں کے قبضے میں ہیں۔ باپ مرتا ہے تو بیٹا مسجد کا مالک بن جاتا ہے۔ پھر اس کا بیٹا اور پھر اس کا بیٹا۔ نمازیوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ کن کی اقتدا میں نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک مولانا سے ایف آئی اے نے پوچھا کہ ان کے اکائونٹ میں دولت کہاں سے آئی جواب ملا مدرسہ چلا رہے ہیں! انا للہ وانا الیہ راجعون۔

انقلاب آ سکتا ہے۔ انقلاب نے قسم نہیں اٹھا رکھی کہ وہ کبھی نہیں آئے گا۔ لیکن اس کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔ کم از کم چار پانچ کام۔ حضور! زرعی اصلاحات لائیے وہی جو بھارت نے تقسیم کے چار سال بعد ہی نافذ کر دی تھیں۔ وہاں آج سرداری ہے نہ جاگیرداری۔ ریاستوں کے نواب تاریخ کی دھول میں تحلیل ہو گئے۔

ہمارے ایک ضلع جتنا بھارتی پنجاب پورے بھارت کو گندم اور چاول دے رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کرائیے تاکہ متوسط طبقہ پالیسی سازی کی سطح پر آ سکے اور ان قائدین سے نجات ملے جو جمع کرنے اور گننے کے کوڑھ میں مبتلا ہیں۔ آخر ایسی جمہوریتیں بھی تو موجود ہیں جہاں لوگ شخصیتوں کو نہیں پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں صرف اس بنیاد پر کہ کون سی پارٹی کا منشور سب سے اچھا ہے۔ پھر الیکشن کمشن پارٹی کو بتاتا ہے کہ تمہاری اتنی نشستیں ہیں۔ نمائندے بھیجو، اس کے بعد پارٹی کے اندر مقابلہ ہوتا ہے اور جیتنے والے سیاستدان اسمبلی میں جا پہنچتے ہیں۔ کوئی قتل نہیں ہوتا کوئی ہارنے والا دھاندلی کا شور نہیں مچاتا نہ ہی نئی جماعت بنانے کا اعلان کرتا ہے۔ آپ سیاسی برداشت کی تازہ ترین مثال دیکھئے۔ ہیلری کلنٹن اوباما کے مقابلے میں صدارتی امیدوار تھی۔ ہار گئی۔ جب اوبامہ نے اسے وزارت خارجہ کے قلم دان کی پیشکش کی تو قبول کرتے ہوئے اس کی عزت پر کوئی حرف نہ آیا۔ اس برداشت اور وسیع القلبی کی اصل وجہ یہ ہے کہ پارٹیاں خاندانوں کی ملکیت نہیں۔

احتساب کیجئے، ان کا بھی جو مقدس گائے کا درجہ رکھتے ہیں اور دوسروں کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔ انکم ٹیکس نہ دینے والے سے ایک ایک پائی وصول کیجئے۔ چینی اور آٹے کی قلت پیدا کرنے والے معززین کو جلتے ہوئے تنوروں میں پھینکئے یہ سب کچھ کیجئے اور پھر دیکھئے انقلاب آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے یا نہیں۔

لیکن یہ سب کام کون کرے گا؟ یہ کام ایسے لیڈر کرتے ہیں جن کی نظر میں مال و متاع کی وقعت نہیں ہوتی۔ جن کی زندگی کا مقصد اپنی جاگیروں کو وسعت دینا اور محلات میں اضافہ کرنا ہو۔ وہ ایسے اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ تم کس دنیا پر فخر کرتے ہو؟ جس کا بہترین مشروب مکھی کی تھوک (شہد) ہے اور جس کا بہترین لباس کیڑے کا تھوک (ریشم) ہے! جس کے حلال میں حساب ہے اور جس کے حرام میں عذاب ہے! وہ کیا انقلاب لائیں گے جو مکھی اور کیڑے کی تھوک پر مکھیوں اور کیڑوں کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں!

Saturday, February 12, 2011

Australia : Too decadent for Muslims ?

I am hurt. 

When they talk of banning burqa, of course as a Muslim I am hurt.

That wearing burqa has never been irremissible in Islam, is known to all and sundry. It has always been a controversial issue. A considerable number of Islamic jurists do not support it. Millions of Muslim women do not practice it. Millions of Muslim women, cutting crops in agricultural fields, picking cotton in South Pakistan, handling herds in Central Asian pasturelands, teaching in universities, working in banks and elsewhere do not wear burqa nor hijab. Billions of Muslim women, while performing pilgrimage in Holy Mecca, have never, and will never, cover their faces. Yet, when they talk of banning burqa, as a Muslim I am hurt.


I hear that a rally is being organized to protest against the abortive bill, which was moved to ban burqa. The sense of allegiance sends me there. I hear speeches. The speakers, one after another, come and slate the flawed western secular values. There are two options for Muslims, I am told. Either they should espouse the Western secular way of life, or should go for Islamic environments. It makes impression on me. I melt away. I am swayed.

I recall the opinion of fellow Somalian Muslims who, according to the recorded conversation, were planning to attack the Holsworthy army barracks in Sydney: “ Australia is too decadent for Muslims.”

Why should I live here? I decide to pack up and leave. I must go to a land where flawed Western secular values do not plague my life. I must rescue my kids. I must take them to an Islamic sanctuary where they are away, at safe distance, from the decadent Australia.

My natural and logical choice is Saudi Arabia, the affluent oil kingdom and the spiritual center of Islam. It is our holy land, where the two most sacred cities of Muslims are located. I plan to migrate to Saudi Arabia. My kids will bask in a life full of real Islamic values and will perform pilgrimage every year.

However when I make inquiries, I am told that nobody is allowed to migrate there. Not even the most devoted Muslims! So is the case with other oil emirates in the region. Millions of Muslims, since the discovery of oil in the Middle East, worked for decades in these states but ultimately had to migrate to Canada, US, Australia, and Europe. They were not allowed citizenship. Even from the viewpoint of temporary living, there are no educational facilities. My daughter-in -law, who drives in Australia, tells me that no woman is allowed to drive in Saudi Arabia. It was in 1990 when late Sheikh Abdullah bin Baaz, the religious authority in the country, issued Islamic decree (fatwa) against car driving by females. In the same year 47 ladies demonstrated car driving in Riyadh. They were thrown out of their jobs and were, along with their families, barred from leaving the country.

My kids tell me something more. Every non-local in Saudi Arabia, UAE, Qatar, and other neighboring states has to have a “guarantor” who must be a local. It is the guarantor (Kafeel) who actually owns the business. Documents are held in his custody. Barring a small group of foreigners who are highly qualified and sponsored by major companies, the rest of the non-locals are virtually hostage to the kafeel (sponsorship) system. Nothing belongs to you except your passport, which you have to carry wherever you go. “When employers have near-total control over migrants’ ability to change jobs, and sometimes to leave the country, workers can get trapped in exploitative situations in which they are forced to work without wages, get beaten or face other abuse”, says a Human Rights Watch (HRW) report.
 
Now I think of going to Pakistan. Since it is the only nuclear Muslim power, it must be developed and be able to offer a living standard comparable with that of other nuclear countries. I make inquiries. I find out that Pakistan is one of the most corrupt countries where political elite is notoriously known for stashing the ill-gotten wealth away in foreign lands. There are horrible power outages in summer when the temperature touches 50 degrees. There are long queues of citizens to buy sugar and wheat flour, which has acute shortage and the members of mafia responsible for this are reported to be sitting in the Cabinet and the Parliament. Petrol prices are raised on monthly basis and CNG is rationed. Teaching staff of the universities of the country protest on the Finance Minister’s refusal to provide the required funds for education. “I will prefer to produce fifty welders to one surgeon”, he tells them in a meeting. All this is besides the insecurity prevailing in the country where kidnapping for ransom is virtually an industry and private armies are thriving.
 
Why millions of Muslims have migrated to Australia, US, Canada, and European countries - all non Muslim- with “flawed secular values”? They have flocked to these lands in search of better living, secure future for their next generations and, above all, religious freedom. I try desperately to find a Muslim country, which may provide this to my family and me. I fail miserably. No Muslim country, from Morocco to Indonesia, can bring home the beacon. Hence 365,000 Muslims in Australia; 281,000 in Belgium; 657,000 in Canada; 3,554,000 in France; 4,026,000 in Germany; 946,000 in Netherlands; 650,000 in Spain; 1,647,000 in UK; and 2,454,000 in USA. Millions are settled in Italy, Greece, Scandinavia, Switzerland, Austria, Japan and New Zealand.

Many more are struggling to follow.

Will my kids get the education of the same standard in a Muslim country, which they are enjoying in Australia? There is not a single university in a Muslim country in the list of the top 500 universities of the world. What is the contribution of Muslims in having discovered and invented what the world is enjoying today? Not a single invention! Whether it is aspirin, penicillin, light bulb, airplane, refrigerator, telephone, Internet, or any other invention, excogitation or discovery, has been contributed by non-Muslims. It is funny that those who urge their fellow Muslims to boycott Coca Cola and Nike products continue to benefit from mobile phones, cars, airplanes, and medicines invented and produced by “infidels”.
 
Baroness Saeeda Warsi, the chair person of British Conservative Party, while addressing a welcoming crowd in her ancestral village in Pakistan in July 2010, told her admirers that Britain followed Islamic principles and Pakistan should also do the same. She said that equal opportunities for progress were available to everyone in the UK, minorities were enjoying equal rights and honor of women was safe. “Everybody in Pakistan wanted to go abroad but the progress and prosperity attained by developed nations can also be achieved here if the golden principles of Islam like honesty, equality, justice, tolerance, and love for mankind were adopted.” Saeeda Warsi, daughter of an ordinary immigrant, a factory worker, reaches the top slot of chairperson of one of the two major political parties of the UK. She could not even think of attaining this position in a Muslim country. Australia is too decadent for Muslims! Those who are telling this to Australian Muslims, I wish, suggest at least one Muslim country, which is a better place to live!


(Muhammad Izhar ul Haq is a freelance writer who lives in Islamabad and Melbourne. http://www.izharulhaq.net/)
-------------------------------------------------
Published in " Pakistan Link " USA ,12 Feb 2011


Tuesday, February 08, 2011

غیرت اور موسمی پرندہ

وہ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہوئی تھی۔ بے پناہ درد سے اس کا منہ نیلا اور پھر پیلا ہو رہا تھا۔ پورے بدن پر کپکپی طاری تھی ارد گرد گاڑیوں کا سمندر تھا۔ کوئی گاڑی حرکت نہیں کر رہی تھی۔ باپ نے بے بسی سے اسے دیکھا۔ پھر رکی ہوئی گاڑیوں کے بے کنار سمندر کو دیکھا۔ ماں اسکی ہتھیلیاں مل رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آخری ہچکی لی۔ سائرن کی آوازیں آئیں۔ کہیں دور سے تیز رفتار گاڑیوں کا طوفانی قافلہ گزر رہا تھا۔

خدا خدا کر کے ٹریفک کا ٹھہرا ہوا دریا رواں ہوتا ہے۔ ٹیکسی جناح ہسپتال پہنچتی ہے۔ ’’افسوس! آپ کچھ دیر پہلے پہنچتے تو جان بچ سکتی تھی‘‘ ڈاکٹر مظلوم اور مجبور باپ کو بتاتے ہیں۔
یہ دلخراش واقعہ 29 مارچ2006ء کو پیش آیا۔ ظل ہما کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی ہونہار طالبہ تھی۔ اس دن کراچی شہر میں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف آئے ہوئے تھے۔ انکی جان کی حفاظت کیلئے کراچی کے راستے بند کر دیئے گئے تھے۔ جو گاڑی جہاں تھی وہیں روک دی گئی تھی۔ ظل ہما کے پیٹ میں درد اٹھا اور اسکے ماں باپ اسے ٹیکسی میں لٹا کر ہسپتال کی طرف بھاگے لیکن راستے تمام بند تھے۔ وہ راستے میں ہی دم توڑ گئی۔
اس سے پہلے سات جنوری کے دن پانچ افراد جنہیں دل کا دورہ پڑا تھا اور ہسپتال لے جائے جا رہے تھے، راستے میں موت کے گھاٹ اتر گئے کیوں کہ وی آئی پی کی حفاظت کیلئے ٹریفک بند تھی۔
بارہ ستمبر2010ء کو چلڈرن ہسپتال لاہور کے دروازے پر گوجرانوالہ کے فاروق کابچہ دنیا سے چل بسا۔ فاروق کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں وزیر اعلیٰ آئے ہوئے تھے، اسے ہسپتال کے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا ۔
اور یہ تو گذشتہ ہفتے کا واقعہ ہے کہ پنجاب کے گورنر سیالکوٹ جارہے تھے۔ انکی گاڑیوں کے قافلے کی زد میں ایک ساٹھ سالہ بوڑھی عورت آ گئی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ دو ہفتے پیشتر سرگودھا میں ایک وزیر کی گاڑی نے ایک شخص کو ٹکر ماری۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ ان سارے واقعات اور ان جیسے بے شمار دوسرے واقعات کے نتیجے میں جو پاکستانی اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ اسکا کوئی حساب کتاب ہوا؟ کیا جن لوگوں کی وجہ سے ٹریفک روکی گئی، ان پر کوئی مقدمہ چلا؟ کیا جن افسروں نے شہریوں پر یہ عذاب مسلط کیا، انہیں سزا ملی؟ کیا کوئی ایف آئی آر درج ہوئی؟ اگر پاکستان کے ان شہریوں کی جان کی قدر و قیمت کچھ نہیں تھی تو مجھے بتائیے کہ امریکی یا کوئی بھی غیر ملکی کسی پاکستانی کی زندگی کو قیمتی کیوں سمجھے؟
آٹھ سال پرویز مشر ف حکمران رہا۔ وہ جب بھی کراچی گیا، ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں۔ ایم کیو ایم سمیت کسی نے ہلکا سا احتجاج تک نہ کیا۔ او پر کی سطور میں کراچی یونیورسٹی کی جس طالبہ کا ذکر کیا گیا ہے، اسکے قتل پر تو گورنر اور ناظم تک جو ’’مڈل کلاس‘‘ پارٹی کے رہنما تھا، تعزیت کیلئے مظلوم مقتولہ کے گھر نہیں گئے۔ وزیراعظم جب بھی لاہور تشریف لے جاتے ہیں ٹریفک گھنٹوں بند رہتی ہے، یاسر عرفات لاہور آئے تو ٹریفک روک دی گئی اور پہروں رکی رہی، قصور کی ایک عورت نے فورٹریس سٹیڈیم کے سامنے سوزوکی ڈبے میں بچے کو جنم دیا اور اس وقت کی پنجاب حکومت کیخلاف ایف آئی آر کٹوانے دنیا سے رخصت ہو کر خدا کے حضور پہنچ گئی۔ ہمارے ملک میں انسانی جان کی اتنی بھی حرمت نہیں جتنی ایک مکھی یا ایک کاکروچ کی ہوتی ہے۔ اسکے باوجود ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکی، بھارتی اور اسرائیلی ہمارے شہریوں کی جانوں کو قیمتی گردانیں، ہمارے قوانین کا احترام کریں اور وہی کام جو پاکستانی دن میں کئی بار کرتے ہیں اور ان کا بال کوئی نہیں بیکا کر سکتا، اگر کوئی غیر ملکی کرے تو اسے چوک پر پھانسی دے دی جائے!
نہیں! ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا دنیا میں ہوا ہے نہ کبھی ہو گا۔ دنیا صرف ان لوگوں کا احترام کرتی ہے جن کا انکے اپنے ملک میں احترام کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی صرف اس ملک میں قانون کی پابندی کرتے ہیں جس ملک کا حکمران طبقہ قانون کی پابندی کرتا ہے ‘ جس ملک میں پورا پورا دن مریض ہسپتال نہ پہنچ سکیں، بچے سکولوں سے گھروں میں واپس نہ آ سکیں‘ جس ملک میں عام شہری گاجر مولی کی طرح کٹتے ہوں اور اسمبلی کے ارکان کیلئے محفوظ سرنگیں بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہوں، اس ملک کے باشندوں کو قتل کرنے پر کسی ڈیوس ریمنڈ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ غیرت ایک ایسا مادہ ہے جو یا تو موجود ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ غیرت موسمی پرندہ نہیں جو ایک موسم میں حاضر ہو جائے اور دوسرے موسم میں اڑ کر دور چلا جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ قاتل پاکستانی حکمران خود ہوں تو غیرت سو جائے اور قاتل غیر ملکی ہوں تو غیرت بیدار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اخباری اطلاعات کیمطابق گوری چمڑی والے قاتل کیلئے کھانا فائیو سٹار ہوٹل سے آتا ہے، وہ پولیس جو اپنے ہم وطنوں کو تفتیش کے دوران ہلاک کر دیتی ہے، اسے ’’سر‘‘ کہہ کر خطاب کرتی ہے اور ابھی تک ایک رمق اس سے نہیں اگلوا سکی!
کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، مسئلہ واضح ہے اور آسان۔ اسے سمجھنے کیلئے فلسفے کی ڈگری درکار ہے نہ بین الاقوامی تعلقات کی ، کوئی پی ایچ ڈی ہے تو وہ بھی اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے اور کوئی ان پڑھ ہے تو وہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ جس دن پاکستانیوں کے پاکستانی قاتل پکڑ کر لٹکائے جائینگے۔ جس دن سات سات سالہ بچیوں پر کتے چھوڑنے والوں کو پکڑا جائیگا، جس دن’’عوامی‘‘ نمائندے قانون کے دائرے کے اندر داخل کئے جائیں گے اور جس دن ہر پاکستانی کی جان اتنی ہی قیمتی ہو گی جتنی صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی، اس دن کسی ڈیوس ریمنڈ کی ہمت نہیں ہو گی کہ کسی پاکستانی کو گولی مارے اور پھر گاڑی سے اتر کر اسکی تصویریں بنائے۔ اور اگر ایسا ہوا بھی تو اسے پھانسی کے پھندے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی۔


Tuesday, February 01, 2011

کوئی ان کو بتائے

کوئی زین العابدین بن علی سے، حسنی مبارک سے، بشار الاسد سے، مراکش اور اردن کے بادشاہوں سے کہے کہ سادہ لوح حکمرانو! تم میں ذرا بھی عقل ہوتی تو آج تمہاری کشتیاں منجدھار میں نہ ہوتیں، تمہیں جان کے لالے نہ پڑے ہوتے اور تمہارے شہروں میں باغیوں کے جلوس نہ نکل رہے ہوتے۔

 افسوس! تم طفلان مکتب نکلے۔ تم ’’سیاست‘‘ کی ابجد سے بھی نابلد ہو! ذہانت تمہارے دماغوں میں نہیں، ٹخنوں میں ہے تم میں اتنی بھی دور اندیشی نہیں جتنی پاکستانی سیاست دانوں کے پالتو جانوروں میں ہے۔ اے مشرق وسطیٰ کے تیرہ بخت حکمرانو! کاش تم پاکستان کے مقتدر طبقات کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کرتے اور سیکھتے کہ اقتدار کو دوام کس طرح بخشتے ہیں، بھوک سے بلکتی ’رعایا‘ کو مطمئن کس طرح کرتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر بادشاہی کس طرح کرتے ہیں!

اے حسنی مبارک! تمہیں تو صرف تیس سال ہوئے ہیں تخت پر بیٹھے، اے بشار الاسد! تم تو جمعہ جمعہ آٹھ دن کے لڑکے ہو، دس سال ہوئے ہیں تمہیں تاج پہنے اور اگر تیس سال تمہارے باپ کے بھی شامل کئے جائیں تب بھی یہ مدت چالیس سال سے زیادہ نہیں بنتی اور اے زین العابدین ابن علی! تمہاری قسمت توکتے والے کاف کے ساتھ کسمت نکلی کہ تم تو صرف چوبیس سال سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھا سکے! تم میں حکمت اور تدبر ہوتا تو تم پاکستانی حکمرانوں کی طرح باسٹھ سال تک عیش و عشرت کے مزے لیتے اور ابھی تو کوئی آثار ہی نہیں کہ عیش و عشرت کا یہ سلسلہ کہیں رکے گا!

مشرق وسطیٰ کے معصوم اور سادہ دل آمرو! تم مار کھا گئے، تم پاکستان سے سبق سیکھتے تو ’’جمہوریت‘‘ کا جال بچھاتے اور اپنے اپنے خاندانوں کو دوامی اقتدار عطا کرتے، بے وقوفو! تم ایک پیپلزپارٹی بناتے، تم نون لیگ اور قاف لیگ کی تشکیل کرتے، تم اے این پی کا چھاتا تانتے، تم عقل کے چاک پر جے یو آئی کا برتن بناتے جس کا پیندا ہی نہ ہوتا۔ پھر اپنے اپنے خاندانوں کو ان جماعتوں پر مسلط کر دیتے، کسی ایم بی اے کو یا کسی سابق صحافی کو اپنا منشی بناتے، تمہارے بیٹوں، تمہارے پوتوں اور تمہارے پڑپوتوں کو بھی اگر کوئی اقتدار سے باہر کر دیتا تو تم میری داڑھی مونڈ دیتے!

اگر تم یہ بھی نہ کر سکتے تو مڈل کلاس کے نام پر ایک ایسی پارٹی بناتے جو جاگیرداری کی مخالف ہوتی۔ تم خود ولایت میں جا بیٹھتے، جاگیرداری کی مخالفت میں ٹیلی فون پر تقریریں کرتے اور ہر حکومت میں جاگیرداروں کے رفیق کار بنتے۔ یہ بھی مشکل تھا تو انصاف کے نام پر ایک پارٹی بنا لیتے۔ چار سو کنال کے گھر میں رہتے اور ان لوگوں کی باتیں کرتے جو تین مرلے کے گھروں میں رہتے ہیں۔ تمہارے خلاف کوئی جلوس نکلتا نہ کوئی تمہیں پارٹی کی سربراہی سے استعفی کا کہتا اور نہ تمہیں سعودی عرب میں پناہ لینا پڑتی!

تم تو کچے شکاری اور اناڑی کھلاڑی نکلے۔ کرپشن کے انڈیکس میں پاکستان تمہارے سارے ملکوں کی نسبت بدتر پوزیشن میں ہے، خواندگی کے تناسب میں تم کئی درجے اوپر ہو، تیونس میں صرف پچیس فیصد لوگ ان پڑھ ہیں۔ مصر میں صرف اٹھائیس فیصد، شام میں انیس فیصد، جب کہ پاکستان میں پجاس فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ پھر بھی تم مار کھا گئے۔ تم نے غلطی یہ کی کہ صرف صدارت اور بادشاہی کو اقتدار سمجھ بیٹھے یہ نہ سمجھ سکے کہ اصل اقتدار تخت صدارت یا تاج شہنشاہی نہیں، اصل اقتدار یہ ہے کہ وزارتیں اور اسمبلیاں ہمیشہ تمہارے خانوادوں میں رہیں، تمہارے محلات کو کوئی نہ آگ لگا سکے، تمہارے خزانے بیرون ملک محفوظ رہیں، تمہاری نسلیں حکومت میں رہیں، تمہارے کارخانے زیادہ ہوتے رہیں، تمہاری جاگیرداریاں سلامت رہیں، تمہاری سرداریاں سدا بہار ہوں، تمہارے خاندان قانون سے ماورا ہوں، تمہارے راستوں پر ٹریفک رکی رہے، کالم نگار تمہارے ملازم ہوں، اینکر پرسن، تمہارا راتب کھائیں، اخباروں میں تمہاری تصویریں ہوں، الیکشن ہارنے کے باوجود تم ٹیلی ویژن چینلوں پر ہر شام جلوہ افروز رہو، کبھی اپوزیشن کا لبادہ اوڑھو کبھی اسلام کے درد میں دہرے ہو جائو، کبھی عوام کی غم خواری میں تقریریں کرو اوریوں اقتدار باسٹھ سال تک تمہارے خاندان ہی میں رہے۔

کُند ذہن عرب ڈکٹیٹرو! کاش تم منافقت کو بروئے کار لاتے اور اس انجام سے بچ جاتے جو، اب سامنے نظر آ رہا ہے۔ تم آمر تھے اور تم نے آمریت کوخفیہ نہ رکھا، تمہیں چاہئے تھا کہ آمریت کی مذمت میں الفاظ کے دریا بہا دیتے لیکن ایسی مضبوط گدی نشینی کا اہتمام کرتے اور ایسا مستقل فیوڈل نظام اپناتے کہ اقتدار نسل درنسل تمہاری دہلیز پر سجدہ ریز رہتا۔ تم سے زیادہ دوام تو بگٹی خاندان کے اقتدار کو ہے جس کا سپوت لاہور میں اعلان کرتا ہے کہ سرداری نظام کے بغیر چارہ نہیں اور میاں نواز شریف اس کی سرپرستی کرتے ہیں۔ تم سے زیادہ خوش قسمت تو سندھ کے روحانی رہنما ہیں جن کے مشاغل ’’غیر روحانی‘‘ ہیں لیکن لوگ ان کی طرف پیٹھ تک نہیں کر سکتے اور انکے اقتدار کو دور دور تک کوئی خطرہ نہیں، کاش تم بھٹوئوں ، زرداریوں، شریفوں، چوہدھریوں، گیلانیوں، قریشیوں، کھوسوں، لغاریوں، بگتیوں، مینگلوں، باچا خانوں اور مخدوموں سے درس آمریت لیتے اور اپنی آئندہ نسلوں کو وہی تحفظ دے سکتے جو بلاول، مونس‘ حمزہ اور ہمارے دوسرے شہزادوں کو حاصل ہے۔ یہ تمہارا کیسا حسن انتظام ہے کہ تمہارے خلاف جلوسوں پر جلوس نکل رہے ہیں اور عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر تمہیں تنکوں کی طرح بہا لے جا رہے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے۔ جہاں عوام کے پاس برقی روشنی نہیں، اندھیرے ہیں،
 سی این جی نہیں، قطاروں میں پورے پورے دن کی ذلت ہے، چینی نہیں زندگی کا زہر ہے،
 آٹا نہیں، بھوک کا سنکھیا ہے،
 امن و امان نہیں، دہشتگردی کا جہنم ہے
 لیکن پھر بھی کوئی جلوس ہے نہ شورش، کوئی احتجاج ہے نہ بغاوت، یہ ہے حسن تدبیر اور یہ ہے فن حکمرانی!

اقتدار کے ہارے ہوئے قمار بازو! میں نے واشنگٹن پوسٹ میں پڑھا کہ بحیرہ روم کے کنارے تم میں سے ایک کے محل کو عوام نے نذر آتش کر دیا۔ میں نے تمہاری بدقسمتی پر گریہ کیا اور میں نے تمہاری کم فہمی پر خندہ کیا۔ تم سے تو ہمارے لیڈر کئی گنا زیادہ باتدبیر اور دور اندیش ہیں جن کے محلات کو کوئی ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ فرانس ہو یا جدہ، انگلستان ہو یا رائے ونڈ، ہالہ ہو یا کیٹی جتوئی، کراچی ہو یا گجرات یا اسلام آباد، ہمارے محلات وسیع سے وسیع تر ہو رہے ہیں۔ کسی کو ہماری گاڑیوں کی تعداد معلوم ہے نہ خدام کی! ہمارے پاس لاتعداد اسلحہ ہے، ہم انکم ٹیکس نہیں دیتے، پولیس ہماری کنیز ہے اور ضلعی انتظامیہ ہماری داشتہ، ہم اپنے جس رشتہ دار کو چاہیں، کسی بھی ملک میں تعینات کر سکتے ہیں۔ ہمارے لئے ہوائی جہازوں کے ٹائم ٹیبل بدل دیئے جاتے ہیں اور ٹرینوں کی باگیں کھینچ لی جاتی ہیں۔ قانون ہمارے جوتوں کے نیچے آئی ہوئی مٹی سے بھی زیادہ کمزور ہے۔

بدقسمت عرب حکمرانو! یہ ہوتا ہے اقتدار اور یہ ہوتا ہے دوامی اقتدار !!












 

powered by worldwanders.com