Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, February 29, 2016

شہرزاد

Friday, February 19, 2016

Long Live مرزا یار

میرؔ کا شعر ہے   ؎
چھڑا جو قصہ کہیں رات ہیر رانجھے کا
ہم اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
ہیر رانجھے کے علاوہ بھی پنجاب کی عشقیہ روایات بہت ہیں۔ان میں سے ایک کہانی مرزا اور صاحباں کی ہے۔ اس حوالے سے پنجابی کے یہ اشعار تعارف کے محتاج نہیں   ؎
میں بکرا دیاں نیاز دا جے سر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے
کُتی مرے فقیر دی جہیڑی چوئوں چوئوں نت کرے
پنج ست مرن گواہنڈناں تے رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے
مرزا یار کے راستے میں جتنی رکاوٹیں ہیں،اس کی محبوبہ انہیں ہٹانا چاہتی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا شوہر ہے جو کباب میں ہڈی بنا ہوا ہے۔ اگر وہ مر جائے تو شکرانے کے طور پر وہ بکرا ذبح کرے گی۔ پھر بنیے کی دکان ہے جو رات گئے تک کھلی رہتی ہے اور جہاں دیوا یعنی چراغ جلتا رہتا ہے۔ یہ دکان بھی نذرِ آتش ہو جائے تو کیا ہی کہنا! پھر کٹیا والے فقیر کی کتیا مرے جو ہر وقت بھونکتی یعنی پہرے پر رہتی ہے۔محبوب کے وصال میں حائل، ان سارے ’’دشمنوں‘‘ کا صفایا ہو بھی جائے تو پڑوسنوں کا کیا بنے گا؟ یہ بدبخت ہر وقت کان لگائے بیٹھی ہوتی ہیں کہ گلی میں کون آیا؟ کون یہاں سے گزرا؟ کس گھر میں داخل ہوا؟ بہتر ہے اِن فسادی پڑوسنوں میں سے کچھ اللہ کو پیاری ہو جائیں اور باقی جو بچیں، انہیں اتنا تیز بخار آلے کہ چارپائی ہی کی ہو کر رہ جائیں! اب کوئی بھی باقی نہیں بچے گا۔ میدان صاف ہو گا اور مرزا یار گلیوں میں دندناتا پھرے گا!۔
مرزے یار کی محبوبہ کی یہ ساری خواہشات (بلکہ دُعائیں)پوری ہو سکیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب پنجابی ادب کا کوئی عالم ہی دے سکتا ہے۔ ہمیں تو اتنا ہی معلوم ہے کہ اِن دنوں ملک کے سیاست دان مرزے کی محبوبہ کی طرح گلیاں خالی ہونے کی دعائیں کرتے پھرتے ہیں۔ یوں بھی قوم کو مبارک ہو کہ سیاست دانوں کے اتحاد کی ایک اور صورت پیدا ہو چلی ہے۔ پہلے تو آپس میں چونچیں لڑاتے، ایک دوسرے پر جھپٹتے سیاست دان صرف اُس وقت باہم متحد ہو کر سیسہ پلائی دیوار بنتے تھے جب اسمبلیوں میں ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل پیش ہوتا تھا، یا زرعی آمدنی پر ٹیکس کی بات ہوتی تھی یا غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی ہونے لگتی تھی۔ اب یہ سیاست دان، یہ سارے سیاست دان اُن اداروں کے خلاف بھی متحد ہو گئے ہیں، جو کسی نہ کسی حوالے سے احتساب کر رہے ہیں۔   ؎
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
سندھ میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان رینجرز سے تنگ ہیں۔ آج زرداری صاحب نے ایف آئی اے کی بھی شکایت کر دی۔ خیبرپختون خوا میں احتساب کے انچارج جرنیل صاحب استعفیٰ دے کر گھر سدھار گئے ہیں۔ پرویز خٹک صاحب ایسے احتساب کو پسند نہیں فرماتے جو ’’شرفا‘‘ کی داروگیر کرے۔ اونٹ کی پیٹھ پر پڑا ہوا آخری تنکا یوں نیچے آ رہا کہ ملک کی مقتدر ترین شخصیت، وزیر اعظم نے شکوہ کیا ہے کہ نیب ’’معصوم‘‘ لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔
قربِ قیامت کے لیے اور کون سی نشانی درکار ہو گی؟ ملک کا حکمرانِ اعلیٰ اپنے عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ زرداری صاحب سندھ کے ہاریوں کی قسمت بدلنا چاہتے ہیں۔ لیکن کبھی رینجرز، کبھی ایف آئی اے، کبھی نیب، ہاریوں کو پتھر کے زمانے میں رکھنے کے لیے خم ٹھونک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ زرداری صاحب کو سندھ میں سماجی، معاشی اور تعلیمی انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنی ٹیم کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر عاصم کو بھی پکڑ لیں گے، اگر آپ ایان علی کو بھی ہر روز عدالتوں میں بلا لیں گے، اگر آپ شرجیل میمن کا تعاقب شروع کر دیں گے، تو وہ خاک اپنا پروگرام مکمل کر پائیں گے؟
اس ضمن میں قوم کو دو اہم نکتے یاد رکھنے چاہئیں۔ سیاست دان ملک کا مقدر ہیں۔ انہیں قدرت نے مامور کیا ہے۔ وہ ہماری تقدیر بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ آدھے سیاست دان حکمران ہیں۔ باقی 
آدھے اپوزیشن میں ہیں؛ تا ہم ہر دو اقسام مقدس ہیں۔ ہر دو ظل اللہ ہیں! ہر دو ہماری قسمتوں کے مالک ہیں، یہ رینجرز، یہ ایف آئی اے، یہ پولیس، یہ نیب یہ سب آخر کیا ہے؟ کیا سلطان علائو الدین خلجی کے زمانے میں یہ سارے جھنجھٹ تھے؟ کیا شہنشاہ اکبر، شہنشاہ جہانگیر، شاہ جہان، اورنگ زیب  کے سامنے یہ رکاوٹیں تھیں؟ انہوں نے جو چاہا کیا مقبرے بنوائے، محلات تعمیر کیے، باغات بنوائے۔ ان میں بارہ دریاں کھڑی کیں۔ آبِ رواں کے لیے اِن باغوں اور محلات میں نہریں اور تالاب بنوائے۔ ان بادشاہوں کے نام آج بھی زندہ ہیں! کیا کسی نے ان کے مخالفین کے نام سنے؟ پھر زرداری صاحب ‘وزیر اعظم صاحب، پرویز خٹک صاحب اور عمران خان صاحب کے زمانے میں اِن رکاوٹوں کی، اِن اداروں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ حضرات میٹرو بسیں بنائیں، اورنج ٹرینیں چلوائیں، دبئی میں بیٹھ کر سندھ پر حکومت کریں۔ کے پی میں تبدیلی لانے کے لیے احتساب کمیشن کے سربراہ کو گھر جانے پر مجبور کریں، جو چاہیں کریں، کسی کو کیا تکلیف ہے؟ خورشید شاہ کے کتنے اثاثے ہیں؟ اور اقتصادی راہداری کا اصل نقشہ کیا ہے؟ عوام کو اِن تفصیلات میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
دوسرا اہم نکتہ عوام کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کرپشن کی لعنت ملک سے دور کرنے کے لیے پٹواریوں، تھانیداروں، پرائمری سکولوں کے اساتذہ، پوسٹ مینوں، کلرکوں، نائب قاصدوں اور خاکروبوں کا احتساب لازم ہے۔ حماقت کی انتہا یہ ہے کہ نیب پنجاب کا رُخ کرنے پر تلی کھڑی ہے۔ جبکہ خاکروبوں، پوسٹ مینوں اور پٹواریوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا بھی احتساب کوئی نہیں کر رہا۔ پولیس کے سپاہی کھلے پھر رہے ہیں۔ ریڑھی والوں پر ہاتھ کوئی نہیں ڈالتا۔ صحافیوں کو جیل میں ہونا چاہیے، مسجدوں کے موذن کرپشن میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ آخر اس ملک میں انصاف کب آئے گا؟
ہمارے سیاستدانوں کو آخر کار، بعد از خرابیٔ بسیار، احساس ہو گیا ہے کہ ہمارا دشمن بھارت نہیں، ہمارا دشمن غربت اور ناخواندگی نہیں، ہمارا سب سے بڑا دشمن ہر وہ ادارہ ہے جو سیاست دانوں اور حکمرانوں کے احتساب کا سوچے گا اور کرنے کی کوشش کرے گا۔
ہم جناب وزیر اعظم کی خدمت میں تجویز پیش کرتے ہیں کہ نیب، پولیس اور ایف آئی اے کے تمام افسروں اور اہلکاروں کو فوراً جیلوں میں بند کر دیا جائے۔ رینجر زکو میٹرو بسیں اور اورنج ٹرینیں چلانے پر مامور کر دیا جائے۔ مسلح افواج پر پابندی لگا دی جائے کہ وہ بیرکوں سے باہر نہ نکلیں اور نکلنا ہو تو لاہور گروپ کے اُن افسروں سے تحریری اجازت لیں جو دارالحکومت کو چلا رہے ہیں۔ کابینہ سے وزراء کا ایک وفد دبئی جا کر جناب زرداری کو عزت و احترام سے واپس لائے۔ ڈاکٹر عاصم کو رہا کیا جائے۔ ایان علی کو سندھ کا گورنر مقرر کیا جائے اور ہاں! ایک ضروری تجویز پیش ہونے سے رہ نہ جائے۔ جناب افتخار چوہدری کو دوبارہ قاضی القضاۃ تعینات کیا جائے۔ بلٹ پروف کار ان سے کبھی واپس نہ لی جائے۔ وہ اپنی سیاسی جماعت کے بدستور سربراہ رہیں۔ نیب کو کنٹرول کرنے کے لیے اتنے زرخیز دماغ سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا؟

Monday, February 15, 2016

لَٹھ

عزیز و اقارب اور حلقۂ احباب تو جانتے ہی ہیں، میں عوام الناس کو بھی اپنے بارے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھ میں نیکی پھیلانے اور برائی ختم کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔ ہر ایک کو نیکی کا حکم دینے سے ایک اضافی فائدہ یہ ہوا ہے کہ میرا لہجہ مستقل طور پر تحکمانہ ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس میں شک ہی کیا ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ پارسا ہوں۔ معاشرے کی اصلاح کی بھاری ذمہ داری میرے مضبوط کاندھوں پر ہے، جسے میں احسن طریقے سے انجام دے رہا ہوں۔ برائی کو میں عام طور پر ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ برائی کو ہاتھ سے یعنی طاقت سے روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ان سے نمٹنا میں بخوبی جانتا ہوں۔ ہاں! کبھی کبھی اگر برائی کو زبان سے روکنا پڑے تو پورا محلہ جانتا ہے کہ میری زبان بھی ہاتھ سے کچھ کم نہیں! تیر، تفنگ، بھالا، تیزاب، کلہاڑی، چھری، سب میری زبان کے آگے ہیچ ہیں۔ چند دن پہلے کی بات ہے، محلے کی مسجد میں ایک لڑکا نیکر پہنے نماز پڑھ رہا تھا۔ اگرچہ نیکر اس کی گھنٹوں سے نیچے تھی مگر اس نابکار نے سر پرٹوپی بھی نہیں پہنی ہوئی تھی۔ میں نے مصلحتاً اِس برائی کو روکتے وقت ہاتھ کنٹرول میں رکھے مگر زبان سے اس کے وہ لتے لیے، وہ لتے لیے کہ اس کے بعد وہ مسجد میں نظر نہیں آیا۔
گزشتہ چند دنوں سے میں ایک پریشانی میں مبتلا تھا۔ اِدھر اُدھر، معاشرے کا جائزہ لیا، تو سچ پوچھیے، ہر طرف نیکیوں کا سیلِ رواں تھا، برائی ڈھونڈنے نکلا تو کوئی نظر ہی نہ آئی۔ اِس جستجو میں بازار جا نکلا۔ الحمد للہ! بہشت کا سماں تھا۔ تاجر برادری میں انقلاب آ چکا تھا۔ ماپ تول میں کمی تو کیا ہوتی، گاہکوں کو کچھ زیادہ ہی دے رہے تھے۔ شے بیچتے وقت دکاندار شے کا نقص بتا رہے تھے۔ ایک اور معجزہ دیکھا کہ تجاوزات کا خاتمہ بالخیر ہو چکا تھا اور فٹ پاتھوں اور دکانوں کے سامنے جگہ خالی تھی۔ انکم ٹیکس والے ملے تو حیران کہ کوئی تاجر، کوئی صنعت کار، کوئی درآمد یا برآمد کنندہ، ایک پائی نہیں چھپا رہا تھا۔ محصولات سے حاصل شدہ رقم دس گنا زیادہ ہو چکی تھی۔
دفتروں کا چکر لگایا۔ خوشی کے مارے آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ ہر سیٹ پر اہلکار موجود، کام میں مصروف تھا۔ افسروں نے چائے پینے پلانے کا سلسلہ یکسر موقوف کر کے، پوری توجہ سائلوں کو ملنے اور انہیں مطمئن کرنے پر لگائی ہوئی تھی! بیوائوں کو پینشن گھر بیٹھے مل رہی تھی۔ ہر سرکاری دفتر سے سائل کی درخواست دو دن میں نمٹائی جا رہی تھی۔ وزیر اعظم صاحب نے تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر ریٹائرڈ نوکر شاہی کو دوبارہ ملازمتیں دینے کا سلسلہ بند کر دیا تھا۔ اب اہم وزارتوں میں اپنی برادری اور اپنے شہر کے علاوہ بھی، خالص میرٹ پر تعیناتیاں ہو رہی تھیں۔ 
سرکاری سکولوں کا معائنہ کرنے نکلا۔ حالت ہی بدلی نظر آئی۔ دور افتادہ بستیوں میں بھی سکولوں کی عمارتیں خوبصورت! کلاس روموں میں باعزت فرنیچر، اساتذہ کی اسامیاں پوری! پینے کے پانی کا زبردست انتظام، دل خوش ہو گیا۔
پھر میں نے معاشرے کا ایک عمومی جائزہ لیا۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے مواقع ہی ختم ہو چکے تھے۔ ہر طرف نیکیاں ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ منکرات کا یعنی برائیوں کا نشان تک نہ تھا۔ سو فیصد والدین جائداد میں سے بیٹیوں کو پورا پورا شرعی حصہ دے رہے تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ بیٹی کی پیدائش پر اچھے بھلے تعلیم یافتہ مرد ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ اب یہ جاہلی تصورات مٹ چکے تھے۔ جہیز کی لعنت ختم ہو چکی تھی۔ صلہ رحمی کا دور دورہ تھا۔ ہر شخص اپنے رشتہ داروں کے حقوق خندہ پیشانی سے ادا کر رہا تھا۔ لین دین میں مکمل شفافیت تھی! شادیوں کا اسراف ختم ہو چکا تھا۔ مردوں نے بیویوں پر ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا تھا۔ خواتین شوہروں کی دلداری میں یوں مگن تھیں کہ گھر جنت کے نمونے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بازاروں میں ہر شے خالص تھی۔ ملاوٹ کا نام و نشان نہ رہا تھا۔ کوئی شخص جعلی دوائیں بنانے کا یا خوراک میں ملاوٹ کا سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ مسجدیں بھری ہوئی تھیں۔ ہر فرد قرآن کی آیات کا مفہوم سمجھتا تھا اور اس پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ 
ڈاکے، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ امن و امان مثالی تھا۔ یوں سمجھیے کہ ایک عورت خالص سونے کے زیورات سے لدی پھندی اگر کراچی سے چلتی اور پیدل، تن تنہا، سارا ملک عبور کر کے شمال میں چینی سرحد تک پہنچ جاتی تو کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا روادار نہ تھا۔
یہ صورتِ حال جہاں اطمینان بخش تھی، وہاں میرے لیے پریشان کن بھی تھی۔ میں نے ہر حال میں، ہر صورت میں نیکی کا حکم دینا تھا اور برائی کو روکنا تھا۔ معاشرہ پوری طرح سنور چکا تھا۔ کوئی برائی دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی۔ تو میں کیا کروں؟ اسی شش و پنج میں ایک دن چارپائی پر نیم دراز پڑا تھا۔ اچانک روشنی کا ایک کوندا سا ذہن میں لپکا۔ بند راستے کھلنے لگے۔ کیا ہوا اگر معاشرے سے ساری برائیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ فروری کا مہینہ ہے۔ ایک برائی پھیلنے کے آثار تھے۔ خوشی سے نہال ہو گیا۔ دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ ویلنٹائن ڈے! جی ہاں! ویلنٹائن ڈے! یہ واحد خرابی تھی جو اس وقت معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ ایک ناقابلِ بیان طاقت مجھ میں آ گئی۔ میں اٹھا اور کمر میں نے اِس برائی کو ختم کرنے کے لیے کس لی!
کچھ دوستوں کا نکتۂ نظر مختلف تھا۔ انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اول، یہ فیشن آبادی کے ایک قلیل حصے میں رائج ہے، وہ بھی زیادہ تر تین چار بڑے بڑے شہروں میں۔ اگر اس کے خلاف مہم چلائی گئی تو یہ ختم ہونے کے بجائے زیادہ پھیلے گی۔ جنہیں اس کا کچھ نہیں معلوم، وہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے۔ فرض کیجیے، دس نوجوان اس سے واقفیت حاصل کرتے ہیں تو ان میں چار پانچ اس کے حق میں ہو جائیں گے۔ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے درخوارِ اعتناہی نہ سمجھا جائے۔ دوم، ایک اوسط نوجوان، اِس ملک میں گرل فرینڈ کے تصور سے ناآشنا ہے۔ یہاں تک کہ بڑے شہروں میں، کھاتے پیتے گھروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندانوں میں بھی، نوجوان لڑکے لڑکیاں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے رواج سے کوسوں دور ہیں۔ یہ کلچر چند ہی گھرانوں میں در آیا ہے جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ملک میں نوجوانوں کی کل تعداد کا اس تعداد سے موازنہ کریں جو سکولوں کالجوں کے اردگرد منڈلاتی ہے۔ حقیر تعداد! بہت ہی حقیر تعداد! سوم، غالب تعداد ان نوجوان عورتوں اور مردوں کی ہے جو اپنے شوہروں، بیویوں، یا زیادہ سے زیادہ منگیتروں کو ویلنٹائن ڈے پر تحفے تحائف دیتے ہیں یا دیتی ہیں۔ مگر میں نے ان کے سارے دلائل رد کیے ہیں۔ لٹھ لے کر گھر سے نکلا اور کشتوں کے پشتے لگا دیے۔
میرا اگلا ہدف بسنت ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ یہ مقامی ثقافت ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں! اور ہمارا مذہب مقامی ثقافت، لباس، خوراک اور دوسرے ثقافتی مظاہر سے منع نہیں کرتا۔ ہاں مقامی ثقافت کے جن حوالوں میں کفر وشرک کی آمیزش ہو، ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور پتنگ بازی کے دوران انسانی جانوں کی مکمل حفاظت کا بندوبست ہونا چاہیے۔
مگر میں ان دلیلوں کو خاطر ہی میں نہیں لائوں گا۔ دیکھتے جائیے، بسنت کا مقابلہ میں مذہبی جذبات کو مشتعل کر کے کروں گا اور یوں کروں گا کہ مزا آ جائے گا۔

Sunday, February 14, 2016

لطیفے ہی لطیفے

بعض دن اتنے خوشگوار ہوتے ہیں کہ لطیفوں سے شروع ہوتے ہیں اور لطیفوں ہی پر ختم ہوتے ہیں۔ خوف اور بے یقینی کی اس فضا میں ایسے ایام غنیمت ہیں۔ یوں بھی کل کا دن بیزار گزرا۔ سارا دن بارش ہوتی رہی۔ دارالحکومت کے لوگ خوش تھے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر دس سال بعد برفباری ہوئی۔ لیکن برف باری سب کو تو پسند نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ ایک چمکدار دن پسند کرتے ہیں۔ سرما کی نرم دھوپ ! اور اگر سرد ہوا نہ چل رہی ہو تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے! ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیر گہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
برف اور دھوپ کے موسموں کو چھوڑ کر اُن لطیفوں کی طرف آتے ہیں جن سے دن کا آغاز ہوا۔ دوحہ (قطر) میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ تین سال میں پاکستان بدل گیا ہے۔ حکومت وعدوں کی تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ اخبارات کے پہلے صفحات پر یہ تقریر شائع ہوئی مگر ساتھ ہی‘ اوپر نیچے‘ دائیں بائیں‘ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے ایسے بیانات بھی شائع ہو گئے جو اس ’’بدلے ہوئے پاکستان‘‘ کی چغلی کھا رہے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ حکومتیں خود ہی قبضہ گروپوں کو نقشے بنا کر دیتی ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ اسلام آباد صرف امرا کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ غریب اور پسماندہ لوگوں کے لیے بھی رہائشی منصوبے بننے چاہیں۔ سی ڈی اے لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر زمین کی خرید و فروخت میں لگا ہوا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس پر ریمارکس دیے کہ ریاستی اداروں میں کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں جو اپنا اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اور ان کا فائدہ لاقانونیت میں ہے۔ 
سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس تو وزیر اعظم کی تقریر کے دائیں طرف شائع ہوئے۔ بائیں طرف کیا شائع ہوا؟ بائیں طرف بھی سپریم کورٹ ہی کا بیان ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں اور ایس ایچ او کروڑوں روپے دے کر لگتے ہیں! انہوں نے پھر پیسے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ایک وکیل نے عدالت کو اطلاع دی کہ اگر ملک کے چیف جسٹس بھی اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر پرچہ کے اندراج کے لیے تھانے جائیں تو ایس ایچ او اُن سے بھی پیسے لے لے گا!
لطیفے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ہنسانے والے‘ دوسرے رُلانے والے! یہ لطیفہ نما صورتِ حال جو اخبارات کے صفحات پر ظاہر ہوئی‘ ہنسانے والی نہیں‘ رُلانے والی ہے! اصل قصّہ یہ ہے کہ پاکستان میں دو دنیائیں الگ الگ آباد ہیں! قرآن کریم میں دو سمندروں کا ذکر فرمایا گیا ہے جن کے درمیان ایک آڑ ہے اور وہ دونوں اپنی اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں دو سمندر تو نہیں‘ خشکی کی دو الگ الگ دنیائیں ضرور ہیں؎
اسی دنیا میں دنیائیں ہماری بھی بنی ہیں
روش سے سیڑھیاں مر مر کی پانی میں گئی ہیں
ایک دنیا وزیر اعظم کی ہے جس میں قطر ‘ ترکی ‘ برطانیہ اور امریکہ کے دورے ہیں۔ جہاز ہیں، جائیدادیں ہیں، کارخانے اور کاروبار ہیں، کابینہ کے اجلاس ہیں، قیمتی گاڑیوں پر مشتمل شاہانہ جلوس ہیں جن کے کناروں پر رکی ہوئی ٹریفک وزیر اعظم کو دُور سے رعایا کی جھلک دکھاتی ہے۔ اس دنیا میں ان کے دوستوں کے اڑن کھٹولے ہیں۔ رائے ونڈ اور مری کے محلات ہیں۔ موٹر وے اور اورنج ٹرین کے دلکش منصوبے ہیں۔ خداّم ہیں، نوکر شاہی ہے، بِچھ بِچھ جانے والے پارلیمنٹ کے ارکان ہیں!
دوسری دنیا پاکستانی عوام کی ہے۔ اس میں بکنے والے تھانے ہیں، کروڑوں دے کر تعینات ہونے والے تھانیدار ہیں! قبضہ گروپ ہیں، لینڈ مافیا ہے، بغیر چھتوں کے اور بغیر پینے کے پانی کے لاکھوں سرکاری سکول ہیں۔ بغیر ڈاکٹروں کے اور بغیر ادویات کے ہزاروں سرکاری ہسپتال ہیں جن میں کبھی کوئی وزیر اعظم‘ کوئی وزیر اعلیٰ‘ کوئی گورنر‘ کوئی وزیر‘ کوئی عوامی نمائندہ، اپنے یا اپنے اہل خانہ کے علاج کے لیے نہیں آتا۔ یہ دو الگ الگ دنیائیں ہیں! انہیں دو سمندر کہیے‘ یا دو لطیفے‘ یا دو متوازی لکیریں جو دُور تک چلتی چلی جاتی ہیں مگر آپس میں کبھی نہیں ملتیں! ظفر اقبال یاد آ گیا   ؎
یہاں تک لا سکی ہے زندگی بھر کی مسافت
لبِ دریا ہوں میں اور وہ پسِ دریا کِھلا ہے
مگر یہ دن کے آخری لطیفے نہیں تھے۔ ناشتہ کرتے ہوئے پرتھ سے عزیزی معین ارشد کی ای میل موصول ہوئی۔ معین نے کالم نگار کی تحریر پڑھی جس میں کچہریوں کی حالتِ زار پر آنسو بہائے گئے تھے۔ معین نے خبر دی کہ اُسی اخبار میں پنجاب حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت کا بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’اراضی کی کمپیوٹرائزیشن مکمل! جدید نظام رائج اور پٹواری کلچر کا خاتمہ ہو گیا۔ صوبے کی تمام تحصیلوں میں جدید لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم رائج کر دیا گیا ہے۔ 143تحصیلوں میں سروسز سنٹر مکمل طور پر آپریشنل ہیں اور عوام کو خدمات فراہم کر رہے ہیں‘‘۔
معین ارشد نے پوچھا کہ آپ کچہریوں کی حالتِ زار پر نوحہ کناں ہیں اور صوبے کی حکومت کچھ اور خوشخبری دے رہی ہے۔ بقول فراق    ؎
کس کا یقین کیجیے‘ کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
ہزاروں میل دُور ‘ مغربی آسٹریلیا میں بیٹھا ایک نوجوان 
اضطراب کا شکار ہو تو ناشتہ آپ خاک کریں گے؟ چائے کی پیالی زہر مار کی اور اپنی سی کوشش سے حکومتی دعوے کی پڑتال شروع کر دی۔ سب سے پہلے پنڈی گھیپ کے ایک معروف وکیل کو فون کیا جو سارا دن عدالت میں زمینوں کے اور کسانوں کے اور جائداد کی منتقلی کے اور پٹواریوں کے مہیا کردہ کاغذات کے معاملات طے کرتے اور کراتے ہیں۔ جو خبر انہوں نے دی یہ تھی کہ پوری تحصیل کے چند دیہات کا ریکارڈ کمپیوٹر پر چڑھایا گیا ہے مگر پنڈی گھیپ شہر اور بستیوں اور قریوں کی اکثریت بدستور پرانی ڈگر پر چل رہی ہے۔ اصل مسئلہ انہوں نے یہ بتایا کہ پٹواری‘ کمپیوٹر کی دنیا سے ناآشنا ہیں اور کمپیوٹر چلانے والے بابو‘ زرعی زمین کی باریکیوں اور پیچیدگیوں سے ناواقف!  
تسلّی بہر طور نہ ہوئی۔ دوسرا فون اپنے گائوں کے زمیندار ماسٹر مجتبیٰ کو کیا۔ پوچھا پٹواری کلچر ختم ہوا ہے یا نہیں؟ ماسٹر صاحب ہنسے۔ وہ چند دن ہوئے فتح جنگ تحصیل ہیڈ کوارٹر گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ کمپیوٹر سنٹر والے رشوت نہیں مانگتے مگر وہ آپ کی زمین کا خسرہ نمبر مانگتے ہیں تاکہ آپ کا کام کر سکیں اور خسرہ نمبر پٹواری بادشاہ نے دینا ہے! اکّا دُکاّ پڑھے لکھے زمیندار اور کسان خسرہ نمبر یاد رکھتے ہیں یا کہیں لکھ لیتے ہیں مگر اکثریت خسرہ نمبر پٹواریوں سے پوچھتی تھی۔ سو اب بھی پوچھ رہی ہے! جب تک پٹواری خسرہ نمبر نہیں دیتا‘ کمپیوٹر سنٹر والے کچھ نہیں کر سکتے۔ تیسرا فون کھنڈہ کے بڑے زمیندار ملک عابد خان کو کیا۔ انہوں نے عینی شہادت دی کہ وہ اپنے کام سے تحصیل ہیڈ کوارٹر گئے۔ ایک گائوں کے کچھ سائل بھی اُس دفتر میں بیٹھے تھے۔ان سائلوں سے ساٹھ ہزار روپے مانگے جا رہے تھے۔ ملک عابد خان صاحب نے اُس گائوں کا نام بھی بتایا جس سے ان مظلوم کسانوں کا تعلق تھا! چوتھا فون جھنگ کے زمیندار میاں صفدر صاحب کو کیا۔ ان کی اطلاع یہ تھی کہ تیس فیصد سے زیادہ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہی نہیں ہوا اور یہ کہ رخنے جان بوجھ کر چھوڑے جا رہے ہیں تاکہ ع
سلسلہ چلتا رہے حُسن کی دلداری کا
میاں صفدر منجھے ہوئے زمیندار ہیں۔ انہوں نے بہت درد سے بتایا کہ ضلع ناظم کا سسٹم رہتا تو پٹواری کلچر ختم ہو سکتا تھا مگر جنرل مشرف کے جانے پر یہ جو نوکر شاہی کو دوبارہ تخت نشین کیا گیا ہے‘ اس سے گھوڑا‘ گاڑی کے آگے نہیں‘ پیچھے جُت گیا ہے۔ پانچواں فون جناب ایاز امیر کو کیا جو تعارف کے محتاج نہیں اور جو لاہور یا اسلام آباد نہیں‘ بلکہ چکوال میں عوام کے درمیان رہتے ہیں۔ ان کی شہادت یہ تھی کہ کچھ بھی بدلا نہیں‘ پٹواری الماس ہو یا زمرد‘ یا عقیق یا یاقوت‘ کل بھی وہی حاکم تھا اور آج بھی وہی حاکم ہے!
اب شہر میں پیدا ہونے والے‘ شہر میں پلنے بڑھنے والے اور پنڈی گھیب، فتح جنگ‘ جھنگ‘ چکوال‘ شرقپور اور چونیاں کے بجائے لندن، انقرہ، بیجنگ اور دوحہ کے دورے کرنے والے شہنشاہوں کو کون سمجھائے کہ خسرہ نمبر کیا ہوتا ہے؟ فرد کیا ہوتا ہے؟ لٹھا کیا ہوتا ہے؟ پٹواری کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور کمپیوٹر دفتروں میں بٹھائے گئے بابو جب خسرہ نمبر لینے کے لیے سائل کو پٹواری کے پاس بھیجتے ہیں تو کتنے معصوم لگتے ہیں!
ایسے منصوبے خونِ جگر مانگتے ہیں! ایسے منصوبے اگر چیختے چلاتے بیانات سے پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتے تو یہ ملک کب کا سنگا پور یا سوئٹزر لینڈ بن چکا ہوتا۔ مصیبت یہ ہے کہ محض بیانات کافی نہیں! شیر شاہ سوری‘ ٹو ڈرمل‘ لارڈ کارنوالس جیسے نابغے ہی ایسے کام مکمل کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ہفتہ وار بیانات نہیں دیتا تھا!!
تھانہ کلچر ختم ہونے کی شہادت تو چیف جسٹس نے دے دی ہے کہ تھانے کروڑوں میں بکتے ہیں اور تھانیدار کروڑوں میں لگتے ہیں۔ کل پرسوں پٹواری کلچر کے ’’خاتمے‘‘ کی شہادت بھی مل جائے گی   ؎
تیرے امیر مال مست ‘ تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘ خواجہ بلند بام ابھی

Friday, February 12, 2016

جَٹ چڑھیا کچہری

شریف آدمی عمر رسیدہ اور پریشان تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ زندگی کا کیا پتہ، رگِ جاں کس وقت کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائے۔ اس ملک میں ہر شریف آدمی کی یہی خواہش ہے کہ اس کے بچوں کو کچہری اور تھانے کے دھکے نہ کھانے پڑیں اور وہ اپنی زندگی ہی میں جو کچھ اس حوالے سے کر سکتا ہے،  کر جائے۔ یہ شریف عمر رسیدہ آدمی بھی کچہری پہنچا اور متعلقہ اہلکار سے درخواست کی کہ وہ اپنا مکان اپنے اکلوتے بیٹے کے نام کرانا چاہتا ہے۔ اہلکار نے اُسے دیکھا۔ دیکھا کیا، اس کا جائزہ لیا۔ کچہری کا اہلکار جائزہ لیتا ہے تو سائل کی مالی حیثیت کا اندازہ فوراً لگا لیتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ اہلکار پہنچے ہوئے بزرگوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں۔ سر سے لے کر پائوں تک دیکھنے کے بعد اس نے بتایا کہ پچیس ہزار روپے خرچ ہوں گے۔ عمر رسیدہ شخص حیران ہوا…’’مگر میں مکان خرید یا بیچ نہیں رہا۔ میرا اپنا مکان ہے اور کاغذات پر بیٹے کے نام منتقل کرنا چاہتا ہوں۔ پچیس ہزار روپے کیوں؟‘‘ اہلکار نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور دوسرے سائلوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ عمر رسیدہ شخص کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور پھر واپس آ گیا۔
ہمارے شہری دوستوں کو قطعاً اندازہ نہیں کہ گائوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رشتوں، خاندانوں، برادریوں، دوستیوں اور دشمنیوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ دیہاتی زندگی میں کوئی چھوٹا ہوتا ہے نہ بڑا۔ مزارع کی بھینس مر جائے تو چوہدری صاحب کو بھی جانا ہوتا ہے اور زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانا ہوتا ہے۔ ایک لڑکا افسر بن جائے تو پورے گائوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ’’ہم‘‘ نے پڑھا لکھا کر اسے افسر بنایا ہے۔ گائوں سے آئے ہوئے ملاقاتی کو چائے نہ پلائے، کھانا نہ کھلائے، اس کا کام نہ کرے تو گائوں میں محشر بپا ہو جاتا ہے اور اگلی بار افسر جب گائوں جاتا ہے تو ہر طرف سے شکووں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ہم پنجاب کے دیہاتی کہا کرتے ہیں’’لیں جی! ڈاکخانہ مل گیا‘‘ ۔ اس شریف عمر رسیدہ شخص کا تعلق بھی برادری کے حوالے سے ہمارے علاقے سے تھا! چنانچہ اس نے ’’ڈاکخانہ ملایا‘‘ اور ایک صبح ایک مشترکہ عزیز کو ساتھ لیے پہنچ گیا۔ اتفاق سے اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر (یعنی ڈی سی او صاحب) سے صاحب سلامت تھی۔ فریاد کی تو انہوں نے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو حکم دیا۔ چنانچہ واجبی سی سرکاری فیس کے ساتھ کام ہو گیا۔
یہ ہے ہماری کچہریوں کا حال! یعنی محکمۂ مال کا! جسے لینڈ ریونیو
(Land Revenue)
 کہا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل(کرپشن بیرومیٹر 2013ء) کے اعداد و شمار پڑے ہیں۔ بدعنوان ترین محکمہ یہی لینڈ ریونیو کا محکمہ ہے۔ اس کے بعد پولیس اور
 Utilities
 کے محکمے آتے ہیں۔ سروے کے دوران 75 فیصد لوگوں نے رائے دی کہ سب سے زیادہ کرپشن کچہریوں میں ہے۔ اس میں پٹواری، تحصیلدار سب شامل ہیں۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ زمیندار یا وڈیرا جب وزیر بنتا ہے تب بھی پٹواری کی ’’خدمت‘‘ جاری رکھتا ہے اس لیے کہ وہ جو اقبال نے کہا تھا  ع
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
تو جاگیردار وزیر بن جائے یا سفیر، اس کی رگِ جاں محکمہ مال ہی کے پنجے میں رہتی ہے! ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کرپشن کا رونا رویا جاتا ہے، سیاست دانوں سے لے کر پولیس تک، کسٹم سے لے کر ماہی گیری تک، ترقیاتی اداروں سے لے کر جہازوں کی خرید و فروخت تک، سب کو برہنہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نہیں ذکر ہوتا تو کچہریوں میں ہونے والی کرپشن کا ذکر نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے حکومتوں نے اور عوام نے اور کرپشن کے خلاف کام کرنے والے اداروں نے ذہنی طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ کچہریوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ’’معمول‘‘ کی کارروائی ہے۔ یا وہ ایک لحاظ سے اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ناقابلِ اصلاح ہے۔ ضلعی انتظامیہ میں جو افسر فوج سے آئے، ان میں سے چند ایک نے ضرور کوشش کی کہ محکمہ مال کا قبلہ درست کیا جائے مگر پورا سیٹ اپ ان کے خلاف تھا۔ ایک شخص کیا کر سکتا ہے اور کتنا کر سکتا ہے۔ یوں بھی ایسے افسر کو جلد کسی ’’بے ضرر‘‘ عہدے پر لگا دیا جاتا ہے۔
صدر پرویز مشرف نے ضلعی ناظم کا ڈول ڈالا۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ انگریزوں کی قائم کردہ روایت سے بغاوت تھی۔ انگریزوں نے ڈپٹی کمشنر کا ادارہ اس لیے قائم کیا تھا کہ وہ ہر حال میں ملکہ برطانیہ کا وفادار رہے۔ اس کی اصل ڈیوٹی ضلع کے عوام کی خدمت نہیں تھی بلکہ انگریزی اقتدار کا استحکام تھا۔ یہ الگ بات کہ یہ انگریز ڈپٹی کمشنر محنتی تھے اور انصاف قائم کرنے میں دلچسپی لیتے تھے۔ ان لوگوں نے خوب محنت کی۔ مقامی زبانیں سیکھیں، ہر ضلع کی تاریخ، جغرافیہ اور سماجی حالات مرتب کر کے ضلعی گزٹ تصنیف کیے اور شائع کیے۔ پاکستان بنا تو ڈپٹی کمشنر نے یہ سارے کام چھوڑ دیئے۔ وہ سیاست دانوں کو خوش کرنے میں لگ گیا۔ کسی ضلع کا گزٹ بھی 1947ء کے بعد آگے نہیں بڑھا۔ ڈپٹی کمشنر کو معلوم تھا کہ ووٹ اس نے لینے نہیں۔ تین سال رہنا ہے۔ پھر ادھر کا رخ نہیں کرنا۔ تعلق وہ صرف ضلع کے چیدہ چیدہ عمائدین سے قائم رکھتا تھا جو اس کے کیریئر کی تعمیر میں کام آ سکتے تھے۔
ضلعی ناظم کا ادارہ وجود میں آیا تو یہ ایک اجالے کی کرن تھی۔ ناظم کو معلوم تھا کہ اس کا جینا مرنا اسی ضلع میں ہے۔ اس نے اپنے ووٹروں کو بھی منہ دکھانا تھا۔ اپنی ساکھ بھی بنانی تھی۔ شہرت بھی داغدار ہونے سے بچانی تھی اور ضلعی اسمبلی میں اپوزیشن کا سامنا بھی کرنا تھا۔ اگر ضلعی حکومتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ اگر ناظم حضرات تربیتی مراحل سے گزرتے رہتے۔ تجربہ حاصل کر جاتے تو اس ملک کی قسمت بدل جاتی۔ کہاں تین سال بعد غائب ہونے والا بابو ڈپٹی کمشنر اور کہاں شلوار قمیض اور چپل پہننے والا ناظم جس کا سب کچھ اسی ضلع میں تھا۔ یہ کالم نویس شدید احساسِ ذمہ داری کے ساتھ دعویٰ کر رہا ہے کہ اگر ضلعی حکومتیں زندہ رہتیں تو کچہریوں میں کی جانے والی کرپشن کا، جلد یا بدیر، سدباب ہو جانا تھا مگر افسوس! سیاست دانوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر ضلعی ناظم کو چلتا کیا اور یس سر یس سر کا راگ الاپنے والی نوکرشاہی کو دوبارہ ضلع کا بادشاہ بنا ڈالا۔ گویا اکیسویں صدی سے ملک واپس کلائیو اور کرزن کے زمانے میں پہنچ گیا۔ انڈونیشیا میں کسٹم کے شعبے میں جب کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اس ملک نے ایک عجیب و غریب حل نکالا۔ اس نے کسٹم کے شعبے کی نجکاری کر دی۔ سوئٹزر لینڈ کی ایک فرم کو یہ کام سونپ دیا گیا۔ اس فرم کے دفاتر دنیا کے بہت سے ملکوں میں تھے۔ اس کے ملازمین درآمدات اور برآمدات کی قیمت کا تعین کرنے کے ماہر تھے۔ طریقِ کار یوں تھا کہ فرض کیجیے، انڈونیشیا کے ایک تاجر نے جاپان سے مال منگوایا۔ یہ فرم جاپان میں اس مال کا معائنہ کرے گی اور تصدیق کرے گی کہ مال بیچنے والی جاپانی کمپنی اتنی ہی قیمت مانگ رہی ہے جو جاپان کی منڈی میں ہر جگہ مانگی جا رہی ہے۔ پھر وہ اس مال کی مالیت کا حساب لگا کر مال کو سربمہر کر دے گی اور انڈونیشیا کی حکومت کو اپنے طور پر کاغذات بھیجے گی جس میں مالیت کا اندراج ہو گا۔ اور یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ درآمد کرنے والے سے کسٹم محصول کتنا لیا جائے گا۔اس عمل کا نام Pre-shipment Inspection
 تھا۔ یوں کسٹم کے اہلکاروں کے اختیارات برائے نام رہ گئے۔ وہ اپنے طور پر مال کی قیمت کم یا زیادہ کر سکنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اس طرح بہت حد تک بدعنوانی کا خاتمہ ہو گیا۔ بعد میں اس نظام کا کیا بنا اور صدر سوہارتو کے خاندان کی رسوائے زمانہ بدعنوانی کس طرح آڑے آئی، یہ ایک الگ داستان ہے جس کا آج کے موضوع سے تعلق نہیں۔
کچہریوں میں عام پاکستانی سسک رہا ہے۔ بلک رہا ہے۔ نائب قاصد سے لے کر پٹواری تک، قانون گو سے لے کر تحصیل دار تک، اور اس سے ’’اوپر‘‘ تک ایک باقاعدہ لمبا چوڑا ’’سلسلہ‘‘ ہے جو چلا آ رہا ہے، جڑیں جس کی گہری ہیں او رشاخیں جس کی فضا میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ انتقال تو بعد کی بات ہے، محکمہ مال سے فرد لینا جان جوکھوں کا کام ہے۔
اس کا ایک ہی علاج ہے۔ نجکاری! نجی شعبے کی کسی نیک نام کمپنی کو یہ کام سونپیے۔ ایک تو وہ لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کر دے گی۔ جسے پٹواری جان پر کھیل جائے گا مگر نہیں ہونے دے گا۔ پھر وہ کمپنی ہر کچہری میں اپنا کائونٹر قائم کرے۔ سائل وہاں جائے ،سرکار کی طرف سے مقررہ فیس ادا کرے اور کمپنی سارا کام کر کے، ایک مقررہ تاریخ کے اندر اندر سائل کے حوالے کرے۔ رہا یہ اعتراض کہ ایسی کمپنی بھاری معاوضہ لے گی۔ تو جو رقم اہلکاروں کی جیبوں میں جا رہی ہے، یہ ’’بھاری‘‘ معاوضہ اس سے کم ہی ہو گا۔ کہیں کم!!
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسا انقلابی قدم اٹھانے کے لیے مہاتیر یا لی کوآن یو، جیسے رہنما درکار ہیں۔ اور مہاتیر اور لی جیسے رہنما بازار سے نہیں ملتے   ع
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے!

Wednesday, February 10, 2016

سینے پر رکھا بیر اور گھڑ سوار

دادا خان نوری غصے میں تھے۔ ’’آپ پاکستانی عجیب لوگ ہیں!‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کا سرخ سفید چہرہ مزید سرخ ہو گیا۔ میں ہنس پڑا۔
پہلی ملاقات دادا خان نوری سے تاشقند میں ہوئی۔ مختار حسن مرحوم نے ان کا پتہ دیا تھا۔ اُس وقت تاشقند میں پاکستانی سفارت خانہ تھا ‘نہ اسلام آباد میں ازبک سفارت خانہ! وسط ایشیا کی ریاستیں نئی نئی آزاد ہوئی تھیں۔
دادا خان نوری نے تاشقند یونیورسٹی میں ہندی پڑھی تھی۔ اس لیے اردو لکھ نہیں پاتے تھے مگر بول لیتے تھے۔ تاشقند میں وہ پاکستان کے چلتے پھرتے سفیر تھے۔ پاکستان کی محبت دل میں بسائے‘ کبھی سفارت خانے کے قیام کی کوشش کر رہے ہوتے‘ کبھی پاکستانی سیاحوں کی رہنمائی کر رہے ہوتے اور کبھی پاکستان کے سفر کی تیاری کر رہے ہوتے ۔کئی بار پاکستان آئے۔ متعدد بار غریب خانے پر قیام کیا۔ یہ لوگ پانی نہیں پیتے۔ مسلسل چائے پیتے ہیں جس میں میٹھا نہیں ہوتا۔ جب بھی تشریف لاتے، گھر والے ان کی چائے کا خاص خیال رکھتے۔ چینک ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتی۔
اُس دن صبح صبح اُٹھ کر وہ سیر کے لیے باہر چلے گئے۔ واپس آئے تو غصے میں تھے۔ ’’آپ پاکستانی عجیب لوگ ہیں۔ ہر گھر کے ساتھ، اردگرد، خالی جگہ ہے اور بیکار پڑی ہے۔ کیا آپ لوگ پھل دار درخت نہیں لگا سکتے؟ کیا آپ لوگ سبزیاں نہیں اگا سکتے؟‘‘
میں ہنس پڑا۔ اور کیا کرتا! تزک بابری یاد آ گئی جس میں بابر اہلِ ہند کا تمسخر اڑاتا ہے کہ باغوں، پھولوں، پودوں کا ذوق نہیں رکھتے۔ تاشقند میں اور پورے وسط ایشیا میں یہ حال ہے کہ ہر گھر پھلوں میں تقریباً خود کفیل ہے۔ روایتی گھروں کا نقشہ ہی وہاں یہ چلا آ رہا ہے کہ اردگرد رہائشی کمرے ہوتے ہیں اور درمیان میں بڑا صحن جسے ’’حولی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پھلوں کا باغ ہوتا ہے۔ انگور، چیری، سیب، اخروٹ، ناشپاتی، آڑو، آلو بخارا اور نہ جانے کیا کیا۔ چیری اور شہتوت کا رس ہرگھر میں عام استعمال ہوتا ہے۔
دادا خان نوری کے بجائے کوئی اور ہوتا، کوئی انگریز ہوتا، سنگاپور کا کوئی چینی ہوتا، کوئی جاپانی ہوتا، اُس نے بھی یہی کہنا تھا کہ تم پاکستانی عجیب مخلوق ہو! اس میں کیا شک ہے کہ ہم اہلِ پاکستان عجیب لوگ ہیں۔ 
اپوزیشن ہماری گھٹی میں پڑی ہے۔ جو حکومت بھی ہو، اس میں کیڑے نکالتے ہیں۔ احتجاجی سیاست میں جواب نہیں۔ ہاں! اگر نہیں کرنا تو خود کچھ نہیں کرنا۔ ہماری مثال اُس شخص کی ہے جو شاہراہ کے کنارے گھاس پر لپٹا ہوا تھا۔ اس کے سینے پر بیر رکھا تھا۔ ایک گھوڑ سوار گزرا تو اسے کہا کہ گھوڑے سے اترو اور یہ بیر میرے منہ میں ڈالو۔ گھوڑ سوار نے سنی ان سنی کر دی۔ اس پر لیٹے ہوئے شخص نے طعنہ دیا کہ تم کس قدر سست ہو۔
گھروں کے اندر اور گھروں کے ارگرد پھل دار درخت لگانا اور سبزیاں اگانا تو دور کی بات ہے۔ نوے پچانوے فی صد گھروں کے ارگرد کوڑا کرکٹ پڑا ہوتا ہے۔ وہی نہیں صاف کیا جاتا تو پھل دار پودے کون لگائے! گیٹ کے نیچے نالی نہیں رکھی جاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں کی ’’کوٹھی‘‘ کے پورچ میں کاریں دھوئی جاتی ہیں اور پانی گلی میں بہتا ہے۔ جتنی وسیع زمین قدرت نے اہلِ پاکستان کو دی ہے، بہت سے ملک اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایسے ملک بھی ہیں جو سبزیاں اور پھل دار درخت گملوں میں لگا اور اگا رہے ہیں اور ہم سے زیادہ پیداوار حاصل کر رہے ہیں! یہ امتیاز صرف ہمیں حاصل ہے کہ زمین وافر ہے۔ وقت کی کمی نہیں۔ مگر ہمت ہے نہ عقل۔
پانی کی کمی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ بارش کا پانی لاکھوں کروڑوں لٹرضائع ہو رہا ہے۔ جو ممالک اس ضمن میں حساس ہیں، وہاں بارش کاپانی جمع کر لیا جاتا ہے۔ چھتوں کا پانی پائپ کے ذریعے نیچے لایا جاتا ہے۔ ایک الگ ٹینکی اس پانی کے لیے بنائی جاتی ہے اور یوں اس پانی کا ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ باغبانی کے لیے، کار دھونے کے لیے اور کئی دوسرے مقاصد کے لیے یہی پانی استعمال ہوتا ہے۔ کموڈ کی ٹینکی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے، دو بٹن لگائے جاتے ہیں تا کہ ہر بار پوری ٹینکی کے بجائے، آدھی ٹینکی کا پانی فلش میں استعمال ہو۔ یوں پانی کا استعمال پچاس فی صد کم کر لیا جاتا ہے۔ لیکن اجتماعی سطح پر جس ملک میں بارشوں اور سیلابوں کا اربوں کھربوں ٹن پانی ضائع ہو رہا ہے اور سیدھا سمندر میں گر رہا ہے‘ وہاں انفرادی لحاظ سے گھروں کا ماتم کیاکیا جائے۔ حکومت ڈیم نہیں بنا رہی۔ بری ہے، مگر کیا زمیندار اور کسان ڈیم بنا رہے ہیں؟
گھروں کی تعمیر پر غور کیجیے۔ غور کرنے سے آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ شخص، جو پتلون قمیض یا ریشمی واسکٹ پہنے، راج اور مزدوروں کے سر پر کھڑا، محل نما مکان بنوا رہا ہے، کس قدر احمق ہے! ایک طرف یہ رونا کہ بجلی مہنگی ہے۔ ایئرکنڈیشنر کا بل زیادہ آ رہا ہے۔ ہیٹر چلے تو گیس کی قیمت جیب پر جیسے ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ دوسری طرف گھروں کے کمرے بے تحاشا بڑے۔ ایک اصطلاح چل نکلی ہے۔ ’’ماسٹر بیڈ روم‘‘۔ یہ بڑا ہونا چاہیے۔ عقل کے اندھے سے پوچھیں کہ کیوں بڑا ہونا چاہیے؟ کیا تم نے یہاں کبڈی کھیلنی ہے؟ تمہارا دن پیسے کمانے میں خرچ ہو جاتا ہے۔ بیگم صاحبہ کچن میں مصروف رہتی ہیں یا ملنے ملانے میں۔ شام کو تم لوگ لائونج میں بیٹھ کر، بچوں کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہو۔ ماسٹر بیڈ روم رات کو سونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آدھا ہو، تب بھی کافی ہے۔ ایک خواب گاہ میں آخر کیا چاہیے؟ پلنگ، سنگل یا ڈبل! ایک دو کرسیاں۔ تھوڑی سی جگہ نماز ادا کرنے کے لیے۔ بس یہ ہے ایک خواب گاہ کی ضرورت۔ بیڈ روم جتنا چھوٹا، یعنی ضرورت کے اعتبار سے پورے سائز کا ہو گا، بجلی، ہیٹر اور ایئرکنڈیشنر کا خرچ اتنا ہی کم ہو گا۔ اسی طرح سچ پوچھیے تو کھانے کے کمرے کی الگ ضرورت نہیں۔ کھانے کی میز لائونج میں بھی لگائی جا سکتی ہے اور بیٹھک میں بھی جسے اب ڈرائنگ روم کہا جاتا ہے جو شیش محل کی طرح سجایا جاتا ہے مگر استعمال کم ہی ہوتا ہے۔ کمروں کا سائز کم کرنے سے، جو جگہ بچے، اس سے صحن کا یالان کا سائز بڑا ہو سکتا ہے۔ جہاں سبزہ بھی لگایا جا سکتا ہے، پھل دار درخت بھی اور سبزیاں بھی اگائی جا سکتی ہیں۔
’’عقل مند‘‘ ملکوں میں گھروں کی بیرونی صورت پر پیسہ نہیں لٹایا جاتا۔ امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک دیکھ لیجیے، باہر سے سارے گھر سادہ اور ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر حالت میں رنگ روغن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہ صرف پاکستان اور عرب دنیا میں گھروں کی بیرونی آرائش پر بے تحاشا اسراف بلکہ تبذیر سے کام لیا جاتا ہے۔ ڈھیروں ماربل تھوپا جاتا ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے خوبصورت، زیور نما، اینٹیں منگوا منگوا کر، ٹانکی جاتی ہیں۔ کچھ ’’اہلِ ذوق‘‘ گیٹ پر سونے کے رنگ کی پتریاں لگواتے ہیں، جنہیں دیکھ کر، سچ پوچھیے تو اُبکائی آتی ہے۔ اس دبئی پلٹ ذہنیت کا بس چلے تو مکانوں کے باہر سونے کی چوڑیاں، بندے، بِندی اور ٹِکا بھی لٹکا دے۔ 
مگر عوام پر کیا گلہ! جس ملک کے حکمرانوں کی ذہنی سطح یہ ہو کہ وہ کروڑوں روپوں کی گھڑی باندھ کر تسکین حاصل کریں‘ وہاں کے عوام کا ذوق بھی تو یہی ہو گا کہ گھر کروڑوںکے، گلیوں میں کوڑا کرکٹ، درخت پودے پھل پھول ناپید اور سڑکوں پر پانی۔

Monday, February 08, 2016

مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری

مریض کو داخل کرانے کے تین چاردن بعد ہی معلوم ہوگیا تھا کہ ہسپتال کا معاملہ گڑبڑ ہے۔
ہسپتال کیا تھا، افراتفری کی منڈی تھا۔ بدانتظامی کا بدترین نمونہ! کوئی ڈاکٹر وقت پر نہیں آتا تھا۔ نرسیں آرام سے بیٹھی سویٹریں بنتی رہتیں۔ دوائیںجن دکانداروں سے خریدی جاتیں انہی کو آدھی قیمت پر واپس بیچ دی جاتیں۔ آپریشن تھیٹر ذبح خانوں کی طرح تھے، جہاںمریضوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح چیرا پھاڑا جاتا۔ وارڈ اتنے گندے کے ابکائی آتی!
اس بدانتظامی میں مریض کیا خاک ٹھیک ہوتا۔ ایک ہی راستہ بچا تھا کہ ہم اپنے مریض کو یہاں سے اٹھائیں اور کسی ڈھنگ کے شفاخانے میں لے جائیں، خواہ وہ مہنگا ہی کیوں نہ ہو۔
مگر اب ایک اور سیاپا پڑ گیا۔ مریض کے لواحقین دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ چاہتا تھا کہ مریض کو کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں۔ دوسرے گروہ کا موقف تھا کہ مریض یہیں رہے مگر ہسپتال کا نظام بہتر کیا جائے۔ سسٹم کی خرابیاں دور کی جائیں۔ ڈاکٹروں کو نظم و ضبط کا پابند کیا جائے۔ ادویات کی خورد برد کو کنٹرول کیا جائے۔ بدمزاج، نکمی نرسوں کو برطرف کرکے نیا عملہ بھرتی کیا جائے۔ آپریشن تھیٹر نئے بنائے جائیں۔ جب ہسپتال کی حالت بدلے گی تو ہمارے مریض کا علاج بھی بہتر ہونے لگے گا!
آپ کا کیا خیال ہے، مریض کے حق میں کیا بہتر تھا؟ پہلے گروہ کا موقف کہ مریض کو یہاں سے کہیں اور لے جایا جائے یا دوسرے گروہ کا نقطۂ نظر کہ پہلے سسٹم کو ٹھیک کرو! ظاہر ہے سسٹم کے ٹھیک ہوتے ہوتے مریض نے جان دے دینی تھی۔ تاتریاق ازعراق آوردہ شود ۔ مارگزیدہ مردہ شود۔ عراق سے تریاق کے آتے آتے سانپ کا ڈسا ہوا اللہ کو پیارا ہو جائے گا!
یہی تو ہم چیخ رہے ہیں کہ اللہ کے بندو! پی آئی اے مریض ہے۔ ایسا مریض جو جاں بلب ہے۔ ہچکی لگی ہے۔ جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اسے سرکاری شعبے کی بدعنوانی اور بدانتظامی سے نکال کر نجی شعبے میں لے جائو، ورنہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے ملازمین اس مریض کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیں گے اور یونین کے سفاک خود غرض عہدیدار اپنے شکم کے تنوروں کی خاطر اس مریض کو زمین کے اندر دفنا کردم لیں گے۔ مگر دوسرا گروہ مصر ہے کہ نہیں! پی آئی اے کو سرکاری شعبے ہی میں رکھا جائے۔ ہاں، سرکاری سیکٹر میں جو خرابیاں ہیں وہ دور کی جائیں! یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ جو سرکاری سیکٹر میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، تو اس کے ٹھیک ہونے کا تو کوئی امکان ہی دور دور تک نہیں نظر آتا۔ تو کیا رشوت، بدانتظامی، نااہلی، اقربا پروری، دوست نوازی، یونین بازی، بددیانتی، خیانت… دور ہونے تک پی آئی اے اسی طرح گلتی سڑتی رہے؟ یہاں تک کہ گلے سڑے جسم میں کیڑے پڑ جائیں اور لاش ویرانے میں پھینک دی جائے؟
دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ آخر یہی سرکاری سیکٹر تھا جس میں پی آئی اے، ساٹھ ستر کے عشرے میں لاجواب کارکردگی دکھا رہی تھی اور دنیا کی بہترین ایئرلائنوں میں شمار ہوتی تھی! بجا فرمایا! مگر وہ تو ماضی کا قصہ ہے! اس وقت پاکستان کی حکومتوں میں بدعنوانی، رشوت اور اقربا پروری برائے نام تھی۔ قانون کی بالادستی تھی۔ اس وقت تو ریلوے بھی درست چل رہی تھی۔ واپڈا بھی صحیح کام کر رہا تھا۔ لوڈشیڈنگ کے نام سے بھی کوئی نہیں واقف تھا۔ ڈاکخانے کا محکمہ برق رفتار تھا۔ کراچی سے خط دوسرے دن لاہور پہنچ جاتا تھا۔ آپ کس زمانے کی بات کر رہے ہیں؟ وہ زمانے ہوا ہو چکے۔ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اس وقت پاکستان کا حکومتی شعبہ گیلانیوں، راجہ اشرفوں، ڈاکٹر عاصموں، سیف الرحمانوں، گلو بٹوں اور ایان علی جیسی ماڈلوں کی چراگاہ نہیں ہوا تھا۔ آپ کا حکومتی شعبہ تیز دھار دانتوں اور مضبوط جبڑوں کے درمیان پھنس چکا ہے۔ اب تو حاجیوں کے احرام بک گئے۔ ریلوے کی ہزاروں ایکڑ زمینیں غائب ہوگئیں۔ ڈاکخانے کا یہ عالم ہے کہ یو ایم ایس(ارجنٹ میل سروس) جس نے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ملنا ہوتا ہے، پانچویں دن ملتا ہے۔ نافرمان بیٹے کو ماں نے بددعا دینی ہو تو کہتی ہے جا تجھے واپڈا اور سوئی گیس کے محکموں سے پالا پڑے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے دل میں حکومتی سیکٹر کے لئے نرم گوشہ موجود ہے تو جائے اور جا کر ایک دن کچہری میں گزارے، ایک دن تھانے میں بیٹھ کر دیکھ لے یا پانچ مرلے کا پلاٹ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں جا کر بیٹے کے نام منتقل کرکے مزا چکھ لے!
دوست گرامی جناب ارشاد عارف کا یہ نکتہ بالکل درست ہے کہ سٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن کی نج کاری کے بعد راتوں رات فی بوری قیمت میں ایک سو روپے کا اضافہ ہوا! غلط ہوا۔ مگر حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، دوسروں کے کاروبار پر نظر رکھنا ہے۔ ایک طریقہ قیمتیں کم کرنے کا آزادانہ مسابقت ہے۔ امریکہ اور پورے یورپ میں نجی ایئرلائنوں کا جال بچھا ہے، مقابلہ اتنا ہے کہ سفر کرنے سے ایک ماہ پہلے کوڑیوں کے بھائو ٹکٹ ملتے ہیں۔ میلبورن سے سڈنی تک تیس تیس ڈالر میں ٹکٹ ملتے دیکھے ہیں!
کوفہ آباد ہوا تو اس کی تعمیر و توسیع میں سرکاری سیکٹر کا کوئی عمل دخل نہ تھا مگر حکومت عوام کے مفاد کے لئے چوکنا تھی۔ حضرت عمرؓ نے حکم جاری کیا کہ کوئی عمارت اتنی منزلوں سے زیادہ کی نہ ہو۔ پھر جب گھوڑوں کا ایک تاجر مدینہ میں بہت سے گھوڑے لے آیا تو آپ نے اس پر واضح فرمایا کہ اپنے گھوڑوں کا چارہ باہر سے منگوائو کیونکہ مدینہ کا سارا چارہ تمہارے گھوڑے کھاگئے تو دوسروں کا کیا بنے گا! یہ ہیں حکومت کے فرائض! یوں بھی حکومت خود کاروبار کرنے لگے تو دوسروں کے کاروبار کو غیر جانبدارانہ طور پر کس طرح کنٹرول کرسکے گی؟ اس کا کام تو یہ ہے کہ کاروبار کی دنیا کو شفاف رکھے، خیانت کرنے والوں کو کڑی سزا دے۔ ناجائز منافع خوری کو روکے اور ٹیکس جمع کرکے عوام کو سکیورٹی فراہم کرے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ ہر دوسرے گھر میں ڈاکہ پڑ رہا ہے۔ اغوا برائے تاوان کا جرم انڈسٹری کا روپ دھار چکا ہے۔ بھتہ خوری عام ہے اور حکومت ایئر لائنیں چلا رہی ہے! واہ! کیا بات ہے حکومتی ترجیحات کی!!
ہاں! یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ نج کاری شفاف انداز میں ہونی چاہئے۔ حکمرانوں کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے کسی منظور نظر فرد یا افراد کو قومی اثاثے اونے پونے داموں فروخت کریں اور یوں دال جوتیوں ہی میں بٹ جائے۔
ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ پی آئی اے کی نج کاری کے لئے حکومت ایک غیر جانبدار کمیٹی بنائے جس میں اپوزیشن جماعتوں کی بھرپور نمائندگی ہو۔ نج کاری کا سارا عمل ایسی کمیٹی کی نگرانی میں مکمل کیا جائے۔ اس میں اسد عمر، نوید قمر، کائرہ صاحب اور دوسرے اصحاب شامل ہوں اور اگر اپوزیشن جماعتیں تعاون نہ کریں تو نجی شعبے سے اچھی شہرت رکھنے والے ٹیکنوکریٹ اس کمیٹی کے رکن بنائے جائیں۔ سب کچھ میڈیا کی آنکھوں کے سامنے ہو اور نجکاری پوری شفافیت اور حق و انصاف سے کی جائے!
رہا یہ مطالبہ کہ پی آئی اے حکومتی شعبہ ہی میں رہے مگر حکومتی شعبہ اپنے لچھن ٹھیک توکرے۔ یہ مطالبہ ایسے ہی ہے جیسے یہ فرمائش کی جائے کہ زرداری صاحب عبدالستار ایدھی بن جائیں ، میاں محمد نواز شریف مہاتیر بن جائیں اور سید قائم علی شاہ سنگاپور کے لی بن جائیں۔ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو پھر یہ خبر بھی درست ہو گی کہ    ؎
سکھر کا پُل، جہلم دریا دونوں ہو گئے چوری
مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری

Saturday, February 06, 2016

بابے

عجیب عالم تھا۔ بیان نہیں کر سکتا۔ زمین… اگر وہ زمین تھی تو ‘ مختلف قسم کی تھی۔ آسمان تھا ہی نہیں! وزن ناپید تھا۔ قدم اٹھاتا تو سینکڑوں ہزاروں میل کی مسافت طے ہو جاتی! ستارے اِدھر اُدھر لڑھک رہے تھے۔ کہکشائیں‘ ایک دوسرے کو شاہراہوں کی طرح کاٹتیں‘ مختلف سمتوں کو رواں تھیں۔ کہیں پھل بوٹے تھے اور باغ چمنستان‘ کہیں پہاڑیاں تھیں‘ سیب اور انار کے درختوں سے ڈھکی ہوئی۔ کبھی صحرا نظر آتے مگر یوں کہ ان کے درمیان میں دریا رواں دواں تھے جن کے کناروں پر سبزہ زار تھے۔ طائروں کی اتنی اقسام تھیں کہ عقل دنگ تھی۔ بولیاں ان کی طرح طرح کی! معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ عالم یہ خواب کا تھا یا بیداری کا۔ اچانک ایک پردہ سا افق سے افق تک تن گیا۔ معلوم ہوا فرشتہ اڑ رہا ہے اور اس کے پروں نے پورے منظر کو جیسے ڈھانپ لیا ہے۔
اچانک دیکھا تو ایک قالین اڑتا چلا آ رہا ہے ۔ایک بزرگ تکیے سے ٹیک لگائے اُس پر نیم دراز بیٹھے ہیں اور کتاب پڑھ رہے ہیں۔ ایک طرف سے جُھک کر دیکھا تو کتاب کا نام نظر آیا… ’’باغ و بہار‘‘۔سوچنے لگا ان بزرگوار کو کہیں دیکھا ہے‘ ایک آواز آئی‘ یہ میر امن دہلوی ہیں اور فورٹ ولیم کالج کے لیے ایک نئی تصنیف کی تیاری کر رہے ہیں۔ عجیب عالم تھا اس جہان کا۔ ذرا یادداشت پر زور دیا اور آواز نے آ کر یاد تازہ کر دی! قالین رک گیا۔ میر امن قالین سے اترے‘ کتاب ہاتھ میں پکڑے ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اور غالیجہ اڑتا چلا آ رہا ہے۔ ایک بزرگ اس پر نیم دراز محو استراحت تھے۔ آواز آئی یہ رجب علی بیگ سرور ہیں۔ لکھنؤ سے آ رہے ہیں۔ بغل میں فسانۂ عجائب نامی کتاب تھی۔ وہ بھی اترے اور میر امن دہلوی کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پھر عبدالحلیم شرر آئے۔ مٹیا برج کلکتہ سے براہ راست سواری ان کی آئی تھی۔
اتنے میں ایک پورا گروہ آتا نظر آیا۔ آگے آگے سر سید احمد خان۔ پیچھے ان کے منشی ذکاء اللہ ‘ حالی‘ شبلی نعمانی‘ ڈپٹی نذیر احمد اور ڈپٹی صاحب کے پیچھے مودبانہ چلتے مرزا فرحت اللہ بیگ! ایک طرف رتن ناتھ سرشار نظر آئے‘ دوسری طرف سے ایک بزرگ‘ صافہ باندھے‘ گھوڑے پر سوار چلے آ رہے تھے۔ دائیں بائیں شاگرد‘ کتابیں کھولے‘ ساتھ ساتھ قدم زن ۔سبق جاری تھا۔ آواز آئی یہ محمد حسین آزاد ہیں اور گورنمنٹ کالج لاہور سے آ رہے ہیں۔پھر منشی پریم چند آئے۔ پھر ایک خاتون آئیں۔ حنا سے بال سرخ تھے۔ ذرا تنک مزاج مگر شان سب سے الگ۔ کتابوں کا انبار ساتھ ساتھ چلا آ رہا تھا۔۔۔۔ کارِ جہاں دراز ہے‘ چاندنی بیگم اور آگ کا دریا۔ یہ قرۃ العین حیدر تھیں۔ ان کے دائیں طرف عبداللہ حسین تھے۔
پھر شعرا آنا شروع ہوئے۔ علامہ اقبال کے ساتھ ان کے علی بخش حقہ پکڑے تھا۔ حیرت تھی کہ سب اسی میدان میں کیوں جمع ہو رہے تھے۔ وہ دیکھیے جُھومتے جھامتے جگر مراد آبادی چلے آ رہے ہیں۔ ن م راشد بدستور پائپ پی رہے تھے اور ’’لا۔انسان‘‘ ہاتھ میں لیے تھے۔ ایک دُبلا پتلا شخص‘ نظر کی عینک لگائے‘ سائیکل بہت آہستہ چلاتا آیا۔ آواز آئی یہ مجید امجد ہیں جنہیں بلیک آئوٹ کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہ نصابی کتابوں سے انہیں آئوٹ رکھا گیا مگر شان ان کی اسی طرح اونچی رہی‘ کمی کوئی نہ لاسکا! انہوں نے سائیکل کھڑی کی تو خود بخود ٹِک گئی اور وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ اچانک ایک جانی پہچانی آواز آئی ۔’’اظہار! چھوٹے بحر کی غزل سنائو تو تمہارا کچھ پتا بھی چلے‘‘ یہ جون ایلیا تھے جو حالتِ حال میں تھے!
پھر ایک خوش وضع ‘ خوش لباس‘ نرم گفتار شاعر تشریف لایا۔ یہ فیض تھے۔ آواز آئی‘ان کی شاعری نے ان کا قد اتنا اونچا کیا کہ کسی بیساکھی کی ضرورت نہ تھی مگر ان کے پس ماندگان نے الیکٹرانک میڈیا پر قبضہ کیے رکھا اور اپنی غرض کے لیے انہیں سیاسی شاعر بنانے کی کوشش کی۔ فیض صاحب نے اس سارے بکھیڑے سے یکسر بیزاری کا اظہار کیا! پھر ایک ترکمانی قالین اڑتا آیا۔ ایک بزرگ اس پر پورے دراز تھے۔ یہ منیر نیازی تھے۔ میریٹ اسلام آباد کے مشاعرے میں سٹیج پر اسی طرح لیٹے تھے کہ وہیں سے اس طرف چل پڑے۔
پھر ایک بزرگ آئے ۔ سون سکیسر کی پگڑی پہنے اور سرخ لاچہ باندھے ۔ خوش گفتار اتنے کہ بات کریں تو پھول جھڑیں ۔ چہرے پر ملائمت ہی ملائمت۔ نرمی ہی نرمی۔ کئی قالین ان کے دائیں بائیں جیسے تیرتی چلی آ رہی تھیں۔ ایک پر افسانوں کے مجموعے، دوسری پر شاعری کے دیوان‘ تیسری پر فکاہی کالم‘ چوتھی پر فنون کی فائلیں۔ یہ احمد ندیم قاسمی تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے فراز صاحب‘ کنکھیوں سے خواتین کو دیکھے جا رہے تھے‘ مگر خواتین میں تھیں ہی کون‘ قرۃ العین حیدر‘ خدیجہ مستور اور جمیلہ ہاشمی!
پھر ایک آواز آئی جس نے سب کی سماعتوں کو ڈھانپ لیا۔’’اب وہ صاحب آ رہے ہیں جن کے استقبال کے لیے ان متقدمین اور متاخرین کو یہاں دعوت دی گئی ہے‘‘۔ ہلکا سا شور برپا ہوا۔ ایک طرف سے کچھ گرد اٹھی‘ پھر بیٹھی ۔ سب کی نظریں اُسی طرف تھیں۔ دیکھا تو یہ انتظار حسین تھے۔ چال میں آہستگی تھی۔ مگر عجیب دلکشی! نظروں میں بیٹھ جانے والی! سب نے مرحبا مرحبا کہا۔ کوئی صدقے کہہ رہا تھا تو کوئی جی آیاں نوں! اب جو معانقے اور مصافحے شروع ہوئے تو ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہے تھے۔ کبھی رجب علی بیگ ان کی پیٹھ پر تھپکی دیتے تو کبھی میر امن۔ دہلوی بابائے اردو ڈاکٹر عبدالحق نے تو گال بھی تھپتھپائے !! فراق صاحب دیر تک بغل گیر رہے! کوئی ہاپوڑ کا حال پوچھ رہا تھا تو کوئی جاننا چاہتا تھا کہ لاہور میں نہاری عام ہوئی یا ابھی تک پائے اور نان چھولے ہی راج کر رہے ہیں! میرٹھ والے ایک طرف کھڑے ان سے بہت دیر باتیں کرتے رہے۔ ان میں سلیم احمد اور پروفیسر کرار حسین تھے۔ فراق صاحب نے پھبتی کسی: ’’میاں لاہور تو تم چلے گئے مگر تمہاری تحریریں ہجرت کا ماتم ہی کرتی رہیں‘‘۔
پھر خاموشی چھا گئی۔ اس خاموشی میں ناصر کاظمی کی آواز ابھری۔ انتظار ! تم چلے تو آئے مگر کیا پیچھے بھی کسی کو چھوڑ آئے؟ یا مکمل سناٹا ہے؟‘‘ انتظار حسین نے ناصر کاظمی کے سر پر اڑتے کبوتروں کو دیکھا اور بتانے لگے : ’’بس! منظر نامہ پیچھے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں! میرے حساب میں تو چار پانچ بابے ہی بچے ہیں! خدا کرے قسمت اردو کی یاوری کرے اور یہ عمر خضر پائیں!‘‘
’’کون کون سے؟ ‘‘ سب نے اشتیاق سے پوچھا۔ ’’بھائی‘ سب سے بڑا بابا تو ظفر اقبال چھوڑ آیا ہوں۔ کہولت سے بھر پور مقابلہ کیے جا رہا ہے اور مسلسل لکھے جا رہا ہے۔ شاعری میں وہی تازگی ہے اور کالموں میں وہی کاٹ جس سے مشکل سے ہی کوئی بچ پاتا ہے۔ پھر شمس الرحمن فاروقی کو چھوڑ آیا ہوں اور مشتاق احمد یوسفی کو۔ دو بابے اور ہیں‘ مستنصر حسین تارڑ سفر ناموں اور ناولوں کا بے تاج بادشاہ! ہر نئی تصنیف اس کی خستگی میں پرانے لاہور کے تازہ کلچوں کو مات کرتی ہے اور بابا عطاء الحق قاسمی جس نے کالم نگاری کی تو اس آن بان سے کہ اسے اردو ادب کی صنف بنا دیا ۔وصیت ناموں میں موت سے اتنا ڈرایا کہ سنا ہے تبلیغی جماعت والے ان وصیت ناموں کو اپنے نصاب کا حصّہ بنانے پر تلے ہیں!‘‘
انتظار حسین نے ناصر کاظمی کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف چل دیے۔ سروں پر کبوتروں کی ڈار تھی!!

Friday, February 05, 2016

جونک

بات صرف ایک بھیگے ہوئے تولیے کی تھی۔
غالباً یہ سنگا پور ایئر لائن تھی جس نے سب سے پہلے پانی میں بھیگا ہوا (wet) تولیہ مسافروں کو دینا شروع کیا تا کہ وہ ہاتھ پونچھ سکیں اور چہرے پر مل کر تھکاوٹ کا احساس کم کر سکیں۔ ایک ایئر ہوسٹس نے یہ بھیگا تولیہ پرس میں رکھ لیا۔ ’’چوری‘‘ برآمد ہوئی اور اسے نکال دیا گیا!
اس کے مقابلے میں پی آئی اے کی گزشتہ تیس چالیس برس کی تاریخ کھنگال کر دیکھ لیجیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پی آئی اے کے ملازمین کے گھر، پی آئی اے کی مصنوعات سے چلتے رہے تو اُس خدا کی قسم! جس نے انسان کو لوہے کے یہ پرندے، جنہیں ہوائی جہاز کہا جاتا ہے، بنانا سکھائے، اس میں کچھ مبالغہ نہ ہو گا۔ تولیہ؟ تولیہ کیا چیز ہے؟ پی آئی اے کے کمبل، پی آئی اے کی گدیاں، پی آئی اے کے کھانوں کے ڈبوں کے ڈبے، پی آئی اے کا ٹائلٹ کا سامان، پی آئی اے کے اخبارات اور رسالے، پی آئی اے کے مشروبات، ڈیوٹی فری اشیاء، پائلٹ سے لے کر ایئرہوسٹس تک۔ انجینئر سے لے کر نچلے درجے کے ٹیکنیشن تک، ہر شخص نے، ہر مرد اور ہر عورت نے پی آئی اے کو لوٹا۔ یقینا کچھ دیانت دار مرد اور عورتیں ہوں گی مگر آٹے میں نمک کے برابر، بلکہ اس سے بھی کم!
پی آئی اے کیا تھا؟ سمگلنگ کا ایک بڑا نیٹ ورک تھا۔ اسلام آباد لاہور، کراچی، پشاور، ملتان کوئٹہ میں مخصوص دکانیں تھیں جہاں امپورٹڈ مال ‘کپڑے، کوٹ، خوشبوئیں، جورابیں، نکٹائیاں، ٹریک سوٹ، میک اپ کا سامان، عورتوں کے پرس وغیرہ وغیرہ وغیرہ ملتا تھا اور یہ مال پی آئی اے کے ملازمین ان دکانوں پر آ کے بیچتے تھے۔ لبرٹی لاہور میں ان دکانوں کا سب کو پتہ تھا۔ جناح سپرمارکیٹ اسلام آباد، جو اب کھوکھوں کی وجہ سے راجہ بازار بن چکی ہے، ماضی قریب تک پی آئی اے کے ملازمین کا ’’پسندیدہ‘‘ کاروباری مرکز رہا ہے! یہاں کرسٹل ون اور کرسٹل ٹو کے نام سے شاندار دکانیں تھیں، پوری لائن میں دکاندار پی آئی اے کے کارندوں کے منتظر رہتے تھے۔
خدا کا خوف کریں وہ سیاست دان ‘جو آج پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت سیاسی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ مگر ایک مقام قبر بھی ہے جہاں جانا ہے۔ ایک میدان حشر بھی ہے جہاں جمع ہونا ہے۔ اس کالم نگار نے مسلم لیگ نون کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف بہت لکھا ہے۔ پنجاب گورنمنٹ سے اتنا اختلاف کیا ہے کہ سزا گائوں کے معصوم بے سہارا لوگ بھگت رہے ہیں جہاں ضلعی حکومت کی منظوری کے باوجود ڈسپنسری نہیں بنائی جا رہی۔ یہ سب اپنی جگہ، مگر پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر موجودہ حکومت ایک سو دس فی صد حق و انصاف پر ہے۔ چلیے، یہ افواہ بھی سچ مان لی جائے کہ یہ کسی ’’اپنی‘‘ پارٹی کو بیچ رہے ہیں تو وہ ’’اپنی‘‘ پارٹی بھی پی آئی اے کی خود غرض یونین بلکہ یونینوں سے لاکھ درجے بہتر چلائے گی!
عشروں پر عشرے گزرتے چلے گئے پی آئی اے میں بھرتیاں بیک ڈور سے ہوتی رہیں۔ خالص سیاسی بنیادوں پر۔ مدتوں پر مدتیں گزریں، اشتہار بھرتی کے کبھی نہ دیکھے گئے۔ ایک بار صرف دو لیڈی ڈاکٹر ملازم رکھی گئیں دونوں ایک سیاسی جماعت کے ’’رہنمائوں‘‘ کی صاحبزادیاں تھیں۔ ان میں سے ایک رہنما اس دنیا میں موجود نہیں۔ ایئرلائن کبھی جیالوں کے لیے دارالامان بنا رہا، کبھی متوالوں کے لیے اور کبھی صالحین کے لیے‘ کارکردگی بدترین رہی۔ لوگ ہمیشہ تمنائی رہے، مسافر ہمیشہ نالاں رہے۔ تارکینِ وطن کے جذبۂ حب الوطنی کا پی آئی اے کے خود غرض ملازمین نے خوب خوب استحصال کیا۔ وطن سے محبت کی وجہ سے تارکین وطن کی اکثریت اپنی ایئرلائن کو ترجیح دیتی رہی یہاں تک کہ پی آئی اے کی غیر ملکی پروازیں بند ہوتی گئیں۔ صرف ایک مثال‘ صرف ایک مثال دیکھ لیجیے: اِس کالم نگار پر کیا بیتتی رہی۔ واشنگٹن جانا تھا۔ پی آئی اے کے جہاز نے اسلام آباد سے لندن اس قدر تاخیر سے پہنچایا کہ واشنگٹن والا جہاز جا چکا تھا۔ اب رات گزارنے کے لیے پی آئی اے کوئی بندوبست کرنے سے 
انکاری تھی۔ پاکستان فون کر کے دبائو ڈالا گیا تب ایک یتیم سے ہوٹل میں ہمارے گروپ کو ٹھہرایا گیا۔ میکسیکو جانا تھا۔ پی آئی اے کے جہاز نے لاہور سے نیویارک اس قدر تاخیر سے پہنچایا کہ میکسیکو والا جہازجا چکا تھا۔ آدھی رات اِدھر اور آدھی اُدھر تھی۔ نیویارک ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی نمائندہ عورت تھی تو پاکستانی نژاد مگر پاکستان دیکھا ہی نہیں تھا۔ بات تک کرنے کی روادار نہ تھی۔ آخرکار نیویارک کے منیجر سے بات کی اور شب بسری کا انتظام ہوا۔ بنکاک پی آئی اے کی پروازیں ہمیشہ، پچانوے فیصد، ہوشرباتاخیر سے پہنچتیں، ہانگ کانگ، سڈنی، میلبورن، کوریا اور انڈونیشیا جانے والے جہاز جا چکے ہوتے۔ پھر ایک دن بنکاک سے پی آئی اے کا خاتمہ ہی ہو گیا۔ وہ پرواز نہیں بھولتی جو اسلام آباد سے بنکاک جارہی تھی۔ بزنس کلاس ان ’’مسافروں‘‘ سے بھری تھی جو پی آئی اے کے ملازم تھے۔ سب مفت خورے! جشن کا سماں تھا۔ آوازیں یوں آ رہی تھیں جیسے پکنک منائی جا رہی ہو! یہ کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہو گی۔ ایک عزیز کی رحلت ہو گئی۔ بھکر جانا لازمی ہو گیا۔ قریب ترین ہوائی اڈہ ڈی آئی خان تھا۔ پتہ چلا جہاز میں جگہ نہیں ہے۔ صرف محکمہ دفاع کی ایک دو مخصوص نشستیں موجود ہیں جن کے لیے کوشش کرنے کا مشورہ دیا گیا؛ چنانچہ کوشش کی گئی اور محکمہ دفاع کے حوالے سے ایک نشست مل گئی۔ جہاز چلا تو اِس کالم نگار کو اپنے بچوں کی قسم! آدھے سے زیادہ خالی تھا۔ یہ تجربے صرف ایک شخص کے ہیں۔ اگر کوئی ایک سو مسافروں کے تجربے اکٹھے کریں تو یہ کتاب دنیا کی حیران کن کتابوں میں پہلی پوزیشن حاصل کرے گی۔
فی جہاز ملازمین کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ دوسری ایئرلائنوں کے ملازمین سنتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں۔ کسی کو نکال نہیں سکتے۔ یونین جنگل کی بادشاہ ہے‘ انتظامیہ اُس کے خونخوار پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہزاروں ملازمین تنخواہیں لے رہے ہیں‘ کام کوئی نہیں کر رہا۔ ملک کے خزانے کو پی آئی اے جونک کی طرح چوس رہی ہے‘ خاندان کے خاندان پل رہے ہیں۔ مشٹنڈے سینے تان کر چل رہے ہیں‘غنڈہ گردی کا راج ہے۔ کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رُو سے ہر تین مسافروں کے استعمال کے بعد لیٹرین صاف کرنا ہوتی ہے۔ پی آئی اے میں ایسا ہونے کا تصور ہی نہیں۔ وقت کی پابندی حرام ہے۔ جو ظلم شمالی علاقہ جات کے عوام کے ساتھ ہوتا رہا اور ہو رہا ہے‘ ایک الگ داستان ہے۔
سب سے زیادہ حیرت حضرت سراج الحق پر ہوتی ہے جو شدومد سے نجکاری کی مخالفت فرما رہے ہیں۔ سوشلزم سے جماعت اسلامی کا اور ابوالاعلیٰ مودودی کا کیا جھگڑا تھا؟ یہی کہ پبلک سیکٹر(حکومتی شعبے) میں انصاف نہیں ہو سکتا۔ مولانا مودودی نے سینکڑوں مقامات پر لکھا کہ نجی شعبے میں منافع کی ترغیب، کاروبار کو جِلا بخشتی ہے۔ جبکہ پبلک سیکٹر میں سرکاری ملازم کو منافع سے کوئی غرض نہیں! سینکڑوں صفحات پر مشتمل ’’چراغِ راہ‘‘ کا سوشلزم نمبر، جماعت نے شائع کیا۔ پروفیسر خورشید احمد اس کے مدیر تھے۔ گزشتہ صدی میں اقتصادیات پر حکومتی کنٹرول کے خلاف جتنا مولانا مودودی نے لکھا، شاید ہی کسی نے لکھا ہو۔ ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ نعیم صدیقی نے اس موضوع پر بے تحاشا لکھا۔ اقتصادی شعبے پر حکومتی کنٹرول کے جتنے نقصانات کی ان حضرات نے نشاندہی کی وہ پی آئی اے، سٹیل مل، ریلوے، محکمہ ڈاک، واپڈا، سوئی گیس، سب میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ لیکن اب یہی حضرات سٹیٹ کنٹرول یعنی اقتصادیات پر حکومتی کنٹرول کی حمایت میں آگے آگے ہیں۔ شاید وجہ یہ ہے کہ اب   ؎
ایک ہنگامے پر موقوف ہے گھر کی رونق 
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی
اب تک اس ملک میں جتنی ترقی ہوئی ہے نجی شعبے کی مرہون منت ہے۔ ڈاک رسانی میں پرائیویٹ کوریئر کمپنیاں آئیں تو عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ لاہور اسلام آباد رُوٹ پر غیر ملکی پرائیویٹ بسیں چلنا شروع ہوئیں تو پہلی بار اس ملک میں وقت کی پابندی کا تصور وجود میں آیا۔ موبائل فون کی ہما ہمی ساری نجی شعبے سے ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انقلاب غیر سرکاری چینل لے کر آئے۔ اس کے مقابلے میں سٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے، اذیت رسانی کے سوا کچھ نہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے شدید محنت کے بعد ریلوے کے منہ سے آکسیجن کی نلکی نکالی تو ہے مگر اصل مسئلہ حکومتی شعبے میں بدعنوانی اور اقربا پروری ہے۔ اسد عمر ٹیلی ویژن پر حکومتی کنٹرول کے حوالے سے سنگاپور کے لی اور ملائشیا کے مہاتیر کی مثالیں دے رہے تھے   ؎
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی
مخالفت برائے مخالفت کرنی ہو تو پڑھا لکھا انسان بھی آنکھوں پر خوشی سے پٹی باندھتا ہے۔ لی اور مہاتیر کی مثال دیتے ہیں تو پھر یہ بھی تو دیکھیے کہ لی اور مہاتیر کی بغل میں بھائی تھا نہ کوئی بھتیجا، بہن تھی نہ صاحبزادہ۔ وہاں ایان علی تھی نہ ڈاکٹر عاصم، نہ گلوبٹ نہ لوہے، دودھ اور پولٹری کے کاروبار پر مضبوط خاندانی گرفت۔ کیا لی اور مہاتیر اپنے اپنے ایف بی آر سے ایک ایک دن کے لیے قانون بدلواتے تھے؟
قومی خزانے میں ایک دھیلا جمع نہ کرانے والی پی آئی اے اور ہر سال قومی خزانے سے اربوں روپے چوسنے والی پی آئی اے کو باقی رکھنا ہے تو ضرور رکھیے۔ مگر صرف ملازمین کی پرورش کے لیے اور صرف اس لیے کہ یونین کی دھونس اور دھاندلی سلامت رہے۔ ہاں مسافروں کے لیے کچھ اور بندوبست کرنا ہو گا۔

Wednesday, February 03, 2016

کباڑ خانہ

رچرڈ صاحب برطانوی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ وہاں قومی اسمبلی کو ہائوس آف کامنز ( دارالعوام) کہتے ہیں! ایک دن بیٹھے بٹھائے رچرڈ صاحب کا بلڈ پریشر شُوٹ اَپ کر گیا۔ ہو سکتا ہے ایک دو دن سے دوانہ کھا رہے ہوں۔ بے ہوش ہو گئے۔ ہسپتال پہنچائے گئے۔
ہسپتال تو پہنچا دیے گئے مگر اب ایک اور سیاپا پڑ گیا! ڈاکٹروں کو یہ کون بتائے کہ رچرڈ صاحب کا علاج کس طرح کرنا ہے؟ میڈیکل سپیشلسٹ سارے جمع تھے۔ کیا امراض قلب کے ڈاکٹر، کیا دماغ کے ماہرین، کیا بے ہوش کرنے والے، کیا آپریشن کرنے والے! نرسیں بھی حاضر تھیں۔ آپریشن تھیٹر بھی موجود تھا مگر برطانوی وزیر اعظم سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ کسی ضروری میٹنگ میں تھے۔ میٹنگ سے فارغ ہوئے تو غیر ملکی وفود سے ملنے لگ گئے۔ رچرڈ صاحب بے ہوش پڑے رہے۔ ڈاکٹروں کی ٹیمیں وزیر اعظم صاحب کی ہدایات کی منتظر رہیں۔ افسوس! رچرڈ صاحب کا اس سارے سیاپے میں انتقال ہو گیا! 
آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ سب سچ ہے؟ کیا ایسا ہوا ہو گا؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ ہسپتال ایک الگ دنیا ہے۔اس میں تعینات ڈاکٹر، خواہ انتظامیہ کے ہوں، یا فزیشن ہوں یا سرجن ہوں، اپنے فرائض سے بخوبی واقف ہوتے ہیں! بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مریض، کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو ، کتنی ہی اہم شخصیت کیوں نہ ہو، داخل ہو اور وزیر اعظم یا ملکہ یا وزیراعلیٰ یا گورنر یا صدر مملکت کی ہدایات کی ضرورت پڑے کہ اب اسے بیڈ کہاں الاٹ کرنا ہے؟ اب خون کے ٹیسٹ کرنے ہیں یا سی ٹی سکین کرنا ہے؟ اب آپریشن کرنا ہے یا محض دوائوں سے کام چل جائے گا۔ اگر ایسا ہونے لگے تووہ ملک نہیں، مذاق ہے! وہ کیلا ریاست  
(Banana Republic) 
ہے! وہ ایک بڑا اصطبل ہے! وہ ایک بہت بڑا کباڑ خانہ ہے، جہاں کسی ہسپتال میں مریض داخل ہو تو اس ہسپتال کو حکمران اعلیٰ ہدایات دے کہ اب کیا کرنا ہے!
بد قسمتی سے یا خوش قسمتی سے پاکستان ایک ایسا ہی ملک ہے! خوش قسمتی سے اس لیے کہ آخر دنیا میں کتنی ریاستیں کیلا ریاستیں ہوں گی؟ کتنے ملک اصطبل کہلائے جانے کے مستحق ہوں گے؟ کتنے ملکوں کو کباڑخانہ (جنک یارڈ) کہا جا سکتا ہے؟ یہ اعزاز دنیا میں ہمارے ملک ہی کا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی رکن ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے بے ہوش ہو گئیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے آئی سی یو میں رکھا۔ مگر ساتھ ہی وزیراعلیٰ پنجاب نے علاج کے حوالے سے ہسپتال انتظامیہ کو ہدایات جاری کر دیں!!
جن ملکوں میں سسٹم نہ ہو، خود کار نظام نہ ہو، وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ورنہ کیا وزیراعلیٰ کا یہ کام ہے کہ وہ ہر مریض کے لیے ہسپتال کو ہدایات جاری کرے؟ اگر یہ ہدایات ضروری ہیں تو ہر مریض کے لیے کیوں نہیں؟ صرف اسمبلی کی رکن کے لیے کیوں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ہدایات کے بغیر ہسپتال میں علاج کرانا ممکن ہی نہیں! اور اگر ڈاکٹر اپنا کام کر رہے ہیں اور ہسپتال انتظامیہ اپنے فرائض سے آگاہ ہے تو یہ ہدایات محض ایک ڈرامہ ہیں! محض دکھاوا ہے! صرف مذاق ہے! اور ایسے ہی ڈراموں، ایسے ہی دکھاوے، ایسے ہی مذاق نے اس ملک کو کباڑ خانہ بنا کر رکھ دیا ہے! کسی عورت کو بے آبرو کیا جاتا ہے تو وزیراعلیٰ پولیس کو ہدایات جاری کرتے ہیں! کوئی قتل ہوتا ہے تو وزیراعلیٰ تفتیش کے لیے حکم دیتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہاں وزیراعلیٰ کی مداخلت کے بغیر کارروائی نہیں ہوتی! یہ سب کیا ہے؟ کیا ملک ایسے چلتے ہیں؟ یہ ملک ہے یا کسی وڈیرے کی جاگیر ہے، جہاں ہر کام کے لیے حکمران اعلیٰ کی ہدایات ضروری ہیں؟
جب ملک ملک نہ رہے، مذاق بن جائے، کیلا ریاست ہو جائے، کباڑخانہ بن کر رہ جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔ پھر افغان شہری روح اللہ کو نادرا میں ملازمت مل جاتی ہے، جہاں وہ اپنے بھائیوں جعفر اور رزاق کے شناختی کارڈ بنوا لیتا ہے! جہاں اسمبلیوں کے رکن تصدیق کرتے ہیں کہ افغان مہاجروں کے ڈومیسائل بنائے گئے! پھر صفورا جیسے قومی سانحوں کے سہولت کار ضمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں۔ پھر قومی ایئرلائنوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے افراد یر غمال بنا لیتے ہیں۔ ایسے ملک میں پھر یہی ہوتا ہے کہ خون کی ہولی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں کھیلی جاتی ہے مگر سرکاری مراعات پر پرورش پانے والے حضرات اُن مدارس کا تحفظ کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں جہاں کبھی پٹاخہ تک نہیں چھوٹا۔ پھر ایسے ملک میں افسروں کی ترقی کے معمول کے معاملات سال سال بھر وزیراعظم کے دفتر سے نہیں نکلتے اور عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑتا ہے کہ اڈیالہ جیل میں بہت جگہ ہے، وزیراعظم کو بل الیا تو واپس دفتر نہیں جا سکیں گے۔ پھر ایسے ملک میں کسٹم کے اہلکار کو محکمہ تعلیم کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر عدالت دہائی دیتی ہے کہ بادشاہت چلائی جا رہی ہے، خدا کا واسطہ ہے حکومت تعلیم کے شعبے پر رحم کرے۔ پھر ایسے ملک میں ایان علی چھوٹ جاتی ہے۔ ڈاکٹر عاصموں کا بال بیکا کوئی نہیں کر سکتا، مافیا ڈان بیرونی ملکوں میں بیٹھ کر حکومتیں چلاتے ہیں مگر آٹھ آٹھ سال کے بچوں کو پکڑ کر عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے، جہاں وہ سہمے کھڑے رہتے ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیوں لائے گئے ہیں! ایسے ملک میں ایک ایئرپورٹ نو سال میں بھی مکمل نہیں ہوتا۔ خواتین ڈاکٹروں کا ایک عام ہوسٹل سات 
سال میں بھی نہیں بن پاتا، یہاں تک کہ لاگت تین کروڑ سے چھ کروڑ ہو جاتی ہے۔ جہاں صرف وکیلوں کو ٹول پلازوں کی ادائیگی کے لے چھوٹ دی جاتی ہے جبکہ عام شہریوں کی جیبوں پر ہر چند کلو میٹر کے بعد ٹول ٹیکس کے نام پر بھاری ڈاکے ڈالے جاتے ہیں۔ ایسے ملک میں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے قوم سے انصاف کی قیمت وصول کرتے ہیں اور قوم کے خرچ پر بلٹ پروف سرکاری گاڑیوں میں بیٹھ کر سیاسی جماعتیں تشکیل دیتے ہیں، جی بھر کر سیاست کرتے ہیں اور قوم کا نجات دہندہ بن کر دوبارہ برسرِاقتدارآنے کے خواب دیکھتے ہیں!
کباڑ خانے اور ملک میں کیا فرق ہے؟ یہ فرق ہے کہ ’’ملک‘‘ میں وزیراعظم کسی مریض کی عیادت کے لیے بھی آئے تو ہسپتال کا ڈاکٹر اسے ایک منٹ میں باہر نکال دیتا ہے جیسا کہ برطانیہ میں ہوا مگر کباڑ خانے میں وزیراعلیٰ خود ڈاکٹروں کو ہدایات دیتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ کباڑ خانہ اُس وقت ملک بنے گا جب ڈاکٹر وزیراعلیٰ کو کہے گا کہ حضور! میرے کام میں مداخلت نہ فرمائیے! جب پولیس کا سربراہ کہے گا حضور! میں اپنے فرائض چھوڑ کر ہر جگہ آپ کے ہمراہ نہیں جا سکتا اور ازرہِ کرم مجھے یہ نہ بتائیے کہ میں نے کس کیس کی تفتیش کرنی ہے اور کس کی نہیں!
جب تک ایسا نہیں ہوتا، کباڑ خانہ ، کباڑخانہ ہی رہے گا! اسے ’’ملک‘‘ سمجھنے والے مراعات یافتہ ہوں گے یا نفسیاتی مریض!

Monday, February 01, 2016

جب وہ محفوظ ہوں گے؟؟

بال اس کے کھچڑی تھے۔ جُھریوں نے رخساروں پر کام شروع کر دیا تھا۔ ہم ریل کار کے اے سی پارلر میں اس میز کے گرد بیٹھے تھے جو درمیان میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ایک دس سال کی بچی۔ ایک چھ سال کا بچہ۔ وہ خود ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ دونوں بچے اپنی اپنی سٹوری بک میں محو تھے۔ میں اخبار چاٹ چکا تھا اور باہر دیکھ رہا تھا۔ کھیت مکان درخت مویشی نہریں گزرے جا رہے تھے۔ قدرت کے تخلیق کردہ۔
حسن کو انسان نے اپنی پیدا کردہ آلودگی کے ساتھ خوب مکس کیا تھا۔ لہلہاتے کھیت اور ساتھ ہی کوڑے کے ڈھیر۔ کیچڑ میں لپٹے ننگ دھڑنگ، نیم برہنہ بچے جن کے والدین اینٹوں کے بھٹوں پر نسل درنسل وہ مزدوری کر رہے تھے جسے غلامی بھی کہا جاسکتا ہے۔
اقبال نے پروردگار کو بڑے اعتماد سے کہا تھا:
توشب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
کہ تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنایا۔ تو نے مٹی بنائی، میں نے اس سے پیالہ تخلیق کیا۔ تو نے صحرا پہاڑی اور خارو خس بنائے۔ میں نے وہاں شاہراہیں اور باغات بناڈالے۔
مگر یہ دعوے پرانے ہو چکے ہیں۔ اب ہم زمین کے اس حصے میں استعمال شدہ شاپنگ بیگوں کی فصل بو رہے ہیں اور شاہراہوں کے کناروں پر بدصورت، کالی گندی، ورکشاپوں کی نہ ختم ہونے والی قطاریں باندھ رہے ہیں۔
چائے دینے والے سست رفتار لڑکے سے پانی لانے کا کہا تو کھچڑی بالوں والے اس شخص نے جس کے رخساروں پر جھریوں نے کام شروع کر دیا تھا، اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور مجھے پیش کی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنی اس عادت کو فوراً بروئے کار لایا جس سے گھر والی تنگ  ہے۔ ہر شخص کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع کرنا اور پھردنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جانا!
بات چیت کا سلسلہ چلا تو اس نے بتایا کہ یہ بچے اس کی پوتی اور پوتا ہیں۔ دو دن پہلے صوبائی دارالحکومت کے سکول بند کر دیئے گئے تو پوتی نے فون کیا ’’دادا ابو، چھٹیاں پھر ہوگئی ہیں۔ آپ آ کر ہمیں اسلام آباد لے جائیے‘‘ اور دادا ابو چل پڑے!
بات اس طرف نکل پڑی کہ معمول کی چھٹیاں تو دسمبر میں ہو چکی تھیں اور سکول کھل گئے تھے۔ تو یہ ’’سردیوں‘‘ کی وجہ سے سکول اچانک پھر کیوں بند کر دیئے گئے اور کیا پہلے جنوری کے اواخر میںکبھی سردی نہیں پڑی تھی؟
کھچڑی بالوں والا شخص کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھ رہا تھا۔ جھٹپٹے کا سماں تھا۔ باہر کے مناظر نے دھندلانا شروع کر دیا تھا۔ ڈبے میں لگے قمقموں میں روشنی یک دم تیز ہوگئی۔ اس کے رخساروں پر جھریاں پہلے سے زیادہ پھیلی ہوئی اور گہری لگ رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک ڈرا دینے والا خالی پن دکھائی دینے لگا جو پہلے نہیں تھا! اچانک محسوس ہوا کہ یہ شخص کہیں درد سا محسوس کر رہا ہے۔ جیسے آپ کا ناخن زخمی ہو، جیسے پائوں کے انگوٹھے میں شدید درد ہو رہا ہو، جیسے سانس لیتے ہوئے پسلی میں بل سا پڑ جائے اور اذیت ہونے لگے، جیسے زبان پر چھالا ہو اور درد کی نوعیت بتائی نہ جاسکے! نہیں معلوم یہ اس کی خود کلامی تھی یا وہ مجھ سے مخاطب تھا۔ لیکن میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔
میںایک چھوٹے سے دورافتادہ گائوں میں پیدا ہوا، جس کے ٹاٹ سکول میں پہلی جماعت پڑھی۔ صحن کے کونے میں پڑا گھڑا، جس کا منہ توڑ کر کھلا کیا گیا تھا اور جس کے گندے پانی سے ہم تختیاں دھویا کرتے تھے، میری یادوں کا پکا پکا حصہ ہے۔ ایک دورافتادہ قصبے میں سکول کی تعلیم مکمل کی! ہمارے گھر میں بجلی نہیں تھی کہ اس وقت بجلی کے دو بلب بھی صرف ان گھروں میں ہوتے تھے جو بہت زیادہ امیر تھے! میں اور میرے ہم جماعت راتوں کو لالٹین کی روشنی میں پڑھتے تھے۔ ہم بان کی کھردری چارپائیوں سے سرد راتوں کو گدے ہٹا دیتے تھے تاکہ نیند ہم پر غالب نہ آ سکے۔ آدھی رات کو بھوک لگتی تو اسی لالٹین کے اوپر ننھی سی رکابی میں گڑ رکھ کر پتیسہ نما شے بناتے اور کھا لیتے۔ گرمی کی چلچلاتی دوپہروں میں ہم درختوں کے سائے کے ساتھ ساتھ چارپائیاں گھسیٹتے اور ہوم ورک کرتے جاتے۔ ہم میں سے اکثر کے پاس سکول یونیفارم کا ایک ایک جوڑا تھا۔ ملیشیا کی شلوار قمیص! جوتوں کا ایک ایک جوڑا! ہم کپڑوں کو کوئلوں والی استری سے خود استری کرتے تھے۔ ہمارے جوتوں کا اکلوتا جوڑا ہمیشہ صاف رہتا۔ ہم نے سنا تھا کہ پاکستان بنا تو حکومت کے دفتر خیموں میں لگتے تھے اور کاغذوں پر پن کے بجائے کیکر کے کانٹے استعمال ہوتے تھے۔ ہم نے محدود… انتہائی محدود وسائل کے ساتھ پڑھا۔ ہماری سب سے بڑی عیاشی دال والے پراٹھے تھے اور گائوں سے آنے والے ستو! ہمارے اساتذہ ہمیں گرما کی تعطیلات میں مفت پڑھاتے۔ ہم نے امتحانوں میں پوزیشنیں لیں۔ ہم نے مقابلے کے امتحان دیئے اور ان نوجوانوں کے ساتھ مقابلہ کیا جو آکسفورڈ اور لندن سے پڑھ کر
 آئے تھے۔ ہمارے ذہن میں ایک ہی نصب العین تھا کہ ہم اس ملک کو خیموں اور کیکر کے کانٹوں سے آگے لے جائیں اور ہماری اگلی نسل بان کی کھردری چارپائیوں کو کیکر کے ڈھلتے سایوں کے ساتھ نہ کھینچتی پھرے بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کی طرح میز کرسی پر برقی قمقموں کی روشنی میں پڑھے۔ ہم نے دیانتداری سے ملازمتیں کیں۔ ریاست کے اربوں کھربوں روپے بچائے۔ ہم بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے مگر چائے کی پتی، بسکٹوںکے ڈبے، دو چپاتیاں اور پلیٹ بھر سالن ہمیشہ گھر سے لائے۔ ہم نے کالم نگاری کی تو کاغذ اور قلم سرکاری کبھی نہ استعمال کیا۔ ہم میں ایسے بھی تھے جو ایک صفحہ فوٹو کاپی بھی ذاتی استعمال  کا سرکاری مشین پر نہیں کراتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ اسی سیٹ اپ میں کروڑوں بنانے والے بھی ہیں۔ ایسے بھی تھے جن کے گھروں میں ڈانس فلور تھے اور سربراہان ان کی بیگمات کے ساتھ رقص کرتے تھے۔ ایسے بھی تھے جو ملک سے کئی کئی سال فرار رہ کر کرپشن کے مقدمے ’’ختم‘‘ کروا دیتے تھے۔ مگر بخدا ہمیں کبھی ان کے مال و دولت پر رشک نہ آیا۔ ہمیںمعلوم تھا کہ سکون کی نیند خلاق عالم نے ان کے نہیں، ہمارے مقدر میں لکھی تھی!
مگر یہ تو اب معلوم ہوا کہ ہم جن سہولتوں سے محروم تھے، ہماری اگلی نسل کو وہ حاصل ہوگئیں مگر جو سہولت ہمارے پاس موجود تھی، ہمارے بچے اسی کو کھو بیٹھے! ہماری اگلی نسل کو میز کرسی مل گئی۔ تختیوں اور سلیٹوں کے بجائے سکول بیگ آ گئے۔ برگر اور سنیک میسر ہوگئے۔ لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ مل گئے۔
اب وہ سکولوں میں مخصوص ویگنوں اور کاروں میں آتے جاتے ہیں۔ ان کے پاس رنگین ٹیلی ویژن، ایئرکنڈیشنر اور ہیٹر ہیں۔ اب نہانے کے لئے وہ گرم پانی کی بالٹیاں نہیں اٹھاتے، ایک گراری گھماتے ہیں تو سر پر لگی چھلنی سے آسودگی بخش پانی برسنے لگتا ہے۔ اب صبح صبح مائی ڈوری گندگی کا ٹوکرا، پہلو میں رکھے، آ کر اوپر کی منزل کے کونے میں واقع لیٹرین میں نہیں جاتی، اب حمام خواب گاہ کے اندرہی ہے اور بٹن دبانے سے کموڈ دُھل کر آئینے کی طرف صاف ہو جاتا ہے۔
یہ سب کچھ ہماری اگلی نسل کو مل گیا مگر یہ اس سکیورٹی سے، اس امن سے محروم ہوگئے، جو ہمیں حاصل تھی۔ ہماری درسگاہوںپر کبھی کوئی حملہ آور نہیں ہوتا تھا۔ ہم سردیوں میں اس وقت پیدل اکیلے جاتے تھے۔ جب ابھی کچھ کچھ اندھیرا ہی ہوتا تھا۔ اور واپسی پر ہمیںدور دور تک دہشت گردی کا ڈر نہ ہوتا تھا۔ یہ بچے، جو اس ڈبے میں بیٹھے ہیں، انہیں ہماری دیانت اور ہماری محنت مشقت کا کیا فائدہ ہوا؟؟ یہی کہ ان کے سکول بند کرکے انہیں ان کے گھروں میں بٹھا دیا گیا۔ ان کے اساتذہ اور استانیوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ کتابیں رکھو اور کلاشنکوفیں سنبھالو۔ ان کی درسگاہوں کے اردگرد دیواریں نہیں، فصیلیں بنوائی جا رہی ہیں۔ ہم نے پوری پوری زندگیاں لگا کر اس ملک کو آگے بڑھایا۔ مگر اب اسی ملک کی ترقی سے فائدہ اٹھانے والے، اسی ملک کی ہوا چاندنی دھوپ اور پانی سے پرورش پانے والے، اسی ملک کے بچوں کو نشانے پر رکھ کر لبلبی دبا رہے ہیں! تو گھاٹے میں تو ہم مڈل کلاسیے اور لوئر مڈل کلاسیے رہے جن کے بچے دبک کر گھروں میں بیٹھے ہیں۔ حکمرانوں کے بچے بھی محفوظ ہیں اور مدارس بھی۔ کوئی نہیں حملہ آور ہوتا!
کھچڑی بال اور مسلسل کام کرتی جھریاں!! اب باہر مکمل اندھیرا تھا! بچے سٹوری بکس بند کرکے سیٹ سے ٹیک لگائے، آنکھیں موندے، بیٹھے تھے۔ کیا وہ کوئی خواب دیکھ رہے تھے؟ آنے والے دنوں کا خواب؟ جب وہ محفوظ ہوں گے؟؟

 

powered by worldwanders.com