Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 16, 2024

جناب عمر ایوب کی خدمت میں ایک مخلصانہ مشورہ


خواجہ محمد صفدر مرحوم‘ پاکستان کے تیسرے آمرِ مطلق ضیاالحق کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اُس عہد کی مجلس شوریٰ جنرل صاحب کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی تھی اور خواجہ صفدر اس مجلس شوریٰ کے چیئرمین تھے۔ خواجہ صفدر کے صاحبزادے خواجہ آصف اپنے والد کے قول و فعل کے ذمہ دار نہیں۔ (اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ والی جان اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گی تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا‘ اگرچہ قریبی رشتہ دار ہو۔ القرآن ) اس کے باوجود انہوں نے اپنے والد مرحوم کے اُس دور کے حوالے سے معافی مانگی جس کے دوران وہ جنرل ضیا کے ساتھ تھے۔
عمر ایوب صاحب نے کہا ہے کہ مارشل لاء ان کے دادا نے نہیں‘ اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ یہ وہی بات ہے جو ہمارے گاؤں کے ایک صوبیدار صاحب کے بیٹے نے کی تھی! صوبیدار صاحب کو ملازمت کے دوران گھر کے لیے بَیٹ مین ملا ہوا تھا‘ جو فوج میں ملا کرتا ہے۔ بیٹا ان کا چھوٹا تھا۔ گُڑ بہت کھاتا تھا۔ صوبیدار صاحب نے بچے کو سختی سے منع کیا کہ گُڑ نہ کھائے۔ ایک دن چھٹی کر کے گھر آئے تو بچہ مزے سے گڑ کھا رہا تھا۔ باپ نے ڈانٹا تو کہنے لگا: چاچے (یعنی بیٹ مین) کو ماریں‘ اس نے دیا ہے۔ عمر ایوب صاحب نے بھی سارا ملبہ اسکندر مرزا پر گرا دیا۔ جیسے فیلڈ مارشل صاحب بچے تھے۔ تو کیا یہ بھی اسکندر مرزا نے کہا تھا کہ انہیں ملک بدر کر کے خود صدر کا عہدہ سنبھال لیں؟ پھر دس سال تک مطلق العنان حکمران بن کر حکومت کریں اور جاتے وقت اپنے بنائے ہوئے آئین کو خود ہی روند کر اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے ایک اور جرنیل کو دے جائیں؟
تاریخ کسی کی حمایت کرتی ہے نہ مخالفت! وہ تو جو کچھ ہوا ہے‘ اسے بلا کم و کاست بیان کرتی ہے۔ تاریخ کو اس بات کی بھی پروا نہیں کہ کون کس کا دادا تھا‘ کون کس کا پوتا ہے اور کون کس کا فرزند ہے! کچھ لوگ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس کی وجہ سے ان کی آئندہ نسلوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے!! جنرل صاحب نے یقینا معاملے کے اس پہلو پر غور نہیں کیا ہو گا۔ جو کچھ انہوں نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کیا‘ وہی انہیں تاریخ میں سیاہ صفحات دلانے کے لیے کافی ہے۔ مذہبی جماعتوں کو ان کے خلاف اکسایا۔ یہاں تک کہ انہیں غدار قرار دیا۔ الیکشن میں دھاندلی کرائی۔ کراچی سے انہیں شکست نہ دلوا سکے تو اہلِ کراچی کو سزا دی گئی۔ ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب کی قیادت میں اردو سپیکنگ کمیونٹی پر حملے کیے گئے۔ غالباً یہ پہلا پٹھان مہاجر فساد تھا جو اُس وقت کی حکومت نے کرایا! مگر اس معاملے کو بھی چھوڑ دیجیے۔ ایوب خان کی فردِ عمل میں سب سے بڑا جرم مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہے۔ جو واقعہ بھی رونما ہو‘ اس کی وجوہ دو حصوں میں منقسم ہوتی ہیں۔ ایک فوری وجہ ہوتی ہے۔ دوسری اصل وجہ ہوتی ہے۔ جو کچھ یحییٰ خان‘ بھٹو اور مجیب الرحمان نے 1970-71ء میں کیا‘ وہ فوری وجہ تھی۔ اصل وجوہ وہ تھیں جو ایوب خان کی دس سالہ آمریت میں پروان چڑھیں۔ یہ کالم نگار 1967ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں بطور طالب علم داخل ہوا اور 1970ء تک وہیں رہا۔ اصل سوال جو مغربی پاکستانیوں سے پوچھا جاتا تھا‘ یہ تھا کہ جرنیلی دورِ حکومت کب تک رہے گا؟ ایوب خان کے جانے کے آثار مکمل طور پر مفقود تھے۔ دس سال ہونے کو تھے اور اقتدار سے ان کا جی نہیں بھرا تھا۔ انتقالِ اقتدار کا کوئی امکان تھا نہ طریق کار! کون جانشین ہو گا؟ مشرقی پاکستان یہ سوال پوچھتا تھا۔ وہ یہ سوال پوچھنے کا حقدار تھا۔ اس کی آبادی زیادہ تھی۔ اس کا حصہ فارن ایکسچینج کمانے میں زیادہ تھا۔ مگر اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ دارالحکومت بھی وہاں نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان کی گورنری کبھی جنرل اعظم خان کو ملی اور کبھی غلام فاروق کو۔ کتنے مشرقی پاکستانی‘ مغربی پاکستان کے گورنر لگائے گئے؟ ایک بنگالی کو گورنر لگایا بھی تو منعم خان جیسے 
Non-entity 
کو‘ جو انتہا درجے کا 
Nincompoop 
تھا اور جس سے مشرقی پاکستانی نفرت کرتے تھے۔ عسکری آمریت کے خلاف مشرقی پاکستان میں لاوا دس سال پکتا رہا۔ عوام کے ذہنوں میں! اہلِ دانش 
(intelligentsia) 
کے ذہنوں میں! طلبہ اور طالبات کے ذہنوں میں! پورے ملک میں اس سوال کا جواب‘ کہ مشرقی پاکستان سے کب کوئی صدر بنے گا؟ صرف اور صرف ایک شخص کے پاس تھا اور وہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان تھے! تاریخ کے جس صفحے پر یہ سوال لکھا ہے‘ وہ صفحہ سیاہ رنگ کا ہے۔اُس صفحے پر فیلڈ مارشل صاحب کی تصویر ہے۔ اس صفحے کے حاشیے پر ڈھاکہ یونیورسٹی کے ان اساتذہ اور طلبہ کی لاشوں کی تصویریں ہیں جو پچیس مارچ 1971ء کے ایکشن میں بے دریغ اور بلا تخصیص مارے گئے۔
دس سال تک آمر مطلق رہنے والے فیلڈ مارشل صاحب نے اقتدار اُس وقت چھوڑا جب‘ ایک مقبولِ عام روایت کی رُو سے‘ انہوں نے طفلانِ شہر کو ایک جانور کے حوالے سے بار بار وہ نعرہ لگاتے سنا جسے یہاں لکھنا ممکن نہیں! رخصت ہوتے وقت انہوں نے اُس جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل گاڑی جس کے سینے میں وہ پورے دس سال تک خنجر گھونپتے رہے۔ انہوں نے اقتدار ایک اور مغربی پاکستانی جرنیل کے ہاتھ میں دے دیا۔ مشرقی پاکستان سے دشمنی کی یہ انتہا تھی۔
یہ ایک شام تھی! ایسی شام جو آج بھی یاد آتی ہے تو روح کی گہرائیوں سے ہچکیوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھا تھا۔ یہ پاکستان کی واحد لائبریری تھی جو ہفتے کے سات دن‘ چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ لائبریری کے شیشوں سے املی اور کھجور کے جھومتے درخت نظر آ رہے تھے۔ یہ مارچ 1969ء کے آخری دن تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جاتے ہوئے تختِ آمریت پر جنرل یحییٰ کو بٹھا کر ان کے سر پر تاجِ شاہی رکھ چکے تھے۔ میرا بنگالی کلاس فیلو بھی پاس ہی بیٹھا نجانے کس وقت سے اکنامکس کے 
Notes 
بنا رہا تھا۔ اب یہ یاد نہیں اس نے کہا یا میری تجویز تھی کہ چائے پی آئیں۔ اسی دوران اس نے وہ سوال پوچھا جس کا جواب‘ سچی بات ہے‘ علیحدگی کے سوا کوئی نہ تھا ''دس سال ایک جرنیل حکمرانی کرتا رہا! اب ایک اور جرنیل آ گیا ہے۔ اظہار! مجھے بتاؤ! کبھی یہ منصب کسی مشرقی پاکستانی کو بھی ملے گا!‘‘ دل چاہا اسے گلے لگا لوں اور دھاڑیں مار مار کر روؤں! مگر وہ بھی نہ ہو سکا! ایک دلگیر خاموشی کے سوا میرے دریدہ دامن میں کچھ نہ تھا!
اس سب میں عمر ایوب کا کوئی قصور نہیں! ان کی تو پیدائش ہی 1970ء کی ہے۔ تو وہ ناکردہ گناہوں کا بوجھ کیوں اٹھا رہے ہیں؟ خاندان کے بزرگوں کا احترام واجب ہے۔ اس پہلو سے ہم ان کے دادا جان کا پورا احترام کرتے ہیں۔ ہر شخص کو کرنا چاہیے۔ مگر ہمارا اُن کی خدمت میں پُرخلوص مشورہ ہے کہ محترم دادا جان کی دس سالہ آمریت اور جاتے ہوئے آئین کی افسوسناک خلاف ورزی پر قوم سے معافی مانگ لیں۔ بظاہر مشکل کام ہے مگر دل کڑا کر کے یہ کام کر دکھائیں۔ ایسا کرنے سے ان کے دل کو جو اطمینان نصیب ہو گا وہ تو ہو گا مگر قوم کی نظروں میں ان کا قد بہت بڑا ہو جائے گا۔ وہ ایک بڑے رہنما کے طور پر ابھریں گے! محترم اعجاز الحق صاحب کے لیے بھی مضمون واحد ہے!

Monday, May 13, 2024

ایک کالم کانُو صاحبان کے لیے


کانو صاحب بہت اچھے آدمی تھے۔ پڑھے لکھے اور آسودہ حال! واحد مصروفیت اخبار بینی تھی۔ اور یہ اخبار بینی ہی ان کے گھر والوں کے لیے مصیبت بنی ہوئی تھی۔
اخبار ہارڈ کاپی نہیں پڑھتے تھے۔ کمپیوٹر پر پڑھتے تھے۔ اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ (یہ آگے چل کر آپ جان جائیں گے) ایک دو اخبارات پر قناعت نہیں کرتے تھے۔ ملک بھر کے تمام اخبارات‘ جو انٹرنیٹ پر پڑھے جا سکتے تھے‘ پڑھتے تھے۔ پڑھنے کا لفظ شاید موزوں نہیں۔ وہ اخبارات پڑھتے نہیں‘ بلکہ ایک ایک سطر‘ ایک ایک فقرہ‘ ایک ایک لفظ ماپتے اور تولتے تھے۔ بیگم صاحبہ سخت مزاج تھیں۔ ان کے سامنے بات کرنے کا یارا نہ تھا۔ بچے اپنے اپنے کام پر چلے جاتے تھے۔ بیگم پر جو غصہ ہوتا‘ اور بیگم صاحبہ کے زیر دست ہونے کی وجہ سے یاس کی جو ایک عمومی اور مستقل کیفیت تھی‘ اس کا توڑ کانو صاحب نے یہ نکالا تھا کہ جہاں جہاں کمنٹ کرنے کی گنجائش تھی‘ کمنٹ کرتے اور اندر کا سارا زہر باہر نکال دیتے۔ کالم نگار ان کا پسندیدہ شکار تھے۔ کالموں کے نیچے ایسے ایسے کمنٹ لکھتے کہ بندہ سن کر یا پڑھ کر کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اخبار والوں سے بھی دل میں دشمنی پالی ہوئی تھی کیونکہ وہ ان کے طعن و تشنیع اور دشنام سے بھرے کمنٹس کو متوازن اور مہذب کر دیتے تھے۔ یہ بات کانو صاحب کو گوارا نہیں تھی۔ ایسے مواقع پر ان پر ایک دورہ سا پڑ جاتا۔ مرگی جیسی کیفیت طاری ہو جاتی۔ ہاتھ پاؤں مُڑ جاتے۔ منہ سے جھاگ نکلنے لگتی۔ گردن اکڑ جاتی۔ زمین پر لوٹنے لگتے۔ نیم بے ہوشی کے عالم میں اخبار والوں کے بارے میں نا زیبا کلمات کہتے۔ گھر والوں کو مصیبت پڑ جاتی۔ کئی بار ایسے مواقع پر ہسپتال لے جائے گئے۔ ہوش میں آتے تو ڈاکٹروں اور نرسوں کو بے نقط سناتے کہ جب کوئی مرض نہیں تو علاج کس چیز کا ہو رہا ہے۔
کانو صاحب نے ایک رجسٹر رکھا ہوا تھا۔ اس میں ہر کالم نگار کے لیے کچھ صفحات مخصوص کیے ہوئے تھے۔ ہر کام نگار کی ذاتی زندگی کے بارے میں جو کچھ کہیں سے ملا‘ وہاں نوٹ کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ ہر ایک کی عمر‘ اس کے بچوں کی تعداد‘ بچوں کے پروفیشن‘ کہاں کہاں ہیں‘ بیرون ملک ہیں تو کس کس ملک میں ہیں‘ کالم نگار نے کہاں کہاں ملازمت کی‘ کون کہاں کا ہے‘ غرض تمام ممکنہ معلومات نوٹ کی ہوئی تھیں۔ کانو صاحب کا ریکارڈ تھا کہ کبھی کسی کالم نگار کی تعریف نہیں کی۔ کوئی حکومت پر تنقید کرتا تو کمنٹ میں حکومت کے خیر خواہ بن جاتے۔ حکومت کی تعریف کرتا تو کمنٹ میں حکومت کے پرخچے اڑا کر رکھ دیتے۔ ساتھ ہی کالم نگار کو رگڑا لگاتے۔ کوئی کالم نگار پاکستان مخالف امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتا تو رجسٹر میں اس کالم نگار کے کوائف کھنگالتے۔ اگر اس کی بچی یا بچہ امریکہ میں پڑھ رہا ہوتا یا ملازمت کر رہا ہوتا تو کانو صاحب پھول کی طرح کھِل اُٹھتے۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ کمنٹ میں کالم کے نفس مضمون کو نظر انداز کرتے ہوئے کالم نگار پر بچوں کے حوالے سے ایسے ایسے تیر‘ بھالے اور نیزے پھینکتے کہ خدا کی پناہ! ایسا کرتے ہوئے ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ہوتی‘ دل اطمینان سے بھرا ہوا ہوتا اور چہرے پر بشاشت آ جاتی! اگر کوئی کالم نگار کسی سیاستدان پر تنقید کرتا تو وہ کمنٹ میں لکھتے کہ تمہیں تو اس سے بغض ہے۔ کالم نگاروں کے سروں پر وہ الفاظ اور وہ فقرے تھوپتے جو انہوں نے زندگی میں کبھی نہیں لکھے تھے۔ پھر ترنگ میں آ جاتے۔ دوستوں کو فون کر کر کے بتاتے کہ آج فلاں کالم نگار کی ایسی تیسی کر دی۔ صوبائیت اور علاقائیت بھی پھیلاتے۔ کالم نگار پنجاب کا ہوتا تو اسے پنجابی ہونے کا طعنہ دیتے۔ سندھ کا ہوتا تو سندھی ہونے کا طعنہ دیتے۔ کسی کو پوٹھوہار کے حوالے سے گالیاں دیتے۔ بہت سوں نے ان کی ای میل بلاک کر رکھی تھی مگر اس کا انہیں علم نہیں تھا۔ ای میل بلاک کر دی جائے تو ای میل کرنے والا بے خبر رہتا ہے۔
ایک دن کانو صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے تھے۔ شام کا وقت تھا۔ ان کی بیگم اور بچے لاؤنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ اچانک کمرے سے اونچی اونچی آوازیں آنے لگیں۔ پھر گالیاں‘ ننگی گالیاں سنائی دینے لگیں۔ گھر والوں کو گمان گزرا کہ کوئی کانو صاحب کے کمرے میں گھس کر ان سے جھگڑ رہا ہے۔ سب بد حواس ہو کر ان کے کمرے کی طرف بھاگے۔ اندر داخل ہوئے تو کانو صاحب منہ سے مغلظات بک رہے تھے اور ہاتھوں سے اپنے بال نوچ رہے تھے۔ پھر انہوں نے کمرے کی چیزوں کو ادھر ادھر پھینکنا شروع کر دیا۔ تکیہ دیوار پر دے مارا۔ گلدان سنگھار میز کے شیشے پر پھینکا‘ جو چکنا چور ہو گیا۔ بیوی اور بچوں نے بڑی مشکل سے پکڑ کر کرسی پر بٹھایا۔ پانی پلایا۔ پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے: فلاں کالم نگار کو وٹس ایپ پر پیغام بھیجا تھا۔ جواب دینے کے بجائے اس نے بلاک کر دیا ہے۔ اس کی یہ جرأت؟ میں اسے چھوڑوں گا نہیں! یہ کہا اور غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔ پھر جیسے ان پر جنون کا دورہ پڑا۔ کافی دیر کے بعد ٹھنڈے ہوئے تو بیگم نے پوچھا کہ وٹس ایپ پر کالم نگار کو کیا پیغام بھیجا تھا۔ کانو صاحب نے انتہائی سادگی اور کمال معصومیت سے بتایا کہ صرف اتنا لکھا تھا کہ تم لفافہ صحافی ہو! بیگم پہلے تو خوب ہنسی اور پھر گرج کر پوچھا کہ اس گندے اور گھناؤنے الزام کے بعد وہ تمہیں بلاک نہ کرتا تو کیا تمہارے مرحوم والدین کے لیے سورہ یٰسین پڑھتا ؟ یہ بھی کانو صاحب کی اذیت رساں رگ کا خاص مشغلہ تھا۔ کبھی کالم کے نیچے کمنٹ میں لکھتے کہ تم Paid ہو۔ کبھی لکھتے کہ تم سے یہ‘ یا وہ‘ لکھوایا گیا ہے۔ مگر اب کے انہوں نے لفافہ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اس سے ان کی طبیعت کو بہت سکون ملا تھا۔ خیر بیگم نے ڈانٹا بھی اور سمجھایا بھی! چند دن گزرے تھے کہ عدالت سے سمن موصول ہوا۔ جس کالم نگار کو کانو صاحب نے وٹس ایپ پر لفافہ صحافی ہونے کا طعنہ دیا تھا‘ اس نے پولیس اور دوسرے اداروں کی مدد سے ان کا محلِ وقوع اور گھر کا ایڈریس معلوم کرا لیا تھا۔ پھر اس نے موصول شدہ وٹس ایپ پیغام کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور عدالت سے درخواست کی کہ ان سے پوچھا جائے میں نے کس سے‘ کب‘ اور کیسے لفافہ وصول کیا ہے؟ کانو صاحب کا سر گھوم گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا ہو گا۔ وہ تو اپنی آرام دہ خوابگاہ میں بیٹھ کر‘ گالیوں‘ افترا پردازیوں اور الزامات کی منجنیقوں سے پتھر پھینک پھینک کر لطف اندوز ہوتے تھے اور اس زعم میں تھے کہ کسی کو کیا خبر میں کون ہوں اور کہاں رہتا ہوں!
کانو صاحب نے وکیل کیا۔ اس نے پانچ لاکھ روپے مانگے۔ منت ترلہ کرنے کے بعد اور کہہ کہلوا کر تین لاکھ کی فیس طے ہوئی۔ وکیل نے فیس پہلے لی اور بات بعد میں کی۔ وکیل کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہے جس کی رُو سے آپ نے کالم نگار پر لفافہ لینے کا الزام لگایا؟ کانو صاحب نے ممیاتے ہوئے جواب دیا کہ ثبوت تو کوئی نہیں! وکیل زیر لب مسکرایا۔ اسے دو اور دو چار کی طرح معلوم تھا کہ کانو صاحب پھنسے ہی پھنسے مگر تین لاکھ روپے وہ لے چکا تھا۔ عدالتی کارروائی میں وکیل نے بس ہوں ہاں کر کے اپنی موجودگی کا ہلکا سا احساس دلایا۔ دلیل کوئی نہ تھی۔ جج نے ثبوت مانگا۔ کانو صاحب گول گول دیدے گھمانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔ انہیں کالم نگار سے زبانی اور تحریری معافی مانگنی پڑی!
اپنے ارد گرد دیکھیے۔ بہت سے کانو صاحبان دکھائی دیں گے!

Thursday, May 09, 2024

گورنر سٹیٹ بینک کے نام


نوجوان پریشان تھا۔ غصے میں تھا۔ صدمے میں تھا۔ اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔ اضطراب اس کے جسم سے‘ اس کی رَگ رَگ سے‘ اس کے مساموں سے زہریلی شعاؤں کی طرح پھوٹ رہا تھا۔ وہ میرے ایک دوست کے ساتھ میرے پاس آیا تھا۔ آج کل دو کتابوں پر کام کر رہا ہوں۔ اس لیے ملنے ملانے سے گریز کرتا ہوں۔ یوں بھی زندگی جھنجھٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ مگر میرے دوست نے کہا کہ اس نوجوان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے ضرور سنوں کہ اس میں نوجوان کو تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘ ہاں مجھے اس ملک کی پسماندگی کی ایک اور وجہ ضرور معلوم ہو جائے گی۔ نوجوان بیرونِ ملک سے آیا تھا۔ پہلی بات اس نے جو کی‘ اس کی مایوسی اور بے بسی پوری طرح بتا رہی تھی۔ ''سر! پاکستان میں میرے ماں باپ ہیں ورنہ ادھر کا رخ نہ کرتا ‘‘۔ اسے پانی پلایا‘ چائے پیش کی مگر جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا اُس سلسلے میں مَیں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ بغل گیر ہو کر روؤں۔
اس نوجوان نے‘ جو بیرونِ ملک ملازمت کر رہا تھا‘ کچھ عرصہ پہلے حبیب بینک میں ڈالر اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔ سارا سال بیرونِ ملک سے ڈالر بھجواتا رہا جو اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے رہے۔ اب وہ ایک ہفتے کے لیے آیا تھا کہ یہ ڈالر نکلوا کر کچھ ضروری امور سر انجام دے۔ وطن پہنچ کر دوسرے دن متعلقہ برانچ میں گیا کہ رقم نکلوائے‘ مگر برانچ نے بتایا کہ اس کا اکاؤنٹ تو بند 
(De-activate)
 ہو چکا ہے۔ پیسے نہیں نکلوائے جا سکتے۔ نوجوان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس نے وجہ پوچھی تو بینک نے جواب دیا کہ اس اکاؤنٹ میں ایک سال سے کوئی ٹرانزیکشن (لین دین) ہی نہیں ہوا! نوجوان نے کہا کہ ٹرانزیکشن کیوں نہیں ہوا؟ ہر ماہ ڈالر بھیجتا رہا ہوں جو میرے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے رہے۔ اس پر بینک نے کہا کہ آپ نے جمع کرائے ہیں‘ اسے ہم ٹرانزیکشن مانتے ہی نہیں۔ چونکہ اس عرصے میں آپ نے کوئی رقم نکلوائی نہیں‘ اور ساری رقم بینک ہی میں پڑی رہی جس سے بینک کو فائدہ ہوا‘ اس لیے بینک نے اس احسان کا بدلہ یوں اُتارا ہے کہ آپ کے اکاؤنٹ کو 
De-activate
کر دیا ہے۔ اب آپ رقم نکلوا ہی نہیں سکتے۔ نوجوان نے پوچھا کہ اکاؤنٹ کھولتے وقت یہ بات کیوں نہ بتائی گئی؟ پھر اکاؤنٹ بند کرتے وقت کیوں نہ بتائی؟ اس کا جواب بینک کے پاس کوئی نہ تھا۔ نوجوان چھ سات دن کی چھٹی لے کر آیا تھا۔ اکاؤنٹ کو دوبارہ 
Activate 
کرنے کے لیے ڈھیر ساری کاغذی کارروائی ضروری تھی۔ بائیو میٹرک بھی ہونی تھی۔ یہ کم از کم تین چار دن کا کام تھا۔ اس کے بعد رقم نکل بھی آتی تو نوجوان کے پاس دو دن بچتے تھے جو اس کے کاموں کے لیے کم تھے۔
یعنی آپ کے ملک کو اگر کوئی باہر سے ڈالر بھیج رہا ہے‘ جس کی آپ کو اشد ضرورت ہے تو آپ اسے سہولت پہنچانے کے بجائے اذیت پہنچا رہے ہیں۔ آپ اسے وارننگ دیتے ہیں نہ اطلاع بہم پہنچاتے ہیں‘ نہ اپنا یہ منحوس قانون بتاتے ہیں۔ ہر ماہ ایس ایم ایس کے نام پر پیسے کاٹتے ہیں تو یہ اطلاع ایس ایم ایس پر کیوں نہیں دی جاتی! ڈالر لیے جا رہے ہیں۔ جب نکلوانے کی بات کی جاتی ہے تو اچانک بتایا جاتا ہے کہ اکاؤنٹ ناکارہ ہو چکا ہے۔ اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ سب سٹیٹ بینک کا کیا دھرا ہے!! یعنی: چو کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی (کفر کعبے سے اٹھے گا تو مسلمانی کا کیا بنے گا؟)۔
ہم گورنر سٹیٹ بینک سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ سب کیا ہے؟ جب ڈالر لے رہے ہیں تو واپس دیتے وقت گردے باہر نکال کر تار پر کیوں لٹکا رہے ہیں؟ مالک کی اپنی رقم ہے۔ پانچ منٹ میں تسلی کی جا سکتی ہے کہ مالک یہی ہے۔ تین چار دن کیوں؟ تو پھر اس میں تعجب ہی کیا ہے اگر تارکینِ وطن آپ کو باہر سے رقم نہیں بھیج رہے! بجائے اس کے کہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کریں‘ لوگوں کو خوار کیا جا رہا ہے۔ اندازہ لگائیے‘ ملک کو فارن ایکسچینج دینے والوں کے ساتھ کیسا زبردست حسنِ سلوک کیا جا رہا ہے۔ واہ سٹیٹ بینک واہ!

اس نوجوان کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ مذاق کا سن کر مجھے اپنی پڑ گئی۔ تین سال پہلے میں اور اہلیہ یوبی ایل بینک کی مقامی برانچ کے منیجر کے پاس گئے اور بتایا کہ ہم میاں بیوی مشترکہ اکاؤنٹ کھلوانا چاہتے ہیں جس میں ہم ہر ماہ اپنی نواسی کے لیے کچھ رقم ڈالا کریں گے۔ وہ چونکہ چھوٹی ہے اس لیے اس کے اپنے نام اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا۔ہم نے منیجر کو خاص طور پر بتایا کہ اس اکاؤنٹ سے رقم نکلوائی نہیں جائے گی۔ منیجر نے اکاؤنٹ کھول دیا۔ اور اس کالے قانون کا نہیں بتایا۔ تب سے ہم اپنی حقیر استطاعت کے مطابق اس اکاؤنٹ میں ہر ماہ کچھ ڈالتے ہیں کہ بچی بڑی ہو گی تو یہ رقم اس کی تعلیم کے کام آ جائے گی۔ نوجوان کی رُوداد سن کر بینک کی اس برانچ کو فون کیا اور خود پوچھا تو معلوم ہوا کہ ہمارا اکاؤنٹ بھی 
De-activate 
کر دیا گیا ہے حالانکہ ہر ماہ رقم جمع بھی ہو رہی ہے۔ پوچھا اطلاع کیوں نہیں دی؟ اس کا جواب ان کے پاس نہ تھا۔ بھئی! اگر ایسی ہی بات ہے تو آپ کو اکاؤنٹ کھولتے وقت یہ حساس قانون وارننگ کی شکل میں لکھ کر دینا چاہیے!!
اور اکاؤنٹ کھولنا کون سا آسان ہے؟ بینک اتنی بار طلب کرتا ہے جتنی بار دانتوں کا ڈاکٹر بھی نہیں طلب کرتا۔ کئی کئی گھنٹے بیٹھنا پڑتا ہے۔ کئی کاغذوں پر دستخط! بائیو میٹرک۔ پھر بتایا جاتا ہے کہ اکاؤنٹ کھولنے کی منظوری اوپر سے آئے گی۔ اس منظوری کا آپ کو کبھی نہیں بتایا جاتا۔ ہفتوں پر ہفتے گزر جاتے ہیں۔ آپ خود ہی پوچھئے تب کہیں جا کر اکاؤنٹ نمبر بتایا جائے گا۔ میرا کئی بار کا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اکاؤنٹ نمبر ملنے تک‘ تمام روابط اور پروٹوکول کے باوجود‘ کم از کم پندرہ دن لگ جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے ایک بہت بڑے ہوٹل کے بزنس کمپلیکس میں ایک نامی گرامی بینک ہے۔ اس میں پہلے دن حاضری ہوئی۔ ساری کارروائی ہو گئی۔ اکاؤنٹ نمبر کئی یاد دہانیوں کے ساتھ ایک ماہ بعد ملا۔ برانچ نے اس کی ذمہ داری ہیڈ آفس پر ڈالی! یہ واقعہ ایک سال پہلے کا ہے۔ بھارت میں سیونگ اکاؤنٹ تو فوراً کھل جاتا ہے۔ کسی بھی دوسرے اکاؤنٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ چار دن درکار ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی کام ملک کے مفاد میں کیا جائے تو یہ طے ہے کہ کام کرنے والے کو خوب رگڑا دیا جائے گا۔ آپ نے کارخانہ لگانا ہے یا کچھ بر آمد کرنا ہے یا باہر سے ڈالر یا پاؤنڈ ملک میں بھیجنے ہیں‘ یا اکاؤنٹ کھولنا ہے یا قومی بچت مرکز میں جا کر اپنی کمائی ریاست کو دینی ہے تو ہر ممکن رکاوٹ ڈالی جائے گی۔ کئی چکر لگوائے جائیں گے‘ دھکے دیے جائیں گے‘ ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جائے گی یہاں تک کہ ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ مر جائے گا۔ بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ اس کے بعد دو ہی راستے ہیں‘ یا تو چُپ کرکے بیٹھ جائے اور ملک کے لیے کچھ کرنے کا خیال دل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال دے یا ملک چھوڑ کر بھاگ جائے !! اور دوسروں کو بھی بتا دے کہ:
بھاگ مسافر میرے وطن سے میرے چمن سے بھاگ
اوپر اوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
اور یقین کیجیے! اس تمام سینہ کوبی اور گریہ و زاری کا نتیجہ کچھ نہیں نکلنے والا!

Tuesday, May 07, 2024

تیمور اور دیگر تارکینِ وطن


جنوری کے آخر میں تیمور واپس گیا۔ ایئر پورٹ پر‘ اندر جانے سے پہلے‘ مجھے گلے ملا تو پوچھا ''ابو! آپ کا ویزا کب لگے گا؟‘‘۔
بارہ سالہ تیمور‘ ہر روز‘ پاکستانی وقت کے مطابق‘ تین بجے سہ پہر‘ وڈیو کال کرتا ہے۔ اُس کے ہاں یہ نو بجے رات کا وقت ہوتا ہے۔ سونے سے پہلے کہانی سنتا ہے۔ یہ اس کا معمول ہے۔ پاس ہو تو مجھے اس کے پلنگ پر‘ اس کے ساتھ بیٹھ کر‘ یا نیم دراز ہو کر کہانی سنانا ہوتی ہے۔ پاس نہ ہو تو وڈیو لنک پر! اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی سالار بھی کہانی سنتا ہے۔ آسٹریلیا واپس پہنچ کر کچھ دن تک ہر روز پوچھتا رہا کہ ویزے کا کیا بنا؟ ان معاملات میں اتنی جلدی کوئی پیشرفت تو ہوتی نہیں! یہاں سے روتے ہوئے جاتا ہے۔ وہاں سے جب ہم نے واپس آنا ہوتا ہے‘ تو ہماری روانگی سے چند دن پہلے ہی کہنا شروع کر دیتا ہے کہ ایک مہینہ اور رُک جائیے۔ ابھی جنوری میں جب واپس گیا تو اس کے ابا نے بتایا کہ وہ لوگ‘ تالا کھول کر‘ خالی گھر میں داخل ہوئے تو تیمور رو پڑا اور کہنے لگا ''ہمیں پاکستان سے واپس نہیں آنا چاہیے تھا!‘‘
اب تو ما شاء اللہ بارہ سال کا ہے۔ جب چار پانچ سال کا تھا تب بھی دادا دادی کے ساتھ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت ساتھ ہوتا۔ ایک بار مذاق سے کہا کہ آپ کی دادی جان کو تنگ کروں گا تو رونا شروع کر دیا۔ رات کو سونے کا وقت ہوتا اور ماں سونے کا کہتی تو آ کر میرے یا دادی کے پیچھے‘ چھپ جاتا۔ اُسی زمانے میں جب وہ چار پانچ سال کا تھا‘ ایک بار مجھے اکیلے میلبورن جانا پڑا۔ پہلی رات اتنا خوش تھا کہ تین بجے تک سویا نہ مجھے سونے دیا۔ بہت سے کھلونے میرے پلنگ پر لے آیا۔ بہت مشکل سے اس کی ماں نے سلایا۔ دوسرے دن میں واک پر جانے لگا تو ساتھ ہو لیا۔ لمبی واک کی۔ گھر واپس چلنے کا کہا تو انکار کر دیا کہ ابھی اور بھی سیر کرنی ہے۔ چلتے چلتے ایک درخت کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور کہا ''چیز‘‘۔ مجھے اُس وقت تک نہیں معلوم تھا کہ چیز 
(Cheese) 
کا لفظ اس وقت کہتے ہیں جب فوٹو کھنچوانا ہو۔ گھر آ کر بہو کو بتایا تو اس نے یہ نیا سبق پڑھایا کہ چونکہ ''چیز‘‘ کہتے وقت مسکراہٹ ظاہر ہوتی ہے اس لیے فوٹو کھینچنے والا یہ لفظ بولنے کے لیے کہتا ہے۔ گھر کے ساتھ ایک پارک تھا۔ اس میں ایک خوبصورت گزیبو 
(Gazebo)
 بنا ہوا تھا۔ یہ تیمور کی پسندیدہ جگہ تھی۔ اسے وہ '' متان‘‘ یعنی مکان‘ کہتا تھا۔ گھنٹوں وہاں کھیلتا اور واپس آنے کا نام نہ لیتا۔ وہاں سے ہٹانے کی ایک ہی ترکیب تھی کہ چلو مال میں چلتے ہیں‘ وہاں چپس کھاتے ہیں اور جوس پیتے ہیں۔ مال میں‘ ایک ریستوران کے سامنے‘ اس کی اور میری مخصوص جگہ تھی۔ میں اپنے لیے کافی منگواتا اور اس کے لیے چپس اور جوس۔ مگر وہاں سے بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا۔ میرے پاکستان واپس آنے کے بعد‘ اس کے امی ابو اُسی مال میں اُس کے ساتھ گئے۔ وہ اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ گیا اور اپنے ماں باپ کو چپس اور جوس کا آرڈر دیا۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ دادا نے یہ عادت ڈالی ہوئی ہے۔
سکول داخل ہوا تو کلاس میں‘ اس کے علاوہ‘ جنوبی ایشیا سے ایک دو ہی بچے تھے۔ اس کی دوستی ایک بھارت نژاد بچے سے ہو گئی۔ گھر آ کر اس سے فون پر لمبی بات کرتا تو ماں نے منع کیا کہ جب سکول ہر روز مل لیتے ہو تو شام کو پھر لمبی بات کیوں؟ اس نے یہی بات اپنے دوست کو بتائی۔ دوست نے کہا کہ تمہاری اپنی لائف ہے۔ تمہاری ماں کیسے منع کر سکتی ہے۔ اس نے آ کر یہ بات ماں کو بتائی۔ تب اسے سمجھایا گیا کہ پاکستانی بچے ماں باپ کا کہا مانا کرتے ہیں اور یہ ''اپنی لائف‘‘ والی بات غلط ہے۔ بات سمجھ گیا۔ اُن دنوں پوری پاکستانی قوم پر ارطغرل والا ڈرامہ سوار تھا۔ تارکینِ وطن بھی اسی رَو میں بہہ رہے تھے۔ ( میں اُن چند پاکستانیوں میں سے ہوں جنہوں نے یہ ڈرامہ دیکھنے سے انکار کر دیا) تیمور کے گھر پر بھی ارطغرل کا راج تھا۔ اس نے کاغذ سے تلواریں بنائیں۔ چھوٹے بھائی کو بھی شمشیر زنی سکھائی۔ ارطغرل صاحب کوئی انگوٹھی ونگوٹھی بھی پہنتے تھے۔ تیمور نے دادی سے فرمائش کی کہ آسٹریلیا آئیں تو ایسی ہی انگوٹھی اس کے لیے بھی لے کر آئیں۔ دادی نے فرمائش پوری کی۔ شاید اس ڈرامے کا اثر تھا کہ بچوں کے ذہن پر ہتھیاروں کا غلبہ تھا۔ تیمور دوسری جماعت میں تھا۔ بچے ان ملکوں میں اپنی استانیوں سے بے تکلف ہوتے ہیں۔ ایک دن کلاس میں استانی نے کہا کہ سب بچے اپنے اپنے ٹیبلٹ پر فلاں مشق کریں۔ استانی نے دیکھا کہ تیمور کچھ اور ہی کر رہا تھا۔ اس نے منع کیا تو تیمور نے استانی سے کہا: I will 
make a weapon and will destroy you
۔ کہ میں ہتھیار بناکر آپ کو تباہ کر دوں گا۔ استانی نے سمجھایا بجھایا۔ والدین کے ساتھ اگلی (پیرنٹس ٹیچرز) میٹنگ ہوئی تو استانی نے اس کے والدین کو سارا واقعہ بتایا اور یہ بھی کہا کہ اس نے اس معاملے کو خود ہی سلجھا لیا تھا۔ تاہم تیمور کی امی کا کہنا ہے کہ یہ ڈائیلاگ تیمور نے ارطغرل ڈرامے سے نہیں‘ ایک انگلش فلم سے سیکھا تھا۔
اب تیمور چھٹی کلاس میں ہے۔ ابھی تک اس کا یہی مؤقف ہے کہ پاکستان آسٹریلیا سے بہت بہتر ہے۔ وہ پاکستان واپس آکر‘ یہیں رہنا چاہتا ہے۔ اسے پاکستان والا گھر‘ یہاں کے مال‘ دکانیں‘ رشتہ دار‘ سب بہت پسند ہیں۔ اس معاملے میں اس کا باپ بھی اس کا ہمنوا ہے۔ باپ پاکستان کے شنواری اور دوسرے کھانے یاد کرتا ہے‘ مگر پاکستان سے باہر رہنے والے ایسے سب پاکستانی شیر کی سواری کر رہے ہیں اور شیر کی پیٹھ سے نیچے اترنا ممکن نہیں۔ کئی قسم کی آہنی اور سنہری زنجیریں پاؤں میں پڑی ہیں۔ ہم پاکستان میں رہنے والے‘ تارکینِ وطن کے درد ناک دوراہے 
(Dilemma)
 کو نہیں سمجھ سکتے۔ جوتا خوبصورت لگتا ہے مگر صرف پہننے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ کہاں سے چُبھ رہا ہے۔ ہم‘ میرے سمیت‘ تارکینِ وطن پر طعنہ زن ہوتے ہیں کہ باہر بیٹھ کر پاکستان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ہم غلطی کرتے ہیں! تارکینِ وطن کی پہلی نسل پاکستان کو کبھی بھی نہیں بھول سکتی! اپنی گلیاں‘ اپنی مٹی‘ اپنے شہر‘ قصبے اور قریے‘ اپنے اعزہ اور احباب‘ یہ سب کچھ بھلا دینا ممکن ہی نہیں! وہ بیرونِ ملک رہ کر بھی پاکستان کے غموں اور خوشیوں میں برابر کے شریک ہیں۔ ان کا درد بے کنار ہے۔ وطن کی یاد میں ان کے دل سے جو ہُوک اُٹھتی ہے ہم اس کی شدت سے ناآشنا ہیں! ہاں‘ ان کی اگلی نسل جو وہیں کی جَم پَل ہے‘ اس کی بات دوسری ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آرٹس کونسل راولپنڈی میں ایک صاحب کے شعری مجموعے کی تقریب تھی۔ نام یاد نہیں مگر امریکہ یا یورپ میں مقیم تھے۔ تقریب میں موجود ایک صاحب نے ان کی شاعری میں اوزان کی غلطیوں کی طرف اشارہ کیا۔ میری باری آئی تو عرض کیا کہ غلطیاں نکالنے کے بجائے خراجِ تحسین پیش کیجیے کہ مغرب کی مصروف‘ افراتفری والی زندگی میں بھی ان حضرات نے اُردو کی بستیاں بسا رکھی ہیں۔ اُردو میں شاعری کر رہے ہیں۔ وطن کے ساتھ ذہنی رابطہ رکھے ہیں۔ کتاب اپنے ہم وطنوں کو پہنچانے اتنی دور سے آئے ہیں! غلطیوں کی نشاندہی کرنی ہے تو بزم میں نہیں‘ تنہائی میں کیجیے اور شائستگی کے ساتھ کیجیے۔
افتخار عارف کا شعر یاد آ رہا ہے:
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

Monday, May 06, 2024

اسلام آباد کے نئے چیف کمشنر اور محترمہ عظمیٰ بخاری


وفاقی دارالحکومت میں نئے چیف کمشنر نے منصب سنبھال لیا ہے۔ ہم‘ شہر کے مکین‘ نئے والیٔ شہر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں دستور عجیب ہوتا تھا۔ شہر کے صدر دروازے سے علی الصبح داخل ہونے والے اجنبی کو حکومت سونپ دی جاتی تھی۔ بقول شاعر 
میں جب ساحل پہ اُترا خلق میری منتظر تھی
کئی دن ہو گئے تھے‘ بادشہ ملتا نہیں تھا
مگر یہ داستانوں کی باتیں ہیں۔ اب وہ شہر رہے نہ اُن کے صدر دروازے! اب افسر کئی چھلنیوں سے گزر کر شہر کا والی مقرر ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئے چیف کمشنر صاحب ایک
Typical 
بیوروکریٹ کی طرح شہر کے باشندوں سے دور رہنے کی روایت پر عمل پیرا نہیں ہوں گے۔ ان کے پیشرو کو خدا خوش رکھے! اُن سے رابطہ کرنا یا ان کی توجہ حاصل کرنا جو بائیڈن سے بات کرنے سے زیادہ مشکل تھا۔ اسلام آباد کے وسطی حصے میں ایک مسئلہ آن پڑا جو ارد گرد بسنے والوں کے لیے سوہانِ روح تھا۔ بیچارے لوگ رپورٹر یا کالم نگار کو کہتے ہیں کہ‘بھئی! حکام تک ہماری بات پہنچاؤ! رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اس حصار سے جو اُس وقت کے چیف کمشنر صاحب کے گرد قائم تھا‘ گزرنا ناممکن تھا۔ سو کالم لکھا۔ کچھ نہ ہوا۔پھر کالم ان کی خدمتِ عالیہ میں ارسال کیا۔ صاحب بہادر نے ماتحتوں کے ماتحت تک سے جواب نہ دلوایا! وہ تو بھلا ہو‘ اُس وقت کے سیکرٹری داخلہ جناب اکبر درانی کا‘ کہ ریٹائرمنٹ پر جاتے جاتے مسئلہ حل کر گئے۔ اکبر درانی بھی کیا آدمی ہیں! نایاب موتی! افسری کی خو بو نہ کسی قسم کا احساسِ تفاخر! فون کا جواب دیتے‘ بات توجہ سے سنتے! شاید ایسے ہی چند مردانِ کار ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک‘ تلاطم میں گھری یہ بادبانی کشتی‘ چلے جا رہی ہے!! سچ تو یہ ہے کہ جو سرکاری افسر کسی سے ملتے ہیں نہ رابطہ کرنے والے کو جواب دیتے ہیں‘ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں! اور یہ بنیادی حقیقت تو ہم سب جانتے ہیں کہ احساسِ برتری کوئی شے نہیں ہوتی! احساسِ برتری‘ اصل میں‘ احساسِ کمتری ہی کا شاخسانہ ہے! پچاس دہائیاں پہلے ہم جب سول سروس کے گھاٹ پر اُترے تھے تو نصیحت گروں نے نصیحت کی تھی کہ دو کام کرتے رہو گے تو فائدے میں رہو گے۔ایک یہ کہ ہر ملاقاتی سے ضرور ملو‘ خواہ اس کی باری دیر ہی سے کیوں نہ آئے اور سماجی رتبہ اس کا جو بھی ہو۔ اس سے درست فیڈ بیک ملے گی! ماتحت جو فیڈ بیک دیں گے وہ تحریف شدہ ہو گی‘ خالص نہیں ہو گی! دوسرے یہ کہ‘ ڈاک ہر روز کی خود دیکھو کہ یہ بھی ایک مدد گار بیرو میٹر ہے۔ ہمارے ایک باس ڈاک دیکھتے تھے تو کوئی ریمائنڈر ہوتا تھا تو اس پر لکھتے تھے :
I hate to receive reminders
۔ سکینڈے نیویا کے کسی ملک کے حوالے سے پڑھ رہا تھا کہ وہاں وزیر کی ڈاک‘ سب سے پہلے‘ صحافی کھولتے اور پڑھتے ہیں!
ہر چہار جانب سے مسائل میں گھرے اسلام آباد کے نئے چیف کمشنر مثبت شہرت کے مالک ہیں۔ پہلا سرکاری دورہ انہوں نے فیصل مسجد کا کیا ہے اور اس کی تزئین و آرائش کا کام جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ فیصل مسجد یقینا اسلام آباد کا اہم لینڈ مارک ہے اور اس کی مذہبی‘ ثقافتی اور معاشرتی اہمیت مسلمہ ہے۔ مگر شہر کے سلگتے مسائل وہ ہیں جن سے عوام کو سابقہ پڑتا ہے۔ میلوڈی مارکیٹ جو شہر کا دل ہے اور سوِک سنٹر کہلاتا ہے‘ غلاظت کا ایک عبرتناک ڈھیر بنا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم غیر ملکیوں کو یہ سوِک سنٹر فخر سے دکھاتے تھے‘ اب کوشش کرتے ہیں کہ غیر ملکی مہمان کہیں وہاں چلا نہ جائے!! یہ تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے‘ کینیڈا سے ایک سکھ دوست آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یوں تو چندی گڑھ بھی نیا اور
Planned 
شہر ہے مگر اسلام آباد صفائی کے حوالے سے بر تر ہے! اس برتری کو ہماری نا اہلی کھا گئی! میلوڈی مارکیٹ اس وقت گندگی میں ٹاپ پر ہے۔ نالیاں عفونت بھرے پانی سے اُبل رہی ہیں اور ان کے درمیان‘ لوگ ریستورانوں کے سامنے بیٹھے کھانے کھا رہے ہیں! ہر طرف گٹر ہی گٹر ہیں! نیشنل بینک والی سائڈ پر ڈھابوں کی وجہ سے ساری جگہ تھرڈ کلاس لاری اڈہ لگتی ہے! خوانچہ فروشوں نے جگہ جگہ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائی ہوئی ہے۔ جی پی او اور فوڈ پارک سے لے کر حبیب بینک تک‘ پورا سوک سنٹر ایک بہت بڑا
Slum 
لگتا ہے‘ کچی آبادی کا ایک بد نما محلہ! سوِک کم اور سنٹر زیادہ! گندگی کا سنٹر! 
ہم عرض کریں گے کہ چیف منسٹر‘ شہر کے اس غلیظ مرکز کا دورہ‘اپنے ماتحتوں کو بتائے بغیر‘ بھیس بدل کر‘ ایک عام شہری کی حیثیت سے کریں! اگر ان کے دورے کا علم ان کے ادارے کو یا ان کے دفتر کو ہو گیا تو خرانٹ اہلکار‘ گَرگ ہائے باراں دیدہ‘ راتوں رات‘ پوری جگہ کی شکل‘ بدل دیں گے۔ مگر یہ عارضی میک اَپ‘ افسر کے دورے کے بعد دھُل جائے گا اور دوسرے دن پھر وہی مکروہ صورتِ حال ہو گی جو تھی!
چیف کمشنر صاحب اسلام آباد کے سب سے بڑے اور سب سے پرانے بازار‘ آبپارہ‘ کا دورہ بھی ضرور کریں! یہاں محشر بپا ہے۔ سارے کے سارے فٹ پاتھ‘ سو فیصد‘ تجاوزات کے جبڑوں میں جا چکے ہیں۔ دکانوں سے زیادہ ٹھیلے ہیں۔ ٹھیلوں سے زیادہ زمین پر لگے ہوئے سٹال! چلنے کی جگہ ہے نہ رُکنے کی! صفائی عنقا ہے۔ بے ترتیبی سکہ رائج الوقت ہے! خدا کرے کہ نئے حاکمِ شہر چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آ ہوں! ہم تو فقیر ہیں! دیوار کے سائے میں بیٹھے خوش ہیں اور ہر سانس کے ساتھ اُس پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے قناعت اور بے نیازی بخشی! کوئی ذاتی غرض نہیں! شہر اور شہریوں کا بھلا چاہتے ہیں! بقول میر تقی میر: فقیرانہ آئے صدا کر چلے!!
پس نوشت۔محترمہ عظمیٰ بخاری ایک منجھی ہوئی شائستہ مزاج سیاستدان ہیں۔گفتگو کرنے کا ڈھنگ جانتی ہیں۔ بحث کرتے وقت دلائل پر تکیہ کرتی ہیں۔قانون کے اونچے نیچے راستوں سے بھی آشنا ہیں! ساری باتیں درست ہیں مگر کبھی کبھی دورانِ گفتگو ایسی بات کہہ جاتی ہیں جو حقیقت کے بھی خلاف ہوتی ہے اور منطق کے بھی! چند دن ہوئے روا روی میں پانچ سو اور آٹھ سو کے سوٹ والی بات کہہ ڈالی۔ سوشل میڈیا ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ پرسوں سید عمران شفقت کی بیٹھک والے پروگرام میں انہیں اس کی تشریح کرنا پڑی اور صفائی پیش کرنا پڑی۔ پرسوں پھر انہوں نے ایسی بات کہہ دی کہ بقول استاد قمر جلالوی۔
یہ ایسی بات ہے جو درگزر نہیں ہوتی 
یہ بات کہ '' (ن) لیگ کے قائد نواز شریف اس وقت پاکستان کے وزیراعظم بھی ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہیں!‘‘ درست نہیں ہے۔ اول تو انہیں قائد کہہ کر‘ اُسی سانس میں صوبے کا وزیراعلیٰ ثابت کر کے ان کی اپنی حیثیت ہی کو نیچے لا رہی ہیں! دوسرے‘ وہ وزیراعظم ہیں نہ وزیراعلیٰ! جو وزیراعلیٰ ہے وہی وزیراعلیٰ ہے اور جو وزیراعظم ہے وہی وزیراعظم ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے دفاتر سے جو احکام صادر ہوتے ہیں‘ کیا ان پر بڑے میاں صاحب کے دستخط ہوتے ہیں؟ آخر ہم شخصیت پرستی کے کنوئیں سے کب باہر نکلیں گے؟ ایسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں جنہیں سُن کر اپنے بھی زیرِ لب مسکرانے پر مجبور ہو جائیں! ملک کے لیے کوئی ناگزیر نہیں! جب آپ دوسروں کو کلٹ
(Cult) 
کہتے ہیں تو ذرا سنبھل کر قدم رکھیے‘ کہیں خود بھی تو اسی جانب نہیں مُڑ رہے؟ و ما علینا الا البلاغ!

 

powered by worldwanders.com