Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, July 28, 2022

دو ارب ڈالر ماہانہ کہاں جا رہے ہیں؟


اُس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو دو وقت کی روٹی کے لیے صدقہ خیرات لیتا ہے مگر اپنے بیوی بچوں کو بھوکا رکھ کر‘ ان کی ضروریات کو نظر انداز کر کے‘ وہی صدقہ خیرات کسی اور کو دے دیتا ہے! نہیں معلوم آپ اسے احمق کہیں گے یا ظالم! مگر شاید اس کی حماقت‘ اس کا ظلم‘ ان دو القابات سے بھی بڑھ کر ہے!�وہ احمق‘ وہ ظالم کون ہے؟ وہ ہم ہیں! ہماری حکومت ہے! ہمارے پالیسی ساز ہیں! سنگدلی کی انتہا دیکھیے! پٹرول کی قیمت قوم کے سوکھے‘ نحیف جسم کو چیر کر آسمان تک جا پہنچی ہے! ڈالر دو سوپینتیس سے اوپر جا چکا ہے اور پاکستان اپنے محدود اور انتہائی کم زر مبادلہ کو خرچ کرکے افغانستان کے لیے اشیا درآمد کر رہا ہے۔یہ دہائی پاکستان کرنسی ڈیلرز ایسوسی ایشن  کے چئیرمین  ملک بوستان نے دی ہے۔ ہو کیا رہا ہے؟ انہوں نے بتایا ہے کہ افغانستان کے درآمد کنندگان اپنی ضروریات پاکستان کو بتاتے ہیں۔ پاکستان کے امپورٹرز ان کی ضروریات ڈالر دے کر دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں۔ اس میں چائے سمیت بہت سی اشیا شامل ہیں۔ یہ اشیا افغانستان کو بھیجی جاتی ہیں۔ تو کیا افغانستان یہ اشیا پاکستان سے ڈالر دے کر خریدتا ہے؟ نہیں! پاکستان نے افغانستان کو اجازت‘ بلکہ رعایت دے رکھی ہے کہ وہ یہ اشیا پاکستانی روپوں میں خریدے! دوسرے لفظوں میں پاکستان اپنا زر مبادلہ افغانستان کے لیے خرچ کر رہا ہے جو تقریباً دو ارب ڈالر ماہانہ ہے!�کیا دنیا میں اس حماقت کی‘ اس سنگدلی کی کوئی اور مثال ہوگی؟ شاید نہیں! نرم ترین الفاظ میں بھی اسے اقتصادی غداری ہی کہا جائے گا! ادھر پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف کے سامنے ناک سے لکیریں کھینچ رہی ہے‘ ذلت اور رسوائی کا چھرا ہماری گردن پر رکھا ہے۔ ڈالر دنوں کے حساب سے نہیں‘ گھنٹوں کے حساب سے اوپر جارہا ہے۔ پاکستانی روپیہ مسلسل بے قدری کا شکار ہے۔ زر مبادلہ کے حساب خطرناک پستی کو چھو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حساس اور درد مند پاکستانی سینہ کوبی کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش کے زر مبادلہ کے ذخائر کہاں جا پہنچے ہیں۔ اور ادھر حکومت کی '' فیاضی‘‘ دیکھیے کہ افغانستان کے لیے اشیا ڈالر دے کر منگوا رہی ہے اور روپے لے کر افغانستان کو دے رہی ہے۔ ہر مہینے یہ ''فیاضی‘‘ پاکستان کو دو ارب ڈالر کی پڑ رہی ہے!�کوئی ہے جو حکومت سے جواب طلبی کرے؟ کیا اس ملک میں کوئی پارلیمنٹ ہے؟ اگر ہے تو کیا پوری پارلیمنٹ میں کوئی رجلِ رشید ایسا نہیں جو اٹھ کر پوچھے کہ یہ فیصلہ کس نے کیا؟ کیا یہ فیصلہ شوکت ترین صاحب کر گئے یا ان سے پہلے کسی نے کیا؟ یا مفتاح صاحب نے کیا ہے؟ جس نے بھی کیا ہے قوم کو اس ''محبِ وطن‘‘ کا نام معلوم ہونا چاہیے۔ عوام کا حق ہے کہ ایسے فیصلے کرنے والے یا کرنے والا‘ نقاب اتار کر چہرہ دکھائے! مذکورہ شخصیت نے یہ بھی بتایا ہے کہ انہوں نے وزیر خزانہ کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا ہے! اگر اٹھایا ہے تو وزیر خزانہ اس نقصان کا سلسلہ کیسے بند کر رہے ہیں؟�افغان عوام کا حق ہے کہ ان کی حکومت ان کے مسائل حل کرے! پاکستان کی حکومت کا فرض ہے کہ پاکستانی عوام کے مسائل پر توجہ دے! اگر افغان حکومت کی توجہ افغان عوام پر ہے اور پاکستانی حکومت کی توجہ بھی افغان عوام پر ہے تو پاکستانی عوام کہاں جائیں؟ اور کون سی افغان حکومت؟ جس نے ابھی چند دن پہلے کوئلے کی قیمت اور ڈیوٹی صرف اس لیے دو گنا کر دی کہ پاکستانی وزیراعظم نے وہاں سے کوئلہ خریدنے کی بات کی تھی! کون سی افغان حکومت؟ جس نے کالعدم ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رکھا ہے! پہلے پاکستان سے قبائلی عمائدین گئے اور کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیے جو ناکام ہوئے۔ اب پاکستانی علما گئے ہوئے ہیں! گمان غالب یہ ہے کہ پاکستانی علما کی بات بھی نہیں مانی جائے گی! افغان حکومت کی نظر میں کالعدم ٹی ٹی پی کا اور حکومتِ پاکستان کا مرتبہ یکساں ہے! کون سی افغان حکومت؟ جس نے پاکستان کی تعمیر کردہ باڑ جگہ جگہ سے اکھاڑ دی! فاعتبروا یا اولی الابصار!�منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے! اس ملک میں سب سے مظلوم خود پاکستانی ہی ہیں! ہماری ہر حکومت کو دوسروں ہی کی فکر رہی! کبھی اہلِ چیچنیا کی‘ کبھی افغانوں کی! سائیکل کا ہر پرزہ بجا سوائے گھنٹی کے! نہ فکر ہوئی تو اپنے عوام کی نہ ہوئی! غیر ملکیوں کے لیے پاسپورٹ ویزہ سرحد سب کچھ ختم کر دیا گیا! آج بھی لاکھوں غیر ملکی اس قلاش ملک کو نوچ رہے ہیں! دکانیں ان کی! جائدادیں ان کی! چاہیں تو پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیں ( بے شمار ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں)۔ اسے نااہلی کہیے یا بے حسی یا وطن دشمنی کہ نادرا جیسے حساس ادارے میں غیرملکی ملازمت کرتے پائے گئے! عرب ملکوں کا یہ حال ہے کہ چڑیا وہاں پر نہیں مار سکتی! جو سلوک پاکستانیوں کے ساتھ ہوتا ہے‘ ہم سب جانتے ہیں! ویزے کے بغیر کسی کے وہاں جانے یا اترنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا! دنیا کا ہر ملک اپنی سرحدوں کی حرمت کا خیال رکھتا ہے۔ امریکہ نے بیمار پرویز مشرف کو حال ہی میں علاج تک کے لیے ویزہ نہیں دیا! یہ صرف پاکستان ہی ہے جہاں برما سے لے کر بوسنیا تک اور بنگلہ دیش سے لے کر افغانستان تک کے لاکھوں شہری نہ صرف رہ رہے ہیں بلکہ بزنس کر رہے ہیں! ملازمتیں کر رہے ہیں! ضیاء الحق نے تھور کا جو درخت لگایا تھا ابھی تک اس کی شاخیں نحوست پھیلا رہی ہیں!�پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس کو شام کا انتداب (Mandate) دیا گیا تو اقبال نے کہا تھا؛�فرنگیوں کو عطا خاکِ سُوریا نے کیا�نبیِ عفت و غم خواری و کم آزاری�صلہ فرنگ سے آیا ہے سُوریا کے لیے�میٔ و قمار و ہجومِ زنان بازاری�پاکستان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور اب تک ہو رہا ہے۔ یہاں سے غلہ‘ چائے‘ گھی‘ چینی‘ ادویات اور دیگر بے شمار اشیا جو زندگی گزارنے کے لیے لازم ہیں‘ افغانستان جاتی ہیں۔ وہاں سے کیا آتا ہے؟ منشیات اور اسلحہ! میوہ جات بھی آتے ہیں مگر قلیل مقدار میں! میوہ فروش افغان ہیں یا پاکستانی امپورٹر‘ دونوں کے ہاتھ چند روپوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا! اصل مال منشیات بیچنے والے اور خریدنے والے بنا رہے ہیں۔ اس مکروہ کاروبار میں افغان اور پاکستانی دونوں شامل ہیں!�مانا کہ افغانستان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں! مگر افغانستان حکومت کو اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ اس کی ترجیحات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ تفصیل مناسب نہیں۔ بینکاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ افغانستان کے لیے لازم ہے کہ بینکاری کے لیے سنجیدہ کوشش کرے۔ اپنے بینک نہیں تو پاکستانی اور ایرانی بینکوں کی شاخیں اپنے ہاں کھلوائے اور انہیں سکیورٹی مہیا کرے! بینکاری کے بغیر امپورٹ ایکسپورٹ ناممکن ہے! چین نے شروع میں طالبان حکومت کی مدد کا عندیہ دیا تھا لیکن جب تک افغان حکومت خود آگے بڑھ کر معاملات کو دوسرے ملکوں کے لیے قابلِ قبول نہیں بنائے گی‘ کوئی اور کچھ نہیں کر سکتا! سوال یہ ہے کہ کیا افغان حکومت کی اولین ترجیح عوام کی فلاح اور معیشت کی بہتری ہی ہے؟

Tuesday, July 26, 2022

It is not the end of the world


کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں!
شمالی علاقوں پر نظر دوڑائیے۔ سیاحوں کی جنت! کوہ پیماؤں کی پناہ گاہ! برفانی چوٹیاں شہزادیوں کی طرح کھڑی مسکرا رہی ہیں! دریا بہہ رہے ہیں! جھیلیں موتیوں کی طرح جگہ جگہ ٹانک دی گئی ہیں۔ پھلوں کی بہتات ہے! فطرت نے سارا حسن ان علاقوں میں انڈیل دیا ہے! ہمارے پاس ریگستان ہیں۔ شتربان‘ حدی خوانی کرتے ہوئے ان صحراؤں کو پامال کرتے ہیں۔ سمندر ہے۔ گرم پانیوں والا سمندر! جس کی آرزو میں کئی ملک تڑپ رہے ہیں! ہمارے پاس افرادی قوت ہے! بے پناہ ٹیلنٹ ہے! پاکستانی پوری دنیا میں کام کے لحاظ سے اعلیٰ ریٹنگ پاتے ہیں! ہمارے ڈاکٹر‘ ہمارے انجینئر‘ ہمارے سائنسدان‘ ہمارے پروفیسر‘ ہمارے مزدور‘ ہر ملک میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں! ہماری خواتین سول سروس میں‘ بینکاری میں‘ تعلیم کے شعبے میں‘ بزنس میں‘ مسلح افواج میں قابلِ رشک کارنامے سرانجام دے رہی ہیں! ہمارے کسان زمین سے سونا اگاتے ہیں! کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں!
تو پھر یہ کون سی نحوست ہے جو ہم پر چھائی ہوئی ہے؟ کیا ہمارے ستارے گردش میں ہیں؟ کیا ہمیں کسی کی بد دعا ہے؟ کیا ہم پر بد روحوں کا سایہ ہے؟ کیا قدرت ہم سے ناراض ہے؟ بنی اسرائیل تو چالیس سال بھٹکتے رہے! ہمیں بھٹکتے ہوئے کئی دہائیاں ہو گئی ہیں! دور دور تک منزل کا نشان نہیں! یہ کیسا سفر ہے جو ہمیں درپیش ہے! قدم قدم پر جنگلی درندے اور پھنکارتے اژدہے! جو ہم سے منزلوں پیچھے تھے‘ کوسوں آگے نکل گئے! کوریا‘ سنگا پور‘ ملائیشیا‘ یو اے ای‘ ہمارے سامنے صفر تھے! آج ہم ان کے سامنے صفر سے بھی کم ہیں! جو دو وقت کی روٹی کے لیے ہم سے گندم مانگ کر لے جاتے تھے‘ آج ہمارے اَن داتا بنے ہوئے ہیں! ہمارا پاسپورٹ باعثِ ندامت ہے! ہمارا ایکس چینج ریٹ شرمناک ہے! کشکول ہاتھ میں پکڑے در در آوازیں لگا رہے ہیں! ہر پیدا ہونے والا بچہ‘ ناف کٹنے سے پہلے ہی لاکھوں کا مقروض ہو جاتا ہے! دنیا میں ہمیں منہ لگانے کو کوئی تیار نہیں! انا للہ وانا الیہ راجعون!
اس زبوں حالی اور نکبت کے باوجود قیادت آپس میں دست و گریباں ہے! یہ لوگ بھرے ہوئے ترکش ایک دوسرے پر خالی کر رہے ہیں! تلواریں‘ تلواروں سے ٹکرا کر وحشت ناک جھنکار پیدا کر رہی ہیں! نیزے سینوں کے پار ہو رہے ہیں! گھوڑے ہانپ رہے ہیں! سوار گر رہے ہیں! ہماری قیادت کی کوئی اخلاقیات نہیں! کوئی اعتبار نہیں! کوئی لندن بیٹھ کر ڈور ہلا رہا ہے! کوئی اداروں سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے! ان کی اصلیت یہ ہے کہ ایک دن جسے سب سے بڑا ڈاکو کہتے ہیں‘ دوسرے دن اسے کورنش بجا لاتے ہیں! اپنے قول سے پھرتے ہیں اور شرم تک نہیں آتی! سیاست کو شطرنج کی طرح کھیلتے ہیں! ایک دوسرے سے بات تک کرنے کے روا دار نہیں! بچوں کی طرح ہاتھ ملانے سے انکار کرتے ہیں! کسی کو فکر ہے کہ بیٹا وزیراعظم بنے! کوئی بیٹی کو تخت پر بٹھانا چاہتا ہے! کوئی ہیلی کاپٹر اور چارٹرڈ جہاز سے نیچے قدم دھرنے کو تیار نہیں! دیانت کا دعویٰ کرنے والے بھی یہاں اندر سے خائن نکلتے ہیں! دوست نوازی سکہ رائج الوقت ہے! اقربا پروری کو برا ہی نہیں سمجھا جاتا! بیوروکریسی میں دیکھا جاتا ہے کہ ''اپنا‘‘ کون ہے! احتساب کرتے ہوئے صرف پرائے نظر آتے ہیں! لگتا ہے ملک کے ساتھ کوئی بھی مخلص نہیں! سب کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں! مذہب کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے! یہاں تک کہ دینی شعائر پر حملے کیے جا رہے ہیں! منتقم مزاجی کی لہر میں حکومتی فرائض بہا دیے گئے۔ ذاتی دشمنیاں ترجیحات میں شامل ہو گئی ہیں! دور دور تک کوئی روشنی نہیں نظر آرہی!
تو پھر کیا یہ ملک ٹھیکے پر دے دیں؟ کیا اس کا انتظام و انصرام امریکہ کے سپرد کر دیں؟ یا چین کے؟ یا روس کے؟ یا کچھ سال کے لیے یو اے ای کو دے دیں کہ جس طرح دبئی اور ابو ظہبی کو دنیا کا سنٹر پوائنٹ بنا دیا ہم پر بھی مہربانی کریں؟ یا اقوام متحدہ سے درخواست کریں کہ کچھ کرے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا! کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے لیے محنت نہیں کر سکتا۔ یہ خیالی متبادل بحث کے لیے پیش کیے گئے ہیں! ان کا حقیقت سے کیا تعلق!
اس ملک میں نون لیگ‘ قاف لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور جے یو آئی کے علاوہ بھی بہت لوگ بس رہے ہیں۔ عقل اور سوچ اور اخلاص اور تدبیر صرف ان سیاسی طالع آزماؤں کی اجارہ داری نہیں! وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں It is not the end of the world۔ تو یہ بائیس (بلکہ پچیس) کروڑ افراد کا ملک ہے! ایک سے ایک ذہین مرد اور عورت یہاں موجود ہے! ایسے بے غرض افراد کی کمی نہیں جو کسی لالچ کے بغیر ملک کے لیے کام کریں! موجودہ لیڈر شپ کا متبادل تلاش کرنا ہوگا! مردانِ کار کو آگے بڑھنا ہوگا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ غیر متنازع شہرت کے حامل افراد کی ایک انجمن بنے؟ جس میں ایسے لوگ ہوں جن کی دیانت مشروط نہ ہو! اس میں بلوچستان سے عبد المالک بلو چ شامل ہو سکتے ہیں جو بلوچستان کے واحد چیف منسٹر تھے جو سردار نہیں تھے۔ کراچی سے یونس ڈھاگہ ہیں۔ منظور حسین ہیں جو آڈیٹر جنرل آف پاکستان رہے ہیں اور قابلِ رشک شہرت اور انتظامی صلاحیت رکھتے ہیں! لاہور سے اکرم خان ہیں جو بطور معیشت دان عالمی شہرت رکھتے ہیں اور اقوامِ متحدہ میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ سابق آئی جی پولیس ذوالفقار چیمہ ہیں جن کی امانت داری ایسی غیر متنازع ہے کہ ان کے قریبی عزیز نون لیگ میں تھے مگر وہ خود نون لیگ کی حکومت کے لیے قابلِ قبول نہ تھے۔ انہیں اس لیے تبدیل کیا گیا کہ انہوں نے نون لیگ کے امیدوار کو جتوانے کے لیے غلط احکام کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا۔ انہیں کسی صوبے کا آئی جی بنانے کے بجائے ریلوے کی کھڈے لائن میں کھپایا گیا۔ جسٹس وجیہ الدین اور تسنیم نورانی جیسے اشخاص ہیں جنہیں تحریک انصاف سے نکال پھینکا گیا مگر جرم کوئی نہیں تھا سوائے اس کے کہ راستی پر اصرار کیا۔ اس قبیل کے مردانِ کار اپنے ساتھ اُن خواتین و حضرات کو شریک کر سکتے ہیں جن پر انہیں اعتماد ہو!
کاش! کوئی اروند کجریوال ہمیں بھی میسر آ جاتا! ایک فقیر منش شخص جس نے اقتدار میں آکر اپنا طرزِ زندگی رمق بھر نہ بدلا۔ دارالحکومت میں‘ جہاں اسے حکومت ملی‘ تاریخ ساز تبدیلیاں کیں! جیب سے کوئی بزدار نکالا نہ تھیلے سے کوئی گجر! کسی کی تضحیک کی نہ کسی کا نام بگاڑا‘ نہ جوشِ انتقام میں اندھا ہوا! لندن میں فلیٹ خریدے نہ دبئی میں محل! یہاں تو حالت یہ ہے کہ جو صاحب دس گیارہ سال سندھ کے گورنر رہے‘ منصب سے ہٹے تو دبئی کا رخ کیا اور وہیں رہائش اختیار کر لی! یہاں تک کہ بیٹے کی شادی بھی وہیں کی۔ اس شادی میں پیپلز پارٹی کی ہائی کمان کے علاوہ ڈھیر سارے سیاستدان‘ شیخ رشید سمیت‘ پہنچے ہوئے تھے۔ قرضوں سے اَٹے ہوئے اس ملک کے اہلِ سیاست اور اہلِ اقتدار کی عیاشیاں کوئی دیکھے اور عبرت پکڑے! اور یہ تو صرف ایک مثال ہے! اس حمام میں سارے ہی ننگے نکلے! ایک طرف آئی ایم ایف کے سامنے دستِ سوال‘ دوسری طرف اس قلاش قوم کے سر پر چار سال‘ دن میں دو بار‘ ہیلی کاپٹر کے پھڑ پھڑاتے پروں کا سایہ! دھرتی ماں آنسو نہ بہائے تو کیا کرے ؎
اے ماں! تجھے تو کوئی نہ خورسند کر سکا
فرزند گرچہ تو نے دیے تھے جنم بہت

بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, July 25, 2022

عمران خان کی مقبولیت کے کچھ اسباب …(2)



عمران خان کی مقبولیت کے جن اسباب پر ہم نے گزشتہ کالم میں بحث کی ہے‘ ان کا اطلاق ان کے تمام حمایتیوں پر نہیں ہوتا۔ ان کے بہت سے حمایتی ایسے ہیں جو ان کی غلطیوں‘ کمزوریوں اور وعدہ خلافیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں! یہ حمایتی فین کلب کے ممبر ہیں نہ اندھے پیرو کار‘ یہ مانتے ہیں کہ جو امیدیں عمران خان سے باندھی گئی تھیں‘ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ درست ہے کہ مجبوریاں اور Limitationsبہت تھیں مگر عمران خان کے بہت سے ایسے اقدامات ہیں جن کا یہ حمایتی ہر گز دفاع نہیں کرتے!بزدار کی تعیناتی‘ دوست نوازی‘ فنڈز جمع کر کے دینے والوں میں عہدوں کی تقسیم‘ چینی اور دواؤں کی قیمت میں اچانک اضافہ‘ انتقام کی آگ‘ نیب چیئر مین کی مبینہ بلیک میلنگ‘ لوٹوں کو جمع کرنے کے لیے جہانگیر ترین کے جہاز کا وسیع استعمال‘فرح صاحبہ کے مسائل ‘چالیس ارب روپے کی رقم کارخ ملک ریاض کی طرف موڑنا‘ طیبہ فاروق کو مبینہ طور پر محبوس رکھنا‘ اور بہت سے دوسرے اقدامات اور بہت سے وعدوں سے انحراف! ان سب اقدامات کو یہ حمایتی ناروا گردانتے ہیں۔خاص طور پر جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اور جسے چپڑاسی بنانے کے قابل بھی نہ سمجھا‘ انہیں بلند اور قابلِ رشک مناصب پر بٹھا دینا تو ایسا اقدام ہے جس کی یہ حمایتی غیر مشروط مذمت کرتے ہیں!�تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ سب کچھ تسلیم کرنے کے باوجود یہ گروہ عمران خان کا حمایتی ہے! یہ ہے غور و فکر کا مقام! ان کی دلیل یہ ہے کہ عمران خان کا متبادل لائیے! اگر متبادل موجود ہو تو ہم عمران خان کی حمایت نہیں کریں گے! دوسرے لفظوں میں یہ سمجھدار حمایتی‘ جو محض فین نہیں ہیں‘ زرداری خاندان اور شریف خاندان کو متبادل ماننے کے لیے تیار نہیں! وہ عمران خان کو lesser evilیا چھوٹی برائی قرار دیتے ہیں! یا یوں کہیے کہ ان کے نزدیک زرداری اور شریف خاندانوں کے منفی پہلوؤں سے عمران خان کے منفی پہلوکم ہیں اور کچھ کے نزدیک بہت کم ہیں ! وجہ جو بھی ہو ‘ پچھلے تیس چالیس برس جو گروہ سریر آرائے اقتدار رہے‘ وہ ان لوگوں کے لیے اب قابلِ قبول نہیں ہیں!�حقیقت بھی یہی ہے ‘ اور یہ ایک غیر جانبدارانہ رائے ہے‘ کہ ان دو خاندانوں نے کچھ کام ایسے کیے جو کسی طور بھی درست قرار نہیں دیے جا سکتے! سب سے بڑا غیر پسندیدہ پہلو ان کا یہ ہے کہ یہ اقتدار کو اپنے خاندانوں سے باہر دیکھنے کے لیے تیار نہیں! ان خاندانوں کا ٹارگٹ یہ ہے کہ بلاول‘ آصفہ‘ مریم اور حمزہ کو حکومت ملے! دیوار کے پار تو خیر کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا مگر یہ دیوار کے اس طرف دیکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ نوشتۂ دیوار بھی نہیں پڑھ سکتے! دوسری کمزوری ان خاندانوں کی یہ ہے کہ ان کی بیس( base)ملک کے اندر نہیں‘ باہر ہے۔ خاص طور پر شریف خاندان کی! اس میں کیا شک ہے کہ میاں نواز شریف صاحب کا ہیڈ کوارٹر ‘ عملاً لندن ہے۔ اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں تو انہوں نے حد ہی کر دی۔جون2013ء سے لے کر فروری2016ء تک‘ مبینہ طور پر ‘ وہ سترہ بار برطانیہ ‘ یعنی لندن گئے۔ وہ اکثر و بیشتر عیدیں بھی وہیں مناتے رہے! یہ وہ حقیقت ہے جس سے انکار کرنا نا ممکن ہے۔ ان دونوں خاندانوں کی جائدادیں دنیا کے کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کرپشن عدالتوں میں ثابت ہوئی یا نہیں‘ مشہور بہر حال بہت ہوئی ہے اور بچے بچے کی زبان پر ہے۔ رہی سہی کسر عمران خان کی اُس نفسیاتی جنگ نے پوری کردی ہے جس کا تفصیلی ذکر گزشتہ کالم میں کیا گیا ہے! الغرض لوگوں کی ایک کثیر تعداد کے لیے‘ عمران خان کی کمزوریوں اور وعدہ خلافیوں کے باوجود ‘ زرداری اور شریف خاندان‘ دونوں‘ قابلِ قبول نہیں۔ یہ اور بات کہ جس تیسرے بڑے ( چوہدری) خاندان کے عمران خان کبھی مخالف تھے‘ آج انہیں وہ پوتّر دکھائی دیتا ہے!�چلیے‘ جو لوگ کمتر برائی یا چھوٹی برائی کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں ان کے پاس تو ایک حل موجود ہے۔ مگر اُن لوگوں کا کیا بنے گا جن کے لیے کمتر برائی بھی ناقابلِ قبول ہے! برائی ‘ بہر طور ‘برائی ہے! بڑی ہو یا چھوٹی ! تو ایسے لوگ کیا کریں ؟ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جو لوگ الیکشن کے روز گھر سے نہیں نکلتے تھے اور کسی کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ اسے ووٹ دیں‘ وہ عمران خان کے لیے پہلی مرتبہ گھروں سے نکلے! عمران خان نے حکومت میں آکر انہیں مایوس کیا۔ آپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر ان سے یہ حق نہیں چھین سکتے کہ وہ عمران خان کو اُن سیاست دانوں کا یارِ غار سمجھیں جنہیں عمران خان خود سب سے بڑا ڈاکو کہتے رہے ہیں !�2018ء کے الیکشن سے پہلے عمران خان کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ دوسروں کو اتنی بار آزمایا ہے تو ایک بار خان صاحب کو بھی آزمانا چاہیے! اس کالم نگار نے بھی یہی دلیل بارہا ٹیلی ویژن چینلوں پر اور کالموں میں دی! اور مجھ جیسے بے شمار افراد پورے خلوصِ نیت سے یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان کو ایک موقع لازماً ملنا چاہیے! کیا عجب وہ ملک کی قسمت بدل دیں! چنانچہ انہیں موقع دیا گیا۔ یہاں یہ بحث لاحاصل ہے کہ وہ ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آئے یا دوسرے ذرائع سے لائے گئے! ہم نے بہر طور انہیں ووٹ دیا۔ ہم نے انہیں آزمایا! یہ اور بات کہ عمران خان نے ہماری قسمت عثمان بزدار ‘ عمر ایوب‘ شیخ رشید‘ چوہدری پرویز الٰہی‘ فہمیدہ مرزا‘ خسرو بختیار‘ اعظم سواتی اور زبیدہ جلال جیسوں کے ہاتھ میں دے دی۔ ہم مایوس ہوئے! ہم اب اس سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے والے نہیں! ہم انہیں دوبارہ ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ! اس مشکل کا حل یہ ہے کہ اب شریف خاندان‘ زرداری خاندان اور عمران خان کو چھوڑ کر کوئی اور متبادل تلاش کیا جائے! بظاہر کوئی متبادل نظر نہیں آرہا۔ مگر انسانی دنیا کی وسعتیں لامحدود ہیں! یہ امکانات کا جہان ہے! یہ پچیس کروڑ کا ملک ہے! کوئی ایسا قحط الرجال بھی نہیں! پاکستان زرداریوں‘ شریفوں اور عمران خانوں سے شروع ہوتا ہے نہ ان صاحبان پر ختم ہوتا ہے۔ کیا کسی کو امید تھی کہ قدرت قائد اعظم جیسا نجات دہندہ دے گی؟ کیا ملا ئیشیا کے لوگوں کو معلوم تھا کہ مہاتیر ان کی قسمت بدلنے پہنچے گا اور کیا مچھیروں کی اُس گندی بستی کو‘ جسے سنگا پور کہا جاتا تھا‘ پتہ تھا کہ لی کؤان یو آئے گا اور سنگا پور کو آسمان کی بلندیوں تک لے جائے گا؟ پہلی جنگِ عظیم میں جب انگریزوں‘ فرانسیسیوں اور روسیوں نے گیلی پولی کے جزیرہ نما پر چڑھائی کی تو کون جانتا تھا کہ یورپ کے اس مردِ بیمار ‘ ترکی ‘ کے ہچکولے کھاتے جہاز کو اتاترک کنارے پر لے آئے گا! اس ملک نے قائم رہنا ہے۔ مائیں ابھی بانجھ نہیں ہوئیں! دھرتی ابھی بنجر نہیں ہوئی! بادل امڈ کر آئیں گے ! جل تھل ایک ہو جائے گا۔زمین کا سینہ پھاڑ کر کونپلیں باہر نکلیں گی۔ عمران خان نے مایوس کیا‘ مگر یہ دنیا کا آخری کنارہ نہیں! شاہی مسجد کے سائے میں سونے والے مستقبل شناس کی آواز آج بھی گونج رہی ہے�می رسد مردی کہ زنجیرِ غلامان بشکند�دیدہ ام از روزنِ دیوارِ زندانِ شما�یعنی �فلک کو بار بار اہلِ زمیں یوں دیکھتے ہیں�کہ جیسے غیب سے کوئی سوار آنے لگا ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, July 21, 2022

عمران خان کی مقبولیت کے کچھ اسباب


زرداری صاحب کی خواہش ہے کہ وہ بلاول کو وزیراعظم بنتا دیکھیں۔ میاں نواز شریف یہی خواب مریم بی بی کے بارے میں دیکھ رہے ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب ایسے ہی خواب کی تعبیر پا بھی چکے ہیں کیونکہ حمزہ شہباز کا نام تاریخ میں چیف منسٹر پنجاب کے طور پر آچکا ہے۔ رہے شریف برادران خود‘ تو دونوں کئی کئی بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ بڑا بھائی وفاق میں تو چھوٹا پنجاب میں حکمران رہا اور دونوں بیک وقت رہے۔ اب شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر بیٹھ کر تاریخ کا ایک دائرہ مکمل بھی کر لیا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے خاندان سے نکلنے کو تیار نہیں۔ دونوں پارٹیوں میں بڑے بڑے جہاندیدہ اور لائق سیاستدان موجود ہیں۔ رضا ربانی‘ کائرہ صاحب‘ ندیم افضل چن‘ شیری رحمن‘ سید خورشید شاہ‘ شہلا رضا۔ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال‘ شاہد خاقان عباسی‘ صدیق الفاروق‘ مفتاح اسماعیلُ‘ اقبال ظفر جھگڑا‘ مہتاب عباسی۔ ظاہر ہے یہ فہرست مکمل نہیں۔ تعجب ہے کہ ان میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ بلاول‘ حمزہ اور مریم کی جگہ لے سکے!
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خلقِ خدا ان خاندانوں سے اور ان کی بادشاہت سے اُکتا چکی ہے۔ اس قدر اُکتا چکی ہے کہ اب انہیں عثمان بزدار بھی قبول ہے۔ اب وہ مانیکا فیملی کے اقتدار کو بھی برا نہیں سمجھتے! اب انہیں وہ چالیس ارب بھی یاد نہیں رہے جو قومی خزانے میں ڈالنے کے بجائے ایک بزنس ٹائیکون کی جیب میں ڈال دیے گئے۔ اب قادر یونیورسٹی کے معاملات بھی ووٹ ڈالنے والوں کو شفاف نظر آتے ہیں۔ اب مسلمانوں کو یہ بات بھی دین کے خلاف نہیں لگتی کہ قبر میں ان سے پوچھا جائے گا کہ امپورٹڈ حکومت کے خلاف جد و جہد کیوں نہیں کی۔ ان خاندانوں سے لوگ اس قدر اُکتا چکے ہیں کہ انہیں‘ عمران خان صاحب اپنی شدید منتقم مزاجی‘ بیسیوں وعدہ خلافیوں اور بے شمار سوالات کے باجود قبول ہیں۔ ایسے سوالات جن کے جواب سامنے آنے ازحد ضروری ہیں! مگر عمران خان ان کے بارے میں مسلسل خاموش ہیں!
عمران خان نے ایک نفسیاتی جنگ لڑی اور بے حد کامیابی کے ساتھ لڑی۔ وہ ایک خلافِ حقیقت بات کو اس تواتر کے ساتھ کہتے ہیں‘ اتنا دہراتے ہیں کہ سننے والوں کی یاداشت میں وہ بات کھد جاتی ہے اور وہ اسے حقیقت مان لیتے ہیں۔ وہ ایک ڈرل مشین چلاتے ہیں جو ذہنوں میں سوراخ کرتی ہے۔ جب وہ کسی کو وِلن بنا کر پیش کرتے ہیں تو ایک نہ ختم ہونے والی مہم چلا دیتے ہیں جس کے مقابلے میں اس شخص کی ساری صفائیاں اور سارے مثبت پہلو‘ صفر ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں یہ ہنر کسی کو نہیں آتا۔ اس میدان میں ان کے مخالفین ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے! اس نفسیاتی جنگ میں عمران خان اپنے حریفوں کو چاروں شانے چت کر دیتے ہیں! وہ ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں! کس طرح؟ صرف ایک بات کو سینکڑوں ہزاروں بار دہرا کر! یہ ایک فن ہے! یہ ایک تکنیک ہے! اس سے وہ لوگوں کی آرا کو اپنے حق میں موڑ دیتے ہیں! گزشتہ ہفتے‘ چودہ جولائی کو دنیا ٹی وی پر کامران شاہد صاحب کے پروگرام میں اس فقیر نے برملا اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ عمران خان پچاس فیصد سے زیادہ نشستیں لے جائیں گے۔
عمران خان اس ملک کے پہلے سیاست دان ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کو ایک پلاننگ کے ساتھ جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور کمال کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ تاریخ میں ہمیشہ وہی حملہ آور کامیاب ہوئے ہیں جن کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے۔ بابر کی توپوں کے سامنے ابراہیم لودھی کے ہاتھی بے بس ہو گئے۔ جنوبی ہند میں جب فرانسیسی اُترے تو ان کے پاس جدید ترین بندوقیں تھیں۔ مقامی حکمران ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے ان فرانسیسی سپاہیوں کو کرائے پر لیتے تھے۔ ان کے ہتھیار‘ ایک لاکھ کی سپاہ کو ایک ہزار کے سامنے ڈھیر کر دیتے تھے۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی جنگ میں جب جہازوں کو خشکی پر چلوایا تو یہ ایک اچھوتی جنگی چال ہی تو تھی۔ ایک نیا ہتھیار ہی تو تھا۔ آج کی لڑائیاں مختلف قسم کے ہتھیار مانگتی ہیں۔ کامیاب وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی آرا بدل دے اور زیادہ ووٹ حاصل کر لے۔ سوشل میڈیا عمران خان کا وہ توپخانہ تھا جس کے سامنے حریفوں کے ہاتھی کچھ نہ کر سکے اور پانی پت کا یہ میدان عمران خان کے ہاتھ رہا۔ پی پی پی ہو یا نون لیگ یا جے یو آئی‘ سو شل میڈیا کے حوالے سے تحریک انصاف کے مقابلے میں صفر ثابت ہوئے اور کھیت رہے۔
عمران خان ملک کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں اور وزیراعظم دفتر میں سوشل میڈیا کے جوانوں اور ٹیموں کو بلایا‘ وی لاگرز کو بلایا‘ ان سے خطاب کیا‘ انہیں اہمیت دی اور اپنے لیے اس طرح استعمال کیا جیسے جنگ میں فضائیہ کو برتا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے سکواڈرن کے سکواڈرن نکلے اور عمران خان کے حریفوں پر وہ بمباری کی کہ ہر طرف آگ بھڑک اٹھی۔ یہ وہ ڈرل مشینیں تھیں جنہوں نے لوگوں کے ذہنوں کو ڈرل کر کے ان میں عمران خان کا بیانیہ بھر دیا۔ یاد رہے کہ اقتدار کی جنگ حق اور باطل کی جنگ نہیں ہوتی۔ اس میں سچ اور جھوٹ نہیں دیکھا جاتا۔ اس میں صرف برتری حاصل کرنا ہوتی ہے۔ تیمور نے جب عثمانی خلیفہ پر حملہ کیا تو کیا یہ حق و باطل کی جنگ تھی؟ کیا شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو اصولوں کی بنیاد پر حکومت سے بے دخل کیا اور کیا اورنگ زیب کے بھائی مسلمان نہیں تھے؟ جس کی جنگی چالیں کامیاب ہوئیں وہ جیت گیا۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ لوگوں کی آرا ہیں جو فیصلہ کرتی ہیں اور لوگ سچ یا جھوٹ نہیں دیکھتے۔ ان پر سوشل میڈیا اثر کرتا ہے اور ان کی رائے کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
مذہب کا استعمال عمران خان کا ایک اور جنگی ہتھیار ہے۔ وہ معاملے کو‘ جیسا کہ قاسم سوری صاحب نے انہیں کہا‘ اسلامی ٹچ دیتے ہیں۔ پاکستان میں تجارت اور سیاست کے لیے ہمیشہ مذہب کو استعمال کیا گیا ہے۔ مگر عمران خان اس استعمال کو آخری حدوں تک لے گئے۔ ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگایا۔ عمرے پر جانے والوں پر اعتراض کیا اور کسی عالم دین نے اس دیدہ دلیری پر گرفت نہ کی۔
ایک اور بڑا عامل‘ عمران خان کا عام آدمی کی سطح پر اُتر کر اسے محظوظ (Entertain)کرنا ہے۔ ہمارے عوام پست سطح کی للکار‘ زبان اور لہجہ پسند کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ عمران خان جب اوئے کہہ کر حریفوں کو مخاطب کرتے ہیں‘ ان کے نام رکھ کر ان کی تحقیر کرتے ہیں‘ ان کی تضحیک کرتے ہیں‘ ان کی بھد اُڑاتے ہیں‘ یہاں تک کہ انہیں گھٹیا تک کہہ دیتے ہیں‘ تو لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے اس پہلو کی وجہ سے بھی لوگ ان کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ تحقیر کا یہ انداز بھٹو صاحب نے بھی آزمایا تھا مگر عمران خان صاحب اس فن کو اس کی بلندیوں تک لے گئے ہیں۔
یہ سب عوامل کار فرما ہیں مگر عمران خان کی مقبولیت اور کامیابی کی فیصلہ کن وجہ ایک اور ہے۔ اس پر بات اگلی نشست میں ہو گی۔

بشکریہ روزنامہ دنیا 

Tuesday, July 19, 2022

تلخ نوائی ………یہ بھی پاکستان ہے!
مارشل لا آئے اور گئے۔ جمہوری حکومتیں آئیں اور گزر گئیں۔ بے نظیر‘ شریف برادران‘ زرداری سب ایک ایک کرکے حکمرانی کر گئے۔ عمران خان بھی چار سال تخت پر بیٹھ کر چلے گئے۔ ہمارے گاؤں جیسے تھے‘ ویسے ہی رہے۔�آج ہی اپنی کئی بستیوں سے ہو کر آیا ہوں۔ وہی کچّی گلیاں! نالیوں کے بغیر! پانی سے بھری ہوئیں! وہی ٹوٹی ہوئی گرد اڑاتی سڑکیں! وہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ چلچلاتی دوپہریں! وہی سکول جن کی دیواریں ہیں تو چھتیں نہیں ہیں اور چھتیں ہیں تو استاد نہیں ہیں! ہر طرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر! پینے کے صاف پانی کی کمیابی! علاج معالجے کی سہولتوں کا مکمل فقدان! سینکڑوں سال سے یہ گاؤں اسی طرح ہیں۔ کیا عجب آئندہ کئی سو برس تک ایسے ہی رہیں! جہاں بجلی اور پانی نہیں‘ وہاں انٹرنیٹ کا کیا سوال! فتح جنگ تک تو سی پیک کی مغربی شاہراہ کام آجاتی ہے! اس کے بعد سڑک کے نام پر اذیت بچھی ہے! بے پناہ اذیت! ڈھرنال جانا ہے یا کھوڑ! مٹی‘ کنکر اور بجری کے ملغوبے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ کہیں سڑک کھدی پڑی ہے کہیں کھڈوں سے بھر پور! مستقبل کا کوئی روڈ میپ بھی نہیں نظر آرہا۔ یہ مضافات کی شاہراہیں ہیں جن پر وزیراعظم کا گزر ہونا ہے نہ چیف منسٹر کا نہ گورنر کا! ان شا ہراہوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں! یہیں ایک گاؤں کمڑیال ہے جہاں کے رہنے والے ملک سہیل خان اب اس علاقے سے ایم این اے ہیں اور وزارتِ شہری ہوا بازی کے پارلیمانی سیکرٹری بھی! ان سے تو ہماری ملاقات ایک آدھ بار ہی ہوئی ہے مگر ان کے والد مرحوم‘ ملک لال خان‘ سے بہت اچھے مراسم تھے۔ وہ بھی اسی نشست سے کئی بار ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ فتح جنگ سے کمڑیال تک جس اذیت ناک شاہراہ کا ماتم یہاں کیا جا رہا ہے‘ ملک سہیل خان بھی یقینا اسی سے گزر کر اپنے گاؤں جاتے ہوں گے۔ اگر وہ چاہیں تو متعلقہ محکموں کی توجہ اس صورت حال کی طرف مؤثر طریقے سے مبذول کروا سکتے ہیں۔ ورنہ شکست و ریخت اور نام نہاد مرمت کا یہ عبرتناک سلسلہ مستقبل بعید تک چلتا ہی رہے گا!�بارانی علاقے کے یہ گاؤں دوہری مصیبت سے دو چار ہیں ؎�غرض دو گو نہ عذاب است جانِ مجنوں را�بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقتِ لیلیٰ�ایک تو شہر کاری (Urbanisation) ہے۔ یعنی کنبوں کے کنبے گاؤں چھوڑ کر قصبوں اور شہروں میں جا کر آباد ہو رہے ہیں۔ اس کی ابتدا نچلے طبقات سے ہوئی۔ وہ خاندان جنہیں بدقسمتی سے کمّی کہا جاتا ہے‘ سب سے پہلے شہروں کو سدھارے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو ان کی زمینیں تھیں نہ رہنے کے مکان ہی اپنے تھے۔ دوسرا‘ زمانہ تبدیل ہو رہا تھا۔ ان کے باپ دادا سارا سال لوگوں کے کام کرتے تھے اور جب فصل اترتی تھی تو انہیں غلہ دیا جاتا تھا۔ یہی ان کا معاوضہ ہوتا تھا مگر ان کی نئی نسل نے جب دیکھا کہ ہاتھ سے کام کرنے والوں کو شہروں میں نقد معاوضہ ملتا ہے اور کمّی کے توہین آمیز لقب سے بھی وہاں جان چھوٹ جاتی ہے تو انہوں نے اپنے اوزار اٹھائے اور شہروں میں جا بسے۔ شہروں میں انہیں مزدوری اچھی مل رہی ہے اور آئندہ نسلیں‘ کسی طبقاتی امتیاز یا خوف سے آزاد ہو کر تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب بارانی علاقے کے جو ہمارے گاؤں ہیں ان میں کوئی راج رہا ہے نہ معمار‘ نہ درزی‘ نہ لوہار‘ نہ بافندے! کمہار پہلے ہی بیکار ہو رہے تھے کہ اب دیہاتی بھی مٹی کے برتنوں کوچھوڑ رہے تھے۔ ہمارے بچپن میں گاؤں کا مقامی مستری مکان تعمیر کر دیتا تھا۔ اب اسے باقاعدہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ قبروں کو پختہ کرنے والا کوئی نہیں ملتا۔ ان نچلے طبقات کے بعد‘ کسان اور زمیندار بھی شہروں کو منتقل ہونے لگے اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ جو افراد‘ واہ‘ سنجوال‘ کامرہ‘ حویلیاں اور راولپنڈی کی فیکٹریوں میں ملازمت کر رہے تھے‘ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں کو نہیں لوٹے بلکہ وہیں آباد ہو گئے۔ جو باقی بچے تھے ان میں سے کوئی فتح جنگ چلا گیا اور کچھ نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی راہ لی۔ گاؤں میں ہر تیسرا گھر مقفل ہے! بابے آکر چکر لگا جاتے ہیں مگر اُن بابوں کے جانے کے بعد نئی نسل نے گاؤں کے مکانوں‘ حویلیوں اور زمینوں میں کوئی دلچسپی نہیں لینی! یوں ایک ویرانی ان بستیوں میں آہستہ آہستہ‘ دبے پاؤں‘ در آرہی ہے جسے روکنا ممکن نہیں!�دوسرا مسئلہ اُن بستیوں میں تعلیم کے پست معیار کا ہے۔ یہ درست ہے کہ پرائمری سکول‘ ہائی سکول بن گئے اور جو ہائی تھے وہاں گیارہویں اور بارہویں جماعتیں پڑھائی جانے لگیں مگر اساتذہ ایسے نہیں جو جوہرِ قابل کو پہچان سکیں یا کمزور طلبہ و طالبات کو صیقل کر سکیں! یوں یہ طلبہ و طالبات شہروں کے طلبہ و طالبات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اُنہیں ملازمتیں بھی اسی نسبت سے کم حیثیت کی ملتی ہیں! اس طرح طبقاتی تفاوت میں اضافہ ہو رہا ہے اور معاشرہ تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہا ہے۔ نجی شعبہ بھی سکول کھول رہا ہے مگر وہ زیادہ کامیاب نہیں ثابت ہو رہے۔ ان کی فیسیں کسانوں کی سکت سے زیادہ ہیں۔ ایسے سکول تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد بند ہو جاتے ہیں۔�ہمارے گاؤں‘ ترقی یافتہ ملکوں کے دیہات کی طرح‘ کب جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہوں گے؟ اس کا مستقبل بعید میں بھی کوئی امکان نہیں نظر آتا۔ لمحۂ موجود میں تو ہم آگے کی طرف نہیں‘ پیچھے کی طرف چل رہے ہیں! پاکستانی پنجاب کے مغربی اضلاع کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ عسکری بھرتی کے مراکز ہیں۔ کام کرنے والے جوان ہاتھ چلے جاتے ہیں بلکہ ایک ایک خاندان کے کئی لڑکے چھاؤنیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ یوں زراعت توانا ہاتھوں سے محروم ہو جاتی ہے۔ ایک تو بارش پر تکیہ‘ دوسرا افرادی قوت کی کمی! تو پھر فی ایکڑ زرعی پیداوار کم نہ ہو تو اور کیا ہو! اس کا موازنہ فیصل آباد سے یا کسی بھی نہری علاقے سے کیجئے۔ آب رسانی کا خاطر خواہ انتظام! بھرپور افرادی قوت! یوں وہاں فی ایکڑ پیداوار کئی گنا زیادہ حاصل ہوتی ہے!�مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں ریٹائرڈ بوڑھوں کے لیے خصوصی گاؤں بسائے جاتے ہیں! شہر کے ہنگاموں سے دور‘ یہ آبادیاں بظاہر تو گاؤں کہلاتی ہیں مگر ان میں ہر وہ سہولت موجود ہوتی ہے جو شہر میں ہو سکتی ہے۔ انٹر نیٹ سے لے کر جدید ترین میڈیکل وسائل تک ہر شے مہیا کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ موبائل لائبریریاں بھی! شہروں کی لائبریریاں‘ کتابوں سے بھری ہوئی گاڑیاں ان آبادیوں میں بھیجتی ہیں۔ گاؤں کے لوگ اپنی پسند کی کتابیں ایشو کرا لیتے ہیں۔ وقتِ مقررہ پر یہ گاڑیاں پھر آتی ہیں۔ ہمارے لیے یہ سب کچھ خواب کی طرح ہے! ایسا خواب جس کی تعبیر کوئی نہیں! سینکڑوں سال سے ہمارے گاؤں اسی حالت میں ہیں! فرق اتنا پڑا ہے کہ بجلی آگئی ہے مگر لوڈ شیڈنگ کے ساتھ! ہاں! موبائل فون ہر دیہاتی کے ہاتھ میں ضرور ہے! جو تھوڑی بہت نقدی بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد بچ جاتی ہے اسے موبائل فون چوس جاتا ہے! ڈیزل‘ کھاد اور بیج کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں! وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ؛ ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات! تو کسان کے اوقات کس قدر تلخ ہیں؟ اس کا اندازہ شہر والوں کو کہاں ہو سکتا ہے! انہیں تو آٹے سے لے کر دالوں تک ہر شے کیش اینڈ کیری سے میسر آجاتی ہے! ساحل پر کھڑے تماشائیوں کو کیا خبر کہ گرداب میں پھنسی کشتی کا کیا حال ہے؟
بشکریہ روزنامہ دنیا

Monday, July 18, 2022

میں نے تیرا ساتھ دیا ؍ میرے منہ پر کالک مل


ہر سال تین ملین ‘ یعنی تیس لاکھ‘ ٹن گندم پاکستان سے افغانستان کو سمگل ہو تی ہے!یہ بات قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خوراک کے اجلاس میں ایک انتہائی قابلِ اعتبار ذریعہ نے بتائی ہے! مگر کیا افغانستان کو صرف گندم سمگل ہوتی ہے ؟ یہ وہ مقام ہے جس پر ہنسی بھی آتی ہے اور گریہ بھی !! تو کیا باقی اشیائے ضرورت ‘ باقی لوازمات‘ افغانستان خود پیدا کرتا ہے؟ افغان ‘ افغانی پلاؤ میں چاول استعمال کرتے ہیں۔یہ ان کا من بھاتا کھاجا ہے؟ کیا چاول وہاں اُگتا ہے؟ کیا وہاں سیمنٹ ‘ چینی اور گھی کے کارخانے قائم ہیں؟ یقیناً میرے پڑھنے والوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مجھ سے زیادہ دنیا دیکھی ہو گی۔ کیا ان کو کسی ملک میں افغانستان کی بنی ہوئی کوئی شے دکھائی دی؟ کوئی جراب‘ کوئی بنیان‘ کوئی تولیہ‘ کوئی جوتا کوئی پنسل؟ کوئی کاپی؟ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں ‘ جو نہیں جانتے‘ وہ جان لیں اور اچھی طرح جان لیں کہ افغانستان کی تمام اشیائے ضرورت ‘ الف سے لے کریے تک پاکستان مہیا کرتا ہے۔ اور ان اشیائے ضرورت کی اکثریت‘ افغانستان کو قانونی طور پر بر آمد نہیں ہوتی بلکہ غیرقانونی طور پر سمگل ہوتی ہے۔ میرے سامنے اس وقت زراعت کا ایک بین الاقوامی جریدہ رکھا ہے جس میں '' پاکستان زرعی تحقیقاتی سنٹر ‘‘ کے ماہرین کا تجزیہ شامل ہے۔اس تجزیے کے مطابق پاکستان سے افغانستان کو جو زرعی اشیا سمگل ہوتی ہیں ان میں آٹا‘ چینی‘ چاول‘ گھی‘ خوردنی تیل‘آلو‘ پیاز‘ بھنڈی‘ کھیرے‘ پھلیاں‘ جوس‘ مالٹے‘ کنو‘ مونگ‘ مسور‘ ماش‘ چائے‘ میدہ‘ سوجی‘ بیسن‘ نمک‘ مرچیں‘ دھاگا اور پردوں کا کپڑا شامل ہیں۔ غیر زرعی اشیا جو افغانستان کو سمگل ہوتی ہیں ان میں یوریا کھاد‘ پلاسٹک کا میٹر یل‘ جانوروں کی ادویات‘ کیڑے مار دوائیں‘ کھیلوں کا سامان‘ میڈیکل کے آلات‘ پنکھے ‘ سیمنٹ اور سریا شامل ہیں۔ اس فہرست کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ مکمل فہرست ہے۔ یہ وہ فہرست ہے جو ان ماہرین نے اُس خاص عرصہ میں ترتیب دی جس میں وہ تحقیق کر رہے تھے۔ سال کے مختلف حصوں میں مختلف اشیا سمگل ہوتی ہیں۔ کاپیاں‘ پنسلیں‘ پین‘ تعمیراتی سامان‘ زرعی مشینری‘ تارکول‘ ہارڈ وئیر کا سامان‘ گاڑیاں‘ ٹرک‘ موٹر سائیکل‘ سائیکلیں‘ کھلونے‘ باورچی خانے کا سامان‘ بستر کی چادریں‘ کپڑا‘ گارمنٹس‘ سلائی مشینیں‘ پریشر ککر‘ فرنیچر‘ بجلی کا سامان‘ غرض سب کچھ پاکستان سے جاتا ہے اور سمگل ہو کر جاتا ہے۔ یہ کئی دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ میرے والد صاحب ‘ قبل از اسلام کی جاہلی عربی شاعری پڑھانے کے لیے معروف تھے۔ عربی ادب کے شایقین دور دور سے آتے تھے۔ ان میں ایک فارسی بولنے والا افغان بھی تھا‘ میں اس سے فارسی بولنے کی مشق کرتا۔ یوں ہماری دوستی ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد مجھے کابل سے ( یا شاید مزار شریف سے ) اس کا رقعہ ملا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ اپنی رہائش کے لیے مکان تعمیر کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ میں اسے کسی نہ کسی طرح پاکستان سے سریا اور سیمنٹ بھیجنے کا بندو بست کروں۔ ظاہر ہے یہ میرے لیے ممکن نہ تھا نہ ہی میں نے والد گرامی مرحوم سے اس بات کا ذکر کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہیروئن کی فیکٹریوں اور پھلوں کے سوا وہاں کچھ بھی نہیں۔ اس سمگلنگ سے پاکستان کے قومی خزانے کو ہر سال کروڑوں کا نہیں اربوں کا نقصان ہو تا ہے۔
ظاہر ہے افغانستان ہمیشہ سے ان تمام اشیا کا محتاج رہا ہے۔ یہ سمگلنگ انگریزی عہد میں بھی جاری تھی۔ تب تو انگریزی حکومت کی پالیسی بھی یہ تھی کہ قبائل کو خوش رکھا جائے تا کہ گریٹ گیم میں وہ روس کا ساتھ نہ دیں۔ لیکن انگریزی دور سے پہلے کیا ہوتا تھا؟ بھائی لوگو! اُس وقت سمگلنگ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ یہ جو مغربی سرحد سے بر صغیر پر حملے ہوتے تھے تو آپ کا کیا خیال ہے یہ تبلیغِ دین کے لیے ہوتے تھے ؟ تیمور نے حملہ کیا تو تغلق کی حکومت تھی۔ کیا تغلق غیر مسلم تھا؟ ایک لاکھ انسان قتل کیے گئے۔اتنی خوراک لے کر گئے جو برسوں کا فی تھی۔ بابر نے ابراہیم لودھی پر حملہ کیا اور یہیں کا ہو رہا۔ ہندوستان مغلوں کے لیے سونے کی چڑیا تھی۔احمد شاہ ابدالی تو ایک ایک روٹی‘ ایک ایک خوشہ چھین کر لے جاتا تھا۔ نواحِ لاہور میں یہ محاورہ بچے بچے کی زبان پر تھا '' کھادا پیتا لاہے دا ‘ باقی احمد شاہے دا۔ ‘‘ یعنی کھانے سے جو کچھ بچا احمد شاہ لے جائے گا۔ جب بھی فصل پکنے کا وقت آتا‘ افغان آجاتے۔ سات سات حملے یوں ہی تو نہیں کیے! اس لیے کیے کہ جب بھی لُوٹا ہوا غلہ اور مویشی ختم ہوتے‘ بر صغیر کی یاد ستانے لگتی!عمارتوں کے دروازے اور فرشوں کے سنگ مرمر تک اکھاڑ کر لے جاتے رہے! اور یہ تو ہمارے اپنے زمانے کی بات ہے کہ پکی ہوئی روٹیاں پشاور سے گاڑیوں میں لاد لاد کر جلال آباد بھیجی جاتی رہیں۔
یہ خوراک کی کمی ہی تھی کہ افغان پنجاب سے لے کر اڑیسہ اور بنگال تک اور میسور تک نقل مکانی کرتے رہے۔ٹیپو کی فوج میں بھی افغان سپاہی تھے‘ نظام کی فوج میں بھی اور مرہٹوں کی فوج میں بھی! معروف امریکی مؤرخ ‘ رابرٹ نکولس نے‘ جو یونیورسٹی آف پنسلوینیا اور ییل یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ‘ افغان نقل مکانی پر ایک مبسوط تحقیقی کتاب لکھی ہے۔ مگر اس میں صرف 1775ء سے لے کر2006ء تک کی مدت کو موضوع بنایا گیا ہے جبکہ افغان توسیع پسندی کا سلسلہ سینکڑوں سال سے چلا آرہا ہے۔ کہاں غور‘ اور بامیان کے شہر جو وسطی افغانستان میں ہیں اور سوری قبیلے کامسکن تھے اور کہاں بہار کا شہر سہسرام جہاں شیرشاہ سوری پیدا ہوا!
پاکستان افغانستان کی لائف لائن ہے۔ پاکستان کے بغیر افغانستان میں زندگی کا تصور محال نہیں‘ ناممکن ہے۔ ہر موقع پر اور ہر میدان میں پاکستان نے افغانستان کی مدد کی۔ ان کے مریضوں کا علاج پاکستان کے ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ ان کے طلبہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ پاکستان کے پاسپورٹ پر وہ دنیا بھر میں سفر کرتے ہیں۔ جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں ‘ پاکستان نے ان کی مدد کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بین الاقوامی کانفرنسوں کی میزبانی کی۔ دنیا سے ان کی مدد کے لیے اپیلیں کیں۔ مگر ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎ 
میں نے تیرا ساتھ دیا
میرے منہ پر کالک مل
افغانستان نے ‘ جہاں بھی‘ جب بھی اس کا بس چلا‘ پاکستان کے احسانات کا بدلہ عداوت ہی سے دیا۔چند دن پہلے جب وزیر اعظم نے افغانستان سے کوئلہ منگوانے کا ذکر کیا تو افغانستان نے کوئلے کی قیمت فوراً دو گنا بڑھا دی۔ ساتھ ہی ان کے ترجمان نے پاکستان کے متعلق ایسی باتیں کیں جو کوئی دوست نہیں کر سکتا۔ برملا کہا گیا کہ کوئلے کی قیمت انتقاماً بڑھائی جا رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو موجودہ افغان حکومت نے ‘ ریاست پاکستان کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس باغی گروہ کو پاکستان کے حوالے کیا جاتا۔ مگر افغان حکومت انہیں نکالتی ہے نہ پاکستان کی ریاست کے سامنے سرنگوں ہونے کے لیے کہتی ہے۔ اُن لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ''ہمارے طالبان اور اُن کے طالبان‘‘ کو الگ الگ اکائیاں قرار دیتے تھے! تیس لاکھ افغان پاکستان میں مقیم ہیں۔ اب ان کی تیسری نسل بھی یہیں پیدا ہو رہی ہے۔ ایران کی پالیسی کے برعکس‘ پاکستان میں انہیں آزادی ہے جہاں بھی رہیں اور کاروبار کریں۔ مگر وہ جو ایک جنس ہے وفا ‘ وہ ان کے ہاں نایاب ہے۔ پاکستان ان کے لیے ایک ایسی تھالی ہے جس میں کھا نے کے بعد اس میں چھید کرنے سے انہیں ناقابلِ بیان لذت حاصل ہوتی ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا 

Thursday, July 14, 2022

چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سیالکوٹ کی خدمت میں

سیالکوٹ کے امیر صنعتکاروں کو معلوم ہی نہیں کہ سیالکوٹ شہر میں اس گلی کا بھی وجود ہے۔

حکومتوں کو اس گلی کے بارے میں معلوم ہے مگر یہ اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں! اصلاً ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے لیکن اُسے فرصت ہی نہیں کہ صوبے کی توقیر بڑھانے والے کام کرے۔ رہی وفاقی حکومت تو اُس کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ مسئلے کو صوبائی حکومت کی ذمہ داری قرار دے ڈالے۔ منڈی میں عقل ملتی ہے نہ احساس‘ ورنہ پاکستانی عوام چندہ جمع کرتے اور ان حکومتوں کو یہ دونوں آئٹم خرید دیتے!
سیالکوٹ کی یہ گلی اندرونِ شہر واقع ہے۔ اس گلی میں جانے سے پہلے بازار کھٹیکاں عبور کرنا ہوتا ہے۔ عبور کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ بازار کھٹیکاں میں ایک سمندر عبور کرنا پڑتا ہے۔ یہ سمندر پانی پر نہیں‘ موٹر سائیکلوں پر مشتمل ہے۔ اقبال منزل‘ جہاں علامہ اقبال پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے‘ ایف اے تک تعلیم حاصل کی‘ شادی ہوئی‘ جاوید اقبال اور دوسرے بچے پیدا ہوئے‘ اس قبال منزل کے ارد گرد تین محلے ہیں۔ بازار کھٹیکاں‘ کشمیری محلہ اور محلہ چُوڑی گراں! یہ ساری جگہ تنگ گلیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ گاڑیاں نہیں رکھتے کیونکہ گاڑیاں ان تنگ گلیوں سے گزر نہیں سکتیں۔ واحد سواری جو یہاں کام دے سکتی ہے اور دیتی ہے‘ موٹر سائیکل ہے۔ ہر گھر میں اوسطاً تین تین‘ چار چار موٹر سائیکل ہیں۔ بازار کھٹیکاں میں جب داخل ہوتے ہیں تو موٹر سائیکلوں کے ایک سیلِ بے پناہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ موٹر سائیکل مکھیوں اور مچھروں کی طرح‘ یوں لگتا ہے‘ ہزاروں نہیں‘ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ دائیں بائیں‘ آگے پیچھے‘ اوپر نیچے‘ ہر طرف موٹر سائیکل ہی موٹر سائیکل ہیں۔ ان پر سوار لوگ شاید گتکا کھیلنے کے ماہر ہیں۔ موٹر سائیکل سوار پیدل چلنے والے لوگوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے بجلی کی تیزی کے ساتھ گزر تے ہیں اور کسی صورت بھی آہستہ نہیں ہوتے۔ آپ ڈرتے ہیں‘ ہڑبڑاتے ہیں۔ ایک وحشت ناک گھبراہٹ‘ ایک سراسیمگی آپ کو گھیر لیتی ہے۔ ادھر ادھر دیکھتے ہیں مگر سوائے‘ ایک طرف ہو کر‘ سمٹ سمٹ کر چلنے کے‘ کچھ نہیں کر سکتے۔ بازار کھٹیکاں عبور کرنے کے بعد اُس گلی میں داخل ہوتے ہیں جس میں علامہ کا گھر واقع ہے۔ موٹر سائیکلوں کا بے کنار سمندر یہاں بھی اُسی قوت کے ساتھ موجود ہے۔ یہاں سے ہو کر جانے والا‘ جب بھی کسی کو رُوداد سنائے گا تو سننے والے کی حوصلہ شکنی ہی ہوگی!
یہ گلی‘ یہ تاریخی گلی‘ اگر جرمنی میں یا فرانس میں یا اٹلی میں یا کسی اور حساس ملک میں ہوتی تو پوری گلی کو میوزیم میں بدل دیا جاتا۔ گلی کے مکینوں کو بہترین زرِ تلافی اور فیاضانہ دیا جاتا۔ وہ یہ گلی خالی کر دیتے۔ کسی قسم کی سواری ممنوع قرار دے دی جاتی! گلی کا ہر گھر عجائب گھر کی طرح ہوتا۔ کہیں ریستوران ہوتا تو کہیں اقبال کی کتابیں! کہیں ماہرین اقبال پر لیکچر دے رہے ہوتے تو کہیں اقبال کی کتابیں پڑھائی جا رہی ہوتیں۔ کہیں اقبال کے پیر رومی کا احوال سنایا جا رہا ہوتا تو کسی مکان میں طلبہ و طالبات اقبال کے شعروں پر مشتمل بیت بازی کے مقابلے برپا کر رہے ہوتے۔ اقبال کی تصویروں سے مزین شرٹس‘ مگ‘ پلیٹیں اور دیگر تحائف فروخت ہو رہے ہوتے۔ مگر آہ! یہ پاکستان ہے! یہاں ایسے کسی منظر کا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ 
اے رے چراغ پہ جھُکنے والے! یوں ماتھا نہ جلا اپنا
یہ وہ دیس ہے جس میں کسی کو دادِ ہنر معلوم نہیں
قرطبہ میں مسجدِ قرطبہ کے ارد گرد گلیاں اور کوچے سیاحوں کے لیے ہمہ وقت منتظر ہیں۔ عربوں کے قدیم گھر سیاحوں کے لیے کھلے ہیں۔گلیاں صاف ستھری ہیں جیسے کسی نے دھوئی ہوں۔ حالانکہ حکومت اور شہری انتظامیہ کا مسجد سے کوئی جذباتی تعلق ہے نہ ان قدیم گھروں سے نہ مسلم فنِ تعمیر سے! مگر سیاحوں کی تکریم اور حسنِ انتظام اس لیے ہے کہ ملک زرِ مبادلہ کمائے۔
سیالکوٹ کے صنعتکاروں اور برآمد کنندگان کو ابھی اس گلی کی خبر نہیں! انہیں ابھی معلوم نہیں ہوا کہ اقبال کون تھے۔ بد قسمتی سے اقبال چمڑے کی تجارت کرتے تھے نہ کھیلوں کا سامان بناتے تھے۔ ایسا ہوتا تو سیالکوٹ کے اہلِ ثروت ان کے نام سے اور ان کے کام سے ضرور آگاہ ہوتے! سیالکوٹ کے امرا کیا نہیں کر سکتے۔ ایئر پورٹ بنوا سکتے ہیں۔ نرم ریشمی شاہراہوں کا جال بچھا سکتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کی افرادی قوت کو اپنے ہاں کھپا سکتے ہیں۔ اگر سیالکوٹ کے صنعتکار اور برآمد کنندگان علامہ اقبال منزل والا کوچہ‘ مکینوں سے خالی کرا لیں اور پوری گلی کو میوزیم میں تبدیل کر دیں تو یہ بات یقینی ہے کہ اس سے ان کے کاروبار پر مثبت اثر پڑے گا۔ جو آسودہ حالی قدرت نے انہیں عطا کی ہے‘ اس کے سامنے یہ منصوبہ بہت بڑا نہیں! ناممکن نہیں! اگر وہ چاہیں تو اقبال منزل کو پاکستان کا ایک بڑا لینڈ مارک بنا سکتے ہیں۔ اس سے ان کے شہر کو چار چاند لگ جائیں گے۔
اور اقبال منزل؟ کیاکسی کو خبر ہے کہ کس حالت میں ہے؟ بجلی‘ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ اکثر و بیشتر غائب ہوتی ہے۔ اقبال منزل میں یو پی ایس ہے نہ جنریٹر! زائرین اندھیرے میں‘ بے پناہ گرمی میں‘ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آتے اور جاتے ہیں۔ کمروں کا سامان نظر آتا ہے نہ دیواروں پر لگی ہوئی نادر تصاویر! افسوس! صد افسوس! حکومت ایک یو پی ایس‘ ایک جنریٹر نہیں مہیا کر سکتی! انا للہ و انا الیہ راجعون! سرکاری محلات کا ایک ایک دن کا خرچ دیکھیں تو ہوش اُڑ جاتے ہیں! کروڑوں اربوں کے بجٹ ہیں! اللوں تللوں میں ہر جگہ پیسہ لگایا جا رہا ہے۔ نہیں ہے تو اقبال منزل جیسے مقامات کے لیے کچھ نہیں ہے!
اقبال کی شاعری سے‘ اقبال کی تعلیمات سے پہلے ہی اجنبیت اختیار کی جارہی ہے۔ او لیول اور اے لیول کے کسی طالب علم سے پوچھ کر دیکھ لیجیے‘ اقبال کی تصانیف کے نام بھی بتا دے تو کرشمہ ہوگا۔ پہلے بزرگ گھروں میں بچوں کو سعدی‘ اقبال اور حالی سے روشناس کراتے تھے۔ اب بزرگوں کی جو کوالٹی آرہی ہے‘ انہیں خود کچھ نہیں معلوم! اندھا اندھے کو کیا راستہ دکھائے گا۔ لاہور ہی کی بات کر لیجیے۔ کتنے بچوں کو‘ کتنے لڑکوں اور لڑکیوں کو ان کے والدین نے جاوید منزل والا اقبال میوزیم دکھایا ہوگا؟ کتنوں نے اقبال کا مزار دیکھا ہوگا؟ مسجدِ قرطبہ اور ساقی نامہ اردو شاعری کے معجزے کہلاتے ہیں! کتنوں نے پڑھا ہے اسے؟ کتنوں کو پڑھایا گیا ہے؟ کیا یہ سب ناکامیاں کافی نہیں تھیں کہ اقبال منزل جیسے بیش بہا سرمائے سے بھی ہم غفلت برت رہے ہیں؟ زندہ قوموں کے طور اطوار ایسے نہیں ہوتے! وہ اپنے ثقافتی‘ علمی اور ادبی ورثوں کو حرزِ جاں بنا کر رکھتی ہیں! اقبال کی عظمت کو ہمارے رویے سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا! اس کے چاہنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ایران‘ تاجکستان اور افغانستان میں اسے پڑھا بھی جا رہا ہے اور سمجھا بھی جا رہا ہے! نقصان ہمارا اپنا ہے! کیا زبردست میراث ہے ہماری! اور کس بے دردی سے ہم اس سے دور ہو رہے ہیں! اسے کھو رہے ہیں! اقبال ہی کے بقول
میر سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیرنیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف

بشکریہ روزنامہ دنیا 

Thursday, July 07, 2022

سو سال بعد


وہ جو1922ء میں پیدا ہوئے‘ ان میں سے آج کتنے موجود ہیں؟
�1932ء میں جو پیدا ہوئے ان میں سے کچھ افراد اس وقت زندہ ہوں گے۔ اس حکمت پر غور کیجیے کہ ایک وقت میں پیدا ہونے والے سب لوگ ایک وقت میں ختم نہیں ہوتے۔ یہ آہستہ آہستہ رخصت ہوتے ہیں۔ کچھ ساٹھ سال کی عمر میں! کچھ ستر یا اس سے زیادہ کی عمر میں! کچھ بچپن‘ لڑکپن اور شباب کے دوران گزر جاتے ہیں۔ یوں زمانے کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ نئی نسل کو‘ گزشتہ حالات سے روشناس کرانے والے موجود رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سب ایک ایک کر کے‘ آہستہ آہستہ جاتے ہیں۔ اس طرح بہت کچھ نئی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے۔ لباس اور خوراک کا تسلسل بھی جاری رہتا ہے۔ آج جو ساٹھ یا ستر سالہ شخص دنیا سے گیا ہے‘ اس کے لباس اور اس کے بیٹے یا پوتے کے لباس میں کچھ خاص فرق نہیں۔ مگر جب بیٹا دنیا سے رخصت ہوگا اس وقت کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور رو نما ہو چکی ہو گی۔ بیٹے کا پوتا اپنے پردادا کے لباس سے مختلف لباس پہنے گا۔ میرے دادا جان ہمیشہ تہمد باندھتے تھے۔ سفر میں بھی اور گھر میں بھی! نانا جان شلوار پہنتے تھے مگر بہت کم! آج دو نسلوں کے بعد تہمد تقریباً معدوم ہو چکا! میں اس لیے بنگالی لُنگی استعمال کرتا ہوں کہ ڈھاکہ میں رہا۔ ورنہ میرے اکثر ہم عمر تہمد ( دھوتی) سے بے نیاز ہو چکے۔ عزیزم طاہر علی بندیشہ نے ڈھاکہ سے لُنگیاں منگوا کر دیں جو تعداد میں کچھ زیادہ ہی تھیں! ایک بزرگ‘ کرنل صاحب کو‘ جو میرے علاقے سے تھے‘ فون کیا کہ آپ کی خدمت میں ڈھاکہ کی دھوتی بھیج رہا ہوں۔ کہنے لگے: میں تو پہنتا ہی نہیں! اب گاؤں میں بھی شاید ہی کوئی تہمد میں نظر آئے! ہاتھ سے بنے ہوئے جوتے‘ جن کی نوک آگے سے اُٹھ کر دہری ہوئی ہوتی تھی‘ ختم ہو چکے! پگڑی بھی خال خال ہی رہ گئی ہے! شلوار قمیص کے اوپر کوٹ پہنا جاتا تھا جو گھٹنوں تک ہوتا تھا۔ اب کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے لڑکپن میں ایک رنگ کی شلوار قمیص‘ یعنی سوٹ کا رواج نہ تھا۔ سفید شلوار پر قمیص کسی بھی رنگ کی پہن لیتے تھے۔ بوسکی کی قمیص اور لٹھے کی سفید شلوار مقبول لباس تھا۔ آج کی نسل گھر کے اندر‘ زیادہ تر شرٹ اور ٹراؤزر پہنتی ہے! شہروں میں ایسے نوجوان کثیر تعداد میں ملیں گے جو شلوار قمیص کبھی نہیں پہنتے۔ لباس کی یہ تبدیلیاں فطری ہیں۔ ہمیشہ سے رونما ہوتی آئی ہیں اور رونما ہوتی رہیں گی! ان تبدیلیوں کو بزور روکا نہیں جا سکتا! قوموں کا اختلاط بھی ان تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ مفتوح قومیں‘ فاتحین کا لباس پہن کر اپنے احساسِ کمتری کو دباتی ہیں۔ کبھی کبھی فاتحین اپنا لباس‘ اپنی زبان‘ بزور نافذ کرتے ہیں۔ عرب فاتح تھے تو عرب لباس اور عرب زبان ملک ملک پھیلی۔ بر صغیر میں انگریز کی حکومت آئی تو آہستہ آہستہ مغربی لباس اپنی جگہ بنانے لگا۔ روسی وسطی ایشیا میں آئے تو پوری ریاستی طاقت کے ساتھ لباس اور رسم الخط بدلا۔ اب روایتی لباس وہاں صرف عجائب گھروں میں رہ گیا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ عروج پر تھی تو مسلم دنیا میں ترکی ٹوپی کا بہت رواج تھا۔ ترکی ٹوپی کا اصل نام Fez Cap ہے۔ کیونکہ یہ مراکش کے قدیم شہر فَیز میں بنتی ہے۔ اس کا سرخ رنگ درختوں کے پتوں سے نکالا جاتا ہے۔ فَیز شہر کا مراکشی نام فاس ہے۔ میں نے فاس میں ترکی ٹوپیوں کی دکانیں دیکھی ہیں۔ اس ٹوپی کو طربُوش بھی کہا جاتا ہے۔
�خوراک کا معاملہ زیادہ دلچسپ ہے۔ مغلوں کے زمانے میں باجرے کی کھچڑی کا بہت زیادہ چلن تھا۔ اس میں اتنے تجربے کیے گئے اور اتنی اقسام لائی گئیں کہ بریانی کے مقابلے میں آگئی۔ میدانِ جنگ میں یہ تیار بھی جلد ہو جاتی تھی۔ انگریز آئے تو ساتھ ہی کیک‘ پیسٹری اور ڈبل روٹی آگئی۔ اکبر الہ آبادی نے طنز کیا کہ�چار دن کی زندگی ہے، کوفت سے کیا فائدہ
�کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
�خوراک میں نئی نئی چیزوں کا اضافہ‘ بجائے خود ایک دلچسپ داستان ہے۔ آج کل بھارتی حکومت ہر شے کو اصلاً بھارتی کہنے اور کہلوانے پر تلی ہے۔ پہلے آگرہ اور الہ آباد کے نام تبدیل کیے۔ اب حیدر آباد دکن کا نام تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اسی ترنگ میں آکر کچھ عرصہ پہلے بی جے پی اور اس کے حامیوں نے یہ احمقانہ دعویٰ کیا کہ سموسہ اور اس میں پڑنے والا آلو اصلاً بھارتی ہیں اور دنیا کو یہ تحفہ بھارت نے دیا ہے۔ بھارت کے معروف محقق سہیل ہاشمی صاحب نے اس دعوے پر شدید گرفت کی۔ سہیل ہاشمی نے تاریخ پر کئی فلمیں اور ڈاکیو منٹریز بنائیں۔ دلّی کی تاریخ کے وہ ماہر ہیں اور دلّی کی سیر کے لیے بہترین گائیڈ ہیں۔ ایک مدت سے سکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات کو وہ دلّی کی سیر کرا نے کے ساتھ ساتھ دلّی پر لیکچر بھی دیتے ہیں۔ بھارتی دعوے کے رَد میں انہوں نے ڈاکیومنٹریز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ بینگن‘ گنے‘ چاول‘ آم اور کیلے کے سوا کوئی شے بھی اصلاً بھارتی نہیں۔ آلو پرتگالی لائے۔ مہاراشٹر میں اسے بٹاٹا کہتے ہیں جو پرتگالی زبان کا لفظ ہے۔ رہا سموسہ تو وہ وسط ایشیا سے آیا۔ آج بھی تاشقند کے بازاروں میں سموسہ فروخت ہو رہا ہے۔ مرچ کا اورنگ زیب کے عہد تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ یہ جنوبی امریکہ کا پودا ہے۔ پرتگالی ہندوستان آتے تو اس کی باڑ (Hedge) لگاتے تھے کیونکہ کئی رنگوں کی مرچیں باڑ میں خوبصورت لگتی تھیں۔ ان کے گھروں میں مقامی لوگ جو کام کرتے تھے انہوں نے مرچ کو کھانے میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اٹھارہویں صدی میں جب جنوب کے مرہٹے مار دھاڑ کرتے دہلی پہنچے تو مرچ بھی ساتھ لائے۔ یوں مرچ شمالی ہند میں پہنچ گئی۔ یاد رہے کہ ایران‘ افغانستان اور وسط ایشیا میں مرچ ابھی تک نہیں کھائی جاتی۔ سہیل  ہاشمی یہ بھی کہتے ہیں کہ انگور‘ سیب اور خوبانی‘ ہندوستان میں شہنشاہ بابر لایا۔ گنے سے کھانڈ ہندوستان ہی میں بننا شروع ہوئی۔ اسی سے مصریوں نے کرسٹل چینی بنائی جو ہندوستان میں واپس آئی تو مصری کہلائی۔ کھانڈ اور گُڑ بیچنے والوں کو ''کھنڈ ساری‘‘ کہا جاتا تھا۔ کھانڈ وسط ایشیا میں گئی تو قند کہلانے لگی۔ یورپ میں یہی لفظ کینڈی بن گیا۔ سکندر اعظم کے ساتھ یونانی ہندوستان آئے تو کیلے کے درخت کو دیکھ کر حیران ہوئے کہ اس میں لکڑی نہیں ہے۔ تنا بھی پتوں کا مجموعہ ہے۔ یونانی ہی ہندوستان میں قینچی لائے۔ اور کپڑے کی کٹائی اور سلائی شروع ہوئی۔ اس سے پہلے تمام ہندوستانی ملبوسات اَن سلے کپڑوں پر مشتمل تھے۔ ساڑھی‘ دھوتی‘ تہمد‘ لُنگی‘ لنگوٹ‘ پگڑی‘ سب سلائی کے بغیر ہیں۔
�آج برگر‘ پِزا‘ نوڈلز اور چین اور کئی دوسرے ملکوں کے کھانے ہمارے دسترخوان کا حصہ ہیں۔ عرب مَندی بھی مقبول ہو رہی ہے۔ انٹرنیٹ پر ساری دنیا کے پکوانوں کی تراکیب دستیاب ہیں۔ فلم‘ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ملبوسات کو بین الاقوامی حیثیت دے دی ہے۔ پچاس یا سو سال بعد یہ دنیا جس میں ہم آج رہ رہے ہیں‘ معدوم ہو چکی ہو گی۔ جس طرح کائنات ہر لمحہ پھیل رہی ہے‘ اسی طرح انسانی دنیا ہر لحظہ بدل رہی ہے۔ اس تبدیلی کا احساس روزانہ کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ مگر جب بہت سے دن‘ ہفتے‘ مہینے اور سال اکٹھے ہو جاتے ہیں تو تغیر صاف نظر آتا ہے۔ ہمارے جسم کی بھی یہی کہانی ہے۔ جو ہمیں ہر روز دیکھتا ہے اسے نہیں پتا چلتا مگر جو کئی سال بعد ملتا ہے‘ بعض اوقات پہچان ہی نہیں پاتا۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, July 05, 2022

و ما علینا الا البلاغ


ہم لاکھ اختلاف کریں مگر عمران خان کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ شریف خاندان کا سب کچھ ملک سے باہر ہے۔
یوں لگتا ہے کہ بڑے میاں صاحب اصلاً لندن کے ہیں۔ پاکستان محض ان کا کیمپ آفس ہے یا دیہی قیام گاہ ! لندن کی زندگی کے وہ اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب‘ بظاہر‘ ان کا پاکستان میں رہنا مشکل لگتا ہے۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تب بھی ان کے لندن کے دورے بہت زیادہ ہوتے تھے۔ نہ صرف بر صغیر پاک و ہند میں‘ بلکہ سارے عالم اسلام میں یہ رواج ہے کہ عید اپنے آبائی وطن میں منانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لندن میاں صاحب کا آبائی وطن تو نہیںنیا وطن ضرور ہے‘ اگر حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد‘ واحد عید جو انہوں نے پاکستان میں کی‘ جیل میں کرنا پڑی! ورنہ ہر عید پر وہ لندن میں ہوتے تھے۔ جب وہ پرویز مشرف کے عہد میں جدہ گئے تو اس وقت جانے کا ایک جواز تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح جیل سے نکلنا چاہتے تھے۔ مگر جب نومبر2007ء میں وہ پاکستان واپس آئے تو اس کے بعد ان کا لندن یاترا کا جو رجحان رہا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لندن ان کے دل میں گھر کر چکا تھا۔
2013ء میں حکومت میں آنے کے بعد اس رجحان میں تیزی آگئی۔ جو اعداد و شمار میسر ہیں ان کی رُو سے‘ جون2013ء سے لے کر فروری2016ء تک بڑے میاں صاحب نے جو بیرون ملک دورے کئے ان کی مبینہ فہرست کچھ اس طرح ہے: افغانستان ایک بار۔ جرمنی ایک بار۔ بحرین ایک بار۔ بھارت ایک بار۔ ایران ایک بار۔ نیپال ایک بار۔ تاجکستان ایک بار۔تھائی لینڈ ایک بار۔ ازبکستان دو بار۔ قازقستان دو بار۔ چین چار بار۔ ترکی چار بار۔ امریکہ چار بار۔ سعودی عرب پانچ بار اور برطانیہ سترہ ( 17) بار !! آخر ایسے کون سے امور تھے جن کی وجہ سے انہیں تین سال کے عرصے میں سترہ بار برطانیہ جانا پڑا؟ یقینا ان کے لیے لندن سے دور رہنا آسان نہیں !
ایک دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ قید سے بچنے کے لیے انہیں انگلستان میں رہنا پڑ رہا ہے! اس دلیل میں دو کمزوریاں ہیں۔قید اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔سیاست دان اگر قید سے گھبرائے تو پھر اسے سیاست کے کوچے کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔ یہ اور بات کہ پہلے سیاست دان بغاوت کے جرم میں سزا پاتے تھے۔ اب کرپشن کے درست یا غلط الزامات میں پکڑے جاتے ہیں۔ بڑے میاں صاحب جیل سے نکل کر لندن کی دلکش اور آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کی پارٹی کے دوسرے زعما نے عمران خان کی آتشِ انتقام کا استقامت سے سامنا کیا۔احسن اقبال‘ خواجہ آصف‘شاہد خاقان عباسی‘ مفتاح اسماعیل‘ سعد رفیق‘ ان کے بھائی سلمان رفیق‘ رانا ثنا اللہ‘ سب حوالۂ زنداں کیے گئے۔ حمزہ شہباز نے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا۔ شہباز شریف بھی محبوس رہے۔ اگر یہ سب‘ بڑے میاں صاحب اور اسحاق ڈار صاحب کی طرح لندن جا بستے تو (ن) لیگ ختم ہو جاتی۔ خورشید شاہ کا عرصۂ اسیری دو سال سے بھی زیادہ تھا۔آصف زرداری کا رویہ اس حوالے سے میاں صاحب کے رویے کے مقابلے میں بالکل الٹ ہے۔زرداری صاحب نے دس سال سے زیادہ مدت جیل میں گزاری اور مجید نظامی سے مردِ حُر کا خطاب پایا۔ دوسری کمزوری اس دلیل میں یہ ہے کہ میاں صاحب کا انداز دیکھ کر مطلق احساس نہیں ہوتا کہ وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ وہ ایک اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے اپنے گھر میں ہیں اور اپنے شہر میں ہیں۔
جب عدالتوں میں مقدمے چل رہے تھے اور چھان بین اور پوچھ گچھ ہو رہی تھی تو میاں صاحب کے صاحبزادوں نے برملا کہا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں اور نہ ہی پاکستانی قوانین کا اطلاق ان پر ہو سکتا ہے۔ روایت یہ ہے کہ مریم نواز نے انہیں والد کی علالت کے دوران واپس آنے کا کہا مگر وہ نہ مانے۔ واللہ اعلم ! بہر طور جب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کا سب کچھ باہر ہے اور بچے بھی باہر ہیں تو لیگی کارکنوں کے پاس دفاع کے لیے کوئی دلیل نہیں ہوتی! زیادہ سے زیادہ یہ جواب دیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بچے بھی باہر ہیں۔ مگر یہاں بات بنتی نہیں! سب جانتے ہیں کہ غیر ملکی بیوی سے علیحدگی ہو تو بچے‘ اکثر و بیشتر‘ ماں کے ساتھ ہی رہتے ہیں! ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ٹوٹے ہوئے کنبوں کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ویسے اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کی ملاقات بیٹوں سے نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں یہ بات بھی سننے میں آئی‘ ( اور یہ بات مصدقہ نہیں ہے) کہ ایسا وہ کسی روحانی ہدایت کے تحت کر رہے ہیں! بات میاں صاحب کے صاحبزادوں کی ہو رہی تھی۔ اس میں کیا شک ہے کہ مریم نواز مشکلات کا سامنا کرنے میں اپنے بھائیوں‘ بلکہ اپنے والد کے مقابلے میں بھی زیادہ جرأت مند ثابت ہوئی ہیں۔ تازہ ترین خبر کے مطابق مریم نواز صاحبہ کے صاحب زادے جنید صفدر صاحب نے کیمبرج سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔یہ خوشی کی بات ہے۔ ہم ان کی مزید کامیابیوں کے لیے دعاگو ہیں۔ پاکستان کے بہت سے نوجوان برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ڈگریاں لیتے ہیں۔ان میں امرا کے بچے بھی ہوتے ہیں اور مڈل کلاس خاندانوں کے بچے بھی ! تاہم جنید صفدر صاحب کو ان کے مقابلے میں یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ لندن ہی میں رہتے ہیں جہاں ان کے ننھیال مستقل طور پر قیام پذیر ہیں !
پاکستان کی سیاسی پارٹیاں مخصوص خاندانوں کی موروثی گرفت میں ہیں۔ خود تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف اڑھائی دہائیوں سے عمران خان صاحب کی اجارہ داری میں چل رہی ہے۔ پارٹی کے اندر انتخابات کرانے کے مسئلے پر جسٹس وجیہ الدین اور تسنیم نورانی جیسے رہنماؤں کو یوں نکال دیا گیا جیسے دودھ سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے۔سیاسی پارٹیوں پر خاندانوں اور شخصیات کی گرفت ایک بہت بڑی بیماری ہے جوہمارے سماج اور ہماری سیاست کو لاحق ہے مگر (ن) لیگ اس سے بھی دو قدم آگے چلی گئی ہے۔ اب اس سیاسی جماعت کی اجارہ دارانہ قیادت برطانیہ میں بیٹھ کر پارٹی چلا رہی ہے۔ فیصلے وہاں سے ہوتے ہیں۔ مشوروں کے لیے رہنماؤں کو وہاں بلایا جاتا ہے۔ یہ صورت حال کب تک رہے گی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا!
کوئی ہے جو بہت ہی محترم بڑے میاں صاحب کو قائل کرے کہ ملک میں واپس آئیں۔ دوسرے تمام سیاست دانوں کی طرح مقدمات کا سامنا کریں۔ عدالتوں میں پیش ہوں۔ کبھی جدہ چلے جانے اور کبھی لندن چلے جانے کا رویہ ان کے شایانِ شان نہیں! اب تو ان کے حمایتی بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ صرف حکومت کرنے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ پارٹی کو اپنی ملکیت سے آزاد کر دیں۔ بے شک مریم نواز صاحبہ کو اس کی قیادت سونپ دیں یا حوصلہ کرکے‘ دل بڑا کر کے‘ شہباز شریف صاحب کو قیادت منتقل کر دیں! عمران خان کے بیانیے کو مزید تقویت نہ دیں! چلئے خاندانی تسلط بر قرار رہے کہ باقی پارٹیاں بھی اسی طرح چل رہی ہیں مگر قیادت ملک کے اندر موجود تو ہو!

Monday, July 04, 2022

Insult


میرا مسئلہ نواز شریف ہیں نہ زرداری ! مولانا ہیں نہ شہباز شریف! ان سے تو میں کبھی کا بر گشتہ خاطر تھا۔کبھی الیکشن میں انہیں ووٹ نہیں دیا۔ہمیشہ مخالفت کی۔ میں ایک عام آدمی ہوں۔میری کیا اہمیت ہے! میں کسی کھیت کی مولی نہیں! میرے ووٹ دینے یا نہ دینے سے پیپلز پارٹی کو یا (ن) لیگ کو یا جے یو آئی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ مگر میں اپنی پوزیشن واضح کر رہا ہوں اور بقائمی ہوش و حواس ‘ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں کہ ان میں سے کسی کو کبھی ووٹ نہیں دیا۔ (ن) لیگ کی تو ڈٹ کر مخالفت کی۔ یہاں تک کہ ان کے ایک وزیر نے اُس زمانے میں ( یعنی اگست2018ء سے پہلے) ایک ٹی وی ٹاک شو والوں کو میرے بارے میں کہا کہ اس جیسے ہارڈ لائنر کو بلا لیتے ہیں۔ جب بڑے میاں صاحب وزیر اعظم تھے اور کارِِ سرکار میں ان کی دختر نیک اختر کا عمل دخل بہت زیادہ تھا ‘ تو اس مداخلت کی بھی مخالفت کی۔ جب چھوٹے میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور ان کے صاحبزادے صوبے کی حکومت چلانے میں دخیل تھے تو اس پہلو کے خلاف بھی لکھا اور بولا۔ ان سیاسی جماعتوں پر مخصو ص خاندانوں کی موروثی گرفت کے خلاف بھی بہت کہا اور بہت لکھا۔ جب ان جماعتوں سے کوئی امید ہی نہیں تھی تو گلہ کیسا! 
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
میرا مسئلہ اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں! میں ایک قانون پسند اور آئین پسند شہری ہوں۔ اداروں کی دخل در معقولات کا کبھی حامی نہیں رہا۔ میری رائے میں جنرل ضیا الحق کے عہدِ حکومت نے اس ملک کو کئی نوری سال پیچھے دھکیل دیا۔ میرٹ کی دھجیاں اڑیں۔ قومی خزانے کو شیر مادر کی طرح برتا گیا۔ دہشت گردی ‘ اسلحہ کی ریل پیل اور منشیات کا پھیلاؤ اسی عہد کی یادگاریں ہیں۔ جنرل صاحب نے مذہبی طبقات کو ساتھ ملا کر ‘ ملک کے بارڈر کی ایسی تیسی کر دی۔ کسی پاسپورٹ کسی ویزے کے بغیر لاکھوں غیر ملکی جنگجوؤں کو اس ملک میں لا بسایا۔ غیر ملکی لاکھوں کی تعداد میں‘ پورے ملک میں‘ یوں بکھیر دیے جیسے کھیت میں بیج بکھیرا جاتا ہے۔ آج بھی یہ غیر ملکی اور ان کی ذریت میرے اہلِ وطن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے! پرویز مشرف کے تاریک دور میں جو جو ستم ڈھا ئے گئے ان کے بارے میں بھی میرے نحیف اور بے نوا قلم نے بارہا لکھا ہے!
میرا مسئلہ عمران خان صاحب سے ہے۔ میں نے ان کے وعدوں پر اعتبار کیا۔ انہیں ووٹ دیا۔ مگر انہوں نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی۔میں زندگی میں پہلی بار گھر سے ووٹ دینے نکلا۔ مجھے میرے دوست احباب‘ اعزّہ و اقارب ہمیشہ سمجھاتے کہ ووٹ نہ ڈال کر تم قومی جرم کا ارتکاب کر رہے ہو۔ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے یہ تمہارا فرض ہے۔ مگر میرا موقف واضح تھا۔ مجھے کوئی پارٹی اس لائق نہیں لگتی تھی کہ اسے کارِ مملکت سونپا جائے۔کسی غیر مستحق کو ووٹ دینا امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے۔ جب عمران خان میدان میں نکلے تو میں نے پہلی بار کسی لیڈر کے منہ سے وہ باتیں سنیں جو میرے دل میں تھیں۔ ان کا پروگرام‘ ان کے وعدے‘ ان کے دعوے سن کر میں متاثر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کابینہ سترہ ارکان پر مشتمل ہو گی۔ ہر ماہ پی ٹی وی کے نام پر بجلی کے بلوں میں جو جگّا ٹیکس لیا جاتا ہے انہوں نے اس کے خلاف تقریر کی۔ میرے کلیجے میں اس سے ٹھنڈ پڑی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ بیورو کریسی میں تعیناتیاں اور ترقیاں میرٹ اور صرف میرٹ پر کی جائیں گی۔انہوں نے بدنام زمانہ تھانہ اور کچہری کلچر کو بدلنے کا وعدہ کیا۔قومی عزتِ نفس کی بات کی۔ملکی خزانے کی حفاظت کا وعدہ کیا۔ انہوں نے مغرب کے جمہوری ملکوں کی قانون پسندی کی مثالیں دیں۔یہی میرے خواب تھے۔ یہ خواب میں نے سال ہا سال دیکھے تھے۔ خدا خدا کر کے اب ایک ایسا لیڈر ملا جو مجھے میرے خوابوں کی تعمیر دینے کا پیمان کر رہا تھا۔میں نے اسے ووٹ دیا اور بے حد سنجیدگی سے دیا۔
مگر میرے ساتھ دھوکہ ہوا! دن دہاڑے دھوکہ ہوا! پہلے تو میرٹ کی دھجیاں اُڑا کر ایک قطعی غیر مستحق ‘ گمنام‘ نا تجربہ کار شخص کواہلِ پنجاب کی گردن پر مسلط کر دیا گیا جس کی واحد اہلیت یہ تھی کہ وہ گجر خاندان کا دوست تھا جیسا کہ گجر صاحب نے خود ٹی وی پر بتایا۔ عمران خان صاحب اس غیر معروف شخص کو خود جانتے تک نہ تھے۔ اسی پر اکتفا نہیں ہوا۔جو کچھ اس کے بعد ہوا وہ ایک ہولناک مذاق سے کم نہ تھا۔ عمران خان اس کی تعریفوں کے ہر دم پُل باندھتے رہتے۔ ندیم افضل چن صاحب نے ٹی وی پر وہ اسباب بتا ئے جن کی بنا پر وہ عمران خان کی حکومت سے علیحدہ ہوئے۔ ایک سبب یہ تھا کہ وزیر اعظم کی یہ خواہش ہوتی تھی اور اپنے وزیروں اور مشیروں سے کہتے بھی تھے کہ بزدار کی تعریف کی جائے! پھر جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اسے بہت بڑا عہدہ دیا۔مونس الٰہی نے ایک حالیہ ٹویٹ میں انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے ان کے گھر جا کر ان الفاظ پر معذرت کی! کیاایک لیڈر کا یہ کردار ہونا چاہیے؟ کیا پہلے جوکچھ کہا وہ جھوٹ تھا؟ فرح نامی خاتون ‘ جس پر الزامات ہیں‘ کیوں فرار ہو گئی؟ اگر یہ الزامات جو باعزت ہر گز نہیں‘ غلط ہیں تو خان صاحب اسے حکم کیوں نہیں دیتے کہ واپس آؤ تا کہ میری پوزیشن خراب نہ ہو۔ قیراط اور انگوٹھیوں والی باتوں کی تردید کیوں نہیں کی جاتی!
کون سا وعدہ اور کیسا دعویٰ! کابینہ سترہ کے بجائے پچپن ارکان کی بنائی۔ پی ٹی وی والی چَٹّی جو بجلی کے ماہانہ بلوں کے ذریعے وصول کی جاتی تھی خان صاحب کو یاد ہی نہ رہی۔ بیوروکریسی میں میرٹ نامی چڑیا کہیں بھی نہ دکھائی دی۔ وزیر اعظم کے گرد بیورو کریسی کا جو حصار تھا وہ لسانی بنیادوں پر کھڑا کیا گیا۔وہ خاتون جس کا نام طیبہ فاروق ہے‘ کیا کیا الزامات لگا رہی ہے! اس کی تردید کیوں نہیں کی جاتی؟وڈیو کی بنیاد پر نیب کے چیئر مین کو کیا بلیک میل نہیں کیا گیا؟ رہی عزت ِنفس ‘ جس کی بات کی جاتی تھی‘ تو اس کی خوب خوب بھد اُڑائی گئی۔ امریکہ جانا تھا تو سپیشل ہوائی جہاز کی خاطر ‘ مملکت پاکستان کے حکمران نے ‘ ایک شہزادے کے احسان تلے دب جانا پسند کیا۔ واپسی پر ‘ مبینہ طور پر‘ اس نے آدھے راستے میں جہاز واپس لے لیا۔ شاید یہ شدید احساسِ کمتری تھا کہ دفتر آنے جانے کے لیے‘ چار سال ‘ دن میں دو بار ‘ سرکاری ہیلی کاپٹر کی سواری کی گئی۔ اگر انسان نے اپنے ذاتی جہاز اور ہیلی کاپٹر دیکھے ہوں اور برتے ہوں تو اور بات ہے۔ مگر سیالکوٹ جانا ہو یا کراچی ‘ چارٹرڈ جہاز کے بغیر نہ جا یا جا سکے تو اسے احساسِ کمتری کے علاوہ کیا کہا جا ئے گا؟ سیاست دان اور لیڈر میں یہی تو فرق ہوتا ہے۔ لیڈر ایسے کردار کا مظاہرہ کرتا ہے کہ لوگ اس کی تقلید اور تعریف کریں۔ نہ یہ کہ انگلی اٹھائیں!
یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے ورنہ دھوکے کی تفصیل طویل ہے۔ میرے ساتھ دھوکہ ہوا! ستم بالائے ستم یہ ہے کہ کسی سچائی ‘ کسی اعتراض ‘ کسی الزام کا جواب نہیں دیا جا رہا۔ جس کا مطلب‘ زبانِ حال سے یہ ہے کہ ہاں! میں نے ایسا ہی کیا ہے۔ جو کرنا ہے کر لو! اسے کہتے ہیں Adding insult to injury۔

 

powered by worldwanders.com