Thursday, June 12, 2025
اگر پاکستان نہ بنتا
Tuesday, June 10, 2025
دو عیدیں اور غزہ
میلبورن ( آسٹریلیا) میں کتنے مسلمان ہوں گے؟ لاکھ‘ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ۔ یہ مٹھی بھر مسلمان اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ عید کس دن کرنی ہے! ماشاء اللہ دو عیدیں ہوئیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی یہی حال رہا۔ اندازہ لگائیے‘ جو لوگ عید کے تہوار پر متفق نہیں ہو سکتے‘ وہ غزہ کو دشمن کے پنجے سے چھڑائیں گے!! چلیے‘ ہم پاکستان میں رہنے والے تو پسماندہ ہیں اور تارکینِ وطن کی نگاہوں میں قابلِ رحم! مگر یہ حضرات جن کی زندگیاں ان ترقی یافتہ ملکوں میں گزریں اور بہت سوں کی تو پیدائش ہی وہیں کی ہے‘ یہ لوگ ایک عید کیوں نہیں کر لیتے؟ یا تو اس بات پر اتفاق کر لیں کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ عید کریں یا کیلنڈر کے مطابق کر لیں۔ جن حضرات کو اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے پر اصرار ہے وہ رمضان المبارک میں چھت پر چڑھ کر کیوں نہیں دیکھتے کہ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے یا نہیں؟ حکم تو یہ ہے کہ کھاؤ اور پیو‘ جب تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے فجر کے وقت صاف ظاہر ہو جائے۔ مگر چاند کو آنکھ سے دیکھنے پر اصرار کرنے والے اس بات کا کبھی جواب نہیں دیتے کہ سحری کے وقت گھڑی دیکھ کر کھانا پینا کیوں بند کر تے ہیں؟ جس طرح ہمارے منتخب نمائندے صرف اُس وقت متحد ہوتے ہیں جب ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل پیش ہو‘ اسی طرح مسلمان بھی اُسی وقت متحد ہوتے ہیں جب کسی کی تکفیر یا تکذیب کرنی ہو! بقول اقبال:
Thursday, May 29, 2025
قومی ائر لائن ، آسٹریلیا اور پاکستان ہائی کمیشن
سری لنکا ایئر لائن کا یہ پہلا تجربہ تھا اور بے حد خوش گوار!! ہماری قومی ایئر لائن کی روایت کے بالکل بر عکس جہاز وقت پر روانہ ہوا! ساڑھی پوش میزبان خواتین نے بے حد خیال رکھا۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کولمبو ایئر پورٹ پر ہوا۔ یہ ایئر پورٹ ہمارے اسلام آباد ایئر پورٹ سے کہیں زیادہ بڑا‘ زیادہ منظم اور زیادہ خوبصورت ہے۔ بڑے بڑے بازار ہیں جبکہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر‘ جس کی تعمیر میں گیارہ سال صرف ہوئے‘ صرف ایک کیفے ٹائپ دکان ہے۔ سراندیپ‘ سری لنکا کا پرانا نام ہے۔ یہی نام ایئر پورٹ پر واقع لاؤنج کا تھا جس میں تمام سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھیں‘ یہاں تک کہ وہ عظیم الجثہ صوفے بھی جن پر نیم دراز ہوا جا سکتا تھا۔ کولمبو سے میلبورن کا نو گھنٹوں کا سفر خاصا آرام دہ تھا مگر ذہنی اذیت ساتھ رہی اور ذہنی اذیت یہ تھی کہ کیا ہم سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں؟ گویا:
انجم غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں لاکھوں پاکستانی رہتے ہیں۔ ان سب نے پاکستان آنا ہوتا ہے اور کچھ دن رہ کر واپس بھی جانا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ لاکھوں وہ ہیں جو ان پاکستانیوں کو ملنے کے لیے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جاتے ہیں اور پھر واپس آتے ہیں! ان تمام پاکستانیوں کی سہولت کے لیے پاکستان کی قومی ایئر لائن نے ایک کام کمال کا کیا ہے۔ قومی ایئر لائن کا کوئی جہاز آسٹریلیا جاتا ہے نہ آسٹریلیا سے پاکستان آتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی دھکے کھا رہے ہیں۔ وہ بھی جو آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ میں آباد ہیں اور وہ بھی جو پاکستان سے انہیں ملنے جاتے ہیں۔ کبھی وہ تھائی ایئر لائن پر سوار ہوتے ہیں جو بنکاک میں انہیں بارہ گھنٹے بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے اور اگلی فلائٹ بارہ گھنٹوں بعد ملتی ہے۔ کبھی وہ پندرہ گھنٹے کی اذیتناک پرواز گزار کر دبئی‘ ابو ظہبی یا قطر پہنچتے ہیں۔ وہاں ان سے و ہی سلوک ہوتا ہے جو مشر قِ وسطیٰ والے ہم پاکستانیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ بہت سے دوسرے ملکوں کے شہریوں کو یو اے ای یا قطر کے اندر جانے کا ویزا ایئر پورٹ پر مل جاتا ہے‘ پاکستانیوں کو دس دس پندرہ پندرہ گھنٹے ایئر پورٹ کے اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔ بھارت کی آسٹریلیا کے لیے ہفتے میں چودہ پروازیں جانے کی ہیں اور چودہ ہی آنے کی۔ میلبورن سے ہر روز ایک پرواز دہلی جاتی ہے اور ہر روز ایک پرواز سڈ نی سے دہلی! چلئے بھارتیوں کی تعداد آسٹریلیا میں بہت زیادہ ہے۔ 2023ء کے اعداد و شمار کی رُو سے بھارتی نژاد آبادی آسٹریلیا میں ساڑھے آٹھ لاکھ ہے۔ مگر سری لنکا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی آبادی تو پاکستانی تارکین وطن کی نسبت بہت زیادہ نہیں۔ 2023ء ہی کے اعداد و شمار کے مطابق سری لنکا سے آئے ہوئے افراد کی تعداد آسٹریلیا میں ایک لاکھ اٹھاون ہزار ہے۔ پاکستانیوں کی تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار ہے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ سری لنکا سے ہر روز ایک ہوائی جہاز میلبورن آتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان سے ہفتے میں کم از کم چار پروازیں تو آنی چاہئیں! تو گویا اس لحاظ سے ہم سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں۔ کیا عجب کل کلاں افغانستان‘ نیپال اور بھوٹان بھی اس میدان میں ہم سے آگے نکل جائیں!
یہاں ایک سوال ذہن میں یہ اُبھرتا ہے کہ آسٹریلیا میں پاکستانی سفارت خانے کا اس معاملے میں کیا کردار ہے؟ اوپر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں‘ خوش گمانی یہی ہے کہ سفیر حضرات کے علم میں بھی آئے ہوں گے! کیا سفارت خانے نے اس حوالے سے پاکستانیوں کے لیے زور لگایا ہے؟ نہیں معلوم آج کل کون صاحب سفیر ہیں۔ تاہم چند برس پہلے کا تجربہ اتنا برا تھا کہ آج تک یاد ہے۔ اُن دنوں ایک خاتون پاکستان کی ہائی کمشنر تھیں۔ اُن آسٹریلوی مردوں اور خواتین کی پاکستانی شہریت کا مسئلہ تھا جنہوں نے پاکستانیوں سے شادیاں کر رکھی تھیں۔ خاتون ہائی کمشنر بات تک کرنے کی روادار نہ تھیں۔ تب نفیس زکریا صاحب وزارتِ خارجہ کے ترجمان تھے۔ انہوں نے بات سنی اور پوری کوشش بھی کی۔ سیکرٹری خارجہ جتنے گزرے ہیں ان میں اس کالم نگار کے تجربے کی رُو سے صرف جلیل عباس جیلانی ای میل کا جواب دیتے تھے یا واپس ٹیلی فون کرتے تھے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر وضاحت کر دیں کہ اس ضمن میں سفارت خانے نے اب تک کیا کوششیں کی ہیں اور آئندہ کا پلان کیا ہے؟ آخر پاکستان کی قومی ایئر لائن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پاکستانیوں سے کیوں ناراض ہے؟
ناراض کیا ہو گی! ناراض ہونے کی سکت ہی کہاں ہے! ہماری قومی ایئر لائن تو سانس لینے کے لیے خود آکسیجن سلنڈر کی محتاج ہے۔ یہ آکسیجن ہم پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی سے ہر سال حکومت مہیا کر رہی ہے۔ جہاز چلیں یا نہ چلیں‘ قومی ایئر لائن میں کام کرنے والے ملازمین خوب عیش کر رہے ہیں! بڑی بڑی تنخواہیں‘ الاؤنسز‘ گاڑیاں‘ مراعات کے موٹے موٹے پیکیج‘ مفت کے سفر! یہ سفید ہاتھی چلتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے۔ آئے دن خبریں سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں کہ قومی ایئر لائن کے ماتھے پر ''فار سیل‘‘ کا بورڈ لگا ہے مگر بِک نہیں رہی! کیوں نہیں بِک رہی؟ اس لیے کہ حکومت کی نیت درست نہیں۔ حکومت بیچنا چاہتی ہی نہیں! یہ مفادات کا معاملہ ہے۔ (نگران حکومت کے وزیر نجکاری کے بیانات اور سوالات اس ضمن میں قابلِ غور ہیں!) قومی ایئر لائن میں کام کرنے والوں کی اکثریت سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے چہیتے اس میں ٹھنسے ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کئی دہائیوں تک اس کی ملازمتیں پچھلے دروازے پر بانٹی جاتی رہیں! ملازموں کی اکثریت کے سر پر طاقتور شخصیات کا ہاتھ ہے۔ چنانچہ ایئر لائن نے فروخت نہیں ہونا۔ یہ اسی طر ح حکومتی امداد کے سہارے بیساکھیاں گھسیٹتی رہے گی۔ عوام اور آئی ایم ایف کی آنکھوں میں دھو ل جھونکنے کے لیے فروخت کے اشتہار لگتے رہیں گے۔ اس کی یونینیں دندناتی رہیں گی۔ مراعات کے مزے لیے جاتے رہیں گے۔ قومی خزانہ اس کے بوجھ تلے سسکتا‘ دہرا ہوتا رہے گا! پاکستانی مسافر دوسری ایئر لائنوں پر دھکے کھاتے رہیں گے۔ بنکاک‘ ابو ظہبی‘ دوحہ‘ دبئی‘ کولمبو اور استنبول کے ہوائی اڈوں پر رُلتے رہیں گے۔
ایک طرف یہ حالت کہ قومی ایئر لائن‘ قومی زیادہ اور ایئر لائن کم‘ دوسری طرف قومی ایئر لائن کو بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں مل رہی!! پہلے شہری ہوا بازی کا شعبہ وزارتِ دفاع کا حصہ تھا۔ پھر اس کا الگ ڈویژن اور الگ وزارت بن گئی۔ ہوا بازی کو اپنا الگ وزیر مل گیا۔ ایک وزیر تو ایسا ملا کہ اس نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر دنیا بھر کو بتایا کہ اتنے پاکستانی پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ گویا گھوڑے نے بم کو لات مار دی۔ دنیا بھر میں اس کا ردِ عمل ہوا اور ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ تاہم اس وقت کی حکومت نے اس بہت بڑی حماقت پر جھرجھری تک لی نہ کسی کو سزا ہی دی گئی۔ اب شہری ہوا بازی (سول ایوی ایشن) کی الگ وزارت کا ایک بار پھر خاتمہ کر دیا گیا ہے اور شعبے کو دوبارہ وزارتِ دفاع کا حصہ بنا دیا گیا ہے! آفرین ہے پالیسیوں کے تسلسل پر اور مستقل مزاجی پر!! مشرق کی طرف پڑوس کے ملک میں شہری ہوا بازی کا نہ صرف مرکزی وزیر الگ ہے بلکہ وزیر مملکت بھی ہے! دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم ترقیٔ معکوس! آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں آباد پاکستانیوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ افغان ایئر لائن یا سکم ایئر لائن کے جہازوں کی امید رکھیں مگر اپنی قومی ایئر لائن کے جہازوں کی نہیں!!
Tuesday, May 27, 2025
ہجر ایک شہر کا
تیرہویں جماعت کا طالب علم تھا جب پہلی بار لاہور دیکھا۔
Senility
Thursday, May 22, 2025
الحمدللہ! ہم پاکستانی ہیں!
پہلا بیان:
Tuesday, May 20, 2025
سیّدانی
Sadist
Thursday, May 15, 2025
بھارتی معاشرہ کرچی کرچی ہو رہا ہے
سراج کَورڈ
(Covered)
Tuesday, May 13, 2025
بھارت کے ساتھ امن کا معاملہ
Thursday, May 08, 2025
صدیقاں بی بی سے لے کر میدانِ جنگ تک
ستائیس سال کا عرصہ تھوڑا عرصہ نہیں ہے۔
صدیقاں بی بی ستائیس سال انتظار کرتی رہی۔ اس عرصہ کے دوران جو بچے پیدا ہوئے‘ انہوں نے چلنا اور بولنا شروع کیا۔ سکولوں میں پہنچے۔ تعلیم مکمل کی۔ ملازمتوں اور کاروبار کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ ان کی شادیاں ہو گئیں۔ صاحبِ اولاد ہو گئے۔ صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ ستائیس برس کے اس عرصہ میں ملک میں اسلام کا غلغلہ پورے زور و شور کے ساتھ رہا۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلکتی رہیں۔ مدارس میں اسلامی تعلیمات دی جاتی رہیں۔ تبلیغی وفود ملک کے اندر اور ملک سے باہر مسلسل سفر میں رہے۔ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور سکولوں میں اسلامیات پڑھائی جاتی رہی۔ لاکھوں پاکستانی حج اور عمرے کرتے رہے۔ پوری دنیا کو قائل کیا جاتا رہا کہ پاکستان کفر کی اس دنیا میں اسلام کا قلعہ ہے! ایک زبردست‘ ناقابلِ تسخیر قلعہ!صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ ایک کچہری سے دوسری کچہری تک۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت تک! ایک وکیل کے دفتر سے دوسرے وکیل کے دفتر تک! ایک شہر سے دوسرے شہر تک! فیسیں ادا کرتی رہی! کس چیز کے لیے؟ اُس حق کے لیے جو اللہ نے‘ اللہ کے رسول نے‘ اللہ اور رسول کے قرآن نے اسے دیا تھا۔ اسلام کے اس قلعہ میں اپنے حق کے لیے اسے ستائیس سال لڑنا پڑا‘ ستائیس سال انتظار کرنا پڑا!باپ مرا تو اس کے بھائی نے باپ کی چھوڑی ہوئی ساری جائیداد پر‘ ساری زمین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بھائی کو اس کام سے جو سراسر حرام تھا‘ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ اللہ اور رسول کے صریح واضح احکام کی نافرمانی نہ کرو! جلد ہی بہن بیوہ ہو گئی۔ اس پر بھی اس کا دل نہ پسیجا! صدیقاں بی بی انصاف کی بھیک مانگنے عدلیہ کے دروازے پر گئی۔ جو مقدمہ ایک ہفتے میں ختم ہو سکتا تھا‘ عدلیہ نے اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں 1400سے زائد ہفتے لگا دیے۔ جو معاملہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں نمٹایا جا سکتا تھا‘ وہ 324مہینے لٹکتا رہا۔ صدیقاں بی بی انتظار کرتی رہی۔ عدالتوں‘ کچہریوں‘ وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگاتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ اس اثنا میں سورج 9855بار طلوع ہوا! 9855بار غروب ہوا۔ 9855صبحیں آئیں‘ اتنی ہی شامیں گزریں‘ اتنی ہی دوپہریں بیتیں! صدیقاں بی بی جھولی پھیلائے منتظر رہی! بالآخر ستائیس سال بعد اسے اس کا جائز شرعی اور قانونی حق ملا!یہ صرف ایک صدیقاں بی بی کی سرگزشت نہیں۔ اس ملک میں لاکھوں صدیقاں بیبیاں اپنے حق کے لیے در بدر رُل رہی ہیں۔ ہر طبقے کے مرد اس کارِخیر میں شامل ہیں۔ وہ بھی جو تھری پیس سوٹ پہن کر‘ پائپ ہونٹوں میں دبا کر‘ نکٹائی کی ناٹ درست کرتے ہوئے گفتگو میں فرنگی زبان کے پیوند لگائے حقوقِ نسواں پر لمبے لمبے لیکچر دیتے ہیں۔ وہ بھی جو پُر پیچ عمامے سروں پر رکھے‘ چُغے زیب تن کیے‘ منبروں پر بیٹھے اس محبت کا ذکر کرتے ہیں جو اللہ کے رسول کو سیدہ فاطمۃ الزہراؓ سے تھی۔ وہ بھی جو ''میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے لگاتی کوچہ و بازار میں ہنگامے برپا کرتی نظر آتی ہیں۔ وراثت کی تقسیم کا وقت آئے تو یہ بیبیاں ہمیشہ بیٹوں کی طرفداری کرتی ہیں۔ بہنیں اپنے حق کا مطالبہ کریں تو انہیں ''ڈائن‘‘ کہتی ہیں۔ کتنی ہی لڑکیوں کی شادی نہیں کی جاتی صرف اس لیے کہ زمین ''غیروں‘‘ کے ہاتھ میں نہ آجائے۔ اسی ملک میں بیٹیوں کی شادیاں‘ نعوذ باللہ قرآن کے ساتھ کی جاتی ہیں کہ سسرال والے جائیداد میں حصہ نہ مانگ بیٹھیں۔دردناک تضاد (Paradox) یہ ہے کہ عورت کے ساتھ ظلم اور ناانصافی میں بہت بڑا کردار خود عورت ہی کا ہے۔ عورت ہی بیٹے کو مجبور کرتی ہے کہ لڑکیاں پیدا ہو رہی ہیں‘ لڑکے کی پیدائش کے لیے دوسری شادی کرے اور پہلی بیوی سے جان چھڑائے۔ ہسپتال میں نرس آکر بیٹی کی پیدائش کی خبر دیتی ہے تو تھپڑ نرس کے چہرے پر نوزائیدہ بچی کی دادی ہی رسید کرتی ہے۔ لڑکی جب دسویں یا بارہویں جماعت کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کرتی ہے اور باپ مان بھی جاتا ہے تو ماں ہی اعتراض کرتی ہے کہ کون سی نوکری کرنی ہے اس نے!! سول سروس میں بھی یہی دیکھا کہ جونیئر خواتین افسر سینئر خواتین افسروں سے نالاں ہی رہتی ہیں! اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!!!پس نوشت۔ دشمن پاکستان پر حملہ کر کے جنگ کا آغاز کر چکا ہے۔ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ اس پر آر ایس ایس حکومت کر رہی ہے جو نہ صرف بھارت کے اندر غیر ہندوؤں کی جانی دشمن ہے بلکہ پڑوسی ملکوں کو بھی اپنے شاوِنزم کا شکار بنانا چاہتی ہے۔ مودی سرکار الیکشن سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی طبلِ جنگ بجاتی رہی ہے اور بجا رہی ہے۔ ہماری کفن پوش مسلح افواج کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہمہ وقت‘ ہر پل‘ ہر گھڑی مستعد کھڑی ہیں! مگر جنگ جیتنے کے لیے صرف فوج اور اسلحہ کافی نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنی افواج کی پشت پر متحد ہو کر کھڑی ہو۔ اس اعتبار سے حکومت پر‘ اور مقتدرہ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس نازک وقت میں پی ٹی آئی کو مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے آمادہ کرنا اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ وقت اختلافات بھلانے کا ہے۔ پارٹیوں کے سربراہوں کا اجلاس اگر قومی سلامتی کے ضمن میں منعقد ہوتا ہے تو عمران خان کو اس میں بیٹھنا چاہیے اور مقتدر طبقات کو خود کوشش کرنی چاہیے کہ عمران خان دوسرے سربراہوں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنی آرا اور خیالات کے ذریعے اپنا حصہ ڈالیں۔دوسری طرف پی ٹی آئی کو بھی اس نازک لمحے میں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے باہمی لڑائی جھگڑوں کا میدان بعد میں بھی سج سکتا ہے۔ لمحۂ موجود میں اتحاد اور اتفاق از حد ضروری ہے۔ یہ ملک پی ٹی آئی کا بھی ہے۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ پی ٹی آئی کے وابستگان حب الوطنی میں کسی سے پیچھے ہیں۔ بیرونِ ملک کمیں گاہوں میں بیٹھے ہوئے چند وی لاگروں کو چھوڑکر تمام کی تمام پی ٹی آئی یقینا پاکستان کی وفادار ہے۔ یہ گھڑی نازک ہے۔ اس گھڑی مسلح افواج پر طعن و تشنیع کے تیر نہیں برسانے چاہئیں۔ اختلافات بالائے طاق رکھ کر پی ٹی آئی کو بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کے شانہ بشانہ بھارت کو بتانا ہو گا کہ ہم سب ایک ہیں!کئی گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت پاکستان کے حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ اسے اپنے سائز پر اعتماد ہے نہ اپنے بے پناہ وسائل پر! وہ اس سانپ کی طرح ہے جو چیونٹی سے ڈرتا ہے۔ یہ احساسِ کمتری آج کا نہیں‘ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ یہ افضل خان اور شیوا جی کی لڑائی ہے جو جاری ہے۔ افضل خان بہادری‘ جرأت اور کھلے مقابلے کا سمبل ہے اور شیوا جی فریب‘ جھوٹ اور دغا بازی کی علامت ہے۔ بھارت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگ پورے جنوبی ایشیا کے لیے تباہی لائے گی۔ دونوں ملک معاشی اعتبار سے کئی سال پیچھے چلے جائیں گے۔ بھوک کا زور پورے خطے میں بڑھ جائے گا۔ کاش دونوں ممالک ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے اپنی اپنی عینکوں کے شیشے تبدیل کریں! دونوں ملکوں کو چاہیے کہ متحد ہو کر اقتصادی میدان میں پوری دنیا کی قیادت کریں۔ اس اتحاد کے لیے لازم ہے کہ آر ایس ایس اَکھنڈ بھارت کا راگ الاپنا بند کر دے!!
Tuesday, May 06, 2025
پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved
Thursday, May 01, 2025
رستم‘ گھوڑے اور ڈائنو سار
نانا کے گھر میں رکھی آبائی زینیں دیکھنے‘ اور بارہا دیکھنے کا کچھ تو اثر ہونا تھا۔ تین سال کی عمر میں پولو میچ دیکھنے کا شوق‘ وہ بھی جنون کی حد تک! پولو کلب اس کی پسندیدہ جگہ ہے۔ جیسے ہی گاڑی باہر نکالوں‘ جوتے پہن کر آ جاتا ہے کہ چلیں پولو کلب! پولو کلب پہنچنے کے بعد اس کا رویہ عجیب و غریب ہوتا ہے۔ ہم سب گھر والے جہاں بیٹھے ہوتے ہیں اچانک دیکھتے ہیں کہ رستم وہاں سے غائب ہے۔ میں اور اس کی ماں اسے ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ پولو گراؤنڈ کے ایک کنارے پر لکڑی کے بہت سے بینچ پڑے ہوتے ہیں۔ پولو کے اصل شائقین یہیں بیٹھتے ہیں۔ ان شائقین کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ بینچ لکڑی کا ہے یا کرسی مخمل کی ہے۔ اور چائے ملے گی یا نہیں۔ یہاں ہم رستم کو تلاش کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اجنبی خواتین و حضرات کے درمیان بیٹھا میچ دیکھنے میں محو ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دائیں بائیں کون لوگ بیٹھے ہیں۔ ہم اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ چل کے ہمارے ساتھ بیٹھے اور کچھ کھا پی لے۔ مگر وہ سنی اَن سنی کر دیتا ہے۔ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ چند دن پہلے ہم کلب میں گئے تو وہ میچ کا دن نہیں تھا۔ دور پڑے ہوئے لکڑی کے بینچ ویران اور افسردہ پڑے تھے۔ چند ہی لوگ تھے جو کلب کے ریستوران میں بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم نے نوٹ کیا کہ رستم پھر غائب ہے۔ دیکھا تو دور‘ خالی بینچوں کے ایک کنارے پر یکہ و تنہا بیٹھا تھا۔ میں دبے پاؤں چلتا اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ ٹانگیں ہلا رہا تھا۔ ذرا آگے ہو کر دیکھا‘ ساتھ مسکرائے جا رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ خوش ہے اور تنہائی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اس نے جو کچھ کیا وہ حد درجہ تعجب انگیز تھا۔ جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ نانا ابو آگئے ہیں وہ اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا بینچوں کے دوسرے کنارے جا بیٹھا۔ مطلب واضح تھا کہ موصوف کو تخلیہ چاہیے تھا۔ چنانچہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ کُنجِ خلوت اس نے اُس وقت چھوڑا جب ہم گھر جانے کے لیے پولو کلب سے نکلے۔ وہ ہمارے ساتھ آیا مگر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ناخوش تھا۔ صرف پولو میچ سے نہیں اسے گھوڑوں سے بھی دلچسپی ہے اور حد سے زیادہ ہے۔ اس کے کھلونوں کا معتدبہ حصہ گھوڑوں پر مشتمل ہے۔ تین ڈالر کا جو پلاسٹک کا سرخ گھوڑا میں باہر سے اس کے لیے لایا وہ اس کا دن رات کا ساتھی ہے۔ کلب میں جہاں گھوڑوں کے تھان ہیں‘ وہاں بھی جاتا ہے۔ ایک ایک گھوڑے کو دیکھتا ہے۔ ایک دن اپنے پلاسٹک کے سرخ گھوڑے کو اصلی گھوڑے کے چہرے پر رگڑ رہا تھا۔ گھوڑوں کا رکھوالا دوڑتا آیا کہ بچے کو ہٹائیے‘ گھوڑا کاٹ بھی سکتا ہے۔ ہٹایا تو بہت دیر روتا رہا! جہاں گھوڑوں کو نہلایا جاتا ہے وہ بھی اس کا پسندیدہ مقام ہے۔ پائپوں سے جب گھوڑوں پر پانی ڈالا جاتا ہے تو اتنے غور سے دیکھتا ہے جیسے گھوڑوں کو نہلانے کی تربیت لے رہا ہو!
Tuesday, April 29, 2025
بھارت کی پانی میں آگ لگانے کی کوشش
اللہ ہم اہلِ پاکستان پر رحم کرے! یورپ اور امریکہ کے ایک ایک شہر‘ ایک ایک قصبے کی معلومات ہیں مگر اپنے اڑوس پڑوس کا پتا نہیں! چند دہائیاں پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ افغانستان میں تاجک‘ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں۔ اکثریت پاکستانیوں کی یہی سمجھتی تھی کہ وہاں صرف پشتو بولنے والے ہیں۔ آج کتنے پاکستانیوں کو علم ہے کہ آر ایس ایس
(Rashtriya Swayamsevak Sangh)
کیا چیز ہے؟ کب بنی؟ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ اس نے کون کون سے ''کارنامے‘‘ سر انجام دیے ہیں اور اس کے حتمی عزائم کیا ہیں؟ آر ایس ایس کے دوسرے بڑے لیڈر گول والکر
(Golwalkar)
Ghettos
(Baliram Hedgewar)
اور اس کے بعد گول والکر نے اکھنڈ بھارت کا جو بیج اپنے پیروکاروں کے اذہان میں بویا تھا‘ وہ اب بھی پھل دے رہا ہے۔ پانی بند کرنے کی شیطنت پہلا وار ہے نہ آخری! یہ حملے ہوتے رہیں گے اور پاکستان ان سے نمٹتا رہے گا۔ پاکستان کی مسلح افواج ہمہ وقت سر بکف کھڑی ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم نے افواج کی سول امور میں‘ سیاسی معاملات میں اور سول بیوروکریسی میں دخل اندازی کی کبھی حمایت کی نہ کریں گے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسلح افواج کی اہمیت اور حیثیت سے انکار کیا جائے۔ مسلح افواج ملک کے لیے شہ رگ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ جو بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان نیپال‘ بھوٹان اور سکم کی طرح ہو جائے‘ تو اس خواہش کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی مسلح افواج ہی ہیں۔ پاکستانی افواج نہ ہوتیں تو جو ممالک پاکستان کے مغرب میں ہیں‘ وہ بھی بھوٹان اور سکم بن چکے ہوتے!!