Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, June 26, 2025

زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق … (3

)

پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارا ہوا عرصہ زندگی کے دلکش ترین ٹکڑوں میں ایک نمایاں ٹکڑا لگتا ہے۔
بے فکری تھی اور آسودگی! ڈھاکہ یونیورسٹی کا ماحول مجموعی طور پر میری اُفتادِ طبع کے عین مطابق تھا۔ ذہین اور طباع لوگ! جو بات کو فوراً سمجھ جاتے تھے۔ ادب اور سیاست‘ بین الاقوامی تاریخ‘ بین الاقوامی تعلقات‘ بر صغیر کی تاریخ‘ غرض اردو اور فارسی شاعری کو چھوڑ کر ان سارے موضوعات پر بات کرنے اور بات سمجھنے والے وہاں موجود تھے۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے گیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ بھی آن ملے تھے۔ علم و دانش کا جو ماحول ڈھاکہ یونیورسٹی میں تھا وہ مغربی پاکستان کے اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں میں عنقا تھا۔ جب مغربی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس ہو کر کلاسوں میں تشریف لاتے تھے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی اکثریت کرتا پاجامہ اور چپل پہن کر یونیورسٹی آتی تھی۔ یہ لوگ روکھا سوکھا کھاتے تھے۔ والدین سے اتنی ہی رقم منگواتے تھے جو قوتِ لایموت کیلئے ناگزیر تھی۔ بہت سے تو اخبارات میں مضامین لکھ کر اپنا خرچ پورا کرتے تھے۔ پوری پوری رات لائبریری میں بسر کر دیتے تھے۔ دو چیزیں ڈھاکہ یونیورسٹی میں بالکل نئی دیکھیں۔ لائبریری کا 24 گھنٹے کھلا رہنا اور امتحانی پرچوں کا وقت تین گھنٹوں کے بجائے چار گھنٹے ہونا!
مشرقی پاکستان کے حوالے سے جو حقیقت سب سے زیادہ درد ناک ہے وہ مغربی پاکستانیوں کی کج فہمی ہے۔ غالباً وہ حالتِ انکار 

(State of Denial)

 جس میں پاکستان گلے گلے تک دھنس گیا‘ سقوطِ ڈھاکہ ہی سے شروع ہوئی۔ جس ملک کے دانشوروں کی اکثریت مشرقی پاکستان کھو دینے کے نصف صدی بعد بھی سینہ تان کر سارا الزام بنگالیوں کے سر تھوپ رہی ہو اور یہ سوچے بغیر کہ پاکستان قتل و غارت اور بد امنی کا مر کز بن گیا ہے‘ بنگلہ دیش کی ''ناکامیاں‘‘ گنوانے پر مصر ہو‘ وہ ملک اس زمانے میں کس طرح مثبت سوچ رکھ سکتا تھا جب مشرقی پاکستان اس کا حصہ تھا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کی آبادیوں کی سماجی کمپوزیشن کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک غیرحقیقت پسندانہ اتحاد تھا۔ مشرقی پاکستان میں فیوڈلزم کا کوئی وجود نہ تھا۔ خواندگی کا تناسب زیادہ تھا۔ وہاں کے عوامی نمائندے تمام کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان ایک فیوڈل اور قدیم طرز کا جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔ بلوچستان کے سرداری نظام کی‘ جو آج تک جوں کا توں قائم ہے‘ شاید ہی مہذب دنیا میں کوئی مثال پائی جاتی ہو۔ اکثر منتخب نمائندے نیم خواندہ تھے۔ تکبر اور رعونت طرۂ امتیاز تھا۔ اس رعونت کی انتہا یہ تھی کہ جب سینیٹری کا غیرملکی سامان ایک بار ہاتھ لگا اور اس پر چھینا جھپٹی شروع ہوئی تو کابینہ کے بنگالی ارکان نے بھی اپنا حصہ مانگا۔ اس پر انہیں جو جواب دیا گیا یہ تھا کہ تم لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو‘ تمہیں اس سامان کی کیا ضرورت ہے! مغربی پاکستانی سیاستدان تھے یا بیورو کریٹ یا عسکری حلقے‘ بنگالی ہم وطنوں کے ساتھ سب کا رویہ کم و بیش یہی تھا۔ ایک صاحب نے ملک کے اس وقت کے معروف ترین اخبار میں ایک واقعہ لکھا تھا کہ مولوی فرید الدین احمد صاحب ایک بار لُنگی میں ملبوس کسی میس میں چلے گئے تو انہیں باقاعدہ گالیاں دے کر وہاں سے نکال دیا گیا۔
اس میں کیا شک ہے کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان پر خرچ ہوا۔ نیم سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں یہ حقیقت تسلیم کی تھی! (اس اداریے کا تراشہ ایک مدت میرے پاس محفوظ رہا) عساکر میں انہیں نہ صرف یہ کہ اپنی آبادی کے تناسب سے حصہ نہ دیا گیا بلکہ بالکل ہی برائے نام دیا گیا۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ برصغیر کے تین علاقوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا۔ بنگال‘ یوپی اور سندھ! چنانچہ ان تینوں علاقوں کو فوج کے لیے ''اَن فٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ جن علاقوں سے فرمانبرداری اور اطاعت ملی ان پر عساکر کے دروازے کھول دیے گئے بلکہ کچھ کو تو ''مارشل ایریا‘‘ قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے گورنر‘ اکثر و بیشتر مغربی پاکستان سے مقرر ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان پر کسی مشرقی پاکستانی کو گورنر نہ مقرر کیا گیا۔ ایوب خان نے ایک مشرقی پاکستانی عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا مگر وہ گورنر سے زیادہ صاحب کا غلام تھا۔ جب مشرقی پاکستانی ریڈیو سے ٹیگور کی شاعری نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تو لوگوں کی طرف سے ردِعمل آیا اور پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ عبد المنعم خان نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے بنگالی زبان کے شعبہ کے صدر ڈاکٹر عبدالحئی سے کہا کہ آخر تم لوگ ٹیگور کے گیت خود کیوں نہیں لکھتے؟ ایوب خان کا طویل دورِ آمریت اس تابوت میں آخری کیل تھا۔ کسی مغربی پاکستانی کے پاس بنگالیوں کے اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ اگر جرنیلوں ہی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے تو بنگالیوں کی باری کس طرح اور کب آئے گی؟ مجیب الرحمان کو غدار کہنے والے حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایوبی دور کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ تھا۔ اور مادرِ ملت یہ الیکشن مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں اور مغربی پاکستان میں (سوائے کراچی کے) ہار گئی تھیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اہلِ پاکستان ہزار سال بھی اپنے مخصوص عالمِ انکار میں رہیں تو تاریخ نہیں بدلی جا سکتی۔ اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ مقرر کرکے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ کسی بھی سیاسی یا اخلاقی قانون کی رو سے عوامی لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کا حق حاصل تھا جس سے اسے محروم کیا گیا۔ ردِعمل فطری تھا۔ کیا مغربی پاکستانی یہ توقع کر رہے تھے کہ مشرقی پاکستانیوں کو ان کے جائز حق سے محروم کیا گیا تو وہ جواب میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے؟؟ بہترین حل وہی چھ نکات تھے جو عوامی لیگ نے پیش کیے تھے۔ یہ ایک کنفیڈریشن ہوتی اور اس کا ایک حصہ چاہتا تو پُرامن طریقے سے الگ ہو جاتا۔
مشرقی پاکستان کی خونریز اور عبرتناک علیحدگی ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اس سے سبق حاصل کرتا۔ جو عوامل اس المیے پر منتج ہوئے ان سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا تاکہ مغربی پاکستان کو اس المناک تجربے کی روشنی میں فائدہ پہنچے لیکن ذہنی جمود اور فکری پستی کا یہ عالم ہے کہ اب بھی سولہ دسمبر آتا ہے تو طوطے کی طرح رٹے رٹائے الفاظ ابکائی کرکے اخبارات کے صفحوں پر انڈیل دیے جاتے ہیں ''مجیب الرحمان غدار تھا‘‘۔ ''بنگالی ہندوؤں کے اثر میں تھے‘‘۔ ''مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار بھارت ہے‘‘۔ ''دونوں بازوؤں کے درمیان اقتصادی عدم توازن اصل میں دشمن کا پرو پیگنڈا تھا‘‘ وغیرہ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں 1971ء کے المیے کا آج تک غیرجذباتی تجزیہ نہیں ہوا۔ جب بھی اس سانحہ کا ذکر ہوا‘ ہر کسی نے اپنے پسندیدہ رنگ کی عینک لگا کر ہی ذکر کیا۔ اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا قدرت کی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی حالت بتدریج ابتر ہوتی گئی۔ جن سیلابوں کی وجہ سے بنگالی بوجھ سمجھے جاتے تھے وہ سیلاب 1971ء کے بعد پاکستان میں بھی آنا شروع ہو گئے یہاں تک کہ یہ سالانہ معمول بن گیا۔ ضیا الحق کے طویل دورِ آمریت نے مذہبی طبقات کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا اور انہیں معاشرے پر حاوی کر دیا۔ ملک کی سرحدوں کو پامال کیا گیا۔ نسلی‘ لسانی اور مسلکی گروہوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ سرپرستی کی گئی۔ ملک کو ہتھیاروں سے بھر دیا گیا۔ لاکھوں غیرملکیوں نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا لیے۔ مذہب سیاست کے لیے خوب خوب استعمال ہونے لگا۔ (ختم)

Tuesday, June 24, 2025

زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق …(2)

1996

ء کے اوائل میں میری تعیناتی بطور کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز 

(Defence Purchase) 

ہو گئی۔ یہ تعیناتی بہت بڑا چیلنج تھا۔ تینوں مسلح افواج کی تمام ضروریات کے لیے جو کچھ بھی خریدا جاتا تھا اس کا پے ماسٹر کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز تھا۔ پاکستان میں اس جتنی یا اس سے زیادہ ادائیگیاں کسی اور ادارے یا محکمے میں نہیں ہوتیں۔ پٹرول‘ آئل‘ 

Lubricants‘ 

اسلحہ‘ سپیئر پارٹس‘ ادویات‘ چارپائیاں‘ یونیفارم‘ ہیلمٹ‘ جوتے‘ چینی‘ گھی‘ آٹا‘ گوشت کے لیے جانور‘ بلند پہاڑوں پر مقیم عساکر کے لیے ڈبوں میں بند خوراک اور دیگر ضروریات‘ ہر شے بھاری مقدار 

(bulk) 

میں خریدی جاتی ہے۔ ایک ایک ادائیگی کروڑوں روپوں میں ہوتی ہے۔ یہ خریداریاں ملک کے اندر سے بھی ہوتی ہیں اور بیرونِ ملک سے بھی۔ مال سپلائی کرنے والوں کے معاہدے مسلح افواج کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان معاہدوں کی جانچ پڑتال اور چھان بین بھی سی ایم اے ڈیفنس پرچیز ہی کرتا ہے۔ جب تک کنٹرولر معاہدے کی تصدیق نہ کرے‘ معاہدہ قانونی دستاویز کی شکل نہیں اختیار کر سکتا۔
جتنی بھاری ادائیگیاں تھیں‘ دفتر اتنا ہی بدنام تھا۔ اور یہی میرے لیے چیلنج تھا۔ جس دن چارج لیا اس دن 28 سپلائر آئے ہوئے تھے۔ باہر عظیم الجثہ جہازی سائز کی گاڑیاں اور قوی ہیکل لینڈ کروزر کھڑے تھے۔ کچھ سپلائر بیرونِ ملک سے آئے ہوئے تھے۔ انہیں آنے کی ضرورت کیوں پیش آتی تھی؟ تا کہ رائج الوقت ''مفاہمت‘‘ کی رُو سے آکر پہلے ''بات چیت‘‘ کریں اور پھر اپنے چیک وصول کریں۔ میرا اولین فریضہ ایسا سسٹم متعارف کرنا تھا کہ کسی سپلائر کو آنے کی ضرورت نہ پڑے‘ اسے گھر بیٹھے ادائیگی موصول ہو جائے اور یہ بھی کہ سپلائر کو آنے سے منع بھی نہ کیا جائے۔ انہیں از خود معلوم ہو جائے کہ اب اس دفتر کے پھیرے لگانے کی ضرورت نہیں اور ''بات چیت‘‘ کے بغیر ہی ان کا جائز کام ہو رہا ہے۔
سب سے پہلا کام یہ کیا کہ دفتر کے کمروں اور برآمدوں کی دیواروں پر وہ آیات‘ احادیث اور اقوال لکھوا کر لگوا دیے جو اکل حرام کی ممانعت کرتے ہیں۔ کچھ ہولناک اور لرزہ براندام کر دینے والے اقوال خود بھی ''تخلیق‘‘ کیے۔ بچے مال حرام کھا کر کیسے نکلتے ہیں۔ رشوت خور کی عمر کا آخری حصہ کیسے گزرتا ہے۔ بیویاں کیسے بے راہ رو ہو جاتی ہیں۔ امراض کیسے کیسے لاحق ہوتے ہیں۔ مرتے وقت جان کیسے نکلتی ہے۔ آخرت میں کیا انجام ہو گا؟ بتایا گیا کہ کچھ ''کمزور دل‘‘ افسروں اور اہلکاروں نے توبہ کر لی۔ کچھ کو موصول شدہ نذرانے واپس کرنے کی فکر بھی ہوئی۔ جو ''مستقل مزاج‘‘ اور ''بہادر‘‘ تھے وہ میرے تبادلے کے لیے دعائیں کرنے لگ گئے۔ دوسرا کام یہ کیا کہ دفتر میں کام کرنے والے افسران اور آڈیٹروں کا رابطہ سپلائرز کے ساتھ‘ کم از کم دفتر میں ختم کر دیا۔ اس مقصد کے لیے ایک اچھی شہرت رکھنے والا سخت گیر افسر‘ بطور آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی تعینات کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا نام مولوی صغیر تھا۔ سخت اور دیانت دار۔ (کچھ ہفتے پیشتر میں نے ان تمام‘ نان سی ایس ایس‘ افسروں اور اہلکاروں کی اپنے گھر میں دعوت کی جو سروس کے دوران میرے ماتحت رہے تھے۔ تب معلوم ہوا کہ مولوی صغیر وفات پا چکے۔ اللہم اغفرہ) سپلائرز کے لیے الگ ریسیپشن بنوایا جہاں سے آگے جانے کی انہیں اجازت نہ تھی۔ مولوی صغیر اور ان کے سٹاف کی ڈیوٹی تھی کہ دفتر کے اندر سے ان کے کام کا پتا کریں اور انہیں بتائیں۔ کچھ بلوں کو ارجنٹ (فوری) کا درجہ دے دیا جاتا تھا۔ کچھ کے اوپر ''آؤٹ ٹو ڈے‘‘ لکھا جاتا تھا کہ ایک دن ہی میں پاس ہو جائیں۔ میں نے یہ تمام ترجیحات ختم کر دیں۔ تمام بل اپنی باری پر پاس ہوں گے۔ جو پہلے آئے ہیں وہ پہلے اور جو بعد میں آئے ہیں وہ بعد میں۔ یہ حکم بھی جاری کیا کہ بل ایک ہفتے کے اندر اندر پاس کیے جائیں گے یا ایک ہفتے کے اندر اعتراض لگا کر واپس کر دیے جائیں گے۔ اعتراض بھی بدنیتی پر مشتمل نہیں ہو گا اور اعتراض برائے اعتراض نہیں ہو گا۔ کچھ اہلکار بلوں کے کچھ صفحات غائب کر دیتے تھے اور یوں بلوں کو نامکمل قرار دے کر واپس کر دیتے تھے۔ اس برائی کی اصلاح کے لیے موصول ہونے والے تمام بلوں پر صفحہ نمبر درج کیا جائے گا اور کل صفحات کی تعداد بل کے پہلے صفحے پر لکھ دی جائے گی۔ یہ کام آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی کی نگرانی میں ہونے لگا۔ چیک عام رجسٹرڈ پوسٹ کے بجائے ارجنٹ میل سروس سے بھجوانے شروع کیے۔ ہر روز ایک سپیشل رپورٹ مجھے پیش کی جاتی تھی جس سے واضح ہوتا تھا کہ بل موصول کب ہوئے اور پاس ہونے یا واپس ہونے میں کتنے دن صرف ہوئے۔ جو پرانے خلیفے دفتر میں برسوں سے بیٹھے ہوئے تھے ''اپنی ذات میں ادارہ‘‘ بن چکے تھے اور سپلائرز سے تعلقات بنا چکے تھے ان کے تبادلے کروا کر نکال باہر کیا۔ یہ کام سب سے زیادہ مشکل تھا۔ بے پناہ دباؤ ڈالا گیا۔ وزیروں اور منتخب نمائندوں کی سفارشیں آئیں۔ محکمے کے سربراہ کو پہلے ہی اعتماد میں لے لیا تھا؛ چنانچہ انہوں نے مکمل تعاون کیا۔ ان کا نام سردار اسلم خان مگسی تھا۔ پوری ریسرچ کر کے بہتر افرادی قوت کو مامور کیا گیا۔ ان تمام اقداما ت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ماہ کے بعد سپلائرز نے دفتر کے چکر لگانے چھوڑ دیے۔ صنعتکاروں‘ کمپنیوں‘ تاجروں اور سپلائرز کو پانچ سے سات دن کے اندر اندر چیک گھر بیٹھے ملنے لگے یا اطلاع ملنے لگی کہ بل میں کیا کیا سقم ہیں۔ ایک سپلائر نے جن کا عسکری ہیلمٹ بنانے کا کارخانہ تھا‘ اقبال ان کا نام تھا۔ ایک کتاب کے مصنف بھی تھے۔ وزیر دفاع کو خط لکھا کہ وہ گزشتہ 28 برس سے اپنا مال سپلائی کر رہے تھے‘ ان 28 برسوں میں پہلی بار سی ایم اے ڈیفنس پرچیز نے ادائیگیوں کے لیے ایک نظام وضع کیا ہے جو کامیابی سے چل رہا ہے۔ ایک صنعتکار جسے بھاری ادائیگی ایک پیسہ دیے بغیر‘ گھر بیٹھے ہوئی‘ میرے دفتر آیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ پشاور سے تھا۔ میرے سٹاف افسر سے کہا کہ یہ آدمی کون ہے جو ملتا ہے نہ ''حساب کتاب‘‘ کرتا ہے۔ کہنے لگا: میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے اسے اپنے آفس میں بلا لیا اور کہا کہ تشریف لائیے اور دیکھ لیجیے‘ مجھ پر کون سا ٹکٹ لگا ہے! قہوے سے اس کی تواضع کی۔ جاتے ہوئے کہنے لگا: سر! کوئی خدمت ہو تو حکم کیجئے گا۔ میں نے کہا: خدمت کراتا تو آپ دیکھنے نہ آتے۔
انہی دنوں میرے بڑے بیٹے محمد اسرار الحق کا ایم بی بی ایس کا داخلہ بہاولپور میڈیکل کالج میں ہوا۔ میں نے اپنے جی پی فنڈ سے ساٹھ ہزار روپے قرض لینے کی درخواست دی کہ بہاولپور جا کر بیٹے کو مقیم کر آؤں۔ درخواست محکمے کے سربراہ کے پاس پہنچی تو انہوں نے مذاق میں کہا کہ تم بہت نالائق ہو۔ تمہیں سونے کی کان پر بٹھایا ہے اور تم جی پی فنڈ سے قرض لے رہے ہو۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ سر! وہ تو کوئی مسئلہ نہیں! ابرو سے اشارہ کروں تو اس کے پانچ سال کے اخراجات چند گھنٹوں میں حاضر ہو جائیں مگر سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کیا وہ ایم بی بی ایس کر پائے گا؟ اور بھی دلچسپ واقعات ہیں مگر تفصیل کی گنجائش نہیں۔ جس دن چارج لیا تھا 28 سپلائر آئے ہوئے تھے۔ کسی کو آنے سے منع نہیں کیا۔ دو سال بعد جب چارج چھوڑا تو چار سپلائر آئے ہوئے تھے وہ بھی اپنے بل جمع کرانے اور تھے بھی مقامی۔ تاہم یہ نظام پوری حکومتی مشینری کے سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہ تھا۔ مگر جو میرے بس میں تھا کیا اور اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے۔ (جاری)

Thursday, June 19, 2025

زیر طبع خود نوشت کا ایک ورق

سکول کا دروازہ لوہے کا تھا۔ اس کے دو حصے تھے۔ درمیان سے ایک طرف دھکیلا جاتا تو گزرنے کا راستہ بن جاتا۔ جتنا زیادہ دونوں طرف دھکیلا جاتا اتنا ہی کھلتا جاتا۔ مگر نہ جانے چھٹی کے وقت پورا دروازہ کیوں نہیں کھولتے تھے۔ چنانچہ بچے ایک دوسرے کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتے‘ ہجوم بناتے‘ دروازے سے نکل کر باہر سڑک پر آتے۔ اُس دن بھی یہی ہوا۔ چھٹی کی گھنٹی بجی اور ہم پہلی جماعت کے بچے باہر جانے کے لیے دروازے کے ہجوم کا حصہ بن گئے۔ ہم سب آہستہ آہستہ سرک رہے تھے۔ میرے بالکل آگے ایک سکھ بچہ تھا جو مجھ سے بڑا تھا۔ اس کے بالوں کی عجیب سی مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں اور بالوں کا ایک حصہ اس کی گردن پر اس طرح پڑا تھا کہ چُٹیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ہجوم سرک رہا تھا۔ آہستہ آہستہ۔ چیونٹی کی رفتار سے۔ نہ جانے کیوں میں نے اس کے بال گردن سے پکڑے اور کھینچے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جیسے ہی ہم سڑک پر پہنچے اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ مجھے سڑک پر لٹا کر مارا اور خوب مارا۔ مار کھا کر میں اٹھا‘ اپنا بستہ اور تختی لی اور روتا روتا گھر پہنچا۔ اس دن گاؤں سے نانا جان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور سکول پہنچے مگر وہاں تو اب کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ زمانہ تھا 1954ء یا 1955ء کا‘ جب سب بچے اکیلے سکول جاتے تھے۔ چھوڑنے جانا پڑتا تھا نہ کوئی لینے جاتا تھا۔ پنڈی گھیب میں یہ ایک ہی سکھ خاندان تھا۔ بٹوارا ہوا تو ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے۔ یہ سکھ خاندان مسلمان ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب گرد بیٹھی تو یہ دوبارہ سکھ ہو گئے۔ بہر طور کسی نے تعرض نہ کیا۔ یہ سکھ بچہ دوسری یا تیسری کلاس میں تھا۔ یہ اکثر ہماری گلی سے گزرتا۔ میری اکلوتی بہن نے جو مجھ سے تین سال بڑی ہیں‘ جواب میں اسے‘ جب وہ ہماری گلی سے گزر رہا تھا‘ پیٹا۔ اس کے بعد وہ گلی کے بجائے ہمارے مکان کے پچھواڑے سے گزرتا۔ اس کا نام شاید بلبیر سنگھ تھا۔ حیرت ہے کہ اس کے بعد اس سے ملاقات نہ ہوئی۔ بعد میں سنتا رہا کہ راولپنڈی سٹی صدر روڈ پر اس کی دکان ہے۔ یہ دو تین بھائی تھے اور ایک جیسے تھے۔ 1957ء میں 1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کی صد سالہ برسی ملک گیر پیمانے پر منائی گئی تھی۔ گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیب میں بھی ایک ثقافتی پروگرام ہوا۔ دھندلی دھندلی یاد اس کی اب بھی یاد داشت کے ایک صفحے پر مرقوم ہے۔ بلبیر سنگھ تھا یا اس کا بھائی‘ اس تقافتی شو میں لڑکی بنا اور رقص کیا۔ بال اس کے لمبے تھے اور رنگ سرخ سفید۔
پنڈی گھیب میں پرائمری سکول دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک شہر کے اندر تھا دوسرا باہر۔ جو اندر تھا وہ ''بمبے سٹور‘‘ کی بغل میں واقع تھا۔ بمبے سٹور مشہور دکان تھی۔ یہیں سے ہم ''ہاتھی مارکہ‘‘ روشنائی خریدتے تھے اور سلیٹیاں اور پنسلیں بھی۔ عرفِ عام میں بمبے سٹور کو بابا سٹور کہتے تھے۔ اس کے مالک کے بارے میں سب جانتے تھے کہ اولاد نہیں تھی۔ ایک بچہ اس نے پالا تھا جو اس وقت جوان تھا۔ رات کو دودھ دہی کی دکانیں دیر تک کھلی رہتی تھیں۔ بڑے بڑے کڑاہوں میں دودھ گرم کیا جاتا تھا۔ اوپر خالص بالائی کی دبیز تہہ ہوتی تھی۔ لوگ آکر دودھ پیتے تھے۔ سبز رنگ کے پیالوں میں! جو مٹی کے یا شاید
 Porcelain
کے ہوتے تھے۔ بمبے سٹور والے بابا کے بیٹے کو بھی کئی بار دکان پر رات کو دودھ پیتے دیکھا اس لیے اس بات کی جو خلقِ خدا کی زبان پر تھی‘ تصدیق ہوتی تھی کہ بابے نے اسے پیار سے پالا تھا۔ بعد میں ویسی ہی داستانیں اس کے بارے میں بھی سنیں جو لے پالک بچوں کی سنتے آئے ہیں۔ جھگڑے۔ ناشکر گزاری۔ پچھتاوے!
پہلی جماعت میں میاں محمد صاحب ہمارے استاد تھے۔ نحیف تھے اور بیمار رہتے تھے۔ الائچیاں اور اس قسم کی ادویات بچوں کو بھیج کر اپنے گھر سے منگواتے رہتے۔ ان کے صاحبزادے الطاف حسین میرے کلاس فیلو تھے۔ الطاف سے پہلی جماعت ہی میں کُٹی ہو گئی۔ کُٹی کو پنڈی گھیب کی مقامی زبان میں گِٹی کہتے تھے۔ اب یاد نہیں کہ اس بچگانہ قطع کلامی کی کیا وجہ تھی۔ بہر حال یہ قطع کلامی جیسا کہ اس علاقے میں عام ہے‘ دس سال جاری رہی۔ دسویں جماعت میں ہم نے دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ بولنا شروع کیا۔ کلاس میں ہمارا مقابلہ رہتا۔ کبھی میں اوّل آتا تو کبھی الطاف! دسویں کا فائنل امتحان تھا تو ابا جی کے رفیق کار اور دوست ملک فتح خان کمرۂ امتحان میں سرکاری طور پر سپرنٹنڈنٹ تھے۔ مجھے انہوں نے سمجھایا کہ سب لڑکے کتابیں ساتھ رکھ کر پرچے حل کر رہے ہیں۔ وہ بھی جن سے تمہارا مقابلہ ہے۔ تم بھی فزکس اور کیمسٹری کی کتابیں یا نوٹس ساتھ رکھ لو۔ میں نہ مانا۔ نتیجہ آیا تو الطاف اوّل آیا اور میں تیسرے نمبر پر۔ میٹرک پنڈی گھیب سے پاس کرکے میں والدین کے ساتھ راولپنڈی اسلام آباد آ گیا۔ الطاف کا سفر زیادہ طویل تھا۔ اسے وہ سہولتیں میسر نہ تھیں جو قدرت نے مجھے مہیا کی تھیں۔ اس کے والد صاحب پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔ پہلے مرحلے میں وہ سکول میں پڑھاتا رہا۔ بعد میں لیکچرر ہو گیا۔ پھر پرنسپل ہو کر ریٹائر ہوا۔ اس کی صحت مستحکم نہیں تھی۔ اسلام آباد ہسپتال میں داخل رہا جہاں میں اس کی عیادت کے لیے بھی گیا۔ اس کے انتقال کی خبر ملی تو میں آسٹریلیا میں تھا۔
میاں محمد صاحب کے بعد ماسٹر صادق صاحب ہماری پہلی کلاس کے استاد رہے۔ ان کا تبادلہ ہوا تو کلاس کے باقی بچوں کی طرح میں بھی رویا۔ چوتھی جماعت میں ہمیں پرائمری سکول کے دوسرے حصے میں بھیج دیا گیا جسے تھانے والا سکول کہتے تھے کیونکہ وہ تھانے کی عمارت سے ملحق تھا۔ یہاں ماسٹر سلطان صاحب میرے استاد رہے۔ وہ خوش نویس بھی تھے۔ سکول کی دیواروں پر اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے چارٹ‘ وہی لکھا کرتے۔ وہ لوگ کس قدر سادہ تھے‘ اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ماسٹر سلطان صاحب پہلی بار راولپنڈی آئے‘ شاید کسی مذہبی اجتماع میں شرکت کی خاطر! سڑکوں پر ٹریفک کی صورتحال دیکھ کر ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پنڈی گھیب کے گوشۂ عافیت میں واپس چلے گئے۔
افغانستان سے پاوندوں کی آمد پنڈی گھیب کا سالانہ فیچر تھا۔ یہ سردیوں میں آتے اور شہر کے درمیان سے گزرتے۔ نہ جانے ان کی منزل کہاں ہوتی۔ سینکڑوں اونٹ‘ گھوڑے‘ خچر اور گدھے قافلوں کا حصہ ہوتے۔ جس گلی میں ہم رہ رہے تھے‘ اسی سے ان کا گزر ہوتا۔ سب لوگ گھنٹوں دروازوں پر کھڑے ہو کر ان قافلوں کو گزرتے دیکھتے۔ سرخ‘ سفید بچے اونٹوں پر رسیوں سے بندھے ہوتے۔ خواتین نے بڑے گھیر والے سرخ گھگھرے پہنے ہوتے۔ مرد ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے اونٹوں‘ گھوڑوں‘ خچروں‘ گدھوں اور بھیڑ بکریوں کو ہانکتے جاتے۔ ان قافلوں کو دیکھنا ہمارے لیے بہت بڑا تماشا اور تفریح تھی‘ وہ بھی اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر! ہم بچے یہ گیت عام گاتے۔ ''پٹھانیے! پٹھان کتھے گیا؟ اَدھی روٹی کھا کے پواندی سُتّا پیا!‘‘ یعنی اے پٹھان خاتون! پٹھان کہاں ہے؟ وہ جواب دیتی کہ آدھی روٹی کھا کر پائنتی کی طرف لیٹ گیا ہے۔ اس گیت کی تہہ میں شاید وہ مشقت بھری زندگی تھی جو افغانوں کا ہمیشہ خاصہ رہی۔ پنڈی گھیب میں خواتین نے بچوں کو سلانا ہوتا تو کہتیں سو جاؤ ورنہ پٹھان آجائے گا! آج پاوندوں کے ان قافلوں کے بارے میں سوچتا ہوں اور تاریخ کے صفحات پر چھایا ہوا پاکستان اور افغانستان کا باہمی محبت اور نفرت کا رشتہ 
(Love-hate relationship) 
دیکھتا ہوں تو مجید امجد کا یہ شعر یاد آجاتا ہے :
جو تم ہو برق نشیمن تو میں نشیمنِ برق
اُلجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا(جاری)

Tuesday, June 17, 2025

ایران، دوسرے مسلمان ممالک اور مغرب


آپ لاکھ کہیں کہ ہم عرب ہیں‘ ہم ایرانی ہیں‘ ہم ترک ہیں‘ ہم نیشن سٹیٹ ہیں۔ مغرب نے آپ کو مسلمان ہی سمجھنا ہے۔ ترکی نے کیا نہیں کیا۔ لباس چھوڑا‘ رسم الخط کی قربانی دی‘ اسرائیل سے اس کے آج بھی سفارتی تعلقات ہیں‘ مگر اسے یورپی یونین کی رکنیت ہزار کوششوں کے باوجود نہیں ملی! اس لیے کہ مغرب کے نزدیک وہ یورپی ہے نہ ترک! وہ صرف اور صرف مسلمان ہے۔ آج اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حملہ ایران پر ہوا ہے مجھے کیا‘ میں تو عرب ہوں! تو یہ سیاسی کم نظری 

(Myopia) 

ہے۔
اگرآپ برصغیر پاک و ہندکا نقشہ غور سے دیکھیں تو جنوبی حصے کے مغربی ساحل پر ایک ننھی منی ریاست نظر آئے گی جو پورے نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ نہیں! رقبے کے اعتبار سے یہ سب سے چھوٹی بھارتی ریاست ہے۔ اس کے ایک طرف مہاراشٹر اور دوسری طرف کرناٹک ہے۔ یہ گوا ہے۔ گوا کی تاریخ دلچسپ ہے۔ کبھی اس پر دہلی کے سلاطین کا قبضہ تھا۔ پھر یہ جنوب کی دو طاقتوں کے درمیان فٹ بال کی طرف لڑھکتا رہا۔ کبھی وِجیانگر کی ہندو ریاست کا حصہ رہا اور کبھی بہمن مسلم حکومت کا۔ 1510ء میں پرتگال کے بحری بیڑے نے اسے بیجاپور کے سلطان عادل شاہ سے چھین لیا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پرتگال کا قبضہ گوا پر ساڑھے چار سو سال رہا۔ انگریزوں نے برما سے لے کر وزیرستان تک اور نیپال سے لے کر سری لنکا تک ایک ایک انچ پر قبضہ کر لیا مگر گوا کی پرتگالی ریاست کو نہ چھیڑا۔ یہاں تک کہ برصغیر تقسیم ہو گیا۔ 1961ء میں بھارت نے لشکر کشی کرکے اسے ضم کر لیا۔
ساڑھے چار سو سال تک گوا نصرانیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا اور جہاں تک ہو سکا‘ جب بھی ہو سکا‘ علاقے کی سیاست میں بھی دخیل رہا۔ سترہویں صدی کا آغاز ہوا تو ایران کے شاہ عباس صفوی اور سلطنتِ عثمانیہ کی باہمی دشمنی عروج پر تھی۔ گوا کے بڑے پادری نے گوا کے پرتگالی حکمران کو حکم دیا کہ ایرانی بادشاہ کے پاس ایلچی بھیجے؛ چنانچہ ایلچی بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایران کے شاہ عباس نے یورپی طاقتوں سے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف مدد مانگی تھی۔ ایلچیوں کو یہ پیغام دے کر ایران بھیجا گیا کہ ہاں! یورپ ترکوں سے جنگ کرے گا! ہسپانیہ کے بادشاہ نے بھی صفوی بادشاہ کو خط لکھا۔ اس خط میں ہسپانوی بادشاہ نے شاہ عباس کی تعریف کی تھی کہ اس نے ترکوں کا دماغ ''درست‘‘ کیا ہے۔ شاہ عباس اب کے غصے میں تھا۔ اس کی توقع کے مطابق ہسپانیہ نے ترکوں پر حملہ نہیں کیا تھا۔ ہابس برگ کے جرمن شہنشاہ نے شاہ عباس سے پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ پر حملہ کرے گا۔ اس ''دوستی‘‘ کی وجہ سے شاہ عباس‘ جرمن شہنشاہ سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اس نے اپنی خوابگاہ کے دروازے پر اس کی تصویر آویزاں کی ہوئی تھی اور اندر جاتے وقت احتراماً اس کے سامنے سر جھکا لیتا تھا! جب پوپ نے شاہ عباس کے پاس اپنا سفیر بھیجا تو ساتھ ہی بائبل کا ایک دیدہ زیب نسخہ بھی بھیجا۔ اتفاق سے شاہ عباس نے جو صفحہ کھولا اس پر ایک تصویر تھی۔ اس تصویر میں سینٹ مائیکل نے جھکے ہوئے شیطان پر تلوار تانی ہوئی تھی۔ شاہ عباس نے پوچھا ''تلوار کس پر سونتی گئی ہے‘‘ پادری سفیر نے جواب دیا ''شیطان پر‘‘ اس پر شاہ عباس ہنسا اور کہنے لگا: میں سمجھا ''ترک پر‘‘۔ ساتھ ہی اس نے دربار میں موجود ترک سفیر کو تمسخر سے دیکھا۔ پرتگالی ایلچی لکھتا ہے کہ شاہ عباس عثمانیوں کے سفیر کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا!
پوپ کے سفیر کے ہاتھ شاہ عباس نے جوابی مکتوب بھیجا۔ اس نے یورپی بادشاہوں کو ایک مکمل منصوبہ پیش کیا۔ اس کی تجویز یہ تھی کہ یورپ کے نصرانی بادشاہ مل کر سلطنتِ عثمانیہ پر حملہ کریں۔ شام کے ساحل پر اُتریں۔ پھر حلب پر حملہ آور ہوں۔ مشرق سے شاہ عباس اناطولیہ پر حملہ کرے گا۔ یوں ترک دونوں طرف سے پھنس جائیں گے۔ ایران نے پوپ سے یہ بھی کہا کہ وہ یورپی حکومتوں پر سلطنتِ عثمانیہ سے تعلقات ختم کرنے کیلئے زور ڈالے۔ یہ بھی کہ ہسپانیہ قبرص پر قبضہ کر لے اور پھر حلب پر لشکر کشی کرنے کیلئے اسے مرکز کے طور پر استعمال کرے۔ کتنی سیہ بختی تھی مسلمانوں کی کہ وہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کیلئے کبھی پوپ سے مدد مانگتے تھے اور کبھی ہسپانیہ اور دیگر مسیحی حکومتوں سے۔ حقیقت یہ تھی کہ مسیحی طاقتیں ایران کی خیر خواہ نہیں تھیں۔ اور ترکوں سے تو وہ جنگ کر ہی رہی تھیں۔ عبرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ شاہ عباس نے ایک سفیر بھیجا جو چھ سال تک یورپی دارالحکومتوں میں سرگرم کار رہا کہ ترکوں کے خلاف مدد حاصل کی جائے۔ اس کا نام زین العابدین بیگ تھا۔1609ء میں اس نے شاہ عباس کو صاف الفاظ میں لکھا کہ ''نصرانی بادشاہوں کے دوستی کے دعوے جھوٹے ہیں۔ وہ صرف یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ترک اور ایرانی آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو نیست و نابود کر دیں اور یوں مسلمانوں کا مذہب ہی مٹ جائے‘‘۔ زین العابدین بیگ کے اس خط کو چار سو سولہ سال ہو گئے ہیں۔ چار صدیاں! آپ کا کیا خیال ہے ان چار سو سالوں میں مسلمان زین العابدین بیگ کی بات سمجھ سکے ہیں؟ نہیں! افسوس صد افسوس! نہیں! آج کوئی زین العابدین موجود نہیں جو مسلمانوں کو سمجھائے۔ کل صفوی یہ سمجھ رہے تھے کہ یورپ کے بادشاہ اس کے ساتھ ہیں اور سلطنتِ عثمانیہ کے دشمن ہیں۔ آج ہمارے مشرقِ وسطیٰ کے بھائی یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ‘ یورپ اور اسرائیل ایران کے دشمن ہیں اور اُن کے دوست ہیں۔ چار سو سالوں میں بھی ہم مسلمانوں میں عقل نہیں آئی۔ کل یورپ صفوی ایران کے ساتھ تھا اور عثمانی ترکوں کے خلاف تھا اس لیے کہ ترک طاقتور تھے اور مزید طاقتور ہو رہے تھے۔ آج مغرب اسی ایران کے خلاف ہے کیونکہ ایران ساری پابندیوں کے باوجود ایٹمی طاقت بننا چاہتا ہے۔ سبق کیا حاصل ہوتا ہے؟ صرف اور صرف یہ کہ مغرب ہر اُس مسلمان ملک کے خلاف ہے جو جنگی لحاظ سے طاقتور ہونا چاہتا ہے۔
ہم ایران کے ساتھ ہیں۔ پاکستان نے کھل کر ایران کی حمایت کی ہے۔ یہاں ہم ایران سے محبت بھرا شکوہ بھی کریں گے۔ انقلاب کو برآمد کرنے کا سلسلہ نہ شروع کیا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ آج یمن میں مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ عراق میں شیعہ اور سنی دست و گریباں ہیں۔ شام کمزور ہو چکا ہے۔ ہر سنی اور ہر شیعہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مغرب سنیوں کے ساتھ ہے نہ شیعوں کے ساتھ! وہ صرف اور صرف مسلمانوں کے درپے ہے کہ یا تو مسلم ممالک اس کے برخوردار بن جائیں یا انہیں پامال کر دیا جائے۔ لیبیا اور عراق مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے تھے۔ ان کا تیا پانچہ کر دیا گیا۔ آج بھارت ایران کی حمایت نہیں کر رہا۔ پاکستان کر رہا ہے۔ ایران کو بھارت کی اصلیت سمجھ جانی چاہیے۔ بھارت کسی بھی مسلمان ملک کو اپنے مفاد کے لیے استعمال تو کر سکتا ہے مگر جب اس مسلمان ملک پر کوئی افتاد آن پڑے گی تو کبھی اس کی حمایت نہیں کرے گا۔ اب لازم ہے کہ ایران دوسرے مسلم ملکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ اپنی فارن پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ مسلم ممالک بھی یہ بات سمجھ لیں کہ آج اگر ایران کا ساتھ نہیں دیں گے تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے۔ آنکھیں کھولیں اور ذرا دور تک دیکھنے کی کو شش کریں۔ وقتی مفاد کو ترجیح دینا کوتاہ بینی ہے اور کوتاہ بینی کا حاصل نقصان ہے اور ندامت!!
( عثمانی ترکوں اور صفوی حکمرانوں کی باہمی کشمکش اور گوا کی سفارتوں کے احوال کے لیے ڈیوڈ بلو 

(David Blow)

 کی تصنیف ''شاہ عباس‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے)

Thursday, June 12, 2025

اگر پاکستان نہ بنتا


سید افتخار گیلانی معروف صحافی ہیں۔ اُن کا تعلق بھارت (مقبوضہ کشمیر) سے ہے۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کو کَور کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے بھارتی اور غیرملکی اخبارات کے لیے کام کیا۔ تہلکہ ڈاٹ کام کے سیاسی بیورو کی سربراہی کی۔ کئی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبار ''کشمیر ٹائمز‘‘ کے دہلی بیورو کے اینکر رہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین رہے۔ پریس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے نائب صدر رہے۔ کئی بھارتی تھنک ٹینکس کے لیے تحقیقی کام کیا۔ انہیں بھارتی حکومت نے گرفتار کر کے جیل میں بھی رکھا۔ ان ایامِ اسیری کی سرگزشت انہوں نے
My days in Prison
کے عنوان سے رقم کی۔ اسے
 Penguin
نے شائع کیا ہے۔ کچھ عرصہ سے آپ ترکیہ میں مقیم ہیں اور میڈیا کے بین الاقوامی میدانوں میں اپنی ذہانت‘ علم اور تجربے کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
میری خوش قسمتی کہ سید افتخار گیلانی میرے کالموں کے مندرجات کے حوالے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں میری رہنمائی کرتے رہتے ہیں اور اپنی قیمتی آرا اور مشوروں سے نوازتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران‘ اور جنگ کے بعد میں نے ''پاکستانیت‘‘ کے ضمن میں کئی کالم لکھے۔ میرے نزدیک یہ مفروضہ محض ایک واہمہ ہے کہ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش نہ ہوتے تو متحدہ ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی طاقت ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ پھر بھی اقلیت ہی رہتے۔ 22 مئی 2025ء کو ''الحمدللہ! ہم پاکستانی ہیں‘‘ کے عنوان سے میری تحریر شائع ہوئی۔ اس کی تائید میں جناب افتخار گیلانی نے جو کچھ کہا وہ انہی کی زبانی سنیے۔ ''آپ کے آج کے کالم کے حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جولائی 2001ء میں آگرہ کی سربراہی کانفرنس کو کَور کرنے کے بعد میں دہلی واپس آ چکا تھا۔ میں نے دیکھا کہ دو پاکستانی صحافی پریس کلب کے گیٹ پر پریشان کھڑے تھے۔ یہ کراچی سے تھے۔ ایک ٹائم میگزین کی نمائندگی کر رہا تھا اور دوسرا بی بی سی اردو سروس کی۔ کسی دوست نے انہیں سوزوکی کار دی تھی مگر ڈرائیور کو دہلی کے راستوں سے شناسائی نہ تھی۔ انہیں پی آئی اے کے دفتر جانا تھا۔ کسی کو کوئی آئیڈیا نہ تھا کہ یہ دفتر کہاں ہے۔ ابھی راستے بتانے والی گوگل کی خاتون ظہور پذیر نہ ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔ میں نے انہیں مدد کی پیشکش کی کہ کناٹ پلیس میں واقع پی آئی اے کے دفتر تک لے جاتا ہوں؛ چنانچہ میں ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔ پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے یہ دونوں (پاکستانی صحافی) پاکستان اور قائداعظم کو خوب برا بھلا کہہ رہے تھے۔ ان کا مسئلہ پی آئی اے کے ساتھ تھا مگر غصہ پاکستان کے قیام اور قائداعظم پر نکال رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان میں سے ایک قائداعظم کا نام بھی بگاڑ رہا تھا۔ ہم پی آئی اے کے دفتر پہنچ گئے تو میں اُن سے مخاطب ہوا کہ ٹھیک ہے ہندوستان کی تقسیم بہترین آپشن نہ تھا۔ اب دونوں ملکوں کے درمیان سفر کرنا مشکل ہے۔ اور میں تو کشمیری ہونے کی وجہ سے ان مشکلات کا پہلا شکار ہوں۔ تقسیم نہ ہوتی تو سب کچھ ٹھیک رہتا۔ مگر ایک چیز نہ ہوتی۔ دونوں پاکستانی صحافی متجسس ہو کر مجھے دیکھنے لگے۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہ بنتا تو تم ٹائم میگزین اور بی بی سی کی نمائندگی نہ کر رہے ہوتے۔ تمہاری جگہ ایل کے ایڈوانی کی بیٹی پر تھیبا
 (Pratiba) 
ایڈوانی ان اداروں کی نمائندہ ہوتی اور تم اس کے ماتحت کام کر رہے ہوتے۔ (ایڈوانی کی بیٹی بھی صحافی ہے)۔ دونوں پاکستانی صحافی خاموش ہو گئے۔ اُن میں اتنا اخلاق نہ تھا کہ مجھے واپس پریس کلب چھڑوا دیتے۔ مجھے بارش میں شرابور واپس آنا پڑا‘‘۔
اس کے بعد افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ (مقبوضہ) کشمیر میں مسلمان آبادی کے اعتبار سے 68 فیصد ہیں۔ کُل ضلع مجسٹریٹ 20 ہیں‘ جن میں سے صرف چھ مسلمان ہیں۔ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس سے تعلق رکھنے والے افسروں کی تعداد 58 ہے جن میں سے مسلمان افسر صرف 11 ہیں! ماتحت افسروں کی تعداد 523 ہے جن میں سے مسلمان صرف 220 ہیں۔ 66 پولیس افسروں میں سے مسلمان پولیس افسر صرف سات ہیں۔ فہرست بہت طویل ہے اور یہ اعداد و شمار پرانے نہیں‘ گزشتہ سال کے ہیں۔
آپ نے جناب افتخار گیلانی کے دیے ہوئے اعداد و شمار دیکھ لیے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن ملازمتوں میں‘ خاص طور پر سول سروسز میں ان کی تعداد برائے نام ہے۔ پاکستان نہ بنتا تو پنجاب‘ سندھ‘ کے پی‘ بنگال اور بلوچستان میں حالات مختلف نہ ہوتے۔ ایسا نہ ہوتا تو کلکتہ یونیورسٹی کی موجودگی میں ڈھاکہ یونیورسٹی نہ بنانا پڑتی جسے ہندو تمسخر سے مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد ہے۔ تقسیم سے لے کر اب تک بھارت میں امورِ خارجہ کے 35سیکرٹری ہو گزرے ہیں۔ ان میں صرف ایک مسلمان تھا۔ سیکرٹری خزانہ 20 ہو گزرے ہیں۔ موجودہ سیکرٹری‘ اجے سیٹھ اکیسواں سیکرٹری خزانہ ہے۔ کوئی ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی آسام میں ہے یعنی 34.22 فیصد۔ تقسیم سے لے کر اب تک گورنروں کی کل تعداد 34 ہوئی ہے۔ ان میں سے صرف تین گورنر مسلمان رہے ہیں۔ آسام کے وزرائے اعلیٰ کی فہرست دیکھ لیجیے۔ جس آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34 فیصد سے زیادہ ہے وہاں 1950ء سے لے کر آج تک‘ یعنی 75 برسوں میں صرف ایک‘ جی ہاں صرف ایک چیف منسٹر مسلمان گزری ہے۔ انورہ تیمور‘ جو واحد مسلم اور واحد خاتون چیف منسٹر تھی۔ مغربی بنگال میں مسلم آبادی 27 فیصد ہے۔ تقسیم سے لے کر اب تک کُل 23 گورنر ہو گزرے ہیں جن میں سے تین مسلمان گورنر ہوئے ہیں (سید نور الحسن دو بار اور اخلاق الرحمان قدوائی ایک بار)۔ 27 فیصد مسلم آبادی والی اس ریاست میں 75 برسوں کے دوران ایک وزیراعلیٰ بھی مسلمان نہیں ہو گزرا!! کیرالہ کی ریاست 1956ء میں وجود میں آئی۔ اس میں مسلم آبادی 26 فیصد ہے۔ 70 برسوں میں صرف ایک مسلمان کو وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملا۔

پاکستان کے محفوظ ماحول میں مزے سے بیٹھ کر یہ کہنا آسان ہے کہ پاکستان نہ بنتا تو غیرمنقسم ہندوستان میں مسلمان بہت بڑی طاقت ہوتے۔ اوپر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو اس صورت میں کچھ بھی نہ ملتا۔ جو مسلمان اس وقت بنگلہ دیش اور پاکستان میں رہ رہے ہیں ان کی حالت بھی وہی ہوتی جو آج بھارتی مسلمانوں کی ہے۔ قائداعظم کی یہ بات بہت گہری تھی کہ ہمارے اور ہندوؤں کے ہیرو الگ الگ ہیں۔ ہمارے ہیرو ان کے نزدیک وِلن ہیں اور ان کے وِلن ہماری نظر میں ہیرو! ان کے نزدیک شیوا جی ہیرو ہے اور افضل خان وِلن۔ ہم شیوا جی کو وِلن کہتے ہیں اور افضل خان کو ہیرو!! جنوری میں دہلی میں یوم جمہوریہ کے سلسلے میں پریڈ منعقد ہوتی ہے۔ ہر ریاست کا اپنا فلوٹ ہوتا ہے جو پریڈ کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی دس گیارہ سال پہلے کی بات ہے۔ جنوبی ریاست کرناٹک نے اس پریڈ میں ٹیپو سلطان کے مجسمے کی نمائش کی تھی۔ پورے بھارت میں طوفان کھڑا ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر برپا ہونے والی لڑائی میں بہت سے بھارتیوں نے سلطان کو قومی ہیرو قرار دیا مگر مخالفت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ نہیں معلوم اس کے بعد کرناٹک نے یہ عمل جاری رکھا یا ترک کر دیا 

Tuesday, June 10, 2025

دو عیدیں اور غزہ

میلبورن ( آسٹریلیا) میں کتنے مسلمان ہوں گے؟ لاکھ‘ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ۔ یہ مٹھی بھر مسلمان اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ عید کس دن کرنی ہے! ماشاء اللہ دو عیدیں ہوئیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی یہی حال رہا۔ اندازہ لگائیے‘ جو لوگ عید کے تہوار پر متفق نہیں ہو سکتے‘ وہ غزہ کو دشمن کے پنجے سے چھڑائیں گے!! چلیے‘ ہم پاکستان میں رہنے والے تو پسماندہ ہیں اور تارکینِ وطن کی نگاہوں میں قابلِ رحم! مگر یہ حضرات جن کی زندگیاں ان ترقی یافتہ ملکوں میں گزریں اور بہت سوں کی تو پیدائش ہی وہیں کی ہے‘ یہ لوگ ایک عید کیوں نہیں کر لیتے؟ یا تو اس بات پر اتفاق کر لیں کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ عید کریں یا کیلنڈر کے مطابق کر لیں۔ جن حضرات کو اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے پر اصرار ہے وہ رمضان المبارک میں چھت پر چڑھ کر کیوں نہیں دیکھتے کہ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے یا نہیں؟ حکم تو یہ ہے کہ کھاؤ اور پیو‘ جب تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے فجر کے وقت صاف ظاہر ہو جائے۔ مگر چاند کو آنکھ سے دیکھنے پر اصرار کرنے والے اس بات کا کبھی جواب نہیں دیتے کہ سحری کے وقت گھڑی دیکھ کر کھانا پینا کیوں بند کر تے ہیں؟ جس طرح ہمارے منتخب نمائندے صرف اُس وقت متحد ہوتے ہیں جب ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل پیش ہو‘ اسی طرح مسلمان بھی اُسی وقت متحد ہوتے ہیں جب کسی کی تکفیر یا تکذیب کرنی ہو! بقول اقبال:

یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
بھارت میں ایک متعصب پنڈت نے پھر بدزبانی کی ہے۔ بھارتی مسلمان مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس گستاخ کو گرفتار کیا جائے۔ گرفتاری کا امکان‘ آر ایس ایس کی اس حکومت میں بہت خفیف ہے۔ بھارت کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے مشرقِ وسطیٰ کے بھائی‘ بھارت کی مسلم کُش پالیسیوں کے باوجود‘ بھارت کو صدقے قربان کہتے تھکتے نہیں! کبھی کبھی کوئی اکا دکا آواز اٹھتی ہے مگر سرکاری سطح پر بھارت کے ساتھ مسلسل معانقے ہوتے ہیں حالانکہ محض تنبیہ بھی بھارت کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ہمارے جو بھائی برسر اقتدار ہیں وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کا مسئلہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ہم مسلمان ''امت مسلمہ‘‘ کا ذکر کرتے تھکتے نہیں‘ یہ اور بات کہ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں کبھی نہیں آیا۔ ویسے شرقِ اوسط کے امیر حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج ہیں جنہوں نے ان کے سر پر عافیت کی چھتری تانی ہوئی ہے اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے دیوار کھڑی کی ہوئی ہے ورنہ ان کا حال بھوٹان اور نیپال سے کم نہ ہوتا۔ امتِ مسلمہ کی بات ہو رہی تھی۔غزہ کے مسلمان کب سے امتِ مسلمہ کی تلاش میں ہیں مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی! امریکہ نے غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی کے لیے پیش ہونے والی قرارداد کو‘ سلامتی کونسل میں‘ پانچویں بار ویٹو کر دیا ہے۔ اسرائیل کے وارے نیارے ہیں۔ جس امریکہ کا دستِ شفقت اسرائیل کے سر پر ہے‘ اُس امریکہ کو ہمارے عرب بھائی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔امریکی صدر کے استقبال کے لیے جوان زلفوں کو پھولوں کی طرح بکھیرا گیا۔ تحفے میں پہلے تو سونے کی گھڑیاں اور زیورات کے انبار پیش کیے جاتے تھے اب ہوائی جہاز دیے جانے لگے ہیں۔ کیا عجب جہاز بھی زرِ خالص سے بنا ہو! اس لیے کہ ایک بار نیاز مندی شروع ہو جائے تو رکتی نہیں خواہ اس کی سرحد دست بستہ غلامی ہی سے مل رہی ہو! کیونکہ
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
ویسے یہ بات طے ہے کہ زلفیں بے شک قدموں کے نیچے بچھا دیں اور ایک ہوائی جہاز نہیں سو ہوائی جہاز دے دیں پھر بھی وہ والہانہ پیار نصیب نہیں ہو سکتا جو بڑے صاحب کو اسرائیل سے ہے۔ پالیسیاں طے کرتے وقت اسرائیل ہی کو اعتماد میں لیا جائے گا اس لیے کہ 
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جو ہرِ ادراک
کتنا بڑا المیہ ہے کہ غزہ کو مسلسل آگ اور خون میں نہلایا جا رہا ہے اور جو آگ اور خون کے اس کھیل میں سب سے بڑے کھلاڑی ہیں انہیں غزہ والوں کے ''اعزّہ واقربا‘‘ یعنی غزہ والوں کے سگے رشتہ دار‘ ہار پہنا رہے ہیں‘ تحائف سے لاد رہے ہیں اور ان کی بلائیں لے رہے ہیں! یہ درد ناک سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ترکوں کی پیٹھ میں خنجر بھونکا گیا۔ اقبال پھر یاد آگئے:
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
''ترکانِ جفا پیشہ‘‘ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
امتِ مسلمہ تو نظر ہی نہیں آرہی مگر و ہ جو ''عرب لیگ‘‘ ہے وہ کہاں ہے؟ کیا غزہ کے لوگ عرب نہیں؟ عرب لیگ کا تازہ ترین سربراہی اجلاس 17 مئی 2025ء کو بغداد میں ہوا۔ اس سے پہلے گزشتہ برس مئی ہی میں بحرین میں ہوا۔ چار مارچ 2025ء کو ایک ایمرجنسی سربراہی اجلاس قاہرہ میں ہوا۔ اس سے اہلِ غزہ کو کیا فرق پڑا؟ اور جو کچھ اہلِ غزہ پر بیت رہی ہے‘ اس سے عرب ممالک کے اربابِ اختیار کو کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اہلِ غزہ کو ختم کرنے کے بعد مسلم دشمنی اور عرب دشمنی کا یہ سلسلہ رک جائے گا تو سخت غلط فہمی میں ہے۔ چنگیز خان جب کوئی شہر فتح کرتا تھا تو سب سے پہلے ان افراد کو ہلاک کرنے کا حکم دیتا تھا جنہوں نے اپنوں سے غداری کر کے چنگیز خان کی مدد کی تھی۔ کیسی زبردست پالیسی تھی! جو اپنوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنوں کے قاتلوں کے ساتھ مل جاتے ہیں انہیں چنگیز خان نے معاف کیا نہ تاریخ معاف کرتی ہے۔ وہ اپنی جلائی ہوئی آگ ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں۔ چالاک دشمن انہیں استعمال کرتا ہے۔ استعمال کرنے کے بعد تہِ تیغ کر دیتا ہے۔
مشہور جرمن پادری مارٹن نیلامر شروع میں ہٹلر کا حامی تھا اور اس کی نازی پارٹی کا ہمدرد! 1933ء میں جب ہٹلر برسر اقتدار آیا اور اس نے پروٹسٹنٹ کلیسا کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی تو نیلامر نے اس پر تنقید کی۔ اس کی پاداش میں نازی اقتدار کے آخری آٹھ سال اس نے زندانوں اور حراستی کیمپوں میں گزارے۔ اس کا ایک قول بہت مشہور ہوا جو یوں تھا ''پہلے وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے آئے۔ میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کو پکڑنے آئے۔ میں تب بھی خاموش رہا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے۔ میں خاموش رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔ پھر وہ مجھے پکڑنے آئے۔ میری حمایت میں بولنے کے لیے کوئی باقی ہی نہیں بچا تھا!!‘‘ غزہ جہنم بنا ہوا ہے۔ بچے موت کے گھاٹ اُتر رہے ہیں۔ کھانا تو دور کی بات ہے‘ دوائیں اور پانی تک نہیں موجود۔ ایک گرداب ہے جو سفینے ڈبو رہا ہے۔ جو کنارے پر کھڑے ہیں‘ وہ مطمئن ہیں کہ محفوظ ہیں! مگر یہ ان کی خوش گمانی ہے۔ گھوڑے اور گھاس میں دوستی نہیں ہو سکتی! ہوا کی چراغ سے محبت کبھی نہیں ہوئی!!

 

powered by worldwanders.com