Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, May 30, 2017

میری اور لال چند کی ایک ہی قوم ہے۔ پاکستانی قوم!!


لال چند ربڑی بدین(سندھ) کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا 
ہوا۔ والد گڈریا تھا۔ ماں کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ گیارہ بچوں میں لال چند پانچویں نمبر پر تھا۔

2009
ء میں اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے ذہن میں کچھ خواب تھے۔ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے ایک دن اس نے گھر والوں کو بتائے بغیر بدین شہر کا رُخ کیا۔ اور پاک فوج میں بھرتی ہو گیا۔
بھرتی ہونے کی وجہ بے روزگاری تھی نہ کچھ اور۔ اس کی وجہ اس کے خواب تھے۔ مادرِ وطن کا دفاع کرنے کے خواب! دشمن سے لڑنے کے خواب! اس کے بھائی بھیمن کا کہنا ہے کہ جب اس کی تعیناتی وزیرستان میں ہوئی تو وہ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو کچل دینے کے ولولے کے ساتھ  وہاں پہنچا ۔اس کا کہنا تھا’’جن عناصر نے میرے وطن کے لوگوں اور بچوں کو نقصان پہنچایا ہے‘ میں ان سے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لوں گا!‘‘
اس کے بھائی کا کہنا ہے کہ وہ بچپن ہی سے فوج میں بھرتی ہونے کا خواہش مند تھا۔ اس کی ہمت قابلِ رشک تھی۔ ارادے بلند تھے۔ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد اس نے ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ پھرگریجوایشن کر لی! اب وہ لانس نائک تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کوفوج میں خدمات بجا لانے کے لیے آمادہ کرتا رہتا تھا۔ اب جب لال چند مادر وطن پر قربان ہو گیا ہے اس کے دوبھائی اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوج میں بھرتی ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لال چند کے بھائی بھیمن نے آہ و فغاں کی نہ گریہ و زاری ! کہا تو یہ کہا کہ یہ ملک ہمارا گھر ہے۔ ہماری ماں کو بیٹے کی قربانی کا کوئی دکھ نہیں! وہ اپنے بیٹوں اور پوتوں کو اسی راہ پر چلانے کی خواہش رکھتی ہے۔ ماں نے اپنے آنجہانی شوہر کو یاد کیا اور کہا کہ وہ زندہ ہوتا تو آج فخر سے اس کا سر بلند ہوتا۔
مئی کی17تاریخ تھی جب لال چند ملک کی پاسبانی کرتے ہوئے ملک کے کام آیا اس نے جان اس دھرتی پر فدا کر دی جس کے دفاع کی اس نے قسم کھائی تھی!
مگر لال چند ہمیں کچھ سبق دے گیا ہے اور کچھ سوال چھوڑ گیا ہے! لال چند زبان سے نہیں‘ خون سے ثابت کر گیا کہ یہ ملک کسی ایک گروہ‘ کسی ایک مذہب ‘کسی ایک نسلی یا لسانی اکائی کا نہیں‘ یہ ملک سب کا ہے! ایک پاکستانی جس مذہب کا بھی ہو‘ جو زبان بھی بولتا ہو‘ جس نسل سے تعلق رکھتا ہو‘ اول آخر پاکستانی ہے۔ اور سب پاکستانی برابر ہیں! اگر مذہب یا زبان یا نسل کی بنیاد پر کوئی پاکستانی کسی دوسرے پاکستانی سے برتری کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ غلطی پر ہے‘ بہت بڑی غلطی پر ۔ہاں برتری ممکن ہے! مگر مذہب‘ مسلک ‘زبان یانسل کی بنیاد پر نہیں! خون کے ان قطروں کی بنیاد پر جو وطن کی مٹی پر گرتے ہیں اور جن کی سرخی خاک وطن کو رنگین کر جاتی ہے!
میں لال چند ربڑی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اپنے آپ میں اور اس میں ایک ایسی یکسانیت ‘ایسی مماثلت نظر آتی ہے جو پتھر کی طرح ٹھوس ہے اور سورج کی کرن جیسی صاف اور ناقابل تردید۔ وہ سندھی بولتا تھا میں پنجابی بولتا ہوں ‘میں اپنی مذہبی کتابیں پڑھتا ہوں‘ وہ اپنی مذہبی کتابیں پڑھتا تھا‘ وہ جنوبی پاکستان سے تھا‘ میں شمال سے تعلق رکھتا ہوں مگر قومیت یعنی نیشنلٹی 
(Nationality)
کے خانے میں وہ بھی پاکستانی لکھتا تھا اور میں بھی پاکستانی لکھتا ہوں۔ پاسپورٹ ہو یا قومی شناختی کارڈ سکول میں داخلے کا فارم ہو یا کسی غیر ملک کے اندر جانے کا فارم ‘قوم کے خانے میں ہم دونوں پاکستانی لکھتے تھے یعنی میری اور لال چند ربڑی کی قوم ایک ہے۔ سو اس ملک میں جتنے لوگ بھی آباد ہیں‘ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں‘ کسی بھی رنگ یا نسل کے ہیں‘ سب کی ایک ہی قوم ہے اس ملک میں ایک ہی قوم بستی ہے اور وہ قوم ہے پاکستانی! اگر کوئی کہتا ہے کہ یہاں دو یا تین یا چار قومیں بستی ہیں تو بتائے کہ کیا نیشنلٹی کے خانے میں وہ پاکستانی نہیں لکھے گا؟ اور کیا لال چند ربڑی بھی پاکستانی نہیں لکھتا تھا؟ یہ ایک ٹھوس پتھر‘ پہاڑ‘ چٹان جیسی ٹھوس حقیقت ہے ! اس کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ہوائی جہاز فضا میں ہچکولے کھا رہا تھا۔ اچانک ایک آواز جہاز میں ابھری:’’ خواتین و حضرات خاطر جمع رکھیے‘ جہاز کو کچھ نہیں ہونے والا‘ بس ذرا انجن میں خرابی ہے‘ آپ کھڑکی سے باہر نیچے دیکھیں‘ سمندر کی نیلگوں شفاف لہروں پر ایک خوبصورت کشتی خراماں خراماں چل رہی ہے‘ میں اسی کشتی میں بیٹھ کر آپ سے مخاطب ہوں!‘‘
لال چند ربڑی ان بہت سے لوگوں سے بازی لے گیا جو آرام دہ کشتیوں میں بیٹھ کر دوسروں کو قربانی کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ ان آگ لگانے والوں سے بدرجہا بہتر ثابت ہوا جو رنگ ‘نسل ‘علاقائیت ‘مذہب‘ مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ جو دوسروں کے بچوں کو شہادت کا درس دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو بزنس کا راستہ دکھاتے ہیں۔ جو دوسروں کے نوجوان بیٹوں کے ہاتھوں میں بندوق اور کلاشنکوف دیکھنا چاہتے ہیں مگر اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں قلم کاغذ، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ دیتے ہیں! لال چند ربڑی نے ان سب کو ایک نگاہ غلط انداز سے دیکھا۔ سینے پر گولی کھائی اور وطن پر نثار ہو گیا!   
سودا قمارِ عشق میں شیریں سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا‘ سر تو کھو سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
ہر پاکستانی کے جذبات لال چند کے لیے وہی ہیں جو اس کالم نگار کے ہیں! یہ خبر جب چھپی تو اخباروں کے آن لائن ایڈیشنوں میں پاکستانیوں نے دل کھول کر لال چند کو خراج تحسین پیش کیا۔ صرف ایک اخبار سے چند کمنٹس:
فرزانہ حلیم:اس کی روح سکون میں رہے۔
ریحاب علی خان : ہمارے ایک بھائی نے ہمارے لیے اپنی زندگی قربان کی۔ وہ ہمارے احترام کا مستحق ہے۔ ہم اس کے خاندان کے ساتھ ہیں۔ لانگ لائف پاک آرمی۔
سید: تمہیں سیلوٹ!بہادر لال چند! تم اپنے نام کی طرح ہیرے ہو!
خان: ہمارا سیلوٹ! حکومت اس کے خاندان کی دیکھ بھال ضرور کرے۔
فیروز: کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک جاں باز سپاہی کی قدرو قیمت نسل‘ زبان یا مذہب کی بنیاد پر جانچی جاتی 
ہے ! دنیا میں اور کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔
او ایس ڈی: ہمیں تم پر 
اور تمہارے خاندان پر فخر ہے۔
عزیز۔:ویل ڈن! اے مادرِ وطن کے بہادر فرزند!
عرفان: لال چند کے لیے سیلوٹ! اس نے اپنے وطن سے محبت کی اور ثابت کر دیا کہ وہ ملک کی حفاظت کر سکتا تھا!
ایس ایم:ان سب کو شرم آنی چاہیے جو غیر مسلموں کو سکینڈ کلاس شہری سمجھتے ہیں۔
دھرمیش جھالا: میں بھارت سے ہوں اور جب دیکھتا ہوں کہ پاکستانی اپنے ہندو سپاہی پر کس قدر محبت نچھاورکر رہے ہیں تو میری آنکھوںمیں آنسو آ جاتے ہیں ‘ایک بات ضرور کہوں گا کہ بھارت اور پاکستان لڑائی جھگڑا ختم کر دیں!
سید شیراز:لال چند! تم ہمارے ہیرو ہو! 
چنگیز کے: لال چند ربڑی زندہ باد۔ پاکستان آرمی زندہ باد
امیر قیصرانی: لال چند! ہم تمہیں سیلوٹ کرتے ہیں! اور ان سب جانباز سپاہیوں کو بھی جنہوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑتے ہوئے اس مقدس مقصد کے لیے اپنی جانیں قربان کیں ! ہم انہیں بھی سلام کرتے ہیں جو اس وقت لڑ رہے ہیں! 
پاکستانی۔ بے پناہ احترام اور سیلوٹ 
سید احمد : زمین کے اس بہادر بیٹے کے لیے احترام! اور ان سب کے لیے جو آرمی‘ پولیس‘ نیوی اور ایئر فورس میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے ہماری حفاظت کر رہے ہیں! 
جے کے ڈی: اس کے ہندو ہونے کا تذکرہ ہی کیوں کیا جائے؟ وہ پاکستانی تھا۔ یہ ملک سب کا ہے خواہ وہ کسی مذہب کے پیرو ہوں! بہت سے غیر مسلم اس ملک کے لیے کام کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں ۔آفرین ہے تم پر لال چند! پاکستانی تم پر فخر کرتے ہیں۔
2: کتنا خوبصورت جوان تھا! اور کیا ہی بہادرانہ انجام پایا۔ امید ہے اسے کوئی میڈل ضرور دیا جائے گا۔ اور اس کے اہل خانہ کا بھی خیال رکھا جائے گا!
پاکستانی: ہم تمہاری قربانی کبھی نہیں بھولیں گے۔
ایم ایس: لال چند اور اس کے خاندان کو سلام! وہ ہم میں سے بہت سوں کی نسبت اور ہمارے بہت سے لیڈروں کی نسبت بہتر تھا۔
مقصود: ابدی راحت میں رہو میرے بیٹے! ہمیں تم پر فخر ہے۔ تم پاکستانی تھے اور بس! باقی سب کچھ غیر ضروری ہے!
ثاقب: لال چند کے لیے ٹنوں کے حساب سے احترام! وہ ہمارا ہیرو ہے۔ ہندو ہماری قوم کا قابل فخر حصہ ہیں!
خالد رشید: میڈیا کو چاہیے کہ اس خبر کو نمایاں کرے تا کہ دنیا کومعلوم ہو کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں۔
یہ صرف مشتے نمونہ از خروارے ہے ورنہ پاکستانیوں نے اس پاکستانی سپاہی کو جتنا خراج تحسین پیش کیا ہے ایک کالم میںسمویا نہیں جا سکتا! 
لال چند اس حقیقت کو واشگاف کر گیا ہے کہ پاکستان کی فوج قومی فوج ہے اس فوج پر کسی ایک نسل‘ زبان‘ مذہب ‘ مسلک یا عقیدے کی اجارہ داری نہیں! پاکستانی فوج کا ہر سپاہی صرف اور صرف پاکستانی ہے!

Monday, May 29, 2017

جھوٹ!جھوٹ!جھوٹ


میز پر گلاس پڑا ہے۔ آپ پوچھتے ہیں یہ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں۔ پیالی ہے۔ یہ کہتے ہوئے میں آنکھ تک نہیں جھپکتا۔ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گلاس کو پیالی کا نام دیتا ہوں۔
یہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کا رویہ ہے۔ جھوٹ!جھوٹ! ہر معاملے میں جھوٹ! تعجب ہے یہ قوم صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کو جھوٹا کہتی ہے۔ دکاندار جھوٹ بولتا ہے۔ سفید جھوٹ! یہ تو ہماری خرید ہے۔ لے جائیے‘ اس مال کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ گارنٹی ہے۔ جب آپ تحریری گارنٹی مانگتے ہیں تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتا ہے۔ ماں باپ بچوں سے ‘ بچے ماں باپ سے‘ بیوی میاںسے‘ شوہر بیوی سے ‘ ملازم مالک سے‘ مالک ملازم سے ‘ اہلکار افسر سے‘ افسر اپنے سے سینئر افسر سے‘ ہر شخص ہر جگہ ہر وقت جھوٹ بول رہا ہے۔ مقررہ وقت پر نہ پہنچنا اور گھر بیٹھے ہوئے یہ کہنا کہ میں راستے میں ہوں۔ عام ہے‘ اس سب کچھ کے باوجود نمازیں روزے صدقے خیرات حج عمرے سب چل رہے ہیں۔ ساتھ پوری دنیا پر سازشی ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔
بھارتی عورت ڈاکٹر عظمیٰ نے بھارت واپس جا کر میڈیا پر جو یاوہ گوئی پاکستان کے بارے میں کی ہے اور جسے اب بھارتی میڈیا خوب خوب اچھا رہا ہے‘ اس کی تہہ میں غور فرمائیے‘ تو ہماری یہ جھوٹ بولنے کی بیماری ہی تو ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستانی وکیل پاکستانی جج اور پاکستانی حکومت کی تعریف کی مگر جو کہلوانا تھا‘ عظمیٰ سے کہلوا دیا۔ ’’پاکستان موت کا کنواں ہے۔ وہاں جانا آسان ہے مگر لوٹنا مشکل ہے۔ کتنی ہی عورتیں وہاں پھنسی ہوئی ہیں‘ وہاں عورتوں کا تو کیا‘ مردوں کا بچنا مشکل ہے‘ وغیرہ وغیرہ‘‘
اُس سے کسی نے پوچھا نہ اس نے خود بتایا کہ آخر وہ پاکستان گئی کیوں؟ اس کا یہ کہنا کہ گھومنے گئی تھی‘ سفید جھوٹ لگتا ہے۔ قرین قیاس قصہ یہ لگتا ہے کہ ملائشیا میں عظمیٰ اور پاکستانی مرد کی ملاقات ہوئی معاملہ ملاقات سے بڑھا عہدو پیمان ہوئے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ پاکستان پہنچی۔ مرد نے اس کا استقبال کیا۔ شادی ہوئی اور شادی کے بعد عورت کو معلوم ہوا کہ یہ تو پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے چار بچے بھی ہیں۔ یہاں سے معاملہ بگڑا ہو گا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ ہر کوئی جانتا ہے!
بیرون ملک پاکستانی مردوں کی شہرت شادیوں کے ضمن میں ہمیشہ سے ناقابلِ اعتبار رہی ہے ایک زمانہ تھا امریکہ میں کاغذی شادیوں کا رواج چلا۔ شہریت حاصل کرنے کے لیے جعلی شادی! کسی مقامی عورت کو کچھ رقم دی‘ وقتی طور پر بیوی بنی۔ شہریت مل گئی تو شادی ختم! چلیے یہ تو ایک قانونی مجبوری تھی۔ کچھ نہ کچھ جواز اس کا دیا جا سکتا ہے اگرچہ مکمل جعل سازی ہے۔ مگر اس کے علاوہ اندرون ملک ‘ بیرون ملک ہر جگہ شادیوں کے گرد جھوٹ کا تانا بانا بُنا جاتا ہے۔ ولایت میں شادی کی ہوئی ہوتی ہے مگر پاکستان میں ماں باپ کو علم ہی نہیں ہوتا۔ مرد سماجی دبائو کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔ ایک اور شادی ماں باپ کو خوش کرنے کے لیے کر لیتا ہے یا پہلے سے  پاکستان میں شادی کی ہوئی ہے تو ولایت کسی سفید فام عورت سے۔ اپنے آپ کو کنوارا کہہ کر‘ ایک اور شادی کر لیتا ہے۔ سفید فام عورتوں سے کی ہوئی شادیاں اکثر و بیشتر دیرپا نہیں ثابت ہوتیں۔
کتنے ہی واقعات ایسے پیش آئے کہ پاکستان سے آئی ہوئی بیوی بیرون ملک آ کر دیکھتی ہے کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ پاکستان میں اسے کچھ اور بتایا گیا تھا کچھ عرصہ وہ جبر اور ظلم برداشت کرتی ہے۔ پھر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں اس کے باقاعدہ حقوق ہیں۔ کوئی نہ کوئی ہمدرد اسے راستہ دکھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ پاکستان نہیں ہے۔کینیڈا یا برطانیہ ہے۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے اور مرد سے چھٹکارا پاتی ہے۔ معاشرہ اور قانون اس کی حفاظت کرتے ہیں اور کفالت بھی!
پاکستانیوں کی بیٹیاں جب بیرون ملک بڑی ہوتی ہیں تو ماں باپ پر اچانک یہ راز کھلتا ہے کہ یہ معاشرہ تو بے حیا اور غیر اسلامی ہے اور جوان بیٹیوں کے لیے از حد نامناسب! مگر دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ روک ٹوک کا نتیجہ مثبت نہیں نکلتا ۔ اب یہ ایک اور تدبیر سوچتے ہیں۔ سیرو تفریح اور عزیز و اقارب سے ملاقات کے بہانے اسے پاکستان لاتے ہیں۔ ایک کزن شادی کے لیے ہمیشہ تیار ملتا ہے لڑکی کو پہلے شک ہوتا ہے پھر یقین۔ وہ احتجاج کرتی ہے۔ ایسے ہی کیس ہوتے ہیں جب لڑکی ‘ اپنی بیرونی شہریت کو بروئے کار لاتے ہوئے’’اپنے‘‘ سفارت خانے سے رابطہ کرتی ہے‘ اور حفاظت کی درخواست کرتی ہے ماضی قریب اور بعید میں غیر ملکی سفارت خانوں نے پاکستان میں پھنسی ہوئی ایسی کتنی ہی لڑکیوں کو زبردستی کی شادی سے بچا کر واپس مغربی ملکوں میں بھیجا ہے۔ جھوٹ بولنے والے والدین نے منہ کی کھائی ہے اور سماج میں باقی ساری زندگی منہ چھپاتے ہوئے شرمندگی سے گزاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بیرون ملک ہجرت کرتے وقت اور بستے وقت آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ اپنی جوانی جس معاشرے میں رنگ رلیاں کرتے گزرتی ہے‘ بیٹی کے جوان ہوتے ہی وہ معاشرہ زہر لگنے لگتا ہے۔ یہ بات جاننے میں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے کہ بچے جس معاشرے میں پرورش پائیں گے اس سے متاثر ہوں گے اور اسی رنگ میں رنگے جائیں گے؟
ہم پاکستانی اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پاتے کہ جھوٹ کسی صورت میں بھی چھپتا نہیں۔ دیر سے سہی‘ ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ناجائز تعلقات اور ناجائز آمدنی چھپائے سے نہیں چھپتی‘ مگر یہ آدھا سچ ہے پورا سچ یہ ہے کہ جھوٹ کوئی بھی ہو‘ کسی بھی معاملے میں ہو‘ کسی بھی سائز یا حجم کا ہو‘ کبھی نہیں چھپتا۔ سعدی نے کہا تھا کہ ’’دروغِ مصلحت آمیزبہ از راستیٔ فتنہ انگیز‘‘ کو فتنہ اور شر پھیلانے والے سچ سے ‘ فائدہ پہنچانے والا جھوٹ بہتر ہے۔ مگر یہ تو ایک استثنا ہے۔ جیسے کسی بے گناہ کی جان بچانے کے لیے یا دو ناراض دوستوں یا میاں بیوی کو ایک دوسرے سے نزدیک کرنے کے لیے!
ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ بسا اوقات جھوٹ بولتے ہیں اور اس جھوٹ سے فائدہ بھی نہیں ہوتا! اس کالم نگار کے گھر میں ایک متشرع شکل و صورت کا ترکھان کام کر رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا میں راستے میں ہوں، مگر موٹر سائیکل خراب ہو گئی ہے‘ اس سے کہا صاف بتا دیتے کہ کہیں اور کام کر رہا ہوں کل آ جائوں گا۔ کچھ سوچ کر کہنے لگا بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر اب ’’رواج‘‘ یہی چل نکلا ہے!
مومن کی شناخت اس کی عبادت نہیں‘ اس کے معاملات ہیں! ہم پاکستانی معاملات کے ضمن میں بدنام ہیں۔ یہ بدنامی بلا وجہ نہیں ! دو برائیاں اس قدر عام ہیں کہ سوچیے تو وحشت ہوتی ہے۔ جھوٹ اور وعدہ خلافی! باقی جتنی برائیاں ہیں‘ انہی دوسے نکل رہی ہیں ۔ خراب شے کو صحیح ثابت کر کے بیچنے کے لیے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ رشتہ طے کرتے وقت ایک طرف لڑکی والے دوسری طرف لڑکے والے‘ بہت سی ایسی حقیقتوں کو چھپاتے ہیں جو کبھی چھپ ہی نہیں سکتیں اور ظاہر ہو کر رہتی ہیں! اس وقت دونوں فریق یا تو ڈھیٹ بن جاتے ہیں یا معافی مانگنے اور پائوں پکڑنے پرآ جاتے ہیں۔ مکان کرایہ پر چڑھاتے وقت مالک مکان جھوٹ بولتا ہے، کرایہ دار بھی کم نہیں! صرف میاں بیوی کے بجائے تین تین خاندان آ بستے ہیں۔ مکان کا ستیا ناس ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف مالک مکان نے ایڈوانس لیتے وقت جو جو چیزیں ٹھیک کرانے کا وعدہ کیا تھا‘ ان میں سے ایک بھی ٹھیک نہیں کراتا!
سارا نظام سارا کارخانہ ‘ سارا سلسلہ‘ سارا سیٹ اپ ‘ جھوٹ پر چل رہا ہے۔ ایسے میں سچ بولنے والے حکمران کہاں سے آئیں گے!!

Sunday, May 28, 2017

جی ڈی پی کا کیپسول


نہ جانے حسنِ اتفاق تھا کہ سوئِ اتفاق‘ اس سال بھی بجٹ آیا تو میں گائوں میں 
تھا۔ عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا تھا کہ چاچا گاما ملا۔ اب وہ ہے تو میری ہی عمر کا مگر سارا گائوں اسے چاچا گاما کہتا ہے تو میں اور میرے ہم عمر بھی یہی کہتے ہیں۔ چھوٹتے ہی کہنے لگا‘ ٹی وی پر بجٹ پڑھا جا رہا ہے اور تم یہاں گائوںمیں نمازیں پڑھتے پھر رہے ہو۔ کیا تم نے ٹی وی چینلوں پر بجٹ کی تعریفیں نہیں کرنا تھیں؟ چاچے گامے کی یہ پرانی خصلت ہے۔ بات بات پر طنز‘ بات بات پر چوٹ۔ اب مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر اسے کیا بتاتا کہ بجٹ کی تعریفیں کرنے والے کون ہیں۔ اگر اسے بتاتا کہ تعریفیں کرنے والے اپنے خریدے ہوئے ملبوس نہیں پہنتے۔ خلعتِ شاہی زیب تن کرتے ہیں اور بیرونی دوروں پر ہم رکابی کا شرف حاصل کرتے ہیں تو اس نے طنز کا کوئی نیاتیز چھوڑ دینا تھا۔ کہنے لگا‘ ساری باتیں یہاں نہیں ہو سکتیں‘ صبح ناشتہ ہمارے گھر آ کر کرو تمہاری چاچی بھی تمہیں یاد کر رہی تھی۔
چاچے گامے اور چاچی کے ساتھ ناشتہ کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا مگر ان کا ایک عدد بھتیجا جو ان کے ساتھ رہتا ہے‘ قطعاً پسند نہیں۔ ایسی ایسی باتیں کرتا ہے ‘گویا گامے کا نہیں افلاطون کا بھتیجا ہے۔ پچھلے سال بجٹ پر اس نے اتنی بحث کی اور میری باتوں پر ایسے کمنٹ کئے کہ میں لاجواب ہونے کے ساتھ شرمندہ بھی ہوا۔تاہم چاچے گامے کی دعوت قبول کر لی اس لیے کہ چاچی سے تو ملنا ہی تھا۔
صبح پہنچا تو چاچی نے پراٹھے پکا رکھے تھے۔ ساتھ میٹھی لسی اور مکھن! میں نے تعریف کی تو چاچے کا بھتیجا فوراً بولا ’’ہمارے ہاں ٹوسٹر تو ہے نہیں کہ آپ کے لیے پتلے اور سمارٹ ٹوسٹ میں اس سینکتے۔ پھر آپ چھری کے ساتھ ان پر مکھن لگاتے‘ بالکل اسی طرح جس طرح آپ صحافی حضرات مکھن لگانے کے ماہر ہیں اور پھر ہمارے گھر میں کافی بھی نہیں۔جس کی آپ صبح صبح چسکیاں لیتے ہیں‘‘
طنز کے ان تیروں کا جواب دینا ضرور ی نہ سمجھ کر میں نے چاچی کی صحت کا حال پوچھا۔ اب بھتیجا پھر بولا۔’’چاچی کی صحت کا تو آپ پوچھ رہے ہیں مگر کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارے گائوں کی ڈسپنسری کو منظور ہوئے دس سال ہونے کو ہیں ۔زمین بھی عطیہ کی جا چکی مگر دو یا تین ملین روپے تخت لاہور سے نہیں مل رہے کہ اس کی عمارت ہی بن جاتی! چاچی کو ہر بار ڈاکٹر کے پاس سوزوکی پک اپ میں بیٹھ کر ’دور‘ قصبے میں جانا پڑتا ہے۔ واپس آتے آتے نڈھال ہو جاتی ہے۔ سڑک ٹوٹی ہوئی ہے۔ ہچکولے وہ لگتے ہیں کہ انجر پنجر ہل جاتا ہے‘‘
چاچا کہنے لگا’’بجٹ کی سنائو‘ ہم غریبوں کے لیے بجٹ میں کیا آیا ہے؟
میں سوچ میں پڑ گیا کہ بجٹ میں غریبوں کے لیے اگر کچھ ہے تو ڈھونڈنا پڑے گا۔ اتنے میں بھتیجا بول اٹھا۔
’’میں بتاتا ہوں ‘غریبوں کے لیے بجٹ میں کیا آیا ہے؟ ہم غریبوں کے لیے جی ڈی پی آئی ہے اور اس کی شرح نمو آئی ہے۔ ہمارے لیے بجٹ کے مجموعی حجم میں اور بیرونی اور اندرونی قرضوں میں اضافہ آیا ہے۔ اصل بجٹ تو وزیر اعظم اور صدر مملکت کے لیے ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے اور صدر صاحب کی تنخواہ میں ساٹھ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ پونے تین کروڑ روپے ایوان صدر کے آپریشنل اخراجات کے لیے ہیں اب پتہ نہیں یہ آپریشنل اخراجات کیاہیں؟ تحائف اور خیرات کی مدد میں پندرہ لاکھ روپے! سبحان اللہ! صدر صاحب خیرات اپنی جیب سے نہیں‘عوام کے ٹیکسوں سے دیں گے! ڈرائیوروں اور ملازمین کے لیے چار کروڑ کے لگ بھگ۔ گارڈن اور مالیوں کے لیے سوا چار کروڑ!! وزیر اعظم آفس کے لیے 91کروڑ 67لاکھ روپے! صدر صاحب کے دوروں پر ایک کروڑ32لاکھ روپے صرف ہوں گے۔ یہ ہیں بجٹ سے فائدہ اٹھانے والے حضرات! رہے عوام تو ان کے لیے وعدے ہی وعدے ہیں 2018ء کے بعد لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔2030ء تک یہ ہو جائے گا۔2050ء تک وہ ہو جائے گا!
میںاس بھتیجے سے جلدازجلد جان چھڑانا چاہتا تھا سو لسی کا دوسرا گلاس پیتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا۔!
گائوں کی گلیاں کچی تھیں لوڈشیڈنگ دس دس بارہ بارہ گھنٹے کی تھی۔ سکول میں بچے بیٹھے کے لیے سیمنٹ اور گندم کے خالی بیگ گھر سے لاتے تھے‘ پینے کا صاف ناپید تھا! ڈسپنسری کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ تھا اصل پاکستان! اس اصل پاکستان میں وزیر اعظم کا کبھی گزر نہ ہوا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے تو کبھی بھول کر بھی یہاںکا رُخ نہ کیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر تک کو یہاں آنے کی توفیق کبھی نہ ہوئی۔
نہیں! یہ اصل پاکستان نہیں! اصل پاکستان تو وہ خاص بیلٹ ‘خاص پٹی ہے جو پانچ سات اضلاع پر مشتمل ہے۔ جو فیصل آباد سے شروع ہوتی ہے۔ لاہور اور گوجرانوالہ سے ہوتی ہوئی ‘شیخو پورہ کواپنے اندر سمیٹتی ‘نارروال اور سیالکوٹ جا کر ختم ہو جاتی ہے! تمام کلیدی وزارتیں کچن کابینہ کے تمام عہدے اسی مخصوص پٹی کے پاس ہیں۔ صحت کی وزارت پانی اور بجلی کی وزارت‘ ریلوے کی وزارت‘ منصوبہ بندی کی وزارت‘ خزانے کی وزارت‘ تجارت کی وزارت! دفاع کی وزارت! خارجہ امور کی وزارت! اہم ترین وزارتوں میں سے 
صرف داخلہ کی وزارت ہے جو اس مخصوص پٹی سے باہر ہے اور وہ بھی کیا باہر ہے!!
کاش ! الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر جی ڈی پی اور فی کس شرح آمدنی کی شیخیاں بگھارنے والے جعلی اور بنائوٹی دانشور کبھی اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی سے باہر آ کر جی ڈی پی اور فی کس آمدنی کا سراغ لگاتے! سوزوکیوں سے لٹکتے اور بسوں کی 
چھتوں پر بیٹھے پاکستانیوں کو دیکھتے! سرکاری ہسپتالوں کے وحشت زدہ ڈرائونے برآمدوں 
میں ذلیل ہونے والی خلقِ خدا کو دیکھتے ان لاکھوں سکولوں کو دیکھتے جن کی چھتیں ہیں نہ دیواریں‘ جن میں کرسیاں ہیں نہ میز نہ پینے کا صاف پانی!
بجٹ ! بجٹ! جی ڈی پی ! جی ڈی پی!کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے رکھی گئی ہے! وزارت خزانہ کے بابو یا الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے خوش لباس معیشت دان کبھی اُس پاکستانی کا بجٹ بھی بناتے جس کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ پندرہ ہزار روپے اور بجلی پانی اور گیس کے بل‘ تین وقت کا کھانا‘ ڈاکٹروں کی فیسیں‘ دوائوں کی قیمت‘ عید پر بچوں کے نئے کپڑے‘ سکولوں کے اخراجات‘ شادیوں پر اٹھنے والے مصارف! اور بہت کچھ اور! لاکھوں گھرانے سال میں دو یا تین دفعہ گوشت خرید سکتے ہیں! اس کالم نگار کو ٹیلی ویژن پر سنا جانے والا‘ ایک عورت کا وہ انٹرویو کبھی نہیں بھولا‘ جس کا بیٹا نائب قاصد تھا اور جس کے گھر میںصرف عید پر بڑا گوشت پکتا تھا!
ٹیلی ویژن پر ایک شخص جس کی بصارت کا علم نہیں اور جس کی بصیرت صفرتھی کہہ رہا تھا کہ شاپنگ مال خریداروں سے چھلک رہے ہیں! اس سے کوئی پوچھے کہ ان چھلکتے شاپنگ مالوں میں پچیس کروڑ آبادی کا کتنا حصہ شامل ہے؟ خدا کے بندو!پاکستان صرف چار شہروں اور ان چار شہروں کے شاپنگ مالوں کا نام نہیں! پاکستان ان شہروں قصبوں‘ بستیوں اور قریوں کا نام ہے جن کے نام بھی ہمارے حکمرانوں نے کبھی نہ سنے ہوں گے! انہیں کیا معلوم کہ قلعہ سیف اللہ اور جھل مگسی کہاں واقع ہے! لورالائی اور مستونگ کے عوام کس حال میں ہیں؟ کوہستان سے لے کر کرک تک خلقت کس طرح وقت پورا کر رہی ہے۔ دادو‘ گھوٹکی ‘ سانگھڑ‘ تھرپارکر اور ٹنڈو اللہ یار بھی اسی پاکستان میں ہیں۔ اٹک ‘راجن پور ‘ لیّہ ‘میانوالی اور ڈیرہ غازی خان بھی اسی پنجاب میں واقع ہیں جس پنجاب کے بجٹ کا کثیر حصہ ایک ہی شہر پر صرف ہو رہا ہے!۔
یہی ہو رہا۔ یہی ہوتا رہے گا! بجٹ ہر سال پرانی فائلوں سے نئی فائلوں میں منتقل ہو کر نئے سال کا بجٹ کہلاتا رہے گا۔ وعدے کئے جاتے رہیں گے۔ ڈیسک بجائے جاتے رہیں گے ۔وزیر خزانہ کو مبارکیں ملتی رہیں گی۔ بجٹ کی بھاری بھرکم کتابیں تقسیم ہوتی رہیں گی جنہیں حسب معمول کوئی نہیں پڑھے گا!قریوں میں دُھول اڑتی رہے گی۔ کروڑوں بچے سکولوں سے دور رہیں گے ۔گائوں کے گائوں قصبوں کے قصبے لوڈشیڈنگ میں پستے رہیں گے اور بجلی کے بل ادا کرتے رہیں گے۔ بے روزگار نوجوان ڈاکو بنتے رہیں گے۔ بیوائیں گھروں میں برتن مانجھتی رہیں گی! قلاش بے سہارا لوگ خودکشیاں کرتے رہیں گے۔ لندن میں فلیٹ‘ نیویارک میں اپارٹمنٹ اور دبئی میں محلات خریدے جاتے رہیں گے۔ ہر سال ایوان صدر اور وزیر اعظم آفس کا بجٹ بڑھتا رہے گا۔اسمبلیوں کے ارکان کی مراعات میں کئی گنا اضافہ ہوتا رہے گا۔ عوام کو جی ڈی پی کا کیپسول کھلایا جاتا رہے گا۔

Friday, May 26, 2017

ٹوبہ ٹیک سنگھ کا محمد اقبال


محمد اقبال نے جس دن وزارتِ داخلہ کی چھت سے کود کر خود کشی کی، ٹھیک اُسی دن، چند گز دور، وزارت خزانہ میں، کمرے ایئرکنڈیشنڈ تھے اور بابو ان ٹھنڈے کمروں میں، نکٹائیاں لگائے، کوٹ ہینگروں پر لٹکائے، اعداد و شمار کے پکوان تیار کر رہے تھے تا کہ عوام کو لٹا کر، ان کے گلے پر پائوں رکھ کر، یہ پکوان ان کے حلق سے نیچے اتارے جائیں۔ اعدادوشمار کے ان پکوانوں میں کوئی پکوان ایسا نہ تھا جو 35سال حکومت پاکستان کی چاکری میں گزارنے والے محمد اقبال کو دوکمروں کی ایک جھونپڑی دے سکتا۔
جس دن مملکت خداداد پاکستان کی تیس فٹ بلند چھت سے کودنے والے محمد اقبال نے حکومت پاکستان کی پیش کردہ شرط منظور کی، اس سے چند دن پہلے سعودی عرب اور یو اے ای کی برادر حکومتوں نے ٹرمپ کی بیوی کی این جی او کو دس کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ اگر ان دس کروڑ ڈالروں میں سے چند ہزار ڈالر محمد اقبال کو مل جاتے تو وہ خود کشی نہ کرتا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کا محمد اقبال ایک سال بعد ریٹائر ہونے والا تھا۔ اس کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی۔ صرف ایک سرکاری کوارٹر تھا جو ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت نے واپس لے لینا تھا۔ اُس دن جب چند گز دور وزارتِ خزانہ میں نکٹائیاں نصب کیے بابو اعدادوشمار کے ولایتی پکوان پکا رہے تھے، ہاں اسی دن محمد اقبال نے اپنے بیٹے کو ہمراہ لیا اور اپنے ادارے کے ایڈمنسٹریشن افسر کے سامنے پیش ہوا۔ اُس نے افسر کی منت کی کہ اس کے بیٹے کو نوکری دی جائے تا کہ سرکاری کوارٹر ریٹائرمنٹ کے بعد اُس کے کنبے کے پاس ہی رہے۔ ایسا نہ ہوا تو ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دربدر ہو جائے گا۔ افسر نے اُسے آسان طریقہ بتایا کہ باپ کی جگہ بیٹے کی ملازمت کے لیے ضروری ہے کہ باپ ڈیوٹی کے دوران مر جائے۔ محمد اقبال نے بیٹے کو وہیں چھوڑا اور خود چھت کی طرف روانہ ہو گیا۔
ایڈمنسٹریشن افسر کے کمرے اور چھت کے درمیان فاصلہ تو چند منٹ کا تھا مگر یہ فاصلہ چند منٹ کا نہ تھا یہ فاصلہ ستر سال کا تھا! یہ فاصلہ طے کرنے کے دوران محمد اقبال نے نہ جانے کتنے مہینوں کتنے ہفتوں اور کتنے سالوں کی مسافت طے کی۔ چھت کی طرف جاتے وقت اس نے یہ ضرور سوچا ہو گا کہ اگر قیام پاکستان سے پہلے وہ ایڈمنسٹریشن افسر کے پاس جاتا تو وہ ایڈمنسٹریشن افسر یقینا ہندو ہوتا اور اسے بالکل یہی الفاظ کہتا کہ باپ مرے  تبھی بیٹے کو ملازمت مل سکتی ہے۔ ہندو ایڈمنسٹریشن افسر سے جان چھڑانے کے لیے تحریکِ پاکستان چلی، لاکھوں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے۔ ستر ہزار سے زیادہ مسلمان عورتیں سکھوں کے قبضے میں رہ گئیں۔ پاکستان بن گیا۔ اسلامی مملکت قیام پذیر ہو گئی۔ ہندو ایڈمنسٹریشن افسر کی جگہ مسلمان ایڈمنسٹریشن افسر نے لے لی مگر افسوس! محمد اقبال کو وہی جواب ملا جو اُس وقت ملنا تھا!
کمرے سے چھت کی طرف جاتے ہوئے چند منٹ کی مسافت طے کرنے میں محمد اقبال کو زمانے لگ گئے۔ اس دوران اُس کی آنکھوں کے سامنے کئی فلمیں چلیں۔ ایک فلم میں وزارئِ اعلیٰ کے محلات تھے۔ جس محل میں بیگم رہ رہی ہو، وہی سرکاری قیام گاہ سمجھی جائے گی۔ جتنی بیگمات، اتنے وزیر اعلیٰ ہائوس، ایک اور فلم میں رائے ونڈ محلات پر تعینات ہزاروں پولیس افسر دکھائی دیئے جو سرکاری خزانے سے تنخواہ پاتے تھے۔ 36 کروڑ اضافی سکیورٹی پر لگے۔ کروڑوں روپے چار دیواری پر صرف ہوئے۔ اس میں سے اگر ہر سال بیس جھونپڑیاں بھی نچلی سطح کے سرکاری ملازموں کو بنا دی جاتیں تو شاید محمد اقبال کی باری آ جاتی!
ایک اور فلم میں ہر شہر میں بنائے جانے والے بلاول ہائوس نظر آ رہے تھے۔ محمد اقبال سیڑھیاں چڑھتا گیا اور بلاول ہائوس گنتا گیا اور دیکھتا گیا۔ ایک اور فلم میں سابق صدر جہاز سے اُس وقت اترتے دکھائی دے رہے تھے جب جہاز اور گاڑی کے درمیان سرخ قالین بچھ چکا تھا۔ 
اسی چند منٹ کی مسافت کے دوران محمد اقبال نے دیکھا کہ پاکستان ہائوسنگ فائونڈیشن اور پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی جیسے متعدد ادارے کام کر رہے تھے۔ ان دفتروں میں لاکھوں کروڑوں روپوں کا فرنیچر اور ڈیکوریشن تھا! افسروں کو ڈیپوٹیشن الائونس مل رہے تھے۔ مگر آہ! ان میں سے کوئی انسٹھ سالہ محمد اقبال کو یہ یقین دہانی نہ کرا سکا کہ اسے دو کمروں کا جھونپڑا الاٹ کر دیا جائے گا اور یہ کہ اسے مرنے کی ضرورت نہیں۔
چھت پر پہنچتے پہنچتے اسے ایک فلم میں وفاقی وزارت ہائوسنگ بھی نظر آئی جس کے وزیر با تدبیر ہفتے میں ایک بار دفتر ضرور تشریف لاتے ہیں۔ اس وزارت پر، جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کو دی گئی ہے، کروڑوں روپے ہر ماہ خرچ ہوتے ہیں۔ اس خرچ میں وہ ٹیکس بھی شامل ہیں جو محمد اقبال ماچس سے لے کر موبائل فون کارڈ تک ہر شے خریدتے وقت حکومت کو ادا کرتا رہا ہے۔ مگر آہ! یہ طویل و عریض وزارت بھی اس کے لیے کچھ نہ کر سکی۔
محمد اقبال اگر کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا یا کفار کے کسی اور ملک میں ہوتا تو اسے کونسل کا خیراتی گھر مل جاتا جو وہاں کی حکومتیں بے آسرا، بے سہارا خاندانوں کو دیتی ہیں اور جو بے شمار ایشیائی اور افریقی مسلمانوں کو ملے ہوئے ہیں۔ کچھ مسلمان تو کفار کے عطا کردہ ان گھروں میں اپنے کنبوں کو محفوظ رکھ کر خود ماشاء اللہ تبلیغِ دین کے لیے نکل جاتے ہیں۔ محمد اقبال اگر ناروے ڈنمارک سویڈن یا فن لینڈ میں ہوتا تو اسے نہ صرف سر چھپانے کی جگہ بلکہ نان و نفقہ بھی ریاست کی طرف سے مہیا کیا جاتا مگر یہ سب کچھ ایسی ریاست میں ہوتا ہے۔ جہاں ملکہ یا صدر یا وزیر اعظم سبزی اور کریانہ کی دکانوں سے سودا سلف خود خریدتے ہیں۔ محمد اقبال کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ جس ملک میں رہ رہا تھا وہاں کا بادشاہ سات پردوں کے پیچھے محلات میں رہتا تھا اور کسی بازار کسی مارکیٹ کسی گلی کوچے میں بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ چھت پر چڑھتے وقت محمد اقبال اپنی زندگی کے اس حتمی نتیجے پر پہنچا کہ جن ملکوں میں حکومتوں کے سربراہ عام آدمی کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں پر عام آدمی کو وی آئی پی سمجھا جاتا ہے اور جن ملکوں میں سربراہ وی آئی پی زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں عام آدمی کو عام آدمی سمجھا جاتا ہے اور عام آدمی کو کوئی پوچھتا نہیں۔
ایڈمنسٹریشن آفس سے چھت تک کی مختصر مگر انتہائی طویل مسافت طے کرتے وقت محمد اقبال پر اور بھی بہت سی حقیقتیں منکشف ہوئیں۔ اسے احساس ہوا کہ ہر سال حج اور عمرے کرنے والے اور باقاعدگی سے چندے دینے والے حاجی صاحبان اور سیٹھ صاحبان اور تاجر اور ٹریڈر اور صنعت کار اگر عمروں اور چندوں پر اٹھنے والے اخراجات کا دس فیصد، ہاں! صرف دس فیصد ہی محمد اقبال جیسے بے گھر افراد کے لیے رہائش گاہیں تعمیر کرنے پر صرف کرتے تو محمد اقبال چھت پر چڑھنے سے تو بچ ہی جاتا، حاجی صاحبان اور سیٹھ صاحبان اور تاجر اور ٹریڈر اور صنعت کار کل پروردگارِ عالم کے سامنے بھی سرخرو ہوتے اس لیے کہ کل جب عدالت لگے گی اور میزان رکھی جائے گی تو معیار وہ نہیں ہو گا جو یہاں سمجھا جا رہا ہے! وہاں یہ دیکھا جائے گا کہ مُردوں کے اوپر چادریں چڑھانے والے زندہ لوگوں کے لیے کیا کر رہے تھے؟
محمد اقبال واحد ایٹمی مسلمان ملک کی حکومت کی چھت سے نیچے کود کر جان دے گیا۔ اس نے ایڈمنسٹریشن افسر کا مسئلہ حل کر دیا۔ اب ایڈمنسٹریشن افسر کے لیے کوئی راہ نہیں بچی۔ امید ہے اس نے مر جانے والے کے بچے کو نوکری دے دی ہو گی۔ رہا یہ مسئلہ کہ محمد اقبال حرام موت مرا یا حلال، تو یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ اس کی موت حرام تھی یا حلال لیکن یہ طے ہے کہ اس نے مر کر اپنے خاندان کو دربدر ہونے سے بچا لیا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے محمد اقبال نے مر کر اپنے خاندان کو چھت تو لے دی مگر ساتھ ہی وہ کچھ اور افراد کے لیے مسئلہ چھوڑ گیا۔ اس نے حشر کے دن حکومت کے سربراہ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے کہ اگر امیرالمومنین فرات کے کنارے مرنے والے کتے کی موت کے ذمہ دار تھے تو محمد اقبال تو کم از کم انسان تھا۔ اگر امیرالمومنین نے درست ارشاد فرمایا تھا تو محمد اقبال جس وفاقی حکومت کی چھت سے کودا ہے۔ اس وفاقی حکومت کے سربراہ کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ اگر کسی نے محمد اقبال نے کمرے سے نکل کر چھت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہوتا تو فوراً جان جاتا کہ محمد اقبال کے ارادے کچھ اور ہی ہیں۔ وہ چھت سے کود کر مر جانے کے بعد خاموش نہیں بیٹھے گا۔ اس نے تو حشر کے دن حشر برپا کر دینا ہے۔ اس نے میزان کے پاس کھڑے ہو کر دہائی دینی ہے۔
جس نے اُس دہائی کا جواب دینا ہے اسے چاہیے کہ جواب سوچ لے۔

Wednesday, May 24, 2017

ہلاکو خان بطور مہمان خصوصی


مبارک ہو! مبارک ہو! عالم اسلام کو لاکھ لاکھ مبارک ہو کہ اسلامی ملکوں کے 
سربراہی اجلاس میں ہلاکو خان مہمان خصوصی تھا! دجلہ کا پانی جس نے سرخ کیا۔ عراق کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جس نے کارپٹ بمباری کی! عراق کو حصوں بخروں میں بانٹ کر مستقل خانہ جنگی کی دہکتی آگ میں دھکیلا اور اسرائیل کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے والے صدام حسین کے ساتھ وہی سلوک کیا جو سینکڑوں سال پہلے عباسی خلیفہ کے ساتھ چنگیز خان کے پوتے نے کیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ عباسی خلیفہ نام کا خلیفہ تھا جبکہ صدام حسین نے عراق کو اسرائیل کے مقابلے میں مجتمع کر کے رکھا ہوا تھا! اسی امریکہ کو‘ جو بغداد کے لیے ایک اور ہلاکو خان ثابت ہوا‘ عالم اسلام کی کانفرنس نے مہمان خصوصی کا اعزاز بخشا!
مبارک ہو! مبارک ہو! اے مسلمانان عالم تمہیں بہت بہت مبارک ہو! جس امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ کوئی شاہراہ چھوڑی نہ پل‘ جس کے سپاہیوں نے گھروں میں گھس گھس کر افغانوں کی بے حرمتی کی‘ جس نے افغانوں کی دو نسلوں کو در بدر کیا‘ اس کا لیکچر اور وہ بھی دہشت گردی کے خلاف‘ اسی افغانستان کے صدر نے ریاض میں سر جھکا کر‘ آنکھیں نیچی کر کے‘ تالیاں بجا کر‘ ہونٹوں پر مسکراہٹ کی لپ سٹک لگا کر اور رخساروں پر فرماں برداری کا غازہ مل کر سنا!
دہقان و کشت و جُو و خیاباں فروختند
قومی فروختند و چہ ارزاں فروختند
قوم بیچی مگر کتنی سستی! کتنی ارزاں! کوڑیوں کے مول!
امریکی تاریخ میں سب سے بڑا تجارتی معاہدہ اسی کانفرنس کے دوران ہوا۔ ایک سو دس ارب ڈالر کا آرڈر امریکہ کو ملا۔ اس کی فیکٹریوں کی لاٹری نکل آئی ہے۔ لاکھوں امریکیوں کو روزگار ملے گا۔ اسلحہ تیار ہوگا۔ پھر یہ اسلحہ سعودی عرب کو فروخت کیا جائے گا۔ مصر کے صدر نے ٹرمپ کو ’’منفرد شخصیت‘‘ قرار دیا 
اور کہا کہ وہ ’’ناممکن کو ممکن بنا دینے والا شخص ہے۔‘‘ ٹرمپ نے اس کا برجستہ جواب دیا کہ ہاں میں متفق ہوں! مسلمان ملکوں کے سربراہان نے ٹرمپ سے ملاقات کر کے اطمینان و مسرت محسوس کی! اس سے برصغیر پاک و ہند کے وہ ٹوڈی وڈیرے اور گدی نشین یاد آتے ہیں جو عید مبارک کہنے ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر جاتے تھے اور اندر سے عید مبارک کا پیغام وصول کرنے پر ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے۔ کیا عجب ٹرمپ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے بعد یہ مسلمان حکمران بھی ایک دوسرے سے گلے ملے ہوں اور ایک دوسرے کو اس شرفیابی پر مبارک دی ہو!
مبارک ہو! پاکستانی وزیراعظم نے اس کانفرنس میں شامل ہو کر ملک کی عزت و وقار میں بے پایاں اضافہ کیا۔ ’’عالمی مرکز برائے انسداد انتہا پسندی‘‘ (گلوبل سنٹر فار کمبیٹنگ ایکسٹریمزم) کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ تقریر کا موقع نہ دیا گیا۔ افتتاحی تقریر میں میزبان بادشاہ نے پاکستان کا نام تک نہ لیا۔ ٹرمپ نے بھارت کا ذکر ان ملکوں کے ساتھ کیا جو دہشت گردی کا شکار رہے۔ پاکستان‘ جس نے دہشت گردی کے سب سے زیادہ وار سہے‘ ہزاروں جانیں قربان کیں‘ اس کا ذکر تک نہ کیا گیا۔ ٹرمپ نے کہا :
The nations of Europe have also endured unspeakable horror. So too have the nations of Africa and even South America, India, Russia, China and Australia have been victims.
’’پوری اقوام بھی ناقابل بیان خوف سے گزری ہیں۔ افریقی قوم بھی یہاں تک کہ جنوبی امریکہ بھی! بھارت‘ روس‘ چین اور آسٹریلیا بھی (دہشت گردی کا) شکار رہے!‘‘
اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ منتظمین سے اصرار کر کے پانچ منٹ کا وقت لیتے اور سٹیج پر جا کر وضاحت کرتے کہ پاکستان تو دہشت گردی کے ساتھ لڑائی میں فرنٹ پر رہا۔ سب سے زیادہ قربانیاں دیں! یہ نہ کر سکے تو پریس سے رابطہ کرتے۔ میزبان ملک کو اپنا ’’عدم اطمینان‘‘ باور کراتے! کیا ہو جاتا؟ کیا انہیں وہاں سے نکال دیا جاتا؟ ہرگز نہیں!
 تو کیا وزیراعظم کو پہلے سے معلوم نہ تھا کہ وہ خطاب نہ کرسکیں گے؟ یا میزبان بادشاہ کی تقریر میں پاکستان کا ذکر تک نہیں؟ اگر کوئی وزیر خارجہ ہوتا تو وہ اپنے وفد کے ساتھ کئی دن پہلے ریاض میں جا کر ڈیرہ لگا لیتا! سفارتی سطح پر سرگرمی دکھاتا۔ اس امر کو یقینی بناتا کہ وزیراعظم کو خطاب کی دعوت دی جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو میزبان حکمران کی افتتاحی تقریر میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر ضرور کیا جائے گا۔ وزیر خارجہ تو وزیراعظم خود ہیں۔ جن دانشوروں نے ہر قیمت پر حکومت وقت کی موافقت کا تہیہ کیا ہوا ہے‘ وہ روا روی میں کہتے ہیں کہ وزیر خارجہ ہوتا تب بھی یہی حال ہوتا! گویا ساری دنیا نے وزراء خارجہ تعینات کر کے بیکار کام کیا ہوا ہے! صرف پاکستان ہی یہ پوسٹ بظاہر ختم کر کے بچت کر رہا ہے! سبحان اللہ!!
وزیراعظم نے اس کانفرنس میں بنفس نفیس شرکت کر 
کے پاکستان کو کھلم کھلا اس اتحاد کے ساتھ نتھی کرلیا ہے جو ایران کے خلاف ہے۔ 
اگر ترکی اور مراکش کے سربراہ شریک نہ ہوتے ہوئے اپنے نمائندے بھیج سکتے تھے تو پاکستان بھی ایسا کرسکتا تھا۔ سوڈان اس لیے شریک نہ ہوا کہ ریاض میں واقع امریکی سفارت خانے نے سوڈان کی شرکت پر اعتراض کیا تھا جس کے بعد سوڈان نے شامل ہونے سے انکار کردیا۔
ترکی کی طرح پاکستان کی پوزیشن ایران کے حوالے سے وہ نہیں جو انڈونیشیا یا بنگلہ دیش یا مصر یا برونائی کی ہے! پاکستان نے تنی ہوئی رسی پر چلنا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔ سعودی عرب نے اگر ایران کے خلاف مسلمان ملکوں کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے تو اس کی اپنی وجوہ ہیں۔ ان وجوہ کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہوتا۔ ایران مغرب کی طرف توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے۔ ایرانی انقلاب کی 36 ویں سالگرہ پر ’’قدوس فورس‘‘ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے کہا کہ ’’ہم پورے خطے میں اسلامی انقلاب برآمد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بحرین اور عراق سے لے کر شام‘ یمن اور شمالی افریقہ تک!‘‘
ایران کے اس رویے اور ان عزائم کے پیش نظر عرب ملکوں کا ایران کے خلاف اتحاد فطری اور قدرتی ردعمل ہے مگر پاکستان کی عافیت اس اتحاد سے دور رہنے میں ہے۔ یہ عربوں اور ایرانیوں کی باہمی مخاصمت ہے اور یہ آج سے نہیں صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ شاہ عباس صفوی نے ایران کو مسلکی حوالے سے تبدیل کردیا اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف یورپی طاقتوں سے زبردست سفارت کاری کی! اس پس منظر کے باوجود ترکی نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانفرنس میں حکومت کا سربراہ نہیں‘ بلکہ وزیر خارجہ بھیجا۔
ہم خطے میں پہلے ہی ایک ناقابل رشک صورت حال سے دوچار ہیں۔ بھارت کے ساتھ روز اول سے دشمنی ہے۔ افغانستان کے بارڈر سے ہم پر حملے ہورہے ہیں۔ اگر ایران کے معاملے میں ہم عربوں کے ساتھ ہو گئے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ایران کا بارڈر پاکستان کے ساتھ مشترک ہے‘ عربوں کے ساتھ نہیں!
غیر جانب دار رہنا ناممکن نہیں!
کینیڈا امریکہ کا پڑوسی ہونے کے باوجود عالمی پیش منظر پر ہمیشہ غیر جانب دار رہا۔ سوئٹزرلینڈ یورپ کے درمیان میں ہے‘ اس کے باوجود غیر جانب دار رہا۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ یہ حقیقت پاکستان کے چہرے پر لکھی ہوئی صاف پڑھی جا سکتی ہے کہ موجودہ قیادت کو خارجہ امور کا ادراک ہے نہ حساسیت کا احساس! ان کی ترجیحات اور ہیں! ابھی جندال اور کلبھوشن کا دھچکا پرانا نہیں ہوا تھا کہ ریاض کانفرنس نے ایک اور ناکامی کا پَر ہماری ٹوپی پر لگا دیا ہے!
کے باوجود ترکی نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانفرنس میں حکومت کا سربراہ نہیں‘ بلکہ وزیر خارجہ بھیجا۔
ہم خطے میں پہلے ہی ایک ناقابل رشک صورت حال سے دوچار ہیں۔ بھارت کے ساتھ روز اول سے دشمنی ہے۔ افغانستان کے بارڈر سے ہم پر حملے ہورہے ہیں۔ اگر ایران کے معاملے میں ہم عربوں کے ساتھ ہو گئے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ایران کا بارڈر پاکستان کے ساتھ مشترک ہے‘ عربوں کے ساتھ نہیں!
غیر جانب دار رہنا ناممکن نہیں!
کینیڈا امریکہ کا پڑوسی ہونے کے باوجود عالمی پیش منظر پر ہمیشہ غیر جانب دار رہا۔ سوئٹزرلینڈ یورپ کے درمیان میں ہے‘ اس کے باوجود غیر جانب دار رہا۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ یہ حقیقت پاکستان کے چہرے پر لکھی ہوئی صاف پڑھی جا سکتی ہے کہ موجودہ قیادت کو خارجہ امور کا ادراک ہے نہ حساسیت کا احساس! ان کی ترجیحات اور ہیں! ابھی جندال اور کلبھوشن کا دھچکا پرانا نہیں ہوا تھا کہ ریاض کانفرنس نے ایک اور ناکامی کا پَر ہماری ٹوپی پر لگا دیا ہے!

Monday, May 22, 2017

کیا یہ تحفہ ہمارے رویّے بھی تبدیل کرے گا؟


لڑکا سفر پر نکلا تو جنگل میں ایک بابا جی ملے۔ انہوں نے تین تحفے دئیے۔ پہلا تحفہ ‘ لکڑی کی ایک چھوٹی سی ماچس کی ڈبیا جتنی میزتھی جو جیب میں رکھی جا سکتی تھی۔ دوسرا تحفہ ایک ڈنڈا تھا۔ تیسرا کپڑے کا ایک تھیلا تھا۔ بابا جی نے بتایا کہ جب بھی بھوک لگے‘ جیب سے میز نکالو اور زمین پر رکھو۔ یہ بڑی ہو جائے گی۔ پھر جو کھانے کو دل کر رہا ہو‘ اسے بتائو‘ فوراً میز پر وہی ڈش ظاہر ہو جائے گی۔ کھانے کے بعد میز کو اٹھانے لگو گے تو پہلے کی طرح چھوٹی ہو جائے گی۔ ڈنڈا اس لیے ہے کہ کوئی تمہیں تنگ کرے یا دشمنی پر اتر آئے تو ڈنڈے کو حکم دینا‘ یہ اس شخص پر برسنا شروع ہو جائے گا۔ جدھر وہ بھاگے گا‘ ڈنڈا بھی اُدھر کا ہی رخ کرے گا اور مارتا رہے گا جب تک تم منع نہیں کرو گے۔ تھیلے میں دو لڈو ہیں۔ ایک وقت میں ایک لڈو نکالنا ہے نکالتے ہی لڈو پھر دو ہو جائیں گے۔ اس طرح ایک ایک کر کے تھیلے سے سینکڑوں لڈو نکالے جا سکیں گے۔
معلوم نہیں‘ خوش قسمت لڑکا ان طلسمی تحفوں سے کتنا لطف اندوز ہوا مگر ایک جادو کا تحفہ ہمیں بھی ہاتھ آگیا ہے۔ شمال کے پہاڑوں کے اُس پار رہنے والے بابے کی یہ عطائے خاص ہے۔ اب ہمارے سارے دلدّر دور ہو جائیں گے۔ یہ تحفہ ہماری میز ہے۔ ہمارا ڈنڈا بھی ہے اور لڈوئوںوالا تھیلا بھی ہے۔
یہ ایسا طلسم ہے جو ہماری زندگیاں، ہماری معیشت‘ ہمارا سماجی ڈھانچہ‘ ہمارا مستقبل سب کچھ بدل کر رکھ دے گا۔ آج ہی کی خبر ہے کہ کوہستان مری میں درخت کٹ گئے۔ غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں تباہی مچا رہی ہیں۔ جنگلات کے محکمے کی زمین پر ناجائز قبضے ہو رہے ہیں۔ مگر یہ جو تحفہ ہمیں مل رہا ہے‘ اس سے درخت دوبارہ اگ آئیں گے۔ متعلقہ محکموں کی مجرمانہ چشم پوشی کے باوجود غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں زمین میں دھنس جائیں گی یا صفحہ ہستی سے نابود ہو جائیں گی۔ کل قائد اعظم یونیورسٹی میں دو لسانی گروہوں کے درمیان خونی تصادم ہوا ہے۔ یہ جو تحفہ ہمیں مل رہا ہے‘ اس سے ایسے واقعات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ملک میں نسلی‘ لسانی ‘ مسلکی ‘ مذہبی اور سیاسی ہم آہنگی پیدا ہو گی۔ امن و امان مثالی ہو جائے گا!
یہ سب کچھ لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ تین دن پیشتر وفاقی وزراء کی فوج ظفر موج میں سے ایک نے قوم کو خوش خبری دی ہے کہ سی پیک کے مکمل ہونے پر مسئلہ کشمیر بھی حل ہو جائے گا۔
گویا سی پیک راہداری نہ ہوئی‘ طلسمی میز ڈنڈا اور تھیلا ہوا۔ کسی زمانے میں ایسی چیز کو امرت دھارا کہتے تھے۔ آج کی نسل کو امرت دھارا سے واقفیت ہی نہیں! انتہا پسندی کا تعلق صرف مذہبی یا سیاسی نظریات یا اسلحہ کے استعمال سے نہیں! انتہا پسندی ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ ہر معاملے میں انتہا پر پہنچ جانا! سی پیک کے ضمن میں ہمارے رہنمائوں کا‘ بالخصوص حکومتی عمائدین کا جو رویہ ہے اور جس انداز میں وہ یہ سودا بیچ رہے ہیں‘ اسے نرم ترین الفاظ میں بھی انتہا پسندانہ رویہ کہا جا سکتا ہے۔ تاثّر یہ دیا جا رہا ہے کہ سی پیک کھل جا سم سم کی طرح کی کوئی شے ہے۔ بڑھتی ہوئی‘ خوفناک رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی‘ پر بھی سی پیک قابو پائے گا۔ خواندگی کی شرح بھی اوپر چلی جائے گی۔ ٹریفک بھی مہذب ہو جائے گی۔دن رات نیچے گرتا تعلیمی معیار بھی تھم جائے گا۔ برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا اور درآمدات بھی کم ہو جائیں گی۔ سی پیک نہ ہوا‘ حیرتوں کا جہان ہوا!
سودا بیچنے کا یہ انداز اس حقیقت کی نشان دہی کر رہا ہے کہ ہمارے اپنے پلے کچھ نہیں‘ ہم خود کچھ نہیں کر سکتے جو کچھ کرنا ہے چین نے کرنا ہے۔ ریلوے ٹریک کی تعمیر نو بھی شمال سے جنوب تک‘ چین ہی کرے گے۔
پھر وہی بات دہرانا پڑے گی جس کا رونا چند دن پہلے رویا گیا ہے۔ سی پیک کا بیشتر حصہ انفراسٹرکچر پر مشتمل ہے۔ انفراسٹرکچر ترقی کے اجزا میں سے صرف ایک جزو ہے۔ ترقی میں ڈھیر سارے اجزا شامل ہیں۔
قومیں محض انفراسٹرکچر سے ترقی نہیں کرتیں۔ پل‘ ریلوے لائنیں‘ شاہراہیں‘ انڈر پاس‘ یہ ضروری ہیں مگرترقی کا جوہر رویّہ سے ہوتا ہے‘ مائنڈ سیٹ سے ہوتا ہے۔ افرادی قوت کی ترقی سے ہوتا ہے صحت اور تعلیم جیسے سوشل سیکٹروں پر توجہ دینے سے ہوتا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے ہوتا ہے۔
اس وقت ملک میں ایسے لاکھوں خاندان ہیں جن کے ہاں دس دس پندرہ پندرہ بچے پیدا ہو رہے ہیں، کیا یہ خاندان سی پیک کے آنے سے تعلیم یافتہ ہو جائیں گے اور کیا ان کا رویہ صحت مند ہو جائے گا؟ کیا ونی‘ کارو کاری اور اسوارہ جیسی قدیم قبائلی رسمیں سی پیک سے ختم ہو جائیں گی؟ بلوچستان کے سرداری نظام کو لے لیجیے ۔ ہماری تاریخ میں سوائے ڈاکٹر عبدالمالک کے‘ جو کچھ عرصہ ہی وزیر اعلیٰ رہے، بلوچستان کا ہر وزیر اعلیٰ کسی نہ کسی قبیلے کا سردار ہی بنتا رہا ہے۔ ایک سردار وزیر اعلیٰ کا تو یہ قولِ زریں خوب خوب مشہور ہوا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی! کیا سی پیک سے سرداری نظام کا خاتمہ ہو جائے گا؟
آبادی کا صرف آٹھ دس فی صد حصّہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ سی پیک یہ ٹیکس نیٹ کس طرح وسیع کرے گا؟ ہمارے تاجر کسی نظم و ضبط کے قائل نہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں دکانیں چھ بجے شام تک بند ہو جاتی ہیں ۔ہمارے تاجر دن کے ایک بجے دکانیں کھولتے ہیں اور آدھی رات کو بند کرتے ہیں۔ ٹیکس نہیں دیتے۔ ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری رائج الوقت سکوں کا دوسرا نام ہے۔ پورے ملک میں تجاوزات کی لعنت طاعون کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں غالب حصّہ تاجروں کا ہے۔ فٹ پاتھوں پر یہ طبقہ قابض ہے۔ دکان اور سڑک کے درمیانی حصے کو باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں۔ گاہک سے وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ شے بیچتے وقت نقص بتاتے نہیں‘ چھپاتے ہیں! سی پیک ان کا کیا بگاڑ لے گا؟
جہالت اس قدر عروج پر ہے کہ عورتوں کو بیٹی پیدا کرنے کے ’’جرم‘‘ میں مارا پیٹا جاتا ہے۔طلاق دے دی جاتی ہے۔ قتل اور آتش زدگی کے واقعات بھی اس حوالے سے ہوتے رہتے ہیں! اچھے بھلے دستار پوش علّامے اور تھری پیس سوٹ میں ملبوس’’صاحب‘‘ بیٹی کو جائیداد میں سے حصہ دیتے وقت قولنج کے درد میں مبتلا ہو جاتے ہیں! کیا سی پیک ان منافقوں کا علاج کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟
آرمی چیف نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہر کام آرمی کے سپرد کر دینا مسائل کا حل نہیں! رینجرز کی تعیناتی پر غور کیجیے۔ یہ تعیناتی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ہماری پولیس ناکام ہو چکی ہے۔ پولیس ہی کے تو فرائض ہیں جو رینجرز سرانجام دے رہے ہیں!سندھ کے آئی جی مسٹر اے ڈی خواجہ نے تھک ہار کر کہا ہے کہ کام نہیں کرنے دیا جا رہا مجھے یہاں سے ہٹا لیا جائے۔ اس قصّے کے پس منظر سے ہم اچھی طرح آگاہ ہیں۔ پورے ملک میں صرف ایک پولیس افسر ایسا نکلا ہے۔ پنجاب کے آئی جی ریٹائر ہو کر ایڈوائزر لگ رہے ہیں ‘وجہ صاف ظاہر ہے‘ پولیس حکمرانوں کی کنیز بن چکی ہے۔ تھانے بکتے ہیں۔ جن کی گاڑیاں چوری ہوتی ہیںان کے ٹیلی فون نمبر اغوا کنندگان کو تھانوں سے ملتے ہیں ان نمبروں پر فون کر کے گاڑی کے مالک کو بلایا جاتا ہے اور اغوا کرلیا جاتا ہے! کیا سی پیک آنے سے پولیس کا نظام بدل جائے گا؟
ہجوم گردی کا دور دورہ ہے ۔ بے قابو ہجوم آئے دن لوگوں کو کچل رہا ہے ‘مردان کے مشال خان سے لے کر‘ سیالکوٹ کے دو بھائیوں تک بے شمار مثالیں ہیں ۔کراچی میں ہجوم کی طرف سے ڈاکوئوں کو مار دینے کے واقعات عام ہو رہے ہیں ۔قانون چھپ کر پردے کے پیچھے بیٹھا ہے۔ مفرور قاتل بااثر چوہدریوں سرداروں اور ملکوں کے ڈیروں میں محفوظ بیٹھے ہیں۔ قانون کمزور کے گلے پر پائوں رکھ کر دباتا ہے اور طاقت ور کو چھوڑ دیتا ہے۔ کیا اس صورت حال کا علاج سی پیک ہے؟
یہ ساری ماتمی کہانی وفاقی وزیر کے اس بیان سے شروع ہوئی کہ سی پیک سے کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ 18مئی کو چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے یہ خوش فہمی بھی یہ کہہ کر دور کر دی کہ… ’’سی پیک کا علاقائی تنازعات سے کوئی تعلق نہیں! کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ توقع ہے کہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کریں گے‘‘۔
اگر سی پیک ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے تو پاکستان کو جنوبی ایشیا سے اٹھا کر کہیں یورپ میں لے جائے! کیا پتہ ہمارے رویّے تبدیل ہو جائیں !!

Sunday, May 21, 2017

آبرو کس چڑیا کا نام ہے؟


جمرود پاکستانی قصبہ ہے جو پشاور سے سترہ کلو میٹر مغرب کی طرف واقع ہے۔ 
رنجیت سنگھ کی سکھ افواج اور درانیوں میں لڑائی اسی مقام پر ہوئی۔ افغانی جمرود پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ یہ 1837ء کا واقعہ ہے۔
اس کے بعد جب بھی انگریزی حکومت نے مغربی بارڈر پر کوئی کارروائی کی جمرود اس کارروائی کا ہیڈ کوارٹر رہا۔ طورخم کی سرحد جمرود سے اڑتیس کلو میٹر دور ہے! اڑتیس کلو میٹر کا یہ علاقہ پاکستان کا حصہ ہے۔
یہ جمعرات کا دن تھا مئی 2017ء کی اٹھارہ تاریخ تھی جب پاکستان کی پارلیمنٹ میں پارلیمنٹ ہی کے ایک رکن نے دعویٰ کیا تھا کہ جمرود سے طورخم تک کا علاقہ پاکستان کا ہے نہ افغانستان کا۔ دلیل یہ تھی کہ ایسا انگریزوں اور افغان حکومت کے درمیان طے ہوا تھا۔
یہ شخص کون تھا؟ اس کا نام محمود خان اچکزئی ہے؟یہ اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد رکھنے کے لیے چادر اوڑھتا ہے۔ علم اس کا کتنا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اگر انگریز حکومت جمرود سے طورخم تک کا علاقہ ہندوستان کی ملکیت سے باہر سمجھتی تھی تو پھر لنڈی کوتل کو جو اسی علاقے میں واقع ہے اس نے خیبر رائفلز کا ہیڈ کوارٹر کیوں بنایا؟ اور اس پر اس وقت کی افغانی حکومت نے اعتراض کیوں نہ کیا؟
پاکستان کی سا لمیت کو چیلنج کرنے والا یہ شخص وفاقی حکومت کا اتحادی ہے۔ اس کے سر پر حکومت کی چھتری ہے۔ اس چھتری کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ جب اس کی اس یاوہ گوئی پر ایوان میں احتجاج کی آوازیں بلند ہوئیں تو قومی اسمبلی کے سپیکر نے اس شخص کا ساتھ دیا مگر پاکستان کی سا لمیت کا دفاع کرنے والوں کو سپیکر نے دھمکی دی کہ اٹھوا کر باہر پھینکوا دوں گا۔ اس شخص کا دفاع پورے ایوان میں کس نے کیا؟ سپیکر نے !یہ کہہ کر کہ یہ تو اس کا ذاتی بیان ہے!گویا کسی نے ذاتی بیان دینا ہو تو وہ مملکت پاکستان کی قومی اسمبلی میں جا کر دے!
برسر اقتدار جماعت کے کسی رکن نے اچکزئی کے اس بیان کی تردید کی نہ چیلنج کیا۔ ہاں شاہ محمود اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے وطن کی سالمیت کا دفاع کیا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ یہ علاقہ اور پورا فاٹا پاکستان کا حصہ ہے شاہ محمود نے اچکزئی کو یاد دلایا کہ تم تو پاکستان کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتے!
گزشتہ برس جولائی میں اس چادر پوش نے دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا افغانوں کا ہے مسلم لیگ قاف کے رہنما پرویز الٰہی نے مطالبہ کیا کہ اس پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ دسمبر 2016ء میں وہ ایک ہاتھ اور آگے بڑھا اور مطالبہ کیا کہ تمام افغانوں کو پاکستانی شہریت دی جائے اور ایک نیا صوبہ افغان سرحد سے اٹک تک بشمول میانوالی بنایا جائے اور اس کا نام افغانیہ رکھا جائے۔ اس کے اتحادی مسلم لیگ نون کے رہنمائوں اور ورکروں میں سے کسی نے اس کے کسی مطالبے کی مذمت کی نہ تردید۔ خاموشی نیم رضا!
2014ء میں معروف اینکر پرسن  مبشر لقمان صاحب نے جو اب روزنامہ 92نیوز میں کالم لکھ رہے ہیں ایک معروف ٹی وی چینل پر اپنے پروگرام میں ویڈیو اور تصویریں دکھائیں جن میں محمود اچکزئی اور افغان انٹیلی جنس کے رسوائے زمانہ کمانڈر جنرل عبدالرزاق اچکزئی کو اکٹھا دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کمانڈر کے بارے میں یہ عام خبر تھی کہ وہ پاکستان دشمن خفیہ منصوبوں میں سرگرم رہتا ہے اور را کے گماشتے پاکستان میں بھیجتا ہے۔ اسی پروگرام میں دو بلٹ پروف لینڈ کروزر بھی دکھائی گئیں جو افغان انٹیلی جنس نے محمود اچکزئی کو دی تھیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ 2013ء کے انتخابات جیتنے کے لیے اسی شخص کو افغان حکومت نے تیس لاکھ امریکی ڈالر دئیے اور چمن کے تاجروں کو مجبور کیا کہ ووٹ اسے دیں۔
اس پس منظر کے ساتھ اب ایک معروف کالم نگار اور اینکر پرسن کی یہ سطور دیکھیے جو چھ مئی2017ء کو قومی سطح کے ایک معروف روزنامے میں شائع ہوئی ہیں۔
جس طرح امریکہ اور ہندوستان کے معاملے میں وزیر اعظم صاحب نے اپنے ذاتی چینل کھول رکھے ہیں اسی طرح انہوں نے افغانستان کے ساتھ اپنا حقیقی چینل محمود خان 
اچکزئی صاحب کے ذریعے کھول رکھا ہے۔ وہ پاکستانی سفیر کے ذریعے نہیں بلکہ اچکزئی صاحب کے ذریعے خصوصی پیغامات افغان قیادت کو بھجواتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم ان کے ذریعے افغان قیادت کو بتاتے رہے کہ وہ فوجی قیادت کی تبدیلی کا انتظار کریں۔ فوجی قیادت تبدیل ہوئی تو اس کے اداروں نے اپنے طریقے سے افغان حکومت کے ساتھ بند دروازے دوبارہ کھولنے کی کوششیں شروع کر دیں جبکہ وزیر اعظم نے اچکزئی صاحب کو متحرک کیا اچکزئی صاحب کو ایک بار خاموشی سے افغانستان بھیجا گیا۔ اسی طرح انہوں نے لندن میں بھی بعض افغان لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں وزیر اعظم کے پیغامات پہنچائے۔ حامد کرزئی صاحب کے ساتھ چونکہ ان کے پرانے تعلقات ہیں اس لیے انہوں نے وزیر اعظم کو تجویز کیا تھا کہ وہ حامد کرزئی کو پاکستان بلائیں چنانچہ وزیر اعظم کا خط لے کر انہوں نے کئی ماہ پہلے کرزئی صاحب کے حوالے کیا تھا۔
ہزاروں سال کے تجربے کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ انسان اپنے دوستوں کے 
ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ برسر اقتدار جماعت کے اتحادی کون ہیں؟ مولانا فضل الرحمن محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی! ان تینوں میں کیا قدر مشترک ہے؟ یہ کہ یہ قائد اعظم کا نام کبھی بھول کر بھی  کبھی خواب میں بھی نہیں لیتے! کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہ تینوں جو تحریک پاکستان کے خلاف تھے اور جو اینٹی قائد اعظم ہیں وفاقی حکومت کے اتحادی ہیں؟ کیا یہ بھی اتفاق ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے بیرون ملک جا کر دعویٰ کیا کہ انہیں تو ووٹ ہی بھارت کے ساتھ دوستی کرنے کے لیے ملے تھے! کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ دنیا کے دو سو حکمرانوں میں سے صرف بھارتی وزیر اعظم نے وزیر اعظم کی نواسی کی شادی کی تقریب میں شرکت کی!
اقوامِ متحدہ میں تقریر کرتے وقت وزیر اعظم کلبھوشن کا ذکر کر کے بھارت کو دفاعی پوزیشن کی طرف دھکیل سکتے تھے مگر ایسا نہ ہوا۔ اب عسکری قیادت کو یہ بتایا گیا ہے کہ بھارتی فولاد سازی کا بادشاہ جندال مری میں وزیر اعظم سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے سلسلے میں ملا تھا۔ کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ پندرہ مئی کو بھارت کے سینئر صحافی پریم شنکر جھا نے دعویٰ کیا کہ جندال کو خود پاکستانی وزیر اعظم نے ملاقات کی دعوت دی تھی؟
بھارتی میڈیا کے علاوہ یہ خبر پاکستان کے معروف ترین انگریزی معاصر میں شائع ہوئی حکومت یا وزیر اعظم کے کسی ترجمان نے تادمِ تحریر اس کی کوئی تردید نہیں کی!!
فاٹا کا معاملہ اس سے بھی زیادہ پراسرار لگ رہا ہے۔ ایک طرف انضمام کی بات ہوتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کے اتحادی مولانا کے لب و لہجہ میں ناقابلِ یقین تُندی آ جاتی ہے۔
سب کچھ جام کر دوں گا
یہ نہیں کرنے دوں گا۔
وہ نہیں کرنے دوں گا
کوئی مائی کا لال ایسا نہیں133
داغؔ دہلوی یاد آ رہے ہیں ؎
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب!
زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا
ساری پارلیمنٹ ایک طرف! مولانا ایک طرف! مگر حکومت نے ان کی خاطر مسئلے کو التوا میں ڈال دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ فاٹا اصلاحات اور انضمام کے شدید ترین مخالف مولانا اور اچکزئی صاحب دونوں فاٹا سے تعلق ہی نہیں رکھتے! قومی سیاست میں ان کی کیا اہمیت ہے؟ دونوں محدود علاقائی سطح پر سیاست کا کاروبار کرتے ہیں مگر وزیر اعظم کا دستِ شفقت دونوں کے سر پر ہے ؎
بنے ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگر نہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
آبرو؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ غالب کے زمانے میں ہوتی ہو گی!

Friday, May 19, 2017

ہمارے سفارت خانے یا کس دینے والے شکنجے!

جنوری کا مہینہ اپنے آخری دن گن رہا تھا جب یہ کالم نگار جنوب کے ساحلی 
شہر میلبورن میں اترا۔ نصف کرۂ جنوبی میں، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے لے کر، جنوبی افریقہ، برازیل اور چلّی تک جنوری میں موسمِ گرما عروج پر ہوتا ہے مگر میلبورن کے موسم گرما کا کیا کہنا! دو دن ٹمپریچر اگر تیس کے اوپر ہے تو تیسرے دن بیس سے کم!
ہر کوئی اپنے بیگ میں کم از کم ایک سویٹر یا جیکٹ ضرور ساتھ لیے پھرتا ہے۔
ایک نیم ادبی اور نیم سماجی تقریب تھی جس میں چند نوجوان ملے اور اپنے اُس مسئلے کا رونا رویا جس کے سبب وہ پریشان تھے۔ دو خاص طور پر اس لیے کہ ان کی بیویاں پاکستانی نہیں تھیں۔ نوجوانوں کا دعویٰ تھا کہ حکومتِ پاکستان کی جاری کردہ ویزا پالیسی کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کی غیر پاکستانی بیویوں کو پانچ سال کا ملٹیپل
(Multiple)
ویزا دیا جا سکتا ہے اور وہ ایک سال تک پاکستان میں قیام کر سکتی ہیں لیکن کینبرا کا پاکستانی ہائی کمیشن ملٹیپل کے بجائے سنگل انٹری ویزا جاری کرتا ہے۔ بسا اوقات فیس پانچ سال کی چارج کر لی جاتی ہے مگر ویزا ایک سال کا دیا جاتا ہے اور وہ بھی سنگل انٹری، یعنی صرف ایک بار کے لیے!
انہوں نے مدد کی درخواست کی اور ملتجی ہوئے کہ اس مسئلے کو پریس میں اجاگر کیا جائے۔ تسلی دی کہ ہو سکتا ہے مسئلہ پریس کی مداخلت کے بغیر ہی حل ہو جائے۔ گمان اچھا رکھنا چاہیے۔ پاکستانی ہائی کمیشن سے بات کی جا سکتی ہے۔ محترمہ ہائی کمشنر صاحبہ سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ معاملات کو مروجہ قوانین کی روشنی میں چلائیں۔آخر سفارت خانوں کا بنیادی فرض ہے بھی تو یہی کہ پاکستانیوں کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی کا اچھا خاصا حصہ سفارت خانوں پر خرچ ہوتا ہے۔ سفیروں کو اور دیگر ملازمین کو تنخواہوں کے علاوہ فارن الائونس بھی دیا جاتا ہے تا کہ ان کی زندگیاں ہموار گزریں اور یکسو ہو کر اہلِ وطن کی خدمت کریں۔
فروری کا آخر تھا جب یہ کالم نگار وطن واپس لوٹا۔ ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ اُن نوجوانوں میں سے ایک نے رابطہ کیا کہ اس نے پاکستان آنا ہے اور اپنی غیر ملکی اہلیہ کا پاسپورٹ ہائی کمیشن کو بھیجا ہے۔ اس نے وعدہ یاد دلایا اور ملتمس ہوا کہ ہائی کمیشن سے بات کی جائے۔ غالباً مارچ کی پانچ یا چھ تاریخ تھی جب اس کالم نگار نے آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی سفیر سے، جو ایک محترمہ ہیں، فون پر رابطہ کیا۔ متعدد کاوشوں کے بعد بات ہو پائی۔ عرضِ مدعا کیا کہ اگر حکومت نے مٹیپل انٹری کی اجازت دی ہے تو آپ بھی درخواست دہندہ یا دہندگان پر کرم فرمائیے۔ سفیر صاحبہ کا جواب سیدھا اور صاف تھا اور بظاہر خوب منطقی تھا133ہمیں معاملہ وزارتِ داخلہ اسلام آباد کو بھیجنا پڑے گا133!
اب دل میں شبہ کی گرہ پڑ گئی۔ تو کیا ان نوجوانوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے؟ یا انہوں نے ویزا پالیسی کا مطالعہ نہیں کیا؟ اگر بقول اُن نوجوانوں کے، وزارتِ داخلہ کی پالیسی میں پانچ سال ملٹیپل ویزا کی گنجائش ہوتی تو سفیر صاحبہ فوراً یہ کیوں کہہ دیتیں کہ مسئلہ وزارت داخلہ کو بھیجنا پڑے گا۔ سفیر نے اپنے دفتر کے کسی افسر، کسی اہلکار سے رائے لیے بغیر اگر ایسا کہا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ سفیر کو یقین ہے اور وہ اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ملٹیپل ویزا نہیں دیا جا سکتا۔
دوسرے دن کالم نگار نے سواری پکڑی اور وزارتِ داخلہ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا! ایڈیشنل سیکرٹری طارق محمود خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ متعلقہ سیکشن افسر کو طلب کیا اور ویزہ پالیسی لانے کا حکم دیا۔ کالم نگار نے عرض کیا کہ لانے کی ضرورت نہیں۔ سیکشن افسر کے ہمراہ اُس کے دفتر چلا گیا۔ مشتاق بھلا آدمی تھا۔ پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں اس نے تازہ ترین یعنی مروجہ ویزا پالیسی کالم نگار کے ہاتھ میں تھما دی۔ اب جو اس کا بغور مطالعہ کیا تو آنکھیں نہ صرف کھلیں بلکہ کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ نوجوان درست کہہ رہے تھے۔ سفیر یا تو ویزا پالیسی سے لا علم تھیں یا افسری کی ہوا میں تھیں۔ وزارتِ داخلہ پاکستان نے یہ جامع اور تفصیلی ویزا پالیسی 24جولائی 2006ء کو جاری کی ہے۔ سرکاری فرمان کا نمبر ہے
 1/23/2006
-VISA
۔اس کے پیراگراف جی 
(g)
 کا عنوان ہے فیملی وزٹ ویزا۔ پیراگراف یوں ہے۔
Pakistan Missions Abroad can Grant five years validity and one year stay(multiple)entry visa to foreigners of PAK origin and their foreign spouses.Family visit visa will be extendable on yearly basis in Pakistan.
یعنی پاکستانی سفارت خانے پاکستانی نژاد غیر ملکیوں کو اور ان کے غیر ملکی اہلِ خانہ کو پانچ سال کے لیے ملٹی پل ویزا دے سکتے ہیں جس کے تحت ایک سال تک قیام کیا جا سکتا ہے۔ یہ فیملی ویزا پاکستان ہی میں سال بہ سال بڑھایا جا سکتا ہے۔ 
آٹھ مارچ کو سفیر صاحبہ کو دوبارہ فون کیا اور عرض گزاری کی کہ ویزا پالیسی سامنے ہے اور وزارتِ داخلہ کی رُو سے آپ پانچ سالہ ملٹیپل ویزا جاری کرنے کی مجاز ہیں۔ اب کے محترمہ کے لہجے میں افسری کچھ زیادہ ہی تھی۔ہم وزارتِ داخلہ کو کیس بھیج چکے ہیں133
وزارتِ داخلہ کو ایسے کسی کیس کا علم نہ تھا اور جب معاملہ صاف اور واضح تھا تو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور یہ حیرت کی بات تھی کہ پاکستانی سفارت خانہ اتنا مستعد ہو گیا ہے کہ دو دن میں یہ(غیر ضروری) استفسار بھیج بھی دیا۔
اب وزارت خارجہ سے رابطہ کیا۔ بتایا گیا کہ میڈیا سے صرف ترجمان ہی بات کریں گے۔ نفیس زکریا اسم با مسمّیٰ ہیں یعنی نفیس اور نرم گفتار! تحمل سے بات سنی۔ اپنا 
ای میل ایڈریس عنایت کیا اور چند گھنٹوں کے بعد خود فون کر کے بتایا کہ سفیر 
صاحبہ سے بات ہو گئی ہے۔
اس کے بعد کا قصہ الم ناک ہونے کے ساتھ دردناک بھی ہے۔ 9مارچ کو ڈپٹی ہائی کمشنر صاحب کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ درخواست دہندہ کے کوائف درکار ہیں۔ چلیے، مشکل ہی سے سہی، وہ بت راہ پر تو آیا۔ مگر افسوس جب ویزا جاری ہوا تو یہ دنیا کا بلکہ تاریخ کا عجیب و غریب ویزا تھا۔
تاریخ ویزا اجرا۔ 16مارچ 2017ء
تاریخ اختتام 15 مارچ 2017ء
یعنی جس تاریخ کو ویزہ جاری ہوا، اس سے ایک دن پہلے اس کی مدت ختم ہو گئی۔
ہائی کمشن کو اس اذیت ناک غلطی کا بتایا تو سوری کر کے حکم دیا کہ پاسپورٹ دوبارہ بھیجا جائے۔ عرض کیا کہ اتنا تو وقت ہی نہیں۔ دو دن بعد ان کی پرواز ہے۔ دو دن میں میلبورن سے کینبرا پاسپورٹ کا آنا اور تصحیح کے بعد واپس پہنچنا ناممکن ہے۔ حل سفارت خانے نے یہ ڈھونڈا کہ ایک خط جاری کیا جس میں لکھا تھا کہ سفارت خانے سے غلطی ہوئی ہے اور 15مارچ 2017ء کو 15مارچ 2018ء پڑھا جائے۔ یہ خط پاکستانی نوجوان کی غیر ملکی اہلیہ نے پاکستان آ کر ایئرپورٹ پر پیش کیا تو متعلقہ اہلکار چکرا گیا کہ یہ کیسا ویزا ہے کہ ساتھ ہی تصحیح نامہ بھی ہے۔ واپسی پر بھی بے حد تامل، تذبذب اور ہچکچاہٹ کے ساتھ یہ خط سمجھا اور قبول کیا گیا۔ ایک لا محدود اذیت تھی جس سے درخواست دہندہ گزری! دودھ مشکل سے دیا گیا مگر مینگنیاں ڈال کر!
آج ارشاد عارف صاحب نے ماتم کیا ہے کہ ہم کتنے خوش بخت ہیں اور انوکھے کہ وزیر اعظم کے لیے جے آئی ٹی بنی ہوئی ہے۔ کھلاڑی ٹرائی بیونل کے سامنے پیش ہو رہے ہیں اور قومی ایئرلائن کے جہاز سے ہیروئن برآمد ہوئی ہے۔ اس پر مستزاد اداروں کی ناگفتہ بہ حالت ہے سفارت خانے بھی ان ناگفتہ بہ اداروں میں شامل ہیں۔ کیسے کیسے نرالے اور طبع زاد طریقے ڈھونڈتے ہیں ہمارے سفارت خانے اپنے ہم وطنوں کو لوہے کے چنے چبوانے کے لیے! سفیر پاکستان کتنا بڑا ،کتنا مقدس اور کتنا ذمہ دار منصب ہے مگر جس طرح اِس منصب کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک جھلک133صرف ایک جھلک133 قارئین نے دیکھ لی ہے۔ ع
قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا
اس ایک باغ سے پوری بہار کا اندازہ لگا لیجیے۔ پاکستانیوں کو جکڑ دینے والے اذیت ناک شکنجے صرف تھانوں، کچہریوں، عدالتوں، واپڈا، گیس، پانی اور ٹیلی فون کے دفتروں میں نصب نہیں، سفارت خانے بھی ایسے نظر نہ آنے والے شکنجوں سے بھرے پڑے ہیں۔
اے ارضِ سیہ روز! کوئی اور ہی سورج
شاید کہ بدل جائیں یہ ایام ہمارے!

Wednesday, May 17, 2017

انقلابوں کا انقلاب


سر کے اوپر ایک چھلنی لگی ہوئی ہے۔ اور دیوار میں ایک پیچ ہے۔ جہاں اس پیچ 
کو پھرایا چھلنی میں سے مینہ برسنا شروع ہوا ۔اس کے نیچے کھڑے ہو کر پھر خوب نہا لیے اور اس کا پیچ بند کر دیا
(بیت الخلا میں) مثل کموڈ کے ایک چیز بنی ہوئی ہے مگر ایک عمدہ بات یہ ہے کہ اس کے پاس ایک برنجی حلقہ لگا ہوا ہے۔ بعد رفعٰ حاجت اس حلقے کو اٹھایا اور کموڈ کے ظرف چینی میں پانی آیا اور سب میلے کو بہا لے گیا اور وہ ظرفِ چینی بالکل صاف ہو گیا
یہ دونوں پیراگراف سرسید احمد خان کی تحریر ہیں۔1869ء میں لندن جانے کے لیے بحری جہاز میں سفر کیا تو یہ دونوں حیرت کدے دیکھے جسے چھلنی کہہ رہے ہیں کہ جس سے پانی بارش کی طرح برستا ہے باتھ روم کا شاور ہے۔ ظرف چینی میں پانی آنے سے مراد کموڈ کو فلش کرنا ہے۔ ظاہر ہے ہندوستانیوں کے لیے یہ دونوں چیزیں نئی تھیں۔ بحری جہاز میں انہوں نے پہلی بار دیکھیں اور ہم وطنوں کو اس حیرت میں شریک کیا۔
وہ 1869ء تھا آج 2017ہے ۔ان ڈیڑھ سو برسوں میں اہل مغرب نے ایجادات اور دریافتیں کر کر کے باقی دنیا کو حیران پریشان کر دیا ہے۔ نامور ادیب ذکاء الرحمن مرحوم سے ایک بار بات ہو رہی تھی کہ بہت سے لوگ ادب میں منہ مارتے ہیں  کر کچھ نہیں سکتے مگر کچھ کر لینے والوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ ذکاء الرحمن نے کہا کہ ان کا علاج ایک ہی ہے کہ کتابیں لکھ لکھ کر ان کے سروں پر مارتے رہو۔ اہل مغرب ذکاء الرحمن کی اس تجویز پر پہلے سے عمل کر رہے ہیں۔ ہم مسلمان ان پر تنقید کے نشتر برساتے رہے۔ وہ کام کرتے رہے ۔اکبر الہ آبادی نے سرسید احمد خان کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا کہ ع
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سیّد کام کرتا ہے
ہم باتیں کرتے رہے وہ کام کرتے رہے۔ ریل بنائی۔ ٹیلی گراف اور ٹیلی فون بنایا بائی سائیکل بنائی۔ بزرگ بتاتے تھے کہ ہمارے ہاں سائیکل کو شروع میں لوہے کا گھوڑا کہتے تھے۔ جہاز بنایا جس پر سوار ہو کر ماشاء اللہ مبلغین کے قافلے اطرافِ عالم میں جا رہے ہیں۔متحرک فلم ایجاد کی ریڈیو اور ٹیلی ویژن بنا کر دیا ساری ایجادات اور دریافتوں کا ذکر ایک مختصر مضمون میں ممکن ہی نہیں۔ لائف سیونگ ادویات سے سارا پیش منظر بدل کر رکھ دیا۔ ہمارے حکمرانوں کے شاہی طبیب قوتِ باہ کے نسخے ایجاد کرتے رہے۔ بعض حکمران تو ان عیاشیوں کی بھینٹ چڑھ کر جوانی ہی میں کوچ کر گئے۔ سکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا کی تصنیففرام پلاسی ٹو پاکستان پڑھ کر دیکھیے میر جعفر کے اکثر جانشین عیاشانہ طرزِ زندگی کی بدولت تیس چالیس کے لگ بھگ ہو کردنیا سے کوچ کرتے گئے۔ ان بیماریوں کا علاج اہلِ مغرب نے دنیا کو دیاپنسلین نے انقلاب برپا کر دیا ۔تپ دق قابل علاج ہو گیا انسولین نے ذیابیطس کے مریضوں کی عمریں بڑھا دیں۔ اس کالم نگار نے راچسٹر (منی سوٹا ) کے میو ہسپتال میں وہ مشین دیکھی ہے جس کے ذریعے دنیا کا پہلا بائی پاس کیا گیا پھر پیوند کاری کی جانے لگی۔
مگر انقلابوں کا انقلاب 1990ء میں آیا جب برنرزلی
(Berners-Lee)
 نے 

World Wide Web)
ایجاد کیا جسے ہم اب ٹرپل ڈبلیو یعنی 
www
کہتے ہیں کیا زمانہ تھا کہ کراچی کا اخبار اسلام آباد اور لاہو رمیں سہ پہر کو ملتا تھا اور ہاکر کے انتظار میں ہم جیسے خبطی طالب علم دروازے پر کھڑے رہتے تھے۔ بقول غالب ع
تونے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے
اور کیا وقت ہے کہ صبح بستر پر دراز طلوع آفتاب سے بہت پہلے دنیا بھر کے اخبارات ایک کلک کی بدولت سامنے حاضر ہیں سورہ نحل میں فرمایااور وہ چیزیں پیدا کرتا ہے جو تمہارے علم میں نہیں اہل مغرب نے اس فرمانِ الٰہی کی حقانیت کو ثابت کر دیا اور وہ کچھ ایجاد کیا جو انسان کے وہم و گمان میں نہ تھا۔
سوشل میڈیا پر غور کیجیے ۔ایک زمانہ تھا کہ آمرانہ حکومتیں اخبارات سنسر کرتی تھیں۔ دل جلے ایڈیٹر پورا پورا صفحہ خالی پیش کر دیتے تھے۔ یہ سب ہتھکنڈے ریزہ ریزہ ہو کر خاک میں مل گئے۔ ایس ایم ایس پھر فیس بک اور اب وٹس ایپ نے بے زبان خلقِ خدا کو زبان بخش دی۔ بجا کہ اس میں رطب و یا بس سب کچھ ہے مگر یہ تو پرنٹ میڈیا میں بھی ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی۔ اگرچہ ناگفتنی کا تناسب سوشل میڈیا میں کچھ زیادہ ہے مگر غوطہ لگائیے تو کیسا کیسا گوہر نایاب ہاتھ آتا ہے۔ وہ ٹیلنٹ جو نارسائی کے باعث یا کم ہمتی کے سبب پرنٹ میڈیا تک نہیں پہنچ پاتا تھا سوشل میڈیا میں چمک رہا ہے سوشل میڈیا کو اب صرف وہی لائق التفات نہیں جان رہے جن کے دماغ کی رگیں جامد ہیں ۔واقعہ پیش آتا ہے اور چند لمحوں کے اندر اندر فیس بک ٹوئٹر اور وٹس ایپ کے طفیل چار دانگِ عالم میں پھیل جاتاہے۔ ریاست کی طاقت کبھی کبھی سوشل میڈیا کا مقابلہ کرتی ہے اور کر رہی ہے مگر بہت جلد یہ مقابلہ بھی تھک ہار کر ختم ہو جائے گا ۔یہ سیل رواں ہے۔ خس و خاشاک اس کے سامنے کیا ٹھہریں گے! ہاں یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے عجائب گھر میں گھومنے پھرنے والوں کو نگاہ انتخاب تیز رکھنا پڑے گی۔ 
یہاں پتھر ہیں اور ہیرے بھی سونا ہے اور راکھ بھی! کچھ دن پہلے سوشل میڈیا کی وسعتوں میں بادیہ پیمائی کر رہا تھا کہ ایک باکمال ٹکڑا نظر آیا ۔ دیکھیے کیا جامعیت ہے!
ہم میں اور اہل مغرب میںکیا فرق ہے؟
ہمارے ہاں امام ضامن ہوتا ہے
ان کے ہاںنظام ضامن ہوتا ہے
ہمارے ہاں سائیں ہوتے ہیں
ان کے ہاںسائنس ہوتی ہے
ان کے ہاں تحقیق ہوتی ہے
ہمارے ہاں تضحیک ہوتی ہے 
ان کے ہاں بجلی ہوتی ہے
ہمارے ہاں کھجلی ہوتی ہے
ان کے ہاں آسائش ہوتی ہے
ہمارے ہاں الائش ہوتی ہے
ہمارے ہاں تعداد ہوتی ہے
ان کے ہاں استعداد ہوتی ہے
ان کے ہاں اصل ہوتی ہے
ہمارے ہاں نقل ہوتی ہے
ان کے ہاں عقل کا استعمال ہوتا ہے
ہمارے ہاں مسل کا استعمال ہوتا ہے
وہ شجر کاری کرتے ہیں
ہم کاروکاری کرتے ہیں
وہ لوگ زندگی کو جیتے ہیں 
ہم لوگوں کو زندگی جیتی ہے
ان کے ہاں سوال اٹھانا فخر کی بات ہے
ہمارے سوال اٹھانا کفر کی بات ہے
ان کے وزیر اعظم کا گھر کسی ایک گلی میں ہوتا ہے
ہمارے وزیر اعظم کے گھر میں کئی گلیاں ہوتی ہیں
وہ زندگی کو جنگ سمجھتے ہیں
ہم جنگ کو زندگی سمجھتے ہیں
وہ کائنات کو تسخیر کر رہے ہیں
ہم کائنات کو بے توقیر کر رہے ہیں
ان کا ایٹم بم لوگوں کی حفاظت کرتا ہے
ہم خود ایٹم بم کی حفاظت کر رہے ہیں
وہ جدید نصاب بنا رہے ہیں 
ہم اپنے نوجوانوں کو قصاب بنا رہے ہیں
وہ تدبّر کرتے ہیں
ہم تکبر کرتے ہیں
وہ زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں
ہم کھانے کیلئے زندہ رہتے ہیں(بقیہ صفحہ13 پر ملاحظہ کریں)
ہم وسائل کا ضیاع کرتے ہیں
وہ ضیاع سے وسائل پیدا کرتے ہیں
ان کے ہاں امین ہوتے ہیں
ہمارے ہاں کمین ہوتے ہیں
ان کے ہاں انصاف ہوتا ہے
ہمارے ہاں انصاف صاف ہوتا ہے
ان کے ہاں میرٹ کو اہمیت ہے
ہمارے ہاں میریٹ کو اہمیت ہے 
وہ حالات سے لڑتے ہیں
ہم آپس میں لڑتے ہیں
ان کے ہاں سائنس دان ہوتے ہیں
ہمارے ہاں حضرت صاحبان ہوتے ہیں
ان کے ہاں سوچ ہوتی ہے
ہمارے ہاں ایک دوسرے کی کھوج ہوتی ہے
ان کے ہاں لوگ کام عبادت کی طرح کرتے ہیں
ہمارے ہاں لوگ عبادت بھی سرکاری کام کی طرح کرتے ہیں
وہ لوگ جفا کش ہوتے ہیں
ہم لوگ وفا کُش ہوتے ہیں
وہ لوگ وطن سے محبت کرتے ہیں
ہم لوگ وطن کی تجارت کرتے ہیں
سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا خیال از کار رفتہ ہو چکا ہے
یو ٹیوب پر ہمارے ہاں قدغن رہی مگر لوگوں نے راستے نکال لیے۔ پابندی یا پکڑ دھکڑ کے بجائے سوشل میڈیا کا علاج سوشل میڈیا ہی سے کرنا ہو گا۔ اس لیے کہ ہونٹوں کو سی دیا جائے اور قلم کی نوک کاٹ دی جائے تو ع
دل کی باتیں کہہ لینے کے پھر بھی لاکھ وسیلے ہیں
پہیا الٹا نہیں چل سکتا۔ میدان حاضر ہے اس میں اپنا گھوڑا لائیے جو گھوڑے میدان میں موجود ہیں ان کے پیروں میں رسی نہ ڈالیے

Monday, May 15, 2017

اخفش کی بکریاں


اچھی بھلی تھی۔ نہلا دی گئی۔پانی ٹھنڈا بھی نہیں تھا۔ بس نہلائے جانے کے بعد گھٹڑی بن گئی۔ گردن نہیں اٹھا رہی تھی۔ یوں لگتا تھا توانائی جسم میں نہیں رہی۔ گھنٹہ دو گھنٹے گزر گئے۔ اب مریضہ کو تشویش لاحق ہونے لگی۔ پریشانی بڑھنے لگی۔ یہاں تک کہ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ڈاکٹر کی تلاش شروع ہوئی۔ اس علاقے میں حیوانات کا ڈاکٹر(بیطار) نزدیک نہیں تھا اور اگر تھا تو اس کا علم نہیں تھا۔ ایک عزیز فوج میں میجر صاحب تھے اور اسی شعبے کے ڈاکٹر تھے۔ انہیں فون کیا گیا۔ انہوں نے علامات پوچھیں اور تفصیلات جانیں۔ پھر دوا تجویز کی جو فوراً خرید کر شروع کرائی گئی۔ خوراک میں مرغی کی یخنی بتائی۔ جو باقاعدگی سے دی جاتی رہی۔ دو دن کے بعد مریضہ کی حالت سنبھلی اور لڑکی کی جان میں جان آئی۔
مِسّی ہے تو مرضیہ کی، مگر جلد ہی گھر بھر کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ کہتے ہیں بلیاں اتنی وفادار نہیں ہوتیں جتنا کتے ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے مِسّی بھی اتنی وفادار نہ ہو مگر سوشل ضرور ہے۔کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس کی نگاہِ التفات مجھ پر زیادہ پڑنے لگی۔ جہاں بیٹھتا، آ کر گود میں بیٹھ جاتی۔ یا پہلو میں بیٹھ کر جسم کو مَس کرتی۔ باتھ روم سے نکلوں تو دروازے کے باہر بیٹھ کر انتظار کرتی ہے۔ بالائی منزل پر لائبریری میں جائوں تو سیڑھیوں پر پھدکتی ہمراہ ہوتی ہے۔ صوفے پر بیٹھ کر لکھنے لگتا ہوں تو ساتھ آ براجمان ہوتی ہے۔ ایسے عالم میں میری طرف نہیں دیکھتی بلکہ ایک فلاسفر کی طرح خلا میں گھورتی ہے یا آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ اپنی تحریر اسے سنائوں اور وہ اس کی قبولیت یا نامنظوری، کسی نہ کسی اشارے سے واضح کرے تا کہ اطمینان نصیب ہو۔ پھر اخفش کی بکری یاد آنے لگتی ہے اور ارادہ پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا خیال جھٹک دیا جاتا ہے۔
اخفش کی بکری یا بُزِ اخفش کا قصہ، اگرچہ بلی کے موضوع سے باہر ہے، مگر چلیے ہے تو جانور کا ذکر، اور یوں لگتا ہے اِس بے رحم زمانے میں جانوروں کا ذکر انسانوں کے ذکر سے بہتر ہے۔ اخفش نام کے کئی افراد گزرے ہیں مگر معروف ان میں خوارزم کا ایک شخص ہے جس کا نام ابوالحسن نحوی تھا۔ اب یہ جو نحوی ہوتے تھے، علمِ نحو کے ماہر، یہ بحث مباحثہ بہت کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں صَرف کے عالم ہوتے تھے جنہیں صَرفی کہا جاتا تھا۔ اُن زمانوں میں کسی نے یہ شعر کہا اور درس و تدریس کے دائرے میں فوراً مشہور ہو گیا ؎
نحویاں را مغز باشد چوں شہاں
صرفیاں را مغز باشد چوں سگاں
کہ نحویوں کا دماغ بادشاہوں کی طرح اور صرفیوں کا کتوں کی طرح ہوتا ہے۔ بہر طور اخفش کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ساتھ گفتگو کرنے اور بحث و مباحثہ کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ ایک روایت میں اس کا سبب اس کی غایت درجہ بد صورتی تھی جس کے باعث لوگ اس سے اجتناب کرتے تھے۔ دوسری روایت میں اس کا سبب اس کی زُودرنجی تھی۔ بحث مباحثہ کے دوران وہ غضب ناک ہو جاتا۔ یوں لوگ اس سے بچتے پھرتے۔ اس کا حل اس نے بکری میں ڈھونڈا جو گھر میں تھی۔ وہ اس سے گفتگو کرتا، اپنے نظریات سناتا، بکری کا سر اثبات میں حرکت کرتا تو وہ اپنی بحث کو کامیاب گردانتا۔ اس سے محاورہ ایجاد ہوا بُزِ اخفش، یعنی بغیر سوچے سمجھے تائید کر دینا، یا ہاں میں ہاں ملانا!
آپ غور فرمائیے ہمارے سیاسی جلسے ہوں یا مذہبی، ان میں عوام کی اکثریت اخفش کی بکریوں کی طرح لگتی ہے۔ لیڈر یا عالم کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے، زورِ بیان سے متاثر ہو کر، یا شخصیت کے سحر میں آ کر، حاضرین سراثبات میں ہلاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ انتخابات میں ووٹ کسی اور کو جا ڈالتے ہیں۔ یہ ہاتھ مذہبی جماعتوں کے ساتھ اکثر و بیشتر ہو جاتا ہے۔
میں مِسّی کو اپنی تحریر نہیں سناتا اس لیے کہ اسے تو بکری کسی نے نہیں کہنا مجھے اخفش نہ سمجھا جانے لگے۔
باہر سے واپس آ کر گھر کے اندر داخل ہوں تو منتظر ہوتی ہے۔ بول کر، دُم ہلا کر، ساتھ ساتھ چل کر استقبال کرتی ہے۔ اب تو اُس کی توجہ اصل مالکن کے بجائے مجھ پر زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ مالکن جب سونے کے لیے خواب گاہ کا رُخ اختیار کرتی ہے تو یہ دوڑ کر اس کے ہمراہ جاتی ہے۔ مگر ایک آدھ گھنٹہ بعد، اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلتا ہوں تو دہلیز پر منتظر ملتی ہے۔ پھر آ کر بستر پر، ایک کونے میں بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے لیے یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ میں اس کے پاس ہوں اور وہ میرے پاس ہے۔
دھچکہ اُس دن لگا جس دن سب گھر والوں نے کچھ دن کے لیے کہیں جانا تھا۔ مسئلہ اٹھا کہ مِسّی کا کیا بنے گا۔ میرا اصرار تھا کہ ہمارے ساتھ جائے۔ مگر ڈر تھا کہ گاڑی کی ڈگی میں رکھا تو گرمی کی شدت سے اسے کچھ ہو نہ جائے۔ گاڑی کے اندر جگہ نہ تھی۔ طے ہوا کہ ایک جاننے والے کے ہاں چھوڑا جائے۔ ٹوکری میں رکھ کر بھیجی جانے لگی تو دل پر جیسے آرے چلنے لگے۔ معصوم صورت، تھوڑی تھوڑی دیر بعد جھپکی جانے والی پلکیں، اُس رات کمرے سے باہر نکلتا تو اسے منتظر نہ پا کر فراق ؔکا شعر یاد آتا ؎
بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری، وہ رات رات ہوئی
اتفاق ایسا ہوا کہ دوسرے دن سفر کا پروگرام ملتوی ہو گیا۔ سب سے پہلے مِسّی کو واپس منگوایا گیا۔ گھر میں داخل ہوئی، اِدھر اُدھر دیکھا، یوں لگا زبانِ حال سے کہہ رہی ہو ؎
شاید مجھے نکال کر پچھتا رہے تھے آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گئی ہوں میں
سڈنی میں ہمارے ایک دوست ہیں۔ اُن کی صاحبزادی نے بلی رکھی ہوئی تھی۔ نصیبِ دشمناں اسے ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہوا۔ مالکن نے علاج میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ماں باپ بتا رہے تھے کہ انہیں تو لڑکی نے اپنی تنخواہ سے کبھی ایک ڈالر نہ دیا مگر بلی کے علاج پر دس ہزار ڈالر خرچ کر دیئے۔ تقدیر کا لکھا کچھ اور تھا۔ جانبر نہ ہو سکی۔ میر انیسؔ نے لڑکپن میں بکری کی موت پر شعر کہا تھا ؎
افسوس کہ دنیا سے سفر کر گئی بکری
آنکھیں تو کھلی رہ گئیں اور مر گئی بکری
سڈنی والی لڑکی کو شعر کا ذوق ہوتا تو اسی شعر کو بِلّیا لیتی اور پکار اٹھتی ؎
افسوس کہ دنیا سے سفر کر گئی بلی
آنکھیں تو کھلی رہ گئیں اور مر گئی بلی
غور کرنا چاہیے کہ مرنے کے بعد آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں! سعدی نے اس سے عبرت کا خزانہ نکالا ہے۔ خراسان کے ایک بادشاہ نے محمود بن سبکتگین کو خواب میں اس حال میں دیکھا کہ تمام جسم مٹی ہو چکا تھا مگر آنکھیں، اپنے اپنے چشم خانوں میں زندہ تھیں اور حرکت کرتی تھیں جیسے اِدھر اُدھر دیکھتی ہوں۔ دانش مندوں کو بلا کر تعبیر پوچھی گئی۔ سب عاجز آ گئے۔ ایک فقیر سے پوچھا گیا تو اس نے وہ فقرہ کہا جو ادب اور تاریخ دونوں میں لا زوال ہے۔ ھنوز نگران است کہ مُلکش بادگران است۔ دیکھ رہا ہے کہ جسے اپنا ملک، اپنی قلمرو، اپنی جاگیر سمجھا تھا، اب دوسروں کی ملکیت میں ہے۔
مگر اس حقیقت کا ادراک کم ہی لوگ کرتے ہیں کہ ملک اور جاگیریں، ان سے پہلے بھی یہیں تھیں اور ان کے بعد بھی یہیں رہیں گی۔ مالک بدلتے رہے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔
مان لیا کہ کتے وفاداری میں بلیوں سے برتر ہیں مگر بلیوں سے بھی جو کچھ بن پڑتا ہے کرتی ہیں۔ آنکھوں دیکھا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ بیرونِ ملک ہماری دو بلیاں تھیں۔ ایک کا نام بلی اور دوسری کا چلّی تھا۔ ایک دن نہ جانے کیسے ہوا، بلی ایک کمرے میں تھی کہ دروازہ بند کر کے مقفل کر دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سب نے محسوس کیا کہ چلّی نے اُس کمرے کے دروازے کے پاس آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ اس قدر زور سے بول رہی تھی اور عجیب و غریب آوازیں نکال رہی تھی کہ سنجیدگی کی چادر چاروں طرف تن گئی۔ بالآخر معاملہ سمجھ میں آ گیا۔ دروازہ کھولا گیا۔ بلی باہر نکلی اور چلّی خاموش ہوئی۔ ایک مرتبہ یہ بھی دیکھا کہ باہر برآمدے میں چھوٹا بچہ، جو ابھی اٹھنے سے قاصر تھا، مسلسل رو رہا تھا۔ ماں اس کی اندر کمرے میں تھی۔ بلی بھاگ کر اس کے پاس گئی اور شور مچایا۔ وہ مسلسل چیختی چلاتی رہی یہاں تک کہ ماں نے آ کر بچے کو سنبھالا۔ تب بلی نے چیخ و پکار بند کی!
ٹائپسٹ کی اسامی کا اشتہار نکلا۔ ایک کتے نے عرضی لکھی۔ عرضی منہ میں پکڑی اور جا کر پیش کر دی۔ اسے ٹیسٹ کے لیے بلایا گیا۔ ایک تحریر دی گئی کہ ٹائپ کرے۔ اس نے ٹائپ کی اور کامیاب ٹھہرا۔ انٹرویو میں اسے بتایا گیا کہ ٹائپسٹ کو کم از کم ایک اور زبان ضرور آتی ہو۔ اس پر کتے نے میائوں میائوں کر کے اپنے آپ کو اس اسامی کا حقدار ثابت کر دیا۔

Sunday, May 14, 2017

ہم ارتقا کا سفر طے کر رہے ہیں


تاریخ پاکستان کا ساتھ دے رہی ہے اس لیے کہ قدرت یہی چاہتی ہے۔
تاریخ کا اپنا عمل ہے۔ پروسیس ہے۔ اس کی بھٹی سے ملکوں اور قوموں کو گزرنا ہوتا ہے۔ پاکستان بھی تاریخ کی بھٹی سے گزر رہا ہے۔ فوج نے اگر کہا کہ وزیر اعظم فائنل اتھارٹی ہیں۔ جو حکم دیں عمل ہونا چاہئے تو کسی فرد یا کسی شخصیت کے لیے نہیں کہا وزیر اعظم پاکستان کے لیے کہا ہے۔فوج نے پاکستان کے مستقبل میں اپنا مثبت حصّہ ڈالا ہے۔ یہ فوج کا کنٹری بیوشن ہے۔
ہم تاریخ کے عمل سے مرحلہ وار گزر رہے ہیں۔ ہم 
Process
میں ہیں۔ یہ عمل پست ترین سطح سے شروع ہوا۔ ایوب خان نے سول حکومت کو چلتا کیا۔ نام نہادعشرۂ ترقیاس قوم نے بھگتا۔ اس ملک نے یحییٰ خان اور ضیاء الحق کو سہا۔ پرویز مشرف کی وردی کو جسے وہ اپنی کھال کہتے تھے برداشت کیا۔ ارتقا اسی کو کہتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے جس طرح پرویز مشرف کو چلتا کیا یہ تاریخ کا ضروری عمل تھا۔ پھر جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ ہم ارتقا کی جانب بڑھتے رہے۔ یہ سہرا جنرل قمر باجوہ کے سر بندھا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کی اتھارٹی تسلیم کر کے اس ملک کو واقعتاً جمہوری ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم اب پاکستان میں بھی اسی طرح فائنل اتھارٹی ہے جس طرح برطانیہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں ہے۔ جس طرح امریکہ کا صدر ہے!
اردو ادب کے ممتاز محقق اور مبصّر پروفیسر ممتاز حسین نے کہا تھا۔ چھوٹے چھوٹے شاعروں کا جلوس کسی بڑے شاعر کے استقبال کے لیے ہوا کرتا ہے۔ ان کی قدر اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ شاعری کی روایت کو زندہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں بُری شاعری کو بھی گوارا کرنا چاہیے کہ بری شاعری ہی سے اچھی شاعری کی پہچان ہے۔ اور اس کی ہی راکھ سے اچھی شاعری جنم لیتی ہے ع
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں تالیف کیے گئے تذکرے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ان تذکروں میں سینکڑوں شعرا کا ذکر ہے۔ یہ سب اُس قافلے کے ہیرو تھے جس کی قیادت میر غالب اور اقبال نے کرنا تھی۔ یہی حال ملکوں کے ارتقا کا ہے۔کئی وزراء اعظم آتے ہیں پھر کہیں جا کر ایک مہاتیر یا ایک لی پیدا ہوتا ہے۔ پلٹ کر دیکھیے اور غور کیجیے کیسے کیسے حکمران اِس ملک کو ملے۔ بلخ شیر مزاری غلام مصطفی جتوئی معین قریشی شوکت عزیز  بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف! یہ تاریخ کا عمل ہے ہمیں انتظار کرنا ہے۔ کسی مہاتیر کا کسی لی کو ان ییوکا! پھر جب وہ معمار آئے گا تو فوج کا یہ اعلان کہ فائنل اتھارٹی وزیر اعظم کی ہے اس کے رختِ سفر کا اہم ترین حصّہ ہو گا!
وزیر اعظم نواز شریف کا نام انفراسٹرکچر کے حوالے سے تاریخ میں زندہ رہے یا نہ رہے اس لیے ضرور زندہ رہے گا کہ فوج کی طرف سے سول حکومت کو اتھارٹی تسلیم کرنے کا سنگِ میل اُن کے عہدِ حکومت میں نصب ہوا تھا۔
قائد اعظم کی مثال اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ سرسیّد احمد خان سے لے کر ظفر علی خان تک محمد علی جوہر سے لے کر حسرت موہانی تک کتنے مجاہدینِ آزادی آئے اور اپنا اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہوئے۔اس لیے کہ ایک بڑے مجاہد نے آنا تھا۔ وہی تاریخ کا عمل۔مرحلہ وار! رفتگی اور آہستگی کے ساتھ! مگر تسلسل میں!
غورکیجیے تو عمران خان کی جدوجہد بھی ہمارے ارتقا کا ایک حصّہ ہے۔ حکومتِ وقت کا محاسبہ کرنے کی روایت جو پہلے نہیں تھی اب پڑی ہے۔ اس کے بغیر ہماری سیاسی پختگی کا سفر آگے کی طرف کیسے بڑھتا ہے؟ ایک وقت وہ تھا کہ حکومت وقت کے ایما سے سپریم کورٹ پر حملہ ہوا ایک وقت یہ ہے کہ دو جج وزیر اعظم کو نااہل قرار دیتے ہیں اور ان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ عدلیہ جے آئی ٹی تشکیل دیتی ہے اور حکومت وقت سرِ تسلیم خم کرتی ہے! یہ ارتقا ہے اور تاریخ کا یہی حسن ہے 
جو قوموں کو تابندگی عطا کرتی ہے! جو سیاست دان یہ دہائی دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم انیس گریڈ کے افسر کے سامنے پیش ہوئے تو ان کی یا پارلیمنٹ کی کیا توقیر رہ جائے گی ذہنی طور پر قلاش ہیں! اسی قدر قلاش کہ ان کے سیاسی جسم پر لباس نہیں چیتھڑے ہیں! ان کے ہاتھوں میں کشکول بھی نہیں کہ اس میں فکر کا ایک سکّہ ہی ڈال دیا جائے۔ خدا کے بندو! نواز شریف اگر وزیر اعظم کے طور پر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو گئے تو جمہوریت کی تاریخ میں اپنا نام ایک روشن باب میں لکھوا جائیں گے۔ احتساب کی تاریخ شروع ہی ان سے ہو 
گی! افسوس ! صد افسوس! ان کے اردگرد جو لوگ حصار باندھے کھڑے ہیں 
ذہنی طور پر کچے ہیں اور تاریخ کے مطالعہ سے یکسر عاری! ورنہ وہ انہیں باور کراتے کہ جو ملک آج کرۂ ارض پر بنی نوع انسان کی فکری اقتصادی سیاسی اور عسکری قیادت کر رہے ہیں ان ملکوں میں حکمران ایسی جے آئی ٹی کے سامنے آئے دن پیش ہوتے ہیں!
گریڈ انیس کے افسرکے سامنے؟ ایسی بات کرنے والے وہی ہیں جن کی دنیا پٹواری سے شروع ہو کر ڈپٹی کمشنر کی چوکھٹ پر ختم ہو جاتی ہے۔ کیا عدلیہ کے ججوں کے گریڈ اور تنخواہیں دیکھی جاتی ہیں؟ حکم تو یہ دیا گیا ہے کہ ایک نکٹے اور کان کٹے غلام کو بھی حکمران بنایا جائے اور وہ قانون پر چلے تو اس کی اطاعت کرو! نام لکھنا شائستگی کے خلاف ہو گا ورنہ جو حضرات آج اپنے ملک کے افسروں کی یہ کہہ کر تحقیر کر رہے ہیں کہ گریڈ انیس کے افسروں کے سامنے پیش ہونے سے توقیر کیا رہ جائے گی یہ وہی فکری افلاس کے عبرتناک نمونے ہیں جن کے آبائو اجداد گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے لان میں عید کے دن گھنٹوں نہیں پہروں کھڑے رہتے تھے اور جب دوپہر کے وقت اندر سے نوکر آ کر بتاتا تھا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے تو یہ بے شرم وڈیرے اور گدی نشین ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے۔ یہ جب انگریز ڈپٹی کمشنر تو بڑی بات تھی انگریز مجسٹریٹ کے سامنے رکوع میں جاتے تھے تو ان کے طرے زمین کو چاٹ رہے ہوتے تھے اور ان کی سرینوں سے کپڑا ہٹ جاتا تھا! شرم آنی چاہیے ان ٹوڈی زادوں کو جو قانون اور احتساب کو گریڈوں سے ماپ کر وزیر اعظم کو غلط راستہ دکھا رہے ہیں! کیا امیر المومنین عمر فاروقؓ اور امیر المومنین علی مرتضیٰ ؓ جب قاضی کے سامنے پیش ہوئے تھے تو کیا وہ قاضی مرتبہ میں ان سے بڑا تھا؟ کیا کرۂ ارض کا طاقت ور ترین حکمران کلنٹن جب کٹہرے میں کھڑا ہوا تھا تو کیا اس کے مقدمے کا جج مرتبہ میں امریکہ کے صدر سے بڑا تھا؟ یہ لوگ امریکہ میں ہوتے تو کالی نسل کے اوباما کے صدر بننے پر صفِ ماتم بچھا دیتے! امریکہ اسی لیے امریکہ ہے کہ امریکیوں نے ذہنی پختگی کا سفر کامیابی سے طے کیا اور ارتقا کے مراحل سے گزر کر عروج پر پہنچے۔ جن حبشی غلاموں کے سزاکے طور پر پائوں کاٹ دیئے جاتے تھے اور جنہیں کپاس کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کڑکڑاتے کوڑے  
مارے جاتے تھے انہی حبشی غلاموں کے ایک بیٹے نے الیکشن جیتا تو اسے صدر کے طور پر قبول کیا گیا! گویا نکٹے غلام والے حکم پر عمل کر کے دکھایا گیا!
ہمیں معلوم ہے کہ ڈان لیکس والے قصّے میں جھول ہے۔ مسنگ لنکس
 (Missing Links)
ہیں! مگر اب بال کی کھال ہم نہیں اتاریں گے اور جو اتار رہے ہیں توازن کی حد پار کر رہے ہیں! جس کو بھی بچایا گیا اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ عوام کو سب کچھ معلوم ہے! بسا اوقات گھر میں ہمارا چھوٹا بھائی یا ہمارا فرزند کوئی ایسی بات بتاتا ہے جو ہمیں معلوم ہے کہ درست نہیںمگر ایک حکمت کے تحت ہم مان لیتے ہیں اس توقع پر کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا! فوج نے اگر اس معاملے میں بکھیڑے کا آخری سرا ہاتھ میں پکڑنے کی کوشش نہیں کی اور ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھی تو دانائی اور ہوش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس سے خیر کا جو پہلو نکلا ہے وہ یہ اعتراف ہے کہ وزیر اعظم فائنل اتھارٹی ہیں۔ جب کوئی وژن رکھنے والا حکمران آئے گا تو یہ اعتراف اس کے لیے زینہ ثابت ہو گا۔

Saturday, May 13, 2017

ڈکشنری پر تو ہاتھ صاف نہ کیجیے


گھر بہت اچھا تھا۔ کمرے لائونج رسوئی اور باتھ روم! عمدہ ٹائلیں لگی تھیں۔ دیواریں براق کی طرح سفید! چھتوں پر عمدہ کام! دروازے خالص لکڑی کے اور کیا چاہیے تھا!
مگر گھر والوں کو کچھ اور بھی چاہیے تھا ؎
بھرا نہ اطلس و مر مر سے پیٹ خلقت کا
یہ بدنہاد اب آب و گیاہ مانگتی تھی
بیوی کچن کا رونا روتی مہنگائی کا شکوہ کرتی تو چودھری صاحب کمرے میں دوسرا ایئرکنڈیشنر لگوا دیتے۔ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ اٹھتا تو چودھری صاحب ایک اور خوبصورت کمرہ تعمیر کرا دیتے! صحت کی انشورنس پر بات ہوتی تو کہتے باتھ روم میں شاور ولایتی لگوانا ہے۔ ان پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ گھر ٹاپ کلاس ہونا چاہیے۔ کمرے ایسے ہوں جیسے جادو کے ہوتے ہیں۔ باتھ روم میں داخل ہونے والا ششدر رہ جائے۔ چھت کی طرف دیکھے تو دیکھتا رہ جائے۔ گھر والے صحت تعلیم سکیورٹی اور تربیت کی بات کرتے۔ دو متوازی لکیریں چل رہی تھیں۔ ایک چودھری صاحب کی ایک گھر والوں کی۔ دونوں مل ہی نہیں رہی تھیں۔
دو روز قبل ننکانہ صاحب میں وزیراعظم کی تقریر سن کر بے اختیار چودھری صاحب کے گھر کا قصہ یاد آ گیا۔ کیا ترقی صرف شاہراہوں اور پلوں کا نام ہے؟ وہ جو ماڈرن لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں داڑھی ہے داڑھی میں اسلام نہیں پتہ نہیں کس حد تک صحیح کہتے ہیں مگر اس سے ملتی جلتی بات یہ ہے کہ ترقی میں شاہراہیں اور پل ضرور شامل ہیں! شاہراہوں اورپلوں کا نام ترقی نہیں! جزو کو کُل نہیں کہا جاسکتا! جزو ہی رہتا ہے۔
جتنے ماہرین اقتصادیات گزرے ہیں ماضی سے لے کر حال تک جاپان سے لے کر امریکہ تک ایک نکتے پر سب متفق ہیں کہ ترقی
 (Development) 
ایک 
ایسی صورت حال ہے جس میں بہت سے عوامل یکجا ہونے لازم ہیں! روسٹو کا ترقی کا ماڈل پانچ مراحل 
(Five Stages) 
والا معروف ہے۔ مشہور معیشت دان گنر میرڈل نے ایشین ڈراما لکھ کر اقتصادیات کی دنیا میں تہلکہ برپا کردیا۔ پھر نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر اقتصادیات کوز نیٹ 
(Kuznets) 
نے اکنامک گروتھ اور ماڈرن اکنامک گروتھ کا نظریہ پیش کیا۔ چند سال ہوئے بھارتی معیشت دان امرتیا سین کو نوبل انعام ملا۔ ان سب کے نظریات اپنے اپنے ہیں مگر ایک حقیقت پر اجماع ہے کہ ترقی بہت سے اجزا پر مشتمل ہے۔ انفراسٹرکچر (شاہراہیں ہائی وے موٹروے ریلوے لائنیں ہوائی اڈے) ان اجزا میں سے ایک جزو ہے۔ صرف ایک!
اہم ترین جزو ترقی کا معاشرتی انصاف ہے۔ فی کس شرح آمدنی کا تصور نرا فراڈ ہے۔ اگر چار افراد میں سے ایک کے پاس تین سو روپے ہیں اور تین کے پاس تینتیس تینتیس تو کل آمدنی چار سو روپے ہوئی اور فی کس اوسط آمدنی ایک سو روپے ہوئی! چنانچہ معاشرتی انصاف سوشل جسٹس اور منصفانہ تقسیم وسائل ترقی کا جزو اول ہے۔ پھر افرادی قوت کی ترقی اہم ترین جزو ہے۔ صحت اور تعلیم کے بغیر ہو سکتی تو ترقی بہت آسان ہوتی۔ عمارتیں اور شاہراہیں بنا ڈالیے۔ انسان مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ مگر جن ملکوں کو ترقی یافتہ کہا جاتا ہے ان کی تعلیم اور صحت کے اعداد و شمار دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔ کینیڈا اور آسٹریلیا کا صحت کا نظام جسے میڈی کیئر 
(Medicare)
 کہتے ہیں عجوبے سے کم نہیں! تعلیم کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے!
امن و امان نہیں ہے تو ترقی کیسی؟ ڈاکے ہیں کہ کوئی حصہ ملک کا ان سے محفوظ نہیں! سرمایہ کار بنگلہ دیش بھاگ رہے ہیں اور ملائیشیا اور ویت نام! کارخانے لگانے والوں کو بجلی کی پالیسی کا علم ہی نہیں منصوبہ بندی کر ہی نہیں سکتے۔ ٹریفک کا نظام دیکھیے لگتا ہے یہ دنیا کا پس ماندہ ترین ملک ہے۔ ٹریفک کا کوئی قانون کسی شہر کسی قصبے میں بروئے کار نہیں!
افرادی قوت کی ترقی کا کوئی تصور ہی نہیں! دانش سکولوں کی لہر آئی تھی سستی روٹی سکیم کی طرح اپنے انجام کو پہنچی۔ ہسپتال مذبح خانے ہیں۔ کاٹن اور قینچی تک نہیں! تحصیل سطح کے ہسپتال مرگھٹ لگتے ہیں۔ خالی برآمدوں میں کھڑے لواحقین! سسکیاں لینے کے منتظر! وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کبھی سرکاری سکول کے دورے پر نہیں گئے جن کی چھتیں ہیں نہ دیوار و در!
ترقی میں یہ عامل بھی گنا جاتا ہے کہ پینے کا صاف پانی کتنے لوگوں کو میسر ہے۔ یہاں تو لاکھوں گھروں میں نلکا تک نہیں! تازہ ترین رپورٹ کی رُو سے پاکستان ان دس ملکوں میں شامل ہے جہاں آبادی بہت زیادہ ہے اور 36 فیصد لوگ نلکے کا پانی پیتے ہیں جو پینے کے قابل نہیں۔ ساٹھ فیصد آبادی کے پاس پینے کا صاف پانی موجود نہیں! یہاں ان ہزاروں بستیوں اور قریوں کا ذکر ہی نہیں جہاں رپورٹیں مرتب کرنے والے جاتے ہی نہیں یا نہیں جا سکتے۔ دو دن پہلے ایک اخبار میں تصویر چھپی ہے انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پی رہے 
تھے۔ ترقی کا ایک بہت بڑا نشان دہندہ (Indicator) یہ ہے کہ کتنے لوگ گھروں میں ٹائلٹ کی سہولت رکھتے ہیں؟ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ جسے ہمارے پرنٹ میڈیا نے 12 مارچ 2017ء کو شائع کیا ہے بتاتی ہے کہ ایک چوتھائی آبادی اب بھی پاکستان میں گھروں میں بیت الخلا کی پابندی سے آزاد ہے اور یہ حاجت کھلے میں جا کر پوری کرتی ہے۔ اس سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان میں بچوں کی کوتاہ قدی (قد کا چھوٹا رہ جانا) عام ہے اس کی شرح ہمارے ملک میں 45 فیصد ہے!
اس ملک کے بخت کا اندازہ لگائیے جہاں حکمران ترقی کا مطلب شاہراہوں کی تعمیر سمجھتے ہیں۔ تعلیم کا تصور یہ ہے کہ طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کردیئے جائیں۔ ایسا دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہوا۔ کراچی کے امتحانی مراکز میں نقل جس طرح انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے میڈیا اس کی ایک جھلک دکھا چکا ہے۔ ملک کے باقی حصوں پر قیاس اس سے کر لیجیے۔ پنجاب کے دارالحکومت میں یونیورسٹی کی جو حالت زار ہے ڈھکی چھپی نہیں۔ سیاسی جماعتیں تو اپنی کمین گاہیں یونیورسٹیوں میں بنا ہی چکی تھیں اب لسانی اور علاقائی بنیادوں پر بھی جھگڑے اور جنگیں آغاز ہو چکی ہیں۔ (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
تعلیم کی موت شاید ہی اتنے درد ناک عالم میں کہیں اور واقع ہوئی ہو!
ادارے مستعد اور برق رفتار ادارے ترقی کا ایک اور اہم حصہ ہیں۔ سپریم کورٹ میں دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ سینکڑوں کے حساب سے غیرقانونی عمارتیں رہائش گاہیں اور پلازے بن چکے۔ عمران خان کا تعاقب کرنا پڑا تو یہ اعداد و شمار سامنے آئے۔ مطلب واضح ہے کہ جب یہ عمارات زیر تعمیر تھیں حکومت غائب تھی! دو ہفتوں میں پی آئی اے کو دو بار خاک چاٹنا پڑی۔ ایک پائلٹ جو پہلے پائلٹوں کی یونین (پالیا) کا صدر رہا جہاز کو زیرتربیت پائلٹ کے سپرد کر کے خود اڑھائی گھنٹے بزنس کلاس میں خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا۔ نیویارک پوسٹ نے ساری تفصیل دے کر وزیراعظم کی تشہیر کردہ ترقی کا پردہ چاک کردیا۔ اس پائلٹ کو بھاری معاوضہ صرف اس کام کا ملتا تھا کہ پائلٹوں کو ٹریننگ دے۔ اسلام آباد سے لندن جانے والی اس پرواز میں جہاز کو اس نے زیرتربیت پائلٹ (محمد اسد علی) کے سپرد کیا اور خود نیند کی دیوی سے ہم آغوش ہو گیا۔ نیویارک پوسٹ مزید لکھتا ہے کہ ایئرلائن نے پہلے تو پوری کوشش کی کہ انکوائری کا مسئلہ گول ہو جائے بالآخر دبائو بڑھا تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑا۔ یہ وہی پائلٹ تھا جو پالیا کی صدارت کے دوران کئی بار طویل پروازوں کو مقررہ آرام کیے بغیر اڑاتا رہا اور کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اب ایک اور پائلٹ نے کاک پٹ میں غیر ملکی دوست خاتون کو بٹھائے رکھا۔ اس سے پہلے سات مسافر کھڑے ہو کر سعودی عرب گئے۔ گویا جہاز نہ ہوا ویگن سروس ہوئی۔
ادارے کیوں نہیں کام کرتے؟ سینکڑوں غیر قانونی عمارتیں کیوں کھڑی ہو جاتی ہیں؟ مجوزہ ایئرپورٹ کے اردگرد سینکڑوں غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں کیوں تشکیل پا جاتی ہیں؟ گیس کیوں نہیں ملتی پھر کنکشن فوراً راتوں رات غیر قانونی کیوں مل جاتا ہے؟ بجلی کیوں چوری ہوتی ہے؟ حکومت پاکستان کے دفاتر میں گیارہ بجے تک سناٹا کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ دوست نوازی اور اقربا پروری کا دور ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! دھاندلی اور ظلم کا یہ عالم ہے کہ جس افسر کا نام ماڈل ٹائون چودہ انسانوں کے قتل میں آ رہا تھا اسے بیرون ملک کسی اہل کا حق مار کر سفیر کے طور پر تعینات کردیا گیا اب آڈیٹر جنرل کی اسامی خالی ہوئی ہے تو شنید ہے کہ کسی کا انتظار کیا جارہا ہے۔
انصاف عنقا ہے۔ انصاف ترقی کی اولین شرط ہے۔ انصاف نہ ہو تو ادارے کام نہیں کرتے۔ ادارے کام نہ کریں تو ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ صحت اور تعلیم کو پس پشت ڈال دیا جائے تو ترقی کا گراف اوپر نہیں نیچے کا رخ اختیار کرتا ہے۔ اگر صرف انفراسٹرکچر کا نام ترقی ہوتا تو آج بحرین قطر اور سعودی عرب کا نام کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ کے ساتھ لیا جاتا۔ آج ساری دنیا کی امیگریشن کا رخ آسٹریلیا اور یورپ کی طرف نہ ہوتا۔ انفراسٹرکچر ہی اگر آپ کی منزل ہے تو ست بسم اللہ! مگر خدا کے لیے ترقی کی تعریف تو نہ بدلیے۔ ڈکشنری پر تو ہاتھ صاف نہ کیجیے!

 

powered by worldwanders.com