سر کے اوپر ایک چھلنی لگی ہوئی ہے۔ اور دیوار میں ایک پیچ ہے۔ جہاں اس پیچ
کو پھرایا چھلنی میں سے مینہ برسنا شروع ہوا ۔اس کے نیچے کھڑے ہو کر پھر خوب نہا لیے اور اس کا پیچ بند کر دیا
(بیت الخلا میں) مثل کموڈ کے ایک چیز بنی ہوئی ہے مگر ایک عمدہ بات یہ ہے کہ اس کے پاس ایک برنجی حلقہ لگا ہوا ہے۔ بعد رفعٰ حاجت اس حلقے کو اٹھایا اور کموڈ کے ظرف چینی میں پانی آیا اور سب میلے کو بہا لے گیا اور وہ ظرفِ چینی بالکل صاف ہو گیا
یہ دونوں پیراگراف سرسید احمد خان کی تحریر ہیں۔1869ء میں لندن جانے کے لیے بحری جہاز میں سفر کیا تو یہ دونوں حیرت کدے دیکھے جسے چھلنی کہہ رہے ہیں کہ جس سے پانی بارش کی طرح برستا ہے باتھ روم کا شاور ہے۔ ظرف چینی میں پانی آنے سے مراد کموڈ کو فلش کرنا ہے۔ ظاہر ہے ہندوستانیوں کے لیے یہ دونوں چیزیں نئی تھیں۔ بحری جہاز میں انہوں نے پہلی بار دیکھیں اور ہم وطنوں کو اس حیرت میں شریک کیا۔
وہ 1869ء تھا آج 2017ہے ۔ان ڈیڑھ سو برسوں میں اہل مغرب نے ایجادات اور دریافتیں کر کر کے باقی دنیا کو حیران پریشان کر دیا ہے۔ نامور ادیب ذکاء الرحمن مرحوم سے ایک بار بات ہو رہی تھی کہ بہت سے لوگ ادب میں منہ مارتے ہیں کر کچھ نہیں سکتے مگر کچھ کر لینے والوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ ذکاء الرحمن نے کہا کہ ان کا علاج ایک ہی ہے کہ کتابیں لکھ لکھ کر ان کے سروں پر مارتے رہو۔ اہل مغرب ذکاء الرحمن کی اس تجویز پر پہلے سے عمل کر رہے ہیں۔ ہم مسلمان ان پر تنقید کے نشتر برساتے رہے۔ وہ کام کرتے رہے ۔اکبر الہ آبادی نے سرسید احمد خان کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا کہ ع
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سیّد کام کرتا ہے
ہم باتیں کرتے رہے وہ کام کرتے رہے۔ ریل بنائی۔ ٹیلی گراف اور ٹیلی فون بنایا بائی سائیکل بنائی۔ بزرگ بتاتے تھے کہ ہمارے ہاں سائیکل کو شروع میں لوہے کا گھوڑا کہتے تھے۔ جہاز بنایا جس پر سوار ہو کر ماشاء اللہ مبلغین کے قافلے اطرافِ عالم میں جا رہے ہیں۔متحرک فلم ایجاد کی ریڈیو اور ٹیلی ویژن بنا کر دیا ساری ایجادات اور دریافتوں کا ذکر ایک مختصر مضمون میں ممکن ہی نہیں۔ لائف سیونگ ادویات سے سارا پیش منظر بدل کر رکھ دیا۔ ہمارے حکمرانوں کے شاہی طبیب قوتِ باہ کے نسخے ایجاد کرتے رہے۔ بعض حکمران تو ان عیاشیوں کی بھینٹ چڑھ کر جوانی ہی میں کوچ کر گئے۔ سکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا کی تصنیففرام پلاسی ٹو پاکستان پڑھ کر دیکھیے میر جعفر کے اکثر جانشین عیاشانہ طرزِ زندگی کی بدولت تیس چالیس کے لگ بھگ ہو کردنیا سے کوچ کرتے گئے۔ ان بیماریوں کا علاج اہلِ مغرب نے دنیا کو دیاپنسلین نے انقلاب برپا کر دیا ۔تپ دق قابل علاج ہو گیا انسولین نے ذیابیطس کے مریضوں کی عمریں بڑھا دیں۔ اس کالم نگار نے راچسٹر (منی سوٹا ) کے میو ہسپتال میں وہ مشین دیکھی ہے جس کے ذریعے دنیا کا پہلا بائی پاس کیا گیا پھر پیوند کاری کی جانے لگی۔
مگر انقلابوں کا انقلاب 1990ء میں آیا جب برنرزلی
(Berners-Lee)
نے
World Wide Web)
ایجاد کیا جسے ہم اب ٹرپل ڈبلیو یعنی
www
کہتے ہیں کیا زمانہ تھا کہ کراچی کا اخبار اسلام آباد اور لاہو رمیں سہ پہر کو ملتا تھا اور ہاکر کے انتظار میں ہم جیسے خبطی طالب علم دروازے پر کھڑے رہتے تھے۔ بقول غالب ع
تونے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے
اور کیا وقت ہے کہ صبح بستر پر دراز طلوع آفتاب سے بہت پہلے دنیا بھر کے اخبارات ایک کلک کی بدولت سامنے حاضر ہیں سورہ نحل میں فرمایااور وہ چیزیں پیدا کرتا ہے جو تمہارے علم میں نہیں اہل مغرب نے اس فرمانِ الٰہی کی حقانیت کو ثابت کر دیا اور وہ کچھ ایجاد کیا جو انسان کے وہم و گمان میں نہ تھا۔
سوشل میڈیا پر غور کیجیے ۔ایک زمانہ تھا کہ آمرانہ حکومتیں اخبارات سنسر کرتی تھیں۔ دل جلے ایڈیٹر پورا پورا صفحہ خالی پیش کر دیتے تھے۔ یہ سب ہتھکنڈے ریزہ ریزہ ہو کر خاک میں مل گئے۔ ایس ایم ایس پھر فیس بک اور اب وٹس ایپ نے بے زبان خلقِ خدا کو زبان بخش دی۔ بجا کہ اس میں رطب و یا بس سب کچھ ہے مگر یہ تو پرنٹ میڈیا میں بھی ہے اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی۔ اگرچہ ناگفتنی کا تناسب سوشل میڈیا میں کچھ زیادہ ہے مگر غوطہ لگائیے تو کیسا کیسا گوہر نایاب ہاتھ آتا ہے۔ وہ ٹیلنٹ جو نارسائی کے باعث یا کم ہمتی کے سبب پرنٹ میڈیا تک نہیں پہنچ پاتا تھا سوشل میڈیا میں چمک رہا ہے سوشل میڈیا کو اب صرف وہی لائق التفات نہیں جان رہے جن کے دماغ کی رگیں جامد ہیں ۔واقعہ پیش آتا ہے اور چند لمحوں کے اندر اندر فیس بک ٹوئٹر اور وٹس ایپ کے طفیل چار دانگِ عالم میں پھیل جاتاہے۔ ریاست کی طاقت کبھی کبھی سوشل میڈیا کا مقابلہ کرتی ہے اور کر رہی ہے مگر بہت جلد یہ مقابلہ بھی تھک ہار کر ختم ہو جائے گا ۔یہ سیل رواں ہے۔ خس و خاشاک اس کے سامنے کیا ٹھہریں گے! ہاں یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے عجائب گھر میں گھومنے پھرنے والوں کو نگاہ انتخاب تیز رکھنا پڑے گی۔
یہاں پتھر ہیں اور ہیرے بھی سونا ہے اور راکھ بھی! کچھ دن پہلے سوشل میڈیا کی وسعتوں میں بادیہ پیمائی کر رہا تھا کہ ایک باکمال ٹکڑا نظر آیا ۔ دیکھیے کیا جامعیت ہے!
ہم میں اور اہل مغرب میںکیا فرق ہے؟
ہمارے ہاں امام ضامن ہوتا ہے
ان کے ہاںنظام ضامن ہوتا ہے
ہمارے ہاں سائیں ہوتے ہیں
ان کے ہاںسائنس ہوتی ہے
ان کے ہاں تحقیق ہوتی ہے
ہمارے ہاں تضحیک ہوتی ہے
ان کے ہاں بجلی ہوتی ہے
ہمارے ہاں کھجلی ہوتی ہے
ان کے ہاں آسائش ہوتی ہے
ہمارے ہاں الائش ہوتی ہے
ہمارے ہاں تعداد ہوتی ہے
ان کے ہاں استعداد ہوتی ہے
ان کے ہاں اصل ہوتی ہے
ہمارے ہاں نقل ہوتی ہے
ان کے ہاں عقل کا استعمال ہوتا ہے
ہمارے ہاں مسل کا استعمال ہوتا ہے
وہ شجر کاری کرتے ہیں
ہم کاروکاری کرتے ہیں
وہ لوگ زندگی کو جیتے ہیں
ہم لوگوں کو زندگی جیتی ہے
ان کے ہاں سوال اٹھانا فخر کی بات ہے
ہمارے سوال اٹھانا کفر کی بات ہے
ان کے وزیر اعظم کا گھر کسی ایک گلی میں ہوتا ہے
ہمارے وزیر اعظم کے گھر میں کئی گلیاں ہوتی ہیں
وہ زندگی کو جنگ سمجھتے ہیں
ہم جنگ کو زندگی سمجھتے ہیں
وہ کائنات کو تسخیر کر رہے ہیں
ہم کائنات کو بے توقیر کر رہے ہیں
ان کا ایٹم بم لوگوں کی حفاظت کرتا ہے
ہم خود ایٹم بم کی حفاظت کر رہے ہیں
وہ جدید نصاب بنا رہے ہیں
ہم اپنے نوجوانوں کو قصاب بنا رہے ہیں
وہ تدبّر کرتے ہیں
ہم تکبر کرتے ہیں
وہ زندہ رہنے کے لیے کھاتے ہیں
ہم کھانے کیلئے زندہ رہتے ہیں(بقیہ صفحہ13 پر ملاحظہ کریں)
ہم وسائل کا ضیاع کرتے ہیں
وہ ضیاع سے وسائل پیدا کرتے ہیں
ان کے ہاں امین ہوتے ہیں
ہمارے ہاں کمین ہوتے ہیں
ان کے ہاں انصاف ہوتا ہے
ہمارے ہاں انصاف صاف ہوتا ہے
ان کے ہاں میرٹ کو اہمیت ہے
ہمارے ہاں میریٹ کو اہمیت ہے
وہ حالات سے لڑتے ہیں
ہم آپس میں لڑتے ہیں
ان کے ہاں سائنس دان ہوتے ہیں
ہمارے ہاں حضرت صاحبان ہوتے ہیں
ان کے ہاں سوچ ہوتی ہے
ہمارے ہاں ایک دوسرے کی کھوج ہوتی ہے
ان کے ہاں لوگ کام عبادت کی طرح کرتے ہیں
ہمارے ہاں لوگ عبادت بھی سرکاری کام کی طرح کرتے ہیں
وہ لوگ جفا کش ہوتے ہیں
ہم لوگ وفا کُش ہوتے ہیں
وہ لوگ وطن سے محبت کرتے ہیں
ہم لوگ وطن کی تجارت کرتے ہیں
سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا خیال از کار رفتہ ہو چکا ہے
یو ٹیوب پر ہمارے ہاں قدغن رہی مگر لوگوں نے راستے نکال لیے۔ پابندی یا پکڑ دھکڑ کے بجائے سوشل میڈیا کا علاج سوشل میڈیا ہی سے کرنا ہو گا۔ اس لیے کہ ہونٹوں کو سی دیا جائے اور قلم کی نوک کاٹ دی جائے تو ع
دل کی باتیں کہہ لینے کے پھر بھی لاکھ وسیلے ہیں
پہیا الٹا نہیں چل سکتا۔ میدان حاضر ہے اس میں اپنا گھوڑا لائیے جو گھوڑے میدان میں موجود ہیں ان کے پیروں میں رسی نہ ڈالیے
No comments:
Post a Comment