Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, May 29, 2017

جھوٹ!جھوٹ!جھوٹ


میز پر گلاس پڑا ہے۔ آپ پوچھتے ہیں یہ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں۔ پیالی ہے۔ یہ کہتے ہوئے میں آنکھ تک نہیں جھپکتا۔ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گلاس کو پیالی کا نام دیتا ہوں۔
یہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کا رویہ ہے۔ جھوٹ!جھوٹ! ہر معاملے میں جھوٹ! تعجب ہے یہ قوم صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کو جھوٹا کہتی ہے۔ دکاندار جھوٹ بولتا ہے۔ سفید جھوٹ! یہ تو ہماری خرید ہے۔ لے جائیے‘ اس مال کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ گارنٹی ہے۔ جب آپ تحریری گارنٹی مانگتے ہیں تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتا ہے۔ ماں باپ بچوں سے ‘ بچے ماں باپ سے‘ بیوی میاںسے‘ شوہر بیوی سے ‘ ملازم مالک سے‘ مالک ملازم سے ‘ اہلکار افسر سے‘ افسر اپنے سے سینئر افسر سے‘ ہر شخص ہر جگہ ہر وقت جھوٹ بول رہا ہے۔ مقررہ وقت پر نہ پہنچنا اور گھر بیٹھے ہوئے یہ کہنا کہ میں راستے میں ہوں۔ عام ہے‘ اس سب کچھ کے باوجود نمازیں روزے صدقے خیرات حج عمرے سب چل رہے ہیں۔ ساتھ پوری دنیا پر سازشی ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔
بھارتی عورت ڈاکٹر عظمیٰ نے بھارت واپس جا کر میڈیا پر جو یاوہ گوئی پاکستان کے بارے میں کی ہے اور جسے اب بھارتی میڈیا خوب خوب اچھا رہا ہے‘ اس کی تہہ میں غور فرمائیے‘ تو ہماری یہ جھوٹ بولنے کی بیماری ہی تو ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستانی وکیل پاکستانی جج اور پاکستانی حکومت کی تعریف کی مگر جو کہلوانا تھا‘ عظمیٰ سے کہلوا دیا۔ ’’پاکستان موت کا کنواں ہے۔ وہاں جانا آسان ہے مگر لوٹنا مشکل ہے۔ کتنی ہی عورتیں وہاں پھنسی ہوئی ہیں‘ وہاں عورتوں کا تو کیا‘ مردوں کا بچنا مشکل ہے‘ وغیرہ وغیرہ‘‘
اُس سے کسی نے پوچھا نہ اس نے خود بتایا کہ آخر وہ پاکستان گئی کیوں؟ اس کا یہ کہنا کہ گھومنے گئی تھی‘ سفید جھوٹ لگتا ہے۔ قرین قیاس قصہ یہ لگتا ہے کہ ملائشیا میں عظمیٰ اور پاکستانی مرد کی ملاقات ہوئی معاملہ ملاقات سے بڑھا عہدو پیمان ہوئے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ پاکستان پہنچی۔ مرد نے اس کا استقبال کیا۔ شادی ہوئی اور شادی کے بعد عورت کو معلوم ہوا کہ یہ تو پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے چار بچے بھی ہیں۔ یہاں سے معاملہ بگڑا ہو گا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ ہر کوئی جانتا ہے!
بیرون ملک پاکستانی مردوں کی شہرت شادیوں کے ضمن میں ہمیشہ سے ناقابلِ اعتبار رہی ہے ایک زمانہ تھا امریکہ میں کاغذی شادیوں کا رواج چلا۔ شہریت حاصل کرنے کے لیے جعلی شادی! کسی مقامی عورت کو کچھ رقم دی‘ وقتی طور پر بیوی بنی۔ شہریت مل گئی تو شادی ختم! چلیے یہ تو ایک قانونی مجبوری تھی۔ کچھ نہ کچھ جواز اس کا دیا جا سکتا ہے اگرچہ مکمل جعل سازی ہے۔ مگر اس کے علاوہ اندرون ملک ‘ بیرون ملک ہر جگہ شادیوں کے گرد جھوٹ کا تانا بانا بُنا جاتا ہے۔ ولایت میں شادی کی ہوئی ہوتی ہے مگر پاکستان میں ماں باپ کو علم ہی نہیں ہوتا۔ مرد سماجی دبائو کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔ ایک اور شادی ماں باپ کو خوش کرنے کے لیے کر لیتا ہے یا پہلے سے  پاکستان میں شادی کی ہوئی ہے تو ولایت کسی سفید فام عورت سے۔ اپنے آپ کو کنوارا کہہ کر‘ ایک اور شادی کر لیتا ہے۔ سفید فام عورتوں سے کی ہوئی شادیاں اکثر و بیشتر دیرپا نہیں ثابت ہوتیں۔
کتنے ہی واقعات ایسے پیش آئے کہ پاکستان سے آئی ہوئی بیوی بیرون ملک آ کر دیکھتی ہے کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ پاکستان میں اسے کچھ اور بتایا گیا تھا کچھ عرصہ وہ جبر اور ظلم برداشت کرتی ہے۔ پھر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں اس کے باقاعدہ حقوق ہیں۔ کوئی نہ کوئی ہمدرد اسے راستہ دکھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ پاکستان نہیں ہے۔کینیڈا یا برطانیہ ہے۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے اور مرد سے چھٹکارا پاتی ہے۔ معاشرہ اور قانون اس کی حفاظت کرتے ہیں اور کفالت بھی!
پاکستانیوں کی بیٹیاں جب بیرون ملک بڑی ہوتی ہیں تو ماں باپ پر اچانک یہ راز کھلتا ہے کہ یہ معاشرہ تو بے حیا اور غیر اسلامی ہے اور جوان بیٹیوں کے لیے از حد نامناسب! مگر دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ روک ٹوک کا نتیجہ مثبت نہیں نکلتا ۔ اب یہ ایک اور تدبیر سوچتے ہیں۔ سیرو تفریح اور عزیز و اقارب سے ملاقات کے بہانے اسے پاکستان لاتے ہیں۔ ایک کزن شادی کے لیے ہمیشہ تیار ملتا ہے لڑکی کو پہلے شک ہوتا ہے پھر یقین۔ وہ احتجاج کرتی ہے۔ ایسے ہی کیس ہوتے ہیں جب لڑکی ‘ اپنی بیرونی شہریت کو بروئے کار لاتے ہوئے’’اپنے‘‘ سفارت خانے سے رابطہ کرتی ہے‘ اور حفاظت کی درخواست کرتی ہے ماضی قریب اور بعید میں غیر ملکی سفارت خانوں نے پاکستان میں پھنسی ہوئی ایسی کتنی ہی لڑکیوں کو زبردستی کی شادی سے بچا کر واپس مغربی ملکوں میں بھیجا ہے۔ جھوٹ بولنے والے والدین نے منہ کی کھائی ہے اور سماج میں باقی ساری زندگی منہ چھپاتے ہوئے شرمندگی سے گزاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بیرون ملک ہجرت کرتے وقت اور بستے وقت آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ اپنی جوانی جس معاشرے میں رنگ رلیاں کرتے گزرتی ہے‘ بیٹی کے جوان ہوتے ہی وہ معاشرہ زہر لگنے لگتا ہے۔ یہ بات جاننے میں کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے کہ بچے جس معاشرے میں پرورش پائیں گے اس سے متاثر ہوں گے اور اسی رنگ میں رنگے جائیں گے؟
ہم پاکستانی اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پاتے کہ جھوٹ کسی صورت میں بھی چھپتا نہیں۔ دیر سے سہی‘ ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ناجائز تعلقات اور ناجائز آمدنی چھپائے سے نہیں چھپتی‘ مگر یہ آدھا سچ ہے پورا سچ یہ ہے کہ جھوٹ کوئی بھی ہو‘ کسی بھی معاملے میں ہو‘ کسی بھی سائز یا حجم کا ہو‘ کبھی نہیں چھپتا۔ سعدی نے کہا تھا کہ ’’دروغِ مصلحت آمیزبہ از راستیٔ فتنہ انگیز‘‘ کو فتنہ اور شر پھیلانے والے سچ سے ‘ فائدہ پہنچانے والا جھوٹ بہتر ہے۔ مگر یہ تو ایک استثنا ہے۔ جیسے کسی بے گناہ کی جان بچانے کے لیے یا دو ناراض دوستوں یا میاں بیوی کو ایک دوسرے سے نزدیک کرنے کے لیے!
ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ بسا اوقات جھوٹ بولتے ہیں اور اس جھوٹ سے فائدہ بھی نہیں ہوتا! اس کالم نگار کے گھر میں ایک متشرع شکل و صورت کا ترکھان کام کر رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا میں راستے میں ہوں، مگر موٹر سائیکل خراب ہو گئی ہے‘ اس سے کہا صاف بتا دیتے کہ کہیں اور کام کر رہا ہوں کل آ جائوں گا۔ کچھ سوچ کر کہنے لگا بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر اب ’’رواج‘‘ یہی چل نکلا ہے!
مومن کی شناخت اس کی عبادت نہیں‘ اس کے معاملات ہیں! ہم پاکستانی معاملات کے ضمن میں بدنام ہیں۔ یہ بدنامی بلا وجہ نہیں ! دو برائیاں اس قدر عام ہیں کہ سوچیے تو وحشت ہوتی ہے۔ جھوٹ اور وعدہ خلافی! باقی جتنی برائیاں ہیں‘ انہی دوسے نکل رہی ہیں ۔ خراب شے کو صحیح ثابت کر کے بیچنے کے لیے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ رشتہ طے کرتے وقت ایک طرف لڑکی والے دوسری طرف لڑکے والے‘ بہت سی ایسی حقیقتوں کو چھپاتے ہیں جو کبھی چھپ ہی نہیں سکتیں اور ظاہر ہو کر رہتی ہیں! اس وقت دونوں فریق یا تو ڈھیٹ بن جاتے ہیں یا معافی مانگنے اور پائوں پکڑنے پرآ جاتے ہیں۔ مکان کرایہ پر چڑھاتے وقت مالک مکان جھوٹ بولتا ہے، کرایہ دار بھی کم نہیں! صرف میاں بیوی کے بجائے تین تین خاندان آ بستے ہیں۔ مکان کا ستیا ناس ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف مالک مکان نے ایڈوانس لیتے وقت جو جو چیزیں ٹھیک کرانے کا وعدہ کیا تھا‘ ان میں سے ایک بھی ٹھیک نہیں کراتا!
سارا نظام سارا کارخانہ ‘ سارا سلسلہ‘ سارا سیٹ اپ ‘ جھوٹ پر چل رہا ہے۔ ایسے میں سچ بولنے والے حکمران کہاں سے آئیں گے!!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com