Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, May 13, 2017

ڈکشنری پر تو ہاتھ صاف نہ کیجیے


گھر بہت اچھا تھا۔ کمرے لائونج رسوئی اور باتھ روم! عمدہ ٹائلیں لگی تھیں۔ دیواریں براق کی طرح سفید! چھتوں پر عمدہ کام! دروازے خالص لکڑی کے اور کیا چاہیے تھا!
مگر گھر والوں کو کچھ اور بھی چاہیے تھا ؎
بھرا نہ اطلس و مر مر سے پیٹ خلقت کا
یہ بدنہاد اب آب و گیاہ مانگتی تھی
بیوی کچن کا رونا روتی مہنگائی کا شکوہ کرتی تو چودھری صاحب کمرے میں دوسرا ایئرکنڈیشنر لگوا دیتے۔ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ اٹھتا تو چودھری صاحب ایک اور خوبصورت کمرہ تعمیر کرا دیتے! صحت کی انشورنس پر بات ہوتی تو کہتے باتھ روم میں شاور ولایتی لگوانا ہے۔ ان پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ گھر ٹاپ کلاس ہونا چاہیے۔ کمرے ایسے ہوں جیسے جادو کے ہوتے ہیں۔ باتھ روم میں داخل ہونے والا ششدر رہ جائے۔ چھت کی طرف دیکھے تو دیکھتا رہ جائے۔ گھر والے صحت تعلیم سکیورٹی اور تربیت کی بات کرتے۔ دو متوازی لکیریں چل رہی تھیں۔ ایک چودھری صاحب کی ایک گھر والوں کی۔ دونوں مل ہی نہیں رہی تھیں۔
دو روز قبل ننکانہ صاحب میں وزیراعظم کی تقریر سن کر بے اختیار چودھری صاحب کے گھر کا قصہ یاد آ گیا۔ کیا ترقی صرف شاہراہوں اور پلوں کا نام ہے؟ وہ جو ماڈرن لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں داڑھی ہے داڑھی میں اسلام نہیں پتہ نہیں کس حد تک صحیح کہتے ہیں مگر اس سے ملتی جلتی بات یہ ہے کہ ترقی میں شاہراہیں اور پل ضرور شامل ہیں! شاہراہوں اورپلوں کا نام ترقی نہیں! جزو کو کُل نہیں کہا جاسکتا! جزو ہی رہتا ہے۔
جتنے ماہرین اقتصادیات گزرے ہیں ماضی سے لے کر حال تک جاپان سے لے کر امریکہ تک ایک نکتے پر سب متفق ہیں کہ ترقی
 (Development) 
ایک 
ایسی صورت حال ہے جس میں بہت سے عوامل یکجا ہونے لازم ہیں! روسٹو کا ترقی کا ماڈل پانچ مراحل 
(Five Stages) 
والا معروف ہے۔ مشہور معیشت دان گنر میرڈل نے ایشین ڈراما لکھ کر اقتصادیات کی دنیا میں تہلکہ برپا کردیا۔ پھر نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر اقتصادیات کوز نیٹ 
(Kuznets) 
نے اکنامک گروتھ اور ماڈرن اکنامک گروتھ کا نظریہ پیش کیا۔ چند سال ہوئے بھارتی معیشت دان امرتیا سین کو نوبل انعام ملا۔ ان سب کے نظریات اپنے اپنے ہیں مگر ایک حقیقت پر اجماع ہے کہ ترقی بہت سے اجزا پر مشتمل ہے۔ انفراسٹرکچر (شاہراہیں ہائی وے موٹروے ریلوے لائنیں ہوائی اڈے) ان اجزا میں سے ایک جزو ہے۔ صرف ایک!
اہم ترین جزو ترقی کا معاشرتی انصاف ہے۔ فی کس شرح آمدنی کا تصور نرا فراڈ ہے۔ اگر چار افراد میں سے ایک کے پاس تین سو روپے ہیں اور تین کے پاس تینتیس تینتیس تو کل آمدنی چار سو روپے ہوئی اور فی کس اوسط آمدنی ایک سو روپے ہوئی! چنانچہ معاشرتی انصاف سوشل جسٹس اور منصفانہ تقسیم وسائل ترقی کا جزو اول ہے۔ پھر افرادی قوت کی ترقی اہم ترین جزو ہے۔ صحت اور تعلیم کے بغیر ہو سکتی تو ترقی بہت آسان ہوتی۔ عمارتیں اور شاہراہیں بنا ڈالیے۔ انسان مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ مگر جن ملکوں کو ترقی یافتہ کہا جاتا ہے ان کی تعلیم اور صحت کے اعداد و شمار دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔ کینیڈا اور آسٹریلیا کا صحت کا نظام جسے میڈی کیئر 
(Medicare)
 کہتے ہیں عجوبے سے کم نہیں! تعلیم کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے!
امن و امان نہیں ہے تو ترقی کیسی؟ ڈاکے ہیں کہ کوئی حصہ ملک کا ان سے محفوظ نہیں! سرمایہ کار بنگلہ دیش بھاگ رہے ہیں اور ملائیشیا اور ویت نام! کارخانے لگانے والوں کو بجلی کی پالیسی کا علم ہی نہیں منصوبہ بندی کر ہی نہیں سکتے۔ ٹریفک کا نظام دیکھیے لگتا ہے یہ دنیا کا پس ماندہ ترین ملک ہے۔ ٹریفک کا کوئی قانون کسی شہر کسی قصبے میں بروئے کار نہیں!
افرادی قوت کی ترقی کا کوئی تصور ہی نہیں! دانش سکولوں کی لہر آئی تھی سستی روٹی سکیم کی طرح اپنے انجام کو پہنچی۔ ہسپتال مذبح خانے ہیں۔ کاٹن اور قینچی تک نہیں! تحصیل سطح کے ہسپتال مرگھٹ لگتے ہیں۔ خالی برآمدوں میں کھڑے لواحقین! سسکیاں لینے کے منتظر! وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کبھی سرکاری سکول کے دورے پر نہیں گئے جن کی چھتیں ہیں نہ دیوار و در!
ترقی میں یہ عامل بھی گنا جاتا ہے کہ پینے کا صاف پانی کتنے لوگوں کو میسر ہے۔ یہاں تو لاکھوں گھروں میں نلکا تک نہیں! تازہ ترین رپورٹ کی رُو سے پاکستان ان دس ملکوں میں شامل ہے جہاں آبادی بہت زیادہ ہے اور 36 فیصد لوگ نلکے کا پانی پیتے ہیں جو پینے کے قابل نہیں۔ ساٹھ فیصد آبادی کے پاس پینے کا صاف پانی موجود نہیں! یہاں ان ہزاروں بستیوں اور قریوں کا ذکر ہی نہیں جہاں رپورٹیں مرتب کرنے والے جاتے ہی نہیں یا نہیں جا سکتے۔ دو دن پہلے ایک اخبار میں تصویر چھپی ہے انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پی رہے 
تھے۔ ترقی کا ایک بہت بڑا نشان دہندہ (Indicator) یہ ہے کہ کتنے لوگ گھروں میں ٹائلٹ کی سہولت رکھتے ہیں؟ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ جسے ہمارے پرنٹ میڈیا نے 12 مارچ 2017ء کو شائع کیا ہے بتاتی ہے کہ ایک چوتھائی آبادی اب بھی پاکستان میں گھروں میں بیت الخلا کی پابندی سے آزاد ہے اور یہ حاجت کھلے میں جا کر پوری کرتی ہے۔ اس سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان میں بچوں کی کوتاہ قدی (قد کا چھوٹا رہ جانا) عام ہے اس کی شرح ہمارے ملک میں 45 فیصد ہے!
اس ملک کے بخت کا اندازہ لگائیے جہاں حکمران ترقی کا مطلب شاہراہوں کی تعمیر سمجھتے ہیں۔ تعلیم کا تصور یہ ہے کہ طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کردیئے جائیں۔ ایسا دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں نہیں ہوا۔ کراچی کے امتحانی مراکز میں نقل جس طرح انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے میڈیا اس کی ایک جھلک دکھا چکا ہے۔ ملک کے باقی حصوں پر قیاس اس سے کر لیجیے۔ پنجاب کے دارالحکومت میں یونیورسٹی کی جو حالت زار ہے ڈھکی چھپی نہیں۔ سیاسی جماعتیں تو اپنی کمین گاہیں یونیورسٹیوں میں بنا ہی چکی تھیں اب لسانی اور علاقائی بنیادوں پر بھی جھگڑے اور جنگیں آغاز ہو چکی ہیں۔ (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
تعلیم کی موت شاید ہی اتنے درد ناک عالم میں کہیں اور واقع ہوئی ہو!
ادارے مستعد اور برق رفتار ادارے ترقی کا ایک اور اہم حصہ ہیں۔ سپریم کورٹ میں دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ سینکڑوں کے حساب سے غیرقانونی عمارتیں رہائش گاہیں اور پلازے بن چکے۔ عمران خان کا تعاقب کرنا پڑا تو یہ اعداد و شمار سامنے آئے۔ مطلب واضح ہے کہ جب یہ عمارات زیر تعمیر تھیں حکومت غائب تھی! دو ہفتوں میں پی آئی اے کو دو بار خاک چاٹنا پڑی۔ ایک پائلٹ جو پہلے پائلٹوں کی یونین (پالیا) کا صدر رہا جہاز کو زیرتربیت پائلٹ کے سپرد کر کے خود اڑھائی گھنٹے بزنس کلاس میں خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا۔ نیویارک پوسٹ نے ساری تفصیل دے کر وزیراعظم کی تشہیر کردہ ترقی کا پردہ چاک کردیا۔ اس پائلٹ کو بھاری معاوضہ صرف اس کام کا ملتا تھا کہ پائلٹوں کو ٹریننگ دے۔ اسلام آباد سے لندن جانے والی اس پرواز میں جہاز کو اس نے زیرتربیت پائلٹ (محمد اسد علی) کے سپرد کیا اور خود نیند کی دیوی سے ہم آغوش ہو گیا۔ نیویارک پوسٹ مزید لکھتا ہے کہ ایئرلائن نے پہلے تو پوری کوشش کی کہ انکوائری کا مسئلہ گول ہو جائے بالآخر دبائو بڑھا تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑا۔ یہ وہی پائلٹ تھا جو پالیا کی صدارت کے دوران کئی بار طویل پروازوں کو مقررہ آرام کیے بغیر اڑاتا رہا اور کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اب ایک اور پائلٹ نے کاک پٹ میں غیر ملکی دوست خاتون کو بٹھائے رکھا۔ اس سے پہلے سات مسافر کھڑے ہو کر سعودی عرب گئے۔ گویا جہاز نہ ہوا ویگن سروس ہوئی۔
ادارے کیوں نہیں کام کرتے؟ سینکڑوں غیر قانونی عمارتیں کیوں کھڑی ہو جاتی ہیں؟ مجوزہ ایئرپورٹ کے اردگرد سینکڑوں غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں کیوں تشکیل پا جاتی ہیں؟ گیس کیوں نہیں ملتی پھر کنکشن فوراً راتوں رات غیر قانونی کیوں مل جاتا ہے؟ بجلی کیوں چوری ہوتی ہے؟ حکومت پاکستان کے دفاتر میں گیارہ بجے تک سناٹا کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ دوست نوازی اور اقربا پروری کا دور ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! دھاندلی اور ظلم کا یہ عالم ہے کہ جس افسر کا نام ماڈل ٹائون چودہ انسانوں کے قتل میں آ رہا تھا اسے بیرون ملک کسی اہل کا حق مار کر سفیر کے طور پر تعینات کردیا گیا اب آڈیٹر جنرل کی اسامی خالی ہوئی ہے تو شنید ہے کہ کسی کا انتظار کیا جارہا ہے۔
انصاف عنقا ہے۔ انصاف ترقی کی اولین شرط ہے۔ انصاف نہ ہو تو ادارے کام نہیں کرتے۔ ادارے کام نہ کریں تو ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ صحت اور تعلیم کو پس پشت ڈال دیا جائے تو ترقی کا گراف اوپر نہیں نیچے کا رخ اختیار کرتا ہے۔ اگر صرف انفراسٹرکچر کا نام ترقی ہوتا تو آج بحرین قطر اور سعودی عرب کا نام کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ کے ساتھ لیا جاتا۔ آج ساری دنیا کی امیگریشن کا رخ آسٹریلیا اور یورپ کی طرف نہ ہوتا۔ انفراسٹرکچر ہی اگر آپ کی منزل ہے تو ست بسم اللہ! مگر خدا کے لیے ترقی کی تعریف تو نہ بدلیے۔ ڈکشنری پر تو ہاتھ صاف نہ کیجیے!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com