Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, May 24, 2017

ہلاکو خان بطور مہمان خصوصی


مبارک ہو! مبارک ہو! عالم اسلام کو لاکھ لاکھ مبارک ہو کہ اسلامی ملکوں کے 
سربراہی اجلاس میں ہلاکو خان مہمان خصوصی تھا! دجلہ کا پانی جس نے سرخ کیا۔ عراق کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جس نے کارپٹ بمباری کی! عراق کو حصوں بخروں میں بانٹ کر مستقل خانہ جنگی کی دہکتی آگ میں دھکیلا اور اسرائیل کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے والے صدام حسین کے ساتھ وہی سلوک کیا جو سینکڑوں سال پہلے عباسی خلیفہ کے ساتھ چنگیز خان کے پوتے نے کیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ عباسی خلیفہ نام کا خلیفہ تھا جبکہ صدام حسین نے عراق کو اسرائیل کے مقابلے میں مجتمع کر کے رکھا ہوا تھا! اسی امریکہ کو‘ جو بغداد کے لیے ایک اور ہلاکو خان ثابت ہوا‘ عالم اسلام کی کانفرنس نے مہمان خصوصی کا اعزاز بخشا!
مبارک ہو! مبارک ہو! اے مسلمانان عالم تمہیں بہت بہت مبارک ہو! جس امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ کوئی شاہراہ چھوڑی نہ پل‘ جس کے سپاہیوں نے گھروں میں گھس گھس کر افغانوں کی بے حرمتی کی‘ جس نے افغانوں کی دو نسلوں کو در بدر کیا‘ اس کا لیکچر اور وہ بھی دہشت گردی کے خلاف‘ اسی افغانستان کے صدر نے ریاض میں سر جھکا کر‘ آنکھیں نیچی کر کے‘ تالیاں بجا کر‘ ہونٹوں پر مسکراہٹ کی لپ سٹک لگا کر اور رخساروں پر فرماں برداری کا غازہ مل کر سنا!
دہقان و کشت و جُو و خیاباں فروختند
قومی فروختند و چہ ارزاں فروختند
قوم بیچی مگر کتنی سستی! کتنی ارزاں! کوڑیوں کے مول!
امریکی تاریخ میں سب سے بڑا تجارتی معاہدہ اسی کانفرنس کے دوران ہوا۔ ایک سو دس ارب ڈالر کا آرڈر امریکہ کو ملا۔ اس کی فیکٹریوں کی لاٹری نکل آئی ہے۔ لاکھوں امریکیوں کو روزگار ملے گا۔ اسلحہ تیار ہوگا۔ پھر یہ اسلحہ سعودی عرب کو فروخت کیا جائے گا۔ مصر کے صدر نے ٹرمپ کو ’’منفرد شخصیت‘‘ قرار دیا 
اور کہا کہ وہ ’’ناممکن کو ممکن بنا دینے والا شخص ہے۔‘‘ ٹرمپ نے اس کا برجستہ جواب دیا کہ ہاں میں متفق ہوں! مسلمان ملکوں کے سربراہان نے ٹرمپ سے ملاقات کر کے اطمینان و مسرت محسوس کی! اس سے برصغیر پاک و ہند کے وہ ٹوڈی وڈیرے اور گدی نشین یاد آتے ہیں جو عید مبارک کہنے ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر جاتے تھے اور اندر سے عید مبارک کا پیغام وصول کرنے پر ایک دوسرے سے گلے ملتے تھے۔ کیا عجب ٹرمپ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے بعد یہ مسلمان حکمران بھی ایک دوسرے سے گلے ملے ہوں اور ایک دوسرے کو اس شرفیابی پر مبارک دی ہو!
مبارک ہو! پاکستانی وزیراعظم نے اس کانفرنس میں شامل ہو کر ملک کی عزت و وقار میں بے پایاں اضافہ کیا۔ ’’عالمی مرکز برائے انسداد انتہا پسندی‘‘ (گلوبل سنٹر فار کمبیٹنگ ایکسٹریمزم) کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ تقریر کا موقع نہ دیا گیا۔ افتتاحی تقریر میں میزبان بادشاہ نے پاکستان کا نام تک نہ لیا۔ ٹرمپ نے بھارت کا ذکر ان ملکوں کے ساتھ کیا جو دہشت گردی کا شکار رہے۔ پاکستان‘ جس نے دہشت گردی کے سب سے زیادہ وار سہے‘ ہزاروں جانیں قربان کیں‘ اس کا ذکر تک نہ کیا گیا۔ ٹرمپ نے کہا :
The nations of Europe have also endured unspeakable horror. So too have the nations of Africa and even South America, India, Russia, China and Australia have been victims.
’’پوری اقوام بھی ناقابل بیان خوف سے گزری ہیں۔ افریقی قوم بھی یہاں تک کہ جنوبی امریکہ بھی! بھارت‘ روس‘ چین اور آسٹریلیا بھی (دہشت گردی کا) شکار رہے!‘‘
اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ منتظمین سے اصرار کر کے پانچ منٹ کا وقت لیتے اور سٹیج پر جا کر وضاحت کرتے کہ پاکستان تو دہشت گردی کے ساتھ لڑائی میں فرنٹ پر رہا۔ سب سے زیادہ قربانیاں دیں! یہ نہ کر سکے تو پریس سے رابطہ کرتے۔ میزبان ملک کو اپنا ’’عدم اطمینان‘‘ باور کراتے! کیا ہو جاتا؟ کیا انہیں وہاں سے نکال دیا جاتا؟ ہرگز نہیں!
 تو کیا وزیراعظم کو پہلے سے معلوم نہ تھا کہ وہ خطاب نہ کرسکیں گے؟ یا میزبان بادشاہ کی تقریر میں پاکستان کا ذکر تک نہیں؟ اگر کوئی وزیر خارجہ ہوتا تو وہ اپنے وفد کے ساتھ کئی دن پہلے ریاض میں جا کر ڈیرہ لگا لیتا! سفارتی سطح پر سرگرمی دکھاتا۔ اس امر کو یقینی بناتا کہ وزیراعظم کو خطاب کی دعوت دی جائے گی۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو میزبان حکمران کی افتتاحی تقریر میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر ضرور کیا جائے گا۔ وزیر خارجہ تو وزیراعظم خود ہیں۔ جن دانشوروں نے ہر قیمت پر حکومت وقت کی موافقت کا تہیہ کیا ہوا ہے‘ وہ روا روی میں کہتے ہیں کہ وزیر خارجہ ہوتا تب بھی یہی حال ہوتا! گویا ساری دنیا نے وزراء خارجہ تعینات کر کے بیکار کام کیا ہوا ہے! صرف پاکستان ہی یہ پوسٹ بظاہر ختم کر کے بچت کر رہا ہے! سبحان اللہ!!
وزیراعظم نے اس کانفرنس میں بنفس نفیس شرکت کر 
کے پاکستان کو کھلم کھلا اس اتحاد کے ساتھ نتھی کرلیا ہے جو ایران کے خلاف ہے۔ 
اگر ترکی اور مراکش کے سربراہ شریک نہ ہوتے ہوئے اپنے نمائندے بھیج سکتے تھے تو پاکستان بھی ایسا کرسکتا تھا۔ سوڈان اس لیے شریک نہ ہوا کہ ریاض میں واقع امریکی سفارت خانے نے سوڈان کی شرکت پر اعتراض کیا تھا جس کے بعد سوڈان نے شامل ہونے سے انکار کردیا۔
ترکی کی طرح پاکستان کی پوزیشن ایران کے حوالے سے وہ نہیں جو انڈونیشیا یا بنگلہ دیش یا مصر یا برونائی کی ہے! پاکستان نے تنی ہوئی رسی پر چلنا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔ سعودی عرب نے اگر ایران کے خلاف مسلمان ملکوں کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے تو اس کی اپنی وجوہ ہیں۔ ان وجوہ کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہوتا۔ ایران مغرب کی طرف توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے۔ ایرانی انقلاب کی 36 ویں سالگرہ پر ’’قدوس فورس‘‘ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے کہا کہ ’’ہم پورے خطے میں اسلامی انقلاب برآمد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بحرین اور عراق سے لے کر شام‘ یمن اور شمالی افریقہ تک!‘‘
ایران کے اس رویے اور ان عزائم کے پیش نظر عرب ملکوں کا ایران کے خلاف اتحاد فطری اور قدرتی ردعمل ہے مگر پاکستان کی عافیت اس اتحاد سے دور رہنے میں ہے۔ یہ عربوں اور ایرانیوں کی باہمی مخاصمت ہے اور یہ آج سے نہیں صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ شاہ عباس صفوی نے ایران کو مسلکی حوالے سے تبدیل کردیا اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف یورپی طاقتوں سے زبردست سفارت کاری کی! اس پس منظر کے باوجود ترکی نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانفرنس میں حکومت کا سربراہ نہیں‘ بلکہ وزیر خارجہ بھیجا۔
ہم خطے میں پہلے ہی ایک ناقابل رشک صورت حال سے دوچار ہیں۔ بھارت کے ساتھ روز اول سے دشمنی ہے۔ افغانستان کے بارڈر سے ہم پر حملے ہورہے ہیں۔ اگر ایران کے معاملے میں ہم عربوں کے ساتھ ہو گئے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ایران کا بارڈر پاکستان کے ساتھ مشترک ہے‘ عربوں کے ساتھ نہیں!
غیر جانب دار رہنا ناممکن نہیں!
کینیڈا امریکہ کا پڑوسی ہونے کے باوجود عالمی پیش منظر پر ہمیشہ غیر جانب دار رہا۔ سوئٹزرلینڈ یورپ کے درمیان میں ہے‘ اس کے باوجود غیر جانب دار رہا۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ یہ حقیقت پاکستان کے چہرے پر لکھی ہوئی صاف پڑھی جا سکتی ہے کہ موجودہ قیادت کو خارجہ امور کا ادراک ہے نہ حساسیت کا احساس! ان کی ترجیحات اور ہیں! ابھی جندال اور کلبھوشن کا دھچکا پرانا نہیں ہوا تھا کہ ریاض کانفرنس نے ایک اور ناکامی کا پَر ہماری ٹوپی پر لگا دیا ہے!
کے باوجود ترکی نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانفرنس میں حکومت کا سربراہ نہیں‘ بلکہ وزیر خارجہ بھیجا۔
ہم خطے میں پہلے ہی ایک ناقابل رشک صورت حال سے دوچار ہیں۔ بھارت کے ساتھ روز اول سے دشمنی ہے۔ افغانستان کے بارڈر سے ہم پر حملے ہورہے ہیں۔ اگر ایران کے معاملے میں ہم عربوں کے ساتھ ہو گئے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ایران کا بارڈر پاکستان کے ساتھ مشترک ہے‘ عربوں کے ساتھ نہیں!
غیر جانب دار رہنا ناممکن نہیں!
کینیڈا امریکہ کا پڑوسی ہونے کے باوجود عالمی پیش منظر پر ہمیشہ غیر جانب دار رہا۔ سوئٹزرلینڈ یورپ کے درمیان میں ہے‘ اس کے باوجود غیر جانب دار رہا۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ یہ حقیقت پاکستان کے چہرے پر لکھی ہوئی صاف پڑھی جا سکتی ہے کہ موجودہ قیادت کو خارجہ امور کا ادراک ہے نہ حساسیت کا احساس! ان کی ترجیحات اور ہیں! ابھی جندال اور کلبھوشن کا دھچکا پرانا نہیں ہوا تھا کہ ریاض کانفرنس نے ایک اور ناکامی کا پَر ہماری ٹوپی پر لگا دیا ہے!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com