یہ ایک خوبصورت وال کلاک تھا جو گھر والی کو پسند آیا۔ سنہری حروف پر موٹی
موٹی سفید سوئیاں! پنڈولم بھی تھا جو باقاعدہ دائیں سے بائیں اور پھر بائیں سے دائیں جاتا تھا۔ کیوں نہ یہ میں اپنی چینی سہیلی کے لیے لے جائوں اس نے کہا اور وہ پھر ہم نے لے لیا۔
بیرون ملک پہنچے تو دوسرے دن ہی ہمارے چینی دوست ملنے آ گئے۔ یہ مشرقی روایت ان لوگوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ ملنے آنا دعوت پر مدعو کرنا سفر پر جانا ہو تو رخصت کرنا۔ دستر خوان ان کا وسیع ہوتا ہے۔ کئی اقسام کی اشیائے خورونوش! ہماری خاطر حلال گوشت کا اہتمام!
تحفہ پیش کیا گیا۔ یہ پیکٹ میں لپٹا لپٹایا تھا۔ گھر جا کر انہوں نے کھولا تو وال کلاک نکلا۔ اب یہ سوئِ اتفاق تھا یا حسن اتفاق کہ چینی سالِ نو کا ورود بھی انہی ایام میں تھا۔ دوسرے دن وال کلاک واپس مل گیا۔ ساتھ پیغام بھی کہ آپ کا بہت بہت شکریہ! مگر ہم چینی تحفے میں وال کلاک نہیں قبول کرتے کیونکہ یہ بدشگونی ہے۔ جو لفظ چینی زبان میں کلاک کے لیے استعمال ہوتا ہے جنازے کے لیے بھی اسی سے ملتا جلتا لفظ ہے۔
ہم خاموش رہے مگر اندر سے برا لگا۔ استعمال نہ کرتے رکھ تو لیتے لیکن بہت سے معاشروں میں نفاق ناپید ہے۔ جو بات ہے کھل کر کرلی جاتی ہے۔
کچھ دن بعد ایک اور دوست سے ملاقات ہوئی جن کے چینی کمیونٹی سے دیرینہ اور قریبی روابط تھے۔ واقعہ سنا تو ہنسے اور مزید تعلیم بھی دی۔ وہ یہ کہ کچھ اور اشیا بھی ہیں جو چینیوں کو تحفے میں نہیں دینی چاہئیں۔ خاص طور پر سال نو کے حوالے سے۔ ان میں سے ایک چھتری ہے۔ چھتری دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسے سفر پر بھیجنا چاہتے ہیں۔ یہ بچھڑنے کی علامت ہے۔ قینچی بھی تحفے میں قبول نہیں کی جاتی۔ یہ قطع تعلقات کی نشانی ہے۔ چار کا ہندسہ بھی منحوس سمجھا جاتا ہے۔ دو دو جوڑوں میں کوئی تحفہ نہیں دینا چاہیے کیونکہ یہ چار ہو جاتے ہیں۔ جوتے تحفے میں دینا یا لینا بھی نحوست کی علامت ہے۔ اس پر پائوں پڑتے ہیں اور تحفے پر پائوں نہیں پڑنے چاہئیں۔ رومال (ہینڈکرچیف) خدا حافظ کہنے کی نشانی ہے۔ یہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ پھل بہت اچھا تحفہ ہیں سوائے ناشپاتی کے۔ غریب ناشپاتی کا قصور یہ ہے کہ چینی زبان میں جو لفظ ناشپاتی کے لیے بولا جاتا ہے جدائی کا لفظ اس سے ملتا جلتا ہے۔ آئینہ بھی بُرا تحفہ ہے کیوں کہ یہ ٹوٹ جاتا ہے حالانکہ کچھ روایات کی رو سے آئینہ ایجاد ہی چینیوں کی ہے۔ فارسی میں آئینۂ چینی کہتے ہیں۔ مشہور شعر ہے ؎
از قضا آئینۂ چینی شکست
خوب شد سامان خود بینی شکست
تقدیر کا لکھا یہی تھا کہ چینی آئینہ ٹوٹ گیا۔ اچھا ہوا اپنے آپ کو دیکھنے کے سامان سے جان چھوٹی۔
اس طویل فہرست میں ایک نمایاں آئٹم سفید اور سیاہ رنگ کا ہے۔ یہ دونوں رنگ چینی مرنے والے کی آخری رسوم میں استعمال کرتے ہیں۔ تحفہ اگر سفید یا سیاہ رنگ کے کاغذ میں پیک ہو گا تو نحوست کی نشانی ہے۔ سرخ رنگ کا پیکٹ خوشی خوشی قبول کیا جائے گا۔
انسان نے اپنی زندگی کے لیے کیا کیا مصیبتیں اپنے ذہن سے خود پیدا کی ہیں۔ آج اپنے کسی دوست سے آپ یہ کہہ دیجیے کہ ارے آج بدھ ہے اور تو نے سفید لباس پہنا ہوا ہے۔ یہ اچھا شگون نہیں ہے۔ وہ اس پر ہنسے گا مگر اگلے بدھ کے روز لباس تبدیل کرتے ہوئے آپ کا فقرہ اسے ضرور یاد آئے گا۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ سفید لباس سے پرہیز کرے گا اور اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دے گا کہ آخر دوسرے رنگوں کے ملبوسات بھی تو اپنے ہی ہیں۔ سفید آج نہ سہی کل پہن لیا جائے گا۔ یہ تصور رفتہ رفتہ اس کے اہل خانہ میں در آئے گا۔ پھر قریبی حلقے میں۔ کیا عجب کچھ عرصہ بعد یہ Myth یہ وہم بہت سے لوگوں میں عام ہو جائے!
اپنے ہاتھوں سے ایسے چشمے کھودے گئے جن سے پریشانی اور ذہنی دبائو کا پانی مسلسل رستا ہے۔ ایسا ہی ایک ذریعہ پراگندہ خاطری کا یہ ہے کہ مستقبل کا حال دریافت کیا جائے۔ کل کیا ہوگا؟ دولت کی دیوی کب درشن دے گی۔ اقتدار ملے گا یا نہیں؟ موت کن حالات میں واقع ہوگی؟ یہ سب کچھ جاننے کے لیے انسان مارا مارا پھر رہا ہے۔ نجومیوں کے پاس دست شناسوں کی تلاش میں زائچہ کھینچنے والوں کی خدمت میں۔ اب یہاں ایک باریک نکتہ ہے جو سمجھنا چاہیے۔ ان علوم کا کسی خاص مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ظنی علوم ہیں اور ہر مذہب کے ماننے والوں میں ان علوم کے ماہرین پائے جاتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان علوم کے وجود سے انکار کا کوئی فائدہ نہیں! یہ ظنی یعنی اندازے اور تخمینے کے علوم باقاعدہ موجود ہیں۔ ان کا وجود حقیقت ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا انسان کو ان کا فائدہ ہے؟ ایک دست شناس یا ستارہ شناس یہ بتائے گا کہ میرے ماضی میں کیا ہوا تھا۔ یا یہ کہ
مستقبل میں میرے لیے کیا لکھا ہے۔ مجھے ان دونوں کا ذرہ بھر فائدہ نہیں۔ اپنا ماضی
تو مجھے پہلے ہی معلوم ہے۔ رہا مستقبل تو اگر مستقبل کا علم انسان کے مفاد میں ہوتا تو جس قدرت نے انسان کو حیران کن علوم پر دسترس بخشی اس قدرت کے لیے مستقبل بینی کا علم عطا کرنا کیا مشکل تھا! مستقبل کے علم کا ہونا فائدہ تو نہیں ہاں نقصان ضرور دے سکتا ہے۔ کسی شخص کو بتایا جائے کہ اس کی موت ہسپتال میں واقع ہوگی تو اس نے اگر بیس سال مزید زندہ رہنا ہے تو بیس سال ہسپتال سے خوف کھانے میں گزریں گے۔ انسان اپنی موت کے وقت کا تعین کرسکتا تو یہ کارخانۂ دنیا کیسے چلتا۔ اسے معلوم ہوتا کہ ایک سو بیس سال زندہ رہے گا تو ہر روز ایک دن کم ہونے کا ماتم کرتا۔
یہ حقیقت کہ یہ علوم کسی خاص مذہب سے وابستہ نہیں ناقابل تردید ہے۔ تنویر علی آغا جو 2007ء سے لے کر 2011ء تک پاکستان کے آڈیٹر جنرل رہے راوی ہیں کہ انہیں آئی اے عثمانی صاحب نے یہ واقعہ خود بتایا۔ آئی اے عثمانی بھی پاکستان کے آڈیٹر جنرل رہے۔ وہ بہت سینئر تھے۔ اس زمانے میں غالباً سول سروسز کی تربیت کے کچھ مراحل بیرون ملک بھی طے ہوتے تھے۔ عثمانی صاحب کے ایک بنگالی ساتھی تھے جو انہیں کے بیچ کے تھے۔ یہ دونوں لندن میں تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک انگریز قسمت کا حال بتاتا ہے۔ یہ چلے گئے درمیان میں پردا تنا تھا۔ پردے کے پیچھے قسمت کا حال بتانے والا انگریز بیٹھا تھا۔ دوسری طرف کرسیوں پر یہ بیٹھ گئے۔ پلیٹ میں مطلوبہ مالیت کا سکہ ڈالا (گنی یا جو بھی تھا۔) اس نے جو بتانا تھا بتایا۔ کچھ سوال انہوں نے پوچھے۔ ان کے اس نے جوابات دیئے۔ بنگالی نے پوچھا کہ اسے یہ بتایا جائے کہ وہ کہاں اور کیسے مرے گا۔ انگریز نے انکار کردیا۔ اس نے کہا یہ میں نہیں بتائوں گا۔ بنگالی افسر کو غصہ آ گیا یا مشتعل کرنے کے لیے اس نے کوئی طعن آمیز بات کی جس میں طنز بھی تھا اور اس کے علم اور مہارت پر چوٹ بھی۔ انگریز یہ چوٹ اور طعنہ نہ برداشت کرسکا۔ وہ غصے میں پردے کے پیچھے سے نکل آیا اور کہا کہ میں بتا سکتا ہوں اور اب تمہیں بتا بھی دوں گا۔ میں اس لیے نہیں بتا رہا تھا کہ ایسے سوالوں کا جواب دینا میرے خیالات کی رو سے مناسب نہیں۔ پھر اس نے اپنا حساب کتاب جو بھی تھا کیا اور بتایا کہ وہ بنگالی افسر فلاں شہر میں مرے گا اور یہ موت طبعی نہیں ہوگی۔
ٹریننگ ختم ہو گئی۔ افسروں کی تعیناتیاں ہوگئیں۔ بنگالی افسر کو مشرقی پاکستان میں لگایا گیا۔ عثمانی صاحب مغربی پاکستان میں پوسٹ ہوئے۔ ایک مدت بیت گئی۔ ایک دن عثمانی صاحب کو (بقیہ صفحہ13پر ملاحظہ کریں)
بنگالی رفیق کار کا فون آیا: کیا تمہیں وہ انگریز یاد ہے جس نے پیش گوئی کی تھی کہ میں فلاں شہر میں مروں گا؟ عثمانی صاحب نے کہا ہاں یاد ہے! بنگالی نے بتایا کہ میں اچھا بھلا مشرقی پاکستان میں تعینات تھا نہ جانے کیا ہوا محکمے نے میری پوسٹنگ اسی شہر میں کردی ہے۔ عثمانی صاحب نے اسے تسلی دی اور کہا کہ ضروری نہیں اس کی پیش گوئی صداقت پر مبنی ہو۔ بہرطور تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ بنگالی اس شہر میں مردہ پایا گیا۔ اسے کسی نے قتل کر دیا تھا!
ان ظنّی علوم کو روحانیت یا تصوف کا نام دینا عقل اور مذہب دونوں کی رو سے درست نہیں ہے۔ ہندو نصرانی یہودی لامذہب سب اس قبیل کی پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ بہت سی سچ نکلتی ہیں۔ بہت سی غلط ثابت ہوتی ہیں۔ انسان کی خودی اور عزت نفس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دوسرے انسان کا محتاج نہ ہو۔ ہاتھ دکھانے کے لیے یا زائچہ بنوانے کے لیے یا مستقبل کا حال کسی اور ذریعہ سے معلوم کرنے کے لیے اچھے بھلے باعزت لوگ پہروں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ دھوپ اور سردی میں گھنٹوں بیٹھ کر بابا جی کے ہاں باریابی کا انتظار کرتے ہیں۔ کبھی فال نکلواتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کو معلوم ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اسے کوئی نہیں ٹال سکتا۔ موت کب آئے گی کیسے آئے گی؟ کل کیا ہوگا؟ یہ سب کچھ جاننے کے لیے دھوڑ دھوپ کرنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ انسان ہر وقت اپنی موت کے لیے تیار رہے۔ جن کے حقوق اس نے سلب کیے ہیں انہیں واگزار کرے جن کے ساتھ زیادتی کی ہے ان سے معافی مانگے۔ اپنا قرض ادا کرنے کی کوشش کرے اور اپنے لواحقین کو ایسی باتوں سے بروقت آگاہ کرے۔ سفر پر روانہ تو ہونا ہی ہے اپنی پوٹلی وقت پر کیوں نہ تیار کرلی جائے!
ویسے شعرا نے اس موضوع پر کچھ الگ ہی زاویے دیکھے اور دکھائے ہیں۔اقبال نے کہا ؎
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں
نظیری نیشا پوری نے کہا ؎
یک فال خواب راست نہ شدبر زبان ما
شومئی چُغد ثابت و یُمن ہُما غلط
ہماری تو ایک فال بھی درست نہ نکلی۔ الو کی نحوست ثابت ہو گئی اور ہما کی خوشی بختی غلط نکلی!
اور آخر میں اس فقیر کا شعر ؎
ستارے دیکھتا ہوں زائچے بناتا ہوں
میں وہم بیچتا ہوں وسوسے بناتا ہوں
No comments:
Post a Comment