Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, May 01, 2017

آسیب نہیں تو پھر کیا ہے؟

منیر نیازی کب کا چلا گیامگر ہماری قسمت کا فیصلہ کر گیا ع
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
جو کچھ اس ملک کے ساتھ ہورہا ہے‘ اگر آسیب نہیں تو کیا ہے۔
جو ملک اسلام کے نام پر بنا تھا‘ کبھی پولیس سٹیٹ نظر آتا ہے اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک بازی گاہ! ریاست کے اندر کئی ریاستیں بنی ہیں‘ ایجنسیوں کے اپنے اہداف ہیں‘ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ان کے اپنے بنائے ہوئے راستے ہیں‘ پولیس کا وجود ہی نہیں۔ جنوبی پنجاب میں کسی کو پکڑنا ہو تو فوج پکڑے۔ سندھ میں کچھ کرنا ہے تو رینجرز کریں۔ حکمرانوں نے ‘ کیا پنجاب اور کیا سندھ‘ پولیس کو اتنا بے توقیر کر رکھا ہے کہ عام شہری پولیس سے نفرت کرنے لگا ہے۔ رہے پولیس کے افسران‘ تو معدودے چند کو چھوڑ کر وہ کسی نہ کسی طاقت ور سیاستدان کے رکھیل بن جاتے ہیں! سارا عرصہ ملازمت‘ ’’سرپرست‘‘ کی خدمت میں گزرتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ کے لیے نوکری مل جاتی ہے۔ کوئی تحقیق کرے اور
 Case Studies 
جمع کرے اور چھاپ دے تو عوام کو معلوم ہو کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔
بیوروکریسی ایک الگ ریاست ہے‘ ریاست کے اندر ایک اور ریاست! ایک اقلیت کو چھوڑ کر‘ زیادہ تعداد طالع آزماؤں کی ہے۔ ان لوگوں کی زندگیوں کے مقاصد پر غور کیجیے تو ڈیپریشن کا ایسا دورہ آپ پر پڑے گا کہ خودکشی کرنے کو دل چاہے گا۔ جی او آر لاہور میں سرکاری رہائش گاہ لینا! پھر اسے ہر حال میں ریٹائرمنٹ تک اپنے قبضے میں رکھنا! فلاں ضلع میں حاکم بننا! بیرون ملک تعیناتی کرانا! دو سیاست دان‘ دو حکمران‘ چار ایم این اے‘ پانچ ایم پی اے سے تعلقات قائم کرنا‘ پھر قائم رکھنا! پینتیس چھتیس برس کی نوکری سے پیٹ نہ بھرنا! چنانچہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ برس مزید دست بستہ کھڑا ہونا اور جب بھی مفاد کا تقاضا ہو‘ طاقت ور کے سامنے رکوع میں جھک جانا!
مدارس کی اپنی ریاست ہے! اس ریاست میں ملک کا کوئی قانون نہیں چلتا۔ ایک طاقت ور گروہ اب منتخب اداروں میں اس ریاست در ریاست کا رکھوالا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت مدارس میں مظلوم ہے! از حد مظلوم! جو روکھی سوکھی کھا کر قال اللہ وقال الرسول کی آواز بلند رکھے ہوئے ہیں۔
مدارس کی دنیا عجیب ہے۔ جن کے پاس علم ہے اور تقویٰ‘ وہ وسائل سے محروم ہیں‘ اور جن کے پاس وسائل ہیں‘ ان کا علم اور تقویٰ سے دور کا بھی رشتہ نہیں! مذہب کے جو علمبردار سیاسی جلسوں میں‘ ٹی وی سکرین پر اور منتخب اداروں میں نظر آتے ہیں عوام کی نظروں میں وہی مذہب کے نمائندے ہیں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ مذہب کے نمائندے نہیں‘ وہ تو مذہب کے نام پر تجارت‘ سیاست اور پی آر کر رہے ہیں‘ مذہب کے حقیقی نمائندے تو گوشۂ گمنامی میں ہیں۔ چٹائیوں پر بیٹھے بیٹھے‘ عمریں گزار دیتے ہیں‘ پڑھاتے پڑھاتے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں! انہیں کوئی جانتا ہے نہ ان کا نام ہے نہ شہرہ! دنیا سے انہی بے غرض لوگوں کے بارے میں کہا گیا کہ مجلس میں بیٹھے ہوں تو کسی کی توجہ ان کی طرف نہ ہو اور غیر حاضر ہوں تو ان کی کمی نہ محسوس ہو‘ یہی لوگ معاشرے کی بھی کریم ہیں اور مدارس کا بھی مکھن ہیں!
اگر اس ملک پر آسیب کا سایہ نہیں تو عوام کو ان مسائل میں کیوں آئے دن الجھایا جارہا ہے جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں‘ ان کے معیار زندگی کو‘ ان کی کوائلٹی آف لائف کو ان مسائل سے ان مسائل کے حل سے‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پانامہ کے حوالے سے چند فلیٹ‘ اگر معجزہ برپا ہو‘ چھن بھی جائیں تو ان افراد کو کوئی فرق نہیں پڑے گا! سمندر سے پانی کے ہزار ڈول بھی نکال لیں تو کیا ہو جائے گا؟ پانامہ کے بعد اب ڈان لیکس کے بادل قوم کے آسمان کو ڈھانپنے لگے ہیں۔ کل ایک بچے کو دیکھا۔ پتلون کی بیلٹ ہاتھ میں اس طرح لٹکائے تھا کہ بیلٹ کا نیچے والا سرا زمین سے کافی اوپر تھا۔ بلی اچھل اچھل کر بیلٹ کے اس سرے کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی اور بچہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا تھا۔ عوام یہ بلی ہی تو ہیں۔ طاقت ور طبقہ کبھی ہاتھ میں پانامہ کی بیلٹ پکڑ کر لہراتا ہے کبھی ڈان لیکس کی‘ عوام اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور نادیدہ ہاتھ والا بچہ خوش ہوتا ہے! سچی بات یہ ہے کہ عوام اس پالتو بلی سے بھی بدتر ہیں۔ اس بلی کو خوراک تو اچھی ملتی ہے‘ پیکٹوں سے نکلی ہوئی‘ اس کی مالکن اس کے ناخن تراشتی ہے‘ طبیعت خراب ہو تو حیوانات کے ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے‘ ریت سے بھرا ایک ٹرے اس کے لیے بیت الخلا کا کام دیتا ہے۔ ہر روز اس ٹرے کو صاف کیا جاتا ہے اور عوام! آہ عوام! ٹریفک کی لاقانونیت میں پھنسے ہوئے بے کس‘ بے بس عوام! دیہات ڈسپنسریوں سے محروم! ہسپتال کرپشن اور ڈاکٹروں کی بے نیازی کے نمونے‘ لاکھوں سرکاری سکولوں کی چھتیں ہیں نہ وہاں پینے کا صاف پانی! دانش سکولوں جیسے کتنے ہی تشہیری منصوبے آئے اور تاریخ کی خاک چاٹتے گزر گئے‘ عوام اسی حال میں ہیں جس میں تھے!
اگر آسیب کا سایہ نہیں تو پھر اس ملک کے مقدر میں ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کیوں ہیں؟ پھر مریم نواز شریف کس حیثیت سے پیش منظر پر چھائی ہوئی ہیں؟ حمزہ شہباز کی تصویر ہر پوسٹر پر‘ ہر بینر پر‘ اخبار کے ہر اشتہار میں کس حوالے سے نظر آتی ہے؟
رہا عمران خان‘ تو اب اس کے نام سے ناصر کاظمی یاد آنے لگتا ہے ؂
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا‘ برنگِ خوابِ سحر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کالم نگار آصف محمود پکارتا پھرتا ہے کہ کوئی ہے جو عمران خان کو عمران خان سے بچا سکے؟ عمران خان کے فدائی پوچھتے ہیں کہ عمران خان کس کس کا مقابلہ کرے‘ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کے رکھوالوں سے یا پانامہ جائیدادوں کے مالکان سے؟
مگر یہ تو عمران خان کا مسئلہ ہے‘ عوام تو یہ کہنے لگ پڑے ہیں کہ ؂
میں اپنا عقدہ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزہ ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی
درست کہتا ہے اجمل شاہ دین جب سمجھاتا ہے کہ سیاست پر اور سیاسی بکھیڑوں پر نہ لکھو! پڑھنے والے سیاسی تبصروں اور تجزیوں سے اس قدر تنگ آ گئے ہیں کہ جب بھی کسی اور موضوع پر لکھا جیسے مختلف ملکوں کے کھانے‘ جیسے پوتوں کا ہجر‘ جیسے تارکین وطن کی ہجرت‘ جیسے گاؤں کے بچھڑے ہوئے شب و روز‘ تو فیڈ بیک چارگنا زیادہ آتا ہے! کوئی امریکہ میں بیٹھا‘ آنسو بہا کر لکھتا ہے کہ تمہارے کالم سے ماں یاد آ گئی‘ کوئی پیغام بھیجتا ہے کہ تم نے دنیا بھر کے نانا جانوں کی نمائندگی کر ڈالی!
کیا ہم اور کیا ہماری سیاست! پانی ہے کہ بلویا جارہا ہے۔ مکھن ہے کہ پانی پر آتا ہی نہیں! ہم اس ملک کے عوام وہ بدقسمت مسافر ہیں جنہوں نے سرشام خیمہ باغ میں نصب کیا۔ صبح اٹھے تو ہر طرف دشت ہی دشت تھا! ریت کے ٹیلے‘ خاردار جھاڑیاں! ہم وہ تیرہ بخت بھوکے ہیں جنہوں نے دیگچی چولہے پر رکھی اور آگ جلانے کے لیے لکڑیاں چننے نکلے ہیں۔ اندھیرا گہرا ہورہا ہے اور اب یہ نہیں معلوم ہورہا کہ کون سی لکڑی گیلی ہے اور کون سی خشک!!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com