لڑکا سفر پر نکلا تو جنگل میں ایک بابا جی ملے۔ انہوں نے تین تحفے دئیے۔ پہلا تحفہ ‘ لکڑی کی ایک چھوٹی سی ماچس کی ڈبیا جتنی میزتھی جو جیب میں رکھی جا سکتی تھی۔ دوسرا تحفہ ایک ڈنڈا تھا۔ تیسرا کپڑے کا ایک تھیلا تھا۔ بابا جی نے بتایا کہ جب بھی بھوک لگے‘ جیب سے میز نکالو اور زمین پر رکھو۔ یہ بڑی ہو جائے گی۔ پھر جو کھانے کو دل کر رہا ہو‘ اسے بتائو‘ فوراً میز پر وہی ڈش ظاہر ہو جائے گی۔ کھانے کے بعد میز کو اٹھانے لگو گے تو پہلے کی طرح چھوٹی ہو جائے گی۔ ڈنڈا اس لیے ہے کہ کوئی تمہیں تنگ کرے یا دشمنی پر اتر آئے تو ڈنڈے کو حکم دینا‘ یہ اس شخص پر برسنا شروع ہو جائے گا۔ جدھر وہ بھاگے گا‘ ڈنڈا بھی اُدھر کا ہی رخ کرے گا اور مارتا رہے گا جب تک تم منع نہیں کرو گے۔ تھیلے میں دو لڈو ہیں۔ ایک وقت میں ایک لڈو نکالنا ہے نکالتے ہی لڈو پھر دو ہو جائیں گے۔ اس طرح ایک ایک کر کے تھیلے سے سینکڑوں لڈو نکالے جا سکیں گے۔
معلوم نہیں‘ خوش قسمت لڑکا ان طلسمی تحفوں سے کتنا لطف اندوز ہوا مگر ایک جادو کا تحفہ ہمیں بھی ہاتھ آگیا ہے۔ شمال کے پہاڑوں کے اُس پار رہنے والے بابے کی یہ عطائے خاص ہے۔ اب ہمارے سارے دلدّر دور ہو جائیں گے۔ یہ تحفہ ہماری میز ہے۔ ہمارا ڈنڈا بھی ہے اور لڈوئوںوالا تھیلا بھی ہے۔
یہ ایسا طلسم ہے جو ہماری زندگیاں، ہماری معیشت‘ ہمارا سماجی ڈھانچہ‘ ہمارا مستقبل سب کچھ بدل کر رکھ دے گا۔ آج ہی کی خبر ہے کہ کوہستان مری میں درخت کٹ گئے۔ غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں تباہی مچا رہی ہیں۔ جنگلات کے محکمے کی زمین پر ناجائز قبضے ہو رہے ہیں۔ مگر یہ جو تحفہ ہمیں مل رہا ہے‘ اس سے درخت دوبارہ اگ آئیں گے۔ متعلقہ محکموں کی مجرمانہ چشم پوشی کے باوجود غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں زمین میں دھنس جائیں گی یا صفحہ ہستی سے نابود ہو جائیں گی۔ کل قائد اعظم یونیورسٹی میں دو لسانی گروہوں کے درمیان خونی تصادم ہوا ہے۔ یہ جو تحفہ ہمیں مل رہا ہے‘ اس سے ایسے واقعات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ملک میں نسلی‘ لسانی ‘ مسلکی ‘ مذہبی اور سیاسی ہم آہنگی پیدا ہو گی۔ امن و امان مثالی ہو جائے گا!
یہ سب کچھ لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ تین دن پیشتر وفاقی وزراء کی فوج ظفر موج میں سے ایک نے قوم کو خوش خبری دی ہے کہ سی پیک کے مکمل ہونے پر مسئلہ کشمیر بھی حل ہو جائے گا۔
گویا سی پیک راہداری نہ ہوئی‘ طلسمی میز ڈنڈا اور تھیلا ہوا۔ کسی زمانے میں ایسی چیز کو امرت دھارا کہتے تھے۔ آج کی نسل کو امرت دھارا سے واقفیت ہی نہیں! انتہا پسندی کا تعلق صرف مذہبی یا سیاسی نظریات یا اسلحہ کے استعمال سے نہیں! انتہا پسندی ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ ہر معاملے میں انتہا پر پہنچ جانا! سی پیک کے ضمن میں ہمارے رہنمائوں کا‘ بالخصوص حکومتی عمائدین کا جو رویہ ہے اور جس انداز میں وہ یہ سودا بیچ رہے ہیں‘ اسے نرم ترین الفاظ میں بھی انتہا پسندانہ رویہ کہا جا سکتا ہے۔ تاثّر یہ دیا جا رہا ہے کہ سی پیک کھل جا سم سم کی طرح کی کوئی شے ہے۔ بڑھتی ہوئی‘ خوفناک رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی‘ پر بھی سی پیک قابو پائے گا۔ خواندگی کی شرح بھی اوپر چلی جائے گی۔ ٹریفک بھی مہذب ہو جائے گی۔دن رات نیچے گرتا تعلیمی معیار بھی تھم جائے گا۔ برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا اور درآمدات بھی کم ہو جائیں گی۔ سی پیک نہ ہوا‘ حیرتوں کا جہان ہوا!
سودا بیچنے کا یہ انداز اس حقیقت کی نشان دہی کر رہا ہے کہ ہمارے اپنے پلے کچھ نہیں‘ ہم خود کچھ نہیں کر سکتے جو کچھ کرنا ہے چین نے کرنا ہے۔ ریلوے ٹریک کی تعمیر نو بھی شمال سے جنوب تک‘ چین ہی کرے گے۔
پھر وہی بات دہرانا پڑے گی جس کا رونا چند دن پہلے رویا گیا ہے۔ سی پیک کا بیشتر حصہ انفراسٹرکچر پر مشتمل ہے۔ انفراسٹرکچر ترقی کے اجزا میں سے صرف ایک جزو ہے۔ ترقی میں ڈھیر سارے اجزا شامل ہیں۔
قومیں محض انفراسٹرکچر سے ترقی نہیں کرتیں۔ پل‘ ریلوے لائنیں‘ شاہراہیں‘ انڈر پاس‘ یہ ضروری ہیں مگرترقی کا جوہر رویّہ سے ہوتا ہے‘ مائنڈ سیٹ سے ہوتا ہے۔ افرادی قوت کی ترقی سے ہوتا ہے صحت اور تعلیم جیسے سوشل سیکٹروں پر توجہ دینے سے ہوتا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے ہوتا ہے۔
اس وقت ملک میں ایسے لاکھوں خاندان ہیں جن کے ہاں دس دس پندرہ پندرہ بچے پیدا ہو رہے ہیں، کیا یہ خاندان سی پیک کے آنے سے تعلیم یافتہ ہو جائیں گے اور کیا ان کا رویہ صحت مند ہو جائے گا؟ کیا ونی‘ کارو کاری اور اسوارہ جیسی قدیم قبائلی رسمیں سی پیک سے ختم ہو جائیں گی؟ بلوچستان کے سرداری نظام کو لے لیجیے ۔ ہماری تاریخ میں سوائے ڈاکٹر عبدالمالک کے‘ جو کچھ عرصہ ہی وزیر اعلیٰ رہے، بلوچستان کا ہر وزیر اعلیٰ کسی نہ کسی قبیلے کا سردار ہی بنتا رہا ہے۔ ایک سردار وزیر اعلیٰ کا تو یہ قولِ زریں خوب خوب مشہور ہوا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی! کیا سی پیک سے سرداری نظام کا خاتمہ ہو جائے گا؟
آبادی کا صرف آٹھ دس فی صد حصّہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ سی پیک یہ ٹیکس نیٹ کس طرح وسیع کرے گا؟ ہمارے تاجر کسی نظم و ضبط کے قائل نہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں دکانیں چھ بجے شام تک بند ہو جاتی ہیں ۔ہمارے تاجر دن کے ایک بجے دکانیں کھولتے ہیں اور آدھی رات کو بند کرتے ہیں۔ ٹیکس نہیں دیتے۔ ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری رائج الوقت سکوں کا دوسرا نام ہے۔ پورے ملک میں تجاوزات کی لعنت طاعون کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں غالب حصّہ تاجروں کا ہے۔ فٹ پاتھوں پر یہ طبقہ قابض ہے۔ دکان اور سڑک کے درمیانی حصے کو باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں۔ گاہک سے وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ شے بیچتے وقت نقص بتاتے نہیں‘ چھپاتے ہیں! سی پیک ان کا کیا بگاڑ لے گا؟
جہالت اس قدر عروج پر ہے کہ عورتوں کو بیٹی پیدا کرنے کے ’’جرم‘‘ میں مارا پیٹا جاتا ہے۔طلاق دے دی جاتی ہے۔ قتل اور آتش زدگی کے واقعات بھی اس حوالے سے ہوتے رہتے ہیں! اچھے بھلے دستار پوش علّامے اور تھری پیس سوٹ میں ملبوس’’صاحب‘‘ بیٹی کو جائیداد میں سے حصہ دیتے وقت قولنج کے درد میں مبتلا ہو جاتے ہیں! کیا سی پیک ان منافقوں کا علاج کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟
آرمی چیف نے حال ہی میں کہا ہے کہ ہر کام آرمی کے سپرد کر دینا مسائل کا حل نہیں! رینجرز کی تعیناتی پر غور کیجیے۔ یہ تعیناتی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ہماری پولیس ناکام ہو چکی ہے۔ پولیس ہی کے تو فرائض ہیں جو رینجرز سرانجام دے رہے ہیں!سندھ کے آئی جی مسٹر اے ڈی خواجہ نے تھک ہار کر کہا ہے کہ کام نہیں کرنے دیا جا رہا مجھے یہاں سے ہٹا لیا جائے۔ اس قصّے کے پس منظر سے ہم اچھی طرح آگاہ ہیں۔ پورے ملک میں صرف ایک پولیس افسر ایسا نکلا ہے۔ پنجاب کے آئی جی ریٹائر ہو کر ایڈوائزر لگ رہے ہیں ‘وجہ صاف ظاہر ہے‘ پولیس حکمرانوں کی کنیز بن چکی ہے۔ تھانے بکتے ہیں۔ جن کی گاڑیاں چوری ہوتی ہیںان کے ٹیلی فون نمبر اغوا کنندگان کو تھانوں سے ملتے ہیں ان نمبروں پر فون کر کے گاڑی کے مالک کو بلایا جاتا ہے اور اغوا کرلیا جاتا ہے! کیا سی پیک آنے سے پولیس کا نظام بدل جائے گا؟
ہجوم گردی کا دور دورہ ہے ۔ بے قابو ہجوم آئے دن لوگوں کو کچل رہا ہے ‘مردان کے مشال خان سے لے کر‘ سیالکوٹ کے دو بھائیوں تک بے شمار مثالیں ہیں ۔کراچی میں ہجوم کی طرف سے ڈاکوئوں کو مار دینے کے واقعات عام ہو رہے ہیں ۔قانون چھپ کر پردے کے پیچھے بیٹھا ہے۔ مفرور قاتل بااثر چوہدریوں سرداروں اور ملکوں کے ڈیروں میں محفوظ بیٹھے ہیں۔ قانون کمزور کے گلے پر پائوں رکھ کر دباتا ہے اور طاقت ور کو چھوڑ دیتا ہے۔ کیا اس صورت حال کا علاج سی پیک ہے؟
یہ ساری ماتمی کہانی وفاقی وزیر کے اس بیان سے شروع ہوئی کہ سی پیک سے کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ 18مئی کو چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے یہ خوش فہمی بھی یہ کہہ کر دور کر دی کہ… ’’سی پیک کا علاقائی تنازعات سے کوئی تعلق نہیں! کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ توقع ہے کہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کریں گے‘‘۔
اگر سی پیک ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے تو پاکستان کو جنوبی ایشیا سے اٹھا کر کہیں یورپ میں لے جائے! کیا پتہ ہمارے رویّے تبدیل ہو جائیں !!
No comments:
Post a Comment